Monday, December 20, 2010

اسرائیل کو اعتراض ہے آر ایس ایس کو ’ہٹلر‘ کہنے پر

عزیز برنی

ہمیں لگا یہ کہ اب ہمیں ان موضوعات پر مزید لکھنے کی ضرورت نہیں ہی، جن پر گزشتہ چند برسوں میں متواتر لکھا جاتا رہا ہی۔ اس لئے کہ ہم چاہتے تھے کہ حکومت ہند کو ان حقائق سے روشناس کرائیں، وہ ان خدشات پر توجہ دے اور پھر اس ملک دشمن، قوم دشمن منصوبوں سے نمٹنے کی حکمت عملی بنائی۔ 19اور0دسمبر010کو براڈی میں منعقد ملک کی حکمراں جماعت کانگریس پارٹی نے اپنے 125سالہ جشن کے ایجنڈے میں تقریباً ان تمام باتوں کو شامل کرلیا، جن پر کہ ہم حکومت اور عوام کی توجہ دلانا چاہتے تھی۔ ہمارا خیال تھا کہ اب ہمیں اپنی تحریر کے لئے کچھ نئے موضوعات پر ریسرچ کرنی ہوگی، لیکن یہ اجلاس اختتام تک پہنچنے سے قبل ہی پہلا اعتراض اسرائیل کے سفارتخانہ سے ہمارے سامنے آیا کہ انہیں اعتراض تھا کہ آر ایس ایس کا موازنہ ’نازیوں‘ سے یا ’ہٹلر‘ سے کیوں کیا گیا۔ دراصل اس کی وضاحت ہم اپنے سلسلہ وار مضامین میں پہلے بھی کرچکے ہیں اور آج پھر وقت کی ضرورت ہے کہ آر ایس ایس کے دوست اسرائیل کے سفارتخانہ سے جو آفیشیل اعتراض درج کیا گیاہی، ہم اس کے حقائق آر ایس ایس کے لفظوں میں ہی سامنے رکھ دیں، لہٰذا ہم ذکر کرنے جارہے ہیں وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے ذریعہ قائم کی گئی ایک انتہائی اہم کمیٹی کی رپورٹ، جس میں آر ایس ایس کی تعلیمی درسگاہوں پر اپنی تحقیق پیش کی تھی۔ اس کمیٹی میں ملک کے دانشور اور درس وتدریس سے وابستہ سینئر افراد شامل تھی، جن کا تذکرہ ہم اپنے مندرجہ ذیل مضمون میں کرنے جارہے ہیں۔ واضح ہو کہ ہم یہ تمام باتیں پہلے بھی سامنے رکھ چکے ہیں اور انہیں اپنی تازہ تصنیف میں بھی شامل کیا ہی، مگر آج پھر ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ہمارے ذریعہ اٹھائے گئے سوالات اب قومی بحث کا موضوع بن چکے ہیں۔ حکمراں جماعت کے ایجنڈے میں شامل ہوچکے ہیں، لہٰذا ہم ان تمام باتوں کو جو کہتے رہے ہیں اور لکھتے رہے ہیں اپنی تحقیق کے ذریعہ ثبوتوں اور حوالوں کے ساتھ پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور آئندہ بھی اگر ہمارے ذریعہ منظرعام پر لائے گئے کسی بھی موضوع پر کچھ بھی تفصیلات درکار ہوں گی تو انہیں پھر ایک بار منظرعام پر رکھ دیا جائے گا۔
سرسوتی ششو مندر ، جس کا پہلا اسکول آر ایس ایس چیف، ایم. ایس. گولوالکر کی موجودگی میں 1952 میں قائم کیا گیا تھا، اس کا اثر و رسوخ اب کئی گنا بڑھ چکا ہی۔ یہاں پر سب سے پہلے اس بات کا ذکر کرنا زیادہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کے ان ’مندروں‘ میں پڑھانے لکھانے کے نام پر کیا کچھ سکھایا، سمجھایا جاتا ہی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے سے پہلے اسکولی نصاب کی کتابوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی، جس کا نام تھا ’نیشنل اسٹیئرنگ کمیٹی آن ٹیکسٹ بک ایویلوئیشن‘ اور اس میں معروف اور قابل احترام دانشوروں کو مقرر کیا گیا تھا۔ اس کمیٹی میں جو لوگ شامل تھی، ان کے نام ہیں پروفیسر بپن چندرا، پروفیسر ایمریٹس، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نیشنل پروفیسر اور چیئرمین، نیشنل بک ٹرسٹ (این بی ٹی) جنھیں اس کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تھا؛ پروفیسر روِندر کمار، سابق ڈائریکٹر، نہرو میموریل میوزیم اینڈ لائبریری؛ پروفیسر نیمائی سدھن بوس، سابق وائس چانسلر، وشو بھارتی یونیورسٹی، شانتی نکیتن؛ پروفیسر ایس. ایس. بال، سابق وائس چانسلر، گرو نانک دیو یونیورسٹی، امرتسر؛ پروفیسر آر. ایس. شرما، سابق چیئرپرسن، انڈین کونسل فار ہسٹوریکل ریسرچ؛ پروفیسر سیتارام سنگھ، مظفر پور یونیورسٹی؛ پروفیسر سروجنی ریگانی، عثمانیہ یونیورسٹی، حیدرآباد اور شری وی. آئی. سبرامنیم کو بطور ممبران شامل کیا گیا تھا جب کہ این سی ای آرٹی کے ڈین، پروفیسر ارجن دیو کو ممبر سکریٹری بنایا گیا تھا۔ اس کمیٹی نے جنوری 1993 اور اکتوبر 1994 کو ہونے والی اپنی میٹنگ میں ان رپورٹوں پر غور و خوض کیا جسے نیشنل کونسل فار ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (NCERT) نے متعدد ریاستوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں کے حوالے سے تیار کیا تھا اور ساتھ ہی آر ایس ایس کے ذریعے چلائے جانے والے سرسوتی ششو مندر کے پرکاشن (پبلی کیشن) اور ودیا بھارتی پبلی کیشن کے ذریعے منظر عام پر لایا گیا تھا۔ اس پر غورو خوض کرنے کے بعد کمیٹی نے فروغ انسانی وسائل کی وزارت (HRD) اور مختلف ریاستوں کے تعلیمی اداروں کو جو تجویزیں پیش کیں اور این سی ای آرٹی نے جو رپورٹیں تیار کیں، ان کے چند اقتباسات ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پارٹی کی سیاست اور فرقہ وارانہ زہرکیا ہوتا ہی، جس سے ہمارے بچوں کا ذہن پراگندہ کیا جارہا تھا۔ درج ذیل حوالوں میں جن الفاظ کو ہائی لائٹ کیا گیا ہی، وہ اس طرح ہیں:
سرسوتی ششو مندر پرکاشن کے بارے میں کمیٹی کی تجویز درج ذیل تھی:
’’سرسوتی ششو مندر میں پرائمری (بنیادی) سطح پر جو کتابیں پڑھائی جارہی ہیں، ان میں سے چند نصابی کتابوں میں ہندوستانی تاریخ کے نہایت زہرآلود اور فرقہ وارانہ نظریات کو پیش کیا گیا ہی…… یہ طریقہ پوری طرح عدم رواداری پر مبنی اورنہایت بچکانہ ہی، جس کی زبان بھی بھونڈی ہے اور تاریخی ’حقائق‘ کو جس طرح توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے اس کا مقصد حب الوطنی کو فروغ دینا نہیں ہی، جیسا کہ دعویٰ کیا جارہا ہے بلکہ پوری طرح ہٹ دھرمی اور فسطائیت پر مبنی ہے …… ان نصابی کتابوں کو اسکول میں پڑھانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہےی۔‘‘
اسی طرح وِدیا بھارتی پبلی کیشن کے بارے میں اس کمیٹی نے درج ذیل تجویز پیش کی :
’’اس پبلی کیشن کے تعلق سے اور ’سنسکرتی گیان‘ کے عنوان سے لکھی گئی فرقہ وارانہ تحریروں ، جنھیں ملک کے مختلف حصوں میں قائم کیے گئے وِدیا بھارتی اسکولوں میں پڑھایا جارہا ہی، کے بارے میں جو تشویش اس رپورٹ میں ظاہر کی گئی ہی، اس سے یہ کمیٹی بھی اتفاق کرتی ہی۔ ایسے اسکولوں کی تعداد 6,000 بتائی جاتی ہی۔ یہ کمیٹی رپورٹ میں درج اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ ’سنسکرتی گیان سیریز‘ کے تحت شائع کیے جانے والے متن کا مقصد ’نوجوان نسلوں کو کلچر کی تعلیم دینے کے نام پر ہٹ دھرمی اور مذہبی جنون کو بڑھاوا دینا ہی۔‘ اس کمیٹی کی رائے ہے کہ وِدیا بھارتی اسکولوں کو واضح طور پر ہنگامہ خیز فرقہ وارانہ خیالات کی تشہیر کے لیے استعمال کیا جارہا ہے …… سنسکرتی گیان سیریز کی کتابوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ انھیں مدھیہ پردیش اور دیگر مقامات پر واقع وِدیا بھارتی اسکولوں میں پڑھایا جارہا ہی۔ مدھیہ پردیش اور دیگر ریاستوں کی تعلیمی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اسکولوں میں اس سیریز کی کتابوں پر پابندی لگا دی۔ ریاستی حکومتیں ان کتابوں کی اشاعت پر پابندی لگانے کے لےی، جو فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دیتی ہیں، کوئی مناسب قدم اٹھا ئیںاور ان امتحانوں پر بھی پابندی لگائیں جو ان کتابوں کے مواد سے متعلق وِدیا بھارتی سنستھان کے ذریعے لیے جاتے ہیں۔‘‘
اسکولوں میں بچوں کی ابھرتی ہوئی ذہنیت میں زہر بھرا گیا
گودھرا کے بعد والے واقعہ جس میں گجرات کے اندر انسانوں کی نسل کشی کی گئی جب کہ ریاست میں (اور مرکز میں بھی) بی جے پی کی حکومت تھی اور اسکولوں کے اندر بچوں کے تشکیلی ذہن میں زہر بھرا گیا، اس بات کی طرف بار بار اشارہ کیا گیا۔ ریاست گجرات کے ذریعے چلائے جارہے اسکولوں میں گیارہویں کلاس کے بچوں کو سماجیات (سوشل اسٹڈیز) میں درج ذیل باتیں پڑھائی جاتی ہیں :
’’… مسلمانوں کے علاوہ عیسائیوں، پارسیوں اور دیگر غیر ملکیوں کو بھی اقلیتی فرقوں کے طور پر جانا جاتا ہی۔ کچھ ریاستوں میں ہندو اقلیت میں ہیں، جب کہ مسلمان، عیسائی اور سکھ ان ریاستوں میں اکثریت میں ہیں۔‘‘
ان نصابی کتابوں میں یہ لکھا گیا کہ ’ہٹلر ہمارا لیڈر ہی‘
ریاست گجرات کی دسویں کلاس کی سوشل اسٹڈیز کی کتاب میں، جو فسطائیت اور نازی اِزم کی وکالت کرتی ہی، بچوں کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ ان ’غیر ملکیوں‘ سے کیسے نمٹنا ہے جو ہندوئوں کو خود ان کے ہی ملک میں اقلیت بنانے پر لگے ہوئے ہیں۔
’’نازی اِزم کی آئیڈیولوجی : فاشزم کی طرح، ایک ملک کو چلانے کے اصول یا نظریات جس کی بنیاد ہٹلر نے ڈالی تھی، اسے نازی اِزم کی آئیڈیالوجی کہا جاتا ہی۔ اقتدار میں آنے کے بعد نازی پارٹی نے ڈکٹیٹر (آمر) کو مکمل،بے انتہا اور تمام بڑے اختیارات دے دےی۔ ڈکٹیٹر کو ’فیوہرر‘ (Fuhrer) کے نام سے جانا گیا۔ ہٹلر نے پورے زور شور سے یہ اعلان کیا کہ ’پوری دنیا میں اصلی آریہ صرف جرمنی کے باشندے ہیں اور وہ دنیا پر حکومت کرنے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔‘ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ جرمن عوام سختی سے نازی اِزم کے اصولوں پر ہی کاربند رہیں گی، ان اصولوں کو تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل کر دیا گیا۔ ان نصابی کتابوں میں یہ لکھا گیا کہ ’ہٹلر ہمارا لیڈر ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔‘
نوٹ:ـ اگلا مضمون 27دسمبر010کو اسلام جم خانہ، نیتاجی سبھاش چندربوس روڈ، میرین ڈرائیو، ممبئی میں اپنی تازہ تصنیف ’’آر ایس ایس کی سازشـ6/11؟‘‘ کی رسم اجرا کے بعد۔
……………

इज्राईल को एतराज़ है आर.एस.एस को ‘हिटलर’ कहने पर!
अज़ीज़ बर्नी

हमें लगा यह कि अब हमें इन विषयों पर और लिखने की ज़रूरत नहीं है जिन पर पिछले कुछ वर्षों में लगातार लिखा जाता रहा है। इसलिए कि हम चाहते थे कि भारत सरकार को उन तथ्यों से अवगत कराएं, वह इन आशंकाओं पर तवज्जो दे, और फिर इस देश विरोधी, समाज विरोधी योजनाओं से निमटने की रणनीति बनाए। 19 और 20 दिसम्बर 2010 को बुराड़ी में आयोजित देश की सत्ताधारी पार्टी कांगे्रस ने अपने 125 वर्षीय जश्न के एजंडे में लगभग इन तमाम बातों को शामिल कर लिया जिन पर कि हम सरकार और जनता की तवजो दिलाना चाहते थे, हमारा ख़याल था अब हमें अपनी तहरीर के लिए कुछ नए विषयों पर रिसर्च करनी होगी, लेकिन यह अधिवेशन समाप्ति तक पहुंचने से पहले ही प्रथम आपत्ति इस्राईल के दूतावास की हमारे सामने आई, उन्हें आपत्ति थी कि आरएसएस की तुलना ‘ना़िज़यो’’ से या ‘हिटलर’ से क्यों की गई। दरअसल इसकी व्याख्या हम अपने सिलसिलेवार लेख में पहले भी कर चुके हैं और आज फिर वक़्त की ज़रूरत यह है कि आरएसएस के दोस्त इस्राईल के दूतावास से जो आॅफ़िशियल आपत्ति दर्ज की गई है हम उसकी वास्तविकता आरएसएस के शब्दों में ही सामने रख दें, लिहाज़ा हम ज़िक्र करने जा रहे हैं मानव संसाधन मंत्रालय ह्न के द्वारा बनाई गई एक अत्यंत अहम कमेटी की रिपोर्ट) जिसमें आरएसएस की शैक्षणिक संस्थाओं पर अपनी तहक़ीक पेश की थी। इस कमेटी में देश के बुद्धिजीवियों और शिक्षा से संबंधित सीनियर अफ़राद सम्मिलित थे, जिनका उल्लेख हम अपने निम्नलिखित लेख में करने जा रहे हैं। विदित रहे कि हम यह तमाम बातें पहले भी सामने रख चुके हैं और उन्हें अपनी ताज़ा ‘पुस्तक’ में भी शामिल किया है। मगर आज फिर ज़रूरत इसलिए पेश आई कि हमारे द्वारा उठाए गए प्रश्न अब राष्ट्रीय बहस का विषय बन चुके हैं। सत्ताधारी पार्टी के एजेंडे में शामिल हो चुके हैं। लिहाज़ा हम इन तमाम बातों को जो कहते रहे हैं और लिखते रहे हैं अपनी तहक़ीक़ के ज़रिए सबूतों और हवालों के साथ पेश करना आवश्यक समझते हैं और आइंदा भी अगर हमारे द्वारा सामने लाए गए किसी भी तथ्य पर कुछ भी तफ़्सीलात दरकार होंगी तो उन्हें फिर एक बार मंज़रेआम पर रख दिया जाएगा।
सरस्वती शिशु मंदिर, जिस का प्रथम स्कूल आर.एस.एस चीफ एम.एस.गोलवालकर की उपस्थिति में 1952 में प्रारम्भ किया गया था, उस का प्रभाव कई गुना बढ़ चुका है। यहां पर सबसे पहले इस बात की चर्चा करना अतिअवश्यक प्रतीत होता है कि शिक्षा के इन ‘मंनिदरों’ में पढ़ाने लिखाने के नाम पर क्या कुछ सिखाया, समझाया जाता है।
भारतीय जनता पार्टी (बी.जे.पी) के सत्ता में आने से पहले पाठ्यक्रम की पुस्तकों का जायज़ा लेने के लिए एक कमेटी बनाई गई थी जिसका नाम था ‘नेशनल इस्टेयरिंग कमेटी आॅन टेक्स्ट बुक एवेल्यूशन’ और इसमें चर्चित और आदरणीय बुद्धिजीवीओं को नियुक्त किया गया था। इस कमेटी में जो लोग थे उनके नाम हैः प्रोफेसर बीपिन चंद्रा, प्रोफेसर एमरेटस, जवाहर लाल नेहरू यूनीवर्सिटी नेशनल प्रोफेसर और चेयरमैन, नेशनल बुक ट्रस्ट (एन.बी.टी) जिन्हें इस कमेटी का चेयरमैन बनाया गया था, प्रोफेसर रविन्द्र कुमार, पूर्व डायरेक्टर, नेहरू मेमोरियल म्यूज़ियम एण्ड लाइब्रेरी, प्रोफेसर निमाई सदहन बोस, पूर्व वाइस चांसलर विश्व भारतीय यूनिवर्सिटी, शांति निकेतन, प्रोफेसर एस.एस.बाल, पूर्व वाइस चांसलर, गुरू नानक देव यूनिवर्सिटी अमृतसर, प्रोफेसर आर.एस.शर्मा, पूर्व चेयपर्सन इण्डियन कोंसिल फाॅर हिस्टोरिकल रिसर्च, प्रोफेसर सीता राम सिंह, मुज़फ्फरपुर यूनिवर्सिटी, प्रोफेसर सरोजनी रीगानी, उस्मानीया यूनिवर्सिटी, हैदराबाद और श्री वी.आई.सुब्रामनियम को सदस्य के रूप में शामिल किया गया था जबकि एन.सी.ई.आर.टी के डीन, प्रोफेसर अर्जुन देव को सचिव सदस्य बनाया गया था। इस कमेटी ने जनवरी 1993 और अक्टूबर 1994 को होने वाली इस मीटिंग में इन रिपोर्टो पर विचार विमर्श किया जिसे नेशनल कोंसिल फाॅर एजूकेशनल एंड ट्रेनिंग (एन.सी.इ.आर.टी) ने अनेक राज्यों में पढ़ाए जाने वाली पाठ्यपुस्तकों के हवाले से तैयार किया था और साथ ही आर.एस.एस द्वारा चलाए जाने वाले सरस्वती शिशु मंदिर के प्रकाशन (पब्लिकेशन) और विद्या भारतीय पब्लिकेशन द्वारा सामने लाया गया था। इस पर विचार विमर्श करने के बाद कमेटी ने मानव विकास संसाधन मंत्रालय (एम.एच.आर.डी) और विभिन्न राज्यों के शिक्षा संस्थानों को जो प्रस्ताव रखें और एन.सी.ई.आर.टी ने जो रिपोर्टे तैयार कीं, उनके कुछ अंश नीचे दिये जा रहे हैं जो यह दर्शाते हैं कि पार्टी की राजनीति और साम्प्रदायिकता का विष क्या होता है जिससे हमारे बच्चों के मस्तिषक को विषाक्त किया जा रहा था। नीचे दिये गये हवालों को हाई अलर्ट किया गया है, वह हमारी ओर से हैं।
सरस्वती शिशु मंदिर प्रकाशन के बारे में कमेटी का प्रस्ताव इस प्रकार हैः
‘‘सरस्वती शिशु मंदिर में प्राईमरी (बुनियादी) स्तर पर जो पुस्तकंे पढ़ाई जा रही हैं उनमें से कुछ पाठ्य पुस्तकों में भारतीय इतिहास के अत्यधिक विषाक्त और साम्प्रदायिक विचारधारा को पेश किया गया है...। यह तरीक़ा पूरी तरह कट्टरता पर आधारित है और अत्यधिक बचकाना है जिसकी भाषा भी भोंडी है और ऐतिहासिक तथ्यों को जिस प्रकार तोड़ मरोड़कर पेश किया गया है उसका उद्देश्य देश प्रेम का प्रसार नहीं है। जैसा कि दावा किया जा रहा है बल्कि पूरी तरह हठधर्मी और फासीवाद पर आधारित है.. इन पाठ्य पुस्तकों को स्कूल में पढ़ाने की स्वीकृति नहीं दी जानी चाहिए’
‘‘इसी तरह विद्याभारती पब्लिकेशन के बारे में इस कमीटी ने निम्नलिखित प्रस्ताव पेश कियाः
इस पब्लिकेशन के संबंध में तथा संस्कृतिक ज्ञान की शीर्षक से लिखे गए साम्प्रदायिक लेखों, जिन्हें देश के विभिन्न भागों में स्थापित किये गये विद्याभारती स्कूलों मंे पढ़ाया जा रहा है, कि विषय में जो चिंता इस रिपोर्ट में प्रकट की गई है उससे यह कमीटी भी सहमत है। ऐसे स्कूलों की संख्या 6000 बताई जाती है। यह कमीटी रिपोर्ट में उल्लेखित इस बात से सहमत है कि ‘‘संस्कृतिक ज्ञान सीरीज’’ के तहत प्रकाशित किये जाने वाले गद्य का उद्देश्य ‘नई नस्लों को संस्कृति की शिक्षा देने के नाम पर हठधर्मी और धार्मिक पागलपन को बढ़ावा देना है’’ इस कमीटी की राय है कि विद्याभारती स्कूलों को स्पष्ट रूप से हंगामा पैदा करने वाले साम्प्रदायिक विचारों के प्रचार के लिए इस्तेमाल किया जा रहा है... संस्कृति ज्ञान सीरीज की पुस्तकों के बारे में मालूम हुआ है कि उन्हें मध्य प्रदेश तथा अन्य स्थानों पर स्थित विद्याभारती स्कूलों में पढ़ाया जा रहा है। मध्यप्रदेश तथा अन्य राज्यों के शिक्षण प्रबंधन को चाहिए कि वह स्कूलों में इस सीरीज की पुस्तकों पर प्रतिबंध लगा दे। राज्य सरकारें इन पुस्तकों के प्रकाशन पर प्रतिबंध लगाने के लिए, जो साम्प्रदायिक घृणा को हवा देती हैं, कोई उचित क़दम उठायें और इन परीक्षाओं पर भी प्रतिबंध लगायें जो इन पुस्तकों के विषय वस्तु से संबंधित विद्या भारतीय संस्थान द्वारा लिये जाते हैं।’
स्कूलों में बच्चों की उभरती हुई मानसिकता में विष भरा गया
गोधरा के बाद वाली घटना जिसमें गुजरात में नरसहार किया गया जबकि राज्य में (और केन्द्र में भी) बी.जे.पी की सरकार थी और स्कूलों में बच्चों की उभरती हुई मानसिकता में विष भरा गया, इस बात की ओर बार-बार इशारा किया गया। गुजरात राज्य द्वारा चलाए जा रहे स्कूलों में गयारवीं कक्षा के बच्चों को समाजिक ज्ञान (सोशल इस्टेडीज़) में निम्निलिखित बातें पढ़ाई जाती हैः
‘‘ ह्नमुसलमानों के अतिरिक्त ईसाइयों, पारसियों और दूसरे विदेशियों को भी अल्पसंख्यक सम्प्रदायों के रूप में माना जाता है। कुछ राज्यों में हिन्दू अल्पसंख्यक हैं जबकि मुसलमान, इसाई और सिख इन राज्यों में बहुसंख्यक हैं।’’
इन पाठ्य पुस्तकों में यह लिखा गया कि ‘‘हिटलर हमारा नेता है’’
गुजरात राज्य की दसवीं कक्षा के समाजिक ज्ञान की पुस्तक में जो फासीवाद और नाज़ीवाद की वकालत करती है, बच्चों को यह पढ़ाया जाता है कि इन ‘विदेशियों’ से कैसे निमटना है, जो हिन्दुओं को स्वयं उनके ही देश में अल्पसंख्यक बनाने में लगे हुए हैं।
नाज़ीवाद की विचारधाराः फासीवाद की तरह एक देश को चलाने के सिद्धांत या नियम जिसकी नीव हिटलर ने डाली थी, उसे नाज़ीवाद की विचारधारा कहा जाता है। सत्ता में आने के बाद नाज़ी पार्टी ने अधिनायक (डिक्टेटर) को पूर्ण, असीमित तथा सभी बड़े अधिकार दे दिए। अधिनायक को ‘फ्युहर्र’ के नाम से जाना गया। हिटलर ने पूरे ज़ोर शोर से यह घोषणा की ‘‘पूरी दुनिया में असली आर्य केवल जर्मनी के निवासी हैैं और वह विश्व पर शासन करने के लिए ही जन्मे हैं।’’ इस बात को सुनिश्चित बनाने के लिए कि जर्मन की जनता कठोरता से नाज़ीवाद के नियमों पर ही चलती रहेगी, इन नियमों को शैक्षिक संस्थानों के पाठ्यक्रम में शामिल कर दिया गया। इन पाठ्य पुस्तकों में यह लिखा गया कि ‘‘हिटलर हमारा नेता है और हम उससे प्रेम करते हैं।’’
नोटः- अगला लेख 27 दिसम्बर 2010 को इस्लाम जिमख़ाना, नेताजी सुभाषचंद्र बोस रोड, मैरीन ड्राइव, मुम्बई में अपनी ताज़ा तसनीफ़ ‘‘आर.एस.एस का षड्यंत्र-26/11?’’ के विमोचन के बाद।
..................................

Sunday, December 19, 2010

کانگریس کا25سالہ سفرـتب جنگ انگریزوں سے اب سنگھ سی

عزیز برنی

آج صبح درجن بھر سے زیادہ اخبارات کا مطالعہ کرنے کے بعد دفعتاً میری نظر ہندی روزنامہ ’نئی دنیا‘ کی باٹم اسٹوری ’’انتہا پسند ہندووادی وہاں بھی ٹٹول رہے ہیں ایٹمی جنگ کے امکاناتـ’ہندوتو‘ حوصلہ افزائی کے لئے امریکہ میں بھی کروڑوں ڈالر خرچ‘‘، یہ اسٹوری اخبار کے ایڈیٹر ’آلوک مہتا‘ کی تھی۔ خبر انتہائی اہم تھی۔ آج ہی براڑی میں کانگریس اپنا 125سالہ جشن منارہی تھی، مجھے ضروری لگا کہ اس خبر کا تذکرہ میں کانگریس میں اپنے ایک قریبی سیاستداں سے جناب دگ وجے سنگھ سے کروں، لہٰذا فوری طور پر میں نے اس خبر کے وہ تراشے انہیں پڑھ کر سنائی، جو اس وقت میں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے جارہا ہوں اور ساتھ ہی اس خبر کی اسکین کاپی، ان کے ایـمیل پر سینڈ بھی کردی، تاکہ یہ خبر تفصیل سے پڑھنے کا اگر ان کے پاس موقع ہو تو پڑھ سکیں۔
آج کے تقریباً تمام اخبارات نے ان خیالات کا اظہار کیا تھا کہ کانگریس کے اس اجلاس میں سنگھ پریوار نشانے پر رہے گا۔ قیاس درست ثابت ہوا، پارٹی کی صدر محترمہ سونیاگاندھی نے اپنی تقریر میں ’سنگھی سرگرمیوں‘ پر متوقع گفتگو کی اور پھر پارٹی کے جنرل سکریٹری جناب دگ وجے سنگھ نے ایک بار پھر سنگھ پریوار کے تعلق سے اپنے اسی رُخ کا اظہار کیا، جیسا کہ وہ کرتے رہے ہیں، بلکہ آج ان کا لہجہ اور بھی سخت تھا، اس میں مالیگاؤں سے اجمیر تک ہوئے بم دھماکوں اور تازہ تفتیش میں سامنے آئے چہروں کا ذکر بھی تھا، مسلمانوں کے تئیں سنگھ نظریات اور اڈوانی کی رتھ یاترا کے منفی اثرات اور اس بات پر زور بھی کہ سنگھی عناصر تمام شعبہ جات میں پیوست ہوگئے ہیں، لہٰذا ان پر نظر رکھنی ہوگی۔ آج کے اس کانگریسی اجلاس میں اگر خلاف توقع کچھ تھا تو پارٹی کے جنرل سکریٹری اور کانگریس کا مستقبل سمجھے جانے والے راہل گاندھی کا وکی لیکس کے ذریعہ منظرعام پر لائے گئے اپنے بیان کے حوالہ سے کچھ بھی نہ کہنا، جبکہ گزشتہ تین روز سے اس بیان پر زبردست ہنگامہ جاری تھا، بھارتیہ جنتا پارٹی برہم تھی اور ہم بھی یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ آخر وکی لیکس کے ذریعہ منظرعام پر لائے گئے اس بیان میں ایسا کیا ہی، جس پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران اس قدر برہم ہیں۔ اگر یہ مکمل انکشاف ہمارے سامنے نہ ہوتا تو ہم بھی اس غلط فہمی کا شکار رہتے کہ شاید راہل گاندھی نے کوئی ایسی بات کہہ دی ہی، جو حقیقت پر مبنی نہیں ہی، مگر جب ہم نے وکی لیکس کے اس انکشاف کا لفظ بہ لفظ جائزہ لیا تو ہمیں لگا کہ اس میں تو ایسا کچھ ہے ہی نہیں، جس کی آج راہل گاندھی کو وضاحت کرنا چاہئے تھی یا بھارتیہ جنتا پارٹی یا سنگھ پریوار کو چراغ پا ہونا چاہئے تھا۔ اگر گنجائش ہوتی تو میں اس موضوع پر ذرا تفصیل سے لکھتا، لیکن اس وقت ضروری یہ لگتا ہے کہ وکی لیکس کے ذریعہ راہل گاندھی کی امریکی سفیر سے گفتگو کا انکشاف اپنے قارئین اور بالخصوص سنگھ پریوار کی خدمت میں پیش کردوں، تاکہ سمجھا جاسکے کہ اس میں ایسا کیا تھا، جس پر انہوں نے اتنا طوفان برپا کیا۔ ہمیں تو لگا راہل گاندھی نے ضرور کچھ ایسا کہہ دیا ہوگا، جو حقیقت پر مبنی نہ ہو ایسا نہیں تھا،حقیقت تو اس سے کہیں زیادہ ہے اور یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ بھی نہیں ہی، یعنی امریکی سفارتکار Timothy Roemer سے اگر یہ نہ کہا گیا ہوتا تو بھی جو کچھ مالیگاؤں تحقیق کے بعد منظرعام پر آگیا تھا، وہ کس سے چھپا تھا۔جگہ کی تنگی کی وجہ سے مجھے اپنی گفتگو یہیں تمام کرنی ہوگی، لہٰذا ملاحظہ فرمائیں پہلے آلوک مہتا کی خبر، پھر اس کے بعد وکی لیکس کا وہ انکشاف جس پر ہنگامہ جاری تھا۔
انتہا پسند ہندووادی وہاں بھی ٹٹول رہے ہیں ایٹمی جنگ کے امکانات
’ہندوتو‘ حوصلہ افزائی کے لئے امریکہ میں بھی کروڑوں ڈالر خرچ
آلوک مہتا
یونائٹیڈ اسٹیٹ امریکہ ہندوتو کی تعلیم و تربیت اور تبلیغ کے لئے بڑے پیمانے پر تعاون کر رہا ہی۔
یہی نہیں ایسے انتہا پسند ہندوتو وادی بھی امریکہ میں پالے پوسے جا رہے ہیں، جو ہندوستان کی ایٹمی طاقت کو ’ہندو بم‘ بناتے ہوئے ایٹمی عالمی جنگ کے امکانات پر پچاسوں صفحات تیار کرکے ویب سائٹ اور کتابوں کے ذریعہ زہر گھول رہے ہیں۔
فلوریڈا کی یونیورسٹی میں گریجویشن، پوسٹ گریجویشن اور پی ایچ ڈی تک کے لئے رہائشی تعلیمی نظم ہی۔ اسی طرح امریکہ کی کچھ دیگر یونیورسٹیوں میں ہندو مذہبی صحیفوں کی تعلیم و تربیت کے نصاب شروع ہوئے اور اب تو کیتھولک چرچ کی جانب سے نیوادہ میں چلائی جا رہی کیتھولک یونیورسٹی میں بھی ’ہندوتو نصاب‘ شروع ہوگئے ہیں۔ اس کے تحت ہندوئوں کے دیوی دیوتا، گیتا، اپنشد، ہندو روایتی ثقافت کو پڑھاکر سند دی جارہی ہی۔ رپورٹ یہ بھی ہے کہ ہندو مذہب کی تعلیم کا غلط استعمال کرکے ’ہندوتو‘ اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کی کوشش بھی ہورہی ہی۔
بھاجپائی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے 2000 کے دورۂ امریکہ کے دوران ہندوتو کی تعلیم و تربیت دینے والوں کے لئے سرکاری گرانٹ کا اعلان ہوا۔ ایسی ہی ایک تقریب میں انتہا پسند ہندو نظریات کے مبلغ کالکی گور نے واجپئی اور وزیر خارجہ جسونت سنگھ کو ہندوستان کے ’ہندوبم‘ کے بل پر مختلف ممالک پر حکومت اور ایٹمی جنگ کے امکانات پر مبنی مبینہ ریسرچ ورک کی ایک کتاب اور اس کی سی ڈی پیش کی تھی۔ کالکی گور اس کے بعد مسلسل ’ایٹمی اسلحہ‘ کے جنگی جنون سے متعلق مبینہ تحقیق اور نئی نئی کتابیں تیار کر رہے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ امریکہ یا ہندوستان کی کسی حکومت نے ایسے خطرناک ارادوں والی تحریر اور پروپیگنڈہ پر کوئی روک نہیں لگائی ہی۔
اس انتہا پسندکالکی گور نے اپنی حالیہ کتاب میں ہندوستانی فوج اور ایٹمی طاقت کو ہندووادی شکل دینے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ مختلف ممالک کے مابین ’عالمی جنگ‘ چھڑنے پر ہندوستان امریکہ کے ساتھ مل کر جنگ کرسکی۔
امریکہ میں سرگرم وشو ہندو پریشد گزشتہ برسوں کے دوران زیادہ سرگرم اور طاقتور ہوئی ہی۔ امریکی وشو ہندو پریشد بین الاقوامی رابطہ نیٹ ورک بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہی۔
………
امریکی سفارت خانہ کے کیبل: سفیر نے متنبہ کیا کہ ہندوستان میں لشکر طیبہ کے مقابلہ میں ہندو انتہا پسند گروپوں سے زیادہ خطرہ ہوسکتا ہی
guardian.co.uk جمعرات، 16دسمبر 2010،:30بجے شب
مضمون کی تاریخ
EU12958DECL :08/03/2019
Tags PREL :08/03/2019
موضوع: راہل گاندھی اور دیگر نوجوان ممبران پارلیمنٹ
ریفر: Ref:Section 008
درجہ بندی بذریعہ AMB Timothy J.Roemer.Reasons 1.4 (B,D)
اختصار:
ہندوستان میں برسر اقتدار کانگریس پارٹی کی قیادت کے بظاہر ولی عہد 40سالہ راہل گاندھی کے کیریئر اور صلاحیت پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی سفیر نے اس بات چیت کی رپورٹ دی جو اس نوجوان سیاستداں سے کی گئی اور جس میں ان کے حالیہ بیانات اور مستقبل کے لئے ان کی صلاحیت کا خاص طور پر ذکر ہی۔ اس کے کلیدی اقتباسات نمایاں طور پردئے جارہے ہیں۔
_1ـ اختصار: 20جولائی کو وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ذریعہ سکریٹری کو دئے گئے ظہرانہ کے دوران سفیر کے ساتھ بات چیت میں انڈین کانگریس کے جنرل سکریٹری راہل گاندھی نے کہا کہ ان کی توجہ آنے والے ریاستی ومقامی انتخابات پر ہی، یوپی اے نے اپنے پروگراموں پر عمل آوری کی منصوبہ کے سلسلہ میں درپیش چیلنجوں اور ہندوئوں ومسلمانوں میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی پر تشویش کا اظہار کیا۔ راہل گاندھی نے سفیر کے ساتھ بات چیت میں دلچسپی لی۔ نوجوان ممبران پارلیمنٹ و دیگر ہمارے لئے کلیدی ساجھیدارہوسکتے ہیں کیونکہ ہم ہندوستان کے ساتھ اسٹریٹجک مکالمہ کے لئے کوشاں ہیں۔ اختصار ختم۔
نئی دہلی میں جولائی 2004میں سکریٹری کے ساتھ میٹنگوں کے دوران وزیر اعظم منموہن سنگھ نے سکریٹری کے اعزاز میں ایک ظہرانہ دیا۔ انڈین کانگریس پارٹی کے جنرل سکریٹری راہل گاندھی نیز سیاست، تجارت اور معاشرہ کے معززین بھی مدعوئین میں شامل تھی۔ گاندھی نے جو سفیر کے برابر میں بیٹھے ہوئے تھی، سیاسی موضوعات، سماجی چیلنجوں اور آئندہ پانچ برسوں کے لئے کانگریس پارٹی کے انتخابی ایشوز پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
دیہی حکمت عملی
;3ـ راہل گاندھی نے زور دے کر کہا کہ وہ مہاراشٹر ریاستی اسمبلی کے ہونے والے انتخابات اور مقامی سطح پر پارٹی کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کریں گی۔ وہ ملک گیر پیمانے پر بااثر امیدواروں کو لانے میں مصروف تھی۔ گاندھی کا فوکس ایسے نوجوان پارٹی ممبران کی تلاش ہے جو پرانے کانگریسی امیدواروں کا بوجھ نہ ڈھوئیں۔ ان کا نشانہ چھوٹے قصبوں اور دیہات میں پارٹی کو از سر نو منظم کرنا اور رائے دہندگان کو اپنی جانب راغب کرنا ہی۔ ’انہیں یقین ہے کہ وہاں بڑی اپوزیشن پارٹی بی جے پی کمزور ہی۔ وہ دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں میں انتخابی مساعی کرتے نظر نہیں آئی۔
ہنی مون کا دور ختم ہوا
یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ گزشتہ موسم بہار کے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس پارٹی کی فتح نے یوپی اے حکومت کو ایک آرام دہ پوزیشن میں رکھ دیا ہے تاہم گاندھی نے پارلیمنٹ میں اپنے پروگراموں کو عملی جامہ پہنانے کی یوپی اے کی صلاحیت کو درپیش متعدد چیلنجوں کے بارے میں تشویش کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہنی مون کا دور ختم ہوا اور اب انہیں توقع ہے کہ بی جے پی اور لیفٹ پارٹیاں سرکاری پروگراموں کو مسلسل ہدف تنقید بناتی رہیں گی۔ پارلیمنٹ میں بجٹ اجلاس جب جاری تھا تب گاندھی نے یوپی اے سرکار کو صحیح راستے پر برقرار رہنے میں درپیش مشکلات کا بھی ذکر کیا تھا۔ یہ بات چیت 16جولائی کو شرم الشیخ میں ہندـپاک مشترکہ اعلامیہ کی زبردست مخالفت سے قبل ہوئی تھی۔
بڑھتی ہوئی انتہا پسندی؟
علاقہ میں لشکر طیبہ کی سرگرمیوں اور ہندوستان کو درپیش فوری خطرہ کے بارے میں سفیر کے ایک سوال کے جواب میں راہل گاندھی نے کہا کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان کے مسلم فرقہ میں کچھ عناصر اس گروپ کے حامی ہیں۔ تاہم راہل گاندھی نے متنبہ کیا کہ زیادہ بڑا خطرہ انتہا پسند ہندو گروپوں میں اضافہ ہوسکتا ہے جو مذہبی کشیدگی اور مسلم فرقہ کے ساتھ سیاسی ٹکرائو پیدا کرتے ہیں۔ (تبصرہ : گاندھی بی جے پی میں گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی جیسے لوگوں کے ذریعہ پیدا کردہ کشیدگیوں کی طرف اشارہ کررہے تھی) ہندوستان میں اسلامی گروپوں یا پاکستانی دہشت گردوں کے حملوں کے رد عمل کے طور پر ’ملک کے اندر‘ پیدا ہونے والے انتہا پسندمحاذ کا خطرہ بڑھتی ہوئی تشویش کا باعث ہے اور مستقل توجہ کا متقاضی بھی۔
تبصرہ:
راہل گاندھی نے آنے والے مہینوں میں کانگریس پارٹی اور یوپی اے حکومت کو درپیش چیلنجوں کو کھل کر بیان کیا۔ گزشتہ چار برسوں میں وہ کم رابطہ میں تھے لیکن وہ امریکہ تک پہنچنے میں دلچسپی لے سکتے ہیں بشرطیکہ ہماری جانب سے ایک سوچی ، سمجھی، سیاسی لحاظ سے حساس اور حکمت عملی پر مبنی اپروچ کی جائی۔ ہم ان کے اور نئی نسل کے دیگر نوجوان ممبران پارلیمنٹ سے مزید ملاقاتوں کے مواقع تلاش کریں گی۔ راہل گاندھی نے بتایا کہ حالیہ انتخاب میں 60ممبران پارلیمنٹ 45سال یا اس سے کم عمر کے ہیں۔ ایک ایسے نظام میں جسے بہت عرصے سے نسبتاً منجمد سمجھا جاتا ہی، نئے چہروں اور راہل گاندھی جیسے بڑھتے ہوئے قد کے لیڈروں کی آمد ہمارے لئے حمایت کی طویل مدتی اسٹریٹجک ساجھیداری کے وسیع مواقع پیدا کرتی ہی۔
……………

कांग्रेस का 125 साला सफ़र-तब जंग अंग्रेज़ों से अब संघ से
अज़ीज़ बर्नी

आज सुबह दर्जन भर से अधिक समाचारपत्रों का अध्ययन करने के बाद अचानक मेरी नज़र हिन्दी दैनिक ‘नई दुनिया’ की बाटम स्टोरी ‘‘कटटरपंथी हिंदूवादी वहां भी टटोल रहे हैं परमाणु युद्ध की संभावनाएं’’-‘हिन्दुत्व’ प्रोत्साहन के लिए अमेरिका में भी करोड़ो डाॅलर खर्च’’ पर पड़ी, यह स्टोरी समाचारपत्र के सम्पादक आलोक मेहता की थी। समाचार अत्यंत महत्वपूर्ण था। आज ही बुराड़ी में कांग्रेस अपना 125 वर्षीय जश्न मना रही थी, मुझे आवश्यक लगा कि इस समाचार की चर्चा मैं कांग्रेस में अपने एक क़रीबी राजनीतिज्ञ जनाब दिग्विजय सिंह से करूं, इसलिए फ़ोरी तौर पर मैंने इस समाचार की वह लाइने उन्हें पढ़ कर सुनाई जो इस समय मैं अपने पाठकों की ख़िदमत में पेश करने जा रहा हूं और साथ ही इस समाचार की स्कैन काॅपी उनके ईमेल पर सैंड भी कर दी ताकि यह समाचार विस्तार से पढ़ने का अगर उनके पास अवसर हो तो पढ़ सकें।
आजके लगभग सभी समाचारपत्रों ने यह विचार प्रकट किया था कि कांग्रेस के इस अधिवेशन में संघ परिवार निशाने पर रहेगा। अनुमान सही साबित हुआ, पार्टी अध्यक्ष श्रीमती सोनिया गांधी ने अपने भाषण में ‘संघी गतिविधियों’ पर अपेक्षित गुफ़्तगू की और फिर पार्टी के महासचिव जनाब दिग्विजय सिंह ने एक बार फिर संघ परिवार से संबंधित अपना वही रुख़ ज़ाहिर किया, जैसा कि वह करते रहे हैं। बल्कि आज उनका लहजा और भी सख़्त था, उसमें मालेगांव से अजमेर तक हुए बम धमाकों और ताज़ा जांच में सामने आए हुए चेहरों का उल्लेख भी था मुसलमानों के प्रति संघी विचारधारा और अडवाणी की रथयात्रा के दुष्प्रभाव और इस बात पर बल भी कि संघी तत्व सभी विभागों में शामिल हो गए हैं, इसलिए उन पर नज़र रखनी होगी। आजके इस कांग्रेसी अधिवेशन में अगर कुछ अप्रत्याशित था तो पार्टी के महासचिव तथा कांग्रेस का भविष्य समझे जाने वाले राहुल गांधी के विकिलीक्स द्वारा मंज़रेआम पर लाए गए अपने बयान के संदर्भ में कुछ भी न कहना, जबकि पिछले 3 दिन से इस बयान पर भारी हंगामा जारी था, भारतीय जनता पार्टी नाराज़ थी और हम भी यह देखना चाहते थे कि आख़िर विकिलीक्स द्वारा सामने लाए गए उस बयान में ऐसा क्या है, जिस पर भारीतय जनता पार्टी के नेता इतने नाराज़ हैं। अगर यह पूरा ख़ुलासा हमारे सामने न होता तो हम भी इस भ्रम के शिकार रहते कि शायद राहुल गांधी ने कोई ऐसी बात कह दी है जो वास्तविकता पर आधारित नहीं है, परंतु जब हमने विकिलीक्स के इस ख़ुलासे का लफ़्ज़ बलफ़्ज़ अध्ययन किया तो हमें लगा कि इसमें तो ऐसा कुछ है ही नहीं, जिस पर आज राहुल गांधी को स्पष्टीकरण देना चाहिए था या भारतीय जनता पार्टी या संघ परिवार को चिराग़पा होना चाहिए था। अगर गुंजाइश होती तो मैं इस विषय पर ज़रा विस्तार से लिखता, लेकिन इस समय आवश्यक यह लगता है कि विकिलीक्स के द्वारा राहुल गांधी की अमेरिकी राजदूत से गुफ़्तगू का रहस्योदघाटन अपने पाठकों तथा विशेष रूप से संघ परिवार की सेवा में पेश कर दूं, ताकि समझा जा सके कि इसमें ऐसा क्या था जिस पर उन्होंने इतना तूफ़ान बरपा किया, हमें तो लगा राहुल गांधी ने अवश्य कुछ ऐसा कह दिया होगा जो वास्तविकता पर आधारित न हो ऐसा नहीं था, वास्तविकता तो उससे कहीं अधिक है और यह वास्तविकता किसी से छुपी भी नहीं है। अर्थात अमेरिकी राजदूत ज्पउवजील त्वमउमत से अगर यह न कहा गया होता तो भी जो कुछ मालेगांव जांच के बाद मंज़रेआम पर आ गया था वह किससे छुपा था। जगह की तंगी के कारण अपनी गुफ़्तगू यहीं समाप्त करनी होगी इसलिए मुलाहिज़ा फ़रमाएं पहले आलोक महता की ख़बर फिर उसके बाद विकिलीक्स का वह ख़ुलासा जिस पर हंगामा जारी था।
कट्टरपंथी हिंदूवादी वहां भी टटोल रहे परमाणु युद्ध की संभावनाएं
‘हिंदुत्व’ प्रोत्साहन के लिए अमेरिका में भी करोड़ों डाॅलर खर्च
आलोक मेहता
संयुक्त राज्य अमेरिका हिंदुत्व की शिक्षा-दीक्षा और प्रसार के लिए बड़े पैमाने पर सहायता कर रहा है।
यही नहीं ऐसे कट्टरपंथी हिंदूत्ववादी भी अमेरिका में पाले-पौसे जा रहे हैं, जो भारत की परमाणु शक्ति को ‘हिंदू बम’ बताते हुए परमाणु विश्व युद्ध की संभावनाओं पर पचासों पृष्ठ तैयार कर वेबसाइट और पुस्तकों के ज़रिए ज़हर घोल रहे हैं।
फ्लोरिडा के विश्वविद्यालय में स्नातक, स्नातकोत्तर तथा पीएचडी तक के लिए आवासीय शिक्षा व्यवस्था है। इसी तरह अमेरिका के कुछ अन्य विश्वविद्यालयों में हिंदू धर्म ग्रथों की शिक्षा-दीक्षा के पाठ्यक्रम शुरू हुए और अब तो कैथोलिक चर्च द्वारा नेवादा में चलाए जा रहे कैथोलिक विश्वविद्यालय में भी ‘हिंदुत्व पाठ्यक्रम’ शुरू हो गए हैं। इसके अंतर्गत हिंदुओं के देवी-देवता, गीता, उपनिषद, हिंदू परंपरा-संस्कृति को पढ़ाकर डिग्री दी जा रही है। रिपोर्ट यह है कि हिंदू धर्म की शिक्षा का दुरुपयोग कर ‘हिंदुत्व’ तथा कट्टरपंथ को बढ़ाने की कोशिश भी हो रही है।
भाजपाई प्रधामंत्री अटल बिहारी वाजपेयी की सन् 2000 की अमेरिका यात्रा के दौरान हिंदुत्व की शिक्षा-द क्षा देने वालों के लिए सरकारी अनुदानों की घोषणाएं हुई । ऐसे ही एक समारोह में कट्टर हिंदूवादी विचारों के पोषक कालकी गौर ने वाजपेयी तथा विदेशमंत्री जसवंत सिंह को भारत के ‘हिंदू बम’ के बल पर विभिन्न देशों पर राज तथा परमाणु युद्ध की संभावनाओं पर आधारित कथित शोध कार्य की एक पुस्तक और उसकी सीडी भंेट की थी। कालकी गौर उसके बाद लगातार ‘परमाणु हथियारों’ के युद्धोन्माद संबंधी कथित शोध और नई-नई पुस्तकें तैयार कर रहे हैं। आश्चर्य की बात यह है कि अमेरिका या भारत की किसी सरकार ने ऐसे भयावह इरादों वाले लेखन और कुप्रचार पर कोई अंकुश नहीं लगाया है।
इस कट्टरपंथी कालकी गौर ने अपनी हाल की पुस्तक में भारतीय सेना और परमाणु शक्ति को हिंदूवादी रूप देने की आवश्यकता निरूपित की, ताकि विभिन्न देशों के बीच ‘विश्व युद्ध‘ छिड़ने पर भारत अमेरिका के साथ मिलकर लड़ाई कर सके।
अमेरिका में सक्रिय विश्व हिंदू परिषद पिछले वर्षों के दौरान अधिक सक्रिय और सशक्त हुई है। अमेरिकी विश्व हिंदू परिषद अंतरराष्ट्रीय समन्वय-नेटवर्क बढ़ाने में अहम भूमिका निभा रही है।
ह्न ह्न
अमेरिकी राजदूत का केबल: राजदूत ने अवगत कराया कि भारत में लश्कर-ए-तय्यबा के मुक़ाबले में कट्टरपंथी ग्रुपों से अधिक ख़तरा हो सकता है।
guardian.co.uk बृहस्पतिवार, 16 दिसम्बर 2010, 9ः30 बजे रात्रि
EU12958DECL 09ध्03ध्2019
Tags PREL :08/03/2019
विषय: राहुल गांधी तथा अन्य युवा सांसद
Ref:Section 008
दर्जाबंदी बज़रिया- AMB Timothy J.Roemer.Reasons 1.4 (B,D)
संक्षिप्त
1. भारत में सत्ताधारी कांग्रेस पार्टी की नेतृत्व के बज़ाहिर उत्तराधिकारी 40 वर्षीय राहुल गांधी के कैरियर तथा क्षमता पर टिप्पणी करते हुए अमेरिकी राजदूत ने इस बातचीत की रिपोर्ट दी जो उस युवा राजनीतिज्ञ से की गई और जिसमें उनके वर्तमान वक्तव्यों तथा भविष्य के लिए उनकी योज्ञता की विशेषरूप से चर्चा है। उसके मुख्य अंश प्रमुख रूप से दिए जा रहे हैं।
1. संक्षिप्त: 20 जुलाई को प्रधानमंत्री मनमोहन सिंह द्वारा सैकरेट्री को दिए गए भोज के दौरान राजदूत के साथ बातचीत में इंडियन कांग्रेस के महासचिव राहुल गांधी ने कहा कि उनका ध्यान आगामी राज्य तथा स्थानीय चुनाव पर है, यूपीए के अपने कार्यक्रमों पर कार्यनवियन की योजना के सिलसिले में दरपेश चुनौतियों तथा हिंदुओं एवं मुसलमानों में बढ़ते हुए कट्टरपंथ पर चिंता व्यक्त की। राहुल गांधी ने रजादूत के साथ बातचीत में रुचि ली। युवा सांसद कुछ तथा अन्य हमारे लिए प्रमुख साझेदार हो सकते हैं। क्योंकि हम भारत के साथ स्ट्राटेजिक वार्ता के लिए प्रयत्नशील हैं। संक्षिप्त समाप्ति।
2. नई दिल्ली में 2004 जुलाई में सैक्रेट्री के साथ बैठको के दौरान प्रधानमंत्री सिंह ने सैक्रेट्री के सम्मान में एक भोज का आयोजन किया। इंडियन कांग्रेस पार्टी के महासचिव राहुल गांधी एवं राजनीति, व्यापार तथा समाज के प्रतिष्ठित व्यक्ति भी अतिथियों में शामिल थे। गांधी ने जो राजदूत के बराबर में बैठे हुए थे, राजनीतिक विषयों, सामाजिक चुनौतियों तथा आगामी 5 वर्षों के लिए कांगे्रस पार्टी के चुनावी मुद्दों पर अपने विचार व्यक्त किए।
ग्रामीण रणनीति
3. राहुल गांधी ने ज़ोर देकर कहा कि वह महाराष्ट्र राज्य विधान सभा के होने वाले चुनाव तथा स्थानीय स्तर पर पार्टी को सशक्त बनाने पर ध्यान केंद्रित करेंगे। वह देशव्यापी स्तर पर प्रभावशाली उम्मीदवारों को लाने में व्यस्त थे। राहुल गांधी का फोकस ऐसे युवा पार्टी सदस्यों की तलाश है जो पुराने कांग्रेसी उम्मीदवारों का बोझ न ढोएं। उनका लक्ष्य छोटे क़स्बों तथा देहात में पार्टी को पुनर्सगठित करना और मतदाताओं को अपनी ओर प्रेरित करना है। उन्हें विश्वास है कि वहां बड़ी अपोज़िशन पार्टी बी.जे.पी कमज़ोर है। वह दिल्ली तथा मुंबई जैसे बड़े शहरों में चुनावी प्रयत्न करते नज़र नहीं आए।
हनीमून का दौर समाप्त हुआ
4. यह नोट करते हुए कि पिछले वसंत त्रृतु के संसदीय चुनाव में कांग्रेस पार्टी की सफलता ने यूपीए को एक सुविधाजनक स्थिति में रख दिया है। फिर भी गांधी ने संसद में अपने कार्यक्रमों को अमली जामा पहनाने की यूपीए की क्षमता को दरपेश विभिन्न चुनौतियों के बारे में चिंता भी प्रकट की। उन्होंने कहा कि हनीमून का दौर समाप्त हुआ और अब उन्हें आशा है कि भाजपा तथा लेफ़्ट पार्टियां सरकारी प्रोग्रामों को लगातार आलोचनाओं का निशाना बनाती रहेंगी। संसद में बजट सत्र जब जारी था तब गांधी ने यूपीए सरकार को सही रास्ते पर क़ायम रखने में दरपेश कठिनाइयों की भी चर्चा की थी। यह बातचीत 16 जुलाई को शरम-अल-शैख़ में भारत-पाक संयुक्त घोषणा के भारी विरोध से पूर्व हुई थी।
बढ़ता हुआ कट्टरवाद
5. क्षेत्र में लशकर-ए-तय्यबा की गतिविधियों तथा भारत को दरपेश त्वरित ख़तरे के बारे में राजदूत के एक प्रश्न के उत्तर में राहुल गांधी ने कहा कि इस बात का सबूत है कि भारत के मुस्लिम समुदाय में कुछ तत्व उस ग्रुप के समर्थक हैं फिर भी राहुल गांधी ने अवगत किया कि अधिक बड़ा ख़तरा कट्टरपंथी हिंदू ग्रूपों में वृद्धि हो सकती है जो धार्मिक तनाव तथा मुस्लिम समुदाय के साथ सियासी टकराव पैदा करते हैं। (टिप्पणी: गांधी बेजेपी में गुजरात के मुख्यमंत्री नरेंद्र मोदी जैसे व्यक्तियों के द्वारा उत्पन्न किए हुए तनाव की ओर इशारा कर रहे थे) भारत में इस्लामी ग्रूपों या पाकिस्तानी आतंकवादियों के हमलों की प्रतिक्रिया के रूप में देश के भीतर पैदा होने वाले कट्टरपंथी मोर्चों का बढ़ता हुआ ख़तरा चिंता का कारण है और लगातार ध्यान भी चाहता है।
टिप्पणी
6. राहुल गांधी ने आगामी महीनों में कांग्रेस पार्टी तथा यूपीए सरकार को दरपेश चुनौतियों को खुल कर बयान किया। गत 4 वर्षों में वह कम सम्पर्क में थे। लेकिन वह अमेरिका तक पहुंचने में रुचि ले सकते हैं बशर्ते कि हमारी ओर से एक सोची, समझी राजनीतिक दृष्टि से संवेदनशील और रणनीति पर आधारित एप्रोच किया जाए। हम उनके और नई पीढ़ि के अन्य युवा सांसदों से अधिक मुलाक़ातों के अवसर तलाश करेंगे। राहुल गांधी ने बताया कि वर्तमान चुनाव में 60 सांसद 45 साल या उससे कम आयु के हैं। एक ऐसी व्यवस्था में जिसे बहुत समय से अपेक्षित ठहरा हुआ समझा जा सकता है, नए चेहरों और राहुल गांधी जैसे बढ़ते हुए क़द के नेताओं का आगमन हमारे लिए समर्थन की लम्बी अवधि पर आधारित स्ट्राटेजिक साझेदारी के व्यापक अवसर पैदा करती है।

نتن گڈکری اپنی ٹیم کے ساتھ اسرائیل میں کیوں، کس لئی؟

عزیز برنی

’’سب چپ… ہوا کیا؟ دگ وجے سنگھ کے بیان کی جانچ تو ہونی ہی چاہئی‘‘ اسی عنوان کے تحت مجھے لکھنا تھا کل، لیکن یوم عاشورہ کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا کے کئی شہروں میں دفاتر بھی یوم عاشورہ کو بند رہتے ہیں، لہٰذا ہمارے تمام قارئین تک یہ مضمون نہیں پہنچ سکتا تھا، لیکن آج حالات یکسر بدل گئی، وہ موضوع جس پر گزشتہ ایک ہفتہ سے بحث جاری تھی، تمام میڈیا الیکٹرانک بھی اور پرنٹ بھی مختلف زاویوں سے صرف اور صرف دگ وجے سنگھ کے اس بیان پر گفتگو کررہا تھا، جوانہوں نے 26نومبر008کو ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ سے قبل یا یوں کہئے کہ ہیمنت کرکرے نے اپنی شہادت سے محض تین گھنٹہ پہلے ان سے گفتگو پر منحصر تھی۔ ہر طرف سے تھا چبھتا ہوا سوال ان کے اس بیان پر… ثبوت پیش کرنے کا زبردست مطالبہ تھا، موبائل کال ریکارڈ حاصل کرنے کی ضرورت پر زورتھا… شہید ہیمنت کرکرے کی بیوہ محترمہ کویتا کرکرے سے تصدیق کی ضرورت تھی… شاید اپنے بیان میں دگ وجے سنگھ جی نے کچھ ایسا کہہ دیا، جو قطعاً غیرمتوقع تھا، قیاس سے بہت دور تھا۔ میں نے اپنے گزشتہ مضامین میں یہ واضح کردیا کہ دراصل دگ وجے سنگھ جی کے اس بیان میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ کل اگر مضمون لکھنے کا موقع ملا ہوتا تو اسی موضوع پر اور بھی مدلل انداز میں گفتگو کی جاتی، کوشش رہے گی آج بھی اس مضمون کے اختتام سے قبل جتنی سطریں بھی لکھنے کی گنجائش باقی بچے ، گفتگو اسی موضوع پر ختم ہو، لیکن پہلے چند جملے تازہ ہنگامہ کے پیش نظر۔
20جولائی 2009کو راہل گاندھی نے ہلیری کلنٹن کے دورہ کے موقع پر وزیراعظم کے ذریعہ دئے گئے ظہرانہ میں امریکی سفیر سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہا کہ ملک کو خطرہ لشکرطیبہ سے بھی زیادہ ہندو انتہاپسند تنظیموں سے ہی۔ یہ دعویٰ ہے وکی لیکس کے ذریعہ کئے گئے انکشافات کا۔ حالانکہ کچھ ہی دیر میں یہ وضاحتی بیان بھی آگیا کہ تمام طرح کی دہشت گردی سے ملک کو خطرہ ہی، جس پر شاید کسی کو بھی اعتراض نہیں ہونا چاہئی، تاہم میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس پہلو پر تبادلہ خیال ہو۔ پہلی بات تو یہ کہ کیا ہم وکی لیکس کے ذریعہ کئے جارہے انکشافات کو پوری طرح قابل اعتماد مان لیں اور یہ تسلیم کرلیں کہ یہ انکشافات کسی سازش کا حصہ نہیں ہیں، کسی دشمن طاقت کی سیاسی حکمت عملی نہیں ہیں، واقعی یہ وہ خفیہ دستاویز ہیں، جن کی سچائی پر بغیر کسی شک و شبہ کے یقین کرلیا جانا چاہئی۔ ان میں سچ کے ساتھ جھوٹ کو ملانے کی کوشش بھی نہیں کی گئی ہوگی، تب تو لاکھوں کی تعداد میں انٹرنیٹ پر بکھرے پڑے ان دستاویزات میں سے جسے اپنی ضرورت کے مطابق جو چاہئی، حاصل ہوسکتا ہے تو کیا ہمیں آئے دن ہونے والے نئے نئے انکشافات کے خدشات کی طرف قطعاً توجہ نہیں دینی چاہئی۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے اس ضمن میں مزید کچھ کہنے سے قبل میں ایران کے صدر محموداحمدی نژاد کے ردعمل کی جانب توجہ دلانا چاہوں گا۔ وکی لیکس کے ذریعہ کئے جارہے انہیں انکشافات میں یہ بھی سامنے آیا تھا کہ سعودی عرب نے ایران کے خلاف جنگ کی منشا ظاہر کی تھی، یعنی سعودی عرب چاہتا تھا کہ امریکہ افغانستان اور عراق کی طرح ایران کو بھی تباہ و برباد کردی۔ بات بہت بڑی تھی، سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو سکتی تھی اور ناخوشگوار حالات بھی پیدا ہوسکتے تھی، لیکن اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے سرے سے اس انکشاف کو غیراہم مانا اور ردّی کی ٹوکری میں پھینک دئے جانے کے لائق قرار دے دیا۔ ساتھ ہی اپنے تعلقات میں کسی بھی تبدیلی کو امکان سے خارج بتایا۔ کیا ہمیں محمود احمدی نژاد کے اس فیصلہ پر توجہ نہیں دینی چاہئی؟
زمانہ بڑی تیزی سے بدل رہا ہی۔ اب جنگ تیروتلوار سے حملہ کرکے نہیں، بلکہ آبرو اور کردار پر حملہ کرکے لڑی جانے لگی ہی۔ امریکہ جو پوری دنیا پر اپنا غلبہ چاہتا ہی، جنگ کی طاقت کی معرفت وہ یہ بات پوری دنیا کو باور کراچکا ہے کہ وہ کسی بھی ملک پر حملہ کرسکتا ہی، مگر وہ یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ طاقت کا توازن اب کچھ اس طرح ہے کہ کسی کو بھی بیحد کمزور سمجھنا بھاری بھول ہوگی۔ اسرائیل جیسا پدّی ملک اپنی نیوکلیائی طاقت کی بنا پر اپنے سے بڑے ممالک کے لئے خطرہ بنا رہتا ہی۔ امریکہ اچھی طرح جانتا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک جنگی اعتبار سے نیوکلیائی ہتھیاروں کا استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہیں، اس لئے سبھی کو جنگ کے خوف سے ڈرایا نہیں جاسکتا۔ یوں بھی عراق اور افعانستان کو جنگ کے ذریعہ تباہ کرکے امریکہ نے اپنی ساکھ کو جو بٹا لگایا ہی، اس کی تلافی بہت آسان نہیں ہی۔ پھر کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ امریکہ نے اپنی جنگ کے لئے وکی لیکس کی شکل میں ایک ایسا ہتھیار ڈھونڈ نکالا ہو، جو ہتھیاروں کی جنگ کے بغیر بھی اس کے ارادوں کو پورا کرسکی۔ دہشت گردی کی وجہ سے جو ملک کمزور ہورہے ہیں، جن کی ترقی میں رکاوٹ پڑرہی ہی، یہ کسی سے چھپا نہیں ہی۔ خانہ جنگی کے حالات اگر کسی بھی ملک میں پیدا ہوتے ہیں تو اس کے لئے یہ دہشت گردی سے بھی سخت مرحلہ ہوگا۔ اگر وکی لیکس کے انکشافات اسی سمت میں جارہے ہیں کہ کہیں دو ممالک (ایران اور سعودی عرب) کے درمیان جنگ کے حالات پیدا ہوں تو کہیں فرقہ وارانہ کشیدگی کی بنا پر خانہ جنگی کی۔ یہ شک اس لئے ہوا کہ وکی لیکس کے انکشافات پر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ چراغ پا ہونے والے امریکہ کے خلاف ابھی تک کوئی ایسا دستاویز منظرعام پر نہیں آیا ہی، جو اس کے لئے کسی پریشانی کا باعث بنی۔ ہاں، یہ ضرور ظاہر ہونے لگا ہے کہ اس کے سفارتکار جن ممالک میں تعینات ہوتے ہیں، وہاں وہ سفارتکار کی حیثیت سے کام کرنے کے ساتھ ساتھ ایک جاسوس کی طرح بھی کام کرتے ہیں اور ان سے کی جانے والی کوئی بھی بات صرف خیرسگالی میں کی جانے والی گفتگو تصور نہیں کی جاسکتی، وہ اس وقت بھی کچھ راز اگلوانے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں جب کسی گفتگو کی میز پر نہ ہو کر کھانے کی میز پر بیٹھے ہوں۔ شاید ان کے اس عمل سے پوری طرح محتاط رہنے کی ضرورت ہی۔
بہرحال یہ تو تھا وکی لیکس کے انکشافات کو سمجھنے کا ایک پہلو، اب ذرا دوسرے پہلو پر بھی نظر ڈال لی جائی۔ اگر ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وکی لیکس کے انکشافات کی معرفت صرف اور صرف سچ سامنے آرہا ہے اور جو کچھ ان دستاویز میں لکھا گیا ہی، وہی حرف آخر ہے تو معاف کیجئے کل کس کے خلاف کون سا دستاویز برآمد ہوجائی، کہنا مشکل ہی۔ ہوسکتا ہے جو آج راہل گاندھی کے ایک بیان کو لے کر ہنگامہ کررہے ہیں، کل وکی لیکس ان کے خلاف بھی کوئی ایسا دستاویز جاری کردے کہ انہیں منھ چھپانے کے لئے جگہ نہ ملی، لہٰذا ہماری رائے ہے کہ ان انکشافات پر نظر تو رکھی جائی، ان کا جائزہ بھی لیا جائی، مگر ساتھ ہی ان دستاویزات کی عبارت کے نشیب و فراز کو بھی ذہن میں رکھا جائی۔ ہمیں اپنے ملک کو سمجھنے کے لئی، ملک کے حالات کو سمجھنے کے لئی، اپنے سیاستدانوں کو سمجھنے کے لئے کسی غیرملکی کے بیان پر کس حد تک منحصر ہونا چاہئی، اس پر غور کرنا بھی ضروری ہی۔
4مجھے آج کی اس تحریر میں ابھی بہت کچھ لکھنا باقی ہی، لگتا نہیں کہ جگہ کی تنگی کے باعث میں ان موضوعات پر بھرپور روشنی ڈال پاؤں گا، جن پر کہ میں کل سے ہی لکھنے کا ارادہ ذہن میں تھا۔ مجھے ابھی دگ وجے سنگھ جی کے بیان پر اٹھے طوفان پر بھی گفتگو کرنی ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر نتن گڈکری کے 4 روز قبل شروع ہوئے (4دسمبر010) دورئہ اسرائیل پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہی۔ پہلے چند سطریں نتن گڈکری کے دورئہ اسرائیل پر۔ اس کا مقصد کیا ہی، اس اسٹیٹمنٹ پر مت جائیے جو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعہ سب کے سامنے رکھا جائی۔ اسرائیل سے بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار کے رشتے کیا ہیں، اس پر نظر ڈالئی۔ جب جب سنگھ پریوار پر کوئی مصیبت آئی ہی، اسرائیل اس کا بہترین دوست ثابت ہوا ہی، ماضی کے ان واقعات پر نظر ڈالئی۔ نریندر مودی کے رہتے ہوئے گجرات میں اسرائیل کا دخل کتنا بڑھا ہی، ان اعدادوشمار کا جائزہ لیجئی۔ حفاظتی نظام کے پیش نظر ہر تاجر گھرانے کے دروازہ پر اسرائیلی محافظوں کی تعیناتی کتنی ہی، اس منشا پر نظر ڈالئی۔ اپنے تحفظ کے لئے اسرائیل سے جس ٹکنالوجی کو منگایا گیا ہی، اس کا جائزہ لیجئی۔ اسرائیل سے ان کے اس رشتہ اعتماد کو ذہن میں رکھئی، اسرائیل کی مسلم دشمنی کو ذہن میں رکھئی، نکسلائٹ سے نمٹنے کے لئے اسرائیل کی مدد لی جانی چاہئی، نتن گڈکری کے اس بیان کے معنی ومطالب کو سمجھنے کی کوشش کیجئی۔ اندازہ ہوجائے گا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ اپنی ٹیم کے ساتھ اسرائیل کس لئے گئے ہیں۔ کیا اس دورہ سے ان ریاستوں میں کاروبار کو بڑھانا مقصد ہی، جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکاریں ہیں یا پھر ان سرکاروں کا استعمال بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے جن مقاصد کی تکمیل کے لئے پہلے بھی کرتی رہی ہی، اسی میں اضافہ کے لئے اسرائیل کی مدد درکار ہے اور اس کے لئے یہ دورہ ضروری تھا۔ اس وقت دورہ کا مقصد یہی ہی، کیونکہ یہ دورہ شروع ہونے سے قبل ملک میں جس بات کو لے کر ہنگامہ جاری تھا، وہ 26/11یعنی ہندوستان پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کو لے کر چھڑی ایک نئی بحث تھی۔ ہم نے اپنے مضامین میں جو شامل ہیں ہماری نئی کتاب ’’آرایس ایس کی سازشـ6//11؟‘‘ میں جس کی رسم اجرا کے موقع پر کی گئی تقریر نے ایک ہنگامہ برپا کردیا۔ اپنی ان تحریروں میں ہم نے 26/11سے اسرائیل کے رشتہ کو بھی بے نقاب کیا ہی۔ بالخصوص واضح الفاظ میں سنگھ پریوار اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ پر سوال کھڑے کئے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ہمارے ذریعہ لکھا گیا ایک ایک لفظ یعنی ہمارے تمام مضامین اور زیربحث کتاب کو بھی پڑھا جاسکتا ہی۔ کیا نتن گڈکری کو اپنی ٹیم کے ساتھ اسرائیل جانے کی ضرورت اسی گفت و شنید کی وجہ سے پیش آئی کہ دگ وجے سنگھ جی کے بیان پر اٹھا طوفان تو تھم جائے گا، مگر بات نکلے گی تو دور تک جائے گی، اس لئے کہ شہید ہیمنت کرکرے نے جو کچھ کہا اس دہشت گردانہ حملہ سے محض تین گھنٹہ قبل، اسے اگر جھوٹ بھی مان لیا جائے تو ہم کس کس کو جھوٹا قرار دیں گی؟ کس کس کے بیان کو سیاست پر مبنی ثابت کرپائیں گی؟ اپنی موت سے ایک دن پہلے سینئر پولیس آفیسر جولیو ربیرو سے بھی وہی کہا، جو دگ وجے سنگھ جی سے کہا، اپنے ساتھی پولیس آفیسر جن کے ہمراہ صبح کی سیر کے لئے جایا کرتے تھی، ان سے بھی وہی کہا، جو دگ وجے سنگھ جی سے کہا، یہ باتیں ہم شائع کرچکے ہیں۔ اور بھی بہت کچھ ہے ابھی منظرعام پر لانے کے لئی۔اگر راہل گاندھی کے بیان کے بعد صورتحال میں تبدیلی نہ آئی ہوتی تو یکے بعد دیگرے ایسے بہت سے شواہد پیش کئے جاسکتے تھے اور پیش کئے جاسکتے ہیں، جن سے ثابت ہوجائے گا کہ شہید ہیمنت کرکرے کی شہادت کے فوراً بعد ان کی آخری رسومات کے اختتام پذیر ہوتے ہی ایسی باتیں شروع ہوگئی تھیں اور تقریباً تمام اخبارات نے انہیں شائع کیا تھاپھر اگر وکی لیکس کو آج ہم ایک ایسے ہتھیار کی شکل میں دیکھیں جیسا کہ ماضی میں جب جب ضرورت ہوتی تھی تو امریکہ کے صدر جارج واکر بش کو بن لادن کا ٹیپ دستیاب ہوجایا کرتا تھا۔ آج جب کسی کو یہ لگے کہ وہ بحث میں کمزور پڑرہے ہیں، بات کو بہت دور تلک جانے کی صورت میں انہیں ایسے نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہی، جس کی تلافی نہ کی جاسکے تو پھر وکی لیکس کے پٹارے پر نظر ڈالی جائے اور وہاں سے ایسا کچھ برآمد کرلیا جائی، جس سے ملک کی توجہ اس جانب سے ہٹ جائے اور ایک نیا موضوع بحث سامنے آجائی، جس سے انہیں راحت مل جائی۔ کیا وکی لیکس کے ذریعہ منظرعام پر لایا گیا راہل گاندھی کا بیان ایک ایسی ہی کوشش ہی، کیونکہ بہت جلد یہ فضا بننے والی تھی کہ دگ وجے سنگھ جی کے بیان کی جانچ تو ضروری ہے ہی اور ہم بھی اس بات پر زور دینے والے تھے کہ واقعی اس بیان میں کہی گئی باتوں کی جانچ ضروری ہی۔ سوال یہ اتنا اہم نہیں ہے کہ یہ باتیں دگ وجے سنگھ نے کہیں، جولیو ربیرو نے کہیں یا ان کے ساتھی سدھاکر نے کہیں، ضروری یہ ہے کہ اپنی شہادت سے قبل ہیمنت کرکرے نے کیا کہا؟سوچئے اگر یہ ثابت ہوجائے کہ دگ وجے سنگھ کے بیان کا جز وہی تھا جو شہید ہیمنت کرکرے نے مختلف لوگوں سے کہا تو پھرہمیں ہندوستان کی عدالتوں سے سیکڑوں ایسی نظیروں کو پیش کرنا کیا مشکل ہوگا کہ ایسے تمام لوگ جانچ کے دائرے میں آتے ہی ہیں، جو کسی کو قتل کی دھمکی دیں اور اگلے روز اس کا قتل ہوجائی، بھلے ہی وہ کسی اور نے کیوں نہ کیا ہو۔
………………

नितिन गडकरी अपनी टीम के साथ इस्राईल में क्यों, किसलिए?
अज़ीज़ बर्नी

‘‘सब चुप ह्न हुआ क्या? दिग्विजय सिंह के बयान की जांच तो होनी ही चाहिए’’। इसी शीर्षक के तहत मुझे लिखना था कल, लेकिन यौम-ए-आशूरा (10 वीं मुहर्रम) केे कारण यह संभव नहीं हो सका। रोज़नामा राष्ट्रीय सहारा के कई शहरों में कार्यालय भी यौम-ए-आशूरा को बंद रहते हैं, इसलिए हमारे सभी पाठकों तक यह लेख नहीं पहुंच सकता था लेकिन आज हालात एकदम बदल गए, वह विषय जिस पर गत एक सप्ताह से बहस जारी थी, सभी मीडिया, इलैक्ट्रानिक मीडिया भी और प्रिंट भी, विभिन्न दृष्टिकोण से केवल और केवल दिग्विजय सिंह के उस बयान पर गुफ़्तगू कर रहा था जो उन्होंने 26 नवम्बर 2008 को मुम्बई पर आतंकी हमले से पूर्व या यूं कहिए कि हेमंत करकरे ने अपनी शहादत से मात्र 3 घंटे पहले उनसे गुफ़्तगू पर आधारित था। हर तरफ़ से था चुभता हुआ सवाल उनके इस बयान पर..... सबूत पेश करने की, भारी मांग थी, मोबाइल काॅल रिकार्ड प्राप्त करने की आवश्यकता पर ज़ोर था..... शहीद हेमंत करकरे की विधवा श्रीमती कविता करकरे से पुष्टि की आवश्यकता थी..... शायद अपने बयान में दिग्विजय सिंह जी ने कुछ ऐसा कह दिया जो बिल्कुल अप्रत्याशित था, कल्पना से बहुत दूर था। मैंने अपने पिछले लेखों में स्पष्ट कर दिया कि दरअसल दिग्विजय सिंह जी के उस बयान में कुछ भी नया नहीं था। कल अगर लेख लिखने का अवसर मिला होता तो इसी विषय पर और भी प्रमाणिक अंदाज़ में गुफ़्तगू की जाती, कोशिश रहेगी कि अगर आज भी इस लेख की समाप्ति से पूर्व जितनी पंक्तियां भी लिखने की गुंजाइश बाक़ी बचेगी, चर्चा इसी विषय पर समाप्त हो, लेकिन पहले कुछ वाक्य ताज़ा हंगामे के पेशे नज़र।
20 जुलाई 2009 को राहुल गांधी ने हिलेरी क्लिंटन की यात्रा के अवसर पर प्रधानमंत्री द्वारा दिए गए भोज में अमेरिकी राजदूत से गुफ़्तगू करते हुए यह कहा कि देश को ख़तरा लश्कर-ए-तय्यबा से भी अधिक हिंदू कट्टरपंथी संगठनों से है। यह दावा है विकीलिक्स द्वारा किए गए रहस्योदघाटनों का। हालांकि कुछ ही देर में यह स्पष्टीकरण भी आ गया कि सभी तरह के आतंकवाद से देश को ख़तरा है, जिस पर शायद किसी को भी आपत्ति नहीं होनी चाहिए, फिर भी मैं आवश्यक समझता हूं कि इस पहलू पर विचारविमर्श हो। पहली बात तो यह कि क्या हम विकिलीक्स द्वारा किए जा रहे रहस्योदघाटनों को पूर्णरूप से विश्वास किए जाने योग्य मान लें और यह स्वीकार कर लें कि यह रहस्योदघाटन किसी षड़यंत्र का हिस्सा नहीं हैं, किसी दुश्मन ताक़त की राजनीतिक रणनीति नहीं है वाक़ई यह वह ख़ुफ़िया दस्तावेज़ हैं, जिनकी सच्चाई पर बिना किसी संदेह के विश्वास कर लिया जाना चाहिए। इनमें सच के साथ झूठ को मिलाने का प्रयास भी नहीं किया गया होगा तब तो लाखों की संख्या में इंटरनेट पर बिखरे पड़े उन दस्तावेज़ों में से जिन्हें अपनी आवश्यकता के अनुसार जो चाहिए प्राप्त हो सकता है तो क्या हमें दिनप्रतिदिन होने वाले नए नए रहस्योदघाटनों की आशंकाओं की ओर बिल्कुल ध्यान नहीं देना चाहिए। अपनी बात को जारी रखते हुए इस सिलसिल में आगे कुछ कहने से पूर्व मैं ईरान के राष्ट्रपति महमूद अहमदी नज़ाद की प्रतिक्रिया की ओर ध्यान दिलाना चाहूंगा। विकिलीक्स द्वारा किए जा रहे इन्हीं रहस्योदघाटनों में यह भी सामने आया था कि सऊदी अरब ने ईरान के विरुद्ध जंग की मंशा प्रकट की थी अर्थात सऊदी अरब चाहता था कि अमेरिका अफ़ग़ानिस्तान और ईराक़ की तरह ईरान को भी तबाह व बर्बाद कर दे। बात बहुत बड़ी थी, सऊदी अरब और ईरान मे बीच संबंधों में तनाव पैदा हो सकते थे और अप्रिय परिस्थितियां भी उत्पन्न हो सकती थीं, लेकिन अपनी प्रतिक्रिया व्यक्त करते हुए ईरान के राष्ट्रपति महमूद अहमदी नजाद ने सिरे से इस रहस्योदघाटन को महत्वहीन माना और रद्दी की टोकरी में फैंक दिए जाने के लायक़ ठहरा दिया साथ ही अपने संबंधों में किसी भी परिवर्तन को संभावना से परे बताया। क्या हमें महमूद अहमदी नजाद के इस फ़ैसले पर ध्यान नहीं देना चाहिए?
ज़माना बड़ी तेज़ी से बदल रहा है अब जंग तीर व तलवार से हमला करके नहीं बल्कि सम्मान तथा चरित्र पर हमला करके लड़ी जाने लगी है। अमेरिका जो पूरी दुनिया पर अपना वर्चस्व चाहता है, युद्ध की शक्ति के माध्यम से वह इस बात का पूरी दुनिया को यह एहसास करा चुका है कि वह किसी भी देश पर हमला कर सकता है, परंतु वह यह भी अच्छी तरह जानता है कि शक्ति का संतुलन अब कुछ इस तरह है कि किसी को भी अत्यंत निर्बल समझना भारी भूल होगी। इस्राईल जैसा पिद्दी देश अपनी न्यूक्लियाई ताक़त के आधार पर अपने से बड़े देशों के लिए ख़तरा बना रहता है। अमेरिका अच्छी तरह जानता है कि दुनिया के अधिकतर देश सामरिक दृष्टि से न्यूक्लियाई हथियारों का प्रयोग करने की पोज़िशन में हैं, इसलिए युद्ध के भय से सभी को डराया नहीं जा सकता। यूं भी इराक़ और अफ़ग़ानिस्तान को युद्ध द्वारा तबाह करके अमेरिका ने अपनी साख को जो बट्टा लगाया है उसकी भरपाई बहुत आसान नहीं है। फिर क्या यह संभव नहीं है कि अमेरिका ने अपनी जंग के लिए विकिलीक्स के रूप में एक ऐसा हथियार ढूंढ निकाला हो जो हथियारों की जंग के बिना भी उसके इरादों को पूरा कर सके। आतंकवाद के कारण जो देश कमज़ोर हो रहे हैं, जिनकी प्रगति में रुकावट पड़ रही है, यह किसी से छुपा नहीं है। गृह युद्ध के हालात अगर किसी भी देश में पैदा होते हैं तो उसके लिए यह आतंकवाद से भी कठिन होगा। अगर विकिलीक्स के ख़ुलासे उसी दिशा में जा रहे है कि कहीं दो देशों (ईरान तथा सऊदी अरब) के बीच युद्ध के हालात पैदा हों तो कहीं साम्प्रदायिक तनाव के आधार पर गृह युद्ध के। यह संदेह इसलिए हुआ कि विकिलीक्स के रहस्योदघाटनों पर सबसे पहले और सबसे अधिक नाराज़ होने वाले अमेरिका के विरुद्ध अभी तक कोई ऐसा दस्तावेज़ सामने नहीं आया है, जो उसके लिए किसी परेशानी का कारण बने। हां, यह अवश्य ज़ाहिर होने लगा है कि उसके राजनयिक जिन देशों में तयनात होते हैं वहां वह राजनयिक की हैसियत से काम करने के साथ साथ एक जासूस की तरह भी काम करते हैं और उनसे की जाने वाली कोई भी बात मात्र सदभावना में की जाने वाली गुफ़्तगू नहीं समझी जा सकती, वह उस समय भी कुछ रहस्य उगलवाने की खोज में लगे रहते हैं जब किसी वार्ता टेबल पर न होकर खाने की मेज़ पर बैठे हों। शायद उनके इस अमल से पूरी तरह सतर्क रहने की ज़रूरत है।
बहरहाल यह तो था विकिलीक्स के रहस्योदघाटनों को समझने का एक पहलू, अब ज़रा दूसरे पहलू पर भी नज़र डाल ली जाए। अगर हम यह स्वीकार करते हैं कि विकिलीक्स के रहस्योदघाटनों के माध्यम से केवल और केवल सच सामने आ रहा है और जो कुछ इन दस्तावेज़ों में लिखा गया है, वही अंतिम सत्य है तो क्षमा कीजिए कल किसके विरुद्ध कौनसी दस्तावेज़ बरामद हो जाए, कहना कठिन है। हो सकता है जो आज राहुल गांधी के एक बयान को लेकर हंगामा कर रहे हैं कल विकिलीक्स उनके विरुद्ध भी कोई ऐसी दस्तावेज़ जारी कर दे कि उन्हें मुंह छुपाने के लिए जगह न मिले, इसलिए हमारी राय है कि इन ख़ुलासों पर नज़र तो रखी जाए, उनका जायज़ा भी लिया जाए, परंतु साथ ही इन दस्तावेज़ों की इबारत की ऊंच नीच को भी ध्यान में रखा जाए। हमें अपने देश को समझने के लिए, देश के हालात को समझने के लिए, अपने राजनीतिज्ञों को समझने के लिए किसी विदेशी के बयान पर किस हद तक आश्रित होना चाहिए, इस पर विचार करना भी आवश्यक है।
मुझे आज के इस लेख में बहुत कुछ लिखना बाक़ी है, लगता नहीं कि जगह की तंगी के कारण मैं इन विषयों पर भरपूर प्रकाश डाल पाऊंगा जिन पर कि मैं कल से ही लिखने का इरादा मन में लिए हुए था। मुझे अभी दिग्विजय सिंह जी के बयान पर उठे तूफ़ान पर चर्चा करनी है और भारतीय जनता पार्टी के के अध्यक्ष नितिन गडकरी की 4 दिन पूर्व शुरू हुई (14 दिसम्बर 2010) की इस्राईल यात्रा पर भी अपने विचार व्यक्त करने हैं। पहले कुछ पंक्तियां नितिन गडकरी की इस्राईल यात्रा पर। इसका उद्देश्य क्या है, उस व्यक्तव्य पर मत जाइए जो भारतीय जनता पार्टी के द्वारा सबके सामने रखा जाए। इस्राईल से भारतीय जनता पार्टी और संघ परिवार के संबंध क्या हैं उस पर नज़र डालिए। जब जब संघ परिवार पर कोई मुसीबत आई है, इस्राईल उसका बेहतरीन दोस्त साबित हुआ है, अतीत की उन घटनाओं पर नज़र डालिए। नरेंद्र मोदी के रहते गुजरात में इस्राईल का दख़ल कितना बढ़ा है उन आंकड़ों की समीक्षा कीजिए, सुरक्षा व्यवस्था की दृष्टि से हर व्यापारी घराने के दरवाज़े पर इस्राईली सुरक्षा कर्मियों की तयनाती की कितनी है उस पर नज़र डालिए। अपनी सुरक्षा के लिए इस्राईल से जिस टेक्नालाॅजी को मंगाया गया है उसका जायज़ा लीजिए, इस्राईल से उनके इस विश्वास के रिश्ते को ध्यान में रखिए, इस्राईल की मुस्लिम दुश्मनी को ज़हन में रखिए, नक्सलाइट से निमटने के लिए इस्राईल की सहायता ली जानी चाहिए, नितिन गडकरी के इस बयान से मानी मतलब को समझने का प्रयास कीजिए अंदाज़ा हो जाएगा कि भारतीय जनता पार्टी के मुखिया अपनी टीम के साथ इस्राईल किसलिए गए हैं। क्या यात्रा से व्यापार को बढ़ाना उद्देश्य है जहां भारतीय जनता पार्टी की सरकारे हैं या फिर उन सरकारों का प्रयोग भारतीय जनता पार्टी अपने जिन उद्देश्यों की पूर्ति के लिए पूर्व में करती रही है, उसी में वृद्धि के लिए इस्राईल का सहयोग दरकार है और इसके लिए यह यात्रा आवश्यक थी। इस समय यात्रा का उद्देश्य यही है क्योंकि यह यात्रा शुरू होने से पूर्व देश में जिस बात को लेकर हंगामा जारी था, वह 26/11 अर्थात भारत पर हुए आतंकवादी हमले को लेकर छिड़ी एक नई चर्चा थी। हमने अपने लेखों में जो सम्मिलित हैं हमारी नई पुस्तक ‘‘आरएसएस की साज़िश-26/11?’’ में जिसके विमोचन के अवसर पर किए गए भाषण ने एक हंगामा बरपा कर दिया। अपने इन लेखों में हमने 26/11 से इस्राईल के संबंध को भी बेनक़ाब किया है। विशेषरूप से स्पष्ट शब्दों में संघ परिवार और इस्राईल के गठजोड़ पर प्रश्न खड़े किए हैं इंटरनेट पर हमारे द्वारा लिखा गया एक एक शब्द पढ़ा जा सकता है अर्थात हमारे सभी लेख और चर्चा का विषय बनी पुस्तक भी पढ़ी जा सकती है। क्या नितिन गडकरी को अपनी टीम के साथ इस्राईल जाने की आवश्यकता इसी वार्तालाप के कारण पेश आई कि दिग्विजय सिंह जी के बयान पर उठा तूफ़ान तो थम जाएगा परंतु बात निकलेगी तो दूर तलक जाएगी, इसलिए कि शहीद हेमंत करकरे ने जो कुछ कहा उस आतंवादी हमले से केवल 3 घंटे पूर्व, उसे अगर झूठ भी मान लिया जाए तो हम किस किसको झूठा ठहराएंगे? किस किस के बयान को राजनीति पर आधारित साबित कर पाएंगे। अपनी मृत्यु से 1 दिन पूर्व वरिष्ठ पुलिस अधिकारी जूलियो रेबेरो से भी वही कहा, जो दिग्विजय सिंह जी से कहा, अपने साथी पुलिस अधिकारी जिनके साथ माॅर्निंग वाॅक के लिए जाया करते थे उनसे भी वही कहा जो दिग्विजय सिंह से कहा, यह बातें हम प्रकाशित कर चुके हैं और भी बहुत कुछ है अभी सामने लाने के लिए यदि राहुल गांधी के बयान के बाद सूरतेहाल में तब्दीली न आई होती तो एक के बाद दूसरे ऐसे बहुत से प्रमाण पेश किए जा सकते थे और पेश किए जा सकते हैं जिनसे साबित हो जाएगा कि शहीद हेमंत करकरे की शहादत के तुरंत बाद उनका अंतिम संस्कार होते ही ऐसी बातें शुरू हो गई थीं और लगभग सभी समाचारपत्रों ने उन्हें प्रकाशित किया था फिर अगर विकिलीक्स को आज हम एक ऐसे हथियार के रूप में देखें जैसा कि अतीत में जब जब आवश्यकता होती थी तो अमेरिका के राष्ट्रपति जाॅर्ज वाॅकर बुश को बिन लादेन का टेप उपलब्ध हो जाया करता था। आज जब किसी को यह लगे कि बहस में कमज़ोर पड़ रहे हैं, बात को बहुत दूर तक जाने की स्थिति में उन्हें ऐसे नुक़्सान का सामना करना पड़ सकता है, जिसकी भरपाई ना की जा सके तो फिर विकिलीक्स के पिटारे पर नज़र डाली जाए और वहां से ऐसा कुछ बरामद कर लिया जाए, जिससे देश का ध्यान इस ओर से हट जाए और चर्चा का एक नया विषय सामने आ जाए जिससे उन्हें राहत मिल जाए। क्या विकिलीक्स द्वारा मंज़रेआम पर लाया गया राहुल गांधी का बयान एक ऐसा ही प्रयास है। क्योंकि अतिशीघ्र यह वातावरण बनने वाला था कि दिग्विजय सिंह जी के बयान की जांच तो आवश्यक है ही और हम भी इस बात पर ज़ोर देने वाले थे कि वाक़ई उस बयान में कही गई बातों की जांच आवश्यक है। प्रश्न यह इतना महत्वपूर्ण नहीं है कि यह बातें दिग्विजय सिंह ने कहीं, जूलियो रेबेरो ने कहीं या उनके साथी सुधाकर ने कहीं, आवश्यक यह है कि अपनी शहादत से पूर्व हेमंत करकरे ने क्या कहा? ज़रा सोचिए अगर यह सिद्ध हो जाए कि दिग्विजय सिंह के बयान का सारांश वही था जो शहीद हेमंत करकरे ने विभिन्न लोगों से कहा तो फिर हमें भारत के न्यायालयों से सैकड़ों ऐसी नज़ीरों को पेश करना क्या कठिन होगा कि ऐसे सभी लोग जांच के दायरे में आते ही हैं, जो किसी को हत्या की धमकी दें और अगले दिन उसकी हत्या हो जाए, भले ही वह किसी और ने क्यों न की हो।
...................................................

Thursday, December 16, 2010

حافظ سعید ہمارا مجرم ہے اسے ہمارے حوالے کرو!

عزیز برنی

پاکستان کے دہشت گرد جب ہندوستان کی زمین پر آکر دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں تواس سے ان کا کون سا مقصد حل ہوتا ہے ، یہ ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے یا دہشت گردوں کے منہ لگے خون کا نتیجہ ہی۔ وجہ جو بھی ہو ، اس سے اسلام تو بدنام ہوتا ہی ہے پاکستان اور پاکستانی بھی بدنام ہوتے ہیں،مگر ہماری تکلیف یہ ہے کہ سب سے زیادہ خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا ہی، شرمندہ ہمیں ہونا پڑتا ہی، لہٰذا ہمیں آج یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ پاکستان ہم ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کو بڑھانے کی کوشش میںلگا رہتا ہی۔شاید اس کی اس منشا کے پیچھے یہ سیاست کارفرما ہے کہ ہندوستان مسلسل فرقہ وارانہ تنازع کا شکار رہی، ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی کھائی ہمیشہ بنی رہے اور حالات اس درجہ خراب ہوں کہ ہمارا ملک خانہ جنگی کا شکار ہو۔ساتھ ہی اگر اس تصادم میں کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش آجائے جس کو نظیر بناکر بین الاقوامی سطح پر وہ ہندوستان کو تنقید کا نشانہ بناسکی، مسلمانوں کے تئیںجھوٹی ہمدردی کا دکھاوا کرسکے تو وہ ان حالات کا فائدہ اٹھاسکے لہٰذا ہم اس کی ذہنیت کو بے نقاب کردینا ضروری سمجھتے ہیں۔
پاکستان ہندوستانی مسلمانوں کے سینے پر لگا وہ زخم ہے جو 63برسوں کے بعد بھی بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہی، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اب یہ ناسور کی شکل اختیار کرچکا ہی۔ اس وقت تقسیم کی وجہ جو بھی رہی ہو، تقسیم کے لئے ذمہ دار جو بھی رہے ہوں، ہم نے اس موضوع پر ماضی میں بہت کچھ لکھا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو آئندہ بھی لکھا جاسکتا ہی، لیکن اس وقت تقسیم وطن کے حالات اورو جوہات کا ذکر کرناہمارا مقصد نہیںہی۔ اس درمیان دونوں ممالک کے جو بھی حالات رہے ہوں ، ان کا تذکرہ بھی اس وقت نہیں لیکن آج کے حالات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا،نہ پاکستان کے نہ ہندوستان کی۔دہشت گردی دونوں ممالک کی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی۔ ہندوستان ایک بڑا ملک ہی، دہشت گردی پر قابو پانے کی جدوجہد میں لگاتار مصروف ہے اور بہت حد تک کامیاب بھی ہے لیکن جہاں تک پاکستان کا تعلق ہی، اس دہشت گردی نے اسے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہی۔افغانستان اور عراق کو دہشت گردی کے الزام کے نتائج میں امریکہ کے ذریعہ تھوپی گئی جنگ کی وجہ سے تباہ و برباد ہونا پڑا،اگر افغانستان پر طالبان کاغلبہ نہ ہوتا، افغانستان دہشت گردی کا شکار نہ ہوتا، القاعدہ کو اس کی زمین پر پروان چڑھنے کا موقع نہ ملتا، اسامہ بن لادن نے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے افغانستان کی زمین کا استعمال نہ کیا ہوتا تو افغانستان امریکہ کے ذریعہ تباہی کا نشانہ نہ بنتا۔ 9/11کے افسوسناک حادثہ سے کم از کم افغانستان کو کوئی خمیازہ نہ بھگنا پڑتا۔ اگر اسامہ بن لادن اس کے لئے ذمہ دار ہوتا تو امریکہ تلاش کرتا ، بن لادن کو پھر چاہے جو کرتا۔ افغانستان کو تباہ کرنے کا بہانہ تو نہیں ملتا۔ یہ بہانہ ملا اس لئے کہ افغانستان خود دہشت گردی کا شکار تھا۔ بن لادن اور القاعدہ افغانستان کی زمین کو اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے لئے استعمال کررہے تھی، اس لئے یہ دہشت گردی افغانستان کی تباہی کا سبب بنی، لیکن پاکستان …! وہ تو امریکی جنگ کے بغیر ہی تباہ ہورہا ہی۔اسے تباہی کے لئے امریکہ کے ذریعہ تھوپی جانی والی جنگ کی ضرورت نہیںہی۔ اس کی تباہی کے لئے تو پاکستان کی زمین پر فروغ پانے والی دہشت گردی ہی کافی ہی۔ دراصل افغانستان کی تباہی کی وجہ تو القاعدہ اور اسامہ بن لادن بنے اور پاکستان کی تباہی کے لئے لشکر طیبہ ، جمعیۃ الدعوۃ اور حافظ سعید جیسے نام کافی ہیں۔ہم ضرور ذکر کرتے گزشتہ دنوں پاکستان میں ہوئے بم دھماکوں کا،اس دہشت گردی کے ذریعہ ہونے والی ہلاکتوں کا،چونکہ پاکستان کا مسئلہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے لہٰذا ہمیں اس بات کی ضرورت بھی نہیں ہے کہ ہم ان کے حکمرانوں کو کوئی مشورہ دیں ، ان کے ان حالات کے لئے اپنی فکرمندی کااظہار کریں لیکن ان کے ملک کے جس دہشت گردانہ عمل کا تعلق ہماری زمین سے ہی، ہماری قوم سے ہی، اسے ہم کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں۔ہمیں افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں جتنے بم دھماکے ہوئے ،جتنی ہلاکتیں ہوئیںیا جس طرح بے نظیر بھٹو کو اس دہشت گردی کا شکار ہونا پڑا، وہ سب افسوسناک ہی،مگر ہمیں زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کی زمین سے اٹھنے والی دہشت گردی کی ان چنگاریوں نے ہمارے ملک کا امن و سکون چھین لیا ہے ۔
پاکستان کا وجود مسلمانوں کی بنیاد پر عمل میں آیا یا اس کی وجہ کچھبھی ہو ،مگر آج کی سچائی جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا وہ یہی ہے کہ پاکستان مسلم اکثریت والا ملک ہی،یعنی ایک مسلم ملک ہے ، اس کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی۔ ہندوستان میں بم دھماکے ہوں اور انہیں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت ، خلش، رنجش کا نام دے کر ان کو فرقہ پرستی سے جوڑا جائے تو یہ وجہ حقائق پر مبنی ہو یا نہ ہو پھر بھی اس بات کی گنجائش باقی رہتی ہے کہ دونوں ہی مذاہب کے تشدد پسند عناصر اس طرح کی حرکات میں ملوث ہوسکتے ہیں لیکن پاکستان جو مسلم ملک ہے اگر وہاں مساجد میں بم دھماکے ہوں تو یہ الزام کسی دوسرے فرقے پر عائد نہیں کیا جاسکتا۔وہاں مرنے والے اور مارنے والے دونوں ہی مسلمان ہیں۔ظاہر ہے اس کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیںیا تو یہ کہ پاکستان پوری طرح دہشت گردی کی گرفت میں ہے اور معصوم امن پسند عوام کی بات چھوڑ دیں تو دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد ہے جس کا پاکستان پر غلبہ ہے اور پاکستان کی حکومت یا تو ان پر قابو پانے میں پوری طرح ناکام ہے یا پھر وہ اس معاملے میں قطعاًسنجیدہ نہیں ہی۔
بہرحال ہمیں کوئی ضرورت نہیں تھی کہ آج بھی ہم پاکستان کے داخلی معاملات میں کچھ کہتی، اگر تازہ واقعہ اس وقت ہمارے سامنے نہ آیا ہوتا۔ جمعیۃ الدعوۃ کا سربراہ حافظ سعید تقریباً دو برس کے بعدکھلے عام پاکستان کی راجدھانی اسلام آباد کی سڑکوں پرتقاریر کرتے نظر آئی۔ ہندوستان میں 26نومبر 2008کو ہوئے دہشت گردانہ حملہ کا ماسٹر مائنڈ ہے حافظ سعید، یہ تفتیشی رپورٹ کے ذریعہ سامنے آچکاہے اور حکومت ہند کے ذریعہ ایسے تمام دستاویزپاکستانی حکومت کے سپرد کئے جاچکے ہیں،جن سے یہ پوری طرح ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں ہوئے اس دہشت گردانہ حملہ سے حافظ سعید کا کتنا گہرا تعلق ہی۔ اگر پاکستان ہمارے ملک میں تباہی پھیلانے والے دہشت گرد حافظ سعید کو یہ کھلی چھوٹ دے کہ وہ عوام کو خطاب کرتا پھر ے ، پاکستان کے اہم سیاست داں اس کے ساتھ اسٹیج پر موجود رہیں اور حکومت پاکستان کے کان پرجوں نہ رینگے تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان کے حکمراں اپنے ملک میں پھیلی دہشت گردانہ وبا پر توقابو پانے کے لئے فکر مندہیںہی نہیں اورہندوستان میں دہشت گردی پھیلانے والے مجرموں کو بھی اپنے سر پر بٹھا رکھا ہے جو ہم قطعاً برداشت نہیں کرسکتی۔ اس کے آقا امریکہ ہی نہیں متعدد ممالک نے پاکستان کو اس کی زمین پر پروان چڑھنے والی دہشت گردی کے لئے تنقید کا نشانہ بنایا ہواہی۔کیا پاکستان چاہتا ہے کہ ہندوستان وہی راستہ اختیار کرے جو امریکہ نے اختیار کیا تھا یعنی جس طرح 11ستمبر001کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو دہشت گردانہ حملہ کا نشانہ بنائے جانے کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا،اس لئے کہ اس کی رپورٹس کے مطابق 9/11کے لئے القاعدہ اور اسامہ بن لادن ذمہ دار تھے اور ہماری رپورٹس کے مطابق ہندوستان کی زمین پر اس سب سے بڑے دہشت گردانہ حملے یعنی 26/11کے لئے لشکر طیبہ ، جمعیۃ الدعوۃ اور حافظ سعید ذمہ دار ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہندوستان پاکستان کے درمیان جنگ ہو ، ہم نے مسلسل لکھا بھی تاکہ جنگ کے حالات پیدا نہ ہوں مگر ہم آنکھوں دیکھے مکھی تو نہیں نگل سکتی، ہم یہ کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ ہمارا مجرم پاکستان میں کھلے عام تقاریر کرتا نظر آئے اور پاکستان حکومت اس پر کوئی توجہ نہ دی۔
اب ہم اگلی چند لائنیں جو لکھنے جارہے ہیں اس کے پیچھے منشا یہ ہے کہ ہمارے ملک کی حکومت اور عوام ہی نہیں،بلکہ ساری دنیا اس حقیقت کو سمجھے کہ پاکستان ہندوستانی مسلمانوں کا ہمدرد نہیں ہی۔ پاکستان ایک مسلم ملک ہونے کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ خود کو ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے فکرمندظاہر کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہی۔بات چاہے کشمیر کی ہو ، بابری مسجد کی شہادت کی یا دیگر ایسے معاملات کی جو ہندوستان کے مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں یہ سب ایک ڈھونگ ہی۔ اکثر و بیشتر پاکستان کی دکھائوٹی ہمدردی کسی نہ کسی موقع پر ظاہر ہوتی رہتی ہی۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی اس دکھائوٹی ہمدردی کا مقصد خالص سیاسی ہے اورپاکستانی حکومت یہ بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ ان کے اس عمل سے ہمارے مسائل اور بڑھتے ہیں، کم نہیں ہوتی۔پاکستان کے دہشت گرد جب ہندوستان کی زمین پر آکر دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں تواس سے ان کا کون سا مقصد حل ہوتا ہے ، یہ ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے یا دہشت گردوں کے منہ لگے خون کا نتیجہ ہی۔ وجہ جو بھی ہو ، اس سے اسلام تو بدنام ہوتا ہی ہے پاکستان اور پاکستانی بھی بدنام ہوتے ہیں،مگر ہماری تکلیف یہ ہے کہ سب سے زیادہ خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا ہی، شرمندہ ہمیں ہونا پڑتا ہی، لہٰذا ہمیں آج یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ پاکستان ہم ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کو بڑھانے کی کوشش میںلگا رہتا ہی۔شاید اس کی اس منشا کے پیچھے یہ سیاست کارفرما ہے کہ ہندوستان مسلسل فرقہ وارانہ تنازع کا شکار رہی، ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی کھائی ہمیشہ بنی رہے اور حالات اس درجہ خراب ہوں کہ ہمارا ملک خانہ جنگی کا شکار ہو۔ساتھ ہی اگر اس تصادم میں کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش آجائے جس کو نظیر بناکر بین الاقوامی سطح پر وہ ہندوستان کو تنقید کا نشانہ بناسکی، مسلمانوں کے تئیںجھوٹی ہمدردی کا دکھاوا کرسکے تو وہ ان حالات کا فائدہ اٹھاسکے لہٰذا ہم اس کی ذہنیت کو بے نقاب کردینا ضروری سمجھتے ہیں۔ ہمیں اپنے یا اپنے ملک کے تئیں پاکستان سے کسی بہتری کی امید تو نہیں ہی، مگر ہم اتنا تو اس کے ذہن نشیںکراہی سکتے ہیں کہ ہم اپنے ملک میں اپنے مسائل کی وجہ سے کچھ پریشان ہوںیہ الگ بات ہی۔ہم اس پر تو دیر سویر قابو پاہی لیں گی، اس لئے کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا سیکولر ملک ہی۔ مٹھی بھر فرقہ پرستوں کی وجہ سے پیدا کردہ حالات ہمارے لئے عارضی مسئلہ ہوسکتے ہیں، دائمی نہیں، کم از کم پاکستان ہمارے لئے نئے نئے مسائل پیدا نہ کرے کیونکہ پاکستان جس طرح ہمارے لئے ناسازگار حالات پیدا کرتا رہتا ہی، اسے ہم عارضی مسئلہ مان کرنہیں چل سکتے ، ہمیں بین الاقوامی سطح پر باورکرانا ہوگاکہ پاکستان اپنی سیاسی حکمت عملی کے پیش نظر دہشت گردی کو ایک ہتھیارکے طور پر استعمال کررہا ہے ، بھلے ہی اس کا شکار ہندوستانی مسلمان ہوں،اس کی اسے قطعاً پروا نہیں ہی۔ لہٰذا ہمارا ملک پاکستان کے کسی بھی دہشت گردانہ عمل پر سختی کا رخ اختیارکرنے سے گریز نہ کرے

हाफिज़ सईद हमारा अपराधी है उसे हमारे हवाले करो!
अज़ीज़ बर्नी

पाकिस्तान के आतंकवादी जब भारत की धरती पर आकर आतंकी कार्रवाइयां करते हैं तो उससे उनका कौनसा उद्देश्य पूरा होता है, यह उसकी राजनीतिक रणनीति का हिस्सा है या आतंकवादियों के मंुह लगे रक्त का परिणाम। कारण जो भी हो, इससे इस्लाम तो बदनाम होता ही है पाकिस्तान और पाकिस्तानी भी बदनाम होते हैं, परंतु हमारी पीड़ा यह है कि ख़मियाज़ा हमें भुगतना पड़ता है, शर्मिंदा हमें होना पड़ता है, इसलिए हमें आज यह कहने में कोई संकोच नहीं है कि पाकिस्तान हम भारतीय मुसलमानों की समस्याओं को बढ़ाने के प्रयास में लगा रहता है। शायद उसकी इस मंशा के पीछे यह राजनीति काम कर रही है कि भारत लगातार साम्प्रदायिक विवाद का शिकार रहे, हिंदुओं और मुसलमानों के बीच घृणा की खाई हमेशा बनी रहे और हालात इतने ख़राब हों कि हमारा देश गृह युद्ध का शिकार हो। साथ ही अगर इस टकराव में कोई ऐसी अप्रिय घटना घटित हो जाए, जिसको उदाहरण बनाकर अंतरराष्ट्रीय स्तर पर वह भारत को आलोचना का निशाना बना सके, मुसलमानों के प्रति झूठी सहानुभूति का दिखावा कर सके तो वह इन परिस्थितियों का फ़ायदा उठा सके इसलिए हम उसकी मानसिकता को बेनक़ाब कर देना आवश्यक समझते हैं।

पाकिस्तान भारतीय मुसलमानों के सीने पर लगा वह ज़ख़्म है जो 63 वर्ष बाद भी भरने का नाम ही नहीं ले रहा है बल्कि हक़ीक़त तो यह है कि अब यह नासूर का रूप धारण कर चुका है। उस समय विभाजन का कारण जो भी रहा हो, विभाजन के लिए ज़िम्मेदार जो भी रहे हांे हमने इस विषय पर अतीत में बहुत कुछ लिखा है और अगर आवश्यकता पड़ी तो आगे भी लिखा जा सकता है लेकिन इस समय देश के विभाजन की परिस्थितियों तथा कारणों की चर्चा करना हमारा उद्देश्य नहीं है, इस बीच दोनों देशों के जो भी हालात रहे हों उनकी चर्चा भी इस समय नहीं, लेकिन आजके हालात को नज़रअंदाज़ नहीं किया जा सकता, न पाकिस्तान के न भारत के। आतंकवाद दोनों देशों की प्रगति के रास्ते में सबसे बड़ी रुकावट है। भारत एक बड़ा देश है। आतंकवाद पर क़ाबू पाने की जद्दोजहद में लगातार व्यस्त है और बहुत हद तक सफल भी है, लेकिन जहां तक पाकिस्तान का संबंध है इस आतंकवाद ने उसे तबाही के कगार पर पहुंचा दिया है। अफ़ग़ानिस्तान और इराक़ को आतंकवाद के आरोप के फलस्वरूप अमेरिका द्वारा थोपे गए युद्ध के कारण तबाह व बर्बाद होना पड़ा अगर अफ़ग़ानिस्तान पर तालिबान का वर्चस्व न होता, यदि अफ़ग़ानिस्तान आतंकवाद का शिकार न होता, अलक़ाएदा को उसकी धरती पर फलने फूलने का अवसर न मिलता, बिन लादेन ने अपनी आतंकी गतिविधियों के लिए अफ़ग़ानिस्तान की धरती का प्रयोग न किया होता तो अफ़ग़ानिस्तान अमेरिका द्वारा तबाही का निशाना न बनता। 9/11 की विडंबनापूर्ण दुर्घटना के लिए कम से कम अफ़ग़ानिस्तान के लोगों को इसका ख़ामियाज़ा न भुगतना पड़ता। अगर लादेन ही इसके लिए ज़िम्मेदार होता तो अमेरिका तलाश करता बिन लादेन को, फिर उसका जो चाहे करता। अफ़ग़ानिस्तान को तबाह करने का बहाना तो नहीं मिलता। यह बहाना मिला इसलिए कि अफ़ग़ानिस्तान स्वयं आतंकवाद का शिकार था। लादेन और अलक़ायदा अफ़ग़ानिस्तान की धरती को अपनी आतंकी कार्यवाहियों के लिए प्रयोग कर रहे थे इसलिए यह आतंकवाद अफ़ग़ानिस्तान की तबाही का कारण बना। लेकिन पाकिस्तान ह्न वह तो अमेरिकी युद्ध के बिना ही तबाह हो रहा है, उसे तबाही के लिए अमेरिका द्वारा थोपे जाने वाले युद्ध की आवश्यकता नहीं है उसकी तबाही के लिए पाकिस्तान की धरती पर पनपने वाला आतंवाद ही काफ़ी है। दरअसल अफ़ग़ानिस्तान की तबाही का कारण तो अलक़ायदा और उसामा बिन लादेन बने और पाकिस्तान की तबाही के लिए लशकर-ए-तय्यबा, जमीअतुद्दावा और हाफ़िज़ सईद जैसे नाम काफ़ी हैं। हम ज़रूर चर्चा करते पिछले दिनों पाकिस्तान में हुए बम धमाकों की इस आतंकवाद के द्वारा होने वाली हत्याओं की। चूंकि पाकिस्तान का मसला हमारा मसला नहीं है इसलिए हमें इस बात की आवश्यकता भी नहीं है कि हम उनके शासकों को कोई सुझाव दें, उनके इन हालात के लिए अपनी चिंता व्यक्त करें लेकिन उनके देश के जिस आतंकवादी कार्य का संबंध हमारी धरती से है, हमारी क़ौम से है उसे हम कैसे नज़रअंदाज़ कर सकते हैं। हमें अफ़सोस तो इस बात का भी है कि पिछले कुछ वर्षों में पाकिस्तान में जितने बम धमाके हुए, जितनी हत्याएं हुईं, विशेषरूप से बेनज़ीर भुट्टो को भी इस आतंकवाद का शिकार होना पड़ा। वह सब विडंबनापूर्ण है। परंतु हमें अधिक अफ़सोस इस बात का है कि पाकिस्तान की धरती से उठने वाली आतंकवाद की इन चिंगारियों ने हमारे देश का सुखचैन छीन लिया है।
पाकिस्तान मुसलमानों के आधार पर अस्तित्व में आया उसका कारण कुछ भी हो परंतु आजकी सच्चाई जिससे इन्कार नहीं किया जा सकता वह यही है कि पाकिस्तान मुस्लिम बहुल देश है अर्थात एक मुस्लिम देश है। उसका दावा भी यही है इस्लामी लोकतांत्रिक पाकिस्तान। भारत में बम धमाके हों और उन्हें हिंदू और मुसलमानों के बीच घृणा, मनमुटाव और रंजिश का नाम देकर उनको साम्प्रदायिकता से जोड़ा जाए तो ये कारण तथ्यों पर आधारित हो या न हो इस बात की गुंजाइश बाक़ी रहती है कि दोनों ही धर्मों के कट्टरपंथी तत्व इस तरह की गतिविधियों में लिप्त हो सकते हैं। लेकिन पाकिस्तान जो मुस्लिम देश है अगर वहां मस्जिदों में बम धमाके हों तो यह आरोप किसी अन्य समुदाय पर नहीं डाला जा सकता। वहां मरने वाले और मारने वाले दोनों ही मुसलमान हैं। ज़ाहिर है इसके दो ही कारण हो सकते हैं या तो यह कि पाकिस्तान पूरी तरह आतंकवाद की चपेट में है और मासूम अमन पसंद अवाम की बात छोड़ दें तो आतंकवादियों की एक बड़ी संख्या है जिसका पाकिस्तान पर वर्चस्व है और पाकिस्तान की सरकार या तो उन पर क़ाबू पाने में पूरी तरह असफल है या फिर वह इस मामले में बिल्कुल गंभीर नहीं है।
बहरहाल हमें कोई आवश्यकता नहीं थी आज भी हम पािकस्तान के आंतरिक मामलों में कुछ कहते अगर ताज़ा घटना इस समय हमारे सामने न आई होती। जमीअतुद्दावा के मुखिया हाफ़िज सईद लगभग दो वर्ष के बाद खुलेआम पाकिस्तान की राजधानी इस्लामाबाद की सड़कों पर भाषण करते नज़र आए। भारत में 26 नवम्बर 2008 को हुए आतंकवादी हमले का मास्टरमाइंड है हाफ़िज़ सईद। यह जांच रिपोर्ट द्वारा सामने आ चुका है और भारत सरकार द्वारा ऐसे सभी दस्तावेज़ पाकिस्तान सरकार के हवाले की जा चुकी हैं, जिनसे यह पूरी तरह साबित है कि हमारे देश में हुए उस आतंकी हमले से हाफ़िज़ सईद का कितना गहरा संबंध है। अगर पाकिस्तान हमारे देश में तबाही फैलाने वाले आतंकी हाफ़िज़ सईद को यह खुली छूट दे कि वह जनता को संबोधित करता फिरे पाकिस्तान के प्रभावशाली नेतागण मंच पर उसके साथ खड़े हों और पाकिस्तान सरकार के कानों पर जूं न रेंगे तो हम समझ सकते हैं कि पाकिस्तान के शासक अपने देश में फैले आतंकवाद की महामारी पर तो क़ाबू पाने के लिए चिंतित है ही नहीं और भारत में आतंकवाद फैलाने वाले अपराधियों को भी अपने सिर पर बिठा रखा है जो हम क़तअन बर्दाश्त नहीं कर सकते और यह तो तब है कि उसके आक़ा अमेरिका ही नहीं कई देशों ने पाकिस्तान को उसकी धरती पर फलने-फूलने वाले आतंकवाद के लिए आलोचना का निशाना बनाया है। क्या पाकिस्तान चाहता है कि भारत वही रास्ता अपनाए जो अमेरिका ने अपनाया था अर्थात जिस प्रकार 11 सितम्बर 2001 को वल्र्ड ट्रेड टाॅवर को आतंकी हमले का निशाना बनाए जाने के बाद अमेरिका ने अफ़ग़ानिस्तान पर हमला किया इसलिए कि उसकी रिपोर्टों के अनुसार 9/11 के अलक़ायदा और बिन लादेन ज़िम्मेदार थे और हमारी रिपोर्ट के अनुसार भारत की धरती पर इस सबसे बड़े आतंकवादी हमले अर्थात 26/11 के लिए लश्कर-ए-तय्यबा, अमीअतुद्दावा और हाफ़िज़ सई ज़िम्मेदार हैं। हम नहीं चाहते कि भारत-पाकिस्तान के बीच युद्ध हो, हमने लगातार लिखा भी ताकि युद्ध के हालात उत्पन्न न हों मगर हम आंखों देखते मक्खी तो नहीं निगल सकते। हम यह कैसे सहन कर सकते हैं कि हमारा अपराधी पाकिस्तान में खुलेआम भाषण करता नज़र आए और पाकिस्तान सरकार उस पर कोई ध्यान न दे।
हम अगली कुछ पंक्तियां जो लिखने जा रहे हैं उसके पीछे मंशा यह है कि हमारे देश की सरकार और जनता ही नहीं बल्कि पूरी दुनिया इस हक़ीक़त को समझे कि पाकिस्तान भारतीय मुसलमानों का हितैषी नहीं है। पाकिस्तान एक मुस्लिम देश होने का दावा करने के साथ-साथ स्वयं को भारतीय मुसलमानों के लिए चिंतित प्रकट करने के प्रयास करता रहा है। बात चाहे कश्मीर की हो, बाबरी मस्जिद की शहादत की या अन्य ऐसे मामलों की जो भारत के मुसलमानों से संबंध रखते हैं, यह सब एक ढोंग है, अकसरो बेश्तर पाकिस्तान की दिखावटी हमदर्दी किसी न किसी अवसर पर प्रकट होती रहती है। हम अच्छी तरह जानते हैं कि उसकी इस बनावटी सहानुभूति का उद्देश्य शुद्धरूप से राजनीतिक है और पाकिस्तानी सरकार यह भी अच्छी तरह जानती है कि उनके इस कार्य से हमारी समस्याएं और बढ़ती ह,ैं कम नहीं होतीं। पाकिस्तान के आतंकवादी जब भारत की धरती पर आकर आतंकी कार्रवाइयां करते हैं तो उससे उनका कौनसा उद्देश्य पूरा होता है, यह उसकी राजनीतिक रणनीति का हिस्सा है या आतंकवादियों के मंुह लगे रक्त का परिणाम। कारण जो भी हो, इससे इस्लाम तो बदनाम होता ही है पाकिस्तान और पाकिस्तानी भी बदनाम होते हैं, परंतु हमारी पीड़ा यह है कि ख़मियाज़ा हमें भुगतना पड़ता है, शर्मिंदा हमें होना पड़ता है, इसलिए हमें आज यह कहने में कोई संकोच नहीं है कि पाकिस्तान हम भारतीय मुसलमानों की समस्याओं को बढ़ाने के प्रयास में लगा रहता है। शायद उसकी इस मंशा के पीछे यह राजनीति काम कर रही है कि भारत लगातार साम्प्रदायिक विवाद का शिकार रहे, हिंदुओं और मुसलमानों के बीच घृणा की खाई हमेशा बनी रहे और हालात इतने ख़राब हों कि हमारा देश गृह युद्ध का शिकार हो। साथ ही अगर इस टकराव में कोई ऐसी अप्रिय घटना घटित हो जाए, जिसको उदाहरण बनाकर अंतरराष्ट्रीय स्तर पर वह भारत को आलोचना का निशाना बना सके, मुसलमानों के प्रति झूठी सहानुभूति का दिखावा कर सके तो वह इन परिस्थितियों का फ़ायदा उठा सके इसलिए हम उसकी मानसिकता को बेनक़ाब कर देना आवश्यक समझते हैं। हमें अपने या अपने देश के प्रति पाकिस्तान से किसी बेहतरी की आशा तो नहीं है, परंतु हम इतना तो उसके सामने स्पष्ट कर ही सकते हैं कि हम अपने देश में अपनी समस्याओं के कारण कुछ परेशान हों, यह अलग बात है। हम उस पर देर-सवेर क़ाबू पा ही लेंगे इसलिए कि हम अच्छी तरह जानते हैं कि भारत दुनिया का सबसे बड़ा धर्मनिर्पेक्ष देश है। मुट्ठीभर साम्प्रदायिक लोगों के कारण उत्पन्न परिस्थितियां हमारे लिए अस्थाई समस्या हो सकती हंै, स्थाई नहीं। कम से कम पाकिस्तान हमारे लिए नई नई समस्याएं पैदा न करे क्योंकि पाकिस्तान जिस तरह हमारे लिए प्रतिकूल परिस्थितियां उत्पन्न करता रहता है उसे हम अस्थाई समस्या मान कर नहीं चल सकते, हमें अंतरराष्ट्रीय स्तर पर एहसास कराना होगा कि पाकिस्तान अपनी राजनीतिक रणनीति के पेशेनज़र आतंकवाद को एक हथियार के रूप में प्रयोग कर रहा है। भले ही इसका शिकार भारतीय मुसलमान हों उसकी उसे क़तअन परवाह नहीं है अतएव हमारा देश पाकिस्तान की किसी भी आतंकवादी कार्यवाही पर सख़्ती का रुख़ करने से गुरेज़ न करे।

Wednesday, December 15, 2010

اس سی ڈی میں کیا ہی، جس کا ذکر کرکرے نے ربیرو سے کیا تھا؟

عزیز برنی

جولیو ربیرو ممبئی کے سابق پولیس کمشنر ہی نہیں، وہ ایک ایسے جانباز پولیس آفیسر ہیں، جو اس وقت پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل پولیس تھی، جب پنجاب دہشت گردی کا شکار تھا۔ یعنی انہیں دہشت گردی سے نمٹنے اور دہشت گردوں کی نفسیات کو سمجھنے کا بخوبی تجربہ ہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے دوران پولیس افسران کو کس طرح کی ذہنی کشمکش کا شکار ہونا پڑتا ہی۔ کس قدر خطروں سے کھیلنا پڑتا ہی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہیمنت کرکرے نے جولیوربیرو سے ان حالات کا تذکرہ کیا، جن سے ان کاسامنا تھا۔ ہم نے اپنی کل کی تحریر میں جس اخبار کی خبر کو شامل اشاعت کیا، وہ انگریزی روزنامہ ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ کی 28نومبر008 کی خبر تھی اور یہ بات جولیوربیرو نے اس وقت کہی، جب وہ شہید ہیمنت کرکرے کی آخری رسومات سے واپس لوٹ رہے تھے اور یہ خبر صرف ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں ہی شائع نہیں کی گئی، بلکہ دیگر متعدد اخبارات نے اسے نمایاں طور پر شائع کیا تھا، ہمارے پاس یہ فائل آج بھی موجود ہی۔ کیا ہم جولیوربیرو کو کسی بھی طرح کی سیاست سے متاثر تصور کرسکتے ہیں؟ کیا ہم ان کے اس بیان پر شک کرسکتے ہیں؟ کیا ان کے اس بیان کو سیاست پر مبنی قرار دے سکتے ہیں؟ واضح ہو کہ جولیوربیرو صرف ایک پولیس آفیسر ہی نہیں، بلکہ ایک سفارتکار بھی رہے ہیں۔ وہ 1989سے 1993 تک رومانیہ میں ہندوستان کے سفیر رہے ہیں۔ آج تک بھی ان کی کسی سیاسی پارٹی سے کوئی وابستگی نہیں ہے اوران کا یہ بیان دگ وجے سنگھ جی کے بیان کی طرح ہیمنت کرکرے کی شہادت کے دو برس بعد نہیں آیا ہی، بلکہ یہ شہادت کے اگلے ہی روز شمشان بھومی پر ان کی چتا کو نذرآتش کئے جانے کے بعد انتہائی غمزدہ ماحول میں ربیرو کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ تھی۔ ہاں، مگر اس کا غور طلب پہلو یہ ہے کہ بات وہی ہے جو ہیمنت کرکرے کے ذریعہ دگ وجے سنگھ جی سے کہی گئی۔
ہم آج پھر کچھ ایسے واقعات کا تذکرہ کررہے ہیں، جس سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ شہید ہیمنت کرکرے کو مالیگاؤں تفتیش کے بعد اپنی زندگی کے آخری ایام میں دھمکیاں مل رہی تھیں اور وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کی طرف سے کی جانے والی بے جا تنقید اور بے بنیاد الزامات لگائے جانے سے انتہائی بددل تھے حتیٰ کہ وہ اے ٹی ایس کو چھوڑ دینا چاہتے تھے اور اس دہشت گردانہ حملہ کی شام ہی انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ انہوں نے مہاراشٹر کے وزیرداخلہ آر آرپاٹل سے یہ درخواست کی ہے کہ ان کا تبادلہ کسی دوسرے محکمہ میں کردیا جائی۔ میں اپنی آج کی اس تحریر میں یہ خبریں تاریخ اور ذرائع کے ساتھ اس لئے شامل کررہا ہوں، تاکہ سند رہے کہ یہ تمام تو وہ باتیں ہیں، جو اسی وقت منظرعام پر آگئی تھیں اور آج اگر ایسی کوئی بات کی جارہی ہے تو کیا ہمیں اس کے ذاتی مقاصد تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئی، اسے سیاست پر مبنی سمجھنا چاہئے یا انہیں حقائق کو پھر سے منظرعام پر لانے کی کوشش سمجھنا چاہئی؟ آج میرے پاس بہت زیادہ لکھنے کا موقع نہیں ہی، اس لئے کہ میں دیگر ذمہ دار بالخصوص انگریزی میڈیا کی خبروںکے تراشے شامل اشاعت کررہا ہوں، تاہم ایک بات پر خصوصی توجہ ضرور دلانا چاہتا ہوں، جس طرح میں نے جناب دگ وجے سنگھ کی تقریر کے ایک جملہ کو سامنے رکھ کر اپنی بات کہی تھی اور آج اسی پر ہنگامہ ہی، اسی طرح آج کی اپنی تحریر میں پھر ان اخبارات کے ایک جملہ کو اپنے قارئین اور حکومت ہند کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔ جولیو ربیرو سے اپنی اس آخری ملاقات میں شہید وطن ہیمنت کرکرے نے کہا تھا کہ انہیں ایک ایسی سی ڈی دستیاب ہوگئی ہی، جس سے مزید چونکادینے والے انکشافات ہوسکتے ہیں، مگر انہیں مشکوک لوگوں سے مزید پوچھ گچھ کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہی۔
آج ہمارا سوال ہے کہ اس سی ڈی میں کیا ہی؟ وہ چونکادینے والے انکشافات کیا تھی؟ کن کو حراست میں لئے جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی؟ اور ہمیں یہ بھی ذہن بھی رکھنا ہوگا کہ شہیدہیمنت کرکرے کے بعد، جسے اے ٹی ایس کی ذمہ داری دی گئی، وہ مسٹر رگھوونشی وہی تھے جنہوں نے ناندیڑ بم دھماکوں میں ملوث پائے گئے سنگھ پریوار کے لوگوں سے نرم رویہ اختیار کرنے کا زبردست کارنامہ انجام دیا تھا۔
آئیے اب شروعات کرتے ہیںحوالہ جات کی، سب سے پہلے ممبئی سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ ’’ڈی این ای‘‘ کی وہ اہم خبر، جس میں درج ہے کہ شہید ہیمنت کرکرے نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے ساتھی سدھاکر سے اسی صورتحال کا ذکر کیا، جس کا ذکر جولیو ربیرو یا بقول دگ وجے سنگھ جی ان کے ساتھ کیا۔ ملاحظہ فرمائیں یہ مکمل خبر اور اس کے بعد دیگر خبروں کے حوالی:
DNA
ہلاکت سے قبل سے ہی کرکرے پریشان تھی
اے ٹی ایس چیف کے ساتھیوں کا بیان
ممبئی،0 نومبر008 ( آئی اے این ایس)
اے ٹی ایس چیف ہیمنت کرکرے جنہیں ممبئی میں تباہی مچانے والے دہشت گردوں نے ہلاک کردیا، ہلاکت سے قبل سے ہی پریشان تھی، کیونکہ مالیگاؤں بم دھماکہ کی تفتیش کے لیے ان پر مسلسل حملے کیے جارہے تھی۔ یہ کہنا ہے ان پولیس افسران کا جو کرکرے سے اچھی طرح واقف تھی۔
سابق ممبئی پولیس چیف جولیو ربیرو اور ریٹائرڈ پولیس افسر سدھاکر سورادکر دونوں کا کہنا ہے کہ6/11 کی رات دہشت گردانہ حملوں کے بعد کاما اسپتال کے پاس مورچہ لیتے وقت کرکرے ذہنی طور پر صحیح حالت میں نہیں تھی۔ کرکرے کو ایک ’منفردافسر‘ بتاتے ہوئے ربیرو نے کہا کہ وہ مختصر عرصہ سے انہیں جانتے ہیں اور وہ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ’’ سیاسی جماعتوں کے ذریعہ مسلسل حملوں کے باعث کرکرے پریشان تھی‘‘۔
1982بیچ کے آئی پی ایس افسر کرکری9 ستمبر کو مہاراشٹر کے مالیگاؤں میں ہوئے بم دھماکوں کی جانچ کررہے تھی، جس کے لیے ہندو دہشت گردذمہ دار مانے جارہے تھی۔ سخت گیر ہندو تنظیمو ں سے منسلک لوگ ایک ہندو سادھوی اورایک فوجی افسرکو گرفتار کرنے کے لیے کرکرے پر شدید تنقیدیں کررہے تھے اور انہیں ہندو مخالف بتارہے تھی۔
سدھا کر نے کہا کہ ’’ صبح کی سیر کے دوران میں اکثر ہیمنت سے ملتا تھا۔ وہ کافی پریشانی اور تکلیف محسوس کرتے تھی۔ شاید وہ ذہنی طور پر دباؤ میں ہوں۔ غلط اور غیر ضروری الزامات نے انہیں بری طرح متزلزل کردیا تھا۔ سدھاکر نے مزید کہا کہ جس طرح سے ہیمنت نے دہشت گردوںکے خلاف آپریشن کیا،وہ اس ہیمنت سے الگ تھاکیونکہ وہ بہت ہی منظم طریقے سے کام کرنے والے تھی۔
غور طلب ہے کہ ممبئی کے ان حملوں میں مارے گئی0 پولیس اہلکاروں میں کرکرے بھی شامل تھی، ان میں سی4 مہاراشٹر پولیس سے تعلق رکھتے تھی۔
دونوں ریٹائرڈ پولیس افسران نے کرکرے کو دل سے خراج عقیدت پیش کیا، جنہیں ہفتہ کو سپرد آتش کیا گیا تھا۔
کرکرے کے باڈی گارڈ ناسر کلکرنی نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا کہ ’’ ان کے ماتحت کام کرنا اعزاز کی بات تھی‘‘۔ کلکرنی نے مزید کہا کہ سر (کرکری) ایک سچے کرم یوگی تھی۔ وہ سبھی سے ایک جیسا سلوک کرتے تھی، خواہ ان کا عہدہ کچھ بھی ہو۔
دیگر افسران نے کرکرے کو ایک مثالی افسر اور سادہ لوح انسان بتایا۔سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس سورادکر نے کہا کہ ’’ وہ بہت ہی سادہ لوح اور بآسانی ملنے والے انسان تھی۔ِ وہ بہت ہی بہترین افسر اور انسان تھی۔ وہ کسی کو غلط طریقے سے کبھی بھی پھنسانے والے نہیں تھی، وہ نہایت ہی شفاف شخصیت کے حامل تھی‘‘۔
جیسے ہی بدھ کی رات دہشت گردوں نے ممبئی کی0 مقامات کو نشانہ بنایا، کرکرے نے اپنا ہیلمٹ اور بلیٹ پروف جیکٹ پہنی اور ان سے مقابلے کے لیے نکل پڑی۔ یہ حفاظتی انتظامات ناکافی ثابت ہوئے اور کرکرے کاما اسپتال کے سامنے دہشت گردوں کی بلیٹ کا نشانہ بن گئی۔ ان حملوں میں کم از کم83 لوگ مارے گئے اور00 سے زائد زخمی ہوئی۔
کرکرے کے دوست اور ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر وائی پی سنگھ نے الزام لگایا کہ ’’ پولیس افسران میں سیکورٹی اشیا مثلاً ہیلمٹس اور بلیٹ پروف جیکٹس کی خراب کوالٹی کے لیے زبردست غصہ تھا‘‘۔
دی اکنامک ٹائمس
30نومبر 2008
ربیرو نے کہا کہ کرکرے نے ان سے کہا تھا کہ ان ہا تھ ایک ایسی سی ڈی لگی ہے جن سے مالیگاؤں معاملے میں مزید اطلاعات ملتی ہیں۔ اس سی ڈی کی بنیاد پر انہوں نے مشکوک لوگوں سے مزید پوچھ گچھ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔لیکن ان لوگوں کو ان کی تحویل میں پھر نہیں دیا گیا۔
ہیمنت کرکرے کی اہلیہ کویتا کرکرے نے بی جے پی لیڈر اور گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے ذریعہ دی گئی ایک کروڑ کی امداد کو لینے سے انکار کردیا۔مودی نے ممبئی حملوں میں مارے گئے پولیس اہلکاروں کے رشتہ داروں کوخصوصی رقم دینے کااعلان کیا تھا۔
کرکرے کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ اپنے خلاف لگائے جارہے الزامات سے اتنے بددل ہوگئے تھے کہ انہوں نے ریاستی وزیر داخلہ آر آر پاٹل سے کہا تھا کہ ان کا اے ٹی ایس سے تبادلہ کردیا جائے ۔یہ انکشاف کرکرے کی ہلاکت سے چند گھنٹے قبل ہی کیا گیاتھا۔ذرائع کے مطابق ان کے مخالفین نہ صرف انہیں ذاتی طور پر تنقید کا نشانہ بنا رہے تھی، بلکہ ان کے بچوں کے کیریکٹر پر بھی کیچڑ اچھال رہے تھے ،جو کرکرے کے لئے ناقابل برداشت ہورہا تھا۔
Sify News
01-12-2008
انہیں شیو سینا کی پروا نہیں تھی،انہیں بی جے پی کے رویے سے بہت تکلیف پہنچی تھی،جس کی پروپیگنڈہ مشینری بہت منظم تھی اور جو ان کے خلاف مسلسل مہم چلا رہی تھی کہ انہوں نے پرگیہ ٹھاکر اور دیگر کے خلاف غلط مقدمات ٹھونکے ہیں۔
اے ٹی ایس نے ٹھاکرپرگیہ سنگھ اور کم ازکم دیگر 9ہندو انتہا پسندوں کو 29ستمبر کو ہوئے مالیگاؤں بم بلاسٹ کے سلسلے میں گرفتار کیا ہے ،جن پر شک کیا جاتا ہے کہ اس دھماکہ میں ان کا ہاتھ ہے ۔
ممبئی کے سابق معروف پولیس کمشنرجولیو ربیرو جوتب پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس تھے جب وہاں دہشت گردی شباب پر تھی، نے کہا کہ یہ عجیب بدقسمتی ہے کہ ہیمنت کرکرے کی ایمانداری اور غیر جانب داری پر بی جے پی مسلسل اس لیے سوالیہ نشان لگا رہی ہے کیونکہ انہو ںنے 2006کے مالیگاؤں بلاسٹ میں ملوث ہندو انتہا پسندوں کو بے نقاب کیا مگر یہی کرکرے انڈین مجاہدین کی ہٹ لسٹ میںبھی تھی۔
Indianexpress.com
اے ٹی ایس چیف کے گھر کو اڑانے کی دھمکی کا پولیس کا اعتراف
پنی6نومبر008
ایک نامعلوم شخص نے پنے پولیس کو پی سی او سے فون کرکے دھمکی دی کہ ممبئی اے ٹی ایس کے سربراہ ہیمنت کرکرے کے گھر کو چند دنوں میں اڑا دیا جائے گا۔بدھ کو ایک اعلیٰ پولیس آفیسر نے اس کی تصدیق کی ۔جوائنٹ کمشنر آف پولیس راجیندر سونا وانے کے مطابق ٹوٹی پھوٹی مراٹھی میں بولنے والے اس شخص نے 24نومبر کویہ دھمکی دیتے ہی فون کاٹ دیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بعد میں یہ کال سہکر نگر علاقہ کے ایک پبلک بوتھ سے کی ہوئی پائی گئی۔جب سونا وانے سے پوچھا گیا کہ کیا محض فرضی کال تھی تو انہوںنے کہا کہ موجودہ صورتحال میں پولیس ایسی تمام دھمکیوں کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور ممبئی اے ٹی ایس کو اس کے بارے میں مطلع کردیا گیا ہے ۔
تاہم جب پولیس کنٹرول روم سے منگل کی رات رابطہ کیاگیا تو اس نے کرکرے کو دی جارہی ایسی کسی بھی دھمکی سے انکار کیا۔
……………

उस सीडी में क्या है, जिसका ज़िक्र करकरे ने रिबैरो से किया था?
अज़ीज़ बर्नी

जूलियो रिबैरो मंुबई के पुर्व पुलिस आयुक्त ही नहीं, वह एक ऐसे जांबाज़ पुलिस अधिकारी हैं जो उस समय पंजाब के डायरेक्टर जनरल आॅफ पुलिस थे, जब पंजाब आतंकवाद का शिकार था। अर्थात उन्हें आतंकवाद से निपटने तथा आतंकवादियों की मानसिकता को समझने का पूरा अनुभव है और वह भलीभांति जानते हैं कि आतंकवादियों से निपटने के दौरान पुलिस अधिकारियों को किस प्रकार के मानसिक तनाव का शिकार होना पड़ता है। कितने खतरों से खेलना पड़ता है। शायद यही कारण है कि हेमन्त करकरे ने जूलियो रिबैरो से उन हालात की चर्चा की, जिनसे उनका सामना था। हमने अपने कल के लेख में जिस समाचारपत्र के समाचार को प्रकाशित किया, वह अंग्रेजी दैनिक ‘टाईम्स आॅफ इंडिया का 28 नवम्बर 2008 का समाचार था और यह बात जूलियो रिबैरो ने उस समय कही, जब वह शहीद हेमन्त करकरे के अंतिम संस्कार से वापस लौट रहे थे और यह समाचार केवल ‘टाईम्स आॅफ इंडिया’ में ही प्रकाशित नहीं किया गया बल्कि अन्य कई समाचारपत्रों ने उसे प्रमुखता के साथ प्रकाशित किया था, हमारे पास यह फाईल आज भी मौजूद है। क्या हम जूलियो रिबैरो को किसी प्रकार की राजनीति से प्रभावित समझ सकते हैं? क्या हम उनके इस बयान पर संदेह कर सकते हैं? क्या उनके इस बयान को राजनीति पर आधारित ठहरा सकते हैं? विचारणीय है कि जूलियो रिबैरो केवल एक पुलिस अधिकारी ही नहीं बल्कि एक राजनयिक भी रहे हैं। वह 1989 से 1993 तक रोमानिया में भारत के राजदूत रहे हैं। आज तक भी उनकी किसी राजनीतिक दल से कोई संलग्नता नहीं है, और उनका यह बयान दिग्विजय सिंह के बयान की तरह हेमन्त करकरे की शहादत के दो वर्ष बाद नहीं आया है, बल्कि यह शहादत के अगले ही दिन शमशान भूमि पर उनकी चिता को अग्निी की भेंट किए जाने के पश्चात अत्यंत शोकाकूल वातावरण में रिबैरो की जु़बान से निकले हुए शब्द थे। हां परन्तु इसका विचारणीय पहलू यह है कि बात वही है जो हेमंत करकरे के द्वारा दिग्विजय सिंह से कही गई।
हम आज फिर कुछ ऐसी घटनाओं का उल्लेख कर रहे हैं, जिससे यह स्पष्ट संकेत मिलता है कि शहीद हेमन्त करकरे को मालेगांव जांच के बाद अपने जीवन के अंतिम दिनों में धमकियां मिल रही थीं और वह भारतीय जनता पार्टी के नेताओं की ओर से की जाने वाली अनुचित आलोचना तथा निराधार आरोप लगाये जाने से अत्यंत दुखी थे। यहां तक कि वह ए.टी.एस को छोड़ देना चाहते थे और उस आतंकवादी हमले की संध्या ही उन्होंने अपने साथियों से कहा था कि उन्होंने महाराष्ट्र के गृहमंत्री आर आर पाटिल से यह निवेदन किया है कि उनका स्थानांतरण किसी दूसरे विभाग में कर दिया जाये। मैं अपने आज के इस लेख में यह समाचार तिथि एवं सूत्रों के साथ इसलिए शामिल कर रहा हूं ताकि सनद रहे कि यह सभी तो वह बातें हैं, जो उसी समय सामने आ गई थीं और आज अगर ऐसी कोई बात की जा रही है तो क्या हमें उसके निजि उद्देश्य खोजने का प्रयास करना चाहिए, उसे राजनीति पर आधारित समझना चाहिए या उन्हें तथ्यों को फिर से सामने लाने का प्रयास समझना चाहिए? आज मेरे पास बहुत अधिक लिखने का मौका नहीं है, इसलिए कि मैं अन्य जिम्मेदार विशेष रूप से अंग्रेजी मीडिया के समाचारों के हवाले प्रकाशित कर रहा हूं, फिर भी एक बात पर विशेष ध्यान आवश्य दिलाना चाहता हूं। जिस तरह मैंने दिग्विजय ंिसंह के भाषण के एक वाक्य को सामने रखकर अपनी बात कही थी और आज उसी पर हंगामा है, उसी तरह आज के अपने लेख में फिर उन समाचारपत्रों के एक वाक्य को अपने पाठकों तथा भारत सरकार की भेंट करना चाहता हूं। जूलियो रिबैरो से अपनी इस अंतिम मुलाकात में शहीद हेमन्त करकरे ने कहा था कि उन्हें एक ऐसी सीडी उपलब्ध हो गई है, जिससे अत्याधिक चैंकाने वाले रहस्योद्घाटन हो सकते हैं, परन्तु उन्हें संदिग्ध लोगों से अधिक पूछ ताछ करने की अनुमति नहीं दी जा रही है।
आज हमारा प्रश्न है कि उस सीडी में क्या है? वह चैंका देनेवाले रहस्योद्घाटन क्या थे? किनको हिरासत में लिये जाने की अनुमति नहीं दी जा रही थी। हमें यह भी ध्यान रखना होगा कि शहीद हेमन्त करकरे के बाद जिसे एटीएस की जिम्मेदारी दी गई, वह श्री रघुवंशी वही थे जिन्होंने नांदेड़ बम धमाकों में लिप्त पाए गए संघ परिवार के लोगों के साथ नर्म रवैया अपनाने का जबर्दस्त कारनामा अंजाम दिया था।
आईए अब शुरूवात करते हैं हवालों की, सबसे पहले मंुबई से प्रकाशित होने वाले अंग्रेजी दैनिक डीएनए का वह प्रमुख समाचार जिसमें दर्ज है कि शहीद हेमन्त करकरे ने अपने जीवन के अंतिम दिनों में अपने साथी सुधाकर से उसी स्थिति की चर्चा की थी कि जिसकी चर्चा जूलियो रिबैरो या दिग्विजय सिंह के अनुसार उनके साथ की। मुलाहेजा फरमायें यह पूरा समाचार तथा उसके बाद अन्य खबरों के हवाले।
क्छ।
मृत्यु के पूर्व से ही करकरे परेशान थे
एटीएस प्रमुख के साथियों का बयान
मुंबई 30 नवम्बर 2008(आईएएनएस)
एटीएस प्रमुख हेमन्त करकरे जिन्हें मुंबई में हाहाकार मचाने वाले आतंकवादियों ने मार डाला, मृत्यु के पूर्व से ही परेशान थे, क्योंकि मालेगांव बम धमाके की जांच के लिए उनपर लगातार हमले किये जा रहे थे। यह कहना है उन पुलिस अधिकारियों का जो करकरे से भलीभांति अवगत थे।
पूर्व मुंबई पुलिस प्रमुख जूलियो रिबैरो और रिटायर्ड पुलिस अधिकारी सुधाकर सोरादकर दोनों का कहना है कि 26/11 की रात्रि आतंकी हमलों के बाद कामा अस्पताल के पास मोर्चा लेते समय करकरे मानसिक रूप से ठीक स्थिति में नहीं थे। करकरे को एक विशिष्ट अधिकारी बताते हुए रिबैरो ने कहा कि वे समय से उन्हें जानते हैं और वह बखूबी अंदाजा लगा सकते हैं कि ‘राजनीतिक दलों द्वारा लगातार हमलों के कारण करकरे परेशान थे।’
1982 बैच के आईपीएस अधिकारी करकरे 29 सितम्बर को महाराष्ट्र के मालेगांव में हुए बम धमाकों की जांच कर रहे थे, जिसके लिए हिन्दू आतंकवादी जिम्मेदार माने जा रहे थे। कट्टर हिन्दू संगठनों से जुड़े लोग एक हिन्दू साध्वी तथा एक सैनिक अधिकारी को गिरफ्तार करने के लिए करकरे की कठोर आलोचना कर रहे थे और उन्हें हिन्दू विरोधी बता रहे थे।
सुधाकर ने कहा कि ‘मार्निंग वाक के दौरान मैं अकसर हेमन्त से मिलता था। वह काफी परेशानी और पीड़ा महसूस कर रहे थे। शायद वह मानसिक रूप से दबाव में हों। गलत तथा अनावश्यक आरोपों ने उन्हें बुरी तरह झंझोड़ कर रख दिया था। सुधाकर ने आगे कहा कि जिस तरह से हेमन्त ने आंतकवादियों के विरूद्ध आॅपरेशन किया वह उस हेमन्त से अलग था क्योंकि वह बहुत ही संगठित तरीके से काम करने वाले थे।
स्पष्ट रहे कि मुंबई के इन हमलों में मारे गये 20 पुलिसकर्मियों में करकरे भी शामिल थे। उनमें से 14 महाराष्ट्र पुलिस से संबंध रखते थे।
दोनों रिटायर्ड पुलिस अधिकारियों ने करकरे को मन से श्रद्धांजलि पेश किया जिनका शनिवार को अंतिम संस्कार किया गया था।
करकरे के सुरक्षाकर्मी नासिर कुलकर्णी ने भावुक होते कहा कि ‘उनके अधीन काम करना गौरव की बात थी।’ कुलकर्णी ने आगे कहा कि सर (करकरे) एक सच्चे कर्मयोगी थे। वह सभी से एक जैसा व्यवहार करते थे, चाहे उनका पद कुछ भी हो।
अन्य अधिकारियों ने करकरे को एक मिसाली अधिकारी और सीधा सादा इनसान बताया। पूर्व इन्सपेक्टर जनरल आॅफ पुलिस सोरादकर ने कहा कि ‘वह बहुत ही साफ मन और सहजता के साथ मिलने वाले इंसान थे, वह बहुत ही अच्छे अधिकारी तथा इंसान थे। वह किसी को गलत तरीके से फंसाने वाले नहीं थे। उनका व्यक्तित्व पारदर्शी था।’ जैसे ही बुध की रात आतंकवादियों ने मुंबई के 10 स्थानों को निशाना बनाया करकरे ने अपना हेल्मेट और बुलेट प्रुफ जैकेट पहना और उनसे मुकाबले के लिए निकल पड़े, यह सुरक्षा व्यवस्था अपर्याप्त सिद्ध हुई और करकरे कामा अस्पताल के सामने आतंकवादियों के बुलेट का निशाना बन गये। इन हमलों में कम से कम 183 लोग मारे गये और 300 से अधिक घायल हुए।
करकरे के मित्र और रिटायर्ड आईपीएस अधिकारी वाईपी सिंह ने आरोप लगाया कि ‘ पुलिस अधिकारियों में सुरक्षा सामग्री जैसे हेल्मेट और बुलेट पु्रफ जैकटों की घटिया क्वालिटी के लिए भारी रोष था।
दि इकानाॅमिक टाईम्स
30 नवम्बर 2008
रिबैरो ने कहा कि करकरे ने उनसे कहा था कि उनके हाथ एक ऐसी सीडी लगी है जिनसे मालेगांव मामले में और अधिक सूचनाएं मिलती हैं। इस सीडी के आधार पर उन्होंने संदिग्ध लोगों से और पूछताछ करने की योजना बनाई थी लेकिन उनलोगों को उनकी तहवील में फिर नहीं दिया गया।
हेमन्त करकरे की पत्नि कविता करकरे ने भाजपा नेता तथा गुजरात के मुख्यमंत्री नरेन्द्र मोदी द्वारा दी गई एक करोड़ की सहायता को लेने से मना कर दिया गया। मोदी ने मुंबई हमलों में मारे गये पुलिस कर्मियों के संबंधियों को विशेष राशि देने की घोषणा की थी।
करकरे के करीबी सूत्रों के अनुसार वह अपने विरूद्ध लगाये जा रहे आरोपों से इतने दुखी हो गये थे कि उन्होंने राज्य के गृहमंत्री आर आर पाटिल से कहा था कि उनका एटीएस से स्थानांतरण कर दिया जाए। यह रहस्योद्घाटन करकरे की मृत्यु से कुछ घंटे पूर्व ही किया गया था। सूत्रों के अनुसार उनके विरोधी न केवल उन्हें निजि रूप से आलोचना के निशाना बना रहे थे। बल्कि उनके बच्चों के चरित्र पर भी कीचड़ उछाल रहे थे, जो करकरे के लिए असहनीय हो रहा था।
ैपलि छमूे
01.12.2008
उन्हें शिव सेना की चिंता नहीं थी, उन्हें भाजपा के व्यवहार से बहुत तकलीफ पहुंची थी जिसकी प्रोपेगैंडा मशीनरी बहुत संगठित थी और जो उनके विरूद्ध लगातार मुहिम चला रही थी कि उन्होंने प्रज्ञा ठाकुर तथा अन्य के विरूद्ध गलत मामले ठोंके हैं।
एटीएस ने ठाकुर प्रज्ञा सिंह और कम से कम अन्य 9 कट्टरपंथियों को 19 सितम्बर को हुए मालेगांव बम बलास्ट के सिलसिले में गिरफ्तार किया है जिन पर संदेह किया जाता है कि इस धमाके में उनका हाथ है।
मुंबई के पूर्व प्रसिद्ध पुलिस आयुक्त जूलियो रिबैरो जो तब पंजाब के डायरेक्टर जनरल आॅफ पुलिस थे जब वहां आतंकवाद चरम पर था, कहा कि यह विचित्र दुर्भाग्य है कि हेमन्त करकरे की ईमानदारी तथा निष्पक्षता पर भाजपा लगातार इसलिए प्रश्न चिन्ह लगा रही है कि क्योंकि उन्होंने 2008 के मालेगांव धमाका में लिप्त हिन्दू कट्टरपंथियों को बेनक़ाब किया परन्तु यही करकरे इंडियन मुजाहिदिन की हिट लिस्ट में भी थे।
पदकपंद मगचतमेेण्बवउ
एटीएस प्रमुख के घर को उड़ाने की धमकी, पुलिस ने किया स्वीकार
पुणे 26 नवम्बर 2008
एक अज्ञात व्यक्ति ने पुणे पुलिस को पीसीओ से फोन करके धमकी दी कि मुंबई एटीएस के प्रमुख हेमन्त करकरे के घर को कुछ दिनों में उड़ा दिया जायेगा। बुध को एक उच्च पुलिस अधिकारी ने इसकी पुष्टि की। संयुक्त पुलिस आयुक्त राजेन्द्र सोनावाने के अनुसार टूटी फूटी मराठी में बोलने वाले उस व्यक्ति ने 24 नवम्बर को यह धमकी देते ही फोन काट दिया था। उन्होंने आगे कहा कि बाद में यह काॅल सहकारी नगर क्षेत्र के एक पब्लिक बुथ से की हुई पाई गई। जब सोनावाने से पूछा गया कि क्या केवल झूठी काॅल थी तो उन्होंने कहा कि वर्तमान स्थिति में पुलिस ऐसी सभी धमकियों को गंभीरता से ले रही है और मंुबई एटीएस को इस संबंध में सूचित कर दिया गया है फिर भी जब पुलिस कंट्रौल रूम से मंगल की रात सम्पर्क किया गया तो उसने करकरे को दी जा रही ऐसी किसी भी धमकी से मना कर दिया।
...................................................

Tuesday, December 14, 2010

ہمارے پاس ہیں ثبوت ہیمنت کرکرے کو ملنے والی دھمکیوں کی

عزیز برنی

ایک بیان اور اتنا طوفان، خدا خیرکری۔میری کتاب کی رسم اجرا کے موقع پر جناب دگ وجے سنگھ نے شہیدوطن ہیمنت کرکرے سے اپنی گفتگو کا تذکرہ کیا کیاکہ ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ میں جانتا تھا، پہلی بار جب میں نے دگ وجے سنگھ جی کو ناگپور میں منعقد ’’ودربھ مسلم انٹلکچول فورم‘‘ کے اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران ہیمنت کرکرے کی شہادت کی شام کو ہوئی اپنی گفتگو کا ذکر کیا تو مجھے اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر ان کی یہ بات سنگھی کانوں تک پہنچ گئی تو یقینا وہ فرقہ پرست طاقتیں طوفان کھڑا کردیں گی، جن کے خلاف مالیگاؤں تفتیش جارہی تھی۔ پھر جب میری کتاب کی رسم اجرا کے دوران انہوں نے اپنی تقریر میں اسی واقعہ کو دوہرایا تو مجھے لگا کہ اسے یونہی نظرانداز نہیں کردیا جانا چاہئی، بلکہ عوام کو دہشت گردانہ حملہ سے محض تین گھنٹہ قبل ہوئی گفتگو کی طرف متوجہ کیا جانا چاہئی۔ ناگپور کے اجلاس میں جب دگ وجے سنگھ جی نے تقریر کی تو اس وقت تک میں عوام سے خطاب کرچکا تھا، لیکن دہلی میں 6دسمبر010کو ’انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر‘ میں رسم اجرا کی تقریب میں چونکہ مجھے ان کے بعد بولنا تھا، اس لئے میرے پاس موقع تھا کہ عوام اور میڈیا کو اس جانب متوجہ کیا جائی۔ میں اس ٹیلی فونک گفتگو کی سنجیدگی کو سمجھتا تھا، مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور میڈیا بالخصوص انگریزی میڈیا اور الیکٹرانک چینل اسے اس قدر اپنی توجہ کا مرکز بنائیں گی، وہ بھی تب جب پارلیمنٹ جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کی تشکیل کی مانگ کو لے کر ہنگامہ کی نذر ہورہی ہو، وکی لیکس روز روز نئے نئے انکشافات کرکے پوری دنیا کے میڈیا کو اپنی جانب متوجہ کررہا ہو اور اس دوران وزیراعظم ہند ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بلجیم اور جرمنی کا اہم دورہ بھی کیا ہو، لیکن جس قدر خبریں وہ بھی صفحہ اوّل پر اور اداریے اس موضوع کو لے کر لکھے گئی، اتنی اہمیت کسی بھی دوسری خبر کو نہیں دی گئی۔ چار روز تک میں ملک کے باہر رہا اور واپسی کے بعد دو دن لگے مجھے ان اخبارات کا مطالعہ کرنے میں جو ان خبروں سے بھرے پڑے تھی۔ میں خود میڈیا کا حصہ ہوں، لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایسی کیا انوکھی بات کہی دگ وجے سنگھ جی نی، جس کا اس سے پہلے کسی کو کوئی اندازہ نہ تھا، کم سے کم میڈیا والوں کو تو جانکاری تھی کہ شہید وطن ہیمنت کرکرے کو مالیگاؤں تفتیش کے بعد مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں اور ہمارا قومی میڈیا ایسی خبروں کو مسلسل شائع بھی کررہا تھا۔ جو کچھ حادثہ سے تین گھنٹے قبل شہید ہیمنت کرکرے نے ٹیلی فون پر دگ وجے سنگھ جی سے کہا، ایک دن قبل ٹھیک وہی بات، ٹھیک وہی بات اپنے ایک ریٹائرڈ سینئر پولیس آفیسر جناب جولیو ربیرو سے اپنی ملاقات کے دوران کہی تھی۔ یہ ملاقات خود ہیمنت کرکرے نے جولیو ربیرو سے ان کے پاس جاکر کی۔ میں اپنے مضمون کے ساتھ اس ملاقات کے دوران ہوئی بات چیت کو من و عن شامل اشاعت کررہا ہوں، یہ خبر عنوان کے ساتھ 28نومبر010کو انگریزی روزنامہ ’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں شائع کی گئی تھی اور دیگر متعدد اخبارات نے بھی اس خبر کو شائع کیا تھا،لہٰذا جو کچھ 6دسمبر010 کو میری کتاب ’’آر ایس ایس کی سازشـ6/11؟‘‘ کی رسم اجرا کی تقریب کے دوران اپنی تقریر میں جناب دگ وجے سنگھ نے کہا، اس میں اور محترم جولیوربیرو سے خود جاکر ملاقات کے دوران کہی گئی باتوں میں کتنا فرق ہی، اسے سمجھا جاسکتا ہی۔ بہرحال ابھی تو صرف یہ دو لوگوں کی ہوئی بات چیت کا تذکرہ ہی، عین ممکن ہے کہ ان دونوں کے علاوہ بھی اپنے کچھ ہمدردوں اور ذمہ داروں سے شہیدوطن ہیمنت کرکرے نے ان حالات کو بیان کیا ہو، لیکن تازہ صورتحال کو دیکھ کر شاید ہی کوئی اپنے ساتھ کی گئی گفتگو کو منظرعام پر لانے کی ہمت کرسکی۔ ہاں، مگر ہمارے پاس ابھی اور بہت کچھ ہے کہنے کے لئے اپنی اس مسلسل تحریر کی آئندہ قسطوں میں وہ بھی ثبوتوں اور حوالوں کے ساتھ۔ شاید کل پھر…
یہاں میں ایک اور بات پر توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ میری جانکاری کے مطابق جناب ربیرو کا نہ تو سیاست سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی وہ خودکو مسلمانوں کا علمبردار ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور ان سے کی جانے والی اس گفتگو کو بھی جھوٹ قرار نہیں دیا جاسکتا، بلکہ مجھے معاف فرمائیں، میرے خیال میں تو آنجہانی کرکرے نے اپنے ایک ریٹائرڈ سینئر پولیس آفیسر کے پاس جاکر ان لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی، جن سے وہ پریشان تھے یا خوفزدہ تھی۔ بھلے ہی اس کی نوعیت باقاعدہ ایف آئی آر کی نہیں تھی۔ کاش کہ اسے اسی وقت اس بات چیت کو ایک ایف آئی آر کی طرح سمجھ لیا گیا ہوتا۔ اس موضوع پر گفتگو جاری رہے گی، آئیے اب ذکر کرتے ہیں پاکستان کا۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہی، جس میں سب سے زیادہ دہشت گردوں کو پناہ حاصل ہی، جو دہشت گردی کو فروغ دیتا رہا ہی۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہی، جو خود دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہی۔ ہندوستان میں دہشت گردانہ کارروائی میں اکثروبیشتر پاکستان ملوث رہا ہی۔ 26نومبر008کو ممبئی میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ سے پاکستان کا گہرا تعلق ہی، یہ بات بھی جگ ظاہر ہی۔ اس دوران امریکہ اور شرم الشیخ جہاں ہندوستانی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات ہوئی و دیگر متعدد مواقع پر بین الاقوامی سطح سے یہ بات منظرعام پر لائی جاچکی ہی۔ خود پاکستان نے بھی یہ تسلیم کرلیا ہے کہ دہشت گردوں کا تعلق اس کے ملک سے تھا، ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والے متعدد ممالک اس معاملہ میں ہمارے ساتھ ہیں۔ پاکستان کو سبق سکھانے کے لئے ہمارے پاس ثبوتوں کی کمی ہے اور نہ وجوہات کی، ہم جب چاہے ایسا کرسکتے ہیں۔ اگر یہ ضروری لگتا ہے تو آج بھی… لیکن ہمیں اس حقیقت پر بھی غور کرنا ہوگا کہ کیا ہمارے لئے صرف پاکستان کو سبق سکھانا ہی کافی ہوگا۔ کیا ہمیں اپنے ملک کو دہشت گردی سے پوری طرح پاک کرنے کے لئے اس سے ہٹ کر سوچنے کی قطعاً ضروررت نہیں ہی۔ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، کوئی قومیت نہیں ہوتی، وہ کسی بھی مذہب اور کسی بھی ملک کے ہوسکتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے ملک میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں پاکستان کے علاوہ دیگر دہشت گرد بھی ملوث ہیں۔ ان میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے بھی ہیں۔ تفتیش نے یہ بات ثابت کردی ہی۔ پھر اگر کہیں کوئی بات، کہیں کوئی واقعہ، کہیں کوئی ثبوت ایسا ملتا ہی، جو ہمیں ایسے لوگوں تک پہنچنے میں، ایسے لوگوں کو پہچاننے میں مدد کرسکتا ہے جو دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں، دانستہ نادانستہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہیں تو کیا ہمیں چپ رہ جانا چاہئے یا انہیں بچانے کے لئے محاذآرائی پر اتر آنا چاہئی۔ انہیں بچانے کے لئے جذباتی فضا قائم کرنا چاہئی۔ اس انتہائی اہم معاملے کو سیاست کی نذر کردینا چاہئی، اسے مسلم اپیزمنٹ کا نام دے کر ایک مخصوص فرقہ کو بے عزت کرنا چاہئی۔ کیا ہماری ذمہ داری صرف اتنی ہی ہونی چاہئے کہ دہشت گردانہ عمل میں چونکہ پاکستان ملوث ہے اور یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ پاکستان کا کارنامہ ہی۔ہم کیوں نہیں سوچتے کہ اگر 100 دہشت گردوں میں سے 99پاکستان کے ہیں اور ان میں ایک دہشت گرد ہندوستان کا ہے تو ہمیں اس ایک دہشت گرد پر بھی نظر ڈالنی ہوگی، اس لئے کہ پہلے ہمیں اپنا گھر صاف کرناہی۔
……………………………………(جاری)
کرکرے اڈوانی کے الزام سے صدمے میں تھی:جولیو ربیرو
ہیمنت کرکرے گزشتہ منگل کو مجھ سے ملاقات کے لئے آئے تھی۔ایل کے اڈوانی کے اس الزام نے انہیں کافی صدمہ سے دوچارکیا کہ ان کی قیادت میں انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) مالیگائوں بم بلاسٹ کیس میں سیاسی اثر اورغیر پیشہ ورانہ انداز میں کام کررہا ہی۔ انہوںنے وضاحت کی کہ اے ٹی ایس نے سادھوی پرگیہ سنگھ کے خلاف ٹھوس اور پختہ ثبوت اکٹھا کئے ہیں اور تحقیقات کا میابی سے ہم کنار ہی۔اڈوانی جیسے سینئر اور تجربہ کار سیاستداں کے ہندوتو کے علمبردار بننے والوں کے ساتھ مل کرالزام لگانے نے انہیں حیرت زدہ کردیا تھا۔
ہیمنت کرکرے ایک سچے ہندوتھے ۔وہ اپنے دھرم (فرض)پر یقین رکھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ ان کے ہم مذہب بھی اسی طرح عمل کریں۔انہیں اس انکشاف نے ششدر کردیا تھا کہ ہندوتو کی تشہیر کرنے والے مذہب کے احکامات پر عمل نہیں کررہے ہیں۔اے ٹی ایس چیف مہاراشٹر کے ایک بہترین پولس افسر تھے اور اگر میں یہ کہوں تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ ان کا شمار ہندوستان کے بہترین اور باصلاحیت افسروں میں ہوتا تھا۔ان کی دیانتداری کسی شک وشبہ سے بالاتر ہی۔ممبئی پولس کی سینئر لیڈرشپ نجی طور پر بدعنوان اور ایماندار افسروں میں تقسیم ہی۔
ہیمنت کرکرے کو ایماندار افسران میں شمار کیا جاتا ہی۔ ان کی صلاحیت اور کارکردگی اعلیٰ ترین تھی ۔انہیں عوامی مقبولیت حاصل رہی ۔گڈچرولی میں ایس پی کی حیثیت سے نکسلائٹ نے انہیں جان سے مارنے کی کوشش کی تھی۔دہلی بم بلاسٹ کے بعد انڈین مجاہدین نے بھی انہیں مارنے کی دھمکی دی۔ اندھیری موگرا پاڑہ میں کامبنگ آپریشن کے پیش نظر مسلمانوں نے ان کے دفتر کا گھیرائو کیا تھا اور بالآخر وہ بھگوا بریگیڈ کے بہتان کا شکار بن گئی۔
ہندوتو طاقتوں نے جہادیوں کے خلاف کارروائی پر اے ٹی ایس کی پیٹھ تھپتھپائی، مگر جب مالیگائوں دھماکہ کے بعد انہوںنے بھگوا دہشت گردی کی سمت میں رُخ تبدیل کرلیا تو جانچ پر سوال اٹھانے شروع کردیئے ۔اس میں اعلیٰ بی جے پی لیڈرشپ بھی پیچھے نہیں رہی۔ایل کے اڈوانی نے جانچ کو سیاسی اثر میں اور غیر پیشہ ورانہ قراردے دیا۔کرکرے اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اس راہ پر وہ سیاست کا شکار ہو سکتے ہیں، مگر انہوں نے سچائی کا دامن نہیں چھوڑا تھا۔ہرکوئی بی جے پی کی سچائی کو جھٹلانے اور ہٹ دھرمی کی پالیسی سے واقف ہی، لیکن تحقیقات کے دوران ہونے والے انکشافات ان کے ہوش اڑا دیں گی۔اے ٹی ایس کے خلاف مہم اور مالیگائوں بلاسٹ کی جانچ کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش سے بی جے پی کو آئندہ الیکشن میں کچھ ووٹ حاصل ہوسکتے ہیں، لیکن اس طرح وہ عدالتی نظام کی کارکردگی کو نقصان پہنچاکر آگ سے کھیل رہے ہیں۔
اگر بی جے پی برسراقتدار آتی ہے تب وہ اے ٹی ایس کے ذریعہ بڑی محنت سے جمع کئے گئے شواہد وثبوت کا کیا کرے گی؟اور کیا وہ ہندوفرقے میں موجود انتہا پسند عناصر کو دہشت گردی کرنے کی چھوٹ دے دے گی ؟انہیں اپنی بیمار ذہنیت اور طریق کار سے پیدا ہونے والی سنگین صورت حال پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
ہیمنت کرکرے ایک باصلاحیت اور امتیازی افسر تھی۔وہ اب ان پر لگائے جانے والے الزامات (داغ)مٹانے کے لئے باحیات نہیں ہیں۔انہوںنے اپنے اصولوںکے لئے اپنی جان قربان کردی۔