کولکاتہ پریسڈینسی جیل میں بند عبداللہ کی داستان کا ایک بڑا حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاچکا ہے۔ وقت اور حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم اس داستان کو آگے بڑھائیں، اس لےے کہ کشمیر کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جارہے ہیں، لہٰذا ہم اس سلسلہ کو یہیں روکتے ہیں۔ اتنی روداد منظرعام پر لانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اگر وہ سب کچھ جو عبداللہ نے لکھا، صحیح ہے تو جس طرح تہاڑ جیل سے معارف اور ارشد نے اپنی داستان لکھ کر ہمیں بھیجی، ہم نے اسے شامل اشاعت کیا، پھر انہیں رہائی نصیب ہوئی، ایسا ہی کچھ کانپور سے تعلق رکھنے واصف حیدر وغیرہ کے معاملہ میں ہوا۔ ہمیں خوشی ہوگی کہ اگر یہی سچ ہے تو اسے بھی انصاف ملے۔
لیکن اب کشمیر کے حالات کی طرف واپس لوٹنا بیحد ضروری لگتا ہے۔ حال ہی میں کشمیر کے دورہ سے واپس لوٹے سنگھ پریوار کے رکن ترون وجئے نے جس طرح سی آر پی ایف کے جوانوں کے حالات کا تذکرہ کیا ہے اور کشمیریوں کے حوالہ سے اپنے نظریات کا اظہار کیا ہے، اسے پڑھ کر بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید یہی وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے کشمیر کے حالات معمول پر نہیں آپاتے۔ بیشک ہماری تمام ہمدردیاں اور محبتیں اپنی فوج اور پولس کے ساتھ ہونی چاہئیں، مگر ہم اپنے ملک کے عوام کی طرف سے بھی بے توجہی اختیار نہیں کرسکتے، ان کے افسوسناک حالات کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ ہمیں اپنی فکر کے اس دوہرے معیار کو بدلنا ہوگا۔ جب نکسلائٹس ہماری پولس اور فوج پر حملہ آور ہوتے ہیں، ان کی جان تک لے لیتے ہیں تو ہمارا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ ان سے بات کی جائے، ان کی مہم کا مقصد کیا ہے اس کو سمجھا جائے اور جب کشمیر کا معاملہ ہوتا ہے تو ہمارا اندازفکر مختلف ہوتا ہے۔ ہم دونوں کی ہی تائید نہیں کرتے، کشمیر میں اگر پولس اور سی آر پی ایف کے جوانوں کو نشانہ بناکر حملہ کیا جاتا ہے تو یہ قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔ اسی طرح نکسلائٹس جو ہماری پولس اور فوج پر حملہ کرتے ہیں، وہ بھی قابل مذمت ہے، مگر اس فرق کو یوں بھی سمجھنا ہوگا کہ کشمیر میں جو ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے، اس میں پولس اور فوج کی اپنی کارکردگی کیا قابل ستائش ہے؟ ہم نے جس طرح ہر دروازہ پر پولس تعینات کردی ہے، کیا یہ قابل ستائش ہے؟ ہم جس طرح مظاہرہ کرنے والوں کی آواز کو دبا دینا چاہتے ہیں، پولس کی گولی کا معصوم بچے شکار ہوتے ہیں، کیا یہ قابل ستائش ہے؟ اور جب جن کی گولیوں سے یہ بچے ہلاک ہوتے ہیں، ان کے خلاف مظاہرہ کرکے اپنی بات کہنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ان سے یہ حق بھی چھین لیا جاتا ہے، کیا یہ قابل ستائش ہے؟ آج کشمیر کے حالات کے لےے کون ذمہ دار ہے، کیا یہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے؟ ہمیں اس بات کا بھی انتہائی افسوس ہے کہ جموںوکشمیر کے وزیراعلیٰ حالات کو قابو میں رکھنے کے لےے مرکز سے مزید فوج کا مطالبہ کررہے ہیں۔ کیا انہوں نے ایک بار بھی یہ سوچا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ کشمیر میں فوج کی تعیناتی ہی سب سے بڑا مسئلہ ہو۔ انہیں کیوں یہ یاد نہیں رہا کہ ان کے دادا شیخ محمد عبداللہ وادی کے سب سے پسندیدہ اور مقبول لیڈر تھے۔ آج ان کے اس نوجوان چہرے میں کشمیر کا عوام ان سے یہی امید کررہا تھا کہ مرکزی حکومت سے ان کے بہتر رشتے ہیں، جس کا فائدہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی شکل میں مل سکتا ہے۔ شاید انہیں اپنی بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے تاریخ کے دامن میں جھانکنے کا ایک قدر موقع نہ ملا ہو کہ انہوں نے اگست947کے بعد سے آج تک کے حالات کو سمجھ لیا ہو اور مرکزی حکومت سے کشمیر کے ماضی، حال اور مستقبل کو سامنے رکھ کر بات چیت کرنے کا فیصلہ کرلیا ہو۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر اب ہمارے لےے اوّلیت پر ہے۔ ہم موجودہ حالات کو سامنے رکھ کر بھی تمام حقائق پیش کرتے رہےں گے اور ہم حال ہی کے پرتشدد واقعات میں ہلاک ہونے والے اشفاق احمد کھانڈے15)، امتیاز احمد17)اور شجاعت الاسلام19) پر بھی وزیراعلیٰ کی توجہ دلانا چاہیں گے کہ ان کم عمر بچوں کے ساتھ جو سلوک ہوا، کیا وہ حق بجانب تھایا پھر ان کی موت کو حادثہ نہ مانتے ہوئے اسے قتل کی واردات تسلیم کیا جائے؟ اور جو بھی اس کے لےے ذمہ دار ہیں، ان سے بازپرس کی جائے۔ اگر ہم اسی طرح ہر حادثہ کے بعد ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے، جو ان حالات کے لےے ذمہ دار ہیں اور مزید فوج کی تعیناتی کرتے رہیں گے، وادئ کشمیر کو ایک ایسی جیل کی شکل دے دیں گے، جس میں رہنے والوں کو اتنی سہولتیں بھی مہیا نہ ہوں، جتنی کہ عام قیدیوں کو قید میں رہنے پر ہوتی ہیں تو کیا ہم امید کرسکتے ہیں کہ یہ وہ راستہ ہے، جس پر چل کر ہم کشمیر کے پرامن حل کی امید کرسکتے ہیں۔ باوجود اس تمام خونریزی کے ہم نکسلائٹس کے جذبات کو سمجھنا چاہتے ہیں، ان سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں، مسئلہ کا پرامن حل تلاش کرنا چاہتے ہیں، یہ ایک مثبت سوچ ہے۔ مگر یہ سوچ صرف نکسلائٹس تک محدود نہ رہے، بلکہ ہمیں اسی سوچ کا مظاہرہ کشمیر اور کشمیریوں کے حوالے سے بھی کرنا چاہےے۔ میں عنقریب 11جون کو طفیل کی ہلاکت کے بعد سے 29جون کو ہلاک ہونے والے اشفاق احمد کھانڈے15)، امتیاز احمد17)اور شجاعت الاسلام19)اور وادی میں ان سب کے قتل کو لے کر پیدا ہوئے حالات پر ایک مفصل رپورٹ وزیراعلیٰ جموںوکشمیر اور حکومت ہند کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، مگر ساتھ ہی میں یہ بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ تاریخ کے دامن میں جھانکنے کا جو سلسلہ ہم نے شروع کیا ہے، اس کو بھی ذہن میں رکھا جائے۔ اگر ہم ماضی کو نظرانداز کریں گے تو نہ حال کے واقعات کو سمجھ پائیں گے اور نہ مستقبل کی بہتری کے لےے کچھ فیصلے لے پائیں گے۔ لہٰذا اسی کوشش کے پیش نظر میں قارئین اور حکومت ہند کی خدمت میں پیش کررہا ہوں شیخ محمدعبداللہ کی وہ تاریخی تقریر جو انہوں نے 11اگست952کو کونسٹیونٹ اسمبلی(آئین سازاسمبلی) میں کی۔
ملاحظہ فرمائیں شیخ محمد عبداللّٰہ کا تاریخی خطاب :
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اقتدار کے لیے ہماری جدوجہد اس آئین ساز اسمبلی کے انعقاد کے ذریعہ کامیابی کے ساتھ اپنے نقطہ عروج (Climax) پر پہنچ گئی ہے۔ یہ آپ کے لیے ہے کہ نئے کشمیر کو حقیقت میں تبدیل کریں اور میں اس کے ابتدائی الفاظ کو یاد دلانا چاہوں گا، جو ہمارے جذبات کو متحرک کریں گے۔
’’ ہم جموں و کشمیر، لداخ اور سرحدی علاقوں کے لوگ بشمول پونچھ اور چینانی علاقہ جو عام طورسے جموں و کشمیر ریاست کے طورپر جانی جاتی ہے، اپنی یونین کو مکمل طورپر برابری اور خود تعین کرنے کے عمل سے آراستہ کرنے اور ہم خود اور اپنے بچوں کو ہمیشہ کے لیے ظلم کے غار، غریبی، ذلت اور توہم پرستی، قرون وسطیٰ کے اندھیرے اور لاعلمی سے سورج کی روشنی سے بھری پری گھاٹی کی جانب، جہاں آزادی، سائنس اور دیانت داری کی حکومت ہو، جہاں مشرق کے عوام کی تاریخی حیات نو اور پوری دنیا کے کام کرنے والے عوام کی قابل قدر شراکت ہو اور ایشیا کی اس سرزمین کو برف کے سینے پر ایک گوہر کی مانند چمکانے کا پختہ یقین ہو، ہم اپنی ریاست کے مندرجہ ذیل آئین کی تجویز کو غور کرنے کے لیے پیش کرتے ہیں۔
یہ سری نگر نیشنل کانفرنس کے 1944میں ہوئے سیشن میں قبول کیا گیا تھا۔ آج 1951میں اس آئین ساز اسمبلی میں ریاست کے چاروں جانب سے شامل مرد اور عورتیں اور ان کی شامل تمناؤں نے خود مختار اتھارٹی کا مخزن بنادیا ہے۔ اس اسمبلی کو آئین ساز مجلس کی اتھارٹی سے آراستہ کیا گیا ہے اور یہ ریاست کے تمام شہریوں کے جمہوری حق، انصاف پسند سماجی ضابطے اور تحفظات کے بنیادی قوانین کے قیام کے لیے ضروری بنیاد کا سرچشمہ ہوگا۔
آپ ریاست جموں و کشمیر میں خود مختار اتھارٹی ہیں، آپ جو طے کریں گے اسے ناقابل تنسیخ قانون کی طاقت حاصل ہوگی۔ کسی ملک کے لئے بنیادی جمہوری اصول امریکی اور فرانسیسی آئین میں اچھی طرح شامل کیے گئے ہیں اور ایک بار پھر ہمارے درمیان اس کو نئی شکل دی گئی ہے۔ میں 1791کے فرانسیسی آئین کے آرٹیکل 3کے مشہور الفاظ دوہرانا چاہوں گا۔
’’بنیادی طورپر سبھی طرح کی خود مختاری کا منبع ملک ہوتا ہے… خود مختاری ناقابل تقسیم، ناقابل انتقال اور وقت کے ساتھ ختم نہیں (Impreseriptale) ہوتی ہے۔‘‘
ہمیں یہ طاقت کس طرح کی ذمہ داری دیتی ہے، یہ واضح ہونا چاہیے۔ ہمارے سامنے اعلیٰ قومی مفاد کے فیصلے ہیں جن کو ہمیں قبول کرناہوگا۔ ہمارے ذریعہ لیے گئے فیصلوں کی درستگی کا انحصار نہ صرف ہماری سرزمین اور اس کے لوگوں کی خوشیوں سے ہوگا بلکہ آنے والی نسلوں کی قسمت سے بھی ہوگا۔
تو پھر اس اسمبلی کا قیام کن اہم کاموں کو کرنے کے لیے کیا گیا ہوگا؟ ایک عظیم کام جو اس اسمبلی کے سامنے ہے، وہ یہ کہ مستقبل میں ملک کو چلانے کے لیے آئین سازی کو انجام دینا ہوگا۔ آئین بنانا ایک مشکل اور طویل معاملہ ہے۔ میں آئین کے کچھ خاص پہلوؤں کے بارے میں بتانا چاہوں گا، جو اس اسمبلی کی محنت کانتیجہ ہوگا۔
ملک کے لیے ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہوگا کہ مہاراجا کے خاندان کا مستقبل کیا ہوگا؟ہمیں جلد اور ذہانت سے فیصلہ کرنا ہوگااور اسی فیصلے پر ہماری ریاست کا طرز عمل اور کردار کا انحصار ہوگا۔
تیسرا اہم مسئلہ جو آپ کی توجہ کا انتظار کررہا ہے، وہ ہے لینڈریفارم اس سے جڑے حالات جسے حکومت نے بڑے جوش اور اعتماد کے ساتھ شروع کیا تھا۔
’ہماری زمین کاشت کرنے والے کی‘ پالیسی کاشت کاروں کے اندھیرے مکانوں میں روشنی پھیلارہی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ اس نے زمین مالکان کے معاوضہ کے مطالبہ کا مسئلہ بھی پیدا کیا۔ ملک تمام دولت اور وسائل کا مالک ہوتا ہے اور ملک کے نمائندے اپنے دعوؤں پر صحیح اور آخری فیصلہ دینے والے بہترین منصف ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ کے ہاتھوں میں اس فیصلے کی طاقت ہے۔
آخر میں، یہ اسمبلی ان تین متبادل، جسے میں بعد میں بتاؤں گا، پر غور کرنے کے بعد الحاق پر اپنا حتمی فیصلہ دے گی۔ یہ ہماری توانائی (صلاحیتوں) اور جوش کو ایک سمت دے گی اور جس سمت میں ہم پہلے ہی اپنے ملک کوسماجی اور اقتصادی ترقی دینے کے لیے نکل پڑے ہیں۔
آئین بنانے سے پہلے خصوصی کام کے لیے ہمیں قدرتی طورپر دنیا بھرکے جمہوری آئین کے بہترین اصولوں سے رہنمائی حاصل کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنے کام کو برابری، آزادی اور سماجی انصاف کے اصولوں کی بنیاد پر کرنا ہوگا جو کہ آج تمام ترقی پذیر آئین کا ایک اہم جز بن گیا ہے۔ تمام جمہوری ممالک میں ضروری سمجھا جانے والا قانون کا راج ہمارے سیاسی ڈھانچے کی بنیادی چیز ہونی چاہیے۔ قانونی معاملات میں سب کی برابری اور عدلیہ کا عاملہ کے اثر سے آزاد ہونا ہمارے لیے نہایت اہم ہے۔ بولنے، تحریک اور انجمن کے معاملے میں انفرادی آزادی کی گارنٹی ہونی چاہیے۔ پریس کی آزادی اور آزادی رائے ہمارے آئین کی بھی خصوصیت ہونی چاہیے۔ میں بہت تفصیل سے ان حقوق اور فرائض پر روشنی نہیں ڈالنا چاہتا جو نیو کشمیر میں پہلے سے ہی شامل ہےں، جو کسی بھی جمہوری نظام کا اٹوٹ حصہ ہےں اور جس کی تعریف میں کہا گیا ہےں کہ یہ سماجی تنظیموں کا ایسا سسٹم (ادارہ)ہے، جس میں عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعہ حکومت کرتے ہےں اور اس میں سیاسی اور سول آزادی کی گارنٹی ہوتی ہے۔
لیکن اب کشمیر کے حالات کی طرف واپس لوٹنا بیحد ضروری لگتا ہے۔ حال ہی میں کشمیر کے دورہ سے واپس لوٹے سنگھ پریوار کے رکن ترون وجئے نے جس طرح سی آر پی ایف کے جوانوں کے حالات کا تذکرہ کیا ہے اور کشمیریوں کے حوالہ سے اپنے نظریات کا اظہار کیا ہے، اسے پڑھ کر بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید یہی وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے کشمیر کے حالات معمول پر نہیں آپاتے۔ بیشک ہماری تمام ہمدردیاں اور محبتیں اپنی فوج اور پولس کے ساتھ ہونی چاہئیں، مگر ہم اپنے ملک کے عوام کی طرف سے بھی بے توجہی اختیار نہیں کرسکتے، ان کے افسوسناک حالات کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ ہمیں اپنی فکر کے اس دوہرے معیار کو بدلنا ہوگا۔ جب نکسلائٹس ہماری پولس اور فوج پر حملہ آور ہوتے ہیں، ان کی جان تک لے لیتے ہیں تو ہمارا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ ان سے بات کی جائے، ان کی مہم کا مقصد کیا ہے اس کو سمجھا جائے اور جب کشمیر کا معاملہ ہوتا ہے تو ہمارا اندازفکر مختلف ہوتا ہے۔ ہم دونوں کی ہی تائید نہیں کرتے، کشمیر میں اگر پولس اور سی آر پی ایف کے جوانوں کو نشانہ بناکر حملہ کیا جاتا ہے تو یہ قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔ اسی طرح نکسلائٹس جو ہماری پولس اور فوج پر حملہ کرتے ہیں، وہ بھی قابل مذمت ہے، مگر اس فرق کو یوں بھی سمجھنا ہوگا کہ کشمیر میں جو ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے، اس میں پولس اور فوج کی اپنی کارکردگی کیا قابل ستائش ہے؟ ہم نے جس طرح ہر دروازہ پر پولس تعینات کردی ہے، کیا یہ قابل ستائش ہے؟ ہم جس طرح مظاہرہ کرنے والوں کی آواز کو دبا دینا چاہتے ہیں، پولس کی گولی کا معصوم بچے شکار ہوتے ہیں، کیا یہ قابل ستائش ہے؟ اور جب جن کی گولیوں سے یہ بچے ہلاک ہوتے ہیں، ان کے خلاف مظاہرہ کرکے اپنی بات کہنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ان سے یہ حق بھی چھین لیا جاتا ہے، کیا یہ قابل ستائش ہے؟ آج کشمیر کے حالات کے لےے کون ذمہ دار ہے، کیا یہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے؟ ہمیں اس بات کا بھی انتہائی افسوس ہے کہ جموںوکشمیر کے وزیراعلیٰ حالات کو قابو میں رکھنے کے لےے مرکز سے مزید فوج کا مطالبہ کررہے ہیں۔ کیا انہوں نے ایک بار بھی یہ سوچا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ کشمیر میں فوج کی تعیناتی ہی سب سے بڑا مسئلہ ہو۔ انہیں کیوں یہ یاد نہیں رہا کہ ان کے دادا شیخ محمد عبداللہ وادی کے سب سے پسندیدہ اور مقبول لیڈر تھے۔ آج ان کے اس نوجوان چہرے میں کشمیر کا عوام ان سے یہی امید کررہا تھا کہ مرکزی حکومت سے ان کے بہتر رشتے ہیں، جس کا فائدہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی شکل میں مل سکتا ہے۔ شاید انہیں اپنی بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے تاریخ کے دامن میں جھانکنے کا ایک قدر موقع نہ ملا ہو کہ انہوں نے اگست947کے بعد سے آج تک کے حالات کو سمجھ لیا ہو اور مرکزی حکومت سے کشمیر کے ماضی، حال اور مستقبل کو سامنے رکھ کر بات چیت کرنے کا فیصلہ کرلیا ہو۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر اب ہمارے لےے اوّلیت پر ہے۔ ہم موجودہ حالات کو سامنے رکھ کر بھی تمام حقائق پیش کرتے رہےں گے اور ہم حال ہی کے پرتشدد واقعات میں ہلاک ہونے والے اشفاق احمد کھانڈے15)، امتیاز احمد17)اور شجاعت الاسلام19) پر بھی وزیراعلیٰ کی توجہ دلانا چاہیں گے کہ ان کم عمر بچوں کے ساتھ جو سلوک ہوا، کیا وہ حق بجانب تھایا پھر ان کی موت کو حادثہ نہ مانتے ہوئے اسے قتل کی واردات تسلیم کیا جائے؟ اور جو بھی اس کے لےے ذمہ دار ہیں، ان سے بازپرس کی جائے۔ اگر ہم اسی طرح ہر حادثہ کے بعد ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے، جو ان حالات کے لےے ذمہ دار ہیں اور مزید فوج کی تعیناتی کرتے رہیں گے، وادئ کشمیر کو ایک ایسی جیل کی شکل دے دیں گے، جس میں رہنے والوں کو اتنی سہولتیں بھی مہیا نہ ہوں، جتنی کہ عام قیدیوں کو قید میں رہنے پر ہوتی ہیں تو کیا ہم امید کرسکتے ہیں کہ یہ وہ راستہ ہے، جس پر چل کر ہم کشمیر کے پرامن حل کی امید کرسکتے ہیں۔ باوجود اس تمام خونریزی کے ہم نکسلائٹس کے جذبات کو سمجھنا چاہتے ہیں، ان سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں، مسئلہ کا پرامن حل تلاش کرنا چاہتے ہیں، یہ ایک مثبت سوچ ہے۔ مگر یہ سوچ صرف نکسلائٹس تک محدود نہ رہے، بلکہ ہمیں اسی سوچ کا مظاہرہ کشمیر اور کشمیریوں کے حوالے سے بھی کرنا چاہےے۔ میں عنقریب 11جون کو طفیل کی ہلاکت کے بعد سے 29جون کو ہلاک ہونے والے اشفاق احمد کھانڈے15)، امتیاز احمد17)اور شجاعت الاسلام19)اور وادی میں ان سب کے قتل کو لے کر پیدا ہوئے حالات پر ایک مفصل رپورٹ وزیراعلیٰ جموںوکشمیر اور حکومت ہند کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، مگر ساتھ ہی میں یہ بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ تاریخ کے دامن میں جھانکنے کا جو سلسلہ ہم نے شروع کیا ہے، اس کو بھی ذہن میں رکھا جائے۔ اگر ہم ماضی کو نظرانداز کریں گے تو نہ حال کے واقعات کو سمجھ پائیں گے اور نہ مستقبل کی بہتری کے لےے کچھ فیصلے لے پائیں گے۔ لہٰذا اسی کوشش کے پیش نظر میں قارئین اور حکومت ہند کی خدمت میں پیش کررہا ہوں شیخ محمدعبداللہ کی وہ تاریخی تقریر جو انہوں نے 11اگست952کو کونسٹیونٹ اسمبلی(آئین سازاسمبلی) میں کی۔
ملاحظہ فرمائیں شیخ محمد عبداللّٰہ کا تاریخی خطاب :
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اقتدار کے لیے ہماری جدوجہد اس آئین ساز اسمبلی کے انعقاد کے ذریعہ کامیابی کے ساتھ اپنے نقطہ عروج (Climax) پر پہنچ گئی ہے۔ یہ آپ کے لیے ہے کہ نئے کشمیر کو حقیقت میں تبدیل کریں اور میں اس کے ابتدائی الفاظ کو یاد دلانا چاہوں گا، جو ہمارے جذبات کو متحرک کریں گے۔
’’ ہم جموں و کشمیر، لداخ اور سرحدی علاقوں کے لوگ بشمول پونچھ اور چینانی علاقہ جو عام طورسے جموں و کشمیر ریاست کے طورپر جانی جاتی ہے، اپنی یونین کو مکمل طورپر برابری اور خود تعین کرنے کے عمل سے آراستہ کرنے اور ہم خود اور اپنے بچوں کو ہمیشہ کے لیے ظلم کے غار، غریبی، ذلت اور توہم پرستی، قرون وسطیٰ کے اندھیرے اور لاعلمی سے سورج کی روشنی سے بھری پری گھاٹی کی جانب، جہاں آزادی، سائنس اور دیانت داری کی حکومت ہو، جہاں مشرق کے عوام کی تاریخی حیات نو اور پوری دنیا کے کام کرنے والے عوام کی قابل قدر شراکت ہو اور ایشیا کی اس سرزمین کو برف کے سینے پر ایک گوہر کی مانند چمکانے کا پختہ یقین ہو، ہم اپنی ریاست کے مندرجہ ذیل آئین کی تجویز کو غور کرنے کے لیے پیش کرتے ہیں۔
یہ سری نگر نیشنل کانفرنس کے 1944میں ہوئے سیشن میں قبول کیا گیا تھا۔ آج 1951میں اس آئین ساز اسمبلی میں ریاست کے چاروں جانب سے شامل مرد اور عورتیں اور ان کی شامل تمناؤں نے خود مختار اتھارٹی کا مخزن بنادیا ہے۔ اس اسمبلی کو آئین ساز مجلس کی اتھارٹی سے آراستہ کیا گیا ہے اور یہ ریاست کے تمام شہریوں کے جمہوری حق، انصاف پسند سماجی ضابطے اور تحفظات کے بنیادی قوانین کے قیام کے لیے ضروری بنیاد کا سرچشمہ ہوگا۔
آپ ریاست جموں و کشمیر میں خود مختار اتھارٹی ہیں، آپ جو طے کریں گے اسے ناقابل تنسیخ قانون کی طاقت حاصل ہوگی۔ کسی ملک کے لئے بنیادی جمہوری اصول امریکی اور فرانسیسی آئین میں اچھی طرح شامل کیے گئے ہیں اور ایک بار پھر ہمارے درمیان اس کو نئی شکل دی گئی ہے۔ میں 1791کے فرانسیسی آئین کے آرٹیکل 3کے مشہور الفاظ دوہرانا چاہوں گا۔
’’بنیادی طورپر سبھی طرح کی خود مختاری کا منبع ملک ہوتا ہے… خود مختاری ناقابل تقسیم، ناقابل انتقال اور وقت کے ساتھ ختم نہیں (Impreseriptale) ہوتی ہے۔‘‘
ہمیں یہ طاقت کس طرح کی ذمہ داری دیتی ہے، یہ واضح ہونا چاہیے۔ ہمارے سامنے اعلیٰ قومی مفاد کے فیصلے ہیں جن کو ہمیں قبول کرناہوگا۔ ہمارے ذریعہ لیے گئے فیصلوں کی درستگی کا انحصار نہ صرف ہماری سرزمین اور اس کے لوگوں کی خوشیوں سے ہوگا بلکہ آنے والی نسلوں کی قسمت سے بھی ہوگا۔
تو پھر اس اسمبلی کا قیام کن اہم کاموں کو کرنے کے لیے کیا گیا ہوگا؟ ایک عظیم کام جو اس اسمبلی کے سامنے ہے، وہ یہ کہ مستقبل میں ملک کو چلانے کے لیے آئین سازی کو انجام دینا ہوگا۔ آئین بنانا ایک مشکل اور طویل معاملہ ہے۔ میں آئین کے کچھ خاص پہلوؤں کے بارے میں بتانا چاہوں گا، جو اس اسمبلی کی محنت کانتیجہ ہوگا۔
ملک کے لیے ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہوگا کہ مہاراجا کے خاندان کا مستقبل کیا ہوگا؟ہمیں جلد اور ذہانت سے فیصلہ کرنا ہوگااور اسی فیصلے پر ہماری ریاست کا طرز عمل اور کردار کا انحصار ہوگا۔
تیسرا اہم مسئلہ جو آپ کی توجہ کا انتظار کررہا ہے، وہ ہے لینڈریفارم اس سے جڑے حالات جسے حکومت نے بڑے جوش اور اعتماد کے ساتھ شروع کیا تھا۔
’ہماری زمین کاشت کرنے والے کی‘ پالیسی کاشت کاروں کے اندھیرے مکانوں میں روشنی پھیلارہی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ اس نے زمین مالکان کے معاوضہ کے مطالبہ کا مسئلہ بھی پیدا کیا۔ ملک تمام دولت اور وسائل کا مالک ہوتا ہے اور ملک کے نمائندے اپنے دعوؤں پر صحیح اور آخری فیصلہ دینے والے بہترین منصف ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ کے ہاتھوں میں اس فیصلے کی طاقت ہے۔
آخر میں، یہ اسمبلی ان تین متبادل، جسے میں بعد میں بتاؤں گا، پر غور کرنے کے بعد الحاق پر اپنا حتمی فیصلہ دے گی۔ یہ ہماری توانائی (صلاحیتوں) اور جوش کو ایک سمت دے گی اور جس سمت میں ہم پہلے ہی اپنے ملک کوسماجی اور اقتصادی ترقی دینے کے لیے نکل پڑے ہیں۔
آئین بنانے سے پہلے خصوصی کام کے لیے ہمیں قدرتی طورپر دنیا بھرکے جمہوری آئین کے بہترین اصولوں سے رہنمائی حاصل کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنے کام کو برابری، آزادی اور سماجی انصاف کے اصولوں کی بنیاد پر کرنا ہوگا جو کہ آج تمام ترقی پذیر آئین کا ایک اہم جز بن گیا ہے۔ تمام جمہوری ممالک میں ضروری سمجھا جانے والا قانون کا راج ہمارے سیاسی ڈھانچے کی بنیادی چیز ہونی چاہیے۔ قانونی معاملات میں سب کی برابری اور عدلیہ کا عاملہ کے اثر سے آزاد ہونا ہمارے لیے نہایت اہم ہے۔ بولنے، تحریک اور انجمن کے معاملے میں انفرادی آزادی کی گارنٹی ہونی چاہیے۔ پریس کی آزادی اور آزادی رائے ہمارے آئین کی بھی خصوصیت ہونی چاہیے۔ میں بہت تفصیل سے ان حقوق اور فرائض پر روشنی نہیں ڈالنا چاہتا جو نیو کشمیر میں پہلے سے ہی شامل ہےں، جو کسی بھی جمہوری نظام کا اٹوٹ حصہ ہےں اور جس کی تعریف میں کہا گیا ہےں کہ یہ سماجی تنظیموں کا ایسا سسٹم (ادارہ)ہے، جس میں عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعہ حکومت کرتے ہےں اور اس میں سیاسی اور سول آزادی کی گارنٹی ہوتی ہے۔
No comments:
Post a Comment