Thursday, August 21, 2008

مسلمانانِ ہند ماضی ،حال اور مستقبل ؟؟؟

اصل مجرم کون ہے خود سے پوچھئے....

ہندوستان میں مذہب اسلام سے تعلق رکھنے والے علماءدین بشمول جمیعت علماءہند اور دارالعلوم دیو بند کا جدو جہد آزادی میں کیا کر دار رہا ۔کس قدر انگریز ان کے مخالف ہو گئے ۔انھیں قید خانوں میں ڈالا گیا۔پھانسی پر لٹکایا گیا۔یہ سب تاریخ کا حصہ ہے ۔جسے کچھ حد تک گزشتہ دو ہفتے سے قسط وار مضامین کی شکل میں آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔پہلے اگست کرانتی یعنی 9 اگست 1942سے یوم آزادی 2008تک کے عنوان سے ایک مسلسل مضمون جو کہ آٹھ قسطوں میں شائع کیا گیا۔اس کے بعد مسلمانان ِ ہند ماضی،حال اور مستقبل کے تحت ایک اور قسط وار مضمون شروع کیا گیا۔جس کی چوتھی قسط اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے اوریہ سلسلہ ابھی جاری رہیگا۔کیونکہ بہت سے حقائق منظر عام پر لانا ہے۔مگر اس درمیان جو واقعات پیش آجاتے ہیں۔انھیں بھی تاریخ کی روشنی میں بیان کرنا وقت اور حالات کا تقاضہ لگتا ہے۔

جس طرح احمد آباد دھماکوں کے بعد مفتی ابو البشر کی گرفتاری ہوئی اور بعد میں ان کا اقبال جرم جو پولیس کے ذریعے سامنے رکھ دیا گیا۔یہ ایک ایسا موضوع ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔لہٰذا کل کی قسط مفتی ابو البشر اور جدو جہد آزادی میں ہندوستانی علماءدین کے کردار پر مشتمل ہوگی۔آج کی قسط میں میں گزشتہ 10-05-08کو اردو پارک نئی دلی میں دہشت گردی کے خلاف منعقد کئے گئے ایک عظیم الشان جلسے میں کی گئی اپنی تقریر کو آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

وہ اس لئے کہ تقریباً پچھلے چھ ماہ سے ملک گیر سطح پر علماءکرام کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف ایک زبردست مہم چھیڑی گئی۔جس کاا ٓغاز دارالعلوم دیو بند کے آنگن سے25فروری2008 کو ہوا اور یہ سلسلہ یکم جون 2008کو شاہی امام سید احمد بخاری ان کے بھائی جناب یحیٰ بخاری کے ذریعے ہوٹل تاج مان سنگھ نئی دلی میں منعقد کی گئی۔دہشت گردی کے خلاف عالمی کانفرنس تک جاری رہا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بڑی تعداد میں ہندوستانی مسلمان دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔

مسلم تنظیمیں دہشت گردی کے خلاف بڑے بڑے جلسے منعقد کر رہی ہیں۔ ایسے میں دیندار مسلمانوں کو بم دھماکوں میں ملوث ثابت کر کے آخر پولیس اور انتظامیہ کیا ظاہر کرنا چاہتی ہیں؟ اگر واقعی کہیں کوئی شخص ان بم دھماکوں میں ملوث ہے تو تمام سچائی ثبوتوں کے ساتھ سامنے کیوں نہیں رکھی جاتی؟ کیوں ایسے افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے کے قوم مشتعل ہو؟مذہبی اور سیاسی رہنما احتجاجی جلسے کرنے پر مجبور ہوں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مسلم علماءکرام کی دہشت گردی کے خلاف تحریک سے مذہبی منافرت کے ذریعے سیاست کرنے والے پریشان ہو گئے ہوں اور انھیں یہ محسوس ہونے لگا ہو کہ اگر آئندہ الیکشن تک فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا نا ہوئی تو اپنے ووٹ بنک کو کس طرح اپنی جانب متوجہ کیا جائیگا۔

میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ تقسیم وطن کی بنیاد مذہب نہیں سیاست تھی اور اس حقیقت کو تاریخی حوالوں سے ثابت کیا جا سکتا ہے اور دہشت گردی کے تعلق سے بھی میرا ماننا یہی ہے کہ اس کی وجہ بھی مذہب نہیں سیاست ہے۔ یہی مرکزی خیال تھا دہشت گردی کے خلاف منعقد کئے گئے جلسے میں کی گئی میری تقریر کا جسے اس وقت آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔تاکہ دہشت گردی اور اس کے اسباب کو آپ کے سامنے رکھا جا سکے

برادران اسلام! اسلام علیکم،

آج کے اس عظیم الشان جلسہ کے صدر محترم، مولانا ارشد مدنی صاحب ،اسٹیج پر تشریف فرما علماءکرام، بہن تیستا سیتلواڑ، بھائی کلدیپ نیر صاحب اورعزیزان محترم!
میں جس وقت یہاں حاضر ہوا سب سے پہلے میں نے تیستاسیتلواڑ صاحبہ کو سنا۔ لگاکہ تپتی ہوئی زمین پر ایک ہوا کا ایسا شیتل جھونکا ہمارے نزدیک موجود ہے جہاں ابھی ہم سانس لے سکتے ہیں۔
مولانا سلمان صاحب کے بعد میں نے کلدیپ نیرصاحب کو سنا، ایک ایسے دیپ کو سنا، جس نے سرحد پر محبت کا دیا جلایا، میں سلام کرتا ہوں ان شخصیتوں کو۔

عزیزان محترم! ہمارا ملک جب انگریزوں کا غلام تھا تب اس غلامی سے نجات دلانے کے لیے آگے آیا دارالعلوم دیوبند اور اس کے عطیہ سے، اس کی دعاو
¿ں سے،اس کی قربانیوں سے اس ملک کو آزادی نصیب ہوئی اور آج ایک بار پھر جب یہ ملک غلام ہے دہشت گردی کا، تب ایک بار پھر یہ آواز بلند ہوئی، اسی دارالعلوم کے آنگن سے اور یہ آواز آج عالم گیر سطح پر پہنچ رہی ہے۔ یقیناً یہ وہ آواز ہے جو آج پوری دنیا کے دہشت گردوں کو یہ بتائے گی کہ دہشت گرد کون ہے؟ اور وہ جو کہتے رہے تھے کہ ہندوستان میں چلنے والے مدرسے دہشت گردی کے اڈے ہیں آج وہ سمجھ لیںگے کہ ہندوستان میں چلنے والے مدرسے اس ملک کو آزادی بھی دلاتے ہیں اور دہشت گردی سے نجات بھی دلاتے ہیں۔

جانتا ہوں وقت بہت کم ہے، اخبار کا ایڈیٹر ہوں اس لیے میری یہ کوشش ہوتی ہے کسی بات کا ریپٹیشن (repeatation) نہ ہو اس لیے اپنی تقریر کی ایڈیٹنگ بھی کرتا رہا اور صدر محترم کو اپنی بات مکمل کرنے کا موقع بھی رہے یہ احساس بھی ہے مگر چند باتیں گوش گزار ضرور کرنا چاہتا ہوں، وجہ یہ بھی رہی کہ میرے نزدیک اس وقت ایک ٹیلی ویژن چینل کی خاتون آج کے صدر محترم سے چند سوال کررہی تھیں۔ پہلا سوال یہ تھا کہ آج کے اس دہشت گردی کے خلاف جلسہ کا ادّیشیہ کیا ہے؟ مقصد کیا ہے؟ کیا دہشت گردی کے خلاف منعقد کیے جانے والے اس جلسہ کے انعقاد کا مقصد سوائے اس کے بھی اور کچھ ہو سکتا ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف اتحاد کے لیے کھڑے ہوئے ہیں؟ امن کا الم اپنے ہاتھوں میں لے کر کھڑے ہوئے ہیں یہی جواب ہے ہمارا۔

اگلا سوال تھا کہ اس ملک میں دہشت گردی کے لیے آپ کن کو ذمہ دار مانتے ہیں؟ مولانا کا جواب تھا آر ایس ایس، پھر فرمایا اس کے بعد؟ مولانا کا جواب تھا بجرنگ دل، پھر پوچھا اس کے بعد؟

مولانا نے اس کے آگے جواب نہیں دیا۔ بہن تیستاسیتلواڑ صاحبہ سے بھی اس سے ہی ملتے جلتے سوال کیے گئے۔ شاید جس نام کا انتظار تھا انہیں میں لے دیتا ہوں وہ نام ۔ اگر آپ کو انتظار تھا داو
¿دابراہیم کے نام کا تو سن لیجئے کہ اگر وہ نام داو
¿د ابراہیم تھا تو اس کی دہشت گردی کیا ہے؟ یہ آپ عدالت کی روشنی میں دیکھیں پھر قرار دیں، میں بھی اسے مجرم قرار دوںگا اور ہمت ہے تو انصاف کے تقاضہ کے ساتھ آپ بھی اسے مجرم قرار دیں۔

28فروری 2002کو گجرات جل اٹھا اس لیے کہ 27فروری کو سابرمتی ایکسپریس میں ایک حادثہ ہوا، آپ اسے حادثہ قرار دیں یا یہ کہیں کہ دانستہ عمل تھا حالانکہ سی ایف ایل کی رپورٹ ہے کہ آگ باہر سے نہیں اندرسے لگائی گئی تھی، تاہم 58بے قصور لوگوں کی جانیں گئیں، اس کا ہمیں دکھ ہے۔ اور اس کا فطری ردعمل تھابقول چیف منسٹرگجرات نریندرمودی کے 2ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کرادیا گیا ان میں وہ بھی شامل تھے جنہوں نے ابھی دنیا میں قدم نہیں رکھا تھا، جنہیں شکم مادر میں ہی قتل کردیا گیا۔ آج سوال کیجئے اس فطری ردعمل کا اور خود پوچھئے اپنے آپ سے اپنے گریبان میں جھانک کر کہ اگر 58لوگوں کے قتل کا جواز تھا 3ہزار بے گناہ انسانوں کا قتل اور وہ عمل کا فطری ردعمل تھا تو 6دسمبر 1992کی بابری مسجد شہادت کے بعد مارچ 1993کا بمبئی بم بلاسٹ بھی فطری ردعمل تھا۔

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، ہمارا جمہوریت میں یقین ہے، ہمارا پارلیمنٹ میں یقین ہے، ہمارا عدالت وانصاف میں یقین ہے اگر جرم ایک ہے تو سزا بھی ایک ہی ہوگی۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ ایک عمل کے ردعمل میں 2ہزاربے گناہوں کا قتل کردے اور چیف منسٹر بنارہے؟ اور ایک کے اوپر ابھی الزام ثابت نہیں ہوا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد جن لوگوں کی جانیں گئیں ان میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی تھے اگر ان کا ردعمل تھا بمبئی کا بم بلاسٹ تب بھی یہ فرق کرنا ہوگا ایک ملک کا وہ ذمہ دار شخص تھا جس کے اوپر ایک ریاست میں امن کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری تھی۔ دوسرا شخص ملک کی کوئی ممتاز شخصیت نہیں تھا۔ یہ ہے میرا جواب جو اس وقت آپ کو نہیں ملا۔ ازراہِ کرم نوٹ کرلیں اور پوچھیں عدالت سے بڑا مجرم کون ہے نریندرمودی یا داو
¿دابراہیم؟
دہشت گرد اسلام ہے، دہشت گرد مسلمان ہے، ماناکہ سارے مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں مگر سچ یہ ہے کہ وہ سب دہشت گرد جو پکڑے گئے وہ مسلمان ہیں۔ آج میں کچھ سوال آپ سے کرتا ہوں، آزادی کے بعد 30جنوری 1948کو قتل کیا گیا مہاتما گاندھی کا جو اہنسا کے پجاری تھے، ان کا قاتل کون سا مسلمان تھا؟ کیا نام تھا اس کا؟ کیا بتائیںگے آپ؟ ہماری بہن تیستاسیتلواڑ نے کہا، عورتوں کو آگے آنا چاہیے، ہمارے ملک کی خاتون ہندوستان کی وزیر اعظم محترمہ اندراگاندھی آگے تھیں کیا قصور تھا ان کا؟ ان کی جان لی ایک دہشت گردی کے ذریعہ۔ کیا وہ مسلمان تھا؟ نام بتائے وہ کون سامسلمان تھا جس نے اندراگاندھی کی جان لی؟

راجیوگاندھی کا قتل ہوا کوئمبٹور میں، محترمہ پرینکا گاندھی ملنے گئیں ان کی قاتل نلنی سے، کون تھا اس کا قاتل؟ کیا کوئی مسلمان؟ بہت تعریف کی میڈیا نے، میں بھی میڈیا سے تعلق رکھتا ہوں، میں بھی تعریف کرتا ہوں محترمہ پرینکا گاندھی جی کی، بڑا حوصلہ کیا انہوں نے نلنی سے ملنے گئیں۔ اگر میںچلاجاو
¿ں ملنے داو
¿د ابراہیم یا بن لادن سے تو کیا کہیںگے آپ؟ کیا پروردگارعالم نے رحم کا ایک دل صرف آپ ہی کے سینے کے لیے ہی دیا ہے؟

آئیے تاریخ کی بات کیجئے پہلے اس ملک کے تقسیم وطن کی، میں طویل گفتگو نہیں کروںگا، مجھے معلوم ہے صدر محترم کو خطاب کرنا ہے مگر بات ادھوری رہ جائے گی دہشت گردی کے تعلق سے اٹھنے والے سوالات کا اگر جواب نہ دیا گیا تو.... ملک بانٹا مسلمانوں نے، 60سال سے یہی بات کہی جاتی رہی، اس سے بڑا جھوٹ کچھ بھی نہیں ہے، سچ یہ ہے کہ 14اگست 1947کو ملک نہیں بنٹا تھا مسلمان بٹے تھے، دانستہ مسلمانوں کو بانٹا گیا تھا اس لیے کہ ملک کو چلنا تھا ڈیموکریٹک پیٹرن پر، جمہوری طریقہ پر اور فیصلہ ووٹ سے ہونا تھا کہ جسے ووٹ زیادہ ملیںگے وہ ہی اس ملک پر حکومت کرے گا، حکومت کے دعویدار ایک سے زیادہ تھے، ملک ایک تھا، پنڈت جواہر لعل نہرو بھی حکومت کرنا چاہتے تھے، سردار پٹیل بھی حکومت کرنا چاہتے تھے، محمد علی جناح بھی حکومت کرنا چاہتے تھے، محمد علی جناح بھی بیرسٹر تھے، جواہر لعل نہرو بھی بیرسٹر تھے، دونوں بہترین انگریزی بولتے تھے، دونوں کا عوام پر اچھا اثر تھا، دونوں بہترین مقرر تھے، دونوں انگریزوں کے بہت نزدیک تھے، دونوں ہی حکومت کے دعویدار تھے۔

اس وقت کے سیاستداں ڈرگئے کہ 600برس کی مغلیہ سلطنت کا دور اگر ایک بار پھر شروع ہوگیا تو آزادی ہمارے لیے بے معنی ہوجائے گی۔ اس لیے زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا دے کر محمد علی جناح کو الگ کردیا گیا تاکہ مسلمان ہمیشہ کے لیے اقتدار سے محروم رہیں۔ ہم بے قصور ہیں، ہم بے گناہ ہیں، گنہگار ہے سیاست۔ اٹھاکر دیکھیں مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب Indias wins freedomصاف صاف انہوں نے لکھا ہے کہ دلّی کی گلیوں میں جہاں اس وقت کھڑے ہوکر میں آپ سے خطاب کررہا ہوں، مسلمانوں کو کتے اور بلیوں کی طرح کاٹ کر پھینک دیا گیا، کون تھے وہ دہشت گرد جنہوں نے انہیں کتے اور بلیوں کی طرح کاٹ کر پھینک دیا۔

یہ پوچھئے سوال اپنے آپ سے؟ ہم بڑے افسوس میں ہیں، ہم بڑی تکلیف میں ہیں کہ جب بم پھٹتا ہے مکی مسجد حیدرآباد میں تب بھی وہ نمازی جو اس وقت ہلاک ہوتے ہیں، شہید ہوتے ہیں اس کا الزام بھی کسی مسلمان پر اور جب بم پھٹتا ہے کسی عیدگاہ میں اس وقت بھی مجرم مسلمان ہیں۔ کیا آپ بھول گئے کہ اس ملک کی آزادی میں پھانسی پر چڑھ جانے والے شہید اشفاق اللہ بھی مسلمان تھے، آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ 1965میں پاکستان کو منھ توڑ جواب دینے والاویر عبدالحمید بھی مسلمان تھا، آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ کارگل کی جنگ میں شہید ہونے والا بھی کیپٹن حنیف الدین تھا۔یہ نام آپ کو یاد نہیں رہتے مگر وہ نام آپ کو یاد رہتے ہیں جنہوں نے انگریزوں کے دور میں غلامی کے پروانے پر دستخط کیے تھے، آپ انہیں اس ملک کے مسنداقتدار تک پہنچاتے ہیں، آج انہیں کے پرائم منسٹر ان ویٹنگ سے میں صرف ایک سوال کرنا چاہتا ہوںکہ جس وقت آپ ہندوستان میں تھے، ہمیشہ کہتے رہے کہ فرقہ پرست مدرسے والے ہیں، فرقہ پرست مسلمان ہیں مگر جب آپ کے قدم پاکستان کی زمین پر پڑے تو آپ کی آواز نکلی، آپ کی زبان نے کہا جناح سیکولر تھے، اگر محمد علی جناح سیکولر تھے تو فرقہ پرست کون تھا؟

یہ سوال اپنے آپ سے پوچھو۔ ایک آخری بات اور اس کے بعد اجازت اس لیے کہ جب جب اس ملک میں دہشت گردی کا ذکر ہوتا ہے، شروعات کشمیر سے ہوتی ہے، میں کہتا ہوں تاریخ کی روشنی میں اس لیے نہیں کہ مسلمان ہوں، اس لیے نہیں کہ اردو کا ایڈیٹر ہوں بلکہ اس لیے کہ ایک ہندوستانی ہوں، ایک سچا اور پکا امن پسند ہندوستانی ہوں۔ تاریخ کے اوراق بیان کر رہاہوں اگر کشمیری مسلمان دہشت گرد ہوتا، ہندوستان کے ساتھ رہنا نہ چاہتا تو جس وقت ملک بٹا تھا وہ سرحدی صوبہ تھا، اس کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیتا یا الگ اپنے وجود کی بات سامنے رکھتا، اگر اس وقت اس نے ہندوستان کے ساتھ رہ جانے کا فیصلہ کیا تو یہ اس کی وطن سے محبت کی سب سے بڑی دلیل ہے اس کے بعد جب لاہور سے آنے والی ریلوں میں ہندوو
¿ں کی لاشیں ہوتی تھیں، دلّی میں مسلمانوں کو مارا جارہا تھا اس وقت اگر کشمیر میں پنڈت اورڈوگرا محفوظ رہے، تب بھی وہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی تو بتائیے کہ وہ کب فرقہ پرست تھا؟ کب دہشت گرد تھا؟ آپ کو سوچنا ہوگا کہیں آپ نے انصاف میں کوئی چوک تو نہیں کی ہے؟

میں ایک مثال کے ذریعہ اپنی بات واضح کردینا چاہتا ہوں ایک معصوم بچہ بازار جاتا ہے، اپنے ماں باپ کے ساتھ، اپنی پسند کا ایک کھلونا خریدتا ہے۔ اس کی پوری کائنات وہی ایک کھلونا ہے، وہ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے اسی کھلونے کو عزیز رکھتا ہے مگر جب وہ پریشان ہوتا ہے جب وہ تکلیف میں ہوتا ہے، جب وہ بھوکا ہوتا ہے، وہ روتا ہے، چیختا ہے، چلاتا ہے اپنے ماں باپ کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے، ماں باپ اس کی چیخ نہیں سنتے، اس کی آواز نہیں سنتے، اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تووہ اپنے آس پاس کے سامان کو زمین پر پھینکنا شروع کردیتا ہے، ماں باپ پھر بھی اس کی طرف نہیں دیکھتے تب وہ اپنے محبوب کھلونے کو زمین پر پٹخ کر توڑ دیتا ہے، کیا یہ بچہ دہشت گرد ہے؟ کیا یہ بچہ دہشت گردی کے معنی جانتا ہے؟ دنیا کی جنت کشمیر میں رہنے والے آج اگر جہنم کے شعلوں میں جلنے کو مجبور ہیں تو سوچئے آپ... جب تک آپ کہتے رہیںگے کہ کشمیر ہمارا ہے،کشمیر ہمارا ہے، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

جب آپ کہیں گے کشمیری ہمارا ہے، کشمیری ہمارا ہے، صرف زمین ہی نہیں، زمین پر رہنے والا ہمارا ہے تب یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اور ہم سے پوچھتے ہو دہشت گردکون ہے تو افغانستان میں اسپتالوں اورمعصوموں پر گرتے ہوئے بموں کو دیکھواور دیکھو کہ ان کو گرانے والا کون ہے؟ دہشت گرد وہ ہے جب دیکھنا ہے آپ کوکہ دہشت گرد کون ہے تو آپ کربلا کی اس سرزمین کو دیکھو جو 1400برس بعد ایک بار پھر دور حاضر کے ظالم کے ذریعہ نذرآتش کردی گئی۔ خون آلودہ کردی گئی، ان پر بم برسانے والا کون تھا؟ پھر بھی اگر آپ کو دکھائی نہیں دیتا کہ دہشت گرد کون ہے؟

تو آپ سمجھ لیجئے کہ آپ سچ کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔ اگر حق کے لیے انصاف کے لیے باطل کے خلاف آواز اٹھانا ہی جہاد ہے اگر اسی کو آپ دہشت گردی سمجھتے ہیں تو مجھے فخر ہے کہ میں ہندوستان کی سرزمین پر پیدا ہوا جہاں شری رام نے دھنش اٹھایا تھا؟ راون کے خلاف، وہ دھنش تھا انیائے( ناانصافی) کے خلاف، یہ اس ملک کی تاریخ ہے جہاں شری کرشن پانڈوو
¿ں کے ساتھ تھے، کوروو
¿ں کے خلاف تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان میں سے کوئی دہشت گرد نہیں تھا، اس ملک کے رہنما تھے۔ وہ جانتے تھے جو جنگ آنے والے کل میں کربلا کے میدان پر حسین لڑیںگے اس جنگ کو ہم آج ہندوستان میں لڑکر دکھارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کربلا کے میدان سے امام حسین نے ہندوستان کی طرف آنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ میں اس ہندوستان کو سلام کرتا ہوں اور سلام کرتا ہوں اِس اسٹیج پر بیٹھے اُن تمام علماءکرام کو جن کا تعلق آزادی دلانے سے بھی ہے اور دہشت گردی سے نجات دلانے سے بھی ۔ شکریہ،خدا حافظ، جے ہند

Wednesday, August 20, 2008

مسلمانانِ ہند ماضی ،حال اور مستقبل ؟؟؟

پہلے تقسیم وطن کے ذمہ دار

پھر فرقہ پرست اب دہشت گرد، اس کے بعد ؟

تقسیم وطن کے پچیس برس بعد تک ہندوستانی مسلمان احساس جرم اور احساس کمتری کا شکار بنایا گیا ۔یہ سب کچھ سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت تھا ۔تقسیم وطن کے بہانے مسلمانوں کو ٹکڑوں میں بانٹنے والے اچھی طرح جانتے تھے کہ خاص طور سے مسلمانوں کے نام پر بنائے جانے والے پاکستان میں Creamy Layer یعنی اعلیٰ سطح کا مسلمان چلا جائے گا۔جو تعلیم یافتہ ہے۔سرمایہ دار ہے۔اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔یعنی جن میں حکمرانی کے عنصر زیادہ ہےں۔جو اقتدارکے خواہشمند یا دعویدار ہو سکتے ہیں۔باقی جو مسلمان بچیں گے ،ان کے دلوںمیں اپنوں سے بچھڑ جانے کا غم ہوگا۔دماغ میں عدم تحفظ کا خوف ہوگا اوراس کے بعد ان کا حوصلہ توڑنے کےلئے اکثریتی فرقے کا سلوک انھیں اس لائق نہیں چھوڑیگا کہ حکومت کی دعویداری یا حصہ داری تو دور وہ ان کے برابر کا شہری ہونے کے حقوق مانگنے کی ہمت کرسکیں۔

یہی ہوتا رہا تقریباً پچیس برس تک اور جب نئی نسل نے آزاد ہندوستان میں جنم لیا اور خود کو تقسیم وطن کے لئے غیر ذمہ دار قرار دیا اورکہا کہ ہماری پیدائش تو آزاد ہندوستان میں ہوئی ہے۔ماضی میں کس نے کیا کیا ۔اس کے لئے ہمیں مورد الزام کیوں ٹھہرایا جائے؟ ہم پر تقسیم وطن کا الزام کیوں؟ تب مسلمانوں کو اقتدار سے دور رکھنے والے حکمرانوں کو لگا کہ اب یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ہمنئی نسلوں کو بھی تقسیم وطن کا ذمہ دار ٹھہراتے رہیں۔اب انہیں دبائے جانے کے لئے یہ جواز کمزور پڑ جائیگا۔منصفانہ مزاج کے لوگ کہنے لگیں گے کہ جو آزاد ہندوستان میں جنمے ہیں ۔جن کی پیدائش تقسیم وطن کی چوتھائی صدی کے بعد ہوئی ہے۔وہ بھلا قیام پاکستان کے لئے کیوں کر ذمہ دار ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔لہٰذا چالاک سیاست دانوں نے مسلمانوں کو پھر سے کمزور کرنے کے لئے اور ان پر دباﺅ بنائے رکھنے کےلئے ایک نئی حکمت عملی اپنائی اور انھیں فرقہ پرست قرار دیدیا۔

یعنی مسلمان اگر سیاسی اعتبار سے اپنے آپ کو مضبوط بنانے کی کوشش کرے ۔اپنے ووٹ کا استعمال اس طرح کرے کہ اس کے نمائندے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں چن کر پہنچیں۔تو اس کے یہ ارادے کامیاب نہ ہو پائیں۔اسے فرقہ پرست قرار دیدیا جائے۔اگر مسلمان ،مسلمان کو ووٹ دے تو۔یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر فریدی مسلمانوں کو متحد کرنے اور انھیں ایک مضبوط ووٹ بنک میں تبدیل کرنے میں اُس طرح کامیاب نہیں ہو سکے ،جیسا کہ وہ چاہتے تھے۔

لیکن آہستہ آہستہ ملک کے حالات بدلنے لگے۔کانگریس تنہااقتدارکی دعویدار نہ رہ سکی۔اس کے مقابلے قومی سطح پر پہلے جن سنگھ پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے وجود میں آئی ایک فرقہ پرست پارٹی مضبوط ہونے لگی۔ریاستی سطح پر علاقائی پارٹیاں وجود میں آنے لگیں۔مذہب اور ذات کی بنیاد پر بھی سیاسی لیڈران ابھر کر سامنے آنے لگے۔جگ جیون رام دلتوں کے لیڈر تھے،مگر ہمیشہ کانگریس کے ساتھ رہے۔اس لئے ان کو ایک الگ ووٹ بنک کے لیڈر کے طور پر نہیں دیکھا گیا۔مگر چودھری چرن سنگھ جاٹوں کے لیڈر کے طور پر سامنے آئے ۔شرد یادو ،ملائم سنگھ یادو،لالو پرساد یادو ، یادوﺅں کے لیڈر کی شکل میں سامنے آئے۔تو دلتوں کے مسیحا بنے کاشی رام،مایاوتی اور رام ولاس پاسوان ۔اسی طرح گوجروں ،کرمیوں نے بھی اپنی اپنی ذاتوں کے لیڈر منتخب کئے۔

مسلمان تقریباً سبھی کی ضرورت رہا۔چودھری چرن سنگھ ،جاٹ جمع مسلمان کے فارمولے پر حکومت کرتے رہے۔راجہ وشو ناتھ پرتاپ سنگھ نے ٹھاکر پلس مسلمان کے فارمولے کو آزمایا۔تو ملائم اور لالو یادوجمع مسلمان کے فارمولے پر چل کر مضبوط لیڈروں کی شکل میں ابھرے۔مایاوتی اور پاسوان کو بھی مسلمان اپنے اقتدار کے لئے ضروری محسوس ہونے لگے۔

اسی درمیان آسام میں مولانا بدرالدین کی یو ڈی ایف نے ریاست میں اپنی زبردست موجودگی درج کراکر یہ احساس کرا دیا کہ مسلمان بھی اگر ریاستی سطح پر ایسے ہی کسی فارمولے کو اپنانے لگیں اور اب تک کسی نہ کسی کے ساتھ شامل ہو کر اسے مضبوط بنانے کے بجائے اب دوسرے ووٹ بنک کو اپنے ساتھ ملا کر خود مضبوط بننے کی کوشش کریں اور یہ عمل صرف ریاستی پیمانے تک ہی محدود نہ رہے بلکہ قومی سطح پر بھی کوئی مسلم لیڈر سامنے آئے ،کوئی ایسی پارٹی بھی وجود میں آئے جس میں دیگر ذاتوں ،مذاہب کے لوگ شامل تو ہوں،مگر قیادت کسی مسلمان کے پاس رہے۔اس انداز فکر نے اپنے حصول اقتدار کے لئے مسلمانوں کے ووٹوں کا بٹوارہ کرنے والوں کو ہلا کر رکھ دیا اور آپسی نفاق کے باوجود وہ اتفاق رائے سے اس معاملے میں متحد ہو گئے کہ اگر مسلمانوں نے خود اپنے بارے میں سوچنا شروع کردیا،خود اپنے سیاسی فیصلے لینے شروع کر دئے،اپنے ووٹ کا استعمال ایک ووٹ بنک کی شکل میں اپنے مقاصد کے پیش نظر اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے شروع کر دیا،تو دلتوں کی طرح یہ ان سے بھی بڑی طاقت بن سکتے ہیں۔

لہٰذا ایک کام تو یہ کیا جائے کہ انہیں متحد نہ ہونے دیا جائے اور دوسرا یہ کہ تقسیم وطن اور فرقہ پرستی کے الزام میں اب اتنا وزن نہیں رہ جائے گا کہ صرف اس بنیاد پرہی انہیں دبا کر رکھا جا سکے۔کیونکہ تقسیم وطن کو تو آدھی صدی سے زیادہ گزر گئی اور فرقہ پرستی کے عناصر تواب تقریباً ہر سیاسی پارٹی اور لیڈر میں نظر آنے لگے ۔تب مسلمانوں کو ہی آخر کب تک فرقہ پرست قرار دیا جا سکے گا۔لہٰذا اب انہیں پھر سے وطن دشمن Declare کرنے اور احساس کمتری کا شکار بنانے کے لئے کوئی نیا ہتھکنڈہ ہونا چاہئے ۔کوئی نیا الزام ہونا چاہئے۔

اور یہ نیا الزام ہے مسلمانوں پر ”دہشت گرد“ہونے کا الزام۔یعنی اگر آزادی کے فوراً بعد کا مسلمان تقسیم وطن کے داغ سے شرمسار رہا اور اس کے بعد کی نسل کو فرقہ پرست قرار دے کر ملک کی قیادت میں حصہ دار بننے سے محروم رکھا گیا تو اب اس پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اس کی نئی نسل سے آزادی کے ساتھ جینے کا حق چھین لیا جائے ۔اب وہ اپنے نوجوانوں کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھاتے پھریں۔ان کے بچاﺅ کے لئے ہماری چوکھٹ پر سلامی دینا ان کی مجبوری بن جائے۔

وہ ہم سے اقتدار میں حصہ داری کی بات کرنا تو دور اپنے بچوں کی بے گناہی ثابت کرنے میں ہماری مدد کو ہی اپنی ووٹ کی اصل قیمت مان لیں۔لہٰذا جگہ جگہ بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اب یہ بم مسجد میں پھٹے،مندر میں پھٹے ،سڑکوں پر یا ریل کے ڈبوں میں،ہر جگہ شک کی سوئی مسلمانوں پر ہی جانا غالباً ان کی حکمت عملی کا ایسا حصہ بن گیا جس سے نجات پانا انتہائی مشکل مرحلہ نظر آنے لگا ہے۔مسلم ناموں سے ایسی ایسی تنظیمیں وجود میں آنے لگیں ،جن کا کبھی نام بھی نہیں سنا تھا اور وہ اتنے بڑے بڑے کارنامے انجام دینے لگیں کہ عقل حیران ہے کہ ایک نامعلوم تنظیم جس کا کاغذی وجود پولس فائل کے باہر کہیں نظر نہیں آتا۔

آخر وہ بم بنانے کی ترغیب کس سے حاصل کرتے ہیں؟ ان کے ٹریننگ کیمپ کہاں چلتے ہیں؟ کسی بھی ایک بم حادثے کے بعد سب کچھ تقریباً ہر ٹی وی چینل پر
©صاف صاف نظر آنے لگتا ہے۔متعدد پولس افسران ان تنظیموں کا شجرہ بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔کوئی ان سے پوچھے کہ اگر آپ کو ان دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں اتنی تفصیلی معلومات تھی تو کیا آپ بم پھٹنے اور بے گناہوں کی اموات کے منتظر تھے کہ اس کے بعد ہی ان دہشت گرد تنظیموں کے چہرے سے نقاب ہٹائیں گے۔یہ زحمت آپ نے پہلے کیوں نہیں اٹھائی؟ بے گناہوں کی جان بچ جاتی اور آپ کی واہ واہی بھی ہوتی۔ہاں مگر سیاست دانوں کی سیاسی ضرورت شائد پوری نہیں ہوتی۔

ہم نے اپنے قسط وار مضمون میں تقسیم وطن کا ذکر کرتے ہوئے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے رول کا ذکر کیا تھا۔ہم ایک بار پھر تاریخ کے دامن میں جھانک کر دیکھتے ہیںاور آپ کے ذہن کو لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے دور سے بھی سو سال پہلے لے جاتے ہیں۔اس طرح 1947 میں لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کا عمل بھی آپ کے سامنے آجائے گا اور فرنگی ذہنیت کا بھی ۔دراصل 1857 کی جنگ آزادی میں مسلمان اتنی بڑی تعداد میں شامل تھے کہ صرف دلی میں ہی بغاوت کے ناکام ہونے کے بعد انگریزوں کے ذریعے 27ہزار مسلمانوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔سر الفریڈ لائل کے مطابق 1857 کی بغاوت کے بعد انگریز مسلمانوں پر اس طرح ٹوٹ پڑے جیسے وہی ان کے اصلی اور سب سے بڑے دشمن ہیں اور آنے والے کل میں انھیں سے خطرہ ہو سکتا ہے اور غالباً اسی وقت انھوں نے طے کر لیا تھا کہ اب پھوٹ ڈالو اور راج کرو کے فارمولے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

لہٰذا انہوں نے یکے بعد دیگرے کئی ایسی چالیں چلیں ،جس سے کہ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں۔اسی سوچ کے پیش نظر (تقسیم وطن کے بعد سے تو 1947 میں سامنے آئی ۔)انگریز اس کے پہلے 1905 میں ہی بنگال کی تقسیم کا اعلان کر چکے تھے،جس سے انگریزی حکومت کے خلاف نفرت اور غصے کی لہر پھیل گئی تھی۔ہندوستانی عوام نے اس کی زبردست مخالفت کی تھی۔دراصل انگریزوں کا اس بٹوارے کے پیچھے مقصد بھی مذہبی منافرت پھیلانا ہی تھا۔اس کا نتیجہ بھی ان کے سامنے آیا ،جو ہندو اور مسلمان 1857 کی جنگ آزادی میں شانہ بشانہ کھڑے تھے۔

اب ان کے درمیان کشیدگی کے حالات پیدا ہونے لگے اور 1905میں بنگال کی تقسیم کے اعلان کے محض دو سال بعد 4مارچ 1907 کو ”کومیلا“میں ہندو مسلم دنگے ہوئے اور اس وقت کا جو سب سے خطر ناک دنگا سامنے آیا ،وہ جمال پور ضلع میمن سنگھ، اب بنگلہ دیش تھا۔ آپ کی آسانی کے لئے متنازع مصنفہ تسلیمہ نسرین کا آبائی وطن ۔ اس کے بعد دنگوں کا یہ سلسلہ بنگال کے باہر بھی پھیل گیا۔ہندوستان کی دیگر ریاستیں بھی اس فرقہ وارانہ منافرت سے بچ نہ سکیں۔1857 کی جنگ آزادی کی تحریک کے بعد انگریزوں کی یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔

بنگال کی تقسیم کے اعلان سے مسلمانوں کا غصہ ابھی کم بھی نہیں ہوا تھا،1907کو ”کومیلا “ (بنگال) میں ہوئے ہندو مسلم دنگوں کو و ہ ابھی بھولے بھی نہیں تھے کہ جولائی 1913 میں کانپور میں میونسپل افسران نے پولس کی مدد سے مچھلی بازار کی مسجد کا ایک حصہ شہید کر دیا۔ظاہر ہے ان کے اس عمل سے مسلمانوںکے جذبات کو ٹھیس پہنچنی ہی تھی۔لہٰذا مسلمان مشتعل ہو گئے اور 3اگست 1913ءکو ٹوٹے ہوئے اس حصہ کی تعمیر کے لئے بڑی تعداد میں وہاں جمع ہو گئے،جس پر وہاں تعینات سکھ فوجیوں نے مجسٹریٹ کے حکم پر فائرنگ شروع کر دی ۔نتیجتاً بڑی تعداد میں مسلمان ہلاک اور زخمی ہوئے، کافی گرفتاریاں بھی ہوئیں ، مگر اس سے بھی کہیں زیادہ افسوس ناک بات یہ رہی کہ اس سانحہ کے پانچ دن بعد” جیمس مسٹن“ نے کانپور آکر اس قتل عام میں شامل فوجیوں کو انعامات سے نوازا،ان کی پذیرائی کی۔گورنر کی اس حرکت سے مسلمانوں میں شدید ناراضگی پیدا ہوئی۔مولانا آزاد کے الہلال (کولکاتا)،مسلم گزٹ (لکھنو
¿)،ہمدرد (دلی) اورزمیندار (لاہور) نے اس شرمناک واقعہ کے خلاف زور دار آوازاٹھائی ۔با لآخر مولانا محمد علی جوہر اور سر وزیر حسن کی کوششوں سے دوبارہ ٹوٹے ہوئے حصے کی تعمیر کی اجازت مل گئی۔
اس پورے واقعہ کا مقصد یہی تھا کہ کسی طرح مسلمانوں کو بے عزت کیا جائے،ان کے حوصلوںکو کمزور کیا جائے۔تاریخ کے اوراق میں دفن ان واقعات کے اس ذکر کا مقصد یہی ہے کہ آپ ایک نظر اس تاریخی سچائی پر ڈالیں ،پھر آج کے حالات پرغور کریں،کیا اب بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ان پولس افسران کو بڑے عہدوں سے نوازا جائے،ان کی پذیرائی کی جائے،جو فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر مسلمانوں کی نسل کشی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
کہاں جاتی ہیں ان فسادات کے بعد قائم کےے گئے کمیشنوں کی رپورٹیں؟

کیا سری کرشنا کمیشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میںیہ صاف صاف نہیں لکھا کہ ووٹر لسٹ کے ذریعے مسلمانوں کے گھروں کی نشان دہی کرکے شیو سینکوں نے ان کا قتل کیا ،ان کی املاک تباہ کیں،انھیں کاروباری نقصان پہنچایا،مگر کیا آج تک ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی کی جا سکی؟سرکاریں بدلتی رہیں مگر حالات نہیں بدلے۔ہندوستانی آئین کے مطابق مذہبی منافرت پھیلانا ایک جرم ہے،دہشت گردی کی ترغیب دینا ایک سنگین جرم کے دائرے میں آتا ہے،مگر شیو سینا کے چیف کے لئے شاےد ہندوستان کا قانون کوئی اہمیت نہیں رکھتا،جب دن کے اجالے میں چیخ چیخ کر فرقہ پرستی اور دہشت گردی کی تربیت دی جارہی ہو،تو ان خوفناک دھماکوں کے پیچھے کس کا دماغ ،کس کا ہاتھ اور کس کا عمل ہو سکتا ہے۔یہ بات تو کم عقل بھی سمجھ سکتے ہیں،مگر ہماری عقل مند پولس ،انتظامیہ اور سرکار سمجھے تو؟ ۔
اور اگر ان میں سے کوئی بھی نہ سمجھے تو خدارا اب آپ ہی سمجھ جائیے کہ ان سب کے پیچھے کیسی ذہنیت کار فرما ہے اور اس ذہنیت کا مقابلہ کرنے کے لئے آپ کی صفوں میں اتحاد اور ایک مخلص قائد کی رہنمائی کس قدر ضروری ہے ۔یاد کریں قرآنِ عظیم میں ارشاد خدا وندی سورہ
¿ آل عمران آیت 103 ”اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور ٹکڑوں میں نہ بٹو۔

پہلی ضرورت تو اتحاد ہے اوردوسری قیادت،اگر پہلی ضرورت پوری ہو گئی تو پھر دوسری ضرورت کا پورا ہونا کوئی مشکل نہیں ہے،ورنہ ہمارا مستقبل بھی وہی ہوگا جو ہمارا ماضی تھا۔یعنی خون بھی ہمارا ہی بہے گا اور مجرم بھی ہم ہی قرار دئے جائیں گے

Tuesday, August 19, 2008

مسلمانانِ ہند ماضی ،حال اور مستقبل ؟؟؟

بڑے سردار کے بعد ماسٹر مائنڈ کون ؟؟؟

چھوٹا سردار یا ابو البشر؟؟؟

ذکر ماضی کے درد کا کریں ،حال کے زخموں کا یا ان تباہ کاریوں کا جو مستقبل میں درپیش ہو سکتی ہیں۔کل جہاں مضمون کا سلسلہ ترک کیا تھا، اس کے بعد ارادہ تھا کہ آج قیادت کے فقدان اور ان قائدین کے عمل پر تذکرہ کریں گے ،جن پر مسلم قوم تکیہ کئے رہی۔مگر احمد آباد بم سانحہ کے تعلق سے جو گرفتاریاں عمل میں آئیں، انھیں نظر انداز کرنابھی مناسب نہیں لگا، کیونکہ جب ہم ماضی او رحال کی کڑیاں جوڑتے ہیں تو بم دھماکوں سے لے کر ان گرفتار یوں تک مستقبل کی تصویر ہماری نگاہوں کے سامنے گھوم جاتی ہے،لہٰذا آج کی تحریر انہی گرفتاریوں کی نذر، مگر ماضی کی تلخ یادوں کی روشنی میں۔

1۔27 جولائی کو احمد آباد میں یکے بعد دیگرے 17 بم بلاسٹ ۔مرنے والوں کی تعداد50 اور 100 زخمی ۔16 اگست 2008یعنی محض 20 دن کے اندر بڑودہ کی مستعد پولس نے ان بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ مفتی ابو البشر کو گرفتار کر لیا،جس کا تعلق سیمی سے ہے۔

15اور 16 مئی کی رات کے دوران نوئیڈا میں آروشی اور ہیم راج کا قتل ہوا۔92دن گزر جانے کے بعد بھی پولس ماسٹر مائنڈ کو گرفتار نہیں کر سکی۔دونوں واقعات میں سے پہلے کو اتر پردیش پولس اور سی بی آئی کی ناکامی قرار دیاجائے یا دوسرے کوبڑودہ اور گجرات پولس کی کامیابی،یا پھر یہ کہ یہی تو خوبی ہے ہماری پولس کی ،اگر وہ چاہے تو کسی معصوم کو بڑے سے بڑا مجرم ثابت کر دے ۔ایسے ثبوت مہیا کر دے کہ عدالت سے لے کر عوام تک اسے ہی مجرم تسلیم کر لیں اور اگر وہ چاہے تو تمام ثبوتوں کو اس طرح ملیا میٹ کر دے کہ مجرم سامنے کھڑا ہو مگر نہ عدالت کو اسے قصور وار کہنے کا حق حا صل ہو اور نہ ہی عوام کو۔

2۔ 27 فروری 2002سابر متی ایکسپریس میں آتش زنی ۔59لوگوں کی موت ،متعدد زخمی ۔نتیجہ تقریباً چھ ماہ تک مکمل گجرات فرقہ وارانہ فسادات یا بقول سیکولر لیڈران State Sponsered Terrorism کا شکار، دو ہزار سے زائد مسلمانوں کا قتل عام ،زنا بالجبر ،لوٹ پاٹ کے بے شمار واقعات ،جسٹس مہید ہ کی عدالت میں چلے مقدمے میں سبھی ملزم بے قصور ثابت ۔

سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں گجرات کے وزیر اعلیٰ کو ’نیرو‘ کہا مگر وہ آج بھی گجرات کے وزیر اعلیٰ ہیں۔

3۔دو سال قبل یعنی چودہ شعبان کو شب برا
¿ت کے روز حمیدیہ مسجد ،بڑا قبرستان اور اس کے عقبی حصہ میں واقع ٹیپو ٹاورمشاورت چوک مالیگاﺅں میں خونیں بم دھماکے ۔31 افراد کی موت،297 شدید زخمی،حقیقی مجرم آج تک گرفتار نہیں۔

4۔ 15اگست 2008میں ہائی کورٹ کے ذریعے سیمی سے پابندی ہٹائی گئی۔غیر مسلم فرقہ پرست تنظیمیں پابندی ہٹائے جانے پر چراغ پا،اگلے ہی روز یعنی 16اگست کو سپریم کورٹ کے ذریعے سیمی پر پھر پابندی عاےد۔
5۔ناندیڑ بم دھماکے:
جہاں شیو سینکوںنے داڑھی اور ٹوپی کا استعمال کر کے یعنی مسلمانوں کا بھیس بنا کر بم دھماکے کئے۔
6اپریل 2006 رات کے ڈیڑھ بجے ناندیڑ کے پاٹ بندھارے علاقہ میں آر ایس ایس کے کارکن اور محکمہ آب پاشی کے سابق ایگزیکیٹو انجینئر لکشمن راج کونڈوار کے مکان میں ہوئے بم دھماکے (پائپ بم) میں دو افراد ہلاک ہوئے اور تین شدید زخمی ہوئے۔ مقامی پولس کے مطابق اس دھماکے میں نریش راج کونڈوار (29) اور ہمانشو پانسے (31) ہلاک ہوئے اور یوگیش دیش پانڈے (31) ماروتی واگھ (22) اور گرو راج (25) شدید طور پر زخمی ہوئے پولس کے مطابق یہ پانچوں بم بنا رہے تھے ،جس کے دوران بم پھٹنے سے یہ حادثہ پیش آیا ۔تفتیشی کارروائی میں پولیس کو صوفہ کے نیچے سے پائپ بم اور بم بنانے کے کئی سامان بر آمد ہوئے ۔پولس کو بعد میں پتہ چلا کہ چھٹا جو بھاگنے میں کامیاب ہوا تھا، راہل پانڈے بھی اس میں شامل تھا۔جنھیں بعد میں پوسد سے گرفتار کیا گیا تھا۔

شری کانت مہاجن ،شرمیش بھور اور راجیندر مورے کی قیادت میں ایک تفتیشی ٹیم تیار کی گئی۔تفتیشی کارروائی کے متعلق بات کرتے ہوئے ناندیڑ کے آئی جی سوریہ پرتاپ گپتا نے بتایا تھا کہ بم دھماکے کے بعد تفتیشی کارروائی میں زندہ پائپ بم کے ساتھ ساتھ بم بنانے کے انسٹرومنٹ بر آمد ہوئے لیکن مقامی پولس اسٹیشن میں جو ایف آئی آر درج ہے، وہ قابل افسوس اور حیرت انگیز ہے۔

ایف آئی آر میں درج ہے کہ پٹاخے بنانے کے دوران اس میں آگ لگنے سے ہوئے دھماکے میں 2افراد کی موت ہوئی اور تین زخمی ہوئے۔

جبکہ پوسد سے چھٹے ملزم کو گرفتار کیا گیا اور جب اس سے پوچھگچھ کی تو اصلیت سامنے آئی ۔چھٹے ملزم راہل پانڈے کے مطابق لکشمن راج کونڈوار کے مکان میں وہ بم بناتے تھے اور بم بنانے کے دوران ٹائمنگ غلط ہونے سے یہ دھماکے ہوئے۔ان کے مطابق یہ پائپ بم دھماکے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کئے جاتے ہیں۔انھوں نے ہی بتایا کہ ہلاک ہونے والا نریش راج کونڈوار مکان مالک لکشمن کونڈوار کا لڑکا تھا اور بم بنانے میں وہ بھی شامل تھا۔

6۔حال ہی میں شیو سینکوںکے ذریعے ایک مراٹھی ناٹک ”امی پاچپوتے “کو روکنے کےلئے دو الگ الگ تھےئٹروں میں بم دھماکے کرنے کی ناکام کوشش ،جس سے افسردہ ہو کر شیو سینا کے چیف بال ٹھاکرے نے انھیں ہندوﺅں کے ذریعے پھسپھسے بم دھماکے قرار دئے اور کہا کہ ہندو نوجوانوں کو خود کش حملوں کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے اور یہ بھی کہ حملے طاقتور ہوں اور اس میں مسلمانوں کا بڑی تعداد میں جانی ومالی نقصان ہو تو انھیں خوشی ہوگی۔بتاریخ 19 جون صفحہ نمبر 4 سامنا میں بال ٹھاکرے کا اداریہ۔

7۔کیا آپ کو یہ حیران کن نہیں لگتا کہ گجرا ت ریاست اور اس کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی 2002 کے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد اس قدر مستعد ہو گئے تھے کہ ایسے کسی بھی ناخوش گوار واقعہ کے عمل میں آنے کے امکان تقریباً نا ممکن تھے؟آپ کو عشرت جہاںکا انکاﺅنٹر کا واقعہ تو یاد ہوگا، جہاں ریاست کی سرحد میں داخلے کے فوراً بعد ہی نہ صرف یہ کہ پولس اور انتظامیہ حرکت میں آگئی ،بلکہ اس کا انکاﺅنٹر بھی کر ڈالا ۔تعجب ہے اتنی مستعد چاک و چوبند پولس کے ہوتے ہوئے 26 جولائی سے قبل اتنے سارے دہشت گرد احمد آباد اور وزیر اعلیٰ کے حلقہ انتخاب میں داخل ہو جاتے ہیں کہ لگاتار بم دھماکے کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جن میں 50 افراد ہلاک اور بیشتر زخمی ہو جاتے ہیں اور کسی کو بھنک تک نہیں لگتی ۔پھر دفعتاً یہی پولس اور انتظامیہ اس قدر فعال ہو جاتا ہے کہ محض 20دن کے اندر ماسٹر مائنڈ سمیت دےگرملزموں کی گرفتاری بھی عمل میں آجاتی ہے۔

8
۔اگست 1947ءمولانا آزاد کی تحریر سے ماخوذ ۔

”ایک دوسرا واقعہ جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سردار پٹیل کا دماغ کس طرح کام کر رہا تھا۔سردار پٹیل جانتے تھے کہ ہر دن مسلمانوں پر جو حملے ہو رہے ہیں ،اس کے لئے کچھ صفائی دینا ضروری ہے۔اس لئے انہوں نے ایک اصول بنا رکھا تھا کہ شہر میں مسلمانوں کے گھروں سے خطرناک اسلحے برآمد کئے جا رہے ہیں۔دہلی کے مسلمانوں نے ہندوﺅں اور سکھوں پر حملے کے لئے اسلحہ جمع کر لیا ہے اور اگر ہندوﺅں اور سکھوں نے اپنے بچاﺅ کے لئے پہلے سے ہی قدم نہیں اٹھایا تو مسلمان انھیں تباہ کر دیں گے۔پولس نے قرول باغ اور سبزی منڈی سے کچھ اسلحے بر آمد کئے ۔سردار پٹیل کی ہدایت پر ان سب کو گورنمنٹ ہاﺅس لایا گیا اور ہم سب کے جائزے کے لئے کیبنٹ ہاﺅ س کے ایک کمرے میں رکھ دیا گیا۔جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ ایک ٹیبل پر رسوئی کی درجنوں چھری، جیب میں رکھنے والا چاقو ،قلمی چاقو ،کچھ دستے اور کچھ بنا دستے کے وہاں رکھے ہوئے تھے،جو کہ پرانے گھروں کے کباڑ خانے سے بر آمد ہوئے تھے ۔ان میںکچھ زنگ لگے لوہے کے پائپ بھی تھے۔سردار پٹیل کے مطابق یہ وہ ہتھیار تھے جو دہلی کے مسلمانوں نے ہندوﺅں اور سکھوں کو مکمل طور سے تباہ کرنے کے لئے جمع کئے تھے۔

مسلمانانِ ہند--ماضی، حال اور مستقبل:
یہی عنوان تھا جس کے تحت میں نے کل لکھنا شروع کیا تھا۔ اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جس صبح آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہوںگے اسی وقت آپ 26جولائی 2008کو احمد آباد میں ہوئے بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ سیمی کارکن مفتی ابوالبشر اور دیگر ملزموں کی گرفتاری کی خبر بھی پڑھ رہے ہونگے۔دراصل ماسٹر مائنڈ کون ہے اور کس ماسٹر مائنڈ کا مائنڈ کس کے خلاف کام کر رہا ہے۔یہی سب کچھ آپ کے اور برادرا ن وطن کے سامنے رکھنے کے لئے مجھے اوپر چند واقعات مختصراً بیان کرنا پڑے۔

ساٹھ برس پہلے کے ماسٹر مائنڈ سردار پٹیل کا دماغ کس طرح کام کر رہا تھا، اس کوبیان کیا ابھی میں نے اوپر کے پیراگراف میں لکھا اور اس وقت کے ماسٹر مائنڈ چھوٹے سردار کا دماغ کس طرح کام کر رہا ہوگا یہ سمجھنا آپ کے لئے بہت مشکل نہیں ہوگا۔بات اگر ابھی تک مکمل طور پر واضح نہیں ہوئی تو اگلی چند سطروںکے بعد انشاءاللہ آپ کا ذہن صاف ہو جائے گا اور آپ سمجھ لیںگے اور برادران وطن کو بھی سمجھا دےںگے کہ دراصل ماسٹر مائنڈ کون ہے اور اس کے مائنڈ میں کیا چل رہا ہے۔

27 فروری 2002ءکو سابر متی ایکسپریس سانحہ کے بعد گجرا ت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے ذریعے عمل کے رد عمل کے فلسفے پر عمل کیا جاتا ہے۔دو ہزار سے زیادہ مسلمانوں کا قتل ہوتا ہے۔معصوم بچے نذر آتش کر دئے جاتے ہیں۔عورتوں اور نابالغ بچیوں کی آبرو ریزی کی جاتی ہے۔پورا ملک شرمسار ہوتا ہے اور اس بار 26جولائی 2008 کو احمد آباد میںسلسلے وار بم دھماکے ہوتے ہیں۔تقریباً اتنے ہی لوگ مارے جاتے ہیں۔زخمیوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ۔صوبہ وہی گجرات۔

وزیر اعلیٰ وہی نریندر مودی۔مگر حالات بہت بدلے ہوئے۔اس بار عمل کا کوئی رد عمل نہیں۔کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں۔کوئی فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں۔کتنا بدل گئے نریندر مودی اور ان کا گجرات تقریباً ساڑھے چھ برسوں میں اور کتنی فعال ہو گئی ان کی پولس کہ ساڑھے چھ برس پرانے فسادات کے اصل مجرم تو آج تک ان کے ہاتھ نہیں لگے لیکن اس بار ان کی پولس نے یہ کارنامہ محض 20دن کے اندر ہی انجام دے دیا۔لگتا ہے بڑے سردار کی طرح چھوٹے سردا ربھی غضب کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔اگر اس وقت سردار پٹیل کا ذہن یہ کام کر رہا تھا کہ انھیں مسلمانوں کے قتل و غارت گری کے لئے کوئی جواز تو پیش کر نا ہی ہوگا اس لئے رسوئی میں کام آنے والی چاقو چھریوں کو خطرناک ہتھیار بتا کر پیش کیا گیا اور اس بار لگا چھوٹے سردار کو کہ سیمی کی بین کو برقرار رکھنے کے لئے کوئی نا کوئی معقول جواز تو ہونا ہی چاہئے۔تو اس بار رسوئی گھر کی چاقو چھریوں کی طرح سیمی کے ابو بشیر احمد آباد بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر پیش کر دئے جائیں۔

ہو سکتا ہے پولس صحےح ہو۔ہو سکتا ہے واقعی ابو بشیر ہی ماسٹر مائنڈ ہو۔اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اصل ماسٹر مائنڈ کو بچانے کے لئے سیمی کو پھنسانے کے لئے ابو بشیر محض ایک مہرہ ہو۔حقیقت جو بھی ہو ،ایک نہ ایک دن سامنے آ ہی جائے گی۔میں ایسا بھی نہیں کہہ سکتا اس لےے کہ اپنے ملک میں ساری حقیقت سامنے آ ہی جائے ایسا دعویٰ تو کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ابھی تو ساٹھ برس پرانی تقسیم وطن کی حقیقت کو سامنے رکھنے کی جدو جہد ہی جاری ہے۔تازہ واقعات کی حقیقت کو سامنے رکھنے میں اور کتنے برس لگیں گے، ابھی کہا نہیں جا سکتا ۔

اگر گجرات کے فرقہ وارانہ فسادات یا بالفاظ دیگر مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد کے چند بیانات آپ کے ذہن میں ہوں تو تازہ واقعات کی ایک نئی تصویر آپ کے ذہن میں ابھر سکتی ہے۔گجرات تو ایک جھانکی ہے سارا دیش باقی ہے۔
گجرات ہندوتوا کی ایک لیباریٹری ہے۔اگر ایسے جملوںکو یاد کریں ۔بال ٹھاکرے کے اداریے کو یاد کریں۔ہندو نوجوانوںکو زبردست بم دھماکوں کی ترغیب دینے والے بیانوں کو یاد کریں۔ناندیڑ بم دھماکوں میں شیو سینکوں کے ذریعے ڈاڑھی اورٹوپی کے استعمال یعنی مسلمانوں جیسا حلیہ بنا کر بم دھماکے کرنے کی بات یاد کریں ۔تو پھر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ احمد آباد میں 26 جولائی کو کس کے ذریعے کیا اور کس طرح کیا گیا ہوگا اور 16 اگست کی گرفتاریاں کیوں اور کس لئے عمل میں آئی ہوںگی؟

نا تو ساڑھے پانچ برس پہلے گجرات میں ہزاروں بے گناہوں کے قاتلوں کو پکڑا جا سکا ۔نا دو برس قبل مالیگاﺅں میں ہوئے بم دھماکوںمیں مارے جانے والوں کے اصل مجرم بے نقاب ہو سکے۔مگر احمد آباد بم دھماکوں کے صرف بیس دن بعد بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ اور دیگر ملزم گرفتار ہو گئے۔کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ تین گھنٹے میں مکمل ہوجانے والی ہم کوئی ایسی فلم دیکھ رہے ہیں،جس کے پہلے سین سے آخری سین تک کا اسکرپٹ تیار ہے۔سبھی اداکاروں کو معلوم ہے کہ ان کا کردار کیا ہے ۔انھیں کب کس سیٹ پر کیا بولنا ہے۔بس ڈائریکٹر کے ایکشن کہتے ہی شارٹ شروع اور پیک اپ کہتے ہی شوٹنگ بند۔کون ہے یہ ڈائریکٹر جو کبھی بیس ہی دن میں فلم مکمل کر دیتا ہے اور کبھی برسوں تک شوٹنگ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔پردہ سیمیں پر کچھ آتا ہی نہیں۔....
(جاری)

Monday, August 18, 2008

مسلمانانِ ہند ماضی،حال اورمستقبل؟؟؟

آزادی کے ساٹھ برس بعد اب ایک بار پھر ماضی کی تلخ داستان کا ذکر کیوں ؟جبکہ لوگ ان زخموں کو بھول چکے ہیں۔نئی نسل جوان ہو چکی ہے۔اب ہم ان حالات کا تذکرہ نہیں کرتے جو ہمارے بزرگوں پر گزرے ۔وہ یہ درد اپنے سینے میں لے کر ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ پھر اب کیا وجہ ہے کہ میں ایک بار پھر قوم کے سامنے ماضی کے تمام حالات پیش کررہا ہوں؟ دراصل ہم نے ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا تو دیا مگر حالات بدلے کہاں؟ اگر حالات بدل جاتے، نئی نسل کو پرانے زخموںکا درد سہنانہ پڑتا اور ان کا روشن مستقبل دکھائی دے رہا ہوتا،تو پھر شاید اس داستان غم کو دہرانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔مگر کم و بیش حالات تو آج بھی وہی ہیں۔اس وقت مسلم لیگ کے ممبران بار بار مولانا آزاد سے کہہ رہے تھے کہ اب وہ ہندوﺅں کے رحم و کرم پر ہیں۔

وہ تو مسلم لیگ کے ممبران تھے، شاید ان کا احساس جرم انھیں یہ کہنے پر مجبور کر رہا تھا،مگر اب تو سب ہندوستانی مسلمان ہیں۔پاکستان کی چاہ اب یہاں کس کے دل میں ہے؟پھر کیوں گجرات اور مہاراشٹر میں آج بھی مسلمانوں کے دل میں یہی درد ہے کہ وہ ہندوﺅں کے رحم و کرم پر ہیں؟ کیا آج بھی انہیں وہی درجہ حاصل ہے جو باقی ہندوستانیوں کو ہے؟ اگر نہیں تو لکھنا ہوگا،ایک بار نہیں ،ہزار بارلکھنا ہوگا اور بولنا ہوگااور بولتے رہنا ہوگا۔ اس وقت تک جب تک کہ تمام ہندوستان کے لوگوں کے سامنے یہ سچائی نہ آجائے کہ تقسیم وطن کے لئے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانا ایک تاریخی غلطی ہے جسے تاریخ کے اوراق سے اب مٹانا ہی ہوگا۔ورنہ آنے والی نسلیں بھی تباہی اور بربادی سے بچ نہیں سکیں گی۔

ہمارا ملک ترقی کے راستے پر گامزن نہیں ہو سکے گا۔ملک کی ترقی اور قوم کے وقار کے لئے ہمیں اس تحریک کو آگے بڑھانا ہی ہوگا۔میں ایک بار پھر یہاں یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ راشٹریہ سہارا محض ایک اخبار نہیں،ایک تحریک ہے، قومی یکجہتی کی تحریک ،بے گناہ مسلمانوں کے دامن سے تقسیم کے داغ چھڑانے کی تحریک،تاریخی حقائق کو بے نقاب کرنے کی تحریک،عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے والوں کو معقول جواب دینے کی تحریک۔

میری مودبانہ درخواست ہے کہ اس تحریک کی کامیابی کے لئے ہم سب کو شانہ بشانہ چلنا ہوگا۔اسے محض ایک اخبار کی طرح نہ پڑھیں بلکہ محفوظ رکھیں آنے والی نسلوں کے لئے تاکہ تاریخی حقائق اور اپنی بے گناہی کا ثبوت ان کے پاس رہے۔اب یہی آواز مساجد سے اٹھے،مدارس سے اٹھے اور یہی تذکرہ آپ کے ڈرائنگ روم میں بھی ہوکہ اگر ملک کی تقسیم کے لئے اس وقت کے سیاست داں ذمہ دار ہیں، مذہب نہیںتو پھر یہ داغ مسلمانوں کے دامن پر ہی کیوں؟

مولانا آزاد نے 15اپریل 1946 کو اپنے بیان میں ہندوستانی مسلمانوں کو صاف لفظوں میں ہوشیار کر دیا تھا کہ اگر بٹوارہ ایک حقیقت بن گیا تب ایک دن انھیں پتہ چلے گا کہ اکثریتی مسلمانوں کے پاکستان جانے کے بعد وہ ہندوستان میں ایک چھوٹی اور کمزور اقلیت کی شکل میں رہ جائیں گے،سچائی ہمارے سامنے ہے۔مسلمانوں کا تعلیم یافتہ اور سرمایہ دار طبقہ پاکستان چلا گیا اور ہندوستان میں رہ جانے والا مسلمان واقعی ایک چھوٹی اور کمزور اقلیت کی شکل میں رہ گیا۔

یہی تو چاہتے تھے سردار پٹیل ،پنڈت جواہر لال نہرو اور اس وقت کی کانگریس کے صدر آچاریہ کرپلانی،کہ قد آور مسلمان جو ان کے اقتدار کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں،انھیں کسی بھی طرح راستے سے ہٹا دیا جائے۔بھلے ہی انھیں زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہی کیوں نہ دینا پڑے۔اس کے دو فائدے ہوں گے، ایک تو حکومت کے دعویدار نہیں رہیں گے،یہ خطرہ سر سے ٹلے گا۔دوسرے مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہندوستان سے الگ ہو جائے گی تو ان کے ووٹوں کی حیثیت بہت کم ہو جائے گی اور باقی جو بچیں گے انھیں بے حیثیت بنانے کےلئے دو طریقے اپنا لئے جائیں گے۔

ایک تو یہ کہ تقسیم کا داغ ان کے دامن پر لگا دیا جائے تاکہ وہ احساس کمتری میں جیتے رہیں،خود کو مجرم سمجھیں،برابری کا حق مانگنے کی جرا
¿ ت نہ کریں اور دوسرا طریقہ یہ اپنایا جائے گا کہ جن علاقوں میں ان کی آبادی کی کثرت ہے،ان میں سے زیادہ تر علاقوں کو reserve constituency بنایا دیا جائے گاتاکہ وہاں سے کوئی مسلمان الیکشن لڑنے کے بارے میں سوچ ہی نہ سکے اور ایک حد تک اس کا ووٹ ہمارے لحاظ سے بے اثر ہو جائے۔
آپ جانتے ہی ہوںگے کہ 15اگست کو ناگپور میں آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر پر جشن آزادی نہیں منایا جاتا اور رانی جھانسی مارگ جھنڈے والان نئی دہلی میں بھی آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر پر جشن آزادی کی تقریب کی جگہ تقسیم وطن کی یا دمیں بحث و مبا حثہ ہوتا ہے۔

اس بار 15اگست کے موقع پر دین دیال شودھ سنستھان میں منعقد کی جانے والی ایک کانفرنس میں بحیثیت مقرر مجھے بھی دعوت دی گئی۔ موضوع تھا ”تقسیم نا منظور“۔ اس موضوع پر میں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا :”بے شک تقسیم ہمیں نا منظو رہونی چاہئے، مگر اس تقسیم کی بنیاد کیا تھی؟ اس پر بھی غور کیا جانا چاہئے۔سردار پٹیل وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے تقسیم پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو کیبنٹ مشن کے دوران مہاتما گاندھی کے ذریعے ملک کی قیادت کےلئے محمد علی جناح کا نام پیش کر دئے جانے کی وجہ سے اس نام سے خوفزدہ ہو گئے۔ آچاریہ کرپلانی جو اس وقت کانگریس کے صدر تھے، اگر انھیں یہ تقسیم نا منظو رتھی تو کم از کم اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر تقسیم کے خلاف انھیں تحریک چلانا چاہئے تھی۔

اس موضوع پر کی گئی اپنی تقریر کی تفصیل کسی اور موقع پر قارئین کی خدمت میں پیش کی جائے گی، ابھی میں اس سلسلے کو جاری رکھنا چاہتا ہوں جو کہ 9اگست ”اگست کرانتی کے دن سے شروع کیا گیا تھا۔ اپنے عنوان کے لحاظ سے تو اسے 15 اگست 2008تک ہی جاری رہنا چاہئے تھا لیکن قارئین کی دلچسپی اور موضوع کی اہمیت کے پیش نظر مجھے لگا کہ ابھی اس موضوع پر کچھ اور لکھنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا عنوان بے شک بدل سکتا ہے۔ فی الحال تحریک کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔

کیا یہ سچ نہیں کہ گزشتہ ساٹھ برسوں سے کم و بیش ہندوستان کے محض دو پریوار حکومت کرتے رہے ہیں اور وہ ہیں نہرو پریوار اور سنگھ پریوار۔اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ آزادی کے پہلے اور آزادی کے بعد ان دونوں پریواروں کا جدو جہد آزادی میں مسلمانوں کے مقابلے کتنا بڑا کردار رہا اور اس کے بعد مسلمانوں کے تعلق سے ان دونوں پریواروں کا کیا تعلق رہا۔ایک پریوار ضرور یہ کہہ سکتا ہے کہ اسے مسلمانو ں کا اعتماد حاصل نہیں ہوا۔

اگر اس سے مسلمانوں کو کچھ ملا نہیں تو مسلمانوں نے اسے دیا ہی کیا،تو اس کا جواب ہے وہ تاریخی سچائی جو مولاناا بولکلام آزاد نے اپنی زندگی میں ہی لکھ دی تھی۔تقسیم وطن کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا آزاد نے لکھا تھا جو آپ نے اس مسلسل تحریر کی گزشتہ قسطوں میں پڑھا کہ ”تقسیم وطن کے وقت قتل و غارت گری کے دور میں فوج تک پر، اقتدار سے باہر کانگریسی لیڈران کا اعتماد نہیں تھا۔فوج کا یہ رویہ ایک مشکل مسئلہ بن چکا تھا۔ تقسیم سے پہلے فوج فرقہ پرستی کے زہر سے آزاد تھی،جب ملک کا بٹوارہ فرقہ وارانہ بنیاد پر ہوا تو فرقہ پرستی کے جراثیم فوج میں بھی داخل ہوگئے ۔دلی میں زیادہ تر فوجی ہندو اور سکھ تھے۔کچھ ہی دنوں میں یہ صاف ہو گیا کہ اگر شہر میں قانون و انتظام بحال کرنے کےلئے سخت قدم اٹھانے ہیںتو ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔

دلی شہر میں قرول باغ،لودھی کالونی،سبزی منڈی اور صدر بازار میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد تھے۔ان سبھی علاقوں میں جان و مال بہت زیادہ محفوظ نہیں تھا اور اس وقت کے حالات میں پوری طرح فوجی تحفظ بھی ممکن نہیں تھا۔ایک وقت تو صورت حال اتنی خراب ہو گئی تھی کہ کوئی بھی مسلمان اس یقین سے نہیں سوتا تھا کہ وہ کل صبح زندہ اٹھے گا۔“
یہ تھا اس وقت کا ہندوستان جب حکومت ہند کے وزیر داخلہ سردار پٹیل تھے۔ سردار پٹیل کا ذہن مسلمانوں کے خلاف کس طرح کام کر رہا تھا یہ مولانا آزاد کی آنکھوں دیکھی داستان قارئین کی خدمت میں پیش کی جا چکی ہے۔ یہ سوچ تھی سنگھ پریوار کی مسلمانوںکے تئیں۔ جو مسلمان ان حالات سے گزرا ہو ، جس نے ان واقعات کا کرب محسوس کیا ہو ،جس کی آنے والی نسلیں تک اس عتاب کو برداشت کر رہی ہوں،اس کے دل میں جھانک کر دیکھو پھر اپنے دماغ پر زور ڈالو تو سمجھ سکوگے کہ یہ قوم سنگھ پریوار سے کتنی محبت کر سکتی تھی یا کر سکتی ہے۔اب رہا دوسرا پریوار یعنی نہرو پریوار ۔

اس پریوار کے قومی رہنما بھی مسلمانوں سے کتنی محبت کرتے تھے،یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔اس کا ایک ہلکا سا ذکر تو گزشتہ قسطوں میں کیا جا چکا ہے۔بقیہ تفصیل اس تحریر کی آنے والی قسطوں میں بیان کی جائے گی۔لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ باقی سب دودھ کے دھلے ہوں۔ا ن دونوں پریواروں کے علاوہ دیگر پارٹیوں سے بھی ملک کو نگہبانی کے لئے جو قائدین ملے ، ان میں سے چند کو چھوڑ کر اکثر و بیشتر ذات پرست ، فرقہ پرست، موقع پرست یا خود پرست تھے۔

ان میں سے کتنوں پر مسلمانوں نے اعتبار کیا اور فریب کھایا اس کی بھی ایک طویل داستان ہے۔ ذکر اس کا بھی ضروری ہے،اس لئے نہیں کہ آج ہم سب کو تنقید کا نشانہ بنانے بیٹھے ہیں،بلکہ اس لئے کہ اپنے ماضی اور حال کی روشنی میں کم از کم اب تو ہمیں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا شروع کردینا چاہئے۔اگر مایاوتی ایک کم عمر نوجوان کو جس کا تعلق ایک گمنام خاندان سے ہو ،جو ایک دلت کے گھر پیدا ہوا ہو، اسے اپنا جانشین قرار دے سکتی ہیں اور آنے والے کل کے لئے بھی دلتوں کا مسیحا بنا سکتی ہےں تو کیا اب بھی آپ یہ نہیں سوچیں گے کہ آپ کو بھی اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ سوچنے کی ضرورت ہے۔

کیا یہ سچائی آپ کے سامنے نہیں کہ بابا بھیم راﺅ امبیڈکر نے دلتوں کے لئے پاکستان کی طرح دلستان نہیں مانگا، مگر ہندوستان میں رہتے ہوئے ہی ہندوستان کے اقتدار میں حصہ داری مانگ لی۔1952کے پہلے پارلیمانی انتخاب سے لے کر 2008تک ہونے والے انتخابات میں آپ کے ووٹ اور آپ کے قائدین کی کیا حیثیت رہی،گفتگو اس پر بھی ضروری ہے اور اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لئے اس زندہ مثال پر یہ غور وفکر بھی ضروری ہے کہ کاشی رام جیسے ایک عام سے دکھنے والے شخص نے ایک سوچ کے ساتھ جنم لیا ۔دلتوں کی حیثیت بدل ڈالنے کا عزم کیا،پھر ایک تحریک چلائی ۔

اس تحریک میں مایا وتی جیسی انجان خاتون جو محض ایک اسکول ٹیچر تھیں،جن کا کوئی خاندانی سیاسی پس منظر نہیں تھا،جنھوں نے کسی بھی میدان میں ایسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا کہ اے پی جے عبدالکلام یا کرن بیدی کی طرح ان کی ایک الگ شناخت بن گئی تھی اور نہ ہی وہ کسی ایسے رئیس خاندان سے تعلق رکھتی تھیں کہ ان کی دولت کاشی رام کے مشن کو آگے بڑھانے میں کام آئی ہو۔تاہم یہ آج کی سچائی ہے کہ دونوں کی محنت اور عزم رنگ لایااور آج مایا وتی نہ صرف یہ کہ ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست کی وزیر اعلیٰ ہیں،بلکہ ہندوستان کی وزارت عظمیٰ تک کےلئے ان کی دعوے داری کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔

اگر مصلحت کی مجبوری کو درکنار کر دیں تو آج ملک میں ایسی کو ن سی سیاسی پارٹی ہے جو انھیں نظر انداز کرنے کی ہمت کرتی ہے،شاید ایک بھی نہیں۔آج ووٹ بنک کے لحاظ سے وہ ملک کی سب سے بڑی اور مضبوط طاقت ہیں۔ایسا آپ بھی کر سکتے ہیں،اتنے ہی اہم آپ بھی ہو سکتے ہیں۔اگر ایک فیصد سے بھی کم سکھ قوم کا ایک فرد اس ملک کا وزیر اعظم ہو سکتا ہے،ایک دلت خاتون اس ملک کی وزارت عظمیٰ کی دعویدار ہو سکتی ہیں اور یہ دعویداری حقیقت میں بدل بھی سکتی ہے،تو آپ مایوسی کا شکار کیوں؟ آپ میں ارادے کی مضبوطی کیوں نہیں؟ آپ کی صفوں میں اتحاد کی کمی کیوں؟ کیا کسی انجان سے چہرے میں آپ کو بھی کسی مایاوتی کا عکس نظر آ سکتا ہے؟ کیا آپ بھی کاشی رام جیسے کسی شخص کے ارادوں کو زندگی بخش سکتے ہیں؟ کیا آپ بھی ہندوستانی سیاست کی ایک اہم ضرورت بن سکتے ہیں؟

یقیناہاں! اگر آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ کم از کم ایک نکاتی پروگرام کے تحت سیاسی معاملات میں آپ متحد ہو جائیں اور جسے اپنا نمائندہ منتخب کریں ،اس میں فرشتوں جیسی خوبیاں تلاش نہ کریں ، اس کے فیصلوں پر نکتہ چینی نہ کریں،کسی ایک کے پیچھے متحد ہوں اور قوم و ملک کے مفاد میں جو فیصلہ اسے مناسب لگے یہ فیصلہ کرنے کا حق اس پر چھوڑ دیں۔کیا آپ نے دیکھا نہیں مایاوتی پر کس قدر الزام عاید ہوتے ہیں،کبھی وہ فرقہ پرستوں سے مل جاتی ہیں،کبھی وہ سیکولر پارٹیوں سے اتحاد کرتی ہیں،کبھی وہ دونوں کو دھتکار دیتی ہیں،کبھی ان پر بد عنوانی کے الزامات لگتے ہیں،کبھی وہ ’تلک ترازو اور تلوار ،ان کو مارو جوتے چار‘ کا نعرہ بلند کرتی ہیں اور کبھی سرو دلیے سماج کی رچنا یا سو شل انجینئرنگ کے نام پر پنڈت ،ٹھاکر ،بنیا اور مسلمان سب کو ساتھ لے کر چلنے کا فارمولہ اپناتی ہیں۔

کبھی سوال کیا ان سے ان کی قوم نے کہ مایاوتی جی آپ کے یہ بدلتے فیصلوں کی وجہ کیا ہے؟ آپ نے ہم سے منظوری کیوں نہیں لی؟ نہیں ،کبھی نہیں۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔کیا کر سکیں گے ایسا آپ ؟ کیا بن سکیں گے سیاسی طاقت ؟ اگر ہاں تب تو اس ماضی اور حال کی داستان آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا کوئی مطلب ہے اور بہتر مستقبل کی توقع ،ورنہ سب کچھ بے سود۔جس طرح ماضی کی داستان اپنی تلخ یادوں کے ساتھ ہمارے سامنے ہے،ممکن ہے ایسی ہی خون آلودہ اورنا خوشگوار مستقبل کی سوغات ہم اپنی آنے والی نسلوں کو دے جائیں۔..................... جاری

Saturday, August 16, 2008

(اگست کرانتی 9اگست 1942
سے یوم آزادی 2008تک)
مہاتما گاندھی کے قاتل کو بچانے کی پوری کوشش کی گئی

گاندھی جی کے برت کے بارے میں یہ رویہ صرف سردار پٹیل کا نہیں تھا۔ حقیقت میں ہندوﺅں کی ایک جماعت اس وقت سے گاندھی جی کے خلاف تھی جب انہوں نے پونے سے رہائی کے بعد جناح سے بات چیت شروع کی۔ ان کی ناراضگی آہستہ آہستہ بڑھتی چلی گئی، وہ لوگ کھلے عام ہندوﺅں کے مفادات کی ان دیکھی کرنے کے لےے ان کی مذمت کرنے لگے۔ اس میں کوئی راز نہیں تھا اور یہ پورے ملک کو معلوم تھا۔

یہ باتیں تقسیم ہند کے بعد سامنے ا ٓئی تھیں۔ ہندومہاسبھا اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی قیادت میں ہندوﺅں کا ایک گروپ کھلے عام کہہ رہا تھا کہ وہ ہندوﺅں کے خلاف مسلمانوں کی مدد کر رہے ہیں۔ انہوں نے مخالفین کو اپنی پرارتھنا سبھا میں بھی شامل کرلیا ہے۔ جہاں گاندھی جی کی ہدایت پر ہندوﺅں کی مذہبی کتابوں کے ساتھ ساتھ قرآن اور بائبل بھی پڑھی جاتی ہے۔ ستمبر1947میں ان کے دہلی آنے کے بعد ان میں سے کچھ لوگوں نے پرارتھنا سبھاﺅں کے خلاف تحریک چلانے کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ان میں قرآن اور بائبل پڑھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس سلسلہ میں پمفلٹ اور ہینڈ بل بانٹ دےے گئے۔ لوگوں کو گاندھی جی کے خلاف انہیں ہندوﺅں کا دشمن کہہ کر بھڑکایا جانے لگا۔
ایک پمفلٹ میں تو یہاں تک کہاگیا کہ اگر گاندھی جی اپنا راستہ نہیں بدلیں گے تو ان کے قتل کے لےے قدم اٹھائے جائیں گے۔

گاندھی جی کی بھوک ہڑتال نے اس گروپ کو اور ناراض کردیا۔ اب وہ ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرنے لگے۔ انہوں نے جیسے ہی اپنی پرارتھنا سبھا ختم کی ان پر ایک بم پھینکا گیا۔ خوش قسمتی سے کوئی زخمی نہیں ہوا، لیکن اس سے پورے ہندوستان میں لوگوں کو صدمہ پہنچا کہ کوئی گاندھی جی کے خلاف ہاتھ اٹھا سکتا ہے۔ پولس نے اپنی تحقیقات شروع کی اور یہ بہت ہی تعجب خیز لگتا ہے کہ وہ یہ معلوم نہیں کرسکی کہ وہاں یہ بم کس نے رکھا اور وہ برلاہاﺅس کے باغیچے میں داخل ہونے میں کیسے کامیاب ہوا۔ تعجب تو یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد بھی ان کی حفاظت کے لےے مناسب قدم نہیں اٹھائے گئے۔ اس واقعہ نے یہ صاف کردیا کہ تعداد میں کم سہی لیکن ایک گروپ ایسا ہے جو گاندھی جی کو ہلاک کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔

اس لےے یہ امید کرنا فطری تھا کہ پولس اور سی آئی ڈی گاندھی جی کی حفاظت کے لےے خاص قدم اٹھائے گی ،لیکن ہمیں شرم اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تحفظ کے لےے بنیادی احتیاطی قدم بھی نہیں اٹھائے گئے۔ کچھ اور دن بیت گئے جیسے ہی گاندھی جی کی طاقت کچھ واپس آئی۔ انہوں نے پرارتھنا ختم ہونے کے بعد وہاں موجود بھیڑ کے سامنے دوبارہ تقریر کرنی شروع کردی۔ ہزاروں لوگ اس پرارتھنا میں موجود رہتے تھے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کا یہ سب سے کارگرراستہ ہے۔

30جنوری1948کو2.30بجے میں گاندھی جی کے پاس گیا، ان سے بہت سے اہم معاملوں پر تبادلہ
¿ خیال کرنا تھا۔ میں ان کے پاس ایک گھنٹے سے زیادہ بیٹھا، میں تب تو گھر واپس آگیا لیکن تقریباً 5.30بجے مجھے اچانک یاد آیا کہ کچھ خاص معاملوں میں، میں نے ان کی صلاح نہیں لی ہے۔ میں دوبارہ برلا ہاﺅس گیا اور مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ برلاہاﺅس کے گیٹ بند تھے۔ ہزاروں لوگ لان میں کھڑے تھے اور بھیڑ سڑک پر جمع تھی۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ کیا معاملہ ہے، لیکن جب لوگوں نے میری گاڑی کو دیکھا تو اسے راستہ دے دیا۔ میں گیٹ کے قریب آکرکار سے اترا اور اندر کی جانب چل پڑا۔ گھر پر دروازہ بھی بند تھا، شیشے سے ایک شخص نے مجھے دیکھا اور وہ مجھے لینے کے لےے باہر آگیا، جب میں اندر داخل ہوا تو کسی نے آنسوﺅں کے ساتھ کہا ”گاندھی جی کو کسی نے گولی ماردی اور وہ ساکت پڑے ہیں۔

یہ خبر اتنی تکلیف دہ اور اچانک تھی کہ میں مشکل سے اس کا مطلب سمجھ پایا۔ میں سکتے کے عالم میں گاندھی جی کے کمرے کی جانب بڑھا، میں نے دیکھا وہ فرش پر لیٹے تھے، ان کا چہرہ پیلا پڑگیا تھا اور ان کی آنکھیں بند تھیں۔ ان کے دو پوتے، ان کے پیروں کو پکڑے رو رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا جیسے خواب کے عالم میں کوئی کہہ رہا ہو ”گاندھی جی کا سورگ واس ہوگیا۔

گاندھی جی کے قتل سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ میں اس دن کو کبھی نہیں بھول سکتا کہ ہم لوگ جدید ہندوستان کے عظیم سپوت کی زندگی کی حفاظت کرنے میں کیسے ناکام ہوگئے۔ بم کے واقعہ کے بعد یہ سمجھنا فطری تھا کہ پولس اور دہلی کی سی آئی ڈی ان کے تحفظ کے لےے اجتماعی قدم اٹھائے گی۔ اگر ایک عام آدمی کی زندگی پر حملہ ہوتا ہے تب بھی پولس خاص دھیان دیتی ہے، یہ اس وقت ہوتا ہے جب دھمکی بھرے خط یا پمفلٹ ملتے ہیں۔ گاندھی جی کے معاملہ میں صرف خط، پمفلٹ یا لوگوں کی دھمکی ہی نہیں تھی بلکہ ایک بم بھی پھینکا جاچکا تھا۔ یہ ہندوستان کی ایک عظیم شخصیت یا لوگوں کی زندگی کا سوال تھا اور اس کے بعد بھی کوئی کارگر قدم نہیں اٹھایا گیا۔

ایسا نہیں ہے کہ ایسے قدم اٹھانا مشکل تھا۔ پرارتھنا سبھا کھلے میدان میں نہیں ہورہی تھی بلکہ یہ برلا ہاﺅس کے لان میں تھی۔ یہ مقام چاروں جانب سے دیواروں سے گھرا ہوا ہے۔ یہاں کوئی بھی گیٹ کے سوائے دوسرے راستے سے داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ پولس کے لےے بہت آسان تھا کہ وہ اندر آنے جانے والے شخص کی جانچ پڑتال کرے۔
واقعہ کے بعد عینی شاہدین کی باتوں سے صاف تھا کہ قاتل بہت ہی عجیب وغریب طریقہ سے آیا۔ اس کی حرکتیں اور الفاظ ایسے تھے کہ سی آئی ڈی اس پر نظر رکھ سکتی تھی اور اسے ایسا کرنا چاہیے تھا۔ اگر پولس کارروائی کرتی تو اسے پکڑاجاسکتا تھا اور اس سے اسلحہ برآمد کیا جاسکتا تھا۔ وہ بنا کسی جانچ کے ایک ریوالور لے کر کیسے آگیا۔ جب گاندھی جی پرارتھنا سبھا میں پہنچے، وہ کھڑا ہوگیا اور گاندھی جی سے رسمی طور پر کہا ”آج آپ کو دیر ہوگئی“۔ گاندھی جی نے کہا ”ہاں“۔ اس سے پہلے کہ وہ اگلا لفظ کہتے تین گولیاں چلیں، جس نے ان کی قیمتی زندگی کا خاتمہ کردیا۔

اس پورے معاملے میں جو بات سب سے زیادہ توجہ کے قابل ہے، وہ یہ کہ سردار پٹیل گاندھی جی کے خلاف ہوگئے تھے۔ جب گاندھی جی نے مسلمانوں کی حفاظت کے سوال پر بھوک ہڑتال کی تو وہ ناراض تھے۔ پٹیل یہ سمجھتے تھے کہ یہ بھوک ہڑتال ان کے خلاف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میرے انہیں بمبئی جانے سے روکنے پر بھی انہوں نے رکنے سے انکار کردیا۔

ان کے اس رویہ کا مقامی پولس پر بدبختانہ اثر پڑا۔ مقامی حکام سردار پٹیل کی جانب دیکھتے تھے اور جب انہوں نے پایا کہ انہوں نے گاندھی جی کے تحفظ کے لےے کوئی خاص ہدایت نہیں دی ہے، اس لےے انہوں نے کوئی کارگرقدم اٹھانا ضروری نہیں سمجھا۔

گاندھی جی کے سورگ واس پر پٹیل کی بے حسی اتنی واضح تھی کہ لوگوں نے اسے محسوس کیا۔ اس واقعہ کے بعد فطری طور پر غصہ کی لہر پھیل گئی۔ کچھ لوگوں نے سردار پٹیل پر کھلے عام ناکارہ ہونے کا الزام لگایا۔ جے پرکاش نارائن نے اس مسئلہ کو اٹھانے میں بے مثل بہادری دکھائی۔ گاندھی جی کے سورگ واس پر رنج و غم کا اظہار کرنے کے لےے بلائی گئی ایک میٹنگ میں جے پرکاش نارائن نے صاف لفظوں میں کہا کہ بھارت سرکار کے وزیرداخلہ اس واقعہ کی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے۔ انہوں نے سردار پٹیل سے وضاحت چاہی کہ آخر کیوں گاندھی جی کی حفاظت کے لےے کارگرقدم نہیں اٹھائے گئے ،جبکہ گاندھی جی کے قتل کے لےے لوگوں کو ورغلانے کے لےے کھلے عام تشہیر کی جارہی تھی اور ان پر بم پھینکا گیا تھا۔

کلکتہ کے جناب پرفل چندر گھوش نے بھی یہی آواز اٹھائی۔ انہوں نے گاندھی جی کی قیمتی زندگی کو بچانے میں ناکام رہنے پر بھارت سرکار کی نکتہ چینی بھی کی۔ انہوں نے بتایا کہ سردار پٹیل کی سیاسی زندگی گاندھی جی کی مرہون منت ہے۔ آخر آج وہ ایک مضبوط لیڈر اور وزیرداخلہ ہیں، وہ کیسے واضح کرسکتے ہیں کہ گاندھی جی کی زندگی بچانے کے لےے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا؟

سردار پٹیل نے ان الزامات کو خاص طور سے اپنے خلاف لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں بہت افسوس تھا لیکن انہوں نے اس پر ناراضگی ظاہر کی کہ لوگ اس طرح ان پر کھلے عام الزام لگارہے ہیں۔ جب کانگریس کے ممبران پارلیمنٹ ان سے ملے تو انہوں نے کہا کہ کانگریس کے دشمن ان پر اس طرح کے الزام لگا کر تنظیم کو تقسیم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے گاندھی جی کے تئیں اپنی وفاداری کو پھر ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان الزامات کا پارٹی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور وہ گاندھی جی کے قتل سے پیدا ہونے والے خطرناک حالات کے سامنے مضبوطی سے کھڑے رہیں گے۔ ان کی اپیل بے اثر نہیں تھی۔ کانگریس کے بہت سے ممبروں نے انہیں یقین دلایا کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔

ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے واقعات میں دیکھا گیا کہ اس وقت فرقہ واریت کا زہر کتنا اندر تک سرایت کرچکا تھا۔ پورا ملک اس قتل سے غم میں ڈوبا ہوا تھا ،لیکن کچھ شہروں میں لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں، خوشی کا اظہار کرنے کے لےے تقریبات منعقد کیں۔ ایسا خاص طور پر گوالیار اور جے پور شہروں میں ہوا۔ مجھے اس سے تکلیف پہنچی جب میں نے سنا کہ ان دونوں شہروں میں کھلے عام مٹھائیاں تقسیم کی جارہی تھیں اور کچھ لوگ بے شرمی سے کھلے عام خوشی کا اظہار کررہے تھے۔

ان کی خوشی بہت کم لمحوں کے لےے تھی۔ پورا ملک رنج و غم میں ڈوبا ہوا تھا اور لوگوں کا غصہ ان سبھی لوگوں کے خلاف تھا جو گاندھی جی کے دشمن سمجھے جاتے تھے۔ اس افسوسناک واقعہ کے دو یا تین ہفتہ بعدبھی ہندومہاسبھا ،آر ایس ایس کے لیڈر باہر آکر لوگوں کا سامنا نہیں کرسکے تھے۔ ڈاکٹر شیاماپرسادمکھرجی اس وقت ہندومہاسبھا کے صدر اور مرکزی وزیر تھے۔ وہ اپنے گھر سے باہر آنے کی ہمت نہیں کرتے تھے اور کچھ دنوں کے بعد انہوں نے مہاسبھا سے استعفیٰ دے دیا۔ آہستہ آہستہ حالات بہتر ہوگئے اور کچھ مدت بعد لوگ خاموش بیٹھ گئے۔

مہاتماگاندھی کے قاتل گوڈسے کے خلاف مقدمہ چلایا گیا ،لیکن اس کے خلاف کیس تیار کرنے میں طویل وقت لگا۔ پولس نے جانچ پوری کرنے میں کئی ماہ لگا دےے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گاندھی جی کے قتل کے پیچھے ایک مبینہ سازش تھی۔ گوڈسے کی گرفتاری پر لوگوں کا ردعمل اس بات کا اشارہ تھا کہ ہندوﺅں کا ایک طبقہ کس طرح فرقہ واریت کے زہر سے متاثر ہے۔ ہندوستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے گوڈسے کی مذمت کی اور اسے ملک دشمن کہا لیکن کچھ باعزت خاندانوں کی عورتوں نے اس کے لےے سوئٹر بن کر بھیجا، اسے رہا کرانے کے لےے ایک تحریک چلی تھی۔ اس کے حامی کھل کر اس کی حمایت نہیں کرتے تھے ،لیکن وہ کہتے تھے کہ چونکہ گاندھی جی عدم تشدد کے پجاری تھے، اس لےے ان کے قاتل کو پھانسی نہیں دی جانی چاہئے۔ جواہر لال نہرو کو ٹیلی گرام بھیجے گئے تھے کہ گوڈسے کی پھانسی گاندھی جی کے نظریات کے خلاف ہے۔ قانون نے اپنا کام کیا اور ہائی کورٹ نے اسے پھانسی کی سزا سنائی۔

گاندھی جی کے سورگ واس کو دو مہینے گزرے تھے، جب سردار پٹیل کو دل کا دورہ پڑا۔ میرا اپنا خیال ہے کہ وہ اس صدمہ کا نتیجہ تھا جو انہیں ہوا۔ جب تک گاندھی جی زندہ تھے، ان سے ناراض رہے۔ جب گاندھی جی کا قتل ہوگیا اور لوگوں نے کھلے عام سردار پٹیل پر ان دیکھی کرنے اور ناکارہ ہونے کا الزام لگایا تو اس سے انہیں گہرا صدمہ پہنچا۔ اس کے علاوہ وہ یہ نہیں بھول سکتے تھے کہ ہر معاملے میں ان پر گاندھی جی کی مہربانیاں رہی ہیں۔ پٹیل کے لےے گاندھی جی کی محبت نے حالات کو اور مشکل بنادیا تھا۔ اس سب نے ان کے دماغ پر اثر ڈالا، یہاں تک کہ ان پر شدید بیماری کا حملہ ہوا۔ وہ اس کے بعد 4برس تک زندہ رہے لیکن ان کی صحت ٹھیک نہیں ہوئی۔

ہندوستان نے آزادی حاصل کرلی تھی لیکن اپنی ایکتا کو کھودیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ کی دین تھا۔ قدرتی طور پر مسلم لیگ کو اس نئے ملک کا اقتدار سنبھالنا تھا۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ کس طرح مسلم لیگ کانگریس کی مخالفت کے لےے بنی تھی۔ اس وقت شاید ہی کوئی ممبر ہو جس نے ملک کی آزادی میں حصہ لیا ہو۔ انہوں نے کوئی قربانی نہیں دی تھی اور نہ ہی وہ لڑائی کے ضابطوں سے واقف تھے۔ وہ یا تو سابق حکام یا وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی زندگی انگریزوں کے ماتحت گزاری تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جب نیا ملک بنااقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں آگیا جن کا قربانی یا خدمت کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ نئے ملک کے بہت سے حکمراں مفاد پرست تھے جو کہ عام زندگی میں صرف اپنے نام کے لےے آئے تھے۔

Thursday, August 14, 2008

(اگست کرانتی 9اگست 1942
سے یوم آزادی 2008تک)
مہاتما گاندھی سردار پٹیل کے رویہ سے خوش نہیں تھے

مولانا ابولکلام آزاد کی تاریخی تصنیف ”انڈیا ونس فریڈم“ میں درج جن تاریخی واقعات کا ذکر کل کی اس تحریر میں کیا گیا تھا اس سے واضح ہوتا ہے کہ سردار پٹیل کا دماغ اس وقت کس طرح کام کر رہا تھا۔ہمارے اس سلسلہ وار مضمو ن کی گذشتہ قسطوں میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ لیاقت علی کے فائنانس منسٹر بنائے جانے پر سردار پٹیل نے کس طرح اپنے آپ کو بے بس محسوس کیا اور انتہائی بے زاری کے عالم میں پاکستان کے قیام پر رضامندی کا اظہار کر دیا۔

یعنی وہ سردا رپٹیل جو ابھی کچھ وقت پہلے لیاقت علی خان کے فائنانس منسٹر بنائے جانے پر خود کو اس قدر بے بس محسوس کر رہے تھے کہ وہ اپنے موقف کا نا تو اظہار کر سکتے تھے اور نا ہی اوروں کو رضا مند کر سکتے تھے۔وہی سردار پٹیل تقسیم وطن کے اعلان کے بعد اس قدرطاقتور نظر آتے ہیں کہ ملک کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو آزادی کے مسیہا مہاتما گاندھی اور وزیر تعلیم مولانا ابولکلام آزاد سب ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔

حتیٰ کہ ملک کا انتظامیہ اور پولیس بھی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے مقابلے سردار پٹیل کے احکامات کو زیادہ توجہ دیتی ہیں۔صورت حال میں دفعتاً اس قدر تبدیلی کی وجہ سوائے اس کے اور کیا تھی کہ اب ملک تقسیم ہو چکا تھا۔ورنہ جو شخص ایک لیاقت علی کے فائنانس منسٹر بنائے جانے پر خود کو بے بس محسوس کر رہا ہو۔وہ اچانک اس قدر طاقتور کیسے ہو سکتا ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ جس طرح لیاقت علی کے سامنے سردار پٹیل اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہے ہوں۔اسی طرح پنڈت جواہر لا ل نہرو بھی محمد علی جناح کے سامنے خود کو بے بس محسوس کر رہے ہوں اور سردار پٹیل کی طرح تقسیم وطن انھیں بھی اپنے مسائل کا حل نظر آتی ہو۔اس لئے وہ بھی ملک کے بٹوارے کے لئے رضامند ہو گئے ہوں۔

اب جہاں تک سوال محمد علی جناح کا ہے تو اس وقت تک وہ یہ تو بخوبی سمجھ ہی گئے ہونگے کہ مکمل ہندوستان پر حکومت کرنے کا ان کا خواب پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل پورا نہیں ہونے دینگے ۔لہٰذا اپنے لئے انھیں بھی سب سے بہتر یہی نظر آیا ہو کہ مکمل ہندوستان نا سہی اگر ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہی پاکستان کی شکل میں حکومت کے لئے مل سکتا ہے تو اسی پر اکتفا کر لیا جائے۔

اور اس طرح ان سب کی مرضی سے ان سب کے مفادات کے تحت ملک تقسیم ہو گیا ہو اور اس کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی گئی ہو۔میں پھر یہ واضح کر دوں کہ جس طرح تاریخ کے اوراق میں محفوظ واقعات پر سب کو اپنی اپنی رائے زنی کا حق ہے اسی طرح مذکورہ بالا حالات کی روشنی میں ہمیں بھی ایک نئے زاوئیے سے ان کو سمجھنے کا حق ہے۔اس لئے کہ گذشتہ ساٹھ برس سے لگاتا ر یہی کہا جاتا رہا ہے کہ ملک کی تقسیم کے ذمہ دار مسلمان ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تقسیم وطن سے آج تک گذشتہ ساٹھ برسوں میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کا ماحول بنا۔لاکھوں کی تعداد میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔بے گناہ ہندو اور مسلمانوں کی بڑ ی تعداد میں جانیں گئیں۔ جبکہ ہمارا ماننا ہے کہ نا تو ہندو اور نا ہی مسلمان تقسیم کے لئے ذمہ دار تھے۔بلکہ ذمہ دار تھی اس وقت کی سیاست اور حکومت کی چاہ ۔

اگر مذہب ہی منافرت کی وجہ ہوتا تو ہم ایک مثال کے ذریعے یہ واضح کرنا چاہیں گے کہ کم از کم مذہب چاہے وہ ہندوﺅں کا ہو یا مسلمانوں کا ۔مذہبی منافرت و بے گناہ انسانوںکے قتل کی وجہ نہیں ہو سکتا ۔اگر ہم دیکھیں تو خواتین زیادہ مذہب پرست ہوتی ہیں۔روزہ نماز کی وہ زیادہ پابند ہوتی ہیں۔ہندوﺅں میں بھی خواتین ہی پوجا پاٹھ سے زیادہ جڑی ہوتی ہیں۔گذشتہ ساٹھ برسوں میں ہونے والے لاکھوں فرقہ وارانہ فسادات میں کتنے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جب ہندو عورتوں نے مسلمان عورتوں کو قتل کر دیا ہو یا پھر مسلمان عورتوں نے ہندو عورتوں پر حملہ کر دیا ہو۔اگر مذہب ہی جنون کی وجہ ہوتا تو یہ جنون ان پر بھی طاری ہو سکتا تھا ۔

اگر خواتین کی بات نہ بھی کریں اور مردوں میں بھی ہم ان لوگوں کا کردار اپنے ذہن میں رکھیں جنھیں بد کردار قرار دیا جاتا ہے۔جو قاتل ،چور، ڈکیت اور زانی ہوتے ہیں اور اپنے انہیں گناہوں کی وجہ سے جیلوں میں پڑے ہوتے ہیں۔وہ چاہے ہندو ہوں یا مسلمان ،کتنی بار آپ نے سنا کہ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران مذہب کے نام پر ان قیدیوں نے بھی ایک دوسرے پر حملہ کر دیا ہو۔اسی مذہبی منافرت کے دور میں کتنی بار آپ نے سنا کہ اپنی یا اپنے خاندان کے افراد کی بیماری کے علاج کے لئے لوگ قابل ڈاکٹر کے بجائے اپنے مذہب کے ڈاکٹر کی تلاش کرتے ہیں اور اگر بالکل نزدیک سے سچائی کا جائزہ لینا ہو تو کرفیو میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران کرفیو کے عالم میں جب کچھ گھنٹے کی ڈھیل دی جاتی ہے تو تمام افراد اپنی قریب ترین دوکانداروں سے ضرورت کی اشیاءخریدتے ہیں۔چاہے وہ اپنے مذہب کا ہو یا دوسرے۔نا دوکاندار کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ کسے سامان فروخت کیا جائے او ر کسے نہیں اور نا ہی خریدار کے ذہن میں۔

ہم گذشتہ ساٹھ برسوںسے جس نفرت کی آگ میں جل رہے ہیں۔بے گناہوں کا قتل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔دہشت گردی اور فرقہ پرستی کے ذریعے ملک کو تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ہمیں اس بار جشن آزادی میں شرکت کے وقت یہ عزم بھی کرنا چاہئے کہ ہم دلوں سے اس نفرت کو نکالیں گے۔تاریخ کے اوراق میں دبی سچائیوں کو اجاگر کریں گے۔تاکہ تمام ہندوستانی یہ سمجھ سکیں کہ مذہب نہیں سیاست ہی اس وقت بھی تقسیم وطن کے لئے ذمہ دار تھی اور آج بھی مذہب نہیں سیاست ہی ہندو اور مسلمان کے درمیان نفرت کی وجہ بن رہی ہے۔

یہ گفتگو اور طویل ہو سکتی تھی ۔ممکن ہے آئندہ کسی موقع پر مزید حقائق کے ساتھ پھر ایک بار قلم اٹھایا جائے ۔لیکن اس وقت اس تحریر کی بنیاد بنایا گیا تھا تقسیم وطن کے دوران قلم بند کی گئی مولانا آزاد کی کتاب ”انڈیا ونس فریڈم “ کے ان واقعات کو جو آزادی کی جدو جہد کے بعد کے حالات ،حصول آزادی ،تقسیم وطن اور اس کے بعد رونما ہونے والی درد ناک داستان کو لفظ بہ لفظ ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں۔لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ اس سلسلہ وار تحریر کی آئندہ قسطوں میں مولانا آزاد کی اس تاریخی تصنیف کے اس باب کو مکمل کر دیا جائے ۔جس میں انھوں نے تقسیم وطن کے حالات کا تذکرہ کیا ہے۔

لیکن قبل اس کے میں اس ایک جملے کی طرف پھر آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کا میں نے اپنی تحریر میں ذکر کیا تھا کہ بٹوارے اور آزادی کے بعد مسلمان مولانا آزاد سے ملنے کے لئے بڑی تعداد میں پہونچے اور ان سے کہا کہ تقسیم سے ہمارا یہ مطلب قطعاً نہیں تھا ۔ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ میں اس وقت اس دور کے مسلمانوں کے ذہن کی سہی عکاسی کر رہا ہوں یا نہیںپر میرا سوچنا ہے کہ ہندوستان جو آزادی سے قبل راجے رجواڑوں،نوابوں اور جاگیرداروں کا ملک سمجھا جاتا تھا۔جہاں چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوتی تھیں۔ممکن ہے اس دور کے مسلمانوں کے ذہن میں یہی رہا ہو کہ پورے ملک میں جو جہاں اکثریت میں ہے ۔وہاں کا اقتدار اس کے ہاتھوں میں ہوگا اور محمد علی جناح کے چار ریاستوں کے ساتھ ایک الگ ملک حاصل کر لینے پر وہ خود کو بے سہارا محسوس کر نے لگے ہوں۔

جانتا ہوں آج میری اس تحریر کو پڑھنے والے شائدبیتے ہوئے کل کے ہندوستان کی تصویر سے خود کو اتنا نا جوڑ سکیں۔مگر آج کی دنیا پر نظر ڈالیں تو بھی یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے سے رقبے اور چھوٹی چھوٹی سی آبادی والے مسلمانوں کے درجنوں ملک آج بھی دنیا کے نقشے پر دکھائی دیتے ہیں اور ہم سب ان کے وجود کو ایک الگ ملک کی شکل میں تسلیم بھی کرتے ہیں۔میں چند ایسے ممالک کا تذکرہ صرف اعداد و شمار کے لحاظ سے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔کہ در حقیقت یہ مسلمانوں کے 9 ملک ہیں جن کی مجموعی آبادی 1 کروڑ 42 لاکھ52 ہزار9 سو 96 ہے ۔جو کہ صرف دلی کی آبادی1 کروڑ 43 لاکھ سے بھی 47 ہزار 31 کم ہے ۔جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

1۔ابو ظہبی........5لاکھ 50 ہزار= 2۔ کویت........16 لاکھ = 3۔ دبئی........19 لاکھ= 4۔ برونئی........3لاکھ 81 ہزار 4 سو = 5۔ بحرین........7لاکھ 18 ہزار 3 سو= 6۔ قطر........9 لاکھ 28 ہزار 6 سو= 7 ۔ عمان........33 لاکھ 12 ہزار= 8۔ لبنان........39 لاکھ 72 ہزار = 9۔ شارجہ........8 لاکھ 90 ہزار 6 سو 69۔

اگر ہم مسلمانوں کے بڑے ممالک مثلاً سعودی عرب،ایران اور عراق کا ذکر کریں تو ان کی آبادی بھی دلی اور ممبئی کے مشترکہ آبادی سے کم ہی ہوگی۔ہاں انڈونیشیا کو ضرور اس فہرست سے الگ رکھا جا سکتا ہے۔
یہ ذکر ضمناً تھا ۔محض اس دور کے افسردہ مسلمانوں کی سوچ کو سامنے رکھنے کا ۔آئیے پھر لوٹتے ہیں مولانا آزاد کے ذریعے رقم کی گئی اس تاریخی داستا ن کی طرف اور اسی پر ختم کریں گے اس قسط وار مضمون یعنی اگست کرانی 9 اگست1942 سے یوم آزادی 2008تک کو ۔

ایک دوسرا واقعہ جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سردار پٹیل کا دماغ کس طرح کام کررہا تھا۔ سردار پٹیل جانتے تھے کہ ہر دن مسلمانوں پر جو حملے ہورہے ہیں اس کے لےے کچھ صفائی دینا ضروری ہے۔ اسی کے مطابق انہوں نے ایک اصول بنا رکھا تھا کہ شہر میں مسلمانوں کے گھروں سے خطرناک اسلحے برآمد کےے جارہے ہیں۔ دہلی کے مسلمانوں نے ہندوﺅں اور سکھوں پر حملے کے لےے اسلحے جمع کرلےے ہیں اور اگر ہندوﺅں اور سکھوں نے اپنے بچاﺅ کے لےے پہلے قدم نہیں اٹھایا تو مسلمان انہیں تباہ کردیں گے۔ پولس نے قرول باغ اور سبزی منڈی سے کچھ اسلحے برآمد کےے۔ سردار پٹیل کی ہدایت پر ان سب کو گورنمنٹ ہاﺅس لایا گیا اور ہم سب کے جائزے کے لےے کیبنٹ روم کے ایک کمرے میں رکھا گیا۔

جب ہم وہاں اپنی روزانہ کی میٹنگ کے لےے پہنچے تو سردار پٹیل نے کہا کہ ہم لوگوں کو پہلے اس کمرے میں جانا چاہئے اور ضبط اسلحوں کو دیکھنا چاہئے۔ جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ ایک ٹیبل پر رسوئی کی درجنوں چھری، جیبی چاقو اور قلمی چاقو رکھے ہیں، کچھ دستے اور کچھ بنادستے کے ہیں جو کہ پرانے گھروں کے کباڑخانے سے برآمد ہوئے ہیں، ان میں کچھ زنگ لگے لوہے کے پائپ بھی ہیں۔ سردار پٹیل کے مطابق یہ وہ ہتھیار تھے جو دہلی کے مسلمانوں نے ہندوﺅں اور سکھوں کومکمل طور سے تباہ کرنے کے لےے جمع کےے تھے۔ لارڈ ماﺅنٹ نے ان میں سے ایک یا دوچھریوں کو اٹھایا اور مسکرا کر کہا کہ وہ لوگ جنہوں نے ان چیزوں کو اکٹھا کیا ہے، ایسا لگتا ہے وہ فوجی کارروائیوں کے حیرت انگیز منصوبے رکھتے ہیں، اگر وہ سوچتے ہیں کہ دہلی شہر پر ان اسلحوں سے قبضہ کیا جاسکتا ہے۔

میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پرانا قلعہ میں اکٹھا ہوگئی تھی۔ سردی کی شروعات تھی، ہزاروں لوگ جو کھلے آسمان کے نیچے تھے اور سردی سے بری طرح متاثر تھے، ان کے لےے کھانے اور پینے کے لےے پانی کا مناسب انتظام نہیں تھا۔ سب سے برا یہ تھا کہ دیکھ بھال کا انتظام بالکل نہیں تھا یا مکمل طور سے ناکافی تھا۔ ایک صبح ڈاکٹر ذاکر حسین نے ایمرجنسی بورڈ کے سامنے کچھ شواہد پیش کےے اور پرانا قلعہ کی بری حالت کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان غریب عورتوں اور مردوں کو موت کے منہ سے بچا کر ایک زندہ قبر میں دفن کردیا گیا ہے۔ بورڈ نے وہاں انتظامات کا جائزہ لینے اور ضروری قدم اٹھانے کا مشورہ دینے کے لےے کہا اور اپنی دوسری میٹنگ میں بورڈ نے فوراً پینے کے پانی اور صفائی کا انتظام کرنے کا فیصلہ کیا۔ فوج سے جتنے شامیانے ممکن ہوسکتے تھے لگانے کے لےے کہاگیا تاکہ لوگ کم سے کم سائے میں تورہ سکیں۔

گاندھی جی کا دکھ روزبروز بڑھتا جارہا تھا۔ پہلے ان کی خواہش پر پورا ملک عمل کرتا تھا اب ایسا لگتا تھا ان کی زوردار اپیلوں کے سامنے لوگ بہرے ہوگئے ہیں۔ وہ اس حالت کو برداشت نہیں کرسکے اور مجھے یہ کہنے کے لےے بلا بھیجا کہ اب ان کے پاس کوئی دوسرا ہتھیار نہیں بچا ہے سوائے اس کے کہ وہ دہلی میں امن قائم ہونے تک برت رکھیں۔ جب لوگوں کو یہ پتہ چلا کہ گاندھی جی امن بحال ہونے تک برت رکھیں گے اور اس کی ہدایت دہلی میں دے دی گئی ہے تب بہت سے لوگ جو اب تک خاموش تماشائی تھے شرم سے آگے آئے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اس عمر میں ایسی صحت میں انہیں برت رکھنے سے روکنا چاہئے، اس لےے پہلے تو انہوں نے گاندھی جی سے اپیل کی کہ وہ اپنا یہ خیال ترک کردیں لیکن گاندھی جی اپنی بات پر سختی سے اڑے رہے۔

ایک چیز جس نے سب سے زیادہ گاندھی جی کے دماغ پر اثر ڈالا تھا وہ سردار پٹیل کا رویہ تھا۔ سردار پٹیل گاندھی جی کے قریبی لوگوں میں سے تھے اور انہیں بہت عزیز تھے۔ حقیقت میں سردار پٹیل کی پوری زندگی گاندھی جی کی مرہون منت تھی۔ کانگریس کے اہم لیڈروں میں کئی کی سیاسی زندگی گاندھی جی کے منظرعام پر آنے سے پہلے کی تھی جبکہ سردارپٹیل اور ڈاکٹر راجندرپرساد پوری طرح گاندھی جی کی پیداوار تھے۔

قتل ہوتے دیکھا ہے۔ یہ سب اس دوران ہورہا تھا جب ان کے اپنے بلبھ بھائی (سردار پٹیل) بھارت سرکار کے وزیرداخلہ تھے اور راجدھانی میں قانون وانتظام بحال رکھنے کے ذمہ دار تھے۔ پٹیل صرف مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ہی ناکام نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اس معاملہ میں شکایتوں کو بھی بے دلی سے درکنار کردیا۔ گاندھی جی نے کہا کہ اب ان کے سامنے کوئی راستہ نہیں بچا ہے سوائے ان کے آخری ہتھیار ”برت“ کے، وہ بھی اس وقت تک جب تک حالات بدل نہیں جاتے۔ پروگرام کے مطابق انہوں نے 12جنوری 1948کو اپنا برت شروع کیا۔ ایک طرح سے یہ برت سردارپٹیل کے رویہ کے خلاف تھا اور پٹیل بھی یہی محسوس کرتے تھے۔

ہم لوگوں نے گاندھی جی کو برت سے روکنے کی بہت کوشش کی۔ پہلے دن کے بر کی شام جواہر لال، سردار پٹیل اور میں گاندھی جی کے پاس بیٹھے تھے۔ سردار پٹیل اگلے دن بمبئی جارہے تھے۔ انہوں نے گاندھی جی سے رسمی طور پر شکایت کی کہ گاندھی جی کا برت بلاوجہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی شکایت کی کہ اس طرح کے برت کا یہ کوئی موقع نہیں ہے۔ حقیقت میں ان کے برت سے سردار پٹیل کے خلاف فرد جرم عائد کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ گاندھی جی اس طرح کا برتاﺅ کررہے ہیں جیسے سردار پٹیل مسلمانوں کے قتل کے لےے ذمہ دار ہیں۔

گاندھی جی نے اس طرح ٹھنڈے لہجے میں جواب دیا، میں اس وقت چین میں نہیں دہلی میں ہوں اور میں نے اپنی آنکھیں بھی ابھی نہیں کھوئی ہیں اور نہ کان۔ اگر تم مجھ سے کہتے ہو کہ میں اپنی آنکھوں اور کان کی گواہی پر یقین نہ کروں اور کہوں کہ مسلمانوں کی شکایت کی کوئی وجہ نہیں تو نہ ہی تم مجھے سمجھا سکتے ہو اور نہ میں تمہیں سمجھا سکتا ہوں۔ ہندو اور سکھ میرے بھائی ہیں، وہ میرے جسم کے حصے ہیں اور اب جب وہ غصے سے اندھے ہو رہے ہیں وت میں ان کو مجرم نہیں ٹھہراا۔ میں اس کا کفارہ خود ادا کروں گااور مجھے یقین ہے کہ میرا برت حقیقت کے تئیں ان کی آنکھیں کھول دے گا۔

....... (جاریَ)

Wednesday, August 13, 2008

(اگست کرانتی 9اگست 1942
سے یوم آزادی 2008تک)
پنڈت نہرو اور سردار پٹیل کے نظریاتی اختلاف اب سامنے تھے

دبئی ،شارجہ، ابو ظہبی، اجمان،بحرین،قطر،عمان،سیریا،جارڈن جیسے ممالک کی کل آبادی اور رقبہ و ہندوستان کے چند شہروں کی آبادی اور رقبہ موازنے کے ساتھ جلد ہی قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے تاکہ وہ اندازہ کر سکیں کہ تقسیم وطن کے وقت مسلمانوں کے ذہن میں کیا رہا ہوگا اور ساتھ ہی ہندوستان کی کچھ ایسی ریاستوں کا ذکر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا ،جنھیں نوابوں اور جاگیرداروں نیز راجاﺅں کی ریاست تسلیم کیا جاتا تھا۔مگرپہلے ہم وہ سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں جس میں تقسیم وطن کے حالات کا ذکر مولانا آزاد نے کیا ہے اور جوکہ راقم الحروف کے تجزیے کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔لہٰذا آج کی قسط میں مولانا آزاد کی اس تاریخی تصنیف سے چند اور حقائق اور اس پر گفتگو کل۔

جناح کا آخری پیغام اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکے جیسا تھا۔ ان کے لےے اب یہ ایک دم صاف تھا کہ بٹوارے کا انجام صرف یہ ہے کہ اقلیت کی شکل میں ان کی حالت پہلے سے مزید کمزور ہوگئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں نے بے وقوفی کی حرکتوں سے ہندوﺅں کے دماغوں میں نفرت اور غصہ بھردیا۔

مسلم لیگ کے ممبران اب بار بار کہہ رہے تھے کہ وہ اب ہندوﺅں کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہ صاف تھا کہ ان حالات پر رنج و غم نے شاید ہی ان کے لےے رحم کا جذبہ پیدا کیا ہو۔ میں نے انہیں یاد دلایا کہ میں نے ان سے کیبنٹ مشن پلان کے دوران کیا کہا تھا۔ میں نے اپنے 15اپریل1946کے بیان میں ہندوستانی مسلمانوں کو صاف لفظوں میں ہوشیار کردیا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ اگر بٹوارہ ایک حقیقت بن گیا تب ایک دن انہیں پتہ چلے گا کہ اکثریتی مسلمانوں کے پاکستان جانے کے بعد وہ ہندوستان میں ایک چھوٹی اور کمزور اقلیت کی شکل میں رہ جائیں گے۔

15
اگست کو یوم آزادی کی تقریبات کے لےے ایک پروگرام منعقد کیاگیا۔ نصف شب کانسٹی چےوئنٹ اسمبلی کی میٹنگ ہوئی اور اس میں اعلان کیاگیا کہ ہندوستان آزاد اور خودمختار ملک ہے۔ دوسرے دن صبح 9بجے اسمبلی کی پھر میٹنگ ہوئی اور لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے افتتاحی تقریر کی۔ پورا شہر خوشی کے عالم میں تھا یہاں تک کہ تقسیم کے دکھ کو بھی لوگ بھول گئے تھے۔ شہر اور آس پاس کے لاکھوں لوگ آزادی کی خوشیاں منانے کے لےے نکل پڑے تھے۔ آزاد بھارت کا پرچم 4بجے لہرایا جانا تھا۔

اگست کی جلا دینے والی دوپہر کے باوجود لاکھوں لوگ گھنٹوں سورج کی تپش کو برداشت کررہے تھے۔ بھیڑ اتنی زیادہ تھی کہ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن اپنی کار سے باہر نہیں آسکے اور انہیں وہیں سے تقریر کرنی پڑی۔ یہ خوشی بہت ولولہ انگیز تھی لیکن یہ خوشی مشکل سے 48گھنٹے ہی رہ پائی۔ اگلے ہی دن فرقہ وارانہ فسادات کی خبروں نے شہر کو گہری اداسی میں غرق کردیا۔ قتل لوٹ اور تشدد کی خبریں تھیں۔ یہ بھی دیکھاگیا کہ مشرقی پنجاب میں ہندو اور سکھوں نے مسلمانوں کے گاﺅں پر حملے کےے۔ وہ لوگ گھروں کو جلا رہے تھے اور معصوم مردوں وعورتوں اور بچوں کو ماررہے تھے۔ ٹھیک یہی رپورٹ مغربی پنجاب سے بھی ملی۔ مسلمان، ہندو اور سکھ فرقہ کے مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کررہے تھے، پورا مشرقی اور مغربی پنجاب بربادی اور موت کا قبرستان بن گیا تھا۔ ایسے واقعات تیزی سے ہورہے تھے۔ ایک کے بعد ایک پنجاب کے وزیر دہلی بھاگ رہے تھے، ان کے ساتھ کانگریس کے وہ لیڈر تھے جو سرکار سے باہر تھے۔

یہ سبھی لوگ وہاں ہونے والے واقعات سے خوفزدہ تھے۔ وہ قتل و غارت گری کے پھیلاﺅ سے بھی حیران تھے، وہ مایوسی میں کہنے لگے کہ شاید اب کوئی بھی اسے روک نہ سکے۔ ہم لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے فوج کو کیوں نہیں بلایا؟ انہوں نے مایوسی سے کہا کہ پنجاب میں جو فوج اس وقت ہے، اس پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کیاجاسکتا اور ان سے کسی مدد کی امید نہیں ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پنجاب میں دہلی سے فوج بھیجی جانی چاہئے۔ ابتدا میں دہلی میں کوئی گڑبڑی نہیں تھی لیکن جب پورا ملک خونی آگ میں جل رہا تھا، دہلی میں موجود چھوٹی سی ریزروفوج کو بھیج دینا ممکن نہیں تھا۔

ہم لوگوں نے باہر سے فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ وہاں پہنچ پاتی فسادات کی آگ راجدھانی تک پہنچ گئی۔ جیسے ہی پنجاب سے قتل عام کی خبریں پناہ گزینوں کے ذریعہ یہاں پہنچیں جو کہ مغربی پنجاب سے آرہے تھے تو دہلی میں فساد پھوٹ پڑا۔ قتل و غارت گری نے شہر کو اپنے شکنجے میں کس لیا۔ فسادات سے صرف پناہ گزیں متاثر نہیں تھے بلکہ عام لوگ بھی اس کی زد میں آگئے۔ یہاں تک کہ وہ علاقے جہاں صرف سرکاری ملازمین تھے وہ بھی اسی سے متاثر تھے۔ جب مغربی پنجاب سے قتل عام کی خبریں دہلی پہنچیں ،بے لگام لوگوں کی بھیڑ نے شہر کے مسلمانوں پر حملے کردےے۔ دہلی میں ان خونی حملوں کو انجام دینے میں سکھ سب سے آگے تھے۔

میں پہلے ہی یہ کہہ چکا ہوں کہ میں بدلے اور یرغمال بنانے کے نظریہ کی غیر ذمہ دارانہ باتوں سے کتنا افسردہ تھا۔ دہلی میں ہم اس خطرناک انداز فکر کا بہت ہی خوفناک اثر دیکھ رہے تھے۔ اگر مغربی پنجاب کے مسلمان ہندوﺅں اور سکھوں کے قتل کے گناہگار تھے تو ان کا بدلہ دہلی کے معصوم لوگوں سے کیوں لیا جانا چاہئے؟ بدلے کے یہ اصول اتنے ہی ظالمانہ ہوتے ہیں کہ کوئی شریف اور سمجھ دار شخص اس کی حمایت میں ایک بھی لفظ نہیں کہہ سکتا۔

فوج کا یہ رویہ اب ایک مشکل مسئلہ بن چکا تھا۔ تقسیم سے پہلے فوج فرقہ پرستی کے زہر سے آزاد تھی۔ جب ملک کا بٹوارا فرقہ وارانہ بنیاد پر ہوا تو فرقہ پرستی کے جراثیم فوج میں بھی داخل ہوگئے۔ دہلی میں زیاد تر فوجی ہندو اور سکھ تھے، کچھ ہی دنوں میں یہ صاف ہوگیا کہ اگر شہر میں قانون وانتظام بحال کرنے کے لےے سخت قدم اٹھانے ہیں تو ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اس لےے ان لوگوں کو تیزی کے ساتھ جنوب سے فوج بلانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ وہ ملک کے بٹوارے سے متاثر نہیں تھے اور اپنے فوجی ضابطوں پر کاربند تھے۔ جنوب کے فوجیوں نے حالات پر قابو پانے اور شہر میں لا ءاینڈ آرڈر بحال کرنے میں اہم کردار نبھایا۔

خاص شہر کے علاوہ آس پاس کے علاقوں جیسے قرول باغ، لودھی کالونی، سبزی منڈی اور صدربازار میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد تھے۔ ان سبھی علاقوں میں جان و مال بہت زیادہ محفوظ نہیں تھا اور موجودہ حالت میں پوری طرح فوجی تحفظ بھی ممکن نہیں تھا۔ ایک وقت تو صورت حال اتنی خراب ہوگئی کہ کوئی بھی مسلمان اس یقین سے نہیں سوتا تھا کہ وہ کل صبح زندہ اٹھے گا۔آتش زنی، قتل اور فسادات کے ان دنوں میں، میں فوجی افسروں کے ساتھ دہلی کے مختلف علاقوں میں گیا۔ میں نے پایا کہ مسلمان پوری طرح ڈرے سہمے اور بے بس تھے۔ کئی نے میرے مکان میں پناہ لینے کی خواہش ظاہر کی۔ شہر کے جانے مانے خاندان میرے پاس پوری طرح لٹی پٹی حالت میں آئے، ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا تھا، سوائے ان کپڑوں کے جو کہ وہ پہنے ہوئے تھے۔ کچھ کی دن کے اجالے میں نکلنے کی ہمت نہیں تھی، وہ آدھی رات یا صبح سویرے فوج کی حفاظت میں لائے گئے۔

میرا گھر جلد ہی بھر گیا اور میں نے اپنے کمپاﺅنڈ میں شامیانے لگوادےے۔ ہر طرح کے لوگ عورتیں و مرد، امیروغریب، جوان وبوڑھے جان کے خوف سے سب ایک ساتھ رہ رہے تھے۔

یہ بہت جلد واضح ہوگیا کہ قانون و انتظام بحال ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ شہر کے مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے گھروں کو تحفظ فراہم کرنا ممکن نہیں تھا۔ اگر ہم ایک علاقہ میں حفاظتی دستوں کو تعینات کرتے تو دوسرے علاقہ میں حملے شروع ہوجاتے۔ تب ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے محفوظ کیمپوں میں رکھاجائے۔ اس طرح کا ایک کیمپ پرانا قلعہ میں بنایا گیا، اس میں کوئی عمارت نہیں بچی تھی، سوائے کھنڈروں کے۔ یہ کھنڈر بھی جلد ہی بھرگئے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد قلعہ میں لائی گئی اور کھنڈروں میں ان لوگوں نے پوری سردی گزاری۔

میں نے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی جس طرح ان کی بٹوارے میں مدد کے لےے نکتہ چینی کی ہے، میں اب ان کے اس طریقے کی بھی تعریف کرتا ہوں جس طرح انہوں نے ہم پر آنے والے خطرے کو نمٹایا۔ جس طاقت اور جوش سے انہوں نے ہندوستان کے بٹوارے کا مشکل کام پورا کیا، اسے میں پہلے ہی بتاچکا ہوں۔ اس سے بھی زیادہ طاقت اور جوش سے ملک میں قانون وانتظام بحال کرنے کا کام کیا۔ ان کی فوجی ٹریننگ ہمارے بہت کام آئی۔ ان کی اس فوجی صلاحیت کے تجربے اور رہنمائی کے بنا ہم ان مشکلات پر شاید ہی قابو پاسکتے۔انہوں نے کہا کہ جنگ جیسے حالات ہیں اور اس سے اسی طرح نمٹنا چاہئے، جنگ کے دوران جنگ کونسل جس طرح دن رات کام کرتی ہے۔

ہمیں بھی ایک ورکنگ کونسل بنانی چاہئے جو کہ موقع پر فیصلہ کرسکے اور یہ دیکھے کہ فیصلے پر عمل کیا گیا یا نہیں۔ یہ بورڈ روز صبح 9.30بجے گورنمنٹ ہاﺅس کے کیبنٹ روم میں ملتا تھا۔ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن اس کی صدارت کرتے۔ ہم لوگ گزشتہ24گھنٹے کے اندر دےے گئے احکامات اور پھر اس پر عمل کا جائزہ لیتے تھے۔ اس بورڈ نے بحالی امن تک بغیر رکے کام کیا۔ بورڈ کے سامنے روز صبح جو رپورٹ آتی وہ اس مشکل وقت میں ہمیں معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں مددکرتی۔

اس پورے وقت گاندھی جی زبردست تناﺅ میں رہے تھے۔ انہوں نے دونوں فرقہ کے درمیان اچھے جذبات بحال کرنے اور مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کے لےے ہر ممکن کوشش کی۔ انہیں اس سے بہت تکلیف اور دکھ پہنچا کہ ان کی کوششوں کو امید کے مطابق کامیابی نہیں ملی۔ اکثر وہ سردار پٹیل، جواہر لال نہرو اورمجھے بلاتے اور شہر کے حالات کے بارے میں بات کرتے۔ اس سے ان کا دکھ اور بھی بڑھ گیا جب انہوں نے دیکھا کہ ہمارے درمیان نظریاتی اختلافات تھے۔ جو کچھ ہورہا تھا، اس کے بارے میں بھی ہمارے اندر اختلافات دیکھ کر ان کا دکھ اور بھی زیادہ بڑھ گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ ایک جانب سردار پٹیل اور دوسری جانب میرے اور جواہر لال نہرو کے درمیان اختلاف تھا۔ اس کا اثر مقامی انتظامیہ پر بھی پڑرہا تھا اور حکام دوحصوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔

بڑی جماعت سردار پٹیل کی جانب دیکھ رہی تھی اور اس طرح کام کررہی تھی جو ان کے نظریہ کے مطابق ان کو خوش کرسکے۔ ایک چھوٹی سی جماعت میرے اور جواہر لال کے ساتھ تھی اور جواہر لال کے احکامات کو پورا کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ دہلی کے چیف کمشنر ایک مسلمان افسر خورشیداحمد تھے جو صاحبزادہ آفتاب احمد کے بیٹے تھے۔ وہ ایک مضبوط افسر نہیں تھے، اس کے ساتھ ساتھ وہ ڈرتے تھے کہ اگر انہوں نے سخت قدم اٹھائے تو ان پر مسلمانوں کے حامی ہونے کا الزام لگ جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ صرف نام کے لےے انتظامیہ کے سربراہ تھے اور سبھی قدم ڈپٹی کمشنر اپنی خواہش کے مطابق اٹھا رہے تھے۔

ڈپٹی کمشنر رندھاوانامی افسر تھے جو کہ سکھ تھے۔ لیکن سکھوں کی رسموں اور اصولوں کو نہیں مانتے تھے۔ انہوں نے اپنی داڑھی منڈوالی تھی اور بال کٹوا لےے تھے اور بہت سے سکھ انہیں ناستک کہتے تھے۔ وہ تقسیم سے قبل سے دہلی کے ڈپٹی کمشنر تھے اور15اگست سے پہلے یہ سفارش کی جارہی تھی کہ چونکہ انہوں نے اپنی مدت کار مکمل کرلی ہے،اس لےے انہیں پنجاب واپس جانا چاہئے۔ دہلی کے بہت سے مشہور شہری خاص طور سے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نے اس تجویز کی زوردار مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ رندھاوا ایک سیکولر ذہنیت کے سخت افسر ہیں اور ان مشکل حالات میں ان کا مناسب جانشین تلاش کرنا آسان نہیں۔

رندھاوا کو اسی طرح بحال رکھا گیا تھا۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی جس نے پورے پنجاب کو اپنے شکنجے میں کس رکھا تھا، اس نے انہیں بدل دیا۔ مجھے بہت سی رپورٹیں ملیں کہ وہ مجرموں کے خلاف سخت اور کارگر قدم نہیں اٹھا رہے تھے۔ بہت سے مسلمان جو کچھ پہلے ان کی تقرری کے لےے دلیلیں دے رہے تھے، اب میرے پاس آئے اور کہا کہ وہ دہلی کے مسلمانوں کو تحفظ نہیں فراہم کرارہے ہیں۔ اس کی شکایت سردار پٹیل سے کی گئی لیکن انہوں نے ان شکایتوں پر مشکل سے ہی کوئی دھیان دیا۔

