کشمیر ہمارے سینہ پر تقسیم کا سب سے گہرا زخم ہے، جس سے خون بہتے بہتے آج 61برس گزرگئے۔ یہ ہماری تیسری نسل ہے، جو آزادی کے بعد آزادی کی قیمت ادا کررہی ہے۔ ہمارے اس خون میں ان بزرگوں کا خون بھی شامل ہے، جو انگریزوں کے خلاف ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑرہے تھے اور آزادی کے بعد اپنے حقوق کی جنگ لڑتے لڑتے اس دنیا سے چلے گئے۔ پھر ان کے بعد اپنے حقوق کی جنگ وراثت میں ملی، ان کے بعد کی نسلوں کو اور اب یہ جنگ صرف حقوق اور اختیارات کی جنگ نہیں رہ گئی تھی، بلکہ اب یہ جنگ ان کی آبرو اور وقار کی جنگ بھی تھی، بلکہ یہ ہماری ماوؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت کے تحفظ کی جنگ بھی تھی۔ یہ جنگ دنیا کی جنت کشمیر کے حسن کے تحفظ کی جنگ بھی تھی۔ صحیح معنوں میں اب کشمیریوں کے لیے یہ کشمیر اور کشمیریت کی بقا کی جنگ تھی، جس میں کشمیر بھی اکیلا تھا اور کشمیری بھی۔ یہاں حفاظتی دستے آئے تو مگرکچھ اس طرح جیسے سر سے شوہر کا سایہ اٹھ جانے کے بعد ماتم پرسی کے بہانے آنے والے کچھ بدنیت لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں اس حسین بیوا کی عصمت پر ڈاکا ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہوں، جو بدقسمتی سے اب بے سہارا ہوگئی ہے۔ سیلانیوں کی تعداد کم سہی، مگر اس زمین کا قدرتی حسن انہیں وادیوں کے پرکشش نظاروں کو اپنی آنکھوں میں قید کرنے کے لیے کھینچ ہی لاتاتھا، مگر انہیں کشمیریوں کا درد بانٹنے میں کوئی دلچسپی نہ ہوتی، ان کی توجہ کا مرکز تو ہوتا ان پہاڑوں کا حسن، سون مرگ گل مرگ، وادئ بنگلس، زبرون وغیرہ انہیں ان حسین وادیوں میں پتھروں کا حسن تو دکھائی دیتا، لیکن زندہ انسانوں کے پتھر بن جانے کی کہانی میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ دریائے چناب، جہلم اور لدر کا رقص کرتا ہوا اور موسیقی کی دھن پیدا کرتا پانی تو انہیں دکھائی دیتا، اہربل آبشار کی خوبصورتی نظر آتی، مگر اس پانی میں کتنے بے گناہوں کا خون شامل ہے، یہ وہ نہیں جانتے اور نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جھیل سی گہری آنکھوں سے بہنے والے اشک اب اس ڈل جھیل کا مقدر بن گئے ہیں، مگر بانہوں میں بانہیں ڈالے حسین جوڑوں کو کیا خبر۔
قسط در قسط خون کا جزیہ دینے کا سلسلہ خدا جانے کب تھمے گا، اب تو یہ خون کے پیاسے نئی نسل کے جوان ہونے کا انتظار بھی نہیں کرتے۔ پھولوں اور تتلیوں سے کھیلنے کی عمر ہے جن بچوں کی، یہ ان کے خون سے ہولی کھیلتے نظر آتے ہیں۔ کسی خاندان کی آبرو بننے کی حسرت اپنے دل میں لیے جو کم سن بچیاں اپنے وجود کو چھپاتی پھرتی ہیں، ان کی عیاری، مکاری اور ہوس ان کے ارمانوں کے ساتھ ان کی آبرو کا بھی خون کرڈالتی ہے اور سب کے سب تماشائی بن گئے ہیں، کچھ مجبوری میں، کچھ معذوری میں تو کچھ مکاری میں۔
انقلاب اب ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا ہوا ایک لفظ بھر رہ گیا ہے۔ وہ آوازیں جو زندگی بخش دیں اس لفظ کو، نہ جانے کیوں خاموش ہوگئی ہیں۔ ظالموں، جابروں کے حوصلہ توڑ دینے والے نغمے اب فضاؤں میں نہیں گونجتے، شاید اس دور کی سچائی بس اب یہی ہے، جو اپنے اس شعر میں جناب بشیر بدر نے بیان کی ہے۔
بڑے شوق سے مرا گھر جلا کوئی آنچ تجھ پر نہ آئے گی
یہ زباں کسی نے خرید لی یہ قلم کسی کا غلام ہے
طفیل کی عمر 17سال تھی، وہ ٹیوشن پڑھ کر آرہا تھا کہ پولس کا شکار ہوگیا۔یہ واقعہ غنی میموریل اسٹیڈیم جوکہ پاٹن شہر کے راجوری کدل علاقہ میں واقع ہے کے پاس کا ہے۔ اس علاقہ میں اس سے قبل پولس کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے اور پولس مظاہرین کو بھگانے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے پر اتر آئی تھی۔ عینی شاہدین کے مطابق جس جگہ طفیل کو نشانہ بنایا گیا، وہاں اس وقت نہ ہی کوئی احتجاج ہورہا تھا اور نہ کوئی اشتعال پیدا کرنے والی سرگرمی، تاہم پولس نے طفیل کے سر پر نشانہ لگاکر آنسو گیس کا ایک گولہ پھینکا، جس نے اس معصوم کی جان لے لی۔ پولس نے اس واقعہ سے بچنے کی کوشش کی، لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ نے واضح کردیا کہ طفیل کی موت پولس کے گولے سے ہی ہوئی تھی۔
طفیل کے قتل سے ٹھیک چار مہینے دس دن پہلے اسی مقام پر انہیں حالات میں وامق فاروق نامی ایک اور معصوم کا قتل کیا گیا تھا۔ ریناوادی علاقہ کا 13سالہ وامق فاروق کرکٹ کے کھیل کا زبردست شوقین تھا اور وہ اپنا محبوب کھیل کھیلنے کے لیے غنی میموریل کی جانب آرہا تھا کہ ایک پولس افسر نے اس کا نشانہ باندھا اور آنسو گیس کے گولے سے اس معصوم کی جان لی۔ وامق کے قتل کے بعد بھی وادی میں احتجاج کی لہر تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی کہ ڈل جھیل کے کنارے معروف سیاحی مرکز نشاط باغ کے نزدیک زاہد فاروق نامی ایک 16سالہ لڑکے کو بی ایس ایف کے ایک کمانی افسر آر کے بردی(BIRDI)کے کہنے پر اس کے محافظ لکھنوندر سنگھ نے گولی مار کر قتل کردیا۔ زاہد اس وقت محلے سے باہر ڈل جھیل کے کنارے اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے آیا تھا۔ آر کے بردی جن کی پوسٹنگ گلمرگ میں تھی، وہاں سے یونہی گزررہے تھے کہ جب انہوں نے زاہد پر گولی چلائے جانے کا حکم دیا اور معصوم کی جان لی، جبکہ نشاط میں نہ ہی کوئی احتجاج ہورہا تھا اور نہ ایسی کوئی دیگر سرگرمی۔
دیور گاؤں کے رہنے والے حبیب اللہ خان کی عمر75سال تھی، جو اپنے بیٹے کو دہشت گرد قرار دے کر مار دئے جانے کے بعد اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے تھے اور موت کے انتظار میں زندہ رہنے کے لیے بھیک مانگ کر پیٹ بھرنے کے لیے مجبور تھے، انہیں کیا خبر تھی کہ اپنے پیٹ کے لیے آخر غذا کی شکل میں انہیں بندوق کی گولی ملے گی اور وادی کا سب سے عمر رسیدہ دہشت گرد ہونے کا تمغہ۔
1990کا یہ دردناک واقعہ خون کے آنسو رولادینے والا ہے، جب فوج کی راجپوت ریجمنٹ نے پکھوارا ضلع کے کنن پوش پورا نامی گاؤں کا کریک ڈاؤن کرکے یہاں کے مردوں کو ایک میدان میں جمع کیا اور گھروں میں موجود خواتین،جن میں15سے75برس تک عمر والی تقریباً100خواتین تھیں کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔
کیا ایسے پریشان حال چہروں میں کبھی آپ کو اپنا بیٹا، بھائی ہونے کا احساس نہیں ہوتا؟ کیا ان لڑکیوں میں آپ کو اپنی بیٹی یا بہن نظر نہیں آتی؟ اتنے بے حس تو ہم کبھی نہ تھے، اگر ہوتے تو آزادی کی جنگ کیسے لڑتے اور جیتتے۔
تاریخی حوالے میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا رہوں گا، جو گزشتہ چند روز سے کررہا ہوں، مگر یہ سلسلہ ذرا لمبا ہے، اس لیے سوچتا ہوں بیچ بیچ میں آج کی تلخ حقیقت بھی آپ کے سامنے رکھی جاتی رہے، تاکہ واضح رہے کہ کیوں میں گڑے مردے اکھاڑنے بیٹھ گیاہوں۔ کیوں گمشدہ ہوتی جاری تاریخ کو پرت در پرت منظرعام پر لانے کا سلسلہ شروع کربیٹھا ہوں۔ کوئی ضرورت نہیں ہوتی اگر کشمیر کے حالات معمول پر ہوتے اور ان حالات کا اثر تمام ہندوستان کے مسلمانوں پر نہ پڑرہا ہوتا، پورے ہندوستان پر نہ پڑرہا ہوتا۔ میں بھی وقت کی گرد میں دبی ان سچائیوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتا۔ دفن ہوجانے دیتا ان حقائق کو، ان زندہ انسانوں کی طرح جو کشمیر کی آن بان اور شان ہوسکتے تھے، مگر ان بدنصیبوں کو قبرستان بھی نصیب نہیں ہوسکا۔ میں رہا ہوں کچھ روز کشمیر کے ایک ایسے گھر میں جس کے آنگن میں نہ جانے کتنے بے گناہوں کی لاشیں دفن تھیں، صرف وہ بے زبان درودیوارا گواہ ہیں ان کی آہوں کے، چیخوں کے اب جو بول نہیں سکتے پر نہ جانے کیوں ابھی میرا بھروسہ نہیں ٹوٹاہے، شاید اس لیے کہ مجھے محترم منوررانا کے ان اشعار پر یقین کامل ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں شاید کہ یہ اشعار ’’لفظ‘‘ انقلاب کو پھر سے پرمعنی بنادیں اور ایک نئی زندگی بخش دیں۔
میں دہشت گرد تھا مرنے پہ بیٹا بول سکتا ہے
حکومت کے اشارے پر تو مردہ بول سکتا ہے
یہاں پر نفرتوں نے کیسے کیسے گل کھلائے ہیں
لٹی عصمت بتا دے گی دوپٹہ بول سکتا ہے
حکومت کی توجہ چاہتی ہے یہ جلی بستی
عدالت پوچھنا چاہے تو ملبہ بول سکتا ہے
کئی چہرے ابھی تک منہ زبانی یاد ہیں اس کو
کہیں تم پوچھ مت لینا وہ گونگا بول سکتا ہے
سیاست ان دنوں انسان کے خوں میں نہاتی ہے
گواہی کی ضرورت ہو تو دریا بول سکتا ہے
عدالت میں گواہی کے لیے لاشیں نہیں آتیں
وہ آنکھیں بجھ چکی ہیں پھر بھی چشمہ بول سکتا ہے
بہت سی کرسیاں اس ملک میں لاشوں پہ رکھی ہیں
یہ وہ سچ ہے، جسے جھوٹے سے جھوٹا بول سکتا ہے
سیاست کی کسوٹی پہ پرکھیے مت وفاداری
کسی دن انتقاماً میرا غصہ بول سکتا ہے
شاید کہ یہ چند اشعار کشمیر کے حالات کی ترجمانی کرتے نظر آئیں اور آپ کو اس انقلاب پر آمادہ کردیں، جو آج وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
آئیے میں پھر واپس لوٹتا ہوں، کشمیر کے حالات کی طرف بالخصوص وہ حالات جو طفیل کی دردناک موت کے بعد آج سے چند روز قبل میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ہاں مجھے احساس ہے اس سمت میں اچھالے گئے پتھر کا، جدھر سے میں گزر رہا تھا۔ وہ میرا جنم دن تھا۔ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ کشمیر کی وادیوں میں تھا۔ میں اس دن سے ایک بہت بامقصد شروعات کرنا چاہتا تھا، اسی لیے اس مخصوص دن ارادتاً سری نگر میں تھا۔ دہلی سے جب چلا حالات تقریباً معمول پر تھے، مگر سری نگر کی زمین پر قدم رکھتے ہی یہ احساس ہوگیا کہ اس زمین کے لیے معمول کی زندگی تو بس خوابوں کی بات ہے، ہم جیسے لوگ جو ان حالات سے بے نیاز رہتے ہیں، غلط فہمی کا شکار ہیں اور سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہاں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔
15؍جون کی صبح میں سری نگر سے گلمرگ کی طرف جارہا تھا۔ سب سے آگے سیکورٹی کی گاڑی تھی، اس کے بعد کی گاڑی میں میرے بچے اور اس کے بعد کی گاڑی میں خود و میری بیگم اور ایک مسلح پی ایس اوتھا اورسب سے پیچھے ہمارے مقامی نمائندے کی گاڑی تھی۔ تبھی ایک زوردار پتھر سیکورٹی کار کے شیشے پر لگا، شیشہ چکناچور ہوگیا اور ڈرائیور زخمی۔ تیزی سے گاڑیاں واپس لوٹیں، راستہ بدلا اور پھر نئے راستہ سے منزل کی طرف بڑھنے لگیں۔
یہ ردعمل 17سالہ طفیل کے پولس کے گولے کا شکار ہوجانے کی وجہ سے تھا۔ یہ پتھر مجھے تو نہیں لگا، مگر اس پتھر کی چوٹ سے میرے اندر کا صحافی زخمی ہوگیا۔ مجھے لگا یہ پتھر مجھ سے کچھ کہہ رہا ہے، مجھے اس پتھر کی آواز کو سننا چاہیے، سمجھنا چاہیے اور سب کو سمجھانا چاہیے۔ اگر میں مانتا ہوں کہ پتھر بول سکتے ہیں تو شروعات اسی پتھر کی گواہی کو سامنے رکھ کرنی ہوگی۔ ہاں وہ پتھر گواہ تھا ان حالات کا، جن سے کشمیر کے لوگ گزر رہے ہیں۔عکاسی کرتا تھا ان کے جذبات کی۔ جن کے ہاتھوں میں یہ پتھر تھے، وہ اتنے بے وقوف نہیں ہیں کہ اتنا بھی نہیں سمجھتے ان کا پتھر صرف ان کے غصہ کا اظہار کرسکتا ہے، کسی کی جان نہیں لے سکتا، مگر اس پتھر کے جواب میں چلنے والی گولی ان کی جان لے سکتی ہے، پھر بھی وہ اپنے ہاتھوں میں پتھر لیے ہوئے تھے، شاید اس لیے کہ ان کے اس پتھر کی آہٹ شاید کسی کو بیدار کردے۔ میں تائید نہیں کرتا ان کے اس پتھر کی زبان کی، مگر تائید کرتا ہوں حق اور انصاف کی تلاش میں ان کے جذبہ کی،اس لیے لکھ رہا ہوں کہ شاید آپ کو بھی متوجہ کرسکوں اور پھروہ وقت بھی آئے کہ جن کے ہاتھوں میں پتھر ہیں، وہاں پھول نظر آئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط در قسط خون کا جزیہ دینے کا سلسلہ خدا جانے کب تھمے گا، اب تو یہ خون کے پیاسے نئی نسل کے جوان ہونے کا انتظار بھی نہیں کرتے۔ پھولوں اور تتلیوں سے کھیلنے کی عمر ہے جن بچوں کی، یہ ان کے خون سے ہولی کھیلتے نظر آتے ہیں۔ کسی خاندان کی آبرو بننے کی حسرت اپنے دل میں لیے جو کم سن بچیاں اپنے وجود کو چھپاتی پھرتی ہیں، ان کی عیاری، مکاری اور ہوس ان کے ارمانوں کے ساتھ ان کی آبرو کا بھی خون کرڈالتی ہے اور سب کے سب تماشائی بن گئے ہیں، کچھ مجبوری میں، کچھ معذوری میں تو کچھ مکاری میں۔
انقلاب اب ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا ہوا ایک لفظ بھر رہ گیا ہے۔ وہ آوازیں جو زندگی بخش دیں اس لفظ کو، نہ جانے کیوں خاموش ہوگئی ہیں۔ ظالموں، جابروں کے حوصلہ توڑ دینے والے نغمے اب فضاؤں میں نہیں گونجتے، شاید اس دور کی سچائی بس اب یہی ہے، جو اپنے اس شعر میں جناب بشیر بدر نے بیان کی ہے۔
بڑے شوق سے مرا گھر جلا کوئی آنچ تجھ پر نہ آئے گی
یہ زباں کسی نے خرید لی یہ قلم کسی کا غلام ہے
طفیل کی عمر 17سال تھی، وہ ٹیوشن پڑھ کر آرہا تھا کہ پولس کا شکار ہوگیا۔یہ واقعہ غنی میموریل اسٹیڈیم جوکہ پاٹن شہر کے راجوری کدل علاقہ میں واقع ہے کے پاس کا ہے۔ اس علاقہ میں اس سے قبل پولس کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے اور پولس مظاہرین کو بھگانے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے پر اتر آئی تھی۔ عینی شاہدین کے مطابق جس جگہ طفیل کو نشانہ بنایا گیا، وہاں اس وقت نہ ہی کوئی احتجاج ہورہا تھا اور نہ کوئی اشتعال پیدا کرنے والی سرگرمی، تاہم پولس نے طفیل کے سر پر نشانہ لگاکر آنسو گیس کا ایک گولہ پھینکا، جس نے اس معصوم کی جان لے لی۔ پولس نے اس واقعہ سے بچنے کی کوشش کی، لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ نے واضح کردیا کہ طفیل کی موت پولس کے گولے سے ہی ہوئی تھی۔
طفیل کے قتل سے ٹھیک چار مہینے دس دن پہلے اسی مقام پر انہیں حالات میں وامق فاروق نامی ایک اور معصوم کا قتل کیا گیا تھا۔ ریناوادی علاقہ کا 13سالہ وامق فاروق کرکٹ کے کھیل کا زبردست شوقین تھا اور وہ اپنا محبوب کھیل کھیلنے کے لیے غنی میموریل کی جانب آرہا تھا کہ ایک پولس افسر نے اس کا نشانہ باندھا اور آنسو گیس کے گولے سے اس معصوم کی جان لی۔ وامق کے قتل کے بعد بھی وادی میں احتجاج کی لہر تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی کہ ڈل جھیل کے کنارے معروف سیاحی مرکز نشاط باغ کے نزدیک زاہد فاروق نامی ایک 16سالہ لڑکے کو بی ایس ایف کے ایک کمانی افسر آر کے بردی(BIRDI)کے کہنے پر اس کے محافظ لکھنوندر سنگھ نے گولی مار کر قتل کردیا۔ زاہد اس وقت محلے سے باہر ڈل جھیل کے کنارے اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے آیا تھا۔ آر کے بردی جن کی پوسٹنگ گلمرگ میں تھی، وہاں سے یونہی گزررہے تھے کہ جب انہوں نے زاہد پر گولی چلائے جانے کا حکم دیا اور معصوم کی جان لی، جبکہ نشاط میں نہ ہی کوئی احتجاج ہورہا تھا اور نہ ایسی کوئی دیگر سرگرمی۔
دیور گاؤں کے رہنے والے حبیب اللہ خان کی عمر75سال تھی، جو اپنے بیٹے کو دہشت گرد قرار دے کر مار دئے جانے کے بعد اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے تھے اور موت کے انتظار میں زندہ رہنے کے لیے بھیک مانگ کر پیٹ بھرنے کے لیے مجبور تھے، انہیں کیا خبر تھی کہ اپنے پیٹ کے لیے آخر غذا کی شکل میں انہیں بندوق کی گولی ملے گی اور وادی کا سب سے عمر رسیدہ دہشت گرد ہونے کا تمغہ۔
1990کا یہ دردناک واقعہ خون کے آنسو رولادینے والا ہے، جب فوج کی راجپوت ریجمنٹ نے پکھوارا ضلع کے کنن پوش پورا نامی گاؤں کا کریک ڈاؤن کرکے یہاں کے مردوں کو ایک میدان میں جمع کیا اور گھروں میں موجود خواتین،جن میں15سے75برس تک عمر والی تقریباً100خواتین تھیں کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔
کیا ایسے پریشان حال چہروں میں کبھی آپ کو اپنا بیٹا، بھائی ہونے کا احساس نہیں ہوتا؟ کیا ان لڑکیوں میں آپ کو اپنی بیٹی یا بہن نظر نہیں آتی؟ اتنے بے حس تو ہم کبھی نہ تھے، اگر ہوتے تو آزادی کی جنگ کیسے لڑتے اور جیتتے۔
تاریخی حوالے میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا رہوں گا، جو گزشتہ چند روز سے کررہا ہوں، مگر یہ سلسلہ ذرا لمبا ہے، اس لیے سوچتا ہوں بیچ بیچ میں آج کی تلخ حقیقت بھی آپ کے سامنے رکھی جاتی رہے، تاکہ واضح رہے کہ کیوں میں گڑے مردے اکھاڑنے بیٹھ گیاہوں۔ کیوں گمشدہ ہوتی جاری تاریخ کو پرت در پرت منظرعام پر لانے کا سلسلہ شروع کربیٹھا ہوں۔ کوئی ضرورت نہیں ہوتی اگر کشمیر کے حالات معمول پر ہوتے اور ان حالات کا اثر تمام ہندوستان کے مسلمانوں پر نہ پڑرہا ہوتا، پورے ہندوستان پر نہ پڑرہا ہوتا۔ میں بھی وقت کی گرد میں دبی ان سچائیوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتا۔ دفن ہوجانے دیتا ان حقائق کو، ان زندہ انسانوں کی طرح جو کشمیر کی آن بان اور شان ہوسکتے تھے، مگر ان بدنصیبوں کو قبرستان بھی نصیب نہیں ہوسکا۔ میں رہا ہوں کچھ روز کشمیر کے ایک ایسے گھر میں جس کے آنگن میں نہ جانے کتنے بے گناہوں کی لاشیں دفن تھیں، صرف وہ بے زبان درودیوارا گواہ ہیں ان کی آہوں کے، چیخوں کے اب جو بول نہیں سکتے پر نہ جانے کیوں ابھی میرا بھروسہ نہیں ٹوٹاہے، شاید اس لیے کہ مجھے محترم منوررانا کے ان اشعار پر یقین کامل ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں شاید کہ یہ اشعار ’’لفظ‘‘ انقلاب کو پھر سے پرمعنی بنادیں اور ایک نئی زندگی بخش دیں۔
میں دہشت گرد تھا مرنے پہ بیٹا بول سکتا ہے
حکومت کے اشارے پر تو مردہ بول سکتا ہے
یہاں پر نفرتوں نے کیسے کیسے گل کھلائے ہیں
لٹی عصمت بتا دے گی دوپٹہ بول سکتا ہے
حکومت کی توجہ چاہتی ہے یہ جلی بستی
عدالت پوچھنا چاہے تو ملبہ بول سکتا ہے
کئی چہرے ابھی تک منہ زبانی یاد ہیں اس کو
کہیں تم پوچھ مت لینا وہ گونگا بول سکتا ہے
سیاست ان دنوں انسان کے خوں میں نہاتی ہے
گواہی کی ضرورت ہو تو دریا بول سکتا ہے
عدالت میں گواہی کے لیے لاشیں نہیں آتیں
وہ آنکھیں بجھ چکی ہیں پھر بھی چشمہ بول سکتا ہے
بہت سی کرسیاں اس ملک میں لاشوں پہ رکھی ہیں
یہ وہ سچ ہے، جسے جھوٹے سے جھوٹا بول سکتا ہے
سیاست کی کسوٹی پہ پرکھیے مت وفاداری
کسی دن انتقاماً میرا غصہ بول سکتا ہے
شاید کہ یہ چند اشعار کشمیر کے حالات کی ترجمانی کرتے نظر آئیں اور آپ کو اس انقلاب پر آمادہ کردیں، جو آج وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
آئیے میں پھر واپس لوٹتا ہوں، کشمیر کے حالات کی طرف بالخصوص وہ حالات جو طفیل کی دردناک موت کے بعد آج سے چند روز قبل میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ہاں مجھے احساس ہے اس سمت میں اچھالے گئے پتھر کا، جدھر سے میں گزر رہا تھا۔ وہ میرا جنم دن تھا۔ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ کشمیر کی وادیوں میں تھا۔ میں اس دن سے ایک بہت بامقصد شروعات کرنا چاہتا تھا، اسی لیے اس مخصوص دن ارادتاً سری نگر میں تھا۔ دہلی سے جب چلا حالات تقریباً معمول پر تھے، مگر سری نگر کی زمین پر قدم رکھتے ہی یہ احساس ہوگیا کہ اس زمین کے لیے معمول کی زندگی تو بس خوابوں کی بات ہے، ہم جیسے لوگ جو ان حالات سے بے نیاز رہتے ہیں، غلط فہمی کا شکار ہیں اور سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہاں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔
15؍جون کی صبح میں سری نگر سے گلمرگ کی طرف جارہا تھا۔ سب سے آگے سیکورٹی کی گاڑی تھی، اس کے بعد کی گاڑی میں میرے بچے اور اس کے بعد کی گاڑی میں خود و میری بیگم اور ایک مسلح پی ایس اوتھا اورسب سے پیچھے ہمارے مقامی نمائندے کی گاڑی تھی۔ تبھی ایک زوردار پتھر سیکورٹی کار کے شیشے پر لگا، شیشہ چکناچور ہوگیا اور ڈرائیور زخمی۔ تیزی سے گاڑیاں واپس لوٹیں، راستہ بدلا اور پھر نئے راستہ سے منزل کی طرف بڑھنے لگیں۔
یہ ردعمل 17سالہ طفیل کے پولس کے گولے کا شکار ہوجانے کی وجہ سے تھا۔ یہ پتھر مجھے تو نہیں لگا، مگر اس پتھر کی چوٹ سے میرے اندر کا صحافی زخمی ہوگیا۔ مجھے لگا یہ پتھر مجھ سے کچھ کہہ رہا ہے، مجھے اس پتھر کی آواز کو سننا چاہیے، سمجھنا چاہیے اور سب کو سمجھانا چاہیے۔ اگر میں مانتا ہوں کہ پتھر بول سکتے ہیں تو شروعات اسی پتھر کی گواہی کو سامنے رکھ کرنی ہوگی۔ ہاں وہ پتھر گواہ تھا ان حالات کا، جن سے کشمیر کے لوگ گزر رہے ہیں۔عکاسی کرتا تھا ان کے جذبات کی۔ جن کے ہاتھوں میں یہ پتھر تھے، وہ اتنے بے وقوف نہیں ہیں کہ اتنا بھی نہیں سمجھتے ان کا پتھر صرف ان کے غصہ کا اظہار کرسکتا ہے، کسی کی جان نہیں لے سکتا، مگر اس پتھر کے جواب میں چلنے والی گولی ان کی جان لے سکتی ہے، پھر بھی وہ اپنے ہاتھوں میں پتھر لیے ہوئے تھے، شاید اس لیے کہ ان کے اس پتھر کی آہٹ شاید کسی کو بیدار کردے۔ میں تائید نہیں کرتا ان کے اس پتھر کی زبان کی، مگر تائید کرتا ہوں حق اور انصاف کی تلاش میں ان کے جذبہ کی،اس لیے لکھ رہا ہوں کہ شاید آپ کو بھی متوجہ کرسکوں اور پھروہ وقت بھی آئے کہ جن کے ہاتھوں میں پتھر ہیں، وہاں پھول نظر آئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment