Thursday, July 22, 2010

تو یہ ہیں محب وطن.....؟

عزیز برنی

اپنے قسط وار مضمون’’آزاد بھارت کا اتہاس‘‘ کی 150ویں قسط کومیں ’مسئلہ کشمیر‘ کی نذر کرنا چاہتا تھا اور اس کی اشاعت کے لےے میرے ذہن میں اپنے سابقہ مضمون ’’مسلمانان ہند… ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟‘‘ کی 100ویں قسط کی طرح ایک دستاویزی حیثیت میں پیش کرنے کا منصوبہ ہندی، اردو اور انگلش تینوں زبانوں میں تھا اور جس طرح اسے 100صفحات سے زیادہ پر مشتمل میگزین کی شکل میں شائع کیا گیا تھا، اسی طرح مسئلہ کشمیر پر ہماری یہ پیشکش بھی ایک تاریخی دستاویز کی شکل میں سامنے آنی تھی۔ بہت حد تک ’عالمی سہارا‘ کے تازہ شمارہ ’’کشمیرـ010‘‘ کے ذریعہ ہم نے ایک ادنیٰ سی کوشش کی بھی ہے، لیکن فی الحال یہ ارادہ ہمیں ترک کرنا پڑا، کیوں کہ اس درمیان سنگھ پریوار کا وہ تباہ کن چہرہ پوری طرح منظرعام پر آگیا، جس سے نقاب اٹھانے کی کوششیں ہم اپنی زیرنظر اشاعتوں میں گزشتہ چند برسوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہم نے اپنے گزشتہ قسط وار مضمون ’’مسلمانانِ ہند… ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟‘‘ کی جس 100ویں قسط کا ابھی ذکر کیا، اس کے ادارےے میں بھی سنگھ پریوار کے اس چہرے کو سامنے رکھا تھا۔ اس وقت وہ اہم شمارہ بھی میرے سامنے ہے اور دہلی سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ ’’میل ٹوڈے‘‘ کا وہ خصوصی شمارہ بھی، جس میں اس نے نائب صدرجمہوریہ جناب حامدانصاری کے قتل کی سازش میں ملوث دہلی کے اپولو اسپتال کے ڈاکٹر آرپی سنگھ کی بات چیت کے حوالہ سے یہ واضح کیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی جڑیں کتنی گہری ہیں اور انہیں انجام دینے والے کس سطح کے لوگ ہیں۔5اگست کے بعد میں ایک بار پھر سنگھ پریوار کی دہشت گردانہ سرگرمیوں اور 9/11و6/11پر تفصیلی مضامین کا ایک سلسلہ شروع کرنے جارہا ہوں، لیکن آج کی یہ مخصوص تحریر اور اس کے بعد کے چند مضامین میں اس ہندودہشت گردی کے ذریعہ ملک کو لاحق خطرہ تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہوں، لہٰذا پہلے ایک پیراگراف اس تاریخی دستاویز سے، جو میں نے سنگھ پریوار اور ہندوراشٹرکا خواب دیکھنے والے فرقہ پرستوں کی ذہنیت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی گزشتہ مضمون کی 100ویں قسط میں لکھا تھااور ساتھ ہی ’میل ٹوڈے‘ کی انکشافاتی رپورٹ کے چند اہم اقتباسات اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے جارہا ہوں، اس کے بعد کل اسی موضوع پر میری گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا۔
)مسلمانانِ ہند…ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟‘‘کی 100ویں قسط سے
r
’’میں سنگھی، فرنگی اور جنگی تینوں کی ذہنیت سے اچھی طرح واقف ہوں، سنگھی وہ جو اس ملک کو ہندوراشٹر کے بہانے اپنی ناپاک ذہنیت کا غلام بناناچاہتے ہیں اور جنہیں شہید ہیمنت کرکرے بے نقاب کررہے تھے، فرنگی وہ ذہنیت ہے جو صرف برطانویوں تک محدود نہیں، آج امریکی ذہنیت اس سے کہیں زیادہ خطرناک شکل میں ہمارے سامنے ہے اور جو پوری دنیا میں اپنا غلبہ چاہتی ہے۔ اب رہا سوال جنگی کا تو یہ جنگی نام نہاد مجاہدین لشکرطیبہ، آئی ایس آئی، القاعدہ، انڈین مجاہدین یہ سب ان سنگھیوں اور فرنگیوں کے ہتھیار ہیں، ان میں شامل دہشت گرد مسلمان ہوسکتے ہیں، مگر یہ مسلمانوں کے جہادی گروپ نہیں ہوسکتے، اسلام پر عمل پیرا نہیں ہوسکتے، بلکہ یہ ان مندرجہ بالا طاقتوں کے کھلونے ہیں، جب سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا تھا تو یہی بن لادن اور القاعدہ بش خاندان کے بہترین دوست تھے، جب ایران کو تباہ کرنا تھا تو صدام حسین ان کی پہلی پسند تھے اور جب عراق کو تباہ کرنا تھا تو پاکستان ان کا دوست تھا، جب ہندوستان کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکنا تھا تو کشمیر کے راستے یہی لشکرطیبہ ان کا ہتھیار تھا، انہیں کی مدد سے یہ پروان چڑھا اور پاکستان کی خفیہ تنظیم آئی ایس آئی سے اندریش کے کتنے قریبی رشتے تھے، یہ انکشاف بھی کیا تھا شہید ہیمنت کرکرے نے اپنی جانچ میں کہ آئی ایس آئی سے 3کروڑ روپے حاصل کیے تھے اندریش نے۔ آج یہی سنگھی، فرنگی اور جنگی کے تکون میں چوتھا زاویہ شامل ہوا اسرائیل اور موساد کا، جو شاید 26نومبر008کوممبئی کے راستے ہندوستان پر دہشت گردانہ حملوں کے لئے ذمہ دار ہیں۔
ذرا سوچئے…! کیا صرف 10دہشت گرد پاکستان سے آکر ہندوستان پر اتنا بڑا حملہ کرسکتے ہیں، بغیر کسی کی مدد کے؟ اور ہاں! یہ عام لوگوں کی مدد سے بھی نہیں ہوسکتا، یہ تبھی ممکن ہے جب ملک کے بہت بڑے بااثر اور قدآور لوگوں کی سرپرستی ان کو حاصل ہو۔ غالباً اپنے ناپاک مقصد کو پورا کرنے کے لئے سنگھی، جنگی اور فرنگی سب کے اس گٹھ جوڑ نے 10بھاڑے کے ٹٹوئوں کا سہارا لے کر اور انہیں تمام طرح کی سہولتیں مہیا کراکر ہندوستان پر یہ شرمناک حملہ کیا اور وہی سب آج اس راز سے پردہ نہیں اٹھنے دینا چاہتے تاکہ ان کے مکروہ چہرے بے نقاب نہ ہوں۔
لیکن ایسا ہوگا نہیں، یہ آروشی مرڈر کیس کا معاملہ نہیں ہے، جو ایک گھرخاندان کی چہاردیواری تک محدود تھا، یہ ہمارے پیارے ملک ہندوستان کی آبرو کا معاملہ ہے، 100کروڑ ہندوستانیوں کی آبرو کا معاملہ ہے، اسے کب تک دبایا جاسکے گا۔ وطن کی آبرو پر مر مٹنے والے شہیدوں کی آواز کو، سرحد پر کھڑے ہوکر ملک پر قربان ہوجانے والے فوجیوں کی آواز کو، تاج، اوبرائے اور نریمن ہاؤس کو آزاد کرانے والے جانباز سپاہیوں کے ضمیر کی آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دبایا نہیں جاسکتا۔ کیا یہ سب نہیں جانتے کہ حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ نہیں جانتے کہ ان کے ساتھیوں کی یہ قیمتی جانیں کس مقصد کے لئے قربان ہوئی ہیں؟ ہاں ہوسکتے ہیں، ہماری پولس اور فوج میں دوچار گمراہ جو فریب میں آجائیں اور کوئی غلطی کربیٹھیں، مگر ہماری اسی فوج اور پولس کے بھروسے پر تو پورا ملک اور معاشرہ ٹکا ہے، کب تک ان کو بہکایا جاسکے گا، کب تک ان کی آواز کو دبایا جاسکے گا!
یہی بتائیں گے سچ، اس دہشت گردانہ حملہ کا! یہی بچائیں گے اپنے ملک کو اصلی اور نقلی دہشت گردوں سے، اسی مٹی میں جنمے ہیں یہ! یہ دھرتی ان کی ماں ہے اور ماں کی آبرو کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھے، اسے اس دھرتی کے سپوت کبھی برداشت نہیں کرسکتے۔ مصلحت، مجبوری، ڈر اور خوف کچھ دیر تو چپ رکھ سکتا ہے، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نہیں۔ آخر مرتا کون ہے، میدان میں جاکر، سینے پر گولی کون کھاتا ہے، کس کے بچے یتیم ہوتے ہیں، کس کا پریوار بے سہارا ہوتا ہے؟ کیا خیرات میں ملے یہ چاندی کے چند سکے اس خاندان کو اس کے گھر کا چراغ لوٹا سکتے ہیں؟
نہیں! اب اور گھروں میں اندھیرا ہونے نہیں دیں گے۔ کرسی کے بھوکے اور وطن کے غداروں کے لئے اپنی جانیں قربان نہیں ہونے دیں گے، جو نظارہ دیکھا گیٹ وے آف انڈیا اور پورے ہندوستان نے 29نومبر008کو وہی امن واتحاد کا نظارہ اب ساری دنیا دیکھے گی۔ ‘‘
تقریباً ڈیڑھ برس قبل لکھی گئی یہ چند سطریں آج اللہ کے کرم اور آپ سب کی دعائوں سے حقیقت کی شکل اختیار کررہی ہیں۔ مبارکباد کی مستحق ہے سی بی آئی، جس نے اس سچ کو دبایا نہیں، بلکہ فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے اس خطرناک بات چیت کو منظرعام پر لادیا۔ ہم نے اپنی مندرجہ بالا چندسطروں میں ایسے ہی محب وطن افسروں کو آواز دی تھی۔
ساتھ ہی مبارکباد کا مستحق ہے انگریزی روزنامہ ’’میل ٹوڈے‘‘ بھی، جس نے اس انکشافاتی رپورٹ کو نمایاں طور پر شائع کیا۔ ملاحظہ فرمائیں آشیش کھیتان کی یہ خصوصی رپورٹ:
0خفےہ اےجنسی CBI نے اپنی تحقےقات مےں ہندوتو کے ان ناپاک عزائم کا پردہ فاش کےا ہے، جن کے تحت وہ نائب صدر جمہورےہ حامد انصاری کو 2007 مےں جامعہ ملےہ اسلامیہ کے اےک کنووکےشن پروگرام مےں ہلاک کرنا چاہتے تھے۔ CBI کو ےہ جانکاری مالےگاؤں بلاسٹ کے ملزمان اور خود ساختہ شنکر آچارےہ دےانند پانڈے کے لےپ ٹاپ اور ان کی گفتگو کی آڈےو رےکارڈنگ کی جانچ کے دوران حاصل ہوئی ہے۔ CBI کو اہم سراغ شنکر آچارےہ اور دہلی اپولو اسپتال کے ڈاکٹر آر پی سنگھ کے بےچ ہوئی بات چےت سے بھی ملا۔ شنکر آچارےہ اور ڈاکٹر آر پی سنگھ کے بےچ ےہ بات چےت جنوری 2008 مےں ہوئی تھی۔
شنکر آچارےہ: ’’ملک کے نائب صدر جمہورےہ حامد انصاری جامعہ ملےہ کی اےوارڈ تقرےب مےں موجود تھے‘‘۔
ڈاکٹر آر پی سنگھ: ’’ مےں وہاں ان کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لئے گےا تھا، مےں اپنے ساتھ 15 لےٹر پٹرول بھی لے گےا تھا لےکن مجھے کچھ بھی کرنے کا موقع نہےں مل سکا‘‘۔
آڈےو رےکارڈنگ کی فورنسک جانچ ہونے پر دونوں لوگوں کی آواز کی تصدےق ہوئی۔ اس جانچ کے بعد CBI نے ڈاکٹر آر پی سنگھ سے پوچھ گچھ کی اور بعد مےں انہےں چھوڑ دےا، لےکن اس کے بعد سے ان سے کوئی پوچھ گچھ نہےں ہوئی جبکہ دےانند پانڈے کو مہاراشٹر اے ٹی اےس کے چےف ہےمنت کرکرے نے 26/11 ےعنی اپنی شہادت سے اےک دن قبل گرفتار کےا تھا اور وہ اب ناسک جےل مےں بند ہے۔
آڈےو رےکارڈنگ مےں پانڈے اور ڈاکٹر آر پی سنگھ کے درمےان کی یہ وہ گفتگو ہے جو فرےد آباد مےں ان لوگوں نے مبےنہ ہندو دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے کے لئے کی تھی۔ فرےد آباد کی اس مےٹنگ مےں مالےگاؤں دھماکے کا اہم ملزم لفٹےننٹ کرنل پروہت اور دہلی BJP کے لےڈر اور سابق اےم پی بی اےل شرمابھی موجود تھے۔ اس مےٹنگ مےں کرنل پروہت نے اےہ اعلان کےا تھا کہ اس کا ہندوستان کے آئےن سے اعتماد اٹھ چکاہے اور اب وہ ہندو راشٹر کے قےام کے لئے جنگ کا آغاز کرے گا۔
اس نے کہاکہ ’ اگر ہم اسی طرح ہندوستان کے آئےن پر بھروسہ کرتے رہے تو ہم بھی ان جےسے لوگوں کی طرح ہو جائےں گے، اس لئے ہم اس آئےن کے خلاف لڑائی لڑنا چاہتے ہےں۔ ہم اس ملک کے لئے لڑائی لڑےں گے جو ہمارا نہےں ہے۔ ہم آزادی کی لڑائی لڑےں گے ےعنی ہندو آزادی کی لڑائی۔
ےہ جانکارےاں بھی ہےڈ لائنس ٹوڈے نے اکٹھا کی ہےں۔ خفےہ ادارے سے جو کچھ معلومات حاصل ہوئی ہےں، اس سے صاف ہے کہ ڈاکٹر سنگھ بھگوا برےگےڈ کے دہشت گردی کا اہم ملزم ہے ، پھر بھی وہ آزاد ہے جبکہ دےانند پانڈے کو دہشت گردی کے الزام مےں جےل بھےجا جاچکا ہے۔
مہاراشٹر اے ٹی اےس نے ہےڈ لائنس ٹوڈے کو معلومات فراہم کرتے ہوئے بتاےا کہ ڈاکٹر سنگھ کے خلاف مالےگاؤں بلاسٹ کے سلسلے مےں کوئی پختہ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دےا گےا پھر بھی وہ CBI کی تفتیش کے دائرے مےں ہے۔
پانڈے کے لےپ ٹاپ کی رےکارڈنگ سے ڈاکٹر سنگھ کے کئی فرقہ وارانہ منصوبوں کا پتہ چلاہے، جیسے ’’ تمہارا نمبر اےک دشمن مسلمان ہے، مےںان کے قتل کا سلسلہ دہلی سے ہی شروع کروں گا، مےں قتل کے ساتھ ان ہزاردو ہزار لوگوں کو بھی لوٹوںگا جنہوںنے ےہاں شو روم کھول رکھے ہےں‘‘
اپنے اقبالےہ بےان مےں ڈاکٹر سنگھ نے ےہ بھی اعتراف کےا ہے کہ وہ اقلےتی فرقے کے لوگوں کو نشانہ بنانے کے لئے اسلحہ اور گولہ بارود بھی مہےا کراتا تھا۔ اےک مےٹنگ مےں وہ کرنل پروہت سے گرےنڈ، ڈیٹونےٹر اور آر ڈی اےکس مہےا کرانے کی بات کرتے ہوئے سنا گےا ہے۔
لیفٹےننٹ کرنل پروہت: ’’ ہم فون پر بات چےت کرتے رہےںگے، مےں آپ کو وہ سب اطلاعات دےتا رہوں گا جو کچھ مےں کرتا رہوں گا اور آپ جو کچھ کرےں اس کی بھی اطلاع ہمےں دےتے رہےں۔ اس کا مقصد ےہ ہے کہ ہم منصوبہ بندی مےں اےک دوسرے کی مدد کرسکےں۔ جہاں تک ٹرےننگ کےمپ کا مسئلہ ہے اس کے بارے مےں آپ ہم سے کبھی بھی ےعنی آدھی رات کو بھی بات کرسکتے ہےں‘‘۔
ڈاکٹر سنگھ: ہمےں ہائی وولٹےج، ڈےٹونےٹر ، بےٹرےز، گرےنڈ اور آر ڈی اےکس چاہئے۔ ہم نے جس سے رابطہ کےا تھا انہوں نے کہا کہ ےہ آرمی دے سکتی ہے، اگر ہمےں ےہ دستےاب ہو جاتا ہے توہم اےک عظےم جنگ شروع کرسکتے ہےں، ہم آپ کو کم سے کم جموں سے00 خود کش حملہ آور دے سکتے ہےں‘‘۔
بہر حال جےسا کہ CBI ہندو دہشت گردی کی کڑےاں جوڑ رہی ہے، اس سے لگتا ہے کہ ابھی وہ صرف اوپری سطح تک ہی پہنچ سکی ہے۔

No comments: