Sunday, December 19, 2010

نتن گڈکری اپنی ٹیم کے ساتھ اسرائیل میں کیوں، کس لئی؟

عزیز برنی

’’سب چپ… ہوا کیا؟ دگ وجے سنگھ کے بیان کی جانچ تو ہونی ہی چاہئی‘‘ اسی عنوان کے تحت مجھے لکھنا تھا کل، لیکن یوم عاشورہ کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا کے کئی شہروں میں دفاتر بھی یوم عاشورہ کو بند رہتے ہیں، لہٰذا ہمارے تمام قارئین تک یہ مضمون نہیں پہنچ سکتا تھا، لیکن آج حالات یکسر بدل گئی، وہ موضوع جس پر گزشتہ ایک ہفتہ سے بحث جاری تھی، تمام میڈیا الیکٹرانک بھی اور پرنٹ بھی مختلف زاویوں سے صرف اور صرف دگ وجے سنگھ کے اس بیان پر گفتگو کررہا تھا، جوانہوں نے 26نومبر008کو ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ سے قبل یا یوں کہئے کہ ہیمنت کرکرے نے اپنی شہادت سے محض تین گھنٹہ پہلے ان سے گفتگو پر منحصر تھی۔ ہر طرف سے تھا چبھتا ہوا سوال ان کے اس بیان پر… ثبوت پیش کرنے کا زبردست مطالبہ تھا، موبائل کال ریکارڈ حاصل کرنے کی ضرورت پر زورتھا… شہید ہیمنت کرکرے کی بیوہ محترمہ کویتا کرکرے سے تصدیق کی ضرورت تھی… شاید اپنے بیان میں دگ وجے سنگھ جی نے کچھ ایسا کہہ دیا، جو قطعاً غیرمتوقع تھا، قیاس سے بہت دور تھا۔ میں نے اپنے گزشتہ مضامین میں یہ واضح کردیا کہ دراصل دگ وجے سنگھ جی کے اس بیان میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ کل اگر مضمون لکھنے کا موقع ملا ہوتا تو اسی موضوع پر اور بھی مدلل انداز میں گفتگو کی جاتی، کوشش رہے گی آج بھی اس مضمون کے اختتام سے قبل جتنی سطریں بھی لکھنے کی گنجائش باقی بچے ، گفتگو اسی موضوع پر ختم ہو، لیکن پہلے چند جملے تازہ ہنگامہ کے پیش نظر۔
20جولائی 2009کو راہل گاندھی نے ہلیری کلنٹن کے دورہ کے موقع پر وزیراعظم کے ذریعہ دئے گئے ظہرانہ میں امریکی سفیر سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہا کہ ملک کو خطرہ لشکرطیبہ سے بھی زیادہ ہندو انتہاپسند تنظیموں سے ہی۔ یہ دعویٰ ہے وکی لیکس کے ذریعہ کئے گئے انکشافات کا۔ حالانکہ کچھ ہی دیر میں یہ وضاحتی بیان بھی آگیا کہ تمام طرح کی دہشت گردی سے ملک کو خطرہ ہی، جس پر شاید کسی کو بھی اعتراض نہیں ہونا چاہئی، تاہم میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس پہلو پر تبادلہ خیال ہو۔ پہلی بات تو یہ کہ کیا ہم وکی لیکس کے ذریعہ کئے جارہے انکشافات کو پوری طرح قابل اعتماد مان لیں اور یہ تسلیم کرلیں کہ یہ انکشافات کسی سازش کا حصہ نہیں ہیں، کسی دشمن طاقت کی سیاسی حکمت عملی نہیں ہیں، واقعی یہ وہ خفیہ دستاویز ہیں، جن کی سچائی پر بغیر کسی شک و شبہ کے یقین کرلیا جانا چاہئی۔ ان میں سچ کے ساتھ جھوٹ کو ملانے کی کوشش بھی نہیں کی گئی ہوگی، تب تو لاکھوں کی تعداد میں انٹرنیٹ پر بکھرے پڑے ان دستاویزات میں سے جسے اپنی ضرورت کے مطابق جو چاہئی، حاصل ہوسکتا ہے تو کیا ہمیں آئے دن ہونے والے نئے نئے انکشافات کے خدشات کی طرف قطعاً توجہ نہیں دینی چاہئی۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے اس ضمن میں مزید کچھ کہنے سے قبل میں ایران کے صدر محموداحمدی نژاد کے ردعمل کی جانب توجہ دلانا چاہوں گا۔ وکی لیکس کے ذریعہ کئے جارہے انہیں انکشافات میں یہ بھی سامنے آیا تھا کہ سعودی عرب نے ایران کے خلاف جنگ کی منشا ظاہر کی تھی، یعنی سعودی عرب چاہتا تھا کہ امریکہ افغانستان اور عراق کی طرح ایران کو بھی تباہ و برباد کردی۔ بات بہت بڑی تھی، سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو سکتی تھی اور ناخوشگوار حالات بھی پیدا ہوسکتے تھی، لیکن اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے سرے سے اس انکشاف کو غیراہم مانا اور ردّی کی ٹوکری میں پھینک دئے جانے کے لائق قرار دے دیا۔ ساتھ ہی اپنے تعلقات میں کسی بھی تبدیلی کو امکان سے خارج بتایا۔ کیا ہمیں محمود احمدی نژاد کے اس فیصلہ پر توجہ نہیں دینی چاہئی؟
زمانہ بڑی تیزی سے بدل رہا ہی۔ اب جنگ تیروتلوار سے حملہ کرکے نہیں، بلکہ آبرو اور کردار پر حملہ کرکے لڑی جانے لگی ہی۔ امریکہ جو پوری دنیا پر اپنا غلبہ چاہتا ہی، جنگ کی طاقت کی معرفت وہ یہ بات پوری دنیا کو باور کراچکا ہے کہ وہ کسی بھی ملک پر حملہ کرسکتا ہی، مگر وہ یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ طاقت کا توازن اب کچھ اس طرح ہے کہ کسی کو بھی بیحد کمزور سمجھنا بھاری بھول ہوگی۔ اسرائیل جیسا پدّی ملک اپنی نیوکلیائی طاقت کی بنا پر اپنے سے بڑے ممالک کے لئے خطرہ بنا رہتا ہی۔ امریکہ اچھی طرح جانتا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک جنگی اعتبار سے نیوکلیائی ہتھیاروں کا استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہیں، اس لئے سبھی کو جنگ کے خوف سے ڈرایا نہیں جاسکتا۔ یوں بھی عراق اور افعانستان کو جنگ کے ذریعہ تباہ کرکے امریکہ نے اپنی ساکھ کو جو بٹا لگایا ہی، اس کی تلافی بہت آسان نہیں ہی۔ پھر کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ امریکہ نے اپنی جنگ کے لئے وکی لیکس کی شکل میں ایک ایسا ہتھیار ڈھونڈ نکالا ہو، جو ہتھیاروں کی جنگ کے بغیر بھی اس کے ارادوں کو پورا کرسکی۔ دہشت گردی کی وجہ سے جو ملک کمزور ہورہے ہیں، جن کی ترقی میں رکاوٹ پڑرہی ہی، یہ کسی سے چھپا نہیں ہی۔ خانہ جنگی کے حالات اگر کسی بھی ملک میں پیدا ہوتے ہیں تو اس کے لئے یہ دہشت گردی سے بھی سخت مرحلہ ہوگا۔ اگر وکی لیکس کے انکشافات اسی سمت میں جارہے ہیں کہ کہیں دو ممالک (ایران اور سعودی عرب) کے درمیان جنگ کے حالات پیدا ہوں تو کہیں فرقہ وارانہ کشیدگی کی بنا پر خانہ جنگی کی۔ یہ شک اس لئے ہوا کہ وکی لیکس کے انکشافات پر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ چراغ پا ہونے والے امریکہ کے خلاف ابھی تک کوئی ایسا دستاویز منظرعام پر نہیں آیا ہی، جو اس کے لئے کسی پریشانی کا باعث بنی۔ ہاں، یہ ضرور ظاہر ہونے لگا ہے کہ اس کے سفارتکار جن ممالک میں تعینات ہوتے ہیں، وہاں وہ سفارتکار کی حیثیت سے کام کرنے کے ساتھ ساتھ ایک جاسوس کی طرح بھی کام کرتے ہیں اور ان سے کی جانے والی کوئی بھی بات صرف خیرسگالی میں کی جانے والی گفتگو تصور نہیں کی جاسکتی، وہ اس وقت بھی کچھ راز اگلوانے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں جب کسی گفتگو کی میز پر نہ ہو کر کھانے کی میز پر بیٹھے ہوں۔ شاید ان کے اس عمل سے پوری طرح محتاط رہنے کی ضرورت ہی۔
بہرحال یہ تو تھا وکی لیکس کے انکشافات کو سمجھنے کا ایک پہلو، اب ذرا دوسرے پہلو پر بھی نظر ڈال لی جائی۔ اگر ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وکی لیکس کے انکشافات کی معرفت صرف اور صرف سچ سامنے آرہا ہے اور جو کچھ ان دستاویز میں لکھا گیا ہی، وہی حرف آخر ہے تو معاف کیجئے کل کس کے خلاف کون سا دستاویز برآمد ہوجائی، کہنا مشکل ہی۔ ہوسکتا ہے جو آج راہل گاندھی کے ایک بیان کو لے کر ہنگامہ کررہے ہیں، کل وکی لیکس ان کے خلاف بھی کوئی ایسا دستاویز جاری کردے کہ انہیں منھ چھپانے کے لئے جگہ نہ ملی، لہٰذا ہماری رائے ہے کہ ان انکشافات پر نظر تو رکھی جائی، ان کا جائزہ بھی لیا جائی، مگر ساتھ ہی ان دستاویزات کی عبارت کے نشیب و فراز کو بھی ذہن میں رکھا جائی۔ ہمیں اپنے ملک کو سمجھنے کے لئی، ملک کے حالات کو سمجھنے کے لئی، اپنے سیاستدانوں کو سمجھنے کے لئے کسی غیرملکی کے بیان پر کس حد تک منحصر ہونا چاہئی، اس پر غور کرنا بھی ضروری ہی۔
4مجھے آج کی اس تحریر میں ابھی بہت کچھ لکھنا باقی ہی، لگتا نہیں کہ جگہ کی تنگی کے باعث میں ان موضوعات پر بھرپور روشنی ڈال پاؤں گا، جن پر کہ میں کل سے ہی لکھنے کا ارادہ ذہن میں تھا۔ مجھے ابھی دگ وجے سنگھ جی کے بیان پر اٹھے طوفان پر بھی گفتگو کرنی ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر نتن گڈکری کے 4 روز قبل شروع ہوئے (4دسمبر010) دورئہ اسرائیل پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہی۔ پہلے چند سطریں نتن گڈکری کے دورئہ اسرائیل پر۔ اس کا مقصد کیا ہی، اس اسٹیٹمنٹ پر مت جائیے جو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعہ سب کے سامنے رکھا جائی۔ اسرائیل سے بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار کے رشتے کیا ہیں، اس پر نظر ڈالئی۔ جب جب سنگھ پریوار پر کوئی مصیبت آئی ہی، اسرائیل اس کا بہترین دوست ثابت ہوا ہی، ماضی کے ان واقعات پر نظر ڈالئی۔ نریندر مودی کے رہتے ہوئے گجرات میں اسرائیل کا دخل کتنا بڑھا ہی، ان اعدادوشمار کا جائزہ لیجئی۔ حفاظتی نظام کے پیش نظر ہر تاجر گھرانے کے دروازہ پر اسرائیلی محافظوں کی تعیناتی کتنی ہی، اس منشا پر نظر ڈالئی۔ اپنے تحفظ کے لئے اسرائیل سے جس ٹکنالوجی کو منگایا گیا ہی، اس کا جائزہ لیجئی۔ اسرائیل سے ان کے اس رشتہ اعتماد کو ذہن میں رکھئی، اسرائیل کی مسلم دشمنی کو ذہن میں رکھئی، نکسلائٹ سے نمٹنے کے لئے اسرائیل کی مدد لی جانی چاہئی، نتن گڈکری کے اس بیان کے معنی ومطالب کو سمجھنے کی کوشش کیجئی۔ اندازہ ہوجائے گا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ اپنی ٹیم کے ساتھ اسرائیل کس لئے گئے ہیں۔ کیا اس دورہ سے ان ریاستوں میں کاروبار کو بڑھانا مقصد ہی، جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکاریں ہیں یا پھر ان سرکاروں کا استعمال بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے جن مقاصد کی تکمیل کے لئے پہلے بھی کرتی رہی ہی، اسی میں اضافہ کے لئے اسرائیل کی مدد درکار ہے اور اس کے لئے یہ دورہ ضروری تھا۔ اس وقت دورہ کا مقصد یہی ہی، کیونکہ یہ دورہ شروع ہونے سے قبل ملک میں جس بات کو لے کر ہنگامہ جاری تھا، وہ 26/11یعنی ہندوستان پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کو لے کر چھڑی ایک نئی بحث تھی۔ ہم نے اپنے مضامین میں جو شامل ہیں ہماری نئی کتاب ’’آرایس ایس کی سازشـ6//11؟‘‘ میں جس کی رسم اجرا کے موقع پر کی گئی تقریر نے ایک ہنگامہ برپا کردیا۔ اپنی ان تحریروں میں ہم نے 26/11سے اسرائیل کے رشتہ کو بھی بے نقاب کیا ہی۔ بالخصوص واضح الفاظ میں سنگھ پریوار اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ پر سوال کھڑے کئے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ہمارے ذریعہ لکھا گیا ایک ایک لفظ یعنی ہمارے تمام مضامین اور زیربحث کتاب کو بھی پڑھا جاسکتا ہی۔ کیا نتن گڈکری کو اپنی ٹیم کے ساتھ اسرائیل جانے کی ضرورت اسی گفت و شنید کی وجہ سے پیش آئی کہ دگ وجے سنگھ جی کے بیان پر اٹھا طوفان تو تھم جائے گا، مگر بات نکلے گی تو دور تک جائے گی، اس لئے کہ شہید ہیمنت کرکرے نے جو کچھ کہا اس دہشت گردانہ حملہ سے محض تین گھنٹہ قبل، اسے اگر جھوٹ بھی مان لیا جائے تو ہم کس کس کو جھوٹا قرار دیں گی؟ کس کس کے بیان کو سیاست پر مبنی ثابت کرپائیں گی؟ اپنی موت سے ایک دن پہلے سینئر پولیس آفیسر جولیو ربیرو سے بھی وہی کہا، جو دگ وجے سنگھ جی سے کہا، اپنے ساتھی پولیس آفیسر جن کے ہمراہ صبح کی سیر کے لئے جایا کرتے تھی، ان سے بھی وہی کہا، جو دگ وجے سنگھ جی سے کہا، یہ باتیں ہم شائع کرچکے ہیں۔ اور بھی بہت کچھ ہے ابھی منظرعام پر لانے کے لئی۔اگر راہل گاندھی کے بیان کے بعد صورتحال میں تبدیلی نہ آئی ہوتی تو یکے بعد دیگرے ایسے بہت سے شواہد پیش کئے جاسکتے تھے اور پیش کئے جاسکتے ہیں، جن سے ثابت ہوجائے گا کہ شہید ہیمنت کرکرے کی شہادت کے فوراً بعد ان کی آخری رسومات کے اختتام پذیر ہوتے ہی ایسی باتیں شروع ہوگئی تھیں اور تقریباً تمام اخبارات نے انہیں شائع کیا تھاپھر اگر وکی لیکس کو آج ہم ایک ایسے ہتھیار کی شکل میں دیکھیں جیسا کہ ماضی میں جب جب ضرورت ہوتی تھی تو امریکہ کے صدر جارج واکر بش کو بن لادن کا ٹیپ دستیاب ہوجایا کرتا تھا۔ آج جب کسی کو یہ لگے کہ وہ بحث میں کمزور پڑرہے ہیں، بات کو بہت دور تلک جانے کی صورت میں انہیں ایسے نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہی، جس کی تلافی نہ کی جاسکے تو پھر وکی لیکس کے پٹارے پر نظر ڈالی جائے اور وہاں سے ایسا کچھ برآمد کرلیا جائی، جس سے ملک کی توجہ اس جانب سے ہٹ جائے اور ایک نیا موضوع بحث سامنے آجائی، جس سے انہیں راحت مل جائی۔ کیا وکی لیکس کے ذریعہ منظرعام پر لایا گیا راہل گاندھی کا بیان ایک ایسی ہی کوشش ہی، کیونکہ بہت جلد یہ فضا بننے والی تھی کہ دگ وجے سنگھ جی کے بیان کی جانچ تو ضروری ہے ہی اور ہم بھی اس بات پر زور دینے والے تھے کہ واقعی اس بیان میں کہی گئی باتوں کی جانچ ضروری ہی۔ سوال یہ اتنا اہم نہیں ہے کہ یہ باتیں دگ وجے سنگھ نے کہیں، جولیو ربیرو نے کہیں یا ان کے ساتھی سدھاکر نے کہیں، ضروری یہ ہے کہ اپنی شہادت سے قبل ہیمنت کرکرے نے کیا کہا؟سوچئے اگر یہ ثابت ہوجائے کہ دگ وجے سنگھ کے بیان کا جز وہی تھا جو شہید ہیمنت کرکرے نے مختلف لوگوں سے کہا تو پھرہمیں ہندوستان کی عدالتوں سے سیکڑوں ایسی نظیروں کو پیش کرنا کیا مشکل ہوگا کہ ایسے تمام لوگ جانچ کے دائرے میں آتے ہی ہیں، جو کسی کو قتل کی دھمکی دیں اور اگلے روز اس کا قتل ہوجائی، بھلے ہی وہ کسی اور نے کیوں نہ کیا ہو۔
………………

1 comment:

Voice of India said...

[i][b][green]jazakALLAH [/green][green]khair...[/green][/b][/i]