Tuesday, December 14, 2010

ہمارے پاس ہیں ثبوت ہیمنت کرکرے کو ملنے والی دھمکیوں کی

عزیز برنی

ایک بیان اور اتنا طوفان، خدا خیرکری۔میری کتاب کی رسم اجرا کے موقع پر جناب دگ وجے سنگھ نے شہیدوطن ہیمنت کرکرے سے اپنی گفتگو کا تذکرہ کیا کیاکہ ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ میں جانتا تھا، پہلی بار جب میں نے دگ وجے سنگھ جی کو ناگپور میں منعقد ’’ودربھ مسلم انٹلکچول فورم‘‘ کے اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران ہیمنت کرکرے کی شہادت کی شام کو ہوئی اپنی گفتگو کا ذکر کیا تو مجھے اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر ان کی یہ بات سنگھی کانوں تک پہنچ گئی تو یقینا وہ فرقہ پرست طاقتیں طوفان کھڑا کردیں گی، جن کے خلاف مالیگاؤں تفتیش جارہی تھی۔ پھر جب میری کتاب کی رسم اجرا کے دوران انہوں نے اپنی تقریر میں اسی واقعہ کو دوہرایا تو مجھے لگا کہ اسے یونہی نظرانداز نہیں کردیا جانا چاہئی، بلکہ عوام کو دہشت گردانہ حملہ سے محض تین گھنٹہ قبل ہوئی گفتگو کی طرف متوجہ کیا جانا چاہئی۔ ناگپور کے اجلاس میں جب دگ وجے سنگھ جی نے تقریر کی تو اس وقت تک میں عوام سے خطاب کرچکا تھا، لیکن دہلی میں 6دسمبر010کو ’انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر‘ میں رسم اجرا کی تقریب میں چونکہ مجھے ان کے بعد بولنا تھا، اس لئے میرے پاس موقع تھا کہ عوام اور میڈیا کو اس جانب متوجہ کیا جائی۔ میں اس ٹیلی فونک گفتگو کی سنجیدگی کو سمجھتا تھا، مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور میڈیا بالخصوص انگریزی میڈیا اور الیکٹرانک چینل اسے اس قدر اپنی توجہ کا مرکز بنائیں گی، وہ بھی تب جب پارلیمنٹ جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کی تشکیل کی مانگ کو لے کر ہنگامہ کی نذر ہورہی ہو، وکی لیکس روز روز نئے نئے انکشافات کرکے پوری دنیا کے میڈیا کو اپنی جانب متوجہ کررہا ہو اور اس دوران وزیراعظم ہند ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بلجیم اور جرمنی کا اہم دورہ بھی کیا ہو، لیکن جس قدر خبریں وہ بھی صفحہ اوّل پر اور اداریے اس موضوع کو لے کر لکھے گئی، اتنی اہمیت کسی بھی دوسری خبر کو نہیں دی گئی۔ چار روز تک میں ملک کے باہر رہا اور واپسی کے بعد دو دن لگے مجھے ان اخبارات کا مطالعہ کرنے میں جو ان خبروں سے بھرے پڑے تھی۔ میں خود میڈیا کا حصہ ہوں، لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایسی کیا انوکھی بات کہی دگ وجے سنگھ جی نی، جس کا اس سے پہلے کسی کو کوئی اندازہ نہ تھا، کم سے کم میڈیا والوں کو تو جانکاری تھی کہ شہید وطن ہیمنت کرکرے کو مالیگاؤں تفتیش کے بعد مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں اور ہمارا قومی میڈیا ایسی خبروں کو مسلسل شائع بھی کررہا تھا۔ جو کچھ حادثہ سے تین گھنٹے قبل شہید ہیمنت کرکرے نے ٹیلی فون پر دگ وجے سنگھ جی سے کہا، ایک دن قبل ٹھیک وہی بات، ٹھیک وہی بات اپنے ایک ریٹائرڈ سینئر پولیس آفیسر جناب جولیو ربیرو سے اپنی ملاقات کے دوران کہی تھی۔ یہ ملاقات خود ہیمنت کرکرے نے جولیو ربیرو سے ان کے پاس جاکر کی۔ میں اپنے مضمون کے ساتھ اس ملاقات کے دوران ہوئی بات چیت کو من و عن شامل اشاعت کررہا ہوں، یہ خبر عنوان کے ساتھ 28نومبر010کو انگریزی روزنامہ ’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں شائع کی گئی تھی اور دیگر متعدد اخبارات نے بھی اس خبر کو شائع کیا تھا،لہٰذا جو کچھ 6دسمبر010 کو میری کتاب ’’آر ایس ایس کی سازشـ6/11؟‘‘ کی رسم اجرا کی تقریب کے دوران اپنی تقریر میں جناب دگ وجے سنگھ نے کہا، اس میں اور محترم جولیوربیرو سے خود جاکر ملاقات کے دوران کہی گئی باتوں میں کتنا فرق ہی، اسے سمجھا جاسکتا ہی۔ بہرحال ابھی تو صرف یہ دو لوگوں کی ہوئی بات چیت کا تذکرہ ہی، عین ممکن ہے کہ ان دونوں کے علاوہ بھی اپنے کچھ ہمدردوں اور ذمہ داروں سے شہیدوطن ہیمنت کرکرے نے ان حالات کو بیان کیا ہو، لیکن تازہ صورتحال کو دیکھ کر شاید ہی کوئی اپنے ساتھ کی گئی گفتگو کو منظرعام پر لانے کی ہمت کرسکی۔ ہاں، مگر ہمارے پاس ابھی اور بہت کچھ ہے کہنے کے لئے اپنی اس مسلسل تحریر کی آئندہ قسطوں میں وہ بھی ثبوتوں اور حوالوں کے ساتھ۔ شاید کل پھر…
یہاں میں ایک اور بات پر توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ میری جانکاری کے مطابق جناب ربیرو کا نہ تو سیاست سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی وہ خودکو مسلمانوں کا علمبردار ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور ان سے کی جانے والی اس گفتگو کو بھی جھوٹ قرار نہیں دیا جاسکتا، بلکہ مجھے معاف فرمائیں، میرے خیال میں تو آنجہانی کرکرے نے اپنے ایک ریٹائرڈ سینئر پولیس آفیسر کے پاس جاکر ان لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی، جن سے وہ پریشان تھے یا خوفزدہ تھی۔ بھلے ہی اس کی نوعیت باقاعدہ ایف آئی آر کی نہیں تھی۔ کاش کہ اسے اسی وقت اس بات چیت کو ایک ایف آئی آر کی طرح سمجھ لیا گیا ہوتا۔ اس موضوع پر گفتگو جاری رہے گی، آئیے اب ذکر کرتے ہیں پاکستان کا۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہی، جس میں سب سے زیادہ دہشت گردوں کو پناہ حاصل ہی، جو دہشت گردی کو فروغ دیتا رہا ہی۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہی، جو خود دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہی۔ ہندوستان میں دہشت گردانہ کارروائی میں اکثروبیشتر پاکستان ملوث رہا ہی۔ 26نومبر008کو ممبئی میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ سے پاکستان کا گہرا تعلق ہی، یہ بات بھی جگ ظاہر ہی۔ اس دوران امریکہ اور شرم الشیخ جہاں ہندوستانی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات ہوئی و دیگر متعدد مواقع پر بین الاقوامی سطح سے یہ بات منظرعام پر لائی جاچکی ہی۔ خود پاکستان نے بھی یہ تسلیم کرلیا ہے کہ دہشت گردوں کا تعلق اس کے ملک سے تھا، ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والے متعدد ممالک اس معاملہ میں ہمارے ساتھ ہیں۔ پاکستان کو سبق سکھانے کے لئے ہمارے پاس ثبوتوں کی کمی ہے اور نہ وجوہات کی، ہم جب چاہے ایسا کرسکتے ہیں۔ اگر یہ ضروری لگتا ہے تو آج بھی… لیکن ہمیں اس حقیقت پر بھی غور کرنا ہوگا کہ کیا ہمارے لئے صرف پاکستان کو سبق سکھانا ہی کافی ہوگا۔ کیا ہمیں اپنے ملک کو دہشت گردی سے پوری طرح پاک کرنے کے لئے اس سے ہٹ کر سوچنے کی قطعاً ضروررت نہیں ہی۔ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، کوئی قومیت نہیں ہوتی، وہ کسی بھی مذہب اور کسی بھی ملک کے ہوسکتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے ملک میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں پاکستان کے علاوہ دیگر دہشت گرد بھی ملوث ہیں۔ ان میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے بھی ہیں۔ تفتیش نے یہ بات ثابت کردی ہی۔ پھر اگر کہیں کوئی بات، کہیں کوئی واقعہ، کہیں کوئی ثبوت ایسا ملتا ہی، جو ہمیں ایسے لوگوں تک پہنچنے میں، ایسے لوگوں کو پہچاننے میں مدد کرسکتا ہے جو دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں، دانستہ نادانستہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہیں تو کیا ہمیں چپ رہ جانا چاہئے یا انہیں بچانے کے لئے محاذآرائی پر اتر آنا چاہئی۔ انہیں بچانے کے لئے جذباتی فضا قائم کرنا چاہئی۔ اس انتہائی اہم معاملے کو سیاست کی نذر کردینا چاہئی، اسے مسلم اپیزمنٹ کا نام دے کر ایک مخصوص فرقہ کو بے عزت کرنا چاہئی۔ کیا ہماری ذمہ داری صرف اتنی ہی ہونی چاہئے کہ دہشت گردانہ عمل میں چونکہ پاکستان ملوث ہے اور یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ پاکستان کا کارنامہ ہی۔ہم کیوں نہیں سوچتے کہ اگر 100 دہشت گردوں میں سے 99پاکستان کے ہیں اور ان میں ایک دہشت گرد ہندوستان کا ہے تو ہمیں اس ایک دہشت گرد پر بھی نظر ڈالنی ہوگی، اس لئے کہ پہلے ہمیں اپنا گھر صاف کرناہی۔
……………………………………(جاری)
کرکرے اڈوانی کے الزام سے صدمے میں تھی:جولیو ربیرو
ہیمنت کرکرے گزشتہ منگل کو مجھ سے ملاقات کے لئے آئے تھی۔ایل کے اڈوانی کے اس الزام نے انہیں کافی صدمہ سے دوچارکیا کہ ان کی قیادت میں انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) مالیگائوں بم بلاسٹ کیس میں سیاسی اثر اورغیر پیشہ ورانہ انداز میں کام کررہا ہی۔ انہوںنے وضاحت کی کہ اے ٹی ایس نے سادھوی پرگیہ سنگھ کے خلاف ٹھوس اور پختہ ثبوت اکٹھا کئے ہیں اور تحقیقات کا میابی سے ہم کنار ہی۔اڈوانی جیسے سینئر اور تجربہ کار سیاستداں کے ہندوتو کے علمبردار بننے والوں کے ساتھ مل کرالزام لگانے نے انہیں حیرت زدہ کردیا تھا۔
ہیمنت کرکرے ایک سچے ہندوتھے ۔وہ اپنے دھرم (فرض)پر یقین رکھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ ان کے ہم مذہب بھی اسی طرح عمل کریں۔انہیں اس انکشاف نے ششدر کردیا تھا کہ ہندوتو کی تشہیر کرنے والے مذہب کے احکامات پر عمل نہیں کررہے ہیں۔اے ٹی ایس چیف مہاراشٹر کے ایک بہترین پولس افسر تھے اور اگر میں یہ کہوں تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ ان کا شمار ہندوستان کے بہترین اور باصلاحیت افسروں میں ہوتا تھا۔ان کی دیانتداری کسی شک وشبہ سے بالاتر ہی۔ممبئی پولس کی سینئر لیڈرشپ نجی طور پر بدعنوان اور ایماندار افسروں میں تقسیم ہی۔
ہیمنت کرکرے کو ایماندار افسران میں شمار کیا جاتا ہی۔ ان کی صلاحیت اور کارکردگی اعلیٰ ترین تھی ۔انہیں عوامی مقبولیت حاصل رہی ۔گڈچرولی میں ایس پی کی حیثیت سے نکسلائٹ نے انہیں جان سے مارنے کی کوشش کی تھی۔دہلی بم بلاسٹ کے بعد انڈین مجاہدین نے بھی انہیں مارنے کی دھمکی دی۔ اندھیری موگرا پاڑہ میں کامبنگ آپریشن کے پیش نظر مسلمانوں نے ان کے دفتر کا گھیرائو کیا تھا اور بالآخر وہ بھگوا بریگیڈ کے بہتان کا شکار بن گئی۔
ہندوتو طاقتوں نے جہادیوں کے خلاف کارروائی پر اے ٹی ایس کی پیٹھ تھپتھپائی، مگر جب مالیگائوں دھماکہ کے بعد انہوںنے بھگوا دہشت گردی کی سمت میں رُخ تبدیل کرلیا تو جانچ پر سوال اٹھانے شروع کردیئے ۔اس میں اعلیٰ بی جے پی لیڈرشپ بھی پیچھے نہیں رہی۔ایل کے اڈوانی نے جانچ کو سیاسی اثر میں اور غیر پیشہ ورانہ قراردے دیا۔کرکرے اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اس راہ پر وہ سیاست کا شکار ہو سکتے ہیں، مگر انہوں نے سچائی کا دامن نہیں چھوڑا تھا۔ہرکوئی بی جے پی کی سچائی کو جھٹلانے اور ہٹ دھرمی کی پالیسی سے واقف ہی، لیکن تحقیقات کے دوران ہونے والے انکشافات ان کے ہوش اڑا دیں گی۔اے ٹی ایس کے خلاف مہم اور مالیگائوں بلاسٹ کی جانچ کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش سے بی جے پی کو آئندہ الیکشن میں کچھ ووٹ حاصل ہوسکتے ہیں، لیکن اس طرح وہ عدالتی نظام کی کارکردگی کو نقصان پہنچاکر آگ سے کھیل رہے ہیں۔
اگر بی جے پی برسراقتدار آتی ہے تب وہ اے ٹی ایس کے ذریعہ بڑی محنت سے جمع کئے گئے شواہد وثبوت کا کیا کرے گی؟اور کیا وہ ہندوفرقے میں موجود انتہا پسند عناصر کو دہشت گردی کرنے کی چھوٹ دے دے گی ؟انہیں اپنی بیمار ذہنیت اور طریق کار سے پیدا ہونے والی سنگین صورت حال پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
ہیمنت کرکرے ایک باصلاحیت اور امتیازی افسر تھی۔وہ اب ان پر لگائے جانے والے الزامات (داغ)مٹانے کے لئے باحیات نہیں ہیں۔انہوںنے اپنے اصولوںکے لئے اپنی جان قربان کردی۔

No comments: