امت شاہ کو دیکھا میں نے ٹیلی ویژن چینلز پر، فاتحانہ انداز میں مسکرا کر جیل جاتے ہوئے۔ ایک ہجوم تھا امت شاہ کے ساتھ۔ ان کے چہروں پر بھی ایسی ہی خوشی تھی، مانو ملک کے لےے کوئی بڑا اعزازی تمغہ حاصل کیا ہو یا کسی جنگ میں جیت کر آرہے ہوں اور یہ جیت امت شاہ کی بدولت ہی حاصل ہوئی ہو۔ دیکھا میں نے کچھ لوگوں کو سرراہ ان کے ماتھے پر تلک لگاتے ہوئے، ایسا بھارتیہ سنسکرتی میں ہمارے ہندو بھائی کسی کو سمّان دینے کے لےے ، عزت و احترام کا درجہ دینے کے لےے کرتے ہیں، ٹیکا لگاتے ہیں، تلک کرتے ہیں۔ یہ سمّان، یہ تلک اس لےے تھا کہ سی بی آئی نے سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کیس میں امت شاہ کے خلاف کچھ ثبوت اکٹھے کےے ہیں۔ عدالت کے ذریعہ اس معاملہ میں سی بی آئی کو جانچ کرنے کا حکم جاری ہوا تھا۔ امت شاہ ریاست گجرات میں مملکت وزیرداخلہ کے عہدے پر تھے، جس وقت انہوں نے سہراب الدین شیخ کے فرضی انکاؤنٹر میں گہری دلچسپی لی، جیسا کہ ابھی تک منظرعام پر آنے والے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اس معاملہ میں وہ ملوث ہیں۔ ٹیلی ویژن چینل پر Exclusiveخبر کے طور پر جب امت شاہ کا یہ فاتحانہ جلوس دکھایا جارہا تھاتو درجنوں ٹیلی ویژن چینلوں کے نمائندے اپنے کیمروں کے ساتھ ہر زاوےے سے امت شاہ اور ان کے شیدائیوں کو کیمرے میں قید کرلینا چاہتے تھے۔ یہی حال پرنٹ میڈیا کے فوٹوگرافرس کا بھی تھا۔ میں اس واقعہ کا ذکر اس لےے کررہا ہوں، کیوں کہ میں ایک مخصوص ذہنیت کی طرف تمام ہندوستان کی توجہ دلاناچاہتا ہوں۔ کس بات کا جشن تھا یہ؟ الزام سچا ہے یا جھوٹا، امت شاہ سہراب الدین قتل کیس میں ملوث ہے کہ نہیں، یہ فیصلہ عدالت کو کرنا ہے، لیکن یہ الزام ان کے لےے کون سی خوشی کا پیغام لے کر آیا تھا، جو راستہ میں تلک کی رسم ادا کی جارہی تھی۔ ساتھ میں نعرے لگاتا ہوا جلوس تھا اور کیمرے بھی جو مناظر قید کررہے تھے، اس سے یہی اندازہ ہوتا تھا کہ اس واقعہ کو کتنی اہمیت دی جارہی ہے۔ کیوں یہ ہمارے معاشرے کے لےے لائق شرم نہیں تھا کہ ایک شخص کو قتل میں شامل ہونے کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جارہا ہے؟ کیوں اسے احساس جرم نہیں تھا؟ کیوں اس کے ساتھ چلنے والے شرمندہ نہیں تھے؟ اگر سہراب الدین شیخ مجرم بھی تھا، جو کچھ کہا امت شاہ نے، کیا پرکاش جاوڈیکر ایک ٹیلی ویژن چینل پر مباحثہ میں حصہ لیتے ہوئے یا پھر نریندرمودی نے یا اس پارٹی کے ذمہ داران نے اگر اس کو بھی صحیح مان لیا جائے تو بھی کیا کسی مجرم کو بغیر کسی عدالتی فیصلہ کے سرعام قتل کرنے کا فیصلہ قابل ستائش ہے؟ تب تو کسی عدالت کی ضرورت ہی نہیں؟ کسی بحث کی ضرورت ہی نہیں؟ ایک ریاست کا وزیرداخلہ اپنے ماتحت پولیس افسران کو حکم دے اور قتل کردیا جائے، کیا یہ مناسب ہے؟ اگر ہاں تو پھر عدالتوں کی اہمیت کیا ہے۔ اگر نہیں توسہراب الدین کے معاملہ میں فیصلہ عدالت کو کرنا تھا۔ آج بھی عدالت کے باہر اسے دہشت گرد یا مجرم ثابت کرنے والے کیا عدالت کے کام کو متاثر کرنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں؟ کیا اپنے اثرورسوخ اور سیاسی طاقت سے عدالتوں کی آزادی سلب کرلینے کا یہ حربہ نہیں ہے یہ؟
وزیراعظم کے کھانے کی دعوت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اعلیٰ لیڈران نے شرکت سے انکار کردیا، اس لےے کہ وہ ناراض تھے امت شاہ کے سی بی آئی کے شکنجے میں پھنس جانے سے۔ وہ سی بی آئی کو موردالزام ٹھہرا رہے تھے، کیا بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کا یہ عمل درست قرار دیا جاسکتا ہے؟ یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب بھارتیہ جنتا پارٹی ایسے تمام لوگوں کو کسی بھی قانون سے بالاتر سمجھتی ہے، جو اس کی فکر سے ہم آہنگ ہوتے ہیں، پھر چاہے وہ کتنے ہی بڑے جرم میں ملوث کیوں نہ ہوں۔ یہی کیا تھا لال کرشن اڈوانی نے سادھوی پرگیہ سنگھ کی گرفتاری اور اس کے حلف نامہ کے بعد۔ الیکشن کا دور تھا، لال کرشن اڈوانی مالیگاؤں بم بلاسٹ کی ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا حلف نامہ لےے گھوم رہے تھے۔ وہ وزیرداخلہ سے ملے، وزیراعظم ڈاکٹرمنموہن سنگھ سے ملے، نیشنل سیکوریٹی ایڈوائزر نے ان کے گھر پر حاضری دی، مقصد سادھوی پرگیہ سنگھ بیشک ملزم ہوں، ان کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آیا جائے اور جیل کو ان کے لےے شاہی مہمان خانہ بنادیا جائے۔ ہم نے دیکھی ہےں سادھوی پرگیہ سنگھ کی وہ تصاویر، جب شہید ہیمنت کرکرے نے مالیگاؤں بم بلاسٹ کے بعداسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا تھا۔ کس قدر پریشان حال اور خوفزدہ چہرہ تھا وہ جب پولیس کانسٹبل سادھوی پرگیہ سنگھ کو جیل کی طرف لے کر جارہی تھیں، لیکن شہید ہیمنت کرکرے کے قتل کے بعد پھر ایک اور تصویر ہمارے سامنے تھی، منظراب بھی جیل کے لےے لے جائے جانے کا تھا، مگر اس بار ایک کھلکھلاتا، مسکراتا چہرہ ہمارے سامنے تھا۔ ہم یہ دونوں تصاویر قارئین کے سامنے اپنے اس مضمون کے ساتھ پیش کرنے جارہے ہیں، تاکہ وہ دونوں کا موازنہ کرسکیں، اس لےے کہ یہ تصویریں بہت کچھ بولتی ہیں، سادھوی پرگیہ سنگھ کی ہوں یا امت شاہ کی۔
امت شاہ کے کیس کو سامنے رکھ کر ایک ٹیلی ویژن چینل نے سی بی آئی کے کردار پر مباحثہ کا ایک پروگرام پیش کیا۔ شرکا میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے پرکاش جاوڈیکر اور کانگریس کے موہن پرکاش تھے۔ جب جب موہن پرکاش نے امت شاہ کے جرم اور سی بی آئی کی کارکردگی کو سامنے رکھنے کی کوشش کی، بات کو مکمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ سوال کو محدود رکھا گیا صرف اس بات تک کہ سی بی آئی کا سیاسی استعمال ہورہا ہے یا نہیں۔ ناظرین کی آراء بھی اسی سوال کی روشنی میں منگائی گئیں۔ ہم کسی ایک چینل کی بات نہیں کریں تو بھی اکثروبیشتر دیکھا ہے ہم نے کہ ایسے موقعوں پر اینکر پوری طرح غیرجانبدار نہیں رہ پاتے۔ سی بی آئی کا سیاسی استعمال ہورہا ہے کہ نہیں، یہ ایک بحث طلب موضوع ہے، جس پر بحث ضرور ہونی چاہےے… اور اس دائرے کو اس قدر وسیع کردینا چاہےے کہ کب کب کس کس سرکار نے کن کن معاملات میں سی بی آئی کا ناجائز استعمال کیا اور پھر ان سب کو منظرعام پر لایا جانا چاہےے، لیکن آج اگر سوال یہ ہوتا کہ امت شاہ کی گرفتاری کو ایک جشن کی شکل دی جانی چاہےے یا نہیں اور اسے جشن کی شکل دینے والے ایک ملزم کا فاتحانہ انداز میں جیل جانا آخر کس ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے تو بات کچھ اور ہوتی، لیکن نہیں، شاید ایسے موضوعات بحث کے لائق نہیں سمجھے جائیں گے۔ اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ امت شاہ اس وقت تک مجرم قرار نہیں دئے جاسکتے، جب تک کہ ان کا جرم ثابت نہ ہوجائے تو پھر یہ صرف امت شاہ کے ساتھ ہی کیوں، دیگر سیکڑوں، ہزاروں ملزم بھی تو اس وقت تک مجرم قرار نہیں دئے جاسکتے، جب تک کہ ان کا جرم ثابت نہ ہوجائے۔ ہم نے کتنی بار، کتنے لوگوں کا ایسا پرمسرت جلوس دیکھا ہے، جن پر قتل یا دہشت گردی کا الزام ہو۔ میں نے یہاں قتل اور دہشت گردی کو ایک ساتھ اس لےے لکھا کہ جب اس انداز میں قتل کی وارداتیں عمل میں آتی ہیں، انہیں دہشت گردی سے کس حد تک الگ رکھا جاسکتا ہے۔ یہ کوئی زمین جائیداد کا معاملہ نہیں تھا، یہ کوئی روپے پیسے کے لین دین یا خاندانی دشمنی نہیں تھی، لیکن اس جشن کا فاتحانہ انداز ظاہر یہی کرتا ہے کہ بات امت شاہ کی ہو یا نریندرمودی کی یا کچھ اور پیچھے جاکر دیکھےں تو ناتھورام گوڈسے کی ایک مخصوص ذہنیت رکھنے والے لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر سیکولرزم، فرقہ وارانہ ہم آہنگی قانون کا قتل کرنا اپنے لےے شان کی بات سمجھتے رہے ہیں۔ اس وقت بھی جب ناتھورام گوڈسے نے مہاتماگاندھی کا قتل کیاتھا، بعض علاقوں میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں، ناتھورام گوڈسے کو چھڑانے کی حتی الامکان کوششیں کی جاتی رہیں، حتیٰ کہ بڑے گھروں کی عورتوں نے اس کے لےے سوئٹر بن کر بھیجے۔ یہ سب مثالیں ہیں، اس ذہنیت کو سمجھنے کی اور اسے سمجھنے کی بے پناہ ضرورت ہے، اس لےے کہ ہمارا ملک ساری دنیا میں اپنے امن و اتحاد اور گنگاجمنی تہذیب کے لےے ہی جانا جاتا ہے۔ آج ایسے لوگ اپنے سیاسی مقاصد کے پیش نظر نہ صرف ان روایتوں کا خون کررہے ہیں، بلکہ ملک کو فرقہ پرستی اور دہشت گردی کی آگ میں بھی جھونک رہے ہیں۔
شہیدہیمنت کرکرے کا قتل 26/11کو ہوئے دہشت گردانہ حملہ کا ایک حصہ تھا یا کچھ اور…؟ جیسے جیسے وقت گزرے گا، یہ حقیقت بھی منظرعام پر آہی جائے گی، لیکن آج جن مناظر کا ذکر کرتے ہوئے میں نے اپنے مضمون کی شروعات کی، اس سے بہت الگ شہید ہیمنت کرکرے کے قتل کے بعد کا ماحول بھی نہیں تھا۔ ایسی تمام رپورٹس آج بھی محفوظ ہیں، جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جانباز پولیس آفیسر ہیمنت کرکرے کے قتل کی خبر کے بعد نریمن ہاؤس میں خوشیاں منائی گئیں۔ ہم نے اپنے گزشتہ قسط وار مضمون ’’مسلمانان ہند…ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟‘‘ کی 100ویں قسط میں اس واقعہ کی تفصیل کو شامل اشاعت کیا ہے۔ ہمارے قارئین ان واقعات سے بھی بے خبر نہیں ہوں گے، جن میں 26/11کو ہوئے دہشت گردانہ حملہ سے قبل ہیمنت کرکرے کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں۔
مالیگاؤں بم بلاسٹ کی حقیقت بے نقاب ہوگئی تو ملک گیر سطح پر کیا ہنگامہ برپا ہوا، دفاع میں کون کون سے چہرے سامنے آئے، کتنے جلسے جلوس منعقد کےے گئے، سادھوی پرگیہ سنگھ کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی کس قدر کوششیں کی گئیں، بال ٹھاکرے نے پرگیہ سنگھ کی شان میں کس قدر قصیدے پڑھے، مدھیہ پردیش کی وزیراعلیٰ رہیں اومابھارتی نے اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑانے کی پیشکش کی، اس کے بعد جب جب بھی ایسے لوگ جو ایک مخصوص فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں، دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہوئے یا ان کے نام دہشت گردانہ معاملات میں ملوث نظر آئے، اس مخصوص ذہنیت کے لوگوں نے ہنگامہ برپا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر ہم قانون کو، پولیس کواور خفیہ ایجنسیوں کو، سرکاروں کو اسی طرح متاثر کرنے کی کوششیں کرتے رہیں گے تو پھر دہشت گردانہ واقعات میں کمی کیسے آئے گی۔ کیا ہم نے یہ ذہن بنالیا ہے کہ کسی بھی بم دھماکہ کے بعد کسی بھی دہشت گردانہ حملہ کے بعد اگر ایک مخصوص فرقہ کے لوگ گرفتار کےے جائیں گے، جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجے جائیں گے تو خواہ وہ مجرم ہوں یا نہ ہوں،ہم تسلیم کرلیں گے کہ ہاں، یہی دہشت گرد ہوسکتے ہیں، انہیں ہی دہشت گرد ثابت ہونا چاہےے۔ ملک بھر میں ان کے ناموں اور مذہب کی تشہیر ہوگی، ان کے حوالے سے ایک پوری قوم کو بدنام کرنے کا سلسلہ شروع ہوگا۔ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی جانچ اسی سمت میں آگے بڑھے گی کہ وہ مجرم قرار پائیں، اس طرح کا ماحول پیدا کیا جائے گا، اس قدر دھرنے پردشن ہوں گے، اتنی آوازیں اٹھیں گی میڈیا کے لےے لگاتار ایسی ہی خبریں سامنے رکھنا مجبوری بن جائے گی۔ نتیجہ عدالت کی ذہن سازی۔ وہ مجرم ہوں یا نہ ہوں۔ وہی مجرم قرار پائیں اور سزا کے مستحق سمجھیں جائیں۔ یہ ماحول اس درجہ اس ملک پر حاوی ہوگیا ہے کہ جو ایسے ملزموں کی حقیقت جانتے ہیں۔ بھلے ہی وہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں ہلاک کےے گئے عاطف اور ساجد ہی نہ ہوں کہ ان کے حق میں آواز اٹھانے والوں کو دہشت گردوں کا ہمدرد قرار دے کر ان کی حوصلہ شکنی کی جائے گی، انہیں بے عزت کیا جائے گا، بھلے ہی ان میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر جیسی شخصیت کا نام ہی شامل کیوں نہ ہو۔ وجہ جنہیں مجرم ثابت کرنا ہے، وہ مجرم ہوں نہ ہوں، ان کے خلاف ایسا ماحول تیار کیا جاسکے کہ کوئی وکیل ان کا مقدمہ لڑنے کی ہمت نہ کرسکے۔ اگر کربھی لے تو اپنی جان سے ہاتھ دھونے کے لےے بھی تیار رہے۔ ایسے واقعات عمل میں آچکے ہیں۔ممبئی کے ایڈووکیٹ شاہد اعظمی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اور اپنی نوعیت کی یہ تنہا مثال نہیں ہے، ہم اچھی طرح جانتے ہیں لکھنؤ، ہبلی اور دھاراواڑ کے جلسوں میں ہم نے ایسے وکیلوں کی پریشانیوں کی داستان خود اپنے کانوں سے سنی ہے۔ ان کی پریشانیوں کو اپنی نظروں سے دیکھا ہے۔ یعنی ماحول ایسا تیار کیا جاتا ہے کہ نہ تو کوئی ان کا مقدمہ لڑے، نہ کوئی ان کی پیروی کے لےے آگے آئے اور جنہیں بے گناہ قرار دینا ہے، چاہے وہ کتنے بڑے مجرم ہوں آخری فیصلہ آنے سے قبل ان کے فاتحانہ جلوسوں کے ذریعہ ایسا ماحول تیار کیا جائے کہ وہ سزا نہ پاسکیں اور بالفرض محال اگر سزا کے مستحق قرار بھی پائیں تو معاشرے کا ایک بڑا طبقہ ان کی حمایت میں اس طرح کھڑا ہو جیسے انہوں نے کوئی عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔
وزیراعظم کے کھانے کی دعوت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اعلیٰ لیڈران نے شرکت سے انکار کردیا، اس لےے کہ وہ ناراض تھے امت شاہ کے سی بی آئی کے شکنجے میں پھنس جانے سے۔ وہ سی بی آئی کو موردالزام ٹھہرا رہے تھے، کیا بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کا یہ عمل درست قرار دیا جاسکتا ہے؟ یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب بھارتیہ جنتا پارٹی ایسے تمام لوگوں کو کسی بھی قانون سے بالاتر سمجھتی ہے، جو اس کی فکر سے ہم آہنگ ہوتے ہیں، پھر چاہے وہ کتنے ہی بڑے جرم میں ملوث کیوں نہ ہوں۔ یہی کیا تھا لال کرشن اڈوانی نے سادھوی پرگیہ سنگھ کی گرفتاری اور اس کے حلف نامہ کے بعد۔ الیکشن کا دور تھا، لال کرشن اڈوانی مالیگاؤں بم بلاسٹ کی ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا حلف نامہ لےے گھوم رہے تھے۔ وہ وزیرداخلہ سے ملے، وزیراعظم ڈاکٹرمنموہن سنگھ سے ملے، نیشنل سیکوریٹی ایڈوائزر نے ان کے گھر پر حاضری دی، مقصد سادھوی پرگیہ سنگھ بیشک ملزم ہوں، ان کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آیا جائے اور جیل کو ان کے لےے شاہی مہمان خانہ بنادیا جائے۔ ہم نے دیکھی ہےں سادھوی پرگیہ سنگھ کی وہ تصاویر، جب شہید ہیمنت کرکرے نے مالیگاؤں بم بلاسٹ کے بعداسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا تھا۔ کس قدر پریشان حال اور خوفزدہ چہرہ تھا وہ جب پولیس کانسٹبل سادھوی پرگیہ سنگھ کو جیل کی طرف لے کر جارہی تھیں، لیکن شہید ہیمنت کرکرے کے قتل کے بعد پھر ایک اور تصویر ہمارے سامنے تھی، منظراب بھی جیل کے لےے لے جائے جانے کا تھا، مگر اس بار ایک کھلکھلاتا، مسکراتا چہرہ ہمارے سامنے تھا۔ ہم یہ دونوں تصاویر قارئین کے سامنے اپنے اس مضمون کے ساتھ پیش کرنے جارہے ہیں، تاکہ وہ دونوں کا موازنہ کرسکیں، اس لےے کہ یہ تصویریں بہت کچھ بولتی ہیں، سادھوی پرگیہ سنگھ کی ہوں یا امت شاہ کی۔
امت شاہ کے کیس کو سامنے رکھ کر ایک ٹیلی ویژن چینل نے سی بی آئی کے کردار پر مباحثہ کا ایک پروگرام پیش کیا۔ شرکا میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے پرکاش جاوڈیکر اور کانگریس کے موہن پرکاش تھے۔ جب جب موہن پرکاش نے امت شاہ کے جرم اور سی بی آئی کی کارکردگی کو سامنے رکھنے کی کوشش کی، بات کو مکمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ سوال کو محدود رکھا گیا صرف اس بات تک کہ سی بی آئی کا سیاسی استعمال ہورہا ہے یا نہیں۔ ناظرین کی آراء بھی اسی سوال کی روشنی میں منگائی گئیں۔ ہم کسی ایک چینل کی بات نہیں کریں تو بھی اکثروبیشتر دیکھا ہے ہم نے کہ ایسے موقعوں پر اینکر پوری طرح غیرجانبدار نہیں رہ پاتے۔ سی بی آئی کا سیاسی استعمال ہورہا ہے کہ نہیں، یہ ایک بحث طلب موضوع ہے، جس پر بحث ضرور ہونی چاہےے… اور اس دائرے کو اس قدر وسیع کردینا چاہےے کہ کب کب کس کس سرکار نے کن کن معاملات میں سی بی آئی کا ناجائز استعمال کیا اور پھر ان سب کو منظرعام پر لایا جانا چاہےے، لیکن آج اگر سوال یہ ہوتا کہ امت شاہ کی گرفتاری کو ایک جشن کی شکل دی جانی چاہےے یا نہیں اور اسے جشن کی شکل دینے والے ایک ملزم کا فاتحانہ انداز میں جیل جانا آخر کس ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے تو بات کچھ اور ہوتی، لیکن نہیں، شاید ایسے موضوعات بحث کے لائق نہیں سمجھے جائیں گے۔ اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ امت شاہ اس وقت تک مجرم قرار نہیں دئے جاسکتے، جب تک کہ ان کا جرم ثابت نہ ہوجائے تو پھر یہ صرف امت شاہ کے ساتھ ہی کیوں، دیگر سیکڑوں، ہزاروں ملزم بھی تو اس وقت تک مجرم قرار نہیں دئے جاسکتے، جب تک کہ ان کا جرم ثابت نہ ہوجائے۔ ہم نے کتنی بار، کتنے لوگوں کا ایسا پرمسرت جلوس دیکھا ہے، جن پر قتل یا دہشت گردی کا الزام ہو۔ میں نے یہاں قتل اور دہشت گردی کو ایک ساتھ اس لےے لکھا کہ جب اس انداز میں قتل کی وارداتیں عمل میں آتی ہیں، انہیں دہشت گردی سے کس حد تک الگ رکھا جاسکتا ہے۔ یہ کوئی زمین جائیداد کا معاملہ نہیں تھا، یہ کوئی روپے پیسے کے لین دین یا خاندانی دشمنی نہیں تھی، لیکن اس جشن کا فاتحانہ انداز ظاہر یہی کرتا ہے کہ بات امت شاہ کی ہو یا نریندرمودی کی یا کچھ اور پیچھے جاکر دیکھےں تو ناتھورام گوڈسے کی ایک مخصوص ذہنیت رکھنے والے لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر سیکولرزم، فرقہ وارانہ ہم آہنگی قانون کا قتل کرنا اپنے لےے شان کی بات سمجھتے رہے ہیں۔ اس وقت بھی جب ناتھورام گوڈسے نے مہاتماگاندھی کا قتل کیاتھا، بعض علاقوں میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں، ناتھورام گوڈسے کو چھڑانے کی حتی الامکان کوششیں کی جاتی رہیں، حتیٰ کہ بڑے گھروں کی عورتوں نے اس کے لےے سوئٹر بن کر بھیجے۔ یہ سب مثالیں ہیں، اس ذہنیت کو سمجھنے کی اور اسے سمجھنے کی بے پناہ ضرورت ہے، اس لےے کہ ہمارا ملک ساری دنیا میں اپنے امن و اتحاد اور گنگاجمنی تہذیب کے لےے ہی جانا جاتا ہے۔ آج ایسے لوگ اپنے سیاسی مقاصد کے پیش نظر نہ صرف ان روایتوں کا خون کررہے ہیں، بلکہ ملک کو فرقہ پرستی اور دہشت گردی کی آگ میں بھی جھونک رہے ہیں۔
شہیدہیمنت کرکرے کا قتل 26/11کو ہوئے دہشت گردانہ حملہ کا ایک حصہ تھا یا کچھ اور…؟ جیسے جیسے وقت گزرے گا، یہ حقیقت بھی منظرعام پر آہی جائے گی، لیکن آج جن مناظر کا ذکر کرتے ہوئے میں نے اپنے مضمون کی شروعات کی، اس سے بہت الگ شہید ہیمنت کرکرے کے قتل کے بعد کا ماحول بھی نہیں تھا۔ ایسی تمام رپورٹس آج بھی محفوظ ہیں، جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جانباز پولیس آفیسر ہیمنت کرکرے کے قتل کی خبر کے بعد نریمن ہاؤس میں خوشیاں منائی گئیں۔ ہم نے اپنے گزشتہ قسط وار مضمون ’’مسلمانان ہند…ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟‘‘ کی 100ویں قسط میں اس واقعہ کی تفصیل کو شامل اشاعت کیا ہے۔ ہمارے قارئین ان واقعات سے بھی بے خبر نہیں ہوں گے، جن میں 26/11کو ہوئے دہشت گردانہ حملہ سے قبل ہیمنت کرکرے کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں۔
مالیگاؤں بم بلاسٹ کی حقیقت بے نقاب ہوگئی تو ملک گیر سطح پر کیا ہنگامہ برپا ہوا، دفاع میں کون کون سے چہرے سامنے آئے، کتنے جلسے جلوس منعقد کےے گئے، سادھوی پرگیہ سنگھ کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی کس قدر کوششیں کی گئیں، بال ٹھاکرے نے پرگیہ سنگھ کی شان میں کس قدر قصیدے پڑھے، مدھیہ پردیش کی وزیراعلیٰ رہیں اومابھارتی نے اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑانے کی پیشکش کی، اس کے بعد جب جب بھی ایسے لوگ جو ایک مخصوص فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں، دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہوئے یا ان کے نام دہشت گردانہ معاملات میں ملوث نظر آئے، اس مخصوص ذہنیت کے لوگوں نے ہنگامہ برپا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر ہم قانون کو، پولیس کواور خفیہ ایجنسیوں کو، سرکاروں کو اسی طرح متاثر کرنے کی کوششیں کرتے رہیں گے تو پھر دہشت گردانہ واقعات میں کمی کیسے آئے گی۔ کیا ہم نے یہ ذہن بنالیا ہے کہ کسی بھی بم دھماکہ کے بعد کسی بھی دہشت گردانہ حملہ کے بعد اگر ایک مخصوص فرقہ کے لوگ گرفتار کےے جائیں گے، جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجے جائیں گے تو خواہ وہ مجرم ہوں یا نہ ہوں،ہم تسلیم کرلیں گے کہ ہاں، یہی دہشت گرد ہوسکتے ہیں، انہیں ہی دہشت گرد ثابت ہونا چاہےے۔ ملک بھر میں ان کے ناموں اور مذہب کی تشہیر ہوگی، ان کے حوالے سے ایک پوری قوم کو بدنام کرنے کا سلسلہ شروع ہوگا۔ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی جانچ اسی سمت میں آگے بڑھے گی کہ وہ مجرم قرار پائیں، اس طرح کا ماحول پیدا کیا جائے گا، اس قدر دھرنے پردشن ہوں گے، اتنی آوازیں اٹھیں گی میڈیا کے لےے لگاتار ایسی ہی خبریں سامنے رکھنا مجبوری بن جائے گی۔ نتیجہ عدالت کی ذہن سازی۔ وہ مجرم ہوں یا نہ ہوں۔ وہی مجرم قرار پائیں اور سزا کے مستحق سمجھیں جائیں۔ یہ ماحول اس درجہ اس ملک پر حاوی ہوگیا ہے کہ جو ایسے ملزموں کی حقیقت جانتے ہیں۔ بھلے ہی وہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں ہلاک کےے گئے عاطف اور ساجد ہی نہ ہوں کہ ان کے حق میں آواز اٹھانے والوں کو دہشت گردوں کا ہمدرد قرار دے کر ان کی حوصلہ شکنی کی جائے گی، انہیں بے عزت کیا جائے گا، بھلے ہی ان میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر جیسی شخصیت کا نام ہی شامل کیوں نہ ہو۔ وجہ جنہیں مجرم ثابت کرنا ہے، وہ مجرم ہوں نہ ہوں، ان کے خلاف ایسا ماحول تیار کیا جاسکے کہ کوئی وکیل ان کا مقدمہ لڑنے کی ہمت نہ کرسکے۔ اگر کربھی لے تو اپنی جان سے ہاتھ دھونے کے لےے بھی تیار رہے۔ ایسے واقعات عمل میں آچکے ہیں۔ممبئی کے ایڈووکیٹ شاہد اعظمی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اور اپنی نوعیت کی یہ تنہا مثال نہیں ہے، ہم اچھی طرح جانتے ہیں لکھنؤ، ہبلی اور دھاراواڑ کے جلسوں میں ہم نے ایسے وکیلوں کی پریشانیوں کی داستان خود اپنے کانوں سے سنی ہے۔ ان کی پریشانیوں کو اپنی نظروں سے دیکھا ہے۔ یعنی ماحول ایسا تیار کیا جاتا ہے کہ نہ تو کوئی ان کا مقدمہ لڑے، نہ کوئی ان کی پیروی کے لےے آگے آئے اور جنہیں بے گناہ قرار دینا ہے، چاہے وہ کتنے بڑے مجرم ہوں آخری فیصلہ آنے سے قبل ان کے فاتحانہ جلوسوں کے ذریعہ ایسا ماحول تیار کیا جائے کہ وہ سزا نہ پاسکیں اور بالفرض محال اگر سزا کے مستحق قرار بھی پائیں تو معاشرے کا ایک بڑا طبقہ ان کی حمایت میں اس طرح کھڑا ہو جیسے انہوں نے کوئی عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔
1 comment:
جزاکاللہ خیر
Post a Comment