Monday, June 28, 2010

چھٹی آئی ہے رودادِ ظلم لائی ہے

عزیز برنی

جب وقت بدلتا ہے تو حالات بدل جاتے ہی، رشتے بدل جاتے ہیں، دوست احباب بدل جاتے ہیں، وہ جو ہر پل ساتھ رہتے ہیں اور دل و جان کی طرح پھر جدا ہوجاتے ہیں، کچھ اس طرح گویا ڈوبتے سورج کو دیکھ سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ہوا عبداللہ کے ساتھ بھی۔ یہ ذکر جموں وکشمیر کے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کا نہیں ہے اور نہ ہی یہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ یا شیخ محمد عبداللہ کا، جن کا تذکرہ میں کشمیر کے حوالہ سے گزشتہ ایک ہفتہ سے مسلسل کررہا ہوں۔ ہاں، اگر کوئی مماثلت ہے تو صرف اتنی کہ اس شخص کا نام بھی عبداللہ ہے اور نام کے لیے یا یوں کہئے کہ بدنامی کے لیے کشمیر سے اس کا بھی تعلق جوڑ دیا گیاہے۔ جی ہاں، یہ پولس روزنامچہ میں درج ایک کشمیری دہشت گرد ہے۔ جبکہ پیدائش بہار میں، تعلیم اترپردیش کے شہر بنارس میں۔ کچھ دن قیام دہلی کے بٹلہ ہاؤس میں بھی رہا اور اب گزشتہ ساڑھے4برس سے کولکاتہ کی پریسیڈنسی جیل میں ہے۔ گزشتہ جمعرات کے روز میں نے اپنے اس مسلسل مضمون کی قسط نمبر۔131، بعنوان ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ میں ائمہ کرام سے درخواست کی تھی کہ وہ اس تحریک کو نمازِ جمعہ سے قبل اپنے خطبات کی معرفت آگے بڑھائیں۔ میں ان کا شکرگزار ہوں کہ بیشتر مقامات پر ایسا ہوا بھی، مگر مجھے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ آئندہ جمعہ سے قبل جب میں لکھ رہا ہوں گا تو ایک ایسے امام جمعہ کی روداد بھی میرے سامنے ہوگی، جو اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
اگر کسی پر دہشت گردی کا الزام عائد کردیا جائے تو اس کا سایہ بھی اس سے جدا ہوجاتا ہے۔ دوست، رشتہ دار، متعلقین اگر کنارہ کشی اختیار کرلیں تو یہ کوئی بہت حیرانی کی بات نہیں ہے۔ ایک دم سے ان سب کو موردالزام ٹھہرانا بھی مشکل ہوگا، اس لیے کہ جس طرح کے حالات پیدا ہوگئے ہیں ہر شخص اپنے دامن پر دہشت گردی کا داغ لگنے کے خوف سے گھبراتا ہے۔ ایسے میں اگر وہ سب جو عبداللہ کو اچھی طرح جانتے ہیں، چاہے درس و تدریس کے حوالہ سے، چاہے دارالعلوم جامعہ سلفیہ سے وابستگی کے حوالہ سے، چاہے مختلف مساجد میں امام جمعہ کی حیثیت سے۔ اب سامنے آکر اپنی وابستگی کا اظہار کرنا اور ان کی صداقت کو ظاہر کرنا ان کے اپنے لیے نئی مصیبتوں کو دعوت دینے کے مترادف محسوس کررہے ہیں تو اس میں حیرانی کیا ہے؟ لیکن کیا ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے؟ اپنی پریشانیوں سے خوفزدہ ہوکر بے گناہ نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑنے دینا چاہیے؟ بے گناہوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا ملتے دیکھ کر بھی چپ رہنا چاہیے؟ اسلام کو بدنام ہونے دینا چاہیے؟ ذرا سوچئے! پریشانی میں تو ہم اپنے آپ کو اس وقت بھی ڈالتے ہیں، جب کسی سڑک پر پڑے زخمی کو اسپتال تک پہنچاتے ہیں۔ اس کے جسم سے بہنے والا خون ہمارے کپڑوں کو خون آلودہ کردیتا ہے، مگر اس خوف سے ہم حادثوں کو دیکھ کر گزر نہیں جاتے کہ ہمارے سفید لباس پر خون کے دھبے لگ جائیں گے۔ اگر ہم ایسا کرنے لگیں گے تو ہمارے اندر انسانیت باقی کہاں رہے گی؟ اس لیے کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔ وہ جو بے قصور ہیں، انہیں بے قصور ثابت کرنے کے لیے ہمیں جی جان سے جٹ جانا ہوگا اور اگر قصوروار ہیں تو انہیں اپنے کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے بھی جی جان سے جٹ جانا ہوگا، یہی جہاد ہے۔
