Monday, September 20, 2010

فیصلہ تو آئے پر فاصلہ نہ بڑھنے پائے

عزیز برنی

جیسے جیسے4ستمبر کا دن قریب آرہا ہے، لوگوں کے دلوں کی دھڑکنیں بڑھتی جارہی ہیں،کچھ فکر بھی ہے اور کچھ خوف بھی۔ آج صبح جب دہلی کی وزیراعلیٰ محترمہ شیلا دیکشت نے فون پر گفتگو کرتے ہوئے یہ کہا کہ عزیز بھائی آپ کا اخبار بہت مقبول ہے اور آپ کا لکھا بہت پڑھا جاتا ہے اور اس وقت امن و اتحاد کا پیغام گھر گھر تک پہنچنا بے حد ضروری ہے، لہٰذا میری یہ درخواست ہے کہ آپ اپنے لفظوں میں میرا یہ پیغام ہر گھر تک پہنچادیں کہ ہم سب امن و اتحاد قائم رکھیں، افواہوں پر توجہ نہ دیں، لوگ جگہ جگہ اکٹھے ہوکر اس طرح کی باتیں نہ کریں، جس سے افواہیں پھیلانے والوں کو کوئی موقع ملے۔ ہماری اپنی طرف سے حفاظتی انتظامات کی تیاری مکمل ہے، لیکن عوام اور میڈیا کے تعاون کے بغیر یہ مشکل ہوگا۔
باتیں اور بھی ہوئیں، ان کے لہجہ میں ایک ایک لفظ سے ان کی ذمہ داری اور امن و اتحاد کے لئے فکرمندی کے جذبہ کا احساس ہورہا تھا۔ ان کی بات کا اصل مقصد یہی تھا کہ تمام ہندواورمسلمان 24ستمبر کو بابری مسجد کی ملکیت کے سلسلہ میں آنے والے فیصلہ کو لے کر قطعاً فکرمند نہ ہوں۔ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد سپریم کورٹ جانے کا راستہ سبھی کے لئے کھلا ہے۔ ہاں، مگر کچھ شرارتی عناصر ضرور ماحول بگاڑنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ہمیں ان سے محتاط رہنا ہے، انہیں ناکام بنانا ہے۔میں ان کے اس جذبہ کی قدر کرتا ہوں اور ان کی رائے سے اتفاق بھی رکھتا ہوں۔
کل صبح سے ہی تقریباً تمام ٹی وی چینلوں پر اور آج صبح کے اخبارات میں، میں نے دیکھا کہ دہلی کی جامع مسجد کے سامنے غیرملکی سیلانیوں کی بس پر حملہ کئے جانے کی خبر سرخیوں میں تھی۔ بیشک یہ خبر نظرانداز کئے جانے کے لائق تو قطعاً نہیں تھی، اس کا نشر کیا جانا اور شائع کیا جانا ضروری تھا۔ حکومت کے لئے ضرور یہ ایک فکرمندی کی بات تھی کہ وہ سمجھ لے کہ اس کا حفاظتی انتظام کتنا چست درست ہے یا اسے مزید بہتر بنانے کی کس حد تک ضرورت ہے۔ ساتھ ہی اس بات کے لئے ضرور اللہ کا شکر ادا کیا جانا چاہئے اور مستعد پولیس اہلکاروں کی تعریف بھی کی جاسکتی ہے، مگر جس طرح صبح 11.22بجے کے اس واقعہ کے بعد سے دیر رات تک اس خبر کے صرف ایک ہی پہلو کو لے کر گفتگو کی جاتی رہی، کیا اس سے پورے ملک میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا نہیں ہوگا؟ جیسا کہ میں نے ابتدا میں ہی عرض کیا کہ خبر نظرانداز کئے جانے کے لئے لائق نہیں تھی، اس پر بھرپور توجہ دینے اور سرکار کو متوجہ کرنے کی ضرورت تھی، مگر ایسی خبروں کو بہت زیادہ طول دینے کا نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ یقینا یہ کچھ شرارتی عناصر رہے ہوں گے، جن کا مقصد ماحول کو خراب کرنا ہی رہا ہوگا۔ یہ کسی دہشت گرد تنظیم کی منظم سازش کا حصہ نہیں لگتا، جیسا کہ پولیس کا ماننا بھی ہے، تاہم بی بی سی کو انڈین مجاہدین کی جانب سے ملے ایـمیل کی خبر بھی موضوع بحث رہی۔ 13ستمبر008کو دہلی میں ہوئے بم دھماکوں کے بعد سے جس نامعلوم دہشت گرد تنظیم ’’انڈین مجاہدین‘‘ کا نام سامنے آیا تھا، وہ ایک بار پھر سرخیوں میں نظر آیا۔ حالانکہ اس درمیان گزشتہ دو برسوں میں انڈین مجاہدین کا نام سننے کو نہیں ملا۔ جہاں تک ہمارا ماننا ہے، اس نازک وقت میں بغیر تصدیق کے کسی کے ذریعہ بھی کوئی ایسی بات نہیں کہی جانی چاہئے، جسے مذہبی تناظر میں دیکھا جاسکے، جس سے کسی مخصوص فرقہ کی طرف انگلیاں اٹھائی جاسکیں۔ دہشت گردانہ عمل کسی مسلمان کا ہو یا کسی ہندو کا، ایسی کوئی بھی کارروائی کسی مسلم دہشت گرد تنظیم کی جانب سے ہو یا ہندو دہشت گرد تنظیم کی جانب سے، پہلی کوشش اسے ناکام بنانے کی، مجرموں کو گرفتار کرکے انہیں ان کے کیفرکردار تک پہنچانے کی ہونی چاہئے، نہ کہ اس سے کوئی ایسا پیغام جائے کہ اشارہ کسی مخصوص مذہب کی جانب ہے۔
اس وقت رہ رہ کر ایک سوال ہر طرف سے ذہن میں ابھر رہا ہے کہ کیا پھردسمبرجیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ ہمیں دونوں واقعات کے فرق کو سمجھنا ہوگا۔ یہ فیصلہ عدالت کی جانب سے آنا ہے اور 6دسمبر992کو جو کچھ ہوا، وہ کسی عدالت کی جانب سے نہیں تھا، وہ ایک ہجوم تھا، جس کے جذبات کو مشتعل کردیا گیا تھا اور کرنے والوں کا سیاسی مقصد جگ ظاہر تھا، تاہم شاید وہ لوگ بھی جو اس کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے، ان ہنگامی حالات کے لئے تیار نہیں تھے۔جیسا کہ مسجد کی شہادت کے لئے ذمہ دار لیڈران کا بھی کہنا تھا کہ ان کا ارادہ مسجد کی عمارت کو مسمار کرنے کا یا نقصان پہنچانے کا قطعاً نہیں تھا، لیکن بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے، بھیڑ کو قابو میں رکھنا مشکل ہوگیا تھا۔ ان کی بات پوری طرح سچ ہویا نہ ہو، مگر اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مرکزی حکومت نے بھی یہی سوچا تھا کہ مسجد کے تحفظ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ آج خدانخواستہ اس فیصلہ کو لے کر کسی بھی جگہ لاکھوں لوگوں کے یکجا ہونے کا تو کوئی امکان نہیں ہے، پھر کون شخص ہے جو یہ نہیں جانتا تھا کہ عدالت میں چل رہے اس مقدمے کا ایک دن فیصلہ آنا ہے۔ ہمیں یعنی تمام ہندوستانیوں کو کسی بھی فیصلہ کو کھلے دل سے قبول کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے۔ ہمیں یعنی تمام ہندوستانیوں کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ فیصلے پر اطمینان نہ ہونے کی صورت میں، اسے اپنے موافق نہ پانے کی صورت میں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور یہ تو ہوگا ہی، فیصلہ چاہے جو بھی ہو، تب پھر کسی بھی منفی سوچ کو ذہن میں رکھنے کی وجہ کیا۔ ہاں، فکرمندی کی دو باتیں ہیںکہ کسی بھی طبقہ کی جانب سے عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد خوشی یا غصہ کے اظہار میں نکالے جانے والا جلوس لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بھی خراب کرسکتا ہے اور جذبات کو مشتعل کرکے فرقہ وارانہ تصادم کی شکل بھی دے سکتا ہے۔ بس اسی سے بچنے اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہرامن پسند سنجیدہ ہندوستانی کو اپنے اپنے طبقہ میں ذمہ داروں تک پہنچ کر انہیں اس بات کے لئے رجوع کرنا چاہئے کہ اپنی اپنی سطح پر وہ امن و اتحاد کی تلقین کریں۔ مثلاً مساجد میں تمام نمازوں کے بعد امن و اتحاد کی دعا ہو اور ہمارے پیش امام اپنے خطبات میں نمازیوں کو امن و اتحاد قائم رکھنے اور اس پیغام کو آگے تک پہنچانے کی درخواست بھی کریں۔ مسلمان اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ اور ہندو اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کے دل میں اٹھنے والے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ حال ہی میں ممبئی میں گنیش مورتی وسرجن کے وقت تک ماحول کا پرامن رہنا اور مکمل تقریب کا انتہائی خوبصورتی سے اختتام تک پہنچنا ایک بڑی اور حوصلہ افزا بات قرار دی جاسکتی ہے، کیوںکہ اسی دوران عیدالفطر کا تہوار بھی تھا۔ مہاراشٹر اور گجرات حساس ریاستیں ہیں۔ مہاراشٹر کے لئے ’’گنیش چترتھی‘‘ کا تہوار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ شیوسینا اورمہاراشٹر نونرمان سینا کو لے کر برابر فکرمندی بھی رہتی ہے، مگر جس طرح کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا، اس کو سامنے رکھ کر یہ امید تو بندھتی ہی ہے کہ 24ستمبر کا دن بھی سکون کے ساتھ گزر جائے گا۔ ہاں،مگر ملک گیر پیمانہ پر جہاں مرکزی حکومت کو کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا، وہیں ریاستی سرکاروں کو ضلع اور قصباتی سطح پر معقول تیاری رکھنی ہوگی، اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ بڑی تعداد میں جلسہ جلوس کی شکل میں لوگ ایک جگہ اکٹھا نہ ہوں۔ اگر اس دوران کچھ اہم تقریبات یا جلسہ جلوس اور کانفرنسوں کی اجازت پہلے ہی دے دی گئی ہے تو اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس کا موضوع یا اظہارخیال کرنے والوں کی تقاریر کسی کے بھی جذبات کو مشتعل کرنے والی نہ ہوں۔ ویسے سب سے بہتر صورتحال تو یہی ہوگی کہ عوام خود اپنے طور پر یہ ذمہ داری قبول کریں کہ بغیر کسی خاص ضرورت کے گھر کے باہر جاکر عوامی مقامات پر اکٹھا ہونے سے بچیں۔ کسی بھی طرح کے جلسہ جلوس میں شرکت نہ کریں، جہاں بھی اس کا اندیشہ ہو کہ اس کا تاثر غلط بھی جاسکتا ہے، اس جگہ یا اس عمل سے دور رہیں کیونکہ شرپسند عناصر ایسے کسی بھی موقع کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ باوجود ان تمام پیش بندیوں اور احتیاط کے اگر پھر بھی کہیں یہ نظر آئے کہ کوئی جلوس منعقد کیا جارہا ہے، اظہارمسرت یا فیصلہ سے غیرمطمئن ہونے کی شکل میں اظہار ناراضگی کے ساتھ کچھ نعرے بازی کی جارہی ہے تو آپ اس کے درمیان میں نہ آئیں، خاموشی سے کسی نزدیک کے محفوط مقام پر پناہ لیں۔ اگر یہ ممکن ہوسکے تو اپنے گھروں کے اندر رہیں۔ انتظامیہ کو مطلع کریں اور کسی کے اکسانے پر بھی جوابی کارروائی نہ کریں۔ انتظامیہ کو اطلاع دیتے وقت بھی احتیاطاً صرف ایک جگہ اطلاع دے دینا ہی کافی نہ سمجھیں، بلکہ ایک سے زیادہ ذمہ دار افسروں تک یہ اطلاع پہنچائیں کہ آپ فلاں علاقہ سے فلاں شخص بول رہے ہیں اور وہاں کی صورتحال حکومت اور انتظامیہ کے لئے توجہ طلب ہے۔ بلاتاخیر اپنے علاقہ کے پولیس تھانوں کے نمبر اور ذمہ دار افسروں کے نام مہیا کرلیں اور اپنے پاس حفاظت سے رکھیں۔ ممبران اسمبلی اور پارلیمنٹ، جو بھی آپ کے علاقہ کی نمائندگی کرتے ہوں اور علاقہ کے اخبار یا ٹیلی ویژن چینل ، ان کے دفاتر یا نمائندوں جن کے بھی نمبر آپ کو دستیاب ہوسکیں، ضرور اپنے پاس رکھیں تاکہ ضرورت پڑنے پر آپ ان سے رجوع کرسکیں۔ گھر سے باہر کسی بھی ضرورت کے پیش نظر جو شخص نکلے وہ اپنی شناخت ضرور اپنے ساتھ رکھے، تاکہ اچانک اس کی ضرورت پیش آئے تو اسے دکھایا جاسکے اور احتیاطاً ایسے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپیاں کراکر اپنے پاس ضرور رکھیں۔ کسی بھی افسر کے دیکھے جانے کے بعد اگر وہ اسے اپنے پاس چھوڑنے کی ضد کرے تو آپ اسے فوٹوکاپی دے کر اوریجنل اپنے پاس محفوظ رکھ سکیں۔ آپ خود اپنے علاقوں کے حساس مقامات کی نشاندہی کرلیں، اگر بہت ضرورت نہ ہو تو ایسی جگہوں پر جانے سے گریز کریں، جہاں پہلے بھی چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر فرقہ وارانہ تصادم ہوتا رہا ہے۔ یہ تمام احتیاطی قدم ہیں، ان کو سامنے رکھنے کا مقصد قطعاً یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ حالات کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتے ہیں، بلکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لئے محتاط رہنے کی غرض سے ایسی چند باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سب سے بہتر فیصلہ تو آپ خود لے سکتے ہیں، بہرحال ایسے موقعوں پر پڑوسیوں سے خوشگوار رشتے بہت کام آتے ہیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ 24ستمبر کو لے کر ہمارے دل و دماغ میں جتنے بھی خدشات ہیں، وہ انشاء اللہ دور ہوں گے، امن و سکون کے ساتھ یہ دن گزر جائے گا، پھر فیصلہ جو بھی آئے، بات صرف اس فیصلہ پر ہوگی۔ اس کے تعلق سے جو بھی قدم اٹھانے کی ضرورت ہوگی، ذمہ دار افراد اس سلسلہ میں اپنی پیش رفت جاری رکھیں گے۔ ہر شخص کو اس فکر میں اس قدر مبتلا نہیں ہونا چاہئے کہ معمول کی زندگی متاثر ہو۔
…………

फैसला तो आए पर फ़ासला न बढ़ने पाए
अज़ीज़ बर्नी

जैसे-जैसे 24 सितम्बर का दिन निकट आ रहा है, लोगों के दिलों की धड़कनें बढ़ती जा रही हैं, कुछ चिंता भी है और कुछ भय भी। आज प्रातः जब दिल्ली की मुख्यमंत्री श्रीमति शीला दीक्षित ने फ़ोन पर गुफ़्तगू करते हुए यह कहा कि अज़ीज़ भाई आपका अख़्बार बहुत लोकप्रिय है, आपका लेख बहुत पढ़ा जाता है और इस समय शांति और एकता का संदेश घर-घर तक पहुंचना बेहद आवश्यक है, इसलिए मेरा यह निवेदन है कि आप अपने शब्दों में मेरा यह संदेश हर घर तक पहुंचा दें कि हम सब मिलकर शांति व एकता बनाए रखें, अफ़वाहों पर ध्यान न दें, लोग जगह-जगह इकट्ठे होकर इस तरह की बातें न करें, जिससे अफ़वाहें फैलाने वालों को कोई मौक़ा मिले। हमारी अपनी तरफ़ से सुरक्षा व्यवस्था की तैयारी मुकम्मल है, लेकिन जनता और मीडिया के सहयोग के बिना यह कठिन होगा।

बातें और भी हुईं, उनके स्वर और एक एक शब्द से उनकी ज़िम्मेदारी और शांति तथा एकता के लिए चिंता की भावनाओं का एहसास हो रहा था। उनकी हर बात का असल उद्देश्य यही था कि तमाम हिंदू और मुसलमान 24 सितम्बर को बाबरी मस्जिद के स्वामित्व के संबंध में आने वाले फ़ैसले को लेकर क़तई चिंतित न हों। हाईकोर्ट के फ़ैसले के बाद सुप्रीमकोर्ट जाने का मार्ग सभी के लिए खुला है। हां, परंतु कुछ शरारती तत्व ज़रूर माहौल बिगाड़ने का प्रयास कर सकते हैं। हमें उनसे सचेत रहना है, उन्हें असफल बनाना है। मैं उनकी इस भावना का सम्मान भी करता हूं और उनकी राय से सहमति भी रखता हूं।

कल सुबह से ही लगभग सभी टेलीविज़न चैनलों पर और आज सुबह के समाचारपत्रों में मैंने देखा कि दिल्ली की जामा मस्जिद के सामने विदेशी सैलानियों की बस पर हमला किए जाने का समाचार सु़िर्ख़यों में था। निःसंदेह यह ख़बर अनदेखी किए जाने योग्य तो बिल्कुल नहीं थी, इसका प्रसारण किया जाना और प्रकाशित किया जाना आवश्यक था। सरकार के लिए ज़रूर यह एक चिंता की बात थी कि वह समझ ले कि उसकी सुरक्षा व्यवस्था कितनी चुस्त-दुरुस्त है या उसे और अधिक बेहतर बनाने की कितनी आवश्यकता है। साथ ही इस बात के लिए ज़रूर अल्लाह का शुक्र अदा किया जाना चाहिए और चैकस पुलिसकर्मियों की प्रशंसा भी की जा सकती है, परंतु जिस तरह सुबह 11.22 की इस घटना के बाद से देर रात तक इस समाचार के केवल एक ही पहलू को लेकर गुफ़्तगू की जाती रही, क्या उससे पूरे देश में भय तथा आतंक का माहौल पैदा नहीं होगा, जैसा कि मैंने आरंभ में ही कहा कि समाचार अनदेखी किए जाने योग्य नहीं थे, इस पर भरपूर ध्यान देने और सरकार का ध्यान आकर्शित करने की आवश्यकता थी। परंतु ऐसे समाचारों को बहुत अधिक तूल देने का नुक़सान भी हो सकता है। निश्चित ही कुछ शरारती तत्व रहे होंगे, जिनका उद्देश्य माहौल को ख़राब करना ही रहा होगा। यह किसी आतंकवादी संगठन के संगठित षड़यंत्र का भाग नहीं लगता, जैसा कि पुलिस का मानना भी है। फिर भी बीबीसी को इण्डियन मुजाहिदीन की ओर से मिले ई-मेल का समाचार भी चर्चा का विषय रहा। 13 सितम्बर 2008 को दिल्ली में हुए बम धमाकों के बाद से जिस अज्ञात आतंकवादी संगठन इण्डियन मुजाहिदीन का नाम सामने आया था वह एक बार फिर सुर्ख़ियों में नज़्ार आया। हालांकि इस बीच पिछले दो वर्षों में इण्डिण्यन मुजाहिदीन का नाम सुनने को नहीं मिला। जहां तक हमारा मानना है इस नाज़्ाुक समय में बिना पुष्टि किए किसी के द्वारा भी कोई ऐसी बात नहीं कही जानी चाहिए, जिसे धार्मिक परिपेक्ष में देखा जा सके, जिससे किसी विशेष समुदाय की ओर उंगलियां उठाई जा सकें। आतंकवादी कार्यवाही किसी मुसलमान की हो या किसी हिंदू की, ऐसी कोई भी कार्रवाई किसी मुस्लिम आतंकवादी, किसी संगठन की ओर से हो या हिंदू आतंकवादी संगठन की ओर से, पहला प्रयास उसे असफल बनाने का, अपराधियों को गिरफ़्तार करके उन्हें उनके अनजाम तक पहुंचाने का होना चाहिए, न कि उससे कोई ऐसा संदेश जाए कि संकेत किसी विशेष धर्म की ओर है। इस समय रह-रह कर एक प्रश्न हर तरफ़ से मन में उभर रहा है कि क्या फिर 6 दिसम्बर जैसी परिस्थितियां हो सकती हैं। हमें दोनों घटनाओं के अंतर को समझना होगा। यह फ़ैसला अदालत की ओर से आना है और 6 दिसम्बर 1992 को जो कुछ हुआ, वह किसी अदालत की ओर से नहीं था, वह एक भीड़ थी, जिसकी भावनाओं को भड़का दिया गया था और भड़काने वालों का राजनीतिक उद्देश्य जग ज़ाहिर था फिर भी शायद वह लोग भी जो इसका राजनीतिक लाभ उठाना चाहते थे इन आकस्मिक परिस्थितियों के लिए तेयार नहीं थे। जैसा कि मस्जिद की शहादत के लिए ज़िम्मेदार नेताओं का भी कहना था कि उनका इरादा मस्जिद की इमारत को ध्वस्त करने या क्षति पहुंचाने का क़तई नहीं था, लेकिन बड़ी संख्या में लोग एकत्र हो गये थे और भीड़ को नियंत्रण में रखना कठिन हो गया था। उनकी बात पूरी तरह सच हो या न हो परंतु इस सच्चाई से तो इनकार नहीं किया जा सकता कि केंद्र सरकार ने भी यही सोचा था कि मस्जिद की सुरक्षा को कोई ख़तरा नहीं है। आज ख़ुदानख़ास्ता इस फैसले को लेकर किसी भी जगह लाखों लोगों के एकत्र होने की तो कोई संभावना नहीं है, फिर कौन व्यक्ति है जो यह नहीं जानता था कि न्यायालय में चल रहे इस केस का एक दिन फैसला आना है। हमें अर्थात सभी भारतीयों को किसी भी फैसले को खुले मन से स्वीकार करने के लिए मानसिक रूप से तैयार रहना चाहिए। हमें अर्थात सभी भारतीयों को यह अधिकार भी प्राप्त है कि फैसले पर संतोष न होने की स्थिति में उसे अपने पक्ष में न पाने की स्थिति में सुप्रीम कोर्ट का दरवाज़ा खटखटाएं और यह तो होगा ही, फैसला चाहे जो भी हो, तब फिर किसी भी नकारात्मक सोच को मन में रखने का कारण क्या है। हां, चिंता की दो बातें हैं कि किसी भी समुदाय की ओर से अदालत का फैसला आने के बाद प्रसन्नता या क्रोध प्रकट करने के लिए निकाली जाने वाली यात्रा क़ानून व्यवस्था की स्थिति को ख़राब कर सकती है और भावनाओं को उत्तेजित करके साम्प्रदायिक टकराव का रूप भी दे सकती है। बस इसी से बचने तथा सावधान रहने की आवश्यकता है। इस समय हर शांतिप्रिय, सहनशील भारतीय को अपने-अपने समुदायों में ज़िम्मेदारों तक पहुंच कर उन्हें इस बात के लिए अनुरोध करना चाहिए कि अपने-अपने स्तर पर वह शांति तथा एकता की अपील करें। उदाहरण स्वरूप मस्जिदों में सभी नमाज़ों के बाद शांति तथा एकता की दुआ हो और हमारे पेशइमाम अपने ख़ुतबों में नमाज़ियों को शांति तथा एकता बनाए रखने और इस संदेश को आगे तक पहुंचाने की भी दरख़्वास्त करें। मुसलमान अपने हिंदू भाइयों के साथ और हिंदू अपने मुसलमान भाइयों के साथ मिलकर एक दूसरे के मन में उठने वाली आशंकाओं को दूर करने का प्रयास करें। हाल ही में मुम्बई में गणेश मूर्ति विसर्जन के समय तक माहौल का शांतिपूर्ण रहना तथा संपूर्ण समारोह का अत्यंत संुदरता के साथ समापन तक पहुंचना एक बड़ी और उत्साहजनक बात कही जा सकती है, क्योंकि इसी दौरान ईदुलफ़ित्र का त्यौहार भी था। महाराष्ट्र तथा गुजरात संवेदनशील राज्य हैं। महाराष्ट्र के लिए ‘गणेश चतुर्थी’ का त्योहार अत्यंत महत्वपूर्ण है। शिवसेना तथा महाराष्ट्र नवनिर्माण सेना को लेकर सदैव चिंता भी रहती है, परंतु जिस प्रकार कहीं कोई अप्रिय घटना घटित नहीं हुई, इसको सामने रख कर यह आशा तो बंधती ही है कि 24 सितम्बर का दिन भी शांति के साथ बीत जाएगा। हां, परंतु देशव्यापी स्तर पर जहां केंद्र सरकार को किसी भी स्थिति से निपटने के लिए मानसिक रूप से तैयार रहना होगा, वहीं राज्य सरकारों को ज़िला तथा क़सबा के स्तर पर पर्याप्त तैयारी रखनी होगी, इस बात का ध्यान रखना होगा कि बड़ी संख्या में जलसे, जुलूस की शक्ल में लोग एक स्थान पर एकत्र न हों। अगर इस बीच कुछ महत्वपूर्ण कार्यक्रमों या सभाओं, यात्राओं तथा सम्मेलनों की अनुमति पहले ही दे दी गई है तो इस बात का ध्यान रखा जाए कि इसका विषय या विचार व्यक्त करने वालों के भाषण किसी की भी भावनाओं को भड़काने वाले न हों। वैसे सबसे बेहतर स्थिति तो यही होगी कि जनता स्वयं अपने तौर पर यह ज़िम्मेदारी स्वीकार करे कि बिना किसी विशेष आवश्यकता के घर के बाहर जाकर सार्वजनिक स्थल पर इकट्ठा होने से बचें। किसी भी तरह के जलसे जुलूस में भाग न लें, जहां भी इसकी आशंका हो कि इसका प्रभाव ग़लत भी पड़ सकता है उस जगह या उस कार्य से दूर रहें क्योंकि शरारती तत्व ऐसे किसी भी अवसर का लाभ उठा सकते हैं। इन तमाम पेशबंदियों तथा सतर्कता के बावजूद अगर फिर भी कहीं यह दिखाई दे कि कोई जुलूस आयोजित किया जा रहा है, प्रसन्नता प्रकट करने या फैसले से असंतोष होने की स्थिति में नाराज़गी प्रकट किए जाने के साथ कुछ नारेबाज़ी की जा रही है तो आप उसके बीच में न आएं, ख़ामोशी से किसी निकट के सुरक्षित स्थान पर शरण लंे अगर यह संभव हो सके तो अपने घरों के अंदर रहें, प्रशासन को सूचित करें और किसी के उकसाने पर जवाबी कार्यवाही न करें। प्रशासन को सूचना देते समय भी सावधानी के तौर पर केवल एक जगह सूचना दे देना ही प्रयाप्त न समझें, बल्कि एक से अधिक ज़िम्मेदार अधिकारियों तक यह सूचना पहुंचाएं कि आप अमुक क्षेत्र से अमुक व्यक्ति बोल रहे हैं और वहां की स्थिति सरकार तथा प्रशासन के लिए ध्यान देने योग्य है। अविलंब अपने क्षेत्र के पुलिस थानों के नम्बर और ज़िम्मेदार अधिकारियों के नाम प्राप्त कर लें और अपने पास सुरक्षित रखें। विधायकों तथा सांसद, जो भी आपके क्षेत्र का प्रतिनिधित्व करते हों और क्षेत्र के समाचारपत्र या टेलीविज़न चैनल, उनके कार्यालय या प्रतिनिधि जिनके भी नम्बर आपको प्राप्त हो सकें, अवश्य अपने पास रखें, ताकि ज़रूरत पड़ने पर आप उनसे सम्पर्क कर सकें। घर से बाहर किसी भी आवश्यकता के मद्देनज़र जो व्यक्ति निकले वह अपनी पहचान अवश्य अपने साथ रखे, ताकि अचानक इसकी आवश्यकता पेश आए तो उसे दिखाया जा सके और एहतियातन ऐसे पहचानपत्रों की फोटोकाॅपियां कराकर अपने पास अवश्य रखें। किसी भी अधिकारी के देखे जाने के बाद अगर वह उसे अपने पास छोड़ने की ज़िद करे तो आप उसे फोटोकाॅपी देकर ओरिजनल अपने पास रख सकें। आप स्वयं अपने क्षेत्रों के संवेदनशील स्थानों को चिन्हित कर लें, अगर बहुत आवश्यक न हो तो ऐसे स्थानों पर जाने से बचें, जहां पहले भी छोटी-छोटी सी बातों पर साम्प्रदायिक टकराव होता रहा है। यह सभी एहतियाती क़दम हैं, इनको सामने रखने का उद्देश्य क़तई यह न समझा जाए कि यह हालात की गंभीरता की ओर इशारा करते हैं, बल्कि किसी भी अप्रिय घटना से सावधान रहने के उद्देश्य से ऐसी कुछ बातों की निशानदही की गई है। सबसे बेहतर फैसला तो आप स्वयं ले सकते हैं, बहरहाल ऐसे अवसरों पर पड़ोसियां से मधुर संबंध बहुत काम आते हैं। आशा की जानी चाहिए कि 24 सितम्बर को लेकर हमारे मन तथा मस्तिष्क में जितनी भी आशंकाएं हैं वह इनशाअल्लाह दूर होंगी। शांति के साथ यह दिन बीत जाएगा, फिर फैसला जो भी आए बात केवल उस फैसले पर होगी। इससे संबंधित जो भी क़दम उठाने की आवश्यकता होगी, ज़िम्मेदार व्यक्ति इस सिलसिले में अपनी पेशरफ़्त जारी रखेंगे, हर व्यक्ति को इस चिंता में इतना पड़ना नहीं चाहिए कि रोज़मर्रा का जीवन प्रभावित हो।

...................................