Wednesday, August 11, 2010

لندن میں جشن آزادی کانفرنس

عزیز برنی

ورلڈ اسلامک فورم لندن کی جانب سے منعقد یوم آزادیِ ہند کی تقریبات کے سلسلے میں 8اگست کی شام 6 بجے 56 Big land street, E1 2ND London یعنی دار العلماء میں ایک اہم کانفرنس منعقد کی گئی ، جس کی صدارت فورم کے چیئرمین عالی جناب مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے کی۔ دیگر اہم مقررین میں مفتی محفوظ الرحمٰن عثمانی بانی و مہتمم جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ، مدھوبنی ضلع سپول بہار (انڈیا) اور لندن میں روزنامہ جنگ کے سابق ایڈیٹر ظہور نیازی تشریف فرما تھے۔ راقم الحروف نے اس کانفرنس میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی ۔ موضوع تھا’’ ہندوستان کی آزادی کے 62 برس کیا کھویا کیا پایا‘‘۔ اسے محض اتفاق کہا جائے یا لندن میں مسلم یکجہتی کی تصویر میرے سامنے اس کانفرنس کے شرکا میں آزادی سے قبل کے ہندوستان کی نمائندگی کرنے والے ایک ساتھ موجود تھے۔جی ہاں ! ہندوستانی، پاکستانی اور بنگلہ دیشی، تینوں ممالک کے مسلمان اس وقت دارالعلماء کے اس خوبصورت ہا ل میں تشریف فرما تھے، جب میں ان کے درمیان گزشتہ 62 برس کے حالات پر اظہار خیال کر رہا تھا۔ظاہر ہے یہ درد تو سینے میں تھا ہی کہ کبھی ہم سب جو ایک ملک تھے، ایک قوم تھے ،آج سیاست کی چال بازیوں اور اقتدار کی تمنا نے ہمیں الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ ہم ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ ہمیں ٹکڑوں میں بانٹ دینے کے لئے وہ ملک اور وہ قوم سب سے زیادہ ذمہ دار ہے جس کی حکمت عملی ہی یہ ہے کہ پھوٹ ڈالو اور راج کرو۔ مجھے اس سے انکار نہیں تاہم ، یہ کہنا ہوگا کہ عجب اتفاق ہے یہ کہ جن کی حکمت عملی، جن کی پالیسی ہی یہ ہے کہ پھوٹ ڈالو اور راج کرو انھوں نے ہمارے ملک کو تو الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا، مگر اپنے ملک میں ہمیں متحد کر دیا۔یعنی لندن ہی نہیں اگر انگلینڈ کے مختلف علاقوں میں مسلم کالونیوں کا ذکر کریں تو یہ فرق کرنا مشکل ہوگا کہ کہاں ہندوستانی ہیں، کہاں پاکستانی اور کہاں بنگلہ دیشی ۔ یہاں سب ساتھ ساتھ رہتے ہیں ۔لندن میں ایک جگہ کا نام ہے ’’وہائٹ چیپل‘‘تقریباً ایک لاکھ مسلمان یہاں رہتے ہیں، جن میں اکثریت بنگلہ دیشی اور پاکستانی مسلمانوں کی ہے لیکن ہندوستانی مسلمان بھی خاصی تعداد میں یہاں مقیم ہیں ۔اس علاقے سے گزرنے پر آپ کو اندازہ ہوگا کہ آپ انگلینڈ میں نہیں بلکہ کسی مسلم علاقے میں چہل قدمی کر رہے ہیں ۔ دکانوں پر سائن بورڈ انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی ۔بڑی تعداد میں اسلامی لباس یعنی داڑھی ٹوپی، کرتا، پائجامہ، شیروانی اور برقع پوش خواتین۔ اتنا تو ہمیں ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں بھی دیکھنے کو کم ہی ملتا ہے ۔اگر ہم پرانی دہلی اور جمنا پار کے کچھ علاقوں کی بات چھوڑ دیں تو ۔
میں نے اس سلسلے میں جس موضوع پر گفتگو کی آئندہ چند سطروں میں میں اس کا ذکرکروں گا، لیکن جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا یا جو بات سب سے زیادہ قابل توجہ تھی ،اس کا تذکرہ سب سے پہلے ۔
آج اسلام اور مسلمانوں کی تشہیر ساری دنیا میں دہشت گردی کے حوالے سے کی جا رہی ہے۔ 9/11 کے بعد تو میڈیا نے پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی یہی شبیہ پیش کرنے کی کوشش کی ۔ انگلینڈ دہشت گردی کی وبا سے محفوظ ملک ہے، جبکہ انگلینڈ میں پاکستانی اور بنگلہ دیشی مسلمان اچھی خاصی تعداد میں رہتے ہیں،جن کا ذکر میں نے اپنے مضمون کی ابتدائی سطروں میں کیا ہے۔ برٹش پارلیمنٹ میں نمائندگی کرنے والوں میں بھی ان کے نام شامل ہیں۔ میں ایک الگ مضمون میں یہ تفصیل پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ آبادی کے تناسب سے برٹش پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی کی شرح کیا ہے اور ہندوستان میں کیا ہے؟ فی الحال میں ذکر کر رہا تھا مسلمان اور دہشت گردی کے حوالے سے ۔ میں نے دیکھا جس طرح بے خوف زندگی اور اسلامی شناخت کے ساتھ یہاں کے مسلمان جی رہے ہیں ۔اتنا مجھے بھٹکل ، دیو بند ،اعظم گڑھ یا بٹلہ ہائوس جیسے علاقوں میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ ہندوستان کے شاپنگ مالس میں تو سبھی ہندوستانیوں کو سیکورٹی جانچ سے گزرنا ہوتا ہے، لیکن انگلینڈ میں وہائٹ چیپل علاقے کے ایک شاپنگ مال میں بھی جانے کا اتفاق ہوا اور لندن کے سب سے بڑے شاپنگ مال ویسٹ فیلڈ میں بھی ۔کہیں کوئی سیکورٹی چیک نہیں ۔کیا یہ تمام باتیں ہمیں کچھ سیکھنے کے لئے مجبور نہیں کرتیں؟ آخر کس طرح ایسے ممالک نے اپنے عوام کے لئے بے خوف زندگی اور آسانیاں فراہم کی ہیں ؟کیا ہم ان کی زبان اور لباس کی نقل کے ساتھ ساتھ ان کی انتظامی صلاحیت سے ان کے جمہوری طریقوں سے بھی کچھ سیکھ سکتے ہیں؟ یہ سوچنے کی ضرورت ہے ۔بے شک کہ ہماری جمہوریت پوری دنیا میں ایک الگ مقام رکھتی ہے ،مگر اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مذہب اور ذات کے تنازعات اکثر و بیشتر ہماری جمہوریت پر حاوی ہونے لگتے ہیں ۔
اب ذکر اجلاس کے موضوع کے تحت کی گئی تقریر کا ۔تو بے شک لندن کے سامعین کے سامنے میری یہ باتیں نئی ہو سکتی ہیں، مگر اپنے ملک میں گزشتہ چند برسوں میں کشمیر سے کنیا کماری تک ایک کروڑ سے کہیں زیادہ لوگوں کے درمیان خود پہنچ کر میں یہ بات کہتا رہا ہوں کہ ہندوستان کا بٹوارہ دو قومی نظریہ کے تحت نہیں تھا ۔یہ ایک جھوٹا پروپیگنڈہ ہے ، یہ ایک گہری سازش ہے اور آزادی کے بعد کے 62 برسوں میں ہمیں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کی بنیاد اسی بٹوارے کی سیاست میں ہے۔ بات صرف اتنی بھی نہیں ہے کہ ایک سے زیادہ اقتدار کے خواہشمند سیاست دانوں نے بٹوارے کی راہیں ہموار کیں ۔سچ یہ بھی ہے مگر اس سے بھی بڑا سچ ہے متعصب ذہنیت۔ وہی متعصب ذہنیت جس نے 1947 میں ہندوستان کے بٹوارے کی بنیاد رکھی ۔اس کے بعد بابری مسجد کی شہادت یعنی پورے ملک میں فرقہ پرستی کا عالم ، مذہبی فسادات ،بشمول گجرات اور پھر اسی ذہنیت نے استعمال کیا دہشت گردی کا حربہ ۔یعنی مسلمان دہشت گرد ہیں،ڈھول پیٹا جائے ۔میں نے لندن کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے اسی بات کو قابل توجہ اس لئے قرار دیا کہ اگر مسلمان خاص طور پر پاکستان اور بنگلہ دیش کے دہشت گرد ہیں ،یا ان سے دہشت گردی کا خطرہ ہے تو انگلینڈ اپنے ملک میں انھیں اس تعداد میں رہنے کی اجازت کیوں دے رہا ہے ؟ اور اگر ان ممالک کے باشندے انگلینڈ میں رہ کر دہشت گرد نہیں ہیں، لیکن جب وہ پاکستان یاہندوستان میں ہوتے ہیں تو دہشت گردی کے واقعات میں ملوث نظر آتے ہیں ۔تو ایسا کیوں ؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم نے حقائق کی تہہ تک جانے کی کوشش ہی نہیں کی،جو ایک پروپیگنڈہ شروع کیا گیا ہم نے اسی پر بھروسہ کر لیا ۔ خود غرض فرقہ پرستی کی ذہنیت کے سیاست داں انتظامیہ اور میڈیا نے یہی تاثر پیش کیا کہ مسلمان دہشت گرد ہےں اور یہ مسئلہ مسلمانوںکے لئے اتنا بڑا مسئلہ بن گیا کہ آج وہ ہر پل اسی دفاع میں ملوث نظر آتا ہے کہ وہ دہشت گرد نہیں ہے،اسلام امن کا پیغام دیتا ہے ۔ آج تعلیم اور ملازمت کی فکر بھی کہیں پیچھے چھوٹ گئی۔ سب سے بڑا سوال یہ بن گیا ہے کہ وہ دہشت گرد نہیں ہے …اور جو دہشت گرد ہیں ، کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ مسلمانو میں کوئی دہشت گرد نہیں ، ہر مذہب اور ہر قوم میں دہشت گرد ہو سکتے ہیں ،مگر اس وقت ہم بات ان لوگوں کی کر رہے ہیں ،جو دہشت گردی کے الزام میں پکڑے جا رہے ہیں، وہ ہندو ہیں اور جو دہشت گردی کے الزام میں پکڑے گئے تھے لیکن آج بے گناہ ثابت ہو کر با عزت بری ہو رہے ہیں،وہ مسلمان ہیں۔
موجودہ مرکزی حکومت مسلمانون کے حقوق کے معاملے میں ابھی بھی پوری نہیں اتری ہے اور اس طرف گامزن بھی نظر نہیں آتی ۔سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق جو حقائق سامنے آئے ہیں ،ان کی روشنی میں حکومت کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ،ابھی یہ صیغۂ راز میں ہے ۔بابری مسجد مقدمے کا فیصلہ کب آئے گااور وہ انصاف کے تقاضوں کو کس حد تک پورا کر پائے گا، وہ بھی آنے والا وقت ہی بتائے گا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ بے شک اقلیتی ادارے ہیں،مگر حکومت کے لئے اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں تاخیر کیوں ہے اس کا جواب بھی ہمارے ایچ آر ڈی منسٹر کپل سبل کے پاس ہی ہوگا۔ مسلمانوں کے ریزرویشن کے سوال پر بھی ابھی تک حکومت خاموش ہے،کیوں ؟ ایک روز اس سوال کا جواب بھی دینا ہی ہوگا۔
لندن جانے سے قبل اقلیتی امور کے وزیر محترم سلمان خورشید سے تفصیلی ملاقات ہوئی ۔گھنٹے بھر سے زیادہ چلی اس ملاقات میں انھوں نے ایسے تمام موضوعات پر مثبت رویے کا اظہار کیا اور یقین دہانی کرائی کہ جلد ہی ہر معاملے میں کچھ ہوگا۔ مردم شماری کے معاملے میں بھی انھوں نے سیکنڈ فیس میں مذہب اور زبان کا کالم ہونے کی یقین دہانی کرائی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کیا کیا کب کب ہوتا ہے ؟مگر ایک بات کے لئے ضرور موجودہ حکومت کو حق پسند قرار دیا جا سکتا ہے، وہ یہ کہ اس نے دہشت گردوں کو دہشت گرد کی نظر سے دیکھنا شروع کیا ہے ۔ کوئی مذہبی یا تعصبی چشمہ اس کی آنکھوں پر نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ گجرات کے سابق وزیر داخلہ برائے مملکت امت شاہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آتے ہیں اور نریندر مودی کے چہرے سے بھی مسکراہٹ غائب ہو چکی ہے ۔بے شک وہ اپنی ریاست میں عوام کو مخاطب کرتے وقت دلیری کا مظاہرہ کریں مگر ان کی آواز اب کس قدر کمزور ہے اس کا اندازہ تو اب ان کے اپنے کانوں کو بھی ہوتا ہوگا۔ شہید ہیمنت کرکرے نے جو راہ دکھائی تھی ،اے ٹی ایس ایک حد تک اس پر گامزن نظر آنے لگی ہے۔ سادھوی پرگیہ سنگھ ،دیانند پانڈے اور پروہت جیسے لوگ جو چین کی سانس لینے لگے تھے ، اب پھر سے فکر مند نظر آنے لگے ہیں… اور بات بس اتنی ہی نہیں ہے بلکہ پورے ملک نے یہ دیکھ لیا ہے کہ فرقہ پرستی اور سیاست کا گٹھ جوڑ ملک کو کس سمت میں لے جا رہا ہے اور یہ ملک اور قوم کے لئے کس قدر تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے ۔
یہ تقریر خاصی طویل تھی ایک مختصر مضمون میں تمام نکات پر روشنی نہیں ڈالی جا سکتی ۔محترم مولانا عیسیٰ منصوری اور مولانا مفتی محفوظ الرحمن عثمانی صاحب کی عالمانہ تقاریر کی تفصیلات بھی اس وقت پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔انشا ء اللہ عالمی سہارا کے کسی خصوصی شمارے میں ہندوستان کے یوم آزادی کی تقریبات کے سلسلے میں لندن میں منعقد اس کانفرنس کی تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے گی۔ اس وقت اس مضمون کو یہیں ختم کرنا ہوگا، اس لئے کہ کل سے رمضان المبارک کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے۔ظاہر ہے کہ اس درمیان نہ تو ہمارے قارئین کے پاس اتنی مہلت ہوگی کہ اخبار بینی کے لئے زیادہ وقت نکال سکیں اور نہ ہی راقم الحروف کے لئے یہ موقع کہ وہ ہر روز ایک مکمل صفحہ کا مضمون قلم بند کر سکے ۔لہٰذا عید تک اس سلسلے کو ملتوی کرنا ہوگا۔ ہاں مگر اس درمیان اگر کچھ انتہائی اہم واقعات سامنے آتے ہیں تو مختصراً ان پر تبصرہ جاری رہے گا۔
لیکن مغربی بنگال میں ممتا بنرجی نے نکسلائٹس کے تئیں جو رویہ اپنایا اسے دیکھنے کے بعد بھی اگر مسلم سیاست داں یا مسلمانوں کے ووٹ پر سیاست کرنے والے لیڈران ،کشمیر کے حالات پر توجہ نہ دیں تو اسے انتہائی افسوس ناک کہا جائے گا۔ اب بات کرتے ہیں ، بہار کی۔تو قوی امکان ہے کہ نومبر کا مہینہ بہار میں ریاستی انتخابات کا مہینہ ہوگا۔ آدھا اگست اور آدھا ستمبر رمضان میں نکل جائے گا۔ لہٰذا اس دوران بہار کی سیاست پر گفتگو کرنے کا زیادہ موقع نہیں ہوگا۔تاہم ایک تجویز میں بہار میں اپنے قارئین اور سیاست دانوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔یہ تو طے ہے کہ ملک اور قوم کا بھلا اسی میں ہے کہ پارٹی کوئی بھی ہو بر سر اقتدار آنے کا موقع انھیں ملے جو پوری ایمانداری کے ساتھ سیکولر ہوں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں یقین رکھتے ہوں ۔اب اگر خالص سیاسی انداز میں بات کی جائے تو مسلمان، دلت اور یادو یہ تین ووٹ متحد ہو کر سوشل انجینئرنگ کے فارمولے کو عمل میں لائیں ۔یعنی سب کو ساتھ لے کر چلیں، بھلے ہی امیدوار کی شکل میں ، تو بر سر اقتدار آسکتے ہیں ۔بہار میں مسلمان ووٹ کس کو سامنے رکھ کر متحد کیا جاسکتا ہے ،اس پر غور کیا جائے ۔ یادوئوں میں کون اس اتحاد میں بہتر نمائندگی کر سکتا ہے ،یہ فیصلہ کر لیا جائے ۔دلتوں میں بہر حال رام ولاس پاسوان کا نام ہی سر فہرست نظر آتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا شرد یادو اور نتیش کمار پوری ایمانداری کے ساتھ پوری طرح بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق ختم کر سکتے ہیں ۔یا لالو پرساد یادو اور رام ولاس پاسوان سیٹوں کے بٹوارے کو خوش ا سلوبی سے نمٹا کر مسلمانوں کا اعتماد حاصل کر سکتے ہیں ۔ یا پھر نئے سرے سے مسلمانوں کا دل جیتنے کی کوشش میں لگے ملائم سنگھ یادو رام ولاس پاسوان کے ساتھ مل کر بہار کے لئے ایک نیا فارمولہ سامنے رکھ سکتے ہیں ۔وہ بہار میں کسی بھی سیکولر اتحاد کے لئے کارگر ثابت ہو سکتا ہے ،جہاں تک کانگریس کا سوال ہے تو ان کے مسلم ریاستی صدر پارٹی کو اس پوزیشن میں لے آئیں گے کہ وہ حکومت بنا لے ،ابھی قیاس سے دور کی بات ہے ۔سرکار بنانے کا ارادہ رکھنے والوں کے لئے بہتر تو یہی ہے کہ اعلیٰ ذاتوں کو ساتھ لے کر چلیں۔ان کی امیدواری پر توجہ دی جائے، مسلمان، دلت اور یادو تین پرکشش ایماندار بھروسے مند چہرے ہوں ،تو بہار کو ایک پائیدار ،سیکولر اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والی سرکار مل سکتی ہے ۔پہل مسلمان کریں ،نیتائوں کا انٹر ویو لینا شروع کریں ، انھیں بتائیں کہ جس طرح آپ امیدواروں کا انٹرویو لیتے ہیں ،چونکہ انھیں آپ اپنا نمائندہ چننے کا ارادہ رکھتے ہیں،اس لئے اب آپ کو بھی اس انٹر ویو کے دور سے گزرنا ہوگا،کیونکہ ہم آپ کو اپنا نمائندہ چننے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔دیکھیں ان کا ٹریک ریکارڈ ، طلب کریں، ان سے بر سر اقتدار آنے کے بعد آپ کے لحاظ سے ان کے منصوبے کیا ہیں ۔کون آپ کو کتنی نمائندگی دینے کے لئے تیار ہے ۔ اہم قلم دانوں میں سے کون کون سا آپ کے پاس رہے گا۔ کم از کم ایک با اثر ڈپٹی چیف منسٹر سے کم تو بات نہ ہو۔وزیر اعلیٰ کا عہدہ ابھی دور کی بات ہے مگر رام ولاس پاسوان اس پر بخوشی تیار ہو سکتے ہیں ۔اگر وہ بہار کے چیف منسٹر ہوں تو ایک مسلمان اور ایک یادو دو ڈپٹی چیف منسٹر ہوں ، لالو پرساد یادو تو اس پیشکش کو تسلیم نہیں کریں گے،مگر ملائم سنگھ یادو کے لئے ہاتھ آگے بڑھانا کچھ مشکل نہیں ہوگا۔ ہاں پھر سوا ل یہ پیدا ہوگا کہ مسلمانوں کو متحد کرنے کی ذمہ داری کون قبول کرے؟ آخر بہار میں قد آور مسلمانوں کی کیا کمی ہے ؟ طارق انور کا نام سب پر بھاری اور بہار کے عوام کے لئے قابل قبول ہو سکتا ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقتدار کی چاہ رکھنے والے سیاست دانوں کو بھی یہ فارمولہ سوٹ کرتا ہے یا نہیں۔
…………

लंदन में जश्न-ए-आज़ादी कान्फ्ऱेंस
अज़ीज़ बर्नी

वल्र्ड इस्लामिक फोरम लंदन की ओर से आयोजित भारत के स्वतंत्रता दिवस समारोहों के उपलक्ष में 8 अगस्त की शाम 6 बजे 56 Big land street, E1 2ND London अर्थात दारुल उलेमा में एक महत्वपूर्ण सम्मेलन आयोजित किया गया, जिसकी अध्यक्षता फोरम के चेयरमैन आदर्णीय मौलाना मुहम्मद ईसा मन्सूरी ने की। अन्य प्रमुख वक्ताओं में मुफ़्ती महफु़ज़्ाुर्रहमान उस्मानी संस्थापक तथा मोहतमिम जामिअतुल क़ासिम दारुल उलूम अल-इस्लामिया, मधुबनी, ज़िला सुपौल, बिहार (भारत) तथा लंदन में रोज़नामा जंग के पूर्व संपादक ज़हूर न्याज़ी उपस्थित थे। लेखक ने इस सम्मेलन में मुख्य अतिथि के रूप में भाग लिया। विषय था ‘’भारत की आज़ादी के 62 वर्ष, क्या खोया क्या पाया’’। इसे केवल संयोग कहा जाए या लंदन में मुस्लिम एकता की तस्वीर, मेरे सामने इस सम्मेलन में भाग लेने वालों में आज़ादी से पूर्व के भारत का प्रतिनिधित्व करने वाले एक साथ मौजूद थे। जी हां! भारतीय, पाकिस्तानी और बंगलादेशी तीनों देशों के मुसलमान उस वक़्त दारुल उलेमा के इस ख़ूबसूरत हाॅल में तशरीफ़ रखते थे जब मैं उनके बीच पिछले 62 वर्षों के हालात पर विचार व्यक्त कर रहा था। ज़ाहिर है यह दर्द तो सीने में था ही कि कभी हम सब जो एक देश थे, एक राष्ट्र थे, आज राजनीति की चालबाज़ियों ने और सत्ता की आकांक्षा ने हमें अलग-अलग टुकड़ों में विभाजित कर दिया। हम हमेशा यह कहते रहे हैं कि हमें टुकड़ों में बांट देने के लिए वह देश और वह राष्ट्र सबसे अधिक ज़िम्मेदार हैं जिसकी रणनीति ही यह है कि फूट डालो और राज करो। मुझे इससे इन्कार नहीं फिर भी यह कहना होगा कि विचित्र संयोग है यह कि जिनकी रणनीति, जिनकी नीति ही यह है कि फूट डालो और राज करो उन्होंने हमारे देश को तो अलग-अलग टुकड़ों में बांट दिया परंतु अपने देश में हमें संगठित कर दिया। यानी लन्दन ही नहीं अगर इंगलैण्ड के विभिन्न क्षेत्रों में मुस्लिम कालोनियों की चर्चा करें तो यह अंतर करना कठिन होगा कि कहां भारतीय, कहां पाकिस्तानी और कहां बंगलादेशी। यानी सब साथ-साथ रहते हैं। लन्दन में एक स्थान का नाम है ‘‘व्हाइट चैपल’’ लगभग 1 लाख मुसलमान यहां रहते हैं जिनमें बहुलता बंगलादेशी और पाकिस्तानी मुसलमानों की है, परंतु भारतीय मुसलमान भी प्रयाप्त संख्या में यहां रहते हैं। इस क्षेत्र से गुज़रने पर आपको अनुमान होगा कि आप इंगलैण्ड में नहीं बल्कि किसी मुस्लिम क्षेत्र में चहलक़दमी कर रहे हैं। दुकानों पर साइनबोर्ड अंग्रेज़ी के साथ उर्दू में भी। बड़ी संख्या में इस्लामी लिबास यानी दाढ़ी, टोपी, कुर्ता-पाजामा, शेरवानी और बुर्क़ापोश महिलाएं। इतना तो हमें भारत की राजधानी दिल्ली में भी देखने को कम ही मिलता है। अगर हम पुरानी दिल्ली और जमना पार के कुछ क्षेत्रों की बात छोड़ दें तो।

मैंने इस सिलसिले में जिस विषय पर गुफ़्तुगू की, अगली कुछ लाइनों में मैं उसकी चर्चा करूंगा, लेकिन जिस बात ने मुझे सबसे अधिक प्रभावित किया या जो बात सबसे अधिक ध्यान देने योग्य थी, उसकी चर्चा सबसे पहले।

आज इस्लाम और मुसलमानों की पब्लिसिटी सारी दुनिया में आतंकवाद के उल्लेख के साथ की जा रही है। 9/11 के बाद तो मीडिया ने पूरी दुनिया में इस्लाम और मुसलमानों की यही छवि पेश करने की कोशिश की। इंगलैण्ड आतंकवाद से सुरक्षित देश है। जबकि इंगलैण्ड में पाकिस्तानी और बंगलादेशी मुसलमान अच्छी ख़ासी संख्या में रहते हैं, जिसकी चर्चा मैंने अपने लेख की आरंभिक पंक्तियों में की है। ब्रिटिश पार्लियमिंट में प्रतिनिधित्व करने वालों में भी उनके नाम शामिल हैं। मैं एक अलग लेख में यह विवरण पेश करने का इरादा रखता हूं कि जनसंख्या के अनुपात में ब्रिटिश पार्लियमिंट में मुसलमानों के प्रतिनिधित्व की दर क्या है और भारत में क्या है। फ़िलहाल मैं चर्चा कर रहा था मुसलमान और आतंकवाद के हवाले से। मैंने देखा जिस तरह निर्भीक जीवन, इस्लामी पहचान के साथ यहां के मुसलमान जी रहे हैं, इतना मुझे भटकल, देवबंद, आज़मगढ़ या बटला हाउस जैसे क्षेत्रों में देखने को नहीं मिला। भारत के शाॅपिंग माॅल्स में तो सभी भारतीयों को सुरक्षा जांच से गुज़रना होता है, परंतु इंगलैण्ड में व्हाईट चैपल क्षेत्र में एक शाॅपिंग माॅल में भी जाने का अवसर प्राप्त हुआ और लंदन के सबसे बड़े शाॅपिंग मौल वेस्ट फील्ड में भी। कहीं कोई सैक्योरिटी चैकिंग नहीं। क्या यह सारी बातें हमें कुछ सीखने के लिए मजबूर नहीं करतीं। आख़िर किस तरह ऐसे देशों ने अपनी जनता के लिए निर्भय और सहज जीवन उपलब्ध कराया है। क्या हम उनकी वेशभूषा और भाषा की नक़ल के साथ-साथ उनकी प्रशासनिक योज्ञता से उनके लोकतांत्रिक तरीक़ों से भी कुछ सीख सकते हैं, यह सोचने की ज़रूरत है। निःसंदेह हमारा लोकतंत्र पूरी दुनिया में एक अलग स्थान रखता है, परंतु इस सच्चाई से भी इन्कार नहीं किया जा सकता कि धर्म और जाति के विवाद अक्सर हमारे लोकतंत्र पर हावी होने लगते हैं।

अब चर्चा सम्मेलन के विषय के अंतर्गत किये गये भाषण की। तो बेशक लंदन के श्रोताओं के सामने मेरी यह बातें नई हो सकती हैं मगर अपने देश में पिछले कुछ वर्षों से कश्मीर से कन्या कुमारी तक 1 करोड़ से कहीं अधिक लोगों के बीच स्वयं पहुंच कर मैं यह बात कहता रहा हूं कि भारत का बटवारा द्विराष्ट्रीय विचारधारा के तहत नहीं था। यह एक झूठा प्रोपेगेंडा है, यह एक गहरी साज़िश है और आज़ादी के बाद के 62 वर्षों में हमें जिन समस्याओं का सामना करना पड़ा है उसकी जड़ें इसी बटवारे की राजनीति में हैं। बात केवल इतनी ही नहीं है कि एक से अधिक सत्ता के इच्छुक राजनीतिज्ञों ने बटवारे का मार्ग प्रशस्त किया। सच यह भी है परंतु इससे भी बड़ा सच है भेदभाव की मानसिकता। वही भेदभाव की मानसिकता जिसने 1947 में भारत के बटवारे की बुनियाद रखी। उसके बाद बाबरी मस्जिद की शहादत यानी पूरे देश में साम्प्रदायिकता का वातावरण, धार्मिक दंगे, गुजरात सहित और फिर उसी मानसिकता ने प्रयोग किया आतंकवाद का हथियार। यानी मुसलमान आतंकवादी हैं, ढोल पीटा जाए। मैंने लंदन के हवाले से चर्चा करते हुए इसी बात को ध्यान देने योग्य इसलिए क़रार दिया कि अगर मुसलमान विशेष रूप से पाकिस्तान और बंगलादेश के आतंकवादी हैं या उनसे आतंकवाद का ख़तरा है तो इंगलैण्ड अपने देश में उन्हें इतनी संख्या में रहने की अनुमति क्यों दे रहा है? और अगर इन देशों के रहने वाले इंगलैण्ड में रह कर आतंकवादी नहीं हैं, परंतु जब वह पाकिस्तान या भारत में होते हैं तो आतंकवाद की घटनाओं में लिप्त नज़र आते हैं तो ऐसा क्यों? कहीं ऐसा तो नहीं है कि हमने तथ्यों की तह तक जाने का प्रयास ही नहीं किया। जो एक प्रोपेगैंडा शुरू किया गया हमने उसी पर भरोसा कर लिया। स्वार्थी, साम्प्रदायिक मानसिकता के राजनीतिज्ञ प्रशासन और मीडिया ने यही भाव पेश किया कि मुसलमान आतंकवादी है और यह समस्या मुसलामनों के लिए इतनी बड़ी समस्या बन गई कि आज वह हर क्षण इसी बचाव में डूबा नज़र आता है कि वह आतंकवादी नहीं है, इस्लाम शांति का संदेश देता है। आज शिक्षा और नौकरी की चिंता भी कहीं पीछे छूट गई है। सबसे बड़ा प्रश्न यह बन गया है कि वह आतंकवादी नहीं है। और जो आतंकवादी हैं, कहने का उद्देश्य यह नहीं कि मुसलमानों में कोई आतंकवादी नहीं है। हर धर्म और हर समुदाय में आतंकवादी हो सकते हैं। परंतु हम इस समय बात उन लोगों की कर रहे हैं जो आतंकवाद के आरोप में पकड़े जा रहे हैं, वह हिंदू हैं और जो आतंकवाद के आरोप में पकड़े गए थे परंतु आज बेगुनाह सिद्ध होकर बाइज़्ज़त बरी हो रहे हैं, वह मुसलमान हैं। वर्तमान केंद्र सरकार मुसलमानों के अधिकारों के मामलें में पूरी नहीं उतरी और उस दिशा में अग्रसर नज़र नहीं आती। सच्चर कमेटी की रिपोर्ट के अनुसार जो तथ्य सामने आए हैं, उनकी रोशनी में सरकार क्या करने का इरादा रखती है, अभी यह राज़ में है। बाबरी मस्जिद मुक़दमे का फैसला कब आएगा और वह इन्साफ़ की मांगों को किस हद तक पूरा कर पाएगा वह भी आने वाला समय बताएगा। अलीगढ़ मुस्लिम युनिवर्सिटी और जामिआ मिल्लिया इस्लामिया निःसंदेह अल्पसंख्यक संस्थान हैं परंतु सरकार के लिए इस हक़ीक़त को स्वीकार करने में देरी क्यों है इसका जवाब भी हमारे एचआरडी मिनिस्टर कपिल सिब्बल के पास ही होगा। मुसलमानों के आरक्षण के प्रश्न पर भी अभी तक सरकार ख़ामोश है क्यों? एक दिन इस प्रश्न का जवाब भी देना होगा।

लंदन जाने से पूर्व अल्पसंख्यक मामलों के मंत्री आदरर्णीय सलमान ख़ुर्शीद से विस्तृत मुलाक़ात हुई। घंटे भर से अधिक चली मुलाक़ात में उन्होंने ऐसे सभी विषयों पर सकारात्मक रवैये का इज़हार किया और विश्वास दिलाया कि शीघ्र ही हर मामले में कुछ होगा। जनगणना के मामले में भी उन्होंने दूसरे चरण में धर्म तथा भाषा का काॅलम होने का विश्वास दिलाया। अब देखना यह है कि इनमें से क्या-क्या कब-कब होता है। परंतु एक बात के लिए अवश्य वर्तमान सरकार को न्याय प्रिय क़रार दिया जा सकता है वह यह कि उसने आतंकवादियों को आतंकवाद की दृष्टि से देखना आरंभ किया है। कोई धार्मिक या पक्षपात की ऐनक उसकी आंखों पर नज़र नहीं आती। यही कारण है कि गुजरात के पूर्व गृह राज्यमंत्री अमित शाह जेल की सलाख़ों में पीछे नज़र आते हैं और नरेंद्र मोदी के चेहरे से भी मुस्कुराहट ग़ायब हो चुकी है। निःसंदेह वह अपने राज्य की जनता को संबोधित करते समय दिलेरी का प्रदर्शन करें परंतु उनकी आवाज़ अब कितनी कमज़ोर है इसका अंदाज़ा तो अब उनके अपने कानों को भी होता होगा। शहीद हेमंत करकरे ने जो रास्ता दिखाया था एटीएस एक हद तक उस पर अग्रसर नज़र आने लगी है। साध्वी प्रज्ञा सिंह, दयानंद पांडे और पुरोहित जैसे लोग जो चैन की सांस लेने लगे थे अब फिर से चिंतित दिखाई देने लगे हैं। और बात बस इतनी ही नहीं है बल्कि पूरे देश ने यह देख लिया है कि साम्प्रदायिकता और राजनीति का गठजोड़ देश को किस दिशा में ले जा रहा है और यह देश और राष्ट्र किसके लिए कितना घातक सिद्ध हो सकता है।

यह भाषण काफ़ी लम्बा था। एक संक्षिप्त लेख में तमाम बिंदुओं पर प्रकाश नहीं डाला जा सकता। मोहतरम मौलाना ईसा मन्सूरी और मौलाना महफ़ूज़ुर्रहमान उस्मानी साहब की आलिमाना तक़रीरों का विवरण भी इस समय पेश करना संभव नहीं है। इन्शाअल्लाह आलमी सहारा के विशेष अंक में लंदन में आयोजित भारत के स्वतंत्रता दिवस समारोहों के सिलसिले में आयोजित इस सम्मेलन की विस्तृत रिपोर्ट पेश की जाएगी। इस समय इस लेख को यही समाप्त करना होगा इसलिए कि कल से रमज़ान का सिलसिला शुरू हो रहा है और ज़ाहिर है कि इस बीच न तो हमारे पाठकों के पास इतना समय होगा कि अख़बार पढ़ने के लिए अधिक समय निकाल सके और न ही लेखक के लिए यह संभव है कि वह हर दिन एक पूरे पृष्ठ का लेख लिख सकें। इसलिए ईद तक इस सिलसिले को स्थगित करना होगा। हां परंतु इस बीच अगर अत्यंत महत्वपूर्ण घटनाएं सामने आती हैं तो संक्षिप्त में उन पर चर्चा जारी रहेगी।

लेकिन पश्चिम बंगाल में ममता बेनर्जी ने नक्सलाइट के प्रति जो रवैया अपनाया उसे देखने के बाद भी अगर मुस्लिम राजनीतिज्ञ या मुसलमानों के वोट पर राजनीति करने वाले नेतागण कश्मीर के हालात पर ध्यान न दें तो इसे अत्यंत विडंबनापूर्ण ही कहा जाएगा। अब बात करते हैं बिहार की। अधिक संभावना है कि नवम्बर का महीना बिहार में विधानसभा चुनावों का महीना होगा। आधा अगस्त और आधा सितम्बर रमज़ान में निकल जाएगा। इसलिए इस बीच बिहार की राजनीति पर गुफ़्तुगू करने का अधिक अवसर नहीं होगा। फिर भी एक फार्मूला मैं बिहार में अपने पाठकों और राजनीतिज्ञों के सामने रखना चाहता हूं। यह तो तय है कि देश तथा देश का भला इसमें है कि पार्टी कोई भी हो, सत्ता में आने का अवसर उन्हें मिले जो पूरी ईमानदारी के साथ धर्मनिरपेक्ष हों और साम्प्रदायिक सदभावना में विश्वास रखती हांे। अब अगर खालिस राजनीतिक अंदाज में बात की जाए तो मुसलमान, दलित और यादव तीनों वोट संगठित होकर सोशल इंजीनियरिंग के फार्मूले को अमल में लायें, अर्थात सबको साथ लेकर चलें, चाहे उम्मीदवार के रूप में ही तो सत्ता में आ सकते हैं। बिहार मेें मुसलमान वोट किसको ध्यान में रखकर संगठित किया जा सकता है, इस पर विचार किया जाए। यादवों में कौन इस गठबंधन में बेहतर प्रतिनिधित्व कर सकता है, यह फैसला कर लिया जाए। दलितों में बहरहाल राम विलास पासवान का नाम ही सर्वोपरि नज़र आता है। अब देखना यह है कि क्या शरद यादव और नितीश कुमार पूरी ईमानदारी के साथ पूरी तरह भारतीय जनता पार्टी से संबंध समाप्त कर सकते हैं या लालू प्रसाद यादव और रामविलास पासवान सीटों के बटवारे को शालीनता से निमटाकर मुसलमानों का विश्वास प्राप्त कर सकते हैं या फिर नए सिरे से मुसलमानों का दिल जीतने के प्रयास में लगे मुलायम सिंह यादव रामविलास पासवान के साथ बिहार के लिए एक नया फार्मूला सामने रख सकते हैं। जहां तक प्रश्न कांगे्रस का है वह बिहार में किसी भी धर्मनिरपेक्ष गठबंधन के लिए कारगर सिद्ध हो सकता है। जहां तक कांगे्रस का प्रश्न है तो उनके मुस्लिम राज्य पार्टी अध्यक्ष को इस स्थिति में ले आएंगे कि वह सरकार बना लें, अभी कल्पना से दूर की बात है। सरकार बनाने का इरादा रखने वालों के लिए बेहतर तो यही है कि स्वर्ण जातियों को साथ लेकर चलें। उनकी उम्मीदवारी पर ध्यान दिया जाए, मुसलमान, दलित और यादव तीन विश्वसनीय आकर्षित चेहरे हों, तो बिहार को एक सुदृढ़, धर्मनिरपेक्ष और सबको साथ लेकर चलने वाली सरकार मिल सकती है। पहल मुसलमान करें। नेताओं का इंटरव्यू लेना शुरू करें। उन्हें बताएं कि जिस तरह आप उम्मीदवारों का इंटरव्यू लेते हैं क्योंकि आप उन्हें अपना प्रतिनिधि चुनने का इरादा रखते हैं इसलिए अब आपको भी इस इंटरव्यू के दौर से गुज़रना पड़ेगा, क्योंकि हम आपको अपना प्रतिनिधि चुनने का इरादा रखते हैं। देखें उनका ट्रेक रिकाॅर्ड, मांगें उनसे सत्ता में आने के बाद आपके हिसाब से उनकी योजनाएं क्या हैं। कौन आपको कितना प्रतिनिधित्व देने के लिए तैयार है। प्रमुख मंत्रालयों में से कौन-कौन सा आपके पास रहेगा। कम से कम एक प्रभावशाली डिप्टी चीफ़ मिनिस्टर से कम पर तो बात न हो। मुख्यमंत्री का पद अभी दूर की बात है। मगर रामविलास पासवान इस पर ख़ुशी से तैयार हो सकते हैं। अगर वह बिहार के उप-मुख्यमंत्री हों तो एक मुसलमान और एक यादव दो उप-मुख्यमंत्री हों। लालू प्रसाद यादव तो इस पेशकश को स्वीकार नहीं करेंगे, परंतु मुलायम सिंह यादव के लिए हाथ आगे बढ़ाना कुछ कठिन नहीं है। हां फिर प्रश्न यह पैदा होगा कि मुसलमानों को संगठित करने की ज़िम्मेदारी कौन स्वीकार करे? आख़िर बिहार में दिग्गज मुसलमानों की क्या कमी है? तारिक़ अनवर का नाम सब पर भारी और बिहार की जनता के लिए स्वीकारीय हो सकता है। अब प्रश्न यह पैदा होता है कि सत्ता की चाह रखने वाले राजनीतिज्ञों को भी यह फार्मूला सूट करता है या नहीं।

Thursday, August 5, 2010

وہ لشکر کی کہانی میںفٹ ہوتا تو اسی وقت مار دیا جاتا

عزیز برنی

میں ریسرچ کا ایک ایسا طالب علم ہوں، جس کی ریسرچ کبھی مکمل نہیں ہوگی، مگر مجھے ہر روز اپنی تھیسس اپنے قارئین اور حکومت ہند کی خدمت میں پیش کرنی ہوتی ہے۔ آج کل میری ریسرچ کا موضوع ہے ’سہراب الدین شیخ کا فرضی انکاؤنٹر اور گجرات سرکار سے اس کا تعلق‘، لیکن اس موضوع پر سارا کچھ میں خود نہیں لکھ رہا ہوں۔ حالانکہ ہے بہت کچھ ہے ہمارے پاس، وہ بھی جو ہم دیگر میڈیا کے حوالے کے ساتھ شائع کررہے ہیں اور اس کے علاوہ بھی، لیکن ایسا ہم اس لےے کہ اگر اس موضوع پر سب کچھ صرف عزیز برنی لکھے تو خود کو ’ہندو ہردے سمراٹ‘ کہنے والا اور اس کی شان میں دن رات قصیدے پڑھنے والوں کو یہ موقع مل جائے گا کہ اردو اخبارات اور اردو صحافی تو تعصب کا شکار ہیں، ہمارے خلاف زہر اگلتے ہی رہتے ہیں،ان کی ہر بات پر کیا توجہ دینا، لہٰذا مناسب یہ سمجھا گیا کہ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں کسی ریاست کے وزیرداخلہ کا ایسا چہرہ پہلی بار سامنے آیا ہے، جو منظم طریقے سے جرائم کی دنیا سے وابستہ نظر آتا ہے اور جس نے اپنے عہدے کا استعمال مجرمانہ سرگرمیوں کے لےے کیا، اس کی پوری حقیقت منظرعام پر لائی جائے۔ آج قومی میڈیا سہراب الدین مرڈرکیس کے بارے میں سی بی آئی کے حوالہ سے یا اپنی تحقیق کی بنیاد پر بہت کچھ سامنے رکھ رہا ہے، وہ ہمیں بھی دستیاب ہے، مگر ایک ریسرچ اسکالر صرف اپنی بات نہیں کہتا، بلکہ حقائق کی تلاش میں اس کی جستجو جاری رہتی ہے اور وہ اپنے ریسرچ پیپر میں ان سب کا حوالہ پیش کرتا ہے، جو اس موضوع پر کوئی اہم بات کہہ رہے ہوں۔ آج بھی جن صحافیوں کی رپورٹ میرے سامنے ہے، ان کے اسمائے گرامی ہیں اوشا چاندنا، آلوک تومراور ملندگھاٹ وال۔ ایک ہندی اخبار میں امت شاہ کی شان میں بہت قصیدے پڑھے گئے، مضمون نگار بی جے پی کے ممبرپارلیمنٹ ہیں، مگر ہمارے سامنے جو رپورٹس ہےں، ان میں امت شاہ کا ایک دوسرا چہرہ نظر آتا ہے۔ ہرشد مہتا شیئرگھوٹالہ کے بعد گجرات میں جس 5ہزار کروڑ روپے کے کوآپریٹوبینک گھوٹالہ کا پردہ فاش ہوا، اس میں گجرات کے سابق وزیرمملکت برائے داخلہ کا نام بھی شامل ہے۔ کانگریسی لیڈر ارجن موڈواڈیا نے ایک جانچ رپورٹ کے ذریعہ امت شاہ پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے رشوت لے کر کیتن پارکھ کو ضمانت دلانے میں مدد کی۔
ہم جانتے ہیں کہ سہراب الدین شیخ کوئی بھلا آدمی نہیں تھا۔ اس کا ایک مجرمانہ ریکارڈ تھا، مگر کیا یہ سچ نہیں ہے کہ وہ امت شاہ کے لےے بھی کام کرتا تھا۔ ذیل میں اہم جانکاریاں سامنے رکھ رہے ہیں۔
سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کا گواہ تلسی پرجاپتی، جس کا بعد میں قتل کردیا گیا ایسی بہت سی سچائیوں سے واقف تھا، جس کے سامنے آنے پر گجرات سرکار پریشانی میں پڑسکتی تھی۔ اسے اپنی جان کا خطرہ تھا۔ یہ رپورٹ انڈین ایکسپریس میں6اپریل 2010کو شائع کی گئی، ملاحظہ فرمائیں ملند گھاٹ وال کی رپورٹ:
اجین 26اپریل : سہراب الدین شیخ جس کے فرضی انکائونٹر معاملے میں گجرات پولس کے تین آئی پی ایس افسران گرفتار ہوچکے ہیں۔ سہراب الدین کا دوست تلسی رام پرجاپتی نے ادے پور عدالت کو لکھا تھا کہ اس کا بھی خاتمہ ہوسکتا ہے۔ آخر کار 28دسمبر کو شمالی گجرات کے امباجی کے قریب پرجاپتی کا قتل ہوگیا۔ پرجاپتی کاقتل آئی جی پولس گپتا جوہری کی، شیخ کی موت کو فرضی پانے کی رپورٹ کے کچھ دنوں بعد ہی ہوا۔ پولس کا دعویٰ ہے کہ پرجاپتی کی موت بھی ایک مڈبھیڑ میں ہوئی جب وہ پولس حراست سے فرار ہونے کی کوشش کررہا تھا۔
پرجاپتی نے سہراب الدین کے بھائی کو بھی محتاط رہنے اور گجرات میں داخل نہ ہونے کی غلطی نہ کرنے کے لئے متنبہ کیا تھا۔ پرجاپتی کا کہنا تھا کہ سہراب الدین قتل معاملے میں عدالت سے رجوع کرنے پر پولس نے مڈبھیڑ میں ختم کرنے کامنصوبہ بنایا تھا۔
سہراب الدین کے بھائی رباب الدین جس کی سپریم کورٹ میں عرضی پر ڈی آئی جی ڈی جی ونجارا اور دو دوسرے آئی پی ایس افسر سہراب الدین فرضی مڈبھیڑ معاملے میں گرفتار ہوئے۔ رباب الدین نے انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پرجاپتی کو پہلے سے معلوم تھا کہ وہ ماراجائے گا۔ حقیقت میں اس نے پولس سے پوچھا تھا کہ کیوں اسے سہراب الدین کے ساتھ ہی نہیں مار دیا تھا۔‘
رباب الدین نے پرجاپتی کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’’مجھے سہراب الدین کے ساتھ اس لئے نہیں مارا گیا کیونکہ میں ہندو تھا اور میں پولس کی کہانی کہ لشکر نریندرمودی کو مارنا چاہتا ہے میں فٹ نہیں بیٹھتا تھا۔ پرجاپتی نے ادے پور جیل اور سنوائی کے لئے جاتے ہوئے راستے میں اپنی حفاظت کے خدشے کے مدنظر ادے پور سیشن کورٹ کو 9صفحہ کا خط روانہ کیا تھا۔
رباب الدین نے بتایا کہ پرجاپتی کے قتل ہونے سے کئی ماہ قبل پرجاپتی نے اسے پیغام بھیجا تھا کہ وہ اجین میں سنوائی کے دوران اس سے مل جائے۔ اس نے بتایا کہ مڈبھیڑ کرنے والے پولس اہلکار اس (رباب الدین) کو ضرور نشانہ بنائیں گے، کیونکہ وہ عدالت کے معاملے کو آگے بڑھا رہا ہے اور نیاب الدین (پانچ شیخ بھائیوں میں سب سے چھوٹا) کو کیونکہ وہ سرگرمی کے ساتھ ثبوت یکجا کرنے میں لگا ہے اور سہراب الدین کی گم ہوئی بیوی کوثر بی کو بھی تلاش کررہا ہے۔
جوہری کی رپورٹ بتاتی ہے کہ شاید پرجاپتی حیدرآباد سے سانگلی اسی بس میں سہراب الدین اور کوثر کے ساتھ سفر کررہا تھا جب پولس نے انہیں اٹھایا تھا اور نومبر 2005میں گجرات لائی تھی۔
27سالہ پرجاپتی اجین کے شانتی نگر جھگی بستی کا رہنے والا تھا اور مدھیہ پردیش، راجستھان اورگجرات میں اس کے خلاف جبراً وصولی، قتل اور چوری کے کئی معاملے تھے۔ پولس کا کہنا ہے کہ وہ شریف خان گروہ کا شوٹر تھااور مڈبھیڑ میں موت سے کچھ دنوں قبل جب احمدآباد سے ادے پور لے جایا جارہا تھا وہ فرار ہوگیا تھا۔
پرجاپتی اور سہراب الدین دونوں دوست بن گئے جب مدھیہ پردیش کی بھیرو گڑھ جیل میں قید تھے۔ دونوں نے ایک ساتھ گجرات اور راجستھان میں مل کر کام کیا اور کئی معاملات میں شامل تھے۔
تلسی پرجاپتی، جسے دسمبر006میں ایک انکاؤنٹر میں مار دیا گیا، اس کی وجہ کیا تھی اور اس حادثہ سے امت شاہ کا کیا تعلق تھا یہ سمجھنے کے لےے ستمبر006سے جنوری007تک گجرات کے سابق وزیرمملکت برائے داخلہ امت شاہ کے موبائل فون کی کال ڈیٹیلس کو ذہن میں رکھنا ہی کافی ہوگا۔ امت شاہ وپل اگروال، راج کمار پانڈیان، ڈی جی ونجارا سے لگاتار ٹیلی فون کے ذریعہ رابطہ میں رہے اور کال ریکارڈ کے مطابق تینوں پولس افسران سے 155منٹ باتیں ہوئیں۔ 7دسمبر006کو جب سپریم کورٹ میں پہلی بار درخواست گزاری گئی، تب امت شاہ نے ان پولیس افسران کو 20مرتبہ فون کیا۔ دسمبر006میں 42بار اور جنوری007 میں 73مرتبہ فون کیا گیا۔ 7اکتوبر004 سےمارچ005تک امت شاہ نے راجکمارپانڈیان سے 277مرتبہ بات کی۔ اس درمیان سہراب الدین اور پرجاپتی نے کئی جانے مانے بلڈروں کے یہاں وصولی کے لےے فائرنگ کی تھی اور اسی دوران ڈی سی پی ابھے چوڈاساما اور سہراب الدین کے رشتے ظاہر ہوگئے تھے۔ بعد میں چوڈاساما کو گرفتار کرلیا گیا اور یہ حقیقت مکمل طورپر سامنے آگئی کہ چوڈاساما کے سر پر امت شاہ کا ہاتھ تھا۔ امت شاہ کے موبائل824010090 اور825049392، اس کے علاوہ لینڈلائن فون 079-26404230سے راجکمار پانڈیان کے فون پر سیکڑوں کالس کی گئیں۔ دونوں کے درمیان تقریباً ساڑھے پانچ گھنٹے باتیں ہوئیں۔ اب اس کی صفائی میں کچھ بھی کہا جائے، لیکن کسی بھی ریاست کے وزیرداخلہ اور اس کے ماتحت پولیس افسران کے بیچ اتنی بار کال کیا جانا اور اتنی لمبی باتیں ہونا بہت کچھ واضح کردیتا ہے۔ ہمارے پاس واقعات کی تفصیل میں جانے اور کہنے کے لےے بہت کچھ ہے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ سہراب الدین اور امت شاہ کے درمیان رشتوں کو ظاہر کرنے والی یہ رپورٹ قارئین کی خدمت میں پیش کی جائے، جو 25جولائی کو نوبھارت ٹائمس میں شائع کی گئی، جس کا عنوان تھا
’کبھی شاہ کا ہی گُرگا تھا سہراب الدین‘
احمداباد، سہراب الدین انکائونٹر معاملے میں سی بی آئی نے گجرات کے سابق وزیر مملکت برائے داخلہ امت شاہ کے خلاف داخل چارج شیٹ میں ان پرقتل جبراً وصولی، اغوا اور مجرمانہ سازش کے الزامات عائد کئے ہیں۔ چارج شیٹ کے مطابق شاہ ریاست کے سینئر پولس افسران کے ساتھ مل کر جبراً وصولی کا ریکٹ چلاتے تھے۔ شاہ اس کے سرغنہ تھے اور سہراب الدین فرنٹ مین تھا، جبکہ سی ڈی آئی جی ڈی جی ونجارا اور ڈی سی پی ابھے چوڈاساما درمیان کی کڑی تھے۔ چاروںمل کر اس دھندے کو چلارہے تھے۔
سی بی آئی کا دعویٰ ہے کہ بعد میں سہراب الدین نے اکیلے ہاتھ پیر مارنے شروع کردئے۔ اس نے راجستھان کے کئی ماربل تاجروں سے جبراً وصولی شروع کردی، جو اس وقت راجستھان میں بی جے پی کے اقتدار کے محور کے قریبی تھے۔ یہیں سے شاہ اور سہراب الدین کے رشتوں میں تلخی آگئی۔ سی بی آئی کا کہنا ہے کہ شاہ اپنی حد سے واقف تھے، لیکن سہراب الدین اس سے بے پروا تھا۔ جب شاہ سے سہراب الدین کو قابو میں کرنے کے لیے کہا گیا تو ان کے پاس اسے راستے سے ہٹانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ سہراب الدین 2002 سے ہی تلسی پرجاپتی کے ساتھ گروہ بناکر وصولی کا کام کر رہا تھا۔ گروہ بنانے کے بعد اس نے اپنے حریف حامد لالہ کا قتل کردیا۔ سی بی آئی کے مطابق 2004میں سہراب الدین نے راجستھان کے آر کے ماربل کے مالک پٹنی برادرس کو وصولی کے لیے فون کیا۔ اس کے بعد بڑھتے دبائو کے درمیان شاہ نے بی جے پی کے چوٹی کے لیڈروں کی نظر میں چڑھنے کے لیے سہراب الدین سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا اور ڈی جی ونجارا کو اس کے قتل کا حکم دیا، جبکہ اس کے خلاف گجرات میں کوئی بھی معاملہ درج نہیں تھا۔ چارج شیٹ کے مطابق ونجارا نے احمد آباد پولس کی کرائم برانچ کے سربراہ ابھے چوڈاساما سے رابطہ کیا اور سہراب الدین کے خلاف گجرات میں معاملہ درج کیا گیا۔ چوڈاساما نے تلسی پرجاپتی سے رابطہ کیا اور سہراب الدین کو گجرات بلانے کے لیے کہا۔ ونجارا نے بھی پرجاپتی سے ملاقات کی اور اسے یقین دہانی کرائی کہ سہراب الدین کا قتل نہیں کیا جائے گا۔
سی بی آئی کا دعویٰ ہے کہ ونجارا نے پرجاپتی سے کہا کہ یہ ایک سیاسی دبائو ہے۔ ہم سہراب الدین کو صرف گرفتار کریں گے، اس کے بعد پرجاپتی نے پولس کو سہراب الدین کا پتہ ٹھکانہ بتادیا۔ ونجارا اور چوڈاساما نے ایک مقامی بزنس مین سے کوالس کارلی، پھر ڈنگولا کے پاس اس بس کو روکا، جس میں سہراب الدین اپنی بیوی اور تلسی پرجاپتی کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔
چارج شیٹ کے مطابق پولس نے سہراب الدین کو بس سے نیچے اترنے کو کہا۔ اس دوران سہراب الدین کی بیوی کوثر بی بھی ضد کرنے لگی کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلے گی۔
اس دوران گجرات پولس نے پرجاپتی کو ایک پرانے کیس میں راجستھان بھیج دیا اور سہراب الدین کا قتل کردیا گیا، پھر اسے انکائونٹر کا نام دیا گیا۔ بعدمیں کوثر بی کا بھی قتل کردیا گیا۔ اس کی لاش ونجارا کے ہوم ٹائون ایلول میں جلادی گئی۔ اس کی راکھ نرمدا ندی میں بہا دی گئی۔
چارج شیٹ کے مطابق سہراب الدین کے بھائی رباب الدین نے اپنے بھائی کے قتل کی تفتیش کے لیے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی۔ اس کے بعد چوڈاساما نے کیس واپس لینے کے لیے اسے 50 لاکھ روپے کا لالچ دیا۔ جب رباب الدین نے انکار کردیا تو چوڈاساما نے اسے جان سے مارنے کی دھمکی دی۔
lمیرے اس قسطوار مضمون کی آئندہ قسط بیرون ملک کے سفر سے واپسی کے بعد انشاء اللہ2اگست کو

वह लश्कर की कहानी में फिट होता तो उसी समय मार दिया जाता
अज़ीज़ बर्नी

मैं रिसर्च का एक ऐसा विद्यार्थी हूं, जिसकी रिसर्च कभी पूरी नहीं होगी, परंतु मुझे हर दिन अपनी थीसिस अपने पाठकों व भारतीय सरकार की सेवा में प्रस्तुत करनी होती है। आजकल मेरी रिसर्च का विषय है ‘सोहराबुद्दीन शेख़ का फ़र्ज़ी एन्काउन्टर और गुजरात सरकार से उसका संबंध’ परंतु इस विषय पर सारा कुछ मैं स्वयं नहीं लिख रहा हूं। यद्यपि बहुत कुछ है हमारे पास, वह भी जो हम अन्य मीडिया के हवाले के साथ प्रकाशित कर रहे हैं और इसके अतिरिक्त भी, परंतु ऐसा इसलिए कि अगर यह सब कुछ केवल अज़ीज़ बर्नी लिखे तो स्वयं को ‘हिंदू हृदय सम्राट’ कहने वाला और उसकी शान में दिन-रात गुणगान करने वालों को यह अवसर मिल जाएगा कि उर्दू अख़बार और उर्दू पत्रकार तो पक्षपात से ग्रस्त हैं, हमारे विरुद्ध ज़हर उगलते ही रहते हैं, उनकी बात पर क्या ध्यान देना इसलिए उचित यह समझा गया कि भारत के राजनीतिक इतिहास में किसी राज्य के गृह मंत्री का ऐसा चेहरा पहली बार सामने आया है, जो संगठित रूप से अपराध की दुनिया से जुड़ा नज़र आता है और जिसने अपने पद का दुरूपयोग आपराधिक गतिविधियों के लिए किया, उसकी पूरी हक़ीक़त सामने लाई जाए। वे सभी माध्यम, जिनको सामने रख कर आज राष्ट्रीय मीडिया सोहराबुद्दीन हत्या केस के बारे में सीबीआई के हवाले से या अपनी जांच के आधार पर सामने रख रहा है, वह हमें भी उपलब्ध हैं, परंतु एक रिसर्च स्काॅलर केवल अपनी बात नहीं कहता, बल्कि तथ्यों की तलाश में उसकी खोज जारी रहती है और वह अपने रिसर्च पेपर में उन सबका उल्लेख प्रस्तुत करता है, जो इस विषय पर कोई महत्वपूर्ण बात कह रहे हों, आज भी जिन तीन पत्रकारों की रिपोर्ट मेरे सामने है, उनके शुभ नाम हैं- ऊषा चांदना, आलोक तोमर और मुलुंद घाटवाल। एक हिन्दी दैनिक समाचारपत्र में अमित शाह की शान में काफी गुणगान किया गया, लेखक भाजपा के सांसद हैं, परंतु हमारे सामने जो रिपोर्टें हैं उनमें अमित शाह का एक दूसरा चेहरा नज़र आता है। हर्षद मेहता शेयर घोटाला के बाद गुजरात में जिस 5 हज़ार करोड़ रुपए के कोआॅपरेटिव बैंक घोटाले का पर्दाफ़ाश हुआ, उसमें गुजरात के पूर्व गृह राज्य मंत्री का नाम भी शामिल है। कांग्रेसी नेता अर्जुन मोडावाडिया ने एक जांच रिपोर्ट के द्वारा अमित शाह पर आरोप लगाया है कि उन्होंने रिश्वत लेकर केतन पारेख को ज़मानत दिलाने में मदद की।

हम जानते हैं कि सोहराबुद्दीन शेख़ कोई भला आदमी नहीं था। उसका एक आपराधिक रिकार्ड था, मगर क्या यह सच नहीं है कि वह अमित शाह के लिए भी काम करता था। निम्न में महत्वपूर्ण जानकारियां सामने रख रहे हैं।

सोहराबुद्दीन फ़र्ज़ी एन्काउन्टर का गवाह तुलसी प्रजापति, जिसकी बाद में हत्या कर दी गई, ऐसी बहुत सी सच्चाइयों से अवगत था, जिनके सामने आने पर गुजरात सरकार परेशानी में पड़ सकती थी, उसे अपनी जान का ख़तरा था। यह रिपोर्ट इण्डियन एक्सपे्रस में 26 अप्रैल 2010 को प्रकाशित की गई।

गवाह जानता था कि उसे मार दिया जाएगा, यहां तक कि उसने उदयपुर अदालत को भी लिखा था, प्रस्तुत है मुलंुद घाटवाल की रिपोर्टः

उज्जैन, 26 अप्रैल: सोहराबुद्दीन शेख़ जिसकी फ़र्ज़ी एन्काउन्टर मामले में गुजरात पुलिस के तीन आईपीएस अधिकारी गिरफ़्तार हो चुके हैं। सोहराबुद्दीन के मित्र तुलसीराम प्रजापति ने उदयपुर अदालत को लिखा था कि उसका भी ख़ात्मा हो सकता है। अंततः 28 दिसम्बर को उत्तरी गुजरात के अम्बाजी के निकट प्रजापति की हत्या हो गई। प्रजापति की हत्या आईजी पुलिस गीता जौहरी की सोहराबुद्दीन शेख़ के एन्काउन्टर को फ़र्ज़ी पाने की रिपोर्ट के कुछ दिनों बाद ही हुई। पुलिस का दावा है कि प्रजापति की मृत्यु भी एक मुडभेड़ में हुई, जब वह पुलिस हिरासत से भागने का प्रयास कर रहा था।

प्रजापति ने सोहराबुद्दीन के भाई को भी सावधान रहने और गुजरात में प्रवेश करने की ग़लती न करने के लिए सचेत किया था। प्रजापति का कहना था कि सोहराबुद्दीन हत्या मामले में अदालत से सम्पर्क करने पर पुलिस ने मुठभेड़ में समाप्त करने की योजना बनाई थी।

सोहराबुद्दीन के भाई रूबाबुद्दीन जिसकी उच्चतम न्यायालय में अर्ज़ी पर डीआईजी डीजी वंजारा तथा दो अन्य आईपीएस अधिकारी सोहराबुद्दीन फ़र्ज़ी मुडभेड़ मामले में गिरफ़्तार हुए। रूबाबुद्दीन ने इण्डियन एक्सपे्रस से बात करते हुए कहा कि ‘प्रजापति को पहले से मालूम था कि वह मारा जाएगा। वास्तव में उसने पुलिस से पूछा था कि क्यों उसे सोहराबुद्दीन के साथ ही नहीं मार दिया था।’

रूबाबुद्दीन ने प्रजापति के बयान का उल्लेख करते हुए बताया कि ‘मुझे सोहराबुद्दीन के साथ इसलिए नहीं मारा गया क्योंक मैं हिंदू था और मैं पुलिस की कहानी कि लश्कर नरेंद्र मोदी को मारना चाहता है, में फिट नहीं बैठता था। प्रजापति ने उदयपुर जेल और सुनवाई के लिए जाते हुए रास्ते में अपनी सुरक्षा की आशंका के मद्देनज़र उदयपुर सेशन कोर्ट को 9 पृष्ठों का पत्र रवाना किया था।

रूबाबुद्दीन ने बताया कि प्रजापति की हत्या से कई माह पूर्व प्रजापति ने उसे संदेश भेजा था कि वह उज्जैन में सुनवाई के दौरान उससे मिल ले। उसने बताया कि मुडभेड़ करने वाले पुलिस कर्मी उस (रूबाबुद्दीन) को ज़रूर निशाना बनाएंगे, क्योंकि वह अदालत के मामले को आगे बढ़ा रहा है और नयाबुद्दीन (पांच शेख़ भाइयों में सबसे छोटा) को क्योंकि वह सक्रियता के साथ प्रमाण एकत्र करने में लगा है और सोहराबुद्दीन की पत्नी कौसर बी को भी तलाश रहा है।

जौहरी की रिपोर्ट बताती है कि शायद प्रजापति हैदराबाद से सांगली उसी बस में सोहराबुद्दीन और कौसर के साथ यात्रा कर रहा था, जब पुलिस ने उन्हें उठाया था और नवम्बर 2005 में गुजरात लाई थी।

27 वर्षीय प्रजापति उज्जैन की शांतिनगर झुग्गी बस्ती का रहने वाला था और मध्य प्रदेश, राजस्थान एवं गुजरात में उसके विरुद्ध जबरन वसूली, हत्या और चोरी के कई मामले थे। पुलिस का कहना है कि वह शरीफ़ ख़ान गिरोह का शूटर था और मुडभेड़ में मृत्यु से कुछ दिनों पूर्व जब अहमदाबाद से उदयपुर ले जाया जा रहा था वह फ़रार हो गया था।

प्रजापति और सोहराबुद्दीन दोनों मित्र बन गए। जब मध्य प्रदेश की भैरोंगढ़ जेल में बंद थे। दोनों ने एक साथ गुजरात तथा राजस्थान में मिल कर काम किया और कई मामलों में शामिल थे।

तुलसी प्रजापति, जिसे दिसम्बर 2006 में एक एन्काउन्टर में मार दिया गया, उसका कारण क्या था और इस घटना से अमित शाह का क्या संबंध था यह समझने के लिए सितम्बर 2006 से जनवरी 2007 तक गुजरात के पूर्व गृह राज्य मंत्री रहे अमित शाह के मोबाइल फोन के काॅल विवरण को ज़ेहन में रखना ही काफ़ी होगा। अमित शाह, विपुल अग्रवाल, राजकुमार पांडियान, डीजी वंजारा से लगातार टेलीफोन द्वारा सम्पर्क में रहे और काॅल रिकार्ड के अनुसार तीनों पुलिस अधिकारियों से 155 मिनट बातें हुईं। 7 दिसम्बर 2006 को जब सुप्रीम कोर्ट में पहली बार रिट दायर की गई, तब अमित शाह ने उन पुलिस अधिकारियों को 20 बार फोन किया। दिसम्बर 2006 में 42 बार और जनवरी 2007 में 73 बार फोन किया गया। 7 अक्तूबर 2004 से 7 मार्च 2005 तक अमित शाह ने राजकुमार पांडियान से 277 बार बात की। इस बीच सोहराबुद्दीन और प्रजापति ने कई जाने माने बिल्डरों के यहां वूसली के लिए फायरिंग की थी और इसी बीच डीसीपी अभय चुडासामा और सोहराबुद्दीन के रिश्ते ज़ाहिर हो गए। बाद में चुडासामा को गिरफ़्तार कर लिया गया और यह हक़ीक़ीत पूर्ण रूप से सामने आ गई कि चुडासामा के सिर पर अमित शाह का हाथ था। अमित शाह के मोबाइल 9824010090 और 9825049392, इसके आलावा लैंड लाइन फोन 079-26404230 से राजकुमार पांडियान के फोन पर सैक्ड़ों काॅलें की गईं। दोनों के बीच लगभग साढ़े पांच घंटे बातें हुईं। अब इसका कारण कुछ भी कहा जाए, परंतु किसी भी राज्य के गृह मंत्री और उसके मातहत पुलिस अधिकारियों में इतनी बार काॅल किया जाना और इतनी लम्बी बातें होना बहुत कुछ स्पष्ट कर देता है। हमारे पास घटनाओं के विवरण में जाने और कहने के लिए बहुत कुछ है, परंतु हम चाहते हैं कि सोहराबुद्दीन और अमित शाह के बीच रिश्तों को ज़ाहिर करने वाली वह रिपोर्ट पाठकों की सेवा में पेश की जाए जो 25 जुलाई को नवभारत टाइम्स में प्रकाशित की गई जिसका शीर्षक था।

‘कभी शाह का ही गुर्गा था सोहराबुद्दीन?’

अहमदाबाद, सोहराबुद्दीन एन्काउंटर मामले में सी.बी.आई ने गुजरात के पूर्व गृह राज्य मंत्री अमित शाह के ख़िलाफ दाख़िल चार्जशीट में उन पर हत्या, जबरन वसूली, किडनैपिंग और आपराधिक षड़यंत्र के आरोप लगाए हैं। चार्जशीट के मुताबिक शाह राज्य के सीनियर पुलिस अधिकारियों के साथ मिलकर एक्सटाॅर्शन का रैकेट चलाते थे। शाह उसके सरगना थे और सोहराबुद्दीन फ्रंटमैन था, जबकि डी.आई.जी. डी.जी. बंजारा और डी.सी.पी अभय चुडासामा बीच की कड़ी थे। चारों मिलकर इस धंधे को आॅपरेट कर रहे थे।

सी.बी.आई का दावा है कि बाद में सोहराबुद्दीन ने अकेले हाथ-पैर मारना शुरू कर दिया। उसने राजस्थान के कई मार्बल व्यापारियों से एक्सटाॅर्शन वसूलना शुरू कर दिया, जो तब राजस्थान में बी.जे.पी की सत्ता धुरी के क़रीबी थे। यहीं से शाह और सोहराबुद्दीन के रिश्ते में तनाव आ गया। सी.बी.आई का कहना है कि शाह अपनी सीमा जानते थे, पर सोहराबुद्दीन इससे बेपरवाह था। जब शाह से सोहराबुद्दीन को क़ाबू में करने के लिए कहा गया तो उनके पास उसे रास्ते से हटाने के अलावा कोई चारा नहीं था।

सोहराबुद्दीन सन् 2002 से ही तुलसी प्रजापति के साथ गैंग बनाकर वसूली का काम कर रहा थे। गैंग बनाने के बाद उसने अपने प्रतिद्वंदी हामिद लाला की हत्या कर दी। सी.बी.आई के मुताबिक़, सन् 2004 में सोहराबुद्दीन ने राजस्थान के आर.के मार्बल्स के मालिक पटनी ब्रादर्स को एक्सटाॅर्शन के लिए फोन किया। इसके बाद बढ़ते दबाव के बीच शाह ने बी.जे.पी के टाॅप नेताओं की नज़र में चढ़ने के लिए सोहराबुद्दीन से छुटकारा पाने का फैसला कर लिया और डी.जी.बंजारा को उसकी हत्या का आदेश दिया, जबकि उसके खिलाफ गुजरात में कोई मामला दर्ज नहीं था।

चार्जशीट के मुताबिक़, बंजारा ने अहमदाबाद पुलिस के क्राइम ब्रांच के चीफ चुडासामा से संपर्क किया और सोहराबुद्दीन के ख़िलाफ गुजरात में मामला दर्ज किया गया। चुडासामा ने तुलसी प्रजापति से संपर्क किया और सोहराबुद्दीन को गुजरात बुलाने के लिए कहा। वंजारा ने भी प्रजापति से मुलाक़ात की और उसे आश्वासन दिया कि सोहराबुद्दीन की हत्या नहीं की जाएगी।

सी.बी.आई का दावा है कि वंजारा ने प्रजापति से कहा कि यह एक पाॅलिटिकल दबाव है। हम सोहराबुद्दीन को सिर्फ गिरफ्तार करेंगे, जिसके बाद प्रजापति ने पुलिस को सोहराबुद्दीन का पता-ठिकाना बताया। वंजारा और चुडासामा ने एक लोकल बिज़नेसमैन से क्वाॅलिस कार ली। फिर डिंगोला के पास उस बस को रोका, जिसमें सोहराबुद्दीन अपनी पत्नी और तुलसी प्रजापति के साथ सफर कर रहा था।

चार्जशीट के मुताबिक़, पुलिस ने सोहराबुद्दीन को बस से नीचे उतरने को कहा। इस बीच सोहराबुद्दीन की बीवी कौसर बी भी ज़िद करने लगी कि वह भी उसके साथ चलेगी।

इस बीच गुजरात पुलिस ने प्रजापति को एक पुराने केस के मामले में राजस्थान भेज दिया और सोहराबुद्दीन की हत्या कर दी गई और उसे एन्काउंटर का नाम दिया गया। बाद में कौसर बी की भी हत्या कर दी गई। उसकी लाश वंजारा केे होमटाउन इलोले में जला दी गई। उसकी अस्थियां नर्मदा नदी में बहा दी गईं।

चार्जशीट के मुताबिक़ सोहराबुद्दीन के भाई रूबाबुद्दीन ने उसके भाई की हत्या की जांच के लिए सुप्रीम कोर्ट में याचिका दायर की। इसके बाद चुडासामा ने केस वापस लेने के लिए उसे 50 लाख रुपये का लालच दिया। जब रूबाबुद्दीन ने इंकार कर दिया तो चुडासामा ने उसे जान से मारने की धमकी दी।

समेरे इस क़िस्तवार लेख की अगली कड़ी विेदेश यात्रा से वापसी के बाद 12 अगस्त को।

Tuesday, August 3, 2010

’ہندو‘ شری رام کے کردار میں بستا ہے راون کے نہیں!

عزیز برنی

ہندو دہشت گردی کا مطلب ہندو مذہب کی دہشت گردی نہیں ہے۔ مسلم دہشت گردی کا مطلب مذہب اسلام کی دہشت گردی نہیں ہے۔ راون ہندو تھا، ہندو مذہب کا اچھا جانکار تھا، ویدوں کا زبردست جانکار تھا، مگر عمل دہشت گردوں جیسا تھا، لہٰذا اس کی کسی بھی حرکت کو، اس کے کسی بھی عمل کو ہندو مذہب سے کیسے جوڑا جاسکتا ہے۔ بس ہمیں کرنا یہ ہے کہ ہندو مذہب کو شری رام کا مذہب مانیں، راون کا نہیں اور ہندو دھرم میں جو راون جیسے ہیں، انہیں بے نقاب کریں۔ اگر ایسے کچھ لوگ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور انہیں ہندو دہشت گردوں کی شکل میں بے نقاب کیا جارہا ہے تو یہ ہندو دھرم کے لےے دسہرے کے تیوہار کی طرح خوشی کی علامت ہے، نہ کہ افسوس کا یاشرمندگی کا مقام۔ اگر ہندو دھرم کا سہارا لے کر کچھ لوگ راون کے نقش قدم پر چلنے والوں کو بچانا چاہتے ہیں تو انہیں شری رام کے آدرشوں پر چلنے والا کیسے کہا جاسکتا ہے۔ ہندو دھرم کا سچا انویائی کیسے کہا جاسکتا ہے۔ سچے انویائی، سچے ہندو، سچے رام بھکت تو وہ ہیں، جو ہندو دھرم میں چھپے راون کے انویایوں کو ڈھونڈ نکالنے اور انہیں بے نقاب کرنے کا کام کررہے ہیں۔ اگر ایسا ہی کام شہید ہیمنت کرکرے نے کیا تو وہ سچے ہندو بھی تھے اور سچے دیش بھکت بھی۔ یہ تو ہوئی بات ہندو دھرم کی اور ہندوؤں کی پہچان کی۔آئےے اب کچھ بات کریں، ان کی جنہوں نے پہلے شری رام کا راج نیتی کرن کیا اور اب دہشت گردی کا راج نیتی کرن کررہے ہیں۔
آج کل بھارتیہ جنتا پارٹی کے خیمہ میں بڑی ہلچل ہے۔ بڑے سے بڑے نیتا یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ امت شاہ کی گرفتاری کے بعد یہ آگ کبھی بھی ان کے دامن تک پہنچ سکتی ہے، اس لےے بار بار یہ دہرا رہے ہیں کہ اگر نریندرمودی پر ہاتھ ڈالا گیا تو یہ آگ میں ہاتھ ڈالنے جیسا ہی ہوگا۔ وہ جو بھی کہنا چاہتے ہیں، اگر ہم ان کا اشارہ غلط نہیں سمجھ رہے ہیں تو وہ یہی ہے کہ اگر ہندو دہشت گردوں کے چہروں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی گئی اور کڑیاں جوڑتے جوڑتے آخری سرے تک پہنچنے کا ارادہ کیا گیا تو خوفناک انجام بھگتنے کے لےے تیار رہنا ہوگا۔ ہم بیحد ادب سے یہ عرض کردینا چاہتے ہیں کہ انجام نہ تو کانگریس پارٹی کو بھگتنا ہوگا اور نہ ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کو۔ انجام تو بہرحال معصوم بے گناہ عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے، لیکن کیا اس ڈر سے دہشت گردی کو جاری رہنے دیا جائے۔ ان چہروں کو بے نقاب نہ کیا جائے، جو نہ صرف متعدد دہشت گردانہ حملوں کے لےے ذمہ دار ہیں، بلکہ ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرنے کے لےے بھی ذمہ دار ہیں۔ بالفاظ دیگر ہمارے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کررہے ہیں، ملک میں خانہ جنگی کے حالات پیدا کررہے ہیں، ملک کو پھر سے توڑ ڈالنے کی سازشیں کررہے ہیں، اگر نریندر مودی کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں تو وہ لاکھ یہ دعویٰ کریں کہ وہ کسی سے ڈرتے نہیں ہیں، یہ ڈر ان کی چوکھٹ تک پہنچ ہی جائے گا۔ ان کی پارٹی کے بڑے لیڈران بھلے ہی ببانگ دہل یہ دعویٰ کریں کہ اس آگ میں ہاتھ ڈالنے کا انجام خطرناک ہوگا، بےشک وہ سڑکوں پر اتر آئیں، افراتفری کا ماحول پیدا کردیں، لیکن کیا سچ کو دبا سکیں گے۔ کیا مالیگاؤں کا سچ دبایا جاسکا؟ نہیں ہیں آج ہمارے درمیان شہیدہیمنت کرکرے۔ مانا کہ ان کی تحقیقات کا معاملہ ذرا سست ہوگیا، یہ بھی درست ہے کہ تقریباً ایک برس پورا ملک سکتہ کے عالم میں رہا۔ ہم شہیدہیمنت کرکرے جیسے جانباز کو کھودینے کے دکھ سے ابھر نہیں پائے، مگر کیا وہ تمام ملزمین آج بھی چین کی سانس لے پارہے ہیں، وقتی مسکراہٹ ضرور کچھ چہروں پر نظر آئی، مگر اپنے انجام سے بے خبر وہ بھی نہیں ہیں۔ نریندرمودی کے ذریعہ بار بار نفسیاتی اعتبار سے گاندھی کے گجرات کے باشندوں کے جذبات کو ہوا دینے کی کوشش، ہر بات کو گجرات کے وقار سے جوڑ دینے کی کوشش ان کے سیاسی حربے کو کارگر نہیں بناسکتی۔ اگر سہراب الدین کیس گجرات کی عدالت سے باہر چلا گیا تو گجرات کا وقار داؤ پر لگ جائے گا، یہ کیسے سوچ لیا انہوں نے۔ گجرات کے وقار کو بچانے کے لےے ہی تو ایسے تمام چہروں کو بے نقاب کرنا ضروری ہے، جو گجرات کے ماتھے پر کلنک بن گئے ہیں۔ اس بات کا اعتراف تو ہندوستان کے سابق وزیراعظم اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے بڑے لیڈر اٹل بہاری واجپئی نے بھی کیا تھا۔
اسی طرح بعض ہندو دہشت گردوں کے چہرے بے نقاب ہوجانے پر اور لفظ ’’ہندودہشت گردی‘‘ کا استعمال ہونے پر تمام ہندو بھائیوں کے جذبات کو ہوا دینے کی سازش بھی اب کسی سے چھپی نہیں ہے۔ ہندو دہشت گردی کا مطلب ہندو مذہب کی دہشت گردی ہوہی نہیں سکتا اور اگر کوئی ہندو دہشت گرد ہے تو اسے صرف اس بنا پر بخشا نہیں جاسکتا کہ وہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتا ہے، یہ اس ملک کا قانون ہے اور قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو یا وہ کتنے ہی بڑے عہدے پر کیوں نہ ہوں۔ ہمارے پاس ابھی تک جتنا مواد موجود ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امت شاہ کی حیثیت نریندر مودی کے ایک فرمانبردار کارکن سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھی۔ ہم اپنے اس مسلسل مضمون کی اگلی قسط میں وہ تمام حقائق جو سی بی آئی کی تفتیش کے بعد سامنے آئے ہیں اور مختلف ذرائع سے ہم تک پہنچے ہیں، اپنے قارئین کے سامنے رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس میں پرجاپتی کے سیاسی استعمال اور قتل کئے جانے کی داستان بھی شامل ہے اور کس طرح نریندرمودی اور امت شاہ کی ایما پر سہراب الدین کو گجرات لاکر ایک فرضی انکاؤنٹر کا شکار بنایاگیا، اس کی بیوی کوثر بی کا قتل کرکے اس کی لاش کو جلایا گیا اور راکھ ندی میں بہادی گئی، تمام تفصیل موجود ہے، لیکن آج ہم اپنے اس مضمون میں شامل اشاعت کررہے ہیں، کچھ ایسی اہم خبروں کے تراشے، جنہیں ہم نے ’’ٹائمس آف انڈیا‘‘ سے لیاہے۔ یقینا یہ ہم سب کے لےے اطمینان کی بات ہے کہ اب ہمارا قومی میڈیا بھی دہشت گردی کے خاتمہ کی مہم میں جٹ گیا ہے اور اسے اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں ہے کہ اس کی زد میں کون آرہا ہے اور کون آسکتا ہے۔ ہماری تحقیقی صحافت کا سلسلہ جاری رہے گا، ملاحظہ فرمائیں کچھ اہم خبروں کے تراشے اور اندازہ کریں کہ یہ آگ اب کس کس کے دامن تک پہنچ رہی ہے۔ ہم پھر حاضر ہوں گے کل آپ کی خدمت میں کچھ نئی اور اہم معلومات کے ساتھ۔
مودی نے سہراب الدین کیس میں تفتیشی ٹیم میں تبدیلی کی ہدایت دی تھی
گیتا جوہری پر دباؤ ڈال کر انکوئری کو غلط سمت دی: سی بی آئی
نئی دہلی، ( دھننجے مہاپاترا ، ٹائمس نیوز نیٹ ورک)
سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کیس میں سی بی آئی کے ذریعہ وزیر اعلی نریندر مودی کو پوچھ گچھ کے لئے طلب کئے جانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔سی بی آئی کا دعوی ہے کہ اس کے پاس ثبوت ہیں کہ مودی نے اس کیس کی تفتیش کو دبانے کی کو شش کی۔سی بی آئی کا یہ بھی دعوی ہے کہ سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کی تفتیش کرنے والی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی سربراہ گیتا جوہری پر دباؤ ڈالا گیا تھا کہ وہ انکوائری کو غلط سمت میں لے جائیں۔ذرائع کے مطابق اس کیس کی رپورٹ جو سپریم کورٹ کو پیش کی گئی ہے، اس میں سی بی آئی نے دعوی کیا ہے کہ اس کے پاس وہ فائل موجود ہے، جس پر لکھے گئے نوٹ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جس کیس میں پولس افسران ابھئے چوڈاساما اور این کے امین خود ملوث ہیں، اس کیس کی تفتیش کرنے والی ٹیم میں ان دونوں افسران کی تقرری نریندر مودی کی ہدایت پر کی گئی تھی۔اس فائل نوٹ میں کہا گیا ہے کہ سی ایم (وزیر اعلی نریندر مودی) کی ہدایت جو ایک اعلی افسر (اس افسر کانام پوشیدہ رکھا گیا ہے) سے ملی، ایس آئی ٹی میں تبدیلی کی گئی۔
جمعہ کے روز سی بی آئی نے کہا کہ اس کو سہراب الدین اور اس کی بیوی کوثر بی کیس کی تفتیش کو پوری کرنے کے لئے مزید وقت درکار ہے، کیوں کہ اب تک کی تفتیش سے لگتا ہے کہ اس معاملے میں سابق وزیر داخلہ امت شاہ سے اوپر کے لوگ ملوث ہیں، خیال رہے کہ hirarchy ضابطے کے مطابق گجرات کے سابق وزیر مملکت امت شاہ سے اوپر وزارت داخلہ کے انچارج نریندر مودی ہیں اور وہی سینئر افسران کے تبادلے اور تقرری کے لئے ذمہ دار ہیں۔ذرائع کے مطابق سی بی آئی کا کہنا ہے کہ تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گیتا جوہری نے یہ دھمکی ملنے کے بعد کہ گجرات میں تعینات ان کے شوہر کے خلاف، جو کہ انڈین فوریسٹ سروسز کے افسر ہیں، آفیشیل سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے،اپنی تفتیش کو اس کے منطقی انجام تک لانے کی بجائے اچانک اس کے رُخ کو ہی موڑ دیا تھا۔
گیتا جوہری کو پلاٹ بدلنے پر مجبور کیا گیا
دھننجے مہا پاترا(ٹی این این)
نئی دہلیسی بی آئی نے اشارہ دیا ہے کہ اس کے پاس ایسے شواہد ہیں، جو ثابت کرتے ہیں کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سہراب الدین انکائونٹر میں براہ راست ملوث ہیں۔ اس میں ایک ایسی فائل بھی موجود ہے کہ جس میں ہدایت دی گئی ہے کہ اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) میں پولس افسران ابھے چوڈاساما اور این کے امین کو شامل کیاجائے۔چوڈاساما اور امین کو ایس آئی ٹی میں اس لےے شامل کیا گیا تھا، تاکہ وہ گیتا جوہری کی قیادت والی ایس آئی ٹی کی سمت پر نظر رکھ سکیں، کیونکہ گیتا جوہری نے اس بات کا پتہ لگالیا تھا کہ سہراب االدین اور کوثر بی کے ساتھ ایک تیسرا شخص کوئی اور نہیں، تلسی رام پر جاپتی تھا۔ گیتا جوہری راجستھان جیل میں قیدپرجاپتی سے پوچھ گچھ بھی کرنا چاہتی تھیں۔
سی بی آئی کے ذرائع کے مطابق گیتا جوہری کے منصوبے کا پتہ ایس آئی ٹی میں تعینات کیے گئے ان افسران کی مخبری کی وجہ سے ہی لگا۔ ان دونوں کو اس وقت تک گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں نے پرجاپتی کو ایک فرضی انکائونٹر میں ہلاک کردیا تھا۔ پرجاپتی کا فرضی انکائونٹر اس سے صرف ایک دن قبل کیا گیا، جس روز گیتا جوہری اس سے پوچھ گچھ کرنے والی تھیں۔
سی بی آئی اب ان گرفتار اعلیٰ پولس افسران سے پوچھناچاہتی ہے کہ وہ نریندر مودی کیوں چوڈاساما اور امین کو ایس آئی ٹی میں شامل کرنا چاہتے تھے اور ان کو اس بات کا پتہ کب چلا کہ یہ دونوں افسران اس فرضی انکائونٹر میں ملوث ہیں، جن کی تفتیش خود ایس آئی ٹی کررہی ہے۔
سی بی آئی یہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ جب گیتا جوہری کو ایس آئی ٹی سے ہٹانے کے بعد ان کی جگہ رجنیش رائے کو کیوں لایا گیا اور پھر ان کو بھی کیوں ہٹادیا گیا۔
پہلی حکمت عملی : یعنی تمام گواہوں کو فرضی انکائونٹر میں ہلاک کرنے پر کام شروع کیا گیا اور ایس آئی ٹی میں اپنے لوگ تعینات کرنے کے بعد، دوسری حکمت عملی، جو گیتا جوہری کی تفتیش کو غلط سمت میں لیجانے کے لیے مجبور کیا جانا تھی۔
سی بی آئی کا دعویٰ ہے کہ گیتا جوہری کے شوہر، جو آئی ایف ایس ہیں کے خلاف اسپیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت معاملات چل رہے ہیں، اس کیس کے ذریعہ گجرات حکومت گیتا جوہری سے سپریم کورٹ میں کہلوانا چاہتی تھی کہ اغوا کیا جانے والا تیسرا آدمی تلسی پرجا پتی نہیں، بلکہ کلیم الدین تھا اور آندھرا پردیش پولس، جس نے گجرات اور راجستھان پولس کو پوری مدد فراہم کی تھی، یہ بات سپریم کورٹ کو بہتر طور پر بتانے میں کامیاب ہوتی

‘हिन्दू’ श्रीराम के चरित्र में बसता है रावण के नहीं!
अज़ीज़ बर्नी

हिंदू आतंकवाद का अर्थ हिंदू धर्म का आतंकवाद नहीं है। मुस्लिम आतंकवाद का अर्थ इस्लाम धर्म का आतंकवाद नहीं है। रावण हिंदू था, हिंदू धर्म का अच्छा जानकार था, वेदों का ज्ञाता था, परंतु कार्य आतंकवादियों जैसा था, इसलिए उसकी ऐसी किसी भी ’ हरकत को, उसके किसी भी ग़लत कार्य को हिंदू धर्म से कैसे जोड़ा जा सकता है। बस हमें करना यह है कि हिंदू धर्म को श्री राम का धर्म मानें, रावण का नहीं और हिंदू धर्म में जो रावण जैसे हैं, उन्हें बेनक़ाब करें। अगर ऐसे कुछ लोग आतंकी गतिविधियों में लिप्त हैं और उन्हें हिंदू आतंकवादियों के रूप में बेनक़ाब किया जा रहा है तो यह हिंदू धर्म के लिए दशहरे के त्यौहार की तरह प्रसन्नता का प्रतीक है, न कि खेद या शर्मिंदगी का। यदि हिंदू धर्म का सहारा लेकर कुछ लोग रावण के पद चिन्हों पर चलने वालों को बचाना चाहते हैं तो उन्हें श्री राम के आदर्शों पर चलने वाला कैसे कहा जा सकता है। हिंदू धर्म का सच्चा अनुयायी कैसे कहा जा सकता है, सच्चे अनुयायी, सच्चे हिंदू, सच्चे राम भक्त तो वे हैं, जो हिंदू धर्म के आवरण में छुपे रावण के अनुयायियों को ढूंढ निकालने और उन्हें बेनक़ाब करने का काम कर रहे हैं। अगर ऐसा ही काम शहीद हेमंत करकरे ने किया तो वह सच्चे हिंदू भी थे और सच्चे देशभक्त भी। यह तो हुई बात हिंदू धर्म की और हिंदुओं की पहचान की। आइये अब कुछ बात करें उनकी जिन्होंने पहले श्री राम का राजनीतिकरण किया और अब आतंकवाद का राजनीतिकरण कर रहे हैं।

आजकल भारतीय जनता पार्टी के ख़ेमे में बड़ी हलचल है। बड़े से बड़े नेता यह महसूस करने लगे हैं कि अमित शाह की गिरफ़्तारी के बाद यह आग कभी भी उनके दामन तक पहुंच सकती है, इसलिए बार-बार यह दोहरा रहे हैं कि अगर नरेंद्र मोदी पर हाथ डाला गया तो यह आग में हाथ डालने जैसा होगा। वे जो कहना चाहते हैं, अगर हम उनका इशारा ग़लत नहीं समझ रहे हैं तो वह यही है कि अगर हिंदू आतंकवादियों के चेहरों को बेनक़ाब करने का प्रयास किया गया और कड़ियां जोड़ते जोड़ते आख़िरी छोर तक पहुंचने का इरादा किया गया तो भयानक परिणाम भुगतने के लिए तैयार रहना होगा। हम अत्यंत आदर के साथ यह निवेदन कर देना चाहते हैं कि परिणाम न तो कांगे्रस पार्टी को भुगतना होता है और न ही भाजपा को। परिणाम तो हर हाल में मासूम बेगुनाह जनता को ही भुगतना पड़ता है, परंतु क्या इस भय से आतंकवाद को जारी रहने दिया जाए, उन चेहरों को बेनक़ाब न किया जाए जो न केवल विभिन्न आतंकवादी हमलों के लिए ज़िम्मेदार हैं, बल्कि देश में साम्प्रदायिक घृणा पैदा करने के भी दोषी हैं, दूसरे शब्दों में, हमारे देश की जड़ों को खोखला कर रहे हैं, देश में गृह युद्ध के हालात पैदा कर रहे हैं, देश को फिर से तोड़ डालने का षड़यंत्र कर रहे हैं। अगर नरेंद्र मोदी के हाथ ख़ून से रंगे हैं तो वह लाख यह दावा करें कि वे किसी से डरते नहीं है, यह डर उनकी चैखट तक पहुंच ही जाएगा। उनकी पार्टी के बड़े नेतागण भले ही डंके की चोट पर यह दावा करें कि इस आग में हाथ डालने का परिणाम ख़तरनाक होगा, निःसंदेह वह सड़कों पर उतर आएं, उथल पुथल का माहौल पैदा कर दें, लेकिन क्या सच को दबा सकेंगे, क्या मालेगांव का सच दबाया जा सका। नहीं हैं आज हमारे बीच शहीद हेमंत करकरे। माना कि उनके बाद जांच का मामला ज़रा धीमा हो गया, यह भी सच है कि लगभग 1 वर्ष पूरा देश सकते की स्थिति में रहा। हम शहीद हेमंत करकरे जैसे जांबाज़ को खो देने के दुख से उबर नहीं पाए, परंतु क्या वह तमाम अभियुक्त आज भी चैन की सांस ले पा रहे हैं, क्षण भर की मुस्कुराहट ज़रूर कुछ चेहरों पर नज़र आई मगर अपने परिणाम से अनभिझ वह भी नहीं हैं। नरेंद्र मोदी द्वारा बार-बार मनोवैज्ञानिक रूप से गांधी के गुजरात के लोगांें की भावनाओं को हवा देने का प्रयास, हर बात को गुजरात के सम्मान से जोड़ देने का प्रयास उनके राजनीतिक हथकंडे को कारगर नहीं बना सकता। अगर सोहराबुद्दीन केस गुजरात की अदालत से बाहर चला गया तो गुजरात का सम्मान दाव पर लग जाएगा, यह कैसे सोच लिया उन्होंने। गुजरात के सम्मान को बचाने के लिए ही तो ऐसे तमाम चेहरों को बेनक़ाब करना ज़रूरी है, जो गुजरात के माथे पर कलंक बन गए हैं। इस बात को स्वीकार तो भारत के पूर्व प्रधानमंत्री और भारतीय जनता पार्टी के बड़े नेता अटल बिहारी वाजपेयी ने भी किया था।

इसी तरह कुछ हिंदू आतंकवादियों के चेहरे बेनक़ाब हो जाने पर और ‘हिंदू आतंकवाद’ शब्द का प्रयोग होने पर सभी हिंदू भाइयों की भावनाओं को हवा देने का षड़यंत्र भी अब किसी से छुपा नहीं है। हिंदू आतंकवाद का मतलब हिंदू धर्म का आतंकवाद हो ही नहीं सकता और अगर कोई हिंदू आतंकवादी है तो उसे केवल इस आधार पर बख़शा नहीं जा सकता कि वह हिंदू धर्म से संबंध रखता है, यह इस देश का क़ानून है और क़ानून की नज़र में सब बराबर हैं, चाहे उनका संबंध किसी भी धर्म से हो या वह कितने ही बड़े पद पर क्यों न हों। हमारे पास अभी तक जितनी सामग्री मौजूद है, उससे साफ़ ज़ाहिर होता है कि अमित शाह की हैसियत नरेंद्र मोदी के एक आज्ञाकारी कार्यकर्ता से अधिक कुछ भी नहीं थी। हम अपने इस क्रमवार लेख की अगली कड़ी में वह तमाम तथ्य जो सीबीआई की जांच के बाद सामने आए और विभिन्न सूत्रों से हम तक पहुंचे हैं, अपने पाठकों के सामने रखने का इरादा रखते हैं। इसमें प्रजापति के राजनीतिक प्रयोग तथा हत्या किए जाने की कहानी भी शामिल है और किस तरह नरेंद्र मोदी और अमित शाह के इशारे पर सोहराबुद्दीन को गुजरात लाकर एक फ़र्ज़ी एन्काउन्टर का शिकार बनाया गया, उसकी पत्नी कौसर बी की हत्या करके उसकी लाश को जलाया गया और राख नदी में बहा दी गई, जैसे तमाम विवरण मौजूद हैं, परंतु आज हम अपने इस लेख में प्रकाशित कर रहे हैं कुछ ऐसे महत्वपूर्ण समाचारों के अंश, जिन्हें हमने ‘टाइम्स आॅफ इण्डिया’ से लिया है। निश्चय ही यह हम सब के लिए संतोष की बात है कि अब हमारा राष्ट्रीय मीडिया भी आतंकवाद की समाप्ति के अभियान में जुट गया है और उसे इस बात की बिल्कुल परवाह नहीं है कि इसकी लपेट में कौन आ रहा है और कौन आ सकता है। हमारी खोजी पत्रकारिता का सिलसिला जारी रहेागा, मुलाहिज़ा करें कुछ अहम समाचारों के अंश और अनुमान लगाएं कि यह आग अब किस-किस के दामन तक पहुंच रही है। हम फिर हाज़िार होंगे कल फिर आपकी ख़िदमत में कुछ नई और महत्वपूर्ण जानकारियों के साथ।

मोदी ने सोहराबुद्दीन केस में जांच टीम में परिवर्तन का निर्देश दिया था।

गीता जौहरी पर दबाव डाल कर जांच को ग़लत दिशा दी: सीबीआई

नई दिल्ली- (धनंजय महापात्रा, टाइम्स न्यूज़ नेटवर्क)

सोहराबुद्दीन फ़र्ज़ी एन्काउन्टर केस में सीबीआई द्वारा मुख्यमंत्री नरेंद्र मोदी को पूछताछ के लिए बुलाए जाने की संभावनाएं बढ़ गई हैं। सीबीआई का दावा है कि उसके पास प्रमाण हैं कि मोदी ने इस केस की जांच को दबाने का प्रयास किया। सीबीआई का यह भी दावा है कि सोहराबुद्दीन फ़र्ज़ी एन्काउन्टर की जांच करने वाली टीम (एसआईटी) प्रमुख गीता जौहरी पर दबाव डाला गया था कि वह जांच को ग़लत दिशा में ले जाएं। सूत्रों के अनुसार इस केस की रिपोर्ट जो उच्चतम न्यायालय को पेश की गई है उसमें सीबीआई ने दावा किया है कि उसके पास वह फाइल मौजूद है, जिस पर लिखे गए नोट से यह पता चलता है कि जिस केस में पुलिस अधिकारी अभय चैडासामा और एन॰के अमीन स्वयं लिप्त हैं, उस केस की जांच करने वाली टीम में इन दोनों अधिकारियों की नियुक्ति नरेंद्र मोदी के निर्देश पर की गई थी। इस फाइल नोट में कहा गया है कि सी॰एम॰ (मुख्यमंत्री नरेंद्र मोदी) का निर्देश जो एक उच्च अधिकारी (उस अधिकारी का नाम गुप्त रखा गया है) से मिली, एसआईटी में परिवर्तन किया गया।

जुमा के दिन सीबीआई ने कहा कि उसको सोहराबुद्दीन और उसकी पत्नी कौसर बी केस की जांच को पूरा करने के लिए और समय दरकार है, क्योंकि अब तक की जांच से लगता है कि इस मामले में पूर्व गृह राज्य मंत्री अमित शाह से ऊपर के लोग लिप्त हैं, ध्यान रहे कि ीपतंतबील नियम के अनुसार गुजरात के पूर्व राज्यमंत्री अमित शाह से ऊपर गृह मंत्रालय के इंचार्ज नरेंद्र मोदी हैं और वही वरिष्ठ अधिकारियों के तबादले तथा नियुक्ति के लिए ज़िम्मेदार हैं। सूत्रों के अनुसार सीबीआई का कहना है कि जांच में यह बात सामने आई है कि गीता जौहरी ने यह धमकी मिलने के बाद कि गुजरात में उनके पति के विरूद्ध, जो इण्डियन फाॅरेस्ट सर्विसिस के अधिकारी हैं, आॅफ़िशियल सीक्रेट एक्ट के तहत कार्यवाही की जा सकती है, अपनी जांच को उसके परिणाम तक लाने की बजाय अचानक उसकी दिशा को ही मोड़ दिया था।

गीता जौहरी को प्लाट बदलने पर मजबूर किया गया

धनंजय महापात्रा (टी॰एन॰एन)

नई दिल्ली- सीबीआई ने संकेत दिया है कि उसके पास ऐसे प्रमाण हैं जो सिद्ध करते हैं कि गुजरात के मुख्यमंत्री नरेंद्र मोदी सोहराबुद्दीन एन्काउन्टर में अप्रत्यक्ष रूप से लिप्त हैं। इसमें एक ऐसी फाइल भी मौजूद है कि जिसमें निर्देश दिया गया है कि स्पेशल इन्वेस्टिगेशन टीम (एसआईटी) में पुलिस अधिकारियों अभय चैडासामा और एन॰के॰ अमीन को शामिल किया जाए, चैडासामा तथा अमीन को एसआईटी में इसलिए शामिल किया गया था ताकि वह गीता जौहरी के नेतृत्व वाली एसआईटी की दिशा पर नज़र रख सकें, क्योंकि गीता जौहरी ने इस बात का पता लगा लिया था कि सोहराबुद्दीन और कौसर बी के साथ एक तीसरा व्यक्ति कोई और नहीं, तुल्सीराम प्रजापति था। गीता जौहरी राजस्थान जेल में बंद प्रजापति से पूछताछ भी करना चाहती थीं।

सीबीआई सूत्रों के अनुसार गीता जौहरी की योजना का पता एसआईटी में तयनात किए गए इन अधिकारियों की मुख़बिरी के कारण ही लगा। इन दोनों को उस समय तक गिरफ़्तार नहीं किया गया था। इन दोनों ने प्रजापति को एक फ़ज़र््ाी एन्काउन्टर में मार डाला था। प्रजापति का फ़र्ज़ी एन्काउन्टर इससे केवल एक दिन पूर्व किया गया था, जिस दिन गीता जौहरी उससे पूछताछ करने वाली थीं।

सीबीआई अब इन गिरफ़्तार उच्च पुलिस अधिकारियों से पूछना चाहती है कि वह नरेंद्र मोदी क्यों चैडासामा तथा अमीन को एसआईटी में शामिल करना चाहते थे और उनको इस बात का पता कब चला कि यह दोनों अधिकारी उस फ़र्ज़ी एन्काउन्टर में लिप्त हैं जिसकी जांच स्वयं एसआईटी कर रही है।

सीबीआई यह भी जानना चाहती है कि गीता जौहरी को एसआईटी से हटाने के बाद उनकी जगह रजनीश राय को क्यों लाया गया और फिर उनको भी क्यों हटा दिया गया।

प्रथम रणनीति: अर्थात सभी गवाहों को फ़र्ज़ी एन्काउन्टर में मार डालने का काम शुरू किया गया और एसआईटी में अपने लोग तयनात करने के बाद, दूसरी रणनीति जो गीता जौहरी की जांच को ग़लत दिशा में ले जाने के लिए मजबूर किया जाना था। सीबीआई का दावा है कि गीता जौहरी के पति जो आईएफएस हैं’ के ख़िलाफ़ स्पेशल सीक्रेट एक्ट के तहत मामले चल रहे हैं, उस केस द्वारा गुजरात सरकार गीता जौहरी से उच्चतम न्यायालय में कहलवाना चाहती थी कि अपहरण किया जाने वाला तीसरा व्यक्ति तुल्सी प्रजापति नहीं, बल्कि कलीमुद्दीन था और आंध्र प्रदेश पुलिस जिसने गुजरात और राजस्थान पुलिस को पूरा सहयोग उपलब्ध कराया था, यह बात उच्चतम न्यायालय को सही ढंग से बताने में सफल होती।

Sunday, August 1, 2010

اب کوئی حق نہیں، مودی سرکار کو بنے رہنے کا!

عزیز برنی

نریندرمودی اگر آج بھی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ ہیں تو اس کی وجہ ہے مرکزی حکومت میں مضبوط قوت ارادی کا نہ ہونا، ورنہ فروری002- کے فرقہ وارانہ فسادات میں گجرات کے چہرے پر بدنما داغ لگانے والا یہ شخص آج سلاخوں کے پیچھے ہوتا۔ یہ بات اسی وقت متعدد ذمہ دارسیاستدانوں نے کہی تھی، جسے میں آج کے اپنے مضمون کے تسلسل میں اپنے قارئین کے سامنے رکھنے جارہا ہوں۔
نریندرمودی اگر آج بھی گجرات کے وزیراعلیٰ ہیں تو اس کی وجہ ہمارے قانون کے اندر کچھ ایسے سوراخ بھی ہیں، جن سے ملنے والی آکسیجن ایسے لوگوں کو بھی زندگی بخشتی رہتی ہے، جن کی زندگی ملک اور قوم کے تئیں کسی ناسور سے کم نہیں ہوتی، ورنہ جس طرح 6دسمبر992کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد جن چار ریاستوں میں بھارتیہ جنتاپارٹی کی سرکاریں تھیں، ان سبھی کو برخاست کردیا گیا تھا، اسی طرح نہ صرف یہ کہ نریندرمودی کو گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد برخاست کردیا جاتا، بلکہ پھر کبھی سیاست میں حصہ لینے کے لےے نااہل بھی قرار دے دیا جاتا۔ یہاں اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکاروں کو برخاست کردئے جانے کی نظیر اس لےے پیش کی گئی کہ اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ ملک کے سیکولرزم اور جمہوری نظام میں فرقہ پرستی کے لےے کوئی گنجائش نہیں ہے اور جس پارٹی کے عمل نے یہ ثابت کردیا کہ نہ تو اس کا جمہوریت پر یقین ہے اور نہ ہی وہ سیکولرزم پر گامزن ہے، اسی لےے ان ریاستی سرکاروں کو برخاست کردیا گیا، جہاں اس پارٹی کی سرکاریں تھیں، بھلے ہی وہ براہ راست بابری مسجد کی شہادت کے لےے ذمہ دار نہیں تھیں۔ آج ہمارے قانون داں حضرات کو اس سمت میں سوچنے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ 6دسمبر992کو ہوا، کیا اس کے 10 برس بعد گجرات میں نریندرمودی کی قیادت میں ہوئی مسلمانوں کی نسل کشی کتنا الگ معاملہ تھا۔
نریندرمودی آج بھی اگر گجرات کے وزیراعلیٰ ہیں تو اس کی وجہ انتخابی نظام کی خامی و ووٹرس کا مکمل طور پر بیدار نہ ہونا وفرقہ پرستی و ذات پرستی کے گمراہ کن پروپیگنڈے میں پھنس جانا بھی ہے۔
آج نریندرمودی سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کے معاملہ کو گجرات ریاست کے باہر لے جانے کی سی بی آئی کی کوششوں پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کیا گجرات ہندوستان کا حصہ نہیں ہے؟ گجرات کو ایک دشمن ملک کی طرح کیوں تصور کیا جارہا ہے؟‘ کاش کہ وہ اپنا چہرہ آئینہ میں دیکھ لیتے تو انہیں اپنے ہر سوال کا جواب مل جاتا۔ ان کے دوراقتدار میں گجرات میں جو کچھ ہوا، اس پر ملک کے ذمہ داروں کی رائے کیا ہے اور کیا تھی، جب ہم آنے والی سطروں میں یہ بیان کریں گے تو وہ اچھی طرح سمجھ لیں گے کہ یہی وہ آئینہ ہے، جس میں ہم انہیں اپنا چہرہ دیکھنے کے لےے کہہ رہے ہیں۔ساتھ ہی ہم یہ بھی ذہن نشیں کرا دینا چاہتے ہیں کہ وہ اس وقت کیوں خاموش رہے، جب سپریم کورٹ کے احکامات پر گودھرا سانحہ کی تحقیقات کو گجرات سے باہر منتقل کردیا گیا تھا۔آئےے اب بات کرتے ہیں سی بی آئی کے ذریعہ سہراب الدین انکاؤنٹر معاملہ کو گجرات کے باہر لے جانے کی کوشش کرنے پر نریندرمودی کے چراغ پا ہونے کی۔
!ابھی سی بی آئی کے ذریعہ کی گئی تفتیش پر مبنی وہ چارج شیٹ پوری طرح منظرعام پر آئی بھی نہیں ہے، جو نہ صرف نریندرمودی، ان کی سرکار، بلکہ سنگھ پریوار کے اس چہرے کو بے نقاب کرسکتی ہے، جس نے آزادی کے مسیحا مہاتماگاندھی کا قتل کرنے کے بعد ہی اپنی ذہنیت کو سامنے رکھ دیا تھا۔ ہمیں اندازہ ہے کہ یہ حقائق ایک عام ہندوستانی کے لےے ناقابل یقین ہوںگے کہ صرف امت شاہ ہی نہیں، صرف ونجارا ہی نہیں یا صرف وہ لوگ ہی نہیں، جن کے نام ابھی تک سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کے سلسلہ میں منظرعام پر آئے ہیں، بلکہ مکمل گجرات سرکار جس میں گلے گلے شامل نظر آسکتی ہے۔ غالباً نریندرمودی اسی لےے خوفزدہ ہیں کہ بات امت شاہ پر ختم نہیں ہوگی اور نہ ہی ہرین پانڈیا کی طرح امت شاہ کی زبان خاموش ہوجانا مسئلہ کا حل ہوسکتا ہے۔ دراصل نریندرمودی گجرات کے وزیراعلیٰ ہونے کے ساتھ ساتھ وزیرداخلہ بھی خود ہی ہیں۔ امت شاہ تو ان کے ماتحت وزارت داخلہ کی ذمہ داریاں دیکھتے رہے ہیں، وہ کابینہ درجہ کے وزیر نہیں تھے۔ویسے بھی ان کی شناخت مودی کے معتمد فرمانبردار اور حکم بجا لینے والے وزیر کی ہی رہی ہے اور جہاں تک سہراب الدین کو راستے سے ہٹانے کا معاملہ ہے تو یہ صرف ایک فرضی انکاؤنٹر ہی نہیں تھا۔ اس کے پس پردہ اور بہت کچھ تھا، پرتیں کھلنے دیجئے، کیا کیا چونکا دینے والے حقائق منظرعام پر آتے ہیں۔ مختصراً یہ سمجھیں کہ سہراب الدین کا فرضی انکاؤنٹر مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لےے، اسے مودی کا قاتل اور دہشت گرد ثابت کرنے کے لےے ہی نہیں نریندر مودی کا مہیمامنڈن (ثناخوانی) کرنے کے لےے، ان کے زیرسایہ چلنے والی تمام تر بدعنوانیوں کی پردہ پوشی کرنے کے لےے ضروری ہوگیا تھا۔
o نہ جانے اب بھی مرکزی حکومت اتنی ہمت نہیں کرپارہی ہے کہ وہ واضح ثبوت ہونے پر گجرات سرکار کو برخاست کردے۔ نریندرمودی پر مقدمہ چلائے، تاکہ قانون کے مطابق انہیں سزا ملے۔ اگر اس معاملہ کو اتنا لمبا کھینچنے کی ضرورت صرف اس لےے محسوس کی جارہی ہے کہ جب تک الیکشن کا وقت نزدیک نہ آجائے، معاملہ کو طول دے کر ماحول سازی کی جاتی رہی تو یہ ایک مثبت سوچ نہیں ہے۔ اس سے اگر کانگریس کو یہ موقع حاصل ہوتا ہے کہ دیر تک ایسے معاملات کو موضوع بحث بنا کر عوام کی ذہن سازی کرے تو دوسری طرف فرقہ پرست طاقتوں کو بھی بچاؤ کے راستے نکالنے کے لےے موقع مل جاتا ہے اور بہرحال نریندرمودی چرب زبان ہونے کے ساتھ ساتھ اس کام میں مہارت بھی رکھتے ہیں۔ ہمارے سامنے اس وقت کئی ایسی ذمہ دار شخصیتوں کے بیانات ہیں، جنہوں نے گجرات فسادات کے بعد ہی نریندرمودی کو برخاست کرنے کی بات کہی تھی، جو آج مرکزی حکومت میں وزیر ہیں یا پارلیمنٹ میں مضبوط پوزیشن رکھتے ہیں۔ ہم نے جان بوجھ کر اس وقت مالیگاؤں تفتیش کے سلسلہ میں شہیدہیمنت کرکرے کے ذریعہ سامنے لائے گئے چہروں کا ذکر نہیں کیا اور ان کی اس کوشش کا ردعمل کیا ہوا، اس پر بحث نہیں کی، کیوں کہ اپنے اس قسطوار مضمون میں آئندہ ہم یہ واضح کردینے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ عمل کے ردعمل کی یہ فلاسفی کس حد تک سنگھ پریوار کے پروردہ لوگوں کے دل و دماغ میں پیوست ہوگئی ہے اور وہ اس کے لےے کس حد تک جاسکتے ہیں۔
اب وہ بیانات جنہوں نے گجرات فسادات کے بعد ہی مودی کو برخاست کرنے کی بات کہی تھی:
پرنب مکھرجی (سینئر لیڈرکانگریسی)
ملک کی ایکتا اور لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری سرکار کی ہے، اگر وہ اسے نبھانے کے قابل نہیں تو اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر یہی حالت رہی تو بین الاقوامی سطح پر بھارت کی شبیہ ایک فسادی ملک کی شکل میں ابھرے گی۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی،2مارچ002، صفحہـ، کالمـ)
کپل سبل(سینئر لیڈر کانگریسی)
نریندرمودی کو فوراً ان کی کرسی سے ہٹا کر فسادات کی جانچ سپریم کورٹ کے موجودہ جج سے کرانی چاہےے۔ گجرات کے ان واقعات سے ملک کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ وشوہندوپریشد اور بجرنگ دل، مجرموں، دہشت گردوں اور ٹھگوں اور غنڈوں کی جماعت ہے، جسے پچھلے تین برسوں سے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ ہر جگہ تناؤ اور تشدد پھیلا کر بی جے پی کی سیاست کو بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسے میں کیوں کہا جاتا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کو بڑھاوا دیتا تھا یا نازی ایک خاص فرقہ کا قتل عام کرتے تھے۔ اب تو ان کے بھائی ہمارے یہاں ہی موجود ہیں۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، جمعہ،مارچ002، صفحہـ، کالمـ)
ممتابنرجی (سابق مرکزی وزیر وصدرترن مول کانگریس)
گجرات میں جو بھی ہوا، وہ سنگین جرم ہے۔ ہمیں سبھی فرقوں کی عورتوں اور بچوں پر ہوئے مظالم کو دیکھ کر صدمہ پہنچا ہے۔ یہ کہتے ہوئے میرا سر شرم سے جھک رہا ہے کہ اب لیڈر لاشوں کے ڈھیر پر بھی کرسی کی سیاست کررہے ہیں۔ اگر اس قابل مذمت کام کو روکا نہیں گیا تو آنے والی نسل ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی،2مارچ002، صفحہـ)
ملائم سنگھ یادو(سابق وزیردفاع)
گجرات کے واقعات خوفناک ہیں۔ وہاں ساری گڑبڑیاں سرکار کے زیرنگرانی ہورہی ہیں، وہاں کچھ ایسا ہورہا ہے، جیسے روم جل رہا ہے اور نیروبانسری بجارہا ہو۔ گجرات کے واقعات کو گودھرا کا ردعمل کہہ کر ٹالا نہیں جاسکتا۔ گجرات کے واقعات ’’انسانیت کے قتل‘‘ جیسے ہیں اور ایک ریاست کے وزیراعلیٰ کو بچانے کے لےے ملک توڑنے کی سازش مناسب نہیں ہے۔ مودی سرکار فسادات کو روکنے کی بجائے انہیں بڑھانے میں لگی ہوئی ہے۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، یکم مئی002، صفحہـ)
لالوپرسادیادو (صدرراشٹریہ جنتا دل)
گودھرا سانحہ کے پیچھے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی سازش ہے۔ گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرمودی کو ریاست کے عوام کے خلاف مجرمانہ سازش کے الزام میں گرفتار کیا جانا چاہےے۔ شری واجپئی کروڑوں روپے کا پیکج دے کر مودی کا پاپ نہیں دھوسکتے۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، 3مئی002، صفحہـ)
جب تک مودی کو سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیجا جائے گا، تب تک مہاتماجی کے گجرات میں شانتی نہیں ہوپائے گی۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، 15مئی002، صفحہـ)
امرسنگھ (جنرل سکریٹری سماجوادی پارٹی)
گجرات کا زخم مودی کے ہٹنے سے ہی بھرے گا۔ مودی ہندوتو کے ٹھیکیدار ہیں۔ آر ایس ایس کی تجربہ گاہ کے وہ ایک ایسے سائنسداں ہیں، جنہوں نے فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کو پھیلانے والی لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، 11مئی002، صفحہـ)
سیتا رام یچوری (سینئر لیڈر سی پی ایم ممبر پولٹ بیورو)
آزادی کے بعد بھارت کی تاریخ میں یہ پہلی بار سرکار اسپانسرڈ فسادات ہوئے ہیں۔ مرکزی سرکار نے آئین کی دفعہ 356-کے تحت کارروائی کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا ہے، اس لےے گجرات میں 356کے تحت صدرراج نافذ کیا جانا چاہےے۔
(راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، ہفتہ،1مئی002، صفحہـ، کالمـ)


अब कोई हक़ नहीं, मोदी सरकार को बने रहने का!
अज़ीज़ बर्नी

नरेंद्र मोदी अगर आज भी गुजरात राज्य के मुख्य मंत्री हैं तो इसका कारण है केंद्र सरकार में दृढ़ इच्छा शक्ति का न होना, वरना फरवरी 2002 के साम्प्रदायिक दंगों में गुजरात के चेहरे पर कलंक लगाने वाला यह व्यक्ति आज सलाख़ों के पीछे होता। यह बात उसी समय विभिन्न ज़िम्मेदार राजनीतिज्ञों ने कही थी, जिसे मैं आजके अपने लेख की इस कड़ी में अपने पाठकों के सामने रखने जा रहा हूं।

नरेंद्र मोदी अगर आज भी गुजरात के मुख्यमंत्री हैं तो इसका कारण हमारे क़ानून के अंदर कुछ ऐसे छेद भी हैं जिनसे मिलने वाली आॅक्सीजन ऐसे लोगांें को भी जीवन प्रदान करती रहती है, जिनका जीवन देश तथा जनता के प्रति किसी नासूर से कम नहीं होता, वरना जिस प्रकार 6 दिसम्बर 1992 को बाबरी मस्जिद की शहादत के बाद जिन 4 राज्यों में भारतीय जनता पार्टी की सरकारें थीं, उन सभी को बर्ख़ास्त कर दिया गया था, उसी प्रकार न केवल यह कि नरेंद्र मोदी को गुजरात में मुसलमानों के नरसंहार के बाद बरख़ास्त कर दिया जाता, बल्कि फिर कभी राजनीति में भाग लेने के लिए अयोग्य भी घोषित कर दिया जाता। यहां उस समय भारतीय जनता पार्टी की सरकारों को बर्ख़ास्त कर दिए जाने का उदाहरण इसलिए पेश किया गया कि उसका कारण भी यही था कि देश की धर्मनिरपेक्ष तथा लोकतांत्रिक व्यवस्था में साम्प्रदायिकता के लिए कोई गुंजाइश नहीं है और जिस पार्टी के कार्यों ने यह सिद्ध कर दिया कि न तो उसका लोकतंत्र पर विश्वास है और न ही वह धर्मनिरपेक्षता पर अग्रसर है, इसीलिए उन राज्य सरकारों को बर्ख़ास्त कर दिया गया जहां जहां उस पार्टी की सरकारें थीं भले ही वह प्रतयक्ष रूप से बाबरी मस्जिद की शहादत के लिए ज़िम्मेदार नहीं थीं। आज हमारे क़ानूनविदों को इस दिशा में सोचने की आवश्यकता है कि जो कुछ 6 दिसम्बर 1992 को हुआ, क्या उसके 10 वर्ष बाद गुजरात में नरेंद्र मोदी के नेतृत्व में हुआ मुसलमानों का नरसंहार कितना अलग मामला था।

नरेन्द्र मोदी आज भी अगर गुजरात के मुख्यमंत्री हैं तो इसका कारण हमारी चुनाव व्यवस्था की ख़ामी व मतदाताओं का पूर्णतः जागरुक न होना व साम्प्रदायिकता व जातिवाद के भ्रामक प्रचार में फंस जाना भी है।

आज नरेंद्र मोदी सोहराबुद्दीन फ़र्ज़ी एन्काउन्टर मामले को गुजरात राज्य के बाहर ले जाने के सीबीआई के प्रयासों पर अपनी प्रतिक्रिया व्यक्त करते हुए कहते हैं कि ‘क्या गुजरात भारत का अंग नहीं है? गुजरात को एक शत्रु देश की तरह क्यों समझा जा रहा है?’ काश कि वह अपना चेहरा आईने में देख लेते तो उन्हंे अपने हर प्रश्न का उत्तर मिल जाता। उनके शासनकाल में गुजरात में जो कुछ हुआ, उस पर देश के ज़िम्मेदारों की राय क्या है और क्या थी जब हम आने वाली पंक्तियों में यह बयान करेंगे तो वह अच्छी तरह समझ लेंगे कि यही वह आईना है जिसमें हम उन्हें अपना चेहरा देखने के लिए कह रहे हैं। साथ्ी ही हम यह भी कह देना चाहते हैं कि वह उस समय क्यों ख़ामोश रहे जब उच्चतम न्यायालय के आदेश पर गोधरा कांड की जांच को गुजरात से बाहर हस्तांतरित कर दिया गया था। आइए अब बात करते हैं सीबीआई द्वारा सोहराबुद्दीन एन्काउन्टर मामले को गुजरात के बाहर ले जाने के प्रयास पर नरेंद्र मोदी के क्रोधित होने की।

अभी सीबीआई द्वारा की गई जांच पर आधारित वह चार्ज शीट पूरी तरह सामने आई भी नहीं है, जो न केवल नरेंद्र मोदी, उनकी सरकार बल्कि संघ परिवार के उस चेहरे को बेनक़ाब कर सकती है, जिसने आज़ादी के मसीहा महात्मा गांधी की हत्या करने के बाद ही अपनी मानसिकता को सामने रख दिया था। हमें अंदाज़ा है कि यह तथ्य एक आम भारतीय के लिए अविश्वसनीय होगा कि केवल अमित शाह ही नहीं, केवल वंजारा ही नहीं या केवल वे लोग ही नहीं, जिनके नाम अभी तक सोहराबुद्दीन फ़र्ज़ी एन्काउन्टर के सिलसिले में सामने आए हैं बल्कि पूरी गुजरात सरकार इसमें गले-गले तक शामिल नज़र आती है। संभवतः नरेंद्र मोदी इसीलिए भयभीत हैं कि बात अमित शाह पर समाप्त नहीं होगी और न ही हरेन पांडिया की तरह अमित शाह की ज़ुबान ख़ामोश हो जाना समस्या का समाधान हो सकता है। दरअसल नरेंद्र मोदी गुजरात के मुख्यमंत्री होने के साथ-साथ स्वयं ही गृहमंत्री भी हैं। अमित शाह उनके अधीन गृहमंत्रालय की ज़िम्मेदारियां देखते रहे हैं, वह कैबिनेट स्तर के मंत्री नहीं थे। वैसे भी उनकी पहचान मोदी के विश्वस्त आज्ञाकारी तथा आदेश का पालन करने वाले मंत्री की ही रही है और जहां तक सोहराबुद्दीन को रास्ते से हटाने का मामला है तो यह केवल एक फ़र्ज़ी एन्काउन्टर ही नहीं था इसकी पृष्ठ भूमि में और बहुत कुछ था। परतें खुलने दीजिए फिर देखिए क्या क्या चैंका देने वाले तथ्य सामने आते हैं। संक्षिप्त में यह समझें कि सोहराबुद्दीन का फ़र्जी एन्काउन्टर मुसलमानों को बदनाम करने के लिए, उसे मोदी का हत्यारा तथा आतंकवादी सिद्ध करने के लिए ही नहीं बल्कि नरेंद्र मोदी की महिमा मंडन करने के लिए, उनके अधीन चलने वाले तमाम भ्रष्टाचारों पर पर्दा डालने के लिए आवश्यक हो गया था।

न जाने क्यों अब भी केंद्र सरकार इतनी हिम्मत नहीं कर पा रही है कि वह स्पष्ट प्रमाण होने पर गुजरात सरकार को बर्ख़ास्त कर दे। नरेंद्र मोदी पर मुक़दमा चलाए ताकि क़ानून के अनुसार उन्हें सज़ा मिले। अगर इस मामले को इतना लम्बा खींचने की आवश्यकता केवल इसलिए महसूस की जा रही है कि जब तक चुनावों का समय नज़दीक न आ जाए मामले को तूल देकर माहौल बनाया जाता रहे। तो यह एक सकारात्मक सोच नहीं है। इससे अगर कांगे्रस को यह अवसर प्राप्त होता है कि देर तक ऐसे मामलों को चर्चा का विषय बना कर जनता के मन को तैयार करे तो दूसरी ओर साम्प्रदायिक शक्तियों को भी बचाव के रास्ते निकालने के लिए अवसर मिल जाता है और बहरहाल नरेंद्र मोदी चर्बज़ुबान होने के साथ साथ इस काम में महारत भी रखते हैं। हमारे सामने इस समय कई ऐसे ज़िम्मेदार व्यक्तियों के बयान हैं, जिन्होंने गुजरात दंगों के बाद ही नरेंद्र मोदी को बखऱ्ास्त करने की बात कही थी, जो आज केंद्र सरकार में मंत्री हैं या पार्लियमिंट में भी मज़बूत पोज़िशन रखते हैं। हमने जानबूझ कर इस समय माले गांव जांच के सिलसिले में शहीद हेमंत करकरे द्वारा सामने लाये गए चेहरों का उल्लेख नहीं किया और उनके इस प्रयास की प्रतिक्रिया क्या हुई, उस पर चर्चा नहीं की, क्योंकि अपने इस क्रमवार लेख में आगे हम यह स्पष्ट कर देने का इरादा रखते हैं कि क्रिया की प्रतिक्रिया की यह फ़्लासफ़ी किस हद तक संघ परिवार के पोषित लोगों के दिल व दिमाग़ पर छाई हुई है और वह उसके लिए किस हद तक जा सकते हैं।

अब वह बयानात जिनमें गुजरात दंगों के बाद ही मोदी को बर्ख़ास्त करने की बात कही गई थी।

प्रणव मुखर्जी (सीनियर वरिष्ठ कांग्रेसी नेता)

देश की एकता तथा लोगों की जान व माल की सुरक्षा की ज़िम्मेदारी सरकार की है अगर वह इसे निभाने में सक्षम नहीं हैं तो उसे सत्ता में रहने का कोई अधिकार नहीं है। अगर यही स्थिति रही तो अंतरराष्ट्रीय स्तर पर भारत की छवि एक दंगाई राष्ट्र के रूप में बनेगी।

(राष्ट्रीय सहारा, नई दिल्ली, शुक्रवार 8 मार्च 2002, पृष्ठ-7, क-3)

कपिल सिब्बल (वरिष्ठ कांग्रेस नेता):

नरेंद्र मोदी को अविलंब पद से हटाना और दंगों की जांच सर्वोच्च न्यायालय के वर्ततान न्यायाधीश से करानी चाहिए। गुजरात की इन घटनाओं से देश का सर शर्म से झुक गया है। विश्व हिंदू परिषद और बजरंग दल अपराधी, आतंकवादी तथा ठगों एवं गुंडों की जमात है जिसे पिछले तीन सालों से खुला छोड़ दिया गया है और वह हर जगह तनाव और हिंसा फैलाकर भाजपा की राजनीति को बढ़ाने के लिए प्रयास कर रहे हैं। ऐसे में क्यों कहा जाता है कि अफ़ग़ानिस्तान आतंकवाद को बढ़ावा देता था या नाज़ी एक ख़ास समुदाय का क़त्ले आम करते थे। अब तो इनके भाई हमारे यहां ही मौजूद हैं।

(राष्ट्रीय सहारा, नई दिल्ली-शुक्रवार 8 मार्च, 2002 पृष्ठ 7, क-1)

ममता बनर्जी (पूर्व केन्द्रीय मंत्री व अध्यक्ष तृनमूल कांग्रेस)

गुजरात में जो भी हुआ वह जघन्य अपराध है। हमें सभी समुदाय की महिलाओं और बच्चों पर हुए अत्याचार को देख कर आघात लगा है। यह कहते हुए मेरा सर शर्म से झुक रहा है कि अब राजनेता लाशों के ढेर पर भी कुर्सी की राजनीति कर रहे हैं। अगर इस घृणित कार्य को रोका नहीं गया तो आने वाली पीढ़ी हमें माफ़ नहीं करेगी।

(राष्ट्रीय सहारा, नई दिल्ली-12 मार्च 2002 पृष्ठ 7, क-2)

मुलायम सिंह यादव (पूर्व रक्षामंत्री)

गुजरात की घटनाएं भयावह हैं। वहीं सारी गड़बड़ियां सरकार के संरक्षण में हो रही हैं। वहाँ कुछ ऐसा हो रहा है जैसे रोम जल रहा है और नीरो बांसुरी बजा रहा हो। गुजरात की घटनाओं को गोधरा की प्रतिक्रिया कह कर टाला नहीं जा सकता। गुजरात की घटनाएं ‘‘मानवता की हत्या’’ जैसी है और एक राज्य के मुख्यमंत्री को बचाने के लिए देश तोड़ने की साज़िश उचित नहीं है। मोदी सरकार दंगों को रोकने के बजाए उन्हें बढ़ाने में लगी हुई है।

(राष्ट्रीय सहारा, नई दिल्ली, 1 मई 2002, पृष्ठ-1,)

लालू प्रसाद यादव (अध्या राष्ट्रीय जनता दल)

गोधरा कांड के पीछे राष्ट्रीय स्वयं सेवक संघ की साज़िश है। गुजरात के मुख्यमंत्री नरेंद्र मोदी को राज्य की जनता के ख़िलाफ़ आपराधिक षड़यंत्र के आरोप में गिरफ़्तार किया जाए। श्री वाजपेयी करोड़ रुपए का पैकेज देकर मोदी का पाप नहीं धो सकते।

(राष्ट्रीय सहारा, नई दिल्ली, शुक्रवार 3 मई 2002, पृष्ठ-1, क-2)

जब तक मोदी सलाख़ों के पीछे नहीं भेजा जाएगा, तब तक महात्मा गांधी के गुजरात में शांति नहीं हो पाएगी।

(राष्ट्रीय सहारा, नई दिल्ली, 15 मई 2002, पृष्ठ-7, क-1)

अमर सिंह (महासचि समाजवादी पार्टी)

गुजरात का ज़ख़्म मोदी के हटने से ही भरेगा। मोदी हिंदुत्व के ठेकेदार हैं। आर॰एस॰एस॰ की प्रयोगशाला के वह ऐसे वैज्ञानिक हैं जिन्होंने साम्प्रदायिक उन्माद को फैलाने वाली लाल कृष्ण आडवाणी की रथ यात्रा को भी पीछे छोड़ दिया है।

(राष्ट्रीय सहारा, नई दिल्ली, शुक्रवार 11 मई 2002, हस्तक्षेप पृष्ठ-1, क-1)

सीता राम येचुरी (वरिष्ठ नेता माकपा, सदस्य पाॅलित ब्यूरो)

आज़ादी के बाद भारत के इतिहास में यह पहली बार सरकार प्रायोजित दंगा हुआ है केन्द्र सरकार ने अनुच्छेद 355 के तहत कारवाई करने के आश्वासन दिए थे लेकिन अभी तक कुछ नहीं किया गया है इसलिए गुजरात में अनुच्छेद 356 के तहत राष्ट्रपति शासन लागू किया जाना चाहिए।

(राष्ट्रीय सहारा, नई दिल्ली, शनिवार 11 मई 2002, पृष्ठ-7, क-1)