Wednesday, June 30, 2010

فوج مسئلہ ہے کشمیر کا حل نہیں…

عزیز برنی

کولکاتہ پریسڈینسی جیل میں بند عبداللہ کی داستان کا ایک بڑا حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاچکا ہے۔ وقت اور حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم اس داستان کو آگے بڑھائیں، اس لےے کہ کشمیر کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جارہے ہیں، لہٰذا ہم اس سلسلہ کو یہیں روکتے ہیں۔ اتنی روداد منظرعام پر لانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اگر وہ سب کچھ جو عبداللہ نے لکھا، صحیح ہے تو جس طرح تہاڑ جیل سے معارف اور ارشد نے اپنی داستان لکھ کر ہمیں بھیجی، ہم نے اسے شامل اشاعت کیا، پھر انہیں رہائی نصیب ہوئی، ایسا ہی کچھ کانپور سے تعلق رکھنے واصف حیدر وغیرہ کے معاملہ میں ہوا۔ ہمیں خوشی ہوگی کہ اگر یہی سچ ہے تو اسے بھی انصاف ملے۔
لیکن اب کشمیر کے حالات کی طرف واپس لوٹنا بیحد ضروری لگتا ہے۔ حال ہی میں کشمیر کے دورہ سے واپس لوٹے سنگھ پریوار کے رکن ترون وجئے نے جس طرح سی آر پی ایف کے جوانوں کے حالات کا تذکرہ کیا ہے اور کشمیریوں کے حوالہ سے اپنے نظریات کا اظہار کیا ہے، اسے پڑھ کر بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید یہی وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے کشمیر کے حالات معمول پر نہیں آپاتے۔ بیشک ہماری تمام ہمدردیاں اور محبتیں اپنی فوج اور پولس کے ساتھ ہونی چاہئیں، مگر ہم اپنے ملک کے عوام کی طرف سے بھی بے توجہی اختیار نہیں کرسکتے، ان کے افسوسناک حالات کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ ہمیں اپنی فکر کے اس دوہرے معیار کو بدلنا ہوگا۔ جب نکسلائٹس ہماری پولس اور فوج پر حملہ آور ہوتے ہیں، ان کی جان تک لے لیتے ہیں تو ہمارا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ ان سے بات کی جائے، ان کی مہم کا مقصد کیا ہے اس کو سمجھا جائے اور جب کشمیر کا معاملہ ہوتا ہے تو ہمارا اندازفکر مختلف ہوتا ہے۔ ہم دونوں کی ہی تائید نہیں کرتے، کشمیر میں اگر پولس اور سی آر پی ایف کے جوانوں کو نشانہ بناکر حملہ کیا جاتا ہے تو یہ قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔ اسی طرح نکسلائٹس جو ہماری پولس اور فوج پر حملہ کرتے ہیں، وہ بھی قابل مذمت ہے، مگر اس فرق کو یوں بھی سمجھنا ہوگا کہ کشمیر میں جو ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے، اس میں پولس اور فوج کی اپنی کارکردگی کیا قابل ستائش ہے؟ ہم نے جس طرح ہر دروازہ پر پولس تعینات کردی ہے، کیا یہ قابل ستائش ہے؟ ہم جس طرح مظاہرہ کرنے والوں کی آواز کو دبا دینا چاہتے ہیں، پولس کی گولی کا معصوم بچے شکار ہوتے ہیں، کیا یہ قابل ستائش ہے؟ اور جب جن کی گولیوں سے یہ بچے ہلاک ہوتے ہیں، ان کے خلاف مظاہرہ کرکے اپنی بات کہنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ان سے یہ حق بھی چھین لیا جاتا ہے، کیا یہ قابل ستائش ہے؟ آج کشمیر کے حالات کے لےے کون ذمہ دار ہے، کیا یہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے؟ ہمیں اس بات کا بھی انتہائی افسوس ہے کہ جموںوکشمیر کے وزیراعلیٰ حالات کو قابو میں رکھنے کے لےے مرکز سے مزید فوج کا مطالبہ کررہے ہیں۔ کیا انہوں نے ایک بار بھی یہ سوچا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ کشمیر میں فوج کی تعیناتی ہی سب سے بڑا مسئلہ ہو۔ انہیں کیوں یہ یاد نہیں رہا کہ ان کے دادا شیخ محمد عبداللہ وادی کے سب سے پسندیدہ اور مقبول لیڈر تھے۔ آج ان کے اس نوجوان چہرے میں کشمیر کا عوام ان سے یہی امید کررہا تھا کہ مرکزی حکومت سے ان کے بہتر رشتے ہیں، جس کا فائدہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی شکل میں مل سکتا ہے۔ شاید انہیں اپنی بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے تاریخ کے دامن میں جھانکنے کا ایک قدر موقع نہ ملا ہو کہ انہوں نے اگست947کے بعد سے آج تک کے حالات کو سمجھ لیا ہو اور مرکزی حکومت سے کشمیر کے ماضی، حال اور مستقبل کو سامنے رکھ کر بات چیت کرنے کا فیصلہ کرلیا ہو۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر اب ہمارے لےے اوّلیت پر ہے۔ ہم موجودہ حالات کو سامنے رکھ کر بھی تمام حقائق پیش کرتے رہےں گے اور ہم حال ہی کے پرتشدد واقعات میں ہلاک ہونے والے اشفاق احمد کھانڈے15)، امتیاز احمد17)اور شجاعت الاسلام19) پر بھی وزیراعلیٰ کی توجہ دلانا چاہیں گے کہ ان کم عمر بچوں کے ساتھ جو سلوک ہوا، کیا وہ حق بجانب تھایا پھر ان کی موت کو حادثہ نہ مانتے ہوئے اسے قتل کی واردات تسلیم کیا جائے؟ اور جو بھی اس کے لےے ذمہ دار ہیں، ان سے بازپرس کی جائے۔ اگر ہم اسی طرح ہر حادثہ کے بعد ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے، جو ان حالات کے لےے ذمہ دار ہیں اور مزید فوج کی تعیناتی کرتے رہیں گے، وادئ کشمیر کو ایک ایسی جیل کی شکل دے دیں گے، جس میں رہنے والوں کو اتنی سہولتیں بھی مہیا نہ ہوں، جتنی کہ عام قیدیوں کو قید میں رہنے پر ہوتی ہیں تو کیا ہم امید کرسکتے ہیں کہ یہ وہ راستہ ہے، جس پر چل کر ہم کشمیر کے پرامن حل کی امید کرسکتے ہیں۔ باوجود اس تمام خونریزی کے ہم نکسلائٹس کے جذبات کو سمجھنا چاہتے ہیں، ان سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں، مسئلہ کا پرامن حل تلاش کرنا چاہتے ہیں، یہ ایک مثبت سوچ ہے۔ مگر یہ سوچ صرف نکسلائٹس تک محدود نہ رہے، بلکہ ہمیں اسی سوچ کا مظاہرہ کشمیر اور کشمیریوں کے حوالے سے بھی کرنا چاہےے۔ میں عنقریب 11جون کو طفیل کی ہلاکت کے بعد سے 29جون کو ہلاک ہونے والے اشفاق احمد کھانڈے15)، امتیاز احمد17)اور شجاعت الاسلام19)اور وادی میں ان سب کے قتل کو لے کر پیدا ہوئے حالات پر ایک مفصل رپورٹ وزیراعلیٰ جموںوکشمیر اور حکومت ہند کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، مگر ساتھ ہی میں یہ بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ تاریخ کے دامن میں جھانکنے کا جو سلسلہ ہم نے شروع کیا ہے، اس کو بھی ذہن میں رکھا جائے۔ اگر ہم ماضی کو نظرانداز کریں گے تو نہ حال کے واقعات کو سمجھ پائیں گے اور نہ مستقبل کی بہتری کے لےے کچھ فیصلے لے پائیں گے۔ لہٰذا اسی کوشش کے پیش نظر میں قارئین اور حکومت ہند کی خدمت میں پیش کررہا ہوں شیخ محمدعبداللہ کی وہ تاریخی تقریر جو انہوں نے 11اگست952کو کونسٹیونٹ اسمبلی(آئین سازاسمبلی) میں کی۔
ملاحظہ فرمائیں شیخ محمد عبداللّٰہ کا تاریخی خطاب :
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اقتدار کے لیے ہماری جدوجہد اس آئین ساز اسمبلی کے انعقاد کے ذریعہ کامیابی کے ساتھ اپنے نقطہ عروج (Climax) پر پہنچ گئی ہے۔ یہ آپ کے لیے ہے کہ نئے کشمیر کو حقیقت میں تبدیل کریں اور میں اس کے ابتدائی الفاظ کو یاد دلانا چاہوں گا، جو ہمارے جذبات کو متحرک کریں گے۔
’’ ہم جموں و کشمیر، لداخ اور سرحدی علاقوں کے لوگ بشمول پونچھ اور چینانی علاقہ جو عام طورسے جموں و کشمیر ریاست کے طورپر جانی جاتی ہے، اپنی یونین کو مکمل طورپر برابری اور خود تعین کرنے کے عمل سے آراستہ کرنے اور ہم خود اور اپنے بچوں کو ہمیشہ کے لیے ظلم کے غار، غریبی، ذلت اور توہم پرستی، قرون وسطیٰ کے اندھیرے اور لاعلمی سے سورج کی روشنی سے بھری پری گھاٹی کی جانب، جہاں آزادی، سائنس اور دیانت داری کی حکومت ہو، جہاں مشرق کے عوام کی تاریخی حیات نو اور پوری دنیا کے کام کرنے والے عوام کی قابل قدر شراکت ہو اور ایشیا کی اس سرزمین کو برف کے سینے پر ایک گوہر کی مانند چمکانے کا پختہ یقین ہو، ہم اپنی ریاست کے مندرجہ ذیل آئین کی تجویز کو غور کرنے کے لیے پیش کرتے ہیں۔
یہ سری نگر نیشنل کانفرنس کے 1944میں ہوئے سیشن میں قبول کیا گیا تھا۔ آج 1951میں اس آئین ساز اسمبلی میں ریاست کے چاروں جانب سے شامل مرد اور عورتیں اور ان کی شامل تمناؤں نے خود مختار اتھارٹی کا مخزن بنادیا ہے۔ اس اسمبلی کو آئین ساز مجلس کی اتھارٹی سے آراستہ کیا گیا ہے اور یہ ریاست کے تمام شہریوں کے جمہوری حق، انصاف پسند سماجی ضابطے اور تحفظات کے بنیادی قوانین کے قیام کے لیے ضروری بنیاد کا سرچشمہ ہوگا۔
آپ ریاست جموں و کشمیر میں خود مختار اتھارٹی ہیں، آپ جو طے کریں گے اسے ناقابل تنسیخ قانون کی طاقت حاصل ہوگی۔ کسی ملک کے لئے بنیادی جمہوری اصول امریکی اور فرانسیسی آئین میں اچھی طرح شامل کیے گئے ہیں اور ایک بار پھر ہمارے درمیان اس کو نئی شکل دی گئی ہے۔ میں 1791کے فرانسیسی آئین کے آرٹیکل 3کے مشہور الفاظ دوہرانا چاہوں گا۔
’’بنیادی طورپر سبھی طرح کی خود مختاری کا منبع ملک ہوتا ہے… خود مختاری ناقابل تقسیم، ناقابل انتقال اور وقت کے ساتھ ختم نہیں (Impreseriptale) ہوتی ہے۔‘‘
ہمیں یہ طاقت کس طرح کی ذمہ داری دیتی ہے، یہ واضح ہونا چاہیے۔ ہمارے سامنے اعلیٰ قومی مفاد کے فیصلے ہیں جن کو ہمیں قبول کرناہوگا۔ ہمارے ذریعہ لیے گئے فیصلوں کی درستگی کا انحصار نہ صرف ہماری سرزمین اور اس کے لوگوں کی خوشیوں سے ہوگا بلکہ آنے والی نسلوں کی قسمت سے بھی ہوگا۔
تو پھر اس اسمبلی کا قیام کن اہم کاموں کو کرنے کے لیے کیا گیا ہوگا؟ ایک عظیم کام جو اس اسمبلی کے سامنے ہے، وہ یہ کہ مستقبل میں ملک کو چلانے کے لیے آئین سازی کو انجام دینا ہوگا۔ آئین بنانا ایک مشکل اور طویل معاملہ ہے۔ میں آئین کے کچھ خاص پہلوؤں کے بارے میں بتانا چاہوں گا، جو اس اسمبلی کی محنت کانتیجہ ہوگا۔
ملک کے لیے ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہوگا کہ مہاراجا کے خاندان کا مستقبل کیا ہوگا؟ہمیں جلد اور ذہانت سے فیصلہ کرنا ہوگااور اسی فیصلے پر ہماری ریاست کا طرز عمل اور کردار کا انحصار ہوگا۔
تیسرا اہم مسئلہ جو آپ کی توجہ کا انتظار کررہا ہے، وہ ہے لینڈریفارم اس سے جڑے حالات جسے حکومت نے بڑے جوش اور اعتماد کے ساتھ شروع کیا تھا۔
’ہماری زمین کاشت کرنے والے کی‘ پالیسی کاشت کاروں کے اندھیرے مکانوں میں روشنی پھیلارہی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ اس نے زمین مالکان کے معاوضہ کے مطالبہ کا مسئلہ بھی پیدا کیا۔ ملک تمام دولت اور وسائل کا مالک ہوتا ہے اور ملک کے نمائندے اپنے دعوؤں پر صحیح اور آخری فیصلہ دینے والے بہترین منصف ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ کے ہاتھوں میں اس فیصلے کی طاقت ہے۔
آخر میں، یہ اسمبلی ان تین متبادل، جسے میں بعد میں بتاؤں گا، پر غور کرنے کے بعد الحاق پر اپنا حتمی فیصلہ دے گی۔ یہ ہماری توانائی (صلاحیتوں) اور جوش کو ایک سمت دے گی اور جس سمت میں ہم پہلے ہی اپنے ملک کوسماجی اور اقتصادی ترقی دینے کے لیے نکل پڑے ہیں۔
آئین بنانے سے پہلے خصوصی کام کے لیے ہمیں قدرتی طورپر دنیا بھرکے جمہوری آئین کے بہترین اصولوں سے رہنمائی حاصل کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنے کام کو برابری، آزادی اور سماجی انصاف کے اصولوں کی بنیاد پر کرنا ہوگا جو کہ آج تمام ترقی پذیر آئین کا ایک اہم جز بن گیا ہے۔ تمام جمہوری ممالک میں ضروری سمجھا جانے والا قانون کا راج ہمارے سیاسی ڈھانچے کی بنیادی چیز ہونی چاہیے۔ قانونی معاملات میں سب کی برابری اور عدلیہ کا عاملہ کے اثر سے آزاد ہونا ہمارے لیے نہایت اہم ہے۔ بولنے، تحریک اور انجمن کے معاملے میں انفرادی آزادی کی گارنٹی ہونی چاہیے۔ پریس کی آزادی اور آزادی رائے ہمارے آئین کی بھی خصوصیت ہونی چاہیے۔ میں بہت تفصیل سے ان حقوق اور فرائض پر روشنی نہیں ڈالنا چاہتا جو نیو کشمیر میں پہلے سے ہی شامل ہےں، جو کسی بھی جمہوری نظام کا اٹوٹ حصہ ہےں اور جس کی تعریف میں کہا گیا ہےں کہ یہ سماجی تنظیموں کا ایسا سسٹم (ادارہ)ہے، جس میں عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعہ حکومت کرتے ہےں اور اس میں سیاسی اور سول آزادی کی گارنٹی ہوتی ہے۔

फ़ौज समस्या है कश्मीर की समाधान नहीं.......
अज़ीज़ बर्नी

कोलकाता प्रेज़िडेंसी जेल में बंद अब्दुल्ला की दास्तान का एक बड़ा भाग पाठकों की सेवा में प्रस्तुत किया जा चुका है। समय और परिस्तिथियां इस बात की इजाज़त नहीं देते कि हम इस दास्तान को और आगे बढ़ाएं, इसलिए कि कश्मीर की स्थितियां ख़राब से ख़राब तर होती जा रही हैं, अतः इस सिलसिले को हम यहीं रोकते हैं। इतना विवरण जनता के सामने लाने का उद्देश्य भी यही था कि अगर वह सब कुछ जो अब्दुल्ला ने लिखा सही है तो जिस तरह तिहाड़ जेल से मआरिफ़ और अरशद ने अपनी दास्तान लिख कर हमें भेजी हमने उसे प्रकाशित किया फिर उन्हें रिहाई नसीब हुई। ऐसा ही कुछ कानपुर से संबंध रखने वाले वासिफ़ हैदर आदि के मामले में हुआ। हमें ख़ुश होगी कि यदि यही सच है तो उसे भी न्याय मिले।
परन्तु अब कश्मीर की स्थिति की तरफ़ वापस लौटना बेहद आवश्यक लगता है। हाल ही में कश्मीर के दोरे से वापस लौटे संघ परिवार के सदस्य तरुण विजय ने जिस तरह सीआरपीएफ के जवानों के हालात का उल्लेख किया है और कश्मीरियों के हवाले से अपने दृष्टिकोण को प्रकट किया है उसे पढ़कर बार बार यह एहसास होता है कि शायद यही वह सोच है जिसके कारण कश्मीर की स्थितियां सामान्य नहीं हो पातीं। निःसंदेह हमारी तमाम हमदर्दियां और मोहब्बतें अपनी फौज और पुलिस के साथ होनी चाहिएं, मगर हम अपने देश की जनता को भी अनदेखा नहीं कर सकते। उनके अफ़सोसनाक हालात को अनदेखा नहीं कर सकते। हमें अपनी सोच के इस दोहरे स्तर को बदलना होगा। जब नक्सलाइट हमारी पुलिस और फौज पर आक्रमण करते हैं, उनकी जान तक ले लेते हैं तो हमारी प्रतिक्रिया यह होती है कि उनसे बात की जाए, उनकी मुहिम का उद्देश्य क्या उसको समझा जाए, और जब कश्मीर का मामला होता है तो हमारे सोचने का ढंग अलग होता है। हम दोनों का की समर्थन नहीं करते। कश्मीर में अगर पुलिस और सीआरपीएफ के जवानों को निशाना बनाकर हमला किया जाता है तो यह दुख की बात है और आलोचना का विषय है। इसी तरह नक्सलाइट जो हमारी पुलिस और फौज पर हमला करते हैं उनकी भी आलोचना की जानी चाहिए। मगर इस अंतर को यूं भी समझना होगा कि कश्मीर में जो प्रतिक्रिया देखने को मिल रही है उसमें पुलिस और फौज का अपना प्रदर्शन क्या प्रशंसनीय है। हमने जिस तरह हर दरवाज़े पर पुलिस तैनात कर दी है क्या यह प्रशंसनीय है? हम जिस तरह प्रदर्शन करने वालों की आवज़ को दबा देना चाहते हैं, पुलिस की गोली सेे मासूम बच्चे शिकार होते हैं क्या यह प्रशंसनीय है? और जब जिनकी गोलियों से यह बच्चे मरते हैं, उनके विरुद्ध प्रदर्शन करके अपनी बात कहने का प्रयास किया जाता है तो उनसे यह अधिकार भी छीन लिया जाता है, क्या यह प्रशंसनीय है? आज कश्मीर की स्थितियों के लिए कौन ज़िम्मेदार है, क्या यह सोचने की आवश्यकता नहीं है? हमें इस बात का भी बेहद दुख है कि जम्मू व कश्मीर के मुख्यमंत्री स्थिति को नियंत्रण में रखने के लिए केंद्र से और फौज की मांग कर रहे हैं। क्या उन्होंने एक बार भी सोचा कि कहीं ऐसा तो नहीं है कि कहीं कश्मीर में फौज की तैनाती ही सबसे बड़ी समस्या हो। उन्हें क्यों यह याद नहीं रहा कि उनके दादा शेख़ मुहम्मद अब्दुल्ला घाटी के सबसे लोकप्रिय और पसंदीदा नेता थे। आज उनके इस नौजवान चेहरे में कश्मीर का अवाम उनसे यही आशा कर रहा था कि केंद्रिय सरकार से उनके अच्छे संबंध हैं, जिसका लाभ कश्मीर समस्या के शांतिपूर्ण हल के रूप में मिल सकता है। संभवतः उन्हें अपनी बेहद व्यस्तता के कारण इतिहास के दामन में झांकने का इतना अवसर न मिला हो कि उन्होंने अगस्त 1947 के बाद से आजकी स्थितियों को समझा लिया हो और केंद्रीय सरकार से कश्मीर के भूत, वर्तमान और भविष्य को सामने रख कर बातचीत करने का निर्णय कर लिया हो। जैसा कि हम पहले भी निवेदन कर चुके हैं कि कश्मीर समस्या अब हमारे लिए प्राथमिकता पर है। हम मौजूदा परिस्थियों को सामने रख कर भी तमाम तथ्य पेश करते रहेंगे और हम हाल ही की हिंसात्मक घटनाओं में मरने वाले अशफ़ाक़ अहमद खांडे (15), इम्तियाज़ अहमद (17) और शुजाअतुल इस्लाम (19) पर भी मुख्यमंत्री का ध्यान आकर्षित करना चाहेंगे कि उन कम उम्र बच्चों के साथ जो सुलूक हुआ क्या वह ठीक था या फिर उनकी मौत को दुर्घटना न मानते हुए उसे क़त्ल की वारदात स्वीकार कर लिया जाए? और जो भी इसके लिए उत्तरदायी हैं उनसे पूछताछ की जाए। अगर हम इसी तरह हर दुर्घटना के बाद उनका उत्साहवर्धन करते रहेंगे जो इन परिस्थितियों के लिए उत्तारदायी हैं, और अधिक फौज की तैनाती करते रहेंगे, कश्मीर घाटी को एक ऐसी जेल का रूप दे देंगे जिसमें रहने वालों को इतनी सहूलतें भी मुहैया न हों जितनी कि आम क़ैदियों को क़ैद में रहने पर होती हैं, तो क्या हम आशा कर सकते हैं कि यह वह रास्ता है जिस पर चल कर हम कश्मीर के शांतिपूर्ण हल की आशा कर सकते हैं। बावजूद इस तमाम ख़ूनख़राबे के हम नक्सलाइट्स की भावनाओं को समझना चाहते हैं, उनसे बातचीत करना चाहते हैं, समस्या का शांतिपूर्ण हल तलाश करना चाहते हैं, यह एक सकारात्मक सोच है, मगर यह सोच केवल नक्सलाइट तक सीमित न रहे, बल्कि हमें इस सोच का प्रदर्शन कश्मीर और कश्मीरियों के संदर्भ में भी करना चाहिए। मैं निकट भविष्य में 11 जून को तुफ़ैल की मौत के बाद से 29 जून को मारे जाने वाले अशफ़ाक़ अहमद खांडे (15), इम्तियाज़ अहमद (17) और शुजाअतुल इस्लाम (19) और घाटी में इन सब की हत्या को लेकर पैदा हुई स्थितियों पर एक विस्तृत रिपोर्ट मुख्यमंत्री जम्मू व कश्मीर और भारत सरकार की सेवा में पेश करने का इरादा रखता हूं, मगर साथ ही मैं यह भी आवश्यक समझता हूं कि इतिहास के दामन में झांकने का जो सिलसिला हमने शुरू किया है उसको भी ध्यान में रखा जाए। अगर हम अपने भूत को अनदेखा करेंगे तो न वर्तमान की घटनाओं को समझ पाएंगे और न भविष्य की बेहतरी के लिए कुछ निर्णय ले पाएंगे। अतः इसी प्रयास को सामने रखते हुए मैं पाठकों और भारत सरकार की सेवा में पेश कर रहा हूं शेख़ मुहम्मद अब्दुल्ला का वह ऐतिहासिक भाषण जो उन्होंने 11 अगस्त 1952 को संविधान सभा में दिया।
मुलाहेज़ा फरमाएं शेख मोहम्मद अब्दुल्ला का एतिहासिक ख़िताबः
हमें याद रखना चाहिए कि सत्ता के लिए हमारा संघर्ष विधान सभा के आयोजन के द्वारा सफलता के साथ अपने बसपउंग पर पहुंच गया है। यह आपके लिए है कि नए कश्मीर को हक़ीक़त में बदल दें और मैं इसके प्रारंभिम शब्दों को याद दिलाना चाहूंगा जो हमारी भावनाओं में हलचल पैदा करेंगे।
‘हम जम्मू व कश्मीर, लद्दाख़ और सीमावर्ती इलाक़ों के लोगों के साथ-साथ पुँछ और चीनानी क्षेत्र जो आमतौर से जम्मू व कश्मीर राज्य के तौर पर जाना जाता है, अपनी यूनियन को पूरे तौर पर समानता और स्वयं निर्णय करने के कार्य से सुशोभित करने और स्वयं अपने बच्चों को सदा के लिए अत्याचार की गुफा, ग़रीबी, ज़िल्लत और अंधविश्वास, मध्यकाल के अंधेरे और अनभिज्ञता से सूर्य की रोशनी से भरीपुरी घाटी की ओर, जहां आज़ादी, विज्ञान और ईमानदारी का राज्य हो, जहां पूरब की जनता का ऐतिहासिक नव-जीवन और पूरी दुनिया का काम करने वाली जनता की सम्मानजनक हिस्सेदारी हो और एशिया की इस ज़मीन को बरफ़ के सीने पर एक मोती की तरह चमकाने का दृढ़ विश्वास हो हम अपने राज्य के निम्नलिखित संविधान को विचार विमर्श के लिए पेश करते हैं।
यह श्रीनगर नेशनल कान्फ्ऱेंस के 1947 में होने वाले अधिवेशन में स्वीकार किया गया था। आज 1951 में इस विधानसभा में राज्य के चारों ओर से शामिल मर्द औरतें और उनकी सम्मिलित अभिलाषाओं ने इसे स्वायत्ता अथाॅरिटी बना दिया है। इस विधान सभा को अथाॅरिटी के माध्यम से तैयार किया गया और यह राज्य के तमाम नागरिकों के जनतांत्रिक अधिकार, इन्साफ़ पसंद समाजी अधिकार और सुरक्षा के बुनियादी संविधान के लिए आवश्यक बुनियाद का आधार है।
आप जम्मू व कश्मीर राज्य में स्वायत्ता अथाॅरिटी हैं आप जो तय करेंगे उसे अपरिवर्तनी क़ानून की ताक़त प्राप्त होगी। किसी मुल्क के बुनियादी लोकतांत्रिक सिंद्धांत अमेरिकी और फ्ऱांसीसी संविधान में अच्छी तरह सम्मिलित किए गए हैं और एक बार फिर हमारे बीच उसको नई रूपरेखा दी गई है। मैं 1791 के फ्ऱांसीसी संविधान के आर्टिकल-3 के सुविख्यात शब्दों को दोहराना चाहूंगा।
‘बुनियादीतौर पर सभी तरह की स्वायत्ता का आधार देश होता है ह्न स्वायतता ग़्ौर अविभाजित, अहस्तांतरर्णीय और समय के साथ समाप्त नहीं होती है।’ हमें यह ताक़त किस तरह की ज़िम्मेदारी देगी यह स्पष्ट होना चाहिए। हमारे सामने सर्वोच्च राष्ट्र के हित के फैसले हैं जिनको हमें स्वीकार करना होगा। हमारे माध्यम से लिए गए फैसलों के सही होने का आधार न केवल हमारी भूमि और उसके लोगों की ख़ुशियों से होगा बल्कि आने वाली नसलों के भाग्य से भी होगा।
तो फिर इस सभा का अस्तित्व किन महत्वपूर्ण कार्यों को करने के लिए किया गया होगा। एक महान कार्य जो इस सभा के सामने है वह यह है भविष्य में देश को चलाने के लिए संविधान निर्माण को अंजाम देना होगा। संविधान बनाना एक कठिन और लम्बा कार्य है मैं संविधान के कुछ विशिष्ट पहलुओं के बारे में बताना चाहूंगा जो इस सभा की मेहनत का परिणाम होगा।
देश के लिए एक महत्वपूर्ण विषय यह भी होगा कि महाराजा के परिवार का भविष्य क्या होगा। हमें शीघ्रता और बुद्धिमत्ता दोनों के साथ फैसला करना होगा और इसी फैसले पर हमारे राज्य की कार्य प्रणाली क्या होगी और चरित्र का आधार होगा।
तीसरी महत्वपूर्ण समस्या जो आपके ध्यान की प्रतीक्षा कर रही है वह है भूमि सुधारों से जुड़ी परिस्थिति जिसे सरकार ने बड़े जोश और भरोसे के साथ शुरू किया था।
हमारी ‘भूमि जोतने वाले’ की करने वाले की, पाॅलीसी ने किसानों के अंधेरे मकानों में रोशनी फैला रही है लेकिन साथ ही साथ उसने भूमि मालिकों के मुआवज़े की मांग की समस्या भी पैदा की। देश, समस्त धन और संसाधनों का मालिक होता है और देश के प्रतिनिधि अपने दावों पर सही और अंतिम फैसला देने वाले बेहतरीन जज होते हैं। इसलिए आपके हाथों में इस फैसले की ताक़त है।
अंत में यह सभा उन तीन विकल्पों, जिसे मैं बाद में बताऊंगा पर विचार करने के बाद विलय होने पर अपना आख़िरी फैसला देगी। यह हमारी ताक़त और जोश को एक रास्ता देगा और जिस दशा में हम पहले ही अपने देश को सामाजिक और आर्थिक प्रगति के लिए निकल पड़े हैं।
संविधान बनाने से पूर्व विशेष काम के लिए हमें प्राकृतिक तौर पर दुनिया भर के लोकतांत्रिक संविधान के बेहतरीन सिद्धांतों से अगुवाई प्राप्त करनी होगी। हमें अपने काम को बराबरी, आज़ादी और सामाजिक इन्साफ़ के सिद्धांतों की बुनियाद पर तय करना होगा जोकि आज तमाम विकसित संविधानों का महत्वपूर्ण भाग बन गया है। सभी लोकतांत्रिक देशों मंे आवश्यक समझा जाने वाला क़ानून का राज हमारे राजनैतिक ढांचे की बुनियादी चीज़ होनी चाहिए। क़ानूनी मामलों में सबकी बराबरी और न्यायपालिका का कार्यपालिका के स्वतन्त्र से अलग होना हमारे लिए बहुत ही महत्वपूर्ण है। बोलने, आन्दोलन करने और संगठनों के मामले में व्यक्तिगत स्वतंत्रता की गारंटी होनी चाहिए। प्रेस की स्वतंत्रता और विचार की स्वतंत्रता हमारे संविधान की भी विशेषता होनी चाहिए। मैं बहुत विस्तार से इन अधिकारों और कर्तव्यों पर प्रकाश नहीं डालना चाहता जो नए कश्मीर में पहले से ही मौजूदा है जो किसी भी लोकतांत्रिक व्यवस्था का अटूट हिस्सा है और जिसकी परिभाषा में कहा गया है कि यह सामाजिक संगठनों का ऐसा सिस्टम है जिसमें जनता अपने चुने हुए प्रतिनिधियों के माध्यम से सरकार चलाती है और इसमंे राजनैतिक और नागरिक स्वतंत्रता की गारंटी होती है।
.........................................................................(जारी)

Tuesday, June 29, 2010

سگریٹ و شراب نہیں پیتے، نماز پڑھتے ہو، داڑھی رکھتے ہو، تم دہشت گرد ہو

عزیز برنی

داستان ظلم و ستم، جو کل شروع کی گئی تھی، ادھوری ہے ابھی۔ آج بھی اور کل بھی اسی کو جاری رہنا ہے، لیکن کشمیر میں جو کل مظاہرے کے دوران ہوا، اسے بھی ایک دم سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تفصیل تو کل کے بعد جب ایک بار پھر کشمیر پر میرے مضامین کا سلسلہ شروع ہوگا تو اس طرح کے مظاہروں، ان کی وجوہات اور ان مظاہروں میں ہلاک و زخمی ہونے والوں پر بھی گفتگو ہوگی، مگر آج یہ لکھنا ضروری لگا کہ ہمارے قومی میڈیا نے کل ہوئے تشدد کی،جو تصویر پیش کی ہے، وہ قطعاً یکطرفہ نظر آتی ہے۔ کئی اخباروں نے تو ان تصاویر کے کیپشن میں یہ بھی لکھا کہ کس طرح جموں و کشمیر میں پولس اور سی آر پی ایف پر علیحدگی پسندوں کے ذریعہ حملے کئے جارہے ہیں۔ کیا کل کا مظاہرہ علیحدگی پسندی کی مانگ کو لے کر تھا یا پولس اور سی آر پی ایف کے ذریعہ گزشتہ دنوں جو بچے ہلاک ہوئے، ان کے خلاف کشمیریوں کے غم و غصہ کا اظہار تھا؟ اس کے علاوہ قابل غور یہ بھی ہے کہ جب ہم مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد دیکھتے ہیں تو ان میں کون زیادہ ہیں۔ انگریزی روزنامہ ’دی ایشین ایج‘ کی خبر کے مطابق اس مظاہرے میں50افراد زخمی ہوئے، جن میں سے صرف 31پولس و سی آر پی ایف کے اہلکار تھے، یعنی 119مظاہرین زخمی ہوئے، جبکہ مرنے والوں میں دونوںتجمل بھٹ17) اور آصف حسن9)برس کے تھے۔ اگر مظاہرہ کرنے والے تشدد پر آمادہ تھے اور پولس و سی آر پی ایف کے جوانوں پر اتنی شدت کے ساتھ حملہ کررہے تھے، جیسا کہ تصاویر میں دکھایا گیا ہے تو کیا مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد مظاہرین کی زیادہ ہوسکتی تھی؟ جبکہ دہلی سے شائع ہونے والے درجن بھر انگریزی اور ہندی اخبارات جو میری نظروں سے گزرے، ان میں ایک بھی تصویر ایسی نہیں تھی، جب مظاہرین تشدد کا شکار ہورہے ہوں۔ اگر ان پر حملے نہیں ہوئے تو پھر مرنے والوں اور زخمیوں میں ان کی تعداد زیادہ کیوں ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ اگر تصویر کا صحیح رُخ پیش نہیں کریں گے تو حالات مزید تشویشناک ہوتے چلے جائیں گے۔ بہرحال اس ضمن میں مجھے بہت کچھ لکھنا ہے، فی الحال کولکاتہ پریسڈنسی جیل میں قید عبداللہ کی وہ داستان،جسے کل شروع کیا گیا تھا:
# اتنے میں کمرے میںایس پی صاحب تشریف لاچکے تھے۔ کولکاتہ والوں نے کہا کہ ثبوت تو ہمارے پاس ابھی کچھ نہیں ہے، لیکن کولکاتہ میں ہے اور ہم نے طارق اختر کو کالکاتہ میں پکڑا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ عبد اللہ اس کا ساتھی ہے توایس پی نے کہا کہ پہلے ہماری فون کے ذریعہ طارق سے بات کراؤ، تب میں آگے کچھ بولوں گا۔ تھوڑے سے پس و پیش کے بعد وہ لوگ تیار ہوگئے اور کولکاتہ میں اپنے لوگوں سے رابطہ کرکے طارق اختر کوentral Lockup سے نکال کرایس پی کااس سے فون سے رابطہ کروایا گیا۔ایس پی کے فون کااسپیکر آن تھا، طارق کی آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔
ایس پی نے طارق سے سوال کیا عبد اللہ کو کیسے جانتے ہو؟جواب ملا کہ وہ میرے بہنوئی کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا، وہیں ملاقات ہوئی۔ ایس پی نے سوال کیا کہ تمہارے پاس عبد اللہ کے مدرسے کا نمبر کہاں سے آیا، جواب ملا کہ اپنے بہنوئی سے لیا۔ایس پی نے پوچھا کہ عبد اللہ کو تم نے کتنے پیسے دئے، جواب ملا ایک روپے بھی نہیں۔ایس پی نے پوچھا کہ کیا عبد اللہ جانتا ہے کہ تم لشکر طیبہ کے آدمی ہو؟ طارق نے کہا کہ نہیں، عبد اللہ میرے بارے میں کچھ نہیں جانتا، اس کا مجھ سے اس معاملے میں کوئی تعلق نہیں ہے۔
پھر ایس پی نے پوچھا کہ کولکاتا پولس کا کہنا ہے کہ تم نے اپنے لیپ ٹاپ میں عبداللہ کا نام لے کر یہ لکھا ہے کہ میں اس سے تنظیم کے بارے میں بات کروں گا تو ایسا کیوں لکھا؟طارق نے کہا کہ میں نے اپنے اور بھی بہت سے جان پہچان والوں اور رشتہ داروں کا نام لکھ رکھا ہے کہ میں اگر مناسب سمجھوں گا تو ان کو ٹچ کروں گا، خاص طور پر عبداللہ کا نام صرف نہیں لکھا ہے۔ ایس پی نے پوچھا کہ کیا تم کو اس بات کی امید تھی کہ اگر تم عبداللہ کو ٹچ کرو گے تو وہ Convienceہوجاے گا؟ طارق نے کہا کہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ پھر ایس پی نے پوچھا کہ کیا عبداللہ سے تمہاری جہاد کے Topicپر کوئی بات ہوئی تھی؟ تو طارق نے کہا کہ کچھ خاص نہیں، ہاں اس نے مسلم شریف کی ایک حدیث سنائی تھی اور پھر اس نے وہ حدیث بیان کی۔
تب ایس پی نے کہا کہ عبداللہ کو طارق کے بارے میں کچھ معلوم تو نہیں ہے، مگر اس کاارادہ (ntention)لگتا ہے، اس لئے میں آپ لوگوں کو اس کو Interogationکے لئے دیتا ہوں، اس کو لے جائو۔ تب ترپاٹھی جی نے ایس پی کو کہا کہ سر یہ تو جانتا ہی نہیں ہے کہ طارق لشکر کا آدمی ہے، پھر آپ عبداللہ کو Handoverکیوں کررہے ہیں؟ ان لوگوں کے پاس عبداللہ کو گرفتار کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ تب کولکاتا پولس نے کہا کہ ہم اس کو کوئی کیس تو دینے نہیں جارہے ہیں، صرف پوچھ تاچھ کے لئے Arrestکررہے ہیں، اگر اس کے خلاف کچھ بات نہیں پائی گئی تو ہم لوگ عبداللہ کو فوراً چھوڑ دیں گے۔ تو ایس پی نے کہا کہ ٹھیک ہے لے جائو۔ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میرے آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ترپاٹھی جی کی بھی آنکھیں بھر آئیں اور انہوں نے کہا کہ میرے بچے غم نہ کرو یہ لوگ تمہیں لے جارہے ہیں، کچھ سوال وجواب کے بعد تم کو چھوڑ دیں گے۔ میں نے کہا کہ میری تعلیم خراب ہوجائے گی،اگر آپ گرفتارکریں گے تو میرے مدرسے والے مجھے نکال دیں گے۔ تو ترپاٹھی جی نے کہا کہ یہ نہیں ہوگا، جب یہ لوگ تم کو چھوڑ دیں گے تو ڈائریکٹ میرے پاس آنا میں تمہیں تمہارے مدرسہ لے چلوں گا، پھر تمہیں کوئی نہیں نکالے گا۔
پھر ان لوگوں نے Arrest Memoپر Signatureکرواکر مجھے کولکاتا پولس کے Handoverکردیا۔ پھر میں نے بنارس والوں سے گزارش کی کہ مجھے شیخ الجامعہ سے بات کرنے دی جائے تو انہوں نے کہا کہ ہم خبر کردیں گے۔ دو چار دن میں تو تم آہی جائو گے، پھر کولکاتا والے جو کہ کل پانچ آدمی تھے مجھے ایک ماروتی وین ٹائپ کی گاڑی میں جو کہ پرائیویٹ تھی، بٹھاکر تقریباً رات کے 11بجے کولکاتا کے لئے روانہ ہوگئے۔ رات بھر گاڑی چلتی رہی۔ رات میں وہ لوگ ایک ڈھابے پہ کھانا کھانے کے لئے رکے۔ ان لوگوں نے شراب پی، گوشت کھایا۔ میرے ہاتھ پیر کھلے ہوئے تھے، میں نے اپنی قضا نماز پوری کی۔ ان لوگوں نے شراب پیش کی، میں نے انکار کیا، سگریٹ دی میں نے انکارکیا، کہا کہ گوشت کھائو میں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم ہے یہ کیسا گوشت ہے، اس لئے مجھے سبزی کھلادو تو ان لوگوں نے کہا کہ واقعی تم دہشت گرد ہو، کیونکہ تم شراب نہیں پیتے، سگریٹ نہیں پیتے، سنگل کٹ گوشت نہیں کھاتے، لیکن نماز تو بہت پابندی سے پڑھتے ہو اور داڑھی بھی اسامہ بن لادن کی طرح ہے۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
y
پھر گاڑی چلتی رہی ہم صرف رفع حاجت کے لئے راستے میں رکے۔ پھر تقریباً کل ہوکر دن کے 2بجے گاڑی ایک کورٹ کے کیمپس میں رکی بعد میں پتہ چلا کہ یہ Bankshall Courtہے۔ پھر ان لوگوں نے مجھے وہاں کچھ دوسرے پولس والوں کے سپرد کردیا۔ وہ لوگ مجھے مجسٹریٹ کے سامنے لے گئے اور جموں وکشمیر Militantکہہ کر میرا 15دنوں کا ریمانڈ لے لیا (یہ سب مجھے بہت بعد میں سمجھ میں آیا، اس وقت تو مجھے کچھ بھی نہیں معلوم تھا) پھر مجھے ہتھکڑی لگادی گئی اور کمر میں موٹا سا رسہ باندھ دیا گیا۔ پھر جب مجھے کورٹ سے نکالا گیا تو میں نے دیکھا کہ بہت سارے میڈیا والے کھڑے تھے اور اپنے کیمرے سے میری تصویریں اتار رہے تھے، پھر مجھے دھکا دے کر ایک پولس جیپ میں بٹھا دیا گیا۔ گاڑی لال بازار پولس ہیڈکوارٹر میں آکر رکی، پھر مجھے ایک کمرے میں پہنچایا گیا۔ وہاں مجھے زمین پر بٹھا دیا گیا، ہاتھوں میں ہتھکڑی تھی، کمر میں رسی جس کے ایک سرے کو کسی چیز سے باندھ دیا گیا تھا۔ کچھ لوگ ہنس رہے تھے، کچھ گالیاں دے رہے تھے، کچھ کہہ رہے تھے کہ چھوٹا اسامہ ہے، میرے سر سے ٹوپی گرگئی تھی، میں حیران و پریشان چاروں طرف دیکھ رہا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے، مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ پھر بھیڑ چھٹی، کمرہ خالی ہوا، کچھ نئے لوگ داخل ہوئے، مجھے پینے کے لئے پانی دیا گیا، چائے دی گئی، پھر ایک آدمی نے مجھ سے سوالات کرنے شروع کردئے کہتم طارق کو کیسے جانتے ہو؟تم کولکاتا کب اور کیوں آئے؟ تم جمشید پور کس لئے گئے تھے او رکہاں ٹھہرے؟ کیا طارق اور تمہارے درمیان کبھی جہاد کے ٹوپک پر بات چیت ہوئی؟ پوری بات بیان کرو۔
پھر میں نے بتانا شروع کیا کہ جب میں دہلی میں احمد شہوار صاحب کی دو بچیوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا تو تقریباً 8دس مہینوں کے بعد ایک دن شام کو ٹیوشن پڑھاتے وقت احمد شہوار نے اپنے سالے کے طور پر طارق اختر کا تعارف کروایا، جو کہ جمشید پور کا رہنے والا تھا۔ طارق اختر نے سلام دعا کے بعد اپنی بھانجیوں کی پڑھائی لکھائی اور میری تعلیم وغیرہ کے بارے میں پوچھا جو کہ عموماً پہلی ملاقات میں ایک آدمی دوسرے کے بارے میں پوچھتا ہے اور یہ بات 2003کی ہے۔
تعارف کے تقریباً دو مہینے بعد ایک شام میں ٹیوشن پڑھاکر جب پہلی منزل سے نیچے اترا توگرائونڈ فلور پر شہوار صاحب کی الیکٹرک کی دکان پر میں نے طارق اختر کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو اس کے اصرار پر علیک سلیک کے بعد میں بھی کچھ دیر بیٹھ گیا۔ مسلمانوں کی حالت زار پہ گفتگو ہونے لگی، سامنے ہی انگریزی اخبار رکھا ہوا تھا، اس میں چیچن لوگوں کے بارے میں کوئی آرٹیکل یا نیوز تھی اور چند لوگوں کی تصاویر تھیں۔ بات چلتے چلتے طارق اختر نے پوچھا یہ جو چیچنیا،بوسینیا اور فلسطین میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے، اس کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے۔ میں نے کہا چیچنیا کے بارے میں تو معلوم نہیں، مگر فلسطین میں تو مسلمانوں پر بہت ظلم ہورہا ہے۔ پھر تھوڑی دیر بعد اس نے پوچھا کہ جہاد کے بارے میں آپ کا کیا نقطہ نظر ہے تو میں نے اس کو مسلم شریف کی ایک حدیث سنا دی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس مسلمان کے دل میں جہاد کی تمنا بھی نہیں ہے وہ نفاق کی موت مرے گا، لیکن اس کے ساتھ میں نے یہ بھی وضاحت کردی کہ آج دنیا میںجہاد کے نام پر جوپرتشدد کاروائیاں ہورہی ہیں اور بے قصوروں کا خون بہایا جارہا ہے، اس کا اسلام اور جہاد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ پھر میں نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں بتایا کہ اسلام نے دنیا کو امن وسلامتی کا پیغام دیا ہے ۔ مومن جب نماز پڑھتا ہے، اپنے نفس کو کچلتے ہوئے روزہ رکھتا ہے،اللہ کی خوشنودی کے لئے دیگر اعمال خیر کرتا ہے تو مومن کا اپنے نفس کو اللہ کے احکام کے تابع کردینا ہی جہادہے اور یہ کہ جہاد کافی وسیع معنوں پر مشتمل ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ظلم کے خلاف ظالم و جابر حکمراں کے سامنے حق بات کہنا سب سے افضل جہاد ہے، پھر اس کے بعد گفتگو ختم ہوگئی کیونکہ میرے ہاسٹل کے گیٹ بند ہونے کا وقت قریب ہوچکا تھا۔ پھر اس کے بعد طارق سے اس موضوع پر کبھی میری گفتگو نہیں ہوئی۔پھر میں نے تانو یہ کی تعلیم مکمل کرکے عالمیت کے لئے مرکزی دارالعلوم جامعہ سلفیہ بنارس میں داخلہ لے لیا اور دہلی کو چھوڑ دیا،اس کے بعد چونکہ کافی دنوں تک احمد شہوار صاحب کے یہاں بچوں کو پڑھانے کی وجہ سے کچھ قربت ہوگئی تھی ، اس لئے بنارس آنے کے بعد بھی کبھی کبھار فون سے خیر خیریت کا تبادلہ ہوجاتا تھا۔
2006میں جبکہ میرا عالمیت کا آخری سال تھا بقرعید کی چھٹی میں، میں اپنے گھر بہار گیا۔ پھر اپنی خالہ اور اپنی بہن سے ملنے کے لئے دوتین روز کے لئے کولکاتا آیا، جہاں کبھی میں بچپن میں رہ کر خالہ کے پاس پڑھا کرتا تھا اور میری یہ کولکاتہ آمد تقریباً7سال بعد ہورہی تھی۔پھر میں کولکاتہ سے تیسرے روز اپنے ایک دوست صفیان کے ساتھ دو تین کے لئے جمشید پور چلا گیا، وہ مجھے خود کو لکاتہ لینے آیا تھا۔میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ بقرعید کی چھٹی پر میں اس کے گھر جمشید پور ضرور چلوں گاکیونکہ صفیان نے کہا تھا کہ اس کے خالو عبدالھادی العمری، صدر جمعیت اہلحدیث بر منگھم نے جمشید پور میں ایک خوبصورت مسجد بنوائی ہے اور صفیان کی خواہش تھی کہ میں وہاں جمعہ کا ایک خطبہ دوں،جملہ معترضہ کے طور پر بتاتا چلوں کے میں اپنی طالب علمی کے ابتدائی ایام سے ہی درس ودروس اور خطبہ جمعہ وغیرہ دیا کرتا تھا۔دہلی میں بھی دوران تعلیم اکثر مساجد میں جمعہ وغیرہ پڑھانے کے لئے مجھے حافظ …… صاحب بھیجا کرتے تھے۔
……………………………(جاری)

शराब व सिगरेट नहीं पीते, नमाज़ पढ़ते हो, दाढ़ी रखते हो, तुम दहशतगर्द हो
अज़ीज़ बर्नी

दास्ताने जुल्मो सित्म, जो कल शुरू की गई थी, अधूरी है अभी। आज भी और कल भी इसी को जारी रहना है, लेकिन कश्मीर में जो कल प्रदर्शन के दौरान हुआ, उसे भी एकदम से अनदेखा नहीं किया जा सकता। यह विवरण तो कल के बाद जब एक बार फिर कश्मीर पर मेरे लेखों का सिलसिला शुरू होगा, तो इस तरह के प्रदर्शनों, उनके कारणों औैर प्रदर्शनों में मृत व घायल होने वालों पर भी चर्चा होगी। मगर आज यह लिखना आवश्यक लगा कि राष्ट्रीय मीडिया ने कल हुई हिंसा की जो तस्वीर प्रस्तुत की हैै वह बिल्कुल एक ही तरफा नज़र आती है। कई अख़बारों ने तो तस्वीरों के कैप्शन में यह भी लिखा है कि किस तरह जम्मू कश्मीर में पुलिस और सी.आर.पी.एफ पर अलगाव वादियों के द्वारा हमले किए जा रहे हैं। क्या कल का प्रदर्शन अलगाववाद की मांग को लेकर था या पुलिस और सी.आर.पी.एफ के द्वारा पिछले दिनों जो बच्चे मारे गए, उनके विरोध में कश्मीरियों के ग़मो गुस्से को प्रकट करता था। इसके अलावा ध्यान देने योग्य यह भी है कि जब हम मरने वालों और घायलों की संख्या को देखते हैं तो उनमें कौन अधिक हैं। अंग्रेज़ी दैनिक अख़बार ‘द एशियन एज’ में प्रकाशित समाचार के अनुसार इस प्रदर्शन में 150 लोग घायल हुए, जिनमें से केवल 31 पुलिस व सी.आर.पी.एफ के जवान थे, अर्थात 119 प्रदर्शनकारी घायल हुए, जबकि मरने वालों में दोनों तजम्मुल भट(17) और आसिफ हसन (9) वर्ष के थे। यदि प्रदर्शनकारी हिंसा पर आमादा थे, जैसा कि तस्वीरों में दिखाया गया है तो क्या मरने वालों और घायलों की संख्या प्रदर्शनकारियों की अधिक हो सकती थी? जबकि दिल्ली से प्रकाशित होने वाले दर्जन भर अंग्रेज़ी और हिन्दी समाचारपत्र जो मेरी नज़रों के सामने से गुज़रे, उनमें एक भी तस्वीर ऐसी नहीं थी, जब प्रदर्शनकारी हिंसा का शिकार हो रहे हों। यदि उन पर हमले नहीं हुए तो फिर मरने वालों और घायलों में उनकी संख्या अधिक क्यों है? हमारा विचार है कि यदि तस्वीर को सही ढ़ग से प्रस्तुत करेंगे तो हालात अधिक ख़राब होते चले जाएगें। बहरहाल इस बारे में मुझे अभी बहुत कुछ लिखना है, फिलहाल कोलकाता परेज़िडेंसी जेल में बंद अब्दुल्ला की वह दास्तान, जिसे कुल शुरू किया गया थाः
इतने में कमरे में एसपी साहब तशरीफ़ ला चुके थे। कोलकाता वालों ने कहा कि सबूत तो हमारे पास अभी कुछ नहीं है, परंतु कोलकाता में है और हमने तारिक़ अख़्तर को कोलकाता में पकड़ा है और उसका कहना है कि यह अबदुल्ला उसका साथी है। तो एसपी ने कहा कि पहले हमारी फोन के द्वारा तारिक़ से बात कराओ तब मैं आगे कुछ बोलूंगा। थोड़ी सी झिझक के बाद वह लोग तैयार हो गए और कोलकाता में अपने लोगों से सम्पर्क करके तारिक़ अख़्तर को सेंट्रल लोकअप से निकाल कर एसपी से फोन पर उसका सम्पर्क कराया गया। एसपी के फोन का स्पीकर आॅन था। तारिक़ की आवाज़ कमरे में गूंज रही थी।
एसपी ने तारिक़ से प्रश्न किया- अब्दुल्ला को कैसे जानते हो? उत्तर मिला कि वह मेरे जीजा जी की बच्चियों को ट्यूशन पढ़ाता था, वहीं मुलाक़ात हुई। एसपी ने प्रश्न किया कि तुम्हारे पास अब्दुल्ला के मदरसे का नं॰ कहां से आया, जवाब मिला कि अपने जीजा जी से लिया। एसपी ने पूछा कि क्या अब्दुल्ला जानता है कि लश्कर-ए-तैयबा के आदमी हो? तारिक़ ने कहा कि नहीं, अब्दुल्ला मेरे बारे में कुछ नहीं जानता, इसका मुझसे इस मामले में कोई ताल्लुक़ नहीं है।
फिर एसपी ने पूछा कि कोलकाता पुलिस का कहना है कि तुम ने अपने लेपटाॅप में अब्दुल्ला का नाम ले कर यह लिखा है कि में इस तंज़ीम के बारे में बात करूंगा तो ऐसा क्यों लिखा? तारिक़ ने कहा कि मैंने अपने और भी बहुत से जान पहचान वालों और रिश्तेदारों का नाम लिख रखा है कि मैं यदि उचित समझूंगा तो इनको टच करूंगा। विशेष रूप से अब्दुल्ला का नाम केवल नहीं लिखा है। एसपी ने पूछा कि क्या तुमको इस बात की उम्मीद थी कि यदि तुम अब्दुल्ला को टच करोगो तो वह ब्वदअपदबम हो जाएगा? तारिक़ ने कहा कि मैं कुछ कह नहीं सकता। फिर एसपी ने पूछा कि क्या अब्दुल्ला से तुम्हारी जिहाद के विषय पर कोई बात हुई थी? तो तारिक़ ने कहा कि कुछ विशेष नहीं हां, उसने मुस्लिम शरीफ़ की एक हदीस सुनाई थी और फिर उसने वह हदीस बयान की।
तब एसपी ने कहा कि अब्दुल्ला को तारिक़ के बारे में कुछ मालूम तो नहीं है मगर इसका इरादा लगता है, इसलिए मैं आप लोगों को इसको पूछगछ के लिए देता हूं। इसको ले जाओ। तब त्रिपाठी जी ने एसपी को कहा कि सर! यह तो जानता ही नहीं है कि तारिक़ लश्कर का आदमी है, फिर आप अब्दुल्ला को भ्ंदक व्अमत क्यों कर रहे हैं। इन लोगों के पास अब्दुल्ला को गिरफ़्तार करने का कोई कारण नहीं है। तब कोलकाता पुलिस ने कहा कि हम इसको कोई केस तो देने नहीं जा रहे हैं? केवल पूछताछ के लिए गिरफ़्तार कर रहे हैं, यदि इसके विरुद्ध कोई बात नहीं पाई गई तो हम लोग अब्दुल्ला को फ़ौरन छोड़ देंगे, तो एसपी ने कहा कि ले जाओ। यह सुनकर मेरी आंखों में आंसू आ गए। मेरी आंखों में आंसू देख कर त्रिपाठी जी की भी आंखें भर आईं और उन्होंने कहा कि मेरे बच्चे ग़म न करो यह लोग तुम्हे ले जा रहे हैं कुछ प्रश्न उत्तर के बाद यह तुम्हें छोड़ देंगे, मैंने कहा कि मेरी शिक्षा ख़राब हो जाएगी, यदि आप गिरफ़्तार करेंगे तो मेरे मदरसे वाले मुझे निकाल देंगे। तो त्रिपाठी जी ने कहा कि यह नहीं होगा। जब यह लोग तुमको छोड़ देंगे तो सीधे मेरे पास आना, मैं तुम्हें तुम्हारे मदरसे ले चलूंगा फिर तुम्हें कोई नहीं निकालेगा।
फिर इन लोगोंने ।ततमेज डमउव पर हस्ताक्षर करवाकर मुझे कोलकाता पुलिस के हवाले कर दिया। फिर मैंने बनारस वालों से गुज़ारिश की कि मुझे शैख़ुल जामिआ से बात करने दी जाए, तो उन्होंने कहा कि हम सूचना दे देंगे। दो चार दिन में तो तुम आ ही जाओगे। फिर कोलकाता वाले जोकि कुल पांच आदमी थे एक मारूती वैन टाइप की गाड़ी में जोकि प्राइवेट थी मंें बैठाकर लगभग रात 11 बजे कोलकाता के लिए रवाना हो गए। रात भर गाड़ी चलती रही। रात में वह लोग एक ढाबे पर खाना खाने के लिए रुके। इन लोगों ने शराब पी, गोश्त खाया। मेरे हाथ पैर खुले हुए थे। मैंने अपनी क़ज़ा नमाज़ पूरी की। उन लोगों ने शराब पेश की, मैंने इन्कार किया, सिगरेट दी मैंने इन्कार किया, कहा कि गोश्त खाओ, मैंने कहा कि मुझे नहीं मालूम कि यह कैसा गोश्त है? इसलिए मुझे सब्ज़ी खिला दो। तो उन लोगों ने कहा कि वास्तव में तुम आतंकवादी हो। क्योंकि तुम शराब नहीं पीते, सिगरेट नहीं पीते, सिंगल कट गोश्त नहीं खाते, लेकिन नमाज़ तो बहुत पाबंदी से पढ़ते हो और दाढ़ी भी ओसामा बिन लादेन की तरह है। मैंने कोई जवाब नहीं दिया।
फिर गाड़ी चलती रही। हम केवल लघु शंका के लिए रास्ते में रुके। कल होकर दिन के दो बजे गाड़ी एक कोर्ट के कैम्पस में रुकी। बाद में पता चला कि यह ठंदोींसस ब्वनतज है। फिर इन लोगों ने मुझे वहां कुछ दूसरे पुलिस वालों को सौंप दिया। वह लोग मुझे मजिस्ट्रेट के सामने ले गए और जम्मू व कश्मीर आतंकवादी कह कर मेरा 15 दिनों का रिमांड ले लिया। (यह सब मुझे बहुत बाद में समझ में आया उस समय तो मुझे कुछ भी नहीं मालूम था।) फिर मुझे हथकड़ी लगा दी गई और कमर में मोटा सा रस्सा बांध दिया गया। फिर जब मुझे कोर्ट से निकाला गया तो मैंने देखा कि बहुत सारे मीडिया वाले खड़े थे और कैमरे से मेरी तस्वीरें उतार रहे थे और फिर मुझे धक्का दे कर एक पुलिस जीप में बैठा दिया गया था गाड़ी लाल बाज़ार पुलिस हैडक्वार्टर में आकर रुकी फिर मुझे एक कमरे में पहुंचाया गया। वहां मुझे ज़मीन पर बैठा दिया गया। हाथों में हथकड़ी थी कमर में रस्सी, जिसके एक सिरे को किसी चीज़ से बांध दिया गया था। कुछ लोग हंस रहे थे, कुछ गालियां दे रहे थे, कुछ कह रहे थे कि छोटा ओसामा है, मेरे सर से टोपी गिर गई थी, मैं हैरान व परेशान चारों ओर देख रहा था कि यह क्या हो रहा है, मुझे कुछ समझ में नहीं आ रहा था। फिर भीड़ छटी कमरा ख़ाली हुआ। कुछ नए लोग दाख़िल हुए, मुझे पीने के लिए पानी दिया गया, चाय दी गई। फिर एक आदमी ने मुझसे प्रश्न शुरू कर दिए कि तुम तारिक़ को कैसे जानते हो? तुम कोलकाता कब और क्यों आए? तुम जमशेदपुर किसलिए गए थे और कहां ठहरे? क्या तारिक़ और तुम्हारे बीच कभी जिहाद के शीर्षक पर बातचीत हुई? पूरी बात बयान करो।
फिर मैंने बताना शुरू किया कि जब मैं दिल्ली में अहमद शहवार साहब की दो बच्चियों को ट्यूशन पढ़ाता था तो लगभग 8-10 महीनों के बाद एक दिन शाम को ट्यूशन पढ़ाते समय अहमद शहवार साहब ने अपने साले के तौर पर तारिक़ अख़्तर का परिचय करवाया जो कि जमशेदपुर का रहने वाला था। तारिक़ अख़तर ने सलाम दुआ के बाद अपनी भांजियों की शिक्षा के बारे में और मेरी शिक्षा इत्यादि के बारे में पूछा। जो कि साधारणतः पहली मुलाक़ात में एक आदमी दूसरे के बारे में पूछता है और यह बात 2003 की है।
परिचय के लगभग दो महीने बाद एक शाम मैं ट्यूशन पढ़ाकर जब पहली मंज़िल से नीचे उतरा तो ग्राउंड फ़्लोर पर बिजली की दुकान पर मैंने तारिक़ अख़्तर को बैठे देखा तो उनके ज़ोर देने पर सलाम दुआ के बाद मैं भी कुछ देर बैठ गया। मुसलमानों की दुखद स्थिति पर बातचीत होने लगी, सामने ही अंग्रेज़ी अख़्बार रखा हुआ था। उसमें चेचन लोगों के बारे में कोई लेख या समाचार था और कुछ लोगों की तस्वीरें थीं। बात चलते-चलते तारिक़ अख़्तर ने पूछा यह जो चेचनिया और बोस्निया में मुसलमानों का नरसंहार हो रहा है उसके बारे में आपका क्या ख़्याल है। मैंने कहा चेचनिया के बारे में तो मालूम नहीं परंतु फ़लस्तीन में मुसलमानों पर बहुत अत्याचार हो रहा है। फिर थोड़ी देर बाद उसने पूछा कि जिहाद के बारे में आपका क्या दृष्टिकोण है? तो मैंने उसको मुस्लिम शरीफ़ की एक हदीस सुना दी कि अल्लाह के रसूल सल्लल्लाहो अलैहि वसल्लम ने कहा है कि जिस मुसलमान के दिल में जिहाद की तमन्ना नहीं है वह फूट की मौत मरेगा। परंतु उसके साथ मैंने यह भी स्पष्ट कर दिया कि आज दुनिया में जिहाद के नाम पर जो हिंसक कार्यवाहियां हो रही हैं और निर्दोषों का रक्त बहाया जा रहा है, उसका इस्लाम और जिहाद से कोई लेना देना नहीं है। फिर मैंने कुरआनी आयतों और हदीसों की रोश्नी में बताया कि इस्लाम ने संसार को शांति व सुरक्षा का संदेश दिया है। मोमिन (पूर्ण रूप से धार्मिक व्यक्ति) जब नमाज़ पढ़ता है तो अपने अहम को कुचलते हुए रोज़ा रखता है, अल्लाह की ख़ुशी के लिए अन्य अच्छे कार्य करता है तो मोमिन का अपने नफ़्स (अहम) को अल्लाह के आदेशों के अधीन कर देना ही जिहाद है और यह कि जिहाद काफ़ी विस्तृत अर्थों पर आधारित है। नबी सल्लल्लाहो अलैहि वसल्लम ने कहा है कि अत्याचार के विरुद्ध अत्याचारी और क्रूर शासक के सामने सच बात कहना सबसे श्रेष्ठ जिहाद है। फिर इसके बाद बातचीत समाप्त हो गई। क्योंकि मेरे हास्टिल का गेट बंद होने का समय निकट आ गया था। फिर इसके बाद तारिक़ से इस विषय पर मेरी कभी बातचीत नहीं हुई। फिर मैंने सानविया की शिक्षा पूर्ण करके आलमियत के लिए मरकज़ी दारुल उलूम जामिआ सल्फ़िया में दाख़िला ले लिया और दिल्ली को छोड़ दिया। इसके बाद चूंकि काफ़ी दिनों तक अहमद शहवार साहब के यहां बच्चों को पढ़ाने की वजह से कुछ निकटता हो गई थी। इसलिए बनारस आने के बाद भी कभी कभार फोन से कुशलता का तबादला हो जाता था।
2006 में जबकि मेरा आलमियत का अंतिम वर्ष था। बक़रईद की छुट्टी में मैं अपने घर बिहार गया। फिर अपनी ख़ाला और अपनी बहन से मिलने के लिए मैं तीन दिन के लिए कोलकाता आया, जहां कभी मैं बचपन में रहकर ख़ाला के पास पढ़ा करता था और मेरी यह कोलकाता आमद लगभग 17 वर्ष बाद हुई थी। फिर मैं कोलकाता से तीसरे दिन अपने एक मित्र सुफ़ियान के साथ दो तीन दिन के लिए जमशेदपुर चला गया, वह मुझे स्वयं कोलकाता लेने आया था। मैंने उससे वादा किया था कि बक़रईद की छुट्टी पर मैं उसके घर जमशेदपुर चलूंगा। क्योंकि सुफ़ियान ने कहा था कि उसके ख़ालू (मौसा जी) अब्दुलहादी अलउमरी, अध्यक्ष जमिअत-ए-अहले हदीस बृमिंघम में जमशेपुर में एक सुंदर मस्जिद बनवाई है और सुफ़ियान की इच्छा थी कि मैं वहां जुमे का एक ख़ुत्बा दूं। एक अतिरिक्त वाक्य के तौर पर बताता चलूं कि मैं अपने छात्र जीवन में प्रारंभिक दिनों से ही पाठ्य पठन और जुमे का ख़ुत्बा वग़्ौरह दिया करता हूं। दिल्ली में भी शिक्षा के दौरान प्रायः मस्जिदों में जुमा इत्यादि पढ़ाने के लिए मुझे हाफ़िज़ .................. साहब भेजा करते थे।
..........................................................(जारी)

Monday, June 28, 2010

چھٹی آئی ہے رودادِ ظلم لائی ہے

عزیز برنی

جب وقت بدلتا ہے تو حالات بدل جاتے ہی، رشتے بدل جاتے ہیں، دوست احباب بدل جاتے ہیں، وہ جو ہر پل ساتھ رہتے ہیں اور دل و جان کی طرح پھر جدا ہوجاتے ہیں، کچھ اس طرح گویا ڈوبتے سورج کو دیکھ سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ہوا عبداللہ کے ساتھ بھی۔ یہ ذکر جموں وکشمیر کے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کا نہیں ہے اور نہ ہی یہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ یا شیخ محمد عبداللہ کا، جن کا تذکرہ میں کشمیر کے حوالہ سے گزشتہ ایک ہفتہ سے مسلسل کررہا ہوں۔ ہاں، اگر کوئی مماثلت ہے تو صرف اتنی کہ اس شخص کا نام بھی عبداللہ ہے اور نام کے لیے یا یوں کہئے کہ بدنامی کے لیے کشمیر سے اس کا بھی تعلق جوڑ دیا گیاہے۔ جی ہاں، یہ پولس روزنامچہ میں درج ایک کشمیری دہشت گرد ہے۔ جبکہ پیدائش بہار میں، تعلیم اترپردیش کے شہر بنارس میں۔ کچھ دن قیام دہلی کے بٹلہ ہاؤس میں بھی رہا اور اب گزشتہ ساڑھے4برس سے کولکاتہ کی پریسیڈنسی جیل میں ہے۔ گزشتہ جمعرات کے روز میں نے اپنے اس مسلسل مضمون کی قسط نمبر۔131، بعنوان ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ میں ائمہ کرام سے درخواست کی تھی کہ وہ اس تحریک کو نمازِ جمعہ سے قبل اپنے خطبات کی معرفت آگے بڑھائیں۔ میں ان کا شکرگزار ہوں کہ بیشتر مقامات پر ایسا ہوا بھی، مگر مجھے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ آئندہ جمعہ سے قبل جب میں لکھ رہا ہوں گا تو ایک ایسے امام جمعہ کی روداد بھی میرے سامنے ہوگی، جو اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
اگر کسی پر دہشت گردی کا الزام عائد کردیا جائے تو اس کا سایہ بھی اس سے جدا ہوجاتا ہے۔ دوست، رشتہ دار، متعلقین اگر کنارہ کشی اختیار کرلیں تو یہ کوئی بہت حیرانی کی بات نہیں ہے۔ ایک دم سے ان سب کو موردالزام ٹھہرانا بھی مشکل ہوگا، اس لیے کہ جس طرح کے حالات پیدا ہوگئے ہیں ہر شخص اپنے دامن پر دہشت گردی کا داغ لگنے کے خوف سے گھبراتا ہے۔ ایسے میں اگر وہ سب جو عبداللہ کو اچھی طرح جانتے ہیں، چاہے درس و تدریس کے حوالہ سے، چاہے دارالعلوم جامعہ سلفیہ سے وابستگی کے حوالہ سے، چاہے مختلف مساجد میں امام جمعہ کی حیثیت سے۔ اب سامنے آکر اپنی وابستگی کا اظہار کرنا اور ان کی صداقت کو ظاہر کرنا ان کے اپنے لیے نئی مصیبتوں کو دعوت دینے کے مترادف محسوس کررہے ہیں تو اس میں حیرانی کیا ہے؟ لیکن کیا ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے؟ اپنی پریشانیوں سے خوفزدہ ہوکر بے گناہ نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑنے دینا چاہیے؟ بے گناہوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا ملتے دیکھ کر بھی چپ رہنا چاہیے؟ اسلام کو بدنام ہونے دینا چاہیے؟ ذرا سوچئے! پریشانی میں تو ہم اپنے آپ کو اس وقت بھی ڈالتے ہیں، جب کسی سڑک پر پڑے زخمی کو اسپتال تک پہنچاتے ہیں۔ اس کے جسم سے بہنے والا خون ہمارے کپڑوں کو خون آلودہ کردیتا ہے، مگر اس خوف سے ہم حادثوں کو دیکھ کر گزر نہیں جاتے کہ ہمارے سفید لباس پر خون کے دھبے لگ جائیں گے۔ اگر ہم ایسا کرنے لگیں گے تو ہمارے اندر انسانیت باقی کہاں رہے گی؟ اس لیے کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔ وہ جو بے قصور ہیں، انہیں بے قصور ثابت کرنے کے لیے ہمیں جی جان سے جٹ جانا ہوگا اور اگر قصوروار ہیں تو انہیں اپنے کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے بھی جی جان سے جٹ جانا ہوگا، یہی جہاد ہے۔
لفظ ’’جہاد‘‘ کو جس تناظر میں پیش کیا جانے لگا ہے، اب ہمیں یہ لفظ بھی خوفزدہ کردیتا ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ میں جو لکھ رہا ہوںیہ جہاد ہے، جو میں بولتا رہا ہوں وہ جہاد ہے، جو کررہا ہوں وہ جہاد ہے۔ کربلا کی زمین پر یزید کے خلاف نواسۂ رسول نے جو کیا، وہ جہاد تھا۔ شری رام نے راون کے خلاف جو کیا، وہ جہاد تھا۔ انگریزوں کے خلاف مجاہدین ہند نے جو کیا، وہ جہاد تھا۔ ’جہاد‘ وہ نہیں ہے، جو دہشت گردوں کا عمل ہے۔ کب کس نے اور کیوں، کن مقاصد کے پیش نظر دہشت گردی کو جہاد کا نام دے دیا، یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے، جسے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ آج میں ایک ایسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی شدت سے ضرورت محسوس کرتا ہوں، جہاں ایسے تمام موضوعات پر ریسرچ کی جائے، جن کا تعلق ہندوستان کے موجودہ حالات سے ہو، دہشت گردی کے اسباب سے ہو۔ مسلمانوں کو تقسیم وطن اور دہشت گردی سے جوڑے جانے سے ہو۔ مجھے اس میں گہری سازش نظر آتی ہے کہ اس لفظ کو جس کی معرفت قرآن کریم میں حب الوطنی اور انسان دوستی کا پیغام دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس انسانیت دشمنی اور وطن سے غداری کے معنوں میں لوگوں کے ذہن نشین کرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ جس کی تہہ تک جانے کی ازحد ضرورت ہے۔ بہرحال میں ذکر کررہا تھا عبداللہ کا، جس کا تعلق بہار کے ضلع ویشالی گاؤں مہاویو مٹھ، نزد حاجی پور اور اترپردیش کے مادر علمی مرکزی دار العلوم جامعہ سلفیہ بنارس سے ہے اور اب گزشتہ تقریباً ساڑھے چار برس سے کولکاتہ کی جیل میں ہے۔ اس نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے اپنی ڈرامائی گرفتاری اور پھر قیدوبند کی صعوبتیں کی داستان بمع چارج شیٹ میں اپنے حوالہ سے لگائے گئے الزامات کے ہم تک لکھ کر بھیجی ہے، اسے من و عن میں اس مقصد سے سامنے رکھ رہا ہوں کہ اگر یہ لفظ بہ لفظ صحیح ہے تو ان کی مدد کی جانی چاہیے اور اگر یہ غلط ہیں تو سچ کو سامنے رکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ محض اس بنیاد پر کہ اچانک کوئی کسی سے ملے اس کی باتوں کے مقصد کو جانے، نہ اس کے ارادوں کو، مگر اس کی زبان پر اپنا نام آجانے کی وجہ سے اس کی زندگی جہنم بن جائے تو کیا یہ مناسب ہے۔
میرے سامنے تھا اس وقت کشمیر تنازع پر دہلی سمجھوتہ1952،تاشقند سمجھوتہ10؍فروری1966، شملہ سمجھوتہ2؍جولائی 1972اور آج کی تحریر میں مجھے شیخ محمد عبداللہ کی وہ یادگار تقریر اپنے قسط وار مضمون میں شامل اشاعت کرنی تھی، جو انہوں نے دہلی ایگریمنٹ پر کونسٹیونٹ اسمبلی میں11؍اگست1952 کو دی تھی، مگر پہلے یہ خط پھر اس کے بعد شیخ عبداللہ کی تقریر کے حوالہ سے میرے چند جملے اور پھر کشمیر کی روداد۔
محترم جناب عزیز برنی صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
بعد حمد و صلوٰۃ کے عرض خدمت یہ ہے کہ میں عبد اللہ ولد زبیر عالم ایک سچا محب وطن ہندوستانی ہوں۔ صوبہ بہار کے ضلع ویشالی گاؤں مہاویو مٹھ، نزد حاجی پور کا باشندہ ہوں اور فی الحال دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں تقریباً ساڑھے چار سال سے کولکاتہ کی پریسی ڈنسی جیل میں 1/22 سیل بلاک کے کمرہ نمبر۔8 میں قیدو بند کی صعوبت سے دوچار ہوں، جسے اس کے مادر علمی مرکزی دار العلوم جامعہ سلفیہ بنارس کے ہاسٹل سے وہاں کی مقامی پولس نے دھوکے سے باہر لے جاکر کولکاتہ پولس کے حوالے کردیاتھا۔
بات 2؍فروری 2006 کی ہے، کلاسیز ختم ہونے کے بعد دوپہر کی نماز اور کھانے سے فراغت حاصل کرکے میں اپنے ہاسٹل کے کمرے میں آرام کر رہا تھا۔ تقریباً 2بجے ایک ساتھی طالب علم نے کمرے میں آکر کہا کہ عبد اللہ بھائی آپ کو شیخ الجامعہ صاحب آفس میں بلا رہے ہیں۔ میں نے کرتا پہنا،ٹوپی لگائی اور شیخ الجامعہ صاحب کے آفس کی طرف چل پڑا۔ اجازت لے کر داخل ہوا تو دیکھا کہ 2پولس والے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے میرا نام پوچھا، پھر کہا کہ آپ کے پاسپورٹ کی انکوائری آئی ہوئی ہے، آپ ذرا تھانے چل کر پاسپورٹ آفیسر سے ملاقات کرلیں۔ 15منٹ میں آپ کا کام ہو جائے گا۔ میں نے کہا کہ میں نے تو پاسپورٹ کے لئے اپلائی ہی نہیں کیا ہے تو انکوائری کیسے آگئی اور میں یوپی کا نہیں ہوں، بلکہ بہار کا رہنے والا ہوں۔ اگر اپلائی کروں گا تو اپنے صوبہ میں اور انکوائری بھی وہیں آئے گی۔ پولس والوں نے کہا کہ ہو سکتاہے کہ آپ کے گھر والوں نے آپ کے غائبانے میں اپلائی کردیا ہو، کیونکہ آپ لوگ تو اعلیٰ تعلیم کے لئے سعودی وغیرہ جاتے رہتے ہیں اور چونکہ آپ یہاں زیر تعلیم ہیں، اس لئے وہاں کے لوگوں نے انکوائری کرکے رپورٹ دی ہوگی کہ یہ آدمی یہاں نہیں بنارس میں رہتا ہے تو انکوائری یہیں آگئی۔ بس آپ تھوڑی دیر میں کام ختم کرکے آجائیں گے، تھانہ تو بغل میں ہی ہے، وہاں پاسپورٹ آفیسر آپ سے چند سوالات کرے گا کہ آپ یہاں کتنے سالوں سے زیر تعلیم ہیں وغیرہ وغیرہ، پھر آپ کا کام ختم۔ پھر میں نے شیخ الجامعہ صاحب کی طرف دیکھا، انہوں نے اجازت دے دی۔ جامعۃ کے باہر پولس کی گاڑی کھڑی تھی، انہوں نے عزت کے ساتھ جیپ میں بٹھایا۔ جب گاڑی تھانہ سے آگے دوسری طرف مڑ گئی تو میرے سوال کرنے پر انہوں نے کہا کہ پاسپورٹ آفیسر تو ایک ہوٹل میں چلے گئے، آپ کو وہیں چلنا پڑے گا۔ راستے میں پولس والے مجھ سے میری تعلیم اور پڑھائی کے تعلق سے اور مدرسہ کی روٹین لائف کے سلسلے میں بات کرتے رہے۔ پھر راستے میں جیپ سے اتار کر ایک پولس والے نے کہا کہ مولانا صاحب جیپ کو دوسری طرف جاناہے، آپ ذرا بائک پر بیٹھ جائیں۔ پھر لنکا تھانہ علاقہ کے ایک ہوٹل میں اس کی پہلی منزل کے ایک کمرے میں مجھے لے گئے۔کمرہ خالی تھا، انہوں نے کہا کہ ابھی پاسپورٹ آفیسر آنے والے ہیں آپ بیٹھئے، پھر انہوں نے چائے وغیرہ پلائی۔ جب کافی دیر ہوگئی تو میں نے کہا کہ جناب آفیسر کا پتہ نہیں ہے، آپ مجھے مدرسہ جانے دیں، میں کل پھر آجاؤں گا مجھے عصر کی نماز بھی پڑھنی ہے تو انہوں نے کہا کہ تھوڑی دیر اور انتظار کریں اور جہاں تک رہی بات نماز کی تو آپ یہیں کمرے میں پڑھ لیں، لہٰذا میں نے کمرے سے متصل واش روم میں وضو کیااور نماز کی ادائیگی کی۔
تھوڑی دیر بعد سادے لباس میں ایک آدمی کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے میرانام وغیرہ پوچھا۔ میں نے سمجھا کہ یہ پاسپورٹ آفیسر ہے، پھر اچانک اس نے پوچھا، آپ طارق اختر نام کے کسی آدمی کو جانتے ہیں۔ میں نے دماغ پر زور دے کر کہا کہ ہاں اس نام کے ایک آدمی کو میں جانتا ہوں۔ پوچھا گیا کب سے جانتے ہیں، میں بولا کہ جب میں مولوی کی تعلیم (مرحلہ ثانویہ) جامعہ اسلامیہ سنابل نئی دہلی میں حاصل کر رہا تھا جو کہ مولانا ابو الکلام آزاد اسلامک اویکننگ سینٹر کے تحت چلنے والا ایک اسلامی ادارہ ہے، تو وہیں ان صاحب سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ پوچھا کہ کیسے؟ تو میں نے کہا کہ میں ایک غریب طالب علم ہوں اور اپنے جیب خرچے کے لئے شام میں ٹیوشن وغیرہ پڑھاتا تھا، وہیں دہلی میں ایک جگہ ٹیوشن پڑھاتے ہوئے بچوں کے والد نے ایک دن اپنے سالے کے طور پر طارق اختر کا تعارف کرایاتھا۔ تھوڑی دیر تک اس آفیسر نے خاموشی اختیار کی، پھر مجھ سے کہا کہ بنارس میں چند دنوں پہلے ایک ٹرین میں دھماکہ ہوا تھا اور اس کو طارق اختر کے کہنے پر تم نے انجام دیا تھا اور طارق اختر لشکر طیبہ کا کارکن ہے۔ میں کافی پریشان ہوگیا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے تو آپ کو حقیقت بتادی کہ میں طارق اختر نام کے آدمی کو کس نوعیت سے جانتا ہوں۔ اگر بقول آپ کے کہ وہ دہشت گرد ہے تو میں اس بات سے لاعلم ہوں۔ اس شخص نے کہا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، پھر انہوں نے بہت سارے طریقے سے ڈرایا، دھمکایا کہ میں اس کی بات قبول کر لوں۔ آخر کار میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے طارق کے سامنے کرو میں خود اس سے بات کروں گا، تو وہ خاموش ہوگیا اور کہا کہ ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر میں اس کو تمہارے پاس لاؤں گا۔ پھر وہ باہر سے کمرا بند کرکے چلا گیا۔ پھر قریب آدھے گھنٹے کے بعد کمرا کھلا اور بہت سارے پولس والے داخل ہوئے اور کچھ لوگ مجھ سے سوال و جواب کرنے لگے۔ پھر تھوڑی دیر بعد وہاں پر چار پانچ سادے لباس والے پولس آفیسرز آئے، جو آپس میں بنگلہ زبان بول رہے تھے (ہمارے مدرسے میں بہت سارے بنگالی بچے پڑھتے ہیں، ان میں سے کچھ ساتھی ایسے بھی ہیں جو آپس میں بنگلہ میں بات کرتے ہیں، اس لئے اس زبان کو میں پہچان گیا) پھر وہاں پر موجود ایس ایچ او جس نے بعد میں اپنا نام تری بھون ترپاٹھی بتایا، اس نے اور ایک انسپکٹر ندیم فریدی نے کہا کہ یہ کولکاتہ پولس کے لوگ ہیں اور تمہیں وہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ پھر کولکاتہ پولس نے وہاں کے ایس ایچ او ترپاٹھی جی سے مجھے Arrest کرنے کی اجازت مانگی، پھر ترپاٹھی جی نے مجھ سے کچھ سوالات کئے اور تشفی بخش جواب پاکر کہا کہ میں اس آدمی کو آپ لوگوں کو نہیں دے سکتا، کیونکہ میرا تجربہ یہ ہے کہ یہ لڑکا دہشت گرد نہیں ہے، آپ لوگ غلط بول رہے ہیں۔ اگر آپ لوگوں کے پاس کوئی ثبوت ہے تو پیش کریں۔

चिट्ठी आई है रूदाद-ए-जुल्म लाई है
अज़ीज़ बर्नी

जब वक़्त बदलता है तो हालात बदल जाते हैं, रिश्ते बदल जाते हैं, दोस्त और साथी बदल जाते हैं। वह जो हर पल साथ रहते हैं दिलो जान की तरह फिर जुदा हो जाते हैं कुछ इस तरह गोया डूबते सूरज को देख साया भी साथ छोड़ देता है। कुछ ऐसा ही हुआ अब्दुल्ला के साथ भी। यह ज़िक्र जम्मू व कश्मीर के मुख्यमंत्री उमर अब्दुल्ला का नहीं है और ना ही डा॰ फ़ारूक़ अब्दुल्ला या शेख़ मुहम्मद अब्दुल्ला का, जिनका उल्लेख कश्मीर के हवाले से पिछले एक सप्ताह से मैं लगातार कर रहा हूं। हां, यदि कोई समानता है तो केवल इतनी कि इस व्यक्ति का नाम भी अब्दुल्ला है और नाम के लिए या यूं कहिए कि बदनामी के लिए कश्मीर से इसका भी संबंध जोड़ दिया गया है। जी हां, यह पुलिस रोज़नामचे में दर्ज एक संदिग्ध कश्मीरी आतंकवादी है। जबकि उसकी पैदाइश बिहार में, शिक्षा उत्तर प्रदेश के शहर बनारस में कुछ दिन निवास दिल्ली के बटला हाऊस में भी और अब पिछले साढ़े चार वर्षों से कोलकाता की रेज़िडेंसी जेल में है। पिछले बृहस्पतिवार के दिन मैंने अपने इस लगातार लेख की क़िस्त नं॰ 131 में ‘लब पे आती है दुआ बनके तमन्ना मेरी’ शीर्षक के तहत आइम्माए-किराम से प्रार्थना की थी कि वह इस आन्दोलन को नमाजे़ जुमा से पहले अपने ख़ुत्बात द्वारा आगे बढ़ाएं। मैं उनका कृतज्ञ हूं कि अधिकांश स्थानों पर ऐसा हुआ भी, परंतु मुझे बिल्कुल आभास नहीं था कि अगले जुमे से पहले जब मैं लिख रहा हूंगा तो एक ऐसे इमामे जुमा की कथा भी मेरे सामने होगी। जो अब जेल की सलाख़ों के पीछे हैं।
यदि किसी पर आतंकवाद का आरोप लगा दिया जाए तो उसका साया भी उससे अलग हो जाता है। मित्र, रिश्तेदार, संबंधी यदि अलग हो जाते हैं तो यह कोई बहुत हैरानी की बात नहीं है। एक दम से उन सबको आरोपित ठहराना भी मुश्किल होगा। इसलिए कि जिस प्रकार की परिस्थितियां पैदा हो गई हैं हर व्यक्ति अपने दामन पर आतंकवाद का दाग़ लगने के भय से घबराता है। ऐसे में यदि वह सब जो अब्दुल्लाह को अच्छी प्रकार से जानते हैं चाहे शिक्षा दीक्षा के हवाले से, चाहे दारुल उलूम जामिअतुल सल़्िफया से संबंध के हवाले से, चाहे विभिन्न मस्जिदों में इमाम-ए-जुमा की हैसियत से। अब सामने आकर अपने संबंधों को प्रकट करना और उनकी सच्चाई को स्पष्ट करना उनके अपने लिए नई मुसीबतों को दावत देने के समान महसूस कर रहे हैं तो इसमें हैरानी क्या है। लेकिन क्या हमें ऐसा ही करना चाहिए। अपनी परेशानियों से भयभीत होकर बेगुनाह नौजवानों को जेल की सलाख़ों के पीछे सड़ने देना चाहिए? बेगुनाहों को अनकिए गुनाहों की सज़ा मिलते देख कर भी चुप रहना चाहिए। इस्लाम को बदनाम होने देना चाहिए, ज़रा सोचिए! परेशानी में तो हम अपने आपको उस समय भी डालते हैं जब किसी सड़क पर पड़े ज़ख़्मी को अस्पताल में पहुंचाते हैं। इसके शरीर से बहने वाला ख़ून हमारे कपड़ों को रक्तिम कर देता है, मगर इस भय से हम दुर्घटनाओं को देख कर गुज़र तो नहीं जाते कि हमारे सफ़ैद वस्त्रों पर ख़ून के धब्बे लग जाएंगे। यदि हम ऐसा करने लगेंगे तो हमारे अंदर मानवता बाक़ी कहां रहेगी। इसलिए कुछ तो करना ही होगा। वह जो निर्दोष हैं हमें उन्हें निर्दोष साबित करने के लिए जी जान से जुट जाना होगा और यदि दोषी हैं तो उन्हें अपने किए की सज़ा तक पहुंचाने के लिए भी जी जान से जुट जाना होगा, यही जिहाद है।
शब्द ‘जिहाद’ को जिस परिदृश्य में पेश किया जाने लगा है, अब यह शब्द भी भयभीत कर देता है, परंतु सच तो यह है कि मैं जो लिख रहा हूं यह जिहाद है जो बोलता रहा हूं, वह जिहाद है जो कर रहा हूं, वह जिहाद है। करबला की धरती पर यज़ीद के विरुद्ध रसूल के नवासे ने जो किया वह जिहाद था। श्री राम ने रावण के विरूद्ध जो किया वह जिहाद था। अंग्रेज़ों के विरुद्ध मुजाहिदीने हिंद ने जो किया वह जिहाद था। कब किसने और क्यों, किन उद्देश्यों के पेशेनज़र आतंकवाद को जिहाद का नाम दे दिया, यह खोज का विषय है, जिसकी उपेक्षा नहीं की जानी चाहिए। आज मैं एक ऐसे रिसर्च इंस्टीट्यूट की बहुत अधिक ज़रूरत महसूस करता हूं जहां ऐसे तमाम विषयों पर रिसर्च की जाए जिनका संबंध भारत के मौजूदा हालात से हो, आतंकवाद के कारणों से हो। मुसलमानों को देश विभाजन और आतंकवाद से जोड़े जाने से हो। मुझे इसमें गहरा षड़यंत्र नज़र आता है कि इस शब्द को जिसके द्वारा क़ुरआन-ए-करीम में देश प्रेम और मानव मित्रता का संदेश दिया गया है उसके विपरीत मानवता से दुश्मनी और वतन से ग़द्दारी के अर्थों मंे लोगांें के मस्तिष्क में बैठाने की कोशिशें की जा रही हैं। जिसकी तह तक जाने की अत्यधिक आवश्यकता है। बहरहल मैं ज़िक्र कर रहा था अब्दुल्ला का जिसका संबंध बिहार के ज़िला वैशाली गांव महादेव मठ, निकट हाजीपुर और उत्तर प्रदेश के मदरसे मरकज़ी दारुल उलूम जामिआ सलफ़िया बनारस से है और अब पिछले लगभग साढ़े चार वर्ष से कोलकाता की जेल में है। उसने जेल की सलाख़ों के पीछे से अपनी ड्रामाई गिरफ़्तारी और फिर क़ैदी के रूप में कष्टों की दास्तान, चार्जशीट सहित हम तक लिख कर भेजी है। इसे ज्यों का त्यों मैं इस उद्देश्य से सामने रख रहा हूं कि यदि यह शब्दशः सही है तो उनकी मदद की जानी चाहिए और यदि यह ग़लत है तो सच को सामने रखने की कोशिश की जानी चाहिए। केवल इस बुनियाद पर कि अचानक कोई किसी से मिले,उसकी बातों के उद्देश्य को जाने न उसके इरादों को, परंतु उसकी ज़बान पर आपना नाम आजाने के कारण उसका जीवन नर्क बन जाए तो क्या यह उचित है। मेरे सामने इस समय कश्मीर विवाद पर दिल्ली समझौता 1952, ताशकंद समझौता 10 फरवरी 1966, शिमला समझौता 2 जुलाई 1972 और आज के लेख में मुझे शेख़ मुहम्मद अब्दुल्ला का वह यादगार भाषण अपने इस क़िस्तवार लेख में प्रकाशित करना था जो उन्होंने दिल्ली एग्रीमेंट पर संविधान सभा में 11 अगस्त 1952 को दिया था, परंतु पहले यह पत्र फिर इसके बाद शेख़ अब्दुल्ला के भाषण के हवाले से मेरे कुछ वाक्य और फिर कश्मीर की व्यथा।
श्रीमान अज़ीज बर्नी साहब
अस्सलामु अलैकुम वरहमतुल्लाह वबराकातहू
बाद हम्दो सलाम के
निवेदन है कि मैं अब्दुल्लाह वल्द ज़ुबैर आलम एक सच्चा देश भक्त भारतीय हूं और फिलहाल आतंकवाद के झूठे आरोप में लगभग साढ़े चाल साल से कोलकाता की प्रेसिडेंसी जेल में 1/22 सेल ब्लाक के कमरा नं॰ 8 में जेल के कष्टों से दोचार हूं, जिसे उसके मदरसा मरकज़ी दारुल उलूम जामेआ सलफ़िया बनारस के हाॅस्टिल से वहां की स्थानीय पुलिस ने धोखे से बाहर ले जाकर कोलकाता पुलिस के हवाले कर दिया था।
बात 2 फरवरी 2006 की है। क्लासें ख़त्म होने के बाद दोपहर की नमाज़ और खाने से निमटने के बाद मैं अपने हाॅस्टल के कमरे में आराम कर रहा था। लगभग 2 बजे एक साथी छात्र ने कमरे में आकर कहा कि अब्दुल्ला भाई आपको शेख़ुल जामेआ साहब आॅफ़िस में बुला रहे हैं। मैंने कुर्ता पहना टोपी लगाई और शैख़ुल जामेआ के आॅफ़िस की तरह चल पड़ा। आज्ञा लेकर दाख़िल हुआ तो देखा कि दो पुलिस वाले बैठे हैं। उन्होंने मेरा नाम पूछा फिर कहा कि आपके पासपोर्ट की इन्क्वायरी आई है, आप ज़रा थाने चल कर पासपोर्ट आॅफ़िसर से भेंट कर लें। 15 मिनट में आपका का काम हो जाएगा। मैंने कहा कि मैंने तो पासपोर्ट के लिए एपलाई ही नहीं किया है? फिर इन्क्वायरी कैसे आ गई, और मैं यूपी का नहीं हूं, बिहार का रहने वाला हूं। यदि एपलाई करूंगा तो अपने राज्य में और इन्क्वायरी भी वहीं आएगी। पुलिस वालों ने कहा कि हो सकता है कि आपके घर वालों ने आपकी ग़ैर हाज़री में एपलाई कर दिया हो, क्योंकि आप लोग तो उच्च शिक्षा के लिए सऊदी वग़्ौरह जाते रहते हैं और चूंकि आप यहां शिक्षा ले रहे हैं, इसीलिए वहां के लोगों ने इन्क्वायरी करके रिपोर्ट दी होगी कि यह आदमी यहां नहीं बनारस में रहता है तो इन्क्वायरी यहीं आ गई। बस आप थोड़ी देर में काम समाप्त करके आ जाएंगे, थाना तो बग़ल में ही है, वहां पासपोर्ट आॅफ़िसर आपसे कुछ प्रश्न करेगा कि आप यहां कितने वर्षों से शिक्षा ले रहे हैं आदि आदि। फिर आपका का काम समाप्त फिर मैंने शैख़ुल जामेआ साहब की ओर देखा उन्होंने आज्ञा दे दी। जामिया के बाहर पुलिस की गाड़ी खड़ी थी, उन्होंने सम्मान के साथ गाड़ी में बैठाया। जब गाड़ी थाने से आगे दूसरी ओर मुड़ गई, तो मेरे प्रश्न के उत्तर में उन्होंने कहा कि पासपोर्ट आॅफ़िसर एक होटल में चले गए हैं आपको वहीं चलना पड़ेगा। रास्ते में पुलिस वाले मुझसे मेरी शिक्षा और पढ़ाई के संबंध में और मदरसे के दैनिक जीवन के सिलसिले में बात करते रहे। फिर रास्ते में जीप से उतार कर एक पुलिस वाले ने कहा कि मौलाना साहब जीप को दूसरी ओर जाना है, आप ज़रा बाइक पर बैठ जाएं। फिर वे लंका थाना इलाक़े के एक होटल में उसकी पहली मंज़िल के कमरे में मुझे ले गए। कमरा ख़ाली था। उन्होंने कहा कि अभी पासपोर्ट आॅफ़िसर आने वाले हैं आप बैठिए। उन्होंने चाय वग़ैरह पिलाई, जब काफ़ी समय हो गया तो मैने कहा कि श्रीमान आॅफ़िसर का पता नहीं है, आप मुझे मदरसा जाने दें। मैं कल फिर वापस आ जाऊंगा। मुझे अस्र की नमाज़ भी पढ़नी है। तो उन्होंने कहा कि थोड़ी देर और प्रतीक्षा करें और जहां तक रही बात नमाज़ की तो आप यहीं कमरे में पढ़ लें। इसलिए मैंने कमरे से लगे हुए वाॅशरूम में वुज़्ाू किया और नमाज़ अदा की।
थोड़ी देर बाद सादे वस्त्रों में एक आदमी कमरे में आया, उसने मेरा नाम पूछा, मैंने समझा कि यह पासपोर्ट आॅफ़िसर है। फिर अचानक उसने पूछा, आप तारिक़ अख़्तर नाम के किसी आदमी को जानते हैं? मैंने दिमाग़ पर ज़ोर देकर कहा कि हां इस नाम के एक आदमी को मैं जानता हूं। पूछा गया कि कब से जानते हैं? मैं बोला कि जब मैं मौलवी की शिक्षा (मरलहल-ए-सानविया) जामिआ इस्लामिया सनाबिल नई दिल्ली में प्राप्त कर रहा था। जो कि मौलाना अबुलकलाम आज़ाद इस्लामिक अवैक्निंग सेंटर के तहत चलने वाली एक इस्लामी संस्था है वहीं इन साहब से मेरी भेंट हुई थी। पूछा कि कैसे? तो मैंने कहा कि मैं एक ग़रीब छात्र हूं और अपनी जेब ख़र्च के लिए शाम में ट्यूशन वग़ैरह पढ़ाता था। वहीं दिल्ली में एक जगह ट्यूशन पढ़ाते हुए बच्चों के पिता ने एक दिन अपने साले साहब के तौर पर तारिक़ अख़्तर का परिचय कराया था। थोड़ी देर तक इस आॅफ़िसर ने मौन धारण किया, फिर मुझसे कहा कि बनारस में कुछ दिन पहले एक ट्रेन धमाका हुआ था और उसको तरिक़ अख़्तर के कहने पर तुमने किया था और तारिक़ अख़्तर लश्कर-ए-तैयबा का कार्यकर्ता है। मैं काफ़ी परेशान हो गया कि यह क्या मामला है। मैंने कहा कि मैंने तो आपको हक़ीक़त बता दी कि मैं तारिक़ अख़्तर नामक आदमी को किस तरह से जानता हूं। यदि आप के कथन अनुसार वह आतंकवादी है तो मैं इस बात से अनभिज्ञ हूं। उस व्यक्ति ने कहा कि तुम झूठ बोल रहे हो। फिर उन्होंने बहुत सारे तरीक़े से डराया धमकाया कि मैं उसकी बात को स्वीकार कर लूं। आख़िरकार मैंने उनसे कहा कि आप मुझे तारिक़ के सामने करो, मैं स्वयं उससे बात करूंगा, तो वह चुप हो गया और कहा कि ठीक है मैं थोड़ी देर में उसको तुम्हारे सामने लाऊंगा। फिर वह बाहर से कमरा बंद करके चला गया। फिर लगभग आधा घंटे के बाद कमरा खुला और बहुत सारे पुलिस वाले दाख़िल हुए और कुछ लोग मुझसे प्रश्न-उत्तर करने लगे। फिर थोड़ी देर बाद वहां पर चार-पांच सादे वस्त्रों वाले पुलिस अधिकारी आए। जो आपस में बंगला भाषा बोल रहे थे (हमारे मदरसे में बहुत सारे बंगाली बच्चे पढ़ते हैं उनमें से कुछ साथी ऐसे भी हैं जो आपस में बंगला में बात करते हैं इसलिए इस भाषा को मैं पहचान गया।) फिर वहां पर मौजूद एसएचओ जिसने बाद में अपना नाम त्रिभुवन त्रिपाठी बताया उसने और एक इंस्पेक्टर नदीम फ़रीदी ने कहा कि यह कोलकाता पुलिस के लोग हैं और तुम्हें वहां ले जाना चाहते हैं। फिर कोलकाता पुलिस ने वहां के एसएचओ त्रिपाठी जी से मुझे गिरफ़्तार करने की आज्ञा मांगी, फिर त्रिपाठी जी ने मुझसे से कुछ प्रश्न किए और संतोषजनक उत्तर पाकर कहा कि मैं इस आदमी को आप लोगों को नहीं दे सकता। क्योंकि मेरा अनुभव यह है कि यह लड़का आतंकवादी नहीं है, आप लोग ग़लत बोल रहे हैं। यदि आप लोगों के पास कोई सबूत है तो पेश करें।

ہاں میں نے پڑھا ہے اس پتھر پہ لکھی عبارت کو۔۔۔

عزیز برنی

کشمیر ہمارے سینہ پر تقسیم کا سب سے گہرا زخم ہے، جس سے خون بہتے بہتے آج 61برس گزرگئے۔ یہ ہماری تیسری نسل ہے، جو آزادی کے بعد آزادی کی قیمت ادا کررہی ہے۔ ہمارے اس خون میں ان بزرگوں کا خون بھی شامل ہے، جو انگریزوں کے خلاف ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑرہے تھے اور آزادی کے بعد اپنے حقوق کی جنگ لڑتے لڑتے اس دنیا سے چلے گئے۔ پھر ان کے بعد اپنے حقوق کی جنگ وراثت میں ملی، ان کے بعد کی نسلوں کو اور اب یہ جنگ صرف حقوق اور اختیارات کی جنگ نہیں رہ گئی تھی، بلکہ اب یہ جنگ ان کی آبرو اور وقار کی جنگ بھی تھی، بلکہ یہ ہماری ماوؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت کے تحفظ کی جنگ بھی تھی۔ یہ جنگ دنیا کی جنت کشمیر کے حسن کے تحفظ کی جنگ بھی تھی۔ صحیح معنوں میں اب کشمیریوں کے لیے یہ کشمیر اور کشمیریت کی بقا کی جنگ تھی، جس میں کشمیر بھی اکیلا تھا اور کشمیری بھی۔ یہاں حفاظتی دستے آئے تو مگرکچھ اس طرح جیسے سر سے شوہر کا سایہ اٹھ جانے کے بعد ماتم پرسی کے بہانے آنے والے کچھ بدنیت لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں اس حسین بیوا کی عصمت پر ڈاکا ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہوں، جو بدقسمتی سے اب بے سہارا ہوگئی ہے۔ سیلانیوں کی تعداد کم سہی، مگر اس زمین کا قدرتی حسن انہیں وادیوں کے پرکشش نظاروں کو اپنی آنکھوں میں قید کرنے کے لیے کھینچ ہی لاتاتھا، مگر انہیں کشمیریوں کا درد بانٹنے میں کوئی دلچسپی نہ ہوتی، ان کی توجہ کا مرکز تو ہوتا ان پہاڑوں کا حسن، سون مرگ گل مرگ، وادئ بنگلس، زبرون وغیرہ انہیں ان حسین وادیوں میں پتھروں کا حسن تو دکھائی دیتا، لیکن زندہ انسانوں کے پتھر بن جانے کی کہانی میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ دریائے چناب، جہلم اور لدر کا رقص کرتا ہوا اور موسیقی کی دھن پیدا کرتا پانی تو انہیں دکھائی دیتا، اہربل آبشار کی خوبصورتی نظر آتی، مگر اس پانی میں کتنے بے گناہوں کا خون شامل ہے، یہ وہ نہیں جانتے اور نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جھیل سی گہری آنکھوں سے بہنے والے اشک اب اس ڈل جھیل کا مقدر بن گئے ہیں، مگر بانہوں میں بانہیں ڈالے حسین جوڑوں کو کیا خبر۔
قسط در قسط خون کا جزیہ دینے کا سلسلہ خدا جانے کب تھمے گا، اب تو یہ خون کے پیاسے نئی نسل کے جوان ہونے کا انتظار بھی نہیں کرتے۔ پھولوں اور تتلیوں سے کھیلنے کی عمر ہے جن بچوں کی، یہ ان کے خون سے ہولی کھیلتے نظر آتے ہیں۔ کسی خاندان کی آبرو بننے کی حسرت اپنے دل میں لیے جو کم سن بچیاں اپنے وجود کو چھپاتی پھرتی ہیں، ان کی عیاری، مکاری اور ہوس ان کے ارمانوں کے ساتھ ان کی آبرو کا بھی خون کرڈالتی ہے اور سب کے سب تماشائی بن گئے ہیں، کچھ مجبوری میں، کچھ معذوری میں تو کچھ مکاری میں۔
انقلاب اب ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا ہوا ایک لفظ بھر رہ گیا ہے۔ وہ آوازیں جو زندگی بخش دیں اس لفظ کو، نہ جانے کیوں خاموش ہوگئی ہیں۔ ظالموں، جابروں کے حوصلہ توڑ دینے والے نغمے اب فضاؤں میں نہیں گونجتے، شاید اس دور کی سچائی بس اب یہی ہے، جو اپنے اس شعر میں جناب بشیر بدر نے بیان کی ہے۔
بڑے شوق سے مرا گھر جلا کوئی آنچ تجھ پر نہ آئے گی
یہ زباں کسی نے خرید لی یہ قلم کسی کا غلام ہے
طفیل کی عمر 17سال تھی، وہ ٹیوشن پڑھ کر آرہا تھا کہ پولس کا شکار ہوگیا۔یہ واقعہ غنی میموریل اسٹیڈیم جوکہ پاٹن شہر کے راجوری کدل علاقہ میں واقع ہے کے پاس کا ہے۔ اس علاقہ میں اس سے قبل پولس کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے اور پولس مظاہرین کو بھگانے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے پر اتر آئی تھی۔ عینی شاہدین کے مطابق جس جگہ طفیل کو نشانہ بنایا گیا، وہاں اس وقت نہ ہی کوئی احتجاج ہورہا تھا اور نہ کوئی اشتعال پیدا کرنے والی سرگرمی، تاہم پولس نے طفیل کے سر پر نشانہ لگاکر آنسو گیس کا ایک گولہ پھینکا، جس نے اس معصوم کی جان لے لی۔ پولس نے اس واقعہ سے بچنے کی کوشش کی، لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ نے واضح کردیا کہ طفیل کی موت پولس کے گولے سے ہی ہوئی تھی۔
طفیل کے قتل سے ٹھیک چار مہینے دس دن پہلے اسی مقام پر انہیں حالات میں وامق فاروق نامی ایک اور معصوم کا قتل کیا گیا تھا۔ ریناوادی علاقہ کا 13سالہ وامق فاروق کرکٹ کے کھیل کا زبردست شوقین تھا اور وہ اپنا محبوب کھیل کھیلنے کے لیے غنی میموریل کی جانب آرہا تھا کہ ایک پولس افسر نے اس کا نشانہ باندھا اور آنسو گیس کے گولے سے اس معصوم کی جان لی۔ وامق کے قتل کے بعد بھی وادی میں احتجاج کی لہر تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی کہ ڈل جھیل کے کنارے معروف سیاحی مرکز نشاط باغ کے نزدیک زاہد فاروق نامی ایک 16سالہ لڑکے کو بی ایس ایف کے ایک کمانی افسر آر کے بردی(BIRDI)کے کہنے پر اس کے محافظ لکھنوندر سنگھ نے گولی مار کر قتل کردیا۔ زاہد اس وقت محلے سے باہر ڈل جھیل کے کنارے اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے آیا تھا۔ آر کے بردی جن کی پوسٹنگ گلمرگ میں تھی، وہاں سے یونہی گزررہے تھے کہ جب انہوں نے زاہد پر گولی چلائے جانے کا حکم دیا اور معصوم کی جان لی، جبکہ نشاط میں نہ ہی کوئی احتجاج ہورہا تھا اور نہ ایسی کوئی دیگر سرگرمی۔
دیور گاؤں کے رہنے والے حبیب اللہ خان کی عمر75سال تھی، جو اپنے بیٹے کو دہشت گرد قرار دے کر مار دئے جانے کے بعد اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے تھے اور موت کے انتظار میں زندہ رہنے کے لیے بھیک مانگ کر پیٹ بھرنے کے لیے مجبور تھے، انہیں کیا خبر تھی کہ اپنے پیٹ کے لیے آخر غذا کی شکل میں انہیں بندوق کی گولی ملے گی اور وادی کا سب سے عمر رسیدہ دہشت گرد ہونے کا تمغہ۔
1990کا یہ دردناک واقعہ خون کے آنسو رولادینے والا ہے، جب فوج کی راجپوت ریجمنٹ نے پکھوارا ضلع کے کنن پوش پورا نامی گاؤں کا کریک ڈاؤن کرکے یہاں کے مردوں کو ایک میدان میں جمع کیا اور گھروں میں موجود خواتین،جن میں15سے75برس تک عمر والی تقریباً100خواتین تھیں کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔
کیا ایسے پریشان حال چہروں میں کبھی آپ کو اپنا بیٹا، بھائی ہونے کا احساس نہیں ہوتا؟ کیا ان لڑکیوں میں آپ کو اپنی بیٹی یا بہن نظر نہیں آتی؟ اتنے بے حس تو ہم کبھی نہ تھے، اگر ہوتے تو آزادی کی جنگ کیسے لڑتے اور جیتتے۔
تاریخی حوالے میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا رہوں گا، جو گزشتہ چند روز سے کررہا ہوں، مگر یہ سلسلہ ذرا لمبا ہے، اس لیے سوچتا ہوں بیچ بیچ میں آج کی تلخ حقیقت بھی آپ کے سامنے رکھی جاتی رہے، تاکہ واضح رہے کہ کیوں میں گڑے مردے اکھاڑنے بیٹھ گیاہوں۔ کیوں گمشدہ ہوتی جاری تاریخ کو پرت در پرت منظرعام پر لانے کا سلسلہ شروع کربیٹھا ہوں۔ کوئی ضرورت نہیں ہوتی اگر کشمیر کے حالات معمول پر ہوتے اور ان حالات کا اثر تمام ہندوستان کے مسلمانوں پر نہ پڑرہا ہوتا، پورے ہندوستان پر نہ پڑرہا ہوتا۔ میں بھی وقت کی گرد میں دبی ان سچائیوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتا۔ دفن ہوجانے دیتا ان حقائق کو، ان زندہ انسانوں کی طرح جو کشمیر کی آن بان اور شان ہوسکتے تھے، مگر ان بدنصیبوں کو قبرستان بھی نصیب نہیں ہوسکا۔ میں رہا ہوں کچھ روز کشمیر کے ایک ایسے گھر میں جس کے آنگن میں نہ جانے کتنے بے گناہوں کی لاشیں دفن تھیں، صرف وہ بے زبان درودیوارا گواہ ہیں ان کی آہوں کے، چیخوں کے اب جو بول نہیں سکتے پر نہ جانے کیوں ابھی میرا بھروسہ نہیں ٹوٹاہے، شاید اس لیے کہ مجھے محترم منوررانا کے ان اشعار پر یقین کامل ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں شاید کہ یہ اشعار ’’لفظ‘‘ انقلاب کو پھر سے پرمعنی بنادیں اور ایک نئی زندگی بخش دیں۔
میں دہشت گرد تھا مرنے پہ بیٹا بول سکتا ہے
حکومت کے اشارے پر تو مردہ بول سکتا ہے
یہاں پر نفرتوں نے کیسے کیسے گل کھلائے ہیں
لٹی عصمت بتا دے گی دوپٹہ بول سکتا ہے
حکومت کی توجہ چاہتی ہے یہ جلی بستی
عدالت پوچھنا چاہے تو ملبہ بول سکتا ہے
کئی چہرے ابھی تک منہ زبانی یاد ہیں اس کو
کہیں تم پوچھ مت لینا وہ گونگا بول سکتا ہے
سیاست ان دنوں انسان کے خوں میں نہاتی ہے
گواہی کی ضرورت ہو تو دریا بول سکتا ہے
عدالت میں گواہی کے لیے لاشیں نہیں آتیں
وہ آنکھیں بجھ چکی ہیں پھر بھی چشمہ بول سکتا ہے
بہت سی کرسیاں اس ملک میں لاشوں پہ رکھی ہیں
یہ وہ سچ ہے، جسے جھوٹے سے جھوٹا بول سکتا ہے
سیاست کی کسوٹی پہ پرکھیے مت وفاداری
کسی دن انتقاماً میرا غصہ بول سکتا ہے
شاید کہ یہ چند اشعار کشمیر کے حالات کی ترجمانی کرتے نظر آئیں اور آپ کو اس انقلاب پر آمادہ کردیں، جو آج وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
آئیے میں پھر واپس لوٹتا ہوں، کشمیر کے حالات کی طرف بالخصوص وہ حالات جو طفیل کی دردناک موت کے بعد آج سے چند روز قبل میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ہاں مجھے احساس ہے اس سمت میں اچھالے گئے پتھر کا، جدھر سے میں گزر رہا تھا۔ وہ میرا جنم دن تھا۔ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ کشمیر کی وادیوں میں تھا۔ میں اس دن سے ایک بہت بامقصد شروعات کرنا چاہتا تھا، اسی لیے اس مخصوص دن ارادتاً سری نگر میں تھا۔ دہلی سے جب چلا حالات تقریباً معمول پر تھے، مگر سری نگر کی زمین پر قدم رکھتے ہی یہ احساس ہوگیا کہ اس زمین کے لیے معمول کی زندگی تو بس خوابوں کی بات ہے، ہم جیسے لوگ جو ان حالات سے بے نیاز رہتے ہیں، غلط فہمی کا شکار ہیں اور سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہاں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔
15؍جون کی صبح میں سری نگر سے گلمرگ کی طرف جارہا تھا۔ سب سے آگے سیکورٹی کی گاڑی تھی، اس کے بعد کی گاڑی میں میرے بچے اور اس کے بعد کی گاڑی میں خود و میری بیگم اور ایک مسلح پی ایس اوتھا اورسب سے پیچھے ہمارے مقامی نمائندے کی گاڑی تھی۔ تبھی ایک زوردار پتھر سیکورٹی کار کے شیشے پر لگا، شیشہ چکناچور ہوگیا اور ڈرائیور زخمی۔ تیزی سے گاڑیاں واپس لوٹیں، راستہ بدلا اور پھر نئے راستہ سے منزل کی طرف بڑھنے لگیں۔
یہ ردعمل 17سالہ طفیل کے پولس کے گولے کا شکار ہوجانے کی وجہ سے تھا۔ یہ پتھر مجھے تو نہیں لگا، مگر اس پتھر کی چوٹ سے میرے اندر کا صحافی زخمی ہوگیا۔ مجھے لگا یہ پتھر مجھ سے کچھ کہہ رہا ہے، مجھے اس پتھر کی آواز کو سننا چاہیے، سمجھنا چاہیے اور سب کو سمجھانا چاہیے۔ اگر میں مانتا ہوں کہ پتھر بول سکتے ہیں تو شروعات اسی پتھر کی گواہی کو سامنے رکھ کرنی ہوگی۔ ہاں وہ پتھر گواہ تھا ان حالات کا، جن سے کشمیر کے لوگ گزر رہے ہیں۔عکاسی کرتا تھا ان کے جذبات کی۔ جن کے ہاتھوں میں یہ پتھر تھے، وہ اتنے بے وقوف نہیں ہیں کہ اتنا بھی نہیں سمجھتے ان کا پتھر صرف ان کے غصہ کا اظہار کرسکتا ہے، کسی کی جان نہیں لے سکتا، مگر اس پتھر کے جواب میں چلنے والی گولی ان کی جان لے سکتی ہے، پھر بھی وہ اپنے ہاتھوں میں پتھر لیے ہوئے تھے، شاید اس لیے کہ ان کے اس پتھر کی آہٹ شاید کسی کو بیدار کردے۔ میں تائید نہیں کرتا ان کے اس پتھر کی زبان کی، مگر تائید کرتا ہوں حق اور انصاف کی تلاش میں ان کے جذبہ کی،اس لیے لکھ رہا ہوں کہ شاید آپ کو بھی متوجہ کرسکوں اور پھروہ وقت بھی آئے کہ جن کے ہاتھوں میں پتھر ہیں، وہاں پھول نظر آئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Sunday, June 27, 2010

हां मैंने पढ़ा है उस पत्थर पे लिखी इबारत को......
अज़ीज़ बर्नी

कश्मीर हमारे सीने पर विभाजन का सबसे गहरा ज़ख्म है जिससे ख़ून बहते बहते आज 61 वर्ष गुज़र चुके हैं। यह हमारी तीसरी पीढ़ी है जो आज़ादी के बाद हमारी आज़ादी की क़ीमत चुका रही है। हमारे इस ख़ून में उन बुज़ुर्गों का ख़ून भी शामिल है जो अंग्रेज़ों के विरुद्ध भारत की स्वतंत्रता के लिए जंग लड़ रहे थे और आज़ादी के बाद अपने अधिकारों की जंग लड़ते लड़ते इस दुनिया से चले गए। फिर उनके बाद अपने अधिकारों की जंग विरासत में मिली उनके बाद की आने वाली नस्ल को और अब यह जंग केवल अधिकारों की जंग नहीं रह गई, बल्कि अब यह जंग उनके सम्मान और विक़ार की जंग भी थी, यह हमारी मांओं, बहनों और बेटियों की इज़्ज़त की रक्षा की जंग भी थी, यह जंग दुनिया की जन्नत कश्मीर के सौंदर्य की रक्षा की जंग भी थी, बल्कि सही अर्थों में अब कश्मीरियों के लिए यह कश्मीर और कश्मीरियत के अस्तित्व की जंग थी, जिसमें कश्मीर भी अकेला था और कश्मीरी भी। यहां सुरक्षा दस्ते आए तो मगर कुछ इस तरह जैसे सर से पति का साया उठ जाने के बाद मातमपुर्सी के बहाने आने वाले कुछ बदनियत लोग आंखों ही आंखों में उस हसीन बेवा की इज़्ज़त पर डाका डालने का इरादा रखते हों, जो दुर्भाग्यवश अब बेसहारा हो गई है। पर्यटकों की संख्या कम सही मगर इस धरती का प्राकृतिक सौंदर्य उन्हें घाटियों के संुदर दृश्यों को अपनी आंखों में क़ैद करने के लिए खींच ही लाता था। परन्तु उन्हें भी कश्मीरियों का दर्द बांटने में कोई दिलचस्पी नहीं होती। उनके आकर्षण का केंद्र तो होता है उन पहाड़ों का सौंदर्य, सोनमर्ग, गुलमर्ग, वादी-ए-बंगलस, जबरून इत्यादि उन्हें उन सुंदर घाटियों में पत्थरों का सौंदर्य तो दिखाइ देता लेकिन जीवित लोगांें के पत्थर बन जाने की कहानी में इनकी कोई रुचि नहीं होती। चिनाब नदी, जेहलुम और लदर का नाचता और संगीत की ध्वनि उत्पन्न करता जल कलख तो उन्हें दिखाई देता, अहरबल के झरने का सौंदर्य नज़र आता, मगर इस पानी में कितने बेगुनाहों का ख़ून शामिल है यह वह नहीं जानते और न जानने का प्रयास करते हैं। झील सी आंखों से बहने वाले आंसू अब इस डल झील का भाग्य बन गए हैं, मगर बाहों में बाहें डाले हसीन जोड़ों को क्या ख़बर।

क़िस्त दर क़िस्त ख़ून का जजि़्ाया देने का सिलसिला ख़ुदा जाने कब थमेगा, अब तो यह ख़ून के प्यासे नई नस्ल के जवान होने की प्रतीक्षा भी नहीं करते। फूलों और तितलियों से खेलने की उम्र है जिन बच्चों की, यह उनके ख़ून से होली खेलते नज़र आते हैं। किसी परिवार की आबरू बनने की हसरत अपने दिल में लिए जो कमसिन बच्चियां अपने आपको छुपाती फिरती हैं इनकी चालाकी, मक्कारी और हवस उनके अरमानों के साथ उनकी आबरू का भी ख़ून कर डालती है और सबके सब तमाशाई बन जाते हैं, कुछ मजबूरी में, कुछ माज़्ाूरी में तो कुछ मक्कारी में।

इनक़लाब अब एक काग़ज़ के टुकड़े पर लिखा हुआ एक शब्द भर रह गया है। वह आवाज़ें जो जीवन बख़्श दें इस शब्द को, न जाने क्यों ख़ामोश हो गई हैं। ज़ालिमों, जाबिरों के हौसले तोड़ देने वाले गीत अब वातावरण में नहीं गूंजते, शायद इस दौर की सच्चाई बस अब यही है जो अपने इस शेर में जनाब बशीर बद्र ने बयान की है।

बड़े शौक़ से मेरा घर जला कोई आंच तुझ पे न आएगी

यह ज़बां किसी ने ख़रीद ली यह क़लम किसी का ग़्ाुलाम है

तुफ़ैल की आयु 17 वर्ष थी, वह ट्यूशन पढ़ कर आ रहा था कि पुलिस का शिकार हो गया। यह घटना ग़नी मैमोरियल स्टेडियम जो कि पाटन शहर के राजोरी कदल क्षेत्र में स्थित है के पास की है। इस क्षेत्र में इससे पूर्व पुलिस के खिलाफ़ विरोध प्रदर्शन हुए थे और पुलिस प्रदर्शन कारियों को भगाने के लिए शक्ति का प्रयोग करने पर उतर आई थी। चश्मदीद गवाहों के अनुसार जिस जगह तुफ़ैल को निशाना बनाया गया वहां उस समय न ही कोई विरोध प्रदर्शन हो रहा था और न कोई भड़काने वाली गतिविधि, फिर भी पुलिस ने तुफ़ैल के सर पर निशाना लगा कर आंसू गैस का एक गोला फैंका जिसने उस मासूम की जान ले ली। पुलिस ने इस घटना से बचने का प्रयास किया, लेकिन पोस्टमार्टम रिपोर्ट ने स्पष्ट कर दिया कि तुफैल की मृत्यु पुलिस के गोले से ही हुई थी।

तुफ़ैल की हत्या से ठीक चार महीने 10 दिन पूर्व इसी स्थान पर इन्हीं परिस्थितियों में ‘वामिक़ फ़ारूक़ी’ एक और मासूम का क़त्ल किया गया था। रैना वादी क्षेत्र का 13 वर्षीय वामिक़ फ़ारूक़ क्रिकेट के खेल का ज़बरदस्त शौक़ीन था और अपना प्रिय खेल खेलने के लिए ग़नी मैमोरियल की ओर आ रहा था कि एक पुलिस अधिकारी ने उसका निशाना बांधा और आंसू गैस के गोले से उस मासूम की जान ले ली। वामिक़ की हत्या के बाद भी घाटी में विरोध प्रदर्शनों की लहर थमने का नाम नहीं ले रही थी कि डल झील के किनारे प्रसिद्ध पर्यटक स्थल निशात बाग़ के निकट ज़ाहिद फ़ारूक़ नामी एक 16 वर्षीय लड़के को बीएसएफ़ के एक कमांडिंग अफ़सर आर.के बर्दी के कहने पर उसके संरक्षक लखविंदर सिंह ने गोली मार कर क़त्ल कर दिया। ‘ज़ाहिद’ उस समय मुहल्ले से बाहर डल झील के किनारे पर अपने दोस्तों के साथ क्रिकेट खेलने आया था। आरके बर्दी जिनकी पोस्टिंग गुलमर्ग मंे थी वहां से यूंही गुज़र रहे थे कि जब उन्होंने ज़ाहिद पर गोली चलाने का आदेश दिया और मासूम की जान ले ली। जबकि निशात में न ही कोई विरोध प्रदर्शन हो रहा था और न ऐसी कोई अन्य गतिविधि।

देवर गांव के रहने वाले हबीबुल्लाह ख़ां निवासी की आयु लगभग 75 वर्ष थी, जो अपने बेटे को आतंकवादी क़रार दे कर मार दिए जाने पर अपना मानसिक संतुलन खो बैठे थे, और मौत की प्रतीक्षा में जिं़दा रहने के लिए भीख मांग कर पेट भरने के लिए विवश थे, उन्हें क्या पता था कि अपने पेट के लिए आख़िरी भोजन के रूप में उन्हें बंदूक़ की गोली मिलेगी और घाटी का सबसे वृद्ध आतंकवादी होने का तमग़ा।

1990 की यह दर्दनाक घटना खून के आंसू रूला देने वाली है, जब फौज की राजपूत रेजमैंट ने पखवारा ज़िले के कननपोश पुरा नामी गांव का क्रेक डाउन करके यहां के मर्दों को एक मैदान में जमा किया और घरों में मौजूद महिलाओं जिनमें 15 से 75 वर्ष तक की आयु वाली लगभग 100 महिलाए थीं, जिनकी इज़्ज़त लूटी गई।

क्या ऐसे परेशान हाल चेहरों में कभी आपको अपना बेटा भाई होने का एहसास नहीं होता? क्या उन लड़कियों में आपको अपनी बेटी या बहन नज़र नहीं आती? इतने बेहिस तो हम कभी न थे अगर होते तो आज़ादी की जंग कैसे लड़ते और जीतते।

ऐतिहासिक हवाले मैं आपकी सेवा में पेश करता रहूंगा जो पिछले कुछ दिनों से कर रहा हूं, मगर यह सिलसिला ज़रा लम्बा है इसीलिए सोचता हूं बीच बीच में आज की कड़वी सच्चाई भी आपके सामने रखी जाती रहे ताकि स्पष्ट रहे कि क्यों मैं गढ़े मुर्दे उखाड़ने बैठ गया हूं क्यों गुम होते जा रहे इतिहास को परत दर परत आम लोगों के सामने लाने का सिलसिला शुरू कर बैठा हूं। कोई आवश्यकता नहीं होती अगर कश्मीर की स्थितियां सामान्य होतीं और इन परिस्थितियों का प्रभाव तमाम भारत के मुसलमानों पर न पड़ रहा होता। मैं भी समय की गर्द में दबी इन सच्चाइयों को उजागर करने की आवश्यकता महसूस न करता। दफ़न हो जाने देता उन तथ्यों को, उन जीवित इन्सानों की तरह जो कश्मीर की आन, बान और शान हो सकते थे, मगर उन बदनसबों को क़ब्रिस्तान भी नसीब नहीं हो सका। मैं रहा हूं कुछ दिन कश्मीर के एक ऐसे घर में जिसके आंगन में न जाने कितने बेगुनाहों की लाशें दफ़न थीं, केवल वह बेज़बान दरो दीवार गवाह हैं उनकी आहों के, चीख़ों के, अब जो बोल नहीं सकते पर न जाने क्यों अभी मेरा भरोसा नहीं टूटा है, संभवतः इसलिए कि मुझे मोहतरम ‘मुनव्वर राना’ के इन शेरों पर पूरा विश्वास है। आप भी मुलाहिज़ा करें, शायद कि यह अशआर इनक़लाब के शब्द को फिर से सार्थक कर दें और एक नया जीवन बख़्श दें।

मैं दहशत गर्द था मरने पे बेटा बोल सकता है

हुकूमत के इशारे पर तो मुर्दा बोल सकता है

यहां पर नफ़रतों ने कैसे कैसे गुल खिलाए हैं

लुटी असमत बता देगी दुपट्टा बोल सकता है

हुकूमत की तवज्जोह चाहती है यह जली बस्ती

अदालत पूछना चाहे तो मल्बा बोल सकता है

कई चेहरे अभी तक मुंह ज़बानी याद हैं इसको

कहीं तुम पूछ मत लेना वह गूंगा बोल सकता है

सियासत इन दिनों इन्सान के ख़ँू में नहाती है

गवाही की ज़रूरत हो तो दरिया बोल सकता है

अदालत में गवाही के लिए लाशें नहीं आतीं

वह आंखें बुझ चुकी हैं फिर भी चश्मा बोल सकता है

बहुत सी कुर्सियां इस मुल्क में लाशों पे रखी हैं

यह वह सच है, जिसे झूटे से झूठा बोल सकता है

सियासत की कसौटी पर पररिखये मत वफ़ादारी

किसी दिन इंतिक़ामन मेरा ग़्ाुस्सा बोल सकता है

शायद कि यह कुछ शेर कश्मीर की स्थितियों को सही तर्जुमानी करते नज़र आएं और आपको उस इनक़लाब पर आमादा करें जो आज वक़्त की सबसे बड़ी आवश्यकता है।

आइये मैं फिर वापिस लौटता हूं कश्मीर के हालात की तरफ़। विशेषतः वह हालात जो तुफैल की दर्दनाक मौत के बाद आज से कुछ दिन पहले मैंने अपनी आंखों से देखें। हां, मुझे एहसास है उस दिशा में उछाले गए पत्थर का जिधर से मैं गुज़र रहा था। वह मेरा जन्म दिन था। मैं अपने परिवार के साथ कश्मीर की घाटियों में था। मैं उस दिन से एक बहुत उद्देश्यपूर्ण शुरूआत करना चाहता था इसलिए इस विशेष दिन जानबूझ कर श्रीनगर में था। दिल्ली से जब चला परिस्थितियां लगभग सामान्य थीं, मगर श्रीनगर की धरती पर क़दम रखते ही यह एहसास हो गया कि इस धरती के लिस सामान्य जीवन तो बस सपनों की बात है, हम जैसे लोग जो इन परिस्थितियों से अनभिज्ञ रहते हैं, ग़लतफ़हमी का शिकार हैं और समझ बैठते हैं कि वहां सब कुछ ठीकठाक है।

15 जून की सुबह मैं श्री नगर से गुलमर्ग की ओर जा रहा था। सबसे आगे सिक्योरिटी की गाड़ी थी उसके बाद की गाड़ी में मेरे बच्चे और उसके बाद की गाड़ी में मैं स्वयं व मेरी पत्नी और एक सशस्त्र पीएसओ था और सबसे पीछे हमारे स्थानीय संवाददाता की गाड़ी थी। तभी एक ज़ोरदार पत्थर सिक्योरिटी कार के शीशे पर लगा, शीशा चकनाचूर हो गया और ड्राइवर ज़ख़्मी, तेज़ी से गाड़ियां वापस लौटीं। रास्ता बदला और फिर नए रास्ते से मंज़िल की ओर बढ़ने लगीं।

यह प्रतिक्रिया 17 वर्षीय तुफै़ल के पुलिस के गोले का शिकार हो जाने के कारण थी। यह पत्थर मुझे तो नहीं लगा। मगर इस पत्थर की चोट से मेरे अंदर का पत्रकार ज़ख़्मी हो गया। मुझे लगा यह पत्थर मुझसे कुछ कह रहा है, मुझे इस पत्थर की आवाज़ को सुनना चाहिए, समझना चाहिए और सबको समझाना चाहिए। अगर मैं मानता हूं कि पत्थर बोल सकते हैं तो शुरूआत इसी पत्थर की गवाही को सामने रख कर करनी होगी। हां, वह पत्थर गवाह था उन परिस्थितियों का जिनसे कश्मीर घाटी के लोग गुज़र रहे थे। प्रतिबिंब प्रस्तुत करता था उनकी भावओं का जिनके हाथों में पत्थर थे। वह इतने मूर्ख भी नहीं हैं कि इतना भी नहीं समझते कि उनका पत्थर केवल उनके ग़्ाुस्से का इज़हार कर सकता है, किसी की जान नहीं ले सकता, मगर इस पत्थर के जवाब में चलने वाली गोली उनकी जान ले सकती है, फिर भी वह अपने हाथों में पत्थर लिए हुए थे, संभवतः इसलिए कि इनके इस पत्थर की आहट शायद किसी को जगा दे। मैं समर्थन नहीं करता उनके इस पत्थर की भाषा का, मगर समर्थन करता हूं हक़ और इन्साफ़ की तलाश में उनकी भावनाआंें का। इसलिए लिख रहा हूं कि संभवतः आपका ध्यान भी खींच सकूं और फिर वह समय भी आए कि जिनके हाथों में पत्थर हैं वहां फूल नज़र आएं।

Saturday, June 26, 2010

और... ये हैं भारत में कश्मीर के इलहाक़ के दस्तावेज़

कश्मीर से संबंधित मेरे इस क्रमवार लेख का आज सातवां दिन है और इस सिलसिले का यह सातवां लेख आपके सामने पेश है। इस बेहद नाज़ुक समस्या पर क़लम उठाने से पहले ही मैंने यह तय कर लिया था कि बात को केवल शब्दों अथवा भावनाओं के सहारे ही नहीं बल्कि वास्तविकता की रोशनी में रखा जाएगा इसलिए कि मैं अच्छी तरह समझता हूं कि मेरा यह लेख आने वाले दिनों में एक दस्तावेज़ के रूप में देखा जाएगा और इसे स्वतंत्रता के बाद हिंदुस्तान के इतिहास की श्रेणी में रखा जा सकेगा। हम आजादी के 61 वर्षों के बाद भी विभाजन के कारणों को जिस तरह समझ रहे हैं और समझते रहे हैं, वह अंतिम स्तय नहीं है। इस बटवारे की वास्तविकता क्या थी, बहुत जल्द मेरा यह लेख उन वास्तविकताओं को सामने रख देगा। लेकिन साथ ही मैं यह भी साफ़ कर देना चाहता हूं कि मेरा उद्देश्य केवल कश्मीर और कश्मीर की एक करोड़ डेढ़ लाख जनसंख्या के अधिकारों की सुरक्षा और उनके दर्दनाक हालात की चर्चा ही नहीं है बल्कि मेरे ध्यान का केंद्र भारत और भारत की 115 करोड़ की जनसंख्या का खुशहाल, शांतिपूर्ण जीवन और उन्नति है। हमारे बीच जो नफ़रतें और मारकाट का एक न समाप्त होने वाला सिलसिला देश के विभाजन से शुरू हुआ और आज तक जारी है। शायद उस समय तक इसका रुकना संभव नहीं है जब तक कि सम्पूर्ण भारत इन वास्तविकताओं को न समझ ले जिसकी बुनियाद पर देश दो टुकड़ों में विभाजित हुआ। ‘कश्मीर’ के हिंदुस्तान के साथ सम्मिलित होने का फैसला कब और किन परिस्थितियों में हुआ? आज 61 वर्षों बाद भी अगर कश्मीर की स्थिति सामान्य नहीं है, हिंसा का सिलसिला जारी है तो उसका बुनियादी कारण क्या है? क्यों हम हमेशा संम्प्रदायिकता की आग में जलते रहे हैं? देश विभाजन के साथ हिंदू-मुस्लिम दंगों का जो सिलसिला शुरू हुआ वह ख़त्म होने का नाम नहीं ले रहा है, आख़िर क्यों? हमने भारत के इतिहास का भयानक दंगा 2002 में गुजरात भी देखा जहां लगभग 3 हज़ार मुसलमान धार्मिक घृणा के कारण क़त्ल कर दिए गए और आज भारत आतंकवाद की लपेट में है। इस सबकी बुनियादों में ऐसा क्या है जो हमारी शांति और एकता का दुश्मन बन गया है। यदि गहराई से अध्ययन किया जाए तो यह वास्तविकता पूरी तरह साफ़ हो जाएगी कि इसके पीछे देश विभाजन के हवाले से पेश की गई ग़लत थ्योरी है जिसने हिंदुओं और मुसलमानों के दिलों में घृणा पैदा की। हम तमाम ऐतिहासिक हवालों की रोशनी में इस लेख को आगे बढ़ाना चाहते हैं ताकि यह सच सामने आए कि वह केवल और केवल राजनीति थी जिसने भारत के दो टुकड़े किए। यह देश द्विराष्ट्र के दृष्टिकोण के तहत विभाजित नहीं हुआ, भारत की जनता धर्म की बुनियादों पर अलग-अलग देश नहीं चाहती थी बल्कि भारत के वह राजनीतिज्ञ जिनके दिलों में कुर्सी की ललक थी, जिनके हृदय और मस्तिष्क में सम्प्रदायिकता गहराई के साथ जड़ें जमा चुकी थी। आज की स्थिति के लिए ज़िम्मेदार वही लोग हैं। बहुत जल्द मैं उन सबके चेहरे हमारे इस लेख में साफ़ साफ़ नज़र आने लगेंगे, इसी कोशिश की अगली कड़ी के रूप में आज मैं अपने पाठकों की सेवा में पेश करने जा रहा हूं महाराजा हरि सिंह का वह पत्र रूपी प्रमुख दस्तावेज़ जो 26 अक्तूबर 1947 को उनके हस्ताक्षर के साथ गवर्नर जनरल हिंदुस्तान लार्ड माउंट बेटन को भेजा गया और साथ ही उसके दूसरे दिन लार्ड माउंट बेटन के उस पत्र के उत्तर में पत्र।

वह प्रमुख दस्तावेज़ जिस पर महाराजा हरि सिंह ने 26 अक्तूबर 1947 को हस्ताक्षर किए थेः

यह कि इण्डियनइंडिपेंडेंस एक्ट (Indian Independence) एक्ट 1947 के तहत यह प्रावधान किया गया है कि 15 अगस्त 1947 से भारत के नाम से एक आज़ाद ब्रिटिश कालोनी स्थापित की जाएगी और यह कि उस ब्रिटिश कालोनी भारत पर गवर्नमेंट ऑफ इण्डिया एक्ट 1935 का प्रावधान उन बदलाव, संशोधन और बढ़ोतरी के साथ होगा। जिसकी व्याख्या गवर्नर जनरल अपने आदेशों के माध्यम से करते रहेंगे और यह कि गवर्नमेंट ऑफ इण्डिया एक्ट 1935 के तहत, जिसे गवर्नर जनरल का समर्थन प्राप्त है इस बात का भी प्रावधान किया गया है कि कोई भी भारतीय राज्य अपनी सरकार के माध्यम से पंजीकरण के दस्तावेज़ पर हस्ताक्षर करके उस ब्रिटिश कालोनी भारत के साथ सम्मिलित हो सकती है। इसलिए अब मैं श्रीमन इंद्र महिंदर राज राजेसवर महाराजा अधिराज श्री हरि सिंह जी, जम्मू व कश्मीर नरेश तथा तिब्बत अधिदीशाशी पती, जम्मू व कश्मीर, राज्य पर अपने अधिकारों का प्रयोग करते हुए पंजीकरण के दस्तावेज़ पर अमल करता हूं और
1.मैं यह घोषणा करता हूं कि मैं ब्रिटिश कालोनी भारत के साथ इस इरादे के साथ सम्मिलित होता हूं कि गवर्नर जनरल ऑफ इण्डिया, कालोनी की विधानसभा (लेजिस्लेटर), फेड्रल कोर्ट और कालोनी के उद्देश्य के तहत स्थापित की जाने वाली कोई भी अन्य अथॉरिटी उस पंजीकरण के दस्तावेज़ के मेरे माध्यम से लाने पर और सदा शर्तों के अनुसार और कालोनी के उद्देश्य को सामने रखते हुए जम्मू व कश्मीर राज्य के सिलसिले में जिसका उल्लेख अब उस ‘राज्य’ के तौर पर किया जाएगा। उन कर्तव्यों का निर्वाहन करेगी जो 1947 से किया जा चुका है जिसका उल्लेख अब ‘दि एक्ट’ के तौर पर किया जाएगा।

2.मैं इस बात को निश्चिंत बनाने की ज़िम्मेदारी अपने ऊपर लेता हूं कि एक्ट की धाराओं का मेरे माध्यम से अमल में लाए जाने वाले पंजीकरण के दस्तावेज़ के अनुसार, राज्य में असरदार तरीक़े से लागू किया जाएगा।

3. मैं उन मामलात को जिनकी व्याख्या शैड्यूल में की गई है और जिनके लिए कॉलानी की विधानसभा उस राज्य के लिए संविधान बनाएगी। मैं सर्मथन करता हूं।

4. मैं घोषणा करता हूं कि ब्रिटिश कॉलानी भारत के साथ मैं इस यक़ीन के साथ सम्मिलित हो रहा हूं कि यदि गवर्नर जनरल और राज्य के सत्ताधीशों के बीच कोई समझौता होता है तो कॉलीनी के लेजिस्लेचर किसी भी क़ानून के तहत राज्य की व्यवस्था के अधिकार राज्य के सत्ताधीशों के हाथों में होंगे तब उस समझौते के अर्थों के अनुसार ही उसका प्रावधान होगा।

5. मेरी पंजीकरण के दस्तावेज़ की शर्तों को एक्ट या इण्डियन इंडिपेंडेंस एक्ट 1947 में की जाने वाले किसी संशोधन के माध्यम से उस समय तक नहीं बदला जाएगा जब तक उस संशोधन को मेरे माध्यम से उस दस्तावेज़ को एक आंशिक दस्तावेज़ के तौर पर स्वीकार नहीं कर लिया जाता।

6. यह दस्तावेज़ कालोनी लेजिस्लेचर को राज्य के उस प्रकार के किसी भी क़ानून बनाने का अधिकार नहीं देगा, जिसके तहत वह किसी भी उद्देश्य के लिए जबरन भूमि का मालिकाना अधिकार प्राप्त कर ले, लेकिन मैं इस बात का वचन देता हूं कि यदि कालोनी राज्य के लिए बनाए गए क़ानून के तहत इस बात को आवश्यक समझता है कि उसे किसी भूमि का मालिकाना अधिकार प्राप्त हो तो मैं उनकी दरख़्वास्त पर उस भूमि का मालिकाना अधिकार उनके व्यय पर यदि वह भूमि मेरी अपनी होगी तो उसको उन शर्तों पर प्राप्त करा दूंगा जिनसे भारत के मुख्य न्यायाधीश के माध्यम से निर्धारित किए गए एक मध्यस्त के माध्यम से समझौता या समझौते के विरुद्ध तय की जाएगी।

7. इस दस्तावेज़ के तहत मैं इस बात का भी पाबंद हूंगा कि भविष्य में भारतीय संविधान के लिए या उस संबंध में भारतीय सरकार के साथ किसी भी समझौता के लिए अपनी स्वीकार्यता या ग़ैर स्वीकार्यता ज़ाहिर करके अधिकारों को खो दूं।

8. इस दस्तावेज़ का कोई ऐसा प्रावधान मेरे उन अधिकारों पर नहीं होगा जो मुझे फिलहाल राज्य पर या उस सिलसिले में राज्य के मुख्या के तौर पर प्राप्त हैं।

9। मैं घोषणा करता हूं कि मैं राज्य की ओर से इस दस्तावेज़ को अमल में लाता हूं और इस दस्तावेज़ में जब भी मेरा या राज्य के मुखिया का हवाला दिया जाएगा तो उसका अर्थ मेरे वारिसों का हवाला भी होगा। आज दिनांक 26 अक्तूबर 1947 को यह मेरे हस्ताक्षर से जारी हुआ।

हरि सिंह
महाराजा अधिराज,जम्मू व कश्मीर राज्य
गवर्नर जनरल ऑफ इण्डिया की ओर से दस्तावेज़ की मंज़ूरी

मैं इस दस्तावेज़ पर सत्ता पर बैठने की आज दिनांक 27 अक्तूबर 1947 को स्वीकार करता हूं।
माउंट बेटन ऑफ बर्मा
गवर्नर जनरल ऑफ इण्डिया
सत्ता के दस्तावेज़ के उन मामलात का शैड्यूल जिसके तहज राज्य के लिए कालोनी लेजिस्लेचर संविधान बना सकेगी।
ए- रक्षा
1. वह नौसेना, थलसेना, और वायु सेना जिनकी भर्ती या देखभाल की ज़िम्मेदारी कालोनी पर होगी। सम्मिलित राज्य की भर्ती फोर्सिस समेत अन्य हथियारबंद सैन्य, जो कालोनी के साथ संलग्लन होंगी या उसके साथ काम कर रही होंगी।

2.नवसेना, थलसेना और वायु सेना के काम, सैन्य इलाक़ों की व्यवस्था।

3.हथियार, गोला बारूद और ज्वलनशील हथियार।

4.ज्वलनशील पदार्थ।

बी-विदेशी मामले

1.बाहरी मामले, दूसरे देशों के साथ किए जाने वाले समझौतों को अंतिम रूप देना, भारत के बाहर हिज़ मेजिस्टी की कालोनियों के अन्य हिस्सों को हथियार डालने वाले अपराधियों समैत प्रतियार्पण की कार्रवाई।

2.उन लोगों की भारत में आवाजाही को पूर्णतः आसान बनाना जो ब्रिटिश नागरिक नहीं हैं लेकिन भारत में रह रहे हैं या उनका संबंध सम्मिलित राज्य से है। ऐसे लोगों के दाख़ला, आवाजाही और उन्हें देश निकाला से संबंधित मामलात। भारत से बाहर पवित्र स्थानों की यात्रा।

3.अधिकार, नागरिकता प्रदान करना।

सी-संचार

1.टेलीफोन, वायरलेस, दूरसंचार समेत पोस्ट एंड टेलीग्राफ।
2.फेड्रल रेलवेज़, छोटी रेलवेज़ को छोड़ कर सुरक्षा, कम से कम और अधिक से अधिक की़मतों व किरायों, स्टेशन व सेवाएं, टर्मिनल के चारजिस, इंटरचेंज ऑफ ट्रेफिक और वस्तुएं व यात्रियों की आवाजाही के एक संगठन के तौर पर रेलवे प्रशासन की ज़िम्मेदारी, वस्तुएं और यात्रियों की आवाजाही के एक संगठन की हैसियत से एक ऐसी रेलवे की व्यवस्था और सिक्योरिटी की ज़िम्मेदारी, जिसका संबंध छोटी रेलवेज से है।

3.गहरे पानी में जहाज़रानी और नेविगेशन की ज़िम्मेदारी।

4.बंदरगाहें,

5. बड़ी बंदरगाहें, अर्थात ऐसी बंदरगाहों की हदबंदी और बंदरगाह अथॉरिटी बनाना और उसके अधिकार।

6. हवाई जहाज़ और वायु नेविगेशन, हवाई अड्डों की उपलब्धता, एयर ट्रेफिक और हवाई अड्डों को व्यवस्था के तहत लाने से संबंधित कार्यवाही।

7. जहाज़रानी और हवाई जहाजों की रक्षा से संबंधित जहाज़ों को रास्ता दिखाने वाली रोशनी समेत लाइट हाउसिस की व्यवस्था।

8. समंदर और वायु रास्तों के ज़रिए मुसाफ़िरों और सामान की आवाजाही।

9. रेलवे और इसके बाहर किसी भी यूनिट की पुलिसफोर्स के सदस्यों के अधिकारों का विस्तार।

डी-आंशिक कर्तव्य

1.एक्ट की धारा या उससे संबंधित अन्य आदेशों के अनुसार, कालोनी की लेजिसलेचर के चुनाव की व्यवस्था।

2. उपर्युक्त मामलों से संबंधित क़ानून की ख़िलाफवर्जी।

3. उपर्युक्त मामलों के उद्देश्य के तहत जांच व आंकड़े की उपलब्धता।

4. उपर्युक्त मामलों के सिलसिले में सम्मिलित होने वाले राज्य की स्वीकृता के तहत सभी न्यायालयों के अधिकारों की हदबंदी।.........................................

Friday, June 25, 2010

تاریخ کے اوراق میں درج شیخ عبداللہ کی یادگارتقریر

عزیز برنی

تاریخ کے اوراق میں محفوظ ایک انتہائی اہم دستاویز اس وقت آپ کی نگاہوں کے سامنے ہے، اس کے بعد زیادہ جگہ بچی ہی نہیں، لہٰذا آج میرے پاس زیادہ لکھنے کا موقع نہیں ہے اور شاید اس کی بہت زیادہ ضرورت بھی نہیں ہے، اس لےے کہ تقسیم وطن کی حقیقت کو سامنے رکھنے کے لےے میں جو حقائق پیش کرنا چاہتا ہوں وہ 5فروری 1948کو منعقدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک انتہائی اہم میٹنگ میں ریاست جموںوکشمیر کے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ کی مندرجہ ذیل تقریر واضح کردیتی ہے۔ بالخصوص میں اپنے قارئین کی توجہ جن دو خاص نکات کی طرف دلانا چاہتا ہوں اور جن کا حوالہ اپنی اس مسلسل تحریر کی آئندہ قسطوں میں بٹوارے کی تاریخی حقیقت کو سامنے رکھنے کے لےے مجھے بار بار پیش کرنے کی ضرورت ہوگی، وہ آپ کی خدمت میں پیش کردینا چاہتا ہوں، تاکہ تمام برادران وطن اور ہماری حکومت کے بھی ذہن نشین رہے کہ اس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی مسلم اکثریت (80%)والی ریاست کے عوام اور اس کے وزیراعظم کا اندازفکر کیا تھا۔
شیخ محمد عبداللہ نے اپنی اس یادگار تقریر میں یہ صاف صاف کہا کہ دو قومی نظریہ اور دوقومی نظریہ کے تحت تقسیم کو وہ اور ان کے ریاست کے عوام تسلیم نہیں کرتے اور یہ بھی کہ سیاست میں مذہب کے لےے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بات کہی تھی اسی وقت ریاست جموںوکشمیر کے اس حکمراں نے جسے اس ریاست میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل تھی، جس کے کہے گئے لفظوں اور فیصلے کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ تقریر یہ بھی واضح کردیتی ہے کہ اس وقت کن حالات کے پیش نظر ریاست جموںوکشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیاتھا اور مذہب کے نام پر وجود میں آئے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے سے صاف انکار کرتے ہوئے شیخ محمد عبداللہ نے محمد علی جناح کے عمل پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ ہماری تحریک کی مخالفت کرنے والا پاکستان آج ہماری آزادی کا خودساختہ چمپئن بن گیا ہے۔
اب ملاحظہ فرمائیں وہ یادگار تقریر:
’’میں نے صبراور احترام کے ساتھ بغور پاکستانی نمائندوں اور سلامتی کونسل کے اراکین کے ساتھ ہی کئی مواقع پر اپنے وفد کے اراکین کے بیانات کو سنا ہے۔ میں نے سلامتی کونسل میں صبر کے ساتھ مباحثہ کو سنا ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں الجھن (onfused) پڑگیاہوں۔آخر کار یہ تنازع کیا ہے؟ تنازع میں نقطہ یہ نہیں ہے کہ مہاراجہ کی خود مختاری پر سوال کھڑے کئے گئے، جیسا کہ کل پاکستانی نمائندہ نے کہا تھا…
سلامتی کونسل کے سامنے تنازع کا ایشو کشمیر ریاست کی بدانتظامی (Maladministration)بھی نہیں ہے۔ تنازعہ اس حقیقت کے چاروں جانب گھوم رہا ہے کہ کشمیر نے قانونی اور آئینی طریقہ سے ہندوستان ڈومی نین (Dominion)میں شمولیت حاصل کی ہے۔ سرحد کی دونوں جانب کے قبائلی عوام ہمارے ملک میں بڑی تعداد میں آگئے ہیں۔ پاکستان حکومت ان کی مدد کرتی رہی ہے اور کررہی ہے، اس کا مقصد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک بڑی جنگ (Conflagration)چھیڑنا ہے، لیکن (پاکستانی نمائندہ نے) پاکستانی حکومت کے ذریعہ قبائلی عوام یا ریاست کی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کی کسی بھی طرح کی مدد سے پوری طرح انکار کیا ہے اور اس طرح اس آسان سے مسئلہ کوالجھا دیاگیا ہے…آج پاکستان ہماری آزادی کا چمپئن بن گیا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے 1946میں ’کشمیر چھوڑو‘ کا نعرہ دیا تھا، اس وقت پاکستان حکومت کے لیڈر جناب محمد علی جناح نے، جو اب گورنر جنرل ہیں میری حکومت کی مخالفت کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ یہ تحریک کچھ لڑاکوں (Renegades)کی تحریک ہے اور مسلمانوں کا اس تحریک سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
مسلم کانفرنس جس کے بارے میں کافی کچھ کہا گیا ہے، اس نے میری تحریک کی مخالفت کی تھی اور مہاراجہ کشمیر کے ساتھ اپنی وفاداری (Loyalty)کا اعلان کیاتھا۔پاکستان کے نمائندے اب کہتے ہیں کہ کبھی ’کشمیر چھوڑو‘ کی حمایت کرنے والے شیخ عبداللہ نے کشمیر کے مہاراجہ کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے…لیکن ریاست جموں وکشمیر او راس کے باشندے خاموش کیوں ہیں؟ ایسا اس لئے تھا، کیونکہ میں اور میری تنظیم کا اس فارمولہ میں کبھی یقین نہیں رہا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔ ہم دو قومی نظریہ میں یقین نہیں رکھتے ہیں اور نہ ہی فرقہ وارانہ منافرت یا فرقہ واریت میں۔ ہمارا یقین ہے کہ مذہب کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے، اس لئے جب ہم نے ’کشمیر چھوڑو‘ تحریک کا آغاز کیا تو صرف مسلمانوں کو ہی تکالیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا، بلکہ ہمارے ہندو اور سکھ کامریڈ بھی اس کا شکار ہوئے تھے۔
ریاست میں حالات دن بدن خراب ہورہے تھے اور اقلیت بہت گھبرائی ہوئی تھی۔اس کے نتیجہ میں ریاستی انتظامیہ پر مجھے اور میرے ساتھیوں کو رہا کرنے کا زبردست دباؤ تھا۔باہری حالات کا تقاضا تھا کہ نیشنل کانفرنس کے اراکین کو ان کے لیڈر کے ساتھ رہا کیا جائے اور اسی کے مطابق ہم رہا ہوئے تھے۔جیل سے رہائی کے فوراًبعد ہمارے سامنے سب سے اہم سوال یہ تھا کہ کشمیر کو پاکستان یا ہندوستان دونوں میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہےے یا پھر آزاد رہنا چاہیے۔ ہم اپنی آزادی کو حاصل کئے بغیر اس اہم مسئلہ کو طے نہیں کرسکتے تھے اورہمارا نعرہ ’ الحاق سے قبل آزادی‘ ہوگیا۔سری نگر میں میرے کچھ پاکستانی دوست ملے۔ ان سے دل کھول کر گفتگو ہوئی اور ہم نے اپنے نقطہ نظر کو واضح کیا۔
جب میںپاکستان کے ہمارے دوستوں کے ساتھ بات چیت میں لگا تھا میں نے اپنے ایک ساتھی کو لاہور روانہ کیا، جہاں اس نے پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان اور پنجاب حکومت کے دوسرے اعلیٰ حکام سے ملاقات کی۔ ان کے سامنے بھی وہی نقطہ نظر میرے ساتھی نے پیش کیا اور ان سے اس اہم سوال پر غور کرنے کے لئے مزید و قت دینے کی گزارش کی کہ ہمارے پہلے کسی بھی جانب الحاق کے اعلان سے قبل ہماری آزادی کے لئے مدد کریں۔تب ایک دن جب یہ گفت وشنید جاری تھی تو مجھے یہ اطلاع ملی کہ کشمیر کے سرحدی علاقے مظفر آباد پر باقاعدہ طریقہ سے حملہ ہوا ہے۔
g حملہ آور ہماری زمین پر آئے اور ہزاروں کی تعداد میں ہمارے لوگوںکو قتل کرڈالا۔ زیادہ تر ہندو اور سکھ، لیکن مسلمان بھی ان میں شامل تھے۔ہزاروں کی تعداد میں ہندو،سکھ اور مسلمان لڑکیوں کو اغوا کرلیا۔ ہماری جائیدادوں کو لوٹا اوروہ موسم گرماکی راجدھانی سری نگر کے دروازے تک پہنچ گئے۔نتیجہ یہ ہوا کہ شہری، پولس اور فوجی نظام ناکام ہوگیا۔ مہاراجہ اسی رات کو اپنے درباریوں اور اپنی مال ودولت کے ساتھ نکل گئے اورنتیجہ کے طور پر ہر طرف دہشت تھی وہاں ایسا کوئی نہیںتھا، جو حالات کو قابو میں کر سکے۔ ان ہنگامی حالات میں نیشنل کانفرنس اپنے 10ہزار رضا کاروں کے ساتھ سامنے آئی اور ملک کے انتظام کی باگ ڈور سنبھالی۔ہم نے راجدھانی کے بینکوں ، دفاتر اور سبھی لوگوں کے گھروں کی حفاظت کی ۔اس طرح انتظامیہ تبدیل ہوا۔اب ہم انتظامیہ کو کار گزار کے طور پر چلانے والے تھے۔ بعد میں مہاراجانے اسے قانونی جامہ پہنا دیا… میں واضح کررہا تھا کہ کس طرح تنازع پیدا ہوا۔ کس طرح پاکستان غلامی کے یہ حالات ہم پر تھوپنا چاہتا تھا۔ پاکستان کو ہماری آزادی سے کوئی مطلب نہیں ہے، ورنہ اس نے ہماری آزادی کی تحریک کی مخالفت نہ کی ہوتی۔ پاکستان نے ہماری مدد کی ہوتی، جب ہمارے ملک کے ہزاروں لوگ جیلوں میں قید تھے اور کئی ہزار موت کے دہانے پر تھے۔ پاکستانی لیڈر اور پاکستانی اخبارات کشمیر ی عوام کو برا بھلا کہہ رہے تھے، جو ان مظالم سے گزر رہے تھے۔
تب یکایک پاکستان پوری دنیا کے سامنے جموں وکشمیر عوام کی آزادی کے چمپئن کے طور پر آیا۔ میرا خیال تھا کہ پوری دنیا کو ہٹلر اور گوبیلس سے نجات مل چکی ہے، لیکن ہمارے غریب ملک میں جو واقعات ظہور پذیر ہوئے اور جن کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔مجھے اب اس بات کا یقین ہے کہ ان کی روحیں اب پاکستانیوں کے جسموں میں منتقل ہوگئی ہیں۔
اگر پاکستان آگے آتا اور کہتا ’ہم الحاق کی قانونی حیثیت پر سوال کرتے ہیں‘ تو میں اس بات پر مباحثہ کے لئے رضامند ہوجاتا کہ جموں وکشمیر کے الحاق کی قانونی حیثیت پر ہندوستان رضامند ہے یا نہیں، اب وہ کہتے ہیں کہ ہم رائے شماری چاہتے ہیں، ہم کشمیری عوام کی آزادانہ رائے حاصل کرنا چاہتے ہیں، عوام پر کوئی دبائو نہیں ہونا چاہئے ان کو آزادانہ اختیار ہونا چاہئے کہ وہ کس ملک کے ساتھ الحاق کے خواہاں ہیں۔‘‘
بہت پہلے پاکستان کو کشمیری عوام نے نہ صرف یہ پیشکش کی تھی بلکہ یہ پیشکش وزیر اعظم ہندوستان نے بھی اس وقت پیش کی تھی جب مجھے لگتا ہے کہ ان کو ایسا کرنے کی تھوڑی بھی ضرورت نہیں تھی کیونکہ کشمیر مسائل سے دوچار تھا۔
ہم نے یہ ذہن نشیں کرلیا ہے کہ ہمیں پاکستان کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دے گا کہ یا تو ہم مظفرآباد، بارہ مولہ، سری نگر اور دوسرے شہروں اور گائوں کے اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کی طرح پریشانیوں میں مبتلا رہیں یا پھر کسی باہری طاقت سے مدد طلب کریں۔
ان حالات میں مہاراجہ اور کشمیری عوام دونوں نے حکومت ہند سے شمولیت کو قبول کرنے کی درخواست کی۔ حکومت ہند اس مطالبہ کو بہ آسانی قبول کرسکتی تھی اور یہ کہہ سکتی تھی ’’بالکل ٹھیک ہم تمہاری شمولیت کو قبول کرتے ہیں اور تمہاری مدد بھی کریں گے‘‘۔ وزیر اعظم ہند کو کسی تجویز میں اضافہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی جب وہ شمولیت قبول کررہے تھے اور یہ کہ ’’ہندوستان کشمیر میں برے حالات کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہتاہے۔ ہم یہ شمولیت قبول کریں گے کیونکہ بغیر کشمیر کے ہندوستان ڈومی نین میں شامل ہوئے ہم کوئی فوجی مدد دینے سے قاصر ہیں، لیکن جب ملک حملہ آوروں، قاتلوں اور لٹیروں سے آزاد ہوجائے تب عوام اس شمولیت میں ترمیم کرسکتی ہے۔‘‘ یہ وہ تجویز تھی جو وزیر اعظم ہند نے پیش کی تھی۔یہی وہ پیشکش تھی جو کشمیری عوام نے حکومت پاکستان سے کی تھی لیکن پاکستان نے انکار کردیا تھا کیونکہ اسے لگا تھا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر پوری جموں وکشمیر ریاست پر فتح حاصل کرلے گا اور پھر وہ دنیا کے سامنے دعویٰ پیش کرے گا جیسا کہ یورپ میں کچھ وقت پہلے ہوچکا ہے۔
بہرحال ہم کشمیر کے حالات کے بارے میں ذکر کررہے ہیں۔ میں کہنا چاہوں گا کہ ہم بغیر ڈنمارک کے پرنس کے ہیملیٹ ڈرامہ کھیل رہے ہیں۔
سلامتی کونسل کو مسئلہ کو الجھانا نہیں چاہئے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ ہم داخلی آزادی چاہتے ہیں، سوال یہ نہیں ہے کہ مہاراجہ نے کس طرح اپنی ریاست حاصل کی اور وہ خود مختار ہیں یا نہیں۔ یہ نکات سلامتی کونسل کے سامنے نہیں ہیں۔ کیا کشمیر نے قانونی طور پر ہندوستان میں شمولیت کی ہے، اس ایشو پر پاکستان کی جانب سے شکایت سلامتی کونسل کے سامنے لائی گئی یہ تنازع کے نکات نہیں ہیں۔ اگر یہ تنازع کے نکات رہے ہوتے تو ہمیں اس موضوع پر بحث کرنی چاہئے۔ ہم سلامتی کونسل کے سامنے یہ ثابت کردیں گے کہ کشمیر اور کشمیری عوام نے قانونی اور آئینی بنیادوں پر ہندوستان ڈومی نین میں شمولیت حاصل کی ہے اور پاکستان کو اس شمولیت پر کوئی سوال کھڑے کرنے کا حق نہیں ہے۔ تاہم سلامتی کونسل کے سامنے یہ بحث نہیں ہے۔ سلامتی کونسل کو ایک کمیشن کشمیر روانہ کرنا چاہئے جو تحقیق کرے کہ پاکستان کے ذریعہ جو شکایت سامنے لائی گئی ہے وہ درست ہے یا نہیں… اس لئے کسی کو اس جگہ جانا چاہئے۔ اس کے بعد یہ ہمارے لئے مناسب ہوگا کہ ہم ثابت کریں کہ سلامتی کونسل کے سامنے لائی گئی شکایت آخری لفظ تک صحیح ہے یا نہیں۔ ہم صرف یہی مدد چاہتے ہیں اس کے علاوہ کوئی اور مدد نہیں۔‘

इतिहास के पन्नों में दर्ज शेख़ अब्दुल्ला की यादगार तक़रीर
अज़ीज़ बर्नी

इतिहास के पन्नों में सुरक्षित एक बेहद महत्वपूर्ण दस्तावेज़ इस समय आपकी निगाहों के सामने है, इसके बाद अधिक जगह ही बची नहीं, अतः आज मेरे पास अधिक लिखने का अवसर नहीं है और संभवतः इसकी बहुत अधिक आवश्यकता भी नहीं है, इसलिए कि देश विभाजन की वास्तविकता को सामने रखने के लिए मैं जो तथ्य प्रस्तुत करना चाहता हूं, वह 5 फरवरी 1948 को आयोजित संयुक्त राष्ट्र संघ की सुरक्षा परिषद की एक बेहद महत्वपूर्ण मीटिंग में जम्मू व कश्मीर राज्य के प्रधानमंत्री शेख़ मोहम्मद अब्दुल्ला का निम्नलिखित भाषण स्पष्ट कर देता है। मैं अपने पाठकों का ध्यान जिन दो विशेष बिंदूओं की ओर आक्रषित करना चाहता हूं और जिनका हवाला अपने इस मुसलसल लेख की आगामी क़िस्तों में विभाजन की एतिहासिक वास्तविकता को सामने रखने के लिए मुझे बार-बार प्रस्तुत करने की आवश्यकता होगी, आपकी सेवा में पेश कर देना चाहता हूं ताकि सभी देशवासियों और हमारी सरकार के भी संज्ञान में रहे कि उस समय भारत की सबसे बड़ी मुस्लिम बहुसंख्यक (80 प्रतिशत) आबादी वाले राज्य की जनता और उसके प्रधानमंत्री की विचार धारा क्या थी, दृष्टिकोण क्या था।

शेख़ मोहम्मद अब्दुल्ला ने अपने इस यादगार भाषण में यह साफ साफ कहा था कि द्विराष्ट्र सिद्धांत और इस सिद्धांत के तहत विभाजन को वह और उनके राज्य की जनता स्वीकार नहीं करती और यह भी कि राजनीति में धर्म के लिए कोई स्थान नहीं है। यह बात कही थी उसी समय जम्मू व कश्मीर राज्य के उस शासक ने जिसे राज्य में सबसे अधिक लोकप्रियता प्राप्त थी। जिसके कहे गए शब्दों और निर्णय के महत्व को अनदेखा नहीं किया जा सकता था। यह भाषण यह भी स्पष्ट कर देता है कि उस समय किन स्थितियों को सामने रखते जम्मू व कश्मीर राज्य को भारत में शामिल करने का निर्णय किया गया था और धर्म के नाम पर अस्तित्व में आए पाकिस्तान के साथ शामिल होने से साफ इंकार करते हुए शेख़ मोहम्मद अब्दुल्ला ने मोहम्मद अली जिन्ना की कार्यप्रणाली की आलोचना की थी और कहा था कि हमारे आन्दोलन का विरोध करने वाला पाकिस्तान आज हमारी आज़ादी का स्वयंभू चैम्पियन बन गया है।

अब प्रस्तुत है वह यादगार भाषणः

‘‘मैंने धैर्य और सम्मान के साथ ध्यानपूर्वक पाकिस्तानी प्रतिनिधियों और सुरक्षा परिषद के साथ कई अवसरों पर अपने प्रतिनिधि मण्डल के सदस्यों के बयानों को सुना है। मैंने सुरक्षा परिषद में धैर्यपूर्वक बहस को सुना है, लेकिन मुझे लगता है कि मैं उलझन ;बवदनिेमकद्ध में हूं। आख़िर यह विवाद क्या है? विवाद में बिंदू यह नहीं है कि महाराजा की स्वायत्ता पर प्रश्न खड़े किए गए, जैसे कि कल पाकिस्तानी प्रतिनिधि ने कहा था.......

सुरक्षा परिषद के सामने विवाद का मुद्दा कश्मीर राज्य का कुशासन ;उंसंकउपदपेजतंजपवदद्ध भी नहीं है। विवाद इस वास्तविकता के चारों ओर धूम रहा है कि कश्मीर क़ानूनी और संवैधानिक तरीकें से भारतीय डोमिनियन ;क्वउपदपवदद्ध का हिस्सा बन गया है। सीमा के दोनों ओर क़बाइली जनता हमारे देश में बड़ी संख्या में आ गए हैं। पाकिस्तान सरकार इनकी सहायता करती रही है और कर रही है, इसका उद्देश्य भारत और पाकिस्तान के बीच एक बड़ा युद्ध ;बवदसिंहतंजपवदद्ध छेड़ना है, लेकिन (पाकिस्तानी प्रतिनिधि ने) पाकिस्तानी सरकार के द्वारा क़बाइली जनता या राज्य की सरकार के विरूद्ध बग़ावत करने वालों की किसी भी तरह की सहायता से पूरी तरह इंकार किया है......... और इस तरह इस आसान सी समस्या को उलझाया गया है....... आज पाकिस्तान हमारी स्वाधीनता का चैम्पियन बन गया है। मुझे याद है जब मैंने 1946 में ‘कश्मीर छोड़ो’ का नारा दिया था, उस समय पाकिस्तान सरकार के नेता मोहम्मद अली जिन्ना जो अब गवर्नर जनरल हैं ने मेरी सरकार का विरोध किया था और घोषणा की थी कि यह आन्दोलन कुछ लड़ाकुओं ;त्मदमहंकमेद्ध का आन्दोलन है और मुलमानों का इस आन्दोलन से कोई लेना देना नहीं है।

मुस्लिम कांफ्रेस जिसके विषय में काफी कुछ कहा गया है, उसने मेरे आन्दोलन का विरोध किया था और महाराजा कश्मीर के साथ अपनी वफादारी ;स्वलंसजलद्ध की घोषणा की थी। पाकिस्तान के प्रतिनिधि अब कहते हैं कि कभी ‘कश्मीर छोड़ो’ का समर्थन करने वाले शेख़ अब्दुल्ला ने कश्मीर के महाराजा के साथ हाथ मिला लिया है....... लेकिन जम्मू कश्मीर राज्य और उसके निवासी ख़ामोश क्यों हैं? ऐसा इसलिए था क्योंकि मैं और मेरे संगठन ने इस फार्मूले में कभी विश्वास नहीं रहा कि हिन्दू और मुसलमान दो अलग अलग क़ौमें हैं। हम द्विराष्ट्र सिद्धांत में विश्वास नहीं रखते हैं और न ही साम्प्रदायिक घृणा या साम्प्रदायिकता में। हमारा विश्वास है कि धर्म की राजनीति में कोई जगह नहीं है, इसलिए जब हमने ‘कश्मीर छोड़ो’ आन्दोलन शुरू किया तो केवल मुसलमानों को ही कष्टों का सामना नहीं करना पड़ा था, बल्कि हमारे हिन्दू और सिख कामरेड भी इसका शिकार हुए थे।

राज्य में हालात दिन प्रतिदिन ख़राब हो रहे थे और अल्पसंख्यक बहुत घबराए हुए थे। इसके परिणाम स्वरूप राज्य प्रशासन पर मुझे और मेरे साथियों को रिहा करने का ज़बरदस्त दबाव था। बाहर स्थितियों का तक़ाज़ा था कि नेशनल कांफ्रेंस के सदस्यों को उनके लीडर के साथ रिहा किया जाए और उसी के अनुसार हम रिहा हुए थे। जेल से रिहाई के तुरंत बाद हमारे सामने सबसे महत्वपूर्ण प्रश्न यह था कि कश्मीर को पाकिस्तान या हिन्दुस्तान में शामिल होना चाहिए या फिर आज़ाद रहना चाहिए। हम अपनी आज़ादी को प्राप्त किए बिना इस महत्वपूर्ण समस्या को सुलझा नहीं सकते थे और हमारा नारा ‘शामिल होने से पूर्व आज़ादी’ हो गया। श्रीनगर में मेरे कुछ पाकिस्तानी मित्र मिले, उनसे दिल खोल कर बातचीत हुई और हमने अपने दृष्टिकोण को स्पष्ट किया।

जब मैं पाकिस्तान के हमारे मित्रों के साथ बातचीत में लगा था, मैंने अपने एक साथी को लाहौर रवाना किया, जहां उसने पाकिस्तानी प्रधानमंत्री लियाक़त अली ख़ां और पंजाब सरकार के उच्च अधिकारियों से भेंट की। उनके सामने भी वही दृष्टिकोण मेरे साथी ने पेश किया और उनसे इस महत्वपूर्ण प्रश्न पर विचार करने के लिए और समय देने का निवेदन किया कि हमारे किसी भी ओर होने की घोषणा से पूर्व हमारी आज़ादी के लिए सहायता करें। तब एक दिन जब यह बातचीत जारी थी तो मुझे यह सूचना मिली कि कश्मीर के सीमार्वती क़स्बे मुज़फ्फराबाद पर बाक़ायदा तरीके़ से हमला हुआ है।

आक्रमणकारी हमारी ज़मीन पर आए और हज़ारोें की संख्या में हमारे लोगों का क़त्ल कर डाला। उनमें अधिकतर हिन्दू और सिख थे, लेकिन मुसलमान भी शामिल थे। हज़ारों की संख्या में हिन्दू, सिख और मुसलमान लड़कियों का अपहरण कर लिया, हमारी जायदादों को लूटा और वे ग्रीष्मकालीन राजधानी श्रीनगर के दरवाज़े तक पहुच गए। परिणाम यह हुआ कि शहरी, पुलिस और फौजी व्यवस्था असफल हो गई। महाराजा उसी रात को अपने दरबारियों और अपनी धन दौलत के साथ निकल गए और परिणाम स्वरूप हर तरफ आंतक था। वहां ऐसा कोई नहीं था, जो स्थितियों को नियंत्रण में कर सके। इस आपातकालीन स्थिति में नेशनल कांफ्रेंस अपने दस हज़ार स्वयंसेवकों के साथ सामने आई और देश की व्यवस्था की ज़िम्मेदारी संभाली। हमने राजधानी के बैंकों, कार्यलायों और सभी लोगों के घरों की सुरक्षा की। इस तरह प्रशासन बदला। अब हम प्रशासन को कार्यकारी रूप से चलाने वाले थे। बाद में महाराजा ने इसे क़ानूनी जामा पहना दिया..... मैं स्पष्ट कर रहा था कि किस तरह विवाद पैदा हुआ। किस तरह पाकिस्तान ग़ुलामी की यह परिस्थितियां हम पर थोपना चाहता था। पाकिस्तान को हमारी स्वाधीनता से कोई मतलब नहीं है, अन्यथा उसने हमारे स्वाधीनता आन्दोलन का विरोध नहीं किया होता। पाकिस्तान ने हमारी सहायता की होती, जब हमारे देश के हज़ारों लोग जेलों में बंद थे और कई हज़ार मौत के दहाने पर थे। पाकिस्तानी नेता और पाकिस्तानी समाचारपत्र कश्मीरी जनता को बुरा भला कह रहे थे, जो इन अत्याचारों से गुज़र रहे थे।

तब पाकिस्तान अचानक पूरी दुनिया के सामने जम्मू व कश्मीर की जनता की आज़ादी के चैम्पियन के रूप में आया। मेरा विचार था कि पूरी दुनिया को हिटलर और गोयबल्स मुक्ति मिल चुकी है, लेकिन हमारे ग़रीब देश में जो घटनाएं घटित हुई हैं और जिनका सिलसिला अब भी जारी, मुझे इस बात का पूरा विश्वास है कि उनकी आत्माएं अब पाकिस्तानियों के शरीरों में प्रवेश कर गयी हैं।

अगर पाकिस्तान आगे आता और कहता ‘हम शामिल होने के औचित्य पर प्रश्न करते हैं, मैं इस बात पर बहस के लिए तैयार हूं कि जम्मू व कश्मीर का भारत में शामिल होना क़ानूनी था कि नहीं, हालांकि अब वह कहते हैं कि हम राय शुमारी चाहते हैं, हम कश्मीरी जनता की स्वतंत्रता पूर्वक राय प्राप्त करना चाहते हैं, जनता पर कोई दबाव नहीं होना चाहिए उनको आज़ादी के साथ अधिकार होना चाहिए कि वह किस देश में शामिल होना चाहते हैं’।

बहुत पहले पाकिस्तान को कश्मीरी जनता ने न केवल यह पेशकश की थी बल्कि यह पेशकश भारत के प्रधानमंत्री ने भी उस समय की थी, जबकि मुझे लगता है कि उनको ऐसा करने की थोड़ी भी आवश्यकता नहीं थी, क्योंकि कश्मीर समस्याओं से घिरा था।

हमने मन में यह बैठा लिया है कि हमें पाकिस्तान कभी भी इसकी अनुमति नहीं देगा कि या तो हम मुज़फ्फराबाद, बारामूला, श्रीनगर और अन्य शहरों और गांवों के अपने भाईयों और रिश्तेदारों की तरह कठिनाईयों से घिरे रहें या फिर किसी बाहरी शक्ति से सहायता मांगें।

इन स्थितियों में महाराजा और कश्मीरी जनता दोनों ने भारत सरकार से अपने सम्मिलित होने को स्वीकार करने का निवेदन किया। भारत सरकार इस मांग को आसानी से स्वीकार कर सकती थी और यह कह सकती थी ‘बिल्कुल ठीक, हम तुम्हारे सम्मिलित होने को स्वीकार करते हैं और तुम्हारी सहायता भी करेंगे’। भारतीय प्रधानमंत्री को किसी प्रस्ताव में वृद्धि करने की कोई आवश्यकता नहीं थी, जब वह सम्मिलित होना स्वीकार कर रहे थे और यह कि ‘‘भारत कश्मीर में बुरी स्थितियों का लाभ नहीं उठाना चाहता है। हम यह सम्मिलित होना स्वीकार करेंगे क्योंकि कश्मीर के भारतीय डोमिनियन में शामिल हुए बिना हम कोई फौजी सहायता देने में असमर्थ हैं, लेकिन जब देश आक्रमणकारियों, क़ातिलों और लुटेरों से आज़ाद हो जाए तब जनता इस सम्मिलित होने में संशोधन कर सकती है। यह वह प्रस्ताव था जो भारतीय प्रधानमंत्री नेे पेश किया था। यही वह पेशकश थी जो कश्मीरी जनता ने पाकिस्तानी सरकार से की थी, लेकिन पाकिस्तान ने इंकार कर दिया था, क्योंकि उसे लगा था कि वह एक सप्ताह में पूरे जम्मू व कश्मीर राज्य पर विजय प्राप्त कर लेगा और फिर वह दुनिया के सामने दावा पेश करेगा, जैसा कि युरोप में कुछ समय पहले हो चुका है।

बहरहाल आज हम कश्मीर की स्थितियों के बारे में चर्चा कर रहे हैं। मैं कहना चाहूंगा कि हम बिना डेनमार्क के प्रिंस हेमलेट ड्रामा खेल रहे हैं।

सुरक्षा परिषद को समस्या को उलझाना नहीं चाहिए। प्रश्न यह नहीं कि हम आन्तिरक आज़ादी चाहते हैं। प्रश्न यह नहीं है कि महाराजा ने किस तरह अपना राज्य प्राप्त किया और वह स्वायत्त हैं या नहीं। यह बिंदू सुरक्षा परिषद के सामने नहीं हैं। क्या कश्मीर क़ानूनी रूप से भारत में सम्मिलित हो गया है, इस मुद्दे पर पाकिस्तान की ओर से शिकायत सुरक्षा परिषद के सामने लाई गई है, यह विवाद के बिंदू नहीं हैं। अगर यह विवाद के बिंदू रहे होते तो हमें इस विषय पर बहस करनी चाहिए। हम सुरक्षा परिषद के सामने यह प्रमाणित कर देंगे कि कश्मीर और कश्मीरी जनता क़ानूनी और संवेधानिक आधारों पर भारतीय यूनियन में सम्मिलित हुई है और पाकिस्तान को इस सम्बद्धता पर कोई प्रश्न खड़ा करने का अधिकार नहीं है। फिर भी सुरक्षा परिषद के सामने यह बहस नहीं है। सुरक्षा परिषद को एक कमीशन रवाना करना चाहिए जो जांच करें कि पाकिस्तान के द्वारा जो शिकायत सामने लाई गई है वह ठीक है या नहीं....... इसलिए किसी को उस जगह जाना चाहिए। उसके बाद यह हमारे लिए उचित होगा कि हम प्रमाणित करें कि सुरक्षा परिषद के सामने लाई गई शिकायत अंतिम शब्द तक सही है या नहीं। हम केवल यही सहायता चाहते हैं, इसके अलावा कोई और सहायता नहीं।’’