ہمارے ملک ہندوستان کی عدالت یاپارلیمنٹ نے کب سنگھ پریوار کو اس بات کا مجاز قرار دیا کہ ملک میں کون محب وطن ہے اورکون غدارِوطن، اس کا سرٹیفکیٹ ان سے لینا ہوگا۔ اندریش محب وطن ہیں، آج یہ سرٹیفکیٹ سنگھ پریوار کے متعدد کارکنان بانٹ رہے ہیں۔ ترون وجئی، رام مادھو، نرملا سیتارمن جیسے لوگ بارـبار یہی دوہراتے چلے آرہے ہیں کہ اندریش محب وطن ہیں۔ ان پر یہ الزام غلط لگایا گیا ہی۔ غالباً وہ ہندوستان کی تاریخ اور سنگھ پریوار کا کردار بھول رہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ایسے تمام لوگوں کو پھر سے یاد دلانا ہوگا اور ان کے کردار کی روشنی میں یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ آزادی کے مسیحا مہاتماگاندھی محب وطن تھے یا انہیں قتل کرنے والا سنگھ پریوار کا پروردہ ناتھو رام گوڈسے محب وطن تھا۔ ہم جب بھی ملک سے محبت کرنے والوں کی فہرست بناتے ہیں تو ان میں موہن داس کرم چندگاندھی، سبھاش چندربوس، چندرشیکھر آزاد اور شہید اشفاق اللہ خاں…… جیسے ناموں کا ذکر ہوتا ہی۔ کیا سنگھ پریوار چاہتا ہے کہ اب ناتھو رام گوڈسے اور اندریش جیسے لوگوں کا نام بھی اس لسٹ میں شامل کرلیا جائی۔ ہم جانتے ہیں6نومبر008کو ہندوستان پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کا سچ کیا ہی، سازش رچنے والے کون تھی، سازش کی بنیاد کیا تھی اور اس کو عملی جامہ کس طرح پہنایا گیا، یہ راز کبھی منظرعام پر نہیں آئے گا۔ یکے بعد دیگرے انکشافات ہوتے رہیں گی، ایک کے بعد ایک نام سامنے آتے رہیں گے اور ہم ان ہی ناموں میں الجھے رہیں گے یا اس جدوجہد میں لگے رہیں گے کہ آخر ان کا استعمال کرنے والا کون تھا، پاکستان یا امریکہ، اس سے آگے بڑھ کر کچھ سوچیں گے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آخری نتیجہ تک کبھی نہیں پہنچ پائیں گے اور اگر کسی نتیجہ کو آخری نتیجہ ثابت کرکے سامنے رکھ بھی دیا گیا تو وہ پوری طرح حقائق پر مبنی ہوگا، یہ کم سے کم ہمارے قیاس سے دور کی بات ہے اور یہ قیاس ہمارے تجربوں کی بنیاد پر ہی، کوئی خام خیالی نہیں، اس لئے کہ ہم نے آزاد ہندوستان میں پہلی بار حکمراں جماعت سے لے کر حزب اختلاف اور ان سب کے حامیوں، یعنی کل پارلیمنٹ کے ممبران بشمول لوک سبھا اور راجیہ سبھا کو کسی ایک دہشت گرد کے بیان پر ایک رائے ہوتے ہوئے دیکھا تھا اور اگر کسی نے ذرا بھی اس دہشت گرد کے بیان پر نکتہ چینی کرنے کی کوشش کی تو پارلیمنٹ کے اندر ہی نہیں پارلیمنٹ کے باہر بھی اسے بے پناہ مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دہشت گردانہ حملہ سے قبل جس طرح سادھوی پرگیہ سنگھ کو بچانے کے لئے ایک مہم چلائی جارہی تھی، اسی طرح آج اندریش کو محب وطن ثابت کرنی، بہ الفاظ دیگر بچانے کی مہم چلائی جارہی ہی، تاکہ دباؤ بنایا جاسکے ان سب پر جن کے پاس ایسے ثبوت ہیں، جن سے کہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اندریش کا تعلق اجمیر بم دھماکوں سے ہی۔ بات بہت پرانی نہیں ہی، ابھی دو ہی برس کا عرصہ گزرا ہی۔ لائبریریوں کا رُخ کریں تو درجنوں اخبارات کے تراشے مل جائیں گے اور یہ حقیقت سامنے آجائے گی کہ مالیگاؤس بم بلاسٹ میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، دیانندپانڈی، کرنل پروہت اور کیپٹن اپادھیائے کے نام سامنے آنے پر، جو لوگ چراغ پا ہوگئے تھے آج پھر اسی جماعت کی نمائندگی کرنے والے شور مچا رہے ہیں۔ اس وقت بھی لال کرشن اڈوانی سادھوری پرگیہ سنگھ کی حمایت میں نہ صرف تقاریر کرکے یہ ماحول بنارہے تھے کہ جس سے نہ صرف اس کے خلاف جرم ثابت کرنے والوں کو متاثر کیا جائی، بلکہ انہوں نے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے سادھوی کی حمایت میں ملاقات بھی کی تھی اور جہاں تک آج اجمیربم دھماکوں کے سلسلہ میں راجستھان اے ٹی ایس کے ذریعہ اندریش کا نام لئے جانے کی بات ہے تو یہ وضاحت تو اپنی زندگی میں شہید ہیمنت کرکرے نے اسی وقت کردی تھی، ہم اپنے پرانے مضامین اور روزنامہ راشٹریہ سہارا میں شائع خبروں کے تراشے آج بھی سامنے رکھ سکتے ہیں، جن سے یہ واضح ہوجائے گا کہ اندریش کا نام آج پہلی بار سامنے نہیں آیا ہی۔
’’0اکتوبر008: ادھر بی جے پی ہندو تنظیموں کے نام آنے پر بوکھلاہٹ میں آگئی اور کھلے عام ملزمین کے دفاع میں کھڑی ہوگئی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے میڈیا کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ میڈیا اس پورے معاملہ کو آروشی مرڈر کیس کی طرح پیش کررہا ہی۔ پھر پرگیہ سنگھ کے دفاع میں کہا کہ جو لوگ ثقافتی وقومیت پر یقین رکھتے ہیں، وہ دہشت گردی میں ملوث ہو ہی نہیں سکتی۔ انہوں نے اے ٹی ایس کے نارکوٹیسٹ پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ کسی خطرناک دہشت گرد کو بھی اس طرح ٹارچر نہیں کیا جاتا، لیکن اے ٹی ایس چیف ہیمنٹ کرکرے نے سارے ملزمین پر مکوکا لگادیا، وہ کسی بھی سیاسی دبائو سے پرے رہی۔ اس درمیان ہندو مہاسبھا نے کرنل پروہت اور دوسرے ملزمین کو قانونی مدد دینے کا اعلان کیا۔
15نومبر008: راج ناتھ سنگھ نے اس پورے معاملے کو ایک بڑی سازش قرار دیا۔ انہوںنے کہا کہ میں پوری طرح مطمئن ہوں کہ سادھوی وغیرہ اس سازش میں ملوث نہیں ہیں۔ شری کانت پروہت نے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے کے لئے آرڈی ایکس سپلائی کیا، یہ کہنا تھا اے ٹی ایس کا۔
17نومبر008: مالیگاؤں دھماکے کے تار اجمیرشریف اور مکہ مسجد دھماکے سے جڑے ہیں۔ اے ٹی ایس نے ایک اور جانکاری دی۔
یعنی راجستھان اے ٹی ایس نے آج کوئی نیا انکشاف نہیں کیا ہی، یہ کارنامہ تو اپنی زندگی میں شہید ہیمنت کرکرے ہی کرگئے تھے اور ہم نے اے ٹی ایس کے ذریعہ ملی جانکاری کو اپنے اسی کالم کے تحت ’’مسلمانانِ ہند…ماضی، حال اور مستقبل‘‘ کی 100ویں قسط میں شائع کیا تھا، جسے آج بھی دیکھا جاسکتا ہے اور ہماری پرانی تحریروں سے یہ مکمل طور پر واضح ہوجائے گا کہ جس طرح آج سنگھ پریوار کے لوگ چراغ پا ہیں، اسی طرح 17نومبر008کو اے ٹی ایس کے اس انکشاف کے بعدشور مچا رہے تھی۔ 18نومبر008کو اخبارات میں شائع یہ خبر بآسانی دیکھی جاسکتی ہے کہ راج ناتھ سنگھ اور ایل کے اڈوانی نے اے ٹی ایس پر الزام لگایا کہ اے ٹی ایس اور کانگریس میں سانٹھ گانٹھ ہے اور وہ ان پروفیشنل طریقہ سے جانچ کررہی ہی، یعنی ان کا یہ راگ پرانا ہی۔
[24نومبر008 :پروہت نے سی بی آئی کو بیان دیا، وی ایچ پی لیڈر ابھینو بھارت کے قیام میں پیش پیش تھی۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار نے آئی ایس آئی سے تین کروڑ روپے لئی۔ کل یعنی 25اکتوبر010 کو انگریزی روزنامہ ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں شائع کی گئی خبر سے ماخوذ مندرجہ ذیل چند لائنیں ثابت کرتی ہیں کہ دو برس قبل ہم نے جن حقائق کو سامنے رکھا تھا، شہید ہیمنت کرکرے نے اپنی تفتیش میں جن حقائق کا پتہ لگایا تھا یا آج راجستھان پولیس اور اے ٹی ایس جن سچائیوں کو سامنے لارہی ہی، یہ انہی حقائق کی اگلی کڑی ہی۔ ملاحظہ فرمائیں ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں شائع خبر:
راجستھان اے ٹی ایس کے ذریعہ 2007اجمیر درگاہ بم دھماکہ کیس میں دائر کی گئی چارج شیٹ اشارہ کرتی ہے کہ ملزمین نے گجراتی سماج گیسٹ ہائوس میں ٹھہرنے اور سم کارڈ حاصل کرنے کے لئے فرضی شناختی دستاویزوں کا استعمال کیا۔ چارج شیٹ بتاتی ہے کہ ملزم دویندر گپتا کو فرضی شناختی و ستاویز اور سم کارڈ حاصل کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ فرضی دستاویزوں کی بنیاد پر اس نے مغربی بنگال کے بردوان علاقے میں ڈرائیونگ لائسنس لینے کے لئے درخواست دی۔ اس نے دو لائسنس حاصل کئے ایک اپنے لئے اور ایک منوج کمار کے نام سے سنیل جوشی کے لئی۔ان ہی فرضی دستاویزوں کی بنیاد پر سنیل جوشی نے جے پور میں گجراتی سماج گیسٹ ہائوس میں ایک کمرہ بک کروایا جہاں پر1اکتوبر 2005کو آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار نے ایک خفیہ میٹنگ میں پرگیہ سنگھ ٹھاکر، سنیل جوشی، رام جی کال سنگرا، لوکیش شرما اور سندیپ دانگے سے گفتگو کی۔ اے ٹی ایس کی جانچ کے دوران گیسٹ ہائوس کی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس جوشی کے ڈرائیونگ لائسنس (فرضی) کی ثبوت کے طور پر فوٹو کاپی محفوظ تھی۔ گپتاانہی فرضی شناختی دستاویزوں کے استعمال کرکے 10سم کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ ان میں سے 7سم کارڈ مغربی بنگال سے اور 3سم کارڈ جھارکھنڈ سے خریدے گئے تھی۔ جوشی کے ہی فرضی لائسنس پر دوسرے ملزم رام جی کال سنگرا کے لئے سم کارڈس حاصل کئے گئی۔ جوشی کا فوٹو نوئیڈا سے تعلق رکھنے والے ایک یوگا ٹرینرکے فوٹو سے بدل دیا گیا اور اس کا نام بدل کر بابو لال یادو کردیا گیا جس کا تعلق مغربی بنگال کے آسنسول سے تھا۔ 29دسمبر 2007میں مدھیہ پردیش میں سنیل جوشی کا قتل کردیا گیا۔
راجستھان کے وزیر داخلہ شانتی دھاری وال اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ جوشی کا قتل آر ایس ایس کے کارکنان نے کیا ہی،جبکہ دوسری طرف مدھیہ پردیش پولیس مانتی ہے کہ ان کا قتل سیمی کے لوگوں نے کیا ہی۔ چارج شیٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اے ٹی ایس کو سنیل جوشی کی کچھ ڈائریاں حاصل ہوئی ہیں، جن میں اس کے چار ساتھیوں راج، میہل، گھنشیام اور استاد کا ذکر ہے ۔ ایک پولس والے نے بتایاکہ سنیل جوشی جھارکھنڈ کے جمداتا علاقہ میں آر ایس ایس کے پرمکھ پرچارک تھی۔
جہاں تک مکہ مسجد بم بلاسٹ کا تعلق ہے تو ہم نے خود 7نومبر008کوآندھراپردیش کے وزیراعلیٰ وائی ایس آر ریڈی سے مل کر یہ درخواست کی تھی کہ مکہ مسجد بم دھماکوں کی ازسرنوتفتیش کی جائے اور اس معاملہ کی تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کی جائیں۔ یہ خبرنومبر008کو روزنامہ راشٹریہ سہارا (حیدرآباد) کے صفحہ نمبرـ پر شائع کی گئی۔ اس خبر کی چند سطریں ایک بار پھر پیش خدمت ہیں، تاکہ ہمارے قارئین سمجھ سکیں کہ آج جو منظرنامہ بدل رہا ہی، اس میں ان کی دعائوں، پروردگارعالم کی عنایتوں اور روزنامہ راشٹریہ سہارا کی کاوشوں کا کتنا دخل ہی۔
خبر کا تراشہ: ’’مسٹر عزیز برنی نے وزیراعلیٰ وائی ایس آر ریڈی سے کہا کہ وہ مکہ مسجد بم دھماکوں کے ساتھ ساتھ لمبنی پارک اور گوکل چاٹ بھنڈار دھماکوں کی ازسرنو تحقیقات کرائیں۔ عزیز برنی نے کہا کہ جب نانڈیر، مالیگاؤں اور موڈاسا میں بم دھماکے ہوئے تھے تب مسلم تنظیموں اور مسلم نوجوانوں کا نام اُچھال کر ان کو سازش کرنے والوں کے طور پر پیش کیا گیا تھا، تب بھی ’راشٹریہ سہارا‘ نے معاملہ کی تفتیش کے بغیر نتیجہ اخذ کرنے سے باز رہنے کی بات کہی تھی۔ جبکہ اب مالیگاؤں اور موڈاسا بم دھماکوں میں سنگھ پریوار کا چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے اور اس کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری نے ہندو فرقہ پرست طاقتوں کی ملک مخالف سرگرمیاں اجاگر کردی تو ایسے میں کیا یہ وقت کا تقاضا نہیں ہے کہ مکہ مسجد، گوکل چاٹ بھنڈار اور لمبنی پارک دھماکوں کی ازسرنوتفتیش کرائی جائی، تاکہ ان دھماکوں میں ملوث اصلی چہرے سامنے آسکیں۔‘‘
واضح ہو کہ اس مطالبہ کے بعد متعدد مسلم نوجوانوں کو رہا کردیا گیا تھا، جو مکہ مسجد بم بلاسٹ کے سلسلہ میں گرفتار کئے گئے تھی۔
ہم پھر یہ واضح کردینا چاہیں گے کہ دہشت گردی میں ملوث لوگوں کو صرف اور صرف دہشت گرد کے طور پر دیکھا جائی، انہیں ان کے مذہب سے یا ان کی سیاسی وابستگی سے نہیں جوڑا جائی، مگر افسوس اس وقت ہوتا ہے کہ جب تین تین بار ملک پر حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعت ایسے لوگوں کے نام سامنے آنے پر ہنگامہ کھڑا کردیتی ہی۔ 11اکتوبر007کو درگاہ اجمیر میں بم دھماکہ کس کی سازش تھی، شاید کبھی سامنے نہ آتا، اگر مالیگاؤں میں سادھوی پرگیہ سنگھ کی موٹر سائیکل کی طرح یہاں موقع واردات سے یہ سم کارڈ برآمد نہ ہوا ہوتا۔ دراصل ہوا یہ کہ درگاہ بم دھماکہ میں ایک بم نہیں پھٹ سکا تھا۔ اس بم کو جب ناکارہ کیا گیا تو اس میں دھماکہ خیز مادّوں کے علاوہ ٹائمر ڈیوائس کی شکل میں موبائل فون بھی ملا تھا۔ موبائل اسکرین پر اسکرین سیور کی شکل میں ’وندے ماترم‘ لکھا تھا۔ جس بم سے دھماکہ کیا گیا تھا، اس کا سم کارڈ نمبر:991522000005190837 تھا اور موبائل نمبر:931304642 پایا گیا۔ تباہ ہوئی سم کی بنیاد پر تفتیشی کارروائی میں پتہ چلا کہ سم کارڈ بہاروجھارکھنڈ کی موبائل کمپنی کا ہی۔ یہ سم رامفریادو، مقام کانگوئی، پوسٹ مہجام ضلع دمکا کے نام جاری کیا گیا تھا۔ سم دمکا کے بس اسٹینڈ پر واقع موبائل کیئر نام کی دکان سے خریدا گیا تھا۔ وہیں موقع سے ملے زندہ بم سے ملے موبائل کے بنیاد پر جانکاری ملی کہ اس میں لگا سم مغربی بنگال کی موبائل کمپنی نے جاری کیا ہی۔ سم کا مالک بابولال یادو ولد منوہر یادو، سمدھ روڈ، روپ نارائن پور، آسنسول بردوان کا پایا گیا۔ سم کارڈ مغربی بنگال کے چترنجن سے سرگم آئیڈیونام کی دکان سے خریدا گیا تھا۔ تفتیش میں معلوم ہوا کہ یہ سم فرضی نام و پتہ کے شناختی کارڈ حاصل کرکے خریدا گیا تھا، اسی طرح کی1اور سم بھی خریدنے کا انکشاف ہوا۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ بم دھماکوں کی حقیقت کا پتا لگا لینے پر ہم اپنی خفیہ ایجنسیوں کی پیٹھ تھپھتپائیں اور سمجھیں کہ جن کے ناموں کی تصدیق ہماری خفیہ ایجنسیاں ایک طویل جانچ پڑتال کے بعد سامنے رکھتی ہیں، ان کے دفاع میں بغیر سوچے سمجھے فوراً بیان بازی نہ شروع کی جائی۔
} بہرحال ہم خوفزدہ ہیں اور اس وقت اپنے ملک کی حکومت و خفیہ ایجنسیوں سے مؤدبانہ درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ وہ 26نومبر008کو ملک پر ہوئے سب سے بڑے دہشت گردانہ حملہ کو ذہن میں رکھیں، اس کے چند روز پہلے کی سرگرمیوں کو ذہن میں رکھیں، ممبئی اے ٹی ایس کی کارکردگی کو ذہن میں رکھیں، بالخصوص شہید ہیمنت کرکرے کے کردار کو سامنے رکھیں، ملزمین کی شکل میں سامنے آنے والے ناموں کو ذہن میں رکھیں، ان ناموں کے سامنے آنے پر ایک مخصوص ذہنیت کے سیاستدانوں کے ردعمل کو ذہن میں رکھیں اور پھر مستعد رہیں کہ خدا نہ کرے ہمارے ملک کو پھر برے حالات سے گزرنا پڑی۔ ہم تو بس دعا ہی کرسکتے ہیں۔……………(جاری
’’0اکتوبر008: ادھر بی جے پی ہندو تنظیموں کے نام آنے پر بوکھلاہٹ میں آگئی اور کھلے عام ملزمین کے دفاع میں کھڑی ہوگئی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے میڈیا کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ میڈیا اس پورے معاملہ کو آروشی مرڈر کیس کی طرح پیش کررہا ہی۔ پھر پرگیہ سنگھ کے دفاع میں کہا کہ جو لوگ ثقافتی وقومیت پر یقین رکھتے ہیں، وہ دہشت گردی میں ملوث ہو ہی نہیں سکتی۔ انہوں نے اے ٹی ایس کے نارکوٹیسٹ پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ کسی خطرناک دہشت گرد کو بھی اس طرح ٹارچر نہیں کیا جاتا، لیکن اے ٹی ایس چیف ہیمنٹ کرکرے نے سارے ملزمین پر مکوکا لگادیا، وہ کسی بھی سیاسی دبائو سے پرے رہی۔ اس درمیان ہندو مہاسبھا نے کرنل پروہت اور دوسرے ملزمین کو قانونی مدد دینے کا اعلان کیا۔
15نومبر008: راج ناتھ سنگھ نے اس پورے معاملے کو ایک بڑی سازش قرار دیا۔ انہوںنے کہا کہ میں پوری طرح مطمئن ہوں کہ سادھوی وغیرہ اس سازش میں ملوث نہیں ہیں۔ شری کانت پروہت نے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے کے لئے آرڈی ایکس سپلائی کیا، یہ کہنا تھا اے ٹی ایس کا۔
17نومبر008: مالیگاؤں دھماکے کے تار اجمیرشریف اور مکہ مسجد دھماکے سے جڑے ہیں۔ اے ٹی ایس نے ایک اور جانکاری دی۔
یعنی راجستھان اے ٹی ایس نے آج کوئی نیا انکشاف نہیں کیا ہی، یہ کارنامہ تو اپنی زندگی میں شہید ہیمنت کرکرے ہی کرگئے تھے اور ہم نے اے ٹی ایس کے ذریعہ ملی جانکاری کو اپنے اسی کالم کے تحت ’’مسلمانانِ ہند…ماضی، حال اور مستقبل‘‘ کی 100ویں قسط میں شائع کیا تھا، جسے آج بھی دیکھا جاسکتا ہے اور ہماری پرانی تحریروں سے یہ مکمل طور پر واضح ہوجائے گا کہ جس طرح آج سنگھ پریوار کے لوگ چراغ پا ہیں، اسی طرح 17نومبر008کو اے ٹی ایس کے اس انکشاف کے بعدشور مچا رہے تھی۔ 18نومبر008کو اخبارات میں شائع یہ خبر بآسانی دیکھی جاسکتی ہے کہ راج ناتھ سنگھ اور ایل کے اڈوانی نے اے ٹی ایس پر الزام لگایا کہ اے ٹی ایس اور کانگریس میں سانٹھ گانٹھ ہے اور وہ ان پروفیشنل طریقہ سے جانچ کررہی ہی، یعنی ان کا یہ راگ پرانا ہی۔
[24نومبر008 :پروہت نے سی بی آئی کو بیان دیا، وی ایچ پی لیڈر ابھینو بھارت کے قیام میں پیش پیش تھی۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار نے آئی ایس آئی سے تین کروڑ روپے لئی۔ کل یعنی 25اکتوبر010 کو انگریزی روزنامہ ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں شائع کی گئی خبر سے ماخوذ مندرجہ ذیل چند لائنیں ثابت کرتی ہیں کہ دو برس قبل ہم نے جن حقائق کو سامنے رکھا تھا، شہید ہیمنت کرکرے نے اپنی تفتیش میں جن حقائق کا پتہ لگایا تھا یا آج راجستھان پولیس اور اے ٹی ایس جن سچائیوں کو سامنے لارہی ہی، یہ انہی حقائق کی اگلی کڑی ہی۔ ملاحظہ فرمائیں ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں شائع خبر:
راجستھان اے ٹی ایس کے ذریعہ 2007اجمیر درگاہ بم دھماکہ کیس میں دائر کی گئی چارج شیٹ اشارہ کرتی ہے کہ ملزمین نے گجراتی سماج گیسٹ ہائوس میں ٹھہرنے اور سم کارڈ حاصل کرنے کے لئے فرضی شناختی دستاویزوں کا استعمال کیا۔ چارج شیٹ بتاتی ہے کہ ملزم دویندر گپتا کو فرضی شناختی و ستاویز اور سم کارڈ حاصل کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ فرضی دستاویزوں کی بنیاد پر اس نے مغربی بنگال کے بردوان علاقے میں ڈرائیونگ لائسنس لینے کے لئے درخواست دی۔ اس نے دو لائسنس حاصل کئے ایک اپنے لئے اور ایک منوج کمار کے نام سے سنیل جوشی کے لئی۔ان ہی فرضی دستاویزوں کی بنیاد پر سنیل جوشی نے جے پور میں گجراتی سماج گیسٹ ہائوس میں ایک کمرہ بک کروایا جہاں پر1اکتوبر 2005کو آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار نے ایک خفیہ میٹنگ میں پرگیہ سنگھ ٹھاکر، سنیل جوشی، رام جی کال سنگرا، لوکیش شرما اور سندیپ دانگے سے گفتگو کی۔ اے ٹی ایس کی جانچ کے دوران گیسٹ ہائوس کی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس جوشی کے ڈرائیونگ لائسنس (فرضی) کی ثبوت کے طور پر فوٹو کاپی محفوظ تھی۔ گپتاانہی فرضی شناختی دستاویزوں کے استعمال کرکے 10سم کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ ان میں سے 7سم کارڈ مغربی بنگال سے اور 3سم کارڈ جھارکھنڈ سے خریدے گئے تھی۔ جوشی کے ہی فرضی لائسنس پر دوسرے ملزم رام جی کال سنگرا کے لئے سم کارڈس حاصل کئے گئی۔ جوشی کا فوٹو نوئیڈا سے تعلق رکھنے والے ایک یوگا ٹرینرکے فوٹو سے بدل دیا گیا اور اس کا نام بدل کر بابو لال یادو کردیا گیا جس کا تعلق مغربی بنگال کے آسنسول سے تھا۔ 29دسمبر 2007میں مدھیہ پردیش میں سنیل جوشی کا قتل کردیا گیا۔
راجستھان کے وزیر داخلہ شانتی دھاری وال اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ جوشی کا قتل آر ایس ایس کے کارکنان نے کیا ہی،جبکہ دوسری طرف مدھیہ پردیش پولیس مانتی ہے کہ ان کا قتل سیمی کے لوگوں نے کیا ہی۔ چارج شیٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اے ٹی ایس کو سنیل جوشی کی کچھ ڈائریاں حاصل ہوئی ہیں، جن میں اس کے چار ساتھیوں راج، میہل، گھنشیام اور استاد کا ذکر ہے ۔ ایک پولس والے نے بتایاکہ سنیل جوشی جھارکھنڈ کے جمداتا علاقہ میں آر ایس ایس کے پرمکھ پرچارک تھی۔
جہاں تک مکہ مسجد بم بلاسٹ کا تعلق ہے تو ہم نے خود 7نومبر008کوآندھراپردیش کے وزیراعلیٰ وائی ایس آر ریڈی سے مل کر یہ درخواست کی تھی کہ مکہ مسجد بم دھماکوں کی ازسرنوتفتیش کی جائے اور اس معاملہ کی تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کی جائیں۔ یہ خبرنومبر008کو روزنامہ راشٹریہ سہارا (حیدرآباد) کے صفحہ نمبرـ پر شائع کی گئی۔ اس خبر کی چند سطریں ایک بار پھر پیش خدمت ہیں، تاکہ ہمارے قارئین سمجھ سکیں کہ آج جو منظرنامہ بدل رہا ہی، اس میں ان کی دعائوں، پروردگارعالم کی عنایتوں اور روزنامہ راشٹریہ سہارا کی کاوشوں کا کتنا دخل ہی۔
خبر کا تراشہ: ’’مسٹر عزیز برنی نے وزیراعلیٰ وائی ایس آر ریڈی سے کہا کہ وہ مکہ مسجد بم دھماکوں کے ساتھ ساتھ لمبنی پارک اور گوکل چاٹ بھنڈار دھماکوں کی ازسرنو تحقیقات کرائیں۔ عزیز برنی نے کہا کہ جب نانڈیر، مالیگاؤں اور موڈاسا میں بم دھماکے ہوئے تھے تب مسلم تنظیموں اور مسلم نوجوانوں کا نام اُچھال کر ان کو سازش کرنے والوں کے طور پر پیش کیا گیا تھا، تب بھی ’راشٹریہ سہارا‘ نے معاملہ کی تفتیش کے بغیر نتیجہ اخذ کرنے سے باز رہنے کی بات کہی تھی۔ جبکہ اب مالیگاؤں اور موڈاسا بم دھماکوں میں سنگھ پریوار کا چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے اور اس کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری نے ہندو فرقہ پرست طاقتوں کی ملک مخالف سرگرمیاں اجاگر کردی تو ایسے میں کیا یہ وقت کا تقاضا نہیں ہے کہ مکہ مسجد، گوکل چاٹ بھنڈار اور لمبنی پارک دھماکوں کی ازسرنوتفتیش کرائی جائی، تاکہ ان دھماکوں میں ملوث اصلی چہرے سامنے آسکیں۔‘‘
واضح ہو کہ اس مطالبہ کے بعد متعدد مسلم نوجوانوں کو رہا کردیا گیا تھا، جو مکہ مسجد بم بلاسٹ کے سلسلہ میں گرفتار کئے گئے تھی۔
ہم پھر یہ واضح کردینا چاہیں گے کہ دہشت گردی میں ملوث لوگوں کو صرف اور صرف دہشت گرد کے طور پر دیکھا جائی، انہیں ان کے مذہب سے یا ان کی سیاسی وابستگی سے نہیں جوڑا جائی، مگر افسوس اس وقت ہوتا ہے کہ جب تین تین بار ملک پر حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعت ایسے لوگوں کے نام سامنے آنے پر ہنگامہ کھڑا کردیتی ہی۔ 11اکتوبر007کو درگاہ اجمیر میں بم دھماکہ کس کی سازش تھی، شاید کبھی سامنے نہ آتا، اگر مالیگاؤں میں سادھوی پرگیہ سنگھ کی موٹر سائیکل کی طرح یہاں موقع واردات سے یہ سم کارڈ برآمد نہ ہوا ہوتا۔ دراصل ہوا یہ کہ درگاہ بم دھماکہ میں ایک بم نہیں پھٹ سکا تھا۔ اس بم کو جب ناکارہ کیا گیا تو اس میں دھماکہ خیز مادّوں کے علاوہ ٹائمر ڈیوائس کی شکل میں موبائل فون بھی ملا تھا۔ موبائل اسکرین پر اسکرین سیور کی شکل میں ’وندے ماترم‘ لکھا تھا۔ جس بم سے دھماکہ کیا گیا تھا، اس کا سم کارڈ نمبر:991522000005190837 تھا اور موبائل نمبر:931304642 پایا گیا۔ تباہ ہوئی سم کی بنیاد پر تفتیشی کارروائی میں پتہ چلا کہ سم کارڈ بہاروجھارکھنڈ کی موبائل کمپنی کا ہی۔ یہ سم رامفریادو، مقام کانگوئی، پوسٹ مہجام ضلع دمکا کے نام جاری کیا گیا تھا۔ سم دمکا کے بس اسٹینڈ پر واقع موبائل کیئر نام کی دکان سے خریدا گیا تھا۔ وہیں موقع سے ملے زندہ بم سے ملے موبائل کے بنیاد پر جانکاری ملی کہ اس میں لگا سم مغربی بنگال کی موبائل کمپنی نے جاری کیا ہی۔ سم کا مالک بابولال یادو ولد منوہر یادو، سمدھ روڈ، روپ نارائن پور، آسنسول بردوان کا پایا گیا۔ سم کارڈ مغربی بنگال کے چترنجن سے سرگم آئیڈیونام کی دکان سے خریدا گیا تھا۔ تفتیش میں معلوم ہوا کہ یہ سم فرضی نام و پتہ کے شناختی کارڈ حاصل کرکے خریدا گیا تھا، اسی طرح کی1اور سم بھی خریدنے کا انکشاف ہوا۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ بم دھماکوں کی حقیقت کا پتا لگا لینے پر ہم اپنی خفیہ ایجنسیوں کی پیٹھ تھپھتپائیں اور سمجھیں کہ جن کے ناموں کی تصدیق ہماری خفیہ ایجنسیاں ایک طویل جانچ پڑتال کے بعد سامنے رکھتی ہیں، ان کے دفاع میں بغیر سوچے سمجھے فوراً بیان بازی نہ شروع کی جائی۔
} بہرحال ہم خوفزدہ ہیں اور اس وقت اپنے ملک کی حکومت و خفیہ ایجنسیوں سے مؤدبانہ درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ وہ 26نومبر008کو ملک پر ہوئے سب سے بڑے دہشت گردانہ حملہ کو ذہن میں رکھیں، اس کے چند روز پہلے کی سرگرمیوں کو ذہن میں رکھیں، ممبئی اے ٹی ایس کی کارکردگی کو ذہن میں رکھیں، بالخصوص شہید ہیمنت کرکرے کے کردار کو سامنے رکھیں، ملزمین کی شکل میں سامنے آنے والے ناموں کو ذہن میں رکھیں، ان ناموں کے سامنے آنے پر ایک مخصوص ذہنیت کے سیاستدانوں کے ردعمل کو ذہن میں رکھیں اور پھر مستعد رہیں کہ خدا نہ کرے ہمارے ملک کو پھر برے حالات سے گزرنا پڑی۔ ہم تو بس دعا ہی کرسکتے ہیں۔……………(جاری
No comments:
Post a Comment