Saturday, July 24, 2010

دہشت گردی سے بھی زیادہ خطرناک ہے یہ ذہن سازی

عزیز برنی

نہیں ہم اس بات سے خوش نہیں ہیں کہ ہندو دہشت گردی کا چہرہ بے نقاب ہورہا ہے۔ ہندو بھائیوں کو ہم اپنے سے الگ نہیں سمجھتے۔ ہم الگ تھے بھی نہیں اور ہیں بھی نہیں۔ اس ملک کو غلامی کے شکنجے سے آزاد کرانے کی جنگ ہم نے کاندھے سے کاندھا ملا کر لڑی تھی۔ ہاں، کچھ لوگ تو انگریزوں کی غلامی کے پروانے پر دستخط کرنے والے اس وقت بھی تھے۔ آخر میرجعفر اور جے چند کس دور میں نہیں ہوتے، آج بھی ہیں تو حیرانی کیا اور ایسے غداروطن، کسی بھی مذہب اور کسی بھی قوم میں ہوسکتے ہیں۔ یہی بات دہشت گردی کے معاملے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ ہمارے نزدیک دہشت گردی صرف دہشت گردی ہے، خواہ اس کا کسی بھی مذہب کے لوگوں سے تعلق ہو۔ دراصل مذہب تو کوئی بھی دہشت گردی کی ترغیب نہیں دیتا، مگرکسی بھی مذہب کے ماننے والے دہشت گرد ہوسکتے ہیں۔ ہاں، اگر دہشت گردی کے اس چہرے میں کوئی بات قابل ذکر ہے تو وہ یہ کہ اب تک جو مسلمانوں کا دہشت گردی سے رشتہ جوڑتے رہے تھے، اسلام کو دہشت گردی کی ترغیب دینے والا مذہب قرار دیتے رہے تھے، قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دے کر اپنی مرضی کے مطابق اس کی تشریح کرتے رہے تھے، شاید اب انہیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کے لےے مجبور ہونا ہوگا۔ ہمیں یہ امید تو اب بھی نہیں ہے کہ ان کی زبانیں خاموش ہوجائیں گی، ان کا اندازفکر بدل جائے گا، وہ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرلیں گے، اپنے گناہوں کااعتراف کرلیں گے اور اب صحیح معنوں میں حب الوطنی کا ثبوت دیں گے۔ نہیں، جو اس ملک کو اپنا ملک ہی نہیں مانتے، ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے پر آمادہ ہیں، یہ بات سی بی آئی کی تفتیش میں آن ریکارڈ سارے ملک کے سامنے ہے، جسے انگریزی ٹی وی چینل’’ہیڈلائنس ٹوڈے‘‘ اور روزنامہ ’’میل ٹوڈے‘‘ کے حوالہ سے، ہم نے بھی شامل اشاعت کیا، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اب تک جن کی وطن سے محبت پر وہ سوالیہ نشان لگاتے رہے، آج خود ان کی حقیقت منظرعام پر آگئی ہے کہ دراصل انگلیاں اٹھانے والوں کو ہی اس ملک سے محبت نہیں ہے۔
ہمارا ملک گزشتہ چند برسوں سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ یوں تو فرقہ وارانہ فسادات اور دہشت گردانہ حملوں کی تاریخ بہت پرانی ہے، مگر ہم گزشتہ چند برسوں کا ذکر اس لےے کررہے ہیں کہ شہید ہیمنت کرکرے نے اپنی تفتیش کے دوران جن دہشت گردوں کے چہرے بے نقاب کئے، پھر ان کے بعد لگاتار متعدد بم دھماکوں کی تفتیش میں ایسے ہی چہرے سامنے آنے لگے۔ ہمیں اس وقت بھی افسوس ہوتا تھا، جب مفتی ابوالبشر جیسے شخص کو دہشت گرد بتاکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جاتا تھا، ہمیں اس وقت بھی بیحد افسوس ہوتا تھا، جب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے عاطف اور ساجد کو دہشت گرد بتاکر انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا جاتا تھا، ہمیں اس وقت بھی افسوس ہوا، جب عشرت جہاں کو دہشت گرد بتاکر مار ڈالا گیا، پھر سچ سامنے آیا کہ یہ انکاؤنٹر فرضی تھا، مگر اس وقت ہماری حیرانی کی انتہا نہیں رہی، جب ہندوستان پر سب سے بڑے دہشت گردانہ حملہ یعنی 26/11کی تفتیش کے سلسلہ میں ہمارے اعلیٰ افسران ڈیوڈکولمین ہیڈلی سے کچھ راز اگلوانے کے لےے امریکہ پہنچے اور واپس آنے کے بعد ان کے حوالے سے خبریں آئیں کہ عشرت جہاں لشکرطیبہ کی خودکش بمبار تھی اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہوئی کہ ہمارے وزیرداخلہ نے اس بیان کو سنجیدگی سے لیا۔ تفتیش کرنے گئے افسران سے کسی نے یہ جواب طلب نہیں کیا کہ آپ ممبئی میں ہوئے اس دہشت گردانہ حملہ کے بارے میں ایک ملزم سے جو اپنے گناہوں کا اعتراف کرچکا ہے، معلومات حاصل کرنے گئے تھے یا عشرت جہاں کے کیس کو ڈسکس کرنے کے لےے گئے تھے یا عشرت جہاں کے انکاؤنٹر پر اس کے دہشت گرد ہونے یا نہ ہونے پر ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کی رائے لینے گئے تھے۔ کیا آپ کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی سے پوچھ گچھ کے بہانے نریندرمودی اور سرکار کا دفاع کس کس طرح کرسکتے ہیں؟ ہم نے ان واقعات کا ذکر صرف اس لےے کیا ، کیوں کہ ہم اس ذہنیت کو سامنے رکھنا چاہتے تھے، جنہیں ان فرقہ پرست طاقتوں نے اس مقام پر پہنچادیا ہے کہ انہیں اتنا بھی اندازہ نہیں کہ ملک پر ہوئے اتنے خوفناک دہشت گردانہ حملہ کا سچ سامنے آنا کتنا ضروری ہے، بمقابلے اس بات کے کہ عشرت جہاں کے انکاؤنٹر پر نریندر مودی کا موقف صحیح ثابت ہوجائے۔
دہشت گرد ہندو ہیں یا مسلمان، اس وقت ہمارے لےے فکر کا موضوع یہ نہیں ہے، اس وقت ہمارے لےے زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ معاشرے کے اس اعلیٰ طبقہ کا مزاج بدلنے میں ان فرقہ پرست، تنگ نظر طاقتوں نے کامیابی حاصل کرلی ہے، جن سے ہم ملک کی تعمیر کی امید کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ جب کوئی جاہل گنوار یا معمولی پڑھا لکھا دہشت گرد ی کے واقعات میں ملوث نظر آتا ہے، تب یہ سوچ لیا جاتا ہے کہ حالات سے مجبور ہونے کی بنا پر یا اپنی جہالت کی بنیاد پر اسے گمراہ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی گئی۔ جب مسلمانوں کو دہشت گردی سے وابستہ ثابت کیا گیا تو وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ بابری مسجد سانحہ کا بدلہ لینے کے لےے دہشت گرد بن گئے ہیں۔ گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کا بدلہ لینے کے لےے دہشت گرد بن گئے ہیں۔ ایسا ہے یا نہیں، یہ بھی تفتیش کے بعد ہی سامنے آئے گا، ہم سب کو آج جس سوال پر سب سے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ ہمارا وہ ہندو طبقہ جو معاشرے میں اعلیٰ مقام رکھتا ہے، جسے تمام طرح کی سرکاری مراعات حاصل ہیں، جس کے لےے ہندوستان میں ہر طرح کی سہولتیں مہیا ہیں، وہ سرکار کا حصہ ہے، سرکار چلا رہا ہے، ملک کا نظام دیکھ رہا ہے، سرحد پر ہے تو ملک کی ذمہ داریاں اس کے پاس ہیں۔ اگر وہ کسی اسکول یا یونیورسٹی میں اعلیٰ مقام رکھتا ہے تو ملک کی آنے والی نسلوں کو اپنے ذریعہ دی گئی تعلیم و تربیت سے ایک بہترین شہری بناکر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے۔ اگر وہ کسی اسپتال میں ڈاکٹر ہے، تب بھی ایک عمدہ قابل احترام پیشہ سے منسلک ہے۔ تمام طرح کی سہولتیں انہیں مہیا ہیں، اگر ان جیسے لوگ دہشت گردی کو فروغ دینے لگیں، دہشت گردی کا حصہ بن جائیں، اسپتال میں استعمال ہونے والی دواؤں کا استعمال انسانوں کو نئی زندگی بخشنے کے لےے نہیں، ان کی جان لینے کے لےے کرنے لگےں، ہمارے وہ اساتذہ جو علم کی روشنی ہر گھر تک پہنچانے کے لےے اس ذمہ داری پرمامور کےے گئے ہیں، وہاں وہ ان لیباریٹریز میں بچوں کو سائنٹسٹ بنانے کی بجائے بم کس طرح بنائے جاتے ہیں، سکھانے لگےں اور اپنے ہی ملک میں اپنے ملک کے شہریوں کی جان لینے کے لےے آمادہ کرنے لگیں تو ہمیں سوچنا ہوگاکہ اب یہ معاملہ صرف دہشت گردی کا نہیں ہے، یہ معاملہ کسی ظلم یاناانصافی کا بدلہ لینے کا نہیں ہے، یہ معاملہ جہالت، لاعلمی یا کسی کے بہکاوے میں آجانے کا نہیں ہے، بلکہ یہ ملک دشمن عناصر کی ایک ایسی خطرناک سازش ہے، جس کا زہر ہمارے ملک کے ذمہ داروں کی رگوں میں سرایت کرگیا ہے۔ اب انتہا یہ ہوگئی ہے کہ ہماری فوج کے وہ افسران، جن پر ملک کی نگہبانی کی ذمہ داری چھوڑ کر ہم بے فکر ہوجاتے ہیں، وہ آج اس اسلحہ کا استعمال جو دشمن کی فوج کے لےے کیا جانا چاہےے، اپنے ہی لوگوں کی جان لینے کے لےے کرنے لگے ہیں اور مقصد صرف اتنا کہ اس قتل و غارت گری کا الزام ان کے سر چلا جائے، جنہیں وہ بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی ملک و قوم کی تباہی کی کوئی فکر نہیں، وہ چاہتے ہیں بس اتنا کہ جنہیں وہ ذلیل و خوار کرنا چاہتے ہیں، جنہیں بے عزت و بدنام کرنا چاہتے ہیں، کسی طرح انہیں مجرم ثابت کردیا جائے، وہ بدنام ہوجائیں۔ اب تک یہی ہوتا رہا ہے، مگر سچ سات پردوں میں بھی چھپایا جائے، آخر وہ ایک دن سامنے آتا ہی ہے۔ ہم نے بارہا یہ بات کہی ہے کہ ملک کی تقسیم صرف اس لےے عمل میں آئی تھی کہ مسلمان کی طاقت کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے، انہیں کمزور کردیا جائے اور ان پر ملک کی تقسیم کی ذمہ داری عائد کردی جائے۔ یہی ہوا بھی۔ مسلمان موردالزام ٹھہرائے گئے، انہیں بار بار کہا گیا کہ تمہیں تمہارا حصہ مل چکا ہے، تم یہاں کیوں ہو، نتیجہ ملک فرقہ پرستی کا شکار ہوا۔ گزشتہ 60برسوں سے ہم اس فرقہ پرستی کا خمیازہ بھگتتے چلے آرہے ہیں اور اب دہشت گردی کا ناگ ہمارے ملک اور قوم کو ڈس رہا ہے۔ ذہنیت وہی ہے، حکمت عملی وہی ہے، پہلے بھی مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہتے تھے، تب ملک کو دو ٹکڑوں میں بانٹنے کا الزام لگا کر اور اب بھی مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہتے ہیں، مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگاکر۔ ہم اس وقت کسی الزام کی صفائی دینا نہیں چاہتے۔ ہم کہنا صرف یہ چاہتے ہیں کہ اگر چند ہندو بھی دہشت گرد ہوتے تو بات اس قدر سنجیدہ نہیں تھی، مگر جو ذہنیت بنائی جارہی ہیں، وہ چند لوگوں کو دہشت گرد بنانے کی حد تک محدود نہیں ہے۔ اپنے بیان میں جو ’’ہیڈلائنس ٹوڈے‘‘ کے ذریعہ منظرعام پر لایا گیا ایک سنگھ پریوار کے رکن ڈاکٹر آر پی سنگھ کا قبول کرنا کہ 100 خودکش بمبار تو وہ صرف جموں سے ہی دے سکتا ہے، اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ کتنی بڑی تعداد میں اور کتنے منظم انداز میں دہشت گردی کے ذریعہ ملک کو تباہ کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جارہا ہے۔
ہمیں افسوس ہے کہ ان تمام سچائیوں کے سامنے آنے کے باوجود بھی ہم اس طرح متحرک نہیں ہیں، جس طرح کہ ہونا چاہےے۔ آج بھی بال ٹھاکرے جیسے لوگ کھلے عام یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہندو دہشت گرد ہوں، ہندو خودکش بمباردستے پیدا کریں اور ہم ان باتوں کو سن کر بھی درگزر کردیتے ہیں۔ یہ جملے ہمارے وزیرداخلہ کے کانوں تک پہنچے نہیں یا ان کا قانون اس قدر کمزور ہے کہ صرف کمزور لوگوںکو ہی دہشت گرد ثابت کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ بال ٹھاکرے جیسے قدآور لوگوں کے ان جملوں کو دہشت گردی کے زمرے میں لانے کا حوصلہ ابھی ان کے قانون میں نہیں ہے۔ میں چاہتا تھا کہ آج سنیل جوشی کا قتل کس طرح کیا گیا یا سنیل جوشی کون تھا، اسے کیوں مار دیا گیا یا اگر وہ زندہ رہتا تو کون سے راز سامنے آسکتے تھے، آپ کے سامنے رکھ دوں تاکہ آپ یہ سوچنے کے لےے بھی اپنے دل و دماغ کو آمادہ کرسکیں کہ شہیدہیمنت کرکرے اگر زندہ ہوتے تو اور کون کون سے چہرے بے نقاب ہوسکتے تھے اورکون کون سے دہشت گردانہ واقعات کی حقیقت ہمارے سامنے آسکتی تھی۔ ہاں یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ یہ سنیل جوشی تو ان کا اپنا تھا، ان کا اپنا تربیت یافتہ جبکہ ہیمنت کرکرے سے ان کا ایسا رشتہ نہیں تھا، جیسا کہ سنیل جوشی سے، لیکن یہ سب آج نہیں تین روز بعد یعنی منگل کو حیدرآباد اور محبوب نگر(آندھراپردیش) کے دورے سے واپسی کے بعد

No comments: