یہ حقیقت انتہائی تلخ ہے اور اسے برداشت کرنا زہر کا گھونٹ پینے کے مترادف ہی، مگر کیا حقیقت سے نظریں چرالینا ہماری دانشمندی ہوگی؟یقینا نہیں۔ ہاں، یہ ممکن ہے کہ ہم جیسے ایک معمولی صحافی سے حقیقت کو سمجھنے میں غلطی ہوجائی، ہمارا مشاہدہ لفظ بہ لفظ درست نہ ہو، مگر اس پر غوروفکر تو کیا جاسکتا ہے اور کیا بھی جانا چاہئی، کیونکہ ایسا بھی نہیں ہے کہ جو کچھ ہم گزشتہ 63برسوں میں دیکھتے اور محسوس کرتے چلے آرہے ہیں، اس کی روشنی میں سچائی کو سمجھنا ناممکن ہو۔ ہم سمجھتے رہے یا ہمیں سمجھایا جاتا رہا کہ تقسیم وطن کے لئے مسلمان ذمہ دار ہیں۔ یہ سچ نہیں تھا، مگر حالات ہی ایسے نہیں تھے کہ ہم اس الزام کی رد میں ببانگ دہل کچھ کہہ پاتی۔ ہم جو یہاں اپنے ملک ہندوستان میں رہ گئی، وہ سب کے سب انتہائی غمزدہ حالت میں تھی۔ کسی کا بھائی اس سے بچھڑ گیا تو کوئی لاوارث اور یتیم کی طرح اپنے ہی گھر میں ایک اجنبی اور ٹھکرائے ہوئے شخص کی مانند رہ گیا۔ جنہوں نے اپنے عزیزوں کو قتل و غارتگری کی نذر ہوتے ہوئے دیکھا تھا، وہ بھوکے پیاسے رو رو کر بے حال اپنی اشک بار آنکھوں کو لے کر کہاں جاتی، کس سے فریاد کرتے اور کون ان کی سنتا کہ اس بٹوارے میں ان کا کوئی رول نہیں ہی۔ قیادت کے نام پر مسلمانوں کے پاس کچھ بھی نہیں رہنے دیا جائے گا، سوائے چند نمائشی چہروں کی، یہ تو اسی وقت طے کرلیا گیا تھا جب ہندوستان انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑرہا تھا، وہ جو انگریزوں کے نزدیک تھی، جنہوں نے انگریزوں کی غلامی کے پروانے پر دستخط کئے تھی، جنہوں نے انگریزوں کی شان میں قصیدے پڑھے تھی، ملک سے جاتے جاتے اپنے ایسے مریدوں کو انگریز حکمراں حکومت کا یہ راز سمجھا کر گئے کہ اگر ہمیں یہ ملک چھوڑنا ہی پڑا تو تم اس ملک پر حکومت کس طرح کر سکتے ہو۔ جس قوم نے ان کے تلوے اکھاڑ دئی، یقینا ان کے نشانے پر وہی قوم تھی اور وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر مستقبل میں پھر کبھی اس ملک پر حکومت کرنے کی تمنا پیدا ہوئی تو رکاوٹ بھی اسی قوم کی جانب سے کھڑی کی جائے گی، لہٰذا کوئی قدآور مسلم لیڈر ہندوستان میں نہ رہنے پائی، اسی حکمت عملی کے پیش نظر Divide & Rule ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے فارمولہ کے تحت مسلمانوں کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا اور ہم اسے محض زمین کا بٹوارہ سمجھتے رہی، اس لئے کہ یہی تو ہم کو سمجھایا گیا تھا، پھر اس کے بعد سے ہم مسلسل سازشوں کا شکار ہوتے رہی۔ آج بھی سازشوں کا شکار ہیں اور کل کوئی سازش جاری نہیں رہے گی، اس کا کوئی امکان بھی نہیں ہی۔ جس قوم نے اس ملک پر تقریباً چارسو برس حکومت کی، 190برس تک ملک کی آزادی کی کامیاب جنگیں لڑیں، آج وہ ذہنی اعتبار سے اور ایک حد تک جسمانی اعتبار سے بھی، اپنے ہی ملک میں غلاموں جیسی حالت میں ہی، مگر وہ یہ سمجھ ہی نہیں رہی ہی۔ شاید اسے ان دلتوں کی زندگی سے سبق حاصل کرنے کا شعور مستقبل شناس بھی نہیں ہی، جو ہزاروں برسوں تک منووادی نظام کے تحت غلامی سے بدتر زندگی بسر کرتے رہے تھی، مگر ایک ذی شعور شخص بابابھیم راؤ امبیڈکر کی شکل میں منظرعام پر آیا، جس نے اس قوم کی تقدیر بدلنے کا عزم کیا۔ نتیجہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہی۔
جس وقت ایک قوم زمین کے بٹوارے کے خد و خال طے کرنے میں مصروف تھی، ایک مخصوص ذہنیت ملک کو ہندوراشٹر بنانے کے فارمولہ پر عمل پیرا تھی، وہیں وہ شخص اس سب کو نظرانداز کرتے ہوئے ملک کی آئین سازی میں مصروف تھا، اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ اگر ایک دبی کچلی، پچھڑی، قدم قدم پر ذلیل و خوار کی جانے والی قوم کو پستی کے دائرے سے باہر نکالنا ہی، اس کے دل و دماغ میں بس گئی احساس کمتری کو ختم کرنا ہے اورقدم قدم پر اس کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کے سلسلہ کو روکنا ہے تو اس کے لئے انصاف کا ایسا راستہ نکالنا ہوگا کہ اگر کوئی اسے حقیر نگاہوں سے دیکھنے کی جرأت بھی کررہا ہو، اسے اپنے سے کمتر ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہو تو وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آئی۔ آج کوئی ہمت تو کرے دلتوں کے لئے وہ الفاظ استعمال کرنے کی، جو آزادی سے قبل کئے جاتے رہی، نتیجہ سامنے آجائے گا۔ دلتوں کو تو شاید کبھی یہ احساس ہی نہیں تھا کہ ان کے ووٹ کی بھی کوئی حیثیت ہوسکتی ہی۔ وہ بھی سیاسی نظام کے حصہ دار ہوسکتے ہیں، اقتدار حاصل کرنے کی بات تو دور، کسی کو اقتدار میں لانے یا اقتدار سے بے دخل کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں، مگر اس ایک شخص کی حکمت عملی نے یہ ثابت کردیا کہ آنے والے کل میں نہ صرف یہ کہ اس قوم کی اقتدار میں حصہ داری ہوگی، بلکہ عنقریب وہ برسراقتدار بھی ہوگی۔ آج ملک کی سب سے بڑی ریاست کی وزیراعلیٰ اسی طبقہ سے ہیں اور اس کے لئے بابابھیم راؤ امبیڈکر کی دی ہوئی روشنی کے علاوہ کسی کی مرہون منت بھی نہیں ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک دلت خاتون کولوک سبھا کی اسپیکر بننے کا موقع ملا، یعنی پارلیمنٹ کی سب سے اونچی کرسی بھی ایک دلت خاتون کے پاس ہی۔ یہ تھا کمال اس سیاسی حکمت عملی کا، جس نے ایسا کرشمہ کردکھایا، جو شاید قیاس سے بھی بہت دور تھا اور اب دوسرا کرشمہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہی، جس پر شاید ہم نے اس طرح توجہ دی ہی نہیں ہی، جس طرح کہ دی جانی چاہئے تھی اور ہمیں شاید یہ احساس بھی نہیں ہے کہ وہ جو کبھی اس ملک پر حاکم ہوا کرتے تھی، آج جسٹس راجندر سچر کی تحقیق کی روشنی میں دلتوں سے بھی بدتر حالت میں پہنچ گئے ہیں۔ آپ نے کبھی غور کیا ہے اس حقیقت پر کہ ہماری عملی حیثیت کیا ہی۔ ہمارے لئے اپنے ملک میں کون کون سے پیشوں کو اپنانا ہماری مجبوری بن گئی ہی، اس لئے کہ سرکاری عہدوں سے دور کر دئے گئے ہیں۔ سیاست سے بے دخل کرنے کی منصوبہ بند کوششیں روزاوّل سے ہی شروع کردی گئی تھی اور تعلیم کی راہیں بھی اس قدردشوار بنادی گئی ہیں کہ پڑھنا ہے تو سوجوکھم اٹھانے کے لئے تیار رہنا ہوگا، لہٰذاہمارے پاس صرف وہی پیشے رہ گئے ہیں، جن کے ذریعہ ہم اپنے بچوں کا پیٹ تو بھر سکتے ہیں، مگر درحقیقت یہ پیشے دوسروں کی خدمت کے سوا اورکچھ بھی نہیں ہیں۔ راج مزدور، لوہار، بڑھئی، سبزی فروش، گوشت فروش، تھوڑا اور عزت و احترام کے الفاظ میں ڈھال کر کہیں تو دستکار، فنکار، یعنی ہم دوسروں کی زندگی کے عیش و آرام کی زندگی اور ضرورت کا سامان بن کر رہ گئے ہیں۔ کیا ہم نظام حکمرانی کا حصہ ہیں، کیاہمارے پاس وہ سیاسی سماجی اقتصادی طاقت ہی، جوعدالتوں سے ہمیں انصاف دلاسکی، وہ بے گناہ جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے موت سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں، انہیں انصاف دلاسکی۔ ہر روز اپنے دامن پر لگنے والے داغوں سے بچا سکی، ہم سیاسی طاقت بھی ہوں اور حق و انصاف کس طرح حاصل کیا جاتا ہی، یہ ہنربھی جانتے ہوں، کیا اس سب کے لئے کوئی حکمت عملی ہے ہمارے پاس۔ ہم کل کی تو سوچتے نہیں، 100برس بعد کی کیا سوچیں گی۔ ہم توبس اپنی اس حالت زار کے لئے تو کسی کو موردالزام ٹھہراسکتے ہیں یا خدا سے دعا کرسکتے ہیں کہ ہمارے حال پر رحم کری۔ ہمیں خود بھی کچھ کرنا ہی، کچھ ایسا کہ جسے ہم موردالزام ٹھہرا رہے ہیں، اس پر الزام ثابت ہوجائے اور ہمیں انصاف مل جائے یا ہماری دعائوں میں وہ اثر پیدا ہوجائے کہ خدا مانگنے سے پہلے ہی ہماری مراد پوری کردی۔ کیا اس سمت میں سوچتے ہیں ہم؟ کیا اپنے اعمال کا جائزہ لیتے ہیں ہم؟ ہزاروں لاکھوں برس قبل شری رام کا جنم ہوا تھا بابری مسجد کی درمیانی گنبد کے نیچی، عدالت میں یہ ثابت ہوگیا اور محض اٹھارہ برس قبل مسجد کی شکل میں شہید کردی گئی مسجد، مسجد ثابت نہیں ہوسکی۔ 7دسمبر 1992کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، پہلے صفحہ کی سرخیوں میں درج یہی ہے کہ بابری مسجد کو بچایا نہیں جاسکا، مگر ہم عدالت میں یہ ثابت نہیں کرسکی۔ 1949میں 23-24دسمبر کی آدھی رات کو چوری چھپے مورتیاں رکھی گئی تھیں، یعنی اس سے قبل مورتیوں کا وجود نہیں تھا اور وہاں عبادت ہوتی تھی، پوجا نہیں، ہم یہ ثابت نہیں کرسکی۔ اگر وہ جگہ متنازع تھی، مسجد نہیں تھی اور دونوں فرقے اسے متنازع مانتے تھی، دونوں ہی اس پر اپنی دعویداری جتا رہے تھے تو پھر 6دسمبر992کو مسجد شہید کرنے والے لاکھوں لوگوں میں صرف ایک ہی فرقہ کے لوگ کیوں تھی؟ اور اگر وہ مسجد نہیں تھی تو مسمار کیوں کی گئی؟ ہم عدالت میں یہ ثابت نہیں کرسکی۔
Tاگر وہ جگہ متنازع تھی، یعنی نہ تو یہ ثابت ہوپارہا تھا کہ وہ مسجد تھی اور اس پر مسلمانوں کا حق ہونا چاہئے اور نہ ہی یہ ثابت ہوپارہا تھا کہ وہاں شری رام کا جنم ہوا تھا اور وہ ایک مندر تھا اور عدالت کو یہ طے کرنے کے لئے حقائق اور شواہد کی ضرورت تھی، جس کے لئے ایک لمبا وقت درکار تھا اور اس وقت تک کے لئے جب تک کہ یہ طے نہ کرلیا جائے کہ اس متنازع مقام کی اصلیت کیا ہے اس وقت تک کے لئے اسے متنازع قرار دے کر اسے اسی شکل میں رہنے دینے کا فیصلہ کیا گیا، لہٰذا اب انصاف کا تقاضہ کیا ہی، آخری فیصلہ آنے تک اس کی شکل کیا ہونی چاہئی، کیا رہنی چاہئی، وہ جو 5دسمبر992سے پہلے تھی یا وہ جودسمبر992کے بعد تھی۔ اگر متنازع بھی تسلیم کرلیا جائے تو پھر اس وقت تک جب تک کہ آخری فیصلہ نہ ہو، اس جگہ کو 5دسمبر992کی صورت میں ہونا چاہئے تھا۔ اس سے قبل بھی جب بابری مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچا تو انگریز حاکم کے ذریعہ اس کی مرمت کرائی گئی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس بار بھی کم ازکم انگریزی حکومت جیسے انصاف سے تو کام لیا جاتا اور پھر اسے 5دسمبر992کی شکل دے کر عدالت میں مقدمہ چلایا جاتا، پھر جو ثابت ہوجاتا اسے عملی جامہ پہنایا جاتا۔ اگر وہ مسجد نہیں تھی تو پھر لبراہن کمیشن قائم کرنے کی وجہ؟ آج بھی متواتر مسجد شہید کرنے والوں کو مجرم قرار دینے کی وجہ؟ اگر وجہ معقول ہے تو ماننا ہوگا کہ 6دسمبر992کو جو کچھ ہوا، وہ ایک جرم تھا، جس کی سزا مجرموں کو ملنی چاہئے اور وہ جرم یعنی بابری مسجد کی عمارت کو شہید کرنا تھا اور اس حقیقت کے باوجود بھی، جو اسے متنازع قرار دینا چاہیں وہ اسے متنازع بھی کہہ سکتے ہیں، مگر مسجد کو شہید کرنا ایک جرم تھا اور یہ آج بھی تسلیم کیا جاتا ہی، اس پر کوئی تنازع نہیں تو پھر عدالت میں یہ کیوں نہیں ثابت کیا گیا کہ متنازع ہی سہی اسے پہلے 5دسمبر992کی شکل تو دی جائی، پھر مقدمہ جاری رہے اور اگر یہ نہیں ہوسکتا تو پھر جب تک متنازع ہی، دونوں فرقوں کے حقوق یکساں ہوں۔ رام جنم ماشٹمی پر پوری شان و شوکت کے ساتھ پوجا بھی ہو اور عیدبقرعید کی نماز بھی اسی شان سے ہو۔ جگہ متنازع اور عبادت کا حق صرف ایک کو، کیا ہمارے وکیلوں نے اپنی جرح کے دوران عدالت کے سامنے یہ بات رکھی؟ ہم سپریم کورٹ میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جانا بھی چاہئی، مایوسی کفر ہی۔ ہمیں اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھنا چاہئی، مگر اس سب کے لئے ہمیں خود بھی کچھ کرنا چاہئی، کیا یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہی۔ اپنے ملک کے ایک انتہائی قابل وکیل سے گفتگو کے دوران مجھے یہ سننے کو ملا کہ ہر پیشی پر ان کی طرف سے وکیلوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی تھی اور وہ سب کے سب انتہائی قدآور ہوتے تھی، جبکہ ان کے مقابلہ ہمارے پاس وہی ایک دو نام، جن کا تذکرہ ہم برابر کرتے رہے ہیں۔ نہیں انہیں موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ان کی اہلیت یا جستجو پر سوالیہ نشان نہیں لگایا جاسکتا، یہ تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ایک طرف اکھاڑے میں 15-20 یا اس سے بھی زیادہ طاقتور پیش ور پہلوان ہوں اور دوسری طرف ہماری طرف سے صرف ایک شخص، پھر بھی ہم یہ امید کریں کہ ہر حالت میں جیت ہماری ہی ہوگی، کیا ہماری یہ توقعات بہت زیادہ نہیں ہیں۔ اب ہم سپریم کورٹ میں جارہے ہیں، کس تیاری کے ساتھ؟ کیا اس بار ہم نے ہائی کورٹ سے بہتر تیاری کرلی ہی؟ ہم ہر طرح سے ٹکڑوں میں بٹے ہیں۔ نظریاتی اعتبار سے بھی، عملی اعتبار سے بھی۔ ہماری لڑائی کون لڑرہا ہی، ہمیں نہیں معلوم۔ وہ لڑائی کس کے بھروسہ اور کس طاقت کے ساتھ لڑرہا ہی، ہمیں نہیں معلوم۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ سنی سینٹرل وقف بورڈ ہمارا پیروکار ہے اور ہاشم انصاری بھی مقدمہ لڑرہے ہیں۔ ہاشم انصاری کہاں رہتے ہیں، کن لوگوں کے درمیان، کتنے وسائل ہیں ان کے پاس، کیا عمر ہے ان کی، کتنے لوگ ہر قدم پر ان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں، کبھی سوچا ہے ہم نی؟ سنی سینٹرل وقف بورڈ یہ ادارہ کس کے ماتحت ہی، اس کا دائرہ کار کیا ہی، اس کے پاس وسائل کتنے ہیں، کیا یہ ان تمام طاقتوں کے خلاف تنہا کھڑا ہونے کی حیثیت میں ہی، جو ہر حالت میں وہاں رام مندر بنانے کا عزم کئے ہوئے ہیں اور اس کے لئے بین الاقوامی سطح پر تمام طرح کی تیاریوں سے لیس ہیں۔ ایک تنظیم مسلم پرسنل لاء بورڈ جسے حکومت یا شاید عام مسلمان، مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم سمجھتا ہی۔ شاید جس کو فیصلہ لینے کا حق حاصل ہی، اس کے کل ممبران کی کل تعداد کتنی ہی، یہ ممبران کون کون ہیں، ان کی مذہبی،سیاسی یا سماجی شناخت کیا ہی، کیا ملک کا 20کروڑ مسلمان اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے ان نمائندہ افراد کو جانتا ہی؟ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آج یہ نمائندہ تنظیم اس معاملہ میں ملک کے موجودہ 20کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کا ہی فیصلہ نہیں کررہی ہی، بلکہ ان کی آنے والی نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ بھی اس کے ہاتھ میں نظر آتا ہے اور یہ عظیم شخصیتیں کون کون ہیں، گزشتہ ایک ہفتہ کی لمبی جدوجہد کے باوجود سب کی تفصیلات تو کیا نام تک دستیاب نہیں ہوسکی، جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس نازک موقع پر اس نمائندہ جماعت کے تمام ممبران ہی نہیں، بلکہ قوم کے وہ دیگر نمائندہ حضرات بھی اس فیصلہ میں شامل ہوتی، ان کے ساتھ قابل وکیلوں کی ایک پوری ٹیم ہوتی، سب مل کر فیصلہ کرتے کہ اب اگلا قدم کیا ہو۔ اگر ہمارے ذہن میں صرف اتنا ہے کہ ہمیں تو بس حجت تمام کرنا ہی، پھر فیصلہ چاہے جو بھی ہو تو شاید ہمیں اس سوچ پر پھر سے غور کرنے کی ضرورت ہی۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ جتنی ناقص تیاری ہمارے پاس تھی، اس کے لحاظ سے جو فیصلہ آیا وہ انصاف پر مبنی نہ ہوتے ہوئے بھی بہتر تھا۔ ہم نے اسی لئے بارہا یہ لکھا کہ بیشک ہماری رائے رد کردی جائی، مگر درج کرلی جائی، اس لئے کہ ایسی ہی تیاری سپریم کورٹ میں ہمیں کتنی کامیابیوں سے ہمکنار کرائے گی، اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہی۔
………………
جس وقت ایک قوم زمین کے بٹوارے کے خد و خال طے کرنے میں مصروف تھی، ایک مخصوص ذہنیت ملک کو ہندوراشٹر بنانے کے فارمولہ پر عمل پیرا تھی، وہیں وہ شخص اس سب کو نظرانداز کرتے ہوئے ملک کی آئین سازی میں مصروف تھا، اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ اگر ایک دبی کچلی، پچھڑی، قدم قدم پر ذلیل و خوار کی جانے والی قوم کو پستی کے دائرے سے باہر نکالنا ہی، اس کے دل و دماغ میں بس گئی احساس کمتری کو ختم کرنا ہے اورقدم قدم پر اس کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کے سلسلہ کو روکنا ہے تو اس کے لئے انصاف کا ایسا راستہ نکالنا ہوگا کہ اگر کوئی اسے حقیر نگاہوں سے دیکھنے کی جرأت بھی کررہا ہو، اسے اپنے سے کمتر ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہو تو وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آئی۔ آج کوئی ہمت تو کرے دلتوں کے لئے وہ الفاظ استعمال کرنے کی، جو آزادی سے قبل کئے جاتے رہی، نتیجہ سامنے آجائے گا۔ دلتوں کو تو شاید کبھی یہ احساس ہی نہیں تھا کہ ان کے ووٹ کی بھی کوئی حیثیت ہوسکتی ہی۔ وہ بھی سیاسی نظام کے حصہ دار ہوسکتے ہیں، اقتدار حاصل کرنے کی بات تو دور، کسی کو اقتدار میں لانے یا اقتدار سے بے دخل کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں، مگر اس ایک شخص کی حکمت عملی نے یہ ثابت کردیا کہ آنے والے کل میں نہ صرف یہ کہ اس قوم کی اقتدار میں حصہ داری ہوگی، بلکہ عنقریب وہ برسراقتدار بھی ہوگی۔ آج ملک کی سب سے بڑی ریاست کی وزیراعلیٰ اسی طبقہ سے ہیں اور اس کے لئے بابابھیم راؤ امبیڈکر کی دی ہوئی روشنی کے علاوہ کسی کی مرہون منت بھی نہیں ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک دلت خاتون کولوک سبھا کی اسپیکر بننے کا موقع ملا، یعنی پارلیمنٹ کی سب سے اونچی کرسی بھی ایک دلت خاتون کے پاس ہی۔ یہ تھا کمال اس سیاسی حکمت عملی کا، جس نے ایسا کرشمہ کردکھایا، جو شاید قیاس سے بھی بہت دور تھا اور اب دوسرا کرشمہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہی، جس پر شاید ہم نے اس طرح توجہ دی ہی نہیں ہی، جس طرح کہ دی جانی چاہئے تھی اور ہمیں شاید یہ احساس بھی نہیں ہے کہ وہ جو کبھی اس ملک پر حاکم ہوا کرتے تھی، آج جسٹس راجندر سچر کی تحقیق کی روشنی میں دلتوں سے بھی بدتر حالت میں پہنچ گئے ہیں۔ آپ نے کبھی غور کیا ہے اس حقیقت پر کہ ہماری عملی حیثیت کیا ہی۔ ہمارے لئے اپنے ملک میں کون کون سے پیشوں کو اپنانا ہماری مجبوری بن گئی ہی، اس لئے کہ سرکاری عہدوں سے دور کر دئے گئے ہیں۔ سیاست سے بے دخل کرنے کی منصوبہ بند کوششیں روزاوّل سے ہی شروع کردی گئی تھی اور تعلیم کی راہیں بھی اس قدردشوار بنادی گئی ہیں کہ پڑھنا ہے تو سوجوکھم اٹھانے کے لئے تیار رہنا ہوگا، لہٰذاہمارے پاس صرف وہی پیشے رہ گئے ہیں، جن کے ذریعہ ہم اپنے بچوں کا پیٹ تو بھر سکتے ہیں، مگر درحقیقت یہ پیشے دوسروں کی خدمت کے سوا اورکچھ بھی نہیں ہیں۔ راج مزدور، لوہار، بڑھئی، سبزی فروش، گوشت فروش، تھوڑا اور عزت و احترام کے الفاظ میں ڈھال کر کہیں تو دستکار، فنکار، یعنی ہم دوسروں کی زندگی کے عیش و آرام کی زندگی اور ضرورت کا سامان بن کر رہ گئے ہیں۔ کیا ہم نظام حکمرانی کا حصہ ہیں، کیاہمارے پاس وہ سیاسی سماجی اقتصادی طاقت ہی، جوعدالتوں سے ہمیں انصاف دلاسکی، وہ بے گناہ جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے موت سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں، انہیں انصاف دلاسکی۔ ہر روز اپنے دامن پر لگنے والے داغوں سے بچا سکی، ہم سیاسی طاقت بھی ہوں اور حق و انصاف کس طرح حاصل کیا جاتا ہی، یہ ہنربھی جانتے ہوں، کیا اس سب کے لئے کوئی حکمت عملی ہے ہمارے پاس۔ ہم کل کی تو سوچتے نہیں، 100برس بعد کی کیا سوچیں گی۔ ہم توبس اپنی اس حالت زار کے لئے تو کسی کو موردالزام ٹھہراسکتے ہیں یا خدا سے دعا کرسکتے ہیں کہ ہمارے حال پر رحم کری۔ ہمیں خود بھی کچھ کرنا ہی، کچھ ایسا کہ جسے ہم موردالزام ٹھہرا رہے ہیں، اس پر الزام ثابت ہوجائے اور ہمیں انصاف مل جائے یا ہماری دعائوں میں وہ اثر پیدا ہوجائے کہ خدا مانگنے سے پہلے ہی ہماری مراد پوری کردی۔ کیا اس سمت میں سوچتے ہیں ہم؟ کیا اپنے اعمال کا جائزہ لیتے ہیں ہم؟ ہزاروں لاکھوں برس قبل شری رام کا جنم ہوا تھا بابری مسجد کی درمیانی گنبد کے نیچی، عدالت میں یہ ثابت ہوگیا اور محض اٹھارہ برس قبل مسجد کی شکل میں شہید کردی گئی مسجد، مسجد ثابت نہیں ہوسکی۔ 7دسمبر 1992کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، پہلے صفحہ کی سرخیوں میں درج یہی ہے کہ بابری مسجد کو بچایا نہیں جاسکا، مگر ہم عدالت میں یہ ثابت نہیں کرسکی۔ 1949میں 23-24دسمبر کی آدھی رات کو چوری چھپے مورتیاں رکھی گئی تھیں، یعنی اس سے قبل مورتیوں کا وجود نہیں تھا اور وہاں عبادت ہوتی تھی، پوجا نہیں، ہم یہ ثابت نہیں کرسکی۔ اگر وہ جگہ متنازع تھی، مسجد نہیں تھی اور دونوں فرقے اسے متنازع مانتے تھی، دونوں ہی اس پر اپنی دعویداری جتا رہے تھے تو پھر 6دسمبر992کو مسجد شہید کرنے والے لاکھوں لوگوں میں صرف ایک ہی فرقہ کے لوگ کیوں تھی؟ اور اگر وہ مسجد نہیں تھی تو مسمار کیوں کی گئی؟ ہم عدالت میں یہ ثابت نہیں کرسکی۔
Tاگر وہ جگہ متنازع تھی، یعنی نہ تو یہ ثابت ہوپارہا تھا کہ وہ مسجد تھی اور اس پر مسلمانوں کا حق ہونا چاہئے اور نہ ہی یہ ثابت ہوپارہا تھا کہ وہاں شری رام کا جنم ہوا تھا اور وہ ایک مندر تھا اور عدالت کو یہ طے کرنے کے لئے حقائق اور شواہد کی ضرورت تھی، جس کے لئے ایک لمبا وقت درکار تھا اور اس وقت تک کے لئے جب تک کہ یہ طے نہ کرلیا جائے کہ اس متنازع مقام کی اصلیت کیا ہے اس وقت تک کے لئے اسے متنازع قرار دے کر اسے اسی شکل میں رہنے دینے کا فیصلہ کیا گیا، لہٰذا اب انصاف کا تقاضہ کیا ہی، آخری فیصلہ آنے تک اس کی شکل کیا ہونی چاہئی، کیا رہنی چاہئی، وہ جو 5دسمبر992سے پہلے تھی یا وہ جودسمبر992کے بعد تھی۔ اگر متنازع بھی تسلیم کرلیا جائے تو پھر اس وقت تک جب تک کہ آخری فیصلہ نہ ہو، اس جگہ کو 5دسمبر992کی صورت میں ہونا چاہئے تھا۔ اس سے قبل بھی جب بابری مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچا تو انگریز حاکم کے ذریعہ اس کی مرمت کرائی گئی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس بار بھی کم ازکم انگریزی حکومت جیسے انصاف سے تو کام لیا جاتا اور پھر اسے 5دسمبر992کی شکل دے کر عدالت میں مقدمہ چلایا جاتا، پھر جو ثابت ہوجاتا اسے عملی جامہ پہنایا جاتا۔ اگر وہ مسجد نہیں تھی تو پھر لبراہن کمیشن قائم کرنے کی وجہ؟ آج بھی متواتر مسجد شہید کرنے والوں کو مجرم قرار دینے کی وجہ؟ اگر وجہ معقول ہے تو ماننا ہوگا کہ 6دسمبر992کو جو کچھ ہوا، وہ ایک جرم تھا، جس کی سزا مجرموں کو ملنی چاہئے اور وہ جرم یعنی بابری مسجد کی عمارت کو شہید کرنا تھا اور اس حقیقت کے باوجود بھی، جو اسے متنازع قرار دینا چاہیں وہ اسے متنازع بھی کہہ سکتے ہیں، مگر مسجد کو شہید کرنا ایک جرم تھا اور یہ آج بھی تسلیم کیا جاتا ہی، اس پر کوئی تنازع نہیں تو پھر عدالت میں یہ کیوں نہیں ثابت کیا گیا کہ متنازع ہی سہی اسے پہلے 5دسمبر992کی شکل تو دی جائی، پھر مقدمہ جاری رہے اور اگر یہ نہیں ہوسکتا تو پھر جب تک متنازع ہی، دونوں فرقوں کے حقوق یکساں ہوں۔ رام جنم ماشٹمی پر پوری شان و شوکت کے ساتھ پوجا بھی ہو اور عیدبقرعید کی نماز بھی اسی شان سے ہو۔ جگہ متنازع اور عبادت کا حق صرف ایک کو، کیا ہمارے وکیلوں نے اپنی جرح کے دوران عدالت کے سامنے یہ بات رکھی؟ ہم سپریم کورٹ میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جانا بھی چاہئی، مایوسی کفر ہی۔ ہمیں اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھنا چاہئی، مگر اس سب کے لئے ہمیں خود بھی کچھ کرنا چاہئی، کیا یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہی۔ اپنے ملک کے ایک انتہائی قابل وکیل سے گفتگو کے دوران مجھے یہ سننے کو ملا کہ ہر پیشی پر ان کی طرف سے وکیلوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی تھی اور وہ سب کے سب انتہائی قدآور ہوتے تھی، جبکہ ان کے مقابلہ ہمارے پاس وہی ایک دو نام، جن کا تذکرہ ہم برابر کرتے رہے ہیں۔ نہیں انہیں موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ان کی اہلیت یا جستجو پر سوالیہ نشان نہیں لگایا جاسکتا، یہ تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ایک طرف اکھاڑے میں 15-20 یا اس سے بھی زیادہ طاقتور پیش ور پہلوان ہوں اور دوسری طرف ہماری طرف سے صرف ایک شخص، پھر بھی ہم یہ امید کریں کہ ہر حالت میں جیت ہماری ہی ہوگی، کیا ہماری یہ توقعات بہت زیادہ نہیں ہیں۔ اب ہم سپریم کورٹ میں جارہے ہیں، کس تیاری کے ساتھ؟ کیا اس بار ہم نے ہائی کورٹ سے بہتر تیاری کرلی ہی؟ ہم ہر طرح سے ٹکڑوں میں بٹے ہیں۔ نظریاتی اعتبار سے بھی، عملی اعتبار سے بھی۔ ہماری لڑائی کون لڑرہا ہی، ہمیں نہیں معلوم۔ وہ لڑائی کس کے بھروسہ اور کس طاقت کے ساتھ لڑرہا ہی، ہمیں نہیں معلوم۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ سنی سینٹرل وقف بورڈ ہمارا پیروکار ہے اور ہاشم انصاری بھی مقدمہ لڑرہے ہیں۔ ہاشم انصاری کہاں رہتے ہیں، کن لوگوں کے درمیان، کتنے وسائل ہیں ان کے پاس، کیا عمر ہے ان کی، کتنے لوگ ہر قدم پر ان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں، کبھی سوچا ہے ہم نی؟ سنی سینٹرل وقف بورڈ یہ ادارہ کس کے ماتحت ہی، اس کا دائرہ کار کیا ہی، اس کے پاس وسائل کتنے ہیں، کیا یہ ان تمام طاقتوں کے خلاف تنہا کھڑا ہونے کی حیثیت میں ہی، جو ہر حالت میں وہاں رام مندر بنانے کا عزم کئے ہوئے ہیں اور اس کے لئے بین الاقوامی سطح پر تمام طرح کی تیاریوں سے لیس ہیں۔ ایک تنظیم مسلم پرسنل لاء بورڈ جسے حکومت یا شاید عام مسلمان، مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم سمجھتا ہی۔ شاید جس کو فیصلہ لینے کا حق حاصل ہی، اس کے کل ممبران کی کل تعداد کتنی ہی، یہ ممبران کون کون ہیں، ان کی مذہبی،سیاسی یا سماجی شناخت کیا ہی، کیا ملک کا 20کروڑ مسلمان اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے ان نمائندہ افراد کو جانتا ہی؟ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آج یہ نمائندہ تنظیم اس معاملہ میں ملک کے موجودہ 20کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کا ہی فیصلہ نہیں کررہی ہی، بلکہ ان کی آنے والی نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ بھی اس کے ہاتھ میں نظر آتا ہے اور یہ عظیم شخصیتیں کون کون ہیں، گزشتہ ایک ہفتہ کی لمبی جدوجہد کے باوجود سب کی تفصیلات تو کیا نام تک دستیاب نہیں ہوسکی، جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس نازک موقع پر اس نمائندہ جماعت کے تمام ممبران ہی نہیں، بلکہ قوم کے وہ دیگر نمائندہ حضرات بھی اس فیصلہ میں شامل ہوتی، ان کے ساتھ قابل وکیلوں کی ایک پوری ٹیم ہوتی، سب مل کر فیصلہ کرتے کہ اب اگلا قدم کیا ہو۔ اگر ہمارے ذہن میں صرف اتنا ہے کہ ہمیں تو بس حجت تمام کرنا ہی، پھر فیصلہ چاہے جو بھی ہو تو شاید ہمیں اس سوچ پر پھر سے غور کرنے کی ضرورت ہی۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ جتنی ناقص تیاری ہمارے پاس تھی، اس کے لحاظ سے جو فیصلہ آیا وہ انصاف پر مبنی نہ ہوتے ہوئے بھی بہتر تھا۔ ہم نے اسی لئے بارہا یہ لکھا کہ بیشک ہماری رائے رد کردی جائی، مگر درج کرلی جائی، اس لئے کہ ایسی ہی تیاری سپریم کورٹ میں ہمیں کتنی کامیابیوں سے ہمکنار کرائے گی، اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہی۔
………………
No comments:
Post a Comment