Thursday, October 28, 2010

!اجمیر‘ کا ذکر ابھی جاری تھا کہ ’کانپور‘ میں پھر ہوا دھماکہ'

عزیز برنی

’ہندو دہشت گردی‘ یا ’ہندو آتنک‘ جیساکچھ بھی نہیں ہی، اس لفظ کا استعمال نہیں ہونا چاہئی۔ ہمیں بھی نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ہم معذرت خواہ ہیں کہ اوروں کی طرح ہم بھی اس لفظ کا استعمال کرنے کی غلطی کربیٹھی۔ دراصل کوئی بھی مذہب دہشت گرد نہیں ہوتا، نہ دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہی۔ کسی بھی مذہب سے جوڑ کر اس لفظ کا استعمال نہیں کیا جانا چاہئی۔ اسلامی دہشت گردی یا مسلم دہشت گردی جیسا بھی کچھ نہیں ہی، اس لفظ کا استعمال بھی نہیں ہونا چاہئی، جو بھی کرتے رہے ہیں غلط کرتے رہے ہیں، انہیں بھی نہیں کرنا چاہئے تھا۔ آج اس بات کو ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور سمجھا سکتے ہیں۔ بیشک کچھ بم دھماکوں میں ایسے لوگوں کے نام سامنے آئی، جن کا تعلق ہندو مذہب سے ہے اور اسی طرح ماضی میں کچھ ایسے لوگوں کے نام سامنے آتے رہی، جن کا تعلق بظاہر مذہب اسلام سے نظر آتا تھا، لیکن وہ سب کے سب خود اپنے اپنے فعل کے لئے ذمہ دار ہیں، ان کا مذہب نہیں ہی، پھر ان کے ذریعہ کئے گئے گناہ کا داغ ان کے مذہب کے نام پر کیوں ہو۔آج یہ ہم سب کے لیے موضوع فکر ہونا چاہئی۔ بالخصوص ان کے جو بلارادہ دہشت گردی کو مذہب کے چشمے سے دیکھنے کے عادی تھی۔
ہم نے اپنے کل کے مضمون میں کچھ بم دھماکوں کے حوالہ سے ایک حقیقت سامنے رکھ کر کچھ کہنے کی کوشش کی۔آج اسی بات کو آگے بڑھانے جارہے ہیں۔ ہم نے نہ تو گزشتہ5-20برسوں میں بالخصوص بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہوئے تمام بم دھماکوں کی تفصیل پیش کرنے کی ضرورت سمجھی اور نہ ہلاکتوں و زخمیوں کی تعداد کا تذکرہ کیا، کیونکہ 18برس کے عرصہ میں ملک گیر سطح پر کتنے بم دھماکے ہوئی، کتنی ہلاکتیں ہوئیں، کتنے لوگ زخمی ہوئی، کتنی املاک تباہ ہوئیں، اس سب سے قطع نظر جس حقیقت کی طرف ہمیں غور کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اس درمیان سو کروڑ سے زائد ہندوستانی کن حالات سے گزری۔ ہلاکتیں تو کچھ ہزار لوگوں کی ہوئیں، براہِ راست متاثر ہونے والوں کی تعداد بھی لاکھ، دو لاکھ، چار لاکھ سے زائد نہیں رہی ہوگی۔ مگر سو کروڑ سے زائد ہندوستانی خوفزدہ رہی۔ 20کروڑ سے زائد ہندوستانی خوف و ہراس کے شکار رہی۔ یہ 18برس انہوں نے اپنے دامن پر لگے داغ دھونے میں گزاری، وہ ہر پل اپنے ہم سایہ ہم وطن بھائیوں سے رشتہ استوار کرنے میں لگے رہی۔ 80کروڑ ہندوستانی یہ سوچ سوچ کر پریشان رہے کہ اگر ہمیں اپنے ہی ملک کی اتنی بڑی تعداد سے اپنی جان، مال اور مستقبل کا خطرہ ہے تو ہم پرسکون زندگی کیسے جی سکتے ہیں، لہٰذا نفرتیں بڑھتی چلی گئیں، اعتماد کا رشتہ ٹوٹ گیا، محبت کا دامن سکڑتا چلا گیا۔ ہم جن چہروں میں اپنے تئیں محبت کا اظہار دیکھتے تھی، وہاں نفرت اور عدم اعتماد کا مظاہرہ ہونے لگا۔ ملک کی ترقی رک گئی اور ہمارے ملک کی سیاست صرف اور صرف مذہب اور دہشت گردی تک سمٹ کر رہ گئی۔ ہماری خواہش تھی، ہماری کوشش تھی اور ہے کہ یہ سلسلہ پوری طرح ختم ہوجائی۔ ہم نے اپنے کل کے مضمون میں اجمیر بم دھماکوں کے فوراً بعد لکھا گیا اداریہ ایک بار پھر اس لئے شامل اشاعت کیا، کیوں کہ ہم واضح کرنا چاہتے تھے کہ ہم نے ان دھماکوں کے فوراً بعد ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اس دہشت گردی کے پیچھی، ان بم دھماکوں کے پیچھے سیاست کارفرما ہوسکتی ہے اور آج ہونے والے انکشافات سے یہی سچ ثابت ہوتا نظر آرہا ہی۔ ہم نے اسی وقت حکومت ہند سے درخواست کی تھی کہ جانچ کے دائرہ کو دیگر امکانات کی روشنی میں آگے بڑھائی، جن کی طرف ہم اشارہ کررہے ہیں۔ ہم شکرگزار ہیں اپنی خفیہ ایجنسیوں اور حکومت ہند کے کہ اس پر توجہ دی اور اب نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اسی طرح 30ستمبر010کو بابری مسجد اراضی کی ملکیت کے تعلق سے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ہم نے لکھا تھا کہ بیشک یہ قانون کے مطابق دیا گیا فیصلہ نہیں ہی، مگر اسے تسلیم کرنے پر غور کیا جائی، اس لئے کہ اس فیصلہ سے امن و اتحاد قائم رہ سکتا ہی، مندرـمسجد کا تنازع ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوسکتا ہی۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کے لئے جذبات سے کھیلنے کا دور ختم ہوسکتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس فیصلہ میں مسجد بننے کی گنجائش بھی ہے اور مندر بننے کی بھی، یعنی نہ تو مسلمانوں کو مسجد سے دستبردار ہونے کی ضرورت ہے اور نہ مندر بنانے والوں کے راستہ میں اب مندر بنانے کی کوئی رکاوٹ ہی۔ اس موضوع پر ہم اپنے گزشتہ مضامین میں کافی کچھ لکھ چکے ہیں اور اپنے اگلے کسی مضمون میں اس بات کی مکمل وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہم نے ایسا کیوں لکھا تھا۔ چونکہ آج کا مضمون اجمیربم دھماکوں کے بعد ہونے والے تازہ انکشافات کے سلسلہ کی ایک کڑی ہی، لہٰذا اس کا موضوع اسی موضوع تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔
اسے قطعاً خوشی یا اطمینان کی بات قرار نہیں دیا جاسکتا کہ مالیگاؤں بم دھماکوں کی تحقیقات کے بعد سے جو حقائق منظرعام پر آرہے ہیں، ان میں تقریباً سبھی نام ہندو فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کے ہیں۔ یہاں کچھ پل رُک کر ہمیں مذہب سے بالاتر ہوکر یہ غورکرنے کی ضرورت ہے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں، کس ذہنیت کے لوگ ہیں، ان کی پرورش کرنے والے کون ہیں، کس نے انہیں نفرت کے اس راستہ پر چلنے کے لئے آمادہ کیا ہی؟ آخر وہ کون سی ذہنیت ہی، جو بے گناہ ہندوستانیوں کی جان لینے پر آمادہ کرتی رہی ہی؟ اگر اس سب کے پیچھے ہم کوئی ایسا سیاسی ذہن دیکھ رہے ہیں، جو تخریب کاری کی سیاست کررہا ہی، ہندوستان کو ہندوستانیوں کے خون سے لہولہان کردینا چاہتا ہی، اپنی سیاست کے لئے دلوں میں دیواریں کھڑی کردینا چاہتا ہے تو ہمیں ان چہروں کو بھی پہچاننا ہوگا، ان کی سیاست کو بھی پہچاننا ہوگا، ان کے خوفناک تباہ کن ارادوں کو بھی سمجھنا ہوگا۔ میں نے اپنے مضمون کی ابتدا میں لکھا تھا کہ دہشت گردی سے ہندو مذہب کو جوڑنا غلط ہی۔ ایسی کوئی بھی بات ذہن میں رکھنے والوں کو اس سچائی کو بھی سمجھنا ہوگا کہ شہیدہیمنت کرکرے سے لے کر آج تفتیش کرنے والوں تک تقریباً تمام کے تمام ہندو ہیں۔ ان تمام واقعات کی تہہ تک جانے والے اور میڈیا کے ذریعہ اسے منظرعام پر لانے والے سب کے سب ہندو ہیں۔ وہ عدالتیں جنہوں نے مالیگاؤں بم بلاسٹ تحقیقات کی روشنی میں سامنے آئے چہروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا، وہ سب کے سب ہندو ہیں۔ پبلک پروسیکیوٹر کی شکل میں جیل کی سلاخوں تک پہنچنانے کا راستہ ہموار کرنے والے وکیل ہندو تھے اور اگر انتظامیہ اور حکومت کی بات کریں تو ان کے سربراہان بھی ہندو ہیں۔ کیا یہ سب حقائق کو سامنے رکھنی، مجرموں کو ان کے کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے کام نہیں کررہے تھی؟ اگر ہاں تو ہمیں کسی بھی دہشت گردی کو مذہب سے جوڑ کر مذہب کو کٹہرے میں نہیں کھڑا کرنا چاہئی، بلکہ بہت کھلے لفظوں میں کہیں تو جس طرح عالمی سطح پر ایک جہادی ذہنیت دکھائی دیتی رہی ہی، جو خوف و دہشت کی معرفت اپنے منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا ارادہ رکھتی ہی، اسی طرح ہمارے ملک میں سنگھی ذہنیت اپنے منصوبوں کو بروئے کار لانے کا ارادہ رکھتی ہی۔ یہ دونوں ہی ذہنیت انسانیت کے خلاف ہیں۔ تازہ انکشافات جو ظاہر کرتے ہیں، ان کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ ہمارا ملک سنگھی ذہنیت کی غلط تربیت کا شکار ہے اور افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ ایک بڑی اور مضبوط سیاسی جماعت ہر لمحہ اس کی سرپرستی کے لئے موجود رہتی ہی، جو ان کے گناہوں پر پردہ ڈالنی، انہیں بے گناہ ثابت کرنی، حکومت، انتظامیہ اور عدلیہ پر دبائو بنانے میں مصروف رہتی ہی۔ ایسا کرتے وقت وہ قطعاً یہ نہیں سوچتے کہ اس کا انجام کتنا خطرناک ہوگا۔ وہ اپنے اثرورسوخ اور طاقت کی بنا پر اگر مجرموں کو بچانے اور بے گناہوں کو موردالزام ٹھہرانے میں کامیابی حاصل کرلیں گے تو کیا اس سے ملک دہشت گردی کی وبا سے پاک ہوپائے گا؟ ہندوستان ترقی کرپائے گا؟ امن و اتحاد کا ماحول بن پائے گا؟ اگر نہیں تو ان کی یہ کوشش ملک اور قوم کے لئے کس قدر خطرناک ہی، اس کا اندازہ کرنا ہوگا۔ اگر سیاستداں اپنی سیاسی حکمت عملی کے پیش نظر اس سمت میں سوچنے کا ارادہ نہیں رکھتے تو اب وہ وقت آگیا ہے کہ عوام بشمول ہندو اور مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں۔ گزشتہ چند برسوں میں پیدا ہوئی نفرتوں کو دل سے نکالیں اور ملک کو دہشت گردی کی وبا سے نجات دلائیں۔……
افسوس کہ جس وقت میں یہ مضمون قلمبند کررہا ہوں، کانپور میں ہوئے دھماکہ کی خبر تقریباً تمام نیوز چینلز پر دکھائی جارہی ہی۔ اس دوران کانپور کے ہمارے نمائندے نے ڈی آئی جی پریم پرکاش سے بات چیت کی۔ ڈی آئی جی پریم پرکاش نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش میں ملبے سے بارود کی بو ملی اور جگہ جگہ رسّی کے لچھے ملی، جس سے ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ بم بنایا جارہا تھا۔ انہوں نے اس بات کو قبول کیا کہ جس طرح سے یہ دھماکہ ہوا ہی، اس سے لگتا ہے کہ یہ بلاسٹ کافی طاقتور تھا۔ بہرحال مکمل حقیقت کیا ہے یہ تو تفتیش کے بعد ہی سامنے آئے گا، لیکن اس وقت میرے سامنے 25،6،7اگست008کے اخبارات بھی ہیں، جن میں 23اگست 2008کو کانپورمیں ہونے والے بم دھماکوں کی وہ خبریں ہیں۔ جن میں دو لوگ بم بناتے ہوئے مارے گئے تھی۔ مرنے والوں میں بجرنگ دل کا سابق شہر کنوینر بھی شامل تھا اور اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کانپور کے آئی جی ایس این سنگھ نے کہا تھا کہ ٹائمر ڈیوائس سے یہ بات پختہ ہے کہ شہر میں سیریل دھماکے کرکے تباہی مچانے کی سازش تھی، لیکن بم بناتے وقت دھماکہ ہوگیا۔ مرنے والوں کے کسی دہشت گرد تنظیم سے رشتوں کی جانکاری نہیں ہی۔ ان کا کوئی مجرمانہ بیک گراؤنڈ بھی نہیں ملا ہی۔ موقع سے راجیومشرا اور بھوپیندرسنگھ کے موبائل فون ملے ہیں۔ ان کی جانچ کی جارہی ہی، مقامی خفیہ ایجنسیاں جانچ کرکے ان کے گروہ سے وابستہ لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی۔ خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ اے ٹی ایس کی ٹیم بھی تفتیش میں شامل ہی۔ خبر کے مطابق آئی جی ایس این سنگھ نے جس حادثہ کو خفیہ ایجنسیوں کی بڑی چوک مانا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو برس پہلے ہوئے اس حادثہ، جسے کانپور کے آئی جی نے خفیہ ایجنسیوں کی چوک مانا اور تفتیش جاری رکھنے کی بات کہی، کیا بعد میں ان کے گروہ تک پہنچنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ وہ بم کن کے لئے بنارہے تھی، کس کے اشارے پر بنارہے تھی، ان کا استعمال کہاں ہونا تھا، بعد کی تفتیش میں کیا یہ سچائی سامنے آئی؟ یا پولیس نے چند وجوہات کی بنا پر وہ فائل بند کردی۔ اس سمت میں سچائی کا پتا لگانے کی کوشش ہی نہیں کی یا سچائی کو سامنے لانا اس کے لئے ممکن نہیں ہوسکا۔ آج کے حادثے کے بعد یہ سوال ضرور اٹھیں گی، اس لئے کہ پچھلے بم دھماکوں کے بعد متعدد اخبارات نے جو خبریں شائع کی تھیں، ان میں دیسی گرینیڈ، ٹائمر، اسپلنٹرس اور بارود کا ذخیرہ برآمد ہونے کی بھی تصدیق ہوئی تھی۔ اے ٹی ایس ٹیم نے موقع واردات پربھوپیندر کے گھر سے اہم دستاویز ضبط کئے تھی۔ وہ دستاویز کیا تھی؟ بم بنانے والوں کے ارادے کس قدر تباہی پھیلانے والے تھی؟ کیا بعد میں اس کا خلاصہ پولیس کے ذریعہ میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا؟ اس حادثہ کی خبر لکھنے والے انوپ واجپئی کے مطابق دھماکہ خوفناک تو تھا ہی، مگر اس سے زیادہ چونکانے والا تھا موقع واردات کا منظر۔ سینا جیسے دکھنے والے گیارہ گرینیڈ اور بارہواں گرینیڈ ٹائمرڈیوائس سے جڑا ہوا تھا۔ ساتھ ہی ہر وہ سامان جس سے بے گناہوں کی زندگی چھین لی جاتی ہی، موجود تھا۔ مرنے والوں میں دونوں کے ہندوتنظیموں سے رشتے تھی، شاید یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم ایل اے کی موجودگی کے باوجود وشوہندوپریشد کے لیڈر اودھ بہاری کو موقع پر بلانا پڑا۔ حادثے کے چار دن بعد، یعنی 27اگست008کو شائع خبر کے مطابق بجرنگ دل لیڈر کے گھر کے نزدیک کانپور میں مزید دھماکہ خیز مادّہ برآمد ہوا اور جائے واردات سے فروزآباد کا نقشہ ملا، نقشہ میں ریلوے اسٹیشن اور تحصیل پر نشان لگے تھی، جسے دیکھ کر پولیس کے ہوش اڑگئی، مگر بعد میں کیا ہوا۔ مہاراشٹر کے شہر ناندیڑ میں ہوئے بم دھماکے بھی بجرنگ دل کارکنان کی ایسی ہی دہشت گردانہ کارروائی کا نتیجہ تھی، جہاں سے نقلی داڑھی، ٹوپی اور مساجد کے نقشے برآمد ہوئے تھی۔
Mکاش کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں و دیگر ذمہ داران حادثہ کے فوراً بعد جتنی چستی پھرتی دکھاتے ہیں، بعد میں بھی اسے قائم رکھیں۔ مجرموں کے جرم کی تہہ تک پہنچیں، دیگر منسلک افراد کا پتا لگائیں اور ان میں جو بھی سزا کے مستحق ہیں، انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنے میں چوک نہ کریں تو اس طرح کی وارداتوں پر روک لگ سکتی ہی، ورنہ ایک کانپور ہی کیا ملک کے جانے کتنے شہر ایسی ہی تباہی کے نشانے پر نظر آسکتے ہیں، جن سے نجات پانے کی کوشش کی شکل میں آج کے اس مضمون کی شروعات کی گئی تھی، مگر افسوس صد افسوس کہ اختتام تک پہنچتے پہنچتے پھر ایسے ہی ایک حادثہ سے گزرناپڑا۔

‘अजमेर’ का ज़िक्र अभी जारी था कि ‘कानपुर’ में फिर हुआ धमाका!
अज़ीज़ बर्नी

‘हिंदू आतंकवाद’ या ‘हिंदू आतंक’ जैसा कुछ भी नहीं है, इस शब्द का प्रयोग नहीं होना चाहिए। हमें भी नहीं करना चाहिए था। हम क्षमा चाहते हैं कि औरों की तरह हम भी इस शब्द का प्रयोग करने की ग़लती कर बैठे। दरअसल कोई भी धर्म आतंकवादी नहीं होता, न आतंकवाद की शिक्षा देता है। किसी भी धर्म से जोड़ कर इस शब्द का प्रयोग नहीं किया जाना चाहिए। इस्लामी आतंकवाद या मुस्लिम आतंकवाद जैसा भी कुछ नहीं है, इस शब्द का प्रयोग भी नहीं होना चाहिए, जो भी करते रहे हैं ग़लत करते रहे हैं, उन्हें भी नहीं करना चाहिए था, आज इस बात को हम बख़ूबी समझ सकते हैं और समझा सकते हैं। निःसंदेह कुछ बम धमाकों में ऐसे कुछ लोगों के नाम सामने आए हैं, जिनका संबंध हिंदू धर्म से है और इसी प्रकार अतीत में कुछ ऐसे लोगों के नाम सामने आते रहे हैं, जिनका संबंघ बज़ाहिर इस्लाम धर्म से नज़र आता था। वे सबके सब स्वयं अपने-अपने कार्य के लिए ज़िम्मेदार हैं, उनका धर्म नहीं है, फिर उनके द्वारा किए गए गुनाह का दाग़ उनके धर्म के नाम पर क्यों हो। आज यह हम सबके लिए चिंता का विषय होना चाहिए। विशेष रूप से उनके लिए जो जानबूझ कर आतंकवाद को धर्म के चश्मे से देखने के आदी थे।
हमने अपने कल के लेख में कुछ बम धमाकों के उल्लेख द्वारा एक हकीकत सामने रखकर कुछ कहने का प्रयास किया। आज भी उसी बात को आगे बढ़ाने जा रहे हैं। हमने न तो गत 15-20 वर्षों में विशेषरूप से बाबरी मस्जिद की शहादत के बाद हुए सभी बम धमाकों का विवरण पेश किया और न हताहतों तथा घायलों की संख्या का उल्लेख किया, क्योंकि 18 वर्ष की अवधि में देश व्यापी स्तर पर कितने बम धमाके हुए, कितनी जानें गईं, कितने लोग घायल हुए, कितनी सम्पत्ति नष्ट हुई, इस सबसे अलग हट कर जिस सच्चाई की ओर हमें विचार करना है वह यह है कि इस बीच 100 करोड़ से अधिक भारतीय किन हालात से गुज़रे। मृत्यु तो कुछ हज़ार लोगों की हुई, प्रत्यक्ष रूप से प्रभावित होने वालों की संख्या भी लाख, दो लाख, चार लाख से अधिक नहीं रही होगी। परंतु 100 करोड़ से अधिक भारतीय भयभीत रहे। 20 करोड़ से अधिक भारतीय भय व आतंक का शिकार रहे। यह 18 वर्ष उन्होंने अपने दामन पर लगे दाग़ धोने में बिताए। वह हर क्षण अपने पड़ोसी, अपने देश बंधुओं से संबंध ठीक करने में लगे रहे। 80 करोड़ भारतीय यह सोच-सोच कर परेशान रहे कि अगर हमें अपने ही देश की इतनी बड़ी संख्या से अपनी जान, माल तथ भविष्य का ख़तरा है तो हम शांतिपूर्ण जीवन कैसे जी सकते हैं। इसलिए घृणाएं बढ़ती चली गईं, विश्वास का रिश्ता टूट गया, मुहब्बत का दामन सिकुड़ता चला गया। हम जिन चेहरों में अपने प्रति मुहब्बत का इज़हार देखते थे, वहां घृणा तथा अविश्वास दिखाई देने लगा। देश का विकास रुक गया और हमारे देश की राजनीति केवल और केवल धर्म तथा आतंकवाद तक सिमट कर रह गई। हमारी इच्छा थी, हमारा प्रयास था और है कि यह सिलसिला पूरी तरह समाप्त हो जाए। हमने अपने कल के लेख में अजमेर बम धमाकों के तुरंत बाद लिखा गया सम्पादकीय एक बार फिर इसलिए प्रकाशित किया क्योंकि हम यह स्पष्ट करना चाहते थे कि हमने इन धमाकों के तुरंत बाद ही यह महसूस कर लिया था कि इस आतंकवाद के पीछे, इन बम धमाकों के पीछे राजनीति का हाथ हो सकता है और आज होने वाले रहस्योदघाटनों से यही सच सिद्ध होता नज़र आ रहा है। हमने उसी समय भारत सरकार से निवेदन किया था कि जांच के दायरे को अन्य सम्भावनाओं की रोशनी में आगे बढ़ाए, वे जिनकी ओर हम इशारा कर रहे हैं। हम आभारी हैं अपनी ख़ु़िफ़या एजेंसियों तथा भारत सरकार के कि उसने ध्यान दिया और अब परिणाम हमारे सामने है। इसी प्रकार 30 सितम्बर 2010 को बाबरी मस्जिद की भूमि के स्वामित्व से संबंधित इलाहाबाद हाईकोर्ट के फ़ैसले पर अपने विचार व्यक्त करते हुए हमने लिखा था कि निःसंदेह यह क़ानून के अनुसार दिया गया फ़ैसला नहीं है, परंतु इसे स्वीकार करने पर विचार किया जाए, इसलिए कि इस फ़ैसले से शांति तथा एकता क़ायम रह सकती है, मंदिर-मस्जिद का विवाद हमेशा-हमेशा के लिए समाप्त हो सकता है। धर्म के नाम पर राजनीति करने वालों के लिए भावनाओं से खेलने का दौर समाप्त हो सकता है और सबसे बड़ी बात यह कि इस फ़ैसले में मस्जिद बनने की संभावना भी है और मंदिर बनने की भी। अर्थात न तो मुसलमानों को मस्जिद से दस्तबरदार होने की आवश्यकता है और न मंदिर बनाने वालों के रास्ते में अब मंदिर बनाने की कोई रुकावट है। इस विषय पर हम अपने पिछले लेखों में काफ़ी कुछ लिख चुके हैं और अपने अगले किसी लेख में इस बात को पूरी तरह स्पष्ट करने का प्रयास करेंगे कि हमने ऐसा क्यों लिखा था। चूंकि आजका लेख अजमेर बम धमाकों के बाद होने वाले ताज़ा रहस्योदघाटनों के सिलसिले की एक कड़ी है इसलिए इस विषय को वहीं तक सीमित रखना चाहते हैं।
इसे किसी प्रकार भी प्रसन्नता अथवा संतोष की बात नहीं ठहराया जा सकता कि मालेगांव बम धमाकों की जांच के बाद से जो तथ्य सामने आ रहे हैं उनमें लगभग सभी नाम हिंदू साम्प्रदाय से संबंध रखने वालों के हैं। यहां कुछ क्षण रुक कर हमें धर्म से ऊपर उठकर यह विचार करने की आवश्यकता है कि आख़िर वह कौन लोग हैं, किस मानसिकता के लोग हैं, उनका पोषण करने वाले कौन हैं, किसने उन्हें घृणा के इस मार्ग पर चलने के लिए तैयार किया है? आख़िर वह कौनसी मानसिकता है, जो बेगुनाह भारतीयों की जान लेने पर उतारू है? अगर इस सबके पीछे हम कोई ऐसी राजनीतिक मानसिकता देख रहे हैं, जो विध्वंसक राजनीति कर रहा है, भारत को भारतीयों केे रक्त से रक्तरंजित कर देना चाहता है, अपनी राजनीति के लिए दिलों में दीवारें खड़ी कर देना चाहता है तो हमें उन चेहरों को भी पहचानना होगा, उनकी राजनीति को भी पहचानना होगा, उनके भयावह और घातक इरादों को भी समझना होगा, मैंने अपने लेख के आरंभ में लिखा था कि आतंकवाद से हिंदू धर्म को जोड़ना ग़लत है। ऐसी कोई भी बात मन में रखने वाले को इस सच्चाई को भी समझना होगा कि शहीद हेमंत करकरे से लेकर आज जांच करने वालों तक सब के सब हिन्दू हैं। इन सभी घटनाओं की तह तक जाने वाले और मीडिया द्वारा इसे सामने लाने वाले लगभग सब के सब हिन्दू हैं। वे अदालतें जिन्होंने मालेगांव बम ब्लास्ट की रोशनी में सामने आए चेहरों को जेल की सलाखों के पीछे पहुंचाया, वे सब के सब हिन्दू हैं। सरकारी वकील के रूप में जेल की सलाखों तक पहंचाने का मार्ग प्रशस्त करने वाले अधिवकता हिन्दू थे और अगर प्रशासन और सरकार की बात करें तो उनके प्रमुख भी हिन्दू हैं। क्या ये सभी तथ्यों को सामने रखकर अपराधियों को उनके अंजाम तक पहंुचाने के लिए काम नहीं कर रहे थे? अगर हां, तो हमें किसी भी आतंकवादी को धर्म से जोड़कर धर्म को कटघरे में नहीं खड़ा करना चाहिए, बल्कि बहुत खुले शब्दों में कहें तो जिस प्रकार विश्व स्तर पर एक ‘जिहादी’ मानसिकता दिखाई देती रही है, जो भय तथा आतंक के माध्यम से अपनी योजनाओं को अंजाम तक पहुंचाने का इरादा रखती है, इसी प्रकार हमारे देश में ‘संघी’ मानसिकता अपनी योजनाओं को पूरा करने के लिए आतंकवादी मानसिकता रखती है। यह दोनों ही मानसिकतायें मानवता विरोधी हैं। ताजा रहस्योदधटन जो प्रकट करते हैं, उनकी रोशनी में कहा जा सकता है कि हमारा देश संघी मानसिकता के ग़लत प्रशिक्षण का शिकार है। और अफ़सोस का स्थान यह भी है कि एक बड़ा और सशक्त राजनीतिक दल हर क्षण उसके संरक्षण के लिए मौजूद रहता है, जो उनके गुनाहों पर परदा डालने, उन्हें बेगुनाह सिद्ध करने, सरकार, प्रशासन तथा न्यायपालिका पर दबाव बनाने में लगा रहता है। ऐसा करते समय वह कभी यह नहीं सोचते कि इसका परिणाम कितना भयानक होगा। वह अपने प्रभाव, पहुंच तथा शक्ति के आधार पर अगर अपराधियों को बचाने तथा बेगुनाहों को आरोपित ठहराने में सफलता प्राप्त कर भी लेंगे तो क्या इससे देश आतंकवाद की महामारी से पाक हो पाएगा? भारत विकास कर पाएगा? शांति तथा एकता का माहौल बन पाएगा? अगर नहीं तो उनका यह प्रयास देश तथा समाज के लिए कितना ख़तरनाक है, इसका अंदाज़ा करना होगा। अगर राजनीतिज्ञ अपनी राजनीतिक रणनीति के मद्देनज़र इस दिशा में सोचने का इरादा नहीं रखते तो अब वह समय आ गया है कि हिंदू और मुसलमान सहित भारतीय जनता इस वास्तविकता को समझे। पिछले कुछ वर्षों में पैदा हुई घृणा को दिल से निकाले और देश को आतंकवाद की महामारी से छुटकारा दिलाए ह्न ह्न
अफ़सोस कि जिस समय यह लेख लिख रहा हूं, कानपुर में हुए धमाके का समाचार लगभग सभी न्यूज़ चैनलों पर दिखाया जा रहा है। इस दौरान कानपुर के हमारे प्रतिनिधि ने डीआईजी प्रेम प्रकाश से बात की। डीआईजी प्रेम प्रकाश ने बताया कि आरंभिक जांच में मल्बे से बारूद की गंध मिली तथा जगह जगह सुतली के गुच्छे मिले, जिससे ऐसा अनुमान होता है कि बम बनाया जा रहा था। उन्होंने इस बात को स्वीकार किया कि जिस तरह से यह धमाका हुआ है उससे लगता है कि यह विस्फोट शक्तिशाली था। बहरहाल पूर्ण वास्तविकता क्या है यह तो जांच के बाद ही सामने आएगा, लेकिन इस समय मेरे सामने 25, 26, 27 अगस्त 2008 के समाचारपत्र भी हैं, जिनमें 23 अगस्त 2008 को कानपुर में होने वाले बम धमाकों का वह समाचार भी है। जिनमें दो लोग बम बनाते हुए मारे गए थे। मरने वालों में बजरंग दल का पूर्व नगर संयोजक भी शामिल था और इस अवसर पर मीडिया से बातचीत करते हुए कानपुर के आईजी एसएनसिंह ने कहा था कि टाइमर डिवाइस से यह बात पक्की है कि शहर में सीरियल धमाका करके तबाही मचाने का षड़यंत्र था लेकिन बम बनाते समय धमाका हो गया। मरने वालों के किसी आतंवादी संगठन के साथ संबंधों की जानकारी नहीं है, उनकी कोई आपराधिक पृष्ठभूमि भी नहीं मिली है। घटना स्थल से राजीव मिश्रा तथा भूपेंद्र सिंह के मोबाइल फ़ोन मिले हैं, उनकी जांच की जा रही है। स्थानीय ख़ुफ़िया एजेंसियों द्वारा जांच करके उनके गिरोह से जुड़े लोगों तक पहुंचने का प्रयास किया जाएगा। ख़ुफ़िया एजेंसियों के साथ एटीएस की टीम भी जांच में शामिल है। समाचार के अनुसार आईजी एसएन सिंह ने जिस घटना को ख़ुफ़िया एजेंसियों की बड़ी चूक माना, प्रश्न यह पैदा होता है कि 2 वर्ष पहले हुई इस घटना, जिसे कानपुर के आईजी ने ख़ुफ़िया एजेंसियों की चूक माना और जांच जारी रखने की बात कही, क्या बाद में उनके गिरोह(नेटवर्क) तक पहुंचने में सफलता प्राप्त हुई। वह बम किनके लिए बना रहे थे, किसके इशारे पर बना रहे थे, उनका प्रयोग कहां होना था, बाद की जांच में क्या यह सच्चाई सामने आई? या पुलिस ने कुछ कारणों के आधार पर वह फाइल बंद कर दी। इस दिशा में सच्चाई का पता लगाने का प्रयास ही नहीं किया या सच्चाई को सामने लाना उनके लिए संभव नहीं हो सका। आज की दुर्घटना के बाद यह प्रश्न ज़रूर उठेंग, इसलिए कि पिछले बम धमाकों के बाद विभिन्न समाचारपत्रों ने जो समाचार प्रकाशित किए थे, उनमें देसी ग्रिनेड, टाइमर, स्पिलिंटर्स और बारूद का ढेर बरामद होने की भी पुष्टि हुई थी। एटीएस टीम ने घटना स्थल पर भूपेंद्र के घर से महत्वपूर्ण दस्तावेज़ ज़्ाब्त किए थे। वह दस्तावेज़ क्या थे? बम बनाने वालों के इरादे कितनी तबाही फैलाने वाले थे? क्या बाद में उसका ख़ुलासा पुलिस द्वारा मीडिया के सामने पेश किया गया? इस घटना का समाचार लिखने वाले अनुप बाजपाई के अनुसार धमाका भयानक तो था ही, परंतु उससे अधिक चैंकाने वाला था घटना स्थल का दृश्य। सेना जैसे दिखने वाले 11 ग्रेनेड तथा बारहवां ग्रेनेड टाइमर डिवाइस से जुड़ा हुआ था। साथ ही हर वह सामग्री जिससे बेगुनाहों का जीवन छीन लिया जाता है, मौजूद था। मरने वालों में दोनों के हिंदू संगठनों से संबंध थे, शायद यही कारण है कि प्रशासन को भारतीय जनता पार्टी के विधायक की उपस्थिति के बावजूद विश्व हिंदू परिषद के नेता अवध बिहारी को घटना स्थल पर बुलाना पड़ा। दुर्घटना के चार दिन बाद अर्थात 27 अगस्त 2008 को प्रकाशित समाचार के अनुसार बजरंग दल नेता के घर के निकट कानपुर में और विस्फोटक सामग्री बरामद। घटना स्थल से फ़िरोज़ाबाद का नक़्शा मिला। नक़्शे में रेलवे स्टेशन तथा तहसील पर चिन्ह लगे थे, जिसे देख कर पुलिस के होश उड़ गए, परंतु बाद में क्या हुआ। महाराष्ट्र के नगर नानदेढ़ में हुए बम धमाके भी बजरंग दल कार्यकर्ताओं की ऐसी ही आतंकी कार्रवाई के परिणाम थे, जहां से नक़ली दाढ़ी, टोपी और मस्जिद के नक़्शे बरामद हुए थे।
काश कि हमारी ख़ुफ़िया एजेंसियां तथा अन्य ज़िम्मेदार दुर्घटना के तुरंत बाद जितनी चुस्ती फुर्ती दिखाते हैं, बाद में भी उसे क़ायम रखें, अपराधियों के अपराध की तह तक पहुंचें, उनसे जुड़े अन्य व्यक्तियों का पता लगाएं और उनमें जो भी सज़ा के पात्र हैं, उन्हें जेल की सलाख़ों के पीछे भेजने से चूक न करें तो इस प्रकार की घटनाओं पर रोक लग सकती है, वरना एक कानपुर क्या देश के न जाने कितने शहर ऐसी तबाही के निशाने पर नज़र आ सकते हैं, जिनसे छुटकारा पाने के प्रयास के रूप में आजके इस लेख का आरंभ किया गया था मगर अफ़सोस कि समापन तक पहुंचते-पहुंचते फिर ऐसी ही एक घटना से गुज़रना पड़ा।

Wednesday, October 27, 2010

دہشت گرد کون اور گرفتاریاں کن کی، اب تو سوچو…!

عزیز برنی

روزنامہ راشٹریہ سہارا محض ایک اخبار نہیں، بلکہ اس دور کی تاریخ قلم بند کرنے جارہا ہی۔ ہم نے تو یہ اسی وقت طے کرلیا تھا، جب اس مشن کی شروعات کی تھی، لیکن خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ آج ہمارے قارئین بھی اس حقیقت کو محسوس کرنے لگے ہیں اور ان کی دعائیں ہر پل ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ ہم جانتے اور مانتے ہیں کہ یہ انہی کی دعاؤں اورحوصلہ افزائی کی طاقت ہے کہ ہم مسلسل اس سمت میں آگے بڑھتے جارہے ہیں اور پوشیدہ حقائق منظرعام پر آتے چلے جارہے ہیں۔ ساتھ ہی ایک اہم بات جو اس وقت کہی جاسکتی ہے کہ وہ یہ مکمل طور پر نہ سہی، مگر ایک حد تک ہم اس مایوس کن دور سے باہر نکل آئے ہیں، جب حکومتوں سے یہ امید ہی نہیں کی جاسکتی تھی کہ ان کی تفتیش کا رُخ مسلمانوں سے ہٹ کر کسی اور سمت میں بھی آگے بڑھ سکتا ہی۔ اگر ابتدا میں ہی یہ قدم اٹھالئے جاتے تو ملک کو جن دہشت گردانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑا، شاید ان سے بچ جاتی۔ بہرحال آج کی اس مختصر تحریر میں میں اپنے قارئین اور حکومت ہند کے سامنے چند لفظوں میں وہ حادثات سامنے رکھنا چاہتا ہوں، جن سے بارہا ہمارے ملک کو گزرنا پڑا۔ ابھی ذکر صرف ان کا، جن کی جانچ کے نتائج منظرعام پر آگئے ہیں یا آتے جارہے ہیں۔ ہوسکتا ہے باقی حادثات کی بھی نئے سرے سے چھان بین ہو تو ایسا ہی کچھ سامنے آئی۔ یہ چند مثالیں اس لئے کہ ہماری حکومت اور خفیہ ایجنسیاں اندازہ کرسکیں کہ ہم نے ان بم دھماکوں کے بعد کن لوگوں کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا اور جب سچ سامنے آیا تو کن کے چہرے سامنے آئی۔
مالیگاؤں دھماکی-
(ستمبر006)
37ہلاک
ابتدا میں جوافراد گرفتار ہوئے وہ سلمان فارسی، فارق عبداللہ مخدومی، رئیس احمد، نورالہدیٰ شمس الہدیٰ، شبیر بیڑی والا۔
بعدکی تفتیش:008کے مالیگاؤں بم دھماکوں میں ہندودہشت گردوں کے منظرعام پرآنے کے بعد دیگر معاملات میں بھی شک کی سوئی ہندو دہشت گردوں پرہی گئی۔
سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ
18فروری007
68ہلاک زیادہ ترپاکستانی شہری
ابتدائی تفتیش میں لشکر اور جیش محمد پرالزام لگایا گیا اور اس سلسلے میں پاکستانی شہری عظمت علی کو گرفتار کیا گیا۔
بعد کی تفتیش میں سامنے آیا کہ ان واقعات کے پس پشت ہندودہشت گرد ہوسکتے ہیں۔ ان دھماکوں میں جو طریقہ کار استعمال کیا گیا ہے وہ مکہ مسجد کے دھماکوں سے ملتا ہواہی۔ اس معاملہ میں پولیس کو آرایس ایس کے پرچارک سندیپ ڈانگے اور رام جی کے نام سامنے آئی۔
مکہ مسجددھماکہ
18مئی007
14افراد کی موت
ابتدامیں مقامی پولیس نی0مسلم نوجوانوں کو پکڑا تھا اور ان سے پوچھ گچھ کی گئی، جن میں سی5افراد کو گرفتار کرلیا گیا، کوئی ثبوت نہ ملنے پر ان میں سے ابراہیم جنید، شعیب جاگیردار، عمران خان اور محمد عبدالحکیم وغیرہ کوباعزت بری کردیا گیا۔
بعدکی تفتیش کے بعد جو نتیجہ سامنے ہی، وہ اس طرح ہی: 2010میں سی بی آئی نے اعلان کیا کہ وہ اس معاملہ میں دوملزموں کے بارے میں صحیح اطلاع دینے والوں کو0لاکھ روپے کاانعام دے گی، پھر اس معاملہ میں سندیپ ڈانگی، رام چندر کالسنگہ اور لوکیش شرما کوگرفتار کیا گیا۔
اجمیرشریف دھماکہ
11اکتوبر007
3ہلاک
جیسا کہ اکثر بم دھماکوں کے بعد ہوتا رہا ہی، ابتدا میں ہوجی، لشکر پردھماکوں کا الزام لگایاگیا، اورجن لوگوں کو گرفتار کیا گیا، وہ بھی مسلمان ہی تھی۔ ان میں عبدالحفیظ، شمیم خشی الرحمن، عمران علی شامل تھی۔
806صفحات پرمشتمل چارج شیٹ میں جوراجستھان اے ٹی ایس نے ایڈیشنل چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت میں داخل کی ہی۔ اس میں پانچ ملزموں کے نام لکھے گئے ہیں۔ ابھینوبھارت کے دویندرگپتا، لوکیش شرما اور چندر شیکھر ہیں یہ پولیس کی حراست میں ہیں، جبکہ سندیپ ڈانگے اوررام جی کلسانگرے فرار بتائے جاتے ہیں۔
تھانے بم دھماکہ
4جون008
ہندوجن جاگرتی سمیتی اور سناتن سنستھا اس دھماکے کے پس پشت بتائے جاتے ہیں اور رمیش ہنومنت گڈکری اور منگیش دنکر نکم گرفتار کیے گئے تھی۔ ان دھماکوں کا مقصدفلم ’جودھااکبر‘ کی نمائش کے خلاف احتجاج کرناتھا۔
کان پور اور ناندیڑ بم دھماکی
اگست008
کانپورمیں بجرنگ دل کے دوممبران راجیومشرا بھوپندر سنگھ بم بناتے وقت دھماکہ ہونے سے مارے گئے تھی۔
اپریل 2006میں این راجکونڈوار اور ایچ پانسی، ناندیڑ میں بم بناتے وقت مارے گئے تھی، وہ دونوں بجرنگ دل کے ہی تھی۔
مالیگاؤں 2-
29ستمبر008
7ہلاک
ابتدا میں کہا گیا تھا کہ اس دھماکے میں انڈین مجاہدین شامل ہی۔ مگربعد میں ابھینوبھارت اور راشٹریہ جاگرن منچ کے ملوث ہونے کی بات سامنے آئی اس میں پرگیہ سنگھ ٹھاکر، کرنل پروہت اور سوامی امرتانند دیوتیرتھ(دیانند پانڈی) گرفتارہوئی۔
یہی وہ بم دھماکے تھی، جن کی تفتیش شہید ہیمنت کرکرے کررہے تھے اور جس سے دہشت گردی کا وہ چہرہ سامنے آیا، جس کے بارے میں پہلے سوچا ہی نہیں جاتا تھا، لیکن جیسے جیسے جانچ آگے بڑھتی گئی، پرتیں کھلتی گئیں۔ اگر6/11کے دہشت گردانہ حملہ میں ہیمنت کرکرے شہید نہ ہوئے ہوتے تو شاید آج دہشت گردی کا یہ مکمل نیٹ ورک ہمارے سامنے ہوتا، تاہم ان کے جانے کے بعد بھی یہ سلسلہ رکا نہیں ہی۔ اجمیر بم دھماکہ کی تفتیش کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
گوادھماکی
16اکتوبر009
اس دھماکے میں جودوافراد ہلاک ہوئے ،وہ سناتن سنستھا کے ورکر تھی، مرنے والے مالگونڈا پاٹل اور یوگیش ناٹک اس وقت مارے گئے تھے جب وہ دھماکہ خیز مادّہ لے کر اسکوٹر سے جارہے تھے اور اس میں اچانک دھماکہ ہوگیا۔
جس وقت ناندیڑ، کانپور اور گوا میں بم بناتے یا لے جاتے ہوئے یہ لوگ ہلاک ہوئی، اگر اسی وقت ہماری خفیہ ایجنسیوں اور اے ٹی ایس نے مستعدی سے کام لیا ہوتا تو مکمل نیٹ ورک کا پردہ فاش ہوسکتا تھا یا کم ازکم کس ذہنیت کے لوگوں کا کارنامہ تھا اور کس سطح کے لوگ ان سازشوں میں ملوث ہیں، یہ سامنے آسکتا تھا۔ موضوع تفصیل طلب ہی، آج کے مضمون میں بھی اسے مکمل کیا جانا ممکن نہیں ہی، لہٰذا یہ سلسلہ ابھی اور کچھ وقت تک جاری رہ سکتا ہی، تاہم میں آج کے مضمون کو مکمل کرنے سے قبل درگاہ اجمیر شریف میں ہوئے بم دھماکہ کے فوراً بعد لکھا ایک مختصر اداریہ ایک بار پھر اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے جارہا ہوں۔ میں اس بات کے لئے حکومت ہند کا شکرگزار بھی ہوں کہ جن باتوں کی طرف میں نے اپنے اس مضمون میں (2-10-2007، صفحہ نمبرـ) اشارہ کیا تھا، اس پر توجہ دی گئی اور آج نتیجہ ہمارے سامنے ہی۔ بعد صرف چند لوگوں کے پکڑے جانے یا ایک ڈائری میں چند نام لکھے ہونے کی نہیں ہی، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ دہشت گردی کا یہ سلسلہ رک کیوں نہیں رہا تھا؟ شاید اس لئے کہ ہم نے اس سمت میں کبھی سوچا ہی نہیں تھا، جس سمت میں آج نہ صرف سوچا جارہا ہی، بلکہ عمل درآمد کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہی۔ بیشک 26نومبر008کو ہوا دہشت گردانہ حملہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک تھا، لیکن اس کے بعد سے اگر چھوٹے چھوٹے معاملات کا تذکرہ نہ کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ تقریباً گزشتہ دو برس میں ملک کسی بڑے دہشت گردانہ حملہ کا شکار نہیں ہوا۔ کیا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب دہشت گردی میں ملوث وہ چہرے سامنے آنے لگے ہیں، جن کی طرف ہم تو مسلسل اشارہ کرتے رہی، مگر کسی نے ان اشاروں کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ بہرحال ملاحظہ فرمائیں میری وہ تحریر جو اجمیربم دھماکہ کے فوراً بعد لکھی گئی اور غور کریں آج کے بدلے ہوئے منظرنامہ پر، شاید کہ محسوس ہونے لگے کہ ہم مایوس کن دور سے باہر آتے جارہے ہیں۔
اجمیر بم دھماکہ
9/11پر بات آج نہیں، آج ذکر اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتیؒ کی درگاہ پر ہوئے بم دھماکہ کا، جس میں 3افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئی۔ یہ اتنی بڑی خبر ہے کہ اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اپنے قارئین کو یہ بھی باور کرادینا چاہتے ہیں کہ آج ہی کے اخبارات میں گجرات اور ہماچل میں الیکشن کی تاریخوں کا اعلان کیا گیا ہی۔ راجستھان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکار ہے اور گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے خونی کھیل کا نتیجہ سابقہ الیکشن میں دیکھ چکی ہی۔ گجرات کے سیاسی بحران سے نکلنے کے لیے اسے ضرورت ہے کیشوبھائی پٹیل کے استعفیٰ سے توجہ ہٹانے کی اور اس کے لیے آسان طریقہ یہی ہوسکتا ہے کہ جو جگہیں ہندوؤں اور مسلمانوں کی ایکتا کے پرتیک کی شکل میں دیکھی جاتی ہوں، جہاں ہندو اور مسلمان دونوں یکساں عقیدت کے ساتھ جاتے ہوں، وہاں عین روزہ افطار کے وقت بم بلاسٹ کا ہونا اور اس کی شدت جس میں 3ہلاک اور متعدد افراد کے شدید زخمی ہونے کی اطلاع تادم تحریر مل چکی ہے اور واقعہ کی نزاکت کو سمجھے بغیر اس حادثہ کو مختلف زاویوں سے پیش کرنے کی کوشش بھی شروع ہوگئی ہی۔ یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ افطار کے وقت کا اعلان کرنے کے لیے جو گولہ چھوڑا جاتا ہی، یہ اس کا اثر بھی ہوسکتا ہی۔ پھر میڈیا کے ذرائع سے اس کی تردید کرتے ہوئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس اعلان کے لیے کئے جانے والے گولہ سے ایسا نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ ایک انتہا پسندانہ کارروائی بھی ہوسکتی ہی۔ گزشتہ دنوں حیدرآباد کی مکہ مسجد، گوکل چاٹ بھنڈار اور لمبنی پارک میں ہوئے دھماکوں کی طرح یہ بھی دہشت گردوں کا عمل ہوسکتا ہی۔ تازہ ترین موصولہ اطلاعات کے مطابق ریاستی وزیرداخلہ گلاب چندکٹاریا کو اس طرح کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی کہ درگاہ خواجہ معین الدین چشتیؒ پر کسی وقت بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہی۔ مرکزی وزیرداخلہ شیوراج پاٹل کے ذریعہ یہ اطلاع ملنے کے بعد ریاستی سرکار کو بیدار ہوجانا چاہیے تھا اور درگاہ کی حفاظت کے معقول انتظامات کیے جانے چاہیے تھی۔ علاوہ ازیں درگاہ کمیٹی نے بھی ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ رمضان میں درگاہ میں سیکورٹی کے معقول انتظامات کئے جائیں۔ ہم بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت سے تو ایسی امید نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کا داغدار ماضی ہمارے سامنے ہی، جب کلیان سنگھ کی وعدہ خلافی نے اترپردیش میں بابری مسجد کی شہادت کے حالات پیدا کردئیے تھی۔ ہم اس نازک موقع پر مرکزی حکومت کے وزیرداخلہ اور بالخصوص کانگریس صدر سونیا گاندھی صاحبہ کے مشیر جناب احمدپٹیل صاحب سے یہ درخواست کریں گے کہ وہ واقعہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس کی تفتیش کرائیں اور اگر ممکن ہوسکے تو جائے واردات پر خود پہنچ کر ان حالات کا جائزہ لیں، اس لیے کہ مرکزی حکومت میں بیشک وہ وزیر نہ ہوں، مگر مسلمان آج بھی امید بھری نگاہوں سے انہیں کی طرف دیکھتا ہی۔ اگر کانگریس سے کوئی شکوہ ہوتا ہے تو شکایت بھی انہیں سے کرتا ہے اور اگر کوئی امید ہوتی ہے تو دستک بھی انہیں کے دروازہ پر دیتا ہی۔
…………

दहशतगर्द कौन और गिरफ्तारियां किन की, अब तो सोचो......!
अज़ीज़ बर्नी

रोज़नामा राष्ट्रीय सहारा केवल एक समाचारपत्र नहीं, बल्कि इस युग का इतिहास लिखने जा रहा है। हमने तो यह उसी समय तय कर लिया था, जब इस मिशन का आरंभ किया था, लेकिन प्रसन्नता तथा संतोष की बात यह है कि आज हमारे पाठक भी इस सच्चाई को महसूस करने लगे है और उनकी दुआयें हर क्षण हमारे साथ रहती हैं, हम जानते और मानते हैं कि यह उन्ही की दुआओं, प्रोत्साहन की ताकत है कि हम लगातार इस दिशा में आगे बढ़ते जा रहे हैं और निस्तर तथ्य सामने आते चले जा रहे हैं। साथ ही एक महत्वपूर्ण बात यह भी कही जा सकती है कि पूर्ण रूप से न सही, परन्तु एक हद तक तो हम उस निराशाजनक दौर से निकल आयें हैं, जब सरकारों से यह आशा ही नहीं की जा सकती थी कि उनकी जांच का रूख मुसलमानों से हटकर किसी और दिशा में भी आगे बढ़ सकता है। अगर आरंभ में ही यह कदम उठा लिये जाते तो देश को जिन आतंकवादी हमलों का सामना करना पड़ा, शायद उनसे बच जाते। बहरहाल आज के इस संक्षिप्त लेख में मैं अपने पाठकों तथा भारत सरकार के सामने थोड़े शब्दों में वे घटनायें सामने रखना चाहता हूं , जिन से बार-बार हमारे देश को जूझना पड़ा। अभी चर्चा केवल उनकी जिनकी जांच का निष्कर्ष सामने आ गया है या आता जा रहा है। हो सकता है शेष घटनाओं की भी नये सिरे से छान बीन हो तो ऐसा ही कुछ सामने आये। यह कुछ मिसाले इसलिए कि हमारी सरकारी और खुफिया एजेंसियां अंदाजा कर सकें कि हमने उन बम धमाकों के बाद किन लोगों को संदेह के आधार पर गिरफ्तार किया गया था और जब सच सामने आया तो किनके चेहरे सामने आये।
मालेगांव धमाके õ1
(8 सितम्बर 2006)
37 हताहत
आरम्भ में जो व्यक्ति गिरफ़्तार हुए, वे सल्मान फ़ारसी, फ़ारुक़ अब्दुल्ला मख़दूमी, रईस अहमद, नूरुलहुदा, शम्सुलहुदा, शब्बीर बीड़ी वाले।
बाद की जांचः 2008 के मालेगांव बम धमाकों में हिन्दू आतंकवादियों के सामने आने के बाद अन्य मामलों में भी शक की सूई भी हिन्दू आतंकवादियों पर ही गई।
समझौता एक्सप्रेस बम धमाका
18 फ़रवरी 2007
68 हताहत, अधिकतर पाकिस्तानी नागरिक
आरम्भिक जांच में लश्कर तथा जैश -ए -मुहम्मद पर आरोप लगाया गया और इस सिलसिले में पाकिस्तानी नागरिक अज़मत अली को गिरफ़्तार किया गया।
बाद की जांच में सामने आया कि इन घटनाओं के पीछे हिन्दू आतंकवादी हो सकते हैं। इन धमाकों में जो पद्धति प्रयोग की गई है वह मक्का मस्जिद के धमाकों से मिलती हुई है। इस मामले में पुलिस को आर.एस.एस के प्रचारक संदीप डांगे तथा रामजी के नाम सामने आये।
मक्का मस्जिद धमाका
18 मई 2007
14 व्यक्तियों की मृत्यु
आरम्भ में स्थानीय पुलिस ने 80 मुस्लिम युवकों को गिरफ़्तार किया और उनसे पूछताछ की गई, जिनमें से 25 व्यक्तियों को गिरफ़्तार कर लिया गया, कोई सबूत न मिलने पर इनमें से इब्राहीम जुनैद, शुऐब जागीरदार, इमरान खान तथा मौहम्मद अब्दुल हकीम इत्यादि को सम्मानपूर्वक बरी कर दिया गया।
बाद की जांच के बाद जो परिणाम सामने आया वह इस प्रकार है। 2010 में सीबीआई ने घोषणा की कि वह इस मामले में 2 अभियुक्तों के बारे में सही सूचना देने वालों को 10 लाख रु0 का इनाम देगी। फिर इस मामले में संदीप डांगे, राम चन्द्र कालसिंगा तथा लोकेश शर्मा को गिरफ़्तार किया गया।
अजमेर शरीफ़ धमाका
11 अक्तूबर 2007
3 हताहत
जैसा कि अधिकांश बम धमाकों के बाद होता रहा है। आरम्भ में हूजी, लश्कर पर धमाकों का आरोप लगाया गया तथा जिन लोगों को गिरफ़्तार किया गया वह भी मुसलमान ही थे, उनमें अब्दुल हफ़ीज़, शमीम, खशीउर्रहमान, इमरान अली शामिल थे।
806 पृष्ठों पर आधारित आरोप पत्र में जो राजस्थान एटीएस ने एडीश्नल चीफ़ जूडिशियल मजिस्ट्रेट की अदालत में दाखिल की है इसमें 5 अभियुक्तों के नाम डाले गए हैं। अभिनव भारत के देवेन्द्र गुप्ता, लोकेश शर्मा और चन्द्रशेखर हैं। यह पुलिस की हिरासत में हैं, जबकि संदीप डांगे तथा रामजी कालासांगा फ़रार बताये जाते हैं।
थाणे बम धमाका
4 जून 2008
हिन्दू जन जागृति समिति तथा सनातन संस्था इस धमाके के पीछे बताई जाती हैं और रमेश हनुमंत गडकरी और मंगेश दिनकर निकम गिरफ़्तार किये गए थे। इन धमाकों का उद्देश्य फ़िल्म ‘जोधा अकबर’ के प्रदर्शन के विरुद्ध विरोध जताना था।
कानपुर तथा नांदेड़ बम धमाके
अगस्त 2008
कानपुर में बजरंग दल के 2 सदस्यों राजीव मिश्रा, भूपेन्द्र सिंह बम बनाते समय धमाका होने से मारे गए थे। अप्रैल 2006 में एन राजकोंडवार और एच पानसे नांदेड़ में बम बनाते समय मारे गए थे, वे दोनों भी बजरंग दल के थे।
मालेगांव-2
29 सितम्बर 2008
7 हताहत
आरम्भ में कहा गया था कि इस धमाके में इंडियन मुजाहिदीन शामिल है परन्तु बाद में अभिनव भारत तथा राष्ट्रीय जागरण मंच के लिप्त होने की बात सामने आई। उसमें प्रज्ञा सिंह ठाकुर, कर्नल पुरोहित और स्वामी अम्बिकानंद देवतीर्थ (दयानंद पाण्डे) गिरफ़्तार हुए। यही वह बम धमाके थे जिनकी जांच शहीद हेमंत करकरे कर रहे थे और जिससे आतंकवादियों का वह चेहरा सामने आया जिसके बारे में पहले सोचा ही नहीं जाता था। लेकिन जैसे जैसे जांच आगे बढ़ती गई परतें खुलती र्गइं। अगर 26/11 के आतंकवादी हमले में हेमन्त करकरे शहीद न होते तो शायद आज आतंकवाद का यह सम्पूर्ण नेटवर्क हमारे सामने होता। फिर भी उनके जाने के बाद भी यह सिलसिला रूका नहीं है। अजमेर बम धमाके की जांच के परिणाम हमारे सामने है।
गोवा धमाका
16 अक्तूबर 2009
इस धमाके में जो 2 व्यक्ति मारे गए, वे सनातन संस्था के कार्यकर्ता थे, मरने वाले मालगोंडा पाटिल तथा योगेश नायक उस समय मारे गए थे जब वह विस्फ़ोटक पदार्थ लेकर स्कूटर से जा रहे थे और उसमें अचानक धमाका हो गया।
जिस समय नांदेड़, कानपुर तथा गोवा में बम बनाते या ले जाते हुए यह लोग हताहत हुए, अगर उसी समय हमारी खुफिया एजेंसियों तथा एटीएस ने मुसतैदी से काम लिया होता तो सम्पूर्ण नेटवर्क का पर्दाफाश हो सकता था या कम से कम किस मानसिकता के लोगों का कारनामा था और किस स्तर के लोग इन षड्यंत्रों में लिप्त हैं, यह सामने आ सकता था। विषय विस्तृत है, आज के लेख में भी इसे पूरा किया जाना संभव नहीं है, इसलिए यह सिलसिला अभी और कुछ समय तक जारी रह सकता है, फिर भी मैं आज के लेख को समाप्त करने से पूर्व दरगाह अजमेर शरीफ में हुए बम धमाके के तुरंत बाद लिखा एक संक्षिप्त सम्पादकीय एक बार फिर अपने पाठकों की सेवा में प्रस्तुत करने जा रहा हूं। मैं इस बात के लिए भारत सरकार का अभारी भी हूं कि जिन बातों की ओर मैं ने अपने इस लेख (12.10.2007, पृष्ठ-1)में इशारा किया था, उस पर ध्यान दिया गया और आज परिणाम हमारे सामने है। बात केवल कुछ लोगों के पकड़े जाने या एक डायरी में कुछ नाम लिखे होने की नहीं है, बल्कि असल बात यह है कि आतंकवाद का यह सिलसिला थम क्यों नहीं रहा था? शायद इसलिए कि हमने इस दिशा मंे कभी सोचा ही नहीं था, जिस दिशा में आज न केवल सोचा जा रहा है, बल्कि कार्यन्वयन करने का प्रयास भी किया जा रहा है। निसंदेह 26 नवम्बर 2008 को हुआ आतंकवादी हमला अत्यंत विडम्बनापूर्ण तथा शर्मनाक था, लेकिन उसके बाद से अगर छोटे छोटे मामलों की चर्चा न कि जाये तो कहा जा सकता है कि लगभग पिछले दो वर्षों में देश किसी बड़े आतंकवादी हमले का शिकार नहीं हुआ। क्या इसका एक कारण यह भी है कि अब आतंकवाद में लिप्त वह चेहरे सामने आने लगे हैं जिनकी ओर हम तो लगातार इशारा करते रहे, परन्तु किसी ने इन संकेतों को समझने का प्रयास ही नहीं किया। बहरहाल मुलाहेज़ा फरमायें मेरा वह लेख जो अजमेर बम धमाका के तुरंत बाद लिखा गया और विचार करें आज के बदलते हुए परिदृश्य पर, शायद कि महसूस होने लगे कि हम निराशाजनक दौर से बाहर आते जा रहे हैं।
अजमेर बम धमाका
9/11 पर आज बात नहीं, आज चर्चा अजमेर में ख्वाजा मोईनूद्दीन चिश्ती की दरगाह में हुए बम धमाके की, जिसमें 3 व्यक्ति हताहत और कई घायल हुए। यह इतना बड़ा समाचार है कि इसे नज़रअंदाज़ नहीं किया जा सकता। हम अपने पाठकों को यह भी याद दिला देना चाहते हैं कि आज ही के समाचारपत्रों में गुजरात तथा हिमाचल में चुनावों की तारीखों की घोषणा की गई है। राजस्थान में भारतीय जनता पार्टी की सरकार है और गुजरात में भारतीय जनता पार्टी अपने खूनी खेल का परिणाम पिछले चुनाव में देख चुकी है। गुजरात के राजनीतिक संकट से निकलने के लिए उसे आवश्यकता है केशु भाई पटेल के त्यागपत्र से ध्यान हटाने की और इसके लिए आसान तरीका यही हो सकता है कि जो स्थान हिन्दु तथा मुसलमान दोनों की एकता के प्रतीक के रूप में देखे जाते हों, जहां हिन्दु तथा मुसलमान दोनों समान आस्था के साथ जाते हों। वहां ठीक रोज़ा अफतार के समय बम ब्लास्ट का होना और उसकी तीव्रता जिसमें तीन हताहत तथा कई व्यक्तियों के गंभीर रूप से घायल होने की सूचना अभी तक (लेख लिखे जाने तक) प्राप्त हो चुकी है और घटना की गंभीरता को समझे बिना इस घटना को विभिन्न दृष्टिकोणों से पेश करने का प्रयास भी शुरू हो गया है। यह भी कहा जाने लगा है कि अफ़्तार के समय की घोषणा के लिए जो गोला छोड़ा जाता है, यह उसका प्रभाव भी हो सकता है। फिर मीडिया द्वारा इसका खंडन करते हुए यह भी कहा जाता है कि इस घोषणा के लिए किये जाने वाले गोला से ऐसा नहीं हो सकता, बल्कि यह एक अतिवादी कार्रवाई भी हो सकती है। पिछले दिनों हैदराबाद की मक्का मस्जिद, गोकुल चाट भंडार तथा लुम्बिनी पार्क में हुए धमाकों की तरह यह भी आतंकवादियों का काम हो सकता है। ताज़ा तरीन सूचना के अनुसार राज्य के गृह मंत्री गुलाब चन्द कटारिया को पूर्व सूचना दे दी गई थी कि दरगाह ख्वाजा मोईनूद्दिन चिश्ती पर किसी समय भी अप्रिय घटना घट सकती है। केंद्रीय गृह मंत्री शिवराज पाटिल द्वारा यह सूचना मिलने के बाद राज्य सरकार को सजग हो जाना चाहिए था और दरगाह की सुरक्षा की उचित व्यवस्था की जानी चाहिए थी। इसके अलावा दरगाह कमेटी ने भी राज्य सरकार से मांग की थी कि रमज़ान में दरगाह में सुरक्षा की समुचित व्यवस्था की जाये। हम भारतीय जनता पार्टी की सरकार से तो ऐसी आशा नहीं कर सकते क्योंकि उनका दागदार अतीत हमारे सामने है, जब कल्याण सिंह की वादा खिलाफी ने उत्तर प्रदेश में बाबरी मस्जिद की शहादत के हालात पैदा कर दिये थे। हम इस नाजुक मौके पर केंद्र सरकार के गृह मंत्री तथा विशेष रूप से कांग्रेस अध्यक्षा सोनिया गांधी साहेबा के सलाहकार अहमद पटेल साहब से यह निवेदन करेंगे कि वह घटना की संवदेनशीलता को समझते हुए इसकी जांच करायें और अगर संभव हो सके तो घटनास्थाल पर स्वंय पहुंचकर उन परिस्थिितियों की समीक्षा करें, इसलिए कि केंद्र सरकार में निसंदेह वह मंत्री न हों, परन्तु मुसलमान आज भी आशा भरी निगाहों से उन्हीं की ओर देखता है। अगर कांग्रेस से कोई शिकायत होती है तो शिकायत भी उन्हीं से करता और अगर कोई अपेक्षा होती है तो दस्तक भी उन्हीं के दरवाजे पर देता है।
....................................

Monday, October 25, 2010

!اندریش‘‘ کا نام تو ہیمنت کرکرے اپنی زندگی میں ہی بتاگئے تھی"

عزیز برنی

ہمارے ملک ہندوستان کی عدالت یاپارلیمنٹ نے کب سنگھ پریوار کو اس بات کا مجاز قرار دیا کہ ملک میں کون محب وطن ہے اورکون غدارِوطن، اس کا سرٹیفکیٹ ان سے لینا ہوگا۔ اندریش محب وطن ہیں، آج یہ سرٹیفکیٹ سنگھ پریوار کے متعدد کارکنان بانٹ رہے ہیں۔ ترون وجئی، رام مادھو، نرملا سیتارمن جیسے لوگ بارـبار یہی دوہراتے چلے آرہے ہیں کہ اندریش محب وطن ہیں۔ ان پر یہ الزام غلط لگایا گیا ہی۔ غالباً وہ ہندوستان کی تاریخ اور سنگھ پریوار کا کردار بھول رہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ایسے تمام لوگوں کو پھر سے یاد دلانا ہوگا اور ان کے کردار کی روشنی میں یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ آزادی کے مسیحا مہاتماگاندھی محب وطن تھے یا انہیں قتل کرنے والا سنگھ پریوار کا پروردہ ناتھو رام گوڈسے محب وطن تھا۔ ہم جب بھی ملک سے محبت کرنے والوں کی فہرست بناتے ہیں تو ان میں موہن داس کرم چندگاندھی، سبھاش چندربوس، چندرشیکھر آزاد اور شہید اشفاق اللہ خاں…… جیسے ناموں کا ذکر ہوتا ہی۔ کیا سنگھ پریوار چاہتا ہے کہ اب ناتھو رام گوڈسے اور اندریش جیسے لوگوں کا نام بھی اس لسٹ میں شامل کرلیا جائی۔ ہم جانتے ہیں6نومبر008کو ہندوستان پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کا سچ کیا ہی، سازش رچنے والے کون تھی، سازش کی بنیاد کیا تھی اور اس کو عملی جامہ کس طرح پہنایا گیا، یہ راز کبھی منظرعام پر نہیں آئے گا۔ یکے بعد دیگرے انکشافات ہوتے رہیں گی، ایک کے بعد ایک نام سامنے آتے رہیں گے اور ہم ان ہی ناموں میں الجھے رہیں گے یا اس جدوجہد میں لگے رہیں گے کہ آخر ان کا استعمال کرنے والا کون تھا، پاکستان یا امریکہ، اس سے آگے بڑھ کر کچھ سوچیں گے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آخری نتیجہ تک کبھی نہیں پہنچ پائیں گے اور اگر کسی نتیجہ کو آخری نتیجہ ثابت کرکے سامنے رکھ بھی دیا گیا تو وہ پوری طرح حقائق پر مبنی ہوگا، یہ کم سے کم ہمارے قیاس سے دور کی بات ہے اور یہ قیاس ہمارے تجربوں کی بنیاد پر ہی، کوئی خام خیالی نہیں، اس لئے کہ ہم نے آزاد ہندوستان میں پہلی بار حکمراں جماعت سے لے کر حزب اختلاف اور ان سب کے حامیوں، یعنی کل پارلیمنٹ کے ممبران بشمول لوک سبھا اور راجیہ سبھا کو کسی ایک دہشت گرد کے بیان پر ایک رائے ہوتے ہوئے دیکھا تھا اور اگر کسی نے ذرا بھی اس دہشت گرد کے بیان پر نکتہ چینی کرنے کی کوشش کی تو پارلیمنٹ کے اندر ہی نہیں پارلیمنٹ کے باہر بھی اسے بے پناہ مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دہشت گردانہ حملہ سے قبل جس طرح سادھوی پرگیہ سنگھ کو بچانے کے لئے ایک مہم چلائی جارہی تھی، اسی طرح آج اندریش کو محب وطن ثابت کرنی، بہ الفاظ دیگر بچانے کی مہم چلائی جارہی ہی، تاکہ دباؤ بنایا جاسکے ان سب پر جن کے پاس ایسے ثبوت ہیں، جن سے کہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اندریش کا تعلق اجمیر بم دھماکوں سے ہی۔ بات بہت پرانی نہیں ہی، ابھی دو ہی برس کا عرصہ گزرا ہی۔ لائبریریوں کا رُخ کریں تو درجنوں اخبارات کے تراشے مل جائیں گے اور یہ حقیقت سامنے آجائے گی کہ مالیگاؤس بم بلاسٹ میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، دیانندپانڈی، کرنل پروہت اور کیپٹن اپادھیائے کے نام سامنے آنے پر، جو لوگ چراغ پا ہوگئے تھے آج پھر اسی جماعت کی نمائندگی کرنے والے شور مچا رہے ہیں۔ اس وقت بھی لال کرشن اڈوانی سادھوری پرگیہ سنگھ کی حمایت میں نہ صرف تقاریر کرکے یہ ماحول بنارہے تھے کہ جس سے نہ صرف اس کے خلاف جرم ثابت کرنے والوں کو متاثر کیا جائی، بلکہ انہوں نے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے سادھوی کی حمایت میں ملاقات بھی کی تھی اور جہاں تک آج اجمیربم دھماکوں کے سلسلہ میں راجستھان اے ٹی ایس کے ذریعہ اندریش کا نام لئے جانے کی بات ہے تو یہ وضاحت تو اپنی زندگی میں شہید ہیمنت کرکرے نے اسی وقت کردی تھی، ہم اپنے پرانے مضامین اور روزنامہ راشٹریہ سہارا میں شائع خبروں کے تراشے آج بھی سامنے رکھ سکتے ہیں، جن سے یہ واضح ہوجائے گا کہ اندریش کا نام آج پہلی بار سامنے نہیں آیا ہی۔
’’0اکتوبر008: ادھر بی جے پی ہندو تنظیموں کے نام آنے پر بوکھلاہٹ میں آگئی اور کھلے عام ملزمین کے دفاع میں کھڑی ہوگئی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے میڈیا کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ میڈیا اس پورے معاملہ کو آروشی مرڈر کیس کی طرح پیش کررہا ہی۔ پھر پرگیہ سنگھ کے دفاع میں کہا کہ جو لوگ ثقافتی وقومیت پر یقین رکھتے ہیں، وہ دہشت گردی میں ملوث ہو ہی نہیں سکتی۔ انہوں نے اے ٹی ایس کے نارکوٹیسٹ پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ کسی خطرناک دہشت گرد کو بھی اس طرح ٹارچر نہیں کیا جاتا، لیکن اے ٹی ایس چیف ہیمنٹ کرکرے نے سارے ملزمین پر مکوکا لگادیا، وہ کسی بھی سیاسی دبائو سے پرے رہی۔ اس درمیان ہندو مہاسبھا نے کرنل پروہت اور دوسرے ملزمین کو قانونی مدد دینے کا اعلان کیا۔
15نومبر008: راج ناتھ سنگھ نے اس پورے معاملے کو ایک بڑی سازش قرار دیا۔ انہوںنے کہا کہ میں پوری طرح مطمئن ہوں کہ سادھوی وغیرہ اس سازش میں ملوث نہیں ہیں۔ شری کانت پروہت نے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے کے لئے آرڈی ایکس سپلائی کیا، یہ کہنا تھا اے ٹی ایس کا۔
17نومبر008: مالیگاؤں دھماکے کے تار اجمیرشریف اور مکہ مسجد دھماکے سے جڑے ہیں۔ اے ٹی ایس نے ایک اور جانکاری دی۔
یعنی راجستھان اے ٹی ایس نے آج کوئی نیا انکشاف نہیں کیا ہی، یہ کارنامہ تو اپنی زندگی میں شہید ہیمنت کرکرے ہی کرگئے تھے اور ہم نے اے ٹی ایس کے ذریعہ ملی جانکاری کو اپنے اسی کالم کے تحت ’’مسلمانانِ ہند…ماضی، حال اور مستقبل‘‘ کی 100ویں قسط میں شائع کیا تھا، جسے آج بھی دیکھا جاسکتا ہے اور ہماری پرانی تحریروں سے یہ مکمل طور پر واضح ہوجائے گا کہ جس طرح آج سنگھ پریوار کے لوگ چراغ پا ہیں، اسی طرح 17نومبر008کو اے ٹی ایس کے اس انکشاف کے بعدشور مچا رہے تھی۔ 18نومبر008کو اخبارات میں شائع یہ خبر بآسانی دیکھی جاسکتی ہے کہ راج ناتھ سنگھ اور ایل کے اڈوانی نے اے ٹی ایس پر الزام لگایا کہ اے ٹی ایس اور کانگریس میں سانٹھ گانٹھ ہے اور وہ ان پروفیشنل طریقہ سے جانچ کررہی ہی، یعنی ان کا یہ راگ پرانا ہی۔
[24نومبر008 :پروہت نے سی بی آئی کو بیان دیا، وی ایچ پی لیڈر ابھینو بھارت کے قیام میں پیش پیش تھی۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار نے آئی ایس آئی سے تین کروڑ روپے لئی۔ کل یعنی 25اکتوبر010 کو انگریزی روزنامہ ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں شائع کی گئی خبر سے ماخوذ مندرجہ ذیل چند لائنیں ثابت کرتی ہیں کہ دو برس قبل ہم نے جن حقائق کو سامنے رکھا تھا، شہید ہیمنت کرکرے نے اپنی تفتیش میں جن حقائق کا پتہ لگایا تھا یا آج راجستھان پولیس اور اے ٹی ایس جن سچائیوں کو سامنے لارہی ہی، یہ انہی حقائق کی اگلی کڑی ہی۔ ملاحظہ فرمائیں ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں شائع خبر:
راجستھان اے ٹی ایس کے ذریعہ 2007اجمیر درگاہ بم دھماکہ کیس میں دائر کی گئی چارج شیٹ اشارہ کرتی ہے کہ ملزمین نے گجراتی سماج گیسٹ ہائوس میں ٹھہرنے اور سم کارڈ حاصل کرنے کے لئے فرضی شناختی دستاویزوں کا استعمال کیا۔ چارج شیٹ بتاتی ہے کہ ملزم دویندر گپتا کو فرضی شناختی و ستاویز اور سم کارڈ حاصل کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ فرضی دستاویزوں کی بنیاد پر اس نے مغربی بنگال کے بردوان علاقے میں ڈرائیونگ لائسنس لینے کے لئے درخواست دی۔ اس نے دو لائسنس حاصل کئے ایک اپنے لئے اور ایک منوج کمار کے نام سے سنیل جوشی کے لئی۔ان ہی فرضی دستاویزوں کی بنیاد پر سنیل جوشی نے جے پور میں گجراتی سماج گیسٹ ہائوس میں ایک کمرہ بک کروایا جہاں پر1اکتوبر 2005کو آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار نے ایک خفیہ میٹنگ میں پرگیہ سنگھ ٹھاکر، سنیل جوشی، رام جی کال سنگرا، لوکیش شرما اور سندیپ دانگے سے گفتگو کی۔ اے ٹی ایس کی جانچ کے دوران گیسٹ ہائوس کی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس جوشی کے ڈرائیونگ لائسنس (فرضی) کی ثبوت کے طور پر فوٹو کاپی محفوظ تھی۔ گپتاانہی فرضی شناختی دستاویزوں کے استعمال کرکے 10سم کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ ان میں سے 7سم کارڈ مغربی بنگال سے اور 3سم کارڈ جھارکھنڈ سے خریدے گئے تھی۔ جوشی کے ہی فرضی لائسنس پر دوسرے ملزم رام جی کال سنگرا کے لئے سم کارڈس حاصل کئے گئی۔ جوشی کا فوٹو نوئیڈا سے تعلق رکھنے والے ایک یوگا ٹرینرکے فوٹو سے بدل دیا گیا اور اس کا نام بدل کر بابو لال یادو کردیا گیا جس کا تعلق مغربی بنگال کے آسنسول سے تھا۔ 29دسمبر 2007میں مدھیہ پردیش میں سنیل جوشی کا قتل کردیا گیا۔
راجستھان کے وزیر داخلہ شانتی دھاری وال اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ جوشی کا قتل آر ایس ایس کے کارکنان نے کیا ہی،جبکہ دوسری طرف مدھیہ پردیش پولیس مانتی ہے کہ ان کا قتل سیمی کے لوگوں نے کیا ہی۔ چارج شیٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اے ٹی ایس کو سنیل جوشی کی کچھ ڈائریاں حاصل ہوئی ہیں، جن میں اس کے چار ساتھیوں راج، میہل، گھنشیام اور استاد کا ذکر ہے ۔ ایک پولس والے نے بتایاکہ سنیل جوشی جھارکھنڈ کے جمداتا علاقہ میں آر ایس ایس کے پرمکھ پرچارک تھی۔
جہاں تک مکہ مسجد بم بلاسٹ کا تعلق ہے تو ہم نے خود 7نومبر008کوآندھراپردیش کے وزیراعلیٰ وائی ایس آر ریڈی سے مل کر یہ درخواست کی تھی کہ مکہ مسجد بم دھماکوں کی ازسرنوتفتیش کی جائے اور اس معاملہ کی تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کی جائیں۔ یہ خبرنومبر008کو روزنامہ راشٹریہ سہارا (حیدرآباد) کے صفحہ نمبرـ پر شائع کی گئی۔ اس خبر کی چند سطریں ایک بار پھر پیش خدمت ہیں، تاکہ ہمارے قارئین سمجھ سکیں کہ آج جو منظرنامہ بدل رہا ہی، اس میں ان کی دعائوں، پروردگارعالم کی عنایتوں اور روزنامہ راشٹریہ سہارا کی کاوشوں کا کتنا دخل ہی۔
خبر کا تراشہ: ’’مسٹر عزیز برنی نے وزیراعلیٰ وائی ایس آر ریڈی سے کہا کہ وہ مکہ مسجد بم دھماکوں کے ساتھ ساتھ لمبنی پارک اور گوکل چاٹ بھنڈار دھماکوں کی ازسرنو تحقیقات کرائیں۔ عزیز برنی نے کہا کہ جب نانڈیر، مالیگاؤں اور موڈاسا میں بم دھماکے ہوئے تھے تب مسلم تنظیموں اور مسلم نوجوانوں کا نام اُچھال کر ان کو سازش کرنے والوں کے طور پر پیش کیا گیا تھا، تب بھی ’راشٹریہ سہارا‘ نے معاملہ کی تفتیش کے بغیر نتیجہ اخذ کرنے سے باز رہنے کی بات کہی تھی۔ جبکہ اب مالیگاؤں اور موڈاسا بم دھماکوں میں سنگھ پریوار کا چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے اور اس کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری نے ہندو فرقہ پرست طاقتوں کی ملک مخالف سرگرمیاں اجاگر کردی تو ایسے میں کیا یہ وقت کا تقاضا نہیں ہے کہ مکہ مسجد، گوکل چاٹ بھنڈار اور لمبنی پارک دھماکوں کی ازسرنوتفتیش کرائی جائی، تاکہ ان دھماکوں میں ملوث اصلی چہرے سامنے آسکیں۔‘‘
واضح ہو کہ اس مطالبہ کے بعد متعدد مسلم نوجوانوں کو رہا کردیا گیا تھا، جو مکہ مسجد بم بلاسٹ کے سلسلہ میں گرفتار کئے گئے تھی۔
ہم پھر یہ واضح کردینا چاہیں گے کہ دہشت گردی میں ملوث لوگوں کو صرف اور صرف دہشت گرد کے طور پر دیکھا جائی، انہیں ان کے مذہب سے یا ان کی سیاسی وابستگی سے نہیں جوڑا جائی، مگر افسوس اس وقت ہوتا ہے کہ جب تین تین بار ملک پر حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعت ایسے لوگوں کے نام سامنے آنے پر ہنگامہ کھڑا کردیتی ہی۔ 11اکتوبر007کو درگاہ اجمیر میں بم دھماکہ کس کی سازش تھی، شاید کبھی سامنے نہ آتا، اگر مالیگاؤں میں سادھوی پرگیہ سنگھ کی موٹر سائیکل کی طرح یہاں موقع واردات سے یہ سم کارڈ برآمد نہ ہوا ہوتا۔ دراصل ہوا یہ کہ درگاہ بم دھماکہ میں ایک بم نہیں پھٹ سکا تھا۔ اس بم کو جب ناکارہ کیا گیا تو اس میں دھماکہ خیز مادّوں کے علاوہ ٹائمر ڈیوائس کی شکل میں موبائل فون بھی ملا تھا۔ موبائل اسکرین پر اسکرین سیور کی شکل میں ’وندے ماترم‘ لکھا تھا۔ جس بم سے دھماکہ کیا گیا تھا، اس کا سم کارڈ نمبر:991522000005190837 تھا اور موبائل نمبر:931304642 پایا گیا۔ تباہ ہوئی سم کی بنیاد پر تفتیشی کارروائی میں پتہ چلا کہ سم کارڈ بہاروجھارکھنڈ کی موبائل کمپنی کا ہی۔ یہ سم رامفریادو، مقام کانگوئی، پوسٹ مہجام ضلع دمکا کے نام جاری کیا گیا تھا۔ سم دمکا کے بس اسٹینڈ پر واقع موبائل کیئر نام کی دکان سے خریدا گیا تھا۔ وہیں موقع سے ملے زندہ بم سے ملے موبائل کے بنیاد پر جانکاری ملی کہ اس میں لگا سم مغربی بنگال کی موبائل کمپنی نے جاری کیا ہی۔ سم کا مالک بابولال یادو ولد منوہر یادو، سمدھ روڈ، روپ نارائن پور، آسنسول بردوان کا پایا گیا۔ سم کارڈ مغربی بنگال کے چترنجن سے سرگم آئیڈیونام کی دکان سے خریدا گیا تھا۔ تفتیش میں معلوم ہوا کہ یہ سم فرضی نام و پتہ کے شناختی کارڈ حاصل کرکے خریدا گیا تھا، اسی طرح کی1اور سم بھی خریدنے کا انکشاف ہوا۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ بم دھماکوں کی حقیقت کا پتا لگا لینے پر ہم اپنی خفیہ ایجنسیوں کی پیٹھ تھپھتپائیں اور سمجھیں کہ جن کے ناموں کی تصدیق ہماری خفیہ ایجنسیاں ایک طویل جانچ پڑتال کے بعد سامنے رکھتی ہیں، ان کے دفاع میں بغیر سوچے سمجھے فوراً بیان بازی نہ شروع کی جائی۔
} بہرحال ہم خوفزدہ ہیں اور اس وقت اپنے ملک کی حکومت و خفیہ ایجنسیوں سے مؤدبانہ درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ وہ 26نومبر008کو ملک پر ہوئے سب سے بڑے دہشت گردانہ حملہ کو ذہن میں رکھیں، اس کے چند روز پہلے کی سرگرمیوں کو ذہن میں رکھیں، ممبئی اے ٹی ایس کی کارکردگی کو ذہن میں رکھیں، بالخصوص شہید ہیمنت کرکرے کے کردار کو سامنے رکھیں، ملزمین کی شکل میں سامنے آنے والے ناموں کو ذہن میں رکھیں، ان ناموں کے سامنے آنے پر ایک مخصوص ذہنیت کے سیاستدانوں کے ردعمل کو ذہن میں رکھیں اور پھر مستعد رہیں کہ خدا نہ کرے ہمارے ملک کو پھر برے حالات سے گزرنا پڑی۔ ہم تو بس دعا ہی کرسکتے ہیں۔……………(جاری

‘‘इंद्रेश’’ का नाम तो हेमंत करकरे अपनी ज़िन्दगी में ही बता गए थे!
अज़ीज़ बर्नी

हमारे देश हिन्दुस्तान के न्यायालय या संसद ने कब संघ परिवार को इस बात के योग्य क़रार दिया कि देश मेें कौन देशप्रेमी है और कौन देशद्रोही, इस का प्रमाण पत्र उन से लेना होगा। इंद्रेश देशपे्रमी हैं, आज यह प्रमाण संघ परिवार के अनेकों दिग्गज बांट रहे है। तरूण विजय, राम माधो, निर्मला सीता रमन जैसे लोग बार बार यही दोहराते चले आरहे हैं कि इंद्रेश देशपे्रमी हैं। उन पर यह आरोप गलत लगाया गया है। संभवत वह हिंदुस्तान के इतिहास और संघ परिवार के रोल को भूल रहे हैं। इसलिए हमें ऐसे तमाम लोगों को फिर से याद दिलाना होगा और उनके चरित्र की रौशनी में यह भी निश्चित करना होगा कि आजादी के मसीहा महात्मा गाॅंधी देश प्रेमी थे या उनकी हत्या करने वाला संघ परिवार का प्रोडक्ट नाथू राम गौडसे । हम जब भी देश से प्रेम करने वालों की सूची बनाते हैं तो उन में मोहन दास करमचंद गांधी,सुभाष चंद्र बोस,चंद्रशेखर आज़ाद और शहीद अश्फाकुल्ला खां...... जैसे नामों कों स्थान मिलता है। क्या संघ परिवार चाहता है कि अब नाथू राम गोडसे और इंद्रेश जैसे लोगों का नाम भी इस सूची में शामिल कर लिया जाए। हम जानते हैं 26 नम्वबर 2008 को हिन्दुस्तान पर होने वाले आतंकवादी हमले का सत्य क्या है,षडयंत्र रचने वाले कौन थे, षडयंत्र का आधार क्या था और इस को अंतिम रूप किस प्रकार दिया गया, यह रहस्य कभी जनता के सामने नहीं आएगा। एक के बाद अनेक रहस्यों का पर्दा फाश होता रहेगा, एक के बाद एक नाम सामने आते रहेंगे और हम उन्ही नामों मे उलझे रहेगें या इस कोशिश में लगे रहेंगे कि आखिर उनका इस्तेमाल करने वाला कौन था पाकिस्तान या अमेरिका इससे आगे बढ़कर कुछ सोचेगें ही नहीं। यही कारण है कि हम अंतिम परिणाम पर कभी नहीं पहंुच पायेंगे और यदि किसी परिणाम को अंतिम परिणाम सिद्व करके सामने रख भी दिया गया तो वह पूरी तरह सत्यता पर आधारित नहीं होगा, यह कम से कम हमारी सोच से दूर की बात है, और यह सोच हमारे अनुभवों के आधार पर है, कोई कोरी कल्पना नहीं, इस लिए कि हम ने आज़ाद हिंदुस्तान में पहली बार सत्तारूढ़ दल से लेकर विपक्ष और उनके समर्थकों,यानी कुल संसद सदस्यों लोकसभा और राज्यसभा सहित सभी कोे किसी एक आतंकवादी के बयान पर एक राय होते हुए पहली बार देखा था और यदि किसी ने थोड़ी सी भी इस आतंकवादी के बयान पर आलोचना करने की कोशिश की तो संसद के अंदर ही नहीं बाहर भी उसे विरोध का सामना करना पड़ा। इस आतंकवादी हमले से पूर्व जिस प्रकार साध्वी प्रज्ञा सिंह को बचाने के लिए एक अभियान चलाया जा रहा था, उसी प्रकार आज इंद्रेश को देशप्रेमी सिद्व करने या दूसरे शब्दों में बचाने का अभियान चलाया जा रहा है, ताकि दबाव बनाया जा सके उन सब पर जिन के पास ऐसे सबूत हैं, जिन से यह सिद्व होता है कि इंद्रेश का संबंध अजमेर बम धमाकों से है। बात बहुत पुरानी नहीं है, अभी दो वर्ष का समय ही बीता है। पुस्तकालयों में देखें तो दर्जनों समाचारपत्र के तराशे मिल जायेगें, और यह सत्यता सामने आजायगी कि जिस से मालेगाॅंव बम विस्फोट में साध्वी प्रज्ञा सिंह ठाकुर, दयानंद पांडे, कर्नल पुरोहित और कैप्टन उपाध्याय के नाम सामने आने पर, जो लोग आग बबूला हो गए थे आज फिर उसी वर्ग का प्रतिनिधित्व करने वाले शोर मचा रहे हैं। उस समय भी लाल कृष्ण अडवानी,साध्वी प्रज्ञा सिंह के समर्थन में न केवल भाषण देकर माहौल बना रहे थे कि उसके खिलाफ अपराध सिद्व करने वालों को प्रभावित किया जाए, बल्कि उन्होंने प्रधानमंत्री डा. मनमोहन सिंह से साधवी के समर्थन में मुलाकात भी की थी। और जहां तक आज दरगाह में हुए अजमेर बम विस्फोटों के संबंध में राजस्थान एटीएस के द्वारा इंद्रेश का नाम लिये जाने की बात है तो यह स्पष्टीकरण तो अपने जीवन में शहीद हेमंत करकरे ने उसी वक्त कर दिया था, हम अपने पुराने लेखों और रोजनामा राष्ट्रीय सहारा में प्रकाशित समाचारों के तराशे आज भी सामने रख सकते हैं, जिन से यह स्पष्ट हो जाएगा कि इंद्रेश का नाम आज पहली बार सामने नहीं आया है।
‘‘30 अक्तूबर 2008-इधर बीजीपी हिन्दू संगठनों के नाम आने पर बोखलाहट में आ गई और खुलेआम अभियुक्तों के बचाव में खडी हो गई। भारतीय जनता पार्टी के अध्यक्ष राज नाथ सिंह ने मीडिया को निशाना बनाते हुए कहा कि मीडिया इस पूरे मामले को अरूषी हत्या कांड की तरह पेश कर रहा है। फिर प्रज्ञा सिंह के बचाव में कहा कि जो लोग संस्कृति और राष्ट्रीयता पर विश्वास रखते है, वह आतंकवाद में लिप्त हो ही नहीं सकते। उन्होंने एटीएस के नारको टेस्ट पर प्रशन चिन्ह लगाते हुए कहा कि किसी खतरनाक आतंकवादी को भी इस प्रकार प्रताड़ित नहीं किया जाता, लेकिन एटीएस चीफ हेमंत करकरे ने सारे अभियुक्तों पर मकोका लगा दिया, वह किसी भी राजनीतिक दबाव से परे रहे इसी बीच हिंदू महासभा ने कर्नल पुरोहित और दूसरे अभियुक्तों को न्यायिक सहायता देने की घोषणा की।
15 नवम्बर 2008- राज नाथ सिंह ने इस पूरे मामले को एक बड़ा षडयंत्र कहा। उन्होंने कहा कि मैं पूरी तरह संतुष्ट हूॅं कि साध्वी वगैरह इस षडयंत्र में लिप्त नहीं है। श्री कांत पुरोहित ने समझौता एक्सप्रेस धमाके के लिए आरडीएक्स सप्लाइ किया, यह कहना था एटीएस का।
17 नवम्बर 2008- मालेगाॅव धमाके के तार अजमेर शरीफ और मक्का मस्जिद धमाके से जुडे है- एटीएस ने एक और जानकारी दी।
यानी राजस्थान एटीएस ने आज कोई नया रहस्योद्घाटन नहीं किया है। यह कारनामा तो अपने जीवन में शहीद हेमंत करकरे ही कर गए थे और हमने एटीएस के द्वारा मिली जानकारी को अपने इसी कालम के अन्र्तगत ‘‘मुसलमानाने हिंद-माज़ी, हाल और मुसतक्बिल’’ की 100 वी किशत में प्रकाशित किया था, जिसे आज भी देखा जा सकता है। और हमारे पुराने लेखें से यह पूरे तौर पर स्पष्ट होजाएगा कि जिस प्रकार आज संघ परिवार के लोग आग बबुला हो रहे हैं, इसी प्रकार 17 नवम्बर 2008 को एटीएस के द्वारा अपनी जांच को सामने रखने के बाद शोर मचा रहे थे। 18 नवम्बर 2008 को समाचार पत्रों में प्रकाशित यह समाचार आसानी से देखे जा सकते हैं। राज नाथ सिंह और एल के अडवानी ने एटीएस पर आरोप लगाया कि एटीएस और कांग्रेस में सांठ गांठ है और वह अन प्रोफेशनल ढ़ग से जांच कर रहे हैंै अर्थात यानी उनका यह राग पुराना है।
24 नवम्बर 2008- पुरोहित ने सीबीआई को बयान दिया, वीएचपी लीडर अभिनव भारत के गठन में आगे आगे थे। उन्होंने कहा कि आर एस एस लीडर इंद्रेश कुमार ने आईएसआई से तीन करोड़ रूपये लिए। कल यानी कल 25 अक्तुबर 2010 को अंग्रेजी दैनिक टाइम्स आॅफ इंडिया में प्रकाशित समाचार की ली गई निम्नलिखित चंद पंक्तियां सिद्व करती हैं कि दो वर्ष पूर्व हम ने जिस सच्चाई को सामने रखा था, शहीद हेमंत करकरे ने अपनी छानबीन में जिस सत्यता का पता लगाया था या आज राजस्थान पुलिस और एटीएस जिन सच्चाइयों को समने लारही है यह उसी सच्चाईयों की अगली कडी है। देखें टाईम्स आॅफ इंडिया में प्रकाशित खबरः
यह चार्जशीट राजस्थान एटीएस के द्वारा 2007 अजमेर दरगाह बम धमाका के संबंध में दाख़िल की गई संकेत करती है कि अभियुक्तों ने गुजराती समाज गेस्ट हाउस में ठहरने और सिम कार्ड प्राप्त करने के लिए फ़र्ज़ी पहचानपत्र का प्रयोग किया। चार्जशीट बताती है कि अभियुक्त देवेन्द्र गुप्ता को फर्ज़ी पहचानपत्र और सिम कार्ड हासिल करने के लिए कहा गया था। फ़र्ज़ी दस्तावेजों के आधार पर उस ने पश्चिमी बंगाल के बर्दवान इलाके में ड्राइविंग लाइसेंस लेने के लिए आवेदन किया। उसने दो लाईसेंस प्राप्त किए एक अपने लिए और एक मनोज कुमार के नाम से सुनील जोशी के लिए। इन हीं फर्जी दस्तावेजों के आधार पर सुनील जोशी के जयपुर में गुजराती गेस्ट हाउस में एक कमरा बुक कराया जहां पर 31 अक्तुबर 2005 को आर एस एस लीडर इंद्रेश कुमार ने एक गुप्त मीटिंग में प्रज्ञा सिंह ठाकुर, सुनील जोशी,राम जी काल सिंगरा,लोकेश शर्मा और संदीप डाँगे से बात की। एटीएस की जांच के दौरान गेस्ट हाउस के प्रबंधन ने दावा किया कि उन के पास जोशी के ड्राइविंग लाईसेंस (फ़र्जी) की प्रमाण के तौर पर फोटो काॅपी सुरक्षित थी। गुप्ता उन्हीं फर्जी पहचान पत्रों का प्रयोग करके 10 सिम कार्ड प्राप्त करने में सफल होगया। इन में से 7 सिम कार्ड वेस्ट बंगाल से और 3 सिम कार्ड झारखंड से खरीदे गए थे। जोशी के ही फर्जी लाईसेंस पर दूसरे अभियुक्त राज जी काल सिंगरा के लिए सिम कार्ड प्राप्त किए गए। जोशी का फोटो नोएडा से संबंध रखने वाले एक योगा ट्रेनर के फोटो से बदल दिया गया और उस का नाम बदल कर बाबू लाल यादव कर दिया गया जिस का संबंध पश्चिमी बंगाल के आसनसोल से था। 29 दिसम्बर 2007 में मध्यप्रदेश में सुनील जोशी की हत्या कर दी गई।
राजस्थान के गृहमंत्री शांती धारीवाल इस बात पर जोर दे रहे हैं कि जोशी की हत्या आर एस एस कार्यकताओं ने की है। जबकि दूसरी ओर मध्य प्रदेश पुलिस मानती है कि उन की हत्या सीमी के समर्थकों ने की है। चार्ज शीट में यह दावा किया गया है कि एटीएस को सुनील जोशी की कुछ डायरियां प्राप्त हुई हैं जिनमें उसके चार साथियों राज,मेहल, घंश्याम और उस्ताद का उल्लेख है। एक पुलिस वाले ने बताया कि सुनील जोशी झारखंड के जमदाता क्षेत्र में आरएसएस का प्रमुख प्रचारक था।
जहां तक मक्का मस्जिद बम विस्फोट का संबंध है तो हम ने स्वयं 7 नवम्बर 2008 को आंधप्रदेश के मुख्यमंत्री वाई एस रेड्डी से मिलकर यह निवेदन किया था कि मक्का मस्जिद धमाकों की नए सिरे से जांच की जाए और इस मामले को सीबीआई के हवाले किया जाए। यह खबर 8 नवम्बर 2008 को रोजनामा राष्ट्रीय सहारा - हैदराबाद- के पृष्ठ-4 पर प्रकाशित की गई। इस खबर की कुछ लाईनें एक बार फिर प्रस्तुत है ताकि हमारे पाठक समझ सकें कि आज जो परिदृश्य बदल रहा है उस में उनकी दुआओं, परवरदिगार आलम की इनायतों और रोज़नामा राष्ट्रीय सहारा की कोशिशों की क्या भूमिका है।
ख़बर का तराशाः ‘‘मिस्टर अज़ीज बर्नी ने मुख्यमंत्री वाई एस आर रेडडी से कहा कि वह मक्का मस्जिद बम विस्फोटों के साथ साथ लुम्बिनी पार्क और गोकुल चाट भंडार धमाकों की दोबारा छानबीन करायें। अज़ीज बर्नी ने कहा कि जब नांदेढ़ मालेगाॅव और मोडासा में बम विस्फोट हुए थे तब मुस्लिम संगठनों और मुस्लिम नौजवानों का नाम उछाल कर उन को षडयंत्र करने वालों के रूप में प्रस्तुत किया गया था, तब भी राष्ट्रीय सहारा ने मामले की छानबीन के बिना निष्कर्ष निकालने की आदत से बचने की बात कही थी। जबकि अब मालेगाॅव और मोडासा बम विस्फोट में संघ परिवार का चेहरा बेनकाब हो गया है और इस के अन्य साथियों की गिरफतारी ने हिन्दू सम्प्रदायिक शक्तियों की देश विरोधी सरर्गमी उजागर कर दी तो ऐसी स्थिति में क्या यह समय का तकाजा नहीं है कि मक्का मस्जिद,गोकुल चाट भंडार और लुम्बिनी पार्क धमाकों की दुबारा छान बीन कराई जाए, ताकि इन धमाकों में शामिल असली चेहरे सामने आ सकें।
विदित हो कि इस मांग के बाद अनेक मुस्लिम नौजवानोें को रिहा कर दिया गया था, जो मक्का मस्जिद बलास्ट के संबंध में गिरफतार किये गए थे।
हम फिर यह स्पष्ट कर देना चाहेगें कि आतंकवाद में शामिल लोगों को केवल और केवल आतंकवादी के रूप में देखा जाए, उन्हें उन के धर्म से या उनके राजनीतिक संबंधों से नहीं जोड़ा जाए, लेकिन अफसोस उस समय होता है कि जब तीन तीन बार देश पर शासन करने वाला राजनीतीक दल ऐसे लोगों के नाम सामने आने पर हंगामा खड़ा कर देता है, 11 अक्टुबर 2007 को दरगाह अजमेर में बम विस्फोट किस का षडयंत्र था,शायद कभी सामने नहीं आता अगर मालेगांव में साध्वी प्रज्ञा सिंह की मोटर साइकिल की तरह यहां घटना स्थल से यह सिम कार्ड प्राप्त न होता। दरअसल हुआ यह कि दरगाह बम विस्फोट में एक बम नहीं फट सका था। इस बम को जब बेकार किया गया तो उसमें विस्फोटक पदार्थों के अतिरिक्त टाईमर डिवाईस के रूप में मोबाइल फोन भी मिला था। जिस बम से धमाका किया गया था उस का सिम कार्ड नम्बर 8991522000005190837 और मोबाईल नम्बर 9931304642 पाया गया। तबाह हुए सिम के आधार पर छानबीन की कारवाई में पता चला कि सिम कार्ड बिहार व झारखंड की मोबाईल कम्पनियों का है। यह सिम रामफर यादव,स्थान कांगोई, पोस्ट महजाम जिला दुम्का के नाम से जारी किया गया था। सिम दुमका के बस स्टैंड पर स्थित मोबाईल केयर नाम की दुकान से खरीदा गया था। वही उस जगह से मिले जिंदा बम से मिले मोबाईल फ़ोन के आधार पर जानकारी मिली कि इस में लगा सिम पश्चिमी बंगाल की मोबाईल कम्पनी ने जारी किया है। सिम का मालिक बाबुलाल यादव पुत्र मनोहर यादव, समध रोड, रूप नारायनपूूर, आसंसोल बर्दवान का पाया गया। बंगाल के चितरंजन से सरगम आडियो नाम की दुकान से खरीदा गया था। छानबीन से ज्ञात हुआ कि यह सिम फर्जी नाम व पते के पहचान पत्र से खरीदा गया था, इसी तरह के 11 सिम खरीदने का रहस्य सामने आया।’’
होना तो यह चाहिए कि बम विस्फोटों की सत्यता का पता लगा लेने पर हम अपनी गुप्तचर संस्थाओं की पीठ थपथपाएं और समझें कि जिन के नामों की पुष्टी हमारी गुप्तचर संस्था एक लम्बी जांच पडताल के बाद सामने रखती है। उन के बचाव में बिना सोच समझे फौरन बयानबाजी न आरंभ की जाए।
जो भी हो इस समय हम भयभीत है अतएव अपने देश की सरकार और गुप्तर संस्थाओं से नम्र निवेदन करना चाहते हैं कि वह 26 नवम्बर 2008 को देश पर हुए सब से बडे आतंकवादी हमले को जे़हन में रखें, उस के कुछ दिन पहले की गतिविधियों को ध्यान में रखे, एटीएस की जांच में सामने वाली घटनाओं को जेहन में रखें, विशेष कर शहीद हेमंत करकरे की भूमिका को सामने रखेें, अभियुक्तों के रूप में सामने आने वाले नामों को जेहन में रखेें, इन नामों के सामने आने पर एक विशेष मानसिकता के राजनीतिज्ञों की प्रतिक्रिया को जेहन में रखें और फिर तैयार रहें कि खुदा न करे हमारे देश को फिर बुरे हालात से न गुजरना पड़े। हम तो बस दुआ ही कर सकते हैं।
....................................................................................(जारी)

سنو! دل کی بھی اور دماغ کی بھی، پھر کرو فیصلہ

عزیز برنی

انگریزوں کی غلامی سے قبل ملک پر مسلمانوں کی حکمرانی تھی۔ کیا یہ سچ نہیں ہے! 1757 سے لے کر 1857اور اس کے بعد 1947میں ملی آزادی تک مسلمان لگاتار ملک کی آزادی کی جدوجہد میں پیش پیش رہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے! اس وقت ہندوستان کی دیگر زبانوں کے مقابلہ سب سے نمایاں کردار رہا اردو صحافت کا۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے! ’’انقلاب زندہ باد‘‘، ’’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘‘ (پنڈت رام پرساد بسملؔ ) یہ نعرے اور شعر دئے اردو زبان کے شعراء نے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے! جنگ آزادی کے لئے چندہ دیا جمعیۃ علماء ہند نے، کیا یہ سچ نہیں ہے۔؟ انگریز حکومت نے ہمارے ہزاروں علمائے کرام کو پھانسی پر لٹکا دیا، کیا یہ بھی سچ نہیں ہے؟ اس وقت جب ہندوستان انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑرہا تھا، مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تحریروں کی معرفت ذہنی اعتبار سے ہندوستانی عوام کو آزادی کی جدوجہد کے لئے آمادہ کررہے تھے اور ان کی ان کاوشوں سے انگریز حکومت خوفزدہ تھی، کیا یہ تاریخی حقیقت نہیں ہے؟، پھر تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو سچ یہ بھی ہے کہ1901میں قائم کی گئی ہندومہاسبھا ہندوراشٹر کے خواب کو لے کر وجود میں آئی تھی؟ راشٹر گیت، وندے ماترم بنکم چندر چٹواپادھیائے کے جس ناول ’’آنندمٹھ‘‘ میں لکھا گیا، وہ مسلمانوں کی دشمنی اور انگریزوں کی شان میں لکھا گیا تھا، کیا یہ سچ نہیں ہے؟ اگر یہ سب سچ ہے تو پھر ہم اس حقیقت کو کیوں نہیں سمجھتے کہ جو ذہنیت 1901 سے ہی اس ملک کو ہندوراشٹر دیکھنا چاہتی تھی اور مالیگاؤں بم بلاسٹ کی تحقیق کرنے والے شہید ہیمنت کرکرے نے دیانندپانڈے کے لیپ ٹاپ سے جو مشن۔2025سامنے رکھا تھا، کیا وہ ہندوراشٹر کے قیام کا منظم منصوبہ نہیں تھا، یعنی125برس تک لگاتار ایک مقصد کو سامنے رکھ کر جو ذہنیت کام کررہی ہے اور آج بھی پوری مستعدی سے سرگرم ہے، مندر کی تعمیر کا بہانا تو اس کے لئے محض اپنے اس منصوبے کو کامیاب بنانے کا ایک ذریعہ ہے۔ کیا ہمیں اس حقیقت کو نہیں سمجھنا چاہئے؟ میں نے جو مثالیں پیش کیں مغلیہ حکمرانوں سے لے کر علمائے کرام کے پھانسی پر چڑھائے جانے تک کی، اس کا مقصد صرف یہی تھا کہ اس قوم نے حکومت بھی کی ہے اور قربانیاں بھی پیش کی ہیں۔ ہر طرح کے حالات کا سامنا کیا ہے اور آگے بھی کرسکتی ہے، لیکن آج اگر کوئی کمی دکھائی دیتی ہے تو ایسی ہی منصوبہ بندی کی کمی ہے، جس کا آغاز اپنے ملک ہندوستان کی آزادی کے لئے ہم نے 1857میں کیا اور آزادی نصیب ہوئی 1947میں، یعنی ایک مقصد تھا ہمارے سامنے 90برس تک متواتر آزادی کی جنگ لڑنے اور جیتنے کا۔ دوسری طرف ایک منفی منصوبہ بھی ہمارے سامنے ہے، 1901سے2025تک یعنی125برس لمبی پلاننگ ہندوراشٹر کے قیام کے لئے اور یہ راستہ اجودھیا سے ہوکر گزرتا ہے، ہمیں اس حکمت عملی کو سمجھنا ہوگا۔ ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے، ہزاروں فرقہ وارانہ فساد کا تذکرہ مل جائے گا، جس کی بنیاد تھی مذہبی ٹکراؤ۔ انگریز بخوبی جانتے تھے، اس لئے جب جب انہیں اپنے سیاسی مقاصد پورا کرنے کی ضرورت پیش آئی، انہوں نے ہندو اور مسلمانوں کو لڑاکر اپنا مقصد حاصل کرلیا اور جب جب یہ دونوں قومیں متحد ہوئیں، انگریز کمزور پڑگیا۔ مندر۔مسجد تنازع آج آزادی کے بعد سے مسلسل ہمارے سامنے ہے۔ 61برس ہم نے نفرتوں کے چلتے گزار دئے۔ اس تنازع نے کبھی فرقہ وارانہ فساد کی شکل اختیار کی تو کبھی گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی اور کبھی دہشت گردی کی۔ ہندوستانی قوم کے پاس ایک موقع تھا30؍ستمبر2010کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کا، ایک ایسا فیصلہ جو قطعاً غیرمتوقع تھا، جو عدالت کا نہیں، بلکہ ایک پنچایت کا فیصلہ نظر آتا تھا اور قانون کی روشنی میں گفتگو کرنے والوں نے روزاول سے ہی اس فیصلہ پر تنقید کرنا بھی شروع کردی تھی۔ یہ فیصلہ حقائق کی بنیاد پر نہیں تھا، ملک کے سیکولر نظام کو زندہ رکھنے کے خواہش مند حضرات نے واضح طور پر کہا کہ حقائق سے چشم پوشی کی گئی ہے، پھر بھی ہم حیران تھے کہ آخر ہندو راشٹر کا منصوبہ رکھنے والوں کو یہ فیصلہ قابل قبول کیوں ہے؟ رام مندر کے نام پر سیاست کرکے اس ملک پر حکومت کرنے کا خواب دیکھنے والی فرقہ پرست ذہنیت اس تنازع کو ختم کیوں کرنا چاہتی ہے؟ وہ مسجد بنائے جانے پر رضامند کیوں ہے؟ اگر مندر بن گیا اور مسجد بھی بن گئی تو پھر اسے اپنی سیاست کے لئے نیا ایشو کیا ملے گا؟ لیکن ہماری حیرانی اس وقت دور ہوگئی، جب آہستہ آہستہ ان تنظیموں کے سربراہوں نے پرانے رنگ میں آنا شروع کردیا، یعنی انہیں بس انتظار تھا، مسلمانوں کی طرف سے کسی ایسے جملہ یا کسی ایسی کوشش کا جسے بہانا بناکر وہ پھر سے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی سمت میں آگے بڑھ سکیں۔ سپریم کورٹ چلے جانے کا فیصلہ سیاسی اعتبار سے تقریباً سبھی کے حق میں ہے۔ حکمراں جماعت کے تو دونوں ہاتھوں میں لڈو تھے، فیصلہ اگر مان لیا گیا تو واہ واہی اس کے نام کرکے ہم نے اس مسئلہ کو حل کردیا، جو گزشتہ61برس سے تنازع کا باعث بنا ہوا تھا۔ مسلمانوں کو مسجد بھی مل گئی اور ہندوؤں کو رام مندر بھی، یعنی مسلمان ذہنی اعتبار سے ہمیں ووٹ دینے کے لئے تیار رہیں اور پچھلی تمام باتوں کو بھلا دیں اور ہندو حضرات یہ ذہن میں رکھیں کہ جو کام بھارتیہ جنتا پارٹی ایک سے زیادہ بار اقتدار میں آنے کے بعد بھی نہ کرسکی، آخر وہ کام بھی ہم نے ہی انجام دیا۔ رام مندر کی تعمیر ہمارے ہی دوراقتدار میں ہوئی اور اگر اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا، تب بھی حکمراں جماعت کے پاس یہ کہنے کے لئے موقع ہے کہ مسئلہ کے زندہ رہنے کی وجہ ہم نہیں ہیں۔ ساتھ ہی اسے 10-15برس کی مہلت بھی مل گئی۔ ڈاکٹرمنموہن سنگھ آرام کے ساتھ اپنی مدت پوری کریں، پھر راہل گاندھی وزیراعظم بنیں، وہ بھی اپنے اقتدار کی مدت پوری کریں، اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہوتا ہے؟ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے بھی سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ ہر لحاظ سے منافع بخش ہے۔ رام مندر کے ایشو پر اس کی سیاست زندہ رہے گی۔ جب جب ملک میں فرقہ پرستی کا دور آئے گا، اسے کچھ دے کر ہی جائے گا۔ آپ نے دیکھا نہیں، گجرات فساد کے بعد سے اس ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی جتنی مضبوط ہوئی ہے، اتنی پہلے کبھی نہیں تھی، یہ اس کا آزمودہ فارمولہ ہے۔ آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں، سپریم کورٹ چلے جانے کا منھ مانگا وردان اسے مل گیا ہے، اب وہ پھر سے نئے جوش کے ساتھ اپنی سیاسی قوت کو یکجا کرسکتی ہے اور جو باقی بچیں وہ سیاسی پارٹیاں بھی وقت آنے پر اپنے حساب سے اس کا سیاسی فائدہ اٹھائیں گی ہی۔ اب رہا سوال مسلمانوں کا تو انہیں تو سپریم کورٹ جانا ہی تھا، فیصلہ میں ان کی حق تلفی صاف نظر آتی تھی، سپریم کورٹ چلے جانے میں انہیں کچھ تو امید دکھائی دیتی ہی ہوگی، ورنہ آخری لمحہ تک جدوجہد کرنے کا سکون تو دل کو مل ہی جائے گا۔ اس دوران ہماری قوم کو کچھ اور رہنما مل جائیں گے۔ اگر پچھلے 18-20برس کے حالات پر نظر ڈالیں تو آج سیاسی اعتبار سے سرگرم متعدد لیڈران وہی ہیں، جنہیں بابری مسجد تنازع نے جنم دیا ہے۔ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا تو ہمیں کچھ اور مسلم سیاستداں ملنے کے حالات اور امکان پیدا ہوں گے۔ اب رہا سوال کہ اس سے ہندو یامسلم عوام کا کیا فائدہ ہوگا اور کیا نقصان تو اس کی بات جانے دیجئے، اس سمت میں سوچنے کی ابھی ہمارے رہنماؤں کو فرصت ہی کہاں ہے۔ ہاں جو ایک بات کہنے کے لئے یہ مکمل مضمون لکھنے کی ضرورت پیش آئی، وہ یہ ہے کہ اس ملک کا سیکولرزم ہماری ضرورت ہے، ان کی نہیں، جنہوں نے 1901میں ہندومہاسبھا قائم کی تھی اور جو اس کے لئے مسلسل سرگرم ہیں۔ اگر ہم اپنے ملک کی جمہوریت کو زندہ رکھنے، برقرار رکھنے کے لئے کوشاں ہیں تو ہم کسی پر احسان نہیں کررہے ہیں، اس سچائی کو ہمیں سمجھنا ہوگا۔ احسان تو ہم پر وہ سیکولر ہندو کررہے ہیں، جو ہر قدم پر ہمارے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں اور اس ملک کو سیکولر بنائے رکھنے کے لئے شانہ بشانہ ہمارے ساتھ ہیں۔ دستور کا حوالہ مت دیجئے، حقیقت کی زمین پر قدم رکھ کر بات کیجئے اور سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ اب ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ جس طرح ہم نے ملک کو غلامی سے نجات دلانے کے لئے جدوجہد کی، کیا اسی طرح ہم ملک کے سیکولرزم کو زندہ رکھنے کی جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جس طرح ہم نے ملک کو آزادی دلانے کے لئے قربانیاں پیش کیں، کیا آج ملک کے سیکولرزم کو قائم رکھنے کے لئے قربانیاں دینے کو تیار ہیں؟ اگر نہیں تو راستہ کیا ہے؟ یہ بھی سوچ لیجئے، آج جو ہمارے ساتھ ہیں، کل ان کا بھی ذہن نہیں بدلے گا، اس یقین کی بنیاد کیا ہے؟ آپ نے دیکھا نہیں، جیسے جیسے اردو کمزور ہوتی جاتی ہے، جمہوریت بھی کمزور ہوتی جاتی ہے۔ اردو صحافی ہوں اس لئے نہیں لکھ رہا ہوں، کسی بھی پیمانہ پر اس جملہ کو پرکھ کر دیکھیں، ملک کے سیکولرزم کو بچائے رکھنے کے لئے وہی لوگ آپ کو اپنے ساتھ پیش پیش نظر آتے ہوں گے، جنہوں نے اردو زبان کا دامن ابھی چھوڑا نہیں ہے۔ کیا کل ان کی آنے والی نسلیں بھی اسی طرح سیکولرزم کی علمبردار بن پائیں گی، آج ہمیں یہ سوچنا ہوگا۔ ہمیں اس وقت خیال رکھنا ہے تو صرف دو باتوں کا، ایک وہ جن کی آتشی زبان سے اکثر لفظوں کے بم نکلتے ہیں۔ وہ کبھی بھی ہماری قوم کے لئے نئے خطروں کو دعوت دے سکتے ہیں اور ان سے بھی جو ببانگ دہل ہر حالت میں اب پھر رام مندر بنانے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی سمت میں آگے بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ یقیناًیہ خبریں آپ کی نظر سے گزری ہوں گی کہ
’’ اپنی حکمت عملی میں کامیاب رہی وشوہندوپریشد‘‘
یہ خبر دہلی سے شائع ہونے والے ہندی روزنامہ ’’دینک جاگرن‘‘ میں مورخہ 23؍اکتوبر2010کے شمارے میں صفحہ نمبر۔5پر پہلی خبر کی شکل میں نمایاں طور پر شامل کی گئی ہے، جس میں صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ اجودھیا تنازع پر ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد سے خاموشی اختیار کرنے والی وشوہندوپریشد نے سنتوں کا بہانا لے کر سہی رام مندر تحریک پر کمزور ہوتی جارہی پکڑ کو پھر سے مضبوط بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ متنازع اراضی کے بٹوارے کے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو رام للاکے سکھا کے ذریعہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی قرارداد سنتوں کی اعلیٰ سطحی تنظیم سے مہر لگوا کر وشوہندوپریشد نے عدالتی لڑائی کی کمان درپردہ ہی سہی اپنے ہاتھوں میں لینے سے کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اجودھیا کے کارسیوک پورم میں 20؍اکتوبر کو ہوئی سنتوں کی اعلیٰ سطحی کمیٹی نے میٹنگ کی اور اس کے اگلے ہی دن ہوا مقامی سنتوں کا اجلاس۔ رام مندر تحریک وشوہندوپریشد کے لئے سیاسی اعتبار سے انتہائی اہم ہے۔ سنتوں کی اس اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ذریعہ وشوہندوپریشد نے ایک تیرسے کئی نشانے سادھنے کی کوشش کی ہے۔ عدالت کے فیصلہ کے بعد تنازع کا حل کرنے کی کوششوں کو کنارہ کرتے ہوئے وشوہندوپریشد نے ایک طرف ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی قرارداد پر سنتوں کی مہر لگانے میں کامیابی پائی۔ رام للا کے سکھا کی شکل میں مقدمہ دائر کرنے والے جسٹس دیوکی نندن اگروال وشوہندوپریشد کے نائب صدر رہے ہیں۔ اجودھیا تنازع میں ان کی جگہ لینے والے ترلوکی ناتھ پانڈے بھی وشوہندوپریشد اور آر ایس ایس کے کارکن ہیں۔‘‘
اس کے ساتھ ہی ایک دوسری خبر بھی اسی صفحہ پر شامل اشاعت کی گئی ہے، جس کا عنوان ہے ’’سنگھ نے بھری مندرتعمیر کی ہنکار۔‘‘
یہ سب وہی ہوتا نظر آرہا ہے، جس کا اشارہ ہم نے 30؍ستمبر کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد اپنے پہلے ہی مضمون میں کردیا تھا۔ جانتے تھے کہ ہماری اس سوچ کو تنقید کا سامنا کرنا ہوگا، مگر سامنے رکھنا اس لئے ضروری لگا کہ بیشک یہ رائے رد کردی جائے، مگر ذہنوں میں درج تو کرلی جائے، تاکہ تاریخ گواہ رہے کہ کبھی ’’مسلمانان ہند۔۔۔ ماضی، حال اور مستقبل‘‘، کبھی ’’داستان ہند۔۔۔ماضی، حال اورمستقبل ‘‘ اور کبھی ’’آزاد بھارت کا اتہاس‘‘ کے عنوان سے مسلسل حق اور انصاف کی جنگ لڑنے والے قلم نے اس انتہائی سنجیدہ موضوع سے نظریں نہیں چرائیں اور تعریف کے تنقید میں بدل جانے کے خوف نے بھی اسے وہ سب لکھنے سے روکا نہیں، کیوں کہ اسے اس وقت ان حالات میں یہ سب لکھنا بھی اتنا ہی اہم لگتا تھا، جتنا کہ جب دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا عزم کیا تھا اور مسلمانوں کے دامن سے تقسیم وطن کا داغ مٹانے کی کوشش کی تھی یا دہشت گرد ہونے کا داغ اپنے ماتھے پر لئے بے گناہ نوجوانوں کی رہائی کا عزم کرکے انہیں تحریروں کے ذریعہ تحریک چلائی تھی، بہرحال وہ تحریک تو آئندہ بھی انشاء اللہ اسی طرح جاری رہے گی، مگر اس وقت ضروری ہے حالات حاضرہ کو سامنے رکھنا اورسمجھنا بھی۔

सुनो! दिल की भी और दिमाग़ की भी, फिर करो फैसला...
अज़ीज़ बर्नी

अंग्रेज़ों की ग़्ाुलामी से पहले देश पर मुसलमानों का शासन था, क्या यह सच नहीं है! 1757 से लेकर 1857 तथा उसके बाद 1947 में मिली आज़ादी से लेकर मुसलमान लगातार देश की आज़ादी के संघर्ष में सबसे आगे रहे, क्या यह सच नहीं है! उस समय भारत की अन्य भाषाओं के मुक़ाबले सबसे प्रमुख भूमिका रही उर्दू पत्रकारिता की, क्या यह सच नहीं है! ‘इन्क़लाब जि़्ांदाबाद’, ‘सरफ़रोशी की तमन्ना अब हमारे दिल में है, देखना है ज़ोर कितना बाज़्ाुए क़तिल में है।’ (पंडित राम प्रसाद बिस्मिल) यह नारे और शेर दिए उर्दू भाषा के शायरों ने, क्या यह सच नहीं है! स्वतंत्रता संग्राम के लिए चंदा दिया जमीअत उलेमा-ए-हिंद ने, क्या यह भी सच नहीं है? उस समय जब भारत अंग्रेज़ों के विरुद्ध आज़ादी की जंग लड़ रहा था, मौलाना हसरत मोहानी, मौलाना मुहम्मद अली जौहर, मौलाना अबुलकलाम आज़ाद अपने लेखों द्वारा मानसिक रूप से भारतीय जनता को आज़ादी के संघर्ष के लिए तैयार कर रहे थे और उनके इन प्रयासों से अंग्रेज़ सरकार भयभीत थी, क्या यह सब ऐतिहासिक हक़ीक़त नहीं है? फिर इतिहास के पन्ने पलट कर देखें तो सच यह भी है कि 1901 में गठित की गई हिंदू महासभा हिंदू राष्ट्र के सपने को लेकर अस्तित्व में आई थी? राष्ट्रगीत, वंदेमातृम बंकिम चंद चटोपाध्याय के जिस उपन्यास ‘आनंदमठ’ में लिखा गया, वह मुसलमानों की दुश्मनी और अंग्रेज़ों की शान में लिखा गया था, क्या यह सच नहीं है? अगर यह सब सच है तो फिर हम इस हक़ीक़त को क्यों नहीं समझते कि जो मानसिकता 1901 से ही इस देश को हिंदू राष्ट्र देखना चाहती थी और मालेगांव बम ब्लास्ट की जांच करने वाले शहीद हेमंत करकरे ने दयानंद पांडे के लैपटाॅप से जो मिशन 2025 सामने रखा था, क्या वह हिंदू राष्ट्र की स्थापना की सुनियोजित योजना नहीं थी, अर्थात 125 वर्ष तक लगातार एक उद्देश्य को सामने रख कर जो मानसिकता काम कर रही है और आज भी पूरी मुस्तैदी से सक्रिय है, मंदिर निर्माण का बहाना तो उसके लिए केवल अपनी इस योजना को सफ़ल बनाने का एक माध्यम है। क्या हमें इस हक़ीक़त को नहीं समझना चाहिए? मैंने जो मिसालें प्रस्तुत कीं मुग़ल शासकों से लेकर उलेमा-ए-किराम के फांसी पर चढ़ाए जाने तक की, इसका उद्देश्य केवल यही था कि इस क़ौम ने शासन भी किया है और बलिदान भी दिए हैं। हर प्रकार की परिस्थितियों का सामना किया है और आगे भी कर सकती है, परंतु आज यदि कोई कमी दिखाई देती है तो ऐसी ही योजनाबंदी की कमी है, जिसका शुभारंभ अपने देश भारत की आज़ादी के लिए हमने 1857 में किया और आज़ादी प्राप्त हुई। 1947 में अर्थात् एक उद्देश्य था हमारे सामने, 90 वर्ष तक लगातार आज़ादी की जंग लड़ने और जीतने का। दूसरी ओर एक नकारात्मक योजना भी हमारे सामने है। 1901 से 2025 तक अर्थात 125 वर्ष लम्बी प्लानिंग हिंदू राष्ट्र की स्थापना के लिए और यह मार्ग अयोध्या से होकर गुज़रता है, हमें इस रणनीति को समझना होगा। देश का इतिहास उठाकर देख लीजिए, हज़्ाारों साम्प्रदायिक दंगों का उल्लेख मिल जाएगा, जिसका आधार था धार्मिक टकराव। अंगे्रज़ भलीभांति जानते थे, इसलिए जब-जब उन्हें अपने राजनीतिक उद्देश्य पूरा करने की आवश्यकता पेश आई, उन्होंने हिंदुओं और मुसलमानों को लड़ाकर अपना उद्देश्य प्राप्त कर लिया और जब-जब यह दोनों क़ौमें संगठित हुईं, अंग्रेज़ कमज़ोर पड़ गए। मंदिर मस्जिद विवाद आज आज़ादी के बाद से लगातार हमारे सामने है। 61 वर्ष हमने घृणाओं के चलते बिता दिए। इस विवाद ने कभी साम्प्रदायिक दंगों का रूप धारण किया तो कभी गुजरात में मुसलमानों के नरसंहार का और कभी आतंकवाद का। भारतीय समाज के पास एक अवसर था 30 सितम्बर 2010 को इलाहाबाद उच्च न्यायालय का, एक ऐसा फ़ैसला जो पूर्णतः अप्रत्याशित था, जो न्यायालय का नहीं बल्कि एक पंचायत का फ़ैसला नज़र आता था और क़ानून की रौशनी में चर्चा करने वालों ने प्रथम दिन से ही इस फ़ैसले की आलोचना करना भी आरंभ कर दिया था। यह फ़ैसला तथ्यों के आधार पर नहीं था, देश की धर्मनिर्पेक्ष व्यवस्था को जीवित रखने के इच्छुक लोगों ने स्पष्ट रूप से कहा कि तथ्यों की अनदेखी की गई है, फिर भी हम आश्चर्यचकित थे कि आख़िर हिंदू राष्ट्र की योजना रखने वालों को यह फै़सला स्वीकार क्यों है? राम मंदिर के नाम पर राजनीति करके इस देश पर शासन करने का सपना देखने वाली साम्प्रदायिक मानसिकता इस विवाद को समाप्त क्यों करना चाहती है? वह मस्जिद बनाए जाने पर रज़ामंद क्यों है। अगर मंदिर बन गया और मस्जिद भी बन गई तो फिर उसे अपनी राजनीति के लिए नया मुद्दा क्या मिलेगा? लेकिन हमारी हैरानी उस समय दूर हो गई, जब धीरे-धीरे उन संगठनों के प्रमुखों ने पुराने रंग में आना शुरू कर दिया, अर्थात उन्हें बस प्रतीक्षा थी मुसलमानों की ओर से किसी ऐसे वाक्य या किसी ऐसे प्रयास की जिसे बहाना बना कर वह फिर से अपनी योजनाओं को अमली जामा पहनाने की दिशा में आगे बढ़ सकें। सर्वोच्च न्यायालय चले जाने का फ़ैसला राजनीतिक दृष्टि से लगभग सभी के पक्ष में है। शासक दल के तो दोनों हाथों में लड्डू थे, फ़ैसला अगर मान लिया गया तो वाह-वाही उसके नाम करके हमने समस्या का हल कर दिया, जो पिछले 61 वर्ष से विवाद का कारण बनी हुई थी। मुसलमानों को मस्जिद भी मिल गई और हिंदुओं को राम मंदिर भी, अर्थात मुसलमान मानसिकरूप से हमें वोट देने के लिए तैयार रहें और पिछली तमाम बातों को भुला दें और हिंदू भाई यह ध्यान में रखें कि जो काम भारतीय जनता पार्टी एक से अधिक बार सत्ता में आने के बाद भी न कर सकी, आख़िर वह काम भी हमने ही अंजाम दिया। राम मंदिर का निर्माण हमारे ही शासनकाल में हुआ और अगर अब यह मामला सर्वोच्च न्यायालय में चला गया, तब भी शासक दल के पास यह कहने के लिए अवसर है कि समस्या के जीवित रहने का कारण हम नहीं हैं। साथ ही उसे 10-15 वर्ष का समय भी मिल गया। डा॰ मनमोहन सिंह आराम के साथ अपनी अवधि पूरी करें, फिर राहुल गांधी प्रधानमंत्री बनें, वह भी अपनी सत्ता की अवधि पूरी करें, उसके बाद देखा जाएगा कि सर्वोच्च न्यायालय का फ़ैसला क्या होता है? भारतीय जनता पार्टी के लिए भी सर्वोच्च न्यायालय जाने का फ़ैसला हर दृष्टि से लाभदायक है। राम मंदिर के मुद्दे पर उसकी राजनीति जीवित रहेगी। जब-जब देश में साम्प्रदायिकता का दौर आएगा, उसे कुछ देकर ही जाएगा। आपने देखा नहीं गुजरात दंगों के बाद से उस राज्य में भारतीय जनता पार्टी जितनी सशक्त हुई है, उतनी पहले कभी नहीं थी, यह उसका आज़माया हुआ फ़ार्मूला है। आप समझें या न समझें सर्वोच्च न्यायालय जाने का मुंह मांगा वरदान उसे मिल गया है, अब वह फिर से नए जोश के साथ अपनी राजनीतिक शक्ति को एकत्र कर सकती है और जो बाक़ी बचीं वो राजनीतिक पार्टियां भी समय आने पर अपने हिसाब से इसका राजनीतिक लाभ उठाऐंगी ही। अब रहा सवाल मुसलमानों का तो उन्हें तो सर्वोच्च न्यायालय जाना ही था, फ़ैसले में उनके अधिकार का हनन साफ़ दिखाई देता था, सर्वोच्च न्यायालय जाने में उन्हें कुछ तो आशा दिखाई देती ही होगी वरना अन्तिम पड़ाव तक प्रयास करने की शांति तो दिल को मिल ही जाएगी। इस दौरान हमारी क़ौम को कुछ और नेता मिल जाएंगे। अगर पिछले 18-20 वर्ष की परिस्थितियों पर नज़र डालें तो राजनीतिक दृष्टि से सक्रिय कई नेता वही हैं, जिन्हें बाबरी मस्जिद विवाद ने जन्म दिया है। यह सिलसिला आगे बढ़ेगा तो हमें कुछ और मुस्लिम राजनीतिज्ञ मिलने के हालात और संभावना पैदा होंगी। अब रहा प्रश्न कि इससे हिन्दू या मुस्लिम जनता का क्या फ़ायदा होगा और क्या नुक़्सान, तो इस बात को जाने दीजिए, इस दिशा में सोचने का हमारे नेताओं को समय ही कहां है। हां जो एक बात कहने के लिए यह पूरा लेख लिखने की आवश्यकता पेश आई, वह यह है कि इस देश की धमनिर्पेक्षता हमारी आवश्यकता है, उनकी नहीं जिन्होंने 1901 में हिंदू महासभा गठित की थी और जो इसके लिए लगातार सक्रिय हैं। अगर हम अपने देश के लोकतंत्र को जीवित रखने, क़ायम रखने के लिए प्रयत्नशील हैं तो हम किसी पर एहसान नहीं कर रहे हैं, इस सच्चाई को हमें समझना होगा। एहसान तो हम पर वह धर्मनिर्पेक्ष हिंदू कर रहे हैं जो हर क़दम पर हमारे साथ खड़े दिखाई देते हैं और इस देश को धर्मनिर्पेक्ष बनाए रखने के लिए कंधे से कंधा मिलाकर हमारे साथ हैं। संविधान का हवाला मत दीजिए, हक़ीक़त की ज़मीन पर क़दम रख कर बात कीजिए और समझने की कोशिश कीजिए। अब हमें यह सोचना होगा कि जिस प्रकार हमने देश को ग़्ाुलामी से छुटकारा दिलाने के लिए संघर्ष किया, क्या उसी तरह हम देश की धर्मनिर्पेक्षता को जीवित रखने का संघर्ष करने को तैयार हैं। जिस प्रकार हमने देश को आज़ादी दिलाने के लिए क़ुरबानियां पेश कीं, क्या आज देश की धर्मनिर्पेक्षता को बनाए रखने के लिए बलिदान देने को तैयार हैं? यदि नहीं तो रास्ता क्या है? यह भी सोच लीजिए आज जो हमारे साथ हैं, कल उनकी भी सोच नहीं बदलेगी। इस विश्वास की बुनियाद क्या है? आपने देखा नहीं, जैसे जैसे उर्दू कमज़ोर होती जाती है, लोकतंत्र भी कम़ज़ोर होता जाता है। उर्दू पत्रकार हूं इसलिए नहीं लिख रहा हूँ, किसी भी तजुर्बे की कसौटी पर इस वाक्य को परख कर देखें, देश की धर्मनिर्पेक्षता को बचाए रखने के लिए वही लोग आपको अपने साथ पेश-पेश नज़र आते होंगे, जिन्होंने उर्दू भाषा का दामन अभी छोड़ा नहीं है, क्या कल उनकी आने वाली पीढ़ियंा भी इसी प्रकार धर्मनिर्पेक्षता की अलमबरदार बन पाएंगी, आज हमें यह सोचना होगा। हमें इस समय ध्यान रखना है तो केवल दो बातों का, एक वह जिनकी आग उगलने वाली ज़बान से अक्सर शब्दों के बम निकलते हैं। वह कभी भी हमारी क़ौम के लिए नए ख़तरों को निमंत्रण दे सकते हैं और उनसे भी जो डंके की चोट पर हर हालत में अब फिर राम मंदिर बनाने की घोषणा करते हुए अपनी योजनाओं को अमली जामा पहनाने की दिशा में आगे बढ़ते नज़र आरहे हैं। यक़ीनन यह समाचार आपकी नज़र से गुज़रा होगा कि
‘‘अपनी रणनीति में सफल रही विश्व हिंदू परिषद’’
यह समाचार दिल्ली से प्रकाशित होने वाले हिंदी ‘‘दैनिक जागरण’’ में दिनांक 23 अक्तूबर 2010 के अंक में पृष्ठ नं 5 पर पहले समाचार के रूप में प्रमुखता से प्रकाशित किया गया है, जिसमें स्पष्ट शब्दों में लिखा है कि अयोध्या विवाद पर हाईकोर्ट का फ़ैसला आने के बाद से चुप्पी साधने वाली विश्व हिंदू परिषद ने संतों का बहाना लेकर ही राम मंदिर आंदोलन पर कमज़ोर होती जा रही पकड़ को फिर से मज़बूत बनाने में सफलता प्राप्त कर ली है। विवादित भूमि के बटवारे के हाईकोर्ट के फ़ैसले को राम लला के सखा के द्वारा सर्वोच्च न्यायालय में चैंलेंज करने का प्रस्ताव संतों के उच्च स्तरीय संगठन से मुहर लगवाकर विश्व ंिहंदू परिषद ने न्यायायिक युद्ध की कमान परदे के पीछे ही सही अपने हाथों में लेने में सफलता प्राप्त कर ली है। अयोध्या के कारसेवकपुरम में 20 अक्तूबर को हुई संतों की समिति ने मीटिंग की और उसके अगले ही दिन हुई स्थानीय संतों की सभा। राम मंदिर आंदोलन विश्व हिंदू परिषद के लिए राजनीतिक दृष्टि से महत्वपूर्ण है। संतों की इस उच्च स्तरीय समिति द्वारा विश्व हिंदू परिषद ने एक तीर से कई निशाने साधने का प्रयास किया है। न्यायालय के फ़ैसले के बाद विवाद का हल करने के प्रयासों से किनारा करते हुए विश्व हिंदू परिषद ने एक ओर उच्च न्यायालय के फ़ैसले को सर्वोच्च न्यायालय में चुनौती देने के प्रस्ताव पर संतों की मुहर लगाने में सफलता पाई। राम लला के सखा के रूप में केस दायर करने वाले जस्टिस देवकी नंदन अग्रवाल विश्व हिंदू परिषद के उपाध्यक्ष रहे हैं। अयोध्या विवाद में उनका स्थान लेने वाले त्रिलोकी नाथ पांडे भी विश्व हिंदू परिषद तथा आरएसएस के सदस्य हैं।’’
इसके साथ ही एक दूसरा समाचार भी इसी पृष्ठ पर प्रकाशित किया गया है जिसका शीर्षक है संघ ने भरी मंदिर निर्माण की हुंकार।’’
यह सब वही होता नज़र आ रहा है जिसका इशारा हमने 30 सितम्बर को इलाहाबाद उच्च न्यायालय का फ़ैसला आने के बाद अपने पहले ही लेख में कर दिया था। जानते थे कि हमारी इस सोच को आलोचना का सामना करना होगा, परंतु सामने रखना इसलिए आवश्यक लगा कि निःसंदेह यह विचार रद्द कर दिया जाए, परंतु ज़हनों मंें दर्ज तो कर लिया जाए ताकि इतिहास गवाह रहे कि कभी मुसलामानाने हिंद ह्न माज़्ाी, हाल और मुस्तक़बिल, कभी ‘‘दास्तान-ए-हिंद ह्न माज़्ाी हाल और मुस्तक़बिल’’ और कभी आज़ाद भारत का इतिहास शीर्षक से लगातार हक़ और इंसाफ़ की जंग लड़ने वाले क़लम ने इस अत्यंत गंभीर विषय से नज़रें नहीं चुराईं और प्रशंसा के आलोचना में बदल जाने के भय ने भी उसे वह सब लिखने से नहीं रोका, क्योंकि उसे इस वक़्त इन हालात में यह सब लिखना भी उतना ही महत्वपूर्ण लगता था, जितना कि जब आतंकवाद के विरुद्ध जंग लड़ने का संकल्प किया था और मुसलमानों के दामन से देश के विभाजन का दाग़ मिटाने का प्रयास किया या आतंकवादी होने का कलंक अपने माथे पर लिए बेगुनाह नौजवानों की रिहाई का संकल्प लेकर इन्हीं लेखों के माध्यम से तहरीक चलाई थी। बहरहाल वह तहरीक तो आईंदा भी इंशाअल्लाह इसी तरह जारी रहेगी, मगर इस समय आवश्यक है वर्तमान स्थिति को सामने रखना और समझना भी।
........................................

Saturday, October 23, 2010

کیا کافی ہے بس اتمام حجت…؟

عزیز برنی

یہ حقیقت انتہائی تلخ ہے اور اسے برداشت کرنا زہر کا گھونٹ پینے کے مترادف ہی، مگر کیا حقیقت سے نظریں چرالینا ہماری دانشمندی ہوگی؟یقینا نہیں۔ ہاں، یہ ممکن ہے کہ ہم جیسے ایک معمولی صحافی سے حقیقت کو سمجھنے میں غلطی ہوجائی، ہمارا مشاہدہ لفظ بہ لفظ درست نہ ہو، مگر اس پر غوروفکر تو کیا جاسکتا ہے اور کیا بھی جانا چاہئی، کیونکہ ایسا بھی نہیں ہے کہ جو کچھ ہم گزشتہ 63برسوں میں دیکھتے اور محسوس کرتے چلے آرہے ہیں، اس کی روشنی میں سچائی کو سمجھنا ناممکن ہو۔ ہم سمجھتے رہے یا ہمیں سمجھایا جاتا رہا کہ تقسیم وطن کے لئے مسلمان ذمہ دار ہیں۔ یہ سچ نہیں تھا، مگر حالات ہی ایسے نہیں تھے کہ ہم اس الزام کی رد میں ببانگ دہل کچھ کہہ پاتی۔ ہم جو یہاں اپنے ملک ہندوستان میں رہ گئی، وہ سب کے سب انتہائی غمزدہ حالت میں تھی۔ کسی کا بھائی اس سے بچھڑ گیا تو کوئی لاوارث اور یتیم کی طرح اپنے ہی گھر میں ایک اجنبی اور ٹھکرائے ہوئے شخص کی مانند رہ گیا۔ جنہوں نے اپنے عزیزوں کو قتل و غارتگری کی نذر ہوتے ہوئے دیکھا تھا، وہ بھوکے پیاسے رو رو کر بے حال اپنی اشک بار آنکھوں کو لے کر کہاں جاتی، کس سے فریاد کرتے اور کون ان کی سنتا کہ اس بٹوارے میں ان کا کوئی رول نہیں ہی۔ قیادت کے نام پر مسلمانوں کے پاس کچھ بھی نہیں رہنے دیا جائے گا، سوائے چند نمائشی چہروں کی، یہ تو اسی وقت طے کرلیا گیا تھا جب ہندوستان انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑرہا تھا، وہ جو انگریزوں کے نزدیک تھی، جنہوں نے انگریزوں کی غلامی کے پروانے پر دستخط کئے تھی، جنہوں نے انگریزوں کی شان میں قصیدے پڑھے تھی، ملک سے جاتے جاتے اپنے ایسے مریدوں کو انگریز حکمراں حکومت کا یہ راز سمجھا کر گئے کہ اگر ہمیں یہ ملک چھوڑنا ہی پڑا تو تم اس ملک پر حکومت کس طرح کر سکتے ہو۔ جس قوم نے ان کے تلوے اکھاڑ دئی، یقینا ان کے نشانے پر وہی قوم تھی اور وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر مستقبل میں پھر کبھی اس ملک پر حکومت کرنے کی تمنا پیدا ہوئی تو رکاوٹ بھی اسی قوم کی جانب سے کھڑی کی جائے گی، لہٰذا کوئی قدآور مسلم لیڈر ہندوستان میں نہ رہنے پائی، اسی حکمت عملی کے پیش نظر Divide & Rule ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے فارمولہ کے تحت مسلمانوں کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا اور ہم اسے محض زمین کا بٹوارہ سمجھتے رہی، اس لئے کہ یہی تو ہم کو سمجھایا گیا تھا، پھر اس کے بعد سے ہم مسلسل سازشوں کا شکار ہوتے رہی۔ آج بھی سازشوں کا شکار ہیں اور کل کوئی سازش جاری نہیں رہے گی، اس کا کوئی امکان بھی نہیں ہی۔ جس قوم نے اس ملک پر تقریباً چارسو برس حکومت کی، 190برس تک ملک کی آزادی کی کامیاب جنگیں لڑیں، آج وہ ذہنی اعتبار سے اور ایک حد تک جسمانی اعتبار سے بھی، اپنے ہی ملک میں غلاموں جیسی حالت میں ہی، مگر وہ یہ سمجھ ہی نہیں رہی ہی۔ شاید اسے ان دلتوں کی زندگی سے سبق حاصل کرنے کا شعور مستقبل شناس بھی نہیں ہی، جو ہزاروں برسوں تک منووادی نظام کے تحت غلامی سے بدتر زندگی بسر کرتے رہے تھی، مگر ایک ذی شعور شخص بابابھیم راؤ امبیڈکر کی شکل میں منظرعام پر آیا، جس نے اس قوم کی تقدیر بدلنے کا عزم کیا۔ نتیجہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہی۔
جس وقت ایک قوم زمین کے بٹوارے کے خد و خال طے کرنے میں مصروف تھی، ایک مخصوص ذہنیت ملک کو ہندوراشٹر بنانے کے فارمولہ پر عمل پیرا تھی، وہیں وہ شخص اس سب کو نظرانداز کرتے ہوئے ملک کی آئین سازی میں مصروف تھا، اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ اگر ایک دبی کچلی، پچھڑی، قدم قدم پر ذلیل و خوار کی جانے والی قوم کو پستی کے دائرے سے باہر نکالنا ہی، اس کے دل و دماغ میں بس گئی احساس کمتری کو ختم کرنا ہے اورقدم قدم پر اس کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کے سلسلہ کو روکنا ہے تو اس کے لئے انصاف کا ایسا راستہ نکالنا ہوگا کہ اگر کوئی اسے حقیر نگاہوں سے دیکھنے کی جرأت بھی کررہا ہو، اسے اپنے سے کمتر ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہو تو وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آئی۔ آج کوئی ہمت تو کرے دلتوں کے لئے وہ الفاظ استعمال کرنے کی، جو آزادی سے قبل کئے جاتے رہی، نتیجہ سامنے آجائے گا۔ دلتوں کو تو شاید کبھی یہ احساس ہی نہیں تھا کہ ان کے ووٹ کی بھی کوئی حیثیت ہوسکتی ہی۔ وہ بھی سیاسی نظام کے حصہ دار ہوسکتے ہیں، اقتدار حاصل کرنے کی بات تو دور، کسی کو اقتدار میں لانے یا اقتدار سے بے دخل کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں، مگر اس ایک شخص کی حکمت عملی نے یہ ثابت کردیا کہ آنے والے کل میں نہ صرف یہ کہ اس قوم کی اقتدار میں حصہ داری ہوگی، بلکہ عنقریب وہ برسراقتدار بھی ہوگی۔ آج ملک کی سب سے بڑی ریاست کی وزیراعلیٰ اسی طبقہ سے ہیں اور اس کے لئے بابابھیم راؤ امبیڈکر کی دی ہوئی روشنی کے علاوہ کسی کی مرہون منت بھی نہیں ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک دلت خاتون کولوک سبھا کی اسپیکر بننے کا موقع ملا، یعنی پارلیمنٹ کی سب سے اونچی کرسی بھی ایک دلت خاتون کے پاس ہی۔ یہ تھا کمال اس سیاسی حکمت عملی کا، جس نے ایسا کرشمہ کردکھایا، جو شاید قیاس سے بھی بہت دور تھا اور اب دوسرا کرشمہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہی، جس پر شاید ہم نے اس طرح توجہ دی ہی نہیں ہی، جس طرح کہ دی جانی چاہئے تھی اور ہمیں شاید یہ احساس بھی نہیں ہے کہ وہ جو کبھی اس ملک پر حاکم ہوا کرتے تھی، آج جسٹس راجندر سچر کی تحقیق کی روشنی میں دلتوں سے بھی بدتر حالت میں پہنچ گئے ہیں۔ آپ نے کبھی غور کیا ہے اس حقیقت پر کہ ہماری عملی حیثیت کیا ہی۔ ہمارے لئے اپنے ملک میں کون کون سے پیشوں کو اپنانا ہماری مجبوری بن گئی ہی، اس لئے کہ سرکاری عہدوں سے دور کر دئے گئے ہیں۔ سیاست سے بے دخل کرنے کی منصوبہ بند کوششیں روزاوّل سے ہی شروع کردی گئی تھی اور تعلیم کی راہیں بھی اس قدردشوار بنادی گئی ہیں کہ پڑھنا ہے تو سوجوکھم اٹھانے کے لئے تیار رہنا ہوگا، لہٰذاہمارے پاس صرف وہی پیشے رہ گئے ہیں، جن کے ذریعہ ہم اپنے بچوں کا پیٹ تو بھر سکتے ہیں، مگر درحقیقت یہ پیشے دوسروں کی خدمت کے سوا اورکچھ بھی نہیں ہیں۔ راج مزدور، لوہار، بڑھئی، سبزی فروش، گوشت فروش، تھوڑا اور عزت و احترام کے الفاظ میں ڈھال کر کہیں تو دستکار، فنکار، یعنی ہم دوسروں کی زندگی کے عیش و آرام کی زندگی اور ضرورت کا سامان بن کر رہ گئے ہیں۔ کیا ہم نظام حکمرانی کا حصہ ہیں، کیاہمارے پاس وہ سیاسی سماجی اقتصادی طاقت ہی، جوعدالتوں سے ہمیں انصاف دلاسکی، وہ بے گناہ جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے موت سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں، انہیں انصاف دلاسکی۔ ہر روز اپنے دامن پر لگنے والے داغوں سے بچا سکی، ہم سیاسی طاقت بھی ہوں اور حق و انصاف کس طرح حاصل کیا جاتا ہی، یہ ہنربھی جانتے ہوں، کیا اس سب کے لئے کوئی حکمت عملی ہے ہمارے پاس۔ ہم کل کی تو سوچتے نہیں، 100برس بعد کی کیا سوچیں گی۔ ہم توبس اپنی اس حالت زار کے لئے تو کسی کو موردالزام ٹھہراسکتے ہیں یا خدا سے دعا کرسکتے ہیں کہ ہمارے حال پر رحم کری۔ ہمیں خود بھی کچھ کرنا ہی، کچھ ایسا کہ جسے ہم موردالزام ٹھہرا رہے ہیں، اس پر الزام ثابت ہوجائے اور ہمیں انصاف مل جائے یا ہماری دعائوں میں وہ اثر پیدا ہوجائے کہ خدا مانگنے سے پہلے ہی ہماری مراد پوری کردی۔ کیا اس سمت میں سوچتے ہیں ہم؟ کیا اپنے اعمال کا جائزہ لیتے ہیں ہم؟ ہزاروں لاکھوں برس قبل شری رام کا جنم ہوا تھا بابری مسجد کی درمیانی گنبد کے نیچی، عدالت میں یہ ثابت ہوگیا اور محض اٹھارہ برس قبل مسجد کی شکل میں شہید کردی گئی مسجد، مسجد ثابت نہیں ہوسکی۔ 7دسمبر 1992کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، پہلے صفحہ کی سرخیوں میں درج یہی ہے کہ بابری مسجد کو بچایا نہیں جاسکا، مگر ہم عدالت میں یہ ثابت نہیں کرسکی۔ 1949میں 23-24دسمبر کی آدھی رات کو چوری چھپے مورتیاں رکھی گئی تھیں، یعنی اس سے قبل مورتیوں کا وجود نہیں تھا اور وہاں عبادت ہوتی تھی، پوجا نہیں، ہم یہ ثابت نہیں کرسکی۔ اگر وہ جگہ متنازع تھی، مسجد نہیں تھی اور دونوں فرقے اسے متنازع مانتے تھی، دونوں ہی اس پر اپنی دعویداری جتا رہے تھے تو پھر 6دسمبر992کو مسجد شہید کرنے والے لاکھوں لوگوں میں صرف ایک ہی فرقہ کے لوگ کیوں تھی؟ اور اگر وہ مسجد نہیں تھی تو مسمار کیوں کی گئی؟ ہم عدالت میں یہ ثابت نہیں کرسکی۔
Tاگر وہ جگہ متنازع تھی، یعنی نہ تو یہ ثابت ہوپارہا تھا کہ وہ مسجد تھی اور اس پر مسلمانوں کا حق ہونا چاہئے اور نہ ہی یہ ثابت ہوپارہا تھا کہ وہاں شری رام کا جنم ہوا تھا اور وہ ایک مندر تھا اور عدالت کو یہ طے کرنے کے لئے حقائق اور شواہد کی ضرورت تھی، جس کے لئے ایک لمبا وقت درکار تھا اور اس وقت تک کے لئے جب تک کہ یہ طے نہ کرلیا جائے کہ اس متنازع مقام کی اصلیت کیا ہے اس وقت تک کے لئے اسے متنازع قرار دے کر اسے اسی شکل میں رہنے دینے کا فیصلہ کیا گیا، لہٰذا اب انصاف کا تقاضہ کیا ہی، آخری فیصلہ آنے تک اس کی شکل کیا ہونی چاہئی، کیا رہنی چاہئی، وہ جو 5دسمبر992سے پہلے تھی یا وہ جودسمبر992کے بعد تھی۔ اگر متنازع بھی تسلیم کرلیا جائے تو پھر اس وقت تک جب تک کہ آخری فیصلہ نہ ہو، اس جگہ کو 5دسمبر992کی صورت میں ہونا چاہئے تھا۔ اس سے قبل بھی جب بابری مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچا تو انگریز حاکم کے ذریعہ اس کی مرمت کرائی گئی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس بار بھی کم ازکم انگریزی حکومت جیسے انصاف سے تو کام لیا جاتا اور پھر اسے 5دسمبر992کی شکل دے کر عدالت میں مقدمہ چلایا جاتا، پھر جو ثابت ہوجاتا اسے عملی جامہ پہنایا جاتا۔ اگر وہ مسجد نہیں تھی تو پھر لبراہن کمیشن قائم کرنے کی وجہ؟ آج بھی متواتر مسجد شہید کرنے والوں کو مجرم قرار دینے کی وجہ؟ اگر وجہ معقول ہے تو ماننا ہوگا کہ 6دسمبر992کو جو کچھ ہوا، وہ ایک جرم تھا، جس کی سزا مجرموں کو ملنی چاہئے اور وہ جرم یعنی بابری مسجد کی عمارت کو شہید کرنا تھا اور اس حقیقت کے باوجود بھی، جو اسے متنازع قرار دینا چاہیں وہ اسے متنازع بھی کہہ سکتے ہیں، مگر مسجد کو شہید کرنا ایک جرم تھا اور یہ آج بھی تسلیم کیا جاتا ہی، اس پر کوئی تنازع نہیں تو پھر عدالت میں یہ کیوں نہیں ثابت کیا گیا کہ متنازع ہی سہی اسے پہلے 5دسمبر992کی شکل تو دی جائی، پھر مقدمہ جاری رہے اور اگر یہ نہیں ہوسکتا تو پھر جب تک متنازع ہی، دونوں فرقوں کے حقوق یکساں ہوں۔ رام جنم ماشٹمی پر پوری شان و شوکت کے ساتھ پوجا بھی ہو اور عیدبقرعید کی نماز بھی اسی شان سے ہو۔ جگہ متنازع اور عبادت کا حق صرف ایک کو، کیا ہمارے وکیلوں نے اپنی جرح کے دوران عدالت کے سامنے یہ بات رکھی؟ ہم سپریم کورٹ میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جانا بھی چاہئی، مایوسی کفر ہی۔ ہمیں اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھنا چاہئی، مگر اس سب کے لئے ہمیں خود بھی کچھ کرنا چاہئی، کیا یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہی۔ اپنے ملک کے ایک انتہائی قابل وکیل سے گفتگو کے دوران مجھے یہ سننے کو ملا کہ ہر پیشی پر ان کی طرف سے وکیلوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی تھی اور وہ سب کے سب انتہائی قدآور ہوتے تھی، جبکہ ان کے مقابلہ ہمارے پاس وہی ایک دو نام، جن کا تذکرہ ہم برابر کرتے رہے ہیں۔ نہیں انہیں موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ان کی اہلیت یا جستجو پر سوالیہ نشان نہیں لگایا جاسکتا، یہ تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ایک طرف اکھاڑے میں 15-20 یا اس سے بھی زیادہ طاقتور پیش ور پہلوان ہوں اور دوسری طرف ہماری طرف سے صرف ایک شخص، پھر بھی ہم یہ امید کریں کہ ہر حالت میں جیت ہماری ہی ہوگی، کیا ہماری یہ توقعات بہت زیادہ نہیں ہیں۔ اب ہم سپریم کورٹ میں جارہے ہیں، کس تیاری کے ساتھ؟ کیا اس بار ہم نے ہائی کورٹ سے بہتر تیاری کرلی ہی؟ ہم ہر طرح سے ٹکڑوں میں بٹے ہیں۔ نظریاتی اعتبار سے بھی، عملی اعتبار سے بھی۔ ہماری لڑائی کون لڑرہا ہی، ہمیں نہیں معلوم۔ وہ لڑائی کس کے بھروسہ اور کس طاقت کے ساتھ لڑرہا ہی، ہمیں نہیں معلوم۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ سنی سینٹرل وقف بورڈ ہمارا پیروکار ہے اور ہاشم انصاری بھی مقدمہ لڑرہے ہیں۔ ہاشم انصاری کہاں رہتے ہیں، کن لوگوں کے درمیان، کتنے وسائل ہیں ان کے پاس، کیا عمر ہے ان کی، کتنے لوگ ہر قدم پر ان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں، کبھی سوچا ہے ہم نی؟ سنی سینٹرل وقف بورڈ یہ ادارہ کس کے ماتحت ہی، اس کا دائرہ کار کیا ہی، اس کے پاس وسائل کتنے ہیں، کیا یہ ان تمام طاقتوں کے خلاف تنہا کھڑا ہونے کی حیثیت میں ہی، جو ہر حالت میں وہاں رام مندر بنانے کا عزم کئے ہوئے ہیں اور اس کے لئے بین الاقوامی سطح پر تمام طرح کی تیاریوں سے لیس ہیں۔ ایک تنظیم مسلم پرسنل لاء بورڈ جسے حکومت یا شاید عام مسلمان، مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم سمجھتا ہی۔ شاید جس کو فیصلہ لینے کا حق حاصل ہی، اس کے کل ممبران کی کل تعداد کتنی ہی، یہ ممبران کون کون ہیں، ان کی مذہبی،سیاسی یا سماجی شناخت کیا ہی، کیا ملک کا 20کروڑ مسلمان اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے ان نمائندہ افراد کو جانتا ہی؟ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آج یہ نمائندہ تنظیم اس معاملہ میں ملک کے موجودہ 20کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کا ہی فیصلہ نہیں کررہی ہی، بلکہ ان کی آنے والی نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ بھی اس کے ہاتھ میں نظر آتا ہے اور یہ عظیم شخصیتیں کون کون ہیں، گزشتہ ایک ہفتہ کی لمبی جدوجہد کے باوجود سب کی تفصیلات تو کیا نام تک دستیاب نہیں ہوسکی، جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس نازک موقع پر اس نمائندہ جماعت کے تمام ممبران ہی نہیں، بلکہ قوم کے وہ دیگر نمائندہ حضرات بھی اس فیصلہ میں شامل ہوتی، ان کے ساتھ قابل وکیلوں کی ایک پوری ٹیم ہوتی، سب مل کر فیصلہ کرتے کہ اب اگلا قدم کیا ہو۔ اگر ہمارے ذہن میں صرف اتنا ہے کہ ہمیں تو بس حجت تمام کرنا ہی، پھر فیصلہ چاہے جو بھی ہو تو شاید ہمیں اس سوچ پر پھر سے غور کرنے کی ضرورت ہی۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ جتنی ناقص تیاری ہمارے پاس تھی، اس کے لحاظ سے جو فیصلہ آیا وہ انصاف پر مبنی نہ ہوتے ہوئے بھی بہتر تھا۔ ہم نے اسی لئے بارہا یہ لکھا کہ بیشک ہماری رائے رد کردی جائی، مگر درج کرلی جائی، اس لئے کہ ایسی ہی تیاری سپریم کورٹ میں ہمیں کتنی کامیابیوں سے ہمکنار کرائے گی، اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہی۔
………………

क्या काफी है बस इतमाम-ए-हुज्जत...?
अज़ीज़ बर्नी

यह सच्चाई अत्यंत कड़वी है और इसे स्वीकार करना ज़हर का घूंट पीने के बराबर है, परंतु क्या सच्चाई से नज़रें चुरा लेना हमारी बुद्धिमत्ता होगी? यक़ीनन नहीं। हां, यह संभव है कि हम जैसे एक साधारण पत्रकार से हक़ीक़त को समझने में भूल हो जाए, हमारा अनुभव लफ़़्ज़ ब लफ़्ज़ दुरुस्त न हो, परंतु इस पर विचार तो किया जा सकता है और किया भी जाना चाहिए क्योंकि ऐसा भी नहीं है कि जो कुछ हम पिछले 63 वर्षों में देखते और महसूस करते चले आ रहे हैं, उसकी रौशनी में सच्चाई को समझना असंभव हो। हम समझते रहे या हमें समझाया जाता रहा कि देश के विभाजन के लिए मुसलमान ज़िम्मेदार हैं। यह सच नहीं था, परंतु परिस्थितियां ही ऐसी नहीं थीं कि हम इस आरोप के खंडन में डंके की चोट पर कुछ कह पाते। हम जो यहां अपने देश भारत में रह गए, वह सबके सब अत्यंत शोक की अवस्था में थे। किसी का भाई उससे बिछड़ गया तो कोई लावारिस और यतीम की तरह अपने ही घर में एक अजनबी और एक ठुकराए हुए व्यक्ति की तरह रह गया। जिन्होंने अपने प्रियजनों को हत्या तथा लूटमार की भेंट चढ़ते हुए देखा था, वह भूखे प्यासे रो-रो कर बेहाल अपनी आंसू भरी आंखों को लेकर कहां जाते, किससे फ़रियाद करते और कौन उनकी सुनता कि इस बटवारे में उनकी कोई भूमिका नहीं है। नेतृत्व के नाम पर मुसलमानों के पास कुछ भी नहीं रहने दिया जाएगा सिवाए कुछ नुमाइशी चेहरों के, यह तो उसी समय तय कर लिया गया था जब भारत अंग्रेज़ों के विरुद्ध स्वतंत्रता की लड़ाई लड़ रहा था, वह जो अंग्रेज़ों के निकट थे, जिन्होंने अंग्रेज़ों की ग़्ाुलामी के परवाने पर हस्ताक्षर किए थे, जिन्होंने अंग्रेज़ों के गुणगान किए थे, देश से जाते-जाते अपने ऐसे अनुयायियों को अंग्रेज़ शासक शासन का यह रहस्य समझा कर गए कि अगर हमें यह देश छोड़ना ही पड़ा तो तुम इस देश पर शासन किस तरह कर सकते हो। जिस क़ौम ने उनके पैर उखाड़ दिए, निश्चय ही उनके निशाने पर वही क़ौम थी और वह यह भी अच्छी तरह जानते थे कि अगर भविष्य में फिर कभी इस देश पर शासन करने की इच्छा पैदा हुई तो रुकावट भी इसी क़ौम की ओर से खड़ी की जाएगी, इसीलिए कोई दिग्गज मुस्लिम नेता भारत में न रहने पाए, इसी रणनीति के मद्दे नज़र क्पअपकम - त्नसम ‘फूट डालो और राज करो’ के फ़ारमूले के तहत मुसलमानों को दो टुकड़ों में बांट दिया गया और हम केवल इसे भूमि का बटवारा समझते रहे इसलिए कि यही तो हमें समझाया गया था। फिर इसके बाद हम लगातार षड़यंत्रों का शिकार होते रहे, आज भी षड़यंत्रों का शिकार हैं और कल कोई षड़यंत्र जारी नहीं रहेगा, इसकी कोई संभावना भी नहीं है। जिस क़ौम ने इस देश पर लगभग 400 वर्ष शासन किया 190 वर्ष तक देश की आज़ादी की कामयाब जंगें लड़ीं, आज वह मानसिक रूप से और एक हद तक शारीरिक रूप से भी, अपने ही देश में ग़्ाुलामों जैसी स्थिति में है, परंतु वह यह समझ ही नहीं रही है, शायद उसे उन दलितों के जीवन से सीख हासिल करने की इच्छा शक्ति भी नहीं है, जो हज़ारों वर्षों तक मनुवादी व्यवस्था के तहत ग़्ाुलामी से बदतर जीवन बिता रहे थे, परंतु एक बुद्धिमान और भविष्य पर नज़र रखने वाला व्यक्ति बाबा भीमराव अम्बेडकर के रूप में सामने आया, जिसने उस क़ौम के भाग्य बदलने का निश्चय किया। परिणाम आज हमारी आंखों के सामने है।
जिस समय एक क़ौम भूमि के बटवारे की रूपरेखा तय करने में व्यस्त थी, एक विशेष मानसिकता देश को हिंदू राष्ट्र बनाने के फ़ारमूले पर काम कर रही थी, वहीं वह व्यक्ति उन सबकी अनदेखी करते हुए देश का संविधान बनाने में लगा था। इसलिए कि वह जानता था कि वह एक दबी कुचली, पिछड़ी, क़दम क़दम पर अपमानित की जाने वाली क़ौम को पिछड़ेपन के दायरे से बाहर निकालना है, उसके मन तथा मस्तिष्क में बस गई हीनभावना को समाप्त करना है और क़दम क़दम पर उसके साथ किए जाने वाले अन्यायों के सिलसिले को रोकना है तो, उसके लिए न्याय का ऐसा रास्ता निकालना होगा कि अगर कोई उसे हीन दृष्टि से देखने का साहस भी कर रहा हो, उससे अपने से छोटा और नीच जाति का सिद्ध करने का प्रयास कर रहा हो तो वह जेल की सलाख़ों के पीछे नज़र आए। आज कोई साहस तो करे दलितों के लिए वह शब्द प्रयोग करने का, जो स्वतंत्रता पूर्व किए जाते रहे, परिणाम सामने आ जाएगा। दलितों को तो शायद यह कभी एहसास ही नहीं था कि उनके वोट का कोई महत्व हो सकता है। वह भी राजनीतिक व्यवस्था के भागीदार हो सकते हैं, सत्ता प्राप्त करने की बात तो दूर, किसी को सत्ता में लाने या सत्ता से बेदख़ल करने की क्षमता भी रखते हैं, परंतु उस एक व्यक्ति की रणनीति ने यह सिद्ध कर दिया कि आने वाले कल में न केवल यह कि इस क़ौम की सत्ता में भागीदारी होगी बल्कि निकट भविष्य में वह सत्ता में भी होगी। आज देश के सबसे बड़े राज्य के मुख्यमंत्री उसी समुदाय से हैं और उसके लिए बाबा भीम राव अम्बेडकर की दी हुई रौशनी के अलावा किसी की आभारी भी नहीं हैं। भारत के इतिहास में पहली बार एक दलित महिला को लोकसभा अध्यक्ष बनने का अवसर मिला, अर्थात पार्लियमिंट की सबसे ऊंची कुर्सी भी एक दलित महिला के पास है। यह था कमाल उस राजनीतिक रणनीति का जिसने ऐसा चमत्कार दिखाया जो शायद अनुमान से भी बहुत दूर था और अब दूसरा चमत्कार भी हमारी आंखों के सामने है, जिस पर शायद हमने इस तरह ध्यान दिया ही नहीं है जिस तरह की दिया जाना चाहिए था और हमें शायद यह एहसास भी नहीं है कि वह जो कभी इस देश पर शासक हुआ करते थे, आज जस्टिस राजेंद्र सच्चर के अध्ययन की रौशनी में दलितों से भी बदतर स्थिति में पहुंच गए हैं। आपने कभी विचार किया है कि इस हक़ीक़त पर कि हमारी व्यवहारिक स्थिति क्या है। हमारे लिए अपने देश में कौन-कौन से पेशों को अपनाना हमारी मजबूरी बन गई है, इसलिए कि सरकारी पदों से दूर कर दिए गए हैं, राजनीति से बेदख़ल करने के योजनाबद्ध प्रयास पहले दिन से ही आरंभ कर दिए गए थे और शिक्षा के मार्ग भी इतने कठिन बना दिए गए हैं कि पढ़ना है तो सौ जोखम उठाने के लिए तैयार रहना होगा। इसलिए हमारे पास केवल वही व्यवसाय रह गए हैं, जिनके द्वारा हम अपने बच्चों का पेट तो भर सकते हैं, परंतु वास्तव में यह व्यवसाय दूसरों की सेवा के सिवा और कुछ भी नहीं है। राज-मज़दूर, लुहार, बढ़ई, सब्ज़ी फ़रोश, गोश्त फ़रोश, थोड़ा और सम्मानजनक शब्दों में ढाल कर कहें तो हस्तकला, शिल्पीकला अर्थात हम दूसरों के जीवन के ऐशो-आराम और ज़रूरत का सामान बन कर रह गए हैं। क्या हम शासन व्यवस्था का भाग हैं, क्या हमारे पास वह राजनीतिक सामाजिक, आर्थिक शक्ति है, जो न्यायालयों से हमें न्याय दिला सके, वह बेगुनाह जो जेल की सलाख़ों के पीछे मृत्यु से बदतर जीवन बिता रहे हैं, उन्हें न्याय दिला सकें। हर दिन अपने दामन पर लगने वाले दाग़ों से बचा सकें, हम राजनीतिक शक्ति भी हों और अधिकार तथा न्याय किस तरह प्राप्त किया जाता है, यह हुनर भी जानते हों। क्या इस सबके लिए कोई रणनीति है हमारे पास। हम कल की तो सोचते नहीं 100 वर्ष बाद की क्या सोचेंगे। हम तो बस अपनी इस दयनीय स्थिति के लिए किसी को आरोपित ठहरा सकते हैं या ख़ुदा से दुआ कर सकते हैं कि हमारे हाल पर रहम करे। हमें स्वयं भी कुछ करना ह,ै कुछ ऐसा कि जिसे हम आरोप दे रहे हैं, उस पर आरोप सिद्ध हो जाए और हमें न्याय मिल जाए या हमारी दुआओं में वह असर पैदा हो जाए कि ख़ुदा मांगने से पहले ही हमारी मुराद पूरी कर दे। क्या इस दिशा में सोचते हैं हम? क्या अपने कार्यकलापों की समीक्षा करते हैं हम? हज़ारों लाखों वर्ष पूर्व श्री राम का जन्म हुआ था। बाबरी मस्जिद के मध्य गुंबद के नीचे, न्यायालय में यह सिद्ध हो गया और केवल 18 वर्ष पूर्व मस्जिद के रूप में शहीद कर दी गई मस्जिद, मस्जिद सिद्ध नहीं हो सकी। 7 दिसम्बर 1992 के समाचार पत्र उठाकर देख लें, प्रथम पृष्ठ की संर्ख़ियों में दर्ज यही है कि बाबरी मस्जिद को बचाया नहीं जा सका। परंतु हम न्यायालय में यह सिद्ध नहीं कर सके। 1949 में 23, 24 दिसम्बर की मध्य रात्रि में चोरी छुपे मूर्तियां रखी गई थीं। अर्थात इससे पूर्व मूर्तियांें का अस्तित्व नहीं था और वहां इबादत होती थी, पूजा नहीं, हम यह सिद्ध नहीं कर सके। अगर वह स्थान विवादित था, मस्जिद नहीं थी और दोनों समुदाय इसे विवादित मानते थे, दोनों ही इस पर अपनी दावेदारी जता रहे थे तो फिर 6 दिसम्बर 1992 को मस्जिद शहीद करने वाले लाखों लोगों में केवल एक ही समुदाय के लोग क्यों थे? और अगर वह मस्जिद नहीं थी तो ध्वस्त क्यों की गई? हम न्यायालय में यह सिद्ध नहीं कर सके।
अगर वह स्थान विवादित था, अर्थात न तो हो यह सिद्ध हो पा रहा था कि वह मस्जिद है और उस पर मुसलमानों का अधिकार होना चाहिए और न ही यह सिद्ध हो पा रहा था कि वहां श्री राम का जन्म हुआ था और वह एक मंदिर था तथा न्यायालय को यह तय करने के लिए तथ्यों तथा परमाणों की आवश्यकता थी, जिसके लिए एक लम्बा समय दरकार था और उस समय तक के लिए जब तक कि यह निश्चित न कर लिया जाए कि इस विवादित स्थल की असलियत क्या है उस समय तक के लिए उसे विवादित घोषित करके उसे उसी रूप में रहने देने का फ़ैसला किया गया, इसलिए अब इन्साफ़ का तक़ाज़ा क्या है, आख़िरी फ़ैसला आने तक उसकी स्थिति क्या होनी चाहिए, क्या रहनी चाहिए, वह जो 5 दिसम्बर 1992 से पूर्व थी या वह जो 7 दिसम्बर 1992 के बाद थी। अगर विवादित भी मान लिया जाए तो फिर उस समय तक जब तक अंतिम फैसला न हो उस स्थान को 5 दिसम्बर 1992 की स्थिति में होना चाहिए था। इससे पूर्व भी जब बाबरी मस्जिद की इमारत को क्षति पहुंची तो अंग्रेज़ शासक द्वारा उसकी मरम्मत कराई गई। होना तो यह चाहिए था कि इस बार भी कम से कम अंग्रेज़ी सरकार जैसे न्याय से तो काम लिया जाता और फिर उसे 5 दिसम्बर 1992 का रूप देकर न्यायालय में मुक़दमा चलाया जाता, फिर जो सिद्ध हो जाता उसे कार्यनवयन किया जाता। अगर वह मस्जिद नहीं थी तो फिर लिब्राहन कमीशन गठिन करने का कारण? आज भी लगातार मस्जिद शहीद करने वालों को अपराधी ठहराने का कारण? अगर कारण उचित है तो मानना होगा कि 6 दिसम्बर 1992 को जो कुछ हुआ, वह एक अपराध था, जिसकी सज़ा अपराधियों को मिलनी चाहिए और वह अपराध यानी बाबरी मस्जिद की इमारत को शहीद करना था और इस हक़ीक़त के बावजूद जो उसे विवादित ठहराना चाहें वह उसे विवादित भी कह सकते हैं, परंतु मस्जिद को शहीद करना एक अपराध था और यह आज भी स्वीकार किया जाता है, इस पर कोई विवाद नहीं तो फिर न्यायालय में यह क्यों नहीं सिद्ध किया गया कि विवादित ही सही उसे पहले 5 दिसम्बर 1992 का रूप तो दिया जाए, फिर मुक़दमा जारी रहे, और अगर यह नहीं हो सकता तो फिर जब तक विवादित है, दोनों समुदायों के अधिकार समान हों। राम जन्माष्टमी पर पूरी भवयता के साथ पूजा भी हो और ईद-बक़रईद की नमाज़ भी उसी शान से हो। स्थान विवादित और इबादत का अधिकार केवल एक को, क्या हमारे वकीलों ने अपनी जिरह के दौरान न्यायालय के सामने यह बात रखी? हम सर्वोच्च न्यायालय में जाने का इरादा रखते हैं। जाना भी चाहिए, निराशा कुफ्ऱ है। हमें अल्लाह की ज़ात पर भरोसा रखना चाहिए। परंतु इस सबके लिए हमें स्वयं भी कुछ करना चाहिए, क्या यह सोचने की भी आवश्यकता है, अपने देश के एक अत्यंत योग्य वकील से गुफ़्तगू के दौरान मुझे यह सुनने को मिला कि हर पेशी पर उनकी ओर से वकीलों की एक बड़ी तादाद होती थी और वह सबके सब बड़े दिग्गज होते थे, जबकि उनके मुक़ाबले हमारे पास वही एक दो नाम जिनकी चर्चा हम बराबर करते रहे हैं। नहीं उन्हें दोषी नहीं ठहराया जा सकता। उनकी योग्यता पर प्रश्न चिन्ह नहीं लगाया जा सकता, यह तो हमें सोचना होगा कि एक ओर अखाड़े में 15-20 या उससे भी अधिक बलवान पहलवान सामने हों और दूसरी ओर हमारी ओर से केवल एक व्यक्ति, फिर भी हम यह आशा करें कि हर हालत में जीत हमारी ही होगी। क्या हमारी यह अपेक्षाएं बहुत अधिक नहीं हैं। अब हम सर्वोच्च न्यायालय में जा रहे है,ं किस तैयारी के साथ? क्या इस बार हमने उच्च न्यायालय से बेहतर तैयारी कर ली है? हम हर तरह से टुकड़ों में बंटे हैं, वैचारिक दृष्टि से भी, व्यवहारिक दृष्टि से भी। हमारी लड़ाई कौन लड़ रहा है, हमें नहीं मालूम, वह लड़ाई किसके भरोसे और कितनी ताक़त के साथ लड़ रहा है हमें नहीं मालूम, हम केवल इतना जानते हैं कि सुन्नी सैंट्रल वक़्फ़ बोर्ड हमारा पैरोकार है और हाशिम अंसारी भी मुक़दमा लड़ रहे हैं। हाशिम अंसारी कहां रहते हैं, किन लोगों के बीच, कितने संसाधन हैं उनके पास, क्या आयु है उनकी, कितने लोग हर क़दम पर उनके साथ खड़े नज़र आते हैं, कभी सोचा है हमने? सुन्नीे सैंट्रल वक़्फ़ बोर्ड, यह संस्था किसके अधीन है, उसका कार्यक्षेत्र क्या है, उसके पास संसाधन कितने हैं, क्या यह उन तमाम ताक़तों के ख़िलाफ़ अकेला खड़ा होने की स्थिति में है, जो हर हालत में वहां राम मंदिर बनाने का संकल्प किए हुए हैं और उसके लिए अंतरराष्ट्रीय स्तर पर सभी प्रकार की तैयारियों से लेस हैं। एक संगठन मुस्लिम पर्सनल लाॅ बोर्ड जिसे सरकार या शायद मुसलमानों का प्रतिनिधि संगठन समझता है, शायद जिसको फ़ैसला लेने का अधिकार है उसके सदस्यों की कुल संख्या कितनी है, यह सदस्य कौन कौन हैं, उनकी धार्मिक, राजनीतिक या सामाजिक पहचान क्या है, क्या देश का 20 करोड़ मुसलमान अपने भविष्य का फ़ैसला करने वाले उन महापुरूषों को जानता है? बल्कि सच तो यह है कि आज यह प्रतिनिधि संगठन इस मामले में देश के वर्तमान 20 करोड़ मुसलमानों के भविष्य का ही फ़ैसला नहीं कर रही है बल्कि उनकी आने वाली पीढ़ियों के भविष्य का फ़ैसला भी उसके हाथ में नज़र आता है और यह महान व्यक्ति कौन कौन हैं, पिछले एक सप्ताह की लम्बी भाग दौड़ के बावजूद सबके विवरण तो क्या नाम तक उपलब्ध नहीं हो सके, जबकि होना तो यह चाहिए था कि इस नाज़्ाुक मौक़े पर इस संगठन के सभी सदस्य ही नहीं, बल्कि क़ौम के व अन्य प्रमुख व्यक्ति भी इस फ़ैसले में शामिल होते। उनके साथ योग्य वकीलों की एक पूरी टीम होती, सब मिल कर फ़ैसला करते कि अब अगला क़दम क्या हो। अगर हमारे मन में केवल इतना है कि हमें तो बस हुज्जत तमाम करनी है, फिर फ़ैसला चाहे जो भी हो तो शायद हमें इस सोच पर फिर से विचार करने की आवश्यकता है। हमें तो लगता है कि जितनी अधूरी तैयारी हमारे पास थी, उसके लिहाज़ से जो फ़ैसला आया वह न्याय पर आधारित न होते हुए भी बेहतर था। हमने इसीलिए बार-बार यह लिखा कि निःसंदेह हमारी राय रद्द कर दी जाए, परंतु दर्ज कर ली जाए, इसलिए कि ऐसी ही तैयारी सर्वोच्च न्यायालय में हमें कितनी सफलताऐं दिलाएंगी इसका अंदाज़ा किया जा सकता है।
........................................