پاکستان کے دہشت گرد جب ہندوستان کی زمین پر آکر دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں تواس سے ان کا کون سا مقصد حل ہوتا ہے ، یہ ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے یا دہشت گردوں کے منہ لگے خون کا نتیجہ ہی۔ وجہ جو بھی ہو ، اس سے اسلام تو بدنام ہوتا ہی ہے پاکستان اور پاکستانی بھی بدنام ہوتے ہیں،مگر ہماری تکلیف یہ ہے کہ سب سے زیادہ خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا ہی، شرمندہ ہمیں ہونا پڑتا ہی، لہٰذا ہمیں آج یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ پاکستان ہم ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کو بڑھانے کی کوشش میںلگا رہتا ہی۔شاید اس کی اس منشا کے پیچھے یہ سیاست کارفرما ہے کہ ہندوستان مسلسل فرقہ وارانہ تنازع کا شکار رہی، ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی کھائی ہمیشہ بنی رہے اور حالات اس درجہ خراب ہوں کہ ہمارا ملک خانہ جنگی کا شکار ہو۔ساتھ ہی اگر اس تصادم میں کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش آجائے جس کو نظیر بناکر بین الاقوامی سطح پر وہ ہندوستان کو تنقید کا نشانہ بناسکی، مسلمانوں کے تئیںجھوٹی ہمدردی کا دکھاوا کرسکے تو وہ ان حالات کا فائدہ اٹھاسکے لہٰذا ہم اس کی ذہنیت کو بے نقاب کردینا ضروری سمجھتے ہیں۔
پاکستان ہندوستانی مسلمانوں کے سینے پر لگا وہ زخم ہے جو 63برسوں کے بعد بھی بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہی، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اب یہ ناسور کی شکل اختیار کرچکا ہی۔ اس وقت تقسیم کی وجہ جو بھی رہی ہو، تقسیم کے لئے ذمہ دار جو بھی رہے ہوں، ہم نے اس موضوع پر ماضی میں بہت کچھ لکھا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو آئندہ بھی لکھا جاسکتا ہی، لیکن اس وقت تقسیم وطن کے حالات اورو جوہات کا ذکر کرناہمارا مقصد نہیںہی۔ اس درمیان دونوں ممالک کے جو بھی حالات رہے ہوں ، ان کا تذکرہ بھی اس وقت نہیں لیکن آج کے حالات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا،نہ پاکستان کے نہ ہندوستان کی۔دہشت گردی دونوں ممالک کی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی۔ ہندوستان ایک بڑا ملک ہی، دہشت گردی پر قابو پانے کی جدوجہد میں لگاتار مصروف ہے اور بہت حد تک کامیاب بھی ہے لیکن جہاں تک پاکستان کا تعلق ہی، اس دہشت گردی نے اسے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہی۔افغانستان اور عراق کو دہشت گردی کے الزام کے نتائج میں امریکہ کے ذریعہ تھوپی گئی جنگ کی وجہ سے تباہ و برباد ہونا پڑا،اگر افغانستان پر طالبان کاغلبہ نہ ہوتا، افغانستان دہشت گردی کا شکار نہ ہوتا، القاعدہ کو اس کی زمین پر پروان چڑھنے کا موقع نہ ملتا، اسامہ بن لادن نے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے افغانستان کی زمین کا استعمال نہ کیا ہوتا تو افغانستان امریکہ کے ذریعہ تباہی کا نشانہ نہ بنتا۔ 9/11کے افسوسناک حادثہ سے کم از کم افغانستان کو کوئی خمیازہ نہ بھگنا پڑتا۔ اگر اسامہ بن لادن اس کے لئے ذمہ دار ہوتا تو امریکہ تلاش کرتا ، بن لادن کو پھر چاہے جو کرتا۔ افغانستان کو تباہ کرنے کا بہانہ تو نہیں ملتا۔ یہ بہانہ ملا اس لئے کہ افغانستان خود دہشت گردی کا شکار تھا۔ بن لادن اور القاعدہ افغانستان کی زمین کو اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے لئے استعمال کررہے تھی، اس لئے یہ دہشت گردی افغانستان کی تباہی کا سبب بنی، لیکن پاکستان …! وہ تو امریکی جنگ کے بغیر ہی تباہ ہورہا ہی۔اسے تباہی کے لئے امریکہ کے ذریعہ تھوپی جانی والی جنگ کی ضرورت نہیںہی۔ اس کی تباہی کے لئے تو پاکستان کی زمین پر فروغ پانے والی دہشت گردی ہی کافی ہی۔ دراصل افغانستان کی تباہی کی وجہ تو القاعدہ اور اسامہ بن لادن بنے اور پاکستان کی تباہی کے لئے لشکر طیبہ ، جمعیۃ الدعوۃ اور حافظ سعید جیسے نام کافی ہیں۔ہم ضرور ذکر کرتے گزشتہ دنوں پاکستان میں ہوئے بم دھماکوں کا،اس دہشت گردی کے ذریعہ ہونے والی ہلاکتوں کا،چونکہ پاکستان کا مسئلہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے لہٰذا ہمیں اس بات کی ضرورت بھی نہیں ہے کہ ہم ان کے حکمرانوں کو کوئی مشورہ دیں ، ان کے ان حالات کے لئے اپنی فکرمندی کااظہار کریں لیکن ان کے ملک کے جس دہشت گردانہ عمل کا تعلق ہماری زمین سے ہی، ہماری قوم سے ہی، اسے ہم کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں۔ہمیں افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں جتنے بم دھماکے ہوئے ،جتنی ہلاکتیں ہوئیںیا جس طرح بے نظیر بھٹو کو اس دہشت گردی کا شکار ہونا پڑا، وہ سب افسوسناک ہی،مگر ہمیں زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کی زمین سے اٹھنے والی دہشت گردی کی ان چنگاریوں نے ہمارے ملک کا امن و سکون چھین لیا ہے ۔
پاکستان کا وجود مسلمانوں کی بنیاد پر عمل میں آیا یا اس کی وجہ کچھبھی ہو ،مگر آج کی سچائی جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا وہ یہی ہے کہ پاکستان مسلم اکثریت والا ملک ہی،یعنی ایک مسلم ملک ہے ، اس کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی۔ ہندوستان میں بم دھماکے ہوں اور انہیں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت ، خلش، رنجش کا نام دے کر ان کو فرقہ پرستی سے جوڑا جائے تو یہ وجہ حقائق پر مبنی ہو یا نہ ہو پھر بھی اس بات کی گنجائش باقی رہتی ہے کہ دونوں ہی مذاہب کے تشدد پسند عناصر اس طرح کی حرکات میں ملوث ہوسکتے ہیں لیکن پاکستان جو مسلم ملک ہے اگر وہاں مساجد میں بم دھماکے ہوں تو یہ الزام کسی دوسرے فرقے پر عائد نہیں کیا جاسکتا۔وہاں مرنے والے اور مارنے والے دونوں ہی مسلمان ہیں۔ظاہر ہے اس کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیںیا تو یہ کہ پاکستان پوری طرح دہشت گردی کی گرفت میں ہے اور معصوم امن پسند عوام کی بات چھوڑ دیں تو دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد ہے جس کا پاکستان پر غلبہ ہے اور پاکستان کی حکومت یا تو ان پر قابو پانے میں پوری طرح ناکام ہے یا پھر وہ اس معاملے میں قطعاًسنجیدہ نہیں ہی۔
بہرحال ہمیں کوئی ضرورت نہیں تھی کہ آج بھی ہم پاکستان کے داخلی معاملات میں کچھ کہتی، اگر تازہ واقعہ اس وقت ہمارے سامنے نہ آیا ہوتا۔ جمعیۃ الدعوۃ کا سربراہ حافظ سعید تقریباً دو برس کے بعدکھلے عام پاکستان کی راجدھانی اسلام آباد کی سڑکوں پرتقاریر کرتے نظر آئی۔ ہندوستان میں 26نومبر 2008کو ہوئے دہشت گردانہ حملہ کا ماسٹر مائنڈ ہے حافظ سعید، یہ تفتیشی رپورٹ کے ذریعہ سامنے آچکاہے اور حکومت ہند کے ذریعہ ایسے تمام دستاویزپاکستانی حکومت کے سپرد کئے جاچکے ہیں،جن سے یہ پوری طرح ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں ہوئے اس دہشت گردانہ حملہ سے حافظ سعید کا کتنا گہرا تعلق ہی۔ اگر پاکستان ہمارے ملک میں تباہی پھیلانے والے دہشت گرد حافظ سعید کو یہ کھلی چھوٹ دے کہ وہ عوام کو خطاب کرتا پھر ے ، پاکستان کے اہم سیاست داں اس کے ساتھ اسٹیج پر موجود رہیں اور حکومت پاکستان کے کان پرجوں نہ رینگے تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان کے حکمراں اپنے ملک میں پھیلی دہشت گردانہ وبا پر توقابو پانے کے لئے فکر مندہیںہی نہیں اورہندوستان میں دہشت گردی پھیلانے والے مجرموں کو بھی اپنے سر پر بٹھا رکھا ہے جو ہم قطعاً برداشت نہیں کرسکتی۔ اس کے آقا امریکہ ہی نہیں متعدد ممالک نے پاکستان کو اس کی زمین پر پروان چڑھنے والی دہشت گردی کے لئے تنقید کا نشانہ بنایا ہواہی۔کیا پاکستان چاہتا ہے کہ ہندوستان وہی راستہ اختیار کرے جو امریکہ نے اختیار کیا تھا یعنی جس طرح 11ستمبر001کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو دہشت گردانہ حملہ کا نشانہ بنائے جانے کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا،اس لئے کہ اس کی رپورٹس کے مطابق 9/11کے لئے القاعدہ اور اسامہ بن لادن ذمہ دار تھے اور ہماری رپورٹس کے مطابق ہندوستان کی زمین پر اس سب سے بڑے دہشت گردانہ حملے یعنی 26/11کے لئے لشکر طیبہ ، جمعیۃ الدعوۃ اور حافظ سعید ذمہ دار ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہندوستان پاکستان کے درمیان جنگ ہو ، ہم نے مسلسل لکھا بھی تاکہ جنگ کے حالات پیدا نہ ہوں مگر ہم آنکھوں دیکھے مکھی تو نہیں نگل سکتی، ہم یہ کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ ہمارا مجرم پاکستان میں کھلے عام تقاریر کرتا نظر آئے اور پاکستان حکومت اس پر کوئی توجہ نہ دی۔
اب ہم اگلی چند لائنیں جو لکھنے جارہے ہیں اس کے پیچھے منشا یہ ہے کہ ہمارے ملک کی حکومت اور عوام ہی نہیں،بلکہ ساری دنیا اس حقیقت کو سمجھے کہ پاکستان ہندوستانی مسلمانوں کا ہمدرد نہیں ہی۔ پاکستان ایک مسلم ملک ہونے کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ خود کو ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے فکرمندظاہر کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہی۔بات چاہے کشمیر کی ہو ، بابری مسجد کی شہادت کی یا دیگر ایسے معاملات کی جو ہندوستان کے مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں یہ سب ایک ڈھونگ ہی۔ اکثر و بیشتر پاکستان کی دکھائوٹی ہمدردی کسی نہ کسی موقع پر ظاہر ہوتی رہتی ہی۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی اس دکھائوٹی ہمدردی کا مقصد خالص سیاسی ہے اورپاکستانی حکومت یہ بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ ان کے اس عمل سے ہمارے مسائل اور بڑھتے ہیں، کم نہیں ہوتی۔پاکستان کے دہشت گرد جب ہندوستان کی زمین پر آکر دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں تواس سے ان کا کون سا مقصد حل ہوتا ہے ، یہ ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے یا دہشت گردوں کے منہ لگے خون کا نتیجہ ہی۔ وجہ جو بھی ہو ، اس سے اسلام تو بدنام ہوتا ہی ہے پاکستان اور پاکستانی بھی بدنام ہوتے ہیں،مگر ہماری تکلیف یہ ہے کہ سب سے زیادہ خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا ہی، شرمندہ ہمیں ہونا پڑتا ہی، لہٰذا ہمیں آج یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ پاکستان ہم ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کو بڑھانے کی کوشش میںلگا رہتا ہی۔شاید اس کی اس منشا کے پیچھے یہ سیاست کارفرما ہے کہ ہندوستان مسلسل فرقہ وارانہ تنازع کا شکار رہی، ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی کھائی ہمیشہ بنی رہے اور حالات اس درجہ خراب ہوں کہ ہمارا ملک خانہ جنگی کا شکار ہو۔ساتھ ہی اگر اس تصادم میں کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش آجائے جس کو نظیر بناکر بین الاقوامی سطح پر وہ ہندوستان کو تنقید کا نشانہ بناسکی، مسلمانوں کے تئیںجھوٹی ہمدردی کا دکھاوا کرسکے تو وہ ان حالات کا فائدہ اٹھاسکے لہٰذا ہم اس کی ذہنیت کو بے نقاب کردینا ضروری سمجھتے ہیں۔ ہمیں اپنے یا اپنے ملک کے تئیں پاکستان سے کسی بہتری کی امید تو نہیں ہی، مگر ہم اتنا تو اس کے ذہن نشیںکراہی سکتے ہیں کہ ہم اپنے ملک میں اپنے مسائل کی وجہ سے کچھ پریشان ہوںیہ الگ بات ہی۔ہم اس پر تو دیر سویر قابو پاہی لیں گی، اس لئے کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا سیکولر ملک ہی۔ مٹھی بھر فرقہ پرستوں کی وجہ سے پیدا کردہ حالات ہمارے لئے عارضی مسئلہ ہوسکتے ہیں، دائمی نہیں، کم از کم پاکستان ہمارے لئے نئے نئے مسائل پیدا نہ کرے کیونکہ پاکستان جس طرح ہمارے لئے ناسازگار حالات پیدا کرتا رہتا ہی، اسے ہم عارضی مسئلہ مان کرنہیں چل سکتے ، ہمیں بین الاقوامی سطح پر باورکرانا ہوگاکہ پاکستان اپنی سیاسی حکمت عملی کے پیش نظر دہشت گردی کو ایک ہتھیارکے طور پر استعمال کررہا ہے ، بھلے ہی اس کا شکار ہندوستانی مسلمان ہوں،اس کی اسے قطعاً پروا نہیں ہی۔ لہٰذا ہمارا ملک پاکستان کے کسی بھی دہشت گردانہ عمل پر سختی کا رخ اختیارکرنے سے گریز نہ کرے
No comments:
Post a Comment