Saturday, February 26, 2011

کیا کرنل قذافی کا انجام بھی صدام حسین کی طرح…

عزیز برنی

مصر، لیبیا اور بحرین کے حوالہ سے لکھا گیا کل کا مضمون خاصا طویل ہوگیا تھا، اس لئے جو خبریں ان ممالک کے حوالہ سے انتہائی اہم تھیں اور جنہیں تحریر کے ساتھ شامل اشاعت کیا جانا چاہئے تھا، جگہ نہیں پاسکیں، لہٰذا آج کی تحریر کو مختصر رکھنا ہوگا، تاکہ وہ خبریں جو کل چھوٹ گئی تھیں، انہیں آج ہم اپنے قارئین کے سامنے رکھ سکیں، جو کہ مختلف ذرائع سے ہم تک پہنچی ہیں اور جن خبروں سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ میں اب ایک نیا ڈرامہ شروع ہوچکا ہی، جیسا کہ عراق کے تعلق سے ہوا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا، پہلے عراق پر اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں، جس سے وہاں کے عوام کا جینا محال ہوگیا، پھر صدام حسین کو تاناشاہ ڈکلیئر کیا گیا، مہلک ہتھیاروں کے ذخیرہ کا الزام لگایا گیا، جو کہ برآمد نہ ہونے پر بعد میں امریکہ کے سابق صدر جارج واکر بش کے ذریعہ معافی مانگ لی گئی، لیکن اس درمیان عراق کے ہزاروں بے گناہ قتل کئے جاچکے تھی، لاکھوں بے گھر ہوچکے تھے اور صدام حسین صدرعراق کو پھانسی دی جاچکی تھی۔ اس سب کے جواب میں سابق امریکی صدر جارج واکر بش کی معافی اور بس۔ اب پھر امریکہ میں یہ ماحول پیدا کیا جارہا ہی، گویا امریکی حکومت دباؤ میں ہی، اسے امریکی قدروں کا دھیان رکھنا ہی۔ اسے لیبیا میں عوام کے اوپر ہونے والی زیادتی کو نظرانداز نہیں کرنا ہی، لہٰذا لیبیا پر اقتصادی پابندی عائد کئے جانے کی ضرورت ہی۔ یعنی وہی جو عراق کے ساتھ ہوا تھا، اب لیبیا کے ساتھ کئے جانے کا ماحول تیار کیا جارہا ہی۔ آج کی اس تحریر کے ساتھ تفصیلی خبر آپ کی خدمت میں پیش کی جائے گی، جس میں یہ بھی درج ہے کہ لیبیا میں وہائٹ ہاؤس کو مخاطب کرتے ہوئے نعرے لگائے جارہے ہیں کہ ’’وہائٹ ہاؤس تم کہاں ہو، ہمیں تمہاری ضرورت ہی‘‘ ایسا اس لئے کہ کل اگر امریکہ کو لیبیا پر حملہ کرنا پڑے تو وہ یہ کہہ سکے کہ ہم نے لیبیائی عوام کی پکار پر لبیک کہا تھا، ان کے اوپر ہونے والے ظلم کو روکنے کا یہی ایک طریقہ تھا۔ کرنل قذافی کے ظلم سے نجات دلانے اور اسے قابو میں کرنے کا بس یہی ایک طریقہ تھا۔ اب یہ کون ثابت کرے گا کہ یہ نعرے لگانے والے لیبیائی عوام کیا واقعی اسی جذبہ کے ساتھ امریکہ کو پکار کررہے تھی، جیسا کہ ظاہر کیا جارہا ہے یا پھر ان کا انتظام امریکہ نے کیا تھا، تاکہ اسے مداخلت کا جواز فراہم ہوسکی۔ اسی طرح دیگر خبروںکے مطابق امریکہ صدر اوباما پر جن دباؤ ڈالنے والوں کا حوالہ پیش کیا جارہا ہی، کیا یہ ان کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہی۔ کس کو کس طرح کا رول پلے کرنا ہی، کسے ماحول سازی کرنی ہی، کسے دباؤ بنانا ہی، پھر کسے کارروائی کو انجام دینا ہی، تاکہ افغانستان اور عراق کی طرح کٹھ پتلی سرکاریں قائم کی جاسکیں اور یہ سب کچھ پہلے سے طے ہی۔ بس ساری دنیا کے سامنے رکھنے کا ایک طریقہ ہی، تاکہ عالمی برادری کا خودساختہ مکھیا یہ حق حاصل کرلے کہ وہ دنیا کے جس ملک میں چاہے مداخلت کرسکتا ہی، جو چاہے فیصلہ لے سکتا ہی، ہم اس مباحثہ میں شامل امریکی حکمرانوں سے ایک سوال کرنا چاہتے ہیں کہ اگر انہیں فکر ہے لیبیائی عوام پر ہونے والے ظلم کی، وہاں مارے جانے والے شہریوں کی اور آپ چاہتے ہیں کہ عالمی لیڈران کو متحد ہوکر قذافی کو یہ باور کرانے کی کوشش کرنی چاہئی، اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا اور یہ بیان ہے ایوان زیریں کی رکن جو حزب اختلاف سے تعلق رکھتی ہیں ری پبلکن پارٹی کی الیناروز کا جنہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ امریکہ اور دیگر ممالک کو لیبیا پر سخت پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ املاک منجمد کرنے اور لیبیا کے حکام، افسران اور اہل خانہ پر سفر کرنے کی پابندی عائد کردینی چاہئی۔ باالفاظ دیگر انہیں ان کے گھروں میں نظربند کردینا چاہئی۔ ہوسکتا ہے پھر کرنل قذافی پر بھی صدام حسین کی طرح امریکی ایما پر قائم کی گئی ایک عدالت میں مقدمہ چلے اور انہیں بھی پھانسی کی سزا سنا دی جائی۔ عالمی برادری کیا اسی طرح امریکہ کو کھلی چھوٹ دینے کی حامی ہے کہ اسے کسی بھی ملک میں اپنی مرضی سے اپنے انداز میں مداخلت کاحق حاصل ہی۔ کیا یہ حیران کن نہیں کہ ہزاروں بے گناہ عراقیوں اور افغانیوں کے قتل کے جرم میں جارج واکر بش پر مقدمہ چلائے جانے کی بات کسی نے نہیں کہی۔ کیا اپنی غلطی کو تسلیم کرلینا اور معافی مانگ لینا ہی کافی ہی۔ ہوسکتا ہے اس موضوع پر بدلتے حالات کی روشنی میں آئندہ پھر لکھناپڑی، لیکن اس وقت ہم چاہتے ہیں کہ وہ خبریں جو امریکہ میں جاری ان سرگرمیوں کو آپ تک پہنچاسکیں، ہم اس تحریر میں شامل کردینا ضروری سمجھتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
لیبیا کے تعلق سے اوباما پر مداخلت کرنے کا دباؤ
Tواشنگٹن (رائٹر) لیبیا میں معمر قذافی کے ذریعہ جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف خونی تشدد روکنے کے لئے مداخلت کے سلسلہ میں وہائٹ ہاؤس پر دباؤ بڑھ گیا ہی، کیونکہ صدربراک اوباما کے قانونی مشیر نے لیبیا میں تیل کمپنیاں بند کرنے پر زور دیا ہی۔ اس کے علاوہ امریکی انتظامیہ کو فوجی کارروائی سمیت لیبیا کے ہوائی اڈوں پر بمباری، ممنوع پروازی ژونNo Fly Zone)جیسے مطالبات کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہی۔ اس کے ساتھ ہی صدر براک اوباما کو یہ کہتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ لیبیا میں تشدد کے دوران جہاں سیکڑوں افراد ہلاک ہوگئے ہیں، وہ خاموشی کیوں اختیار کئے ہوئے ہیں۔
سینیٹ کی خارجہ روابط کمیٹی کے چیئرمین سینئر جان کیری نے تو صدر براک اوباما سے یہ مطالبہ بھی کردیا ہے کہ وہ لیبیا پر سخت پابندی عائد کرنے پر دوبارہ غور کریں۔ کیری نے مزید کہا کہ عالمی لیڈران کو متحد ہوکر قذافی کو یہ باور کرانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں، اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔
کیری کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے ان کی مدمخالف ایوانی زیر کی ری پبلکن رکن الینا روزلہتی نینی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ امریکہ اور دیگر ممالک کو لیبیا پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ املاک منجمد کرنے اور لیبیا کے حکام، افسران اور ان کے اہل خانہ پر سفر کرنے کی پابندی عائد کردینی چاہئی۔
واشنگٹن پوسٹ اخبار نے اپنے اداریے میں تحریر کیا ہے کہ لیبیا میں نئی حکومت کے لئے عوام کے مطالبہ سمیت لیبیا کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہی۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ قذافی کا 41سالہ دوراقتدار زیادہ تر امریکہ کے خلاف رہا ہی۔
لیکن امریکہ میں حزب اختلاف کا موقف مصر اور بحرین کے مقابلہ میں لیبیا میں کمزور ہی، کیونکہ مصر اور بحرین میں واشنگٹن اپنے اتحادیوں کے ساتھ طویل مدت تک دباؤ قائم رکھنے میں کامیاب رہا۔ جب امریکہ کی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ مخالفت برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں تو انہوں نے کہا کہ امریکی حکام ’’مناسب‘‘ کارروائی کے سلسلہ میں فیصلہ کرنے کے لئے عالمی برادری کے ساتھ غوروخوض کررہے ہیں۔
ہلیری کلنٹن نے واضح طور پر کہا کہ لیبیا میں امریکی شہریوں کے تحفظ کے تعلق سے واشنگٹن کا محتاط رویہ ہی۔ انہوں نے کہا کہ امریکیوں کی عافیت اور ان کا تحفظ ہماری اعلیٰ ترین ترجیح ہی۔
اس سے قبل امریکی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ غیرضروری سفارتکاروں اور ان کے اہل خانہ کو لیبیا سے واپس بلانا مشکل امر ہی۔ اس کے بعد حکومت کے ترجمان پی جے کراؤلے نے کہا تھا کہ 35ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو مزید کچھ دنوں کے لئے وہاں چھوڑ دیا گیا ہی۔
قذافی مخالف بہت سے مظاہرین وہائٹ ہاؤس کے باہر جمع ہوئے اور انہوں نے یہ نعرے لگائے ’’وہائٹ ہاؤس تم کہاں ہو، اب لیبیا کو آپ کی ضرورت ہی۔‘‘
کانگریس کے ایک اسٹاف نے اس بات کا انکشاف کیا کہ سال010-میں لیبیا کو امریکی معاونت ایک ملین ڈالر سے کم تھی، تاہم تجارت کا فروغ اس وقت شروع ہوا جب سالـ004میں پابندیاں ہٹالی گئیں۔ واضح رہے کہ لیبیا کو امریکی ایکسپورٹ 665ملین ڈالر کا تھا، جبکہ امپورٹ.12ملین ڈالر کا تھا۔
اس وقت مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں پیدا ہونے والی عوامی تحریک سے اوباما انتظامیہ نبردآزما ہی۔ ہر ایک ملک نے واشنگٹن کے سامنے اپنے اپنے مسائل اور چیلنج پیش کردئے ہیں، اس لئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی دہائیوں پرانی یہ پالیسی ایسا معاملہ نہیں ہی، جو ہفتہ دو ہفتہ میں حل ہوجائی۔
وہائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے کہا ہے کہ واشنگٹن بڑھتے ہوئے تشدد کی سرزنش کرتا ہی، جس کی وجہ سے امریکہ میں تیل کی قیمتیں ڈھائی سال کی مدت میں سب سے اونچی سطح تک آگئی ہیں۔
جان کیری نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ لیبیا کے تعلق سے امریکہ کے پاس محدود آپشن(ption) ہیں تاہم اوباما انتظامیہ کو لیبیا پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے بارے میں سوچنا چاہئے اور توانائی کی کمپنیوں کو بھی اسی طرح کا قدم اٹھانا چاہئے ۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ تمام امریکی اور بین الاقوامی تیل کمپنیوں کو اس وقت تک لیبیا میں فوری طور پر کام روک دینا چاہئی، جب تک کے عوام کے خلاف تشدد نہ روک دیا جائی۔
اٹلی کی اینی نے کہا ہے کہ لیبیا سے ان کے ملک کو سب سے زیادہ مقدار میں حاصل ہونے والی تیل سپلائی کو روک دیا گیا ہے ۔ اس عوامی تحریک کا اثر و نٹر شیل (inter shall)کی اکائی بی اے ایس ایف پر بھی پڑا ہے جو لیبیا کی تیل پیداوار کو متاثر کرنا چاہتی ہے ۔ اس کے علاوہ بی پی اور رائل ڈچ مشیل سمیت دیگر بہت سی فرموں نے عالمی اسٹاف کو واپس بلا لیا ہی۔
کونوکو فلپس ، مراتھن آئل اور ہیس (ess) ایسی امریکی فرمیں ہیں جن کا لیبئن نیشنل آئل کا رپوریشن کے جوائنٹ وینچر میں 40فیصد سے زائد کی حصہ داری ہے جو کہ وہاں (aha) استثنیٰ کے تحت 350,000بیرل تیل روزانہ پیدا کرتی ہیں۔
’آکسیڈ نیٹل پٹرولیم ‘ امریکہ کی ایسی اولین فرم ہے جن نے پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد سب سے پہلے لیبیا میں تیل پیدا کرنے کا کام شروع کیا ۔ تیل کے شعبہ میں واپس آنے سے قبل اس نے 2دہائی پہلے کام شروع کیا تھا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اثر انداز ہونے کے لئے نئی پابندیاں عائد کرنے میں ابھی وقت لگے گا کیونکہ اس کے تیل ماہرین نے تیل کو ’ ہارڈ کرنسی‘ کی شکل دے دی ہی۔ وہائٹ ہاؤس کے ذرائع کے مطابق جان کیری کی تجویز کا مطالعہ کیا جا رہا ہے ۔ تاہم اس وقت انتظامیہ کی توجہ خون خرابہ بند کرانے پر مرکوز ہی۔واشنگٹن میں واقع ’بروکنگس انسٹی ٹیوشن‘ کے مفکر ڈینپل بائمین کا کہنا ہے کہ لیبیا میں امریکہ کا نسبتاً اثر معمولی ہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے امریکی مفاد وابستہ ہیں لیکن یہ مفادات زیادہ تر بین الاقوامی ہیں اور وہ بھی خصوصی طور پر تیل۔
مبصرین کا خیال ہے کہ فوجی کارروائی سے ملک میں تیل کا بحران پیدا ہوسکتا ہے حالانکہ امریکہ نے ماضی میں قذافی کے خلاف فورس استعمال کرنے میں گریز نہیں کیا تھا ۔
امریکی فوجی افسران کے لئے قائم کئے گئے ویسٹ برلن ڈسکوپر بمباری کی پاداش میں امریکہ نے 1986میں ترپولی اور دوسرے بڑے شہر بن غازی میں بمباری کی تھی اور اس وقت 40سے زائد لیبیائی شہری ہلاک ہوئے تھی،جس میں قذافی کی گود لی گئی لڑکی بھی ہلاک ہوگئی تھی۔
لیبیا کے ذریعہ دہشت گردوں کی حمایت کرنے کی وجہ سے کئی دہائیوں تک تعلقات کشیدہ رہنے کے بعد جب 2003میں قذافی نے تباہ کن ہتھیاروں کا پروگرام ترک کر دیا تو امریکہ نے آہستہ آہستہ تعلقات بہتر کرنے شروع کر دئی۔ 1988 میں جب اسکاٹ لینڈ میں پان ایم 103طیارہ پر بمباری کرنے کی لیبیا نے ذمہ داری قبول کر لی تو امریکہ نے آہستہ آہستہ اقتصادی پابندیاں ہٹا لیں تھیں

क्या कर्नल क़ज़्ज़ाफ़ी का अंजाम भी सद्दाम हुसैन की तरह......
अज़ीज़ बर्नी

मिस्र, लीबिया और बहरीन के संदर्भ में लिखा गया कल का लेख ख़ासा लम्बा हो गया था, इसलिए जो समाचार इन देशों के बारे में बहुत महत्वपूर्ण थे और जिन्हें लेख के साथ शामिल किया जाना चाहिए था जगह नहीं पा सके। अतः आज के लेख को थोड़ा संक्षिप्त रखना होगा ताकि वह समाचार जो कल छूट गए थे उन्हें आज हम अपने पाठकों के सामने रख सकें जो विभिन्न स्रोतों से हम तक पहुंचे हैं और जिन समाचारों से स्पष्ट होता है कि अमेरिका में अब एक नया ड्रामा शुरू हो चुका है जैसा कि इराक़ के संदर्भ में हुआ था। आपको याद होगा, पहले इराक़ पर आर्थिक प्रतिबंध लगाए गए जिससे वहां की जनता का जीना दूभर हो गया, फिर सद्दाम हुसैन को तानाशाह डिक्लेयर किया गया, विनाशकारी हथियारों के ज़ख़ीरे का आरोप लगाया गया, जो कि बरामद न होने पर बाद में अमेरिका के पूर्व राष्ट्रपति जाॅर्ज वाकर बुश के द्वारा माफ़ी मांगी गई, लेकिन इस बीच इराक़ के हज़ारों बेगुनाह क़त्ल किए जा चुके थे, लाखों बेघर हो चुके थे और इराक़ के राष्ट्रपति सद्दाम हुसैन को फांसी दी जा चुकी थी। इस सबके जवाब में अमेरिकी राष्ट्रपति जार्ज बुश की माफ़ी और बस। अब फिर अमेरिका में यह माहौल पैदा किया जा रहा है जैसे अमेरिकी सरकार दबाव में है, उसे अमेरिकी मूल्यों का ध्यान रखना है। उसे लीबिया में जनता के ऊपर होने वाली ज़ियादतियों को नज़रअंदाज़ नहीं करना है, अतः लीबिया पर आर्थिक प्रतिबंध लगाए जाने की ज़रूरत है। अर्थात वही जो इराक़ के साथ हुआ था अब लीबिया के साथ किए जाने का माहौल तैयार किया जा रहा है। आजके इस लेख के साथ विस्तृत ख़बर आपकी ख़िदमत में पेश की जाएगी जिसमें यह भी दर्ज है कि लीबिया में व्हाइट हाउस को संबोधित करते हुए नारे लगाए जा रहे हैं कि ‘व्हाइट हाउस तुम कहां हो, हमें तुम्हारी आवश्यकता है’ ऐसा इसलिए कि कल अगर अमेरिका को लीबिया पर हमला करना पड़े तो वह यह कह सके कि हमने लीबियाई जनता की पुकार पर लब्बैक कहा था, उनके ऊपर होने वाले ज़्ाुल्म को रोकने का यही एक तरीक़ा था। कर्नल क़ज़्ज़ाफ़ी के ज़्ाुल्म से निजात दिलाने और उसे क़ाबू में करने का बस यही एक तरीक़ा था। अब यह कौन साबित करेगा कि यह नारे लगाने वाले लीबियाई अवाम क्या वास्तव में इसी भावना के साथ अमेरिका को पुकार रहे थे जैसा कि ज़ाहिर किया जा रहा है या फिर उनका इंतिज़ाम अमेरिका ने किया था ताकि उसे हस्तक्षेप का औचित्य मिल सके। इसी तरह अन्य ख़बरों के अनुसार अमेरिकी सदर ओबामा पर जिन दबाव डालने वालों का हवाला पेश किया जा रहा है क्या यह उनकी रणनीति का एक भाग है। किसको किस तरह का रोल अदा करना है। किसे माहौल साज़ी करनी है, किसे दबाव बनाना है, फिर किसे कार्रवाई को अंजाम देना है ताकि अफ़ग़ानिस्तान और इराक़ की तरह कठपुतली सरकारें बिठाई जा सकें और यह सब कुछ पहले से तय है बस सारी दुनिया के सामने रखने का एक तरीक़ा है ताकि विश्व बिरादरी का स्कायू मुख्यिा यह अधिकार प्राप्त कर ले कि वह दुनिया के जिस देश में चाहे हस्तक्षेप कर सकता है, जो चाहे निर्णय ले सकता है, हम इस बहस में शामिल अमेरिकी शासकों से एक सवाल करना चाहते हैं कि अगर उन्हें चिंता है लीबियाई जनता पर होने वाले ज़्ाुल्म की, वहां मारे जाने वाले शहरियों की और आप चाहते हैं कि आलमी लीडरान को एक हो कर क़ज़्ज़ाफ़ी को यह विश्वास दिलाने का प्रयास करना चाहिए कि उसका अंजाम अच्छा नहीं होगा और यह बयान है निचले सदन की नेता जो अपोज़िशन से संबंध रखती हैं रिपब्लिकन पार्टी की अलीना रोज़ का, जिन्होंने यहां तक कह दिया कि अमेरिका और अन्य देशों पर पैट्रोल प्रतिबंध लगाने के साथ-साथ उसकी सम्पत्तियां सील करने और लीबिया के अधिकारियों, हुकमरानों और उनके परिवार वालों पर सफ़र करने की पाबंदी लगा देनी चाहिए। दूसरे शब्दों में उन्हें उनके घरों में नज़रबंद कर देना चाहिए। हो सकता है फिर कर्नल क़ज़्ज़ाफ़ी पर भी सद्दाम हुसैन की तरह अमेरिकी इशारे पर क़ायम की गई एक अदालत में मुक़दमा चले और उन्हें भी फांसी की सज़ा सुना दी जाए। विश्व बिरादरी क्या इसी तरह अमेेरिका को खुली छूट देने की हामी है कि उसे किसी भी देश में अपनी मर्ज़ी से, अपने अंदाज़ में हस्तक्षेप का अधिकार है। क्या यह आश्चर्यजनक नहीं है कि हज़ारों बेगुनाह इराक़ियों और अफ़ग़ानियों के क़त्ल के जुर्म में जार्ज वाकर बुश पर मुक़दमा चलाए जाने की बात किसी ने नहीं की। क्या अपनी ग़लती को मान लेना और माफ़ी मांग लेना ही काफ़ी है। हो सकता है कि इस विषय पर बदलते हुए हालात की रोशनी में आगे फिर लिखना पड़े लेकिन इस समय हम चाहते हैं कि वह समाचार जो अमेरिका में जारी उन सरगर्मियों को आप तक पहुंचा सकें। हम इस लेख में शामिल कर देना ज़रूरी समझते हैं मुलाहिज़ा करें:
लीबिया के संबंध में ओबामा पर हस्तक्षेप के लिए दबाव
वांशिंगटन(रायटर), लीबिया में मुअम्मर क़ज़्ज़ाफ़ी के द्वारा लोतंत्र समर्थक प्रदर्शनकारियों के ख़िलाफ़ हिंसा रोकने के लिए हस्तक्षेप करने के सिलसिले में व्हाइट हाउस पर दबाव बढ़ कया है, क्यों राष्ट्रपति बराक ओबामा के क़ानूनी सलाहकार ने लीबिया में तेल कंपनियां बंद करने पर ज़ोर दिया है। इसके अतिरिक्त अमेरिकी प्रशासन को फ़ौजी कार्रवाई सहित लीबिया के हवाई अड्डों पर बम्बारी, निशेध वायु क्षेत्र ;छव थ्सल ्रवदमद्ध जैसी मांगों का भी सामना करना पड़ रहा है इसके साथ ही राष्ट्रपति बराक ओबामा को यह कहते हुए आलोचना का निशाना बनाया जा रहा है कि लीबिया में हिंसा के दौरान जहां सैकड़ों व्यक्ति हताहत हुए हैं वह चुप्पी क्यों साधे हुए हैं।
सीनेट की विदेशी मामलों से संबंधित कमेटी के चेयरमैन सिनेटर जाॅन केरी ने राष्ट्रपति बराक ओबामा से यह मांग भी कर दी है कि वह लीबिया पर कठोर पाबन्दियाँ लगाने पर दोबारा ग़्ाौर करें। केरी ने आगे कहा है कि विश्व नेताओं को एक हो कर क़ज़्ज़ाफ़ी को यह बताने का प्रयास करना चाहिए कि वह जो कुछ भी कर रहे हैं उसका अंजाम अच्छा नहीं होगा।
केरी को भी पीछे छोड़ते हुए उनकी विरोधी व निचले सदन की रिपब्लिकन सदस्य अलीना रोज़लहती नैनी ने तो यहां तक कह दिया कि अमेरिका व अन्य देशों को लीबिया पर कठोर आर्थिक पाबंदियां लगाने के साथ-साथ उसकी सम्पत्तियों को ब्लाक करने और लीबिया के अधिकारियों को उनके परिवार वालों पर यात्रा करने की पाबंदी लगा देनी चाहिए।
वाशिंगटन पोस्ट अख़बार ने अपने सम्पादकीय में लिखा है कि लीबिया में नई सरकार के लिए अवाम की मांग सहित लीबिया के विरुद्ध कठोर कार्रवाई करने की आवश्यकता है। अख़बार आगे लिखता है कि क़ज़्ज़ाफ़ी का 41 वर्ष का शासनकाल अधिकतर अमेरिका के ख़िलाफ़ रहा है।
लेकिन अमेरिका में अपोज़िशन का दृष्टिकोण मिस्र और बहरीन की तुलना में लीबिया में कमज़ोर है, क्योंकि मिस्र और बहरीन में वाशिंगटन अपने सहयोगियों के साथ दबाव बनाए रखने में सफल था- जब अमेरिका की विदेशमंत्री हिलेरी क्लिंटन से यह पूछा गया कि क्या वह विरोध बर्दाश्त करने के लिए तैयार हैं तो उन्होंने कहा कि अमेरिकी अधिकारी ‘उचित’ कार्रवाई के सिलसिले में फ़ैसला करने के लिए विश्व बिरादरी के साथ विचार-विमर्श कर रहे हैं।
हिलेरी क्लिंटन ने स्पष्टरूप से कहा कि लीबिया में अमेरिकी नागरिकों की सुरक्षा के संबंध में वाशिंगटन का रवैया सावधानी भरा है। उन्होंने कहा कि अमेरिकियों की ख़ैरियत और उनकी सुरक्षा हमारी सर्वोच्च प्राथमिकता है। इससे पूर्व अमेरिकी विदेशमंत्रालय ने कहा था कि अनावश्यक राजनयिकों और उनके परिवार वालों को लीबिया से वापस बुलाना मश्किल काम है। इसके बाद सरकार के प्रवक्ता पीजे क्रावले ने कहा था कि 35 कर्मियों और उनके परिवार वालों को और कुछ दिनों के लिए वहां छोड़ दिया गया है।
क़ज़्ज़ाफी विरोधी बहुत से प्रदर्शनकारी व्हाइट हाउस के बाहर जमा हुए और उन्होंने यह नारे लगाए ‘व्हाइट हाउस तुम कहां हो, अब लीबिया को तुम्हारी आवश्यकता है’।
कांग्रेस के एक स्टाफ़ ने इस बात का रहस्योदघाटन किया कि वर्ष 2010 में लीबिया को अमेरिकी सहायता 1 मिलियन डाॅलर से कम थी, फिर भी व्यापार की प्रगति उस समय शुरू हुई जब वर्ष 2004 में पाबंदियां हटा ली गईं। स्पष्ट रहे कि लीबिया को अमेरिकी स्पोर्ट 665 मिलियन डाॅलर का था जबकि इम्पोर्ट 2.12 मिलियन डाॅलर का था।
इस समय मध्यपूर्व और पूर्वी अफ़रीक़ा में उभरने वाली अवामी बग़ावतों से ओबामा प्रशासन जूझ रहा है। हर एक देश ने वाशिंगटन के सामने अपनी-अपनी समस्याएं और चैलेंज पेश कर दिए हैं, इसलिए ऐसा महसूस होता है कि मध्यपूर्व की दशकों पुरानी यह पाॅलीसी ऐसा मामला नहीं है जो एक दो सप्ताह में हल हो जाए।
व्हाइट हाउस के प्रवक्ता जे॰कारनी ने कहा है कि वाशिंगटन बढ़ती हुई हिंसा की आलोचना करता है, जिसके कारण अमेरिका में तेल के मूल्य ढाई वर्ष की अवधि में सबसे ऊंची सतह तक पहुंच गए हैं।
जाॅन केरी ने इस बात को भी स्पष्ट किया है कि लीबिया के संबंध में अमेरिका के पास सीमित व्चजपवद हैं फिर भी ओबामा प्रशासन को लीबिया पर दोबारा पाबंदियां लगाने के बारे में सोचना चाहिए और ऊर्जा की कंपनियों को भी इसी तरह का क़दम उठाना चाहिए। अपने एक बयान में उन्होंने आगे कहा कि तमाम अमेरिकी और अंतरराष्ट्रीय तेल कंपनियों को उस समय तक लीबिया में काम रोक देना चाहिए जब तक कि जनता के विरुद्ध हिंसा न रोक दी जाए।
इटली की एनी ने कहा कि लीबिया से उनके देश को अधिक मात्रा में प्राप्त होने वाली तेल की सप्लाई को रोक दिया गया है। इस जनआंदोलन का असर विल्टर शैल ;ॅपदमत ैींससद्ध की इकाई बीएएसएफ़ पर भी पड़ा है जो लीबिया की तेल पैदावार को प्रभावित करना चाहती है। इसके अलावा बीपीओ और राॅयल डच मिशैल सहित अन्य बहुत सी फ़र्मों ने विश्व स्टाॅफ को वापस बुला लिया है। कोनोको फ़िलिप्स और मराथन आॅयल और हेस ;भ्मेेद्ध ऐसी अमेरिकी फ़र्में हैं जिनका लीबियन नैशनल आॅयल कार्पोरेशन के संयुक्त उद्यम में 40 प्रतिशत से अधिक हिस्सा है जोकि वहां ;ॅ।भ्।द्ध विशेषरूप के तहत 350000 बैरल तेल रोज़ पैदा करती हैं।
‘आक्सी डेंटल पैट्रोलियम’ अमेरिका की ऐसी पहली फ़र्म है जिसने प्रतिबंध हटाए जाने के बाद सबसे पहले लीबिया में तेल पैदा करने का काम शुरू किया। तेल के क्षेत्र में वापस आने से पूर्व उसने दो दशक पहले काम शुरू किया था।
ऐसा महसूस होता है कि प्रभावी होने के लिए नई पाबंदियां लगाने में अभी समय लगेगा क्योंकि उसके तेल विशेषज्ञों ने तेल को ‘हार्ड करंसी’ का रूप दे दिया है। व्हाइट हाउस के सूत्रों के अनुयार जाॅन केरी के प्रस्ताव का अध्ययन किया जा रहा है। लेकिन इस समय प्रशासन का ध्यान ख़ून-ख़राबा बंद कराने पर टिका हुआ है। वाशिंगटन स्थ्ति ‘ब्रोकिंग्स इंस्टीट्यूशन’ के विचारक डैनियल बाइमैन का कहना है कि लीबिया में अमेरिका का तुलनात्मक प्रभाव मामूली है।
इसमें कोई शक नहीं कि इससे अमेरिकी हित जुड़े हैं लेकिन यह हित अधिकतर अंतरराष्ट्रीय हैं और वह भी विशेषरूप से तेल।
प्रयेवक्षकों का विचार है कि फ़ौजी कार्रवाई से देश में तेल का संकट पैदा हो सकता है। हालांकि अमेरिका ने पूर्व में क़ज़्ज़ाफ़ी के विरुद्ध फ़ोर्स प्रयोग करने में गुरेज़ नहीं किया था।
अमेरिकी फ़ौजी अधिकारियों के लिए स्थापित किए गए वैस्ट बर्लिंग डिस्को पर बम्बारी की सज़ा मंें अमेरिका ने 1986 में त्रिपोली और दूसरे बड़े नगर बिन-ग़ाज़ी में बम्बारी की थी और उस समय 40 से अधिक लीबियाई नागरिक मारे गए थे जिसमें क़ज़्ज़ाफ़ी की गोद ली हुई लड़की भी शामिल थी।
लीबिया के द्वारा आतंकवादियों का समर्थन करने के कारण कई दशकों तक संबंध ख़राब रहने के बाद जब 2003 में क़ज़्ज़ाफ़ी ने विनाश्कारी हथियारों का प्रोग्राम छोड़ दिया तो अमेरिका ने आहिस्ता-आहिस्ता संबंध बेहतर करने शुरू कर दिए। 1968 में जब स्काॅटलैंड ने पान-एम-103 जहाज़ पर बम्बारी करने की लीबिया ने ज़िम्मेदारी स्वीकार की तो अमेरिका ने आहिस्ता-आहिस्ता आर्थिक प्रतिबंघ हटा लिए थे।
.................................

Thursday, February 24, 2011

مصر، لیبیا، بحرین، جمہوری عمل یا امریکی دخل

عزیز برنی

جانتا ہوں کہ آج کا مضمون لکھ کر میں پھر ایک بڑی مصیبت کو دعوت دے رہا ہوں، مگر کیا کروں جب ایک بہت بڑی مصیبت میں پوری قوم کو گرفتار ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں تو چپ کیسے رہوں۔ ’مصر‘ میرا ملک نہیں ہے، ’لیبیا‘ اور ’بحرین‘ کا شہری بھی نہیں ہوں میں، میرا ملک تو ہندوستان ہے اور میری پہلی فکر بھی ہندوستان ہی ہے، مگر ہم ہندوستانی کسی کو پریشانی میں دیکھتے ہیں تو اس سے نظریں نہیں پھیر لیتے، بلکہ اس کی ہرممکن مدد کرنا اپنا اوّلین فرض سمجھتے ہیں۔ بس سمجھ لیجئے کہ اس وقت ایک ایسے ہی فرض کی ادائیگی کررہا ہوں میں۔ اور ایک ڈر یہ بھی ہے کہ کل یہ آگ ہمارے دامن تک نہ پہنچ جائے۔
صدام حسین۔حسنی مبارک۔کرنل قذافی۔اپنے اپنے ملک کی شناخت سمجھے جاتے رہے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ سبھی بہت طاقتور حکمراں رہے ہیں۔ صدام حسین نے 24برس عراق پر حکومت کی، حسنی مبارک نے 30برس اور کرنل قذافی نے 41برس۔ صدام حسین کا قتل،حسنی مبارک کی اقتدار سے بے دخلی اور کرنل قذافی کے خلاف بغاوت۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز پر امریکی کنٹرول، کویت کی اقتصادیات پر امریکی قبضہ، عراق اور افغانستان میں امریکی کٹھ پتلی حکمراں، ایران میں محموداحمدی نژاد حکومت کو مسلسل دھمکیاں اور اردن جیسے ملک امریکی کالونی کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ بحرین کی حالت غیر اب کسی سے چھپی نہیں ہے۔ فلسطین کی تباہی ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔ خون آلودہ پاکستان اب اس درجہ لاچار اور بے بس ہوچکا ہے کہ اپنے شہریوں کے قاتل ریمنڈڈیوس کو کسی بھی طرح کی سزا دینا تو دور اس امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ایجنٹ کے خلاف زبان کھولنے کے جرم میں اپنے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو ان کے عہدہ سے ہٹانے کے لئے مجبور ہوچکا ہے۔ بنگلہ دیش جو کبھی پاکستان کا حصہ تھا، آج ایک بے حیثیت ملک بن کر رہ گیا ہے اور ان سب کے پیچھے ہے صرف اور صرف ایک طاقت امریکہ۔ ہم سب جانتے ہیں، مگر خاموش ہیں، لاچاروبے بس ہیں۔ اگر کسی کو اس جانب متوجہ کیا جائے تو ایک ہی جواب ملتا ہے، آخر ہم کرہی کیا سکتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔
وہی مایوسی بھرا انداز۔ ایک جولین اثانچے وکی لیکس کی معرفت پوری دنیا میں ہلچل پیدا کرسکتا ہے۔ ایک مارک زکیربرگ (Mark Zuckerberg)فیس بک کی ایجاد کر کمیونی کیشن کی دنیا میں ایک نیا انقلاب لاسکتا ہے، جس کا سہارا لے کر نوجوان لڑکی فیس بک کے ایک پیغام کے ذریعہ حسنی مبارک کی 31سالہ حکومت کا تختہ پلٹ سکتی ہے اور 150کروڑ کی آبادی والی اس قوم میں ایسا ایک بھی نہیں، جو ان کا جواب بن سکے۔
عرب ممالک کی سب سے بڑی طاقت ہے پیٹرول، جو پروردگارعالم کا ایک عطیہ ہے۔ بہت تیزی سے اب اس دولت پر امریکہ کا قبضہ ہوتا جارہا ہے، مگر سب چپ ہیں، کوئی امریکہ کے خلاف بولنے کی جرأت کرتا ہی نہیں۔ کویت کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ ہزاروں برس سے عراق کا ایک حصہ تھا۔ ساتویں صدی میں عراق کے ساتھ ساتھ کویت بھی مسلمانوں کی ملکیت میں شمار کیا گیا۔ بیسویں صدی تک ترکی کی خلافت عثمانیہ کا ایک حصہ رہا، لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد فرانس اور برطانیہ نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کردیا اور عرب ممالک میں اپنی کٹھ پتلی سرکاریں قائم کردیں۔ اس طرح یہ زمین ان کے قبضہ میں آنا شروع ہوگئی۔ عراق بھی برطانیہ کے اقتدار میں شامل ہوا، لیکن جلد ہی برطانیہ کو یہ احساس ہوگیا کہ ایک نہ ایک دن اس علاقہ کو خالی کرنا پڑسکتا ہے۔ لہٰذا پیش بندی کے طور پر برطانیہ نے 1921میں کویت کو آزاد مملکت کی حیثیت دی اور جب 1932میں برطانیہ نے عراق سے اپنی فوجیں ہٹائیں اور اپنی کٹھ پتلی سرکار قائم کی تو تیل کی سپلائی جاری رکھنے کی غرض سے کویت کو اپنی تحویل میں رکھا۔ 1945میں عراق کو تو برطانیہ کے تسلط سے آزادی حاصل ہوگئی، لیکن کویت بدستور ان کے کنٹرول میں رہا۔ 1958میں عراق کی شاہی حکومت کا تختہ پلٹ ہوا اور پھر تخت پر قبضہ کرنے والے فوجی جنرل عبدالکریم قاسم نے کویت کو بھی عراق کی ملکیت میں شامل کرنے کی کوشش کی، لیکن حکومت برطانیہ کے دفاع کے سبب یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ 1970میں صدام حسین نے بھی کویت کو حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ ممکن نہیں ہوسکا۔
اگر عراق کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس کی عظمت کا اعتراف ہر مسلمان کو ہوگا۔ عراق وہ ملک ہے، جسے سرزمین انبیا و اولیا بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہمارے آخری رسول حضرت محمد مصطفیﷺ کے علاوہ قرآن کریم میں جن انبیائے کرام کا تذکرہ ہے، ان میں سے بیشتر کا تعلق اس زمین سے رہا ہے۔ حضرت نوحؑ ، حضرت ادریسؑ ، حضرت ھودؑ ، حضرت صالحؑ ، حضرت ابراہیمؑ ، حضرت اسحاقؑ ، حضرت اسماعیلؑ ، حضرت شعیبؑ ، حضرت یعقوبؑ ، حضرت یوسفؑ ، حضرت موسیٰؑ ، حضرت ہارونؑ ، حضرت داؤدؑ ، حضرت سلیمانؑ ، حضرت زکریاؑ ، حضرت یحییٰؑ ، حضرت یونسؑ ، حضرت ایوبؑ ، حضرت الیاسؑ کا تعلق اسی سرزمین سے رہا ہے۔
خلافت کے ملوکیت میں تبدیل ہوجانے کے بعد اسلامی دنیا میں جب اموی حکومت کمزور ہوگئی تو اس وقت بنوعباس اٹھے اور ’’اندلس‘‘ کو چھوڑ کر پوری اسلامی ریاست پر قابض ہوگئے، تب اس دور کے دوسرے حکمراں ’’ابوجعفرمنصور‘‘ نے آٹھویں صدی عیسوی میں عراق کی سرزمین پر ایک بارونق شہر بغداد کے نام سے تعمیر کرایا اور اس کو عباسی حکومت کا دارالخلافہ بنایا۔
جب دولت عباسیہ کمزور ہوگئی اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھر گیا، اس وقت صحرائے گوبی(چین کے پاس کا بڑا ریگستانی علاقہ) سے تاتاری طوفان اٹھا اور بخارا، سمرقند، کا شغر کی اسلامی سطوت کو تباہ کرتا ہوا 1851 میں عراق کی جانب پھر گیا اور یہاں کے شہرستان علم و ثقافت کو نقصان پہنچایا۔ اس کے بعد اس خطہ پر عثمانی ترک قابض ہوگئے اور1918تک یہ خطہ ان کے زیراثر رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ پر1920میں عراق کو برطانیہ کی تولیت میں دے دیا گیا اور انگریزوں نے شاہ فیصل اوّل کو عراق کا بادشاہ بنادیا، لیکن 10برس بعد ہی 1930میں عراق برطانوی تسلط سے آزاد ہوگیا۔ 14؍جولائی 1968کو ایک بار پھر انقلاب آیا۔ بادشاہت ختم کردی گئی اور’’احمد حسن البکر‘‘ نئے صدر بنے۔ اس کے بعد 1979میں صدام حسین عراق کے صدر بنے اور2003تک صدام کی حکومت قائم رہی۔ 20؍مارچ2003کو امریکہ نے اپنی اتحادی فوجوں کے ساتھ عراق پر حملہ کیا۔ 11؍اپریل2003کو بغداد پر امریکی فوجوں کا قبضہ ہوگیا اور13؍دسمبر2003کو صدام حسین گرفتار کرلئے گئے اور30؍دسمبر2006 کو امریکہ کے سابق صدر جارج بش کی ایما کے مطابق پھانسی پر چڑھا دئے گئے۔
اسی طرح اگر قدیم ہندوستان کی تاریخ اور طول و عرض کا ذکر کریں تو پاکستان و بنگلہ دیش ہی نہیں، افغانستان بھی ہندوستان کے نقشہ میں شامل رہا ہے، جس طرح برطانیہ نے عراق پر تسلط ختم ہونے کے اندیشہ کو ذہن میں رکھ کر کویت پر اپنا کنٹرول جاری رکھا، اسی طرح جب برطانیہ نے اچھی طرح سمجھ لیا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد حالات کچھ اس طرح پیدا ہوگئے ہیں کہ اب مزید ہندوستان پرقبضہ برقرار رکھنا ممکن نہیں رہ پائے گا تو جاتے جاتے دو قومی نظریہ کا شگوفہ چھوڑ کر ہندوستان کے بٹوارے کو عملی جامہ پہنا دیا۔ پاکستان کے موجودہ حالات اس بات کے غماز ہیں کہ جس طرح پہلی جنگ عظیم کے بعد جب عراق سے قبضہ چھوڑنا پڑا تو کویت پر اپنا قبضہ بنائے رکھا اور اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد جب ہندوستان کو آزاد کرنا مجبوری بنی تو تقسیم کی شکل میں پاکستان ایک ایسے ملک کی شکل میں وجود میں آیا، جہاں آج امریکی کنٹرول ہے۔ یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ ذہنیت کے اعتبار سے برطانیہ اور امریکہ میں کوئی فرق نہیں ہے اور اپنے مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ دونوں آج بھی اس معنی میں ایک ہیں، لہٰذا بیتے ہوئے کل میں جہاں برطانیہ کا کنٹرول تھا اور آج امریکہ کا کنٹرول ہے تو اس سے ان ممالک کے حالات پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر اسرائیل کے قیام پر نظر ڈالیں تو 1947میں ہندوستان آزاد ہوا اور1948میں اسرائیل کا وجود سامنے آیا، یعنی یہ سب ایک حکمت عملی کا حصہ ہے، جو صاف نظر آتا ہے مگر پھر بھی ہم اس طرف اپنی توجہ مرکوز نہیں کرپارہے ہیں۔ ہم جسے جمہوریت کی طرف بڑھتے قدم جیسے لفظوں سے تعبیر کررہے ہیں، دراصل یہ امریکی حکمرانی کا بڑھتا ہوا دائرہ ہے۔ پہلے صدام حسین کو راستہ سے ہٹا کر اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کی، بن لادن کا بہانہ بنا کر افغانستان پر تسلط قائم کیا، حامد کرزئی اور نوری المالکی کی شکل میں دونوں ممالک میں اپنی کٹھ پتلی سرکاریں قائم کیں، اس کے بعد حسنی مبارک جنرل قذافی جیسے حکمرانوں کے تختہ پلٹ کی بساط بچھائی، وہاں بھی اب امریکہ کی کٹھ پتلی سرکاریں قائم ہونے میں کوئی دیر نہیں۔۔۔!
امریکہ اپنے سفاتکاروں کی آڑ میں سی آئی اے کا ایک مضبوط جال بچھا رہاہے۔ اس طرف اگر بروقت توجہ نہ دی گئی تو بہت جلد امریکی حکمرانی کا دائرہ اس قدر بڑھ جائے گا کہ جنہیں آج آپ مسلم ممالک کی شکل میں دیکھ رہے ہیں، وہ سب آنے والے کل میں امریکہ اور برطانیہ کی چھوٹی چھوٹی کالونیاں ہوں گی۔ کل عرب کے پیٹرول پر ان بڑی طاقتوں کا قبضہ ہوگا۔ پاکستان جیسے ملک اپنا وجود کھو دیں گے اور ہندوستان جسے دہشت گردی کے ذریعہ خانہ جنگی کا شکار بنایا جارہا ہے، کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جائے گا۔ اگر ہم ریمنڈ ڈیوس(پاکستان)، ڈیوڈ کولمین ہیڈلی(ہندوستان)، جیسے سی آئی اے/ایف بی آئی کے ایجنٹوں کو سرسری طور پر لینا بند کردیں، طالبان اور لشکرطیبہ سے ان کے رشتوں کی تہہ تک جانے کی کوشش کریں، سی آئی اے کا طالبان اور ایف بی آئی کا لشکرطیبہ سے کتنا گہرا رشتہ ہے، یہ کتنی الگ الگ تنظیمیں ہیں اور اندرونی طور پر ان میں کتنا گہرا رشتہ ہے۔ اگر اس سچ کو جان لیں تو شاید ہم عرب ممالک پر بڑھتے امریکی تسلط کو بھی روک سکیں گے، پاکستان کو مزید تباہی سے بچا سکیں گے اور ان سب کے بعد ہندوستان کو لاحق خطرہ سے بھی نجات پاسکیں گے۔ اس ضمن میں ابھی بہت کچھ لکھے جانے کی ضرورت ہے، لیکن آج کی تحریر ختم کرنے سے قبل میں چاہتا ہوں کہ لندن سے جاری اور مختلف اخبارات میں شائع ایک خبر اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کردوں، تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ مندرجہ بالا عبارت کس حد تک حقائق کی روشنی میں ہے یا پھر محض ایک قیاس آرائی۔
’’گیلانی حکومت گرانے کے مشن پر تھا پاکستانیوں کا’ قاتل‘ امریکی ڈیوس‘‘
برطانیہ کے ایک اخبار کے مطابق ریمنڈامریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا ایجنٹ ہے۔ ایران کے پریس ٹی وی کے مطابق وہ نہ صرف سی آئی اے کا ایجنٹ تھا، بلکہ طالبان کے ساتھ اس کے تعلقات ہیں اور وہ پاکستان میں سبوتاژمشن یعنی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے ارادے سے بھیجا گیا ہے۔
اس انکشاف کے بعد پاکستان او رامریکہ کے بگڑتے تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس نے 27جنوری کو لاہور میں 2افراد کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا، اس کے بعد سے وہ پولیس حراست میں ہے۔
گارجین کے مطابق ڈیوس واقعہ کے وقت بھی ایک مہم پر ہی نکلا تھا۔ اخبار نے پاکستان کے سینئر انٹلی جنس افسرکے حوالے سے کہا کہ ڈیوس سی آئی اے کا ایجنٹ ہے اور اس میں اسے قطعی شبہ نہیں ہے۔
خیال کیا جارہا ہے کہ امریکی میڈیا کو بھی اس بات کی اطلاع ہے، لیکن وہ اس لئے خاموش ہیں کہ اس انکشاف سے ڈیوس نئے بحران کا شکار ہوسکتا ہے ۔
امریکہ میں کولوریڈوکے ایک ٹی وی چینل 9نیوز نے بھی ڈیوس کی اہلیہ سے گفتگو کرکے دعویٰ کیا کہ ڈیوس سی آئی اے کا ایجنٹ ہے، لیکن بعد میںیہ اطلاع ویب سائٹ سے ہٹا لی گئی۔ ٹی و ی کے ایگزیکٹیو پروڈیوسر نکول ویپ کے مطابق ایسا ڈیوس کی سیکورٹی کے سبب کیا گیا ہے، لیکن اطلاع مکمل طور پر درست ہے۔ پاکستان کے ایک اخبار نے سینئر پولیس افسر کے حوالے سے کہا کہ ڈیوس نے پوچھ گچھ میں تسلیم کیا ہے کہ وہ سی آئی اے کا ایجنٹ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پنجاب اور دیگر صوبوں میں امریکی جاسوسوں کا گروہ سرگرم ہے۔
ایران کے پریس ٹی وی سے بات چیت میں پاکستان کے ایک سینئر سیکورٹی صلاح کار زید حامد نے دعویٰ کیا کہ ڈیوس کے پاس سے برآمد ہوئے دستاویز ، فوٹو اور دیگر ثبوتوں سے صاف ہے کہ اس کے طالبان کے ساتھ تعلقات ہیں ۔ حامد کے مطابق اب یہ لاہور کی سڑکوں پر 2نوجوانوں کو گولی مارنے کا معاملہ نہیں رہ گیاہے۔ یہ پاکستان میں سبو تاژ کرنے کا منصوبہ اور سی آئی اے کے ذریعہ پاکستان میں کرائی جا رہی جاسوسی کامعاملہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

मिस्र, लीबिया, बहरीन, जम्हूरी अमल या अमेरिकी दख़ल
अज़ीज़ बर्नी

जानता हूं कि आज का लेख लिख कर मैं फिर एक बड़ी मुसीबत को निमंत्रण दे रहा हूं, परंतु क्या करूं जब एक बहुत बड़ी मुसीबत में पूरी क़ौम को गिरफ़्तार होते हुए देख रहा हूं तो चुप कैसे रहूं। ‘मिस्र’ मेरा देश नहीं है, ‘लीबिया’ और ‘बहरीन’ का नागरिक भी नहीं हूं मैं, मेरा देश तो भारत है और मेरी पहली चिंता भी भारत ही है, परंतु हम भारतीय किसी को परेशानी में देखते हैं तो उससे नज़रें नहीं फेर लेते बल्कि उसकी हर संभव सहायता करना अपना पहला दायित्व समझते हैं। बस समझ लीजिए कि इस समय एक ऐसे ही दायित्व का निर्वाह कर रहा हूं मैं और एक डर यह भी है कि कल यह आग हमारे दामन तक न पहुंच जाए।
सद्दाम हुसैन-हुसनी मुबारक - कर्नल क़ज़्ज़ाफ़ी अपने-अपने देश की पहचान माने जाते रहे हैं और इसमें भी कोई संदेह नहीं कि यह सभी अत्यंत शक्तिशाली शासक रहे हैं। सद्दाम हुसैन ने 24 वर्ष इराक़ पर शासन किया, हुसनी मुबारक ने 30 वर्ष और कर्नल क़ज़्ज़ाफ़ी ने 41 वर्ष। सद्दाम हुसैन की हत्या, हुसनी मुबारक की सत्ता से बेदख़ली और कर्नल क़ज़्ज़्ााफ़ी के विरूद्ध बग़ावत। शाह अब्दुल्ला बिन अब्दुल अज़ीज़ पर अमेरिकी नियंत्रण, कुवैत की अर्थ व्यवस्था पर अमेरिकी क़ब्ज़ा, इराक़ और अफ़ग़ानिस्तान में अमेरिकी कठपुतली शासक, ईरान में महमूद अहमदी नज़ाद सरकार को निरंतर धमकियां और जाॅर्डन जैसे देश अमेरिकी काॅलोनी का रूप धारण कर चुके हैं। बहरीन के हालात अब किसी से छुपे नहीं हैं। फ़लस्तीन की तबाही हमारी निगाहों के सामने है। रक्त रंजित पाकिस्तान अब इतना निर्बल तथा विवश हो चुका है कि अपने नागरिकों के हत्यारे रेमंड डेविस को किसी भी तरह की सज़ा देना तो दूर इस अमेरिकी ख़ुफ़िया एजेंसी सीआईए के एजेंट के विरुद्ध ज़ुबान खोलने के जुर्म में अपने विदेश मंत्री शाह मुहमूद क़ुरैशी को उनके पद से हटाने के लिए मजबूर हो चुका है।
बंग्लादेश जो कभी भारत का हिस्सा था, आज एक बेहैसियत देश बन कर रह गया है और इन सबके पीछे है केवल और केवल एक ताक़त अमेरिका। हम सब जानते हैं, परंतु ख़ामोश हैं, लाचार तथा बेबस हैं। अगर किसी का ध्यान इस ओर आकर्षित किया जाए तो एक ही उत्तर मिलता है आख़िर हम कर ही क्या सकते हैं? ह्न
वही निराशा भरा अंदाज़ एक जूलियन एसेंज विकीलिक्स के माध्यम से पूरी दुनिया में हलचल पैदा कर सकता है। एक डंर्ता नबामतइमतह फ़ेसबुक की ईजाद कर कम्युनिकेशन के ज़रिए नया इन्क़लाब ला सकता है जिसका सहारा लेकर एक युवती फ़ेसबुक के एक संदेश से हुसनी मुबारक की 31 वर्षीय सरकार का तख़्ता पलट सकती है और 150 करोड़ की आबादी वाली इस ़क़ौम में ऐसा एक भी नहीं जो इनका जवाब बन सके।
अरब देशों की सबसे बड़ी ताक़त है पैट्रोल जो परवरदिगारे आलम का एक वरदान है। बहुत तेज़ी से अब इस दौलत पर अमेरिका का क़ब्ज़ा होता जा रहा है परंतु सब चुप हैं कोई अमेरिका के विरुद्ध बोलने का साहस करता ही नहीं। कुवैत के इतिहास पर नज़र डालें तो यह हज़ारों वर्ष से ईराक़ का एक हिस्सा था। सातवीं शताब्दी में इराक़ के साथ-साथ कुवैत भी मुसलमानों की हुकूमत में शुमार किया गया। 20वीं शताब्दी तक तुर्की की ख़िलाफ़त-ए-उस्मानिया का एक हिस्सा रहा लेकिन प्रथम विश्वयुद्ध के बाद फ्ऱांस तथा ब्रिटैन ने ख़िलाफ़त-ए-उस्मानिया को समाप्त कर दिया और अरब देशों में अपनी कठपुतली सरकारें स्थापित कर दीं। इस तरह यह ज़मीन उनके क़ब्ज़े में आना शुरू हो गई। इराक़ भी ब्रिटैन शासन में शामिल हुआ, लेकिन शीघ्र ही ब्रिटैन को यह एहसास हो गया कि एक न एक दिन इस क्षेत्र को ख़ाली करना पड़ सकता है। इसलिए पेशबंदी के रूप में ब्रिटेन ने 1921 में कुवैत को स्वतंत्र राष्ट्र की हैसियत दी और जब 1932 में ब्रिटेन ने इराक़ से अपनी फ़ौजें हटाईं और अपनी कठपुतली सरकार क़ायम की तो तेल की सप्लाई जारी रखने के उद्देश्य से कुवैत को अपने अधीन रखा। 1945 में इराक़ को तो ब्रिटेन के क़ब्ज़े से आज़ादी प्राप्त हो गई, लेकिन कुवैत निरंतर उनके कंट्रोल में रहा। 1958 में इराक़ के शाही शासन का तख़्तापलट हुआ और फिर तख़्त पर क़ब्ज़ा करने वाले फ़ौजी जनरल अब्दुल करीम क़ासिम ने कुवैत को भी इराक़ में शामिल करने का प्रयास किया, लेकिन ब्रिटिश शासन के प्रतिरोध के कारण यह संभव नहीं हो सका। 1990 में सद्दाम हुसैन ने भी कुवैत को प्राप्त करने का प्रयास किया लेकिन यह संभव नहीं हो सका।
अगर इराक़ के इतिहास पर नज़र डालें तो उसकी महानता का क़ायल हर मुसलमान होगा। इराक़ वह देश है, जिसे नबियों तथा वलियों की धरती भी क़रार दिया जा सकता है। हमारे आख़री रसूल हज़रत मुहम्मद मुस्तफ़ा सल्लल्लाहो अलैहि वसल्लम के अलावा क़ुरआन-ए-करीम में जिन नबियों का उल्लेख है, उनमें से अधिकतर का संबंध इस धरती से रहा है। हज़रत नूह अलै॰, हज़रत इदरीस अलै॰, हज़रत ऊद अलै॰, हज़रत साॅलेह अलै॰, हज़रत इब्राहीम अलै॰, हज़रत इस्हाक़ अलै॰, हज़रत इस्माईल अलै॰, हज़रत शुऐब अलै॰, हज़रत याकूब अलै॰, हज़रत यूसुफ़ अलै॰, हज़रत मूसा अलै॰, हज़रत दाऊद अलै॰, हज़रत सुलैमान अलै॰, हज़रत ज़करिया अलै॰, हज़रत यहया अलै॰, हज़रत यूनुस अलै॰, हज़रत अय्यूब अलै॰, हज़रत इलियास अलै॰ का संबंध इसी धरती से रहा है।
ख़िलाफ़त के बादशाहत में परिवर्तित हो जाने के बाद इस्लामी दुनिया में जब उमवी सरकार कमज़ोर हो गई तो उस समय बनू अब्बास उठे और ‘उंदलुस’ को छोड़ कर सारे इस्लामी राज्यों पर क़ब़्ज़ा हो गया। तब उस समय के दूसरे शासक ‘अबू जाफ़ार मन्सूर’ ने आठवीं शताब्दी ईसवी में इराक़ की धरती पर एक भव्य नगर बग़दाद के नाम से निर्माण कराया और उसको अब्बासी सरकार की राजधानी बनाया।
जब दौलत-ए-अब्बासिया कमज़ोर हो गई और मुसलमानों का शीराज़ा बिखर गया उस समय सहराए गोबी (चीन के पास का बड़ा रेगिस्तानी क्षेत्र) से तातारी तूफ़ान उठा और बुख़ारा, समरकं़द, काशगर की इस्लामी शान को तबाह करता हुआ 1851 में इराक़ की ओर फिर गया और इस शहर की सभ्यता को नुक़्सान पहुंचाया। इसके बाद इस क्षेत्र पर उस्मानी तुर्क का क़ब्ज़ा हो गया और 1918 तक यह क्षेत्र उनके अधीन रहा। प्रथम विश्वयुद्ध की समाप्ति पर 1920 में इराक़ को ब्रिटेन के संरक्षण में दे दिया गया और अंग्रेज़ों ने शाह फ़ैसल प्रथम को इराक़ का बादशाह बना दिया, लेकिन 10 वर्ष बाद ही 1930 में इराक़ बरतानवी क़ब्ज़े से आज़ाद हो गया। 14 जुलाई 1968 को एक बार फिर क्रांति आई, बादशाहत समाप्त कर दी गई और अहमद हसन अल-बक्र नए राष्ट्रपति बने। उसके बाद 1979 में सद्दाम हुसैन इराक़ के राष्ट्रपति बने और 2003 तक सद्दाम की सरकार क़ायम रही। 2003 को अमेरिका ने अपने सहयोगी सैनिकों के साथ इराक़ पर हमला किया। 11 अप्रैल 2003 को बग़दाद पर अमेरिकी फ़ौजों का क़ब्ज़ा हो गया और 13 दिसम्बर 2003 को सद्दाम हुसैन गिरफ़्तार कर लिए गए और उनको अमेरिका के पूर्व राष्ट्रपति जाॅर्जबुश के इशारे के अनुसार फांसी पर चढ़ा दिया गया।
इसी तरह अगर प्राचीन भारत के इतिहास और इसकी सीमाओं की चर्चा करें तो पाकिस्तान तथा बंग्लादेश ही नहीं, अफ़ग़ानिस्तान भी भारत के नक़्शे में शामिल रहा है। जिस प्रकार ब्रिटेन ने इराक़ पर क़ब़्जा समाप्त होने की स्थिति को मन में रख कर कुवैत पर अपना नियंत्रण जारी रखा, उसी प्रकार जब ब्रिटेन ने अच्छी तरह समझ लिया कि द्वितीय विश्वयुद्ध के बाद हालात कुछ इस तरह पैदा हो गए हैं कि अब भारत पर और क़ब्ज़ा क़ायम रखना संभव नहीं रह पाएगा तो जाते-जाते दो-राष्ट्र की विचारधारा का शोशा छोड़ कर भारत के बटवारे को अमलीजामा पहना दिया। पाकिस्तान के मौजूदा हालात इस बात की दलील हैं कि जिस तरह प्रथम विश्वयुद्ध के बाद जब इराक़ से क़ब्ज़ा छोड़ना पड़ा तो कुवैत पर अपना क़ब्ज़ा बनाए रखा और इसी तरह द्वितीय विश्वयुद्ध के बाद जब भारत को आज़ाद करना मजबूरी बनी तो विभाजन के रूप में पाकिस्तान एक ऐसे देश के रूप में अस्तित्व में आया, जहां आज अमेरिकी नियंत्रण है। यहां यह स्पष्ट कर देना आवश्यक है कि मानसिकता की दृष्टि से ब्रिटैन और अमेरिका में कोई अंतर नहीं है और अपने हितों को ध्यान में रखते हुए यह दोनों आज भी इस अर्थ में एक हैं, इसलिए बीते हुए कल में जहां ब्रिटैन का कंट्रोल था और आज अमेरिका का नियंत्रण है तो उससे इन देशों के हालात पर कोई असर नहीं पड़ता। अगर इस्राईल की स्थापना पर नज़र डालें तो 1947 में भारत आज़ाद हुआ और 1948 में इस्राईल का अस्तित्व सामने आया। अर्थात यह सब एक रणनीति का हिस्सा है जो साफ़ नज़र आता है परंतु फिर भी हम इस ओर अपना ध्यान आकर्षित नहीं कर पा रहे हैं। हम जिसे लोकतंत्र की ओर बढ़ते क़दम जैसे शब्दों की संज्ञा दे रहे हैं दरअसल यह अमेरिकी शासकों का बढ़ता हुआ दायरा है। पहले सद्दाम हुसैन को रास्ते से हटाकर अपनी कठपुतली सरकार क़ायम की, बिन लादेन का बहाना बनाकर अफ़ग़ानिस्तान पर क़ब्ज़ा क़ायम किया, हामिद करज़ई और नूरी अल-मालिकी के रूप में दोनों देशों में अपनी कठपुतली सरकारें बनाईं उसके बाद हुसनी मुबारक, कर्नल क़ज़्ज़ाफ़ी जैसे शासकों के तख़्तापलट की बिसात बिछाई। वहां भी अब अमेरिका की कठपुतली सरकारें क़ायम होने में कोई देर नहीं। अमेरिका अपने राजनयिकों की आड़ में सीआईए का एक सशक्त जाल बिछा रहा है। इस ओर अगर समय रहते ध्यान न दिया गया तो अतिशीघ्र अमेरिकी शासन का दायरा इतना बढ़ जाएगा कि जिन्हें आज आप मुस्लिम देशों के रूप में देख रहे हैं, वह सब आने वाले कल में अमेरिका और ब्रिटेन की छोटी-छोटी कालोनियां होंगी। कल अरब के पैट्रोल पर इन बड़ी ताक़तों का क़ब्ज़ा होगा। पाकिस्तान जैसे देश अपना अस्तित्व खो देंगे और भारत जिसे आतंकवाद द्वारा गृहयुद्ध का शिकार बनाया जा रहा है, कमज़ोर से कमज़ोर होता चला जाएगा। अगर हम रेमंड डेविस (पाकिस्तान), डेविड कोलमैन हैडली (हिन्दुस्तान) जैसे सीआईए/एफ़बीआई के एजेंटों को सरसरीतौर पर लेना बंद कर दें, तालिबान और लशकर-ए-तैय्यबा से उनके संबंधों की तह तक जाने का प्रयास करें, सीआईए का तालिबान और एफ़बीआई का लशकर-ए-तैय्यबा से कितना घनिष्ट संबंध है, या कितने अलग-अलग संगठन हैं और आंतरिकरूप से इनमें कितना घन्ष्टि संबंध है, अगर इस सच को जान लें तो शायद हम अरब देशों पर बढ़ते अमेरिकी क़ब्ज़े को भी रोक सकेंगे पाकिस्तान को और अधिक तबाही से बचा सकेंगे और इस सबके बाद भारत को दरपेश ख़तरे से भी छुटकारा पा सकेंगे। इस सिलसिले में अभी बहुत कुछ लिखे जाने की आवश्यकता है, लेकिन आजका लेख समाप्त करने से पूर्व मैं चाहता हूं कि लंदन से जारी और विभिन्न समाचारपत्रों में प्रकाशित एक समाचार अपने पाठकों की सेवा में पेश कर दूं ताकि वह समझ सकें कि उपरोक्त पंक्तियां किस हद तक तथ्यों की रोशनी में हैं या फिर मात्र एक काल्पनिक चित्रण।
‘‘गिलानी सरकार गिराने के मिशन पर था पाकिस्तानियों का ‘हत्यारा’ अमेरिकी डेविस!’’
ब्रिटेन के एक अख़बार के अनुसार रेमंड अमेरिकी ख़ुफ़िया एजेंसी सी.आई.ए का एजेंट है। ईरान के प्रेस टीवी के अनुसार वह न केवल सी.आई.ए का एजेंट था बल्कि उसके तालिबान से भी संबंध हैं और वह पाकिस्तान में तोड़-फोड़ मिशन याने सरकार को अस्थिर करने के इरादे से भेजा गया है।
इस ख़ुलासे के बाद पाकिस्तान और अमेरिका के बिगड़ते संबंध और ख़राब हो सकते हैं। रेमंड डेविस ने 27 जनवरी को लाहौर में दो व्यक्तियों की गोली मार कर हत्या कर दी थी। इसके बाद से वह पुलिस हिरासत में है।
गार्जियन के अनुसार डेविस घटना के समय भी एक मुहिम पर ही निकला था। अख़बार ने पाकिस्तान के सीनियर इंटेलिजैंस अधिकारी के हवाले से कहा कि डेविस सी.आई.ए का एजेंट है और इसमें उन्हें बिलकुल संदेह नहीं है।
माना जा रहा है कि अमेरिकी मीडिया को भी इस बात की जानकारी है लेकिन वे इसलिए चुप हैं कि इस ख़ुलासे से डेविस पर नया संकट आ सकता है।
अमेरिका में कोलोरेडो के एक टीवी चैनल 9न्यूज़ ने भी डेविस की पत्नी से बात कर दावा किया कि डेविस सी.आई.ए का एजेंट है, लेकिन बाद में यह जानकारी वेबसाइट से हटा ली गई। टीवी के एक्जीक्यूटिव प्रोड्यूसर निकोल वैप के अनुसार ऐसा डेविस की सुरक्षा के कारण किया गया है, लेकिन जानकारी पूरी तरह सही है। पाकिस्तान के एक अख़बार ने वरिष्ठ पुलिस अधिकारी के हवाले से कहा कि डेविस ने पूछताछ में माना है कि वह सी.आई.ए का एजेंट है। उन्होंने कहा कि पाकिस्तान के पंजाब और दूसरे प्रांतो में अमेरिकन जासूसों का समूह सक्रिय है।
ईरान के प्रेस टीवी से चर्चा में पाकिस्तान के एक वरिष्ठ रक्षा सलाहकार जैद हामिद ने दावा किया कि डेविस के पास से मिले दस्तावेज़, फोटो और दूसरे सबूतों से साफ है कि उसके तालिबान से संबंध हैं। हामिद के अनुसार अब यह लाहौर की सड़कों पर दो युवकों को गाली मारने का मामला नहीं रह गया है। यह पाकिस्तान में तोड़-फोड़ करने की योजना और सी.आई.ए द्वारा पाकिस्तान में कराई जा रही जासूसी का मामला है।
....................................

Wednesday, February 23, 2011

مولانا ابوالکلام آزادـہندوستانی مسلمانوں کا آئینہ

عزیز برنی

اللّٰہ کا بڑا شکر اور احسان ہے کہ مہتمم دارالعلوم دیوبند کے موضوع پر اٹھا تنازع بغیر کسی ٹکراؤ کے ٹل گیا، اس کے لئے بھرپور مبارکباد کے مستحق ہیں مجلس شوریٰ کے تمام ممبران اور دیگر متعلقین۔ حالانکہ یہ مسئلہ پوری طرح حل ہوگیا یہ کہنا شاید ابھی قبل ازوقت ہوگا، اس لئے کہ ایک مہینہ کے اندر آنے والی رپورٹ کے بعد آخری شکل کیا رہتی ہی، اس کا انتظار رہے گا۔ تاہم خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ 23فروری011 کو ہونے والی مجلس شوریٰ کی میٹنگ، جس پر سارے ہندوستان کی نظر تھی، بغیر کسی ناخوشگوار واقعہ کے اختتام پذیر ہوئی اور جو بھی فیصلہ آیا وہ اتفاق رائے سے تھا۔ یہ فیصلہ کتنا اطمینان بخش ہی، اس بحث میں جانے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ یہ بہرحال شوریٰ کا فیصلہ ہے اور ہم سب کے لئے اتنا ہی کافی ہونا چاہئے کہ جن خدشات کے بارے میں سوچا جارہا تھا، ویسا کچھ نہیں ہوا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ طلبا اب اپنی توجہ پوری طرح اپنی پڑھائی پر مرکوز کرسکیں گی۔ انہیں کسی طرح کے تنازع یا آپسی ٹکراؤ کا شکار نہیں ہونا پڑے گا۔
گودھرا سانحہ پر سابرمتی سینٹرل جیل کی اسپیشل کورٹ کا فیصلہ نہ کوئی جیتا، نہ کوئی ہارا کی طرز پر دونوں طبقوںکو اپنے اپنے لئے اطمینان بخش نظر آنے والا ہی۔ جہاں ایک طبقہ اس بات کو لے کر مطمئن ہوسکتا ہے کہ 63ملزمین کو رہائی کا موقع ملا، جو بے گناہ ہوتے ہوئے بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھی، وہیں دوسرا طبقہ اس بات پر مطمئن ہوسکتا ہے یوسی بنرجی کمیشن کی رپورٹ نے سابرمتی ایکسپریس سانحہ کو حادثہ قرار دے دیا تھا، جبکہ اس فیصلہ نے اسے سازش قرار دیا ہی۔ بہرحال یہ ایک ایسا موضوع ہی، جس پر تفصیل کے ساتھ لکھنے کی ضرورت ہی۔ 27فروری002 کو سابرمتی ایکسپریس سانحہ کے فوراً بعد راقم الحروف نے گجرات کا دورہ کیا تھا۔ سابرمتی ایکسپریس میں سفر کررہے متاثرین سے ملاقات کی، واقعات کی وجہ جانی، واپسی کے بعد روزنامہ راشٹریہ سہارا کے انہیں صفحات پر تفصیلی رپورٹ شائع کی اور گجرات سانحہ کو مختلف زاویوں سے دیکھ کر تین الگ الگ کتابیں لکھیں، جن میں ’’داستان ہند‘‘ پوری طرح گجرات کے ان فسادات پر مبنی ہی، سابرمتی ایکسپریس سانحہ سمیت تقریباً تمام واقعات کی تفصیل اس میں درج ہی۔ ’’چشم دیدگواہ‘‘ بیسٹ بیکری کیس کو سامنے رکھ کر لکھی گئی اور ’’ردعمل‘‘ عصمت دری کی شکار بلقیس بانو کی روداد کو ایک ناول کی شکل دے کر گجرات کے حالات کی منظرکشی کرنے کی ایک کوشش تھی۔ سابرمتی سانحہ اور اسپیشل کورٹ کے اس فیصلہ کو سامنے رکھ کر جلد ہی ایک مکمل مضمون قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔
o مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کے زوال پذیر ہونی، پھر اس کے بعد لیبیا کے تشویشناک حالات اور بحرین کے بدلتے منظرنامہ کو سامنے رکھ کر بھی بہت کچھ لکھے جانے کی ضرورت ہی۔ اگر ہم صرف یہ محسوس کررہے ہیں کہ ان ممالک کے عوام آزادی کے طلبگار ہیں اور حکمرانوں کے خلاف بلند کی گئی یہ آواز ان ممالک میں جمہوری نظام کی طرف پیش قدمی کا عمل ہے تو شاید یہ مکمل سچ نہیں ہوگا۔ ہمیں بہت گہرائی کے ساتھ ان بدلتے حالات پر غور کرنا ہوگا۔ ان کے دوررس نتائج کو سمجھنا ہوگا۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ ان حالات میں ہمارا عمل کیا ہو۔ انشاء اللہ میری کل کی تحریر اسی موضوع پر ہوگی اور میری اپنے قارئین سے یہ درخواست بھی ہوگی کہ وقت نکال کر اس تحریر کو ضرور پڑھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی زیرنظر تحریر کسی ایک موضوع پر مبنی نہیں ہی، بلکہ اس درمیان جتنے بھی ایسے موضوعات میرے سامنے آئی، جن پر قلم اٹھانا ضروری تھا مگر وقت کی تنگی کے باعث یہ ممکن نہیں ہوسکا، ان تمام موضوعات کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئی، لہٰذا آج ان کا ضمناً ذکر کررہا ہوں، عین ممکن ہے کہ لکھتے لکھتے اور بھی کوئی بڑا معاملہ سامنے آجائے اور اس پر بھی لکھنا ضروری ہو، لیکن جن موضوعات کی نشاندہی میں آج کی اس تحریر میں کررہا ہوں، انشاء اللہ ان سب پر سیرحاصل گفتگو ہوگی، اس لئے کہ ان میں سے کوئی بھی موضوع ایسا نہیں ہی، جس پر چند جملے لکھ کر بات کو ختم کردیا جائی۔
گزشتہ ہفتہ بدایوں اور بجنور میں امن کانفرنسیں منعقد کی گئیں۔ لاکھوں کی تعداد میں امن پسندوں نے اس میں شرکت کی۔ اسی درمیان مہتمم دارالعلوم دیوبند کے موضوع پر اٹھا تنازع تو اخبارات میں جگہ پاتا رہا، لیکن مسلم اداروں کے ذریعہ اسلامی بینر کے پرچم تلے اتنے بڑے پیمانہ پر منعقد کی جانے والی امن کانفرنسوں کو میڈیا میں اتنی جگہ نہیں ملی، جتنی کہ ملنی چاہئے تھی اور اگر میں اس وقت یہ لکھ دوں کہ ان بامقصد کانفرنسوں میں شرکت کرنے والوں کے علاوہ شاید ہندوستان کے عوام اس بارے میں کچھ خاص جان نہیں پائے کہ آخر وہاں گفتگو کیا ہوئی تھی، اس کا مقصد کیا تھا تو غلط نہیں ہوگا۔ میں اس موضوع پر بھی ایک مکمل مضمون لکھنا چاہتا ہوں، جو کہ جلد ہی انشاء اللہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔
آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے وزیراعظم ہند ڈاکٹر منموہن سنگھ کو خط لکھ کر بتایا کہ کرنل پروہت تو ان کی جان لینا چاہتا تھا۔ میں نے اس چارج شیٹ کی متعدد جانکاریوں کا بغور مطالعہ کیا ہی، جن میں یہ درج ہے کہ اندریش اور موہن بھاگوت کو مارنے کا ارادہ تھا اور اگر ہمارے قارئین کو یاد ہو تو میں نے اپنے اسی قسطوار کالم میں ایک مضمون لکھ کر یہ بھی واضح کیا تھا کہ بالفرض محال اگر ایسا ہوجاتا تو کیا ہوتا، ملک کو کن حالات سے گزرنا پڑتا، الزام کس پر آتا اور کون سب سے زیادہ دقتوں، پریشانیوں کا سامنا کرتا۔ کرنل پروہت کا نام تو شاید قاتل کی شکل میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ اس وقت میرے سامنے ہے وزیراعظم کو لکھے گئے موہن بھاگوت کے خط کا مواد اور جہاں یہ درج ہے کہ کرنل پروہت موہن بھاگوت اور اندریش کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، وہیں اور جو کچھ درج ہی، یقینا یہ خط پڑھنے سے قبل وہ سب بھی بھاگوت جی کی نظروں سے گزرا ہوگا۔ ضروری ہے کہ دیگر ضروری باتیں بھی وزیراعظم کے سامنے رکھی جائیں، تاکہ وہ جناب موہن بھاگوت اور اندریش جی کی حفاظت کا مکمل انتظام تو کریں ہی، ملک کی حفاظت کے لئے اور کیا کیا احتیاط درکار ہی، اس پر بھی غور کرلیں۔
22فروری یوم وفات ہے مولانا ابوالکلام آزاد کا۔ تقریباً پورے ہفتہ اس موضوع پر سیمینار، کانفرنسیں ملک بھر میں منعقد کی گئیں۔ ایسے تین پروگراموں میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ پہلا 18فروری 2011کومولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں ماس میڈیا اسٹوڈنٹس سے خطاب، اس کے اگلے روز پریادرشنی کالج، نام پلی حیدرآباد میں کل ہند اردو تعلیمی کمیٹی کے ذریعہ منعقد کی جانے والی کانفرنس ومشاعرہ اور کل 22فروری کو آندھربھون دہلی میں منعقد کئے گئے سیمینار میں شرکت۔ تمام شرکا کے اظہارخیال کو یہاں قلمبند کرنا ممکن نہیں ہی، رپورٹ کی شکل میں بہت کچھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاچکا ہی، لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جو خبروں کی شکل میں پیش نہیں کی جاسکی ہیںاور ان کا قارئین تک پہنچنا بیحد ضروری ہی۔ آندھرابھون دہلی میں تقریر کرتے ہوئے مولانا آزاد کی شخصیت پر میں نے جو چند جملے ادا کئی، میں انہیں ہندوستان بھر میں اپنے قارئین تک پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں۔ مقررین نے مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کو کسی محدود دائرہ میں قید نہ کئے جانے پر زور دیا، میں نے ان کی رائے سے اتفاق ظاہر کرنے کے باوجود اس میں کچھ اضافہ کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ ہندوستانی مسلمان آج اپنی شناخت کو لے کر بیحد پریشان اور فکرمند ہیں۔ جب جس کا جی چاہتا ہی، اس کی شناخت کسی سے بھی وابستہ کردیتا ہی۔ کبھی اس کی شناخت بن لادن سے جوڑ دی جاتی ہی، کبھی داؤد ابراہیم سے تو کبھی ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان کا ہمنوا قرار دے دیا جاتا ہی، جبکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ تقسیم وطن کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے اگر کوئی ایک ایسا چہرہ تھا، جسے وہ اپنا نمائندہ تسلیم کرتے تھے اور جس کی قیادت میں رہ جانے کو انہوں نے فوقیت دی محمد علی جناح پرتو وہ مولانا آزاد کا چہرہ تھا۔ جو آواز اس وقت کے ہندوستانی مسلمان کے ذہن میں گونجتی تھی، وہ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر کی گئی مولانا ابوالکلام آزاد کی وہ تقریر تھی، جس میں انہوں نے مذہب کے نام پر بنے پاکستان کے مقابلہ سیکولر ہندوستان کو مسلمانوں کے حق میں قرار دیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب بیشتر مسلمان پاکستان جانے کے لئے تیاریاں مکمل کرچکے تھی۔ گویا انہوں نے اپنے بستر باندھ لئے تھی، مگر مولانا آزاد کی اس تقریر کے بعد انہوں نے ہندوستان کو اپنا ملک تسلیم کیا اور ہندوستان کو چھوڑ کر نہ جانے کا فیصلہ کیا، یعنی اپنے بستر کھول لئی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نہیں چاہتے تھے کہ ملک کی تقسیم ہو، مولانا ابوالکلام آزاد فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے علمبردار تھی۔ وہ ہندوستان کے پہلے وزیرتعلیم ہی نہیں، ہندوستان کی اس سیاست اور صحافت کے لئے ایک مشعل راہ ہیں، لہٰذا ہندوستانی مسلمان کی شناخت اگر مولانا ابوالکلام آزاد کی شناخت سے ہم آہنگ کردی جائے تو پھر کوئی ان سے یہ سوال نہیں کرسکے گا کہ تمہیں تمہارا ملک پاکستان کی شکل میں مل چکا ہے یا تم پاکستان سے ہمدردی یا محبت رکھتے ہو، اس لئے کہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان نے تو947میں ہی یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ ان کا ملک ہندوستان ہے اور انہیں ہندوستان میں ہی رہنا ہی۔ اگر کوئی چہرہ ان کے سامنے تھا، جس سے وہ متاثر تھی، جسے اپنا قائد تسلیم کرتے تھی، جس کی رہنمائی میں انہیں اپنا مستقبل نظر آتا تھا تو وہ مولانا ابوالکلام آزاد ہی کا چہرہ تھا اور اسی چہرہ کو ان کی شناخت قرار دیا جاسکتا ہی، لہٰذا پھر کس طرح بن لادن یا داؤد ابراہیم کے چہروں میں ہندوستانی مسلمان کا چہرہ دیکھا جاسکتا ہی۔ تاریخ شاہد ہے کہ اگر ان کے چہرے کا کوئی آئینہ تھا یا ہے تو وہ مولانا ابوالکلام آزاد تھی۔
میں نے روزنامہ راشٹریہ سہارا کی صحافت کا ذکر کرتے ہوئے حوالہ پیش کیا ’’الہلال اور البلاغ‘‘ کی صحافت کا۔ میں نے عرض کیا کہ آج بھی جب میں لکھتا ہوں تو میرے اداریے اس مقصد سے متاثر ہوتے ہیں، جو مقصد مولانا ابوالکلام آزاد کا تھا۔ بیشک آج حالات ذرا بدل گئے ہیں، اس وقت جب مولانا ابوالکلام آزاد اپنے مضامین لکھنے کے لئے قلم اٹھاتے تھے تو انگریزوں کی غلامی سے نجات ان کے قلم کا مقصد ہوتا تھا اور آج جب میں قلم اٹھاتا ہوں تو حق اور انصاف کی حصولیابی میرے قلم کا مقصد ہوتی ہی۔ مجھے یہ انصاف ادھورا انصاف نظر آتا ہی، جہاں 9برس تک سزا کاٹنے کے بعد 63ملزمین کو یہ کہہ کر رہا کردیا جائے کہ جاؤ تمہاری کوئی خطا نہیں تھی۔ کیا ان کے خوبصورت 9برسوں کو ایک کربناک، شرمناک قید میں تبدیل کرنے والوں سے کوئی بازپرس نہیں کی جانی چاہئی؟ یہ محض ایک واقعہ ہی، جس کو بطور مثال میں یہاں پیش کررہا ہوں۔ یہ تنہا معاملہ نہیں ہی۔ بات کلیم حیدرآباد ی کی رہائی کی ہو یا مالیگاؤں بم دھماکہ کے ملزمین کی، جو رہائی کے منتظر ہیں، انہیں مکمل انصاف دلانا اگر اس قلم کی ذمہ داری ہی، جسے روشنی ملی مولانا ابوالکلام آزاد سے تو اس قوم کی بھی ذمہ داری ہے جس نے بیتے ہوئے کل میں مولانا ابوالکلام آزاد کی آواز میں آواز ملا کر ملک کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلائی، آج اسی قوم کو ملک کو دہشت گردی اور فرقہ وارانہ کشیدگی سے نجات دلانے کے لئے آگے آنا ہوگا۔ حق اور انصاف کی اس جنگ کو مذہب اور ذات سے اوپر اٹھ کر ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لئے لڑنا ہوگا اور ثابت کرنا ہوگا کہ ہمارے چہروں میں مولانا ابوالکلام آزاد کا چہرہ نظر آئی۔

मौलाना अबुलकलाम आज़ाद-हिन्दुस्तानी मुसलमानों का आईना
अज़ीज़ बर्नी

अल्लाह का बड़ा शुक्र और एहसान है कि मुहतमिम दारुलउलूम देवबंद के विषय पर उठा विवाद बिना किसी टकराव के टल गया। इसके लिए भरपूर मुबारकबाद के पात्र हैं मजलिस-ए-शूरा के सभी सदस्यगण तथा अन्य संबंधित व्यक्ति। हालंाकि यह मसला पूरी तरह हल हो गया, यह कहना शायद अभी असमय होगा, इसलिए कि एक महीने के अंदर आने वाली रिपोर्ट के बाद अंतिम स्थिति क्या रहती है, इसकी प्रतीक्षा रहेगी। फिर भी प्रसन्नता एवं संतोष की बात यह है कि 23 फरवरी 2011 को होने वाली मजलिस-ए-शूरा की बैठक, जिस पर पूरे भारत की नज़र लगी थी, बिना किसी अप्रिय घटना के सम्पन्न हुई और जो भी फ़ैसला आया वह सर्वसम्मति से था, यह फ़ैसला कितना संतोषजनक है, इस बहस में जाने की आवश्यकता इसलिए नहीं कि यह बहरहाल शूरा का फ़ैसला है और हम सब के लिए इतना ही काफ़ी होना चाहिए कि जिन आशंकाओं के बारे में सोचा जा रहा था, वैसा कुछ नहीं हुआ। उम्मीद की जा सकती है कि छात्र अब अपना ध्यान पूरी तरह अपनी शिक्षा पर केंद्रित कर सकेंगे। उन्हें किसी प्रकार के विवाद या आपसी टकराव का शिकार नहीं होना पड़ेगा।
गोधरा त्रासदी पर साबरमती सेंट्रल जेल की विशेष न्यायालय का फ़ैसला न कोई जीता न कोई हारा की तर्ज़ पर दोनों समुदायों को अपने अपने लिए संतोषजनक नज़र आने वाला है। जहां एक वर्ग इस बात को लेकर संतुष्ट हो सकता है कि 63 अभियुक्तों को रिहाई का अवसर मिला, जो बेगुनाह होते हुए भी जेल की सलाख़ों के पीछे थे। वहीं दूसरा वर्ग इस बात पर संतुष्ट हो सकता है कि यूसी बनर्जी कमीशन की रिपोर्ट ने साबरमती एक्सप्रेस त्रासदी को दुर्घटना क़रार दे दिया था, जबकि इस फ़ैसले ने इसे षड़यंत्र क़रार दिया है। बहरहाल यह एक ऐसा विषय है, जिस पर विस्तार के साथ लिखने की आवश्यकता है। 27 फरवरी 2002 को साबरमती एक्सप्रेस त्रासदी के तुरंत बाद लेखक ने गुजरात की यात्रा की थी। साबरमती एक्सप्रेस में यात्रा कर रहे पीड़ितों से मुलाक़ात की, घटना का कारण जाना, वापसी के बाद रोज़नामा राष्ट्रीय सहारा के इन्हीं पृष्ठों पर विस्तृत रिपोर्ट प्रकाशित की और गुजरात त्रासदी को विभिन्न दृष्टिकोण से देख कर तीन अलग-अलग पुस्तकें लिखीं, जिनमें ‘दास्तान-ए-हिदं’ पूर्ण रूप से गुजरात के उन दंगों पर आधारित है, साबरमती एक्सप्रेस त्रासदी सहित लगभग सभी घटनाओं का विवरण इस में दर्ज है। ‘चश्मदीद गवाह’ बेस्ट बैकरी केस को सामने रख कर लिखी गई और ‘रद्देअमल’ (प्रतिक्रिया) बलात्कार की शिकार बिलक़ीस बानो की रूदाद को एक नाॅवेल का रूप देकर गुजरात के हालात का चितरण करने का एक प्रयास था। साबरमती एक्सप्रेस त्रासदी और विशेष न्यायालय के इस फ़ैसले को सामने रख कर शीघ्र ही एक पूरा लेख पाठकों की सेवा में पेश किया जाएगा।
मिस्र में हुसनी मुबारक सरकार के पतन, फिर उसके बाद लीबिया की चिंताजनक स्थिति और बहरीन के बदलते परिदृश्य को सामने रख कर भी बहुत कुछ लिखने की आवश्यकता है। अगर हम केवल यह महसूस कर रहे हैं कि इन देशों की जनता आज़ादी की इच्छुक है और शासकों के विरुद्ध उठाई गई यह आवाज़ उन देशों में लोकतांत्रिक व्यवस्था की ओर आगे बढ़ने की प्रक्रिया है तो शायद यह पूर्ण सच नहीं होगा। हमें बहुत गहराई के साथ इन बदलते हालात पर विचार करना होगा। उनके दूरगामी परिणामों को समझना होगा। साथ ही यह भी तय करना होगा कि इन हालात में हमारा अमल क्या हो। इन्शाअल्लाह मेरा कल का लेख इसी विषय पर होगा और मेरा अपने पाठकों से यह निवेदन भी होगा कि समय निकाल कर इस लेख को अवश्य पढ़ें। यही कारण है कि आज का यह लेख किसी एक विषय पर आधारित नहीं है, बल्कि इस बीच जितने भी ऐसे विषय मेरे सामने आए, जिन पर क़लम उठाना आवश्यक था, परंतु समय के अभाव के कारण यह संभव नहीं हो सका, इन सभी विषयों को नज़रअंदाज़ नहीं किया जाना चाहिए। इसलिए आज मैं उनका आंशिक रूप से उल्लेख कर रहा हूं। अतिसंभव है कि लिखते-लिखते और भी कोई बड़ा मामला सामने आ जाए और उस पर भी लिखना आवश्यक हो। लेकिन जिन विषयों को चिन्हित मैं आज के इस लेख में कर रहा हूं इन्शाअल्लाह उन सब पर भरपूर गुफ़्तगू होगी। इसलिए कि इनमें से कोई भी विषय ऐसा नहीं है जिस पर कुछ वाक्य लिख कर बात समाप्त कर दी जाए।
पिछले सप्ताह बदायूं और बिजनौर में शांति सम्मेलन आयोजित किए गए, लाखों की संख्या में शंतिप्रिय लोगों ने इसमें भाग लिया। इसी बीच मुहतमिम दारुलउलूम देवबंद के विषय पर उठा विवाद तो समाचारपत्रों में स्थान पाता रहा, लेकिन मुस्लिम संस्थाओं द्वारा इस्लामी बैनर तले इतने बड़े पैमाने पर आयोजित किए जाने वाले सम्मेलनों को मीडिया में उतना स्थान नहीं मिला, जितना कि मिलना चाहिए था और अगर मैं इस समय यह लिख दूं कि इन सार्थक सम्मेलनों में भाग लेने वालों के अलावा शायद भारत की जनता इस बारे में कुछ ख़ास जान नहीं पाई कि आख़िर वहां गुफ़्तगू क्या हुई थी, इसका उद्देश्य क्या था तो ग़लत नहीं होगा। मैं इस विषय पर भी एक पूरा लेख लिखना चाहता हूं जोकि शीघ्र ही इन्शाअल्लाह आपकी सेवा में पेश किया जाएगा।
आरएसएस के सरसंघचालक मोहन भागवत ने प्रधानमंत्री डा॰ मनमोहन सिंह को पत्र लिख कर बताया कि कर्नल पुरोहित तो उनके प्राण लेना चाहता था। मैंने उस चार्जशीट की विभिन्न जानकारियों का गहन अध्ययन किया है जिनमें यह दर्ज है कि इंद्रेश और मोहन भागवत को मारने का इरादा था और अगर हमारे पाठकों को याद हो तो मैंने अपने इसी क़िस्तवार काॅलम में एक लेख लिख कर यह भी स्पष्ट किया था कि अगर यह मान लिया जाए कि अगर ऐसा होता तो क्या होता, देश को किन हालात से गुज़रना पड़ता, आरोप किस पर आता और कौन सबसे अधिक दिक़्क़तों, कठिनाइयों को सामना करता। कर्नल पुरोहित का नाम तो शायद हत्यारे के रूप में किसी के सानगुमान में भी नहीं होता। इस समय मेरे सामने है प्रधानमंत्री को लिखे गए मोहन भागवत के पत्र का मैटर और जहां यह दर्ज है कि कर्नल पुरोहित मोहन भागवत और इंद्रेश की हत्या करने का इरादा रखता था, वहीं और बहुत कुछ दर्ज है, निश्चय ही यह पत्र पढ़ने से पूर्व वह सब भी भागवत जी की नज़रों से गुज़रा होगा। ज़रूरी है कि अन्य आवश्यक बातें भी प्रधानमंत्री के सामने रखी जाएं, ताकि वह श्री मोहन भागवत और इंद्रेश जी की सुरक्षा की सम्पूर्ण व्यवस्था तो करें ही, देश की सुरक्षा के लिए और क्या-क्या सावधानी दरकार है, उस पर विचार कर लें।
22 फरवरी को बरसी होती है मौलाना अबुलकलाम आज़ाद की। लगभग पूरे सप्ताह इस विषय पर गोष्ठियां, सम्मेलन देश भर में आयोजित किए गए। ऐसे तीन कार्यक्रम में मुझे भी भाग लेने का अवसर मिला। पहला 18 फ़रवरी 2011 को मौलाना आज़ाद नेशनल उर्दू यूनिवसर्टी हैदराबाद में मास मीडिया स्टूडेंट से संबोधन, उसके अगले दिन प्रियदर्शनी काॅलेज, नामपल्ली हैदराबाद में अखिल भारतीय उर्दू तालीमी कमेटी द्वारा आयोजित किया जाने वाला सम्मेलन व मुशायरा और कल 22 फ़रवरी को आंध्र भवन, दिल्ली में आयोजित किए गए सेमिनार में उपस्थित सभी वक्ताओं द्वारा प्रकट विचारों को यहां दर्ज करना तो संभव नहीं है, रिपोर्ट के रूप में बहुत कुछ पाठकों की सेवा में पेश किया जा चुका है, लेकिन कुछ बातें ऐसी हैं जो समाचारों के रूप में पेश नहीं की जा सकी हैं, और उनका पाठकों तक पहुंचना अत्यंत आवश्यक है। आंध्र भवन दिल्ली में भाषण देते हुए मौलाना आज़ाद के व्यक्तित्व पर मैंने जो कुछ वाक्य कहे, मैं उन्हें भारत भर में अपने पाठकों तक पहुंचाना ज़रूरी समझता हूं। वक्ताओं ने मौलाना आज़ाद के व्यक्तित्व को किसी सीमित दायरे में क़ैद न किए जाने पर बल दिया, मैंने उनके विचार से सहमति प्रकट करने के बावजूद इसमें कुछ वृद्धि करने की ज़रूरत महसूस की। भारतीय मुसलमान आज अपनी पहचान को लेकर अत्यंत परेशान और चिंतित हैं। जब जिसका जी चाहता है, उसकी पहचान किसी से भी जोड़ देता है। कभी उसकी पहचान बिन लादेन से जोड़ दी जाती है, कभी दाऊद इब्राहीम से तो कभी भारतीय मुसलमानों को पाकिस्तान का समर्थक क़रार दे दिया जाता है, जबकि यह ऐतिहासिक तथ्य है कि देश के विभाजन के बाद भारतीय मुसलमानों के सामने अगर कोई एक ऐसा चेहरा था, जिसे वह अपना प्रतिनिधि स्वीकार करते थे और जिसके नेतृत्व में रह जाने को उन्होंने वरीयता दी मुहम्मद अली जिन्ना पर तो वह मौलाना आज़ाद का चेहरा था। जो आवाज़ उस समय के भारतीय मुसलमानों के मन में गूंजती थी वह जामा मस्जिद की सीढ़ियों पर खड़े होकर किया गया मौलाना अबुलकलाम आज़ाद का वह भाषण था जिसमें उन्होंने धर्म के नाम पर बने पाकिस्तान के मुक़ाबले धर्मनिर्पेक्ष भारत को मुसलमानों के हक़ में क़रार दिया था। यह वह समय था जब अधिकतर मुसलमान पाकिस्तान जाने के लिए तैयारियां पूरी कर चुके थे। गोया उन्होंने अपने बिस्तर बांध लिए थे, परंतु मौलाना आज़ाद के इस भाषण के बाद उन्होंने भारत को अपना देश स्वीकार किया और भारत को छोड़ कर न जाने का फ़ैसला किया, अपने बिस्तर खोल दिए। मौलाना अबुलकलाम आज़ाद नहीं चाहते थे कि देश का विभाजन हो, मौलाना अबुलकलाम साम्प्रदायिक सदभावना के अगुवा थे। वह भारत के पहले शिक्षा मंत्री ही नहीं, भारत की राजनीति और पत्रकारिता के लिए एक मशअल-ए-राह हैं, इसलिए कि भारतीय मुसलमानों की पहचान अगर मौलाना अबुलकलाम आज़ाद की पहचान से जोड़ दी जाए तो फिर कोई उनसे यह प्रश्न नहीं कर सकेगा कि तुम्हें तुम्हारा देश पाकिस्तान के रूप में मिल चुका है या तुम पाकिस्तान से सहानुभूति अथवा प्रेम रखते हो, इसलिए कि भारत में रह जाने वाले मुसलमानों ने तो 1947 में ही यह फ़ैसला कर लिया था कि उनका देश भारत है और उन्हें भारत में ही रहना है। अगर कोई चेहरा उनके सामने था, जिससे वह प्रभावित थे, जिसे अपना नेता मानते थे, जिसकी अगुवाई में उन्हें अपना भविष्य नज़र आता था तो वह मौलाना अबुलकलाम आज़ाद ही का चेहरा था और उसी चेहरे को उनकी पहचान क़रार दिया जा सकता है। इसलिए फिर किस तरह बिन लादेन या दाऊद इब्राहीम के चेहरों में भारतीय मुसलमान का चेहरा देखा जा सकता है। इतिहास गवाह है कि अगर उनके चेहरे का कोई आईना था या है तो वह मौलाना अबुलकलाम आज़ाद थे।
मैंने रोज़नामा राष्ट्रीय सहारा की पत्रकारिता की चर्चा करते हुए हवाला पेश किया ‘अल-हिलाल और अल-बलाग़’ की पत्रकारिता का। मैंने अर्ज़ किया कि आज भी जब मैं लिखता हूं तो मेरे सम्पादकीय उस उद्देश्य से प्रभावित होते हैं, जो उद्देश्य मौलाना अबुलकलाम आज़ाद का था। निःसंदेह आज हालात ज़रा बदल गए हैं, उस समय जब मौलाना अबुलकलाम आज़ाद अपना लेख लिखने के लिए क़लम उठाते थे तो अंग्रेज़ों की ग़्ाुलामी से छुटकारा उनके क़लम का उद्देश्य होता था और जब मैं क़लम उठाता हूं तो हक़ व इन्साफ़ की प्राप्ति मेरे क़लम का उद्देश्य होता है। मुझे यह इन्साफ़ अधूरा इन्साफ़ नज़र आता है, जहां 9 वर्ष तक सज़ा काटने के बाद 63 अभियुक्तों को यह कह कर रिहा कर दिया जाए कि जाओ तुम्हारी कोई ख़ता नहीं थी, क्या उनके ख़ूबसूरत 9 वर्षों को एक पीड़ादायक, लज्जापूर्ण क़ैद में परिवर्तित करने वालों से कोई जवाब तलब नहीं किया जाना चाहिए, यह मात्र एक घटना है, जिसको मिसाल स्वरूप यहां पेश कर रहा हूं। यह अकेला मामला नहीं है बात कलीम हैदराबादी की रिहाई की हो या मालेगांव बम धमाका के अभियुक्तों की, जो रिहाई की प्रतीक्षा कर रहे हैं, उन्हें पूर्ण न्याय दिलाना अगर इस क़लम की ज़िम्मेदारी है, जिसे रोशनी मिली मौलाना अबुलकलाम आज़ाद से तो इस क़ौम की भी ज़िम्मेदारी है जिसने बीते हुए कल में मौलाना अबुलकलाम आज़ाद की आवाज़ में आवाज़ मिलाकर देश को अंगे्रेज़ों की ग़ुलामी से निजात दिलाई, आज उसी क़ौम को देश को, आतंकवाद और साम्प्रदायिक तनाव से निजात दिलाने के लिए आगे आना होगा। हक़ और इन्साफ़ की इस जंग को धर्म तथा जाति से ऊपर उठ कर देश तथा क़ौम की उन्नति के लिए लड़ना होगा और सिद्ध करना होगा कि हमारे चेहरों में मौलाना अबुलकलाम आज़ाद का चेहरा नज़र आए।
................................

Monday, February 21, 2011

ذکر سیرتِ رسولـصلح حدیبیہ کی روشنی میں

عزیز برنی

گزشتہ شب جلسہ سیرت النبیؐ ہندوستان کے تاریخی شہر حیدرآباد کے مغل پورہ میدان میں، انعقاد مجلس بچاؤ تحریک کے فعال کارکنان کے ذریعہ۔ اسٹیج کا منظر گویا آپ ہندوستان کے کسی شہر میں نہیں،بلکہ مدینہ منورہ میں واقع مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھ کر جشن ولادت باسعادت رسول اکرم حضرت محمدؐ کی تقریب میں شرکت کرنے کا شرف حاصل کررہے ہیں۔ اس عظیم الشان محفل میں جہاں مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے جید علمائے دین تشریف فرما تھے اور اپنی بصیرت افروز تقاریر سے ایک جم غفیر کو فیضیاب کررہے تھی، وہاں ایک صحافی کی موجودگی اور اسے اظہارخیال کے لئے دعوت دینا خود اپنے آپ میں اردو صحافت کے لئے فخر کی بات ہی۔ مجھے نہیں معلوم کس حد تک میں نے اس موضوع سے انصاف کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا، لیکن اس جلسہ کا ایک قابل ذکر پہلو یہ بھی تھا کہ اس جلسہ کے بانی جناب امجداللہ کے ذریعہ خصوصی مدعوئین میں شہر حیدرآباد کے نوجوان عبدالکلیم بھی موجود تھی، جنہوں نے اپنے عمل سے اسیمانند کی ذہن سازی میں تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا۔ یہ لمحہ میرے لئے اس لحاظ سے ایک یادگار لمحہ تھا کہ مدعوئین نے عبدالکلیم کو اعزاز سے نوازے جانے کے لئے گل پوشی اور شال پوشی کے لئے میرا انتخاب کیا تھا۔ بس یہی میری تقریر کا موضوع تھا، اس لئے کہ میں سیرت رسولؐ کو اپنی زندگی کا آئینہ بناکر ایک تاریخ رقم کرنے والے شخص کو دیکھ رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا گزشتہ0-25برسوں میں ہزاروں بار لوگوں کے ذریعہ ہار پہنائے جانے پر مجھے اتنی خوشی کا احساس نہیں ہوا، جتنا کہ آج اس نوجوان کو ہار پہنانے پر خوشی کا احساس ہو رہا ہی۔ مجھے نہیں معلوم عبدالکلیم کا ماضی کیا ہی، مجھے نہیں معلوم عبدالکلیم کا مستقبل کیا ہوگا، میرے سامنے صلح حدیبیہ کا مفہوم ہی، عبدالکلیم کی شخصیت ہی، سوامی اسیمانند کا اعتراف ہی، اس کے بعد ہندوستانی معاشرہ کا بدلا ہوا منظرنامہ ہی۔ بس اسی کو مرکزی خیال بنایا میں نے اپنی تقریر کا اور جو چند جملے اس باوقار باسعادت محفل میں ادا کئی، ان میں سے چند اپنے قارئین کی نظر کرنے جارہا ہوں۔
سرزمین عرب کو یہ شرف حاصل ہے کہ جب دنیا جہالت کے دور سے گزررہی تھی تب پروردگار عالم نے اپنے آخری رسول حضرت محمد مصطفیؐ کی تشریف آوری کے لئے اس زمین کا انتخاب کیا اور آپؐ پر دنیائے فانی میں روزِآخر تک باقی رہنے والا معجزہ یعنی قرآن کریم نازل فرمایا اور آپؐ نے اپنی سیرت سے سرزمین عرب کو وہ اسلامی ماحول دیا، جس کا اس سے پہلے اس زمین پر تصور بھی محال تھا۔ آپؐ نے اسلام کی دعوت دینے سے قبل خود سچائی، شرافت اور ایمانداری کی نظیر پیش کی، جس نے عرب ذہن کو متاثر کیا اور دیکھتے دیکھتے ہی اسلام اس زمین پر رہنے والوں کا مذہب بن گیا ہی،وہ اتحاد واخوت اور انسانیت کا درس دیا، جس کی روشنی ساری دنیا تک پہنچی اور لوگ اس کی طرف راغب ہوتے چلے گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج محض 1400برسوں میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب اسلام ہی، جس کے ماننے والوں کی تعداد تقریباً50کروڑ ہی۔حضور اکرمؐ کی تشریف آوری سے قبل سارا عالم دورِجاہلیت سے گزررہا تھا اور اگر ہم دورِحاضر پر نظر ڈالیں تو سارا عالم دہشت گردی کی وبا سے گزر رہا ہی۔ دنیا کی بڑی طاقتیں دہشت گردی کو اسلام سے جوڑتی رہی ہیں۔ مسلمانوں کو مسلسل دہشت گرد قرار دیا جاتا رہا ہی۔ مذہب اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب (نعوذباللہ) ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہی۔ ایک عام مسلمان ہر جگہ ذلیل و خوار ہورہا ہی۔ بدقسمتی یہ کہ ہمارا ملک ہندوستان جو ساری دنیا کے سامنے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک نظیر ہی، جس کی تہذیب کو گنگاجمنی تہذیب کا نام دیا گیا، جہاں برسہائے برس سے ہندواور مسلمان ایک قوم کی طرح رہتے چلے آرہے ہیں، اس بدلتے ہوئے ماحول سے ہمارا پیارا ملک ہندوستان بھی بچ نہ سکا اور دہشت گردی کا شکار ہوگیا۔ یہ دہشت گرد کون ہیں، اس دہشت گردی کے لئے ذمہ دار کون ہیں، میں اس وقت نہ تحقیقی صحافت کا ذکر کررہا ہوں، نہ کسی کو موردالزام ٹھہرانے کی ضرورت محسوس کررہا ہوں، نہ کسی بھی مذہب کو دہشت گردی سے جوڑکر دیکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔ مجھے اس وقت گفتگو کرنی ہی، صرف اور صرف سیرت رسولؐ پر اور اس موقع کی مناسبت سی، لہٰذا میں سیرت رسولؐ کا وہ پہلو سامنے رکھنا چاہتا ہوں، جس نے متاثر کیا سوامی اسیمانند کو اور جس کے بعد بدل گیا منظرنامہ ہندوستان کا۔ میں سیرت رسولؐ کا وہ پہلو سامنے رکھنا چاہتا ہوں، جو تاریخ اسلام میں صلح حدیبیہ کی شکل میں ملتا ہی۔ میں سیرت رسولؐ کا صرف وہ پہلو سامنے رکھنا چاہتا ہوں، جس پر چل کر عبدالکلیم نے ایک مثال قائم کی۔ میں سرزمین حیدرآباد کو اس بات کے لئے مبارکباد کا مستحق قرار دینا چاہتا ہوں کہ پروردگارِعالم نے سیرت رسولؐ کے اس پہلو کو ساری دنیا کے سامنے رکھنے کے لئے حیدرآباد کی زمین کا انتخاب کیا۔ حیدرآباد کے ایک نوجوان کا انتخاب کیا۔ گزشتہ چند برسوں میں ساری دنیا کے مسلمانوں کی طرف سے یہ کوششیں کی جاتی رہیں کہ تعلیمات قرآنی کی سچائی سامنے رکھی جائی۔ اس حقیقت سے ساری دنیا کو روشناس کرایا جائے کہ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا درس دیتا ہی۔ کسی کے بھی مذہب کی برائی نہ کرنے کی تلقین کرتا ہی۔ اس ضمن میں قرآن کریم میں آیت ناز ہوئی ہی: ’’لَکُم دِینُکُم ولِییَ دِین‘‘ (سورہ الکافرون) ’’تمہارے لئے تمہارا دین اور ہمارے لئے ہمارا دین‘‘، لیکن ہم اس پیغام کو عام نہیں کرسکی۔ ہم نے بارہا کہا کہ قرآن عظیم سب سے اچھے رشتے قائم کرنے کا حکم دیتا ہی۔ کسی ایک بے گناہ کا قتل کردینا بھی گناہِ عظیم قرار دیتا ہی۔ ہزاروں جلسہ جلوس اور کانفرنسوں کے ذریعہ بھی ہم اس حقیقت کو ساری دنیا کے لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات پیوست کرنے میں ہمیں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔ کل اس میں کمی آئے گی یا نہیں یہ آنے والا کل بتائے گا، مگر آج حیدرآباد کے نوجوان عبدالکلیم کے عمل نی، سوامی اسیمانند کے اعتراف گناہ نے جس طرح منظرنامہ کو بدلا ہی، یہ اپنے آپ میں اس دور کی تاریخ ہی، ایک تاریخی لمحہ ہی۔
مبارکباد کا مستحق ہے جس طرح حیدرآباد کا نوجوان عبدالکلیم، اسی طرح مبارکباد کے مستحق سوامی اسیما نند بھی ہیں۔ اگرچہ یہ آسان کام نہیں تھا کہ خود بے گناہ ہوتے ہوئے بھی ناکردہ گناہوں کی سزا پانے والا نوجوان اس شخص کو سامنے دیکھ کر مشتعل نہ ہو، جو اس گناہ کے لئے ذمہ دار ہے تو قابل تعریف اس شخص کا عمل بھی ہی، جس نے برسہابرس کی نفرت کو ایک پل میں بھلا کررکھ دیا، جس نے تربیت پائی اور تربیت دی، متعصبانہ ذہن تعمیر کرنے کی، جس نے اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہوا تھا فرقہ وارانہ کشیدگی اور نفرت کو اور جو شخص اس مقصد کی حصولیابی کے لئے سیکڑوں بے گناہوں کی جان لینے سے بھی گریز نہ کرتا رہا تھا۔ اس نے یکسر بدل ڈالا اپنے مزاج کو، جو تعلیم و تربیت ملی اسے برسہابرس کی جدوجہد اور ذہن سازی کے بعد ملی، وہ پل بھر میں ختم ہوگئی ایک کم پڑھے لکھے باعمل مسلمان کے کردار سے اور ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ اگر ہم اپنے عمل کو سیرت رسولؐ کا آئینہ بنالیں، ہماری زندگی آپؐ کے بتائے راستہ کے مطابق چلی۔ ہم قرآن کریم کو، اس کے پیغام کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں تو جس طرح بیتے ہوئے کل میں دنیا کا سب سے طاقتور شخص کیسیس کلے کو اسلام کی جانب راغب ہونے پرمجبور ہوا، جس طرح مغربی تہذیب کے پروردہ رقص کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھنے والے مائیکل جیکسن نے اسلام کی عظمت کا اعتراف کیا اور جس طرح سیرت رسولؐ کی عملی شکل نے سوامی اسیمانندکو متاثر کیا، یہ تمام واقعات ہم سب کے لئے مشعل راہ ہیں، لہٰذاجلسۂ سیرت رسولؐ کے اس مبارک موقع پر ہم اس پیغام کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیں تو نہ صرف فرقہ وارانہ کشیدگی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں بدل جائے گی، بلکہ اتحادواخوت کا ایک ایسا ماحول پیدا ہوگا، جس کی کمی گزشتہ چند برسوں سے متواتردیکھنے کو مل رہی تھی۔
سیرت رسول کے موضوع پر بولتے ہوئے مجھے ضمناً دارالعلوم دیوبند کے موجودہ حالات کا ذکر کرنا بھی موقع کی مناسبت سے ضروری لگا، کیونکہ میں علمائے دین کی موجودگی میں بول رہا تھا۔ ایک مخصوص فکر کے لوگوں کی جانب سے دارالعلوم دیوبند کو جدید علوم سے جوڑنے کی ضرورت بار بار سامنے رکھی جارہی ہی، اس پر اظہارخیال کرتے ہوئے میں نے کہا کہ ہمارے نوجوانوں کے پاس جدید علم حاصل کرنے کے لئے ہندوستان میں اور ہندوستان کے باہر تعلیمی اداروں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن جو ہماری دینی درسگاہیں ہیں، ان کی افادیت یہ ہے کہ ہمیں اپنی مساجد اور مدارس کے لئے پیش امام اور مدرسین صرف ایسی ہی دینی درسگاہوں سے مل سکتے ہیں، لہٰذا پرزور طریقہ سے اس بات کو سامنے رکھا جائے کہ میڈیکل کالج میں اگر انجینئرنگ کی تعلیم کا دیا جانا ضروری نہیں ہی، وکالت پاس کرنے والوں کو ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے تو اسی طرح دینی مدارس کی یہ خصوصیت باقی رہی۔ ان درسگاہوں سے اسلام کا پیغام امن، اتحاد و اخوت کا پیغام ساری دنیا تک پہنچتا رہی، یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہی۔
اس عظیم الشان اور بامقصد سیرت کانفرنس میں اظہار خیال کے بعد جب میں واپس لوٹا تو رات کے تقریباً دو بج چکے تھی۔ اگلی صبح پھر اسی طرح کی مصروفیت میرے سامنے تھی، تاہم دارالعلوم دیوبند کے موضوع پر جاری میرے مضمون کے اختتامی مضمون کو آخری شکل دیا جانا بھی ضروری تھا، لہٰذا صبح پانچ بجے میں نے اس مضمون کی تصحیح کی، جو کل آپ کی نظروں سے گزرا، مگر افسوس باوجود تمام تر کوششوں کے وہ تصحیح شدہ آخری کاپی میرے دفتر تک نہیں پہنچ سکی اور وہی مضمون آپ کی نظروں کے سامنے رہا، جو اس سے پہلے لکھا گیا تھایعنی غیرتصحیح شدہ، یقینا اس میں املا اور زبان کی متعدد غلطیاں رہی ہوں گی، جن کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔ یوں بھی سفر کے ساتھ ہر روز لکھنے کے سلسلہ میں کچھ ایسے مراحل سے گزرنا ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ جو دل و دماغ کہتا ہے کاغذ پر اتارنا مشکل ہوجاتا ہی۔ ہاں، مگر ایک جملہ جو بیحد ضروری تھا اور جسے اسی شکل میں میرے قارئین تک پہنچنا چاہئے تھا، وہ یہ کہ
’’بہت مشکل ہے کسی شخصیت کی تعمیر کرنا اور بہت آسان ہے کسی کی شخصیت کو مجروح کردینا، لہٰذا میرے قلم کے ذریعہ کسی کی کردارکشی کا تو سوال ہی کیا، انگلیاں کانپ جاتی ہیں کسی عالم دین یا مذہب اسلام کے موضوع پر لکھتے ہوئی۔‘‘
اس میں عالم دین اور مذہب اسلام کی جگہ لفظ منفی موضوع لکھا گیا ہی، عبارت کے اعتبار سے وہ ٹھیک ہوسکتا ہی، مگر میرے مقصد کے اعتبار سے نہیں۔ اس لئے کہ منفی یا متنازع موضوعات پر لکھنے سے انگلیوں کے کانپنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس طرح کے بیشتر موضوعات پر پہلے بھی لکھا جاتا رہا ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔ تحریر منفی نہ ہو موضوع بھلے ہی منفی نظر آتا ہو، بہرحال کل کے مضمون میں اس کے علاوہ دیگر املا اور زبان کی غلطیاں ضرور گراں گزری ہوں گی، لہٰذا ایک بار پھر معذرت۔ امید ہے کہ کن حالات میں اور کس قدر مصروفیت کے دوران یہ مضمون قلمبند کیا گیا، اس مجبوری کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ ان غلطیوں کو نظرانداز کردیں گی۔ شکریہ
…………

ज़िक्र सीरते रसूल स.अ.व-सुलेह हुदैबिया की रोशनी में
अज़ीज़ बर्नी

पिछली रात ‘जलसा-ए-सीरतुन्नबी भारत के ऐतिहासिक नगर हैदराबाद के मुग़्ालपुरा मैदान में, आयोजन मजलिस बचाव तहरीक के सक्रिय सदस्यों द्वारा। मंच का दृश्य जैसे आप भारत के किसी शहर में नहीं, बल्कि मदीना मुनव्वरा स्थित मस्जिद-ए-नबवी के आंगन में बैठकर जश्न-ए-विलादत-ए-बासआदत रसूल-ए-अकरम हज़रत मुहम्मद सल्लल्लाहो अलैहि वसल्लम के समारोह में भाग लेने का गौरव प्राप्त कर रहे हैं। इस भव्य महफ़िल में जहां विभिन्न विचारधाराओं से संबध रखने वाले उलेमा-ए-दीन उपस्थित थे और अपने ज्ञान वर्धक भाषणों से एक भव्य सभा को लाभानवित कर रहे थे। वहां एक पत्रकार की उपस्थिति और उसे सम्बोधन के लिए निमत्रण देना स्वयं में उर्दू पत्रकारिता के लिए गौरव की बात है। मुझे नहीं मालूम किस हद तक मैंने इस विषय से न्याय करते हुए अपने विचार व्यक्त किए, लेकिन इस सभा का एक उल्लेखनीय पहलू यह भी था कि इस सभा के आयोजक जनाब अमजदुल्ला द्वारा विशेष आमंत्रित अतिथियों में हैदराबाद शहर के युवक अब्दुल कलीम भी थे, जिन्होंने अपने व्यवहार से असीमानंद के हृदय परिवर्तन का ऐतिहासिक कारनामा अंजाम दिया। यह क्षण मेरे लिए इस दृष्टि से एक यादगार क्षण था कि आयोजकों ने अब्दुल कलीम को सम्मानित किए जाने के लिए माला पहनाने और शाॅल पेश करने के लिए मेरा चयन किया था। बस यही मेरे भाषण का विषय था, इसलिए कि मैं रसूलुल्लाह सल्ल॰ की सीरत को अपने जीवन का आईना बनाकर एक इतिहास रचने वाले व्यक्ति को देख रहा था। यही कारण है कि मैंने अपने भाषण का आरंभ करते हुए कहा कि पिछले 20-25 वर्षों में हज़ारों बार लोगों द्वारा हार पहनाए जाने पर मुझे इतनी प्रसन्नता का अनुभव नहीं हुआ जितना कि आज इस युवक को हार पहनाने पर प्रसन्नता का अनुभव हो रहा है। मुझे नहीं मालूम अब्दुल कलीम का अतीत क्या है, मुझे नहीं मालूम अब्दुल कलीम का भविष्य क्या होगा, मेरे सामने सुलह हुदैबिया का संदेश है अब्दुल कलीम का व्यक्तित्व है, स्वामी असीमानंद की स्वीकारोक्ति है, उसके बाद भारतीय समाज का बदला हुआ परिदृश्य है। बस इसी को केंद्रीय विचार बनाया मैंने अपने भाषण का और जो कुछ वाक्य इस प्रतिष्ठित गौरवपूर्ण महफ़िल में अदा किए उनमें से कुछ अपने पाठकों की भेंट करने जा रहा हूं।
अरब की धरती को यह गौरव प्राप्त है कि जब दुनिया अज्ञानता के दौर से गुज़र रही थी तब परवरदिगार-ए-आलम ने अपने आख़री रसूल हज़रत मुहम्मद मुस्तफ़ा सल्लल्लाहो अलैहि वसल्लम के आगमन के लिए इस धरती का चयन किया और आप सल्ल॰ पर दुनियाए फ़ानी में आख़िरी दिन तक बाक़ी रहने वाला चमत्कार अर्थात क़ुरआन-ए-करीम नाज़िल फ़रमाया और आप सल्लल्लाहो अलैहि वसल्लम ने अपनी सीरत से अरब की धरती को वह इस्लामी वातवरण दिया, वह एकता, भाईचारा और मानवता का दर्स दिया जिसकी इससे पूर्व इस धरती पर कल्पना भी कठिन थी। आप सल्ल॰ ने इस्लाम की दावत देने से पूर्व सच्चाई, शराफ़त और ईमानदारी के उदाहरण पेश किए, जिसने अरब के लोगों के मन को प्रभावित किया और देखते ही देखते इस्लाम इस धरती पर रहने वालों का मज़हब बन गया है जिसकी रोशनी सारी दुनिया तक पहुंची और लोग इससे प्रेरित होते चले गए। यही कारण है कि आज केवल 1400 वर्षों में जनसंख्या के लिहाज़ से दुनिया का दूसरा सबसे बड़ा धर्म इस्लाम है, जिसके मानने वालों की संख्या लगभग 150 करोड़ है। हुज़्ाूर अकरम सल्लल्लाहो अलैहि वसल्लम के आगमन से पूर्व पूरी दुनिया अज्ञानता के दौर से गुज़र रही थी और अगर हम वर्तमान युग पर नज़र डालें तो पूरी दुनिया आतंकवाद की वबा से गुज़र रही है। दुनिया की बड़ी शक्तियां आतंकवाद को इस्लाम से जोड़ती रही हैं, मुसलमानों को निरंतर आतंकवादी क़रार दिया जाता रहा है। इस्लाम धर्म को एक आतंकवादी धर्म (नऊज़्ाुबिल्ला) सिद्ध करने का प्रयास किया जाता रहा है, एक आम मुसलमान हर जगह ज़लील व ख़्वार हो रहा है। दुर्भाग्य यह है कि हमारा देश भारत जो पूरी दुनिया के सामने साम्प्रदायिक सदभावना की एक मिसाल है, जिसकी संस्कृति को गंगा जमनी संस्कृति का नाम दिया गया, जहां वर्षों से हिंदू और मुसलमान एक समुदाय की तरह रहते चले आ रहे हैं, इस बदलते हुए माहोल से हमारा प्रिय देश भारत भी बच न सका और आतंकवाद का शिकार हो गया। यह आतंकवादी कौन हैं, इस आतंकवाद के लिए ज़िम्मेदार कौन है, मैं इस समय ना खोजी पत्रकारिता की चर्चा कर रहा हूं, न किसी को आरोपित ठहराने की आवश्यकता महसूस कर रहा हूं, न किसी भी धर्म को आतंकवाद से जोड़ कर देखने की आवश्यकता महसूस करता हूं। मुझे इस समय गुफ़्तगू करनी है केवल और केवल सीरते रसूल सल्ल॰ पर और अवसर के अनुसार, इसलिए मैं सीरते रसूल सल्ल॰ का वह पहलू सामने रखना चाहता हूं, जिसने प्रभावित किया स्वामी असीमानंद को और जिसके बाद बदल गया परिदृश्य भारत का। मैं सीरते रसूल सल्ल॰ का वह पहलू सामने रखना चाहता हूं, जो इस्लाम के इतिहास में सुलह हुदैबिया के रूप में मिलता है। मैं सीरते रसूल सल्ल॰ का केवल वह पहलू सामने रखना चाहता हूं, जिस पर चल कर अब्दुल कलीम ने एक मिसाल क़ायम की। मैं हैदाराबाद की धरती को इस बात के लिए बधाई का पात्र क़रार देना चाहता हूं कि परवरदिगारे आलम ने सीरते रसूल के इस पहलू को सारी दुनिया के सामने रखने के लिए हैदराबाद की धरती का चयन किया। हैदराबाद के एक युवा का चयन किया। पिछले कुछ वर्षों में सारी दुनिया के मुसलमानों की ओर से यह प्रयास किए जाते रहे कि क़ुरआन की शिक्षाओं की सच्चाई सामने रखी जाए, इस हक़ीक़त से पूरी दुनिया को अवगत कराया जाए कि इस्लाम अमन व शांति का धर्म है, साम्प्रदायिक सदभावना की सीख देता है। किसी के भी धर्म की बुराई न करने की प्रेरणा देता है। इस सिलसिले में कुरआन-ए-करीम में आयत नाज़िल हुई है- ‘‘लकुम दीनुकुम वलियदीन’’ (सूरह अल-काफ़िरून) ‘‘तुम्हारे लिए तुम्हारा दीन और हमारे लिए हमारा दीन’’ लेकिन हम इस संदेश को आम नहीं कर सके, हमने बार बार कहा कि क़ुरआने करीम सबसे अच्छे संबंध स्थापित करने का आदेश देता है। किसी एक निर्दोष की हत्या कर देना भी भारी पाप ठहराता है। हज़ारों जलसा व जुलूसों और सम्मेलनों के माध्यम से भी हम इस वास्तविकता को सारी दुनिया के लोगों तक पहुंचाने में सफल नहीं हुए। उनके मन में यह बात डालने में हमें कोई विशेष सफलता प्राप्त नहीं हुई। इस्लाम और मुसलमानों को आतंकवाद से जोड़ने का सिलसिला जारी रहा। कल इसमें कमी आएगी या नहीं यह आने वाला कल बताएगा, परंतु आज हैदराबाद के युवक अब्दुल कलीम के व्यवहार ने, स्वामी असीमानंद के अपराध स्वीकरण ने जिस तरह परिदृश्य को बदला है, यह अपने आप में आज का इतिहास है, एक ऐतिहासिक क्षण है।
बधाई का पात्र है जिस तरह हैदराबाद का युवक अब्दुल कलीम, उसी तरह मुबारकबाद के हक़दार स्वामी असीमानंद भी हैं। अगर यह आसान काम नहीं था कि स्वयं निर्दोष होते हुए भी नाकर्दा गुनाहों की सज़ा पाने वाला युवक उस व्यक्ति को सामने देख कर उत्तेजित न हो, जो उस गुनाह के लिए ज़िम्मेदार है तो प्रशंसा के योग्य उस व्यक्ति का व्यवहार भी है, जिसने वर्षों की घृणा को एक क्षण में भुलाकर रख दिया, जिसने प्रशिक्षण पाया और प्रशिक्षण दिया, नफ़रत करने का, जिसने अपने जीवन का उद्देश्य बनाया हुआ था साम्प्रदायिक तनाव एवं घृणा को और जो व्यक्ति इस उद्देश्य की प्राप्ति के लिए सैकड़ों बेगुनाहों की जान लेने से भी गुरेज़ नहीं करता था, उसने अचानक बदल डाला अपने मन को, जो शिक्षा व प्रशिक्षण मिला उसे वर्षों के संघर्ष और मस्तिष्क निर्माण के बाद वह पल भर में समाप्त हो गया एक कम पढ़े लिखे व्यवहारिक मुसलमान के चरित्र से और एक बार फिर यह सिद्ध हो गया कि अगर हम अपने व्यवहार को सीरते रसूल सल्ल॰ का आईना बना लें, हमारा जीवन आप सल्लल्लाहो अलैहि वसल्लम के बताए रास्ते के अनुसार चले। हम क़ुरआन-ए-करीम को, उसके संदेश को अपने जीवन का हिस्सा बना लें तो जिस तरह बीते हुए कल में दुनिया का सबसे शक्तिाशाली व्यक्ति केसियस किले इस्लाम की ओर प्रेरित होने पर मजबूर हुआ, जिस तरह पश्चिमी सभ्यता के पोषित, नृत्य को अपने जीवन का उद्देश्य समझने वाले माइकल जैक्सन ने इस्लाम की महानता को स्वीकार किया और जिस तरह सीरत-ए-रसूल के व्यवहारिक रूप ने स्वामी असीमानंद को प्रभावित किया, यह सभी घटनाएं हम सबके लिए मशअल-ए-राह हैं इसलिए जलसा सीरत-ए-रसूल के इस शुभअवसर पर हम इस संदेश को अपने जीवन का उद्देश्य बना लें तो न केवल साम्प्रदायिक तनाव, साम्प्रदायिक सदभावना में बदल जाएगा बल्कि एकता और भाईचारे का एक ऐसा वातावरण पैदा होगा जिसकी कमी पिछले कुछ वर्षों से निरंतर देखने को मिल रही थी।
सीरत-ए-रसूल सल्ल॰ के विषय पर बोलते हुए मुझे आंशिक रूप से दारुलउलूम देवबंद के वर्तमान हालात की चर्चा करना भी मौक़े के हिसाब से आवश्यक लगा, क्योंकि मैं उलेमा-ए-दीन की उपस्थिति में बोल रहा था। एक विशेष विचारधारा के लोगों की ओर से दारुलउलूम देवबंद को आधुनिक शिक्षा से जोड़ने की आवश्यकता बार-बार सामने रखी जा रही है, इस पर विचार व्यक्त करते हुए मैंने कहा कि हमारे युवकों के पास आधुनिक शिक्षा प्राप्त करने के लिए भारत में और भारत के बाहर शिक्षण संस्थानों की कोई कमी नहीं है। लेकिन जो हमारे धार्मिक शिक्षण संस्थान हैं, उनकी उपयोगिता यह है कि हमें अपनी मस्जिदों और मदरसों के लिए पेशइमाम और शिक्षक केवल ऐसे ही धार्मिक शिक्षण संस्थानों से मिल सकते हैं, इसलिए बल देकर इस बात को सामने रखा जाए कि मैडिकल काॅलेज में अगर इंजीनियरिंग की शिक्षा दिया जाना आवश्यक नहीं है, वकालत पास करने वालों को डाक्टरी की शिक्षा प्राप्त करने की ज़रूरत नहीं है तो इसी तरह धार्मिक मदरसों की यह विशेषता बाक़ी रहे। इन शिक्षण संस्थानों से इस्लाम का संदेश, शांति, एकता और भाईचारे का संदेश पूरी दुनिया तक पहुंचता रहे, यह समय की सबसे बड़ी आवश्यकता है। इस भव्य और सार्थक सीरत कान्फ्ऱेंस में विचार व्यक्त करने के बाद जब मैं वापस लौटा तो रात के लगभग 2 बज चुके थे। अगली सुबह फिर उसी तरह की व्यस्तता मेरे सामने थी, फिर भी दारुलउलूम देवबंद के विषय पर जारी मेरे लेखों के सिलसिले के अंतिम लेख को अंतिम रूप दिया जाना आवश्यक था, इसलिए सुबह 5 बजे मैंने इस लेख का कैरेक्शन किया, जो कल आपकी नज़रों से गुज़रा परंतु अफ़सोस बावजूद यथासंभव कोशिशों के वह कैरेक्शन हुई अंतिम काॅपी मेरे दिल्ली कार्यालय तक नहीं पहुंच सकी और वही लेख आपकी नज़रों के सामने रहा, जो इससे पहले लिखा गया था, अर्थात बिना कैरेक्शन हुआ। निश्चितरूप से इसमें स्पेलिंग और भाषा की कई ग़लतियां रहीं होंगी, जिनके लिए क्षमा चाहता हूं। यूं भी यात्रा के साथ हर दिन लिखने के सिलसिले में कुछ ऐसे चरणों से गुज़रना होता है कि वह सब कुछ जो दिल व दिमाग़ कहता है काग़ज़ पर उतारना मुश्किल हो जाता है। हां, परंतु एक वाक्य जो अत्यंत आवश्यक था और जिसे उसी रूप में मेरे पाठकों तक पहुंचना चािहए था, वह यह कि
‘‘बहुत मुश्किल है किसी व्यक्तित्व का निर्माण करना और बहुत आसान है किसी व्यक्तित्व को धूमिल कर देना, इसलिए मेरे क़लम द्वारा किसी के चरित्र हनन का तो प्रश्न ही क्या, उंगलियां कांप जाती हैं किसी आलिम-ए-दीन या इस्लाम के विषय पर लिखते हुए।’’
इसमें आलिम-ए-दीन और इस्लाम धर्म के स्थान पर शब्द नकारात्मक विषय लिखा गया है, इबारत के हिसाब से वह ठीक हो सकता है, परंतु मेरे उद्देश्य के ऐतेबार से नहीं। इसलिए कि नकारात्मक विषयों पर लिखने से उंगलियों के कांपने की कोई वजह नहीं। इस तरह के अधिकांश विषयों पर पहले भी लिखा जाता रहा है और इनशाअल्लाह आगे भी लिखा जाता रहेगा। लेखन नकारात्मक न हो विषय भले ही नकारात्मक नज़र आता हो बहरहाल कल के लेख में इसके अलावा अन्य स्पेलिंग और भाषा की ग़लतियां ज़रूर कष्टदायक लगी होंगी, इसलिए एक बार फिर क्षमा। उम्मीद है कि किन परिस्थितियांे में और कितनी व्यस्तता के बीच यह लेख लिखा गया, इस मजबूरी को ध्यान में रखते हुए आप उन ग़लतियों को नज़रअंदाज़ कर देंगे। शुक्रिया!
..........................................

Sunday, February 20, 2011

دارالعلوم دیوبندـیہی میرا پہلا اور آخری مشورہ ہی!

عزیز برنی

میں اس وقت حیدرآباد میں ہوں۔ کل مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں میڈیا اسٹوڈنٹس سے خصوصی خطاب کرنا تھا، جس کے لئے میں حیدرآباد حاضر ہوا تھا۔ آج صبح تقریبات کا سلسلہ پریادرشنی کالج، نام پلی حیدرآباد سے شروع ہوا۔ یہ جلسہ کل ہند اردو تعلیمی کمیٹی کے ذریعہ منعقد کیا گیا اور اس کے بعد جلسۂ سیرتِ رسول بسلسلہ یوم ولادت حضرت محمد مصطفی ؐ، پرکاشن ہال، گاندھی بھون اور دیر رات مغل پورہ میں منعقد کیا گیا۔ ان تینوں مقامات پر میری تقریر کا موضوع کیا رہا اور میں نے کیا گفتگو کی، اس کا ذکر پھر کبھی، اس لئے کہ فی الحال میں دارالعلوم دیوبند کے موضوع پر لکھ رہا ہوں اور ابھی اس سے ہٹنا نہیں چاہتا۔ ضمناً یہ تذکرہ بھی اس لئے کہ پریا درشنی کالج کے جلسہ میں بزرگ شاعر نانک سنگھ نشتر کا ایک شعر اس موضوع کی مناسبت کے بہت قریب لگا اور دل چاہا کہ میں اسے کوڈ کرتے ہوئے اپنے آج کے مضمون کی شروعات کروں، لہٰذا پہلے ملاحظہ فرمائیں یہ شعر، پھر اس کے بعد میری تحریر…
پہلے یہ سمجھ لیجئے مسئلہ کا حل کیا ہی
صرف مشوروں سے تو رہبری نہیں ہوتی
مجھے یہ شعر بروقت اور بموضوع اس لئے لگا کہ جب سے میں نے دارالعلوم دیوبند کے موضوع پر لکھنا شروع کیا ہی، قارئین کو میرے مشورے کا انتظار ہے اور صاف لفظوں میں میں ابھی کوئی بھی مشورہ دینے کی جسارت نہیں کرسکا ہوں، صرف منظرنامہ پیش کرنے کی کوشش رہی ہے یا ان خدشات کو سامنے رکھا ہی، جن کا خدانخواستہ سامنا کرنا پڑسکتا ہی، لیکن اب اس سلسلہ کو اور طویل نہیں کیا جاسکتا، زیادہ وقت بھی نہیں ہی، لہٰذا آج میں اپنی گفتگو کو وہ شکل دینا چاہتا ہوں، جسے مشورہ کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہی۔
بہت مشکل ہے کسی شخصیت کی تعمیر کرنا اور بہت آسان ہے کسی کی شخصیت کو مجروح کردینا، لہٰذا میرے قلم کے ذریعہ کسی کی کردارکشی کا تو سوال ہی کیا، انگلیاں کانپ جاتی ہیں کسی منفی موضوع پر لکھتے ہوئی۔ فرض کا تقاضا نہ ہوتا تو شاید درگزر کردیتا اور اس موضوع پر قلم اٹھاتا ہی نہیں۔ ہر طرف سے اس وقت یہ آوازیں آرہی ہیں کہ دارالعلوم دیوبند سے منسلک ذمہ دار افراد گروپوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ فلاں کی منشا یہ ہے اور فلاں کی منشا یہ ہی، اسے اس لئے ہونا چاہئے اور اسے اس لئے نہیں ہونا چاہئی، ہمیں خاندانی اجارہ داری سے نجات پانی ہی، وغیرہ وغیرہ۔ سب سے پہلے تو یہ خاندانی اجارہ داری کے تصور کو ذہن سے نکالنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ کسی بھی خاندان سے وابستہ کوئی شخص اگر باصلاحیت ہے تو اسے صرف اس بنا پر تنقید کا نشانہ بنانا مناسب ہی؟ پنڈت جواہر لعل نہرو سے جو سلسلہ شروع ہوا، وہ محترمہ اندراگاندھی، راجیوگاندھی، سونیاگاندھی سے گزرتے ہوئے راہل گاندھی تک پہنچ چکا ہی۔ کیا یہ قابل اعتراض ہی؟ اگر ایسا ہوتا تو راہل گاندھی کو ملک کے مستقبل کی شکل میں کس طرح پیش کیا جاسکتا تھا۔ محترمہ وجے راجے سندھیا، مادھوراؤ سندھیا، وسندھرا راجے سندھیا اور جیوتی رادتیہ سندھیا کیا ایک ہی خاندان کے فرد نہیں ہیں۔ ملائم سنگھ یادو، پروفیسر رام گوپال یادو، شیوپال یادو، اکھلیش یادو، دھرمیندریادو سب کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہی۔ ایسی بیشتر مثالیں سیاست کے علاوہ دیگر شعبہ ہاے زندگی میں بھی دی جاسکتی ہیں، لہٰذا مولانا حسین احمد مدنی، مولانا اسعد مدنی، مولانا ارشدمدنی، مولانا محمودمدنی کا تعلق اگر ایک ہی خاندان سے ہے تو کیا صرف اسی بنا پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جانا چاہئی۔ آج جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ سب جنہیں ہم الگ الگ گروپوں میں محدود کرتے ہیں یا قرار دیتے ہیں، ان سب کو متحد کرنے کی کوششیں کی جائیں۔ ہم کیوں ان کے درمیان انتشار پیدا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ وقتی طور پر نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہی، اختلاف کی وجوہات کچھ اور بھی ہوسکتی ہیں، ہاں وہ بھی ہوسکتی ہیں جو آپ کے ذہنوں میں ہیں، مگر کیا ہمیں اس نازک گھڑی میں ایک کامن منمم پروگرام کو ذہن میں رکھتے ہوئے سب کو متحد کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئی۔ میں مولانا غلام محمد وستانوی کو اس اتحاد میں شامل دیکھنا چاہتا ہوں، قطع نظر اس کے کہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم کا فیصلہ کس کے حق میں ہو۔ وہ بھلے ہی مولانا غلام محمدوستانوی اپنے عہدہ پر برقرار رہنے کی شکل میں ہو یا کوئی دوسرا، مگر فیصلہ جو بھی ہو، اس میں یہ سب شامل ہوں۔ خوش دلی کے ساتھ شامل ہوں اور حسن سلوک کے ساتھ کوئی ایسا راستہ نکالیں، جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔ کسی کی شخصیت مجروح نہ ہو۔ اگر ہم نے اس نازک گھڑی میں کسی بھی وجہ سے کسی ایک بھی ایسی شخصیت کو مجروح کردیا، جو ہم سب کے لئے قومی سرمایہ سے کم نہیں ہیں تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ان شخصیتوں کو بنانے کے لئے ہمارا کیا رول ہی، اگر نہیں ہے تو پھر ہمیں یہ حق کس نے دے دیا کہ ہم ان شخصیتوں کے وقار کو تنازع بنانے کی سمت میں رات دن ایک کردیں۔ جہاں تک مولانا غلام محمد وستانوی صاحب کا تعلق ہے تو کیا ان سے شکایت صرف اتنی ہی کہ انہوں نے گجرات یا نریندرمودی کے حوالہ سے جو کلمات اپنی زبان سے ادا کئی، وہ قابل گرفت تھے اور ایک تقریب کے دوران بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کرتے ہوئے جو مومنٹو پیش کئی، حقائق کے اعتبار سے ان کا پیش کیا جانا ضروری نہیں تھا۔ اس پر بہتر رائے مفتیانِ کرام کی ہوگی اور دیکھنا یہ ہوگا ہماری مجلس شوریٰ کو کہ جب انہوں نے مولانا غلام محمد وستانوی کا انتخاب بحیثیت مہتمم دارالعلوم دیوبند کیا تو کیا وہ تقریب عمل میں آچکی تھی۔ جہاں تک گجرات اور نریندر مودی کے تعلق سے اگرچہ جملوں کی بات ہے تو مولانا غلام محمد وستانوی کے مدارس یا جدید تعلیم کے مراکز گجرات میں ہیں۔ ان کے نظریات کیا پہلے ہماری مجلس شوریٰ کے سامنے نہیں تھی۔ کیا یہ پہلا موقع ہی، جب انہوں نے اپنے نظریہ کو سامنے رکھا یا مجلس شوریٰ نے ان کے انتخاب کے وقت ایسی کسی بھی بات کو قابل توجہ نہیں مانا۔ ان کے بارے میں تمام تفصیلات جاننے کی ضرورت نہیں سمجھی یا ایسا بہت کچھ سامنے آنے پر بھی انہوں نے نظرانداز کرنا ضروری سمجھا۔ آج یہ سوال مجلس شوریٰ کو خود اپنے آپ سے کرنا ہوگا۔ جہاں تک میرا اندازہ ہی، تمام قارئین کو تو شاید اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ مجلس شوریٰ میں کون کون سی شخصیتیں شامل ہیں، ان کا تعلق کس کس شہر اور کس کس خاندان سے ہی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ان سب کو بھی دیوبند کے کسی ایک مخصوص خاندان کے فرد کی شکل میں دیکھ رہے ہوں، لہٰذا میں ضرور سمجھتا ہوں کہ کم ازکم اتنی جانکاری تو اپنے قارئین کو فراہم کردی جائے کہ ان کے اسمائے گرامی کیا ہیں اور ان کا تعلق کس کس شہر سے ہی، لہٰذا ملاحظہ فرمائیں ان کا مختصر تعارف:
(1) مولانا مفتی منظور احمد :۔ کانپور کی’’ قاضئ شہر‘‘ ہیں، علاقے کے بڑے علما میںان کا شمار ہوتا ہی۔
(2) مولانا محمد یعقوب :۔ مدرسہ کاشف الھدی (چنئی) کے سرپرست اور صوبہ تامل ناڈو کے امیر شریعت نیزکئی مدارس کے سرپرست ہیں۔
(3) مولانا عبد العزیز:۔مجلس علمی حیدر آباد (آندھراپردیش) کے ذمہ دار ہیں۔
(4) حافظ محمد صدیق :۔مراد آباد میں بیڑی کے بڑے تاجر ہیںکانگریس کے ٹکٹ پر ایم پی اور رکن اسمبلی نیز ریاستی وزیر رہ چکے ہیں۔
(5) مولانا ازہر نعمانی:۔ مدرسہ حسینیہ رانچی (جھارکھنڈ) کے سرپرست ہیں۔
(6) مولانا ابو القاسم نعمانی :۔ جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس کے شیخ الحدیث اور مفتی اعظم ہیں۔حضرت مولانا مفتی محمود الحسن گنگوہی ؒ کے خلیفہ ہیں۔
(7) مولانا بدر الدین اجمل:۔ عطر کے بڑے تاجر ہیں، یو ڈی ایف آسام کے بانی اور رکن پارلیمان ہیں۔
(8) مولانا نظام الدین :۔ امیر شریعت بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری ہیں۔
(9) مولانا غلام محمد وستانوی:۔ مدرسہ اشاعت العلوم ، اکل کوا (مہاراشٹر)کے بانی مہتمم اور بہت سے تعلیمی اداروں کے سرپرست ہیں۔ اس وقت دارالعلوم دیوبند کے مہتمم ہیں۔
(10)مولانا عبد العلیم فاروقی:۔ دارالمبلغین لکھنؤ کے ذمہ دار اور جمعیۃ علماء ہند(الف) کے ناظم عمومی ہیں۔
(11)مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی:۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سربراہ اعلیٰ ہیں۔
(12)مولانا محمد طلحہ:۔ حضرت مولانا شیخ محمد زکریانوراللہ مرقدہ کے صاحبزادے اور معروف پیر طریقت ہیں۔ مظاہر علوم سہارنپور کے سرپرست اعلیٰ بھی ہیں۔
(13)مولانا سید میاں خلیل حسین:۔ مدرسہ اصغریہ دیوبند کے مہتمم اور مشہور بزرگ ہیں۔
(14)مولانا محمد اسماعیل :۔ دارالعلوم محمدیہ مالی گائوں کے شیخ الحدیث ہونے کے ساتھ ساتھ مالیگاؤں اسمبلی حلقہ سے رکن اسمبلی بھی ہیں۔
(15)مولانا محمد اشتیاق :۔ مدرسہ جامعہ العلوم مظفر پور(بہار)کے ناظم اور شیخ الحدیث حضرت مولانا شیخ محمد زکریاؒ کے خلیفہ ہیں۔
(16)حاجی جمیل احمد:۔ شہر کلکتہ کے مشہور اور بڑے تاجر ہیں۔
(17)مولانا ملک محمد ابراہیم:۔ مدرسہ مفتاح العلوم ویل وشارم کے سرپرست اور چمڑے کے بڑے تاجر ہیں۔
(18)مفتی سعید احمد پالنپوری:۔ دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرس کی حیثیت سے مجلس شوریٰ کے رکن ہیں۔
یہ ہیں مجلس شوریٰ کے ارکان، جنہوں نے بحیثیت مہتمم مولانا غلام محمد وستانوی کا انتخاب کیا یا 23فروری011کی دوسری میٹنگ میں یہ فیصلہ لینے کے مجاز ہیں کہ ان کی تقرری کو بحال رکھا جائے یا اس میں کسی طرح کی تبدیلی کی جائی۔ میں یہ پھر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ تنازع جلدازجلد اپنے اختتام کو پہنچے اور اس طرح پہنچے کہ مولانا غلام محمد وستانوی، مولانا ارشدمدنی، مولانا محمود مدنی، مولانا بدرالدین اجمل یا ان جیسی کسی بھی شخصیت بشمول مجلس شوریٰ کے ارکان کسی کی شخصیت کو نقصان نہ پہنچی، اس لئے کہ اگر ایسا کچھ بھی ہوتا ہے تو یہ دارالعلوم دیوبند کے مخالفین کی سب سے بڑی کامیاب ہوگی۔ دارالعلوم دیوبند کے خلاف سازشی ذہن رکھنے والوں کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ دارالعلوم دیوبند کے وقار کو مجروح کرنے کی کوششیں انجام دینے والوں کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی قیادت کو ناکام بنانے کی کوشش میں ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ اگر ہمیں ان حالات سے ابھرنے کے لئے مصلحت سے کام لینا پڑے تو بھی لیا جائی۔ اگر کہیں تھوڑا بہت کمپرومائز کرنے کی گنجائش نظر آتی ہے تو اس پر بھی غور کیا جائی۔ اگر واقعی ذرا بھی ان میں سے کسی کے آپسی رشتوں میں رتی برابر بھی ناہمواری ہے تو انہیں ہموار کرنے کی دل و جان سے کوشش کی جائی۔ کیا ہم اس سے سبق حاصل نہیں کرسکتے کہ دو مختلف نظریات کے لوگ اپنی سیاسی کامیابی یا کاروباری فروغ کے لئے ایک ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ نظریاتی اعتبار سے نتیش کمار اور بھارتیہ جنتا پارٹی الگ الگ ہوتے ہوئے بھی ایک ساتھ مل کر سرکار چلاتے ہیں۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ یوپی اے جس کی آج مرکز میں سرکار ہی، اس کی حلیف جماعتیں آپس میں ہم خیال نہیں ہیں، مگر اقتدار کے لئے متحد ہیں۔ ہمارے سامنے تو ایک تاریخی ساز ادارے کے مستقبل کا سوال ہی، کیا ہمیں ذاتی انا، ذاتی مقاصد اور ذاتی وجوہات سے اوپر اٹھ کر متحد ہونے کے لئے آمادہ نہیں کرتا۔ اگر نہیں تو پھر کس حق سے ہم دارالعلوم دیوبند کے معاملہ میں اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں؟ اگر یہ ہمارا قومی سرمایہ ہی، جسے ہم اپنا سرمایہ مانتے ہیں تو اسے بچانے کی ذمہ داری بھی ہم پر ہے اور اسے بچانے کا مطلب محض عمارت کو بچانا نہیں، ان سے وابستہ تمام شخصیتوں اور اس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے مستقبل کو بچانا بھی ہی۔ کیوں یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمیں ان میں سے اپنی رائے فلاں کے حق میں فلاں کے خلاف دینی چاہئی۔ جب تک لکیر کے اس پار یا اس پار نہیں ہوں گی، ہماری رائے کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔ میری رائے ہے کہ اس معاملہ میں رائے دینے والا اگر مجلس شوریٰ یا متعلقہ ذمہ دار افراد جن میں سے کچھ کا ذکر میں نے اپنی تحریر میں کیا ہے سے زیادہ قابل ہی، زیادہ دینی علم رکھتا ہی، زیادہ بہتر فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے تو بیشک وہ اپنا مشورہ دی، اس مشورہ کو منظرعام پر رکھی، ورنہ خدا کے لئے اپنی انا کی تسکین کیا کسی کے ساتھ کھڑے ہونے کے شوق میں اسے اور پیچیدہ بنانے کی کوشش نہ کریں، کوشش کریں، کوشش کریں، کوشش کارگر کامیاب ہوتی نہ نظر آئے تو دعا کریں کہ ’’سب متحد رہیں۔آپسی اتحاد اور خلوص کے ساتھ اس مسئلہ کا حل نکلے اور بہتر ہے کہ3فروری سے پہلے نکلی۔ اس ضمن میں یہی میرا پہلا اور آخری مشورہ ہے اور اس کے ساتھ ہی اس موضوع پر میں اپنی گفتگو تمام کرتا ہوں۔
……………

दारूलउलूम देवबन्द-यही मेरा पहला और आखिरी मशवरा है!
अज़ीज़ बर्नी

मैं इस समय हैदराबाद में हूं। कल मौलाना आज़ाद नैशनल उर्दू यूनिवर्सिटी में मीडिया के छात्रों से विशेष संबोधन करना था, जिसके लिए मैं हैदराबाद हाज़िर हुआ था। आज सुबह आयोजनो का सिलसिला प्रियदर्शनी काॅलेज, नामपल्लि हैदराबाद से हुआ। यह सभा अखिल भारतीय उर्दू तालीमी कमेटी द्वारा आयोजित की गई और इसके बाद हज़रत मुहम्मद सल्लल्लाहो अलैहि वसल्लम के जन्म दिवस के सिलसिले में जलस-ए-सीरत-ए-रसूल सल्ल॰, प्रकाशन हाॅल, गांधी भवन और देर रात मुग़लपुरा में आयोजित किया गया। इन तीनों स्थानों पर मेरे भाषण का विषय क्या रहा और मैंने क्या गुफ़्तगू की इसकी चर्चा फिर कभी, इसलिए कि फ़िलहाल मैं दारुलउलूम देवबंद के विषय पर लिख रहा हूं और अभी इससे हटना नहीं चाहता। आंशिक रूप से यह चर्चा भी इसलिए कि प्रियदर्शनी काॅलेज की सभा में बुज़्ाुर्ग शायर नानक सिंह नशतर का एक शेर इस विषय के हिसाब से बहुत निकट लगा और दिल चाहा कि मैं इसे उद्धरण करते हुए अपने आज के लेख की शुरूआत करूं, इसलिए पहले मुलाहिज़ा फ़रमाएं यह शेर, फिर उसके बाद मेरा लेखः
पहले यह समझ लीजिए मसले का हल क्या है
सिर्फ़ मशवरों से तो रहबरी नहीं होती
मुझे यह शेर समय तथा विषय के अनुकूल इसलिए लगा कि जब से मैंने दारुलउलूम देवबंद के विषय पर लिखना आरंभ किया है पाठकों को मेरे मश्विरे का इंतिज़ार है। और साफ़ शब्दों में मैं अभी कोई मश्विरा देने का साहस नहीं कर सका हूं, केवल परिदृश्य पेश करने का प्रयास रहा है या उन आशंकाओं को सामने रखा है जिनका ख़ुदा-न-ख़्वास्ता सामना करना पड़ सकता है, लेकिन अब इस सिलसिले को और लम्बा नहीं किया जा सकता, अधिक समय भी नहीं है, इसलिए आज मैं अपनी गुफ़्तगू को वह रूप देना चाहता हूं, जिसे मश्विरे की श्रेणी में रखा जा सकता है।
बहुत कठिन है किसी व्यक्तित्व का निर्माण करना और बहुत आसान है किसी के व्यक्तित्व को धूमिल कर देना। इसलिए मेरे क़लम के माध्यम से किसी के चरित्र हनन का तो प्रश्न ही क्या, उंगलियां कांप जाती हैं किसी नकारात्मक विषय पर लिखते हुए। फ़र्ज़ की मांग न होती तो शायद दरगुज़र कर देता और इस विषय पर क़लम उठाता ही नहीं। हर तरफ़ से यह आवाज़ें आ रही हैं कि दारुलउलूम देवबंद से जुड़े ज़िम्मेदार व्यक्ति ग्रुपों में विभाजित हो गए हैं। अमुक की मंशा यह है और अमुक की मंशा यह है, इसे इसलिए होना चाहिए और इसे इसलिए नहीं होना चाहिए, हमें ख़ानदानी जागीरदारी से छुटकारा पाना है, इत्याति इत्यादि। सबसे पहले तो यह ख़ानदानी जागीरदारी की कल्पना को मन से निकालना होगा और यह देखना होगा कि किसी भी परिवार से जुड़ा कोई व्यक्ति अगर योग्य है तो उसे केवल इस आधार पर आलोचना का निशाना बनाना उचित है? पंडित जवाहर लाल नेहरू से जो सिलसिला शुरू हुआ वह श्रीमति इंदिरा गांधी, राजीव गांधी, सोनिया गांधी से होते हुए राहुल गांधी तक पहुंच चुका है। क्या यह आपत्तिजनक है? अगर ऐसा होता तो राहुल गांधी को देश के भविष्य के रूप में किस तरह पेश किया जा सकता। श्रीमती विजय राजे सिंधिया, माधवराव सिंधिया, वसुंधरा राजे सिंधिया और ज्योतिरादित्य सिंधिया क्या एक ही परिवार के व्यक्ति नहीं हैं। मुलायम सिंह यादव, प्रोफ़ेसर राम गोपाल यादव, शिवपाल यादव, अखिलेश यादव, धर्मेंद्र यादव सबका संबंध एक ही परिवार से है। ऐसे अनेकों उदाहरण राजनीति के अलावा अन्य क्षेत्रों में भी दिए जा सकते हैं। इसलिए मौलाना हुसैन अहमद मदनी, मौलाना असद मदनी, मौलाना अरशद मदनी, मौलाना महमूद मदनी का संबंध अगर एक ही परिवार से है तो क्या केवल इसी आधार पर उन्हें आलोचना का निशाना बनाया जाना चाहिए। आज जबकि आवश्यकता इस बात की है कि यह सब जिन्हें हम अलग-अलग समूहों में सीमित करते हैं या क़रार देते हैं, उन सबको संगठित करने के प्रयास किए जाएं। हम इनमें क्यों फूट पैदा करने का प्रयास करते हैं। थोड़े समय के लिए वैचारिक मतभेद हो सकता है, मतभेद के कारण कुछ भी हो सकते हैं, हां वह भी हो सकते हैं जो आपके मन में हैं, परंतु क्या हमें इस नाज़्ाुक समय में एक काॅमन मिनिमम प्रोग्राम को ध्यान में रखते हुए सबको संगठित करने का प्रयास नहीं करना चाहिए। मैं मौलाना ग़्ाुलाम मुहम्मद वस्तानवी को इस गठबंधन में शामिल देखना चाहता हूं। इस बात से हटकर कि दारुलउलूम देवबंद के मुहतमिम का फ़ैसला किसके पक्ष में हो, भले ही मौलाना ग़्ाुलाम मुहम्मद वस्तानवी के अपने पद पर बरक़रार रहने के रूप में हों या कोई दूसरा, परंतु फ़ैसला जो भी हो, इसमें सब शामिल हों। ख़ुशदिली के साथ शामिल हों और स्वच्छ भाव के साथ कोई ऐसा रास्ता निकालें जो सब के लिए स्वीकारीय हो। किसी का व्यक्तित्व धूमिल न हो। अगर हमने इस नाज़्ाुक घड़ी में किसी भी कारण से किसी एक भी ऐसे व्यक्तित्व को धूमिल कर दिया, जो हम सबके लिए क़ौमी पूंजी से कम नहीं है तो इतिहास हमें कभी क्षमा नहीं करेगा। उन व्यक्तियों को बनाने के लिए हमारी क्या भूमिका है, अगर नहीं है तो फिर यह अधिकार किसने दे दिया कि हम उन व्यक्तियों की प्रतिष्ठा को विवादित बनाने की दिशा में रात दिन एक कर दें। जहां तक मौलाना ग़्ाुलाम मुहम्मद वस्तानवी साहब का संबंध है तो क्या उनसे शिकायत केवल इतनी ही कि उन्होंने गुजरात या नरेंद्र मोदी के संदर्भ में जो बातें अपनी ज़्ाुबान से कहीं वह अनुचित थीं और एक समारोह के दौरान मुख्य अतिथि के रूप में भाग लेते हुए जो मोमेंटो पेश किए, तथ्यों की दृष्टि से उनका पेश किया जाना आवश्यक नहीं था। इस पर बेहतर राय मुफ़्यिान-ए-क्रिाम की होगी और देखना यह होगा कि हमारी मजलिस-ए-शूरा को कि जब उन्होंने मौलाना ग़्ाुलाम मुहम्मद वस्तानवी का चयन दारुलउलूम देवबंद के मुहतमिम के रूप में किया तो क्या वह आयोजन हो चुका था। जहां तक गुजरात और नरेंद्र मोदी से संबंधित वाक्यों की बात है तो मौलाना ग़्ाुलाम मुहम्मद वस्तानवी के मदरसों या आधुनिक शिक्षा के केंद्र गुजरात में हैं। उनके विचार क्या पहले हमारी मजलिस-ए-शूरा के सामने नहीं थे। क्या यह पहला अवसर है जब उन्होंने अपने सिद्धांत को सामने रखा या मजलिस-ए-शूरा ने उनके चयन के समय ऐसी किसी भी बात को ध्यान देने योग्य नहीं माना। उनके बारे मंे सभी विवरण जानने की आवयकता नहीं समझी या ऐसा बहुत कुछ सामने आने पर उन्होंने अनदेखी करना आवश्यक समझा। आज यह प्रश्न मजलिस-ए-शूरा को स्वयं अपने आपसे करना होगा। जहां तक मेरा अनुमान है सभी पाठकों को तो शायद इस बात की जानकारी ही नहीं है कि मजलिस-ए-शूरा में कौन-कौनसी शख़्सियतें शामिल हैं, उनका संबंध किस-किस शहर तथा किस-किस परिवार से है। कहीं ऐसा तो नहीं कि हम उन सबको देवबंद के किसी एक विशेष परिवार के व्यक्ति के रूप में देख रहे हों, लिहाज़ा प्रस्तुत है उनका संक्षिप्त परिचयः
1. मौलाना मुफ़्ती मन्ज़्ाूर अहमद: कानपुर के ‘शहर क़ाज़ी’ हैं, क्षेत्र के बड़े उलेमा में उनकी गणना होती है।
2. मौलाना मुहम्मद याकूब: मदरसा काशिफ़ुल-हुदा (चिन्नई) के संरक्षक तथा तमिलनाडु राज्य के अमीर-ए-शरीअत एवं कई मदरसों के संरक्षक हैं।
3. मौलाना अब्दुल अज़ीज़: मजलिस-ए-इल्मी हैदराबाद (आंध्र प्रदेश) के ज़िम्मेदार हैं।
4. हाफ़िज़ मुहम्मद सिद्दीक़: बीड़ी के व्यापारी हैं, कांग्रेस के टिकट पर सांसद तथा विधायक एवं राज्य मंत्री रह चुके हैं।
5. मौलाना अज़हर नोमानी: मदरसा हुसैनिया रांची (झारखंड) के संरक्षक हैं।
6. मौलाना अबुल क़ासिम नोमानी: जामिआ इस्लामिआ रेवड़ी तालाब बनारस के शेख़ुल हदीस और मुफ़्ती-ए-आज़म हैं। हज़रत मौलाना मुफ़्ती महमूदुल हसन गंगोही के ख़लीफ़ा हैं।
7. मौलाना बदरुद्दीन अजमल: इत्र के बड़े व्यापारी हैं, यूडीएफ़ असम के संस्थापक एवं संसद सदस्य हैं।
8. मौलाना निज़ामुद्दीन: अमीर-ए-शरीअत बिहार, उड़ीसा व झारखंड और आॅल इंडिया मुस्लिम पर्सनल लाॅ बोर्ड के महासचिव हैं।
9. मौलाना ग़्ाुलाम मुहम्मद वस्तानवी: मदरसा इशाअतुल उलूम, अक्कल कुआ (महाराष्ट्र) के संस्थापक, मुहतमिम और बहुत से शिक्षण संस्थानों के संरक्षक हैं। इस समय दारुलउलूम देवबंद के मुहतमिम हैं।
10. मौलाना अब्दुल अलीम फ़ारूक़ी: दारुल मुबल्लिग़ीन लखनऊ के ज़िम्मेदार और जमीअत-ए-उलेमा (अलिफ़) के नाज़िम-ए-उमूमी हैं।
11. मौलाना सैय्यद मुहम्मद राबे हसनी नदवी: आॅल इंडिया मुस्लिम पर्सनल लाॅ बोर्ड के अध्यक्ष और नदवतुल उलेमा लखनऊ के नाज़िम हैं।
12. मौलाना मुहम्मद तलहा: हज़रत मौलाना शेख़ मुहम्मद ज़करिय नव्वरल्लाह मरकदहू के सुपुत्र और प्रसिद्ध पीर-ए-तरीक़त हैं। मज़ाहिरुल उलूम सहारनपुर के संरक्षक भी हैं।
13. मौलाना सैय्यद मियां ख़लील हुसैन: मदरसा असग़रिया देवबंद के मुहतमिम और मशहूर बुज़्ाुर्ग हैं।
14. मौलाना मुहम्मद इस्माईल: दारुलउलूम मुहम्मदिया मालेगांव के शेख़ुल हदीस होने के साथ साथ मालेगांव विधानसभा क्षेत्र के विधायक भी हैं।
15. मौलाना मुहम्मद इशतियाक़: मदरसा जामेउलउलूम मुज़्ाफ़्फ़रपुर (बिहार) के नाज़िम और शेख़ुलहदीस हज़रत मौलाना मुहम्मद शेख़ ज़करिया रह॰ के ख़लीफ़ा हैं।
16. हाजी जमील अहमद: कलकत्ता के मशहूर और बड़े व्यापारी हैं।
17. मौलाना मलिक मुहम्मद इब्राहीम: मदरसा मिफ़्ताहुलउलूम वैलविशारम के संरक्षक और चमड़े के बड़े व्यापारी हैं।
18. मुफ़्ती सईद अहमद पालनपुरी दारुलउलूम देवबंद के प्रधानाध्यापक की हैसियत से मजलिस-ए-शूरा के सदस्य हैं।
यह है मजलिसे शूरा के सदस्यगण, जिन्होंने मुहतमिम की हैसियत से मौलाना ग़्ाुलाम मुहम्मद वस्तानवी का चयन किया या जिन्हें 23 फरवरी 2011 को दूसरी बैठक में यह निर्णय लेने का अधिकार है कि उनकी नियुक्ति को बहाल रखा जाए या इसमें किसी प्रकार का परिवर्तन किया जाए। मैं फिर यह स्पष्ट कर देना चाहता हूं कि यह विवाद जल्द से जल्द अपनी समाप्ति को पहुंचे और इस तरह पहुंचे कि मौलाना ग़्ाुलाम मुहम्मद वस्तानवी, मौलाना अरशद मदनी, मौलाना महमूद मदनी, मौलाना बदरुद्दीन अजमल या उन जैसा कोई भी व्यक्ति, मजलिस-ए-शूरा के सदस्यों सहित किसी के व्यक्तित्व को क्षति न पहुंचे, इसलिए कि अगर ऐसा कुछ भी होता है तो यह दारुलउलूम देवबंद के विरोधियों की सबसे बड़ी कामयाबी होगी। दारुलउलूम देवबंद के ख़िलाफ़ षड़यंत्रकारी मानसिकता रखने वालों की बहुत बड़ी कामयाबी होगी। दारुलउलूम देवबंद की प्रतिष्ठा को धूमिल करने का प्रयास करने वालों की बहुत बड़ी कामयाबी होगी। मुसलमानों के धार्मिक तथा राजनीतिक नेतृत्व को असफल बनाने के प्रयास में एक बड़ी सफलता होगी। अगर हमें इन हालात से उबरने के लिए मस्लेहत से काम लेना पड़े तो भी लिया जाए। अगर कहीं थोड़ा बहुत समझौता करने की गुंजाइश दिखती हो तो वह भी की जाए। अगर वाक़ई ज़रा भी इनमंे से किसी के आपसी संबंधों में रत्ती बराबर भी असमानता है तो उन्हें समतल करने का दिल व जान से प्रयास किया जाए। क्या हम इससे सीख हासिल नहीं कर सकते कि दो विभिन्न विचारधाराओं के लोग अपनी राजनीतिक या कारोबारी तरक़्क़ी के लिए एक साथ खड़े नज़र आते हैं। क्या हम नहीं देखते कि वैचारिक दृष्टि से नितीश कुमार और भारतीय जनता पार्टी अलग-अलग होते हुए भी एक साथ मिल कर सरकार चलाते हैं। क्या हम नहीं देखते कि यूपीए जिसकी आज केंद्र में सरकार हैै, उसके सहयोगी दल आपस में एक मत नहीं हैं, परंतु सत्ता के लिए संगठित हैं। हमारे सामने तो एक ऐतिहासिक संस्था के भविष्य का प्रश्न है, क्या हमें निजी अहं, निजी उद्देश्यों तथा निजीकारणों से ऊपर उठ कर संगठित होने के लिए तैयार नहीं करता। अगर नहीं तो फिर किस अधिकार से हम दारुलउलूम देवबंद के मामले में अपने विचार प्रकट कर रहे हैं। अगर यह हमारी क़ौमी सम्पत्ति है जिसे हम अपनी पूंजी मानते हैं तो उसे बचाने की ज़िम्मेदारी भी हमारी है और उसे बचाने का अर्थ केवल भवन को बचाना नहीं, उनसे जुड़े तमाम व्यक्तियों और उसमें शिक्षा प्राप्त करने वाले सभी छात्रों को बचाना भी है। क्यों यह आवश्यक समझते हैं कि हमें उनमें से अपनी राय अमुक के पक्ष में, अमुक के विरुद्ध देनी चाहिए। जब तक लकीर के इस पार या उस पार नहीं होंगे हमारी राय का कोई अर्थ नहीं होगा। मेरा विचार है कि इस मामले में राय देने वाला अगर मजलिस-ए-शूरा या संबद्ध ज़िम्मेदार व्यक्तियों जिनमें से कुछ का उल्लेख मैंने अपने लेख में किया है अधिक योग्य हैं, अधिक धार्मिक जानकारी रखते हैं, अधिक बेहतर फ़ैसला लेने की क्षमता रखते हैं तो निःसंदेह वह अपना मश्विरा दंे, उस मश्विरे को सामने रखे, वरना ख़ुदा के लिए अपने स्वाभिमान की शांति, किसी के साथ खड़े होने के शौक़ में उसे जटिल बनाने का प्रयास न करें, प्रयास करें, प्रयास करें, प्रयास कारगर होता न दिखे तो दुआ करें कि सब संगठित रहें। आपसी एकता और स्नेह के साथ इस मसले का हल निकले और बेहतर है कि 23 फ़रवरी से पहले निकले। इस सिलसिले में यही मेरा पहला और अंतिम सुझााव है और इसके साथ ही इस विषय पर मैं अपनी गुफ़्तगू समाप्त करता हूं।
...............................................