لفظ ’’جہاد‘‘ کو جس تناظر میں پیش کیا جانے لگا ہے، اب ہمیں یہ لفظ بھی خوفزدہ کردیتا ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ میں جو لکھ رہا ہوںیہ جہاد ہے، جو میں بولتا رہا ہوں وہ جہاد ہے، جو کررہا ہوں وہ جہاد ہے۔ کربلا کی زمین پر یزید کے خلاف نواسۂ رسول نے جو کیا، وہ جہاد تھا۔ شری رام نے راون کے خلاف جو کیا، وہ جہاد تھا۔ انگریزوں کے خلاف مجاہدین ہند نے جو کیا، وہ جہاد تھا۔ ’جہاد‘ وہ نہیں ہے، جو دہشت گردوں کا عمل ہے۔ کب کس نے اور کیوں، کن مقاصد کے پیش نظر دہشت گردی کو جہاد کا نام دے دیا، یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے، جسے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ آج میں ایک ایسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی شدت سے ضرورت محسوس کرتا ہوں، جہاں ایسے تمام موضوعات پر ریسرچ کی جائے، جن کا تعلق ہندوستان کے موجودہ حالات سے ہو، دہشت گردی کے اسباب سے ہو۔ مسلمانوں کو تقسیم وطن اور دہشت گردی سے جوڑے جانے سے ہو۔ مجھے اس میں گہری سازش نظر آتی ہے کہ اس لفظ کو جس کی معرفت قرآن کریم میں حب الوطنی اور انسان دوستی کا پیغام دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس انسانیت دشمنی اور وطن سے غداری کے معنوں میں لوگوں کے ذہن نشین کرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ جس کی تہہ تک جانے کی ازحد ضرورت ہے۔ بہرحال میں ذکر کررہا تھا عبداللہ کا، جس کا تعلق بہار کے ضلع ویشالی گاؤں مہاویو مٹھ، نزد حاجی پور اور اترپردیش کے مادر علمی مرکزی دار العلوم جامعہ سلفیہ بنارس سے ہے اور اب گزشتہ تقریباً ساڑھے چار برس سے کولکاتہ کی جیل میں ہے۔ اس نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے اپنی ڈرامائی گرفتاری اور پھر قیدوبند کی صعوبتیں کی داستان بمع چارج شیٹ میں اپنے حوالہ سے لگائے گئے الزامات کے ہم تک لکھ کر بھیجی ہے، اسے من و عن میں اس مقصد سے سامنے رکھ رہا ہوں کہ اگر یہ لفظ بہ لفظ صحیح ہے تو ان کی مدد کی جانی چاہیے اور اگر یہ غلط ہیں تو سچ کو سامنے رکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ محض اس بنیاد پر کہ اچانک کوئی کسی سے ملے اس کی باتوں کے مقصد کو جانے، نہ اس کے ارادوں کو، مگر اس کی زبان پر اپنا نام آجانے کی وجہ سے اس کی زندگی جہنم بن جائے تو کیا یہ مناسب ہے۔
میرے سامنے تھا اس وقت کشمیر تنازع پر دہلی سمجھوتہ1952،تاشقند سمجھوتہ10؍فروری1966، شملہ سمجھوتہ2؍جولائی 1972اور آج کی تحریر میں مجھے شیخ محمد عبداللہ کی وہ یادگار تقریر اپنے قسط وار مضمون میں شامل اشاعت کرنی تھی، جو انہوں نے دہلی ایگریمنٹ پر کونسٹیونٹ اسمبلی میں11؍اگست1952 کو دی تھی، مگر پہلے یہ خط پھر اس کے بعد شیخ عبداللہ کی تقریر کے حوالہ سے میرے چند جملے اور پھر کشمیر کی روداد۔
محترم جناب عزیز برنی صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
بعد حمد و صلوٰۃ کے عرض خدمت یہ ہے کہ میں عبد اللہ ولد زبیر عالم ایک سچا محب وطن ہندوستانی ہوں۔ صوبہ بہار کے ضلع ویشالی گاؤں مہاویو مٹھ، نزد حاجی پور کا باشندہ ہوں اور فی الحال دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں تقریباً ساڑھے چار سال سے کولکاتہ کی پریسی ڈنسی جیل میں 1/22 سیل بلاک کے کمرہ نمبر۔8 میں قیدو بند کی صعوبت سے دوچار ہوں، جسے اس کے مادر علمی مرکزی دار العلوم جامعہ سلفیہ بنارس کے ہاسٹل سے وہاں کی مقامی پولس نے دھوکے سے باہر لے جاکر کولکاتہ پولس کے حوالے کردیاتھا۔
بات 2؍فروری 2006 کی ہے، کلاسیز ختم ہونے کے بعد دوپہر کی نماز اور کھانے سے فراغت حاصل کرکے میں اپنے ہاسٹل کے کمرے میں آرام کر رہا تھا۔ تقریباً 2بجے ایک ساتھی طالب علم نے کمرے میں آکر کہا کہ عبد اللہ بھائی آپ کو شیخ الجامعہ صاحب آفس میں بلا رہے ہیں۔ میں نے کرتا پہنا،ٹوپی لگائی اور شیخ الجامعہ صاحب کے آفس کی طرف چل پڑا۔ اجازت لے کر داخل ہوا تو دیکھا کہ 2پولس والے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے میرا نام پوچھا، پھر کہا کہ آپ کے پاسپورٹ کی انکوائری آئی ہوئی ہے، آپ ذرا تھانے چل کر پاسپورٹ آفیسر سے ملاقات کرلیں۔ 15منٹ میں آپ کا کام ہو جائے گا۔ میں نے کہا کہ میں نے تو پاسپورٹ کے لئے اپلائی ہی نہیں کیا ہے تو انکوائری کیسے آگئی اور میں یوپی کا نہیں ہوں، بلکہ بہار کا رہنے والا ہوں۔ اگر اپلائی کروں گا تو اپنے صوبہ میں اور انکوائری بھی وہیں آئے گی۔ پولس والوں نے کہا کہ ہو سکتاہے کہ آپ کے گھر والوں نے آپ کے غائبانے میں اپلائی کردیا ہو، کیونکہ آپ لوگ تو اعلیٰ تعلیم کے لئے سعودی وغیرہ جاتے رہتے ہیں اور چونکہ آپ یہاں زیر تعلیم ہیں، اس لئے وہاں کے لوگوں نے انکوائری کرکے رپورٹ دی ہوگی کہ یہ آدمی یہاں نہیں بنارس میں رہتا ہے تو انکوائری یہیں آگئی۔ بس آپ تھوڑی دیر میں کام ختم کرکے آجائیں گے، تھانہ تو بغل میں ہی ہے، وہاں پاسپورٹ آفیسر آپ سے چند سوالات کرے گا کہ آپ یہاں کتنے سالوں سے زیر تعلیم ہیں وغیرہ وغیرہ، پھر آپ کا کام ختم۔ پھر میں نے شیخ الجامعہ صاحب کی طرف دیکھا، انہوں نے اجازت دے دی۔ جامعۃ کے باہر پولس کی گاڑی کھڑی تھی، انہوں نے عزت کے ساتھ جیپ میں بٹھایا۔ جب گاڑی تھانہ سے آگے دوسری طرف مڑ گئی تو میرے سوال کرنے پر انہوں نے کہا کہ پاسپورٹ آفیسر تو ایک ہوٹل میں چلے گئے، آپ کو وہیں چلنا پڑے گا۔ راستے میں پولس والے مجھ سے میری تعلیم اور پڑھائی کے تعلق سے اور مدرسہ کی روٹین لائف کے سلسلے میں بات کرتے رہے۔ پھر راستے میں جیپ سے اتار کر ایک پولس والے نے کہا کہ مولانا صاحب جیپ کو دوسری طرف جاناہے، آپ ذرا بائک پر بیٹھ جائیں۔ پھر لنکا تھانہ علاقہ کے ایک ہوٹل میں اس کی پہلی منزل کے ایک کمرے میں مجھے لے گئے۔کمرہ خالی تھا، انہوں نے کہا کہ ابھی پاسپورٹ آفیسر آنے والے ہیں آپ بیٹھئے، پھر انہوں نے چائے وغیرہ پلائی۔ جب کافی دیر ہوگئی تو میں نے کہا کہ جناب آفیسر کا پتہ نہیں ہے، آپ مجھے مدرسہ جانے دیں، میں کل پھر آجاؤں گا مجھے عصر کی نماز بھی پڑھنی ہے تو انہوں نے کہا کہ تھوڑی دیر اور انتظار کریں اور جہاں تک رہی بات نماز کی تو آپ یہیں کمرے میں پڑھ لیں، لہٰذا میں نے کمرے سے متصل واش روم میں وضو کیااور نماز کی ادائیگی کی۔
تھوڑی دیر بعد سادے لباس میں ایک آدمی کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے میرانام وغیرہ پوچھا۔ میں نے سمجھا کہ یہ پاسپورٹ آفیسر ہے، پھر اچانک اس نے پوچھا، آپ طارق اختر نام کے کسی آدمی کو جانتے ہیں۔ میں نے دماغ پر زور دے کر کہا کہ ہاں اس نام کے ایک آدمی کو میں جانتا ہوں۔ پوچھا گیا کب سے جانتے ہیں، میں بولا کہ جب میں مولوی کی تعلیم (مرحلہ ثانویہ) جامعہ اسلامیہ سنابل نئی دہلی میں حاصل کر رہا تھا جو کہ مولانا ابو الکلام آزاد اسلامک اویکننگ سینٹر کے تحت چلنے والا ایک اسلامی ادارہ ہے، تو وہیں ان صاحب سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ پوچھا کہ کیسے؟ تو میں نے کہا کہ میں ایک غریب طالب علم ہوں اور اپنے جیب خرچے کے لئے شام میں ٹیوشن وغیرہ پڑھاتا تھا، وہیں دہلی میں ایک جگہ ٹیوشن پڑھاتے ہوئے بچوں کے والد نے ایک دن اپنے سالے کے طور پر طارق اختر کا تعارف کرایاتھا۔ تھوڑی دیر تک اس آفیسر نے خاموشی اختیار کی، پھر مجھ سے کہا کہ بنارس میں چند دنوں پہلے ایک ٹرین میں دھماکہ ہوا تھا اور اس کو طارق اختر کے کہنے پر تم نے انجام دیا تھا اور طارق اختر لشکر طیبہ کا کارکن ہے۔ میں کافی پریشان ہوگیا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے تو آپ کو حقیقت بتادی کہ میں طارق اختر نام کے آدمی کو کس نوعیت سے جانتا ہوں۔ اگر بقول آپ کے کہ وہ دہشت گرد ہے تو میں اس بات سے لاعلم ہوں۔ اس شخص نے کہا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، پھر انہوں نے بہت سارے طریقے سے ڈرایا، دھمکایا کہ میں اس کی بات قبول کر لوں۔ آخر کار میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے طارق کے سامنے کرو میں خود اس سے بات کروں گا، تو وہ خاموش ہوگیا اور کہا کہ ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر میں اس کو تمہارے پاس لاؤں گا۔ پھر وہ باہر سے کمرا بند کرکے چلا گیا۔ پھر قریب آدھے گھنٹے کے بعد کمرا کھلا اور بہت سارے پولس والے داخل ہوئے اور کچھ لوگ مجھ سے سوال و جواب کرنے لگے۔ پھر تھوڑی دیر بعد وہاں پر چار پانچ سادے لباس والے پولس آفیسرز آئے، جو آپس میں بنگلہ زبان بول رہے تھے (ہمارے مدرسے میں بہت سارے بنگالی بچے پڑھتے ہیں، ان میں سے کچھ ساتھی ایسے بھی ہیں جو آپس میں بنگلہ میں بات کرتے ہیں، اس لئے اس زبان کو میں پہچان گیا) پھر وہاں پر موجود ایس ایچ او جس نے بعد میں اپنا نام تری بھون ترپاٹھی بتایا، اس نے اور ایک انسپکٹر ندیم فریدی نے کہا کہ یہ کولکاتہ پولس کے لوگ ہیں اور تمہیں وہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ پھر کولکاتہ پولس نے وہاں کے ایس ایچ او ترپاٹھی جی سے مجھے Arrest کرنے کی اجازت مانگی، پھر ترپاٹھی جی نے مجھ سے کچھ سوالات کئے اور تشفی بخش جواب پاکر کہا کہ میں اس آدمی کو آپ لوگوں کو نہیں دے سکتا، کیونکہ میرا تجربہ یہ ہے کہ یہ لڑکا دہشت گرد نہیں ہے، آپ لوگ غلط بول رہے ہیں۔ اگر آپ لوگوں کے پاس کوئی ثبوت ہے تو پیش کریں۔

No comments: