انگریزوں کی غلامی سے قبل ملک پر مسلمانوں کی حکمرانی تھی۔ کیا یہ سچ نہیں ہے! 1757 سے لے کر 1857اور اس کے بعد 1947میں ملی آزادی تک مسلمان لگاتار ملک کی آزادی کی جدوجہد میں پیش پیش رہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے! اس وقت ہندوستان کی دیگر زبانوں کے مقابلہ سب سے نمایاں کردار رہا اردو صحافت کا۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے! ’’انقلاب زندہ باد‘‘، ’’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘‘ (پنڈت رام پرساد بسملؔ ) یہ نعرے اور شعر دئے اردو زبان کے شعراء نے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے! جنگ آزادی کے لئے چندہ دیا جمعیۃ علماء ہند نے، کیا یہ سچ نہیں ہے۔؟ انگریز حکومت نے ہمارے ہزاروں علمائے کرام کو پھانسی پر لٹکا دیا، کیا یہ بھی سچ نہیں ہے؟ اس وقت جب ہندوستان انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑرہا تھا، مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تحریروں کی معرفت ذہنی اعتبار سے ہندوستانی عوام کو آزادی کی جدوجہد کے لئے آمادہ کررہے تھے اور ان کی ان کاوشوں سے انگریز حکومت خوفزدہ تھی، کیا یہ تاریخی حقیقت نہیں ہے؟، پھر تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو سچ یہ بھی ہے کہ1901میں قائم کی گئی ہندومہاسبھا ہندوراشٹر کے خواب کو لے کر وجود میں آئی تھی؟ راشٹر گیت، وندے ماترم بنکم چندر چٹواپادھیائے کے جس ناول ’’آنندمٹھ‘‘ میں لکھا گیا، وہ مسلمانوں کی دشمنی اور انگریزوں کی شان میں لکھا گیا تھا، کیا یہ سچ نہیں ہے؟ اگر یہ سب سچ ہے تو پھر ہم اس حقیقت کو کیوں نہیں سمجھتے کہ جو ذہنیت 1901 سے ہی اس ملک کو ہندوراشٹر دیکھنا چاہتی تھی اور مالیگاؤں بم بلاسٹ کی تحقیق کرنے والے شہید ہیمنت کرکرے نے دیانندپانڈے کے لیپ ٹاپ سے جو مشن۔2025سامنے رکھا تھا، کیا وہ ہندوراشٹر کے قیام کا منظم منصوبہ نہیں تھا، یعنی125برس تک لگاتار ایک مقصد کو سامنے رکھ کر جو ذہنیت کام کررہی ہے اور آج بھی پوری مستعدی سے سرگرم ہے، مندر کی تعمیر کا بہانا تو اس کے لئے محض اپنے اس منصوبے کو کامیاب بنانے کا ایک ذریعہ ہے۔ کیا ہمیں اس حقیقت کو نہیں سمجھنا چاہئے؟ میں نے جو مثالیں پیش کیں مغلیہ حکمرانوں سے لے کر علمائے کرام کے پھانسی پر چڑھائے جانے تک کی، اس کا مقصد صرف یہی تھا کہ اس قوم نے حکومت بھی کی ہے اور قربانیاں بھی پیش کی ہیں۔ ہر طرح کے حالات کا سامنا کیا ہے اور آگے بھی کرسکتی ہے، لیکن آج اگر کوئی کمی دکھائی دیتی ہے تو ایسی ہی منصوبہ بندی کی کمی ہے، جس کا آغاز اپنے ملک ہندوستان کی آزادی کے لئے ہم نے 1857میں کیا اور آزادی نصیب ہوئی 1947میں، یعنی ایک مقصد تھا ہمارے سامنے 90برس تک متواتر آزادی کی جنگ لڑنے اور جیتنے کا۔ دوسری طرف ایک منفی منصوبہ بھی ہمارے سامنے ہے، 1901سے2025تک یعنی125برس لمبی پلاننگ ہندوراشٹر کے قیام کے لئے اور یہ راستہ اجودھیا سے ہوکر گزرتا ہے، ہمیں اس حکمت عملی کو سمجھنا ہوگا۔ ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے، ہزاروں فرقہ وارانہ فساد کا تذکرہ مل جائے گا، جس کی بنیاد تھی مذہبی ٹکراؤ۔ انگریز بخوبی جانتے تھے، اس لئے جب جب انہیں اپنے سیاسی مقاصد پورا کرنے کی ضرورت پیش آئی، انہوں نے ہندو اور مسلمانوں کو لڑاکر اپنا مقصد حاصل کرلیا اور جب جب یہ دونوں قومیں متحد ہوئیں، انگریز کمزور پڑگیا۔ مندر۔مسجد تنازع آج آزادی کے بعد سے مسلسل ہمارے سامنے ہے۔ 61برس ہم نے نفرتوں کے چلتے گزار دئے۔ اس تنازع نے کبھی فرقہ وارانہ فساد کی شکل اختیار کی تو کبھی گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی اور کبھی دہشت گردی کی۔ ہندوستانی قوم کے پاس ایک موقع تھا30؍ستمبر2010کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کا، ایک ایسا فیصلہ جو قطعاً غیرمتوقع تھا، جو عدالت کا نہیں، بلکہ ایک پنچایت کا فیصلہ نظر آتا تھا اور قانون کی روشنی میں گفتگو کرنے والوں نے روزاول سے ہی اس فیصلہ پر تنقید کرنا بھی شروع کردی تھی۔ یہ فیصلہ حقائق کی بنیاد پر نہیں تھا، ملک کے سیکولر نظام کو زندہ رکھنے کے خواہش مند حضرات نے واضح طور پر کہا کہ حقائق سے چشم پوشی کی گئی ہے، پھر بھی ہم حیران تھے کہ آخر ہندو راشٹر کا منصوبہ رکھنے والوں کو یہ فیصلہ قابل قبول کیوں ہے؟ رام مندر کے نام پر سیاست کرکے اس ملک پر حکومت کرنے کا خواب دیکھنے والی فرقہ پرست ذہنیت اس تنازع کو ختم کیوں کرنا چاہتی ہے؟ وہ مسجد بنائے جانے پر رضامند کیوں ہے؟ اگر مندر بن گیا اور مسجد بھی بن گئی تو پھر اسے اپنی سیاست کے لئے نیا ایشو کیا ملے گا؟ لیکن ہماری حیرانی اس وقت دور ہوگئی، جب آہستہ آہستہ ان تنظیموں کے سربراہوں نے پرانے رنگ میں آنا شروع کردیا، یعنی انہیں بس انتظار تھا، مسلمانوں کی طرف سے کسی ایسے جملہ یا کسی ایسی کوشش کا جسے بہانا بناکر وہ پھر سے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی سمت میں آگے بڑھ سکیں۔ سپریم کورٹ چلے جانے کا فیصلہ سیاسی اعتبار سے تقریباً سبھی کے حق میں ہے۔ حکمراں جماعت کے تو دونوں ہاتھوں میں لڈو تھے، فیصلہ اگر مان لیا گیا تو واہ واہی اس کے نام کرکے ہم نے اس مسئلہ کو حل کردیا، جو گزشتہ61برس سے تنازع کا باعث بنا ہوا تھا۔ مسلمانوں کو مسجد بھی مل گئی اور ہندوؤں کو رام مندر بھی، یعنی مسلمان ذہنی اعتبار سے ہمیں ووٹ دینے کے لئے تیار رہیں اور پچھلی تمام باتوں کو بھلا دیں اور ہندو حضرات یہ ذہن میں رکھیں کہ جو کام بھارتیہ جنتا پارٹی ایک سے زیادہ بار اقتدار میں آنے کے بعد بھی نہ کرسکی، آخر وہ کام بھی ہم نے ہی انجام دیا۔ رام مندر کی تعمیر ہمارے ہی دوراقتدار میں ہوئی اور اگر اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا، تب بھی حکمراں جماعت کے پاس یہ کہنے کے لئے موقع ہے کہ مسئلہ کے زندہ رہنے کی وجہ ہم نہیں ہیں۔ ساتھ ہی اسے 10-15برس کی مہلت بھی مل گئی۔ ڈاکٹرمنموہن سنگھ آرام کے ساتھ اپنی مدت پوری کریں، پھر راہل گاندھی وزیراعظم بنیں، وہ بھی اپنے اقتدار کی مدت پوری کریں، اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہوتا ہے؟ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے بھی سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ ہر لحاظ سے منافع بخش ہے۔ رام مندر کے ایشو پر اس کی سیاست زندہ رہے گی۔ جب جب ملک میں فرقہ پرستی کا دور آئے گا، اسے کچھ دے کر ہی جائے گا۔ آپ نے دیکھا نہیں، گجرات فساد کے بعد سے اس ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی جتنی مضبوط ہوئی ہے، اتنی پہلے کبھی نہیں تھی، یہ اس کا آزمودہ فارمولہ ہے۔ آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں، سپریم کورٹ چلے جانے کا منھ مانگا وردان اسے مل گیا ہے، اب وہ پھر سے نئے جوش کے ساتھ اپنی سیاسی قوت کو یکجا کرسکتی ہے اور جو باقی بچیں وہ سیاسی پارٹیاں بھی وقت آنے پر اپنے حساب سے اس کا سیاسی فائدہ اٹھائیں گی ہی۔ اب رہا سوال مسلمانوں کا تو انہیں تو سپریم کورٹ جانا ہی تھا، فیصلہ میں ان کی حق تلفی صاف نظر آتی تھی، سپریم کورٹ چلے جانے میں انہیں کچھ تو امید دکھائی دیتی ہی ہوگی، ورنہ آخری لمحہ تک جدوجہد کرنے کا سکون تو دل کو مل ہی جائے گا۔ اس دوران ہماری قوم کو کچھ اور رہنما مل جائیں گے۔ اگر پچھلے 18-20برس کے حالات پر نظر ڈالیں تو آج سیاسی اعتبار سے سرگرم متعدد لیڈران وہی ہیں، جنہیں بابری مسجد تنازع نے جنم دیا ہے۔ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا تو ہمیں کچھ اور مسلم سیاستداں ملنے کے حالات اور امکان پیدا ہوں گے۔ اب رہا سوال کہ اس سے ہندو یامسلم عوام کا کیا فائدہ ہوگا اور کیا نقصان تو اس کی بات جانے دیجئے، اس سمت میں سوچنے کی ابھی ہمارے رہنماؤں کو فرصت ہی کہاں ہے۔ ہاں جو ایک بات کہنے کے لئے یہ مکمل مضمون لکھنے کی ضرورت پیش آئی، وہ یہ ہے کہ اس ملک کا سیکولرزم ہماری ضرورت ہے، ان کی نہیں، جنہوں نے 1901میں ہندومہاسبھا قائم کی تھی اور جو اس کے لئے مسلسل سرگرم ہیں۔ اگر ہم اپنے ملک کی جمہوریت کو زندہ رکھنے، برقرار رکھنے کے لئے کوشاں ہیں تو ہم کسی پر احسان نہیں کررہے ہیں، اس سچائی کو ہمیں سمجھنا ہوگا۔ احسان تو ہم پر وہ سیکولر ہندو کررہے ہیں، جو ہر قدم پر ہمارے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں اور اس ملک کو سیکولر بنائے رکھنے کے لئے شانہ بشانہ ہمارے ساتھ ہیں۔ دستور کا حوالہ مت دیجئے، حقیقت کی زمین پر قدم رکھ کر بات کیجئے اور سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ اب ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ جس طرح ہم نے ملک کو غلامی سے نجات دلانے کے لئے جدوجہد کی، کیا اسی طرح ہم ملک کے سیکولرزم کو زندہ رکھنے کی جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جس طرح ہم نے ملک کو آزادی دلانے کے لئے قربانیاں پیش کیں، کیا آج ملک کے سیکولرزم کو قائم رکھنے کے لئے قربانیاں دینے کو تیار ہیں؟ اگر نہیں تو راستہ کیا ہے؟ یہ بھی سوچ لیجئے، آج جو ہمارے ساتھ ہیں، کل ان کا بھی ذہن نہیں بدلے گا، اس یقین کی بنیاد کیا ہے؟ آپ نے دیکھا نہیں، جیسے جیسے اردو کمزور ہوتی جاتی ہے، جمہوریت بھی کمزور ہوتی جاتی ہے۔ اردو صحافی ہوں اس لئے نہیں لکھ رہا ہوں، کسی بھی پیمانہ پر اس جملہ کو پرکھ کر دیکھیں، ملک کے سیکولرزم کو بچائے رکھنے کے لئے وہی لوگ آپ کو اپنے ساتھ پیش پیش نظر آتے ہوں گے، جنہوں نے اردو زبان کا دامن ابھی چھوڑا نہیں ہے۔ کیا کل ان کی آنے والی نسلیں بھی اسی طرح سیکولرزم کی علمبردار بن پائیں گی، آج ہمیں یہ سوچنا ہوگا۔ ہمیں اس وقت خیال رکھنا ہے تو صرف دو باتوں کا، ایک وہ جن کی آتشی زبان سے اکثر لفظوں کے بم نکلتے ہیں۔ وہ کبھی بھی ہماری قوم کے لئے نئے خطروں کو دعوت دے سکتے ہیں اور ان سے بھی جو ببانگ دہل ہر حالت میں اب پھر رام مندر بنانے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی سمت میں آگے بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ یقیناًیہ خبریں آپ کی نظر سے گزری ہوں گی کہ
’’ اپنی حکمت عملی میں کامیاب رہی وشوہندوپریشد‘‘
یہ خبر دہلی سے شائع ہونے والے ہندی روزنامہ ’’دینک جاگرن‘‘ میں مورخہ 23؍اکتوبر2010کے شمارے میں صفحہ نمبر۔5پر پہلی خبر کی شکل میں نمایاں طور پر شامل کی گئی ہے، جس میں صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ اجودھیا تنازع پر ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد سے خاموشی اختیار کرنے والی وشوہندوپریشد نے سنتوں کا بہانا لے کر سہی رام مندر تحریک پر کمزور ہوتی جارہی پکڑ کو پھر سے مضبوط بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ متنازع اراضی کے بٹوارے کے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو رام للاکے سکھا کے ذریعہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی قرارداد سنتوں کی اعلیٰ سطحی تنظیم سے مہر لگوا کر وشوہندوپریشد نے عدالتی لڑائی کی کمان درپردہ ہی سہی اپنے ہاتھوں میں لینے سے کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اجودھیا کے کارسیوک پورم میں 20؍اکتوبر کو ہوئی سنتوں کی اعلیٰ سطحی کمیٹی نے میٹنگ کی اور اس کے اگلے ہی دن ہوا مقامی سنتوں کا اجلاس۔ رام مندر تحریک وشوہندوپریشد کے لئے سیاسی اعتبار سے انتہائی اہم ہے۔ سنتوں کی اس اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ذریعہ وشوہندوپریشد نے ایک تیرسے کئی نشانے سادھنے کی کوشش کی ہے۔ عدالت کے فیصلہ کے بعد تنازع کا حل کرنے کی کوششوں کو کنارہ کرتے ہوئے وشوہندوپریشد نے ایک طرف ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی قرارداد پر سنتوں کی مہر لگانے میں کامیابی پائی۔ رام للا کے سکھا کی شکل میں مقدمہ دائر کرنے والے جسٹس دیوکی نندن اگروال وشوہندوپریشد کے نائب صدر رہے ہیں۔ اجودھیا تنازع میں ان کی جگہ لینے والے ترلوکی ناتھ پانڈے بھی وشوہندوپریشد اور آر ایس ایس کے کارکن ہیں۔‘‘
اس کے ساتھ ہی ایک دوسری خبر بھی اسی صفحہ پر شامل اشاعت کی گئی ہے، جس کا عنوان ہے ’’سنگھ نے بھری مندرتعمیر کی ہنکار۔‘‘
یہ سب وہی ہوتا نظر آرہا ہے، جس کا اشارہ ہم نے 30؍ستمبر کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد اپنے پہلے ہی مضمون میں کردیا تھا۔ جانتے تھے کہ ہماری اس سوچ کو تنقید کا سامنا کرنا ہوگا، مگر سامنے رکھنا اس لئے ضروری لگا کہ بیشک یہ رائے رد کردی جائے، مگر ذہنوں میں درج تو کرلی جائے، تاکہ تاریخ گواہ رہے کہ کبھی ’’مسلمانان ہند۔۔۔ ماضی، حال اور مستقبل‘‘، کبھی ’’داستان ہند۔۔۔ماضی، حال اورمستقبل ‘‘ اور کبھی ’’آزاد بھارت کا اتہاس‘‘ کے عنوان سے مسلسل حق اور انصاف کی جنگ لڑنے والے قلم نے اس انتہائی سنجیدہ موضوع سے نظریں نہیں چرائیں اور تعریف کے تنقید میں بدل جانے کے خوف نے بھی اسے وہ سب لکھنے سے روکا نہیں، کیوں کہ اسے اس وقت ان حالات میں یہ سب لکھنا بھی اتنا ہی اہم لگتا تھا، جتنا کہ جب دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا عزم کیا تھا اور مسلمانوں کے دامن سے تقسیم وطن کا داغ مٹانے کی کوشش کی تھی یا دہشت گرد ہونے کا داغ اپنے ماتھے پر لئے بے گناہ نوجوانوں کی رہائی کا عزم کرکے انہیں تحریروں کے ذریعہ تحریک چلائی تھی، بہرحال وہ تحریک تو آئندہ بھی انشاء اللہ اسی طرح جاری رہے گی، مگر اس وقت ضروری ہے حالات حاضرہ کو سامنے رکھنا اورسمجھنا بھی۔
’’ اپنی حکمت عملی میں کامیاب رہی وشوہندوپریشد‘‘
یہ خبر دہلی سے شائع ہونے والے ہندی روزنامہ ’’دینک جاگرن‘‘ میں مورخہ 23؍اکتوبر2010کے شمارے میں صفحہ نمبر۔5پر پہلی خبر کی شکل میں نمایاں طور پر شامل کی گئی ہے، جس میں صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ اجودھیا تنازع پر ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد سے خاموشی اختیار کرنے والی وشوہندوپریشد نے سنتوں کا بہانا لے کر سہی رام مندر تحریک پر کمزور ہوتی جارہی پکڑ کو پھر سے مضبوط بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ متنازع اراضی کے بٹوارے کے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو رام للاکے سکھا کے ذریعہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی قرارداد سنتوں کی اعلیٰ سطحی تنظیم سے مہر لگوا کر وشوہندوپریشد نے عدالتی لڑائی کی کمان درپردہ ہی سہی اپنے ہاتھوں میں لینے سے کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اجودھیا کے کارسیوک پورم میں 20؍اکتوبر کو ہوئی سنتوں کی اعلیٰ سطحی کمیٹی نے میٹنگ کی اور اس کے اگلے ہی دن ہوا مقامی سنتوں کا اجلاس۔ رام مندر تحریک وشوہندوپریشد کے لئے سیاسی اعتبار سے انتہائی اہم ہے۔ سنتوں کی اس اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ذریعہ وشوہندوپریشد نے ایک تیرسے کئی نشانے سادھنے کی کوشش کی ہے۔ عدالت کے فیصلہ کے بعد تنازع کا حل کرنے کی کوششوں کو کنارہ کرتے ہوئے وشوہندوپریشد نے ایک طرف ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی قرارداد پر سنتوں کی مہر لگانے میں کامیابی پائی۔ رام للا کے سکھا کی شکل میں مقدمہ دائر کرنے والے جسٹس دیوکی نندن اگروال وشوہندوپریشد کے نائب صدر رہے ہیں۔ اجودھیا تنازع میں ان کی جگہ لینے والے ترلوکی ناتھ پانڈے بھی وشوہندوپریشد اور آر ایس ایس کے کارکن ہیں۔‘‘
اس کے ساتھ ہی ایک دوسری خبر بھی اسی صفحہ پر شامل اشاعت کی گئی ہے، جس کا عنوان ہے ’’سنگھ نے بھری مندرتعمیر کی ہنکار۔‘‘
یہ سب وہی ہوتا نظر آرہا ہے، جس کا اشارہ ہم نے 30؍ستمبر کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد اپنے پہلے ہی مضمون میں کردیا تھا۔ جانتے تھے کہ ہماری اس سوچ کو تنقید کا سامنا کرنا ہوگا، مگر سامنے رکھنا اس لئے ضروری لگا کہ بیشک یہ رائے رد کردی جائے، مگر ذہنوں میں درج تو کرلی جائے، تاکہ تاریخ گواہ رہے کہ کبھی ’’مسلمانان ہند۔۔۔ ماضی، حال اور مستقبل‘‘، کبھی ’’داستان ہند۔۔۔ماضی، حال اورمستقبل ‘‘ اور کبھی ’’آزاد بھارت کا اتہاس‘‘ کے عنوان سے مسلسل حق اور انصاف کی جنگ لڑنے والے قلم نے اس انتہائی سنجیدہ موضوع سے نظریں نہیں چرائیں اور تعریف کے تنقید میں بدل جانے کے خوف نے بھی اسے وہ سب لکھنے سے روکا نہیں، کیوں کہ اسے اس وقت ان حالات میں یہ سب لکھنا بھی اتنا ہی اہم لگتا تھا، جتنا کہ جب دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا عزم کیا تھا اور مسلمانوں کے دامن سے تقسیم وطن کا داغ مٹانے کی کوشش کی تھی یا دہشت گرد ہونے کا داغ اپنے ماتھے پر لئے بے گناہ نوجوانوں کی رہائی کا عزم کرکے انہیں تحریروں کے ذریعہ تحریک چلائی تھی، بہرحال وہ تحریک تو آئندہ بھی انشاء اللہ اسی طرح جاری رہے گی، مگر اس وقت ضروری ہے حالات حاضرہ کو سامنے رکھنا اورسمجھنا بھی۔
No comments:
Post a Comment