Saturday, July 31, 2010

بھگوا دہشت گردی کے شرمناک چہرےـایک خاص رپورٹ

عزیز برنی

’’میل ٹوڈے‘‘انگریزی روزنامہ کی معرفت حقائق کو جس خوبصورتی سے منظرعام پر لایا گیا ہے، اس کے لےے اس کی ستائش کی جانی چاہےے۔ اس وقت میرے زیرنظر میل ٹوڈے میں شائع کرشنا کمار جی کی ایک اہم رپورٹ ہے، جس نے سنگھ پریوار کی دہشت گردی کو بہت حد تک بے نقاب کیا ہے۔ ایسی رپورٹوں اور تحریروں کو شامل اشاعت کرنا ہمیں اس لےے ضروری لگتا ہے کہ جن لوگوں کے ذہن میں یہ باتیں پیوست ہوگئی ہیں کہ اردو صحافت یکطرفہ بات کرتی ہے، انہیں یہ احساس ہوجائے کہ حق بہرحال حق ہے اور اسے منظرعام پر لانے کی ذمہ داری صرف اردو صحافت کے ذریعہ ہی ادا نہیں کی جاتی، بلکہ دیگر زبانوں کی ذمہ دار صحافت جو ملک میں فرقہ پرستی کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے کا عزم رکھتی ہے اور وہ صحافی جو ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں، ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنا چاہتے ہیں، وہ بلاتفریق مذہب و ملت تمام سچائیوں کو سامنے لانا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں، لہٰذا آج کے اس مضمون میں میں اپنی جانب سے کچھ بھی لکھنے کی بجائے میں چاہتا ہوں کہ اس خصوصی رپورٹ کو اپنے قارئین کے مطالعہ کے لےے سامنے رکھا جائے، لہٰذا ملاحظہ فرمائیں:
زعفرانی دہشت گردی کے شرمناک چہرے
سی بی آئی کیوں ہیمنت کرکرے کے ذریعہ دی گئی اہم جانکاری پر بھی سوتی رہی؟ یہ ہندودہشت گردی کی گہری جڑوں کو بے نقاب کرتی ہیں۔
’’جو کچھ مکہ مسجد (حیدرآباد) میں ہوا اور جو دوسری مساجد میں ہورہا ہے، وہ آئی ایس آئی کی حرکت نہیں بلکہ اس میں ہمارے اپنے لوگ ملوث ہیں۔‘‘
مالیگائوں دھماکے کے ملزم دیانند پانڈے (خود ساختہ شنکر آچاریہ) کے لیپ ٹاپ پر میجر اپادھیائے نام کی آڈیو فائل ظاہر کرتی ہے کہ سی بی آئی جو اجمیر شریف درگاہ اور مکہ مسجد دھماکہ کے اصل ملزموں کو پکڑنے کے لئے خود کو شاباشی دے رہی ہے ، جبکہ سی بی آئی کو گزشتہ برس ہی ان معاملات کو حل کرلینا چاہئے تھا۔ ریکارڈنگ میں میجر (سبکدوش) رمیش اپادھیائے کو سنا جاسکتا ہے کہ وہ 2008کے مالیگائوں بم دھماکے کا منصوبہ بنارہے ہیں جس کے نتیجے میں 6کی موت اور 70سے زائد لوگ زخمی ہوئے تھے۔ پانڈے کے لیپ ٹاپ میں موجود دوسری ریکارڈنگ ظاہر کرتی ہے کہ یہ دھماکہ ابھینو بھارت کے گیم پلان کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ یہ انتہا پسند تنظیم نیپال اور اسرائیل میں موجود گروپوں سے بات کررہے تھے، تاکہ وہ ہندوستان میں ایک خالص ’ہندو راشٹر‘ کا قیام کرسکیں۔ یہ اور کئی دوسرے منصوبے پانڈے کے لیپ ٹاپ میں آڈیو ریکارڈنگ کے طو رپر موجود ہےں،جنہیں جسے ہیمنت کرکرے کی قیادت میں مہاراشٹر اے ٹی ایس نے 2008میں ضبط کیا تھا۔ ایک دوسری ریکارڈنگ میں دہلی کی ہندو مہاسبھا کے چیف ایودھیا پرساد ترپاٹھی برطانیہ میں مقیم مسلم مخالف گروپ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ’’ہم انگلینڈ میں اسٹیفن غوث (Gaus)کے ساتھ برابررابطے میں ہیں جو خطرناک کمیونسٹ مخالف اور مسلم مخالف ہیں۔‘‘
’’ان کی یونٹ فرانس، جرمنی ، برطانیہ اور امریکہ میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔‘‘ ترپاٹھی کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے۔ ایک دوسری ریکارڈنگ میں مالیگائوں دھماکہ کے ماسٹر مائنڈ کرنل شری کانت پروہت کی نیپال کے راجہ گیانند سے رابطہ کرنے اور ابھینوبھارت کے لوگوں کی تربیت اور پناہ دینے کی بات چیت ہے۔ اس کے بعد پانڈے اس برطانوی خاتون کا ذکر کررہے ہیں، جو اقوام متحدہ میں سکریٹری ہے اور جس نے ’جلاوطن ہندو حکومت‘ کا اندراج اقوام متحدہ میں کرانے کی بات کہی ہے۔ فوج کے خفیہ آدمی پروہت کو سنا جاسکتا ہے جو ہر ایک ریاست میں فوجی اسکول شروع کرنے کی بات کرتا ہے اور اسکول میں داخلہ لینے والوں کو گرمیوں میں رائفل چلانے کی تربیت دی جائے گی۔ وہ ابھی تک نہ پہچانے گئے شخص سے کہتا ہے کہ کسی بھی پولس کارروائی کے معاملے میں اسکول کا استعمال لوگوں کے چھپنے کے لئے کیا جاسکتا ہے۔ کرنل مزید کہتا ہے کہ ان اسکولوں سے سنگھ کا نام کسی بھی طرح سے جڑنا نہیں چاہئے ۔ ’’ہمیں ایسے نام کا انتخاب کرناچاہئے جو گمراہ کرنے والا ہو۔ ہم ’باسٹن گارڈس‘ کے نام سے کام کریں گے۔‘‘
’’یہاں سنگھ سے جڑا ہوا کچھ بھی نہیں ہے۔ زعفرانی پرچم بھی یہاں نہیں ہے۔‘‘ یہ سب اس نے آگے کہا۔ ایک دوسری بات چیت میں پروہت نے قبول کیا ہے کہ دھماکے (مکہ مسجد اوراجمیر شریف) جن لوگوں نے کئے ہیں، وہ ان کو جانتا ہے۔ بات چیت کی نقل نہ صرف بتاتی ہے کہ وہ لوگ کس قدر خطرناک تھے بلکہ جانچ کو کیوں مرکزی ہاتھوں میں فوراً لے لینا چاہئے۔ جانچ میں شامل مہاراشٹر اے ٹی ایس کے ایک سابق افسر کا کہنا ہے کہ ’’آپ ٹیپ سنیں اور آپ کو پتہ چل جائے گا کہ کیوں ان لوگوں پر بغاوت اور ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے کا معاملہ درج ہونا چاہئے۔ افسر کا مزید کہنا ہے کہ سی بی آئی جو دعویٰ کررہی ہے، وہ 2008میں اے ٹی ایس کی جانچ میں خود سامنے آگیا تھا۔ اے ٹی ایس چیف ہیمنت کرکرے جو 26/11حملے میں مارے گئے ، ان پر مالیگائوں معاملے کو مزید گہرائی تک نہ جانے کے لئے زبردست دبائو تھا۔ ’’اپوزیشن اور ریاستی حکومت کے کئی وزرا کرکرے کی تفتیش سے خوش نہیں تھے۔‘‘
M ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’ریاست کی کانگریس این سی پی حکومت کے ایک سینئر کابینہ وزیر جوڈانس بار کے مخالف کے طور پر جانے جاتے ہیں، کرکرے کی موت سے ایک ہفتہ قبل تفتیش کے لئے لعنت ملامت کی تھی۔ ابھینو بھارت کے آپریشن میں سیاست دانوں اور فوجی افسروں کی شمولیت کے سبب ہی شاید کرکرے کو ہٹایا گیا۔ مالیگائوں دھماکے میں ایک گواہ نے بتایا کہ ’’کرنل دھر (بعد میں جن کی شناخت بپادتیہ دھر کے طو رپر ہوئی) ابھینو بھارت کی میٹنگ میں شامل تھے۔ پروہت نے بھی کئی افسران کے نام لئے ہیں۔ پروہت کو ایسا کہتے ہوئے بتایا گیا کہ ’’آج بہت سے قابل احترام لوگ ہمارے درمیان نہیں ہیں۔‘‘ پروہت نے مزید کہا ’’ان میں کرنل رائے کر‘ کرنل شیلیش رائیکر، میجر نتن جوشی اور کرنل ہنس مکھ پٹیل ہیں۔‘‘ اے ٹی ایس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے رائیکر اور دھر کی سے کافی پوچھ گچھ کی لیکن ان کے خلاف معاملہ مضبوط نہ ہونے کے سبب وہ آگے نہیں بڑھ سکی، لیکن اے ٹی ایس کہتی ہے کہ فوج کو آگے آنا چاہئے اور جانچ کرنی چاہئے۔ بات چیت کی نقل بتاتی ہے کس طرح اے ٹی ایس کی جانچ میں رکاوٹ پیدا ہوئی کیونکہ متعدد ریاستوں میں بڑی تعداد میں مشتبہ افراد تھے۔ جیسا کہ ایک اے ٹی ایس افسر کہتا ہے کہ مالیگائوں معاملے کو چوک ماننا ایک بڑی غلطی ہوگی۔ دہشت گردانہ حملوں میں شامل مشتبہ لوگوں کے آپسی ربط ظاہر کرتا ہے کہ اے ٹی ایس افسر کی بات درست ہے۔
تب 26/11کو شہادت حاصل کرنے سے قبل کرکرے کے ذریعہ حاصل اطلاعات کے باوجود سی بی آئی کیوں سوتی رہی؟
1ـ اندریش کمار، آر ایس ایس
دھماکے سے جڑے مشتبہ شخص سے تعلق کے سبب جانچـ سنیل جوشی اور دیوندر گپتا سے نزدیکی تعلق
آر ایس ایس کی قومی عاملہ کے رکن اور موہن بھاگوت کے قریبی معاونـ اندریش جی سنگھ پریوار کی حکمت عملی بنانے والوں میں سے ایک ہیں۔
2008میں امرناتھ یاترا کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لئے ذمہ دار کہا جاتا ہے اور ساتھ ہی نیپال میں مائونوازوںکے خلاف مدھیشیوں کو متحرک کرنے والا شخص قرار دیا جاتا ہے۔ نیشنلسٹ مسلمانوں کے لئے مسلم ایکتا منچ کا قیام
جانچ ایجنسیاں 2007میں اجمیر شریف درگاہ میں ہوئے دھماکے کے اہم ملزم دیویندر گپتا سے رشتے کی تفتیش کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ مکہ مسجد اور اجمیر شریف دھماکوں کے مشتبہ بم ساز سنیل جوشی سے تعلق کی بھی جانچ کی جارہی ہے۔
2ـ سنیل جوشی، آر ایس ایس
دھماکے کا ملزم جس کی موت بھی ایک راز ہے، اس پر مکہ مسجد اور اجمیر شریف میں ملوث ہونے کا الزام
2007میں ہوئے دھماکے میں شامل سب سے اہم شخص، آر ایس ایس کا یہ پرچارک مالیگائوں دھماکے کی ملزم پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا دوست تھا اور ساتھ ہی اس پر ایک مقامی کانگریس لیڈر کے قتل کا بھی الزام تھا۔ یہ سوامی اسیمانند کا قریبی تھا جس نے دھماکے کے بعد اس کی زندگی کو لاحق خطرے سے آگاہ کیا تھا۔ جوشی نے اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ اندریش کمار اس کے سرپرست (Mentor)تھے۔ جانچ ایجنسیاں فروری 2007میں امرتسر لاہور ایکسپریس میں جوشی کے شامل ہونے کی جانچ کررہی ہیں۔
3ـ دویندر گپتا، آر ایس ایس
اس کے موبائل سم کی مدد سے ہی اجمیر میں دھماکے کئے گئے، اس پر مکہ مسجد اور اجمیر شریف درگاہ میں ہوئے دھماکوں کا بھی الزام۔
ابھینو بھارت سے جڑا ہوا آر ایس ایس کا پرچارکـ گپتا کو 28اپریل کو اجمیر سے گرفتار کیا گیا۔ اس کے اوپر الزام ہے کہ اس کے ذریعہ خریدے گئے سم کارڈ سے ہی 11اکتوبر 2007کو اجمیر شریف درگاہ میں دھماکے کئے۔
اس کے علاوہ 10اور سم کارڈس جھارکھنڈ سے خریدے گئے۔گپتا پر الزام ہے کہ سنیل جوشی اور رام چندرا کال سانگرا کا نزدیکی ہے جس پر الزام ہے کہ اس نے مالیگائوں میں بم نصب کئے تھے۔
گپتا 2006میں مہو (Mhow)میں سنیل جوشی سے ملا تھا اور کال سانگرا نے پرگیہ ٹھاکر سے ملاقات کرائی تھی۔
4ـ دیانند پانڈے، آر ایس ایس
ابھینو بھارت کا روحانی گرو، ستمبر008کے مالیگائوں دھماکے کا الزام۔
پیدائشی نام سدھاکر ادے بھان دیویدی، اس نے کئی نام رکھے۔ اس نے پہلے اپنا نام سوامی امریتانند دیوتیرتھ رکھا۔ اس کے بعد اور بھی پاک نام شنکر آچاریہ رکھا اور کشمیر میں رہنے لگا۔
دہشت گردی سے متعلق سبھی میٹنگ اس کی موجودگی میں ہوئی اور سبھی مشتبہ شخص اسے سوامی جی پکارتے تھے۔ تمام میٹنگ کی ریکارڈنگ کرنے اور اسے اپنے لیپ ٹاپ میں محفوظ رکھنے کی عادت اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئی۔ ریکارڈنگ اس کے اور اس کے ساتھیوں کے خلاف ثبوت کے طور پر استعمال کی جارہی ہیں۔ اس آڈیو اور ویڈیو کے علاوہ پولس کو کئی فحش تصاویر ملی ہیں، جو اس نے انٹرنیٹ سے ڈائون لوڈ کی تھیں۔
5ـ میجر رمیش اپادھیائے (سبکدوش)
ابھینو بھارت کا وہ شخص جو خالص ہندو راشٹر کی بات کرتا تھا۔ ستمبر 2008کے مالیگائوں دھماکوں کا ملزم
اپادھیائے 1988میں فوج سے سبکدوش ہوا اور وہ سابق فوجیوں کے بی جے پی کے سیل کا ممبئی چیف تھا۔ مہاراشٹر اے ٹی ایس دعویٰ کرتی ہے کہ وہ تنظیم کا ایک رکن ہے، لیکن پانڈے کے پاس سے ملے ٹیپ سے پتا چلتا ہے کہ وہ مالیگائوں دھماکے منصوبے کے لئے ہوئی تمام میٹنگ میں موجود تھا۔ وہ پروہت او رپانڈے سے لمبی گفتگو کرتا تھا۔
خالص ہندو راشٹریہ کی بات کرنے والے اس شخص کو ایک خاتون، جس سے وہ شادی کرنا چاہتا تھا، دھمکانے اور نازیبا بیان کے لئے دوبار گرفتار ہوچکا ہے ۔

भगवा आतंकवाद के शर्मनाक चहरे-एक ख़ास रिपोर्ट
अज़ीज़ बर्नी

‘‘मेल टुडे’’ अंग्रेज़ी दैनिक के द्वारा वास्तविकता को जिस सुन्दरता से सामने लाया गया है, उसके लिए उसकी प्रशंसा की जानी चाहिए। इस समय मेरे सामने मेल टुडे में प्रकाशित कृष्णा कुमार जी की एक महत्वपूर्ण रिपोर्ट है, जिसने संघ परिवार के आतंकवाद को बहुत हद तक बेनक़ाब किया है। ऐसी रिपोर्टों और लेखों को प्रकाशित करना हमें इसलिए आवश्यक लगता है कि जिन लोगों के ज़हन में यह बातें घर कर गई हैं कि उर्दू पत्रकारिता एक तरफा बात करती है, उन्हें यह अहसास हो जाए कि सच बहरहाल सच है और उसे सामने लाने की ज़िम्मेदारी केवल उर्दू पत्रकारिता के द्वारा ही पूरी नहीं की जाती, बल्कि अन्य भाषाओं की ज़िम्मेदार पत्रकारिता जो देश में साम्प्रदायिकता की जड़ों को उख़ाड़ फैंकने का इरादा रखती है और वे पत्रकार जो देश में साम्प्रदायिक सौहार्द का वातावरण बनाना चाहते हैं, देश को आतंकवाद से पाक करना चाहते हैं, बिना किसी भेदभाव सभी सच्चाईयों को सामने लाना अपनी ज़िम्मेदारी समझते हैं, इसलिए आज के इस लेख में अपनी ओर से कुछ भी लिखे बिना चाहता हूँ कि इस मुख्य रिपोर्ट को अपने पाठकों के अध्यन के लिए सामने रखा जाए। पेश हैः

भगवा आतंकवाद के शर्मनाक चहरे

सीबीआई क्यों हेमन्त करकरे के द्वारा दी गई महत्वपूर्ण जानकारी पर भी सोती रही? यह हिन्दू आतंकवाद की गहरी जड़ो को बेनक़ाब करती है।

‘जो कुछ मक्का मस्जिद (हैदराबाद) में हुआ और जो दूसरी मसाजिद में हो रहा है वह आईएसआसई की हरकत नहीं बल्कि उसमें हमारे अपने लोग लिप्त हैं। मालेगांव धमाके के आरोपी (स्वयंभू शंकारचार्य) के लेप टाप पर मेजर उपाध्याय नाम की आडियो फाईल उजागर करती है कि सीबीआई जो अजमेर शरीफ दरगाह और मक्का मस्जिद धमाके के मूल आरोपियों को पकड़ने के लिए स्वंय को प्रोत्साहन दे रही है जबकि सीबीआई को गत वर्ष ही इन मामलों को हल कर लेना चाहिये था। रिकार्डिंग में मेजर (रिटायर्ड) रमेश उपाध्याय को सुना जा सकता है कि वह 2008 के मालेगांव बम धमाके की योजना बना रहे हैं, जिसके नतीजे में 6 की मौत और 70 से अधिक लोग घायल हुए थे। पांडे के लेप टाॅप में मौजूद दूसरी रिकार्डिंग जाहिर करती है कि यह धमाका अभिनव भारत के गेम प्लान का छोटा सा हिस्सा है। यह आतंकवादी संगठन नेपाल और इस्राईल स्थित ग्रुपों से बात कर रहे थे ताकि वह भारत में एक विशुद्ध ‘हिन्दु राष्ट्र’ की स्थापना कर सके। यह और कई अन्य योजनायें पांडे के लेपटाॅप में आडियो रिकार्डिंग के तौर पर मौजूद हैं और जिसे हेमन्त करकरे के नेतृत्व में महाराष्ट्र के एटीएस ने 2008 में जब्त किया था। एक अन्य रिकार्डिग में दिल्ली के हिन्दु महासभा के मुखिया आयोध्या प्रसाद त्रिपाठी ब्रिटेन में रह रहे मुस्लिम विरोधी ग्रुप के साथ सम्पर्क में हैं। ‘ हम इंगलैंड में स्टीफन गौस (ळ।न्ै) के साथ लगातार सम्पर्क में हैं जो खतरनाक कम्यूनिस्ट विरोधी और मुस्लिम विरोधी हैं।’

‘उनकी यूनिट फ्रांस, जर्मनी, ब्रिटेन और अमेरिका में तेजी से बढ़ रही है।’ त्रिपाठी को यह कहते हुए सुना गया है- एक दूसरी रिकार्डिंग मंे मालेगांव धमाके के मास्टर माइन्ड कर्नल श्रीकांत पुरोहित की नेपाल के राजा ज्ञानेन्द्र से सम्पर्क करने की और अभिनव भारत के लोगों के प्रशिक्षण और शरण देने की बातचीत है। इसके बाद पांडे उस ब्रिटिश महिला का उल्लेख कर रहे हैं जो संयुक्त राष्ट्र में सचिव हैं और जिससे ‘निष्कासित हिन्दू सरकार’ का इद्राज संयुक्त राष्ट्र में कराने की बात है। सेना के खुफिया पुरोहित को सुना जा सकता है जो हर एक राज्य में फौजी स्कूल शुरू करने की बात करता है और स्कूल में प्रवेश लेने वालों को गर्मियों में राइफल चलाने का प्रशिक्षण दिया जायेगा। वह अभी तक न पहचाने गये व्यक्ति से कहता है कि किसी भी पुलिस कार्रवाई के मामले मंे स्कूल का प्रयोग लोगों को छुपने के लिए किया जा सकता है। कर्नल आगे कहता है कि इन स्कूलों से संघ का नाम किसी भी तरह से जुड़ना नहीं चाहिए। ‘हमें ऐसे नाम का चुनाव करना चाहिए जो भ्रमित करने वाला हो। हम ‘बाॅस्टन गार्डस’ के नाम से कार्य करेंगें।’

‘यहां संघ से जुड़ा हुआ कुछ भी नहीं है। भगवा झंडा भी यहां नहीं है।’ यह सब उसने आगे कहा। एक दूसरी बात चीत में पुरोहित ने स्वीकार किया है कि धमाके (मक्का मस्जिद और अजमेर शरीफ) जिन लोगों ने किये हैं वह उनको जानता है। बातचीत की नक़ल न केवल यह बताती है कि वह लोग कितने खतरनाक थे बल्कि की जांच को क्यों केंद्रीय हाथों में तुरंत ले लेना चाहिए। जांच में शामिल महाराष्ट्र एटीएस के एक पूर्व अधिकारी का कहना है कि ‘आप टेप सुनें और आपको पता चल जायेगा कि क्यों इन लोगों पर और देश के विरूद्ध युद्ध छेड़ने का मामला दर्ज होना चाहिए। अधिकारी का आगे कहना है कि सीबाीआई जो दावा कर रही है वह 2008 में एटीएस की जांच में स्वंय सामने आ गया था। एटीएस चीफ हेमन्त करकरे जो 26/11 हमले में मारे गये उन पर मालेगांव मामले को और अधिक गहराई तक न जाने के लिए जबर्दस्त दबाव था। ‘विपक्ष और राज्य सरकार के कई मंत्री करकरे की जांच से खुश नहीं थे।’

एक सूत्र का कहना है कि ‘राज्य की कांग्रेस एन सीपी सरकार के एक वरिष्ठ मंत्री जो डांस बार के विरोधी के रूप में जाने जाते हैं, करकरे की मौत से एक सप्ताह पूर्व जांच के लिए लानत मलामत की थी। अभिनव भारत के आपरेशन में राजनीतिज्ञों और सैनिक अधिकारियों के शामिल होने के कारण ही शायद करकरे को हटाया गया। मालेगांव धमाके में एक गवाह ने बताया कि ‘कर्नल धर (बाद में जिनकी पहचान बापादित्य धर के रूप में हुई) अभिनव भारत की बैठक में शामिल थे। पुरोहित ने भी कई अधिकारियों के नाम लिये हैं। पुरोहित को ऐसा कहते हुए बताया गया कि ‘आज बहुत से सम्मानित व्यक्ति हमारे बीच नहीं हैं।’ पुरोहित ने आगे कहा ‘ इनमंे कर्नल रायकर, कर्नल सलेस रायकर, मेजर नीतिन जोशी और कर्नल हसमुख पटेल हैं’ एटीएस के बारे में कहा जाता है कि उसमें रायकर और धर से काफी पुछताछ की लेकिन उनके विरूद्ध मामला मजबूत न होने के कारण वह आगे नहीं बढ़ सका। लेकिन एटीएस कहती है कि फौज को आगे आनी चाहिए और जांच करनी चाहिए। बातचीत की नकल बताती है कि किस तरह एटीएस की जांच में रूकावट पैदा हुई क्योंकि अनेक राज्यों में बड़ी संख्या में संदिग्ध व्यक्ति थे जैसाकि एक एटीएस अधिकारी कहता है कि मालेगांव मामले को चूक मानना एक बड़ी गलती होगी। आतंकवादी हमलों में शामिल संदिग्ध लोगों का आपसी सम्पर्क जाहिर करता है कि एटीएस अधिकारी की बात ठीक है।

तब 26/11 को शहादत प्राप्त करने से पूर्व करकरे के द्वारा प्राप्त सूचनाओं के बावजूद सीबीआई क्यों सोती रही?

1. इन्द्रेश कुमार, आर एस एस

धमाके से जुड़े संदिग्ध व्यक्तियों से संबंधित जांच सुनील जोशी और देवेन्द्र गुप्ता से नजदीकी संबंध

आरएसएस की राष्ट्रीय कार्यकारिणी समिति और मोहन भागवत के नजदीकी सहायक इन्द्रेश जी सिंह परिवार के नीतिनिर्धारण करने वालों में से एक हैं।

2008 में अमरनाथ यात्रा को साम्प्रदायिक रंग देने के लिए जिम्मेदार कहा जाता है और साथ ही नेपाल में माओवादियों के खिलाफ मधेशियों को समन्वित करने वाला व्यक्ति करार दिया जाता है। नेशनलिस्ट मुसलमानों के लिए मुस्लिम एकता मंच की स्थापना जांच एजेंसियां 2007 में अजमेर शरीफ दरगाह में हुए धमाके के मुख्य आरोपी देवेन्द्र गुप्ता से सम्बंधों की जांच कर रहे हैं। इसके अलावा मक्का मस्जिद और अजमेर शरीफ धमाकों के संदिग्ध सुनील जोशी से संबंधों की भी जांच की जा रही है।

2. सुनील जोशी , आरएसएस

धमाके के आरोपी जिसकी मौत भी एक रहस्य है, उस पर मक्का मस्जिद और अजमेर शरीफ में संलिप्त होने का आरोप है।

2007 में हुए धमाके में संलिप्त सबसे महत्वपूर्ण व्यक्ति आरएसएस का यह प्रचारक मालेगांव धमाके की आरोपी प्रज्ञा सिंह ठाकुर का मित्र था और साथ ही उस पर एक स्थानीय कांग्रेसी लीडर के हत्या का भी आरोप था। यह स्वामी असीमा नन्द का नजदीकी था। जिसने धमाके के बाद उसकी जिन्दगी मे आने वाली संकट से अवगत कराया था। जोशी ने अपने मित्रों से कहा था कि इन्द्रेश कुमार उसके अभिभावक थे। जांच ऐजंेसियां फरवरी 2007 में अमृतसर लाहौर एक्सप्रेस में जोशी के सम्मिलित होने की जांच कर रही हैं।

3. देवेन्द्र गुप्ता, आरएसएस

उसके मोबाईल सिम की सहायता से ही अजमेर में धमाके किये गये, उस पर मक्का मस्जिद और अजमेर शरीफ दरगाह में हुए धमाकों का भी आरोप है।

अभिनव भारत से जुड़ा हुआ आरएसएस का प्रचारक- गुप्ता को 28 अप्रैल को अजमेर से गिरफ्तार किया गया। उस पर आरोप है कि उसके द्वारा खरीदे गये सिम कार्ड से भी 11 अक्तूबर 2007 को अजमेर शरीफ दरगाह में धमाके किये गये।

इसके अलावा 10 और सिम कार्ड झारखंड से खरीदे गये। गुप्ता पर आरोप है कि सुनील जोशी और रामचन्द्राकाल सांगरा का नजदीकी है। जिस पर आरोप है कि उसने मालेगांव में बम लगाये थे।

गुप्ता 2006 में महो में सुनील जोशी से मिला था और कालसांगरा ने प्रज्ञा ठाकुर से मुलाकात कराई थी।

4. दयानन्द पांडे, आर एस एस

अभिनव भारत का धर्म गुरू, सितम्बर 2008 के मालेगांव धमाके का आरोप -जन्मजात नाम सुधाकर उदयभान द्ववेदी, उसने कई नाम रखे। उसने पहले अपना नाम अमृता नन्द देव तीरथ रखा और उसके बाद भी पवित्र नाम शंकाराचार्य रखा और कश्मीर में रहने लगा।

आतंकवाद से संबंधित सभी बैठक उसकी मौजूदगी में हुई और सभी संदिग्ध व्यक्ति उसे स्वामी जी पुकारते थे। सभी बैठकों की रिकार्डिग करने और अपने लेप टाॅप में सुरक्षित रखने की प्रवृति उसके लिए हानिकारक साबित हुई। रिकार्डिंग उसके और साथियों के विरूद्ध सबूत के तौर पर इस्तेमाल की जा रही है। इस आडियो और विडियो के अलावा पुलिस को कई अभद्र तस्वीरें मिली हैं जो उसने इंटरनेट से डाउन लोड की थीं।

5. मेजर रमेश उपाध्याय (अवकाश प्राप्त)

अभिनव भारत का वह व्यक्ति जो पूर्णतः हिन्दु राष्ट्र की बात करता था। सितंबर 2008 के माले गांव धमाके का आरोपी

उपाध्याय 1988 में सेना से रिटायर्ड हुआ और वह भूतपूर्व सैनिकों के भाजपा सेल का प्रमुख था। महाराष्ट्र एटीएस दावा करती है कि वह संगठन का एक सदस्य है, लेकिन पांडे के पास से मिले टेप से ज्ञात होता है कि वह मालेगांव धमाके की योजना के लिए हुई सभी बैठकों में उपस्थित था। वह पुरोहित और पांडे से लंबी बातंे करता था।

पूर्णतया हिन्दू राष्ट्र की बात करने वाले उस व्यक्ति को एक महिला जिससे वह शादी करना चाहता था, धमकाने और अभद्र बयान के लिए दो बार गिरफ्तार हो चुका है।

..............................

Thursday, July 29, 2010

سنیل جوشی کا قتلـمسلمانوں کے خلاف ایک گہری سازش

عزیز برنی

آندھراپردیش کے دورہ پر جانے سے قبل لکھے گئے اپنے مضمون میں میں نے ارادہ ظاہر کیا تھا کہ واپسی پر سنیل جوشی کے قتل پر روشنی ڈالوں گا، کیوں کہ اس قتل کا تعلق نہ صرف مالیگاؤں بم بلاسٹ سے ہے، بلکہ یہ قتل اس خطرناک ذہنیت کو بے نقاب کرتا ہے، جو ملک میں دہشت گردی کی وبا کے لےے بھی ذمہ دار ہے اور مسلمانوں کو موردالزام ٹھہرائے جانے کے لےے بھی، لیکن اس درمیان ’امت شاہ‘ کا معاملہ سامنے آیا تو مجھے لگا کہ اب بلاتاخیر امت شاہ کے اس استقبالیہ جلوس پر لکھا جانا چاہےے، جو ایک مخصوص ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ بہرحال اب میں واپس لوٹتا ہوں، اسی سنیل جوشی کے قتل کی سیاست پر جو سیاست، جرم اور دہشت گردی کی ایک ایسی ملی جلی کہانی سامنے رکھتی ہے کہ سننے والے کے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آخر کون سوچ سکتا ہے کہ وہ لوگ جو ملک سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں، ملک پر حکمرانی کے خواہاں ہیں، آخر ان کی ذہنیت کس قدر سازشی اور خطرناک ہے۔ مانا کہ وہ مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہتے ہیں، مانا کہ وہ ہندو راشٹر کا قیام کرنا چاہتے ہیں، لیکن کیا اپنے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لےے دہشت گردی کا سہارا لینا ضروری ہے؟ اور انتہا تو یہ ہے کہ آخر کتنے سنگدل لوگ ہیں یہ، جو اپنے ہی لوگوںکا قتل کرنے سے بھی نہیں جھجکتے۔ اگر سنیل جوشی کے قتل کی کہانی اور دیانندپانڈے کے نارکوٹیسٹ کے بعد سامنے آئی کہانی پر اعتبار کیا جائے تو سیمی (Students Islamic Movement of India) کو موردِالزام ٹھہرایا جانا اور مالیگاؤں کا بم بلاسٹ دراصل سنیل جوشی اور ایک علاقائی کانگریسی لیڈر پیارے سنگھ کے درمیان آپسی جھگڑے کا نتیجہ ہے۔ یہ دونوں ہی مہو میں رہتے تھے، اکثر دونوں میں کہاسنی ہوتی رہتی تھی، ایک بار یہ تنازع اتنا بڑھا کہ پیارے سنگھ نے سنیل جوشی کی سرعام چوٹی کاٹ لی۔ اس کے چند روز بعد ہی پیارے سنگھ اور اس کے بیٹے کا قتل ہوگیا، جس کا الزام سنیل جوشی پر عائد کیا گیا، نتیجتاً سنیل جوشی کو شہر چھوڑ کر بھاگنا پڑا اور اپنی شناخت چھپانے کے لےے ایک بدلے ہوئے نام کے ساتھ دیواس کے آشرم میں گروجی کے نام سے رہنے لگا۔ یہیں پر 29دسمبر007کو یعنی مالیگاؤں بم بلاسٹ سے ٹھیک دس مہینے پہلے سنیل جوشی کا قتل ہوا۔ دراصل یہ آشرم سنیل جوشی کا خفیہ ٹھکانہ تھا، اس کے بارے میں کم ہی لوگ جانتے تھے اور شاذونادر ہی یہاں کوئی اس سے ملنے آتا تھا۔ ہاں، البتہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر ضرور اس سے ملنے اکثرآیا کرتی تھی۔
سنیل جوشی آر ایس ایس کا پرچارک تھا اور پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا قریبی دوست تھا۔ دیانندپانڈے نے اپنے نارکوٹیسٹ میں سنیل جوشی اور پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی قربت کی جو بھی کہانی بتائی ہو، اس سے ہمارا کچھ بھی لینا دینا نہیں۔ ہاں، مگر دیانندپانڈے کے اس بیان میں دو باتیں انتہائی اہم ہیں، ایک تو یہ کہ پرگیہ سنگھ ٹھاکرسنیل جوشی کے قتل کے بعد بیحد غصہ میں تھی اور اس کے قتل کا بدلہ لینا چاہتی تھی، اسی سلسلہ میں اس نے دیانندپانڈے کے گھر جاکر اس سے ملاقات کی اور مدد مانگی۔ اپنے بیان میں سوامی دیانندپانڈے نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اسی نے لیفٹیننٹ کرنل پروہت سے پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو ملوایا تھا، جس نے بعد میں اس کی بہت مدد کی۔ دراصل پرگیہ سنگھ ٹھاکر سنیل جوشی کے قتل کا ذمہ دار سیمی کو مانتی تھی اور وہ سیمی کو سبق سکھانا چاہتی تھی۔ مالیگاؤں بم دھماکہ کا منصوبہ بھی اسی لےے تھا۔ یہاں اس وقت میں مالیگاؤں بم دھماکہ یا شہیدہیمنت کرکرے کی تفتیش پر کچھ بھی کہنا نہیں چاہتا، بلکہ صرف ایک بات پر اپنے قارئین اور حکومت ہند کی توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ سنیل جوشی سنگھ کا پرچارک تھا، سنیل جوشی کے قتل میں جو لوگ ملوث نظر آتے ہیں، ان کا تعلق بھی سنگھ پریوار سے ہے۔ اس کے قتل کے بعد سے ہی جو لوگ فرار ہیں، وہ بھی سنگھ پریوار سے تعلق رکھتے تھے، اس کے دوست تھے اور اس کے ساتھ ہی رہتے بھی تھے۔ انہیں منصوبہ کی جانکاری تھی۔ میں اپنی اسی تحریر کے تسلسل میں سنیل جوشی کے قتل کی تفصیل بیان کرنے جارہا ہوں، جس سے یہ واضح ہوجائے گا کہ سنگھ پریوار کی ذہنیت کیا ہے۔ سیمی پر سنیل جوشی کے قتل کا الزام لگانا بھی ایک خاص منصوبہ کے تحت تھا، تاکہ الزام اس تنظیم کے سرآئے، جس کا تعلق مسلمانوں سے ہے، تاکہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی کہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے سیمی کو سنیل جوشی کے قتل کا ذمہ دار مانتے ہوئے مالیگاؤں میں بم بلاسٹ کی سازش رچ ڈالی، جس کا الزام سیمی پر جانا ہی تھا اور گیا بھی، گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ اگر شہید ہیمنت کرکرے کے ذریعہ مالیگاؤں بم بلاسٹ کی سچائی سامنے نہیں آئی ہوتی تو بات چاہے سنیل جوشی کے قتل کی ہو یا مالیگاؤں بم بلاسٹ کی، یہی تسلیم کرلیاجاتا کہ اس قتل اور دہشت گردانہ حملہ کے پیچھے سیمی کا ہاتھ ہے یا چند دیگر مسلم دہشت گرد ہیں، وہ آئی ایس آئی کے بھی ثابت ہوسکتے تھے، لشکرطیبہ یا انڈین مجاہدین کے بھی۔ بہرحال اب میں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے جارہا ہوں، سنیل جوشی کے قتل کی وہ حقیقت جو ڈیٹ لائن انڈیا ڈاٹ کام کے آلوک تومر نے بیان کی ہے اور جسے انٹرنیٹ پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
سنگھ پریوار کے مقتول پرچارک سنیل جوشی پر الزام تھا کہ اس نے اجمیر اور حیدرآباد کی مکہ مسجد پر دھماکے کا منصوبہ بنایا۔ ان دونوں حادثات میں بہت سے لوگ مارے گئے تھے۔ سنیل جوشی کا نام ملزمین میں آیا تھا مگر اسے گرفتار نہیں کیا جاسکا تھا۔ اب سنیل جوشی کے ماموں مدن موہن مودی نے کھلے عام یہ الزام عائد کیا ہے کہ اجمیر دھماکے کے فوراً بعد سنیل جوشی کو اس کے ہی ساتھیوں نے گولی سے اڑادیا۔ مودی کو ان ساتھیوں کے نام نہیں معلوم ہیں۔
دیواس شہر میں رہنے والے مودی کا الزام ہے کہ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی برسراقتدار حکومت نے پولس کو ہدایت دے رکھی تھی کہ اس معاملے کی تفتیش نہیں کرنی ہے اور پولس نے کئی بیّن حقائق سے چشم پوشی کی، جس دن سنیل جوشی کا قتل ہوا اس دن صبح جوشی کو ایک پراسرار فون کال آئی تھی جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ جتنی جلد ہوسکے گھر سے بھاگ جائو۔ اس کے علاوہ چار اور سویم سیوک جو سنیل جوشی کے ساتھ اکثر رہتے تھے وہ بھی قتل کے دن سے ہی لاپتہ ہیں۔
سنیل جوشی کے پاس جو دو سِم کارڈ تھے ان کا بھی پتہ نہیں چل پارہا ہے اور پولس یہ بنیادی معلومات حاصل کرنے کی پوزیشن میں بھی اپنے آپ کو نہیں پارہی ہے کہ ان سِم کارڈوں کا کہیں اور تو استعمال نہیں کیا جارہا۔ دراصل پولس اس معاملے میں کچھ بولنا ہی نہیں چاہتی۔ سنیل جوشی 29 دسمبر 2007 کو اپنی ماں کے پاس تھے جب انھیں موبائل پر دھمکی آمیز پیغام ملا تھا۔ خود آگ سے کھیلنے والے سنیل جوشی نے فون کرنے والے سے کافی جھگڑا کیا تھا اور اس کے بعد شاید انھیں کوئی جگہ بتائی گئی تھی جہاں روانہ ہونے کے لیے وہ اپنی موٹر سائیکل سے نکلنے کی کوشش کرنے لگے۔ موٹر سائیکل اسٹارٹ نہیں ہورہی تھی لہٰذا سنیل جوشی چونا کھدان محلے میں تقریباً دو کلومیٹر دور اپنے مکان کی جانب پیدل روانہ ہوگئے۔ اسی مکان میں سنیل جوشی چار دیگر سویم سیوکوں کے ساتھ رہا کرتے تھے اور یہ سبھی سویم سیوک اب لاپتہ ہیں۔
قاتلوں کو شاید معلوم تھا کہ سنیل جوشی کس راستے سے آرہے ہیں۔ موٹر سائیکل بھی شاید انھوں نے ہی خراب کی تھی تاکہ سنیل جوشی کو پیدل ہی آنا پڑے۔ راستے میں اندوربھوپال روڈ پار کرتے ہی ایک ویران اور سنسان علاقہ پرتا ہے جہاں سنیل جوشی کا قتل کیا گیا۔ انھیں مسلسل گولیاں ماری گئیں، پولس نے کنبے کو کبھی نہیں بتایا کہ جوشی کو مارنے کے لیے کتنے لوگ آئے تھے اور پولس ریکارڈ میں ہوگا تو ہوگا لیکن اسے کبھی عام نہیں کیا گیا کہ کتنی گولیاں چلی تھیں؟ یہ بھی آج تک ظاہر نہیں ہوا ہے کہ جوشی کو فون کرنے والا کون تھا اور بھلے ہی سم کارڈ لاپتہ ہوگئے ہوں نمبر کے کال ریکارڈ سے آسانی سے پتہ لگایا جاسکتا تھا کہ آخر یہ دھمکی آمیز فون کس نمبر سے آیا تھا اور وہ نمبر کس کے نام رجسٹرڈ ہے۔
دیواس پولس سے بات کرو تو وہ عجیب طرح سے شرمانے لگتی ہے۔ لیکن اس کے ریکارڈ میں جو ہے اس کے مطابق سنیل جوشی کے قاتل ایک ماروتی کار اور ایک موٹر سائیکل پر آئے تھے۔ گولیاں تو کئی چلائی گئیں لیکن سنیل جوشی کو تین گولیاں لگی تھیں۔ جوشی کے ساتھ ان کے گھر میں رہنے والے موہن راج، استاد گھنشیام اور منا نام کے چار افراد کو شاید اس سازش کا پورا علم تھا، اس لیے قتل کے بعد سے ان لوگوں کا کبھی پتہ نہیں لگا۔
دو بار بی جے پی کے ایم پی رہ چکے اور پہلے حکومتِ ہند کے ملازم رہ چکے بیکنٹھ لال شرما پریم کو تو عوامی طور پر یہ سازش کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے کہ ہندوستان میں ایک ساتھ اگر لاکھوں مسلمان مار دیئے جائیں تو جو بچیں گے وہ اپنے آپ ہندو ہوجائیںگے۔ بیکنٹھ لال شرما پریم نے لیپ ٹاپ کے ویڈیو کیمرے کے سامنے یہ سازش کی اور جب ایک ٹی وی چینل پر یہ نشر ہوگیا تو بی جے پی اور بجرنگ دل سے لے کر سنگھ پریوار کی کئی معاون تنظیموں نے ٹی وی چینل پر حملہ کر ڈالا۔ یہ بات الگ ہے کہ اس ٹی وی چینل کے چیف ایڈیٹر پربھو چاولہ خود سنگھ پریوار کے قریبی ہیں۔ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے لیڈر اور دہلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کے صدر رہ چکے ہیں۔ یہ کم حیرانی کی بات نہیں ہے کہ پربھو چاولہ اپنے دونوں ٹی وی چینلوں پر مچائے جارہے شور اور ہنگامے کے باوجود ایک بار بھی ٹی وی کیمروں کے سامنے ظاہر نہیں ہوئے۔ سنگھ کا حوصلہ اسے ہی کہتے ہیں۔
مالےگائوں، ناسک، اجمیر اور بنگلور کے علاوہ حیدرآباد میں بارود برسانے والی تنظیموں کی شناخت ہندو دہشت گرد تنظیموں کے طور پر کی جانے لگی ہے اور ابھینو بھارت جیسی تنظیم سننے میں خواہ کتنی ہی کاغذی معلوم ہو لیکن پورے ملک میں ان کے عزائم کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ بھارتیہ سینا کے کئی سابق افسر بھی گرفتار کئے جاچکے ہیں اور متعدد کو گرفتارکئے جانے کے بعد سابق بنادیا گیا ہے۔
یہاں ایک سوال دریافت کرنا ضروری ہوجاتا ہے کہ آخر مدھیہ پردیش میں ایسا کیا جادوئی ’چمتکار‘ ہے جہاں اندور کے پاس ’سیمی‘ جیسی تنظیم بھی نشونما پاتی ہے، اس کے تربیتی اسکول چلتے ہیں اور اس کے علاوہ اندور کے ہی دوسرے کونے پر دیواس میں پہلے مسلم زیارت گاہوں پر دہشت گردانہ حملے کی سازش رچی جاتی ہے اور پھر حملہ ہوجانے کے بعد حملے میں شامل ایک اہم شخص کو گولی سے اڑادیا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ سنیل جوشی ’پرائشچت‘ (کفارہ ادا کرنے) کے موڈ میں ہوں اور ان کے ساتھیوں کو ان کے اس پرائشچت سے ڈر لگنے لگا ہو مگر اب توپرائشچت کے موڈ میںشیوراج سنگھ چوہان کو آنا پڑے گا اور بتانا پڑے گا کہ ان کی پولس کو آخر جو کرنا چاہئے تھا کیوںنہیں کیا اور اگر نہیں کیا تو اس کی سزا آخر کیا ہوسکتی ہے۔

सुनील जोशी की हत्या-मुसलमानों के ख़िलाफ एक गहरा षड़यंत्र
अज़ीज़ बर्नी

आंध्रप्रदेश की यात्रा पर जाने से पूर्व लिखे गए अपने लेख में मैंने इरादा प्रकट किया था कि वापसी पर सुनील जोशी की हत्या पर प्रकाश डालूंगा, क्योंकि इस हत्या का संबंध न केवल मालेगांव बम धमाके से है, बल्कि यह हत्या इस ख़तरनाक मानसिकता को बेनक़ाब करती है, जो देश में आतंकवाद की घटनाओं के लिए भी ज़िम्मेदार है और मुसलमानों को आरोपी ठहराए जाने के लिए भी, लेकिन इस बीच ‘अमित शाह’ का मामला सामने आया तो मुझे लगा कि अब अविलंब अमित शाह के इस स्शौर्यगत जुलूस पर लिखा जाना चाहिए, जो एक विशेष मानसिकता को दर्शाता है। बहरहाल मैं अब वापस लौटता हूं, उसी सुनील जोशी की हत्या की राजनीति पर जो राजनीति, अपराध और आतंकवाद की एक ऐसी मिली-जुली कहानी सामने रखती है कि सुनने वाले के भी रौंगटे खड़े हो जाते हैं। आख़िर कौन सोच सकता है कि वह लोग जो देश प्रेम का दावा करते हैं, देश पर शासन करने के इच्छुक हैं, आख़िर उनकी मानसिकता कितनी पड़यंत्रकारी और ख़तरनाक है। माना कि वह मुसलमानों को बदनाम करना चाहते हैं, माना कि वह हिंदू राष्ट्र की स्थापना करना चाहते हैं, परंतु क्या अपने इस सपने को साकार करने के लिए आतंकवाद का सहारा लेना आवश्यक है? और इंतिहा तो यह है कि अख़िर कितने पत्थर दिल लोग हैं यह, जो अपने ही लोगों की हत्या करने से भी नहीं झिझकते। अगर सुनील जोशी की हत्या की कहानी और दयानंद पांडे के नारको टैस्ट के बाद सामने आई कहानी पर विश्वास किया जाए तो ‘सीमी’ ;ैजनकमदजे प्ेसंउपब डवअमउमदज व िप्दकपंद्ध को आरोपित ठहराया जाना और मालेगांव का बम ब्लास्ट दरअसल सुनील जोशी और एक स्थानीय कांग्रेसी नेता प्यारे सिंह के बीच आपसी झगड़े का परिणाम है। यह दोनों ही महू में रहते थे, अकसर दोनों में कहा सुनी होती रहती थी, एक बार यह विवाद इतना बढ़ा कि प्यारे सिंह ने सुनील जोशी की सबके सामने चोटी काट ली। इसके कुछ दिन बाद ही प्यारे सिंह और उसके बेटे की हत्या हो गई, जिसका आरोप सुनील जोशी पर लगाया गया, परिणामस्वरूप सुनील जोशी को शहर छोड़ कर भागना पड़ा और अपनी पहचान छुपाने के लिए एक बदले हुए नाम के साथ देवास के आश्रम में गुरू जी के नाम से रहने लगा। यहीं पर 29 दिसम्बर 2007 को अर्थात् मालेगांव बम ब्लास्ट से ठीक 10 महीने पूर्व सुनील जोशी की हत्या हुई। दरअसल यह आश्रम सुनील जोशी का ख़ुफ़िया ठिकाना था, उसके बारे में कम ही लोग जानते थे और कभी -कभार ही यहां कोई उससे मिलने आता था। हां, अलबत्ता प्रज्ञा सिंह ठाकुर ज़रूर उससे मिलने अकसर आया करती थी।

सुनील जोशी आरएसएस का प्रचारक था और प्रज्ञा सिंह ठाकुर का क़रीबी दोस्त था। दयानंद पांडे ने अपने नारको टैस्ट में सुनील जोशी और प्रज्ञा सिंह ठाकुर की निकटता की जो भी कहानी बताई हो, उससे हमारा कुछ भी लेना देना नहीं है। हां, परंतु दयानंद पांडे के इस बयान में दो बातें अत्यंत महत्वपूर्ण हैं, एक तो यह कि प्रज्ञा सिंह ठाकुर सुनील जोशी की हत्या के बाद अत्यंत ग़्ाुस्से में थी और उसकी हत्या का बदला लेना चाहती थी। इसी सिलसिले में दयानंद पांडे के घर जाकर उससे मुलाक़ात की और सहयोग मांगा। अपने बयान में स्वामी दयानंद पांडे ने यह भी स्वीकार किया कि उसी ने लेफ़्टिनेंट कर्नल पुरोहित से प्रज्ञा सिंह ठाकुर को मिलवाया था, जिसने बाद में उसकी बहुत सहायता की। दरअसल प्रज्ञा सिंह ठाकुर सुनील जोशी की हत्या का ज़िम्मेदार सीमी को मानती थी और वह सीमी को सबक़ सिखाना चाहती थी। मालेगांव बम धमाके की योजना भी इसीलिए थी। यहां इस समय मैं मालेगांव बम धमाका या शहीद हेमंत करकरे की जांच पर कुछ भी कहना नहीं चाहता, बल्कि केवल एक बात पर अपने पाठकों और भारत सरकार का ध्यान आकर्षित कराना चाहता हूं, वह यह कि सुनील जोशी संघ का प्रचारक था, सुनील जोशी की हत्या में जो लोग संलिप्त नज़र आते हैं, उनका संबंध भी संघ परिवार से है। उसकी हत्या के बाद से ही जो लोग फ़रार हैं, वह भी संघ परिवार से संबंध रखते थे, उसके दोस्त थे और उसके साथ रहते भी थे। उन्हें सुनील जोशी की हत्या की योजना की जानकारी थी। मैं अपने इस लेख की आगामी पंक्तियों में सुनील जोशी की हत्या का विवरण बयान करने जा रहा हूं, जिससे यह स्पष्ट हो जाएगा कि संघ परिवार की मानसिकता क्या है। सीमी पर सुनील जोशी की हत्या का आरोप लगाना भी एक विशेष योजना के तहत था ताकि आरोप उस संगठन पर आए, जिसका संबंध मुसलमानों से है, ताकि देश में साम्प्रदायिक तनाव पैदा हो और हुआ भी कुछ ऐसा ही कि प्रज्ञा सिंह ठाकुर ने सीमी को सुनील जोशी की हत्या का ज़िम्मेदार मानते हुए मालेगांव मंें बम ब्लास्ट का षड़यंत्र रच डाला, जिसका आरोप सीमी पर जाना ही था और गया भी, गिरफ्तारियां भी हुयीं। अगर शहीद हेमंत करकरे द्वारा मालेगांव बम ब्लास्ट की सच्चाई सामने नहीं आई होती तो बात चाहे सुनील जोशी की हत्या की हो या मालेगांव बम ब्लास्ट की, यही मान लिया जाता कि इस हत्या और आतंकवादी हमले के पीछे सीमी का हाथ है या कुछ अन्य मुस्लिम आतंकवादी हैं, वह आई.एस.आई के भी सिद्ध हो सकते थे, लश्कर-ए-तैयबा या इण्डियन मुजाहेदीन के भी। बहरहाल अब मैं अपने पाठकों की सेवा में प्रस्तुत करने जा रहा हूं, सुनील जोशी की हत्या की वह हक़ीक़त जो डेटलाइन इंडिया डाट काॅम के आलोक तोमर ने बयान की है और जिसे इंटरनेट पर भी देखा जा सकता है।

संघ परिवार के क़त्ल कर दिए गए प्रचारक सुनील जोशी पर इल्ज़ाम था कि उसने अजमेर और हैदराबाद की मक्का मस्जिद पर विस्फोट की योजना बनाई। इन दोनों हादसों में बहुत सारे लोग मारे गए थे। सुनील जोशी का नाम अभियुक्तों में आया था, मगर उसे गिरफ्तार नहीं किया जा सका था। अब सुनील जोशी के मामा मदन मोहन मोदी ने सार्वजनिक रूप से आरोप लगाया है कि अजमेर विस्फोट के तत्काल बाद सुनील जोशी को उसके ही साथियों ने गोली से उड़ा दिया। मोदी को इन साथियों के नाम नहीं मालूम हैं।

देवास शहर में रहने वाले मोदी का इल्ज़ाम हैं कि मध्यप्रदेश में भाजपा शासित प्रदेश सरकार ने पुलिस को निर्देश दे रखे थे कि इस मामले की जांच नहीं करनी है और पुलिस ने कई सरेआम खुले हुए तथ्यों की अनदेखी की। जिस दिन सुनील जोशी की हत्या हुई उस दिन सुबह जोशी को एक रहस्यमय फोन काॅल आया था, जिसमें उनसे कहा गया था कि जितनी जल्दी हो सके घर से भाग जाओ। इसके अलावा चार और स्वयंसेवक जो सुनील जोशी के साथ लगातार रहते थे, वे भी हत्या वाले दिन से ही लापता हैं।

सुनील जोशी के पास जो दो सिम कार्ड थे, उनका भी पता नहीं चल पा रहा है और पुलिस यह आधारभूत जानकारी पता लगाने की स्थिति में भी अपने आपको नहीं पा रही है कि इन सिमकार्डों का कहीं और तो इस्तेमाल नहीं किया जा रहा। दरअसल पुलिस तो इस मामले में कुछ बोलना ही नहीं चाहती। सुनील जोशी 29 दिस्मर 2007 को अपनी मां के पास थे, जब उन्हें मोबाइल पर धमकी वाला संदेश मिला था। खुद आग से खेलने वाले सुनील जोशी ने फोन करने वाले से काफी झगड़ा किया था और इसके बाद शायद उन्हें कोई ठिकाना बताया गया था, जहां रवाना होने के लिए वे अपनी मोटरसाइकिल से निकलने की कोशिश करने लगे। मोटरसाइकिल स्टार्ट नहीं हो रही थी, इसलिए सुनील जोशी चूना ख़दान मोहल्ले में करीब दो किलोमीटर दूर अपने घर की ओर पैदल रवाना हो गए। इसी घर में सुनील जोशी चार और स्वयंसेवकों के साथ रहा करते थे और यह सभी स्वयंसेवक अब लापता है।

हत्यारों को शायद पता था कि सुनील जोशी किस रास्ते आ रहे हैं। मोटरसाइकिल भी शायद उन्होंने ही ख़राब की थी, ताकि सुनील जोशी को पैदल ही आना पड़े। रास्ते में इंदौर, भोपाल मार्ग पार करते ही एक उजाड़ और सुनसान इलाक़ा पड़ता है, जहां सुनील जोशी की हत्या की गई। उन्हें लगातार कई गोलियां मारी गईं। पुलिस ने परिवार को कभी नहीं बताया कि जोशी को मारने के लिए लोग आए थे और पुलिस रिकार्ड में होगा तो होगा लेकिन इसे सार्वजनिक कभी नहीं किया गया कि कितनी गोलियां चली थीं? यह भी आज तक ज़ाहिर नहीं हुआ है कि जोशी को फोन करने वाला कौन था और भले ही सिमकार्ड लापता हो गए हों, नम्बर के काॅल रिकार्ड से आसानी से पता लगाया जा सकता था कि अख़िर यह धमकी वाला फोन किस नम्बर से आया था और वह नम्बर किसके नाम रजिस्टर्ड है।

देवास पुलिस से बात करो तो वे राजपत्र ढंग से शर्माने लगते हैं, लेकिन उनके रिकार्ड में जो है उसके अनुसार सुनील जोशी के हत्यारे एक मारूती कार और एक मोटरसाइकिल पर आए थे। गोलियां तो कई चलाई गईं लेकिन सुनील जोशी को तीन गोलियां लगी थीं। जोशी के साथ उनके घर में रहने वाले मोहन राज, उस्ताद, घनश्याम और मुन्ना नाम के चारों लोगों को शायद इस साज़िश की पूरी जानकारी थी, इसलिए हत्या के बाद से उन लोगों का कभी पता नहीं लगा।

दो बार भाजपा के सांसद रहे और पहले भारत सरकार के कर्मचारी रह चुके बैंकंुठ लाल शर्मा प्रेम को तो सार्वजनिक रूप से यह साज़िश करते हुए देखा गया है कि भारत में एक साथ अगर लाखों मुसलमान मार दिए जाए तो जो बचेंगे वे अपने आप हिन्दू हो जाएंगे। बैंकंुठ लाल शर्मा प्रेम ने लैपटाॅप के वीडियो कैमरे के सामने यह साज़िश की और जब एक टीवी चैनल पर इसका प्रसारण हो गया तो भाजपा और बजरंग दल से लेकर संघ परिवार के कई सहयोगी संगठनों ने टीवी चैनल पर हमला कर डाला। यह बात अलग है कि इस टीवी चैनल के प्रधान संपादक प्रभु चालवा ख़ुद संघ परिवार के क़रीबी हैं, अख़िल भारतीय विद्यार्थी परिषद के नेता और दिल्ली विश्वविद्यालय छात्र संघ के अध्यक्ष रह चुके हैं। यह कम आश्चर्य की बात नहीं हैं कि प्रभु चावला अपने दोनों टीवी चैनलों पर मचाए जा रहे शोर और हंगामे के बावजूद एक बार भी टीवी कैमरों के सामने प्रकट नहीं हुए। संघ का दुस्साहस इसे ही कहते हैं।

मालेगांव, नासिक, अजमेर और बंगलुरू के अलावा हैदराबाद में बारूद बरसाने वाले संगठनों की पहचान हिन्दू उग्रवादी संगठनों के तौर पर की जाने लगी है और अभिनव भारत जैसे संगठन सुनने में चाहे जितने काग़ज़ी लगें, लेकिन पूरे देश में उनके इरादों का पता लगाया जा सकता है। भारतीय सेना के कई भूतपूर्व अधिकारी भी पकड़े जा चुके हैं और कईयो को पकड़े जाने के बाद भूतपूर्व बना दिया गया है।

यहां एक सवाल पूछना ज़रूरी हो जाता है कि आख़िर मध्यप्रदेश में ऐसा क्या जादुई चमत्कार है, जहां इंदौर के पास सिमी जैसे संगठन भी पनपते हैं, उनकी प्रशिक्षण शालाएं चलती हैं और इसके अलावा इंदौर के ही दूसरे कोने पर देवास में पहले मुस्लिम तीर्थ स्थलों पर आतंकवादी हमलों की साज़िश रची जाती है और फिर हमला हो जाने के बाद हमलों में शामिल एक मुख्य व्यक्ति को गोली से उड़ा दिया जाता है। हो सकता है कि सुनील जोशी प्रायश्चित की मुद्रा में हों और उनके साथियों को उनके प्रायश्चित से डर लगने लगा हो, मगर अब तो प्रायश्चित की मुद्रा में शिवराज सिंह चैहान को आना पड़ेगा और बताना पड़ेगा कि उनकी पुलिस को आखिर जो करना चाहिए था वह क्यों नहीं किया और अगर नहीं किया तो उसकी सज़ा आख़िर क्या हो सकती है?

ہم نے دیکھا ملزم امت شاہ کا استقبالیہ جلوس اور تلک کی رسم

عزیز برنی

امت شاہ کو دیکھا میں نے ٹیلی ویژن چینلز پر، فاتحانہ انداز میں مسکرا کر جیل جاتے ہوئے۔ ایک ہجوم تھا امت شاہ کے ساتھ۔ ان کے چہروں پر بھی ایسی ہی خوشی تھی، مانو ملک کے لےے کوئی بڑا اعزازی تمغہ حاصل کیا ہو یا کسی جنگ میں جیت کر آرہے ہوں اور یہ جیت امت شاہ کی بدولت ہی حاصل ہوئی ہو۔ دیکھا میں نے کچھ لوگوں کو سرراہ ان کے ماتھے پر تلک لگاتے ہوئے، ایسا بھارتیہ سنسکرتی میں ہمارے ہندو بھائی کسی کو سمّان دینے کے لےے ، عزت و احترام کا درجہ دینے کے لےے کرتے ہیں، ٹیکا لگاتے ہیں، تلک کرتے ہیں۔ یہ سمّان، یہ تلک اس لےے تھا کہ سی بی آئی نے سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کیس میں امت شاہ کے خلاف کچھ ثبوت اکٹھے کےے ہیں۔ عدالت کے ذریعہ اس معاملہ میں سی بی آئی کو جانچ کرنے کا حکم جاری ہوا تھا۔ امت شاہ ریاست گجرات میں مملکت وزیرداخلہ کے عہدے پر تھے، جس وقت انہوں نے سہراب الدین شیخ کے فرضی انکاؤنٹر میں گہری دلچسپی لی، جیسا کہ ابھی تک منظرعام پر آنے والے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اس معاملہ میں وہ ملوث ہیں۔ ٹیلی ویژن چینل پر Exclusiveخبر کے طور پر جب امت شاہ کا یہ فاتحانہ جلوس دکھایا جارہا تھاتو درجنوں ٹیلی ویژن چینلوں کے نمائندے اپنے کیمروں کے ساتھ ہر زاوےے سے امت شاہ اور ان کے شیدائیوں کو کیمرے میں قید کرلینا چاہتے تھے۔ یہی حال پرنٹ میڈیا کے فوٹوگرافرس کا بھی تھا۔ میں اس واقعہ کا ذکر اس لےے کررہا ہوں، کیوں کہ میں ایک مخصوص ذہنیت کی طرف تمام ہندوستان کی توجہ دلاناچاہتا ہوں۔ کس بات کا جشن تھا یہ؟ الزام سچا ہے یا جھوٹا، امت شاہ سہراب الدین قتل کیس میں ملوث ہے کہ نہیں، یہ فیصلہ عدالت کو کرنا ہے، لیکن یہ الزام ان کے لےے کون سی خوشی کا پیغام لے کر آیا تھا، جو راستہ میں تلک کی رسم ادا کی جارہی تھی۔ ساتھ میں نعرے لگاتا ہوا جلوس تھا اور کیمرے بھی جو مناظر قید کررہے تھے، اس سے یہی اندازہ ہوتا تھا کہ اس واقعہ کو کتنی اہمیت دی جارہی ہے۔ کیوں یہ ہمارے معاشرے کے لےے لائق شرم نہیں تھا کہ ایک شخص کو قتل میں شامل ہونے کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جارہا ہے؟ کیوں اسے احساس جرم نہیں تھا؟ کیوں اس کے ساتھ چلنے والے شرمندہ نہیں تھے؟ اگر سہراب الدین شیخ مجرم بھی تھا، جو کچھ کہا امت شاہ نے، کیا پرکاش جاوڈیکر ایک ٹیلی ویژن چینل پر مباحثہ میں حصہ لیتے ہوئے یا پھر نریندرمودی نے یا اس پارٹی کے ذمہ داران نے اگر اس کو بھی صحیح مان لیا جائے تو بھی کیا کسی مجرم کو بغیر کسی عدالتی فیصلہ کے سرعام قتل کرنے کا فیصلہ قابل ستائش ہے؟ تب تو کسی عدالت کی ضرورت ہی نہیں؟ کسی بحث کی ضرورت ہی نہیں؟ ایک ریاست کا وزیرداخلہ اپنے ماتحت پولیس افسران کو حکم دے اور قتل کردیا جائے، کیا یہ مناسب ہے؟ اگر ہاں تو پھر عدالتوں کی اہمیت کیا ہے۔ اگر نہیں توسہراب الدین کے معاملہ میں فیصلہ عدالت کو کرنا تھا۔ آج بھی عدالت کے باہر اسے دہشت گرد یا مجرم ثابت کرنے والے کیا عدالت کے کام کو متاثر کرنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں؟ کیا اپنے اثرورسوخ اور سیاسی طاقت سے عدالتوں کی آزادی سلب کرلینے کا یہ حربہ نہیں ہے یہ؟
وزیراعظم کے کھانے کی دعوت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اعلیٰ لیڈران نے شرکت سے انکار کردیا، اس لےے کہ وہ ناراض تھے امت شاہ کے سی بی آئی کے شکنجے میں پھنس جانے سے۔ وہ سی بی آئی کو موردالزام ٹھہرا رہے تھے، کیا بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کا یہ عمل درست قرار دیا جاسکتا ہے؟ یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب بھارتیہ جنتا پارٹی ایسے تمام لوگوں کو کسی بھی قانون سے بالاتر سمجھتی ہے، جو اس کی فکر سے ہم آہنگ ہوتے ہیں، پھر چاہے وہ کتنے ہی بڑے جرم میں ملوث کیوں نہ ہوں۔ یہی کیا تھا لال کرشن اڈوانی نے سادھوی پرگیہ سنگھ کی گرفتاری اور اس کے حلف نامہ کے بعد۔ الیکشن کا دور تھا، لال کرشن اڈوانی مالیگاؤں بم بلاسٹ کی ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا حلف نامہ لےے گھوم رہے تھے۔ وہ وزیرداخلہ سے ملے، وزیراعظم ڈاکٹرمنموہن سنگھ سے ملے، نیشنل سیکوریٹی ایڈوائزر نے ان کے گھر پر حاضری دی، مقصد سادھوی پرگیہ سنگھ بیشک ملزم ہوں، ان کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آیا جائے اور جیل کو ان کے لےے شاہی مہمان خانہ بنادیا جائے۔ ہم نے دیکھی ہےں سادھوی پرگیہ سنگھ کی وہ تصاویر، جب شہید ہیمنت کرکرے نے مالیگاؤں بم بلاسٹ کے بعداسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا تھا۔ کس قدر پریشان حال اور خوفزدہ چہرہ تھا وہ جب پولیس کانسٹبل سادھوی پرگیہ سنگھ کو جیل کی طرف لے کر جارہی تھیں، لیکن شہید ہیمنت کرکرے کے قتل کے بعد پھر ایک اور تصویر ہمارے سامنے تھی، منظراب بھی جیل کے لےے لے جائے جانے کا تھا، مگر اس بار ایک کھلکھلاتا، مسکراتا چہرہ ہمارے سامنے تھا۔ ہم یہ دونوں تصاویر قارئین کے سامنے اپنے اس مضمون کے ساتھ پیش کرنے جارہے ہیں، تاکہ وہ دونوں کا موازنہ کرسکیں، اس لےے کہ یہ تصویریں بہت کچھ بولتی ہیں، سادھوی پرگیہ سنگھ کی ہوں یا امت شاہ کی۔
امت شاہ کے کیس کو سامنے رکھ کر ایک ٹیلی ویژن چینل نے سی بی آئی کے کردار پر مباحثہ کا ایک پروگرام پیش کیا۔ شرکا میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے پرکاش جاوڈیکر اور کانگریس کے موہن پرکاش تھے۔ جب جب موہن پرکاش نے امت شاہ کے جرم اور سی بی آئی کی کارکردگی کو سامنے رکھنے کی کوشش کی، بات کو مکمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ سوال کو محدود رکھا گیا صرف اس بات تک کہ سی بی آئی کا سیاسی استعمال ہورہا ہے یا نہیں۔ ناظرین کی آراء بھی اسی سوال کی روشنی میں منگائی گئیں۔ ہم کسی ایک چینل کی بات نہیں کریں تو بھی اکثروبیشتر دیکھا ہے ہم نے کہ ایسے موقعوں پر اینکر پوری طرح غیرجانبدار نہیں رہ پاتے۔ سی بی آئی کا سیاسی استعمال ہورہا ہے کہ نہیں، یہ ایک بحث طلب موضوع ہے، جس پر بحث ضرور ہونی چاہےے… اور اس دائرے کو اس قدر وسیع کردینا چاہےے کہ کب کب کس کس سرکار نے کن کن معاملات میں سی بی آئی کا ناجائز استعمال کیا اور پھر ان سب کو منظرعام پر لایا جانا چاہےے، لیکن آج اگر سوال یہ ہوتا کہ امت شاہ کی گرفتاری کو ایک جشن کی شکل دی جانی چاہےے یا نہیں اور اسے جشن کی شکل دینے والے ایک ملزم کا فاتحانہ انداز میں جیل جانا آخر کس ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے تو بات کچھ اور ہوتی، لیکن نہیں، شاید ایسے موضوعات بحث کے لائق نہیں سمجھے جائیں گے۔ اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ امت شاہ اس وقت تک مجرم قرار نہیں دئے جاسکتے، جب تک کہ ان کا جرم ثابت نہ ہوجائے تو پھر یہ صرف امت شاہ کے ساتھ ہی کیوں، دیگر سیکڑوں، ہزاروں ملزم بھی تو اس وقت تک مجرم قرار نہیں دئے جاسکتے، جب تک کہ ان کا جرم ثابت نہ ہوجائے۔ ہم نے کتنی بار، کتنے لوگوں کا ایسا پرمسرت جلوس دیکھا ہے، جن پر قتل یا دہشت گردی کا الزام ہو۔ میں نے یہاں قتل اور دہشت گردی کو ایک ساتھ اس لےے لکھا کہ جب اس انداز میں قتل کی وارداتیں عمل میں آتی ہیں، انہیں دہشت گردی سے کس حد تک الگ رکھا جاسکتا ہے۔ یہ کوئی زمین جائیداد کا معاملہ نہیں تھا، یہ کوئی روپے پیسے کے لین دین یا خاندانی دشمنی نہیں تھی، لیکن اس جشن کا فاتحانہ انداز ظاہر یہی کرتا ہے کہ بات امت شاہ کی ہو یا نریندرمودی کی یا کچھ اور پیچھے جاکر دیکھےں تو ناتھورام گوڈسے کی ایک مخصوص ذہنیت رکھنے والے لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر سیکولرزم، فرقہ وارانہ ہم آہنگی قانون کا قتل کرنا اپنے لےے شان کی بات سمجھتے رہے ہیں۔ اس وقت بھی جب ناتھورام گوڈسے نے مہاتماگاندھی کا قتل کیاتھا، بعض علاقوں میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں، ناتھورام گوڈسے کو چھڑانے کی حتی الامکان کوششیں کی جاتی رہیں، حتیٰ کہ بڑے گھروں کی عورتوں نے اس کے لےے سوئٹر بن کر بھیجے۔ یہ سب مثالیں ہیں، اس ذہنیت کو سمجھنے کی اور اسے سمجھنے کی بے پناہ ضرورت ہے، اس لےے کہ ہمارا ملک ساری دنیا میں اپنے امن و اتحاد اور گنگاجمنی تہذیب کے لےے ہی جانا جاتا ہے۔ آج ایسے لوگ اپنے سیاسی مقاصد کے پیش نظر نہ صرف ان روایتوں کا خون کررہے ہیں، بلکہ ملک کو فرقہ پرستی اور دہشت گردی کی آگ میں بھی جھونک رہے ہیں۔
شہیدہیمنت کرکرے کا قتل 26/11کو ہوئے دہشت گردانہ حملہ کا ایک حصہ تھا یا کچھ اور…؟ جیسے جیسے وقت گزرے گا، یہ حقیقت بھی منظرعام پر آہی جائے گی، لیکن آج جن مناظر کا ذکر کرتے ہوئے میں نے اپنے مضمون کی شروعات کی، اس سے بہت الگ شہید ہیمنت کرکرے کے قتل کے بعد کا ماحول بھی نہیں تھا۔ ایسی تمام رپورٹس آج بھی محفوظ ہیں، جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جانباز پولیس آفیسر ہیمنت کرکرے کے قتل کی خبر کے بعد نریمن ہاؤس میں خوشیاں منائی گئیں۔ ہم نے اپنے گزشتہ قسط وار مضمون ’’مسلمانان ہند…ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟‘‘ کی 100ویں قسط میں اس واقعہ کی تفصیل کو شامل اشاعت کیا ہے۔ ہمارے قارئین ان واقعات سے بھی بے خبر نہیں ہوں گے، جن میں 26/11کو ہوئے دہشت گردانہ حملہ سے قبل ہیمنت کرکرے کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں۔
مالیگاؤں بم بلاسٹ کی حقیقت بے نقاب ہوگئی تو ملک گیر سطح پر کیا ہنگامہ برپا ہوا، دفاع میں کون کون سے چہرے سامنے آئے، کتنے جلسے جلوس منعقد کےے گئے، سادھوی پرگیہ سنگھ کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی کس قدر کوششیں کی گئیں، بال ٹھاکرے نے پرگیہ سنگھ کی شان میں کس قدر قصیدے پڑھے، مدھیہ پردیش کی وزیراعلیٰ رہیں اومابھارتی نے اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑانے کی پیشکش کی، اس کے بعد جب جب بھی ایسے لوگ جو ایک مخصوص فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں، دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہوئے یا ان کے نام دہشت گردانہ معاملات میں ملوث نظر آئے، اس مخصوص ذہنیت کے لوگوں نے ہنگامہ برپا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر ہم قانون کو، پولیس کواور خفیہ ایجنسیوں کو، سرکاروں کو اسی طرح متاثر کرنے کی کوششیں کرتے رہیں گے تو پھر دہشت گردانہ واقعات میں کمی کیسے آئے گی۔ کیا ہم نے یہ ذہن بنالیا ہے کہ کسی بھی بم دھماکہ کے بعد کسی بھی دہشت گردانہ حملہ کے بعد اگر ایک مخصوص فرقہ کے لوگ گرفتار کےے جائیں گے، جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجے جائیں گے تو خواہ وہ مجرم ہوں یا نہ ہوں،ہم تسلیم کرلیں گے کہ ہاں، یہی دہشت گرد ہوسکتے ہیں، انہیں ہی دہشت گرد ثابت ہونا چاہےے۔ ملک بھر میں ان کے ناموں اور مذہب کی تشہیر ہوگی، ان کے حوالے سے ایک پوری قوم کو بدنام کرنے کا سلسلہ شروع ہوگا۔ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی جانچ اسی سمت میں آگے بڑھے گی کہ وہ مجرم قرار پائیں، اس طرح کا ماحول پیدا کیا جائے گا، اس قدر دھرنے پردشن ہوں گے، اتنی آوازیں اٹھیں گی میڈیا کے لےے لگاتار ایسی ہی خبریں سامنے رکھنا مجبوری بن جائے گی۔ نتیجہ عدالت کی ذہن سازی۔ وہ مجرم ہوں یا نہ ہوں۔ وہی مجرم قرار پائیں اور سزا کے مستحق سمجھیں جائیں۔ یہ ماحول اس درجہ اس ملک پر حاوی ہوگیا ہے کہ جو ایسے ملزموں کی حقیقت جانتے ہیں۔ بھلے ہی وہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں ہلاک کےے گئے عاطف اور ساجد ہی نہ ہوں کہ ان کے حق میں آواز اٹھانے والوں کو دہشت گردوں کا ہمدرد قرار دے کر ان کی حوصلہ شکنی کی جائے گی، انہیں بے عزت کیا جائے گا، بھلے ہی ان میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر جیسی شخصیت کا نام ہی شامل کیوں نہ ہو۔ وجہ جنہیں مجرم ثابت کرنا ہے، وہ مجرم ہوں نہ ہوں، ان کے خلاف ایسا ماحول تیار کیا جاسکے کہ کوئی وکیل ان کا مقدمہ لڑنے کی ہمت نہ کرسکے۔ اگر کربھی لے تو اپنی جان سے ہاتھ دھونے کے لےے بھی تیار رہے۔ ایسے واقعات عمل میں آچکے ہیں۔ممبئی کے ایڈووکیٹ شاہد اعظمی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اور اپنی نوعیت کی یہ تنہا مثال نہیں ہے، ہم اچھی طرح جانتے ہیں لکھنؤ، ہبلی اور دھاراواڑ کے جلسوں میں ہم نے ایسے وکیلوں کی پریشانیوں کی داستان خود اپنے کانوں سے سنی ہے۔ ان کی پریشانیوں کو اپنی نظروں سے دیکھا ہے۔ یعنی ماحول ایسا تیار کیا جاتا ہے کہ نہ تو کوئی ان کا مقدمہ لڑے، نہ کوئی ان کی پیروی کے لےے آگے آئے اور جنہیں بے گناہ قرار دینا ہے، چاہے وہ کتنے بڑے مجرم ہوں آخری فیصلہ آنے سے قبل ان کے فاتحانہ جلوسوں کے ذریعہ ایسا ماحول تیار کیا جائے کہ وہ سزا نہ پاسکیں اور بالفرض محال اگر سزا کے مستحق قرار بھی پائیں تو معاشرے کا ایک بڑا طبقہ ان کی حمایت میں اس طرح کھڑا ہو جیسے انہوں نے کوئی عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔

हमने देखी आरोपी अमित शाह की स्वागत यात्रा और तिलक की रस्म
अज़ीज़ बर्नी

अमित शाह को देखा मैंने टेलीवीज़न चैनल पर, विजयी अंदाज़ में मुस्कुराकर जेल जाते हुए। एक क़ाफ़ला था अमित शाह के साथ। उनके चेहरे पर भी ऐसी ही ख़ुशी थी, मानो देश के लिए कोई बड़ा सम्मान पुरस्कार प्राप्त किया हो या किसी युद्ध में जीत कर आ रहे हों और यह जीत अमित शाह की बदौलत ही प्राप्त हुई हो। देखा मैंने कुछ लोगों को रास्ते में उनके माथे पर तिलक लगाते हुए, ऐसा भारतीय संस्कृति में हमारे हिंदू भाई किसी को सम्मान देने के लिए, आदर का स्थान देने के लिए करते हैं, टीका लगाते हैं, तिलक करते हैं। यह सम्मान, यह तिलक इसलिए था कि सीबीआई ने सोहराबुद्दीन फ़र्ज़ी एन्काउन्टर केस में अमित शाह के विरुद्ध कुछ सुबूत इकट्ठे किए हैं। अदालत द्वारा इस मामले में सीबीआई को जांच करने का आदेश जारी हुआ था। अमित शाह गुजरात राज्य में गृह राज्य मंत्री के पद पर थे, जिस समय उन्होंने सोहराबुद्दीन शेख़ के फ़र्ज़ी एन्काउन्टर केस में गहरी रुचि ली, जैसा कि अभी तक सामने आने वाली शहादतों से पता चलता है कि इस मामले में वह लिप्त हैं। टेलीवीज़न चैनल पर एक्सक्लूसिव समाचार के रूप में जब अमित शाह की यह विजय यात्रा दिखाई जा रही थी तो दर्जनों टेलीविज़न चैनलों के प्रतिनिधि अपने कैमरों के साथ हर तरफ से अमित शाह और उनके चाहने वालों को कैमरे में बंद कर लेना चाहते थे। यही हाल प्रिंट मीडिया के फोटोग्राफ़रों का भी था। मैं इस घटना की चर्चा इसलिए कर रहा हूं, क्योंकि मैं एक विशेष मानसिकता की ओर तमाम भारतीयों का ध्यान दिलाना चाहता हूं। किस बात का जश्न था यह? आरोप सच्चा है या झूठा, अमित शाह सोहराबुद्दीन हत्या केस में लिप्त हैं कि नहीं, यह फैसला अदालत को करना है, परंतु यह आरोप उनके लिए कौनसी ख़ुशी का संदेश लेकर आया है जो रास्ते में तिलक की रस्म अदा की जा रही थी। साथ में नारे लगाता हुआ जुलूस था और कैमरे भी जो दृश्य क़ैद कर रहे थे, उससे यही अनुमान होता था कि इस घटना को कितना महत्व दिया जा रहा है। क्यों यह हमारे समाज के लिए लज्जित करने वाला नहीं था कि एक व्यक्ति को हत्या में शामिल होने के आरोप में जेल की सलाख़ों के पीछे भेजा जा रहा है? क्यों उसे अपराधबोध नहीं था? क्यों उसके साथ चलने वाले लज्जित नहीं थे? अगर सोहराबुद्दीन शेख़ अपराधी भी था, जैसा कहा अमित शाह ने, और प्रकाश जावडेकर ने एक टेलीविज़न चैनल पर चर्चा में भाग लेते हुए या फिर नरेंद्र मोदी ने या उस पार्टी के ज़िम्मेदारों ने, अगर इसको सही भी मान लिया जाए तो भी क्या किसी अपराधी को बिना किसी अदालती फैसले के खुले आम हत्या करने का फैसला प्रशंसनीय है? तब तो किसी अदालत की ज़रूरत ही नहीं? किसी मुक़दमे की आवश्यकता ही नहीं? एक राज्य का गृह मंत्री अपने मातहत पुलिस अधिकारियों को आदेश दे और हत्या कर दी जाए, क्या यह उचित है? अगर हां तो फिर अदालतों का क्या महत्व है। अगर नहीं तो सोहराबुद्दीन के मामले में फैसला अदालत को करना था, आज भी अदालत के बाहर उसे आतंकवादी या अपराधी सिद्ध करने वाले क्या अदालत को प्रभावित करने का प्रयास नहीं कर रहे हैं? क्या अपने प्रभाव तथा पहुंच और राजनीतिक शक्ति से अदालतों की स्वतंत्रता छीन लेने का हथियार नहीं है यह?

प्रधानमंत्री के खाने की दावत में भारतीय जनता पार्टी के वरिष्ठ नेताओं ने शामिल होने से इन्कार कर दिया, इसलिए कि वह नाराज़ थे अमित शाह के सीबीआई के शिकंजे में फंस जाने से। वह सीबीआई पर आरोप लगा रहे थे, क्या भारतीय जनता पार्टी के नेताओं का यह व्यवहार उचित क़रार दिया जा सकता है? यह पहला अवसर नहीं है, जब भारतीय जनता पार्टी ऐसे सभी लोगों को किसी भी क़ानून से ऊपर समझती है, जो उसकी सोच से मेल खाते हैं, फिर चाहे वह कितने ही बड़े अपराध में लिप्त क्यों न हों। यही किया था लाल कृष्ण आडवानी ने साध्वी प्रज्ञा सिंह की गिरफ़्तारी और उसके शपथ पत्र के बाद। इलैक्शन का समय था, लाल कृष्ण आडवानी माले गांव बम ब्लास्ट की आरोपी साध्वी प्रज्ञा सिंह ठाकुर का शपथ पत्र लिए घूम रहे थे। वह गृह मंत्री से मिले, प्रधानमंत्री डा॰ मनमोहन सिंह से मिले। राष्ट्रीय सुरक्षा सलाहकार ने उनके घर पर हाज़री दी, उद्देश्य साध्वी प्रज्ञा सिंह निःसंदेह आरोपी हों, उनके साथ सम्मान तथा आदर का व्यवहार किया जाए और जेल को उनके लिए शाही मेहमान ख़ाना बना दिया जाए। हमने देखे हैं साध्वी प्रज्ञा सिंह के वे चित्र, जब शहीद हेमंत करकरे ने मालेगांव बम ब्लास्ट के बाद उसे जेल की सलाख़ों के पीछे भेजा था। कितना परेशान तथा भयभीत चेहरा था वह जब पुलिस कांस्टेबल साध्वी प्रज्ञा सिंह को जेल की ओर ले जा रही थीं, लेकिन शहीद हेमंत करकरे की हत्या के बाद फिर एक और चित्र हमारे सामने था, दृश्य अब भी जेल के लिए ले जाए जाने का था, परंतु इस बार एक खिलखिलाता, मुस्कुराता चेहरा हमारे सामने था। हम यह दोनों चित्र पाठकों के सामने अपने इस लेख के साथ प्रस्तुत करने जा रहे हैं, ताकि वह दोनों की तुलना कर सकें इसलिए कि यह चित्र बहुत कुछ बोलते हैं, साध्वी प्रज्ञा सिंह के हों या अमित शाह के।

अमित शाह के केस को सामने रख कर एक टेलीविज़न चैनल ने सीबीआई की भूमिका पर चर्चा का एक कार्यक्रम प्रस्तुत किया। भाग लेने वालों में भारतीय जनता पार्टी के प्रकाश जावडेकर और कांगे्रस के मोहन प्रकाश थे। जब जब मोहन प्रकाश ने अमित शाह के अपराध और सीबीआई की भूमिका को सामने रखने का प्रयास किया, बात को पूरा करने का अवसर नहीं मिला। साथ ही प्रश्न को सीमित रखा गया केवल इस बात तक कि सीबीआई का राजनीतिक प्रयोग हो रहा है या नहीं। दर्शकों के विचार भी इसी प्रश्न की रौशनी में मंगाए गए। हम किसी एक चैनल की बात नहीं करंे तो भी अनेक अवसरों पर देखा है हमने कि ऐसे मौक़ों पर एंकर पूरी तरह निष्पक्ष नहीं रह पाते। सीबीआई का राजनीतिक प्रयोग हो रहा है या नहीं, यह चर्चा का विषय है, जिस पर चर्चा ज़रूर होनी चाहिए और इस दायरे को इतना विस्तृत कर देना चाहिए कि कब कब, किस किस सरकार ने, किन किन मामलों में सीबीआई का अवैध प्रयोग किया और फिर उन सबको सबके सामने रखा जाना चाहिए, परंतु आज अगर सवाल यह होता कि अमित शाह की गिरफ़्तारी को एक जश्न का रूप दिया जाना चाहिए या नहीं और उसे जश्न का रूप देने वाले एक आरोपी का विजयी अंदाज़ में जेल जाना आख़िर किस मानसिकता को दर्शाता है। तो बात कुछ और होती परंतु नहीं, शायद ऐसे विषय चर्चा के योग्य नहीं समझे जाते। अगर हम यह मानते हैं कि अमित शाह उस समय तक अपराधी नहीं ठहराए जा सकते जब तक उनका अपराध सिद्ध न हो जाए तो फिर यह केवल अमित शाह के साथ ही क्यों, अन्य सैकड़ों, हज़ारों अपराधी भी तो उस समय तक अपराधी ठहराए नहीं जा सकते, जब तक कि उनका अपराध सिद्ध न हो जाए। हमने कितनी बार, कितने लोगों का ऐसा ख़ुशी भरा जुलूस देखा है, जिन पर हत्या या आतंकवाद का आरोप हो। मैंने यहां हत्या तथा आतंकवाद को एक साथ इसलिए लिखा कि जब इस अंदाज़ में हत्या की घटनाएं घटित होती हैं, उन्हें आतंकवाद से किस हद तक अलग रखा जा सकता है, यह कोई ज़मीन जायदाद का मामला नहीं था, यह कोई रुपए पैसे के लेनदेन या पारिवारिक दुश्मनी नहीं थी परंतु इस जश्न का विजयी अंदाज़ यही दर्शाता है, फिर बात अमित शाह की हो या नरेंद्र मोदी की या कुछ और पीछे जा कर देखें तो नाथु राम गौडसे की, इस विशेष मानसिकता रखने वाले लोग क़ानून को अपने हाथ में लेकर धर्मनिर्पेक्षता, साम्प्रदायिक सदभावना तथा क़ानून की हत्या करना अपने लिए गौरव की बात समझते रहे हैं। उस समय भी नाथु राम गौडसे ने महात्मा गांधी की हत्या की थी तो कुछ क्षेत्रों में मिठाइयां बांटी गईं, नाथु राम गौडसे को छुड़ाने के यथासंभव प्रयास किए जाते रहे, यहां तक कि बड़े घरों की महिलाओं ने उसके लिए स्वेटर बुन कर भेजे। यह सब उदाहरण हैं, उस मानसिकता को समझने का और इसे समझने की अत्यंत आवश्यकता है, इसलिए कि हमारा देश सारी दुनिया में शांति तथा एकता और गंगा जमनी संस्कृति के लिए ही जाना जाता है। आज ऐसे लोग अपने राजनीतिक उद्देश्यों के मद्देनज़र न केवल उन परम्पराओं का ख़ून कर रहे हैं बल्कि देश को साम्प्रदायिकता तथा आतंकवाद की आग में भी झोंक रहे हैं।

शहीद हेमंत करकरे के हत्या 26/11 को हुए आतंकवादी हमले की एक घटना थी या कुछ और’ह्न? जैसे-जैसे समय बीतेगा यह हक़ीक़त भी सामने आ ही जाएगी, परंतु आज जिन दृश्यों की चर्चा करते हुए मैंने अपने लेख की शुरूआत की, उससे बहुत अलग शहीद हेमंत करकरे की हत्या का माहौल भी नहीं था। ऐसी तमाम रिपोर्टें आज भी सुरक्षित हैं जिनसे यह स्पष्ट होता है कि जांबांज़ पुलिस अधिकारी हेमंत करकरे की हत्या की ख़बर के बाद नरेमन हाऊस में ख़ुशियां मनाई गईं। हमने अपने पिछले क्रमवार लेख ‘‘मुसलमानाने हिंद’ह्न माज़ी, हाल और मुस्तक़बिल???’’ की 100वीं क़िस्त में इस घटना के विवरण को प्रकाशित किया है। हमारे पाठक इन घटनाओं से भी अनभिज्ञ नहीं होंगे, जिनमें 26/11 को हुए आतंवादी हमले से पूर्व उन्हें जान से मारने की धमकियां दी जा रही थीं।

मालेगांव बम ब्लास्ट की वास्तविकता बेनक़ाब हो गई तो देश व्यापी स्तर पर क्या हंगामा खड़ा हुआ, प्रतिरक्षा में कौन कौन से चेहरे सामने आए, कितने जलसे-जुलूस आयोजित किए गए, साध्वी प्रज्ञा सिंह को एक नायक के रूप में प्रस्तुत करने के कितने प्रयास किए गए। बाल ठाकरे ने प्रज्ञा सिंह की शान में कितने गुणगान किए, मध्य प्रदेश की मुख्यमंत्री रह चुकीं उमा भारती ने अपने टिकट पर चुनाव लड़ाने का निमंत्रण दिया, उसके बाद जब जब भी ऐसे लोग जो एक विशेष समुदाय से संबंध रखते हैं, आतंकवाद के आरोप में गिरफ़्तार हुए या उनके नाम आतंकवादी मामलों में लिप्त नज़र आए, इस विशेष मानसिकता के लोगों ने हंगामा खड़ा करने में कोई कसर नहीं छोड़ी। अगर हम क़ानून को, पुलिस को और ख़ुफ़िया एजेंसियों को, सरकारों को इसी तरह प्रभावित करने की कोशिशें करते रहेंगे तो फिर आतंकवाद की घटनाओं में कमी कैसे आएगी, निष्पक्ष जांच या न्याया कैसे होगा? क्या हमने यह मन बना लिया है कि किसी भी बम धमाके के बाद, किसी भी आतंकवादी हमले के बाद अगर एक विशेष समुदाय के लोग गिरफ़्तार किए जाएंगे, जेल की सलाख़ों के पीछे भेजे जाएंगे तो चाहे वह अपराधी हों या न हो, हम स्वीकार कर लेंगे कि हां यही आतंकवादी हैं, इन्हें ही आतंकवादी सिद्ध होना चाहिए। देश भर में उनके नामों और धर्म का प्रचार होगा, इनके हवाले से एक पूरे समुदाय को बदनाम करने का सिलसिला शुरू होगा। पुलिस तथा ख़ुफ़िया एजेंसियों की जांच उसी दिशा में आगे बढ़े कि वह आरोपी क़रार पाएं, इस तरह का माहौल पैदा किया जाएगा, इतने धरने प्रदर्शन होंगे, इतनी आवाज़ें उठेंगी, मीडिया के लिए लगातार ऐसे ही समाचार सामने रखना मजबूरी बन जाएगा। परिणाम अदालत का मन बनाना कि वह अपराधी हों या न हों, वही अपराधी ठहराए जाएं और सज़ा के पात्र समझे जाएं। यह माहौल इस हद तक इस देश पर हावी हो गया है कि जो ऐसे अपराधियों की हक़ीक़त जानते हैं। भले ही वह बटला हाऊस एन्काउन्टर में मारे गए आतिफ़ और साजिद ही हों कि उनके पक्ष में आवाज़ उठाने वालों को आतंकवादियों का हितैषी ठहराकर उनको हतोत्साहित किया जाएगा, उन्हें अपमानित किया जाएगा, भले ही उनमें यूनिवर्सिटी के वाइस चांसलर जैसे व्यक्ति का नाम ही शामिल क्यों न हो। कारण जिन्हें अपराधी सिद्ध करना है, वह अपराधी हों न हों, उनके विरुद्ध ऐसा माहौल तैयार किया जा सके कि कोई वकील उनका केस लड़ने का साहस कर सके। अगर कर भी ले तो अपनी जान से हाथ धोने के लिए तैयार रहे। ऐसी घटनाएं घट चुकी हैं मुम्बई के एडवोकेट शाहिद आज़मी का उदाहरण हमारे सामने है और अपनी तरह का यह अकेला उदाहरण नहीं है, हम अच्छी तरह जानते हैं लखनऊ, हुबली और धारवाड़ की जनसभाओं में हमने ऐसे वकीलों की कठिनाइयों की कहानी स्वयं अपने कानों से सुनी है। उनकी परेशानियों को अपनी आंखों से देखा है। यानी माहौल ऐसा तैयार किया जाता है कि न तो कोई उनका केस लड़ने और न कोई उनकी पैरवी के लिए आगे आए और जिन्हें बेगुनाह ठहराना है, चाहे वह कितने बड़े अपराधी हों आख़री फैसला आने से पूर्व उनके विजय जुलूसों द्वारा ऐसा माहौल तैयार किया जाए कि वह कभी सज़ा न पा सकें और अगर सज़ा के योग्य ठहराए भी जाएं तो समाज का एक बड़ा वर्ग उनके समर्थन में इस तरह खड़ा हो जैसे उन्होंने कोई महान कार्य अंजाम दिया है।

Saturday, July 24, 2010

دہشت گردی سے بھی زیادہ خطرناک ہے یہ ذہن سازی

عزیز برنی

نہیں ہم اس بات سے خوش نہیں ہیں کہ ہندو دہشت گردی کا چہرہ بے نقاب ہورہا ہے۔ ہندو بھائیوں کو ہم اپنے سے الگ نہیں سمجھتے۔ ہم الگ تھے بھی نہیں اور ہیں بھی نہیں۔ اس ملک کو غلامی کے شکنجے سے آزاد کرانے کی جنگ ہم نے کاندھے سے کاندھا ملا کر لڑی تھی۔ ہاں، کچھ لوگ تو انگریزوں کی غلامی کے پروانے پر دستخط کرنے والے اس وقت بھی تھے۔ آخر میرجعفر اور جے چند کس دور میں نہیں ہوتے، آج بھی ہیں تو حیرانی کیا اور ایسے غداروطن، کسی بھی مذہب اور کسی بھی قوم میں ہوسکتے ہیں۔ یہی بات دہشت گردی کے معاملے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ ہمارے نزدیک دہشت گردی صرف دہشت گردی ہے، خواہ اس کا کسی بھی مذہب کے لوگوں سے تعلق ہو۔ دراصل مذہب تو کوئی بھی دہشت گردی کی ترغیب نہیں دیتا، مگرکسی بھی مذہب کے ماننے والے دہشت گرد ہوسکتے ہیں۔ ہاں، اگر دہشت گردی کے اس چہرے میں کوئی بات قابل ذکر ہے تو وہ یہ کہ اب تک جو مسلمانوں کا دہشت گردی سے رشتہ جوڑتے رہے تھے، اسلام کو دہشت گردی کی ترغیب دینے والا مذہب قرار دیتے رہے تھے، قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دے کر اپنی مرضی کے مطابق اس کی تشریح کرتے رہے تھے، شاید اب انہیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کے لےے مجبور ہونا ہوگا۔ ہمیں یہ امید تو اب بھی نہیں ہے کہ ان کی زبانیں خاموش ہوجائیں گی، ان کا اندازفکر بدل جائے گا، وہ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرلیں گے، اپنے گناہوں کااعتراف کرلیں گے اور اب صحیح معنوں میں حب الوطنی کا ثبوت دیں گے۔ نہیں، جو اس ملک کو اپنا ملک ہی نہیں مانتے، ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے پر آمادہ ہیں، یہ بات سی بی آئی کی تفتیش میں آن ریکارڈ سارے ملک کے سامنے ہے، جسے انگریزی ٹی وی چینل’’ہیڈلائنس ٹوڈے‘‘ اور روزنامہ ’’میل ٹوڈے‘‘ کے حوالہ سے، ہم نے بھی شامل اشاعت کیا، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اب تک جن کی وطن سے محبت پر وہ سوالیہ نشان لگاتے رہے، آج خود ان کی حقیقت منظرعام پر آگئی ہے کہ دراصل انگلیاں اٹھانے والوں کو ہی اس ملک سے محبت نہیں ہے۔
ہمارا ملک گزشتہ چند برسوں سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ یوں تو فرقہ وارانہ فسادات اور دہشت گردانہ حملوں کی تاریخ بہت پرانی ہے، مگر ہم گزشتہ چند برسوں کا ذکر اس لےے کررہے ہیں کہ شہید ہیمنت کرکرے نے اپنی تفتیش کے دوران جن دہشت گردوں کے چہرے بے نقاب کئے، پھر ان کے بعد لگاتار متعدد بم دھماکوں کی تفتیش میں ایسے ہی چہرے سامنے آنے لگے۔ ہمیں اس وقت بھی افسوس ہوتا تھا، جب مفتی ابوالبشر جیسے شخص کو دہشت گرد بتاکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جاتا تھا، ہمیں اس وقت بھی بیحد افسوس ہوتا تھا، جب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے عاطف اور ساجد کو دہشت گرد بتاکر انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا جاتا تھا، ہمیں اس وقت بھی افسوس ہوا، جب عشرت جہاں کو دہشت گرد بتاکر مار ڈالا گیا، پھر سچ سامنے آیا کہ یہ انکاؤنٹر فرضی تھا، مگر اس وقت ہماری حیرانی کی انتہا نہیں رہی، جب ہندوستان پر سب سے بڑے دہشت گردانہ حملہ یعنی 26/11کی تفتیش کے سلسلہ میں ہمارے اعلیٰ افسران ڈیوڈکولمین ہیڈلی سے کچھ راز اگلوانے کے لےے امریکہ پہنچے اور واپس آنے کے بعد ان کے حوالے سے خبریں آئیں کہ عشرت جہاں لشکرطیبہ کی خودکش بمبار تھی اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہوئی کہ ہمارے وزیرداخلہ نے اس بیان کو سنجیدگی سے لیا۔ تفتیش کرنے گئے افسران سے کسی نے یہ جواب طلب نہیں کیا کہ آپ ممبئی میں ہوئے اس دہشت گردانہ حملہ کے بارے میں ایک ملزم سے جو اپنے گناہوں کا اعتراف کرچکا ہے، معلومات حاصل کرنے گئے تھے یا عشرت جہاں کے کیس کو ڈسکس کرنے کے لےے گئے تھے یا عشرت جہاں کے انکاؤنٹر پر اس کے دہشت گرد ہونے یا نہ ہونے پر ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کی رائے لینے گئے تھے۔ کیا آپ کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی سے پوچھ گچھ کے بہانے نریندرمودی اور سرکار کا دفاع کس کس طرح کرسکتے ہیں؟ ہم نے ان واقعات کا ذکر صرف اس لےے کیا ، کیوں کہ ہم اس ذہنیت کو سامنے رکھنا چاہتے تھے، جنہیں ان فرقہ پرست طاقتوں نے اس مقام پر پہنچادیا ہے کہ انہیں اتنا بھی اندازہ نہیں کہ ملک پر ہوئے اتنے خوفناک دہشت گردانہ حملہ کا سچ سامنے آنا کتنا ضروری ہے، بمقابلے اس بات کے کہ عشرت جہاں کے انکاؤنٹر پر نریندر مودی کا موقف صحیح ثابت ہوجائے۔
دہشت گرد ہندو ہیں یا مسلمان، اس وقت ہمارے لےے فکر کا موضوع یہ نہیں ہے، اس وقت ہمارے لےے زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ معاشرے کے اس اعلیٰ طبقہ کا مزاج بدلنے میں ان فرقہ پرست، تنگ نظر طاقتوں نے کامیابی حاصل کرلی ہے، جن سے ہم ملک کی تعمیر کی امید کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ جب کوئی جاہل گنوار یا معمولی پڑھا لکھا دہشت گرد ی کے واقعات میں ملوث نظر آتا ہے، تب یہ سوچ لیا جاتا ہے کہ حالات سے مجبور ہونے کی بنا پر یا اپنی جہالت کی بنیاد پر اسے گمراہ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی گئی۔ جب مسلمانوں کو دہشت گردی سے وابستہ ثابت کیا گیا تو وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ بابری مسجد سانحہ کا بدلہ لینے کے لےے دہشت گرد بن گئے ہیں۔ گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کا بدلہ لینے کے لےے دہشت گرد بن گئے ہیں۔ ایسا ہے یا نہیں، یہ بھی تفتیش کے بعد ہی سامنے آئے گا، ہم سب کو آج جس سوال پر سب سے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ ہمارا وہ ہندو طبقہ جو معاشرے میں اعلیٰ مقام رکھتا ہے، جسے تمام طرح کی سرکاری مراعات حاصل ہیں، جس کے لےے ہندوستان میں ہر طرح کی سہولتیں مہیا ہیں، وہ سرکار کا حصہ ہے، سرکار چلا رہا ہے، ملک کا نظام دیکھ رہا ہے، سرحد پر ہے تو ملک کی ذمہ داریاں اس کے پاس ہیں۔ اگر وہ کسی اسکول یا یونیورسٹی میں اعلیٰ مقام رکھتا ہے تو ملک کی آنے والی نسلوں کو اپنے ذریعہ دی گئی تعلیم و تربیت سے ایک بہترین شہری بناکر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے۔ اگر وہ کسی اسپتال میں ڈاکٹر ہے، تب بھی ایک عمدہ قابل احترام پیشہ سے منسلک ہے۔ تمام طرح کی سہولتیں انہیں مہیا ہیں، اگر ان جیسے لوگ دہشت گردی کو فروغ دینے لگیں، دہشت گردی کا حصہ بن جائیں، اسپتال میں استعمال ہونے والی دواؤں کا استعمال انسانوں کو نئی زندگی بخشنے کے لےے نہیں، ان کی جان لینے کے لےے کرنے لگےں، ہمارے وہ اساتذہ جو علم کی روشنی ہر گھر تک پہنچانے کے لےے اس ذمہ داری پرمامور کےے گئے ہیں، وہاں وہ ان لیباریٹریز میں بچوں کو سائنٹسٹ بنانے کی بجائے بم کس طرح بنائے جاتے ہیں، سکھانے لگےں اور اپنے ہی ملک میں اپنے ملک کے شہریوں کی جان لینے کے لےے آمادہ کرنے لگیں تو ہمیں سوچنا ہوگاکہ اب یہ معاملہ صرف دہشت گردی کا نہیں ہے، یہ معاملہ کسی ظلم یاناانصافی کا بدلہ لینے کا نہیں ہے، یہ معاملہ جہالت، لاعلمی یا کسی کے بہکاوے میں آجانے کا نہیں ہے، بلکہ یہ ملک دشمن عناصر کی ایک ایسی خطرناک سازش ہے، جس کا زہر ہمارے ملک کے ذمہ داروں کی رگوں میں سرایت کرگیا ہے۔ اب انتہا یہ ہوگئی ہے کہ ہماری فوج کے وہ افسران، جن پر ملک کی نگہبانی کی ذمہ داری چھوڑ کر ہم بے فکر ہوجاتے ہیں، وہ آج اس اسلحہ کا استعمال جو دشمن کی فوج کے لےے کیا جانا چاہےے، اپنے ہی لوگوں کی جان لینے کے لےے کرنے لگے ہیں اور مقصد صرف اتنا کہ اس قتل و غارت گری کا الزام ان کے سر چلا جائے، جنہیں وہ بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی ملک و قوم کی تباہی کی کوئی فکر نہیں، وہ چاہتے ہیں بس اتنا کہ جنہیں وہ ذلیل و خوار کرنا چاہتے ہیں، جنہیں بے عزت و بدنام کرنا چاہتے ہیں، کسی طرح انہیں مجرم ثابت کردیا جائے، وہ بدنام ہوجائیں۔ اب تک یہی ہوتا رہا ہے، مگر سچ سات پردوں میں بھی چھپایا جائے، آخر وہ ایک دن سامنے آتا ہی ہے۔ ہم نے بارہا یہ بات کہی ہے کہ ملک کی تقسیم صرف اس لےے عمل میں آئی تھی کہ مسلمان کی طاقت کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے، انہیں کمزور کردیا جائے اور ان پر ملک کی تقسیم کی ذمہ داری عائد کردی جائے۔ یہی ہوا بھی۔ مسلمان موردالزام ٹھہرائے گئے، انہیں بار بار کہا گیا کہ تمہیں تمہارا حصہ مل چکا ہے، تم یہاں کیوں ہو، نتیجہ ملک فرقہ پرستی کا شکار ہوا۔ گزشتہ 60برسوں سے ہم اس فرقہ پرستی کا خمیازہ بھگتتے چلے آرہے ہیں اور اب دہشت گردی کا ناگ ہمارے ملک اور قوم کو ڈس رہا ہے۔ ذہنیت وہی ہے، حکمت عملی وہی ہے، پہلے بھی مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہتے تھے، تب ملک کو دو ٹکڑوں میں بانٹنے کا الزام لگا کر اور اب بھی مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہتے ہیں، مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگاکر۔ ہم اس وقت کسی الزام کی صفائی دینا نہیں چاہتے۔ ہم کہنا صرف یہ چاہتے ہیں کہ اگر چند ہندو بھی دہشت گرد ہوتے تو بات اس قدر سنجیدہ نہیں تھی، مگر جو ذہنیت بنائی جارہی ہیں، وہ چند لوگوں کو دہشت گرد بنانے کی حد تک محدود نہیں ہے۔ اپنے بیان میں جو ’’ہیڈلائنس ٹوڈے‘‘ کے ذریعہ منظرعام پر لایا گیا ایک سنگھ پریوار کے رکن ڈاکٹر آر پی سنگھ کا قبول کرنا کہ 100 خودکش بمبار تو وہ صرف جموں سے ہی دے سکتا ہے، اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ کتنی بڑی تعداد میں اور کتنے منظم انداز میں دہشت گردی کے ذریعہ ملک کو تباہ کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جارہا ہے۔
ہمیں افسوس ہے کہ ان تمام سچائیوں کے سامنے آنے کے باوجود بھی ہم اس طرح متحرک نہیں ہیں، جس طرح کہ ہونا چاہےے۔ آج بھی بال ٹھاکرے جیسے لوگ کھلے عام یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہندو دہشت گرد ہوں، ہندو خودکش بمباردستے پیدا کریں اور ہم ان باتوں کو سن کر بھی درگزر کردیتے ہیں۔ یہ جملے ہمارے وزیرداخلہ کے کانوں تک پہنچے نہیں یا ان کا قانون اس قدر کمزور ہے کہ صرف کمزور لوگوںکو ہی دہشت گرد ثابت کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ بال ٹھاکرے جیسے قدآور لوگوں کے ان جملوں کو دہشت گردی کے زمرے میں لانے کا حوصلہ ابھی ان کے قانون میں نہیں ہے۔ میں چاہتا تھا کہ آج سنیل جوشی کا قتل کس طرح کیا گیا یا سنیل جوشی کون تھا، اسے کیوں مار دیا گیا یا اگر وہ زندہ رہتا تو کون سے راز سامنے آسکتے تھے، آپ کے سامنے رکھ دوں تاکہ آپ یہ سوچنے کے لےے بھی اپنے دل و دماغ کو آمادہ کرسکیں کہ شہیدہیمنت کرکرے اگر زندہ ہوتے تو اور کون کون سے چہرے بے نقاب ہوسکتے تھے اورکون کون سے دہشت گردانہ واقعات کی حقیقت ہمارے سامنے آسکتی تھی۔ ہاں یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ یہ سنیل جوشی تو ان کا اپنا تھا، ان کا اپنا تربیت یافتہ جبکہ ہیمنت کرکرے سے ان کا ایسا رشتہ نہیں تھا، جیسا کہ سنیل جوشی سے، لیکن یہ سب آج نہیں تین روز بعد یعنی منگل کو حیدرآباد اور محبوب نگر(آندھراپردیش) کے دورے سے واپسی کے بعد

आतंकवाद से भी अधिक घातक है यह मानसिकता
अज़ीज़ बर्नी

नहीं हम इस बात से प्रसन्न नहीं हैं कि हिन्दू आतंकवाद का चेहरा बेनक़ाब हो रहा है। हिन्दू भाइयों को हम अपने से अलग नहीं समझते, हम अलग थे भी नहीं और हैं भी नहीं। इस देश को गुलामी के चुंगल से आज़ाद कराने की जंग हमने कांधे से कांधा मिला कर लड़ी थी। हां, कुछ लोग तो अंग्रेज़ों की गुलामी के परवाने पर हस्ताक्षर करने वाले उस समय भी थे। आख़िर मीर जाफ़र और जय चंद किस दौर में नहीं होते, आज भी हैं तो आश्चर्य क्या और ऐसे देशद्रोही किसी भी धर्म और किसी भी क़ौम से हो सकते हैं। यही बात आतंकवाद के मामले में कही जा सकती है। हमारे लिए आतंकवाद केवल आतंकवाद है चाहे इसका किसी भी धर्म के लोगों से सम्बंध हो। दरअसल कोई भी धर्म आतंकवाद की प्रेरणा नहीं देता परन्तु किसी भी धर्म के मानने वाले आतंकवादी हो सकते हैं। हाँ मगर आतंकवाद के इस चेहरे में कोई बात उल्लेखनीय है तो वह यह कि अब तक जो मुसलमानों को आतंकवाद से जोड़ते रहे थे, इस्लाम को आतंकवाद की प्रेरणा देने वाला धर्म क़रार देते रहे थे, क़ुरआन की आयतों को का हवाला देकर अपनी मर्ज़ी के अनुसार उस का अर्थ बताते रहे थे, शायद अब उन्हें अपने गिरेबान में झाँक कर देखने के लिए मजबूर होना होगा। हमें यह आशा तो अब भी नहीं है कि उनकी ज़बानें चुप हो जाएंगी, उनकी सोच का ढंग बदल जाएगा, वह इस कड़वे सच को स्वीकार कर लेंगे, अपने गुनाहों को मान लेंगे और अब सही अर्थों में देशभक्ति का सबूत देंगे। नहीं, जा इस देश को अपना देश ही नहीं मानते, देश के विरूद्ध युद्ध छेड़ने पर उतारू हैं, यह बात सी.बी.आई की जांच में आॅन रिकाॅर्ड सारे देश के सामने है जिसे अंग्रेज़ी टी.वी चैनल ‘‘हेड लाईंस टुडे’’ और दैनिक “मेल टुडे” के हवाले से, जिसे हमने भी प्रकाशित किया, इस बात को चिन्हित करती है कि अब तक जिनकी देशभक्ति पर वे प्रश्नचिन्ह लगाते रहे, आज स्वंय उनकी हक़ीक़त सार्वजनिक हो गई है कि वास्तव में उंगलियां उठाने वालों को ही इस देश से प्रेम नहीं है।

हमारा देश पिछले कुछ वर्षों से आतंकवाद का शिकार रहा है। यूँ तो साम्प्रदायिक दंगे और आतंकवादी हमलों का इतिहास बहुत पुराना है परन्तु हम पिछले चंद वर्षों का उल्लेख इसलिए कर रहे हैं कि शहीद हेमन्त करकरे ने अपनी जांच के दौरान जिन आतंकवादियों के चेहरे बेनक़ाब किए, फिर उनके बाद लगातार अनेक बम धमाकों की जांच में ऐसे ही चेहरे सामने आने लगे। हमें उस समय भी दुख होता था जब मुफ़्ती अबुल बशर जैसे व्यक्ति को आतंकवादी बताकर जेल की सलाख़ों के पीछे भेज दिया जाता था, हमें उस समय भी अत्यधिक दुख होता था, जब जामिया मिल्लिया इस्लामिया में शिक्षा प्राप्त करने वाले आतिफ़ और साजिद को आतंकवादी बताकर एन्काउंटर में मार दिया जाता था, हमंे उस समय भी दुख हुआ, जब इशरत जहाँ को आतंकवादी बताकर मार डाला गया, फिर सच सामने आया कि यह एन्काउंटर फ़र्ज़ी था, परन्तु उस समय हमारे आश्चर्य की हद नहीं रही जब भारत पर सबसे बड़े आतंकवादी हमले यानि 26’”11 की जांच के सिलसिले में हमारे उच्चाधिकारी डेविड कोलमेन हेडली से कुछ राज़ उगलवाने के लिए अमेरिका पहुंचे और वापस आने के बाद उनके हवाले से खबरें आयीं कि इशरत जहाँ लश्कर तैयबा की आत्मघाती बमबार थी और उससे भी अधिक दुखद बात यह हुई कि हमारे गृहमंत्री ने इस बयान को गम्भीरता से लिया। जांच करने गए अधिकारियों से किसी ने यह जवाब तलब नहीं किया कि आप मुम्बई में हुए उस आतंकवादी हमले के बारे में एक आरोपी से जो अपने गुनाहों को स्वीकार कर चुका है, मालूमात प्राप्त करने गए थे या इशरत जहाँ के केस को डिस्कस करने के लिए गए थे या इशरत जहाँ के एन्काउंटर पर, उसके आतंकवादी होने या न होने पर डेविड कोलमेन हेडली की राय लेने गए थे। क्या आपको यह ज़िम्मेदारी दी गई थी कि डेविड कोलमेन हेडली से पूछताछ के बहाने नरेन्द्र मोदी और सरकार का बचाव किस-किस तरह कर सकते हैं। हमने इन घटनाओं का उल्लेख केवल इसलिए किया, क्योंकि हम उस मानसिकता को सामने रखना चाहते थे, जिन्हें इन साम्प्रदायिक शक्तियों ने उस स्थान पर पहुंचा दिया है कि उन्हें इतना भी अंदाज़ा नहीं कि देश पर हुए इतने भयानक आतंकवादी हमले का सच सामने आना कितना आवश्यक है। इस बात की अपेक्षा कि इशरत जहां के एन्काउंटर पर नरेन्द्र मोदी सरकार का दृष्टिकोण सही सिद्ध हो जाए।

आतंकवादी हिन्दू हैं या मुसलमान, इस समय हमारे लिए चिंता का विषय यह नहीं है, इस समय हमारे लिए अधिक चिंता की बात यह है कि समाज के उस उच्च वर्ग की मानसिकता बदलने में इस साम्प्रदायिक, संकुचित दृष्टि वाली शक्तियों ने सफ़लता प्राप्त कर ली है, जिनसे हम राष्ट्र के निर्माण की आशा करते थे और करते हैं। जब कोई अनपढ़, गंवार या मामूली पढ़ा लिखा आतंकवादी घटनाओं में लिप्त नज़र आता है, तब सह सोच लिया जाता है कि परिस्थितियों से मजबूर होने के कारण या अपनी अशिक्षा के आधार पर उसे गुमराह करने में कामयाबी हासिल कर ली गई है। जब मुसलमानों को आतंकवाद से जुड़ा हुआ साबित किया गया तो कारण यह बताया गया कि यह बाबरी मस्जिद गिराए जाने का बदला लेने के लिए आतंकवादी बन गए हैं, गुजरात में मुसलमानों के नरसंहार का बदला लेने के लिए आतंकवादी बन गए हैं। ऐसा है या नहीं, यह भी जांच के बाद ही सामने आएगा, हम सबको आज जिस प्रश्न पर सबसे अधिक गम्भीरता के साथ सोचने की आवश्यक्ता है वह यह कि हमारा वह हिन्दू वर्ग जो समाज में उच्च स्थान रखता है, जिसे हर प्रकार की सरकारी सुविधाएं प्राप्त हैं, जिसके लिए भारत में हर प्रकार की सुविधाएं व अधिकार उपलब्ध हैं, वह सरकार का भाग है, सरकार चला रहा है, देश की व्यवस्था देख रहा है, सरहद पर है तो देश की रक्षा की ज़िम्मेदारियाँ उसके पास हैं। यदि वह किसी स्कूल या यूनिवर्सिटी में उच्च स्थान रखता है तो देश की आने वाली नस्लों को अपने द्वारा दी गई शिक्षा दीक्षा से एक अच्छा नागरिक बनाकर देश को विकास के मार्ग पर चला सकता है। यदि वह किसी अस्पताल में डाक्टर है तब भी एक बढ़िया सम्मानीय व्यवसाय से सम्बद्ध है। हर प्रकार की सुविधाएं इन्हें प्राप्त हैं यदि उन जैसे व्यक्ति आतंकवाद को बढ़ावा देने लगें, आतंकवाद का हिस्सा बन जाएं, अस्पताल में इस्तेमाल होने वाली दवाओं का इस्तेमाल इंसानों को नया जीवन देने के लिए नहीं उनकी जान लेने के लिए करने लगे, हमारे वे शिक्षक जो ज्ञान का प्रकाश हर घर तक पहुंचाने के लिए होते हैं, वह इन प्रयोगशालाओं में बच्चों को वैज्ञानिक बनाने के बजाये बम किस तरह बनाए जाते हैं सिखाने लगें और अपने ही देश में अपने देश के नागरिकों की जान लेने के लिए तैयार करने लगें तो हमें सोचना होगा कि अब यह मामला केवल आतंकवाद का नहीं है, यह मामला किसी अत्याचार या अन्याय का बदला लेने का नहीं है, यह मामला अशिक्षा, अज्ञानता या किसी के बहकावे में आ जाने का नहीं है बल्कि यह देश विरोधी तत्वों का एक ख़तरनाक षड़यंत्र है जिसका विष हमारे देश के ज़िम्मेदारों की रगों में फैल गया है। अब हद यह हो गई है कि हमारी सेना के वे अधिकारी, जिन पर देश की सुरक्षा की ज़िम्मेदारी छोड़ कर हम निश्चिंत हो जाते हैं वे आज उन अस्त्र शस्त्र का इस्तेमाल, जो शत्रु सेना के लिए किया जाना चाहिए, अपने ही लोगों की जान लेने के लिए करने लगे हैं और उद्देश्य केवल इतना कि इस हत्या और विनाश का आरोप उनके सर चला जाए जिन्हें वे बदनाम करना चाहते हैं अर्थात देश व राष्ट्र के विनाश की कोई चिन्ता नहीं, वे चाहते हैं बस इतना कि जिन्हें वे अपमानित करना चाहते हैं, जिन्हें बेइज़्ज़त व बदनाम करना चाहते हैं, किसी तरह उन्हें अपराधी साबित कर दिया जाए। वे बदनाम हो जाएं अब तक यही होता रहा है परन्तु सच सात परदों में भी छुपाया जाए आखि़र वह एक दिन सामने आता ही है। हमने बार-बार यह बात कही कि देश का विभाजन केवल इसलिए हुआ था कि मुसलमानों की शक्ति को दो टुकड़ों में बाँट दिया जाए, उन्हें निर्बल कर दिया जाए और उन पर देश विभाजन का आरोप मंढ दिया जाए। यही हुआ भी। मुसलमान क़सूरवार ठहराए गये। इन्हें बार-बार कहा गया कि तुम्हें तुम्हारा हिस्सा मिल चुका है तुम यहाँ क्यों हो परिणाम स्वरूप देश साम्प्रदायिकता का शिकार हुआ। पिछले 60 वर्षों से हम इस साम्प्रदायिकता का दंश झेलते आ रहे हैं और अब आतंकवाद का नाग हमारे देश और क़ौम को डस रहा है। मानसिकता वही है, कार्य प्रणाली वही है, पहले भी मुसलमानों को बदनाम करना चाहते थे, तब देश को विभाजित करने का आरोप लगा कर और अब भी मुसलमानों को बदनाम करना चाहते हैं, मसलमानों पर आतंकवाद का आरोप लगा कर। हम इस समय किसी आरोप की सफ़ाई देना नहीं चाहते, हम कहना केवल यह चाहते हैं कि यदि कुछ हिन्दू भी आतंकवादी होते तो बात इस सीमा तक गम्भीर नहीं थी, परन्तु जो मानसिकता बनाई जा रही है वह कुछ लोगों को आतंकवादी बनाने की हद तक सीमित नहीं है। अपने ब्यान में जो ‘‘हेड लाईंस टुडे’’ के द्वारा सार्वजनिक किया गया एक संघ परिवार का सदस्य डा. आर.पी.सिंह का स्वीकार करता है कि 100 आत्मघाती बमबार तो वह केवल जम्मू से ही दे सकता है, इस बात को सिद्व करता है कि कितनी बड़ी संख्या में और कितने संगठित ढंग से आतंकवाद के द्वारा देश को नष्ट करने की योजना को अमली जामा पहनाया जा रहा है।

हमें अफ़सोस है कि इन सभी वास्तविकताओं के सामने आने के बावजूद भी हम इस तरह चिंतित नहीं हैं, जिस तरह होना चाहिए। आज भी बाल ठाकरे जैसे लोग खुलेआम यह कहते नज़र आते हैं कि अब समय आ गया है कि हिन्दू आतंकवादी हों, हिन्दू आत्मघाती दस्ते पैदा करें और हम इन बातों को सुन कर भी अनसुना कर देते हैं। यह वाक्य हमारे गृहमंत्री के कानों तक पहुंचे या नहीं या फिर उनका क़ानून इस क़दर कमज़ोर है कि सिर्फ कमज़ोर लोगों को ही आतंकवादी सिद्ध करने की क्षमता रखता है। बाल ठाकरे जैसे बड़े नेताओं के इन वाक्यों को आतंकवाद की श्रेणी में लाने का साहस अभी उनके के क़ानून में नहीं है। मैं चाहता था कि आज सुनील जोशी की हत्या किस तरह की गई या सुनील जोशी कौन था, उसे क्यों मार दिया गया या यदि वह जीवित रहता तो कौन से राज़ सामने आ सकता थे, आपके सामने रख दूं तांकि आप यह सोचने के लिए भी अपने मन मस्तिष्क को तैयार कर लें कि शहीद हेमंत करकरे अगर जीवित होते तो और कौन कौन से चेहरे बेनक़ाब हो सकते थे और कौन कौन सी आतंकवादी घटनाओं की सच्चाई हमारे सामने आ सकती थी। हां, यह भी ज़हन में रहे कि यह सुनील जोशी तो उनका अपना था, उनका अपना ट्रेनिंग दिया हुआ, जबकि हेमंत करकरे से उनका ऐसा रिश्ता नहीं था, जैसा कि सुनील जोशी से। लेकिन यह आज सब नहीं तीन दिन बाद अर्थात मंगलवार को हैदराबाद और महबूब नगर (आंध्र प्रदेश) के दौरे से वापसी के बाद।

Thursday, July 22, 2010

سنگھ پریوار یا آتنک پریوار؟

عزیز برنی

کچھ پیشے ایسے ہیں، جنہیں معاشرے میں انتہائی عظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ان میں ڈاکٹری کاپیشہ، درس و تدریس اور سرحدوں پر تعینات ملک کی حفاظت کی ذمہ داریاں نبھانے والے سرفہرست آتے ہیں۔ رسول اکرم حضرت محمد مصطفیؐ نے علم حاصل کرنے کے لےے چین تک جانے کی بات کہی۔ چین نہ تو اس وقت اسلامی تعلیمات کا مرکز تھا اور نہ ہی آج ہے۔ اگر ہمارے رسولؐ نے ہمیں یہ ہدایت دی کہ علم حاصل کرنے کے لےے چین تک جانے کی ضرورت پیش آئے تو بھی ضرور جایا جائے، یعنی علم حاصل کرنے کے لےے نہ تو فاصلوں کو ذہن میں رکھا جائے، نہ ملک کی سرحدوں کو، نہ علم کی روشنی دکھانے والوں کے مذاہب کو، یعنی علم جس سے بھی حاصل کرتے ہیں، ضرور کریں خواہ اس کا مذہب کوئی بھی کیوں نہ ہو۔
ڈاکٹری کا پیشہ بھی اس قدر قابل احترام پیشہ ہے کہ بہت سے لوگ اس پیشہ سے وابستہ افراد کو خدا کے بعد کا درجہ دیتے ہیں۔ اس لےے کہ وہ انسانوں کی جان بچانے کا کام انجام دیتا ہے۔ ہماری سرحدوں پر تعینات سپاہی صرف ملک کی سرحدوں کی حفاظت ہی نہیں کرتے، ہماری تہذیب کی بھی حفاظت کرتے ہیں اور اپنے ملک کے عوام کی بھی حفاظت کرتے ہیں۔ اگر بدقسمتی سے ہمارے درس و تدریس سے وابستہ افراد تعلیم دینے کی ذمہ داری نبھانے کی بجائے معاشرے کو گمراہ کرنے کی سمت میں چل پڑیں تو پھر ہم انہیں کیا کہیں گے۔ پنے کے واڈیا کالج میں شعبۂ کیمسٹری کے سربراہ پروفیسر انسانو ںکی جان لینے کے لےے بم سازی کی تربیت دینے کا کام کرتے رہے ہیں۔ اپولواسپتال کے ڈاکٹر آرپی سنگھ، جن کے کارناموں کے بارے میں کل کے مضمون میں روشنی ڈالی گئی تھی، وہ ملک کے نائب صدرجمہوریہ عالیجناب حامد انصاری صاحب کی جان لینے کے ارادہ سے تباہی کا سامان اپنے ساتھ لے کر دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پہنچے تھے، اب یہ الگ بات ہے کہ انہیں یہ موقع نہیں مل سکا (اللہ بڑا کارساز ہے)۔ کرنل پروہت اور میجراپادھیائے کے نام اب تک ہمارے قارئین کے ذہنوں میں پیوست ہوچکے ہوں گے۔ شہید ہیمنت کرکرے نے مالیگاؤں بم دھماکوں کی تحقیقات کرتے ہوئے ان کے ملک دشمن، انسانیت دشمن چہروں کو بے نقاب کیا تھا۔
باوجود ان تمام افسوسناک واقعات کے ہمارا اعتماد آج بھی ان تمام پیشوں سے وابستہ افراد پر قائم ہے اور ان انکشافات کے بعد بھی ان کی عظمت میں کوئی کمی نہیں ہوگی، اس لےے کہ چند افراد کے گمراہ ہوجانے سے ان باوقار پیشوں کی اہمیت کو کم کرکے نہیں دیکھا جاسکتا، مگر یہ لمحہ فکریہ ضرور ہے، جو ہم تمام ہندوستانیوں کو بلاتفریق مذہب و ملت متحدہوکر اس سمت میں سوچنے کے لےے مجبور کرتا ہے کہ سنگھ پریواراور اس کے کارندے آخر ملک اور اس ملک کے عوام کے مستقبل کو کس کس طرح تباہ کررہے ہےں۔ ہندوراشٹر کا خواب دکھانے والے کیا یہ ہندوؤں کے دوست ہےں؟ ہندو مذہب کی شان میں اضافہ کررہے ہیں؟ کیا یہ شری رام کے آدرشوں کے پیروکار نظر آتے ہیں؟ اپنے عمل سے تو قطعاً نہیں اور عمل اس کے برعکس ہے تو عقیدہ کیا خاک ہوگا۔ کون نہیں جانتا کہ بم دھماکوں میں مارے جانے والے بے گناہ ہندو بھی ہوتے ہیں اور مسلمان بھی۔ بیشک گرفتاریوں اور موردالزام ٹھہرائے جانے کے تعلق سے مسلمان ضرور نشانہ پر رہتے ہیں، مگر مرنے والوں کی تعداد میں ہندو بھائی کہیں زیادہ ہوتے ہیں، اگر ہم عبادت گاہوں پر کےے گئے بم دھماکوں کے علاوہ عوامی جگہوں کو ذہن میں رکھیں تو کیا ہم کسی بھی مقصدسے چلائی جارہی اس تحریک کی ستائش کرسکتے ہیں؟ کیا اس فعل کو برداشت کرسکتے ہیں، جو بے گناہ انسانوں کی جان لینے پر آمادہ ہو؟مانا کہ چند مسلمان دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرلےے جاتے ہیں، انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا کر اذیتیں دی جاتی ہیں، ان کے خاندان کے افراد رسوا ہوتے ہیں، ان کے مذہب اسلام کو بدنام کرنے کا بہانہ مل جاتا ہے، مگر کس قیمت پر؟ بے گناہ ہندو بھائیوں کا قتل کرکے؟ ان کی ماؤں کی گود کو سونی کرکے؟ ان گھروں کے چراغوں کو بجھا کر؟ کبھی دل پر ہاتھ رکھ کر ان ماؤں سے بھی پوچھا جائے، ان بہنوں سے بھی پوچھا جائے، جن کے بھائیوں کی کلائی اب ان کے سامنے راکھی باندھنے کے لےے نہیں ہوگی۔ ان بیوائوں سے پوچھا جائے، جن کی مانگ کا سندور اجڑچکا ہوتا ہے، کیا وہ محض مسلمانوں کو بدنام کرنے کے نام پر ان کے اپنوں کی جانوں کی قربانی دینے کے لےے تیار ہیں؟ ہمیں نہیں لگتا کہ ان میں سے کوئی ایک بھی اس سوال پر اپنی رضامندی کا اظہار کرے گا۔ اب رہا سوال ہندوراشٹر کے لےے چلائی جارہی تحریک کا تو یہ تحریک تو ہندوستان، مسلمان اور اسلام کی دشمنی کے لےے نظر آتی ہے۔ اس میں ہندوراشٹر کا سوال کہاں ہے؟ ملک بدنام ہوتا ہے، ایک مخصوص قوم بدنام ہوتی ہے، مذہب اسلام بدنام ہوتا ہے اور ملتا کیا ہے؟ تباہی، بے گناہ انسانوں کا قتل…
ذرا سوچئے! جو بے گناہ سلاخوں کے پیچھے سزا پا رہے ہوتے ہیں، وہ تو پھر بھی زندہ رہتے ہیں اور انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرکے چھوٹ جانے کا موقع بھی ہوتا ہے، لیکن جو اس بے گناہ اس خون آلودہ سیاست کی نذر ہوکر مارے جاتے ہیں، وہ تو پھر سے زندہ نہیں ہوتے۔ کیا ان جنونیوں کے اس فعل کی تائید کی جاسکتی ہے؟
ہم نے بہت پہلے شہیدہیمنت کرکرے کی ہلاکت پر سوال اٹھائے تھے۔ ایسی بہت سی دلیلیں پیش کی تھیں، ان کی اہلیہ محترمہ کویتا کرکرے سے بارہا مل کر ان کی آنکھوں میں جھانک کر ان کا درد پڑھنے کی کوشش کی تھی۔ کیوں واپس لوٹا دیا نریندرمودی کو اپنے دروازے سے؟ کیوں قبول نہیں کی ایک کروڑ روپے کی رقم؟ بہت کچھ لکھا تھا ہم نے اور انشاء اللہ پھر لکھیں گے، لیکن آج کے انگریزی روزنامہ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ (22-07-2010) کے صفحہـ5پر شائع ایک مختصر خبر کا حوالہ ضرور دینا چاہےے۔ یہ خبر واضح کرتی ہے کہ 26نومبر008کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کا شکار شہیدہیمنت کرکرے دراصل ایک جان لیوا سازش کا شکار تھے۔ مہاراشٹر کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس ایس ایم مشرف نے اپنی کتاب "Who Killed Karkare"میں ہیمنت کرکرے کا قاتل ہندو دہشت گردوں کو قرار دیا ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے دہلی سے شائع ہونے والے ایک اور انگریزی روزنامہ ’’میل ٹوڈے‘‘ کی اس انکشافاتی رپورٹ کا باقی حصہ بھی موجود ہے، جس کے چند اہم اقتباسات ہم نے اپنے کل کے مضمون میں شامل اشاعت کےے تھے اور آج پھر ہم اس خصوصی رپورٹ کا باقی حصہ اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔اس کے بعد ہماری تحریر کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اےک چشم دےد گواہ نے ، جس سے خفےہ اےجنسےوں نے پوچھ گچھ کی تھی دعویٰ کےا ہے کہ آر اےس اےس چےف موہن بھاگوت کے قرےبی معاون اندرےش کمار کو مکہ مسجد اور اجمےر درگاہ بم دھماکوں کا علم نہ ہو، ےہ ممکن نہےں، کےونکہ ان دھماکوں کا کلےدی مشتبہ ملزم سنےل جوشی ان کا ہی شاگرد تھا۔ ہےڈ لائنس ٹوڈے کے اسٹنگ آپرےشن مےں دہشت گردی کی سازش کے چشم دےد گواہ نے الزام لگاےا ہے کہ اندرےش کمار نے ہی سنےل جوشی کو دھماکوں کی تربےت و ترغےب دی تھی ۔ سنےل جوشی مدھےہ پردےش کے دےواس ضلع کا آر اےس اےس پرچارک تھا ، جس پر مکہ مسجد مےں بم دھماکے کرکے 17 لوگوں کو ہلاک کرنے اور اجمےر شرےف مےں بم دھماکے کرکے 2 افراد کی ہلاکت کا الزام ہے۔
اندرےش کمار آر اےس اےس کی حکمت عملی کا اہم رکن ہے۔واضح رہے کہ خفےہ اےجنسےاں پہلے ہی اندرےش کمار اور دےوندر گپتا کے رشتوں کی تفتےش کر چکی ہےں۔ دےوندر اجمےر بم دھماکوں کا اہم ملزم ہے۔ اجمےر دھماکوں کے بعد ہی سنےل جوشی کا دسمبر 2007 مےں دےواس مےں قتل کردےاگےا تھا۔ سنےل جوشی ’’ شام آر اےس اےس کا گجرات کا اےک رکن ہے جس کی جوشی سے بے حد قربت تھی، جب کوئی شخص کسی کا آقا ےا تربےت کار ہوتا ہے تو ےہ نا ممکن ہے کہ اسے ےہ معلوم نہ ہو کہ اس کے سامنے کےا چل رہا ہے۔ سنےل جوشی کو 2006 کے مالےگاؤں بم دھماکوں کی اہم ملزمہ اور جےل مےں مقےد پرگےہ سنگھ ٹھاکر کابھی قرےبی مانا جاتاتھا اور اےک مقامی کانگرےس لےڈر کے قتل کا الزام بھی اس پر عائد تھا۔
مئی اور جون 2006 کے درمےان شےام نے جوشی کے ساتھ جھارکھنڈ کا سفر کےا تھا۔ جوشی نے وہاں اسے 9 سم کارڈ مہےا کرائے تھے جس مےں سے 4 کا استعمال مکہ مسجد اور اجمےر بم دھماکوں کے IEDبلاک مےں کےاگےا تھا۔ شےام جوشی اور اسےما نند کے بےچ کی اہم کڑی بھی تھا۔ اسےما نند گجرات مےں اےک آشرم چلاتا ہے اور اس کا نام اجمےر اور مالےگاؤں بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ شےام کے مطابق ان دھماکوں والے دن شےام کو 7.45 پر سنےل جوشی نے فون کےا تھا اور 330 سکےنڈ تک اس سے بات کی تھی اور ےہ کہا تھا کہ شےام اسےما نند کو ےہ بتا دے کہ دےوالی سے قبل وہ اےک دھماکہ کر چکا ہے۔ شےام کے مطابق اسےما نند نے جوشی سے کہا تھا کہ وہ اس کے آشرم مےں آجائے کےونکہ اسے اس کی جان کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔
اسی دوران اےک اہم انکشاف ےہ بھی ہوا ہے کہ ہندوتو دہشت گردی کے اس نےٹ ورک کی جڑےں کافی گہری ہےں اور پنے کے واڈےا کالج کے شعبہ کےمسٹری کے سربراہ اور پروفےسر اس تنظےم کی بم سازی کی کارروائی کے استاد تھے۔بتاےا جاتاہے کہ شرد کنٹھے نے جو کہ فی الحال سی بی آئی کے زےرتفتےش ہےں ، پنے کے نزدےک واقع اےک پہاڑی علاقہ سنگھ گڑھ مےں اےک تربےتی کےمپ بھی چلاےاتھا۔ مہاراشٹر کی اے ٹی اےس ٹےم نے شرد کنٹھے سے مالےگائوں بم دھماکوں اور 2006 کے ناندےڑ بم دھماکوں کے سلسلے مےںسختی کے ساتھ پوچھ گچھ کی تھی۔راکےش دھائوڑے نے اس تربےتی کےمپ کے انعقاد مےں کنٹھے کی مدد کی تھی، اےک مجسٹرےٹ کے روبرو دئے گئے اپنے بےان مےں اس نے کنٹھے کے اس مشن سے متعلق جانکاری کاراز افشا کےا تھا ۔ مالےگائوں بم دھماکوں کا ملزم کنٹھے اور دھائوڑے فی الحال 2007بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ لےفٹےننٹ کرنل پرساد پروہت کے ساتھ ناسک جےل مےں بند ہےں۔ ’’ جون 2003مےں کنٹھے نے مجھے پنے سہادا سڑک اور سنگھ گڑھ قلعہ کے نزدےک واقع بنگلہ کا اس لحاظ سے سروے کرنے کے لئے کہاتھا کہ آےا ان مےں سے کون سی جگہ تربےت کےمپ کے لئے مناسب رہے گی اور مےں نے سنگھ گڑھ کو ہی اس کےمپ کے لئے مناسب بتاےاتھا۔‘‘ دھائوڑے کے اس بےان سے کنٹھے اور پروفےسر دےوکی عرفےت رکھنے والے ا ےک فوجی افسر کوسےکورٹی اےجنسےوں کو گرفت مےں لےنے کا موقع ملاتھا۔دھائوڑے نے بتاےاہے کہ دےوآگانشا مےں اےک تربےتی کےمپ کے انعقاد کے سلسلے مےں ہی وہاں آئے تھے۔پروفےسر دےو نے مجھے فوری طور پر دوٹارچ مہےا کرانے کے لئے کہاتھا۔مےں نے ان سے درےافت کےا تھا کہ کےا ان کا تعلق وی اےچ پی سے ہے ،تاہم انہوں نے مجھے اپنے کام سے کام رکھنے کی ہداےت دی تھی، پروفےسر دےو کی رہنمائی مےں ہی کنٹھے کے طلباء کو آتش گےر مادہ تےار کرنے کے لئے پےچےدہ کام کی تربےت دی گئی تھی۔
دھائوڑے کی اطلاع کے مطابق ، کنٹھے کے طلبا نے پنے کے مضافاتی علاقہ پودن دار قلعہ مےں ہی بم سازی کی تربےت حاصل کی تھی۔انہوں نے کچھ تھےلے ، پےڑول کا اےک کنستر، گتے کا اےک ڈبہ اور تےن چار بےئر کی بوتلےں کار مےں رکھے جانے کی ہداےت دی تھی۔ان سب اشےا کے ساتھ ہم لوگ کار سے اتر کر اس پہاڑی علاقہ مےں پہنچے تھے اور دوطالب علموں سے کہاگےاتھا کہ وہ اس علاقہ مےں گاڑےوں کی آمد ورفت پر نظر رکھےں۔
دھائوڑے نے تفتےش کاروں کو اس بات کی بھی تفصےلی معلومات فراہم کی تھی کہ دہشت گردی کے اس بھگوا برےگےڈ نے کس طرح آتش گےر مادہ اور ہتھےار فراہم کئے تھے۔دھائوڑے نے مجسٹرےٹ کو دئے گئے بےان مےں ےہ بھی انکشاف کےا ہے کہ ڈاکٹرکنٹھے نے انہےں رےلوے اسٹےشن کے قرےب اےک لاج کا انتظام کرنے کی بھی ہداےت دی تھی۔ ہداےات کے مطابق مےں اےک نوجوان کو اپنے ساتھ لے کر نزدےک ہی واقع متھرا لاج گےا تھا۔ ےہ نوجوان اےک بڑا سا تھےلا بھی اٹھائے ہوئے تھا۔ اس نے مجھے وہ پستول بھی دکھا ئی تھی جو اس نے اپنی قمےص کے نےچے چھپا رکھی تھی۔ نوجوان نے مجھے بتاےا تھا کہ اس تھےلے مےں آتش گےر مادہ ہے اور مےں اسے کنٹھے کی رہائش گاہ تک لے کر گےا تھا۔……………………………(جاری

संघ परिवार या आतंक परिवार?
अज़ीज़ बर्नी

कुछ व्यवसाय ऐसे हैं, जिन्हें समाज में अत्यंत सम्मान की दृष्टि से देखा जाता है, उनमें डाक्टरी का पेशा, पठनपाठन और सीमाओं पर तयनात देश की रक्षा की ज़िममेदारियां संभालने वाले सैनिक सर्वोपरिय आते हैं। रसूल-ए-अकरम हज़रत मुहम्मद मुस्तफ़ा सल्ल॰ ने शिक्षा प्राप्त करने के लिए चीन तक जाने की बात कही। चीन न तो उस समय इस्लामी शिक्षाओं का केंद्र था और न ही आज है। अगर हमारे रसूल सल्ल॰ ने हमें यह निर्देश दिया कि शिक्षा प्राप्त करने के लिए चीन तक जाने की आवश्यकता पड़े तो भी ज़रूर जाया जाए, यानी शिक्षा प्राप्त करने के लिए न तो दूरियों को मन में रखा जाए, न राष्ट्र की सीमाओं को, न शिक्षा का प्रकाश दिखाने वालों के धर्मों को, अर्थात शिक्षा जिससे भी प्राप्त करते हैं, अवश्य करें, चाहे उसका धर्म कोई भी क्यों न हो।

डाक्टरी का पेशा भी इतना सम्मानजनक है कि बहुत से लोग इस व्यवसाय से जुड़े व्यक्तियों को ईश्वर के बाद का स्थान देते हैं। इसलिए कि वह इन्सानों की जान बचाने का काम अंजाम देता है। हमारी सीमाओं पर तयनात सिपाही केवल देश की सीमाओं की रक्षा ही नहीं करते, हमारी संस्कृति की भी रक्षा करते हैं और अपने देश की जनता की भी रक्षा करते हैं। अगर दुर्भाग्यवश हमारे शिक्षा दीक्षा से जुड़े व्यक्ति शिक्षा देने का दायित्व निर्वाह करने के बजाय समाज को गुमराह करने की दिशा में चल पड़ें तो फिर हम उन्हें क्या कहेंगे। पुणे के वाडिया काॅलेज में कैमिस्ट्री विभाग के अध्यक्ष प्रोफ़ेसर इन्सानों की जान लेने के लिए बम निर्माण का प्रशिक्षण देने का काम करते रहे हैं। अपोलो अस्पताल के डा॰ आर॰पी॰ सिंह, जिनके कारनामों के बारे में कल के लेख में प्रकाश डाला गया था, वह देश के उपराष्ट्रपति महामहिम हामिद अन्सारी साहब की जान लेने के इरादे से विनाश की सामग्री अपने साथ लेकर दिल्ली के जामिया मिल्लिया इस्लामिया पहुंचे थे अब यह अलग बात है कि उन्हें यह अवसर नहीं मिल सका। (अल्लाह बड़ा कारसाज़ है।) कर्नल पुरोहित और मैजर उपाध्याय के नाम अब तक हमारे पाठकों के मन में समा चुके होंगे। शहीद हेमंत करकरे ने मालेगांव बम धमाकों की जांच करते हुए उनके देश विरोधी, मानवता विरोधी चेहरों को बेनक़ाब किया था।

बावजूद इन सभी विडंबनापूर्ण घटनाओं के हमारा विश्वास आज भी उन सभी व्यवसायों से सम्बन्धित व्यक्तियों पर क़ायम है और इन रहस्योदघाटनों के बाद भी उनके सम्मान में कोई कमी नहीं होगी, इसलिए कि कुछ लोगों के गुमराह हो जाने से इन प्रतिष्ठित व्यवसायों के महत्व को कम करके नहीं देखा जा सकता, परंतु यह चिंता का विषय अवश्य है जो हम सभी भारतीयों को बिना धर्म और समुदाय के भेदभाव के संगठित होकर इस दिशा में सोचने के लिए मजबूर करता है कि संघ परिवार और उसके कारिंदे आख़िर देश और इस देश की जनता के भविष्य को किस किस तरह तबाह कर रहे है। हिंदू राष्ट्र का सपना दिखाने वाले क्या यह हिंदुओं के हितैषी हैं? हिंदू धर्म के गौरव में वृद्धि कर रहे हैं? क्या यह श्रीराम के आदर्शों के अनुयायी नज़र आते हैं? अपने कार्य से तो बिल्कुल नहीं और कार्य उसके विपरीत है तो आस्था क्या ख़ाक होगी। कौन नहीं जानता कि बम धमाकों में मारे जाने वाले बेगुनाह हिंदू भी होते हैं और मुसलमान भी। निसंदेह गिरफ़्तारियों तथा आरोपित ठहराए जाने के मामले में मुसलमान ज़रूर निशाने पर रहते हैं, परंतु मरने वालों की संख्या में हिंदू भाई कहीं अधिक होते हैं। अगर हम धार्मिक स्थलों पर किए गए बम धमाकों के अलावा सार्वजनिक स्थानों को मन में रखें तो! क्या हम किसी भी उद्देश्य से चलाए जा रहे इस अभियान की प्रशंसा कर सकते हैं? क्या इस कृत्य को सहन कर सकते हैं, जो बेगुनाह इन्सानों की जान लेने पर उतारू हों? माना कि कुछ मुसलमान आतंकवाद के आरोप में गिरफ़्तार कर लिए जाते हैं, उन्हें जेल की सलाख़ों के पीछे पहुंचा कर पीड़ाएं दी जाती हैं, उनके परिवार के सदस्य बदनाम होते हैं, उनके धर्म इस्लाम को बदनाम करने का बहाना मिल जाता है, परंतु किस क़ीमत पर? बेगुनाह हिंदू भाइयों की हत्या करके? उनकी माओं की गोद सूनी करके? उन घरों के चिराग़ों को बुझा कर? कभी दिल पर हाथ रख का उन माओं से भी पूछा जाए, उन बहिनों से भी पूछा जाए जिनके भाइयों की कलाई अब उनके सामने राखी बांधने के लिए नहीं होगी। उन विधवाओं से पूछा जाए, जिनकी मांग का सिंदूर उजड़ चुका होता है, क्या वह केवल मुसलमानों को बदनाम करने के नाम पर उनके अपनों के प्राणों की बलि देने के लिए तैयार हैं? हमें नहीं लगता कि उनमें से कोई एक भी इस प्रश्न पर अपनी सहमति व्यक्त करेगा। अब रहा प्रश्न हिंदू राष्ट्र के लिए चलाए जा रहे आंदोलन का, तो यह आंदोलन तो भारत, मुसलमान और इस्लाम की दुशमनी के लिए नज़र आता है। इसमें हिंदू राष्ट्र का प्रश्न कहां है? देश बदनाम होता है, एक विशेष समुदाय बदनाम होता है, इस्लाम धर्म बदनाम होता है और मिलता क्या है? तबाही, बेगुनाह इन्सानों की हत्या’ह्न

ज़रा सोचिए जो बेगुनाह सलाख़ों के पीछे सज़ा पा रहे होते हैं, वह तो फिर भी जीवित रहते हैं और उन्हें अपनी बेगुनाही सिद्ध करके छूट जाने का अवसर भी होता है, परंतु जो बेगुनाह, इस ख़ूनी राजनीति की भेंट चढ़ कर मारे जाते हैं, वह तो फिर से जीवित नहीं हो पाते, क्या उन जुनूनियांे के इस कार्य का समर्थन किया जा सकता है?

हमने बहुत पहले शहीद हेमंत करकरे की मृत्यु पर प्रश्न उठाए थे, ऐसे बहुत से प्रमाण पेश किए थे, उनकी पत्नी श्रीमति कविता करकरे से कई बार मिलकर उनकी आंखों में झांक कर उनकी पीड़ा को पढ़ने का प्रयास किया था। क्यों वापस लौटा दिया उन्होंने नरेंद्र मोदी को अपने दरवाज़े से? क्यों स्वीकार नहीं की एक करोड़ रुपए की राशि? बहुत कुछ लिखा था हमने और इन्शाअल्लाह फिर लिखेंगे। परंत आजके अंग्रेज़ी दैनिक ‘‘हिंदुस्तान टाइम्स (22-07-2010) के पृष्ठ 15 पर प्रकाशित एक संक्षिप्त समाचार का उल्लेख ज़रूर करना चाहेंगे जो यह स्पष्ट करता है कि 26 नवम्बर 2008 को मुम्बई पर हुए आतंकवादी हमले का शिकार शहीद हेमंत करके दरअसल एक जानलेवा षड़यंत्र का शिकार हुए थे। महाराष्ट्र के पूर्व आईजी पुलिस एसएम मुशरिफ़ ने अपनी पुस्तक ृृॅीव ज्ञपससमक ज्ञंतांतमश्श् में हेमंत करकरे का हत्यारा हिंदू आतंकवादियों को ठहराया है। इस समय हमारे सामने दिल्ली से प्रकाशित होने वाले एक और अंग्रेज़ी दैनिक ‘मेल टुडे’’ की उस खोजी रिपोर्ट का शेष भाग भी मौजूद है जिसके कुछ प्रमुख अंश हमने अपने कल के लेख में प्रकाशित किए थे और आज फिर हम इस विशेष रिपोर्ट का शेष भाग अपने पाठकों की सेवा में प्रस्तुत कर रहे हैं इसके बाद हमारे लेख का सिलसिला जारी रहेगा।

एक चश्मदीद गवाह ने, जिससे ख़ुफ़िया एजेंसियों ने पूछताछ की थी, दावा किया है कि आरएसएस प्रमुख मोहन भागवत के निकटवर्ती सहयोगी इंद्रेश कुमार को मक्का मस्जिद और अजमेर दरगाह बम धमाकों की जानकारी न हो यह मुमकिन नहीं, क्योंकि इन धमाकों का प्रमुख संदिग्ध आरोपी सुनील जोशी उनका ही शिष्य था। हैडलाइंस टुडे के स्टिंग आप्रेशन में आतंकवाद की साज़िश के चश्मदीद गवाह ने आरोप लगाया है कि इंद्रेश कुमार ने ही सुनील जोशी को धमाकों का प्रशिक्षण तथा प्रेरणा दी थी। सुनील जोशी मध्य प्रदेश के देवास ज़िले का आरएसएस प्रचारक था, जिस पर मक्का मस्जिद बम धमाका करके 17 लोगों को हताहत करने और अजमेर शरीफ़ में बम धमाका करके दो लोगों को हताहत करने का आरोप है।

इंद्रेश कुमार आर.एस.एस की रणनीति का महत्वपूर्ण सदस्य है। स्पष्ट रहे कि ख़ुफ़िया अजेंसियां पहले ही इंदे्रश कुमार और देवेंद्र गुप्ता के संबंधों की जांच कर चुकी है। देवेंद्र अजमेर बम धमाकों का प्रमुख अभियुक्त है। अजमेर धमाके के बाद ही सुनील जोशी की दिसंबर 2007 में देवास में हत्या कर दी गई थी। सुनील जोशी ‘‘श्याम आरएसएस का गुजरात का एक सदस्य है जिसकी जोशी से घनिष्टता थी, जब कोई व्यक्ति किसी का स्वामी या प्रशिक्षक होता है तो यह असंभव है कि उसे यह मालूम न हो कि उसके सामने क्या चल रहा है। सुनील जोशी को 2006 के मालेगांव बम धमाके की प्रमुख आरोपी और जेल में बंद प्रज्ञा सिंह ठाकुर का भी क़रीबी माना जाता था और एक स्थानीय कांग्रेसी नेता की हत्या का आरोप भी उस पर लगा था।’’

मई और जून 2006 के बीच श्याम ने जोशी के साथ झारखंड की यात्रा की थी, जोशी ने उसे वहां 9 सिम कार्ड उपलब्ध कराए थे जिसमें से चार का प्रयोग मक्का मस्जिद तथा अजमेर बम धमाकों में आईईबी ब्लाक में किया गया था। श्याम, जोशी और असीमानंद के बीच की प्रमुख कड़ी भी था। असीमानंद गुजरात में एक आश्रम चलाता है और उसका नाम अजमेर तथा मालेगांव बम धमाकों के मास्टर माइंड के रूपमें जाना जाता है। श्याम के अनुसार इन धमाकों वाले दिन श्याम को 7ः45 पर सुनील जोशी ने फोन किया था और 330 सैकेंड तक उससे बात की थी और यह कहा था कि श्याम असीमानंद को यह बता दे कि दीवाली से पूर्व वह एक धमाका कर चुका है। श्याम के अनुसार असीमानंद ने जोशी से कहा था कि वह इसके आश्रम में आ जाए क्योंकि उसे उसकी जान का ख़तरा महसूस हो रहा है।

इसी बीच एक महत्वपूर्ण रहस्योदघाटन यह भी हुआ कि हिन्दुत्व आतंकवाद के नेटवर्क की जड़ें काफ़ी गहरी हैं और पुणे के वाडिया काॅलिज के कैमिस्ट्री विभाग के अध्यक्ष और प्रोफ़ेसर इस संगठन की बम बनाने की कार्रवाई के शिक्षक हैं। बताया जाता है कि शरद कुंठे ने जो कि फिलहाल सीबीआई की पूछताछ में है, पुणे के निकट स्थिति एक पहाड़ी क्षेत्र सिंघ गढ़ में एक प्रशिक्षण शिविर भी चलाया था। महाराष्ट्र की एटीएस टीम ने शरद कुंठे से मालेगांव बम धमाकों और 2006 के नांदेड़ बम धमाकों के संबंध में सख़्ती के साथ पूछताछ की थी। राकेश धावड़े ने इस प्रशिक्षण शिविर के आयोजन में कुंठे की सहायता की थी, एक मैजिस्ट्रेट के सामने दिए गए अपने बयान में उसने कंुठे के इस मिशन से संबंधित जानकारी का राज़ फ़ाश किया था। मालेगांव बम धमाके के अभियुक्त कुंठे और धावड़े फिलहाल 2007 बम धमाकों के मास्टर माइंड लेफ्टिनेंट कर्नल प्रसाद पुरोहित के साथ नासिक जेल में बंद है। ‘‘जून 2003 में कुंठे ने मुझे पुणे सहादा सड़क और सिंघ गढ़ क़िला के निकट स्थित बंगले का इस लिहाज़ से सर्वे करने के लिए कहा था कि क्या इनमें से कौन सा स्थान प्रशिक्षण शिविर के लिए उचित रहेगा और मैंने सिंघ गढ़ को ही इस शिविर के लिए उचित बताया था।’’ धावड़े के इस बयान से कुंठे और प्रोफ़ेसर देव की उर्फि़यत रखने वाले एक सैनिक अधिकारी को सैक्योरिटी एजेंसियों को पकड़ने का अवसर मिला था। धावड़े ने बताया है कि देवागांशा में एक शिविर कैम्प के संबंध में ही वहां आए थे। प्रोफ़ेसर देव ने मुझे तुरंत दो टाॅर्च उपलब्ध कराने के लिए कहा था। मैंने उनसे पूछा था कि क्या उनका संबंध वीएचपी से है, यद्यपि उन्होंने मुझे अपने काम से काम रखने का निर्देश दिया था। प्रोफ़ेसर देव की अगुवाई में ही कुंठे के विद्यार्थियों को ज्वलंत सामग्री तैयार करने के लिए कठिन कार्य करने का प्रशिक्षण दिया गया था।

धावड़े की सूचना के अनुसार कुंठे के विद्यार्थियों ने पुणे के आसपास के क्षेत्रों पोदनदार क़िला में ही बम बनाने का प्रशिक्षण प्राप्त किया था। उन्होंने कुछ थैले, पैट्रोल का एक कनस्तर, गत्ते का एक डिब्बा और तीन चार बियर की बोतलें कार में रखे जाने का निर्देश दिया था। इन सब सामग्री के साथ हम लोग कार से उतर कर उस पहाड़ी क्षेत्र में पहुंचे थे और दो विद्यार्थियों से कहा गया था कि वह इस क्षेत्र में गाड़ियों के आवागमन पर नज़र रखें। धावड़े ने जांचकर्ताओं को इस बात की भी विस्तृत जानकारी उपलब्ध कराई थी कि आतंकवाद के इस भगवा ब्रिगेड ने किस प्रकार दो अग्नि शस्त्र पदार्थ और हथियार उपलब्ध कराए थे। धावड़े ने मैजिस्ट्रेट को दिए गए बयान में यह भी ख़ुलासा किया है कि डा॰ कुंठे ने उन्हें रेलवे स्टेशन के निकट एक लाॅज की व्यवस्था करने का भी निर्देश दिया था। निर्देश के अनुसार मैं एक युवक को अपने साथ लेकर पास ही स्थित मथुरा लाॅज गया था। यह युवक एक बड़ा सा थैला भी उठाए हुए था। उसने मुझे वह पिस्टल भी दिखाई थी जो उसने अपनी शर्ट के नीचे छुपाई हुई थी। युवक ने मुझे बताया था कि इस थैले में ज्वलंत पदार्थ है और मैं इसे कुंठे के आवास स्थान तक लेकर गया था।

....................................................................................(जारी)

تو یہ ہیں محب وطن.....؟

عزیز برنی

اپنے قسط وار مضمون’’آزاد بھارت کا اتہاس‘‘ کی 150ویں قسط کومیں ’مسئلہ کشمیر‘ کی نذر کرنا چاہتا تھا اور اس کی اشاعت کے لےے میرے ذہن میں اپنے سابقہ مضمون ’’مسلمانان ہند… ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟‘‘ کی 100ویں قسط کی طرح ایک دستاویزی حیثیت میں پیش کرنے کا منصوبہ ہندی، اردو اور انگلش تینوں زبانوں میں تھا اور جس طرح اسے 100صفحات سے زیادہ پر مشتمل میگزین کی شکل میں شائع کیا گیا تھا، اسی طرح مسئلہ کشمیر پر ہماری یہ پیشکش بھی ایک تاریخی دستاویز کی شکل میں سامنے آنی تھی۔ بہت حد تک ’عالمی سہارا‘ کے تازہ شمارہ ’’کشمیرـ010‘‘ کے ذریعہ ہم نے ایک ادنیٰ سی کوشش کی بھی ہے، لیکن فی الحال یہ ارادہ ہمیں ترک کرنا پڑا، کیوں کہ اس درمیان سنگھ پریوار کا وہ تباہ کن چہرہ پوری طرح منظرعام پر آگیا، جس سے نقاب اٹھانے کی کوششیں ہم اپنی زیرنظر اشاعتوں میں گزشتہ چند برسوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہم نے اپنے گزشتہ قسط وار مضمون ’’مسلمانانِ ہند… ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟‘‘ کی جس 100ویں قسط کا ابھی ذکر کیا، اس کے ادارےے میں بھی سنگھ پریوار کے اس چہرے کو سامنے رکھا تھا۔ اس وقت وہ اہم شمارہ بھی میرے سامنے ہے اور دہلی سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ ’’میل ٹوڈے‘‘ کا وہ خصوصی شمارہ بھی، جس میں اس نے نائب صدرجمہوریہ جناب حامدانصاری کے قتل کی سازش میں ملوث دہلی کے اپولو اسپتال کے ڈاکٹر آرپی سنگھ کی بات چیت کے حوالہ سے یہ واضح کیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی جڑیں کتنی گہری ہیں اور انہیں انجام دینے والے کس سطح کے لوگ ہیں۔5اگست کے بعد میں ایک بار پھر سنگھ پریوار کی دہشت گردانہ سرگرمیوں اور 9/11و6/11پر تفصیلی مضامین کا ایک سلسلہ شروع کرنے جارہا ہوں، لیکن آج کی یہ مخصوص تحریر اور اس کے بعد کے چند مضامین میں اس ہندودہشت گردی کے ذریعہ ملک کو لاحق خطرہ تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہوں، لہٰذا پہلے ایک پیراگراف اس تاریخی دستاویز سے، جو میں نے سنگھ پریوار اور ہندوراشٹرکا خواب دیکھنے والے فرقہ پرستوں کی ذہنیت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی گزشتہ مضمون کی 100ویں قسط میں لکھا تھااور ساتھ ہی ’میل ٹوڈے‘ کی انکشافاتی رپورٹ کے چند اہم اقتباسات اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے جارہا ہوں، اس کے بعد کل اسی موضوع پر میری گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا۔
)مسلمانانِ ہند…ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟‘‘کی 100ویں قسط سے
r
’’میں سنگھی، فرنگی اور جنگی تینوں کی ذہنیت سے اچھی طرح واقف ہوں، سنگھی وہ جو اس ملک کو ہندوراشٹر کے بہانے اپنی ناپاک ذہنیت کا غلام بناناچاہتے ہیں اور جنہیں شہید ہیمنت کرکرے بے نقاب کررہے تھے، فرنگی وہ ذہنیت ہے جو صرف برطانویوں تک محدود نہیں، آج امریکی ذہنیت اس سے کہیں زیادہ خطرناک شکل میں ہمارے سامنے ہے اور جو پوری دنیا میں اپنا غلبہ چاہتی ہے۔ اب رہا سوال جنگی کا تو یہ جنگی نام نہاد مجاہدین لشکرطیبہ، آئی ایس آئی، القاعدہ، انڈین مجاہدین یہ سب ان سنگھیوں اور فرنگیوں کے ہتھیار ہیں، ان میں شامل دہشت گرد مسلمان ہوسکتے ہیں، مگر یہ مسلمانوں کے جہادی گروپ نہیں ہوسکتے، اسلام پر عمل پیرا نہیں ہوسکتے، بلکہ یہ ان مندرجہ بالا طاقتوں کے کھلونے ہیں، جب سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا تھا تو یہی بن لادن اور القاعدہ بش خاندان کے بہترین دوست تھے، جب ایران کو تباہ کرنا تھا تو صدام حسین ان کی پہلی پسند تھے اور جب عراق کو تباہ کرنا تھا تو پاکستان ان کا دوست تھا، جب ہندوستان کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکنا تھا تو کشمیر کے راستے یہی لشکرطیبہ ان کا ہتھیار تھا، انہیں کی مدد سے یہ پروان چڑھا اور پاکستان کی خفیہ تنظیم آئی ایس آئی سے اندریش کے کتنے قریبی رشتے تھے، یہ انکشاف بھی کیا تھا شہید ہیمنت کرکرے نے اپنی جانچ میں کہ آئی ایس آئی سے 3کروڑ روپے حاصل کیے تھے اندریش نے۔ آج یہی سنگھی، فرنگی اور جنگی کے تکون میں چوتھا زاویہ شامل ہوا اسرائیل اور موساد کا، جو شاید 26نومبر008کوممبئی کے راستے ہندوستان پر دہشت گردانہ حملوں کے لئے ذمہ دار ہیں۔
ذرا سوچئے…! کیا صرف 10دہشت گرد پاکستان سے آکر ہندوستان پر اتنا بڑا حملہ کرسکتے ہیں، بغیر کسی کی مدد کے؟ اور ہاں! یہ عام لوگوں کی مدد سے بھی نہیں ہوسکتا، یہ تبھی ممکن ہے جب ملک کے بہت بڑے بااثر اور قدآور لوگوں کی سرپرستی ان کو حاصل ہو۔ غالباً اپنے ناپاک مقصد کو پورا کرنے کے لئے سنگھی، جنگی اور فرنگی سب کے اس گٹھ جوڑ نے 10بھاڑے کے ٹٹوئوں کا سہارا لے کر اور انہیں تمام طرح کی سہولتیں مہیا کراکر ہندوستان پر یہ شرمناک حملہ کیا اور وہی سب آج اس راز سے پردہ نہیں اٹھنے دینا چاہتے تاکہ ان کے مکروہ چہرے بے نقاب نہ ہوں۔
لیکن ایسا ہوگا نہیں، یہ آروشی مرڈر کیس کا معاملہ نہیں ہے، جو ایک گھرخاندان کی چہاردیواری تک محدود تھا، یہ ہمارے پیارے ملک ہندوستان کی آبرو کا معاملہ ہے، 100کروڑ ہندوستانیوں کی آبرو کا معاملہ ہے، اسے کب تک دبایا جاسکے گا۔ وطن کی آبرو پر مر مٹنے والے شہیدوں کی آواز کو، سرحد پر کھڑے ہوکر ملک پر قربان ہوجانے والے فوجیوں کی آواز کو، تاج، اوبرائے اور نریمن ہاؤس کو آزاد کرانے والے جانباز سپاہیوں کے ضمیر کی آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دبایا نہیں جاسکتا۔ کیا یہ سب نہیں جانتے کہ حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ نہیں جانتے کہ ان کے ساتھیوں کی یہ قیمتی جانیں کس مقصد کے لئے قربان ہوئی ہیں؟ ہاں ہوسکتے ہیں، ہماری پولس اور فوج میں دوچار گمراہ جو فریب میں آجائیں اور کوئی غلطی کربیٹھیں، مگر ہماری اسی فوج اور پولس کے بھروسے پر تو پورا ملک اور معاشرہ ٹکا ہے، کب تک ان کو بہکایا جاسکے گا، کب تک ان کی آواز کو دبایا جاسکے گا!
یہی بتائیں گے سچ، اس دہشت گردانہ حملہ کا! یہی بچائیں گے اپنے ملک کو اصلی اور نقلی دہشت گردوں سے، اسی مٹی میں جنمے ہیں یہ! یہ دھرتی ان کی ماں ہے اور ماں کی آبرو کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھے، اسے اس دھرتی کے سپوت کبھی برداشت نہیں کرسکتے۔ مصلحت، مجبوری، ڈر اور خوف کچھ دیر تو چپ رکھ سکتا ہے، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نہیں۔ آخر مرتا کون ہے، میدان میں جاکر، سینے پر گولی کون کھاتا ہے، کس کے بچے یتیم ہوتے ہیں، کس کا پریوار بے سہارا ہوتا ہے؟ کیا خیرات میں ملے یہ چاندی کے چند سکے اس خاندان کو اس کے گھر کا چراغ لوٹا سکتے ہیں؟
نہیں! اب اور گھروں میں اندھیرا ہونے نہیں دیں گے۔ کرسی کے بھوکے اور وطن کے غداروں کے لئے اپنی جانیں قربان نہیں ہونے دیں گے، جو نظارہ دیکھا گیٹ وے آف انڈیا اور پورے ہندوستان نے 29نومبر008کو وہی امن واتحاد کا نظارہ اب ساری دنیا دیکھے گی۔ ‘‘
تقریباً ڈیڑھ برس قبل لکھی گئی یہ چند سطریں آج اللہ کے کرم اور آپ سب کی دعائوں سے حقیقت کی شکل اختیار کررہی ہیں۔ مبارکباد کی مستحق ہے سی بی آئی، جس نے اس سچ کو دبایا نہیں، بلکہ فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے اس خطرناک بات چیت کو منظرعام پر لادیا۔ ہم نے اپنی مندرجہ بالا چندسطروں میں ایسے ہی محب وطن افسروں کو آواز دی تھی۔
ساتھ ہی مبارکباد کا مستحق ہے انگریزی روزنامہ ’’میل ٹوڈے‘‘ بھی، جس نے اس انکشافاتی رپورٹ کو نمایاں طور پر شائع کیا۔ ملاحظہ فرمائیں آشیش کھیتان کی یہ خصوصی رپورٹ:
0خفےہ اےجنسی CBI نے اپنی تحقےقات مےں ہندوتو کے ان ناپاک عزائم کا پردہ فاش کےا ہے، جن کے تحت وہ نائب صدر جمہورےہ حامد انصاری کو 2007 مےں جامعہ ملےہ اسلامیہ کے اےک کنووکےشن پروگرام مےں ہلاک کرنا چاہتے تھے۔ CBI کو ےہ جانکاری مالےگاؤں بلاسٹ کے ملزمان اور خود ساختہ شنکر آچارےہ دےانند پانڈے کے لےپ ٹاپ اور ان کی گفتگو کی آڈےو رےکارڈنگ کی جانچ کے دوران حاصل ہوئی ہے۔ CBI کو اہم سراغ شنکر آچارےہ اور دہلی اپولو اسپتال کے ڈاکٹر آر پی سنگھ کے بےچ ہوئی بات چےت سے بھی ملا۔ شنکر آچارےہ اور ڈاکٹر آر پی سنگھ کے بےچ ےہ بات چےت جنوری 2008 مےں ہوئی تھی۔
شنکر آچارےہ: ’’ملک کے نائب صدر جمہورےہ حامد انصاری جامعہ ملےہ کی اےوارڈ تقرےب مےں موجود تھے‘‘۔
ڈاکٹر آر پی سنگھ: ’’ مےں وہاں ان کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لئے گےا تھا، مےں اپنے ساتھ 15 لےٹر پٹرول بھی لے گےا تھا لےکن مجھے کچھ بھی کرنے کا موقع نہےں مل سکا‘‘۔
آڈےو رےکارڈنگ کی فورنسک جانچ ہونے پر دونوں لوگوں کی آواز کی تصدےق ہوئی۔ اس جانچ کے بعد CBI نے ڈاکٹر آر پی سنگھ سے پوچھ گچھ کی اور بعد مےں انہےں چھوڑ دےا، لےکن اس کے بعد سے ان سے کوئی پوچھ گچھ نہےں ہوئی جبکہ دےانند پانڈے کو مہاراشٹر اے ٹی اےس کے چےف ہےمنت کرکرے نے 26/11 ےعنی اپنی شہادت سے اےک دن قبل گرفتار کےا تھا اور وہ اب ناسک جےل مےں بند ہے۔
آڈےو رےکارڈنگ مےں پانڈے اور ڈاکٹر آر پی سنگھ کے درمےان کی یہ وہ گفتگو ہے جو فرےد آباد مےں ان لوگوں نے مبےنہ ہندو دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے کے لئے کی تھی۔ فرےد آباد کی اس مےٹنگ مےں مالےگاؤں دھماکے کا اہم ملزم لفٹےننٹ کرنل پروہت اور دہلی BJP کے لےڈر اور سابق اےم پی بی اےل شرمابھی موجود تھے۔ اس مےٹنگ مےں کرنل پروہت نے اےہ اعلان کےا تھا کہ اس کا ہندوستان کے آئےن سے اعتماد اٹھ چکاہے اور اب وہ ہندو راشٹر کے قےام کے لئے جنگ کا آغاز کرے گا۔
اس نے کہاکہ ’ اگر ہم اسی طرح ہندوستان کے آئےن پر بھروسہ کرتے رہے تو ہم بھی ان جےسے لوگوں کی طرح ہو جائےں گے، اس لئے ہم اس آئےن کے خلاف لڑائی لڑنا چاہتے ہےں۔ ہم اس ملک کے لئے لڑائی لڑےں گے جو ہمارا نہےں ہے۔ ہم آزادی کی لڑائی لڑےں گے ےعنی ہندو آزادی کی لڑائی۔
ےہ جانکارےاں بھی ہےڈ لائنس ٹوڈے نے اکٹھا کی ہےں۔ خفےہ ادارے سے جو کچھ معلومات حاصل ہوئی ہےں، اس سے صاف ہے کہ ڈاکٹر سنگھ بھگوا برےگےڈ کے دہشت گردی کا اہم ملزم ہے ، پھر بھی وہ آزاد ہے جبکہ دےانند پانڈے کو دہشت گردی کے الزام مےں جےل بھےجا جاچکا ہے۔
مہاراشٹر اے ٹی اےس نے ہےڈ لائنس ٹوڈے کو معلومات فراہم کرتے ہوئے بتاےا کہ ڈاکٹر سنگھ کے خلاف مالےگاؤں بلاسٹ کے سلسلے مےں کوئی پختہ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دےا گےا پھر بھی وہ CBI کی تفتیش کے دائرے مےں ہے۔
پانڈے کے لےپ ٹاپ کی رےکارڈنگ سے ڈاکٹر سنگھ کے کئی فرقہ وارانہ منصوبوں کا پتہ چلاہے، جیسے ’’ تمہارا نمبر اےک دشمن مسلمان ہے، مےںان کے قتل کا سلسلہ دہلی سے ہی شروع کروں گا، مےں قتل کے ساتھ ان ہزاردو ہزار لوگوں کو بھی لوٹوںگا جنہوںنے ےہاں شو روم کھول رکھے ہےں‘‘
اپنے اقبالےہ بےان مےں ڈاکٹر سنگھ نے ےہ بھی اعتراف کےا ہے کہ وہ اقلےتی فرقے کے لوگوں کو نشانہ بنانے کے لئے اسلحہ اور گولہ بارود بھی مہےا کراتا تھا۔ اےک مےٹنگ مےں وہ کرنل پروہت سے گرےنڈ، ڈیٹونےٹر اور آر ڈی اےکس مہےا کرانے کی بات کرتے ہوئے سنا گےا ہے۔
لیفٹےننٹ کرنل پروہت: ’’ ہم فون پر بات چےت کرتے رہےںگے، مےں آپ کو وہ سب اطلاعات دےتا رہوں گا جو کچھ مےں کرتا رہوں گا اور آپ جو کچھ کرےں اس کی بھی اطلاع ہمےں دےتے رہےں۔ اس کا مقصد ےہ ہے کہ ہم منصوبہ بندی مےں اےک دوسرے کی مدد کرسکےں۔ جہاں تک ٹرےننگ کےمپ کا مسئلہ ہے اس کے بارے مےں آپ ہم سے کبھی بھی ےعنی آدھی رات کو بھی بات کرسکتے ہےں‘‘۔
ڈاکٹر سنگھ: ہمےں ہائی وولٹےج، ڈےٹونےٹر ، بےٹرےز، گرےنڈ اور آر ڈی اےکس چاہئے۔ ہم نے جس سے رابطہ کےا تھا انہوں نے کہا کہ ےہ آرمی دے سکتی ہے، اگر ہمےں ےہ دستےاب ہو جاتا ہے توہم اےک عظےم جنگ شروع کرسکتے ہےں، ہم آپ کو کم سے کم جموں سے00 خود کش حملہ آور دے سکتے ہےں‘‘۔
بہر حال جےسا کہ CBI ہندو دہشت گردی کی کڑےاں جوڑ رہی ہے، اس سے لگتا ہے کہ ابھی وہ صرف اوپری سطح تک ہی پہنچ سکی ہے۔