Thursday, October 28, 2010

!اجمیر‘ کا ذکر ابھی جاری تھا کہ ’کانپور‘ میں پھر ہوا دھماکہ'

عزیز برنی

’ہندو دہشت گردی‘ یا ’ہندو آتنک‘ جیساکچھ بھی نہیں ہی، اس لفظ کا استعمال نہیں ہونا چاہئی۔ ہمیں بھی نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ہم معذرت خواہ ہیں کہ اوروں کی طرح ہم بھی اس لفظ کا استعمال کرنے کی غلطی کربیٹھی۔ دراصل کوئی بھی مذہب دہشت گرد نہیں ہوتا، نہ دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہی۔ کسی بھی مذہب سے جوڑ کر اس لفظ کا استعمال نہیں کیا جانا چاہئی۔ اسلامی دہشت گردی یا مسلم دہشت گردی جیسا بھی کچھ نہیں ہی، اس لفظ کا استعمال بھی نہیں ہونا چاہئی، جو بھی کرتے رہے ہیں غلط کرتے رہے ہیں، انہیں بھی نہیں کرنا چاہئے تھا۔ آج اس بات کو ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور سمجھا سکتے ہیں۔ بیشک کچھ بم دھماکوں میں ایسے لوگوں کے نام سامنے آئی، جن کا تعلق ہندو مذہب سے ہے اور اسی طرح ماضی میں کچھ ایسے لوگوں کے نام سامنے آتے رہی، جن کا تعلق بظاہر مذہب اسلام سے نظر آتا تھا، لیکن وہ سب کے سب خود اپنے اپنے فعل کے لئے ذمہ دار ہیں، ان کا مذہب نہیں ہی، پھر ان کے ذریعہ کئے گئے گناہ کا داغ ان کے مذہب کے نام پر کیوں ہو۔آج یہ ہم سب کے لیے موضوع فکر ہونا چاہئی۔ بالخصوص ان کے جو بلارادہ دہشت گردی کو مذہب کے چشمے سے دیکھنے کے عادی تھی۔
ہم نے اپنے کل کے مضمون میں کچھ بم دھماکوں کے حوالہ سے ایک حقیقت سامنے رکھ کر کچھ کہنے کی کوشش کی۔آج اسی بات کو آگے بڑھانے جارہے ہیں۔ ہم نے نہ تو گزشتہ5-20برسوں میں بالخصوص بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہوئے تمام بم دھماکوں کی تفصیل پیش کرنے کی ضرورت سمجھی اور نہ ہلاکتوں و زخمیوں کی تعداد کا تذکرہ کیا، کیونکہ 18برس کے عرصہ میں ملک گیر سطح پر کتنے بم دھماکے ہوئی، کتنی ہلاکتیں ہوئیں، کتنے لوگ زخمی ہوئی، کتنی املاک تباہ ہوئیں، اس سب سے قطع نظر جس حقیقت کی طرف ہمیں غور کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اس درمیان سو کروڑ سے زائد ہندوستانی کن حالات سے گزری۔ ہلاکتیں تو کچھ ہزار لوگوں کی ہوئیں، براہِ راست متاثر ہونے والوں کی تعداد بھی لاکھ، دو لاکھ، چار لاکھ سے زائد نہیں رہی ہوگی۔ مگر سو کروڑ سے زائد ہندوستانی خوفزدہ رہی۔ 20کروڑ سے زائد ہندوستانی خوف و ہراس کے شکار رہی۔ یہ 18برس انہوں نے اپنے دامن پر لگے داغ دھونے میں گزاری، وہ ہر پل اپنے ہم سایہ ہم وطن بھائیوں سے رشتہ استوار کرنے میں لگے رہی۔ 80کروڑ ہندوستانی یہ سوچ سوچ کر پریشان رہے کہ اگر ہمیں اپنے ہی ملک کی اتنی بڑی تعداد سے اپنی جان، مال اور مستقبل کا خطرہ ہے تو ہم پرسکون زندگی کیسے جی سکتے ہیں، لہٰذا نفرتیں بڑھتی چلی گئیں، اعتماد کا رشتہ ٹوٹ گیا، محبت کا دامن سکڑتا چلا گیا۔ ہم جن چہروں میں اپنے تئیں محبت کا اظہار دیکھتے تھی، وہاں نفرت اور عدم اعتماد کا مظاہرہ ہونے لگا۔ ملک کی ترقی رک گئی اور ہمارے ملک کی سیاست صرف اور صرف مذہب اور دہشت گردی تک سمٹ کر رہ گئی۔ ہماری خواہش تھی، ہماری کوشش تھی اور ہے کہ یہ سلسلہ پوری طرح ختم ہوجائی۔ ہم نے اپنے کل کے مضمون میں اجمیر بم دھماکوں کے فوراً بعد لکھا گیا اداریہ ایک بار پھر اس لئے شامل اشاعت کیا، کیوں کہ ہم واضح کرنا چاہتے تھے کہ ہم نے ان دھماکوں کے فوراً بعد ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اس دہشت گردی کے پیچھی، ان بم دھماکوں کے پیچھے سیاست کارفرما ہوسکتی ہے اور آج ہونے والے انکشافات سے یہی سچ ثابت ہوتا نظر آرہا ہی۔ ہم نے اسی وقت حکومت ہند سے درخواست کی تھی کہ جانچ کے دائرہ کو دیگر امکانات کی روشنی میں آگے بڑھائی، جن کی طرف ہم اشارہ کررہے ہیں۔ ہم شکرگزار ہیں اپنی خفیہ ایجنسیوں اور حکومت ہند کے کہ اس پر توجہ دی اور اب نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اسی طرح 30ستمبر010کو بابری مسجد اراضی کی ملکیت کے تعلق سے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ہم نے لکھا تھا کہ بیشک یہ قانون کے مطابق دیا گیا فیصلہ نہیں ہی، مگر اسے تسلیم کرنے پر غور کیا جائی، اس لئے کہ اس فیصلہ سے امن و اتحاد قائم رہ سکتا ہی، مندرـمسجد کا تنازع ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوسکتا ہی۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کے لئے جذبات سے کھیلنے کا دور ختم ہوسکتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس فیصلہ میں مسجد بننے کی گنجائش بھی ہے اور مندر بننے کی بھی، یعنی نہ تو مسلمانوں کو مسجد سے دستبردار ہونے کی ضرورت ہے اور نہ مندر بنانے والوں کے راستہ میں اب مندر بنانے کی کوئی رکاوٹ ہی۔ اس موضوع پر ہم اپنے گزشتہ مضامین میں کافی کچھ لکھ چکے ہیں اور اپنے اگلے کسی مضمون میں اس بات کی مکمل وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہم نے ایسا کیوں لکھا تھا۔ چونکہ آج کا مضمون اجمیربم دھماکوں کے بعد ہونے والے تازہ انکشافات کے سلسلہ کی ایک کڑی ہی، لہٰذا اس کا موضوع اسی موضوع تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔
اسے قطعاً خوشی یا اطمینان کی بات قرار نہیں دیا جاسکتا کہ مالیگاؤں بم دھماکوں کی تحقیقات کے بعد سے جو حقائق منظرعام پر آرہے ہیں، ان میں تقریباً سبھی نام ہندو فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کے ہیں۔ یہاں کچھ پل رُک کر ہمیں مذہب سے بالاتر ہوکر یہ غورکرنے کی ضرورت ہے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں، کس ذہنیت کے لوگ ہیں، ان کی پرورش کرنے والے کون ہیں، کس نے انہیں نفرت کے اس راستہ پر چلنے کے لئے آمادہ کیا ہی؟ آخر وہ کون سی ذہنیت ہی، جو بے گناہ ہندوستانیوں کی جان لینے پر آمادہ کرتی رہی ہی؟ اگر اس سب کے پیچھے ہم کوئی ایسا سیاسی ذہن دیکھ رہے ہیں، جو تخریب کاری کی سیاست کررہا ہی، ہندوستان کو ہندوستانیوں کے خون سے لہولہان کردینا چاہتا ہی، اپنی سیاست کے لئے دلوں میں دیواریں کھڑی کردینا چاہتا ہے تو ہمیں ان چہروں کو بھی پہچاننا ہوگا، ان کی سیاست کو بھی پہچاننا ہوگا، ان کے خوفناک تباہ کن ارادوں کو بھی سمجھنا ہوگا۔ میں نے اپنے مضمون کی ابتدا میں لکھا تھا کہ دہشت گردی سے ہندو مذہب کو جوڑنا غلط ہی۔ ایسی کوئی بھی بات ذہن میں رکھنے والوں کو اس سچائی کو بھی سمجھنا ہوگا کہ شہیدہیمنت کرکرے سے لے کر آج تفتیش کرنے والوں تک تقریباً تمام کے تمام ہندو ہیں۔ ان تمام واقعات کی تہہ تک جانے والے اور میڈیا کے ذریعہ اسے منظرعام پر لانے والے سب کے سب ہندو ہیں۔ وہ عدالتیں جنہوں نے مالیگاؤں بم بلاسٹ تحقیقات کی روشنی میں سامنے آئے چہروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا، وہ سب کے سب ہندو ہیں۔ پبلک پروسیکیوٹر کی شکل میں جیل کی سلاخوں تک پہنچنانے کا راستہ ہموار کرنے والے وکیل ہندو تھے اور اگر انتظامیہ اور حکومت کی بات کریں تو ان کے سربراہان بھی ہندو ہیں۔ کیا یہ سب حقائق کو سامنے رکھنی، مجرموں کو ان کے کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے کام نہیں کررہے تھی؟ اگر ہاں تو ہمیں کسی بھی دہشت گردی کو مذہب سے جوڑ کر مذہب کو کٹہرے میں نہیں کھڑا کرنا چاہئی، بلکہ بہت کھلے لفظوں میں کہیں تو جس طرح عالمی سطح پر ایک جہادی ذہنیت دکھائی دیتی رہی ہی، جو خوف و دہشت کی معرفت اپنے منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا ارادہ رکھتی ہی، اسی طرح ہمارے ملک میں سنگھی ذہنیت اپنے منصوبوں کو بروئے کار لانے کا ارادہ رکھتی ہی۔ یہ دونوں ہی ذہنیت انسانیت کے خلاف ہیں۔ تازہ انکشافات جو ظاہر کرتے ہیں، ان کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ ہمارا ملک سنگھی ذہنیت کی غلط تربیت کا شکار ہے اور افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ ایک بڑی اور مضبوط سیاسی جماعت ہر لمحہ اس کی سرپرستی کے لئے موجود رہتی ہی، جو ان کے گناہوں پر پردہ ڈالنی، انہیں بے گناہ ثابت کرنی، حکومت، انتظامیہ اور عدلیہ پر دبائو بنانے میں مصروف رہتی ہی۔ ایسا کرتے وقت وہ قطعاً یہ نہیں سوچتے کہ اس کا انجام کتنا خطرناک ہوگا۔ وہ اپنے اثرورسوخ اور طاقت کی بنا پر اگر مجرموں کو بچانے اور بے گناہوں کو موردالزام ٹھہرانے میں کامیابی حاصل کرلیں گے تو کیا اس سے ملک دہشت گردی کی وبا سے پاک ہوپائے گا؟ ہندوستان ترقی کرپائے گا؟ امن و اتحاد کا ماحول بن پائے گا؟ اگر نہیں تو ان کی یہ کوشش ملک اور قوم کے لئے کس قدر خطرناک ہی، اس کا اندازہ کرنا ہوگا۔ اگر سیاستداں اپنی سیاسی حکمت عملی کے پیش نظر اس سمت میں سوچنے کا ارادہ نہیں رکھتے تو اب وہ وقت آگیا ہے کہ عوام بشمول ہندو اور مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں۔ گزشتہ چند برسوں میں پیدا ہوئی نفرتوں کو دل سے نکالیں اور ملک کو دہشت گردی کی وبا سے نجات دلائیں۔……
افسوس کہ جس وقت میں یہ مضمون قلمبند کررہا ہوں، کانپور میں ہوئے دھماکہ کی خبر تقریباً تمام نیوز چینلز پر دکھائی جارہی ہی۔ اس دوران کانپور کے ہمارے نمائندے نے ڈی آئی جی پریم پرکاش سے بات چیت کی۔ ڈی آئی جی پریم پرکاش نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش میں ملبے سے بارود کی بو ملی اور جگہ جگہ رسّی کے لچھے ملی، جس سے ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ بم بنایا جارہا تھا۔ انہوں نے اس بات کو قبول کیا کہ جس طرح سے یہ دھماکہ ہوا ہی، اس سے لگتا ہے کہ یہ بلاسٹ کافی طاقتور تھا۔ بہرحال مکمل حقیقت کیا ہے یہ تو تفتیش کے بعد ہی سامنے آئے گا، لیکن اس وقت میرے سامنے 25،6،7اگست008کے اخبارات بھی ہیں، جن میں 23اگست 2008کو کانپورمیں ہونے والے بم دھماکوں کی وہ خبریں ہیں۔ جن میں دو لوگ بم بناتے ہوئے مارے گئے تھی۔ مرنے والوں میں بجرنگ دل کا سابق شہر کنوینر بھی شامل تھا اور اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کانپور کے آئی جی ایس این سنگھ نے کہا تھا کہ ٹائمر ڈیوائس سے یہ بات پختہ ہے کہ شہر میں سیریل دھماکے کرکے تباہی مچانے کی سازش تھی، لیکن بم بناتے وقت دھماکہ ہوگیا۔ مرنے والوں کے کسی دہشت گرد تنظیم سے رشتوں کی جانکاری نہیں ہی۔ ان کا کوئی مجرمانہ بیک گراؤنڈ بھی نہیں ملا ہی۔ موقع سے راجیومشرا اور بھوپیندرسنگھ کے موبائل فون ملے ہیں۔ ان کی جانچ کی جارہی ہی، مقامی خفیہ ایجنسیاں جانچ کرکے ان کے گروہ سے وابستہ لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی۔ خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ اے ٹی ایس کی ٹیم بھی تفتیش میں شامل ہی۔ خبر کے مطابق آئی جی ایس این سنگھ نے جس حادثہ کو خفیہ ایجنسیوں کی بڑی چوک مانا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو برس پہلے ہوئے اس حادثہ، جسے کانپور کے آئی جی نے خفیہ ایجنسیوں کی چوک مانا اور تفتیش جاری رکھنے کی بات کہی، کیا بعد میں ان کے گروہ تک پہنچنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ وہ بم کن کے لئے بنارہے تھی، کس کے اشارے پر بنارہے تھی، ان کا استعمال کہاں ہونا تھا، بعد کی تفتیش میں کیا یہ سچائی سامنے آئی؟ یا پولیس نے چند وجوہات کی بنا پر وہ فائل بند کردی۔ اس سمت میں سچائی کا پتا لگانے کی کوشش ہی نہیں کی یا سچائی کو سامنے لانا اس کے لئے ممکن نہیں ہوسکا۔ آج کے حادثے کے بعد یہ سوال ضرور اٹھیں گی، اس لئے کہ پچھلے بم دھماکوں کے بعد متعدد اخبارات نے جو خبریں شائع کی تھیں، ان میں دیسی گرینیڈ، ٹائمر، اسپلنٹرس اور بارود کا ذخیرہ برآمد ہونے کی بھی تصدیق ہوئی تھی۔ اے ٹی ایس ٹیم نے موقع واردات پربھوپیندر کے گھر سے اہم دستاویز ضبط کئے تھی۔ وہ دستاویز کیا تھی؟ بم بنانے والوں کے ارادے کس قدر تباہی پھیلانے والے تھی؟ کیا بعد میں اس کا خلاصہ پولیس کے ذریعہ میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا؟ اس حادثہ کی خبر لکھنے والے انوپ واجپئی کے مطابق دھماکہ خوفناک تو تھا ہی، مگر اس سے زیادہ چونکانے والا تھا موقع واردات کا منظر۔ سینا جیسے دکھنے والے گیارہ گرینیڈ اور بارہواں گرینیڈ ٹائمرڈیوائس سے جڑا ہوا تھا۔ ساتھ ہی ہر وہ سامان جس سے بے گناہوں کی زندگی چھین لی جاتی ہی، موجود تھا۔ مرنے والوں میں دونوں کے ہندوتنظیموں سے رشتے تھی، شاید یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم ایل اے کی موجودگی کے باوجود وشوہندوپریشد کے لیڈر اودھ بہاری کو موقع پر بلانا پڑا۔ حادثے کے چار دن بعد، یعنی 27اگست008کو شائع خبر کے مطابق بجرنگ دل لیڈر کے گھر کے نزدیک کانپور میں مزید دھماکہ خیز مادّہ برآمد ہوا اور جائے واردات سے فروزآباد کا نقشہ ملا، نقشہ میں ریلوے اسٹیشن اور تحصیل پر نشان لگے تھی، جسے دیکھ کر پولیس کے ہوش اڑگئی، مگر بعد میں کیا ہوا۔ مہاراشٹر کے شہر ناندیڑ میں ہوئے بم دھماکے بھی بجرنگ دل کارکنان کی ایسی ہی دہشت گردانہ کارروائی کا نتیجہ تھی، جہاں سے نقلی داڑھی، ٹوپی اور مساجد کے نقشے برآمد ہوئے تھی۔
Mکاش کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں و دیگر ذمہ داران حادثہ کے فوراً بعد جتنی چستی پھرتی دکھاتے ہیں، بعد میں بھی اسے قائم رکھیں۔ مجرموں کے جرم کی تہہ تک پہنچیں، دیگر منسلک افراد کا پتا لگائیں اور ان میں جو بھی سزا کے مستحق ہیں، انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنے میں چوک نہ کریں تو اس طرح کی وارداتوں پر روک لگ سکتی ہی، ورنہ ایک کانپور ہی کیا ملک کے جانے کتنے شہر ایسی ہی تباہی کے نشانے پر نظر آسکتے ہیں، جن سے نجات پانے کی کوشش کی شکل میں آج کے اس مضمون کی شروعات کی گئی تھی، مگر افسوس صد افسوس کہ اختتام تک پہنچتے پہنچتے پھر ایسے ہی ایک حادثہ سے گزرناپڑا۔

No comments: