Thursday, April 29, 2010

مسلمانوںکی تعلیمی وسماجی ترقی کےلئے منصوبہ بند تحریک ضروری

انٹیگرل یونیورسٹی میں اقلیتوں کی تعلیم موضوع پر دوروز


لکھنؤ، (ایس این بی) ریاست کی راجدھانی لکھنؤ میں پہلی مرتبہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور انٹیگرل یونیورسٹی کے اشتراک سے ’اترپردیش میں اقلیتوں کی تعلیم‘ موضوع پر دو روزہ قومی کانفرنس میں ماہرین تعلیم اور دانشوروں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر مسلمان بیدار نہ ہوئے تو وہ تعلیم کے میدان میں مزید پسماندہ ہو جائیں گے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ خود مسلمان سرکاری منصوبوں پر نظر رکھیں، تعلیم کے لئے مہم چلائیں اورڈراپ آئوٹ کی شرح کم کریں۔
اترپردیش اسمبلی کے اسپیکر سکھدیو راج بھر نے کہا کہ انٹیگرل یونیورسٹی نے جو کوشش کی ہے وہ مبارکباد کی مستحق ہے۔ ہمیں آج علماء اور دانشوروں کے درمیان کچھ کہنے کا موقع ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کا حل بھی وجود میں آجاتا ہے۔ لیکن ہم جارح بن کر کچھ نہیں کر سکیں گے۔ ہمیں سیاست کے میدان میں بھی آگے بڑھنا ہے۔ انہوں نے کسی کا نام لئے بغیر کہا کہ وہ قوم جس کی آبادی پانچ سے آٹھ فیصد ہے لیکن سیاست اور ملازمت میں اس کی نمائندگی 60 سے 70 فیصد تک ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے۔ اقلیتوں کو اپنے بچوں کو ذہنی طور پر تعلیم کے لئے تیار کرنا چاہئے کیونکہ اگر بچے تیار نہیں ہوں گے تو ادارہ چاہے جتنا بڑا قائم کر لیا جائے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اترپردیش میں مسلمانوں کی آبادی 22 سے 23 فیصد ہے اس کے باوجود ان کی نمائندگی صرف دو سے تین فیصد تک ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اقتدار میں حصہ داری کے ئے سیاست میں بھی آنا چاہئے کیونکہ جس گاؤں میںکسی خاص طبقہ کی آبادی صرف دو فیصد ہے اس طبقہ کا گاؤں پردھان ہوتا ہے اور تیس سے چالیس فیصد والی مسلم آبادی والے گاؤں میں مسلم پردھان نہیں ایسا کیوں؟ انہوں نے کہا کہ میں ریزرویشن کا حامی ہوں لیکن اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ ذہنی طور پر اپنے بچوں کو تیار کریں، دینی تعلیم بھی حاصل کریں، خدمت کا جذبہ پیدا کریں اور مقابلہ جاتی امتحانات کو ذہن میں رکھ کر آگے بڑھیں۔ مقابلہ کے اس دور میں دماغ سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ہنگامہ کرکے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔
افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ مہاراشٹر کسمو پالیٹن ایجوکیشنل سوسائٹی پونے کے صدر مسٹر پی اے انعامدار نے پیش کیا۔ انہوں نے انٹیگرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی جد و جہد سے اس ادارہ کو یونیورسٹی کے درجہ تک پہونچا دیا ہے۔ مسٹر انعامدار نے کہا کہ اب کچھ کرنے کا وقت ہے اس لئے مسلمانوں کی حالت زار کا تذکرہ کرکے اپنی توانائی ضائع نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی تعلیمی بیداری کےلئے ہمیں منصوبہ بند کوشش کرنی چاہئے اور آئندہ پانچ برس کے لئے منصوبہ تیار کرکے مسلمانوں کو منصوبہ بند تحریک چلانی ہوگی۔ مسٹر انعامدار نے اترپردیش کے ان افراد کو پونے مدعو کیا جو تعلیم کے میدان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹکنالوجی کا زمانہ ہے اس لئے ہمیں ٹکنالوجی کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کی تعلیم کے سلسلہ میں بحث کرنا چاہئے۔ اس کے لئے ہمیں وسیع پیمانہ پر فائنانس کا انتظام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اب ٹکنالوجی کی بات صرف دانشوروں اور مخصوص افراد کے ذریعہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہر گھر میں، ہر بازار میں ہر چھوٹے بڑے مقام پر ٹکنالوجی کی بات ہونی چاہئے۔مسٹر انعامدار نے دستور ہند کے بنیادی حقوق چیپٹر کے آرٹیکل 30 پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مذہبی اقلیت کی حیثیت سے مسلمانوں کا ملک میں تعلیمی ادارے قائم کرنا اور انہیں اپنی مرضی سے چلانا ان کا بنیادی حق ہے۔ مرکزی یا ریاستی حکومت اپنے کسی پالیسی فیصلہ سے اس حق کو چھین نہیں سکتی ہے۔ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کمال فارقی نے کہا کہ رونا بہت ہو گیا ہمیں اپنی کمیوں کا احساس ہے۔ ہمیں اب شکایتی دور سے نکل کر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اسکیموں سے کس طرح فائدہ اٹھایا جائے اور اس راستہ میں آنے والی رکاوٹوں کو کس طرح دور کیا جائے اس پر غور کرنے کی ضررت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج پرائمری سطح پر صرف 48 فیصد بچے اسکول جا رہے ہیں جو ہمارے لئے سوچنے کا مقام ہے۔
اترپردیش اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ایس ایم اے کاظمی نے کہا کہ موجودہ حالات میں یہ کانفرنس انتہائی ضروری تھی۔ انہوں نے کہا کہ سرسید کا خواب کیا تھا ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے۔ گزشتہ چند برسوں میں سیکڑوں سیمنار ہو چکے ہیں لیکن یہ واحد سیمینار ہے جو اصل موضوع پر بحث کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری منصوبوں کا نفاذہی وہ پہلو ہے جس پر سبھی کو شکایت ہے۔ نفاذ صحیح سے ہوتا نہیں ہے اور رہی سہی کسر بیداری نہ ہونے کے سبب پوری ہو جاتی ہے۔
روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر عزیز برنی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب مسلمان تعلیمی طور پر پسماندہ تھے تو انہیں جاہل قرار دیا جاتا تھا لیکن جب تعلیم حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کے بچے اپنے گھروں سے باہر نکلے تو انہیں دہشت گرد قرار دے کر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ مسلم خواتین جب پردے میں رہتی تھیں تو ہم پر یہ الزام عائد کیا جاتا تھا کہ ہم نے انہیں قید کرکے رکھا ہے لیکن جب وہ اپنے گھروں سے نکلیں تو عشرت جہاں کی شکل میں انہیں فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کر دیا گیا۔ ہمارے بچے جب مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے تو دینی مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دیا جانے لگا۔ مفتی ابوالبشر جیسے شخص کو بم دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دے کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا لیکن ہیڈلی کو کوئی نہیں کہتا کہ دہشت گرد ایسے ہوتے ہیں۔ بٹلہ ہاؤس فرضی انکاؤنٹر میں عاطف و ساجد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا لیکن قومی حقوق انسانی کمیشن نے اس انکاؤنٹر کو فرضی تسلیم نہیں کیا جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات واضح ہو گئی کہ جس طرح عاطف اور ساجد کو گولیاں ماری گئیں، اس طرح انکاؤنٹر میں نہیں ماری جا سکتیں۔ انہوں نے کہا کہ اب حالات اس قسم کے ہو گئے ہیں کہ اگر مسلمانوں کے بچے تعلیم حاصل کریں تو بھی مصیبت میں اور نا خواندہ رہیں تو بھی مصیبت میں۔ یہ واقعات چند سہی مگر ایک قوم کی حوصلہ شکنی کے لئے کافی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے بے پناہ قربانیاں دے کر ملک کو آزادی اس لئے نہیں دلائی تھی کہ ہم سے فریاد کرنے کا حق بھی چھین لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی طاقت کو منتشر کرنے کے لئے ملک کو تقسیم کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ماؤنواز سلامتی دستوں پر حملہ کرکے سی آر پی ایف کے جوانوں کو شہید کرتے ہیں تب بھی انہیں دہشت قرار دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ کشمیریوں کو تو علاحدگی پسند کہنے میں ذرہ برابر ہچکچاہٹ نہیں ہوتی لیکن بال ٹھاکرے کو علاحدگی پسند کہنے میں زبان بند ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری قوم میں باصلاحیت لیڈروں کی کمی نہیں ہے لیکن اگر کمی ہے تو ایک چوکیدار ایک نگہبان کی اور میں نے اس خالی جگہ پر اپنا نام لکھ دیا ہے، اس لئے شب و روز اس فکر میں مبتلا رہتا ہوں کہ کوئی نظر بد مرے گھر کی جانب اٹھ تو نہیں رہی ہے۔ کہیں کسی بے گناہ کو گناہگار ثابت کرنے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بم دھماکوں کے بعد مسلمانوں کو فوراً دہشت گرد قرار نہیں دیا جاتا جبکہ ماضی میں جو بم دھماکے ہوئے ان کے فوراً بعد مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان اپنی طاقت کو پہچانیں اور اس کا احساس کرائیں۔
اردو عربی فارسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور سبکدوش آئی اے ایس افسر انیس انصاری نے کہا کہ مسلمان و دیگر پسماندہ طبقات کے بچوں کا پرائمری اسکولوں میں داخلہ بہت کم ہوتا ہے اور جن کا داخلہ ہوتا ہے وہ کچھ دنوں بعد نکل جاتے ہیں۔ اس لئے بچوں کے والدین کے ساتھ ہی رضاکار تنظیمیں بھی اس پر خصوصی توجہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں غریب والدین کو بیدار کرنا ہوگا کیونکہ غریب والدین اپنے بچوں کو کام پر لگا دیتے ہیں۔
Yدارالعلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم مولانا ڈاکٹر سعید الرحمان اعظمی نے کہا کہ قوم کو اقلیت اور اکثریت کے مصنوعی خانوں میں تقسیم کرکے سیاست کرنا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم دو چیزوں سے غافل ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہم نے شکریہ ادا کرنا چھوڑ دیا ہے صرف شکوہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’تعلیم کا حق قانون‘ بننے کے بعد ہمیں شکوہ نہیں کرنا چاہئے ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرے۔ مولانا نے کہا کہ ہم اپنی عزت و عظمت کو خود نہیں سمجھتے۔ دوسری بات یہ کہ ہم نے محنت کرنا چھوڑ دیا ہے۔ مانگنے کی عادت ہمیں چھوڑ دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم ریزرویشن کی بھیک مانگ رہے ہیں جو ہمارا انتہائی احمقانہ عمل ہے۔ مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ اسلام واحد مذہب ہے جس میں تعلیم کو ترجیح دی گئی ہے۔ علم حاصل کرنا ہر مسلمان عورت مرد کے لئے فرض ہے۔ آج ہم تعلیم کے میدان میں پسماندہ ہیں تو ہم کہیں نہ کہیں اپنے مذہب سے دور ہو رہے ہیں۔ حکومتوں نے کیا کیا اور ہم نے خود کیا کیا یہ ساری باتیں بحث کا موضوع ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومتوں نے کہیں نہ کہیں اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں تساہلی برتی۔ سنیچر کو یہ کانفرنس انٹیگرل یونیورسٹی میں صبح 10 بجے تلاوت قرآن پاک کے ساتھ شروع ہوئی۔ تلاوت حافظ محمد نسیم نے کی اور اس کا ترجمہ حافظ محمد عارف نے کیا۔ انٹیگرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر سید وسیم اختر نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ انہوں نے اقلیتوں کی موجودہ صورتحال کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس میں شریک افراد کا یہ فرض ہے کہ تعلیم کے معاملہ میں اقلیتوں کو بیدار کریں۔ انہوں نے انٹیگرل یونیورسٹی کا مختصر تعارف بھی پیش کیا۔

عزیزبرنی کی سیمانچل سے ذہنی وابستگی


شمالی بہار کے 7 اضلاع پر مشتمل دوکمشنریوں کو سیمانچل کہا جاتاہے۔ پورنیہ کمشنری کے تحت پورنیہ ،ارریہ ،کشن گنج اور کٹیہار جیسے اقلیتی اضلاع ہیں تو کوسی کمشنری میں سہرسہ ،سپول اور مدھے پورہ شامل ہیں۔سیمانچل کے نام سے الگ ریاست کا مطالبہ شروع میں سابق مرکزی وزیر محمد تسلیم الدین نے کیا تھا۔سیمانچل اس پورے خطے کوکہا جاتا ہے جو ہندنیپال سرحد کے قریب واقع ہے۔ہندوستان کے سب سے بڑے اردومیڈیا نیٹ ورک روزنامہ راشٹریہ سہارا، ہفت روزہ عالمی سہارا، ماہنامہ بزم سہارا کے گروپ ایڈیٹر عالی جناب عزیز برنی کی سیمانچل سے ذہنی وابستگی تو عرصہ ٔ دراز سے تھی کیونکہ اسی خطہ کے ارریہ شہر میں سہاراانڈیا پریوار کے سرپرست اعلیٰ سہاراشری سبرت رائے سہارا کا جنم ہواتھا،تاہم جب وہ 2008میںمنعقد ’’اردوکانفرنس‘‘میں شرکت کی غرض سے کشن گنج تشریف لائے اور اس خطے کے بھولے بھالے اور حالات کے شکارعوام کی عقیدت ومحبت دیکھی،یہاں کی پسماندگی کامشاہدہ کیااوراس سرزمین پلنے والی صلاحیتوںکو سمجھنے کی کوشش کی تو ان کی اس خطہ سے قربت بڑھتی گئی۔سابق مرکزی وزیر محمد تسلیم الدین او ربہاراسمبلی کے رکن اخترالایمان کی دعوت پر منعقداردو کانفرنس میں دولاکھ سے زائد عقیدتمندوں کو خطاب کرتے ہوئے عزیز برنی نے اپنے درد مند دل کی ہر ٹیس عوام کے سامنے رکھ دی تھی۔اس کانفرنس کے بعد کشن گنج ضلع کے ٹپوگائوں میں ’’ملی گرلزاسکول‘‘میںبھی محترم عزیز برنی صاحب کو جانے کا اتفاق ہوا تھا جہاںانہوں نے کہا تھا کہ اس مٹی میں بڑی صلاحیتیں موجودہیں۔ اگر انہیں مثبت رخ دیاجائے تو تعلیمی انقلاب آسکتاہے۔اسی سفر کے دوران مولانا اسرارالحق کی تعلیمی خدمات کو محسوس کرتے ہوئے اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرکے انھوں نے کانگریس پارٹی سے پارلیمنٹ کا ٹکٹ دلواکر جیت سے ہمکنار کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ اسی طرح 2009 میں ’’دہشت گردی مخالف کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لیے ایک بار پھر برنی صاحب کو کشن گنج آنے کااتفاق ہوا،جس میں لاکھوں لوگ ان کاخطاب سننے کے لیے صبح سے شام تک یکسو ہوکر بیٹھے رہے۔چارٹرڈ فلائٹ سے اس کانفرنس میں شریک ہونے والوں میں عزیز برنی کے ساتھ فلمساز مہیش بھٹ، مشہورسماجی کارکن تیستاسیتلواڈ ،فلم اداکار رضامراد، شہباز خان، سوامی اگنی ویش وغیرہ بھی شامل تھے۔اس کانفرنس کے داعی سیاسی رہنما محموداشرف تھے۔
> سیمانچل سے غیر معمولی محبت وانسیت رکھنے والے عزیز برنی اپنی بے پناہ مصروفیتوں کے باوجود 11اپریل 2010کو ضلع ارریہ کے جوکی ہاٹ میں منعقدہ ’’مسلم کانفرنس‘‘میں شرکت سے خود کو روک نہ سکے۔ حالانکہ انہیں 6 اپریل کو کٹیہار میں منعقد ملی کانفرنس میں بھی آنا تھا، مگر جب یہ کسی طرح بھی ممکن نہ ہوسکا تو انھوں نے بذریعہ فون ایک جمِ غفیر کو خطاب کیا۔ اس طرح سیمانچل کے ہزاروں لاکھوں عوام کی انہیں سننے کی تمنا تو پوری ہوئی مگر دیکھنے کی حسرت باقی رہی جو ایک ہفتہ کے اندر ہی اس وقت پوری ہوئی جب وہ ارریا تشریف لائے ۔ جوکی ہاٹ میں عزیز برنی کاخطاب سننے کے لیے ڈیڑھ لاکھ انسانوں کاٹھاٹھیں مارتاہوا ہجوم سہ پہر تین بجے سے ہی پنڈال میں موجود تھا۔جب برنی صاحب نے قوم وملت کے درد میں ڈوبی ہوئی اپنی تقریر شروع کی تو سناٹے کاسا سماں تھااورپوری یکسو ئی سے لوگ آپ کے خطاب سے فیضیاب ہورہے تھے۔جب وہ اپنی تقریر میں حق وانصاف کو معروضی رخ دیتے تو پورے مجمع میں تالیاں گونجنے لگتیں۔اس اجلاس میں جامع مسجد دہلی کے شاہی امام مولاناسید احمدبخاری اوررکن اسمبلی جناب اخترالایمان سمیت درجنو ں علماء و دانشوروں نے بھی خطاب کیا۔اس سفرمیںعزیز برنی کو سہاراشری سبرت رائے سہارا کی جائے پیدائش اورارریہ شہر کی تاریخی اور جغرافیائی صورتحال سے واقفیت ہوئی نیز انہوں نے ان گلیوں کا بھی مشاہدہ کیا جہاں سہاراشری کا بچپن گزراتھا۔
اس سفرکے بعد تو عزیز برنی کی ارریہ شہر سے غیر معمولی محبت چھلکنے لگی اور وہ اس بات پر غور کرنے لگے تھے کہ اس چھوٹے سے شہر کی 1948میں کیا کیفیت رہی ہوگی، جب ہندوستان کی تاریخ میں ایک انقلاب برپا کرنے والی شخصیت سہاراشری سبرت رائے سہارا نے جنم لیا ہوگا۔چنانچہ انہوںنے اس تحقیقی پروجیکٹ پر غورکرنا شروع کردیاجس سے یہ پتہ چلایاجائے کہ آخر دنیا کی عظیم ترین شخصیت نے کس طرح نامساعد حالات میں ترقی کاانقلابی سفرشروع کیا۔اس نقطہ نظر سے سوچنے والے عظیم صحافی عزیز برنی کے ذہن ودماغ میں دراصل یہ نکتہ رقص کررہا تھا کہ اگر عزم محکم اور عمل پیہم ہو تو مشکل حالات میں بھی کس طرح منزل کی حصولیابی ہوسکتی ہے ،چنانچہ ان کی یہ فکر ہے کہ ان نکات سے ملک وملت کو آگاہ کیاجائے تاکہ اس عظیم شخصیت کے نقوش پر عمل آوری کی راہ روشن ہو۔
ارریہ شہر ،اطراف وجوانب اورپورے سیمانچل کا تاریخی پس منظر نیز حال کی حقیقی صورتحال سے واقفیت کی کشش عزیز برنی کے اندر بڑھتی ہی جارہی تھی،چنانچہ 26اپریل 2010کو سیمانچل کے مدھوبنی ضلع سپول میں منعقد ہونے والے ’’پیام انسانیت کنونشن‘‘ میں شرکت کی دعوت ملی توہرچند کہ ان ایام میں آپ بے پناہ مصروفیت اورہجوم کار کے دوران گھرے ہوئے تھے ،لیکن اسے سیمانچل سے ان کی محبت ہی کہی جائے گی کہ انہوں نے ایک بار پھر سیمانچل کے سفر کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کرلیا۔
E
25اپریل 2010کو عزیز برنی صاحب نئی دہلی سے بذریعہ ہوائی جہاز باگ ڈوگرا پہنچے اوروہاں سے بذریعہ کارچاربجے ارریہ شہر تشریف لائے جہاں ان کاقیام ایورگرین ہوٹل میں تھا۔اس سے قبل برنی صاحب جب ارریہ تشریف لائے تھے تو اس شہر سے واقفیت کی تشنگی باقی تھی، اس لیے انہوں نے شہر پہنچتے ہی سہاراشری کے آبائی گھر میں حاضری دینے کو ترجیح دی جہاں پہلے سے ہی ماما شری (سہاراشری کے ماما) برنی صاحب کا انتظار کررہے تھے۔برنی صاحب جب آشرم روڈ ارریہ میں واقع سہاراشری کے آبائی مکان میں داخل ہوئے تووہاں پہلے سے ہی ماما شری اور سہاراانڈیاپریوار کے کئی اعلیٰ اہلکار استقبال کے لیےموجود تھے۔ عزیز برنی صاحب کی ماما شری سے ایک یادگارملاقات ہوئی اور تفصیل سے گفتگوہوئی۔برنی صاحب نے اس شہر سے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے جب ماما شری سے سہاراشری کے بچپن کی یادوں کے حوالے سے کچھ جاننا چاہا تو لمبی گفتگو کا سلسلہ چل پڑا۔تفصیلات جان کر وہ بے خو د ہوگئے۔ماما شری نے ارریہ شہر کی 1948سے 1958تک کی صورتحال کا اجمالی تعارف پیش کیا اور سہارا شری کے دو قریب ترین دوست ونودکمار رائے(سابق ایم ایل اے ارریہ)اورانجودا (پجاری کالی مندر) نے سہاراشری کے ساتھ گزارے اپنے بچپن کی یادوں کی جھلکیاں پیش کیں جس سے اس بات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ دنیا میں سب سے بڑے پریوار (سہاراانڈیاپریوار)کے سرپرست اعلیٰ سہاراشری کی عادت وخصلت بچپن میںہی ایسی تھی جو کسی سماجی انقلاب کی کہانی بیان کررہی تھی۔عزیز برنی نے ’’سمیتی بھون‘‘ اور کالی مندر کابھی دورہ کیا ۔
ملک وملت کے مسائل کو بے باکانہ انداز میں اٹھانے والے عظیم صحافی عزیز برنی کی ارریہ آمد کی اطلاع جیسے ہی لوگوںکو ہوئی ،وہ ایورگرین ہوٹل کی جانب پروانہ وارکھنچے چلے آئے جہاں برنی صاحب کاقیام تھا۔برنی صاحب کا مقبول ترین کالم پڑھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد ارریہ میں بھی موجود ہے جو برنی صاحب کو اپناحقیقی نمائندہ اور رہنما تصورکرتے ہیں، چنانچہ ایورگرین ہوٹل میں درجنوں علاقے کے نمائندہ افراد ان سے ملاقات کے لیے شام کو ایورگرین میںجمع ہوگئے۔ملاقات کرنے والوں میں ارریہ ضلع سے ہی تعلق رکھنے والے آندھراپردیش کے آئی جی آف پولس جناب احسن رضا ،اس علاقے کے پہلے انجینئر جناب محمدزبیر صاحب ،ماہرتعلیم جناب محسن صاحب،شمالی بہارجماعت اسلامی کے امیر جناب نیّرالزماں، علاقائی زبان کے مشہورشاعر ہارون رشیدغافل ، جنتادل یو کے لیڈر نوشاد عالم، شہر کی مشہورسماجی وملی شخصیت جناب غلام سرور، جناب ارشد انورالف، عبدالسبحان جامی، جمعیۃ علماء ہند کے مقامی صدرمفتی نسیم الدین قاسمی سمیت درجنوں ذمہ داران شہر شامل تھے۔شدہ شدہ شہر کے ممتازدانشوروں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوگئی جس سے متاثر ہوکرعزیز برنی صاحب نے مختلف موضوعات پرتفصیلات حاصل کرنی شروع کردیں۔اسی درمیان شہرکے ذمہ داران نے برنی صاحب سے یہ خو اہش ظاہر کی کہ وہ وزیراعلیٰ بہار نتیش کمار کے سامنے ارریہ سمیت پورے سیمانچل کے مسائل کو رکھیں ،چنانچہ برنی صاحب نے نہایت سنجیدگی سے جملہ مسائل کو غورسے سنا ۔عمومی طورپر سبھوں نے کہا کہ کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شاخ کے قیام کی ودیارتھی پریشد مخالفت کررہی ہے، اس لیے وزیر اعلیٰ سے یہ درخو است کی جائے کہ عمومی مفاد میں یونیورسٹی کی شاخ کی جو تجویز ہے اسے جلد عملی جامہ پہنایاجائے،اسی طرح ارریہ شہر میں اقلیتی ہاسٹل کی تعمیر ہوچکی ہے، لیکن قانونی رکاوٹوں کو بہانہ بنا کر ابھی تک اس عمارت کو اقلیتی طلبہ کے حوالے نہیں کیاگیاہے، اس لیے اس کی جانب وزیراعلیٰ کی توجہ مبذول کرائی جائے۔کئی ذمہ داروں نے کہا کہ ارریہ ضلع حکومت ہند کے ان نوے اضلاع میں شامل ہے جنہیں اقلیتی اضلاع قراردیاگیاہے، لیکن صورتحال یہ ہے کہ اقلیتی فنڈ کایا تواستعمال نہیں ہورہا ہے یا اقلیتوں کی فلاح کے لیے متعین فنڈ کو دوسرے مدات میں خرچ کیاجارہاہے۔چند لوگوں نے برنی صاحب کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ 1992میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ارریہ میں فساد پھوٹ پڑاتھا جس میں تین مسلمان مارے گئے تھے، لیکن انہیں آج تک معاوضہ نہیں دیاگیا ۔ارریہ ضلع او رسیمانچل کے نوع بنوع مسائل کو برنی صاحب نے بغورسنا اور یہ فیصلہ کیا کہ ارریہ ضلع کے ذمہ داروں کی ایک فہرست تیارکی جائے اور ان کی ایک میٹنگ بلائی جائے اور میں اس میں شریک ہوکر یہاں کے تمام بنیادی مسائل سے واقف ہوناچاہتاہوں کیونکہ اس علاقے سے مجھے غیر معمولی انسیت ہوگئی ہے اور میں یہاں کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرناچاہتاہوں۔
26اپریل 2010کی صبح موسم نہایت خوشگوار تھا،عزیز برنی صاحب نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایورگرین ہوٹل سے نکل کر سب سے پہلے ماما شری سے ملاقات کی اورعالی جناب سہارا شری جی کی جائے پیدائش یعنی اس خاص کمرے میں نماز ادا کی، جس کا بہت ہی خوبصورت اہتمام جناب ماما جی نے کیا تھا۔ پھر اس کے بعد مدھوبنی ضلع سپول کے لیے روانہ ہوئے جہاںانہیں ’’پیام انسانیت کنونشن‘‘ میں شریک ہوناتھا۔ راستے میں انہوںنے اس علاقے کے لہلہاتے کھیتوں کا بھی مشاہدہ کیااو رگائوں کے رہن سہن کو بھی دیکھا ،جوٹ کی کھیتیاں بھی دیکھیں اور اس سے متعلق جملہ معلومات بھی دریافت کرتے رہے۔ راستے میں سیلاب کی تباہی کے نقوش سے بھی آگہی ہوئی ۔ہفتہ بھر قبل آئے طوفان میں ہلاکتوں کے ذکر پر ان کی آنکھیں چھلک آئیں۔
عالمی شہرت یافتہ کہانی کار اور فلم ’’تیسری قسم‘‘ کے مصنف پھنیشورناتھ رینو‘‘کے گائوں سے قریب ہوکر جب گزرے تو رینو کاہندی ادب میں مقام اوران کی شہرت پر گفتگو کرتے رہے کہ اتنی عظیم شخصیتیں ایسے پسماندہ گائوں میں جنم لے سکتی ہیں۔فاربس گنج ،نرپت گنج ہوتے ہوئے جب برنی صاحب کاقافلہ مدہوبنی گائوں پہنچا تووہاں سیکڑوں افراد ان کے استقبال میں آنکھیں بچھائے کھڑے تھے ۔ہرطرف استقبالیہ گیٹ ،استقبالیہ سلوگن کے رنگارنگ بینر اور تاحد نگاہ شامیانوں سے بنا خوبصورت پنڈال اوراسی کے عقب میں جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ کی عظیم الشان مسجد اور کئی وسیع عمارتیں جنہیں دیکھ کر برنی صاحب دم بخود رہ گئے اورجامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ مدھوبنی ضلع سپول کے بانی ومہتمم مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی انتظامی صلاحیتوں کے معترف ہوگئے۔
محترم عزیز برنی صاحب جب اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئے تو لاکھوں سامعین کا ٹھاٹھیں مارتاہو ا ہجوم ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہا تھااور ہرطرف زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے ۔پیام انسانیت کنونشن کے مہمان خصوصی بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمارتھے جب کہ مہمان ذی وقار کی کرسی پر عزیز برنی صاحب جلوہ افروزتھے۔نتیش کمار نے جب عزیز برنی صاحب کو اسٹیج پر دیکھا تو ان کے چہرے پر بھی یک گونہ چمک بڑھ گئی۔اس دوران وزیراعلیٰ نتیش کمار اور عزیزبرنی سمیت چند علماء کے ہاتھوں ’’شیخ زکریا چیریٹیبل ہاسپٹل‘‘کاسنگ بنیادرکھا گیاکنونشن کے دوران نتیش کمار کو بہترین کارکردگی کی بنیادپر ’’وکاس پُرش ایوارڈ‘‘دیا گیا جب کہ محترم عزیز برنی کو بہترین صحافتی خدمات کے عوض ’’مولانا آزاد ایوارڈ‘‘سے نوازاگیا۔اس موقع پر جامعۃ القاسم کے بانی ومہتمم مفتی محفوظ الرحمن عثمانی نے کہاکہ آزادی سے قبل مولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے عظیم صحافتی خدمات انجام دی تھیں،اسی مناسبت سے دورحاضر میں عظیم صحافتی خدمات کے عوض جناب عزیز برنی صاحب کو ’’مولانا آزاد ایوارڈ‘‘دینا ہمارے لیے فخر کی بات ہے۔
کنونشن میں سب سے پہلے مفتی محفوظ الرحمن عثمانی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا او روزیراعلیٰ و عزیز برنی کا 45کلو کے پھولوں کا ہارپہناکر استقبال کیا۔اسٹیج پر وزیراعلیٰ سمیت ممبرپارلیمنٹ جناب علی انور، مولانا عیسیٰ منصوری (لندن)، مولانا سلیم محمد کریم (سائوتھ افریقہ)، مولاناسید شاہد سہارنپوری ،مولاناثناء الہدیٰ قاسمی (امارت شرعیہ)، اور رکن اسمبلی منظرعالم موجودتھے۔
جب اجلاس سے خطاب کرنے کے لیے عزیز برنی کا نام پکاراگیا تو پورے مجمع میں خوشی کی لہردوڑگئی ،اس موقع پر روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر عزیز برنی نے مجمع عام سے اپنے ولولہ انگیز خطاب میں کہا کہ’پھنیشورناتھ رینو، للت نرائن مشرا اور سہاراشری سبرت رائے سہارا کی اس سرزمین کو میں سلام کرتا ہوں ۔اس علاقے کے بھولے بھالے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے مجھے بے حد خوشی ہورہی ہے، مجھے اس بات کااعتراف کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ نتیش کمار جی کی سربراہی میں بہارترقی کی راہ پر گامزن ہے، اس کے لیے وزیراعلیٰ یقینی طورپر مبارکباد کے مستحق ہیںلیکن میراخیال ہے کہ ابھی بہارکو مزیدترقی کی ضرورت ہے ۔‘ عزیز برنی نے اپنے خطاب میںعوام کو آگاہ کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کاوہ قول مشعل راہ ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے تین دوست ہیں اور تین دشمن۔ دوستوں میں سے ایک تووہ ہیںجو حقیقی دوست ہیں،دوسرے دوستوں کے دوست اور تیسرے وہ ہیںجو ہمارے دشمنوں کے دشمن ہیں،اسی طرح تین دشمن بھی ہیں جن کو ہمیں پہچاننا چاہیے،ایک توجو ہمارے دشمن ہیں، دوسرے وہ ہیں جو ہمارے دشمنوں کے دوست ہیں اور تیسرے وہ ہیں جو ہمارے دوستوں کے دشمن ہیں، چنانچہ دوست اور دشمن کو پہچاننے کا یہی پیمانہ ہوناچاہیے۔انہوں نے سیمانچل کے مسائل کی جانب وزیراعلیٰ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ وہ کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شاخ کے قیام میں آنے والی جملہ رکاوٹوں کو دورکرنے کے ساتھ ساتھ ارریہ میں تعمیر شدہ اقلیتی ہاسٹل کی قانونی اڑچنوں کودورکرکے اسے اقلیتوں کے حوالے کریں۔برنی صاحب نے کہا کہ کشمیر کے بعد سب سے زیادہ مسلم آبادی والے اس خطہ کے عوام امن پسند ہیں، اس لیے یہاں سے پیام انسانیت کی ہرتحریک کے اثرات دوررس ہوں گے۔‘واضح ہوکہ ایک دن قبل ارریہ شہرکے ایورگرین ہوٹل میں اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے آندھراپردیش کے آئی جی احسن رضا، جماعت اسلامی شمالی بہارکے امیر نیرالزماں،ریٹائرڈ چیف انجینئر زبیراحمد، ماہرتعلیم محمد محسن،علاقائی زبان کے مشہورشاعر ہارون رشیدغافل اور علاقے کے ممتاز دانشوروں نے عزیز برنی کو سیمانچل کے مسائل پر توجہ دلا ئی تھی اوران سے توقع ظاہرکی تھی کہ اگر وہ وزیراعلیٰ کی توجہ مبذول کرائیںگے تو اس کا فائدہ ضرورہوگا۔خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ برنی صاحب کی تقریر کے بعد وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپنی تقریر کے دوران ان کی ہر بات کو تسلیم کرتے ہوئے عوام کو یقین دہانی کرائی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمپس کے قیام میں کسی طرح کی رکاوٹ نہیں آنے دی جائے گی اور دیگر تمام مشوروں پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جائے گا۔
اس لحاظ سے عزیز برنی کا یہ دورہ سیمانچل کے عوام کے لیے ایک یادگار تحفہ ثابت ہوسکتا ہے۔ دیکھنا ہے اب یہ سلسلہ کس مقام تک پہنچتا ہے۔

Tuesday, April 13, 2010

صرف میری آنکھوں نے دیکھی اوباماـمنموہن کی یہ خاص ملاقات

عزیز برنی

انسانی دماغ کی پرواز کی بلندی کی کوئی انتہا نہیں۔ وہ کب کیا سوچنے لگے، قیاس کرنا مشکل ہے۔ اسی طرح خواب کی بات بھی ہے جب آپ گہری نیند میں محوخواب ہوں تو آپ کی آنکھیں اپنی خواب گاہ میں کیسے کیسے خواب سجالیں، اس پر بھی آپ کا کوئی زور نہیں۔ کبھی کبھی ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوجاتا ہے۔ یوں تو رات اور دن کام کی فکر چین سے سونے ہی نہیں دیتی، مگر کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ آپ بے ارادہ نیند کی آغوش میں پہنچ جاتے ہیں۔ ارریہ سے باگ ڈوگرا تک کا سفر جو ڈھائی سے تین گھنٹے میں بذریعہ کار مکمل ہونا تھا، اس میں چار گھنٹے سے بھی زیادہ وقت لگا، اس لےے کہ بہ راستہ کشن گنج، باگ ڈوگرا پہنچنا تھا۔ بہت مشکل نظر آرہا تھا، فلائٹ کے مقررہ وقت تک ائیرپورٹ پہنچ جانا، لیکن شکر خدا کا اور کچھ مہارت ڈرائیور کی کہ میں وقت پر پہنچ گیا۔ جیٹ ائیرویز کی فلائٹـڈبلیوـ280اپنے شیڈیولڈ کے مطابق وقت پر تھی اور میری سیٹ کا نمبرCتھا، یعنی پہلی قطار میں آئل سیٹ، جس کے ٹھیک سامنے اپنی ڈیوٹی پر مستعد ائیرہوسٹس کو بیٹھنا ہوتا ہے۔ اب یہ ذرا مشکل کام تھا کہ اگر میں آنکھیں کھلی رکھوں تو بے ساختہ نظریں ائیرہوسٹس کے چہرے پر جمی جاتی تھیں اور اگر آنکھیں بند کرلوں تو انہیں نیند کی آغوش میں چلے جانے سے روکنا مشکل تھا۔ پہلی کیفیت کچھ غیرمناسب لگی، لہٰذا ایک زمانے سے بے خواب آنکھوں کا خواب پورا ہوا۔ میں نے پلکیں کیا جھکائیں، انہوں نے آمدخواب کے لےے مخملی بستر سجا دےے۔
پھر ہوا یوں کہ ارریہ سے واپسی کے بعد میں اپنے اس یادگار سفر کی جو داستان آج قلمبند کرنا چاہتا تھا، وہ پس پشت چلی گئی(ممکن ہے کہ کل میں اس پر لکھوں)، مگر آج قلم کے حوالے ہے وہ منظر جو آسمان کی بلندیوں پر پرواز کرتے ہوئے میری خوابیدہ آنکھوں نے دیکھا۔ ہاں، یہ خواب ہی ہوسکتا ہے، اس لےے کہ دورِحاضر میں ایسی کسی بھی حقیقت کا تصور تو خارج ازامکان نظر آتا ہے۔
اپنے ملک کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے گزشتہ امریکی سفر نومبرـ009 میں، میں ان کے ہمراہ تھا، مگر اس بار نہیں ہوں، وہ اس وقت امریکہ میں ہیں اور میں ہندوستان میں۔ لیکن میری نگاہیں دیکھتی کیا ہیں کہ میں اس بار بھی ان کے ساتھ ہوں اور ہمارے وزیراعظم تمام آفیشیل پروگرام سے ہٹ کر ایک انتہائی نجی ملاقات میں مصروف ہیں، اسے بس اتفاق ہی سمجھئے کہ جیسے پچھلی بار میں تنہا تھا، جو ان کے ہمراہ ڈیلی گیشن میں شامل ہونے کے باوجود وہائٹ ہاؤس کے باہر رہ گیا اور اس بار بھی میں تنہا ہی تھا، مگر ان کے ساتھ وہائٹ ہاؤس کے اندر، پھر میں دیکھتا کیا ہوں کہ ہمارے وزیراعظم اس تاریخی ملاقات میں امریکی صدر اوباما سے کچھ اس طرح مخاطب تھے:
’’عالیجناب محترم اوباما صاحب!میں آپ کی خدمت میں اپنے اور تمام ہندوستان کی جانب سے سلام عرض کرتا ہوں۔ آپ کے صدر منتخب ہونے پر پانچ ماہ قبل جب میں امریکہ آیا تھا توآپ نے سرخ قالین بچھا کر میرا استقبال کیا تھا۔ بہت کچھ میرے دل میں تھا، جو میں اسی وقت آپ کی خدمت میں عرض کردینا چاہتا تھا، مگر سرخ قالین کے اوپر بچھے مہکتے پھولوں کی خوشبو نے مجھے یہ موقع ہی نہیںدیا کہ میں ان خون کے دھبوں کا ذکر کروں، جو اس سرخ قالین کے نیچے چھپے ہونے کے باوجود بھی مجھے میرے دل کی آنکھوں سے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ قدم بہ قدم کبھی مجھے افغانستان میں شہید بے گناہوں کی سسکیاں سنائی دیتی تھیں تو کبھی عراقیوں کی آہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ میں ایک بیحد حساس اور امن پسند ملک کا شہری ہوں۔ ایک زمانہ تھا، جب ساری دنیا ہمارے ملک کو امن کے گہوارے کی شکل میں دیکھتی تھی۔ امن کی تلاش میں رشی منیـدرویش اس زمین پر اپنا آشیانہ بناتے تھے۔ یہ ہمارے لےے باعث فخر ہے اور ہماری زمین کی عظمت بھی کہ کربلا کی جنگ کو روکنے کی خاطر حضرت امام حسینؑ نے یزید کی فوج کے سامنے اپنے لشکر کے ساتھ ہندوستان چلے آنے کی پیشکش رکھی تھی۔ میں نے کربلا کا ذکر اس لےے کیا کہ لہولہان عراق کے ساتھ ہماری کچھ خوشگوار یادیں وابستہ ہیں اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت مقدس عرب سرزمین کے گوشے گوشے سے ذہنی وابستگی رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے عراق اور اس کے سربراہ سے دیرینہ خوشگوار رشتے بھی رہے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جاتے جاتے امریکہ کے سابق صدر جارج واکر بش نے بھی یہ تسلیم کرلیا تھا کہ عراق کے معاملے میں ان سے غلطی ہوئی ہے۔ سچ یہی ہے، جو آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں، مگر اس ضمن میں آج بھی میں کسی گفتگو کا ارادہ نہیں رکھتا، اس لےے کہ مجھے اس وقت اپنی زمین کی سلامتی کی فکرلاحق ہے۔ میں اسے لہولہان ہونے سے بچانا چاہتا ہوں۔ میں ہندوستان کا وزیراعظم ہوں، اس لےے یہ گفتگو میری ذمہ داری ہے، میرے ملک اور میرے عوام کے تحفظ کی فکر میرے فرض کا تقاضا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ 26نومبر008کو ہماری زمین پر کیا قہر برپا ہوا۔ آپ جانتے ہیں کہ اس دہشت گردانہ حملے کی سازش کرنے والوں میں کون کون سی طاقتیں شامل ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی جس نے اقرارجرم کیا ہے، اس کی وابستگی کس کس سے اور کس کس طرح کی ہے۔ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں 9/11/2001(1ستمبر001)کا سانحہ، جب ایک دہشت گردانہ حملہ میں نیویارک کے ورلڈٹریڈٹاور تباہ کردئےے گئے تھے، جس کے لےے ذمہ دار قرار دیا گیا تھا بن لادن اور اس کی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کو۔ بن لادن چونکہ امریکی خفیہ ذرائع کی اطلاعات کے مطابق افغانستان کی تورابورا پہاڑیوں میں چھپا ہوا تھا، اس لےے امریکی حکومت نے بلاتاخیر افغانستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ 26/11 کو ہندوستان کے 9/11کی شکل میں دیکھنے والے آج مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتنا سنجیدہ ہے کہ وہ ایک دہشت گرد کے پناہ دینے کے جرم میں اس ملک پر حملہ کردیتا ہے تو پھر وہ 26/11کے مجرم کو پناہ کیوں دے رہا ہے اور میں اس کی سپردگی کے لےے پرزور مطالبہ کیوں نہیں کررہا ہوں یا پھر مجھے اس کی ضرورت بھی کیوں پڑ رہی ہے؟
آپ جانتے ہیں کہ میں ہندوستان کی تاریخ کا وہ پہلا وزیراعظم ہوں، جس کا تعلق اقلیتی طبقہ سے ہے۔ اپنے ملک کی اکثریت کا بھروسہ قائم رکھنا دیگر اقلیتوں کی امیدوں پر پورا اترنا، اپنے ملک کا تحفظ، اپنے عوام کی خوشحالی میرا فرض اوّلین ہے، میرا نصب العین ہے۔ جس وقت میں امریکہ کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر دستخط کررہا تھا، اس وقت بھی میرے ملک کے بیشتر ذمہ دار لوگ اس کے حق میں نہیں تھے، مگر میں اسے اپنے ملک اور قوم کے مفاد میں سمجھتا تھا، اس لےے میں نے اس معاہدے پر دستخط کےے اور آج کا یہ سفر بھی اسی کو آگے بڑھانے کے لےے ہے۔ میں آپ کے اس مشن کی تائید کرتا ہوں، جس میں ایٹمی تنصیبات کے استعمال پر پابندی، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونا ہے۔ میں ان دونوں باتوں میں آپ کا ہم خیال ہوں، مگر اس جنگ کے پیمانے دوہرے نہ ہوں۔ آپ نے پاکستان کو جو ہتھیار دئےے، بیشک آپ کے نزدیک وہ طالبان سے لڑنے کے لےے رہے ہوں گے۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لےے رہے ہوں گے، مگر جب ان ہتھیاروں کا استعمال ہماری زمین پر دہشت گردی کے لےے ہوتا ہے تو ہماری یہ فکر واجب ہے کہ ایک طرف امریکہ پاکستان کو ہندوستان میں دہشت گردی برپا کرنے کے لےے ذمہ دار بھی مانتا رہے اور دوسری جانب اس کی ہر طرح سے مدد بھی کرتا رہے۔
اس وقت جب میں آپ سے یہ گفتگو کررہا ہوں، تاشقند میں اپنے ملک کے سابق وزیراعظم لال بہادری شاستری کی ذہنی کیفیت کا اندازہ ہے مجھے۔ ان کی وہ آخری ملاقات تاریخ کے اوراق میں درج ہے اور میرے دل و دماغ پر بھی نقش ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میری آج کی اس ملاقات کو تاریخ کن لفظوں میں محفوظ رکھے گی، مگر میں یہ ضرور سوچ رہا ہوں کہ اگر ان لمحات کی داستان سنہری حرفوں میں نہ لکھی جاسکے تو کم ازکم اسے سیاہ باب کی شکل میں تو نہ لکھا جائے، اس لےے کہ میرے جیسے شخص کا ہندوستان کے اس عظیم منصب کے لےے انتخاب ایک تاریخ ساز عمل ہے۔ اگر یہ نظر انتخاب مجھ تک پہنچی تو شاید اس کی وجہ رہی ہوگی میری سادگی، میری شرافت، میری ایمانداری اور میری حق گوئی، غالباً اسی لےے مجھے سبھی کا اعتماد حاصل رہا، جبکہ نہ تو ایسا کوئی سیاسی پس منظر مجھ سے وابستہ تھا، جو مجھے راتوں رات اس منصب پر پہنچا دیتا اور نہ میں زمینی سطح سے جڑا کوئی ایسا سیاستداں تھا، جس نے ہندوستان کے گلی کوچوں میں گھوم گھوم کر عوام کی اس درجہ حمایت حاصل کی ہو۔ میں یقینا وہ خوش نصیب ہوں کہ یکساں طور پر عوام و خواص نے مجھے پسند کیا تو صرف میری پارٹی ہی نہیں، بلکہ بہت حد تک حزب اختلاف کا اعتماد بھی مجھے حاصل رہا۔ میں اس اعتماد کو ٹوٹنے نہیں دینا چاہتا۔ میں اس پسندیدگی کو ناپسندیدگی میں نہیں بدلتے دیکھنا چاہتا، اس لےے یہ تمام باتیں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ ہم ایک ایسا جمہوری ملک ہیں، جہاں درجنوں مذاہب کے ماننے والے، سیکڑوں زبانیں بولنے والے ایک ساتھ مل کر رہتے ہیں۔ میڈیا ہماری جمہوریت کا چوتھا ستون ہے اور یہ صرف کہنے کے لےے نہیں، اسے مکمل آزادی حاصل ہے۔ وہ جب سوال کرتا ہے کہ انیتا اُدیا کو کیوں خفیہ طریقے سے امریکہ لے جایا گیا؟ ایف بی آئی نے اس سے کیا معلومات حاصل کیں؟ تو میڈیا کو تسلی بخش جواب دینا ہماری ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہمارا میڈیا جب ہم سے ہیڈلی کی حوالگی کے تعلق سے بات کرتا ہے تو ہماری یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ ہم ان کے ہر سوال کا جواب دیں۔کیوں کہ بہت سے سوالوں کے جواب آپ کی زمین سے جڑے ہیں، آپ کے عدالتی نظام سے جڑے ہیں، لہٰذا ہمیں آپ کے سامنے بیحد شائستگی سے ان سوالوں کو رکھنے کا حق ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ ہمیں ایسے تمام سوالوں کے جواب فراہم کریں، اس لےے کہ یہ صرف میڈیا اور ہندوستانی عوام کو مطمئن کرنے کے لےے ہی ضروری نہیں ہےں، بلکہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لےے بھی ضروری ہے۔ ہمارے لےے یہ حیران کن ہے کہ کس طرح ایک بدلے ہوئے نام اور ولدیت کے ساتھ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کو امریکی شہری کی حیثیت سے پاسپورٹ حاصل ہوا، اس میں کون کون شامل ہیں۔ وہ سب ہندوستان میں دہشت گردانہ حملے کی سازش کا حصہ ہیں، اس لےے ان کے جرم کو ایک جعلی پاسپورٹ بنانے کے جرم کی شکل میں ہی نہیں دیکھا جاسکتا، بلکہ پاسپورٹ جس دہشت گردانہ عمل کو پورا کرنے کے مقصد سے بنا، اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا۔سویڈن کے کارٹونسٹ کے قتل کی کوشش اور995 میں پرولیا میں گرائے گئے ہتھیاروں کے مجرم کا اس وقت سویڈن میں موجود ہونا کیا آپس میں کوئی رشتہ رکھتا ہے، ہمیں آپ کے تعاون سے اس سوال کا جواب چاہےے، 26/11کے دہشت گردانہ حملہ میں مطلوبہ سرگرمیوں کے لےے شبدہاؤس (نریمن ہاؤس) اور پنے میں ہوئے بم بلاسٹ میں شبدہاؤس کی سرگرمیوں اور اگر ان کا ہمارے ملک میں برپا ہونے والی دہشت گردی سے کیا کوئی تعلق ہے، یہ جانکاری حاصل کرنے میں ہم آپ کی مدد چاہیں گے۔ آپ اپنی خفیہ ایجنسیوں کی معرفت سچائی کا پتہ لگا کر ہماری مدد فرمائیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے لےے یہ آپ کا عملی تعاون ہوگا۔
یہ آخری اور مؤدبانہ درخواست کہ ہم پاکستان اور چین کے ساتھ کیسے رشتے رکھیں، اس میں ہمیں اس وقت تک کوئی مشورہ نہ دیا جائے، جب تک کہ ہم طلب نہ کریں۔ اسی طرح ایران سے آنے والی گیس پائپ لائن کا سمجھوتہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے، یہ ایران کو اور ہمیں طے کرنا ہے، اس سلسلہ میں ہم پر کوئی اخلاقی دباؤ نہ ڈالا جائے۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ لشکرطیبہ ہمارے ملک میں متعدد دہشت گردانہ حملوں کے لےے ذمہ دار ہے اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور ایف بی آئی کے لشکرطیبہ سے کتنے گہرے رشتے ہیں۔ خود ڈیوڈ کولمین ہیڈلی نے امریکی عدالت میں اپنے جرم کو قبول کرتے ہوئے ان رشتوں کا اعتراف کیا ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ نزدیکی رشتے بھی ہوں اور ان کے خلاف جنگ لڑنے کا دعویٰ بھی۔
میں جانتا ہوں کہ یہ تمام باتیں کچھ تلخ اور ناپسندیدہ ہوسکتی ہیں، مگر آپ امریکہ کی ایک تاریخ ساز شخصیت ہیں۔ آپ نے بھی اس منصب پر پہنچ کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے، اگر پوری ایمانداری اور نرم دلی کے ساتھ میری ان باتوں پر آپ غور کریں گے تو یقینا آپ محسوس کریں گے کہ آج کی ہماری یہ ملاقات پوری دنیا کے لےے امن کا ایک پیغام ہوگی اور جب میں یہاں سے رخصت ہورہا ہوں گا تو صرف ہندوستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے ہی نہیں، بلکہ میری اس کوشش کو عالمی امن کے ایک پیامبر کی شکل میں بھی یاد کیا جائے، جس کا سہرا بے شک آپ کے سر ہوگا۔‘

सिर्फ मेरी आंखों ने देखी ओबामा-मनमोहन की यह ख़ास मुलाक़ात
अज़ीज़ बर्नी

इन्सानी दिमाग़ के उड़ान की ऊंचाई की कोई सीमा नहीं। वह कब क्या सोचने लगे, कल्पना करना कठिन है। इसी तरह ख्वाब की बात भी है जब आप गहरी नींद में डूबे हों तो आपकी आंखें कैसे-कैसे सपने सजा लें, इस पर भी आपका कोई ज़ोर नहीं। कभी-कभी ऐसा ही कुछ मेरे साथ भी हो जाता है। यूं तो रात और दिन काम की चिंता चैन से सोने ही नहीं देती, मगर कभी यूं भी होता है कि आप स्वयं ही नींद की अग़ोश में पहुंच जाते हैं। ‘अररिया’ से ‘बागडोगरा’ तक की यात्रा जो ढाई से तीन घंटे में कार द्वारा पूरी होनी थी, उसमें चार घंटे से भी अधिक समय लगा, इसलिए कि किशन गंज के रास्ते बागडोगरा पहुंचना था। बहुत कठिन नज़र आ रहा था, फ्लाइट के निर्धारित समय तक एयरपोर्ट पहुंच जाना, लेकिन ख़ुदा का शुक्र और कुछ ड्राइवर की कुशलता कि मैं समय पर पहुंच गया। जेट एयरवेज़ की फ़्लाइट डब्ल्यू 2208-9 अपने शैड्यूल के अनुसार समय पर थी और मेरी सीट का नम्बर 1ब् था, अर्थात् पहली पंक्ति में आॅयल सीट, जिसके ठीक सामने अपनी ड्यूटी पर तैनात एयरहोस्टेस को बैठना होता है। अब यह ज़रा कठिन काम था कि अगर मैं आंखें खुली रखूं तो अकस्मात नज़रें एयरहोस्टेस के चेहरे पर जम जाती थीं और आँखें बंद कर लूं तो उन्हें नींद की आग़ोश में चले जाने से रोकना कठिन था। पहली अवस्था कुछ अनुचित लगी, इसलिए एक ज़माने से बेख़्वाब आंखों का ख़्वाब पूरा हुआ। मैंने पलकें क्या झुकाईं, उन्होंने सपनों के स्वागत के लिए मख़मली बिस्तर सजा दिए।
फिर हुआ यूं कि अररिया से वापसी के बाद मैं अपनी इस स्मरणीय यात्रा की जो दास्तान आज लिखना चाहता था, वह पीछे चली गई। (संभव है कि कल मैं इस पर लिखूँ) परन्तु आज क़लम के हवाले है वह मंज़र जो आसमान की ऊंचाइयों पर उड़ान भरते हुए मेरी सोई हुई निगाहों ने देखा। हां, यह ख़्वाब ही हो सकता है, इसलिए कि वर्तमान हालात में ऐसी किसी भी हक़ीक़त की कल्पना भी नहीं की जा सकती है।
अपने देश के प्रधानमंत्री डा॰ मनमोहन सिंह की पिछली अमेरिका यात्रा नवम्बर 2009 में, मैं उनके साथ था, परंतु इस बार नहीं, वह इस समय अमेरिका में हैं और मैं भारत में। लेकिन मेरी निगाहें देखती क्या हैं कि मैं इस बार भी उनके साथ हूं और हमारे प्रधानमंत्री सभी सरकारी कार्यक्रम से हट कर एक अत्यंत निजी भेंट में व्यस्त हैं। इसे बस संयोग ही समझिए कि जैसे पिछली बार मैं अकेला था, जो उनके साथ डेलीगेशन में शामिल होने के बावजूद व्हाइट हाऊस के बाहर रह गया और इस बार भी मैं अकेला ही था, मगर उनके साथ व्हाइट हाऊस के भीतर, फिर मैं देखता क्या हूं कि हमारे प्रधानमंत्री उस ऐतिहासिक भेंट में अमेरिकी राष्ट्रपति ओबामा से कुछ इस तरह मुख़ातिब थे।
‘‘आदर्णीय श्री ओबामा साहब, मैं आपकी सेवा में अपनी और तमाम भारतीयों की ओर से सलाम अर्ज़ करता हूं। आपके राष्ट्रपति चुने जाने के बाद पांच महीने पूर्व जब मैं अमेरिका आया था तो आपने रेड कार्पेट बिछाकर मेरा स्वागत किया था। बहुत कुछ मेरे मन में था जो मैं उसी समय आपकी सेवा में अर्ज़ कर देना चाहता था, मगर रेड कार्पेट के ऊपर बिछे सुगंधित फूलों की खुशबू ने मुझे यह अवसर ही नहीं दिया कि मैं उन ख़ून के धब्बों की चर्चा करूं, जो उस रेड कार्पेट के नीचे छुपे होने के बावजूद भी मुझे मेरे मन की आँखों से साफ़ दिखाई दे रहे थे। क़दम-क़दम पर कभी मुझे अफ़ग़ानिस्तान में शहीद बेगुनाहों की सिस्कियां सुनाई देती थीं तो कभी ईराक़ियों की आहें।
आप जानते हैं कि मैं एक अत्यंत भावुक तथा शांति प्रिय देश का नागरिक हूं। एक ज़माना था, जब सारी दुनिया हमारे देश को अमन के गहवारे के रूप में देखती थी। शांति की तलाश में त्रृषि मुनी, संत इस धरती को अपना आशियाना बनाते थे, यह हमारे लिए गर्व की बात है और हमारी धरती की महानता भी कि कर्बला की जंग को रोकने के लिए हज़रत इमाम हुसैन ने यज़ीद की सेना के सामने अपने लशकर के साथ भारत चले आने का प्रस्ताव रखा था। मैंने कर्बला का उल्लेख इसलिए किया कि ख़ून में डूबे ईराक़ के साथ हमारी कुछ मधुर यादें जुड़ी हैं और एक कारण यह भी है कि हमारे देश की दूसरी सबसे बड़ी बहुसंख्यक आबादी पवित्र अरब की धरती के चप्पे-चप्पे से मानसिक लगाव रखती है, इसके अलावा हमारे ईराक़ तथा उसके नेता से पुराने मधुर संबंध भी रहे हैं। आपको याद होगा कि जाते-जाते अमेरिका के पूर्व राष्ट्रपति जाॅर्ज वाॅकर बुश ने भी यह स्वीकार कर लिया था कि ईराक़ के मामले में उनसे ग़लती हुई है। सच यही है, जो आप भी जानते हैं और मैं भी जानता हूं, परंतु इस सिलसिले में आज भी मैं किसी बातचीत का इरादा नहीं रखता, इसलिए कि मुझे इस समय अपनी धरती की सुरक्षा की चिंता अधिक है। मैं उसे ख़ून में डूबने से बचाना चाहता हूं। मैं भारत का प्रधानमंत्री हूं इसलिए यह मेरी ज़िम्मेदारी है, मेरे देश और मेरी जनता की सुरक्षा की चिंता मेरे दायित्व की मांग है। आप जानते हैं कि 26 नवम्बर 2008 को हमारी धरती पर क्या क़हर टूटा। आप जानते हैं कि उस आतंकवादी हमले की साज़िश करने वालों में कौन-कौन सी ताक़तें शामिल हैं। आप जानते हैं कि डेविड कोलमैन हेडली जिसने जुर्म स्वीकार किया है, उसका संबंध किस-किस संस्था से और किस-किस प्रकार का है। मैं आपको याद दिलाना चाहता हूं कि 9/11/2001 (11 सितम्बर 2001) की त्रासदी, जब एक आतंकवादी हमले में न्यूयार्क के वल्र्ड ट्रेड टाॅवर तबाहकर दिए गए थे, जिसके लिए ज़िम्मेदार क़रार दिया गया था, बिन लादेन और उसके आतंकवादी संगठन अलक़ायदा नामी संगठन को। लादेन चूंकि अमेरिकी गुप्तचर माध्यमों की सूचनाओं के अनुसार अफ़ग़ानिस्तान की तोरा-बोरा पहाड़ियों में छुपा हुआ था, इसलिए अमेरिकी सरकार ने अविलंब अफ़ग़ानिस्तान पर हमला करने का निर्णय कर लिया। 26/11 को भारत के 9/11 के रूप में देखने वाले आज मुुझसे यह प्रश्न करते हैं कि अगर अमेरिका आतंकवाद के विरुद्ध जंग में इतना गंभीर है कि वह एक आतंवादी को शरण देने के अपराध में उस देश पर हमला कर देता है तो फिर वह 26/11 के अपराधी को शरण क्यों दे रहा है और मैं उसके प्रत्यर्पण के लिए मांग क्यों नहीं कर रहा हूं या फिर मुझे उसकी आवश्यकता भी क्यों पड़ रही है? आप जानते हैं कि मैं भारत के इतिहास का वह पहला प्रधानमंत्री हूं जिसका संबंध अल्पसंख्यक समुदाय से है। अपने देश के बहुसंख्यकों का भरोसा क़ायम रखना, अन्य अल्पसंख्यकों की आशाओं पर पूरा उतरना, अपने देश की सुरक्षा, अपनी जनता की समृद्धि मेरा पहला फ़र्ज़ है, मेरा बुनियादी उद्देश्य। जिस समय मैं अमेरिका के साथ एटमी डील पर हस्ताक्षर कर रहा था, उस समय भी मेरे देश के अधिकांश ज़िम्मेदार लोग उसके पक्ष में नहीं थे। परंतु मैं उसे अपने देश तथा राष्ट्र के हित में समझता था, इसलिए मैंने उस डील पर हस्ताक्षर किए और आजकी यात्रा भी उसी को आगे बढ़ाने के लिए है। मैं आपके इस मिशन का समर्थन करता हूं जिसमें परमाणु हथियारों के प्रयोग पर प्रतिबंध तथा आतंकवाद के विरुद्ध जंग शामिल है। मैं इन दोनों बातों पर आपसे सहमत हूं, मगर इस युद्ध के मापदंड दो न हों। आपने पाकिस्तान को जो हथियार दिए, निःसंदेह आपके निकट वह तालिबान से लड़ने के लिए रहे होंगे, आतंकवाद पर क़ाबू पाने के लिए रहे होंगे, मगर जब उन हथियारों का प्रयोग हमारी धरती पर आतंकवाद के लिए होता है तो हमारी यह चिंता वाजिब है कि एक तरफ़ अमेरिका पाकिस्तान को भारत में आतंकवाद फैलाने के लिए ज़िम्मेदार भी मानता रहे और दूसरी ओर उसकी हर प्रकार से सहायता भी करता रहे। इस समय जब मैं आपसे यह बातचीत कर रहा हूं, ताशक़ंद में अपने देश के पूर्व प्रधानमंत्री लाल बहादुर शास्त्री की मानसिक स्थिति का अनुमान है मुझे, उनकी वह अंतिम मुलाक़ात इतिहास के पन्नों में दर्ज है और मेरे दिल व दिमाग़ पर भी अंकित है। मुझे मालूम नहीं कि मेरी आजकी इस मुलाक़ात को इतिहास किन शब्दों में सुरक्षित रखेगा, परंतु मैं यह अवश्य सोच रहा हूं कि अगर इन क्षणों का वर्णन स्वर्ण अक्षरों में न लिखा जा सके तो कम से कम उसे काले अध्याय के रूप में तो न लिखा जाए, इसलिए कि मेरे जैसे व्यक्ति का भारत के इस महान पद के लिए चुनाव एक ऐतिहासिक घटना है। अगर यह चयन की प्रक्रिया मुझ तक पहुंची तो शायद इसका कारण रहा होगा, मेरी सादगी, मेरी शराफ़त, मेरी ईमानदारी, और मेरी स्पष्ट वादिता, संभवतः इसीलिए मुझे सभी का विश्वास प्राप्त रहा, जबकि न तो ऐसी कोई राजनीतिक पृष्ठभूमि मुझ से जुड़ी थी जो मुझे रातों रात इस पद तक पहुंचा देती और न मैं ज़मीन से जुड़ा कोई ऐसा राजनीतिज्ञ था जिसने भारत के गली कूचों में घूम-घूम कर जनता का इतना समर्थन प्राप्त किया हो, मैं निश्चित रूप से वह भाग्यशाली हूं कि समान रूप से साधारण और विश्ष्ठि लोगों ने मुझे पसंद किया तो केवल मेरी पार्टी ही नहीं, बल्कि विपक्षी दलों का भी मुझे विश्वास प्राप्त रहा, मैं इस विश्वास को टूटने नहीं देना चाहता। मैं इस पसंदीदगी को नापसंदीदगी में नहीं बदलते देखना चाहता। इसलिए यह सभी बातें आपके सामने रख रहा हूं। हम एक ऐसे लोकतांत्रिक देश हैं जहां दर्जनों धर्मों के मानने वाले सैकड़ों भाषाएं बोलने वाले एक साथ मिल कर रहते हैं, मीडिया हमारे लोकतंत्र का चैथा स्तंभ है और यह केवल कहने के लिए नहीं, उसे पूर्ण स्वतंत्रता प्राप्त है। वह जब प्रश्न करता है कि अनीता उदैया को क्यों गुप्त रूप से अमेरिका ले जाया गया? एफबीआई ने उससे क्या जानकारियां प्राप्त कीं? तो मीडिया को संतोषजनक उत्तर देना हमारी ज़िम्मेदारी होती है। हमारा मीडिया जब हमसे हेडली के प्रत्यार्पण के संबंध में बात करता है तो हमारी यह ज़िम्मेदारी होती है कि हम उनके हर प्रश्न का सटीक उत्तर दें। क्योंकि बहुत से प्रश्नों के उत्तर आपकी धरती से जुड़े हैं, आपकी न्याय व्यवस्था से जुड़े हैं, इसलिए हमें आपके सामने अत्यंत गंभीरता के साथ इन प्रश्नों को रखने का अधिकार है और हम आशा करते हैं कि आप हमें ऐसे सभी सवालों के जवाब उपलब्ध कराएं, इसलिए कि यह केवल मीडिया तथा भारतीय जनता को संतुष्ट करने के लिए ही आवश्यक नहीं हैं, अपितु आतंकवाद पर क़ाबू पाने के लिए भी आवश्यक है। हमारे लिए यह आश्चर्यजनक है कि इस प्रकार इस बदले हुए नाम और पिता के नाम के साथ डेविड कोलमैन हेडली को अमेरिकी नागरिक के रूप में पास्पोर्ट प्राप्त हुआ, उसमें कौन-कौन शामिल है, वह सब भारत में आतंकवादी हमले की साज़िश का हिस्सा हैं, इसलिए उनके अपराध को एक जाली पास्पोर्ट बनाने के अपराध के रूप में ही नहीं देखा जा सकता, बल्कि पास्पोर्ट जिस आतंकवादी प्रक्रिया को पूरा करने के उद्देश्य से बना, उसी परिदृश्य में देखना होगा। स्वीडन के कार्टूनिस्ट की हत्या का प्रयास और 1995 में पुरूलिया में गिराए गए हथियारों के अपराधी का इस समय स्वीडन में होना क्या आपस में कोई संबंध रखता है, आपके सहयोग से हमें इस प्रश्न का उत्तर चाहिए, 26/11 के आतंकवादी हमले में वानछित गतिविधियों के लिए क्षबद हाऊस (नरीमन हाऊस) और पुणे में हुए बम ब्लास्ट में क्षबद हाऊस की गतिविधियों और उनका हमारे देश में होने वाले आतंकवाद से क्या कोई संबंध है, यह जानकारी प्राप्त करने में हम आपका सहयोग चाहेंगे। आप अपनी गुप्तचर एजेंसियों के माध्यम से सच्चाई का पता लगाकर हमें सहयोंग दें। आतंकवाद के विरुद्ध जंग में हमारे लिए आपका यह व्यवहारिक सहयोग होगा। यह अंतिम तथा नम्र निवेदन है कि हम पाकिस्तान और चीन के साथ कैसे संबंध रखें, उसमें हमें उस समय तक कोई सुझाव न दिया जाए, जब तक कि हम मांग न करें। इसी प्रकार ईरान से आने वाली गैस पाइप लाइन का समझौता हमारा निजी मामला है, यह ईरान को और हमें तय करना है, इस संबंध में हम पर कोई नैतिक दबाव न डाला जाए। आप अच्छी तरह जानते हैं कि लशकर-ए-तैयबा हमारे देश में कई आतंकवादी हमलों के लिए ज़िम्मेदार है, और आप यह भी जानते हैं कि अमेरिकी गुप्तचर एजेंसी सीआईए और एफबीआई के लशकर-ए-तैयबा से कितने घनिष्ट संबंध हैं। स्वयं डेविड कोलमैन हेडली ने अमेरिकी अदालत में अपना अपराध स्वीकार करते हुए इन संबंधों को माना है। यह किस प्रकार संभव है कि आतंकवाद के विरुद्ध लड़ी जाने वाली जंग में आतंकवादी संगठनों के साथ निकट संबंध भी हों और उनके विरुद्ध जंग लड़ने का दावा भी।
मैं जानता हूं कि यह तमाम बातें कुछ कड़वी और अप्रिय हो सकती हैं, परंतु आप अमेरिका के एक ऐतिहासिक व्यक्ति हैं, आपने भी इस पद पर पहुंच कर एक नया इतिहास रचा है अगर पूरी ईमानदारी और नम्रता के साथ मेरी इन बातों पर आप विचार करेंगे तो निश्चित रूप से आप महसूस करेंगे कि आज की हमारी यह मुलाक़ात पूरी दुनिया के लिए शांति का एक संदेश होगी, और जब मैं यहां से विदा हो रहा हूंगा तो केवल भारत के प्रधानमंत्री के रूप में ही नहीं, बल्कि मेरे इस प्रयास को विश्व शांति के एक दूत के रूप में भी याद किया जाएगा, जिसका श्रेय निःसंदेह आपके सर होगा।

Thursday, April 8, 2010

امریکہ چاہتا ہے، اب ہیڈلی پر نہیں داؤد ابراہیم پر بات ہو!

عزیز برنی

اسے اپنے منھ میاں مٹھو بننے کی کوشش نہ سمجھی جائے تو آج ایک بات کہنے کو جی چاہتا ہے اور وہ یہ کہ امریکی عزائم اور ہندوستان کے تحفظ کے درمیان اگر کوئی شے آہنی دیوار کے طرح کھڑی ہے تو وہ ’’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘‘ ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں اس تاریخ ساز اردو روزنامہ کا ایڈیٹر ہوں، مگر ساتھ ہی اس بات کا احساس بھی ہے کہ کیوں میں صرف ایک اردو اخبار کا ہی ایڈیٹر ہوں، انگریزی اور دیگر علاقائی اخباروں کا بھی ایڈیٹر کیوں نہیں۔ اس لےے کہ ہمارے ملک کے خلاف سازشی ذہن رکھنے والے جب کوئی بات کہتے ہیں تو ساری دنیا کا میڈیا اسے نمایاں طور پر جگہ دیتا ہے، مگر جب ہم اس سازش کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو تنہا کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ کچھ لوگ ساتھ آتے تو ہیں، مگر جب دل یہ صدا دیتا ہے کہ بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے، بہرحال کوئی مایوسی نہیں… ممکن ہے یہ بھی مصلحتِ خداوندی ہو، جس طرح اس نے ابابیلوں کی چونچ میں دبے پتھروں کی مار سے ابرہا کے ہاتھیوں کے لشکر کو چبائے ہوئے بھوسے میں تبدیل کردیا، شاید روزنامہ راشٹریہ سہارا میں شائع مضامین کا ایک ایک لفظ ایسی ہی ابابیلوں کی چونچ میں دبے پتھروں کی مانند بن جائے اور آج جو ہم لکھ رہے ہیں، وہ آنے والے کل کی تاریخ شمار کی جائے۔
میں نے اپنی کل کی تحریر میں ہی یہ لکھ دیا تھا کہ آج مجھے امریکی تھنک ٹینک کی تازہ رپورٹ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے، جس میں انہوں نے 26نومبر008کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملے سے داؤدابراہیم کا تعلق ثابت کیا ہے۔ امریکہ جسے اپنی بے پناہ طاقت پر گمان ہے، وہ جو چاہے کہہ سکتا ہے، ثابت کرسکتا ہے، مگر سچ 7 پردوں میں بھی چھپایا جائے تو ایک روز سامنے آتا ہی ہے، یہی ہمارایقین کامل ہے۔ بس ضرورت ہے تو تلاش حق میں ایک ایسی جستجو کی جو کبھی تمام ہونے کا نام ہی نہ لے۔
ہم مسلسل لکھ رہے تھے ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے بارے میں، ایف بی آئی سے اس کے رشتوں کے بارے میں، امریکی خفیہ تنظیم سی آئی اے سے اس کے تعلق کے بارے میں، ممبئی کے راستے ہندوستان پر ہوئے دہشت گردانہ حملے میں اس کے ملوث ہونے کے بارے میں اور ثبوتوں دلیلوں کے حوالے سے واضح کررہے تھے کہ کس طرح اس نے نام اور ولدیت بدل کر ہندوستان میں اس خوفناک دہشت گردانہ حملے میں کلیدی کردار انجام دیا۔ تحقیق جس سمت میں جاری ہی تھی، ہندوستان کے مختلف شہروں میں ہوئے متعدد دہشت گردانہ حملوں میں یہ چہرہ ملوث نظر آنے لگا تھا، مگر حالات نے کچھ اس طرح کروٹ بدلی کہ امریکہ خود اپنے بنے جال میں پھنستا نظر آیا۔ دراصل روزِاوّل سے ہی 26/11کے دہشت گردانہ حملے کے بعد امریکی حکمراں مسلسل یہ کہتے چلے آرہے تھے کہ ہندوستان پر اس دہشت گردانہ حملے کی سازش پاکستان میں رچی گئی اور اس کوشش کے پیچھے چھپی منشا یہ تھی کہ جس طرح ہم نے بن لادن کے ذریعہ افغانستان میں بیٹھ کر 9/11کی سازش رچنے کے الزام میں افغانستان کو تباہ کردیا، افغانستان پر حملہ کیا، ہندوستان کو بھی اسی طرز پر 26/11کے دہشت گردانہ حملے کی سازش رچنے کے الزام میں پاکستان پر حملہ کردینا چاہےے، مگر ان کے اس ارادے کے درمیان ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کا اصل چہرہ آگیا اور جو بات پاکستان کے حوالے سے کہی جارہی تھی، اس کا رُخ خود امریکہ کی جانب مڑ گیا۔ اب اگر یہ سازش امریکی زمین پر ہندوستان کے خلاف رچی گئی، اور اس دہشت گردانہ حملے کا کلیدی مجرم اجمل امرقصاب نہیں ڈیوڈ کولمین ہیڈلی ہے، اگر اس سازش کو رچنے والی تنظیم لشکرطیبہ نہیں، ایف بی آئی یا سی آئی اے ہے تو پھر ہندوستان کا موقف کیا ہونا چاہےے؟ اگر ہم امریکی طرزانتقام کو ہی درست قرار دیں تو پھر کیا پاکستان کی بجائے اس کا رُخ امریکہ کی طرف نہیں مڑجائے گا، لہٰذا ضروری تھا کہ اب امریکہ کوئی ایسا شگوفہ چھوڑے کہ ڈیوڈکولمین ہیڈلی کا نام پس پشت چلا جائے اور جس طرح اس حملے کے فوراً بعد سب کی زبان پر دہشت گرد کی شکل میں اجمل عامر قصاب کا نام تھا اور اس دہشت گردی کے سرچشمہ کے طور پر پاکستان کا نام تھا، پھر وہی صورتحال سب کو نظر آنے لگی، لہٰذا اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کا ایک بہترین طریقہ یہی ہوسکتا تھا کہ امریکی تھنک ٹینک اپنی تحقیق کی بنیاد پر داؤد ابراہیم کا نام سامنے رکھ دے، کیونکہ آج داؤد ابراہیم کے نام کے ساتھ جوڑ کر وہ کچھ بھی کہے، کوئی دفاع کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ وہ گناہ جو اس نے کےے ہیں، وہ سب اس کے نام اور جو اس نے نہیں کےے وہ سب بھی اس کے نام، جو گناہ ہمارے دشمن کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ سب بھی اس کے نام، اب کس میں ہمت ہے کہ ان الزامات کے رد میں ایک لفظ بھی کہے، لیکن اگر داؤد کا نام لے کر ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش کی جائے، اصل مجرموں کو بچانے کی کوشش کی جائے تو پھر ہم چپ کیسے رہیں؟داؤد ابراہیم ہمارا مجرم ہے، ہمارے ملک کا مجرم ہے، ہم اس کے گناہوں کے بارے میں جانتے ہیں، ہماری خفیہ ایجنسیوں نے اس کے حوالے سے بہت سی وہ معلومات حاصل کررکھی ہیں، جن کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس وقت امریکی مدد کی ضرورت ہے، ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے بارے میں، نہ کہ داؤد ابراہیم کے بارے میں۔ بات کو گھمانے کے فن کو سمجھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ امریکہ ایک بار پھر گیند کو پاکستان کے پالے میں ڈال کر خود صاف بچ جانا چاہتا ہے۔ ہم کرلیں گے داؤد ابراہیم کے گناہوں کا حساب، ہم طے کرلیں گے کہ ہمیں پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے، لیکن 26نومبر008کو ہندوستان پر جو دہشت گردانہ حملہ ہوا، اس کا کلیدی مجرم ڈیوڈ کولمین ہیڈلی ہے، یہ اقبال جرم امریکی عدالت میں بھی محفوظ ہے، بات اس پر کیوں نہ کی جائے؟ امریکہ ہیڈلی کو ہمارے حوالے کیوں نہیں کرنا چاہتا، بات اس پر کیوں نہ کی جائے؟ ہم6/11سے جڑی ہر معلومات ہیڈلی سے حاصل کریں، امریکہ کو اس میں اعتراض کیوں ہے؟ ہیڈلی پر ہندوستان کی عدالت میں مقدمہ چلے اور اسے ہمارے قانون کے مطابق سزا دی جائے، اس میں امریکہ کو پریشانی کیا ہے؟
نہیں ملے گا ایسے کسی بھی سوال کا جواب، اس لےے کہ ہم جانتے ہیں ہر سوال کا جواب امریکہ کے اس چہرے کو بے نقاب کردے گا، جسے وہ چھپانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ داؤد ابراہیم کے حوالے سے امریکی تھنک ٹینک کی پیش کردہ اس رپورٹ پر میری گفتگو کا سلسلہ اس حوالے سے جاری رہے گا، مگر پہلے ایک نظر اس رپورٹ پرجو ’’اسٹریٹیجک اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ آف دی یو ایس آرمی وار کالج‘‘ کے ذریعہ جاری کی گئی۔
دائود نے 26/11حملے میں مالی اور ساز وسامان کی مدد کی: رپورٹ
انڈرورلڈ ڈان دائود ابراہیم کی کراچی میں واقع ڈی کمپنی نے 26/11حملے میں حتی الامکان اہم رول نبھایا تھا۔ یہ انکشاف لشکر طیبہ پر جاری وزارت دفاع کے اسٹریٹیجک اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ آف دی یو ایس آرمی وار کالج کی رپورٹ میں ہوا ہے۔
رپورٹ کے اس نئے انکشاف سے ممبئی حملوں کے معاملے میں نیا موڑ آگیا ہے۔ دہشت گردانہ کارروائی کو انجام دینے میں ڈی کمپنی کی لشکر طیبہ کے دہشت گردوں کو ساز وسامان مہیا کرانے میں مدد ہوسکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق دائود ابراہیم 1993سے پاکستان میں رہ رہا ہے۔ پاکستان میں اب اس کے پاس شاپنگ مال، عالیشان گھر اور سمندری جہاز ہیں جو ہندوستان میں ہتھیاروں او رہیروئن کی اسمگلنگ کرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈی کمپنی کے نفع کا ایک حصہ لشکر طیبہ کی مدد حاصل کرنے والے اسلامک ملی ٹینٹ گروپ کو جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ثبوت بتاتے ہیں کہ یہ تعلق 1993کے بعد میں اور 1994کی شروعات میں بنے۔ ٹائیگر میمن اور جموں و کشمیر اسلامک فرنٹ کے لیڈروں کے ساتھ اس کی تصویریں آئی ایس آئی کے مظفر آباد میں واقع پناہ گاہ سے سامنے آئیں اور یہ کشمیر میں مافیا کے پیسے کے استعمال کا پہلا ثبوت تھا۔
رپورٹ کے لکھنے والے ریان کلارک کا ماننا ہے کہ ڈی کمپنی نے سعودی عرب میں بھی اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ لشکر طیبہ ہندوستان میں دہشت گردانہ حملوں کے 60فیصد معاملوں کے لئے ذمہ دار ہے۔ لشکر طیبہ کے آئی ایس آئی اور دائود کی مدد سے دنیا کے کئی حصوں میں اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے۔
پوری دنیا میں لشکر طیبہ دہشت گردوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ جون 2003میں اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف کے امریکی دورے کے دوران بھی ایف بی آئی نے لشکر کے 7دہشت گرد امریکہ سے گرفتار کئے تھے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ تاہم اس خبر کو دبا دیا گیا تھا تاکہ صدر مشرف کو شرمندگی نہ ہو۔ واشنگٹن اور فلاڈیلفیا سے گرفتار کئے گئے دہشت گردوں پر الزام تھا کہ انہوں نے ہتھیاروں کا ذخیرہ یکجا کررکھا تھا اور کشمیر کے دہشت گردوں کی حمایت میں ہندوستان کے خلاف جہاد کی سازش کررہے تھے۔
حالانکہ لشکر طیبہ کی حمایت کرنے والوں کا دائرہ کافی وسیع ہے جو کئی براعظم تک پھیلاہے۔ ڈان دائود ابراہیم ہتھیاروں کو پہنچانے والا اہم ذریعہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق ڈی کمپنی کی لشکر طیبہ کے میدان کارروائی سے جغرافیائی نزدیکی اور کم وقت کی اطلاع پر ایک چھوٹی جنگ کے لئے ہر دم تیاری ڈی کمپنی کی قابلیت ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں منظم جرائم کرنے والے نشیلی اشیا کی تجارت میں ملوث افراد، غیر قانونی روپے کے لین دین، دہشت گردانہ کارروائی اور چھوٹے ہتھیاروں کی اسمگلنگ میں آپسی تعلق کی بنا پر ہی یہ حقائق بتائے گئے ہیں۔
تھنک ٹینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ لشکر طیبہ انٹرنیٹ پر بھی فنڈ اکٹھا کرتی ہے اور کئی شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعہ بازار کی اچھی فہم بھی رکھنے لگی ہے۔ اس کے علاوہ ایسا امکان ہے کہ یہ گروپ افغانستان سے ہیروئن کی اسمگلنگ میں ملوث ہو جس میں فائدہ کافی ہے کیونکہ لاگت کم ہے اور مقامی اور بیرونی ملکوں میں مانگ کافی ہے۔ تھنک ٹینک کے مطابق لشکر طیبہ فارس کی کھاڑی، برطانیہ میں قیام پذیر پاکستانی لوگوں، اسلامی این جی اوز اور پاکستانی/ کشمیری تاجروں اور جماعت الدعوۃ سے امداد حاصل کرتی ہے۔
سعودی، کویت شہریوں میں سے لشکر کی حمایت کرنے والوں سے بھی امداد حاصل کرتی ہے اور کئی آئی ایس آئی لیڈرس سے بھی۔ اس کے علاوہ رپورٹ بتاتی ہے کہ لشکر فلی پینس سے لے کر مشرق وسطیٰ اور چیچنیا کے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں سے جماعت الدعوۃ کے نیٹ ورک کے ذریعہ اپنا تعلق بنائے رکھتا ہے۔
حالانکہ سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف کی دہشت گرد گروپوں پر کڑی کارروائی سے قبل لشکر طیبہ مالی اداروں میں فنڈ جمع کرتا تھا اور ان میں سے روپے نکال کر کئی دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری کی جاتی تھی تاکہ ضبطی سے بچا جاسکے۔
رپورٹ کے مطابق یہ بلیک منی کئی دوسرے ذرائع اور حوالہ کے ذریعہ پاکستان سے باہر بھی جاچکی ہے۔ یا تو سیاسی ارادے کی کمی یا پھر عمل کرانے میں نااہلی کے سبب پاکستان کے دہشت گردوں کو مالی مدد حاصل کرنے سے روکنے کے لئے اٹھائے گئے قدم ناکافی ہیں۔

अमेरिका चाहता है, अब हेडली पर नहीं दाऊद इब्राहिम पर बात हो!
अज़ीज़ बर्नी

इसे अपने मुंह मियाँ मिट्ठू बनने की कोशिश न समझी जाए तो आज यह बात कहने को जी चाहता है और वह यह कि अमेरिकी इरादों और भारत की सुरक्षा के बीच अगर कोई चीज़ लोहे की दीवार की तरह खड़ी है तो वह ‘रोज़नामा राष्ट्रीय सहारा’ है। मुझे गर्व है कि मैं इस ऐतिहासिक उर्दू अख़बार का सम्पादक हूं, मगर साथ ही इस बात का एहसास भी है कि क्यों मैं केवल एक उर्दू अख़बार का ही सम्पादक हूं, अंग्रेज़ी तथा अन्य क्षेत्रीय समाचार पत्रों का भी सम्पादक क्यों नहीं। इसलिए कि हमारे देश के विरुद्ध साज़िशी दिमाग़ रखने वाले जब कोई बात कहते हैं तो सारी दुनिया का मीडिया उसे प्रमुखता के साथ जगह देता है, मगर जब हम उस साज़िश को बेनक़ाब करने का प्रयास करते हैं तो अकेले खड़े दिखाई देते हैं। धीरे-धीरे कुछ लोग साथ आते तो हैं मगर जब दिल यह कहने लगता है कि ‘बड़ी देर कर दी मेहरबां आते-आते। बहरहार कोई निराशा नहीं ह्न ह्न संभव है यह भी ख़ुदा की मर्ज़ी हो, जिस तरह उसने अबाबीलों की चोंच में दबे पत्थरों की मार से अबरहा के हाथियों के लश्कर को चबाए हुए भूसे में परिवर्तित कर दिए, शायद रोज़नामा नाष्ट्रीय सहारा में प्रकाशित लेखों का एक-एक शब्द ऐसे ही अबाबीलों की चोंच में दबे पत्थरों की तरह बन जाए और आज जो हम लिख रहे हैं वह आने वाले कल का इतिहास शुमार किया जाए।
मैंने अपने कल के लेख में ही यह लिख दिया था कि आज मुझे अमेरिकी थिंक टैंक की ताज़ा रिपोर्ट के बारे में अपने विचार व्यक्त करने हैं, जिसमें उन्होंने 26 नवम्बर 2008 को मुम्बई पर हुए आतंकवादी हमले से दाऊद इब्राहीम का संबंध सिद्ध किया है। अमेरिका जिसे अपनी अपार शक्ति पर घमंड है, वह जो चाहे कह सकता है, सिद्ध कर सकता है, मगर सच्चाई सात पर्दों में भी छुपाई जाए तो एक दिन सामने आ ही जाती है, यही हमारा अटूट विशवास है, बस ज़रूरत है तो हक़ की तलाश में एक ऐसी लगन की जो कभी पूरी होने का नाम ही न ले। हम लगातार लिख रहे थे डेविड कोलमैन हेडली के बारे में, एफबीआई से उसके संबंधों के बारे में, अमेरिकी गुप्तचर एजेंसी सीआईए से उसके संबंध के बारे में, मुम्बई के रास्ते भारत पर हुए आतंकवादी हमले में उसके लिप्त होने के बारे में और सबूतों, दलीलों के हवाले से स्पष्ट कर रहे थे कि किस प्रकार उसने अपना तथा पिता का नाम बदल कर भारत में उस भयानक आतंकवादी हमले में प्रमुख भूमिका निभाई। शोध का नतीजा जिस दिशा में जा रहा था, भारत के विभिन्न शहरों में हुए कई आतंकवादी हमलों में यह चेहरा लिप्त दिखाई देने लगा था और हालात ने कुछ इस तरह करवट बदली कि अमेरिका सव्यं अपने बुने हुए जाल में फंसता नज़र आया। दरअसल पहले दिन से ही 26/11 के आतंकवादी हमले के बाद अमेरिकी शासक लगातार यह कहते चले आ रहे थे कि भारत पर हुए उस आतंकवादी हमले की साज़िश पाकिस्तान में रची गई और उसकी कोशिश के पीछे छुपी मंशा यह थी कि जिस तरह बिन लादिन द्वारा अफ़ग़ानिस्तान में बैठ कर 9/11 का षड़यंत्र रचने के आरोप में अफ़ग़ानिस्तान को तबाह कर दिया, अफ़ग़ानिस्तान पर हमला किया, भारत को भी उसी ढंग से 26/11 के आतंकवादी हमले का षड़यंत्र रचने के आरोप में पाकिस्तान पर हमला कर देना चाहिए। परंतु उनके इस इरादे के बीच डेविड कोलमैन हेडली का असली चेहरा आ गया और जो बात पाकिस्तान के संदर्भ में कही जा रही थी उसका रुख़ स्वयं अमेरिका की ओर मुड़ गया। अब अगर यह साज़िश अमेरिकी धरती पर भारत के विरुद्ध रची गई, और इस आतंकवादी हमले का प्रमुख अपराधी अजमल आमिर क़साब नहीं डेविड कोलमैन हेडली है, अगर इस षड़यंत्र को रचने वाला संगठन लश्कर-ए-तैयबा नहीं, एफबीआई या सीआईए है, तो फिर भारत का स्टेंड क्या होना चाहिए? अगर हम अमेरिकी प्रतिशोध के तरीक़े को ही उचित क़रार दें तो फिर क्या पाकिस्तान के बजाए उसका रुख़ अमेरिका की ओर नहीं मुड़ जाएगा। इसलिए ज़रूरी था कि अब अमेरिका कोई ऐसा शगूफ़ा छोड़े कि डेविड कोलमैन हेडली का नाम पीछे चला जाए और जिस तरह इस हमले के तुरंत बाद सबकी ज़ुबान पर आतंकवादी के रूप में अजमल आमिर क़साब का नाम था और उस आतंकवादी के स्रोत के रूप में पाकिस्तान का नाम था, फिर वही स्थिति सबको दिखाई देने लगे, इसलिए इस सोच को व्यवहारिक रूप देने का एक बेहतर तरीक़ा यही हो सकता था कि अमेरिकी थिंक टैंक अपने शोध के आधार पर दाऊद इब्राहीम का नाम सामने रख दे क्योंकि आज दाऊद इब्राहीम के नाम के साथ जोड़ कर वह कुछ भी कहे कोई बचाव करने की हिम्मत नहीं करेगा। वह गुनाह जो उसने किए हैं, वह सब उसके नाम और जो उसने नहीं किए हैं वह सब भी उसके नाम, जो गुनाह हमारे दुशमन करने का इरादा रखते हैं, वह सब भी उसके नाम, अब किसमें साहस है कि इन आरोपों के रद्द में एक शब्द भी कहे। लेकिन अगर दाऊद का नाम लेकर हमें भटकानेे की कोशिश की जाए, असल अपराधियों को बचाने की कोशिश की जाए तो फिर हम चुप कैसे रहें। दाऊद इब्राहीम हमारा अपराधी है, हमारे देश का अपराधी है, हम उसके गुनाहों के बारे में जानते हैं, हमारी गुप्तचार एजंसियों ने उसके हवाले से ऐसी बहुत सी जानकारियां प्राप्त कर रखी हैं जिनकी ज़रूरत है। हमें इस समय अमेरिकी सहायता की ज़रूरत है, डेविड कोलमैन हेडली के बारे में ना कि दाऊद इब्राहीम के बारे में। बात को घुमाने की कला को समझने वाले भलीभांति जानते हैं कि अमेरिका एक बार फिर गेंद पाकिस्तान के पाले में डाल कर स्वयं साफ़ बच जाना चाहता है। हम कर लेंगे दाऊद इब्राहीम के गुनाहों का हिसाब, हम तय कर लेंगे कि हमें पाकिस्तान के साथ क्या बर्ताव करना है, लेकिन 26 नवम्बर 2008 को भारत पर जो आतंकवादी हमला हुआ, उसका प्रमुख अपराधी डेविड कोलमैन हेडली है। यह इक़बालिया अपराध अमेरिकी अदालत में भी सुरक्षित है, बात इस पर क्यों न की जाए? अमेरिका हेडली को हमारे हवाले क्यों नहीं करना चाहता, बात इस पर क्यों न की जाए? हम 26/11 से जुड़ी सभी जानकारियां हेडली से प्राप्त करें, अमेरिका को उसमें आपत्ति क्यों है? हेडली पर भारत की अदालत में मुक़दमा चले और उसे हमारे क़नून के अनुसार सज़ा दी जाए, इसमें अमेरिका को परेशानी क्या है?
नहीं मिलेगा ऐसे किसी भी प्रश्न का जवाब, इसलिए कि हम जानते हैं कि हर सवाल का जवाब अमेरिका के उस चेहरे को बेनक़ाब कर देगा जिसे वह छुपाना चहाता है। यही कारण है कि दाऊद इब्राहीम के संदर्भ में अमेरिकी थिंक टैंक द्वारा प्रस्तुत की गई यह रिपोर्ट, मेरी बातचीत का सिलसिला इस संदर्भ में जारी रहेगा। मगर पहले एक नज़र उस रिपोर्ट पर जो स्ट्राटेजिक स्टडीज़ इंस्टीट्यूट आॅफ दी यू॰एस॰ आरमी वार काॅलेज द्वारा जारी की गई।
दाऊद ने 26/11 हमले में आर्थिक और मैटोरियलिस्टिक सहायता कीः रिपोर्ट
अंडर वल्र्ड डाॅन दाऊद इब्राहीम की कराची स्थित डी॰ कंपनी ने 26/11 हमले में अतिसंभव भूमिका निभाई थी। यह ख़ुलासा लश्कर-ए-तैयबा पर जारी रक्षा मंत्रालय की रिपोर्ट में हुआ है।
रिपोर्ट के इस नए ख़ुलासे से मुम्बई हमलों के मामले में नया मोड़ आ गया है। आतंकवादी कार्यवाही को अंजाम देने में डी॰ कंपनी की लश्कर-ए-तैयबा के आतंकवादियों को सामग्री उपलब्ध कराने में सहायता हो सकती है।
रिपोर्ट के अनुसार दाऊद इब्राहीम 1993 से पाकिस्तान में रह रहा है। पाकिस्तान में अब उसके पास शाॅपिंग माॅल, आलीशान घर और समुंद्री जहाज़ हैं जो भारत में हथियारों और हीरोइन की तस्करी करते हैं। रिपोर्ट में कहा गया है कि डी॰ कंपनी के लाभ का एक अंश लश्कर-ए-तैयबा की सहायता करने वाले इस्लामिक मिलीटेंट गु्रप को जाता है।
रिपोर्ट के अनुसार प्रमाण बताते हैं कि यह संबंध 1993 के बाद और 1994 के आरंभ में बने। टाइगर मेमन तथा जम्मू व कश्मीर इस्लामिक फ्ऱट के नेताओं के साथ उसके फोटोज़ आईएसआई के मुज़फ़्फ़राबाद स्थित ठिकाने से सामने आई और यह कश्मीर में माफ़िया के पैसे के उपयोग का पहला प्रमाण था।
रिपोर्ट लिखने वाले रियान क्लार्क का मानना है कि डी कंपनी ने सऊदी अरब में भी अपना ठिकाना बना लिया है। रिपोर्ट बताती है कि लश्कर-ए-तैयबा भारत में आतंकवादी हमलों के 60प्रतिशत मामलों के लिए ज़िम्मेदार है। लश्कर-ए-तैयबा ने आईएसआई और दाऊद की सहायता से दुनिया के कई भागों में अपना ठिकाना बना लिया है।
पूरी दुनिया में लश्कर-ए-तैयबा के आतंकवादियों की गिरफ़्तारियां हुई हैं। जून 2003 मंें उस समय के पाकिस्तान के राष्ट्रपति परवेज़ मुशर्रफ़ की अमेरिका यात्रा के दौरान भी एफबीआई ने लश्कर के 7 आतंकवादी अमेरिका से गिरफ़्तार किए थे। रिपोर्ट बताती है कि फिर भी उस ख़बर को दबा दिया गया था ताकि राष्ट्रपति मुशर्रफ़ को शर्मिंदगी न हो। वाशिंगटन और फ़्लाडेलफ़िया से गिरफ़्तार किए गए आतंकवादियों पर आरोप था कि उन्होंने हथियारों का भंडार एकत्र कर रखा था और कश्मीर के आतंकवादियों के समर्थन में भारत के विरुद्ध जिहाद की साज़िश कर रहे थे।
हालांकि लश्कर-ए-तैयबा की सहायता करने वालों का कार्य क्षेत्र काफ़ी फैला हुआ है जो कई उप महाद्वीप तक फैला है। डाॅन दाऊद इब्राहीम हथियारों को पहुंचाने वाला प्रमुख माध्यम है। रिपोर्ट के अनुसार डी कंपनी की लश्कर-ए-तैयबा की मैदानी कार्यवाही से भौगोलिक निकटता और कम समय की सूचना पर एक छोटी जंग के लिए हर समय तैयारी में डी कंपनी सक्षम है। रिपोर्ट के अनुसार पाकिस्तान में संगठित अपराध करने वाले मादक पदार्थों के धंधे में लिप्त लोगों का अवैध रुपयों के लेन-देन, आतंकवाद की कार्यवाही और छोटे हथियारों की तस्करी में आपसी संबंध के आधार पर ही यह तथ्य बताए गए हैं।
थिंक टैंक ने अपनी ताज़ा रिपोर्ट में बताया है कि लश्कर-ए-तैयबा इंटरनेट पर भी फंड इकट्ठा करती है और विभिन्न विभागों में पूंजी निवेश के माध्यम से बाज़ार की अच्छी समझ भी रखने लगी है। इसके अलावा ऐसी संभावना है कि ग्रुप अफ़ग़ानिस्तान से हेरोइन की तस्करी में लिप्त हो, और इसमें लाभ काफ़ी है क्योंकि लागत कम लगती है और स्थानीय और बाहरी देशों में मांग काफी है। थिंक टैंक के अनुसार लश्कर-ए-तैयबा फारस की खाड़ी, ब्रिटेन में प्रवासी पाकिस्तानियों, इस्लामी एनजीओ और पाकिस्तानी / कशमीरी व्यापारियों तथा जमाअतुद्दावा से सहायता प्राप्त करती है।
सऊदी, क्वैत नागरिकों में लश्कर का समर्थन करने वालों से भी सहायता प्राप्त करता है और कई आईएसआई लीडरों से भी। इसके अलावा रिपोर्ट बताती है कि लश्कर फिलिपीन्स से लेकर मध्य पूर्व एशिया और चेचनिया के कट्टरपंथियों और आतंकवादियों से जमातुद्दावा के नेटवर्क के माध्यम से अपना संबंध बनाए रखता है।
हालांकि पूर्व पाकिस्तानी राष्ट्रपति परवेज़ मुशर्रफ़ की आतंकवादी ग्रुपों पर कड़ी कार्यवाही से पूर्व लश्कर-ए-तैयबा आर्थिक संस्थानों में फंड जमा करता था और उनमें से रुपए निकाल कर कई अन्य शहरों में पूंजी निवेश किया जाता था ताकि ज़ब्ती से बचा जा सके।
रिपोर्ट के अनुसार यह काला धन कई अन्य माध्यमों और हवाला के माध्यम से पाकिस्तान से बाहर भी जा चुका है। या तो राजनीतिक संस्थानों की कमी या फिर कार्यवाही कराने में अयोग्यता के कारण पाकिस्तान के आतंकवादियों को आर्थिक सहायता प्राप्त करने से रोकने के लिए उठाए गए उपाए कम हैं।

Wednesday, April 7, 2010

دہشت گردیـسماجی انصاف کے لےےـناممکن

عزیز برنی

بہت مشکل ہوتا ہے جذبات پر قابو رکھنا، اگر بات کوئی بہت غیرمعمولی ہو، پھر بھی اگر آپ اپنے احساسات کو مار کر خود پر قابو پالیں تو معمولات میں آئی تبدیلی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ کل حادثہ اتنا ہی بڑا تھا، جب ہمارے جوانوں پر نکسلوادیوں نے حملہ کیا اور اس حملہ کو جس طرح سے لیا گیا، وہ سب کچھ اتنا غیرمعمولی تھا کہ اگر آپ بہت حساس ہیں تو معمول کی زندگی جی ہی نہیں سکتے۔ کچھ وقت تو لگتا ہے آپ کو پھر معمول پر لوٹنے پر۔ وجوہات تو کچھ ذاتی بھی تھیں، مگر اس حادثہ کے بعد لکھنے اور سوچنے کا جنون اس درجہ دل و دماغ پر حاوی تھا کہ اس سے ہٹ کر کچھ بھی کرپانا ممکن ہوہی نہیں پارہا تھا۔ اس لےے چاہ کر بھی پھلکا ضلع، کٹیہار(بہار)کے انتہائی اہم پروگرام میں شرکت نہیں کرسکا۔ دہلی سے باگڈوگرا جیٹ ائیرویز کی فلائٹ 9W-2280سے جانے اوراپریل کو گوائیر کی فلائٹ8-607 سے واپسی طے تھی۔باگڈوگرا،کٹیہار سے بذریعہ کار جلسہ گاہ تک پہنچنا تھا، محترم اشتیاق صاحب حسب پروگرام ائیرپورٹ پر ریسیو کرنے کے لےے پہنچ بھی گئے تھے، یقینا انہیں بے پناہ مایوسی ہوئی ہوگی، میرے اس طے شدہ پروگرام کی تبدیلی سے۔ میں معذرت خواہ ہوں، اگر دیگر تمام باتوں کو درگزر کر پہنچ بھی جاتا تو بھی ذہنی کیفیت ایسی نہیں تھی کہ سامعین کی توقع پر پورا اترتے ہوئے موضوع کی مناسبت سے خطاب کرپاتا۔
بہرحال اب گفتگو آج کے موضوع پر۔ یہی کیا کم تھا کہ ہمارے فوجی جوانوں پر حملہ کرنے والے اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دینے والے نکسلوادیوں سے ہمدردی رکھنے والے اور برملا اپنی ہمدردیوں کا اظہار کرنے والے موجود ہیں کہ 26/11 یعنی ہندوستان پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کے حوالے سے امریکی سیکوریٹی محکمہ کے تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ کراچی میں واقع داؤد ابراہیم کی ڈی کمپنی لشکرطیبہ کو مدد دے رہی ہے، جو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہے اور ڈی کمپنی کی اس معاشی مدد سے ممبئی جیسے دہشت گردانہ حملوں کا منصوبہ بنانے میں مدد ملے گی۔ 26/11کے ساتھ داؤو ابراہیم کے نام کا امریکی تھنک ٹینک کے ذریعہ انکشاف کےے جانے پر آج نہیں مجھے کل لکھنا ہے۔ انتہائی پیچیدہ موضوع ہے یہ، اگر آپ امریکی تھنک ٹینک کی اس وضاحت پر مخالفت میں زبان کھولتے ہیں تو گویا آپ داؤدابراہیم کا بچاؤ کرتے ہیں اور داؤدابراہیم کے بچاؤ کرنے کا مطلب ہے ایک غداروطن ثابت کردےے گئے شخص کا بچاؤ کرنا اور ایسا کرکے آپ خود اپنے آپ پر وطن سے غداری کا داغ لگانے والوں کی زد میں آجاتے ہیں اور اگر آپ چپ رہیں تو امریکہ جس سمت میں اس دہشت گردانہ حملہ کو لے جانا چاہتا ہے، لے جانے دیں، وہ اپنے مقصد میں کامیاب اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں، پھر انجام چاہے جو ہو۔ ملک ان دہشت گردانہ حملوں کا شکار ہوتا رہے، کرے کوئی بھرے کوئی کی طرز پر اصل گنہگار بچتے رہیں اور جن کا یہ گناہ نہ ہو ان پر الزام دھرتے رہیں، بہرحال موضوع چاہے جتنا پیچیدہ ہو، لکھنا چاہے جتنا جوکھم بھرا اور مشکل ہو، دل و دماغ کی کیفیت چاہے کچھ بھی ہو، قلم اپنے فرض کے تقاضے کو نظرانداز نہیں کرسکتا، لہٰذا کل اس موضوع پر لکھا جائے گا اور ضرور لکھا جائے گا، ہاں مگر ایک بار پھر معذرت ان لاکھوں سامعین سے، یقینا لاکھوں جو مجھے سننے کے لےے دوردراز کے علاقوں سے کٹیہار کے اجلاس میں تشریف لائے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ میری ان مجبوریوں کا لحاظ رکھتے ہوئے کہ میں جس ذہنی فکر کے ساتھ اپنا کام عبادت کی طرح کررہا ہوں، مجھے معاف فرمائیںگے۔ شاید کہ1اپریل کو ارریہ(بہار) میں منعقد ہونے والے اجلاس میں شرکت کرکے اس کمی کو پورا کرسکوں اور یہ میرے لےے اس لےے بھی اہم ہے کہ وہ ہمارے سربراہ عالیجناب سہاراشری جی کی جائے پیدائش ہے۔
اوراب بات نکسلوادیوں پر، ان کی دہشت گردی پر۔ اردو صحافت تنگ نظر ہے، فرقہ پرست ہے، تنگ دائرے سے باہر نکل کر دیکھتی ہی نہیں، قرآن دہشت گردی کی تربیت دیتا ہے، جہاد کے تعلق سے متعدد قرآن کی آیات کو اس سلسلے میں کوٹ کیا جاتا رہا ہے، اسلام دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے، عالمی سطح پر یہ پروپیگنڈہ متواتر گزشتہ کئی برس سے کیا جاتا رہا ہے۔ اپنی اس مصروف زندگی کا بیشتر وقت صرف اور صرف لکھنے اور پڑھنے پر صرف ہوتا ہے، وہ بھی ایسے ہی موضوعات پر، جن پر اس وقت لکھ رہا ہوں میں۔ جی ہاں، ’’آزاد بھارت کے اتہاس‘‘ کے عنوان سے اس دور کی تاریخ لکھ رہاہوں۔ میں نے نہیں پڑھا کبھی کسی مضمون نگار کو القاعدہ، لشکرطیبہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کا بچاؤ کرتے ہوئے۔ بہت الزام لگے میری تحریروں پرکہ میں ایک مخصوص طبقہ کی ترجمانی کرتا ہوں، مگر کبھی نہیں لکھا میں نے کہ اگر کسی کو بیجا ستایا جائے، اس پر ظلم کیا جائے، اسے انصاف نہ دیا جائے تو وہ ہاتھ میں بندوق اٹھا لے، قتل و غارتگری پر آمادہ ہوجائے۔ نہ میں نے کبھی لکھا اور نہ کبھی پڑھا کہ دہشت گردی 6دسمبر992کو بابری مسجد کی شہادت کا بدلہ لینے کا بھی کوئی جواز ہوسکتا ہے۔ گجرات کے خونی فسادات کے متاثرین اپنے ہاتھ میں بندوق لے کر تشدد کا راستہ اپنا سکتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کشن گنج(بہار) میں منعقد ایک دہشت گردی مخالف اجلاس میں شرکت کرنے کے لےے پرائیویٹ جہاز سے ہم چند لوگ جارہے تھے، جن میں سوامی اگنی ویش، مہیش بھٹ، شہبازخان بھی شامل تھے۔ سوامی اگنی ویش جی نے گجرات فسادات میں مسلمانوں پر ہوئے ظلم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایسے میں مظالم کا شکار کچھ نوجوان انصاف نہ ملنے پر تشدد کا راستہ اپنا لیں تو… میں نے اسی وقت بیحدادب کے ساتھ ان کی بات کو روکتے ہوئے درخواست کی کہ خدارا کسی بھی شکل میں دہشت گردی یا تشدد کو حق بجانب نہ ٹھہرائےے، جو غلط ہے وہ ہر حالت میں غلط ہے۔ شریمتی مہاشویتادیوی ہندوستان کی وہ مایۂ ناز مصنفہ ہیں، جن کی ادبی حیثیت کو ہندوستان کی تاریخ فراموش نہیں کرسکتی۔ میں ان کی کسی بھی تحریر پر تنقید کروں، یہ میرے لےے مناسب نہیں ہے، مگر ہاں ان کی تحریر کے چند جملے مجھے سوچنے پر ضرور مجبور کرتے ہیں۔ جو کچھ لکھا انہوں نے نکسلوادی تحریک کے تعلق سے اس عبارت کے چند جملے میں پھر ایک بار نقل کرنے جارہا ہوں۔ مکمل مضمون کل ہی قارئین کے گوش گزار کیا جاچکا ہے، چونکہ مجھے آج اس ضمن میں کچھ کہنا ہے، اس کے لےے ان چند جملوں کو ایک بار پھر سے پوری توجہ کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔
’’نکسلزم کے جواز اور اس کے تئیں عوامی رجحانوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ لگتا ہے، 70 کی دہائی سے اس کی ضرورت آج ہے۔ گزشتہ 15-10 برسوں میں بھوکوں، غریبوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔سیاسی ، اقتصادی، مشینری پوری طرح امیروں کے حوالے ہے۔ یہ تحریک اور آگے بڑھے گی، کیونکہ موجودہ نظام میں کثیر تعداد میں لوگ حاشیے پر کھڑے ہیں اور ان کی عیادت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ حکومت بھی تسلیم کر رہی ہے کہ نکسلزم کا دائرہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور ابھی یہ ملک کے ایک تہائی سے زیادہ علاقوںمیں اپنی جڑیں جماچکا ہے، لیکن حکومت نکسلزم کو لے کر ہمیشہ اس پس و پیش میں رہی ہے کہ اسے نظم و نسق کا مسئلہ مانا جائے یا سماجی -اقتصادی مسئلہ۔پریشانی یہ ہے کہ حکومت نکسلیوں کو دبانے کی پالیسی پرچلتی رہی اور ان مسائل پر بالکل غور نہیں کیا، جن کے پس منظر میں نکسلزم کا ظہور ہوا تھا۔
نکسلزم لوگوں کے دلوں میںاس لئے جگہ بنائے ہوئے ہے، کیونکہ اس کے تحریک کاروں کا اپنا کوئی مفاد نہیں ہوتا۔ انھیں نہ تو اقتدار چاہئے اور نہ ووٹ۔ وہ نظریاتی لڑائی لڑنے والے بے لوث لوگ ہیں۔ ان میں غضب کا حوصلہ ہے۔ ان کی جاں نثار شخصیت میں مجھے اصول نظر آتا ہے۔ان کی تحریک، پرکشش اور نیک مقاصد کے لئے ہے۔ یہی سبب ہے کہ میری تحریر میں بھی یہ نمایاں طور پرموجود ہے۔ ‘‘
ہندوستان کا نظام ملک کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ہاتھ میں ہے۔ ظاہر ہے وہی عملی اعتبار سے آخری شخص ہیں، جنہیں اس ملک کے نظام کا ذمہ دار تصور کیا جاسکتا ہے۔ ان کا تعلق ایک غریب خاندان سے رہا ہے۔ شروع کے 12سال تک وہ جس گاؤں میں رہے، وہاں نہ تو بجلی تھی، نہ پانی اور نہ اسپتال تھا۔ اسکول جانے کے لےے انہیں میلوں پیدل چلنا پڑتا تھا۔ جب ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ ان کی آنکھیں کیوں کمزور ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ لالٹین کی کم روشنی میں گھنٹوں کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ابھی چند روز قبل تک ہندوستان کے صدرجمہوریہ رہے ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا تعلق ایک انتہائی غریب خاندان سے ہے۔ اس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی وزیراعلیٰ محترمہ مایاوتی ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئیں۔ سابق وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادو ایک غریب کسان خاندان سے تھے۔ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اور سابق وزیراعلیٰ لالوپرسادیادو، رابڑی دیوی، ان میں سے کوئی امیرخاندان کا نہیں ہے۔ پھر اگر ملک کی باگ ڈور کسی امیر خاندان کے فرد کے ہاتھوں میں ہو تو کیا سماجی نابرابری کا شکار لوگوں کو یہ حق حاصل ہونا چاہےے کہ بندوق ہاتھ میں اٹھالیں اور دہشت گردی کے راستے پر چل پڑے۔ کیا ہمیں دہشت گردی سے نپٹنے کے لےے دو الگ الگ پیمانے رکھنے چاہئیں؟ کیا ہمیں دہشت گردوں کو الگ الگ قسموں میں تقسیم کردینا چاہےے؟ کیا دہشت گردی کی کوئی قسم ایسی بھی ہوسکتی ہے، جسے عوامی ہمدردیاں حاصل ہوں؟ کیا ہم ہندوستان کے کسی بھی طبقے کی، جو دہشت گردی کا شکار ہیں، جنہیں کسی بھی وجہ سے انصاف نہیں ملا ہے، ان کے دہشت گرد ہونے کو حق بجانب ٹھہرا سکتے ہیں؟ ان سے ہمدردیاں رکھ سکتے ہیں؟ ابھی تک تو اپنی جان پر کھیل کر دوسروں کی جان لینے والوں کو ہم ظالم ہی مانتے رہے ہیں، انسانیت کا قاتل ہی مانتے رہے ہیں اور یہی صحیح لگتا بھی ہے، مگر کیا کوئی صورت ایسی بھی ہوسکتی ہے کہ ہم ان کی جاں بازی کی تعریف کریں۔ اگر ہم تمام دہشت گردوں کو الگ الگ خانے میں رکھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ کچھ کو قابل معافی تصور کرسکتے ہیں؟ ان کی تعریف کرسکتے ہیں کہ انہوں نے یہ قتل و غارتگری حصول اقتدار کے لےے برپا نہیں کی۔ کوئی بھی مثال دینا ذرا مشکل لگتا ہے، اس لےے کہ تنقید کرنے والوں کو یہ موقع مل جائے گا کہ فلاں دہشت گرد تنظیم یا دہشت گرد کا بچاؤ کررہے ہیں، مگر کیا نام لکھے بغیر بھی ایسے واقعات ہمارے ذہن میں نہیں ہیں، جہاں دہشت گردی کے پیچھے مقصد حصول اقتدار نہیں تھا؟ ذاتی مقاصد نہیں تھے؟، مگر کیا وہ دہشت گردی نہیں تھی، بھلے ہی وہ دہشت گرد بھی اپنے آپ کو کسی تحریک کا حصہ مانتے رہے ہوں؟ کیا ہم لمحہ بھر کے لےے بھی یہ سوچ سکتے ہیں کہ ان کی سوچ ٹھیک تھی؟ نہیں، قطعاً نہیں… وہ سب گمراہ تھے اور یہ تمام نکسلوادی بھی گمراہ ہیں۔ کس نے روکا ہے انہیں ہندوستان کی سیاست میں حصہ لینے سے؟ اپنی محنت اور قابلیت کے بل پر ہندوستان کے تمام شعبوں میں کامیابی حاصل کرکے نمایاں مقام پانے سے؟ سماجی برابری کا حق حاصل کرنے سے؟ کیا مایاوتی، ملائم سنگھ، نتیش کمار، اے پی جے عبدالکلام اور منموہن سنگھ جیسی شخصیتیں مثال نہیں ہیں کیا۔ یہ لوگ اپنے ملک اور قوم کے سر مور نہیں بنے کیا۔ انہوں نے تشدد کا راستہ اپنایا۔
یہ انتہائی شرم اور افسوس کا مقام ہے کہ سماجی و معاشی اعتبار سے دباکچلا اور پچھڑا ہونے کی بات کہہ کر اپنا حق حاصل کرنے کے نام پر تشدد برپا کیا جائے اور اسے صحیح ٹھہرانے کی کوشش بھی کی جائے۔کیا ایک بار خود سے پوچھیں گے یہ سماجی نابرابری کی جنگ کے ٹھیکیدار کہ کتنے امیروں اور سرمایہ داروں کے بچے فوج میں بھرتی ہوتے ہیں؟ یہ سی آر پی ایف کے جوان جو نکسلوادیوں کے حملے میں شہید ہوئے ان سب کے گھرخاندان کی تفصیل تو اس وقت نہیں ہے میرے پاس، مگر ذہنی شعور مجھے یہ بتاتا ہے کہ ان میں اکثریت ایسے ہی غریب خاندان کے چشم و چراغوں کی ہوگی، جو کم از کم معاشی اعتبار سے بہت خوشحال نہیں ہیں، لیکن انہوں نے معاشرے میں ایک بہتر مقام حاصل کرنے کے لےے اپنے ملک کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی۔ میں سلام کرتا ہوں، ان تمام جانبازشہیدوں کو اور مجھے نہیں لگتا کہ سماج میں ان کی برابری کرنے والے آسانی سے مل پائیں گے۔ ہم سے بہت بہتر بلکہ معاشرے کا سب سے بلند مرتبہ حاصل ہے انہیں اور ہمیشہ رہے گا۔کاش کہ یہ نکسلوادی سماجی برابری کا حق حاصل کرنے کے لےے، جن کی جان لی ہے، ان کے جیسا بننے کی کوشش کرکے ان کی راہ پر چلتے،شاید اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے۔
………………

आतंकवाद-सामाजिक न्याय के लिए-असंभव
अज़ीज़ बर्नी

बहुत कठिन होता है भावनाओं पर नियंत्रण रखना, अगर बात कोई बहुत असाधारण हो, फिर भी अगर आप अपनी भावनाओं को मार कर स्वयं पर क़ाबू पा लें तो दिनचर्या में आए परिवर्तन से प्रभावित हुए बिना नहीं रहा जा सकता। कल की घटना इतनी ही बड़ी थी, जब हमारे जवानों पर नक्सलवादियों ने हमला किया और उस हमले को जिस प्रकार से लिया गया, वह सब कुछ इतना असाधारण था कि अगर आप बहुत भावुक हैं तो सामान्य जीवन जी ही नहीं सकते। कुछ समय तो लगता ही है आपको फिर से सामान्य होने में। कारण तो कुछ निजी भी थे, मगर इस हदृय विदारक घटना के बाद लिखने और सोचने का जुनून दिल व दिमाग़ पर इतना हावी था कि उससे हटकर कुछ भी कर पाना संभव हो ही नहीं पा रहा था। इसलिए चाह कर भी फलका ज़िला कटिहार (बिहार) के अत्यंत महत्वपूर्ण कार्यक्रम में भाग नहीं ले सका। दिल्ली से बागडोगरा जेट एयरवेज़ की फ़्लाइट 9ू.2280 से जाने और 8 अप्रैल को गो-एयर की फ़्लाइट ळ8.607 से वापसी तय थी। बागडोरा से कटिहार कार द्वारा पहुंचना था, मुहतरम इश्तियाक़ साहब पूर्व निर्धारित कार्यक्रम के अनुसार एयरपोर्ट पर लेने के लिए पहुंच भी गए थे, निश्चित रूप से उन्हें बहुत निराशा हुई होगी, मेरे इस निश्चित कार्यक्रम में परिवर्तन से। मैं क्षमा चाहता हूं, यदि अन्य तमाम बातों को छोड़ कर पहुंच भी जाता तो भी मानसिक स्थिति ऐसी नहीं थी कि श्रोताओं की अपेक्षा पर पूरा उतरते हुए विषय के साथ संबोधित कर पाता।
बहरहाल अब चर्चा आज के विषय पर, यही क्या कम था कि हमारे फ़ौजी जवानों पर हमला करने वाले, उन्हें मौत के घाट उतार देने वाले नक्सलवादियों से सहानुभूति रखने वाले और खुल कर अपनी सहानुभूतियां प्रकट करने वाले मौजूद हैं कि 26/11 अर्थात भारत पर हुए आतंकवादी हमले के संदर्भ में अमेरिकी सुरक्षा विभाग के थिंक टैंक ने कहा है कि कराची स्थित दाऊद इब्राहीम की डी॰ कम्पनी लश्कर-ए-तैयबा को सहायता दे रही है, जो मुम्बई पर हुए आतंकवादी हमलों में लिप्त है और डी॰ कम्पनी की इस आर्थिक सहायता से मुम्बई जैसे आतंकवादी हमलों की योजना बनाने में सहायता मिलेगी। 26/11 के साथ दाऊद इब्राहीम के नाम का अमेरिकी थिंक टैंक द्वारा रहस्योदघाटन किए जाने पर आज नहीं मुझे कल लिखना है। अत्यंत संवेदनशील विषय है यह, अगर आप अमेरिकी थिंक टैंक के इस बयान के विरोध में ज़ुबान खोलते हैं तो गोया आप दाऊद इब्राहीम का बचाव करते हैं और दाऊद इब्राहीम का बचाव करने का मतलब है एक देश द्रोही साबित व्यक्ति का बचाव करना और ऐसा करके आप स्वयं अपने ऊपर देश द्रोही का दाग़ लगाने वालों की लपेट में आ जाते हैं और अगर आप चुप रहें तो अमेरिका जिस दिशा में उस आतंकवादी हमले को ले जाना चाहता है, ले जाने दें, वह अपने उद्देश्य में सफल हो और हम मूक दर्शक बने रहें। फिर परिणाम चाहे जो हो। देश उन आतंकवादी हमलों का शिकार होता रहे, करे कोई भरे कोई की तर्ज़ पर असल गुनहगार बचते रहें और जिनका यह गुनाह न हो उन पर आरोप धरते रहें, बहरहाल विषय चाहे जितना उलझा हुआ हो, लिखना चाहे जितना जोखिम भरा और कठिन हो, दिल व दिमाग़ की स्थिति चाहे कुछ भी होे, क़लम अपने दायित्व के निर्वाह को नज़रअंदाज़ नहीं कर सकता, इसलिए कल इस विषय पर लिखा जाएगा, मगर एक बार फिर क्षमा उन लाखों श्रोताओं से, निश्चित ही लाखों लोग जो मुझे सुनने के लिए सुदूर क्षेत्रों से कटिहार की सभा में तशरीफ़ लाए। मुझे विश्वास है कि वह मेरी इन मजबूरियों को ध्यान में रखते हुए कि मैं जिस मानसिक तल्लीनता के साथ अपना काम इबादत की तरह कर रहा हूं, मुझे माफ़ फ़रमाएंगे। शायद कि 11 अप्रैल को अररिया (बिहार) में आयोजित सभा में हिस्सा ले कर इस कमी को पूरा कर सकूं यह मेरे लिए इसलिए भी महत्वपूर्ण है कि वह हमारे संरक्षक आदरणीय सहारा श्री जी की जन्म स्थली है।
और, अब बात नक्सलवादियों पर, उनके आतंकवाद पर। उर्दू पत्रकारिता तंगनज़र है, साम्प्रदायिक है, संकीर्ण दायरे से बाहर निकलकर देखती ही नहीं, कु़रआन आतंकवाद की शिक्षा देता है, जिहाद के संबंध में विभिन्न क़ुरआनी आयतों का इस सिलसिले में सदर्भ दिया जाता रहा है, इस्लाम आतंकवाद को बढ़ावा देता है, विश्व स्तर पर यह प्रोपेगंडा लगातार पिछले कुछ वर्षों से किया जाता रहा है, अपने इस व्यस्त जीवन का अधिकांश समय केवल और केवल लिखने और पढ़ने पर ख़र्च होता है, वह भी ऐसे ही विषयों पर जिन पर मैं इस समय लिख रहा हूं। जी हां, ‘आज़ाद भारत का इतिहास’ के रूप में इस युग का इतिहास लिख रहा हूं। मैंने नहीं पढ़ा कभी किसी लेखक को, अलक़ायदा, लश्कर-ए-तैयबा जैसे आतंकवादी संगठनों का बचाव करते हुए। बहुत आरोप लगे मेरे लेखों पर कि मैं एक विशेष समुदाय का प्रतिनिधित्व करता हूं, मगर कभी नहीं लिखा मैंने कि किसी को ग़लत सताया जाए, उस पर अत्याचार किया जाए, उसे न्याय से वंचित रखा जाए तो वह हाथ में बंदूक़ उठा ले, हत्या और खून खराबे पर उतारू हो जाए। न मैंने कभी लिखा और न कभी पढ़ा कि आतंकवाद 6 दिसंबर 1992 को बाबरी मस्जिद की शहादत का बदला लेने की कोई प्रासंगिकता हो सकती है। गुजरात के दंगों के पीड़ित अपने हाथ में बंदूक़ लेकर हिंसा का रास्ता अपना सकते हैं। मुझे अच्छी तरह याद है कि किशन गंज (बिहार) में आयोजित एक आतंकवाद विरोधी जलसे में भाग लेने के लिए निजी विमान से हम कुछ लोग जा रहे थे, जिनमें स्वामी अग्निवेश, महेश भट्ट, शहबाज़ ख़ान भी शामिल थे। स्वामी अग्निवेश जी ने गुजरात दंगों में मुसलमानों पर हुए अत्याचारों का उल्लेख करते हुए कहा कि अगर ऐसे अत्याचारों से पीड़ित कुछ युवक न्याय न मिलने पर हिंसा का रास्ता अपना लें तो ह्न ह्न मैंने उसी समय अत्यंत आदर के साथ उनकी बात को रोकते हुए उनसे यह निवेदन किया कि ख़ुदा के वास्ते किसी भी रूप में आतंकवाद या हिंसा को उचित न ठहराइये, जो ग़लत है वह हर हालत में ग़लत है। श्रीमती महाश्वेता देवी भारत की विशिष्ट लेखिका हैं, जिनके साहित्यक व्यक्तित्व को भारत का इतिहास भुला नहीं सकता। मैं उनके किसी भी लेख पर टिप्पणी करूं, यह मेरे लिए उचित नहीं है, मगर हां उनके लेख के कुछ वाक्य मुझे सोचने पर विवश ज़रूर करते हैं। जो कुछ लिखा उन्होंने नक्सलवादी आंदोलन के संबंध में, उस लेख के कुछ वाक्य फिर मैं एक बार प्रस्तुत करने जा रहा हूं। लेख कल ही पाठकों की सेवा में पेश किया जा चुका है, चूंकि मुझे आज इस संबंध में जो कुछ कहना है अतएव कुछ वाक्यों को एक बार फिर से पूरे ध्यान के साथ पढ़ना ज़रूरी है।
‘‘नक्सलवाद की प्रासंगिकता और इसके जन रूझानों मंे कोई कमी नहीं आई है। लगता है, 70 के दशक से कहीं अधिक इसकी ज़रूरत आज है। विगत 10-15 सालों मंे भूखों, गरीबों की संख्या मंे लगातार इज़ाफा हुआ है। राजनीतिक-आर्थिक तंत्र पूरी तरह अमीरों के हवाले हैं। यह आंदोलन और आगे बढ़ेगा, क्योंकि वर्तमान व्यवस्था मंे बहुसंख्यक लोग हाशिये पर खड़े हैं और उनका तीमारदार कोई नहीं है। सरकार भी मान रही है कि नक्सलवाद का प्रसार लगातार बढ़ रहा है और अभी यह देश के एक तिहाई से अधिक क्षेत्रों मंे अपनी जड़ें जमा चुका है, लेकिन सरकार नक्सलवाद को लेकर दुविधा पालती रही है कि इसे कानून-व्यवस्था की समस्या माना जाए या सामाजिक-आर्थिक समस्या। समस्या यह है कि सरकार न्क्सलियों के दमन की नीति पर चलती रही और उन समस्याओं पर बिल्कुल गौर नहीं किया, जिनके कारण नक्सलवाद का उदय हुआ था।
नक्सलवाद लोगों के दिलों मंे इसलिए जगह बनाए हुए है, क्योंकि इसके आंदोलन कर्मियों का अपना कोई हित नहीं होता। उन्हें न तो सत्ता चाहिए और न वोट। वे वैचारिक लड़ाई लड़ने वाले आत्म-त्यागी लोग हैं। उनमें ग़ज़ब का साहस है। उनके बलिदानी व्यक्तित्व मंे मुझे आदर्श नज़र आता है। उनका आंदोलन ईमानदार, आकर्षक व अच्छे उद्देश्यों के लिए है। यही कारण है कि मेरी लेखनी मंे भी यह प्रमुखता से मौजूद है।’’
भारत सरकार की व्यवस्था देश के प्रधानमंत्री डा॰ मनमोहन सिंह के हाथ में है। स्पष्ट है वही व्यवहारिक रूप से अंतिम व्यक्ति हैं, जिन्हें इस देश की व्यवस्था का ज़िम्मेदार समझा जा सकता है। उनका संबंध एक ग़रीब परिवार से रहा है। शुरू के बारह वर्ष तक वह जिस गांव में रहे, वहां न तो बिजली थी, न पानी और न अस्पताल था। स्कूल जाने के लिए उन्हें मीलों पैदल चलना पड़ता था। जब एक बार उनसे पूछा गया कि उनकी आंखें क्यों कमज़ोर हैं, तो उन्होंने जवाब दिया कि वह लालटेन की कम रोशनी में घंटों पुस्तकें पढ़ा करते थे। अभी कुछ दिन पहले तक भारत के राष्ट्रपति रह चुके डा॰ ए॰पी॰जे॰ अब्दुल कलाम का संबंध एक अत्यंत ग़्ारीब परिवार से है। इस समय भारत के सबसे बड़े राज्य उत्तर प्रदेश की मुख्यमंत्री सुश्री मायावती एक ग़्ारीब परिवार में पैदा हुईं। पूर्व मुख्यमंत्री मुलायम सिंह यादव एक ग़्ारीब किसान परिवार से थे, बिहार के मुख्यमंत्री नितीश कुमार तथा पूर्व मुख्यमंत्री लालू प्रसाद यादव, राबड़ी देवी, इनमें से कोई अमीर परिवार का नहीं है। फिर अगर देश की बागडोर किसी अमीर परिवार के व्यक्ति के हाथों में हो तो क्या सामाजिक असमानता के शिकार लोगों को यह अधिकार प्राप्त होना चाहिए कि बंदूक़ हाथ में उठाएं और आतंकवाद के रास्ते पर चल पड़े। क्या हमें आतंकवाद से निमटने के लिए दो अलग-अलग मानक रखने चाहिएं? क्या हमें आतंकवादियों को अलग-अलग प्रकार से बांट देना चाहिए? क्या आतंकवाद का कोई प्रकार ऐसा भी हो सकता है, जिसे जन सहानुभूतियां प्राप्त हों? क्या हम भारत के किसी भी समुदाय के, जो आतंकवाद का शिकार हैं, जिन्हें किसी भी कारण से न्याय नहीं मिला है, उनके आतंकवादी होने को उचित ठहरा सकते हैं? उनसे सहानुभूतियां रख सकते हैं, अभी तक तो अपनी जान पर खेलकर दूसरों की जान लेने वालों को हम ज़ालिम ही मानते रहे हैं, मानवता का हत्यारा ही मानते रहे हैं और यही सही भी लगता है, परंतु क्या केई सूरत ऐसी भी हो सकती है कि हम उनकी बहादुरी की प्रशंसा करें। अगर हम सभी आतंकवादियों को अलग अलग ख़ाने में रखकर देख सकते हैं, कुछ को क्षमा योग्य समझ सकते हैं? उनकी प्रशंसा कर सकते हैं कि उन्होंने यह हत्याऐं सत्ता के लिए नहीं की। कोई भी उदाहरण देना ज़रा मुश्किल लगता है, इसलिए कि आलोचकों को यह अवसर मिल जाएगा कि अमुक आतंकवादी संगठन या आतंकवादी का बचाव कर रहे हैं, मगर कया नाम लिखे बिना भी ऐसी घटनाएं हमारे दिमाग़ में नहीं हैं, जहां आतंकवाद के पीछे स्वार्थ सत्ता प्राप्ति नहीं था? निजी उद्देश्य नहीं थे? मगर क्या वह आतंकवाद नहीं था, भले ही वह आतंकवादी भी अपने आपको किसी आंदोलन का अंग मानते रहे हों। क्या हम क्षण भर के लिए यह सोच सकते हैं कि उनकी सोच ठीक थी? नहीं, बिल्कुल नहीं ह्न वह सब भटके हुए थे और सभी नक्सलवादी भी भटके हुए हैं। किस ने रोका है उन्हें भारत की राजनीति में भाग लेने से? अपने श्रम तथा योग्यता के बल पर भारत के सभी विभागों में सफलता प्राप्त कर विशेष स्थान पाने से? सामाजिक बराबरी का अधिकार प्राप्त करने से? क्या मायावती, मुलायम सिंह, नितीश कुमार, एपीजे अब्दुल कलाम और मनमोहन सिंह जैसे व्यक्ति, उदाहरण नहीं हैं क्या यह लोग? अपने देश और समाज के सिरमोर नहीं बने, क्या उन्होंने हिंसा का मार्ग अपनाया।
यह बहुत ही शर्म और अफ़सोस का मुक़ाम है कि सामाजिक और आर्थिक रूप से दबा कुचला और पिछड़ा हुआ होने की बात कहकर अपना अधिकार प्राप्त करने के नाम पर ंिहंसा की जाए और उसे सही ठहराने का प्रयास भी किया जाए। क्या एक बार स्वयं से पूछेंगे यह सामाजिक असमानता की जंग के ठेकेदार कि कितने अमीरों और पूंजीपतियों के बच्चे सेना में भर्ती होते हैं? यह सीआरपीएफ के जवान जो नक्सलवादियों के हमलों में शहीद हुए उन सब के घर परिवार का विवरण तो इस समय नहीं है मेरे पास, मगर मानसिक चेतना मुझे यह अहसास दिलाती है कि उनमें अधिकांश ऐसे ही ग़्ारीब परिवारों के चिराग़ रहे होंगे जो कम से कम आर्थिक रूप से बहुत उन्नत नहीं हैं, परन्तु उन्होंने समाज में एक अच्छा मक़ाम प्राप्त करने के लिए अपने देश की सुरक्षा की ज़िम्मेदारी स्वीकार की। मैं सलाम करता हूं उन तमाम जांबाज़ शहीदों को और मुझे नहीं लगता कि समाज में उनकी बराबरी करने वाले आसानी से मिल पाएंगे। हम से बहुत अच्छा बल्कि समाज में सबसे ऊंचा रुतबा हासिल है उन्हें और हमेशा रहेगा। काश कि इन नक्सलवादियों ने सामाजिक समानता का अधिकार प्राप्त करने के लिए जिनकी जान ली है, उनके जैसा बनने का प्रयास करके उनकी राह पर चलते, शायद अपने उद्देश्य में सफ़ल हो जाते।
......................................

Tuesday, April 6, 2010

यह कोई आन्दोलन है या सिर्फ और सिर्फ आतंकवाद
अज़ीज़ बर्नी

’ नक्सलवादियों को हम आतंकवादी मानें या जिहादी, आज यह भी तय करने की आवश्यकता है, इसलिए कि जितना बड़ा आतंकवादी हमला नक्सलियों ने आज भारत की सेना पर किया, अगर किसी दुश्मन देश के हमले में भी हमारे इतने फौजी जवान मारे गए होते तो हम उस देश को तहस-नहस करने या कम से कम मुंह तोड़ जवाब देने का प्रण ज़रूर कर लेते, लेकिन यह कोई दुश्मन देश नहीं, हमारे अपने ही देश के एक ऐसे संगठन के कार्यकर्ताओं का हमला था, जिनसे सहानुभूतियां भी प्रकट की जाती रही है और सहानुभूति का आधार है कि सामाजिक असमानता के शिकार लोग माओवादी बन गए और उन्होंने उन लोगों को निशाना बनाना शुरू कर दिया, जिन्हें वह उस सामाजिक असमानता के लिए जि़्ाम्मेदार मानते हैं। क्या यही एक तरीक़ा है? बराबरी का दर्जा प्राप्त करने के लिए क्या ऐसे लोगों को सहानुभूति प्राप्त होनी चाहिए? क्या ऐसे लोगों को किसी भी अधार पर सही सिद्ध करने का प्रयास किया जाना चाहिए? आज हमें इस विषय पर गंभीरता से विचार करना होगा।

दलित भारत का वह समुदाय था, जिसे सबसे लम्बी अवधि तक समाजिक असमानता के बदतरीन दौर से गुज़रना पड़ा। क्या उसने वह तरीक़ा अपनाया जो आज नक्सलवादी अपना रहे हैं? क्या दलित आज समानता का दर्जा प्राप्त करने में कामयाब नहीं हैं? विभिन्न पिछड़े समुदायों को सामाजिक असमानता का शिकार होना पड़ा, क्या उन्होंने समाज में अपने अधिकार प्राप्त करने के लिए यही रास्ता अपनाया?

मेरी आदत है कुछ भी लिखने से पूर्व उस विषय से संबंधित सामग्री का भरपूर अध्ययन करना, यही मैंने आज भी किया। समय कम था और दुर्घटना बहुत बड़ी थी। देर तक तो मेरी नज़र उस अफ़सोसनाक त्रासदी से संबंधित समाचारों पर ही रही। फिर यह जानने और समझने के लिए कि आख़िर यह नक्सलवाद क्या है? कब आरंभ हुआ? क्यों आरंभ हुआ? और अन्य ज़िम्मेदार लोगों के इस पर विचार क्या हैं? फिर जब मैंने इन सब विषयों पर पढ़ना शुरू किया तो पता चला कि नक्सलवाद का आरंभ 1967 में हुआ था, जब मश्चिमी बंगाल के नक्सलबाड़ी गांव में यह आंदोलन स्थानीय ज़मीनदारों के विरुद्ध सशस्त्र किसानों और मज़दूरों का शोषण और समाजिक असमानता के विरुद्ध एक आन्दोलन के नाम पर शुरू किया गया। ’ चारू मजुमदार के नेतृत्व में शुरू हुए इस पहले नक्सलवादी आंदोलन को दो महीने के भीतर ही नाकाम बना दिया गया। और ‘नक्सलवाद’ शब्द का प्रयोग इसलिए हुआ कि नक्सलबाड़ी नामक गांव से इसकी शुरूआत हुई थी। आरंभ में यह आंदोलन तीन उद्देश्यों को सामने रख कर शुरू किया गया था। 1. खेत जोतने वाले किसानों को खेत का स्वामित्व प्राप्त हो, 2. विदेशी पूंजी की शक्ति को समाप्त किया जाए और 3. जात पात और वर्ग व्यवस्था के विरुद्ध संघर्ष किया जाए। इस आंदोलन की शुरूआत के बाद माओवादी विचारधाराओं में विश्वास रखने वाले विभिन्न संस्थानों ने कई राज्यों में इसकी नींव डाली। आंध्र प्रदेश में कोंडा पल्ली सीता रमतैया के नेतृत्व में ‘‘पीपुल्सवार ग्रुप’’ गठित किया गया तो पश्चिमी बंगाल में कन्हाई चटर्जी ने ‘‘माओवादी कम्युनिस्ट सेंटर’’ की बुनियाद रखी। उस समय यह आंदोलन केवल चार राज्यों तक सीमित था, परंतु आज देश के 16 राज्यों के 195 ज़िले इससे प्रभावित हैं। नक्सलवाद से प्रभावित तमाम ज़िलों में उनका समानांनतर शासन चलता है। पिछले आठ वर्षों में 5 हज़ार से अधिक लोग मारे जा चुके हैं। वर्तमान घटना जिसमें ताज़ा सूचनाओं के अनुसार 83 जवान शहीद हो चुके हैं और बहुत से घायल हैं, अब तक का सबसे बड़ा नक्सली हमला है। इस हमले के संबंध में और इस तहरीक से संबंधित कहने तथा लिखने के लिए अभी बहुत कुछ बाक़ी है। परंतु इस समय मेरे सामने दो गंभीर तथा प्रतिष्ठित लेखकों के लेख हैं, जिनमें एक 7 अगस्त 2008 को प्रकाशित श्रीमति महाश्वेता देवी का लेख ‘जीवित रहेगा नक्सलवाद’ और दूसरा मुद्रा राक्षस जी का लेख जिसका शीर्षक है ‘असमय: नक्सलवाद में उनकी क्या सज़ा’।

मैं चाहता हूं कि यह दोनों लेख हमारे पाठकों की नज़रों से गुज़रें, इसलिए कि जब मैं आज के बाद इस विषय पर लिख रहा हूं तो बहुत कुछ वह बातें भी मेरे सामने हों, जो अब तक इस नक्सलवाद को लेकर कही जाती रही हैं, उसके बाद बात होगी कि अब उस पर क़ाबू पाने के लिए क्या तरीक़ा अपनाया जाए, जिनकी भी सहानुभूतियां किसी न किसी रूप में उनको प्राप्त थीं या हैं क्या रहनी चाहिए थीं? क्या उनकी इस आतंकवादी प्रक्रिया को ‘जिहाद’ या ‘आंदोलन’ का नाम दिया जा सकता है।

जीवित रहेगा नक्सलवाद

नक्सलवाद की प्रासंगिकता और इसके जन रूझानों मंे कोई कमी नहीं आई है। लगता है, 70 के दशक से कहीं अधिक इसकी ज़रूरत आज है। विगत 10-15 सालों मंे भूखो, गरीबों की संख्या मंे लगातार इज़ाफा हुआ है। रराजनीतिक-आर्थिक तंत्र पूरी तरह अमीरों के हवाले हैं। यह आंदोलन और आगे बढ़ेगा, क्योंकि वर्तमान व्यवस्था मंे बहुसंख्यक लोग हाशिये पर खड़े हैं और उनका तीमारदार कोई नहीं है। सरकार भी मान रही है कि नक्सलवाद का प्रसार लगातार बढ़ रहा है और अभी यह देश के एक तिहाई से अधिक क्षेत्रों मंे अपनी जड़ें जमा चुका है, लेकिन सरकार नक्सलवाद को लेकर दुविधा पालती रही है कि इसे कानून-व्यवस्था की समस्या माना जाए या सामाजिक-आर्थिक समस्या। समस्या यह है कि सरकार न्क्सलियों के दमन की नीति पर चलती रही और उन समस्याओं पर बिल्कुल गौर नहीं किया, जिनके आलोक मंे नक्सलवाद का उदय हुआ था।

नक्सलवाद लोगों के दिलों मंे इसलिए जगह बनाए हुए है, क्योंकि इसके आंदोलनकर्मियों का अपना कोई हित नहीं होता। उन्हें न तो सत्ता चाहिए और न वोट। वे वैचारिक लड़ाई लड़ने वाले आत्म-त्यागी लोग हैं। उनमें ग़ज़ब का साहस है। उनके बलिदानी व्यक्तित्व मंे मुझे आदर्श नज़र आता है। उनका आंदोलन ईमानदार, आकर्षक व अच्छे उद्देश्यों के लिए है। यही कारण है कि मेरी लेखनी मंे भी यह प्रमुखता से मौजूद है। फिर आपको यह समझना होगा कि उल्फा, बोडो, एनएससीएन की तरह यह कोई पृथकतावादी संगठन नहीं हैं। फिर नक्सली संगठनों को स्थानीय स्तर पर समर्थन भी पृथकतावादी संगठन से काफी अधिक प्राप्त हैं। नक्सलवाद की जडें़ इसलिए भी मौजूद हैं कि नक्सली संगठनों ने बिलकुल निचले स्तर से अपनी जड़ें जमानी शुरू की। जैसे छत्तीसगढ़ मंे सबसे पहले आदिवासियों को बिचैलियों और तेंदू पत्ता के ठेकेदारों के खिलाफ एकजुट किया गया। ज़मीनी स्तर पर यह आंदोलन शुरू हुआ, इसलिए सरकार के लिए आज यह एक बडी़ चुनौति बन गई है। राज्य व्यवस्था के अपराधिकरण और पंगु होने का नतीजा ही है कि नक्सलवाद का प्रसार तेज़ी से हो रहा है।

जिन मुद्दों पर यह आंदोलन शुरू हुआ था, वे आज भी मौजूद हैं इसलिए कोई कारण नहीं कि इस आंदोलन की जड़ें कमज़ोर हो जाएं। आज देश मंे 56 नक्सल गुट मौजूद हैं और इनके प्रभाव मंे देश की एक-तिहाई भुमि है। मैं समझती हंू कि इसके अधिकार क्षेत्र मंे और बढ़ोत्तरी होगी, क्योंकि समाज से असंतोष और विक्षोभ का नाश नहीं हुआ है। लाखों लाग भूखे, पीड़ित, शोषित और अपने मौलिक अधिकारों से भी वंचित हैं, ऐसे मंे नक्सलवाद का खात्मा कैसे होगा? अर्थव्यवस्था का जब तक असंतुलित विकास होगा, दबे-कुचले लोग व्यवस्था के प्रतिरोध मंे हथियार उठाएंगे ही। यह स्थिति सर्वकालिक व सर्वदेशीय होगी।

....................................

असमयः नक्सलवाद में इनकी क्या सज़ा!

अख़बार और टीवी माध्यम नक्सलवादी अभियानों की आलोचना करते वक्त अक्सर यह आरोप लगाते हैं कि नक्सलवादी अपने प्रभाव क्षेत्र में अवैध वसूली करते हैं, ठीक माफिया की तर्ज़ पर। सामान्यतः कम्युनिस्ट पार्टी अपने सदस्यों से लेवी लेती है और इसी लेवी के आधार पर पार्टी का काम चलता है, पूर्णकालिक सदस्यों को वतन आदि मिलता है। जब कभी समाचार जगत में आमजन से अवैध वसूली की चर्चा हुई, हमने यही कहा कि नियमित लेवी को ग़लत समझा जा रहा है, लेकिन पिछले हफ्ते एक ऐसे संगठन से अवैध वसूली की ख़बर मिली, जिससे मेरा निकट संबंध रहा है। उनके द्वारा गठित दलित फ्रीडम नेटवर्क ने अन्तरराष्ट्रीय स्तर पर दलितों के लिए आवाज़ उठायी और 2002 के गुजरात नरसंहार जैसी साम्प्रदायिक घटनाओं पर विश्वमत तैयार करने में बड़ी भूमिका अदा की। इस संगठन से जुड़े नेताओं ने भारत में दलितों और जनजातीय बच्चों के लिए बहुत परिश्रम से स्कूल खोले हैं। ऐसे कुछ स्कूल झारखंड में भी हैं। यह गहरे आघात का विषय था जब झारखंड के इसी क्षेत्र के एक स्कूल चलाने वाले संगठन के नेता ने बताया कि उनके स्कूलों से नक्सलवाद संगठन बड़ी रक़म वसूल रहा है और रक़म न मिलने पर स्कूल जला देने की धमकी दी जा रही है। यह वही इलाक़ा है जहां कभी भोजपुर को वियतनाम बनाने का प्रण लेकर जगदीश महतो, रामेश्वर अहीर जैसे लोगों ने हालात बदलने के लिए वसूली नहीं, अपने प्राण दिये थे। पिछली सदी के पूर्वार्घ में तेलंगाना और साठ के दशक में नक्सलबाड़ी में जो जनसंघर्ष हुए और जिन्होंने देश की युवा पीढ़ी पर गहरा प्रभाव डाला था, यह अवैध वसूली के कारण नहीं, बल्कि एक आदर्श के लिए अपनी जान की क़ीमत पर किया गया जनसंघर्ष था। डीवी राव से लेकर चारू मजूमदार और कनु सान्याल तक और फिर माओइस्ट कम्युनिस्ट सेंटर या पीपुल्स वार ग्रुप जैसे संगठनों से हम जैसे लोग चाहे जितना वैचारिक मतभेद महसूस करें लेकिन उन पर छिछोरे गुंडों वाली अवैध वूसली के आरोप कभी नहीं लगे। पिछले साल जब नक्सलवाद पर प्रतिबंध का निर्णय लिया गया तो इस क़दम का तीखा विरोध खुद भारत की उस कम्युनिस्ट पार्टी ने किया, जिसका सबसे कटु विरोध करने के लिए ही नक्सलबाड़ी आन्दोलन गठित हुआ था। ज़ाहिर है कि नक्सलवाद के ऊपर प्रतिबंध का विरोध करने वाली भारत की कम्युनिस्ट पार्टी (माक्र्सवादी) भी यह कल्पना नहीं कर सकती थी कि नक्सलवाद अवैध वसूली करने वालों का संगठन है। माक्र्सवादी पार्टी ने भी कभी यह आरोप नहीं लगाया। कई नक्सलवादी संगठनों के बीच एका हुआ और नई नक्सलवादी पार्टियां वजूद में आयीं। उनके नये दस्तावेज़ बहुत हद तक भगत सिंह के विचारों की याद दिलाते हैं यानी उनकी प्राथमिक क्रियाशीलता बुलेट से शुरू होकर बुलेट पर ही समाप्त होने की नहीं है। उनकी सक्रियता में समूचे वंचित समाज के बीच जनचेतना के बीज बोना है। हालांकि अनेक गुटों में बंटे इस आन्दोलन का अपना एक बड़ा रोग भी है। एक ही उद्देश्य के बावजूद एक-दूसरे से गहरी नफरत। यह गुटीय नफरत उनके दस्तावेज़ों में बहुत खुलकर सामने आयी है। इस आपसी नफ़रत को देखकर थोड़ी हैरानी होती है। ज़्यादा नफरत कुछ इसलिए भी प्रदर्शित होती है कि हर गुट का सिद्धांतकार अपने को दूसरों से कहीं ज़्यादा बुद्धिमान मानता है और बुद्धिमानी की सीमा तो यह होती है कि वह दूसरे सहधर्मी से बहस की कोई गुंजाइश नहीं छोड़ता। बहस की कोई गुंजाइश न छोड़ने का ही एक नतीजा यह भी होता है कि आन्दोलन गुट दर गुट बंटता और बिखरता जाता है। एक और बड़ी कमज़ोरी है जो शायद सारे कम्युनिस्ट आन्दोलन के साथ जुड़ी देखी जा सकती है, खासतौर से भारत में। उसकी यह धारणा सही है कि जनसंघर्ष के साथ ही आमजन की जागरूकता का प्रयास ज़रूरी है पर यह काम सिर्फ इस तरह संभव नहीं है कि आन्दोलन की वैचारिकी उनके बीच पहुंचाई जाए। भारत के समाज में जातीय उत्पीड़न और स्त्री की सांस्कृतिक ग़ैर-बराबरी के अलावा साम्प्रदायिक आग लगाने वालों के विरूद्ध मुखर अभियान भी ज़रूरी है। चर्च जलाए जाएं, मस्जिदें ध्वस्त की जाएं, गुजरात नरसंहार हो या उत्तरप्रदेश को गुजरात बनाने की कोशिश- इनका तीखा विरोध नक्सलवाद करता है, आमजन को यह विश्वास भी तो होना चाहिए और इससे आगे बढ़कर आमजन तक यह संदेश भी पहुंचना चाहिए कि नक्सलवाद जनजातीय और दलित बच्चों के लिए लम्बे अरसे से काम करने वाले मिशनरी स्कूलों से अवैध वसूली का विरोध करता है और इसे दंडनीय अपराध मानता है। वरना यह दाग़ समूचे नक्सलवाद का कभी न छूटने वाला दाग़ बन जाएगा।

یہ کوئی تحریک ہے یا صرف اور صرف دہشت گردی

عزیز برنی

نکسلوادیوں کو ہم دہشت گرد مانیں یا جہادی، آج یہ بھی طے کرنے کی ضرورت ہے، اس لےے کہ جتنا بڑا دہشت گردانہ حملہ نکسلوادیوں نے آج ہندوستان کی فوج پر کیا، اگر کسی دشمن ملک کے حملے میں بھی ہمارے اتنے فوجی جوان مارے گئے ہوتے تو ہم اس ملک کو تہس نہس کرنے یا کم از کم منھ توڑ جواب دینے کا تہیہ ضرور کرلیتے، لیکن یہ کوئی دشمن ملک نہیں، ہمارے اپنے ہی ملک کے ایک ایسی تنظیم کے کارکنان کا حملہ تھا، جن سے ہمدردیاں بھی ظاہر کی جاتی رہی ہیں اور اس ہمدردی کی بنیاد ہے کہ سماجی نابرابری کا شکار لوگ ماؤوادی بن گئے اور انہوں نے ان لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا، جنہیں وہ اس سماجی نابرابری کے لےے ذمہ دار مانتے ہیں۔ کیا یہی ایک طریقہ ہے؟ برابری کا درجہ حاصل کرنے کے لےے کیا ایسے لوگوں کو ہمدردیاں حاصل ہونی چاہئیں؟ کیا ایسے لوگوں کو کسی بھی بنیاد پر صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی جانی چاہےے؟ آج ہمیں اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
دلت ہندوستان کا وہ طبقہ تھا، جسے سب سے لمبے عرصے تک سماجی نابرابری کے بدترین دور سے گزرنا پڑا۔ کیا اس نے وہ طریقہ اپنایا، جو آج نکسلوادی اپنا رہے ہیں؟ کیا دلت آج برابری کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہیں؟ متعدد پسماندہ طبقات کو سماجی نابرابری کا شکار ہونا پڑا، کیا انہوں نے معاشرے میں اپنا حق حاصل کرنے کے لےے یہی راستہ اپنایا؟
میری عادت ہے کچھ بھی لکھنے سے قبل اس موضوع سے متعلق مواد کا بھرپور مطالعہ کرنا۔ یہی میں نے آج بھی کیا، وقت کم تھا اور حادثہ بہت بڑا تھا، لہٰذا دیر تک تو میری نظر اس افسوسناک سانحہ سے متعلق خبروں پر ہی رہی۔ پھر یہ جاننے اور سمجھنے کے لےے کہ آخر یہ نکسلواد کیا ہے؟ کب شروع ہوا، کیوں شروع ہوا اور دیگر زمیندار لوگوں کی اس پر رائے کیا ہے؟ پھر جب میں نے ان سب موضوعات پر پڑھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ نکسلواد کی شروعات 1967میں ہوئی تھی، جب مغربی بنگال کے نکسلماڑی گاؤں میں یہ تحریک مقامی زمینداروں کے خلاف مسلح کسانوں اور مزدوروں کا استحصال اور سماجی نابرابری کی مخالفت کی ایک تحریک کے نام پر شروع کی گئی۔چارومجمدار کی قیادت میں جاری ہوئی اس پہلی نکسلوادی تحریک کو دو مہینے کے اندر ہی ناکام بنادیا گیا اور ’نکسلواد‘ لفظ کا استعمال اس لےے ہوا کہ نکسلباڑی نام کے گاؤں سے اس کی شروعات ہوئی تھی۔ابتدا میں یہ تحریک تین مقاصد کو سامنے رکھ کر شروع کی گئی تھی۔ -1 کھیت جوتنے والے کسانوں کو کھیت کا مالکانہ حق حاصل ہو، -2غیرملکی سرماےے کی اجارہ داری اور طاقت کو ختم کیا جائے اور3 ذات پات اور طبقات کے نظام کے خلاف جدوجہد کی جائے۔ اس تحریک کی شروعات کے بعد ماؤوادی نظریات میں یقین رکھنے والے متعدد اداروں نے کئی ریاستوں میں اس کی داغ بیل ڈالی۔ آندھراپردیش میں کونڈاپلّی سیتار مئیا کی قیادت میں ’’پیپلزوار گروپ‘‘ قائم کیا گیا تو مغربی بنگال میں کنہائی چٹرجی نے ’’ماؤوادی کمیونسٹ سینٹر‘‘کی بنیاد رکھی۔ اس وقت یہ تحریک محض چار ریاستوں تک محدود تھی، مگر آج ملک کی 16ریاستوں کے95اضلاع اس سے متاثر ہیں۔ نکسلواد سے متاثر تمام اضلاع میں ان کی متوازی حکومت چلتی ہے۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں پانچ ہزار سے زائد لوگوں کی جانیں جاچکی ہیں۔ حالیہ واقعہ جس میں تازہ اطلاعات کے مطابق 83جوان شہید ہوچکے ہیں اور متعدد زخمی ہیں، اب تک کا سب سے بڑا نکسلی حملہ ہے۔ اس ضمن میں اور اس تحریک کے تعلق سے کہنے اور لکھنے کے لےے ابھی بہت کچھ باقی ہے، مگر اس وقت میرے سامنے دو سنجیدہ اور قابل ذکر قلمکاروں کے مضامین ہیں، جن میں ایک 7اگست008کو شائع شریمتی مہاشویتا دیوی کا مضمون ’’زندہ رہے گا نکسلواد‘‘ اور دوسری مدراراکھشس جی کی تحریر جس کا عنوان ہے ’’اسمے:نکسلواد میں ان کی کیا سزا!(بے وقت : نکسلزم میں ان کی کیا سزا)‘‘۔
میں چاہتا ہوں کہ یہ دونوں مضامین ہمارے قارئین کی نظروں سے گزریں، اس لےے کہ جب آج کے بعد میں اس موضوع پر لکھ رہا ہوں تو بہت کچھ وہ باتیں بھی میرے سامنے ہوں، جو اب تک اس تحریک کو لے کر کہی جاتی رہی ہیں، لکھی جاتی رہی ہیں، اس کے بعد بات ہوگی کہ اب اس پر قابو پانے کے لےے کیا طریقہ اپنا جائے اور جو بھی، جس کی بھی ہمدردیاں کسی نہ کسی شکل میں ان کو حاصل تھیں یا ہیں، کیارہنی چاہےے تھیں؟ کیا ان کے اس دہشت گردانہ عمل کو ’’جہاد‘‘ یا ’’تحریک‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔
زندہ رہے گا نکسلزم
نکسلزم کے جواز اور اس کے تئیں عوامی رجحانوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ لگتا ہے، 70 کی دہائی سے اس کی ضرورت آج ہے۔ گزشتہ 15-10 برسوں میں بھوکوں، غریبوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔سیاسی ، اقتصادی، مشینری پوری طرح امیروں کے حوالے ہے۔ یہ تحریک اور آگے بڑھے گی، کیونکہ موجودہ نظام میں کثیر تعداد میں لوگ حاشیے پر کھڑے ہیں اور ان کی عیادت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ حکومت بھی تسلیم کر رہی ہے کہ نکسلزم کا دائرہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور ابھی یہ ملک کے ایک تہائی سے زیادہ علاقوںمیں اپنی جڑیں جماچکا ہے، لیکن حکومت نکسلزم کو لے کر ہمیشہ اس پس و پیش میں رہی ہے کہ اسے نظم و نسق کا مسئلہ مانا جائے یا سماجی -اقتصادی مسئلہ۔پریشانی یہ ہے کہ حکومت نکسلیوں کو دبانے کی پالیسی پرچلتی رہی اور ان مسائل پر بالکل غور نہیں کیا، جن کے پس منظر میں نکسلزم کا ظہور ہوا تھا۔
نکسلزم لوگوں کے دلوں میںاس لئے جگہ بنائے ہوئے ہے، کیونکہ اس کے تحریک کاروں کا اپنا کوئی مفاد نہیں ہوتا۔ انھیں نہ تو اقتدار چاہئے اور نہ ووٹ۔ وہ نظریاتی لڑائی لڑنے والے بے لوث لوگ ہیں۔ ان میں غضب کا حوصلہ ہے۔ ان کی جاں نثار شخصیت میں مجھے اصول نظر آتا ہے۔ان کی تحریک ، پرکشش اور نیک مقاصد کے لئے ہے۔ یہی سبب ہے کہ میری تحریر میں بھی یہ نمایاں طور پرموجود ہے۔ اس کے علاوہ آپ کویہ سمجھنا ہوگا کہ اُلفا، بوڈو، این ایس سی این کی طرح یہ کوئی علیحدگی پسند تحریک نہیں ہے۔ پھر نکسلی تنظیموں کومقامی سطح پر حمایت بھی علیحدگی پسند تنظیموں سے کافی زیادہ حاصل ہے۔ نکسلزم کی جڑیں اس لئے بھی موجود ہیں کہ نکسلی تنظیموں نے بالکل نچلی سطح سے اپنی جڑیں جمانی شروع کیں۔ جیسے چھتیس گڑھ میں سب سے پہلے آیباسیوں کو بچولیوں اور تیندوپتا کے ٹھیکے داروں کے خلاف متحد کیاگیا۔ زمینی سطح پر یہ تحریک شروع ہوئی، اس لئے حکومت کے سامنے یہ آج بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ ریاستی انتظامیہ میں جرائم کی آمیزش اور اس کے مفلوج ہونے کا نتیجہ ہے کہ نکسلزم کا دائرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
kجن ایشوز پریہ تحریک شروع ہوئی تھی، وہ آج بھی موجود ہیں، اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ اس تحریک کی جڑیں کمزور ہوجائیں۔ آج ملک میں 56 نکسلی گروہ موجود ہیں اور ان کے زیرِ اثر ملک کی ایک تہائی سرزمین ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس کے دائرہ اختیار میں اور اضافہ ہوگا، کیونکہ سماج سے بے چینی اور بے اطمینانی کا خاتمہ نہیں ہوا ہے۔ لاکھوں لوگ بھوکے، متاثر، استحصال کا شکاراور اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں، ایسے میں نکسلزم کا خاتمہ کیسے ہوگا؟ اقتصادی نظام کا جب تک غیر متوازن فروغ ہوگا، دبے کچلے لوگ نظام کی مخالفت میں ہتھیار اٹھائیں گے ہی۔ یہ صورتحال ہمیشہ سے اور ہر ملک میں ہوگی۔
………………
بے وقت : نکسلزم میں ان کی کیا سزا
اخبار اور ٹی وی میڈیا نکسلی مہموں کی تنقید کرتے وقت اکثر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ نکسلی اپنے حلقۂ اثر میں غیر قانونی وصولی کرتے ہیں، ٹھیک مافیاکی طرز پر۔ عام طورپر کمیونسٹ پارٹی اپنے اراکین سے لیوی لیتی ہے اور اسی لیوی کی بنیاد پر پارٹی کا کام چلتا ہے۔ کل وقتی اراکین کو تنخواہ وغیرہ ملتی ہے۔ جب کبھی اخباری دنیامیں عام آدمی سے غیر قانونی وصولی کا ذکر ہوا، ہم نے یہی کہا کہ باضابطہ لیوی کو غلط سمجھا جارہا ہے۔ لیکن گزشتہ ہفتہ ایک ایسی تنظیم سے غیرقانونی وصولی کی خبر ملی، جس سے میرا قریبی تعلق رہا ہے۔ ان کے ذریعہ تشکیل کردہ دلت فریڈم نیٹ ورک نے بین الاقوامی سطح پردلتوں کے لئے آواز اٹھائی اور 2002 کے گجرات قتلِ عام جیسے فرقہ وارانہ واقعات پر عالمی رائے عامہ تیار کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس تنظیم سے وابستہ لیڈروں نے ہندوستان میںدلتوں اور آدیباسی بچوں کے لئے کافی محنت سے اسکول کھولے ہیں۔ ایسے کچھ اسکول جھارکھنڈ میں بھی ہیں۔ یہ سخت تکلیف کی بات تھی کہ جھارکھنڈ کے اسی علاقے کی ایک اسکول چلانے والی تنظیم کے لیڈر نے بتایا کہ ان کے اسکولوں سے نکسلی تنظیم بڑی رقم وصول کر رہی ہے اور رقم نہ ملنے پر اسکول جلا دینے کی دھمکی دی جارہی ہے۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں کبھی بھوجپور کو ویتنام بنانے کا عہدکرکے جگدیش مہتو، رامیشور اہیر جیسے لوگوں نے حالات بدلنے کے لئے کیا مانگا نہیں اپنی جانیں دی تھیں۔ گزشتہ صدی کے نصف اول میں تلنگانہ اور 60 کی دہائی میں نکسلزم میں جو عوامی جدوجہد شروع ہوئی اور جنھوں نے ملک کی نوجوان نسل پر گہرا اثر ڈالا تھا، وہ غیر قانونی وصولی کے سبب نہیں، بلکہ وہ اصول کے لیے اپنی جان کی قیمت پر کی گئی عوامی جدوجہد تھی۔ ڈی وی رائے سے لے کر چارومجمدار اور کانو سانیال تک اور پھر مائوئسٹ کمیونسٹ سینٹر یا پیپلز وار گروپ جیسی تنظیموں سے ہم جیسے لوگ چاہے جتنا نظریاتی اختلاف محسوس کریں، لیکن ان پر اوچھے غنڈوں والی غیرقانونی وصولی کے الزام کبھی نہیں لگے۔ گزشتہ سال جب نکسلزم پر پابندی کا فیصلہ لیا گیا تو اس قدم کی سخت مخالفت خود ہندوستان کی اس کمیونسٹ پارٹی نے کی،جس کا سب سے تلخ تجربہ کرنے کے لئے ہی نکسلباڑی تحریک تشکیل ہوئی تھی۔ ظاہر ہے کہ نکسلزم کے اوپر پابندی کی مخالفت کرنے والی ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی (مارکسوادی) بھی یہ تصور نہیں کرسکتی تھی کہ نکسلائٹ غیرقانونی وصولی کرنے والوں کی تنظیم ہے۔ مارکسوادی پارٹی نے بھی کبھی یہ الزام نہیں لگایا۔ کئی نکسلی تنظیموں کے درمیان اتحاد ہوا اور نئی نکسلی پارٹیاں وجود میں آئیں۔ ان کے نئے دستاویز بہت حد تک بھگت سنگھ کے نظریات کی یاد دلاتے ہیں، یعنی ان کا ترجیحی طریق کار بلیٹ سے شروع ہوکر بلیٹ پر ہی ختم ہونے کا نہیں ہے۔ ان کی سرگرمی میں تمام محروم سماج کے مابین عوامی بیداری کے بیج بونا ہے۔ حالانکہ مختلف گروپوں میں تقسیم اس تحریک کی اپنی ایک بڑی بیماری بھی ہے ایک ہی مقصد کے باوجود ایک دوسرے سے سخت نفرت۔ یہ گروہی نفرت ان کے دستاویزوں میں بہت کھل کر سامنے آئی ہے۔ اس آپسی منافرت کو دیکھ کر تھوڑی حیرانی ہوتی ہے۔ زیادہ نفرت کچھ اس لیے بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہر گروپ کا اصول اپنے کو دوسرے سے کہیں زیادہ دانشورانہ مانتا ہے اور دانشوری کی حد تو یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسرے ہم مسلک سے بحث کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ بحث کی کوئی گنجائش نہ چھوڑنے کا ہی ایک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ تحریک گروہ در گروہ تقسیم ہوتی اور بکھرتی جاتی ہے۔ ایک اور بڑی کمزوری ہے جوشاید ساری کمیونسٹ تحریک کے ساتھ لگی ہوئی دیکھی جاسکتی ہے ،خاص طور سے ہندوستان میں۔ اس کا یہ نظریہ صحیح ہے کہ عوامی جدوجہد کے ساتھ ہی عام آدمی کی بیداری کی کوشش ضروری ہے۔ لیکن یہ کام صرف اس طرح ممکن نہیں ہے کہ تحریک کی فکر ان کے درمیان پہنچائی جائے۔ ہندوستانی سماج میں نسلی اذیت اور خواتین کے ساتھ ثقافتی عدم مساوات کے علاوہ فرقہ وارانہ آگ لگانے والوں کے خلاف واضح مہم بھی ضروری ہے۔ چرچ جلائے جائیں، مسجدیں منہدم کی جائیں، گجرات کا قتلِ عام ہو یا اتر پردیش کو گجرات بنانے کی کوشش، نکسلزم اس کی سخت مخالف کرتا ہے، عوام کو یہ اعتماد بھی تو ہونا چاہئے اور اس سے آگے بڑھ کر عوام کو یہ پیغام بھی پہنچنا چاہئے کہ نکسلی آدیباسی اور دلت بچوں کے لئے طویل عرصہ سے کام کرنے والے مشنری اسکولوں سے غیر قانونی وصولی کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے قابلِ سزا جرم سمجھتے ہیں، ورنہ یہ داغ پورے نکسلزم کا کبھی نہ چھوٹنے والا داغ بن جائے گا۔