سردار پٹیل وزیرداخلہ تھے اور اسی وجہ سے دہلی انتظامیہ براہ راست ان کے ماتحت تھا، جیسے جیسے قتل اور آتش زنی کی فہرست لمبی ہوتی گئی، گاندھی جی نے پٹیل کو بلا بھیجا اور ان سے پوچھا کہ وہ اس قتل عام کو روکنے کے لےے کیا کررہے ہیں؟ سردار پٹیل نے ان کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ وہ رپورٹ جو گاندھی جی کو ملی ہے وہ بڑھا چڑھا کر بتائی گئی ہے۔ حقیقت میں وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے ڈرنے یا شکایت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

مجھے خاص طور سے ایک موقع یاد ہے جب ہم تینوں گاندھی جی کے ساتھ بیٹھے تھے، جواہر لال نے گہرے دکھ کے ساتھ کہا تھا کہ وہ دہلی کی یہ حالت برداشت نہیں کرسکتے جہاں کے مسلمان کتے اور بلی کی طرح مارے جارہے ہیں، وہ اپنے کو شرمندہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ بے بس ہیں اور ان کی مدد نہیں کرسکتے ہیں، ان کی آتما انہیں کبھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتی، اس لےے کہ لوگ اگر ان سے ان خوفناک واقعات کے بارے میں پوچھیں گے تو وہ کیا جواب دیں گے؟جواہر لال نے کئی بار دوہرایا کہ وہ ان حالات میں خود کو بے بس پاتے ہیں، ان کا ضمیر انہیں شرمسار کرتا ہے۔لیکن سردار پٹیل کے ردعمل سے ہم پوری طرح حیرت زدہ رہ گئے تھے، ایسے وقت میں جب مسلمان دن کے اجالے میں مارے جارہے تھے انہوں نے گاندھی جی سے کہا کہ جواہر لال کی شکایتیں پوری طرح نہ سمجھ میں آنے والی ہیں۔ کچھ واقعات ہوسکتے ہیں لیکن سرکار مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کے لےے ہر ممکن کوشش کررہی ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت میں انہوں نے جواہر لال کے وزیراعظم کی شکل میں سرکار جوکچھ کررہی ہے، اسے قبول کرنے سے انکار کردیاتھا۔

جواہر لال نہرو کچھ لمحوں کے لےے سکتہ میں آگئے اور پھر مایوسی سے گاندھی جی کی جانب گھومے اور کہا کہ اگر سردار پٹیل کا یہ کہنا ہے تو انہیں کچھ نہیں کہنا
۔جاری

Tuesday, August 12, 2008

)اگست کرانتی 9اگست 1942
سے یوم آزادی 2008تک
(
تقسیم وطن کے بعد آخر ہندوستانی مسلمانوں نے یہ کیوں کہا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے؟

اگر ہندوستان کے لوگ اپنی مرضی سے بٹوارے کو قبول کرتے تو پنجاب، فرنٹیر، سندھ اور بنگال کے ہندو اور سکھ اسی طرح خوشیاں مناتے جیسے اس علاقے کے مسلمانوں نے منائیں۔ اس پورے علاقے سے موصول رپورٹوں نے یہ ظاہر کیا کہ یہ دعویٰ کہ بٹوارے کو کانگریس کے قبول کرنے کا مطلب ہندوستان کے لوگوں کا قبول کرنا ہے، کتنا کھوکھلا تھا۔

پاکستان کے مسلمانوں کے لےے14اگست خوشی کا دن تھا۔ ہندوﺅں اور سکھوں کے لےے یہ دکھ کا دن تھا۔ یہ صرف زیادہ تر لوگوں کی سوچ نہیں تھی بلکہ کانگریس کے اہم لیڈروں کا بھی یہی خیال تھا۔ آچاریہ کرپلانی اس وقت کانگریس کے صدر تھے۔ وہ سندھ کے رہنے والے تھے۔ 14اگست1947کو انہوں نے بیان جاری کیا کہ یہ ہندوستان کے لئے افسوس اور تباہی کا دن ہے۔ پورے پاکستان کے ہندوﺅں اور سکھوں نے اسی خیال کا کھلے عام اظہار کیا۔ حقیقت میں یہ ایک نامعلوم حالات تھے، ہماری قومی تنظیم کانگریس نے بٹوارے کے حق میں فیصلہ کیا تھا مگر بٹوارے سے پوری آبادی رنجیدہ تھی۔ اخلاقی طور پر یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ اگر بٹوارہ سے یہاں کے تمام لوگوں کے دلوں میں غم و غصہ تھا تو آخر کیوں ہندوستان کے لوگوں نے بٹوارے کو قبول کیا۔

اس کی بڑے پیمانے پر مخالفت کیوں نہیں کی۔ ایک ایسا فیصلہ کرنے کی اتنی جلدی کیوں تھی؟ جسے ہر کوئی غلط سمجھ رہا تھا۔ اگر15اگست1947تک ہندوستانی مسئلہ کا صحیح حل نہیں نکل سکتا تھا تو ہم نے ایک غلط فیصلہ کیوں کیا اور اب اس پر افسوس کیسا؟ میں نے بار بار یہ کہا تھا اس وقت تک انتظار کیا جائے جب تک صحیح حل نہیں مل جائے۔ میں نے اپنی جانب سے پوری کوشش کی لیکن میرے دوستوں اور ساتھیوں نے بدنصیبی سے میرا ساتھ نہیں دیا۔ اصل میں ان کے آنکھیں بند کئے رہنے کی ایک ہی وجہ جو میں سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ غصہ یا ناامیدی نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا تھا۔ شاید یہ بھی ہو کہ ایک تاریخ 15اگست کے طے ہوجانے نے جادو دکھایا، انہیں بٹوارے کے بارے میں جو کچھ بھی لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے کہا اسے قبول کرنے کے لےے مجبور کردیا۔

یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس میں افسوس اور مضحکہ خیزی دونوں ہی شامل تھےں۔ تقسیم کے بعد سب سے مضحکہ خیز صورتحال مسلم لیگ کے ان لیڈروں کی تھی جو تقسیم کے بعد بھی ہندوستان میں رہ گئے تھے۔
جناح اپنے حامیوں کو یہ پیغام دے کر کراچی چلے گئے کہ اب ملک کا بٹوارہ ہوگیا ہے اور اب وہ ہندوستان کے وفادار شہری ہوجائیں۔ اس الوداعی پیغام نے ان کے اندر کمزوری اورمحرومی کا عجیب احساس بھر دیا۔ ان میں سے بہت سے لیڈر میرے پاس14اگست کے بعد ملنے آئے۔ ان کی حالت قابل رحم تھی۔ ان میں سے ہر ایک نے انتہائی غم وغصہ کے ساتھ کہا کہ جناح نے انہیں دھوکہ دیا اور انہیں منجھدار میں چھوڑ گئے۔

پہلے میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ ان کے یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ جناح نے انہیں دھوکہ دیا۔ انہوں نے کھلے عام مسلم اکثریتی علاقوں کی بنیاد پر ملک کی تقسیم کا مطالبہ کیا تھا۔ تقسیم اب ایک سچائی تھی اور مشرق ومغرب دونوں کے ہی مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کے حصے بن چکے تھے پھر بھی مسلم لیگ کے ان ترجمانوں نے کیوں کہا کہ انہیں دھوکہ دیا گیا۔

جب میں نے ان سے بات کی تو میں نے پایا کہ بٹوارے کی تصویر جو ان کے دماغ میں تھی وہ حقیقت سے دور تھی۔ وہ پاکستان کے قیام کے اثر کو سمجھنے میں ناکام ہوگئے تھے۔ اگر مسلم اکثریتی علاقوں کو ایک علیحدہ ریاست تسلیم کرلیا جائے تو یہ بات صاف تھی کہ وہ علاقے جن میں سے مسلمان اقلیت میں ہیں ہندوستان کا حصہ ہوگا۔ اترپردیش اور بہار کے مسلمان اقلیت میں تھے اس لےے یہ تقسیم کے بعد یہیں رہ گئے۔ یہ حیرت انگیز مگر سچ ہے کہ مسلم لیگ نے بے وقوفی سے لوگوں کو سمجھایا تھا کہ ایک بار پاکستان بن گیا تو مسلمان جہاں کہیں بھی اکثریتی یا اقلیتی علاقہ میں ہیں انہیں الگ ملک سمجھا جائے گا اور وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کے حقدار ہوں گے۔

اب جبکہ مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان سے کٹ چکے تھے اور یہاں تک کہ بنگال اور پنجاب کا بھی بٹوارہ ہوچکا تھا اور مسٹر جناح کراچی چلے گئے تب ان بے وقوفوں کو سمجھ میں آیا کہ انہیں کچھ نہیں ملا۔ حقیقت میں انہوں نے ہندوستان کے بٹوارے سے سب کچھ کھو دیا تھا۔

مذکورہ بالا اقتباسات مولانا آزاد کی تاریخی تصنیف ”انڈیا ونس فریڈم “ سے ماخوذ ہےں۔اس کا سلسلہ جاری ہے اور انشاءاللہ ابھی جاری رہے گا۔لیکن ساتھ ساتھ راقم الحروف ان تاریخی حقائق کی روشنی میں دور حاضر تک کے منظر نامے کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے تاثرات بیان کرنے کی جسارت بھی کر رہا ہے،تاکہ گزشتہ ساٹھ برسوں میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا اس کو بھی سمجھ سکیں ۔

تقسیم وطن کے فیصلے کے بعد محمد علی جناح ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے نام یہ فرمان جاری کر کے کراچی چلے گئے کہ اب ہندوستان ہی آپ کا ملک ہے اور آپ اب ہندوستان کے وفادار شہری بن کر رہیں۔محمد علی جناح کے اس جملے پر اس وقت کانگریس کے صدر آچاریہ کرپلانی کے رویہ اور سردار پٹیل کے رد عمل پر میں اپنے تاثرات اس سلسلے وار مضمون کی آئندہ قسطوں میں پیش کروںگا اور ایک سوال جو بار بار ذہن میں آرہا ہے کہ کیا واقعی 15 اگست 1947 ہندوستان کی آزادی کا دن تھا ؟

اس پر بھی انشاءاللہ گفتگو ضرور ہوگی ،لیکن پہلے مولانا آزاد کے ان جملوں پر میں از سر نو غور کرنے کی ضرورت سمجھتا ہوں جن میں انھوں نے لکھا کہ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اب ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان ایسا کیوں محسوس کر رہے تھے کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہواہے۔تقسیم سے ان کی مراد یہ قطعاً نہیں تھی جس طرح سے پاکستان عمل میں آیا اور وہ ہندوستان میں رہ جانے والی اکثریت کے رحم و کرم پر زندہ رہنے پر مجبور ہو گئے۔ ان میں وہ مسلم لیگی بھی شامل تھے جو تقسیم کے حامی تھے۔

مولانا آزاد نے اپنی مذکورہ تحریر میں یہ بھی فرمایا کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے ذہن میں یہ تھا کہ وہ جہاں جہاں بھی اکثریت میں ہوںگے۔وہ ان کی ریاست ہوگی اور وہ اس کے خود مختار ہوںگے۔جبکہ تقسیم کے بعد کے ہندوستان میں وہ صرف اور صرف ایک اقلیت تھے اور اگر کہیں کسی شہر یا ریاست میں ان کی اکثریت تھی تو بھی وہ بے معنی تھی۔

بس میں ان کے اسی انداز فکر پر آج اپنے قارئین کی توجہ دلانا چاہتا ہوںکہ آخر اس وقت ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے ذہن میں کیا رہا ہوگا اور کیوں پاکستان کے قیام کو وہ اپنے ساتھ دھوکہ قرار دے رہے تھے؟دراصل اگر آپ ہندوستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ راجہ، رجواڑوں،نوابوں اور جاگیر داروں کا ملک تھا۔ایک چھوٹا سا قصبہ حتی کے ایک گاﺅں ٰبھی کسی نواب یا جاگیر دار کی ریاست ہوتی تھی۔اس وقت کے ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے یقینا ہندوستان کی وہی تصویر رہی ہوگی کہ اب آزادی کے بعد اگر ایک گاﺅں میں بھی ہماری اکثریت ہے تو وہ گاﺅں ہماری ریاست ہوگی۔میرا تعلق ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے ضلع بلند شہر سے ہے، جو کبھی راجہ ”برن“کی ریاست ہوا کرتی تھی اور اگر اس ایک شہر کو اس سے بھی چھوٹے دائرے میں جا کر دیکھیں تو بلند شہر ضلع کا ایک چھوٹا سا قصبہ ”پہاسو“ بھی نواب پہاسو کی ریاست تھی۔جہاں آج بھی آبادی ایک لاکھ سے زیادہ نہیں ہوگی اور ساٹھ برس قبل تو دس ہزار کی آبادی بھی کچھ زیادہ ہی نظر آتی ہے۔

”پہاسو“ کی طرح ”چھتاری“ کے نواب بھی ایک مسلمان تھے اور چھتاری پہاسو سے بھی بہت چھوٹا تھا۔اسی طرح شکار پور ،چونڈیرا وغیرہ کابھی اپنا اپنا ایک الگ وجود تھا۔اگر صرف بلند شہر کی تاریخ بیان کروں تو بھی اس وقت کے ہندوستان کی ایک ایسی تصویر آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوگی،جہاںسےکڑوں راجہ اور نواب حکومت کرتے تھے۔اگر اس وقت کے ہندوستانی مسلمانوں کے ذہن میں کچھ ایسا ہی تصور تھا تو اس میں غلط کیا تھا؟آخر ان کی نظر میں تو ہندوستان کا ماضی ہی رہا ہوگا اور اگر ایک نظر ہندوستان کے باہر بسے مسلم ممالک پر ڈالیں تو آج بھی قارئین کے لئے یہ سمجھنا قطعاً مشکل نہیں ہوگا کہ آخر ان کی سوچ کیا رہی ہوگی اور یہ تقسیم ان کے ساتھ دھوکہ کیوں تھی، اور اگر یہ دھوکہ تھا تو دھوکہ کس نے دیا؟محمد علی جناح نے، پنڈت جواہر لال نہرو نے،سردار پٹیل نے ؟

اس سب پر بھی گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے اور آئندہ انشاءاللہ اس سمت میں گفتگو بھی ہوگی ۔مگر میں آج کی اس تحریر کو چند مسلم ممالک کے نام بطور مثال پیش کر کے اپنی بات ختم کرو ںگا تاکہ پھر کل کی تحریر کا سلسلہ یہیں سے آگے بڑھایا جا سکے اور اس درمیان آپ کو یہ سوچنے کا موقع بھی رہے کہ میں جو کچھ لکھ رہا ہوںکیا واقعی یہ اس وقت کے حالات کی عکاسی کرتا ہے یا محض میرا ایک خیال ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں۔

دبئی،شارجہ،ابو ظہبی،اجمان،بحرین،قطر ،عمان وغیرہ وغیرہ مسلمانوں کے ایسے ممالک ہیںجن کا رقبہ اور آبادی ہندوستان جیسے بڑے ملک کے ایک ایک شہر سے بھی بہت کم ہے ۔اور اگر ان ممالک کے باشندوں کا طرز زندگی دیکھیں اور ان کے سکے کی بین الاقوامی قیمت پر غور کریں تو آپ یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیوں بٹوارے کے بعد مسلمانوں نے اسے اپنے ساتھ دھوکہ قرار دیا۔سب سے بہتر تو یہ تھا کہ ہندوستان کی سا لمیت ان کے حق میں ہوتی ،یا پھر ان کے ذہن میں ماضی کا وہ ہندوستان رہا ہوگا جہاں چھوٹے چھوٹے سے علاقوں پر نوابوں اور راجاﺅں کی حکومت تھی اور آج ان کے ایسے ہی تصور کی عملی شکل دبئی ،شارجہ اور بحرین جیسے ممالک کی شکل میں ہمارے سامنے ہے
جاری

Monday, August 11, 2008

) اگست کرانتی 9اگست 1942
سے یوم آزادی 2008ءتک )
کانگریس کے لوگوں میں تقسیم کے سب سے بڑے حامی سردار پٹیل تھے!

(مولانا ابوالکلام آزاد کے ذریعہ بیان کردہ تقسیم کا المیہ)

ہندوستان کی تقسیم

1۔ 14اگست کو لارڈ ماﺅنٹ بیٹن قیام پاکستان کا افتتاح کرنے کے لےے کراچی گئے اور دوسرے دن وہاں سے واپس آئے اور15اگست1947کو رات کے بارہ بجے ہندوستانی اقتداراعلیٰ کا جنم ہوا۔
انگریزوں کے خلاف جب آزادی کی جنگ شروع ہوئی تو ہندوستان اور پاکستان الگ الگ ملک نہیں تھےہندوستان نے انگریزوں کی غلامی سے جب نجات حاصل کی تب بھی ہندوستان اور پاکستان الگ الگ ملک نہیں تھے ،صرف ہندوستان تھا۔یعنی انگریزوں کے خلاف جنگ ہندوستان نے جیتی تھی۔غلامی سے نجات ہندوستان نے حاصل کی تھی۔مگر ؟

ہندوستان نے آزادی حاصل کر لی ۔انگریز ملک چھوڑ کر چلے گئے۔مگر ابھی ایک انگریز ہندوستان میں باقی تھا اور شائد وہ ایک انگریز بھی اس قدر طاقتور تھا یا ہماری کمزوری نے اسے اتنا طاقتور بنا دیا تھا کہ وہ ہماری کامیابی کو ناکامی میں بدل سکتا تھا۔آزادی مل جانے کے باوجود ہمیں خوشیوں سے محروم کر سکتا تھا۔ہمارے لبوں پر تبسم آنے سے پہلے ہماری آنکھوں سے آنسوﺅں کی شکل خون کے دریا بہا سکتا تھا۔وہ ہمارے جسم کے دو ٹکڑے کر سکتا تھا۔بھائیوں کو بھائیوں سے جدا کر سکتا تھا۔انہیں آپس میں ایک دوسرے کا خو ن کرنے پر آمادہ کر سکتا تھا اور وہ شخص تھا لارڈ ماﺅنٹ بیٹن۔

اوپر کی سطروں میں جہاں سے مضمون کی شروعات ہوئی ،مولانا آزاد نے اپنی کتاب ”انڈیا ونس فریڈم“میں تقسیم وطن کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ 14 اگست کو لارڈ ماﺅنٹ بیٹن قیام پاکستان کا افتتاح کرنے کے لئے کراچی گئے اور دوسرے دن وہاں سے واپس آئے اور 15اگست 1947ءکو رات کے بارہ بجے ہندوستانی اقتدار اعلیٰ کا جنم ہوا۔میرے ذہن میں بار بار یہ خیال آرہا ہے کہ وطن ہندوستان توانگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا تھا، اگر ملک کے دوٹکڑے کرنے کا فیصلہ بھی اس وقت کے بر سر اقتدار سیاستدانوں کی اکثریتی رائے سے ہو گیا تھا تو بھی جشن آزادی پہلے ہندوستان میں کیوں نہیں؟ہندوستان کی کوکھ سے جنمے پاکستان میں کیوں؟

کیا لارڈ ماﺅنٹ بیٹن ارادتاً مذہبی تعصب کو جنم دے کر اس قتل و غارت گری کی راہیں ہموار کر رہے تھے جن کا اندازہ انہیں ہندوستان پر 190برس تک اپنے تسلط کے دوران ہو گیا تھا اور اگر اس طرح دیکھا جائے تو لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی چال کامیاب ہوئی۔ہمیں نہ صرف یہ کہ 15اگست کی آدھی رات تک اپنی آزادی کے اعلان کا انتظار کرنا پڑا اور وہ بھی اس شکل میں کہ جب لارڈ ماﺅنٹ بیٹن پاکستان میں آزادی کا پرچم لہرا کر ہندوستان واپس لوٹیں گے اور ہماری پارلیمنٹ میں ہمارے اقتدار اعلیٰ سے خطاب فرمائیں گے۔اس کے بعد کہیں ہندوستان میں آزادی کے جشن کی باری آئیگی۔اس کے بعد مولانا آزاد لکھتے ہیں کہ

2۔ملک اب آزاد تھا لیکن اس سے قبل کہ یہاں کے لوگ اس آزادی اور کامیابی کا پوری طرح لطف لیتے، صبح آنکھ کھلتے ہی انہوں نے پایا کہ آزادی اپنے ساتھ ایک بڑی پریشانی لے کر آئی ہے۔ ہمیں یہ بھی علم ہوا کہ ہمیں آزادی کا لطف حاصل کرنے اور آرام سے پہلے ابھی ایک لمبا اور مشکل سفر طے کرنا ہے۔

یعنی اگلی صبح ہوا وہی جو لارڈ ماﺅنٹ بیٹن چاہتے تھے ۔یعنی ایک انگریز نے اپنی زہریلی آنکھوں سے جو نظارہ پہلے ہی دیکھ لیا تھا اب وہ ہمارے سامنے تھا۔طلوع آفتاب کے وقت سورج کی کرنیں جب ہندوستان کی زمین پر پڑیں تو وہاں کوئی خوشی کا نظارہ نہ تھا ۔بلکہ سڑکوں پر بہتا ہوا ہندوستانیوں کا خون تھا۔یعنی آزاد ملک نہیں ہوا تھا۔آزادی ملی تھی ان ہندوستانی سیاستدانوں کو جنھوں نے آدھی رات کے وقت ایک انگریز لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی افتتاحی تقریب کے بعد حکومت اپنے ہاتھوں میں آجانے کا جشن منایا تھا۔ لیکن ہندوستانیوں کے لئے یہ دن خوشی کا دن نہیں تھا اور اس حقیقی منظر نامے نے ہندوستانی حکمرانوں کو سمجھا دیا کہ آزادی کا لطف حاصل کرنے کےلئے ابھی انھیں لمبا اور خار دار سفر طے کرنا ہے۔وہ سب تو ہمیں منجھدار میں چھوڑ کر چلے گئے۔

ہم ہندوستانی آج بھی انہےں خار دار راہوں پر چلتے چلتے اپنا خون جگر بہانے کو مجبور ہیں۔میں پھر آتا ہوں مولانا آزاد کی کتاب کی جانب
3۔کانگریس اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نے بھی بٹوارے کو قبول کرلیاتھا کیوں کہ کانگریس پورے ملک کی قیادت کرتی تھی اور مسلم لیگ کو مسلمانوں کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل تھی۔ اس کا عام طور پر مطلب یہی تھا کہ پورے ملک نے بٹوارے کو قبول کرلیا تھا جب کہ حقیقی صورتحال اس سے قطعی مختلف تھی۔ جب ہم لوگ تقسیم سے ذرا قبل اور اس کے بعد ملک کی جانب دیکھتے ہیں تو ہم پاتے ہیں کہ اس بٹوارے کی قبولیت کانگریس کی ایگزیکٹیوکمیٹی کی تجویز اور مسلم لیگ کے رجسٹر تک ہی محدود تھی۔ ہندوستان کے لوگوں کو یہ بٹوارہ قبول نہیں تھا۔ درحقیقت ان کا دل اور ان کی روح اس تجویز کے خلاف تھی۔

اقتدار سے وابستہ لوگ سمجھتے تھے کہ کانگریس پورے ملک کی قیادت کرتی تھی اور مسلم لیگ مسلمانوں کی ۔اور اگر ان دونوں پارٹیوں نے بٹوارے کو تسلیم کر لیا تو پورے ملک کا عوام بھی اسے تسلیم کر لیگا۔لیکن حقیقت کیا تھی۔نا ہندوستان کے ہندو اور سکھوں کو یہ بٹوارہ منظور تھا اور نا مسلمانوں کو ۔ٹھیک ہی لکھا مولانا آزاد نے ’قبولیت کانگریس کی ایکزیکیٹیو کمیٹی کی تجویز اور مسلم لیگ کے رجسٹر تک ہی محدود تھی‘تقسیم وطن کا سچ یہی تھا ۔ساٹھ برس پہلے بھی اور آج بھی۔چلئے پھر چلتے ہیں مولانا آزاد کی طرف ۔اب وہ آپ سے مخاطب ہیں

4۔میں کہہ چکا ہوں کہ مسلم لیگ کو بہت سارے ہندوستانی مسلمانوں کی حمایت حاصل تھی مگر مسلم سماج میں بہت بڑا حصہ تھا جس نے ہمیشہ لیگ کی مخالفت کی تھی۔ ملک کی تقسیم کے فیصلے سے وہ لوگ اخلاقی طور پر الگ تھلگ پڑ گئے۔ ہندو اور سکھ ان لوگوں میں تھے جو بٹوارے کی مخالفت میں متحد تھے۔ کانگریس کے منصوبہ کو قبول کرنے کے باوجود ان کی مخالفت کو تھوڑا بھی کم نہیں کیا جاسکا اور پھر جب بٹوارہ ایک سچ بن گیا، تو وہ مسلمان بھی جو مسلم لیگ کے حق میں تھے، اس کے نتیجے سے خوفزدہ ہوگئے اور انہوں نے کھلے عام کہنا شروع کردیا کہ بٹوارے سے ان کا مقصد یہ نہیں تھا۔

یعنی مولانا آزاد نے اس دور کے سچ کو ایک تاریخی دستاویز کی شکل میں ہمارے سامنے رکھ دیا کہ وہ تقسیم وطن ایک فریب تھا ۔اس وقت کے سیاست دانوں کا اور اس میں شامل تھے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن بھی۔ بٹوارہ نہ ہندوستان کا ہندو چاہتا تھا، نہ مسلمان چاہتا تھا اور نہ سکھ چاہتا تھا۔رفتہ رفتہ دس برس گزر گئے۔مولانا آزاد سب کچھ اپنی نگاہوں سے دیکھتے رہے اور پھر لکھا

5۔دس سال بعد بھی حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس وقت جو میں نے کہا تھا اسے حالات نے صحیح ثابت کردیا۔ میرے سامنے اس وقت بھی صاف ظاہر تھا کہ کانگریس کے لیڈروں نے اس بٹوارے کو کھلے اور آزادذہن سے قبول نہیں کیا ہے۔ کچھ نے اس کو ناراضگی اور غم و غصہ میں قبول کیا اور کچھ لوگوں نے ناامید ہوکر۔ انسان جب بے عزتی اور خوف سے متاثر ہوتا ہے تو حقیقت میں صحیح اندازہ نہیں لگاپاتا۔ تقسیم کے حامی جو خواہش کے دباﺅ میں کام کررہے تھے،وہ اس حقیقت کو کیسے سمجھ سکتے تھے۔

مولانا آزاد کا تجزیہ کتنا درست تھا ،دس سال بعد یہ ان کی زندگی میں ہی واضح ہو گیا ۔مگر کہیں کہیں ان کا معصوم ذہن بھی برسراقتدار لوگوں کے ذہن کو پڑھنے میں فریب کھاتا نظر آتا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ کانگریس کے لیڈروں نے اس بٹوارے کو کھلے اور آزاد ذہن سے قبول نہیں کیا،کچھ نے اس کو ناراضگی اور غم و غصہ میں قبول کیا تو کچھ لوگوں نے نا امید ہو کر۔انسان جب بے عزتی اور خوف سے متاثر ہوتا ہے تو حقیقت میں صحےح اندازہ نہیں لگا پاتا ہے۔انگریزوں کی غلامی سے نجات پانے کے بعد کانگریس کے لیڈران کا ذہن آزاد کیوں نہیں تھا؟اب ان کو ناراضگی کس سے تھی؟ غم کس بات کا تھا؟ اور غصہ کس پر؟نا امیدی کی وجہ کیا تھی؟

اور وہ امید کیا تھی جو نا امیدی میں بدل گئی؟پھر ان کا یہ جملہ کس کے لئے تھا کہ انسان جب بے عزتی اور خوف سے متاثر ہوتا ہے تو حقیقت کا وہی اندازہ نہیں لگا پاتا۔انگریز تو ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔ان کی غلامی سے تو آزادی مل چکی تھی۔صرف بچے ایک لارڈ ماﺅنٹ بیٹن توان سے کوئی ناراض نہیں تھا۔سب انھیں اپنے مسےحا کی نظر سے دیکھتے تھے۔پھر یہ بے عزتی اور خوف کس کو کس سے تھا؟کیا پنڈت جواہر لا ل نہرو اور سردار پٹیل کو محمد علی جناح اور لیاقت علی خان سے یا اس کے الٹ محمد علی جناح اور لیاقت علی کو نہرو اور پٹیل سے ۔ہندوستانیوں کی امید تو آزادی کے ساتھ ہی پوری ہو گئی۔اب ان کی نا امیدی کا تو سوال ہی نہیں۔وہ ناراض تھے انگریزوں سے ۔ان کے غم و غصہ کی وجہ بھی فرنگیوں کا ظلم تھا۔یہ سب وجوہات جب ختم ہو گئیںتو عام ہندوستانیوں کی ناامیدی ،غم و غصہ سب کچھ ختم ہو گیا۔تو کیا مولانا آزاد کھل کر نہیں لکھ رہے؟

مگر ان کا اشارہ انہیں اقتدار کی چاہت رکھنے والوں کی جانب تھا اور حقیقت کاصحےح اندازہ نہ لگا سکنے والی بات انہیں دو لوگوں کے لئے لکھی گئی،جو بعد میں ہندوستان اور پاکستان کے حکمراں بنے۔بہر حال ابھی اور آگے چلتے ہیں،مولانا آزاد اب کس راز سے پردہ اٹھاتے ہیں

6۔کانگریس کے لوگوں میں تقسیم کے سب سے بڑے حامی سردار پٹیل تھے حالانکہ انہیں یقین نہیں تھا کہ بٹوارہ ہندوستان کی پریشانی کا سب سے عمدہ حل ہے۔ انہوں نے بٹوارے کے حق میں اپنا فیصلہ غصہ اور زخمی دل کے ساتھ دیا۔ انہوں نے اپنی ہر تجویز کو لیاقت علی خان کے فائنانس منسٹر کے طور پر ویٹو کےے جانے سے اپنے آپ کو دلبرداشتہ محسوس کیا۔ غم و غصہ کے ساتھ انہوں نے فیصلہ لیا کہ اگر کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے تو بٹوارہ ہی قبول کرلیا جائے۔ انہیں یہ بھی یقین تھا کہ پاکستان کی نئی ریاست اصولی نہیں ہے اور یہ زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتی۔

وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کو تسلیم کرنا مسلم لیگ کو ایک کڑوا سبق سکھا دے گا۔ پاکستان بہت کم وقت میں بکھر جائے گا اور وہ علاقے جو ہندوستان سے علیحدہ ہوئے ہیں انہیں متعدد ناقابل بیان دشواریوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سردار پٹیل کو یہ بھی امید تھی کہ وہ لوگ ہندوستان لوٹنے پر مجبور ہوں گے۔ میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ مسلم لیگ کے خلاف ان کی دلیل اتنی مضبوط تھی کہ انہیں اس کا افسوس نہیں تھا کہ وہ مسلمان جو لیگ کے حامی تھے ان کو مشکلات اٹھانی پڑیں گی۔ ملک کی تقسیم کے بارے میں لوگوں کے عمل کا صحیح علم 14اگست1947کو ہوا جب آزاد پاکستان کا جنم ہوا۔

لیجئے یہ کیا غضب کیا ۔ ساٹھ برس پہلے کا سچ پچاس برس پہلے مولانا آزاد نے لکھ دیا کہ کانگریس میں تقسیم کے سب سے بڑے حامی سردار پٹیل تھے۔تعجب ہے آج ان کی سوچ پر عمل پیرا ہی سب سے زیادہ پاکستان کے وجود سے نالاں ہیں۔کیا اس لئے کہ سردار پٹیل کے قیاس غلط ثابت ہوئے۔وہ سوچتے تھے کہ پاکستان اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا،وہ ٹوٹ کر بکھر جائے گااور یہ ٹوٹے بکھرے غمزدہ لوگ رحم کی بھیک مانگنے پھر ہندوستان چلے آئیں گے۔ایسا ہو جاتا تو شاےد ان کے نقش قدم پر چلنے والے خوش رہتے۔مگر افسوس کہ ایسا نہ ہواکاش ایسا ہو جاتا ۔پاکستان ہندوستان میں ضم ہو جاتا ۔بہر حال اس پر تبصرہ بعد میں ۔ابھی تو بات سردار پٹیل کی ہے۔انھوں نے یعنی سردار پٹیل نے اپنی ہر تجویز کو لیاقت علی خان کے فائنانس منسٹر کے طور پر ویٹو کئے جانے سے اپنے آپ کو دل برداشتہ محسوس کیا اور غم و غصہ کے ساتھ یہ فیصلہ لیا۔

عجیب بات ہے۔سردار پٹیل جن کے ساتھ ملک کی اکثریت تھی۔بحےثےت ہوم منسٹر ،پولس اور انتظامیہ ان کے اشاروں کا منتظر رہتا تھا اور وہ وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو ہی نہیں مہاتما گاندھی کو بھی نظر انداز کر دینے کا حوصلہ رکھتے تھے۔آخر وہ لیاقت علی خان کے فائنانس منسٹر ہو جانے پر اتنے بے بس کیوں تھے؟ آخر ان کے اس قدر غم و غصہ کی وجہ کیا تھی؟ یہ سوال انتہائی اہم اور قابل غور ہے ۔آپ کے لئے بھی اور سردار پٹیل کے چاہنے والوں کے لئے بھی ۔ سوچئے آپ سب بھی ۔ سلسلہ جاری رہیگا۔باقی کل اور اس وضاحت کے لئے بھی تھوڑا انتظار کہ سردار پٹیل نے کب کب اور کن مواقعوں پر وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور آزادی کے مسیحا مہاتما گاندھی کو نظر انداز کیا۔
جاری

Sunday, August 10, 2008

(اگست کرانتی 9 اگست1942ء)
سے یوم آزادی 2008 تک
محمد علی جناح سیکولر یا فرقہ پرست
مسلمانوں کے دوست یا دشمن؟

چلئے بات جنگ آزادی کے دور سے شروع کرتے ہیں، ان میں کون آپ کا دوست تھا، کون آپ کا سچا رہنما تھا ۔جنہوں نے آزادی کی جنگ میں اپنی جان کی قربانی دی، وہ سب تو وطن دوست تھے ،اپنی قوم کے سچے سپاہی تھے ،آپ ان پرفخر کرسکتے ہیں۔ مگر وہ اقتدار جن کا مقصد تھا۔ کیا وہ بھی آپ کے اپنے تھے ؟ ان کا نام آپ کے جیسا ہو سکتا ہے وہ آپ کے مذہب کے نام پر اپنی حکومت کے لیے ایک ملک بنا سکتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی اپنے مفاد کے لیے آپ کو ایک ایسے اندھے کنوےںمیں دھکیل بھی سکتے ہیں جہاں نہ آپ چین سے زندہ رہ سکتے ہیں اور نا سکون سے مرسکتے ہیں۔

محمد علی جناح شائد وہ مسلمانوں کے سچے دوست نہیں تھے تو کیا دشمن تھے اور اگر انہیں مسلمانوں کا دشمن قرار نہ بھی دیا جائے کیونکہ انہوں نے پاکستانی مسلمانوں کومذہب کے نام پر ایک ملک دے دیا تو بھی اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ دور اندیش نہیں تھے۔ تمام مسلمانوں کے بارے میں یا تو سوچتے نہیں تھے، یا سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ اب انہیں بے صلاحیت لکھنا یا کہنا تو اس لئے مناسب نہیں لگتا کیونکہ بہر حال وہ بے صلاحیت نہیں تھے ۔ ہاں تنگ نظر ضرور کہہ سکتے ہیں مگر یہ تنگ نظری ان کی مجبوری بھی ہوسکتی ہے ۔ ہوسکتا ہے وہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے لیے ایک ملک ذہن میں رکھتے ہوں۔

مگر جغرافیائی اعتبار سے یہ ممکن نہ ہوتے دیکھ کر انہوں نے مسلمانوں کے نام پر زمین کا جتنا بڑا ٹکڑا ملا اسی پر اکتفا کرلیا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے الگ سے کوئی ملک چاہتے ہی نہ ہوں، بلکہ مکمل ہندوستان پر حکومت کرنے کی خواہش رکھتے ہوں۔ مہاتما گاندھی کے ذریعے باری باری سے حکومت کی تجویز تو ان کی اسی خواہش کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ہوسکتا ہے پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل کی وجہ سے انہیں اپنا یہ خواب حقیقت میں بدلتا نظر نہ آرہا ہو، اس لیے انہوں نے ہندوستان کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے یعنی پاکستان کا قائد اعظم بننے پر ہی اکتفا کرلیا ہو۔........

محمد علی جناح کو بے شک گزشتہ 60 برسوں سے ایک کٹر فرقہ پرست مسلمان کہا جاتا رہا ہو، مگر بھارتیہ جنتا پارٹی کے قد آور لیڈر لال کرشن اڈوانی کا اپنے سفر پاکستان کے دوران محمد علی جناح کو سیکولر کہنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جو پارٹی محمد علی جناح کو فرقہ پرست ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہی ، اگر اس پارٹی کا سب سے بڑا لیڈر بھی یہ بات تسلیم کر لے کہ وہ فرقہ پرست نہیں تھے تو مان لینا ہوگا کہ محمد علی جناح فرقہ پرست نہیں تھے۔............ میں نے محمد علی جناح کے تعلق سے جب لکھنا شروع کیا تو انہیں کم از کم ہندوستانی مسلمانوں کا دوست نہیں دشمن قراردیا۔ تنگ نظر اور خودپرست بھی کہا۔ بھلے ہی یہ سب لکھنے اور سننے میں ٹھیک لگتا ہو مگر ایسا نہیں ہے کہ ہم سارا الزام محمد علی جناح پر تھوپ کر خود بری الذمہ ہوجائیں۔

آخر محمد علی جناح نے ایساکیا کیا جو سیاستداں کرتے۔ بس انہو ںنے وہی کیا جو اس وقت ان کی سیاست کی ضرورت تھی۔ اب اگر اس میں سارے ہندوستانی مسلمانوں کا بھلا نہیں ہوسکتا تھا تو کیا ہندوستان کے طول و عرض میں چپے چپے پر بکھرے ہوئے مسلمانوں کو یہ نہیں سوچنا چاہئے تھا کہ اگر محمد علی جناح، پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل کی مشترکہ رضا مندی سے ملک کو تقسیم کردیا گیا تو اس کا سب سے بڑا نقصان ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو ہی ہوگا۔ نقصان تو بہر حال پاکستانی مسلمانوں کو بھی ہوا ۔انہو ںنے ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاءالحق اور بے نظیر بھٹو کو بین الاقوامی سیاست کے چلتے کھودیا اور برطانیہ کے شکنجے سے نکل کر امریکہ کے غلام ہو گئے۔ مگر اس وقت بات صرف ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے ............

محمد علی جناح کے بعد بھی ہندوستان میں قد آور مسلمان تھے جو مسلمانوں کو بھی سمجھا سکتے تھے اور پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل پر بھی دباﺅ ڈال سکتے تھے کہ ملک کی تقسیم عمل میں نہ آئے۔ مہاتما گاندھی تقسیم وطن کے بعد اگر مسلمانوں پر ہوئے ظلم کی داستان سن کر افسردہ ہوسکتے ہیں ، مرن برت پر بیٹھ سکتے ہیں اور ان کا یہ فیصلہ حالات میں تبدیلی لاسکتا ہے تو ایسا ہی قدم ملک کی تقسیم کو روکنے کے لیے بھی اٹھایا جاسکتا تھا۔ انھیں اس وقت بھی تمام صورت حال سے آگاہ کیا جاسکتا تھا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ملک کے دو ٹکڑے ہونے تھے، ہوئے۔اور اسی طرح مسلمانوں کو پہلے دو پھر اس کے بعد تین ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور اتنا ہی نہیں پھر اس کے بعد انہیں ہندوستان میں تقریباً 60برس تک ملک کی تقسیم کا داغ اپنے دامن پر برداشت کرتے ہوئے سرجھکاکر رہنا پڑا، وہ ناکردہ گناہوں کی سزا پاتے رہے اور خاموش رہے۔

آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا اور ہم نہیں سوچیں گے کہ ان سب کی وجہ کیا ہے؟اس سب کے لئے ذمہ دار کون ہے؟
میں نے بہت کچھ لکھا۔ بم دھماکوں کے پہلے بھی، بعد بھی اور ہر فرقہ وارانہ فساد کے بعد بھی، ہر بار جلد از جلد جائے واردات پر پہنچنے کی کوشش کی۔تمام حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، پھر لکھا۔ جے پور، بنگلور، حیدرآباد، ممبئی، مالیگاﺅں، میرٹھ، ملیانہ، ہاشم پورہ ہی نہیں، لندن اور نیویارک (امریکہ) تک بھی گیا، تاکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں اس جگہ کو جس نے اس دور میں مذہبی منافرت کی وہ فضا پیدا کی جسے ہموار کرنے میں شاید صدیوں کا سفر طے کرنا پڑے۔ پھر اچانک لکھنا کم کردیا نیو یارک سے واپسی کے بعد سفر کی داستان بھی نہیں لکھی۔ لگا کس کے لیے لکھ رہا ہوں اور کیوں لکھ رہا ہوں۔

آخر ایسا کیا ہے جو لوگ نہیں جانتے اور میں ان کے سامنے لانے کی کوشش کررہا ہوں۔ سب کچھ تو وہ جانتے ہی ہیں۔ میں ان کے زخموں کو کرید کر ان کی تلخ یادوں کو تازہ کردیتا ہوں۔ کیا مجھے ایسے ہی کرتے رہنا چاہیے۔ نہیں، آج میں زخموں کو کریدنے کی بات نہیں کرنا چاہتا۔ میں اپنے اور اپنوں پر ہوئے ظلم کی داستان بیان کرنا نہیں چاہتا، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں جس کے لیے ہم صدیوں تک روتے رہیں اور دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے رہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اتنے تلخ تجربات کے باوجود بھی ہم جاگے ہی نہیں۔

ہم نے سچائی کو سمجھا ہی نہیں۔ ہم نے خود اپنا مستقبل سنوارنے کی کوشش کی ہی نہیں، اس لیے آج کی اس تحریر میں اگر ماضی کے کچھ تلخ حوالوں کا ذکر ہے تو اس لیے نہیں کہ ہم صف ماتم بچھائیں اور عزاداری کا سلسلہ شروع کردیں، بلکہ یہ حوالے تو اس لیے ہیں کہ ماضی کی روشنی میں ہم اپنا بیتا ہوا کل دیکھیں۔ آج کے حالات کا جائزہ لیں اور کم از کم اب تو یہ فیصلہ کرلیں کہ ہمارا اپنا مستقبل کسی اور کے نہیں ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ ہم اگر متحد ہوجائیں گے تو پھر کوئی طاقت نہ ہمارا استحصال کرسکے گی، نہ موردِ الزام ٹھہراسکے گی اور نہ ہم اپنے ہی ملک میں دو نمبر کے شہری کی طرح سر جھکاکر جینے کو مجبور ہوں گے۔

کون نہیں جانتا مولانا حسرت موہانی، علی برادران، شہید اشفاق اللہ خاں اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے بے شمار نام ہیں جنھوں نے اس ملک کو آزادی دلانے کے لیے اپنی قربانیاں پیش کیں اور یہ بھی کون نہیں جانتا کہ تقسیم وطن کے بعد وہی مسلمان حاشیہ پر چلا گیا جو انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے اپنی جان کی بازی لگانے کے لیے سامنے آیا، مگر اقتدار ہاتھ میں آتے ہی پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل کا عمل مسلمانوں کے تئیں کیا رہا۔ کیا ان تاریخی حقائق کو جھٹلایا جاسکے گا جنھیں خود مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب India wins Freedom میں لکھا۔
میری تحریر کا سلسلہ جاری رہے گا مگر میں چاہتا ہوں کہ پہلے بغیر کسی ردّوبدل کے ان کے جملے آپ کے گوش گزار کردوں تاکہ اس دور کی کہانی انھیں کی زبانی آپ کی خدمت میں پیش کردی جائے، پھر میرے پاس تو لکھنے کے لیے 1947 سے لے کر تا حال اتنا کچھ ہے کہ شاید اتنی زندگی بھی نہیں کہ سارے کا سارا سچ آپ کے سامنے رکھ سکوں۔ ہاں مگر اتنا یقین ضرور ہے کہ سچ سے روبرو ہونے کا اب یہ سلسلہ رکے گا نہیں۔ ایک نہیں ہزار عزیز برنی آئیں گے آپ کو سچائی سے روشناس کرائیں گے اور پھر آئے گا وہ دن جس کے لیے یہ سب لکھنے کا سلسلہ جاری ہو ا ہے ۔........جاری