داستان ظلم و ستم، جو کل شروع کی گئی تھی، ادھوری ہے ابھی۔ آج بھی اور کل بھی اسی کو جاری رہنا ہے، لیکن کشمیر میں جو کل مظاہرے کے دوران ہوا، اسے بھی ایک دم سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تفصیل تو کل کے بعد جب ایک بار پھر کشمیر پر میرے مضامین کا سلسلہ شروع ہوگا تو اس طرح کے مظاہروں، ان کی وجوہات اور ان مظاہروں میں ہلاک و زخمی ہونے والوں پر بھی گفتگو ہوگی، مگر آج یہ لکھنا ضروری لگا کہ ہمارے قومی میڈیا نے کل ہوئے تشدد کی،جو تصویر پیش کی ہے، وہ قطعاً یکطرفہ نظر آتی ہے۔ کئی اخباروں نے تو ان تصاویر کے کیپشن میں یہ بھی لکھا کہ کس طرح جموں و کشمیر میں پولس اور سی آر پی ایف پر علیحدگی پسندوں کے ذریعہ حملے کئے جارہے ہیں۔ کیا کل کا مظاہرہ علیحدگی پسندی کی مانگ کو لے کر تھا یا پولس اور سی آر پی ایف کے ذریعہ گزشتہ دنوں جو بچے ہلاک ہوئے، ان کے خلاف کشمیریوں کے غم و غصہ کا اظہار تھا؟ اس کے علاوہ قابل غور یہ بھی ہے کہ جب ہم مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد دیکھتے ہیں تو ان میں کون زیادہ ہیں۔ انگریزی روزنامہ ’دی ایشین ایج‘ کی خبر کے مطابق اس مظاہرے میں50افراد زخمی ہوئے، جن میں سے صرف 31پولس و سی آر پی ایف کے اہلکار تھے، یعنی 119مظاہرین زخمی ہوئے، جبکہ مرنے والوں میں دونوںتجمل بھٹ17) اور آصف حسن9)برس کے تھے۔ اگر مظاہرہ کرنے والے تشدد پر آمادہ تھے اور پولس و سی آر پی ایف کے جوانوں پر اتنی شدت کے ساتھ حملہ کررہے تھے، جیسا کہ تصاویر میں دکھایا گیا ہے تو کیا مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد مظاہرین کی زیادہ ہوسکتی تھی؟ جبکہ دہلی سے شائع ہونے والے درجن بھر انگریزی اور ہندی اخبارات جو میری نظروں سے گزرے، ان میں ایک بھی تصویر ایسی نہیں تھی، جب مظاہرین تشدد کا شکار ہورہے ہوں۔ اگر ان پر حملے نہیں ہوئے تو پھر مرنے والوں اور زخمیوں میں ان کی تعداد زیادہ کیوں ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ اگر تصویر کا صحیح رُخ پیش نہیں کریں گے تو حالات مزید تشویشناک ہوتے چلے جائیں گے۔ بہرحال اس ضمن میں مجھے بہت کچھ لکھنا ہے، فی الحال کولکاتہ پریسڈنسی جیل میں قید عبداللہ کی وہ داستان،جسے کل شروع کیا گیا تھا:
# اتنے میں کمرے میںایس پی صاحب تشریف لاچکے تھے۔ کولکاتہ والوں نے کہا کہ ثبوت تو ہمارے پاس ابھی کچھ نہیں ہے، لیکن کولکاتہ میں ہے اور ہم نے طارق اختر کو کالکاتہ میں پکڑا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ عبد اللہ اس کا ساتھی ہے توایس پی نے کہا کہ پہلے ہماری فون کے ذریعہ طارق سے بات کراؤ، تب میں آگے کچھ بولوں گا۔ تھوڑے سے پس و پیش کے بعد وہ لوگ تیار ہوگئے اور کولکاتہ میں اپنے لوگوں سے رابطہ کرکے طارق اختر کوentral Lockup سے نکال کرایس پی کااس سے فون سے رابطہ کروایا گیا۔ایس پی کے فون کااسپیکر آن تھا، طارق کی آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔
ایس پی نے طارق سے سوال کیا عبد اللہ کو کیسے جانتے ہو؟جواب ملا کہ وہ میرے بہنوئی کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا، وہیں ملاقات ہوئی۔ ایس پی نے سوال کیا کہ تمہارے پاس عبد اللہ کے مدرسے کا نمبر کہاں سے آیا، جواب ملا کہ اپنے بہنوئی سے لیا۔ایس پی نے پوچھا کہ عبد اللہ کو تم نے کتنے پیسے دئے، جواب ملا ایک روپے بھی نہیں۔ایس پی نے پوچھا کہ کیا عبد اللہ جانتا ہے کہ تم لشکر طیبہ کے آدمی ہو؟ طارق نے کہا کہ نہیں، عبد اللہ میرے بارے میں کچھ نہیں جانتا، اس کا مجھ سے اس معاملے میں کوئی تعلق نہیں ہے۔
پھر ایس پی نے پوچھا کہ کولکاتا پولس کا کہنا ہے کہ تم نے اپنے لیپ ٹاپ میں عبداللہ کا نام لے کر یہ لکھا ہے کہ میں اس سے تنظیم کے بارے میں بات کروں گا تو ایسا کیوں لکھا؟طارق نے کہا کہ میں نے اپنے اور بھی بہت سے جان پہچان والوں اور رشتہ داروں کا نام لکھ رکھا ہے کہ میں اگر مناسب سمجھوں گا تو ان کو ٹچ کروں گا، خاص طور پر عبداللہ کا نام صرف نہیں لکھا ہے۔ ایس پی نے پوچھا کہ کیا تم کو اس بات کی امید تھی کہ اگر تم عبداللہ کو ٹچ کرو گے تو وہ Convienceہوجاے گا؟ طارق نے کہا کہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ پھر ایس پی نے پوچھا کہ کیا عبداللہ سے تمہاری جہاد کے Topicپر کوئی بات ہوئی تھی؟ تو طارق نے کہا کہ کچھ خاص نہیں، ہاں اس نے مسلم شریف کی ایک حدیث سنائی تھی اور پھر اس نے وہ حدیث بیان کی۔
تب ایس پی نے کہا کہ عبداللہ کو طارق کے بارے میں کچھ معلوم تو نہیں ہے، مگر اس کاارادہ (ntention)لگتا ہے، اس لئے میں آپ لوگوں کو اس کو Interogationکے لئے دیتا ہوں، اس کو لے جائو۔ تب ترپاٹھی جی نے ایس پی کو کہا کہ سر یہ تو جانتا ہی نہیں ہے کہ طارق لشکر کا آدمی ہے، پھر آپ عبداللہ کو Handoverکیوں کررہے ہیں؟ ان لوگوں کے پاس عبداللہ کو گرفتار کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ تب کولکاتا پولس نے کہا کہ ہم اس کو کوئی کیس تو دینے نہیں جارہے ہیں، صرف پوچھ تاچھ کے لئے Arrestکررہے ہیں، اگر اس کے خلاف کچھ بات نہیں پائی گئی تو ہم لوگ عبداللہ کو فوراً چھوڑ دیں گے۔ تو ایس پی نے کہا کہ ٹھیک ہے لے جائو۔ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میرے آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ترپاٹھی جی کی بھی آنکھیں بھر آئیں اور انہوں نے کہا کہ میرے بچے غم نہ کرو یہ لوگ تمہیں لے جارہے ہیں، کچھ سوال وجواب کے بعد تم کو چھوڑ دیں گے۔ میں نے کہا کہ میری تعلیم خراب ہوجائے گی،اگر آپ گرفتارکریں گے تو میرے مدرسے والے مجھے نکال دیں گے۔ تو ترپاٹھی جی نے کہا کہ یہ نہیں ہوگا، جب یہ لوگ تم کو چھوڑ دیں گے تو ڈائریکٹ میرے پاس آنا میں تمہیں تمہارے مدرسہ لے چلوں گا، پھر تمہیں کوئی نہیں نکالے گا۔
پھر ان لوگوں نے Arrest Memoپر Signatureکرواکر مجھے کولکاتا پولس کے Handoverکردیا۔ پھر میں نے بنارس والوں سے گزارش کی کہ مجھے شیخ الجامعہ سے بات کرنے دی جائے تو انہوں نے کہا کہ ہم خبر کردیں گے۔ دو چار دن میں تو تم آہی جائو گے، پھر کولکاتا والے جو کہ کل پانچ آدمی تھے مجھے ایک ماروتی وین ٹائپ کی گاڑی میں جو کہ پرائیویٹ تھی، بٹھاکر تقریباً رات کے 11بجے کولکاتا کے لئے روانہ ہوگئے۔ رات بھر گاڑی چلتی رہی۔ رات میں وہ لوگ ایک ڈھابے پہ کھانا کھانے کے لئے رکے۔ ان لوگوں نے شراب پی، گوشت کھایا۔ میرے ہاتھ پیر کھلے ہوئے تھے، میں نے اپنی قضا نماز پوری کی۔ ان لوگوں نے شراب پیش کی، میں نے انکار کیا، سگریٹ دی میں نے انکارکیا، کہا کہ گوشت کھائو میں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم ہے یہ کیسا گوشت ہے، اس لئے مجھے سبزی کھلادو تو ان لوگوں نے کہا کہ واقعی تم دہشت گرد ہو، کیونکہ تم شراب نہیں پیتے، سگریٹ نہیں پیتے، سنگل کٹ گوشت نہیں کھاتے، لیکن نماز تو بہت پابندی سے پڑھتے ہو اور داڑھی بھی اسامہ بن لادن کی طرح ہے۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
y
پھر گاڑی چلتی رہی ہم صرف رفع حاجت کے لئے راستے میں رکے۔ پھر تقریباً کل ہوکر دن کے 2بجے گاڑی ایک کورٹ کے کیمپس میں رکی بعد میں پتہ چلا کہ یہ Bankshall Courtہے۔ پھر ان لوگوں نے مجھے وہاں کچھ دوسرے پولس والوں کے سپرد کردیا۔ وہ لوگ مجھے مجسٹریٹ کے سامنے لے گئے اور جموں وکشمیر Militantکہہ کر میرا 15دنوں کا ریمانڈ لے لیا (یہ سب مجھے بہت بعد میں سمجھ میں آیا، اس وقت تو مجھے کچھ بھی نہیں معلوم تھا) پھر مجھے ہتھکڑی لگادی گئی اور کمر میں موٹا سا رسہ باندھ دیا گیا۔ پھر جب مجھے کورٹ سے نکالا گیا تو میں نے دیکھا کہ بہت سارے میڈیا والے کھڑے تھے اور اپنے کیمرے سے میری تصویریں اتار رہے تھے، پھر مجھے دھکا دے کر ایک پولس جیپ میں بٹھا دیا گیا۔ گاڑی لال بازار پولس ہیڈکوارٹر میں آکر رکی، پھر مجھے ایک کمرے میں پہنچایا گیا۔ وہاں مجھے زمین پر بٹھا دیا گیا، ہاتھوں میں ہتھکڑی تھی، کمر میں رسی جس کے ایک سرے کو کسی چیز سے باندھ دیا گیا تھا۔ کچھ لوگ ہنس رہے تھے، کچھ گالیاں دے رہے تھے، کچھ کہہ رہے تھے کہ چھوٹا اسامہ ہے، میرے سر سے ٹوپی گرگئی تھی، میں حیران و پریشان چاروں طرف دیکھ رہا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے، مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ پھر بھیڑ چھٹی، کمرہ خالی ہوا، کچھ نئے لوگ داخل ہوئے، مجھے پینے کے لئے پانی دیا گیا، چائے دی گئی، پھر ایک آدمی نے مجھ سے سوالات کرنے شروع کردئے کہتم طارق کو کیسے جانتے ہو؟تم کولکاتا کب اور کیوں آئے؟ تم جمشید پور کس لئے گئے تھے او رکہاں ٹھہرے؟ کیا طارق اور تمہارے درمیان کبھی جہاد کے ٹوپک پر بات چیت ہوئی؟ پوری بات بیان کرو۔
پھر میں نے بتانا شروع کیا کہ جب میں دہلی میں احمد شہوار صاحب کی دو بچیوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا تو تقریباً 8دس مہینوں کے بعد ایک دن شام کو ٹیوشن پڑھاتے وقت احمد شہوار نے اپنے سالے کے طور پر طارق اختر کا تعارف کروایا، جو کہ جمشید پور کا رہنے والا تھا۔ طارق اختر نے سلام دعا کے بعد اپنی بھانجیوں کی پڑھائی لکھائی اور میری تعلیم وغیرہ کے بارے میں پوچھا جو کہ عموماً پہلی ملاقات میں ایک آدمی دوسرے کے بارے میں پوچھتا ہے اور یہ بات 2003کی ہے۔
تعارف کے تقریباً دو مہینے بعد ایک شام میں ٹیوشن پڑھاکر جب پہلی منزل سے نیچے اترا توگرائونڈ فلور پر شہوار صاحب کی الیکٹرک کی دکان پر میں نے طارق اختر کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو اس کے اصرار پر علیک سلیک کے بعد میں بھی کچھ دیر بیٹھ گیا۔ مسلمانوں کی حالت زار پہ گفتگو ہونے لگی، سامنے ہی انگریزی اخبار رکھا ہوا تھا، اس میں چیچن لوگوں کے بارے میں کوئی آرٹیکل یا نیوز تھی اور چند لوگوں کی تصاویر تھیں۔ بات چلتے چلتے طارق اختر نے پوچھا یہ جو چیچنیا،بوسینیا اور فلسطین میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے، اس کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے۔ میں نے کہا چیچنیا کے بارے میں تو معلوم نہیں، مگر فلسطین میں تو مسلمانوں پر بہت ظلم ہورہا ہے۔ پھر تھوڑی دیر بعد اس نے پوچھا کہ جہاد کے بارے میں آپ کا کیا نقطہ نظر ہے تو میں نے اس کو مسلم شریف کی ایک حدیث سنا دی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس مسلمان کے دل میں جہاد کی تمنا بھی نہیں ہے وہ نفاق کی موت مرے گا، لیکن اس کے ساتھ میں نے یہ بھی وضاحت کردی کہ آج دنیا میںجہاد کے نام پر جوپرتشدد کاروائیاں ہورہی ہیں اور بے قصوروں کا خون بہایا جارہا ہے، اس کا اسلام اور جہاد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ پھر میں نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں بتایا کہ اسلام نے دنیا کو امن وسلامتی کا پیغام دیا ہے ۔ مومن جب نماز پڑھتا ہے، اپنے نفس کو کچلتے ہوئے روزہ رکھتا ہے،اللہ کی خوشنودی کے لئے دیگر اعمال خیر کرتا ہے تو مومن کا اپنے نفس کو اللہ کے احکام کے تابع کردینا ہی جہادہے اور یہ کہ جہاد کافی وسیع معنوں پر مشتمل ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ظلم کے خلاف ظالم و جابر حکمراں کے سامنے حق بات کہنا سب سے افضل جہاد ہے، پھر اس کے بعد گفتگو ختم ہوگئی کیونکہ میرے ہاسٹل کے گیٹ بند ہونے کا وقت قریب ہوچکا تھا۔ پھر اس کے بعد طارق سے اس موضوع پر کبھی میری گفتگو نہیں ہوئی۔پھر میں نے تانو یہ کی تعلیم مکمل کرکے عالمیت کے لئے مرکزی دارالعلوم جامعہ سلفیہ بنارس میں داخلہ لے لیا اور دہلی کو چھوڑ دیا،اس کے بعد چونکہ کافی دنوں تک احمد شہوار صاحب کے یہاں بچوں کو پڑھانے کی وجہ سے کچھ قربت ہوگئی تھی ، اس لئے بنارس آنے کے بعد بھی کبھی کبھار فون سے خیر خیریت کا تبادلہ ہوجاتا تھا۔
2006میں جبکہ میرا عالمیت کا آخری سال تھا بقرعید کی چھٹی میں، میں اپنے گھر بہار گیا۔ پھر اپنی خالہ اور اپنی بہن سے ملنے کے لئے دوتین روز کے لئے کولکاتا آیا، جہاں کبھی میں بچپن میں رہ کر خالہ کے پاس پڑھا کرتا تھا اور میری یہ کولکاتہ آمد تقریباً7سال بعد ہورہی تھی۔پھر میں کولکاتہ سے تیسرے روز اپنے ایک دوست صفیان کے ساتھ دو تین کے لئے جمشید پور چلا گیا، وہ مجھے خود کو لکاتہ لینے آیا تھا۔میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ بقرعید کی چھٹی پر میں اس کے گھر جمشید پور ضرور چلوں گاکیونکہ صفیان نے کہا تھا کہ اس کے خالو عبدالھادی العمری، صدر جمعیت اہلحدیث بر منگھم نے جمشید پور میں ایک خوبصورت مسجد بنوائی ہے اور صفیان کی خواہش تھی کہ میں وہاں جمعہ کا ایک خطبہ دوں،جملہ معترضہ کے طور پر بتاتا چلوں کے میں اپنی طالب علمی کے ابتدائی ایام سے ہی درس ودروس اور خطبہ جمعہ وغیرہ دیا کرتا تھا۔دہلی میں بھی دوران تعلیم اکثر مساجد میں جمعہ وغیرہ پڑھانے کے لئے مجھے حافظ …… صاحب بھیجا کرتے تھے۔
……………………………(جاری)
No comments:
Post a Comment