کچھ پیشے ایسے ہیں، جنہیں معاشرے میں انتہائی عظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ان میں ڈاکٹری کاپیشہ، درس و تدریس اور سرحدوں پر تعینات ملک کی حفاظت کی ذمہ داریاں نبھانے والے سرفہرست آتے ہیں۔ رسول اکرم حضرت محمد مصطفیؐ نے علم حاصل کرنے کے لےے چین تک جانے کی بات کہی۔ چین نہ تو اس وقت اسلامی تعلیمات کا مرکز تھا اور نہ ہی آج ہے۔ اگر ہمارے رسولؐ نے ہمیں یہ ہدایت دی کہ علم حاصل کرنے کے لےے چین تک جانے کی ضرورت پیش آئے تو بھی ضرور جایا جائے، یعنی علم حاصل کرنے کے لےے نہ تو فاصلوں کو ذہن میں رکھا جائے، نہ ملک کی سرحدوں کو، نہ علم کی روشنی دکھانے والوں کے مذاہب کو، یعنی علم جس سے بھی حاصل کرتے ہیں، ضرور کریں خواہ اس کا مذہب کوئی بھی کیوں نہ ہو۔
ڈاکٹری کا پیشہ بھی اس قدر قابل احترام پیشہ ہے کہ بہت سے لوگ اس پیشہ سے وابستہ افراد کو خدا کے بعد کا درجہ دیتے ہیں۔ اس لےے کہ وہ انسانوں کی جان بچانے کا کام انجام دیتا ہے۔ ہماری سرحدوں پر تعینات سپاہی صرف ملک کی سرحدوں کی حفاظت ہی نہیں کرتے، ہماری تہذیب کی بھی حفاظت کرتے ہیں اور اپنے ملک کے عوام کی بھی حفاظت کرتے ہیں۔ اگر بدقسمتی سے ہمارے درس و تدریس سے وابستہ افراد تعلیم دینے کی ذمہ داری نبھانے کی بجائے معاشرے کو گمراہ کرنے کی سمت میں چل پڑیں تو پھر ہم انہیں کیا کہیں گے۔ پنے کے واڈیا کالج میں شعبۂ کیمسٹری کے سربراہ پروفیسر انسانو ںکی جان لینے کے لےے بم سازی کی تربیت دینے کا کام کرتے رہے ہیں۔ اپولواسپتال کے ڈاکٹر آرپی سنگھ، جن کے کارناموں کے بارے میں کل کے مضمون میں روشنی ڈالی گئی تھی، وہ ملک کے نائب صدرجمہوریہ عالیجناب حامد انصاری صاحب کی جان لینے کے ارادہ سے تباہی کا سامان اپنے ساتھ لے کر دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پہنچے تھے، اب یہ الگ بات ہے کہ انہیں یہ موقع نہیں مل سکا (اللہ بڑا کارساز ہے)۔ کرنل پروہت اور میجراپادھیائے کے نام اب تک ہمارے قارئین کے ذہنوں میں پیوست ہوچکے ہوں گے۔ شہید ہیمنت کرکرے نے مالیگاؤں بم دھماکوں کی تحقیقات کرتے ہوئے ان کے ملک دشمن، انسانیت دشمن چہروں کو بے نقاب کیا تھا۔
باوجود ان تمام افسوسناک واقعات کے ہمارا اعتماد آج بھی ان تمام پیشوں سے وابستہ افراد پر قائم ہے اور ان انکشافات کے بعد بھی ان کی عظمت میں کوئی کمی نہیں ہوگی، اس لےے کہ چند افراد کے گمراہ ہوجانے سے ان باوقار پیشوں کی اہمیت کو کم کرکے نہیں دیکھا جاسکتا، مگر یہ لمحہ فکریہ ضرور ہے، جو ہم تمام ہندوستانیوں کو بلاتفریق مذہب و ملت متحدہوکر اس سمت میں سوچنے کے لےے مجبور کرتا ہے کہ سنگھ پریواراور اس کے کارندے آخر ملک اور اس ملک کے عوام کے مستقبل کو کس کس طرح تباہ کررہے ہےں۔ ہندوراشٹر کا خواب دکھانے والے کیا یہ ہندوؤں کے دوست ہےں؟ ہندو مذہب کی شان میں اضافہ کررہے ہیں؟ کیا یہ شری رام کے آدرشوں کے پیروکار نظر آتے ہیں؟ اپنے عمل سے تو قطعاً نہیں اور عمل اس کے برعکس ہے تو عقیدہ کیا خاک ہوگا۔ کون نہیں جانتا کہ بم دھماکوں میں مارے جانے والے بے گناہ ہندو بھی ہوتے ہیں اور مسلمان بھی۔ بیشک گرفتاریوں اور موردالزام ٹھہرائے جانے کے تعلق سے مسلمان ضرور نشانہ پر رہتے ہیں، مگر مرنے والوں کی تعداد میں ہندو بھائی کہیں زیادہ ہوتے ہیں، اگر ہم عبادت گاہوں پر کےے گئے بم دھماکوں کے علاوہ عوامی جگہوں کو ذہن میں رکھیں تو کیا ہم کسی بھی مقصدسے چلائی جارہی اس تحریک کی ستائش کرسکتے ہیں؟ کیا اس فعل کو برداشت کرسکتے ہیں، جو بے گناہ انسانوں کی جان لینے پر آمادہ ہو؟مانا کہ چند مسلمان دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرلےے جاتے ہیں، انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا کر اذیتیں دی جاتی ہیں، ان کے خاندان کے افراد رسوا ہوتے ہیں، ان کے مذہب اسلام کو بدنام کرنے کا بہانہ مل جاتا ہے، مگر کس قیمت پر؟ بے گناہ ہندو بھائیوں کا قتل کرکے؟ ان کی ماؤں کی گود کو سونی کرکے؟ ان گھروں کے چراغوں کو بجھا کر؟ کبھی دل پر ہاتھ رکھ کر ان ماؤں سے بھی پوچھا جائے، ان بہنوں سے بھی پوچھا جائے، جن کے بھائیوں کی کلائی اب ان کے سامنے راکھی باندھنے کے لےے نہیں ہوگی۔ ان بیوائوں سے پوچھا جائے، جن کی مانگ کا سندور اجڑچکا ہوتا ہے، کیا وہ محض مسلمانوں کو بدنام کرنے کے نام پر ان کے اپنوں کی جانوں کی قربانی دینے کے لےے تیار ہیں؟ ہمیں نہیں لگتا کہ ان میں سے کوئی ایک بھی اس سوال پر اپنی رضامندی کا اظہار کرے گا۔ اب رہا سوال ہندوراشٹر کے لےے چلائی جارہی تحریک کا تو یہ تحریک تو ہندوستان، مسلمان اور اسلام کی دشمنی کے لےے نظر آتی ہے۔ اس میں ہندوراشٹر کا سوال کہاں ہے؟ ملک بدنام ہوتا ہے، ایک مخصوص قوم بدنام ہوتی ہے، مذہب اسلام بدنام ہوتا ہے اور ملتا کیا ہے؟ تباہی، بے گناہ انسانوں کا قتل…
ذرا سوچئے! جو بے گناہ سلاخوں کے پیچھے سزا پا رہے ہوتے ہیں، وہ تو پھر بھی زندہ رہتے ہیں اور انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرکے چھوٹ جانے کا موقع بھی ہوتا ہے، لیکن جو اس بے گناہ اس خون آلودہ سیاست کی نذر ہوکر مارے جاتے ہیں، وہ تو پھر سے زندہ نہیں ہوتے۔ کیا ان جنونیوں کے اس فعل کی تائید کی جاسکتی ہے؟
ہم نے بہت پہلے شہیدہیمنت کرکرے کی ہلاکت پر سوال اٹھائے تھے۔ ایسی بہت سی دلیلیں پیش کی تھیں، ان کی اہلیہ محترمہ کویتا کرکرے سے بارہا مل کر ان کی آنکھوں میں جھانک کر ان کا درد پڑھنے کی کوشش کی تھی۔ کیوں واپس لوٹا دیا نریندرمودی کو اپنے دروازے سے؟ کیوں قبول نہیں کی ایک کروڑ روپے کی رقم؟ بہت کچھ لکھا تھا ہم نے اور انشاء اللہ پھر لکھیں گے، لیکن آج کے انگریزی روزنامہ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ (22-07-2010) کے صفحہـ5پر شائع ایک مختصر خبر کا حوالہ ضرور دینا چاہےے۔ یہ خبر واضح کرتی ہے کہ 26نومبر008کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کا شکار شہیدہیمنت کرکرے دراصل ایک جان لیوا سازش کا شکار تھے۔ مہاراشٹر کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس ایس ایم مشرف نے اپنی کتاب "Who Killed Karkare"میں ہیمنت کرکرے کا قاتل ہندو دہشت گردوں کو قرار دیا ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے دہلی سے شائع ہونے والے ایک اور انگریزی روزنامہ ’’میل ٹوڈے‘‘ کی اس انکشافاتی رپورٹ کا باقی حصہ بھی موجود ہے، جس کے چند اہم اقتباسات ہم نے اپنے کل کے مضمون میں شامل اشاعت کےے تھے اور آج پھر ہم اس خصوصی رپورٹ کا باقی حصہ اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔اس کے بعد ہماری تحریر کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اےک چشم دےد گواہ نے ، جس سے خفےہ اےجنسےوں نے پوچھ گچھ کی تھی دعویٰ کےا ہے کہ آر اےس اےس چےف موہن بھاگوت کے قرےبی معاون اندرےش کمار کو مکہ مسجد اور اجمےر درگاہ بم دھماکوں کا علم نہ ہو، ےہ ممکن نہےں، کےونکہ ان دھماکوں کا کلےدی مشتبہ ملزم سنےل جوشی ان کا ہی شاگرد تھا۔ ہےڈ لائنس ٹوڈے کے اسٹنگ آپرےشن مےں دہشت گردی کی سازش کے چشم دےد گواہ نے الزام لگاےا ہے کہ اندرےش کمار نے ہی سنےل جوشی کو دھماکوں کی تربےت و ترغےب دی تھی ۔ سنےل جوشی مدھےہ پردےش کے دےواس ضلع کا آر اےس اےس پرچارک تھا ، جس پر مکہ مسجد مےں بم دھماکے کرکے 17 لوگوں کو ہلاک کرنے اور اجمےر شرےف مےں بم دھماکے کرکے 2 افراد کی ہلاکت کا الزام ہے۔
اندرےش کمار آر اےس اےس کی حکمت عملی کا اہم رکن ہے۔واضح رہے کہ خفےہ اےجنسےاں پہلے ہی اندرےش کمار اور دےوندر گپتا کے رشتوں کی تفتےش کر چکی ہےں۔ دےوندر اجمےر بم دھماکوں کا اہم ملزم ہے۔ اجمےر دھماکوں کے بعد ہی سنےل جوشی کا دسمبر 2007 مےں دےواس مےں قتل کردےاگےا تھا۔ سنےل جوشی ’’ شام آر اےس اےس کا گجرات کا اےک رکن ہے جس کی جوشی سے بے حد قربت تھی، جب کوئی شخص کسی کا آقا ےا تربےت کار ہوتا ہے تو ےہ نا ممکن ہے کہ اسے ےہ معلوم نہ ہو کہ اس کے سامنے کےا چل رہا ہے۔ سنےل جوشی کو 2006 کے مالےگاؤں بم دھماکوں کی اہم ملزمہ اور جےل مےں مقےد پرگےہ سنگھ ٹھاکر کابھی قرےبی مانا جاتاتھا اور اےک مقامی کانگرےس لےڈر کے قتل کا الزام بھی اس پر عائد تھا۔
مئی اور جون 2006 کے درمےان شےام نے جوشی کے ساتھ جھارکھنڈ کا سفر کےا تھا۔ جوشی نے وہاں اسے 9 سم کارڈ مہےا کرائے تھے جس مےں سے 4 کا استعمال مکہ مسجد اور اجمےر بم دھماکوں کے IEDبلاک مےں کےاگےا تھا۔ شےام جوشی اور اسےما نند کے بےچ کی اہم کڑی بھی تھا۔ اسےما نند گجرات مےں اےک آشرم چلاتا ہے اور اس کا نام اجمےر اور مالےگاؤں بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ شےام کے مطابق ان دھماکوں والے دن شےام کو 7.45 پر سنےل جوشی نے فون کےا تھا اور 330 سکےنڈ تک اس سے بات کی تھی اور ےہ کہا تھا کہ شےام اسےما نند کو ےہ بتا دے کہ دےوالی سے قبل وہ اےک دھماکہ کر چکا ہے۔ شےام کے مطابق اسےما نند نے جوشی سے کہا تھا کہ وہ اس کے آشرم مےں آجائے کےونکہ اسے اس کی جان کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔
اسی دوران اےک اہم انکشاف ےہ بھی ہوا ہے کہ ہندوتو دہشت گردی کے اس نےٹ ورک کی جڑےں کافی گہری ہےں اور پنے کے واڈےا کالج کے شعبہ کےمسٹری کے سربراہ اور پروفےسر اس تنظےم کی بم سازی کی کارروائی کے استاد تھے۔بتاےا جاتاہے کہ شرد کنٹھے نے جو کہ فی الحال سی بی آئی کے زےرتفتےش ہےں ، پنے کے نزدےک واقع اےک پہاڑی علاقہ سنگھ گڑھ مےں اےک تربےتی کےمپ بھی چلاےاتھا۔ مہاراشٹر کی اے ٹی اےس ٹےم نے شرد کنٹھے سے مالےگائوں بم دھماکوں اور 2006 کے ناندےڑ بم دھماکوں کے سلسلے مےںسختی کے ساتھ پوچھ گچھ کی تھی۔راکےش دھائوڑے نے اس تربےتی کےمپ کے انعقاد مےں کنٹھے کی مدد کی تھی، اےک مجسٹرےٹ کے روبرو دئے گئے اپنے بےان مےں اس نے کنٹھے کے اس مشن سے متعلق جانکاری کاراز افشا کےا تھا ۔ مالےگائوں بم دھماکوں کا ملزم کنٹھے اور دھائوڑے فی الحال 2007بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ لےفٹےننٹ کرنل پرساد پروہت کے ساتھ ناسک جےل مےں بند ہےں۔ ’’ جون 2003مےں کنٹھے نے مجھے پنے سہادا سڑک اور سنگھ گڑھ قلعہ کے نزدےک واقع بنگلہ کا اس لحاظ سے سروے کرنے کے لئے کہاتھا کہ آےا ان مےں سے کون سی جگہ تربےت کےمپ کے لئے مناسب رہے گی اور مےں نے سنگھ گڑھ کو ہی اس کےمپ کے لئے مناسب بتاےاتھا۔‘‘ دھائوڑے کے اس بےان سے کنٹھے اور پروفےسر دےوکی عرفےت رکھنے والے ا ےک فوجی افسر کوسےکورٹی اےجنسےوں کو گرفت مےں لےنے کا موقع ملاتھا۔دھائوڑے نے بتاےاہے کہ دےوآگانشا مےں اےک تربےتی کےمپ کے انعقاد کے سلسلے مےں ہی وہاں آئے تھے۔پروفےسر دےو نے مجھے فوری طور پر دوٹارچ مہےا کرانے کے لئے کہاتھا۔مےں نے ان سے درےافت کےا تھا کہ کےا ان کا تعلق وی اےچ پی سے ہے ،تاہم انہوں نے مجھے اپنے کام سے کام رکھنے کی ہداےت دی تھی، پروفےسر دےو کی رہنمائی مےں ہی کنٹھے کے طلباء کو آتش گےر مادہ تےار کرنے کے لئے پےچےدہ کام کی تربےت دی گئی تھی۔
دھائوڑے کی اطلاع کے مطابق ، کنٹھے کے طلبا نے پنے کے مضافاتی علاقہ پودن دار قلعہ مےں ہی بم سازی کی تربےت حاصل کی تھی۔انہوں نے کچھ تھےلے ، پےڑول کا اےک کنستر، گتے کا اےک ڈبہ اور تےن چار بےئر کی بوتلےں کار مےں رکھے جانے کی ہداےت دی تھی۔ان سب اشےا کے ساتھ ہم لوگ کار سے اتر کر اس پہاڑی علاقہ مےں پہنچے تھے اور دوطالب علموں سے کہاگےاتھا کہ وہ اس علاقہ مےں گاڑےوں کی آمد ورفت پر نظر رکھےں۔
دھائوڑے نے تفتےش کاروں کو اس بات کی بھی تفصےلی معلومات فراہم کی تھی کہ دہشت گردی کے اس بھگوا برےگےڈ نے کس طرح آتش گےر مادہ اور ہتھےار فراہم کئے تھے۔دھائوڑے نے مجسٹرےٹ کو دئے گئے بےان مےں ےہ بھی انکشاف کےا ہے کہ ڈاکٹرکنٹھے نے انہےں رےلوے اسٹےشن کے قرےب اےک لاج کا انتظام کرنے کی بھی ہداےت دی تھی۔ ہداےات کے مطابق مےں اےک نوجوان کو اپنے ساتھ لے کر نزدےک ہی واقع متھرا لاج گےا تھا۔ ےہ نوجوان اےک بڑا سا تھےلا بھی اٹھائے ہوئے تھا۔ اس نے مجھے وہ پستول بھی دکھا ئی تھی جو اس نے اپنی قمےص کے نےچے چھپا رکھی تھی۔ نوجوان نے مجھے بتاےا تھا کہ اس تھےلے مےں آتش گےر مادہ ہے اور مےں اسے کنٹھے کی رہائش گاہ تک لے کر گےا تھا۔……………………………(جاری
ڈاکٹری کا پیشہ بھی اس قدر قابل احترام پیشہ ہے کہ بہت سے لوگ اس پیشہ سے وابستہ افراد کو خدا کے بعد کا درجہ دیتے ہیں۔ اس لےے کہ وہ انسانوں کی جان بچانے کا کام انجام دیتا ہے۔ ہماری سرحدوں پر تعینات سپاہی صرف ملک کی سرحدوں کی حفاظت ہی نہیں کرتے، ہماری تہذیب کی بھی حفاظت کرتے ہیں اور اپنے ملک کے عوام کی بھی حفاظت کرتے ہیں۔ اگر بدقسمتی سے ہمارے درس و تدریس سے وابستہ افراد تعلیم دینے کی ذمہ داری نبھانے کی بجائے معاشرے کو گمراہ کرنے کی سمت میں چل پڑیں تو پھر ہم انہیں کیا کہیں گے۔ پنے کے واڈیا کالج میں شعبۂ کیمسٹری کے سربراہ پروفیسر انسانو ںکی جان لینے کے لےے بم سازی کی تربیت دینے کا کام کرتے رہے ہیں۔ اپولواسپتال کے ڈاکٹر آرپی سنگھ، جن کے کارناموں کے بارے میں کل کے مضمون میں روشنی ڈالی گئی تھی، وہ ملک کے نائب صدرجمہوریہ عالیجناب حامد انصاری صاحب کی جان لینے کے ارادہ سے تباہی کا سامان اپنے ساتھ لے کر دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پہنچے تھے، اب یہ الگ بات ہے کہ انہیں یہ موقع نہیں مل سکا (اللہ بڑا کارساز ہے)۔ کرنل پروہت اور میجراپادھیائے کے نام اب تک ہمارے قارئین کے ذہنوں میں پیوست ہوچکے ہوں گے۔ شہید ہیمنت کرکرے نے مالیگاؤں بم دھماکوں کی تحقیقات کرتے ہوئے ان کے ملک دشمن، انسانیت دشمن چہروں کو بے نقاب کیا تھا۔
باوجود ان تمام افسوسناک واقعات کے ہمارا اعتماد آج بھی ان تمام پیشوں سے وابستہ افراد پر قائم ہے اور ان انکشافات کے بعد بھی ان کی عظمت میں کوئی کمی نہیں ہوگی، اس لےے کہ چند افراد کے گمراہ ہوجانے سے ان باوقار پیشوں کی اہمیت کو کم کرکے نہیں دیکھا جاسکتا، مگر یہ لمحہ فکریہ ضرور ہے، جو ہم تمام ہندوستانیوں کو بلاتفریق مذہب و ملت متحدہوکر اس سمت میں سوچنے کے لےے مجبور کرتا ہے کہ سنگھ پریواراور اس کے کارندے آخر ملک اور اس ملک کے عوام کے مستقبل کو کس کس طرح تباہ کررہے ہےں۔ ہندوراشٹر کا خواب دکھانے والے کیا یہ ہندوؤں کے دوست ہےں؟ ہندو مذہب کی شان میں اضافہ کررہے ہیں؟ کیا یہ شری رام کے آدرشوں کے پیروکار نظر آتے ہیں؟ اپنے عمل سے تو قطعاً نہیں اور عمل اس کے برعکس ہے تو عقیدہ کیا خاک ہوگا۔ کون نہیں جانتا کہ بم دھماکوں میں مارے جانے والے بے گناہ ہندو بھی ہوتے ہیں اور مسلمان بھی۔ بیشک گرفتاریوں اور موردالزام ٹھہرائے جانے کے تعلق سے مسلمان ضرور نشانہ پر رہتے ہیں، مگر مرنے والوں کی تعداد میں ہندو بھائی کہیں زیادہ ہوتے ہیں، اگر ہم عبادت گاہوں پر کےے گئے بم دھماکوں کے علاوہ عوامی جگہوں کو ذہن میں رکھیں تو کیا ہم کسی بھی مقصدسے چلائی جارہی اس تحریک کی ستائش کرسکتے ہیں؟ کیا اس فعل کو برداشت کرسکتے ہیں، جو بے گناہ انسانوں کی جان لینے پر آمادہ ہو؟مانا کہ چند مسلمان دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرلےے جاتے ہیں، انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا کر اذیتیں دی جاتی ہیں، ان کے خاندان کے افراد رسوا ہوتے ہیں، ان کے مذہب اسلام کو بدنام کرنے کا بہانہ مل جاتا ہے، مگر کس قیمت پر؟ بے گناہ ہندو بھائیوں کا قتل کرکے؟ ان کی ماؤں کی گود کو سونی کرکے؟ ان گھروں کے چراغوں کو بجھا کر؟ کبھی دل پر ہاتھ رکھ کر ان ماؤں سے بھی پوچھا جائے، ان بہنوں سے بھی پوچھا جائے، جن کے بھائیوں کی کلائی اب ان کے سامنے راکھی باندھنے کے لےے نہیں ہوگی۔ ان بیوائوں سے پوچھا جائے، جن کی مانگ کا سندور اجڑچکا ہوتا ہے، کیا وہ محض مسلمانوں کو بدنام کرنے کے نام پر ان کے اپنوں کی جانوں کی قربانی دینے کے لےے تیار ہیں؟ ہمیں نہیں لگتا کہ ان میں سے کوئی ایک بھی اس سوال پر اپنی رضامندی کا اظہار کرے گا۔ اب رہا سوال ہندوراشٹر کے لےے چلائی جارہی تحریک کا تو یہ تحریک تو ہندوستان، مسلمان اور اسلام کی دشمنی کے لےے نظر آتی ہے۔ اس میں ہندوراشٹر کا سوال کہاں ہے؟ ملک بدنام ہوتا ہے، ایک مخصوص قوم بدنام ہوتی ہے، مذہب اسلام بدنام ہوتا ہے اور ملتا کیا ہے؟ تباہی، بے گناہ انسانوں کا قتل…
ذرا سوچئے! جو بے گناہ سلاخوں کے پیچھے سزا پا رہے ہوتے ہیں، وہ تو پھر بھی زندہ رہتے ہیں اور انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرکے چھوٹ جانے کا موقع بھی ہوتا ہے، لیکن جو اس بے گناہ اس خون آلودہ سیاست کی نذر ہوکر مارے جاتے ہیں، وہ تو پھر سے زندہ نہیں ہوتے۔ کیا ان جنونیوں کے اس فعل کی تائید کی جاسکتی ہے؟
ہم نے بہت پہلے شہیدہیمنت کرکرے کی ہلاکت پر سوال اٹھائے تھے۔ ایسی بہت سی دلیلیں پیش کی تھیں، ان کی اہلیہ محترمہ کویتا کرکرے سے بارہا مل کر ان کی آنکھوں میں جھانک کر ان کا درد پڑھنے کی کوشش کی تھی۔ کیوں واپس لوٹا دیا نریندرمودی کو اپنے دروازے سے؟ کیوں قبول نہیں کی ایک کروڑ روپے کی رقم؟ بہت کچھ لکھا تھا ہم نے اور انشاء اللہ پھر لکھیں گے، لیکن آج کے انگریزی روزنامہ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ (22-07-2010) کے صفحہـ5پر شائع ایک مختصر خبر کا حوالہ ضرور دینا چاہےے۔ یہ خبر واضح کرتی ہے کہ 26نومبر008کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کا شکار شہیدہیمنت کرکرے دراصل ایک جان لیوا سازش کا شکار تھے۔ مہاراشٹر کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس ایس ایم مشرف نے اپنی کتاب "Who Killed Karkare"میں ہیمنت کرکرے کا قاتل ہندو دہشت گردوں کو قرار دیا ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے دہلی سے شائع ہونے والے ایک اور انگریزی روزنامہ ’’میل ٹوڈے‘‘ کی اس انکشافاتی رپورٹ کا باقی حصہ بھی موجود ہے، جس کے چند اہم اقتباسات ہم نے اپنے کل کے مضمون میں شامل اشاعت کےے تھے اور آج پھر ہم اس خصوصی رپورٹ کا باقی حصہ اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔اس کے بعد ہماری تحریر کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اےک چشم دےد گواہ نے ، جس سے خفےہ اےجنسےوں نے پوچھ گچھ کی تھی دعویٰ کےا ہے کہ آر اےس اےس چےف موہن بھاگوت کے قرےبی معاون اندرےش کمار کو مکہ مسجد اور اجمےر درگاہ بم دھماکوں کا علم نہ ہو، ےہ ممکن نہےں، کےونکہ ان دھماکوں کا کلےدی مشتبہ ملزم سنےل جوشی ان کا ہی شاگرد تھا۔ ہےڈ لائنس ٹوڈے کے اسٹنگ آپرےشن مےں دہشت گردی کی سازش کے چشم دےد گواہ نے الزام لگاےا ہے کہ اندرےش کمار نے ہی سنےل جوشی کو دھماکوں کی تربےت و ترغےب دی تھی ۔ سنےل جوشی مدھےہ پردےش کے دےواس ضلع کا آر اےس اےس پرچارک تھا ، جس پر مکہ مسجد مےں بم دھماکے کرکے 17 لوگوں کو ہلاک کرنے اور اجمےر شرےف مےں بم دھماکے کرکے 2 افراد کی ہلاکت کا الزام ہے۔
اندرےش کمار آر اےس اےس کی حکمت عملی کا اہم رکن ہے۔واضح رہے کہ خفےہ اےجنسےاں پہلے ہی اندرےش کمار اور دےوندر گپتا کے رشتوں کی تفتےش کر چکی ہےں۔ دےوندر اجمےر بم دھماکوں کا اہم ملزم ہے۔ اجمےر دھماکوں کے بعد ہی سنےل جوشی کا دسمبر 2007 مےں دےواس مےں قتل کردےاگےا تھا۔ سنےل جوشی ’’ شام آر اےس اےس کا گجرات کا اےک رکن ہے جس کی جوشی سے بے حد قربت تھی، جب کوئی شخص کسی کا آقا ےا تربےت کار ہوتا ہے تو ےہ نا ممکن ہے کہ اسے ےہ معلوم نہ ہو کہ اس کے سامنے کےا چل رہا ہے۔ سنےل جوشی کو 2006 کے مالےگاؤں بم دھماکوں کی اہم ملزمہ اور جےل مےں مقےد پرگےہ سنگھ ٹھاکر کابھی قرےبی مانا جاتاتھا اور اےک مقامی کانگرےس لےڈر کے قتل کا الزام بھی اس پر عائد تھا۔
مئی اور جون 2006 کے درمےان شےام نے جوشی کے ساتھ جھارکھنڈ کا سفر کےا تھا۔ جوشی نے وہاں اسے 9 سم کارڈ مہےا کرائے تھے جس مےں سے 4 کا استعمال مکہ مسجد اور اجمےر بم دھماکوں کے IEDبلاک مےں کےاگےا تھا۔ شےام جوشی اور اسےما نند کے بےچ کی اہم کڑی بھی تھا۔ اسےما نند گجرات مےں اےک آشرم چلاتا ہے اور اس کا نام اجمےر اور مالےگاؤں بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ شےام کے مطابق ان دھماکوں والے دن شےام کو 7.45 پر سنےل جوشی نے فون کےا تھا اور 330 سکےنڈ تک اس سے بات کی تھی اور ےہ کہا تھا کہ شےام اسےما نند کو ےہ بتا دے کہ دےوالی سے قبل وہ اےک دھماکہ کر چکا ہے۔ شےام کے مطابق اسےما نند نے جوشی سے کہا تھا کہ وہ اس کے آشرم مےں آجائے کےونکہ اسے اس کی جان کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔
اسی دوران اےک اہم انکشاف ےہ بھی ہوا ہے کہ ہندوتو دہشت گردی کے اس نےٹ ورک کی جڑےں کافی گہری ہےں اور پنے کے واڈےا کالج کے شعبہ کےمسٹری کے سربراہ اور پروفےسر اس تنظےم کی بم سازی کی کارروائی کے استاد تھے۔بتاےا جاتاہے کہ شرد کنٹھے نے جو کہ فی الحال سی بی آئی کے زےرتفتےش ہےں ، پنے کے نزدےک واقع اےک پہاڑی علاقہ سنگھ گڑھ مےں اےک تربےتی کےمپ بھی چلاےاتھا۔ مہاراشٹر کی اے ٹی اےس ٹےم نے شرد کنٹھے سے مالےگائوں بم دھماکوں اور 2006 کے ناندےڑ بم دھماکوں کے سلسلے مےںسختی کے ساتھ پوچھ گچھ کی تھی۔راکےش دھائوڑے نے اس تربےتی کےمپ کے انعقاد مےں کنٹھے کی مدد کی تھی، اےک مجسٹرےٹ کے روبرو دئے گئے اپنے بےان مےں اس نے کنٹھے کے اس مشن سے متعلق جانکاری کاراز افشا کےا تھا ۔ مالےگائوں بم دھماکوں کا ملزم کنٹھے اور دھائوڑے فی الحال 2007بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ لےفٹےننٹ کرنل پرساد پروہت کے ساتھ ناسک جےل مےں بند ہےں۔ ’’ جون 2003مےں کنٹھے نے مجھے پنے سہادا سڑک اور سنگھ گڑھ قلعہ کے نزدےک واقع بنگلہ کا اس لحاظ سے سروے کرنے کے لئے کہاتھا کہ آےا ان مےں سے کون سی جگہ تربےت کےمپ کے لئے مناسب رہے گی اور مےں نے سنگھ گڑھ کو ہی اس کےمپ کے لئے مناسب بتاےاتھا۔‘‘ دھائوڑے کے اس بےان سے کنٹھے اور پروفےسر دےوکی عرفےت رکھنے والے ا ےک فوجی افسر کوسےکورٹی اےجنسےوں کو گرفت مےں لےنے کا موقع ملاتھا۔دھائوڑے نے بتاےاہے کہ دےوآگانشا مےں اےک تربےتی کےمپ کے انعقاد کے سلسلے مےں ہی وہاں آئے تھے۔پروفےسر دےو نے مجھے فوری طور پر دوٹارچ مہےا کرانے کے لئے کہاتھا۔مےں نے ان سے درےافت کےا تھا کہ کےا ان کا تعلق وی اےچ پی سے ہے ،تاہم انہوں نے مجھے اپنے کام سے کام رکھنے کی ہداےت دی تھی، پروفےسر دےو کی رہنمائی مےں ہی کنٹھے کے طلباء کو آتش گےر مادہ تےار کرنے کے لئے پےچےدہ کام کی تربےت دی گئی تھی۔
دھائوڑے کی اطلاع کے مطابق ، کنٹھے کے طلبا نے پنے کے مضافاتی علاقہ پودن دار قلعہ مےں ہی بم سازی کی تربےت حاصل کی تھی۔انہوں نے کچھ تھےلے ، پےڑول کا اےک کنستر، گتے کا اےک ڈبہ اور تےن چار بےئر کی بوتلےں کار مےں رکھے جانے کی ہداےت دی تھی۔ان سب اشےا کے ساتھ ہم لوگ کار سے اتر کر اس پہاڑی علاقہ مےں پہنچے تھے اور دوطالب علموں سے کہاگےاتھا کہ وہ اس علاقہ مےں گاڑےوں کی آمد ورفت پر نظر رکھےں۔
دھائوڑے نے تفتےش کاروں کو اس بات کی بھی تفصےلی معلومات فراہم کی تھی کہ دہشت گردی کے اس بھگوا برےگےڈ نے کس طرح آتش گےر مادہ اور ہتھےار فراہم کئے تھے۔دھائوڑے نے مجسٹرےٹ کو دئے گئے بےان مےں ےہ بھی انکشاف کےا ہے کہ ڈاکٹرکنٹھے نے انہےں رےلوے اسٹےشن کے قرےب اےک لاج کا انتظام کرنے کی بھی ہداےت دی تھی۔ ہداےات کے مطابق مےں اےک نوجوان کو اپنے ساتھ لے کر نزدےک ہی واقع متھرا لاج گےا تھا۔ ےہ نوجوان اےک بڑا سا تھےلا بھی اٹھائے ہوئے تھا۔ اس نے مجھے وہ پستول بھی دکھا ئی تھی جو اس نے اپنی قمےص کے نےچے چھپا رکھی تھی۔ نوجوان نے مجھے بتاےا تھا کہ اس تھےلے مےں آتش گےر مادہ ہے اور مےں اسے کنٹھے کی رہائش گاہ تک لے کر گےا تھا۔……………………………(جاری
1 comment:
jazakallah !
saleem
9838659380
Post a Comment