آندھراپردیش کے دورہ پر جانے سے قبل لکھے گئے اپنے مضمون میں میں نے ارادہ ظاہر کیا تھا کہ واپسی پر سنیل جوشی کے قتل پر روشنی ڈالوں گا، کیوں کہ اس قتل کا تعلق نہ صرف مالیگاؤں بم بلاسٹ سے ہے، بلکہ یہ قتل اس خطرناک ذہنیت کو بے نقاب کرتا ہے، جو ملک میں دہشت گردی کی وبا کے لےے بھی ذمہ دار ہے اور مسلمانوں کو موردالزام ٹھہرائے جانے کے لےے بھی، لیکن اس درمیان ’امت شاہ‘ کا معاملہ سامنے آیا تو مجھے لگا کہ اب بلاتاخیر امت شاہ کے اس استقبالیہ جلوس پر لکھا جانا چاہےے، جو ایک مخصوص ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ بہرحال اب میں واپس لوٹتا ہوں، اسی سنیل جوشی کے قتل کی سیاست پر جو سیاست، جرم اور دہشت گردی کی ایک ایسی ملی جلی کہانی سامنے رکھتی ہے کہ سننے والے کے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آخر کون سوچ سکتا ہے کہ وہ لوگ جو ملک سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں، ملک پر حکمرانی کے خواہاں ہیں، آخر ان کی ذہنیت کس قدر سازشی اور خطرناک ہے۔ مانا کہ وہ مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہتے ہیں، مانا کہ وہ ہندو راشٹر کا قیام کرنا چاہتے ہیں، لیکن کیا اپنے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لےے دہشت گردی کا سہارا لینا ضروری ہے؟ اور انتہا تو یہ ہے کہ آخر کتنے سنگدل لوگ ہیں یہ، جو اپنے ہی لوگوںکا قتل کرنے سے بھی نہیں جھجکتے۔ اگر سنیل جوشی کے قتل کی کہانی اور دیانندپانڈے کے نارکوٹیسٹ کے بعد سامنے آئی کہانی پر اعتبار کیا جائے تو سیمی (Students Islamic Movement of India) کو موردِالزام ٹھہرایا جانا اور مالیگاؤں کا بم بلاسٹ دراصل سنیل جوشی اور ایک علاقائی کانگریسی لیڈر پیارے سنگھ کے درمیان آپسی جھگڑے کا نتیجہ ہے۔ یہ دونوں ہی مہو میں رہتے تھے، اکثر دونوں میں کہاسنی ہوتی رہتی تھی، ایک بار یہ تنازع اتنا بڑھا کہ پیارے سنگھ نے سنیل جوشی کی سرعام چوٹی کاٹ لی۔ اس کے چند روز بعد ہی پیارے سنگھ اور اس کے بیٹے کا قتل ہوگیا، جس کا الزام سنیل جوشی پر عائد کیا گیا، نتیجتاً سنیل جوشی کو شہر چھوڑ کر بھاگنا پڑا اور اپنی شناخت چھپانے کے لےے ایک بدلے ہوئے نام کے ساتھ دیواس کے آشرم میں گروجی کے نام سے رہنے لگا۔ یہیں پر 29دسمبر007کو یعنی مالیگاؤں بم بلاسٹ سے ٹھیک دس مہینے پہلے سنیل جوشی کا قتل ہوا۔ دراصل یہ آشرم سنیل جوشی کا خفیہ ٹھکانہ تھا، اس کے بارے میں کم ہی لوگ جانتے تھے اور شاذونادر ہی یہاں کوئی اس سے ملنے آتا تھا۔ ہاں، البتہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر ضرور اس سے ملنے اکثرآیا کرتی تھی۔
سنیل جوشی آر ایس ایس کا پرچارک تھا اور پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا قریبی دوست تھا۔ دیانندپانڈے نے اپنے نارکوٹیسٹ میں سنیل جوشی اور پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی قربت کی جو بھی کہانی بتائی ہو، اس سے ہمارا کچھ بھی لینا دینا نہیں۔ ہاں، مگر دیانندپانڈے کے اس بیان میں دو باتیں انتہائی اہم ہیں، ایک تو یہ کہ پرگیہ سنگھ ٹھاکرسنیل جوشی کے قتل کے بعد بیحد غصہ میں تھی اور اس کے قتل کا بدلہ لینا چاہتی تھی، اسی سلسلہ میں اس نے دیانندپانڈے کے گھر جاکر اس سے ملاقات کی اور مدد مانگی۔ اپنے بیان میں سوامی دیانندپانڈے نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اسی نے لیفٹیننٹ کرنل پروہت سے پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو ملوایا تھا، جس نے بعد میں اس کی بہت مدد کی۔ دراصل پرگیہ سنگھ ٹھاکر سنیل جوشی کے قتل کا ذمہ دار سیمی کو مانتی تھی اور وہ سیمی کو سبق سکھانا چاہتی تھی۔ مالیگاؤں بم دھماکہ کا منصوبہ بھی اسی لےے تھا۔ یہاں اس وقت میں مالیگاؤں بم دھماکہ یا شہیدہیمنت کرکرے کی تفتیش پر کچھ بھی کہنا نہیں چاہتا، بلکہ صرف ایک بات پر اپنے قارئین اور حکومت ہند کی توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ سنیل جوشی سنگھ کا پرچارک تھا، سنیل جوشی کے قتل میں جو لوگ ملوث نظر آتے ہیں، ان کا تعلق بھی سنگھ پریوار سے ہے۔ اس کے قتل کے بعد سے ہی جو لوگ فرار ہیں، وہ بھی سنگھ پریوار سے تعلق رکھتے تھے، اس کے دوست تھے اور اس کے ساتھ ہی رہتے بھی تھے۔ انہیں منصوبہ کی جانکاری تھی۔ میں اپنی اسی تحریر کے تسلسل میں سنیل جوشی کے قتل کی تفصیل بیان کرنے جارہا ہوں، جس سے یہ واضح ہوجائے گا کہ سنگھ پریوار کی ذہنیت کیا ہے۔ سیمی پر سنیل جوشی کے قتل کا الزام لگانا بھی ایک خاص منصوبہ کے تحت تھا، تاکہ الزام اس تنظیم کے سرآئے، جس کا تعلق مسلمانوں سے ہے، تاکہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی کہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے سیمی کو سنیل جوشی کے قتل کا ذمہ دار مانتے ہوئے مالیگاؤں میں بم بلاسٹ کی سازش رچ ڈالی، جس کا الزام سیمی پر جانا ہی تھا اور گیا بھی، گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ اگر شہید ہیمنت کرکرے کے ذریعہ مالیگاؤں بم بلاسٹ کی سچائی سامنے نہیں آئی ہوتی تو بات چاہے سنیل جوشی کے قتل کی ہو یا مالیگاؤں بم بلاسٹ کی، یہی تسلیم کرلیاجاتا کہ اس قتل اور دہشت گردانہ حملہ کے پیچھے سیمی کا ہاتھ ہے یا چند دیگر مسلم دہشت گرد ہیں، وہ آئی ایس آئی کے بھی ثابت ہوسکتے تھے، لشکرطیبہ یا انڈین مجاہدین کے بھی۔ بہرحال اب میں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے جارہا ہوں، سنیل جوشی کے قتل کی وہ حقیقت جو ڈیٹ لائن انڈیا ڈاٹ کام کے آلوک تومر نے بیان کی ہے اور جسے انٹرنیٹ پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
سنگھ پریوار کے مقتول پرچارک سنیل جوشی پر الزام تھا کہ اس نے اجمیر اور حیدرآباد کی مکہ مسجد پر دھماکے کا منصوبہ بنایا۔ ان دونوں حادثات میں بہت سے لوگ مارے گئے تھے۔ سنیل جوشی کا نام ملزمین میں آیا تھا مگر اسے گرفتار نہیں کیا جاسکا تھا۔ اب سنیل جوشی کے ماموں مدن موہن مودی نے کھلے عام یہ الزام عائد کیا ہے کہ اجمیر دھماکے کے فوراً بعد سنیل جوشی کو اس کے ہی ساتھیوں نے گولی سے اڑادیا۔ مودی کو ان ساتھیوں کے نام نہیں معلوم ہیں۔
دیواس شہر میں رہنے والے مودی کا الزام ہے کہ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی برسراقتدار حکومت نے پولس کو ہدایت دے رکھی تھی کہ اس معاملے کی تفتیش نہیں کرنی ہے اور پولس نے کئی بیّن حقائق سے چشم پوشی کی، جس دن سنیل جوشی کا قتل ہوا اس دن صبح جوشی کو ایک پراسرار فون کال آئی تھی جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ جتنی جلد ہوسکے گھر سے بھاگ جائو۔ اس کے علاوہ چار اور سویم سیوک جو سنیل جوشی کے ساتھ اکثر رہتے تھے وہ بھی قتل کے دن سے ہی لاپتہ ہیں۔
سنیل جوشی کے پاس جو دو سِم کارڈ تھے ان کا بھی پتہ نہیں چل پارہا ہے اور پولس یہ بنیادی معلومات حاصل کرنے کی پوزیشن میں بھی اپنے آپ کو نہیں پارہی ہے کہ ان سِم کارڈوں کا کہیں اور تو استعمال نہیں کیا جارہا۔ دراصل پولس اس معاملے میں کچھ بولنا ہی نہیں چاہتی۔ سنیل جوشی 29 دسمبر 2007 کو اپنی ماں کے پاس تھے جب انھیں موبائل پر دھمکی آمیز پیغام ملا تھا۔ خود آگ سے کھیلنے والے سنیل جوشی نے فون کرنے والے سے کافی جھگڑا کیا تھا اور اس کے بعد شاید انھیں کوئی جگہ بتائی گئی تھی جہاں روانہ ہونے کے لیے وہ اپنی موٹر سائیکل سے نکلنے کی کوشش کرنے لگے۔ موٹر سائیکل اسٹارٹ نہیں ہورہی تھی لہٰذا سنیل جوشی چونا کھدان محلے میں تقریباً دو کلومیٹر دور اپنے مکان کی جانب پیدل روانہ ہوگئے۔ اسی مکان میں سنیل جوشی چار دیگر سویم سیوکوں کے ساتھ رہا کرتے تھے اور یہ سبھی سویم سیوک اب لاپتہ ہیں۔
قاتلوں کو شاید معلوم تھا کہ سنیل جوشی کس راستے سے آرہے ہیں۔ موٹر سائیکل بھی شاید انھوں نے ہی خراب کی تھی تاکہ سنیل جوشی کو پیدل ہی آنا پڑے۔ راستے میں اندوربھوپال روڈ پار کرتے ہی ایک ویران اور سنسان علاقہ پرتا ہے جہاں سنیل جوشی کا قتل کیا گیا۔ انھیں مسلسل گولیاں ماری گئیں، پولس نے کنبے کو کبھی نہیں بتایا کہ جوشی کو مارنے کے لیے کتنے لوگ آئے تھے اور پولس ریکارڈ میں ہوگا تو ہوگا لیکن اسے کبھی عام نہیں کیا گیا کہ کتنی گولیاں چلی تھیں؟ یہ بھی آج تک ظاہر نہیں ہوا ہے کہ جوشی کو فون کرنے والا کون تھا اور بھلے ہی سم کارڈ لاپتہ ہوگئے ہوں نمبر کے کال ریکارڈ سے آسانی سے پتہ لگایا جاسکتا تھا کہ آخر یہ دھمکی آمیز فون کس نمبر سے آیا تھا اور وہ نمبر کس کے نام رجسٹرڈ ہے۔
دیواس پولس سے بات کرو تو وہ عجیب طرح سے شرمانے لگتی ہے۔ لیکن اس کے ریکارڈ میں جو ہے اس کے مطابق سنیل جوشی کے قاتل ایک ماروتی کار اور ایک موٹر سائیکل پر آئے تھے۔ گولیاں تو کئی چلائی گئیں لیکن سنیل جوشی کو تین گولیاں لگی تھیں۔ جوشی کے ساتھ ان کے گھر میں رہنے والے موہن راج، استاد گھنشیام اور منا نام کے چار افراد کو شاید اس سازش کا پورا علم تھا، اس لیے قتل کے بعد سے ان لوگوں کا کبھی پتہ نہیں لگا۔
دو بار بی جے پی کے ایم پی رہ چکے اور پہلے حکومتِ ہند کے ملازم رہ چکے بیکنٹھ لال شرما پریم کو تو عوامی طور پر یہ سازش کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے کہ ہندوستان میں ایک ساتھ اگر لاکھوں مسلمان مار دیئے جائیں تو جو بچیں گے وہ اپنے آپ ہندو ہوجائیںگے۔ بیکنٹھ لال شرما پریم نے لیپ ٹاپ کے ویڈیو کیمرے کے سامنے یہ سازش کی اور جب ایک ٹی وی چینل پر یہ نشر ہوگیا تو بی جے پی اور بجرنگ دل سے لے کر سنگھ پریوار کی کئی معاون تنظیموں نے ٹی وی چینل پر حملہ کر ڈالا۔ یہ بات الگ ہے کہ اس ٹی وی چینل کے چیف ایڈیٹر پربھو چاولہ خود سنگھ پریوار کے قریبی ہیں۔ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے لیڈر اور دہلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کے صدر رہ چکے ہیں۔ یہ کم حیرانی کی بات نہیں ہے کہ پربھو چاولہ اپنے دونوں ٹی وی چینلوں پر مچائے جارہے شور اور ہنگامے کے باوجود ایک بار بھی ٹی وی کیمروں کے سامنے ظاہر نہیں ہوئے۔ سنگھ کا حوصلہ اسے ہی کہتے ہیں۔
مالےگائوں، ناسک، اجمیر اور بنگلور کے علاوہ حیدرآباد میں بارود برسانے والی تنظیموں کی شناخت ہندو دہشت گرد تنظیموں کے طور پر کی جانے لگی ہے اور ابھینو بھارت جیسی تنظیم سننے میں خواہ کتنی ہی کاغذی معلوم ہو لیکن پورے ملک میں ان کے عزائم کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ بھارتیہ سینا کے کئی سابق افسر بھی گرفتار کئے جاچکے ہیں اور متعدد کو گرفتارکئے جانے کے بعد سابق بنادیا گیا ہے۔
یہاں ایک سوال دریافت کرنا ضروری ہوجاتا ہے کہ آخر مدھیہ پردیش میں ایسا کیا جادوئی ’چمتکار‘ ہے جہاں اندور کے پاس ’سیمی‘ جیسی تنظیم بھی نشونما پاتی ہے، اس کے تربیتی اسکول چلتے ہیں اور اس کے علاوہ اندور کے ہی دوسرے کونے پر دیواس میں پہلے مسلم زیارت گاہوں پر دہشت گردانہ حملے کی سازش رچی جاتی ہے اور پھر حملہ ہوجانے کے بعد حملے میں شامل ایک اہم شخص کو گولی سے اڑادیا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ سنیل جوشی ’پرائشچت‘ (کفارہ ادا کرنے) کے موڈ میں ہوں اور ان کے ساتھیوں کو ان کے اس پرائشچت سے ڈر لگنے لگا ہو مگر اب توپرائشچت کے موڈ میںشیوراج سنگھ چوہان کو آنا پڑے گا اور بتانا پڑے گا کہ ان کی پولس کو آخر جو کرنا چاہئے تھا کیوںنہیں کیا اور اگر نہیں کیا تو اس کی سزا آخر کیا ہوسکتی ہے۔
سنیل جوشی آر ایس ایس کا پرچارک تھا اور پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا قریبی دوست تھا۔ دیانندپانڈے نے اپنے نارکوٹیسٹ میں سنیل جوشی اور پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی قربت کی جو بھی کہانی بتائی ہو، اس سے ہمارا کچھ بھی لینا دینا نہیں۔ ہاں، مگر دیانندپانڈے کے اس بیان میں دو باتیں انتہائی اہم ہیں، ایک تو یہ کہ پرگیہ سنگھ ٹھاکرسنیل جوشی کے قتل کے بعد بیحد غصہ میں تھی اور اس کے قتل کا بدلہ لینا چاہتی تھی، اسی سلسلہ میں اس نے دیانندپانڈے کے گھر جاکر اس سے ملاقات کی اور مدد مانگی۔ اپنے بیان میں سوامی دیانندپانڈے نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اسی نے لیفٹیننٹ کرنل پروہت سے پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو ملوایا تھا، جس نے بعد میں اس کی بہت مدد کی۔ دراصل پرگیہ سنگھ ٹھاکر سنیل جوشی کے قتل کا ذمہ دار سیمی کو مانتی تھی اور وہ سیمی کو سبق سکھانا چاہتی تھی۔ مالیگاؤں بم دھماکہ کا منصوبہ بھی اسی لےے تھا۔ یہاں اس وقت میں مالیگاؤں بم دھماکہ یا شہیدہیمنت کرکرے کی تفتیش پر کچھ بھی کہنا نہیں چاہتا، بلکہ صرف ایک بات پر اپنے قارئین اور حکومت ہند کی توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ سنیل جوشی سنگھ کا پرچارک تھا، سنیل جوشی کے قتل میں جو لوگ ملوث نظر آتے ہیں، ان کا تعلق بھی سنگھ پریوار سے ہے۔ اس کے قتل کے بعد سے ہی جو لوگ فرار ہیں، وہ بھی سنگھ پریوار سے تعلق رکھتے تھے، اس کے دوست تھے اور اس کے ساتھ ہی رہتے بھی تھے۔ انہیں منصوبہ کی جانکاری تھی۔ میں اپنی اسی تحریر کے تسلسل میں سنیل جوشی کے قتل کی تفصیل بیان کرنے جارہا ہوں، جس سے یہ واضح ہوجائے گا کہ سنگھ پریوار کی ذہنیت کیا ہے۔ سیمی پر سنیل جوشی کے قتل کا الزام لگانا بھی ایک خاص منصوبہ کے تحت تھا، تاکہ الزام اس تنظیم کے سرآئے، جس کا تعلق مسلمانوں سے ہے، تاکہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی کہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے سیمی کو سنیل جوشی کے قتل کا ذمہ دار مانتے ہوئے مالیگاؤں میں بم بلاسٹ کی سازش رچ ڈالی، جس کا الزام سیمی پر جانا ہی تھا اور گیا بھی، گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ اگر شہید ہیمنت کرکرے کے ذریعہ مالیگاؤں بم بلاسٹ کی سچائی سامنے نہیں آئی ہوتی تو بات چاہے سنیل جوشی کے قتل کی ہو یا مالیگاؤں بم بلاسٹ کی، یہی تسلیم کرلیاجاتا کہ اس قتل اور دہشت گردانہ حملہ کے پیچھے سیمی کا ہاتھ ہے یا چند دیگر مسلم دہشت گرد ہیں، وہ آئی ایس آئی کے بھی ثابت ہوسکتے تھے، لشکرطیبہ یا انڈین مجاہدین کے بھی۔ بہرحال اب میں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے جارہا ہوں، سنیل جوشی کے قتل کی وہ حقیقت جو ڈیٹ لائن انڈیا ڈاٹ کام کے آلوک تومر نے بیان کی ہے اور جسے انٹرنیٹ پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
سنگھ پریوار کے مقتول پرچارک سنیل جوشی پر الزام تھا کہ اس نے اجمیر اور حیدرآباد کی مکہ مسجد پر دھماکے کا منصوبہ بنایا۔ ان دونوں حادثات میں بہت سے لوگ مارے گئے تھے۔ سنیل جوشی کا نام ملزمین میں آیا تھا مگر اسے گرفتار نہیں کیا جاسکا تھا۔ اب سنیل جوشی کے ماموں مدن موہن مودی نے کھلے عام یہ الزام عائد کیا ہے کہ اجمیر دھماکے کے فوراً بعد سنیل جوشی کو اس کے ہی ساتھیوں نے گولی سے اڑادیا۔ مودی کو ان ساتھیوں کے نام نہیں معلوم ہیں۔
دیواس شہر میں رہنے والے مودی کا الزام ہے کہ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی برسراقتدار حکومت نے پولس کو ہدایت دے رکھی تھی کہ اس معاملے کی تفتیش نہیں کرنی ہے اور پولس نے کئی بیّن حقائق سے چشم پوشی کی، جس دن سنیل جوشی کا قتل ہوا اس دن صبح جوشی کو ایک پراسرار فون کال آئی تھی جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ جتنی جلد ہوسکے گھر سے بھاگ جائو۔ اس کے علاوہ چار اور سویم سیوک جو سنیل جوشی کے ساتھ اکثر رہتے تھے وہ بھی قتل کے دن سے ہی لاپتہ ہیں۔
سنیل جوشی کے پاس جو دو سِم کارڈ تھے ان کا بھی پتہ نہیں چل پارہا ہے اور پولس یہ بنیادی معلومات حاصل کرنے کی پوزیشن میں بھی اپنے آپ کو نہیں پارہی ہے کہ ان سِم کارڈوں کا کہیں اور تو استعمال نہیں کیا جارہا۔ دراصل پولس اس معاملے میں کچھ بولنا ہی نہیں چاہتی۔ سنیل جوشی 29 دسمبر 2007 کو اپنی ماں کے پاس تھے جب انھیں موبائل پر دھمکی آمیز پیغام ملا تھا۔ خود آگ سے کھیلنے والے سنیل جوشی نے فون کرنے والے سے کافی جھگڑا کیا تھا اور اس کے بعد شاید انھیں کوئی جگہ بتائی گئی تھی جہاں روانہ ہونے کے لیے وہ اپنی موٹر سائیکل سے نکلنے کی کوشش کرنے لگے۔ موٹر سائیکل اسٹارٹ نہیں ہورہی تھی لہٰذا سنیل جوشی چونا کھدان محلے میں تقریباً دو کلومیٹر دور اپنے مکان کی جانب پیدل روانہ ہوگئے۔ اسی مکان میں سنیل جوشی چار دیگر سویم سیوکوں کے ساتھ رہا کرتے تھے اور یہ سبھی سویم سیوک اب لاپتہ ہیں۔
قاتلوں کو شاید معلوم تھا کہ سنیل جوشی کس راستے سے آرہے ہیں۔ موٹر سائیکل بھی شاید انھوں نے ہی خراب کی تھی تاکہ سنیل جوشی کو پیدل ہی آنا پڑے۔ راستے میں اندوربھوپال روڈ پار کرتے ہی ایک ویران اور سنسان علاقہ پرتا ہے جہاں سنیل جوشی کا قتل کیا گیا۔ انھیں مسلسل گولیاں ماری گئیں، پولس نے کنبے کو کبھی نہیں بتایا کہ جوشی کو مارنے کے لیے کتنے لوگ آئے تھے اور پولس ریکارڈ میں ہوگا تو ہوگا لیکن اسے کبھی عام نہیں کیا گیا کہ کتنی گولیاں چلی تھیں؟ یہ بھی آج تک ظاہر نہیں ہوا ہے کہ جوشی کو فون کرنے والا کون تھا اور بھلے ہی سم کارڈ لاپتہ ہوگئے ہوں نمبر کے کال ریکارڈ سے آسانی سے پتہ لگایا جاسکتا تھا کہ آخر یہ دھمکی آمیز فون کس نمبر سے آیا تھا اور وہ نمبر کس کے نام رجسٹرڈ ہے۔
دیواس پولس سے بات کرو تو وہ عجیب طرح سے شرمانے لگتی ہے۔ لیکن اس کے ریکارڈ میں جو ہے اس کے مطابق سنیل جوشی کے قاتل ایک ماروتی کار اور ایک موٹر سائیکل پر آئے تھے۔ گولیاں تو کئی چلائی گئیں لیکن سنیل جوشی کو تین گولیاں لگی تھیں۔ جوشی کے ساتھ ان کے گھر میں رہنے والے موہن راج، استاد گھنشیام اور منا نام کے چار افراد کو شاید اس سازش کا پورا علم تھا، اس لیے قتل کے بعد سے ان لوگوں کا کبھی پتہ نہیں لگا۔
دو بار بی جے پی کے ایم پی رہ چکے اور پہلے حکومتِ ہند کے ملازم رہ چکے بیکنٹھ لال شرما پریم کو تو عوامی طور پر یہ سازش کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے کہ ہندوستان میں ایک ساتھ اگر لاکھوں مسلمان مار دیئے جائیں تو جو بچیں گے وہ اپنے آپ ہندو ہوجائیںگے۔ بیکنٹھ لال شرما پریم نے لیپ ٹاپ کے ویڈیو کیمرے کے سامنے یہ سازش کی اور جب ایک ٹی وی چینل پر یہ نشر ہوگیا تو بی جے پی اور بجرنگ دل سے لے کر سنگھ پریوار کی کئی معاون تنظیموں نے ٹی وی چینل پر حملہ کر ڈالا۔ یہ بات الگ ہے کہ اس ٹی وی چینل کے چیف ایڈیٹر پربھو چاولہ خود سنگھ پریوار کے قریبی ہیں۔ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے لیڈر اور دہلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کے صدر رہ چکے ہیں۔ یہ کم حیرانی کی بات نہیں ہے کہ پربھو چاولہ اپنے دونوں ٹی وی چینلوں پر مچائے جارہے شور اور ہنگامے کے باوجود ایک بار بھی ٹی وی کیمروں کے سامنے ظاہر نہیں ہوئے۔ سنگھ کا حوصلہ اسے ہی کہتے ہیں۔
مالےگائوں، ناسک، اجمیر اور بنگلور کے علاوہ حیدرآباد میں بارود برسانے والی تنظیموں کی شناخت ہندو دہشت گرد تنظیموں کے طور پر کی جانے لگی ہے اور ابھینو بھارت جیسی تنظیم سننے میں خواہ کتنی ہی کاغذی معلوم ہو لیکن پورے ملک میں ان کے عزائم کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ بھارتیہ سینا کے کئی سابق افسر بھی گرفتار کئے جاچکے ہیں اور متعدد کو گرفتارکئے جانے کے بعد سابق بنادیا گیا ہے۔
یہاں ایک سوال دریافت کرنا ضروری ہوجاتا ہے کہ آخر مدھیہ پردیش میں ایسا کیا جادوئی ’چمتکار‘ ہے جہاں اندور کے پاس ’سیمی‘ جیسی تنظیم بھی نشونما پاتی ہے، اس کے تربیتی اسکول چلتے ہیں اور اس کے علاوہ اندور کے ہی دوسرے کونے پر دیواس میں پہلے مسلم زیارت گاہوں پر دہشت گردانہ حملے کی سازش رچی جاتی ہے اور پھر حملہ ہوجانے کے بعد حملے میں شامل ایک اہم شخص کو گولی سے اڑادیا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ سنیل جوشی ’پرائشچت‘ (کفارہ ادا کرنے) کے موڈ میں ہوں اور ان کے ساتھیوں کو ان کے اس پرائشچت سے ڈر لگنے لگا ہو مگر اب توپرائشچت کے موڈ میںشیوراج سنگھ چوہان کو آنا پڑے گا اور بتانا پڑے گا کہ ان کی پولس کو آخر جو کرنا چاہئے تھا کیوںنہیں کیا اور اگر نہیں کیا تو اس کی سزا آخر کیا ہوسکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment