تاریخ کے اوراق میں محفوظ ایک انتہائی اہم دستاویز اس وقت آپ کی نگاہوں کے سامنے ہے، اس کے بعد زیادہ جگہ بچی ہی نہیں، لہٰذا آج میرے پاس زیادہ لکھنے کا موقع نہیں ہے اور شاید اس کی بہت زیادہ ضرورت بھی نہیں ہے، اس لےے کہ تقسیم وطن کی حقیقت کو سامنے رکھنے کے لےے میں جو حقائق پیش کرنا چاہتا ہوں وہ 5فروری 1948کو منعقدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک انتہائی اہم میٹنگ میں ریاست جموںوکشمیر کے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ کی مندرجہ ذیل تقریر واضح کردیتی ہے۔ بالخصوص میں اپنے قارئین کی توجہ جن دو خاص نکات کی طرف دلانا چاہتا ہوں اور جن کا حوالہ اپنی اس مسلسل تحریر کی آئندہ قسطوں میں بٹوارے کی تاریخی حقیقت کو سامنے رکھنے کے لےے مجھے بار بار پیش کرنے کی ضرورت ہوگی، وہ آپ کی خدمت میں پیش کردینا چاہتا ہوں، تاکہ تمام برادران وطن اور ہماری حکومت کے بھی ذہن نشین رہے کہ اس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی مسلم اکثریت (80%)والی ریاست کے عوام اور اس کے وزیراعظم کا اندازفکر کیا تھا۔
شیخ محمد عبداللہ نے اپنی اس یادگار تقریر میں یہ صاف صاف کہا کہ دو قومی نظریہ اور دوقومی نظریہ کے تحت تقسیم کو وہ اور ان کے ریاست کے عوام تسلیم نہیں کرتے اور یہ بھی کہ سیاست میں مذہب کے لےے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بات کہی تھی اسی وقت ریاست جموںوکشمیر کے اس حکمراں نے جسے اس ریاست میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل تھی، جس کے کہے گئے لفظوں اور فیصلے کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ تقریر یہ بھی واضح کردیتی ہے کہ اس وقت کن حالات کے پیش نظر ریاست جموںوکشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیاتھا اور مذہب کے نام پر وجود میں آئے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے سے صاف انکار کرتے ہوئے شیخ محمد عبداللہ نے محمد علی جناح کے عمل پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ ہماری تحریک کی مخالفت کرنے والا پاکستان آج ہماری آزادی کا خودساختہ چمپئن بن گیا ہے۔
اب ملاحظہ فرمائیں وہ یادگار تقریر:
’’میں نے صبراور احترام کے ساتھ بغور پاکستانی نمائندوں اور سلامتی کونسل کے اراکین کے ساتھ ہی کئی مواقع پر اپنے وفد کے اراکین کے بیانات کو سنا ہے۔ میں نے سلامتی کونسل میں صبر کے ساتھ مباحثہ کو سنا ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں الجھن (onfused) پڑگیاہوں۔آخر کار یہ تنازع کیا ہے؟ تنازع میں نقطہ یہ نہیں ہے کہ مہاراجہ کی خود مختاری پر سوال کھڑے کئے گئے، جیسا کہ کل پاکستانی نمائندہ نے کہا تھا…
سلامتی کونسل کے سامنے تنازع کا ایشو کشمیر ریاست کی بدانتظامی (Maladministration)بھی نہیں ہے۔ تنازعہ اس حقیقت کے چاروں جانب گھوم رہا ہے کہ کشمیر نے قانونی اور آئینی طریقہ سے ہندوستان ڈومی نین (Dominion)میں شمولیت حاصل کی ہے۔ سرحد کی دونوں جانب کے قبائلی عوام ہمارے ملک میں بڑی تعداد میں آگئے ہیں۔ پاکستان حکومت ان کی مدد کرتی رہی ہے اور کررہی ہے، اس کا مقصد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک بڑی جنگ (Conflagration)چھیڑنا ہے، لیکن (پاکستانی نمائندہ نے) پاکستانی حکومت کے ذریعہ قبائلی عوام یا ریاست کی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کی کسی بھی طرح کی مدد سے پوری طرح انکار کیا ہے اور اس طرح اس آسان سے مسئلہ کوالجھا دیاگیا ہے…آج پاکستان ہماری آزادی کا چمپئن بن گیا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے 1946میں ’کشمیر چھوڑو‘ کا نعرہ دیا تھا، اس وقت پاکستان حکومت کے لیڈر جناب محمد علی جناح نے، جو اب گورنر جنرل ہیں میری حکومت کی مخالفت کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ یہ تحریک کچھ لڑاکوں (Renegades)کی تحریک ہے اور مسلمانوں کا اس تحریک سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
مسلم کانفرنس جس کے بارے میں کافی کچھ کہا گیا ہے، اس نے میری تحریک کی مخالفت کی تھی اور مہاراجہ کشمیر کے ساتھ اپنی وفاداری (Loyalty)کا اعلان کیاتھا۔پاکستان کے نمائندے اب کہتے ہیں کہ کبھی ’کشمیر چھوڑو‘ کی حمایت کرنے والے شیخ عبداللہ نے کشمیر کے مہاراجہ کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے…لیکن ریاست جموں وکشمیر او راس کے باشندے خاموش کیوں ہیں؟ ایسا اس لئے تھا، کیونکہ میں اور میری تنظیم کا اس فارمولہ میں کبھی یقین نہیں رہا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔ ہم دو قومی نظریہ میں یقین نہیں رکھتے ہیں اور نہ ہی فرقہ وارانہ منافرت یا فرقہ واریت میں۔ ہمارا یقین ہے کہ مذہب کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے، اس لئے جب ہم نے ’کشمیر چھوڑو‘ تحریک کا آغاز کیا تو صرف مسلمانوں کو ہی تکالیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا، بلکہ ہمارے ہندو اور سکھ کامریڈ بھی اس کا شکار ہوئے تھے۔
ریاست میں حالات دن بدن خراب ہورہے تھے اور اقلیت بہت گھبرائی ہوئی تھی۔اس کے نتیجہ میں ریاستی انتظامیہ پر مجھے اور میرے ساتھیوں کو رہا کرنے کا زبردست دباؤ تھا۔باہری حالات کا تقاضا تھا کہ نیشنل کانفرنس کے اراکین کو ان کے لیڈر کے ساتھ رہا کیا جائے اور اسی کے مطابق ہم رہا ہوئے تھے۔جیل سے رہائی کے فوراًبعد ہمارے سامنے سب سے اہم سوال یہ تھا کہ کشمیر کو پاکستان یا ہندوستان دونوں میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہےے یا پھر آزاد رہنا چاہیے۔ ہم اپنی آزادی کو حاصل کئے بغیر اس اہم مسئلہ کو طے نہیں کرسکتے تھے اورہمارا نعرہ ’ الحاق سے قبل آزادی‘ ہوگیا۔سری نگر میں میرے کچھ پاکستانی دوست ملے۔ ان سے دل کھول کر گفتگو ہوئی اور ہم نے اپنے نقطہ نظر کو واضح کیا۔
جب میںپاکستان کے ہمارے دوستوں کے ساتھ بات چیت میں لگا تھا میں نے اپنے ایک ساتھی کو لاہور روانہ کیا، جہاں اس نے پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان اور پنجاب حکومت کے دوسرے اعلیٰ حکام سے ملاقات کی۔ ان کے سامنے بھی وہی نقطہ نظر میرے ساتھی نے پیش کیا اور ان سے اس اہم سوال پر غور کرنے کے لئے مزید و قت دینے کی گزارش کی کہ ہمارے پہلے کسی بھی جانب الحاق کے اعلان سے قبل ہماری آزادی کے لئے مدد کریں۔تب ایک دن جب یہ گفت وشنید جاری تھی تو مجھے یہ اطلاع ملی کہ کشمیر کے سرحدی علاقے مظفر آباد پر باقاعدہ طریقہ سے حملہ ہوا ہے۔
g حملہ آور ہماری زمین پر آئے اور ہزاروں کی تعداد میں ہمارے لوگوںکو قتل کرڈالا۔ زیادہ تر ہندو اور سکھ، لیکن مسلمان بھی ان میں شامل تھے۔ہزاروں کی تعداد میں ہندو،سکھ اور مسلمان لڑکیوں کو اغوا کرلیا۔ ہماری جائیدادوں کو لوٹا اوروہ موسم گرماکی راجدھانی سری نگر کے دروازے تک پہنچ گئے۔نتیجہ یہ ہوا کہ شہری، پولس اور فوجی نظام ناکام ہوگیا۔ مہاراجہ اسی رات کو اپنے درباریوں اور اپنی مال ودولت کے ساتھ نکل گئے اورنتیجہ کے طور پر ہر طرف دہشت تھی وہاں ایسا کوئی نہیںتھا، جو حالات کو قابو میں کر سکے۔ ان ہنگامی حالات میں نیشنل کانفرنس اپنے 10ہزار رضا کاروں کے ساتھ سامنے آئی اور ملک کے انتظام کی باگ ڈور سنبھالی۔ہم نے راجدھانی کے بینکوں ، دفاتر اور سبھی لوگوں کے گھروں کی حفاظت کی ۔اس طرح انتظامیہ تبدیل ہوا۔اب ہم انتظامیہ کو کار گزار کے طور پر چلانے والے تھے۔ بعد میں مہاراجانے اسے قانونی جامہ پہنا دیا… میں واضح کررہا تھا کہ کس طرح تنازع پیدا ہوا۔ کس طرح پاکستان غلامی کے یہ حالات ہم پر تھوپنا چاہتا تھا۔ پاکستان کو ہماری آزادی سے کوئی مطلب نہیں ہے، ورنہ اس نے ہماری آزادی کی تحریک کی مخالفت نہ کی ہوتی۔ پاکستان نے ہماری مدد کی ہوتی، جب ہمارے ملک کے ہزاروں لوگ جیلوں میں قید تھے اور کئی ہزار موت کے دہانے پر تھے۔ پاکستانی لیڈر اور پاکستانی اخبارات کشمیر ی عوام کو برا بھلا کہہ رہے تھے، جو ان مظالم سے گزر رہے تھے۔
تب یکایک پاکستان پوری دنیا کے سامنے جموں وکشمیر عوام کی آزادی کے چمپئن کے طور پر آیا۔ میرا خیال تھا کہ پوری دنیا کو ہٹلر اور گوبیلس سے نجات مل چکی ہے، لیکن ہمارے غریب ملک میں جو واقعات ظہور پذیر ہوئے اور جن کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔مجھے اب اس بات کا یقین ہے کہ ان کی روحیں اب پاکستانیوں کے جسموں میں منتقل ہوگئی ہیں۔
اگر پاکستان آگے آتا اور کہتا ’ہم الحاق کی قانونی حیثیت پر سوال کرتے ہیں‘ تو میں اس بات پر مباحثہ کے لئے رضامند ہوجاتا کہ جموں وکشمیر کے الحاق کی قانونی حیثیت پر ہندوستان رضامند ہے یا نہیں، اب وہ کہتے ہیں کہ ہم رائے شماری چاہتے ہیں، ہم کشمیری عوام کی آزادانہ رائے حاصل کرنا چاہتے ہیں، عوام پر کوئی دبائو نہیں ہونا چاہئے ان کو آزادانہ اختیار ہونا چاہئے کہ وہ کس ملک کے ساتھ الحاق کے خواہاں ہیں۔‘‘
بہت پہلے پاکستان کو کشمیری عوام نے نہ صرف یہ پیشکش کی تھی بلکہ یہ پیشکش وزیر اعظم ہندوستان نے بھی اس وقت پیش کی تھی جب مجھے لگتا ہے کہ ان کو ایسا کرنے کی تھوڑی بھی ضرورت نہیں تھی کیونکہ کشمیر مسائل سے دوچار تھا۔
ہم نے یہ ذہن نشیں کرلیا ہے کہ ہمیں پاکستان کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دے گا کہ یا تو ہم مظفرآباد، بارہ مولہ، سری نگر اور دوسرے شہروں اور گائوں کے اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کی طرح پریشانیوں میں مبتلا رہیں یا پھر کسی باہری طاقت سے مدد طلب کریں۔
ان حالات میں مہاراجہ اور کشمیری عوام دونوں نے حکومت ہند سے شمولیت کو قبول کرنے کی درخواست کی۔ حکومت ہند اس مطالبہ کو بہ آسانی قبول کرسکتی تھی اور یہ کہہ سکتی تھی ’’بالکل ٹھیک ہم تمہاری شمولیت کو قبول کرتے ہیں اور تمہاری مدد بھی کریں گے‘‘۔ وزیر اعظم ہند کو کسی تجویز میں اضافہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی جب وہ شمولیت قبول کررہے تھے اور یہ کہ ’’ہندوستان کشمیر میں برے حالات کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہتاہے۔ ہم یہ شمولیت قبول کریں گے کیونکہ بغیر کشمیر کے ہندوستان ڈومی نین میں شامل ہوئے ہم کوئی فوجی مدد دینے سے قاصر ہیں، لیکن جب ملک حملہ آوروں، قاتلوں اور لٹیروں سے آزاد ہوجائے تب عوام اس شمولیت میں ترمیم کرسکتی ہے۔‘‘ یہ وہ تجویز تھی جو وزیر اعظم ہند نے پیش کی تھی۔یہی وہ پیشکش تھی جو کشمیری عوام نے حکومت پاکستان سے کی تھی لیکن پاکستان نے انکار کردیا تھا کیونکہ اسے لگا تھا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر پوری جموں وکشمیر ریاست پر فتح حاصل کرلے گا اور پھر وہ دنیا کے سامنے دعویٰ پیش کرے گا جیسا کہ یورپ میں کچھ وقت پہلے ہوچکا ہے۔
بہرحال ہم کشمیر کے حالات کے بارے میں ذکر کررہے ہیں۔ میں کہنا چاہوں گا کہ ہم بغیر ڈنمارک کے پرنس کے ہیملیٹ ڈرامہ کھیل رہے ہیں۔
سلامتی کونسل کو مسئلہ کو الجھانا نہیں چاہئے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ ہم داخلی آزادی چاہتے ہیں، سوال یہ نہیں ہے کہ مہاراجہ نے کس طرح اپنی ریاست حاصل کی اور وہ خود مختار ہیں یا نہیں۔ یہ نکات سلامتی کونسل کے سامنے نہیں ہیں۔ کیا کشمیر نے قانونی طور پر ہندوستان میں شمولیت کی ہے، اس ایشو پر پاکستان کی جانب سے شکایت سلامتی کونسل کے سامنے لائی گئی یہ تنازع کے نکات نہیں ہیں۔ اگر یہ تنازع کے نکات رہے ہوتے تو ہمیں اس موضوع پر بحث کرنی چاہئے۔ ہم سلامتی کونسل کے سامنے یہ ثابت کردیں گے کہ کشمیر اور کشمیری عوام نے قانونی اور آئینی بنیادوں پر ہندوستان ڈومی نین میں شمولیت حاصل کی ہے اور پاکستان کو اس شمولیت پر کوئی سوال کھڑے کرنے کا حق نہیں ہے۔ تاہم سلامتی کونسل کے سامنے یہ بحث نہیں ہے۔ سلامتی کونسل کو ایک کمیشن کشمیر روانہ کرنا چاہئے جو تحقیق کرے کہ پاکستان کے ذریعہ جو شکایت سامنے لائی گئی ہے وہ درست ہے یا نہیں… اس لئے کسی کو اس جگہ جانا چاہئے۔ اس کے بعد یہ ہمارے لئے مناسب ہوگا کہ ہم ثابت کریں کہ سلامتی کونسل کے سامنے لائی گئی شکایت آخری لفظ تک صحیح ہے یا نہیں۔ ہم صرف یہی مدد چاہتے ہیں اس کے علاوہ کوئی اور مدد نہیں۔‘
شیخ محمد عبداللہ نے اپنی اس یادگار تقریر میں یہ صاف صاف کہا کہ دو قومی نظریہ اور دوقومی نظریہ کے تحت تقسیم کو وہ اور ان کے ریاست کے عوام تسلیم نہیں کرتے اور یہ بھی کہ سیاست میں مذہب کے لےے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بات کہی تھی اسی وقت ریاست جموںوکشمیر کے اس حکمراں نے جسے اس ریاست میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل تھی، جس کے کہے گئے لفظوں اور فیصلے کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ تقریر یہ بھی واضح کردیتی ہے کہ اس وقت کن حالات کے پیش نظر ریاست جموںوکشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیاتھا اور مذہب کے نام پر وجود میں آئے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے سے صاف انکار کرتے ہوئے شیخ محمد عبداللہ نے محمد علی جناح کے عمل پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ ہماری تحریک کی مخالفت کرنے والا پاکستان آج ہماری آزادی کا خودساختہ چمپئن بن گیا ہے۔
اب ملاحظہ فرمائیں وہ یادگار تقریر:
’’میں نے صبراور احترام کے ساتھ بغور پاکستانی نمائندوں اور سلامتی کونسل کے اراکین کے ساتھ ہی کئی مواقع پر اپنے وفد کے اراکین کے بیانات کو سنا ہے۔ میں نے سلامتی کونسل میں صبر کے ساتھ مباحثہ کو سنا ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں الجھن (onfused) پڑگیاہوں۔آخر کار یہ تنازع کیا ہے؟ تنازع میں نقطہ یہ نہیں ہے کہ مہاراجہ کی خود مختاری پر سوال کھڑے کئے گئے، جیسا کہ کل پاکستانی نمائندہ نے کہا تھا…
سلامتی کونسل کے سامنے تنازع کا ایشو کشمیر ریاست کی بدانتظامی (Maladministration)بھی نہیں ہے۔ تنازعہ اس حقیقت کے چاروں جانب گھوم رہا ہے کہ کشمیر نے قانونی اور آئینی طریقہ سے ہندوستان ڈومی نین (Dominion)میں شمولیت حاصل کی ہے۔ سرحد کی دونوں جانب کے قبائلی عوام ہمارے ملک میں بڑی تعداد میں آگئے ہیں۔ پاکستان حکومت ان کی مدد کرتی رہی ہے اور کررہی ہے، اس کا مقصد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک بڑی جنگ (Conflagration)چھیڑنا ہے، لیکن (پاکستانی نمائندہ نے) پاکستانی حکومت کے ذریعہ قبائلی عوام یا ریاست کی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کی کسی بھی طرح کی مدد سے پوری طرح انکار کیا ہے اور اس طرح اس آسان سے مسئلہ کوالجھا دیاگیا ہے…آج پاکستان ہماری آزادی کا چمپئن بن گیا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے 1946میں ’کشمیر چھوڑو‘ کا نعرہ دیا تھا، اس وقت پاکستان حکومت کے لیڈر جناب محمد علی جناح نے، جو اب گورنر جنرل ہیں میری حکومت کی مخالفت کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ یہ تحریک کچھ لڑاکوں (Renegades)کی تحریک ہے اور مسلمانوں کا اس تحریک سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
مسلم کانفرنس جس کے بارے میں کافی کچھ کہا گیا ہے، اس نے میری تحریک کی مخالفت کی تھی اور مہاراجہ کشمیر کے ساتھ اپنی وفاداری (Loyalty)کا اعلان کیاتھا۔پاکستان کے نمائندے اب کہتے ہیں کہ کبھی ’کشمیر چھوڑو‘ کی حمایت کرنے والے شیخ عبداللہ نے کشمیر کے مہاراجہ کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے…لیکن ریاست جموں وکشمیر او راس کے باشندے خاموش کیوں ہیں؟ ایسا اس لئے تھا، کیونکہ میں اور میری تنظیم کا اس فارمولہ میں کبھی یقین نہیں رہا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔ ہم دو قومی نظریہ میں یقین نہیں رکھتے ہیں اور نہ ہی فرقہ وارانہ منافرت یا فرقہ واریت میں۔ ہمارا یقین ہے کہ مذہب کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے، اس لئے جب ہم نے ’کشمیر چھوڑو‘ تحریک کا آغاز کیا تو صرف مسلمانوں کو ہی تکالیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا، بلکہ ہمارے ہندو اور سکھ کامریڈ بھی اس کا شکار ہوئے تھے۔
ریاست میں حالات دن بدن خراب ہورہے تھے اور اقلیت بہت گھبرائی ہوئی تھی۔اس کے نتیجہ میں ریاستی انتظامیہ پر مجھے اور میرے ساتھیوں کو رہا کرنے کا زبردست دباؤ تھا۔باہری حالات کا تقاضا تھا کہ نیشنل کانفرنس کے اراکین کو ان کے لیڈر کے ساتھ رہا کیا جائے اور اسی کے مطابق ہم رہا ہوئے تھے۔جیل سے رہائی کے فوراًبعد ہمارے سامنے سب سے اہم سوال یہ تھا کہ کشمیر کو پاکستان یا ہندوستان دونوں میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہےے یا پھر آزاد رہنا چاہیے۔ ہم اپنی آزادی کو حاصل کئے بغیر اس اہم مسئلہ کو طے نہیں کرسکتے تھے اورہمارا نعرہ ’ الحاق سے قبل آزادی‘ ہوگیا۔سری نگر میں میرے کچھ پاکستانی دوست ملے۔ ان سے دل کھول کر گفتگو ہوئی اور ہم نے اپنے نقطہ نظر کو واضح کیا۔
جب میںپاکستان کے ہمارے دوستوں کے ساتھ بات چیت میں لگا تھا میں نے اپنے ایک ساتھی کو لاہور روانہ کیا، جہاں اس نے پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان اور پنجاب حکومت کے دوسرے اعلیٰ حکام سے ملاقات کی۔ ان کے سامنے بھی وہی نقطہ نظر میرے ساتھی نے پیش کیا اور ان سے اس اہم سوال پر غور کرنے کے لئے مزید و قت دینے کی گزارش کی کہ ہمارے پہلے کسی بھی جانب الحاق کے اعلان سے قبل ہماری آزادی کے لئے مدد کریں۔تب ایک دن جب یہ گفت وشنید جاری تھی تو مجھے یہ اطلاع ملی کہ کشمیر کے سرحدی علاقے مظفر آباد پر باقاعدہ طریقہ سے حملہ ہوا ہے۔
g حملہ آور ہماری زمین پر آئے اور ہزاروں کی تعداد میں ہمارے لوگوںکو قتل کرڈالا۔ زیادہ تر ہندو اور سکھ، لیکن مسلمان بھی ان میں شامل تھے۔ہزاروں کی تعداد میں ہندو،سکھ اور مسلمان لڑکیوں کو اغوا کرلیا۔ ہماری جائیدادوں کو لوٹا اوروہ موسم گرماکی راجدھانی سری نگر کے دروازے تک پہنچ گئے۔نتیجہ یہ ہوا کہ شہری، پولس اور فوجی نظام ناکام ہوگیا۔ مہاراجہ اسی رات کو اپنے درباریوں اور اپنی مال ودولت کے ساتھ نکل گئے اورنتیجہ کے طور پر ہر طرف دہشت تھی وہاں ایسا کوئی نہیںتھا، جو حالات کو قابو میں کر سکے۔ ان ہنگامی حالات میں نیشنل کانفرنس اپنے 10ہزار رضا کاروں کے ساتھ سامنے آئی اور ملک کے انتظام کی باگ ڈور سنبھالی۔ہم نے راجدھانی کے بینکوں ، دفاتر اور سبھی لوگوں کے گھروں کی حفاظت کی ۔اس طرح انتظامیہ تبدیل ہوا۔اب ہم انتظامیہ کو کار گزار کے طور پر چلانے والے تھے۔ بعد میں مہاراجانے اسے قانونی جامہ پہنا دیا… میں واضح کررہا تھا کہ کس طرح تنازع پیدا ہوا۔ کس طرح پاکستان غلامی کے یہ حالات ہم پر تھوپنا چاہتا تھا۔ پاکستان کو ہماری آزادی سے کوئی مطلب نہیں ہے، ورنہ اس نے ہماری آزادی کی تحریک کی مخالفت نہ کی ہوتی۔ پاکستان نے ہماری مدد کی ہوتی، جب ہمارے ملک کے ہزاروں لوگ جیلوں میں قید تھے اور کئی ہزار موت کے دہانے پر تھے۔ پاکستانی لیڈر اور پاکستانی اخبارات کشمیر ی عوام کو برا بھلا کہہ رہے تھے، جو ان مظالم سے گزر رہے تھے۔
تب یکایک پاکستان پوری دنیا کے سامنے جموں وکشمیر عوام کی آزادی کے چمپئن کے طور پر آیا۔ میرا خیال تھا کہ پوری دنیا کو ہٹلر اور گوبیلس سے نجات مل چکی ہے، لیکن ہمارے غریب ملک میں جو واقعات ظہور پذیر ہوئے اور جن کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔مجھے اب اس بات کا یقین ہے کہ ان کی روحیں اب پاکستانیوں کے جسموں میں منتقل ہوگئی ہیں۔
اگر پاکستان آگے آتا اور کہتا ’ہم الحاق کی قانونی حیثیت پر سوال کرتے ہیں‘ تو میں اس بات پر مباحثہ کے لئے رضامند ہوجاتا کہ جموں وکشمیر کے الحاق کی قانونی حیثیت پر ہندوستان رضامند ہے یا نہیں، اب وہ کہتے ہیں کہ ہم رائے شماری چاہتے ہیں، ہم کشمیری عوام کی آزادانہ رائے حاصل کرنا چاہتے ہیں، عوام پر کوئی دبائو نہیں ہونا چاہئے ان کو آزادانہ اختیار ہونا چاہئے کہ وہ کس ملک کے ساتھ الحاق کے خواہاں ہیں۔‘‘
بہت پہلے پاکستان کو کشمیری عوام نے نہ صرف یہ پیشکش کی تھی بلکہ یہ پیشکش وزیر اعظم ہندوستان نے بھی اس وقت پیش کی تھی جب مجھے لگتا ہے کہ ان کو ایسا کرنے کی تھوڑی بھی ضرورت نہیں تھی کیونکہ کشمیر مسائل سے دوچار تھا۔
ہم نے یہ ذہن نشیں کرلیا ہے کہ ہمیں پاکستان کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دے گا کہ یا تو ہم مظفرآباد، بارہ مولہ، سری نگر اور دوسرے شہروں اور گائوں کے اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کی طرح پریشانیوں میں مبتلا رہیں یا پھر کسی باہری طاقت سے مدد طلب کریں۔
ان حالات میں مہاراجہ اور کشمیری عوام دونوں نے حکومت ہند سے شمولیت کو قبول کرنے کی درخواست کی۔ حکومت ہند اس مطالبہ کو بہ آسانی قبول کرسکتی تھی اور یہ کہہ سکتی تھی ’’بالکل ٹھیک ہم تمہاری شمولیت کو قبول کرتے ہیں اور تمہاری مدد بھی کریں گے‘‘۔ وزیر اعظم ہند کو کسی تجویز میں اضافہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی جب وہ شمولیت قبول کررہے تھے اور یہ کہ ’’ہندوستان کشمیر میں برے حالات کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہتاہے۔ ہم یہ شمولیت قبول کریں گے کیونکہ بغیر کشمیر کے ہندوستان ڈومی نین میں شامل ہوئے ہم کوئی فوجی مدد دینے سے قاصر ہیں، لیکن جب ملک حملہ آوروں، قاتلوں اور لٹیروں سے آزاد ہوجائے تب عوام اس شمولیت میں ترمیم کرسکتی ہے۔‘‘ یہ وہ تجویز تھی جو وزیر اعظم ہند نے پیش کی تھی۔یہی وہ پیشکش تھی جو کشمیری عوام نے حکومت پاکستان سے کی تھی لیکن پاکستان نے انکار کردیا تھا کیونکہ اسے لگا تھا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر پوری جموں وکشمیر ریاست پر فتح حاصل کرلے گا اور پھر وہ دنیا کے سامنے دعویٰ پیش کرے گا جیسا کہ یورپ میں کچھ وقت پہلے ہوچکا ہے۔
بہرحال ہم کشمیر کے حالات کے بارے میں ذکر کررہے ہیں۔ میں کہنا چاہوں گا کہ ہم بغیر ڈنمارک کے پرنس کے ہیملیٹ ڈرامہ کھیل رہے ہیں۔
سلامتی کونسل کو مسئلہ کو الجھانا نہیں چاہئے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ ہم داخلی آزادی چاہتے ہیں، سوال یہ نہیں ہے کہ مہاراجہ نے کس طرح اپنی ریاست حاصل کی اور وہ خود مختار ہیں یا نہیں۔ یہ نکات سلامتی کونسل کے سامنے نہیں ہیں۔ کیا کشمیر نے قانونی طور پر ہندوستان میں شمولیت کی ہے، اس ایشو پر پاکستان کی جانب سے شکایت سلامتی کونسل کے سامنے لائی گئی یہ تنازع کے نکات نہیں ہیں۔ اگر یہ تنازع کے نکات رہے ہوتے تو ہمیں اس موضوع پر بحث کرنی چاہئے۔ ہم سلامتی کونسل کے سامنے یہ ثابت کردیں گے کہ کشمیر اور کشمیری عوام نے قانونی اور آئینی بنیادوں پر ہندوستان ڈومی نین میں شمولیت حاصل کی ہے اور پاکستان کو اس شمولیت پر کوئی سوال کھڑے کرنے کا حق نہیں ہے۔ تاہم سلامتی کونسل کے سامنے یہ بحث نہیں ہے۔ سلامتی کونسل کو ایک کمیشن کشمیر روانہ کرنا چاہئے جو تحقیق کرے کہ پاکستان کے ذریعہ جو شکایت سامنے لائی گئی ہے وہ درست ہے یا نہیں… اس لئے کسی کو اس جگہ جانا چاہئے۔ اس کے بعد یہ ہمارے لئے مناسب ہوگا کہ ہم ثابت کریں کہ سلامتی کونسل کے سامنے لائی گئی شکایت آخری لفظ تک صحیح ہے یا نہیں۔ ہم صرف یہی مدد چاہتے ہیں اس کے علاوہ کوئی اور مدد نہیں۔‘
No comments:
Post a Comment