لکھنؤ، (ایس این بی) ریاست کی راجدھانی لکھنؤ میں پہلی مرتبہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور انٹیگرل یونیورسٹی کے اشتراک سے ’اترپردیش میں اقلیتوں کی تعلیم‘ موضوع پر دو روزہ قومی کانفرنس میں ماہرین تعلیم اور دانشوروں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر مسلمان بیدار نہ ہوئے تو وہ تعلیم کے میدان میں مزید پسماندہ ہو جائیں گے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ خود مسلمان سرکاری منصوبوں پر نظر رکھیں، تعلیم کے لئے مہم چلائیں اورڈراپ آئوٹ کی شرح کم کریں۔
اترپردیش اسمبلی کے اسپیکر سکھدیو راج بھر نے کہا کہ انٹیگرل یونیورسٹی نے جو کوشش کی ہے وہ مبارکباد کی مستحق ہے۔ ہمیں آج علماء اور دانشوروں کے درمیان کچھ کہنے کا موقع ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کا حل بھی وجود میں آجاتا ہے۔ لیکن ہم جارح بن کر کچھ نہیں کر سکیں گے۔ ہمیں سیاست کے میدان میں بھی آگے بڑھنا ہے۔ انہوں نے کسی کا نام لئے بغیر کہا کہ وہ قوم جس کی آبادی پانچ سے آٹھ فیصد ہے لیکن سیاست اور ملازمت میں اس کی نمائندگی 60 سے 70 فیصد تک ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے۔ اقلیتوں کو اپنے بچوں کو ذہنی طور پر تعلیم کے لئے تیار کرنا چاہئے کیونکہ اگر بچے تیار نہیں ہوں گے تو ادارہ چاہے جتنا بڑا قائم کر لیا جائے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اترپردیش میں مسلمانوں کی آبادی 22 سے 23 فیصد ہے اس کے باوجود ان کی نمائندگی صرف دو سے تین فیصد تک ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اقتدار میں حصہ داری کے ئے سیاست میں بھی آنا چاہئے کیونکہ جس گاؤں میںکسی خاص طبقہ کی آبادی صرف دو فیصد ہے اس طبقہ کا گاؤں پردھان ہوتا ہے اور تیس سے چالیس فیصد والی مسلم آبادی والے گاؤں میں مسلم پردھان نہیں ایسا کیوں؟ انہوں نے کہا کہ میں ریزرویشن کا حامی ہوں لیکن اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ ذہنی طور پر اپنے بچوں کو تیار کریں، دینی تعلیم بھی حاصل کریں، خدمت کا جذبہ پیدا کریں اور مقابلہ جاتی امتحانات کو ذہن میں رکھ کر آگے بڑھیں۔ مقابلہ کے اس دور میں دماغ سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ہنگامہ کرکے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔
افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ مہاراشٹر کسمو پالیٹن ایجوکیشنل سوسائٹی پونے کے صدر مسٹر پی اے انعامدار نے پیش کیا۔ انہوں نے انٹیگرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی جد و جہد سے اس ادارہ کو یونیورسٹی کے درجہ تک پہونچا دیا ہے۔ مسٹر انعامدار نے کہا کہ اب کچھ کرنے کا وقت ہے اس لئے مسلمانوں کی حالت زار کا تذکرہ کرکے اپنی توانائی ضائع نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی تعلیمی بیداری کےلئے ہمیں منصوبہ بند کوشش کرنی چاہئے اور آئندہ پانچ برس کے لئے منصوبہ تیار کرکے مسلمانوں کو منصوبہ بند تحریک چلانی ہوگی۔ مسٹر انعامدار نے اترپردیش کے ان افراد کو پونے مدعو کیا جو تعلیم کے میدان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹکنالوجی کا زمانہ ہے اس لئے ہمیں ٹکنالوجی کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کی تعلیم کے سلسلہ میں بحث کرنا چاہئے۔ اس کے لئے ہمیں وسیع پیمانہ پر فائنانس کا انتظام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اب ٹکنالوجی کی بات صرف دانشوروں اور مخصوص افراد کے ذریعہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہر گھر میں، ہر بازار میں ہر چھوٹے بڑے مقام پر ٹکنالوجی کی بات ہونی چاہئے۔مسٹر انعامدار نے دستور ہند کے بنیادی حقوق چیپٹر کے آرٹیکل 30 پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مذہبی اقلیت کی حیثیت سے مسلمانوں کا ملک میں تعلیمی ادارے قائم کرنا اور انہیں اپنی مرضی سے چلانا ان کا بنیادی حق ہے۔ مرکزی یا ریاستی حکومت اپنے کسی پالیسی فیصلہ سے اس حق کو چھین نہیں سکتی ہے۔ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کمال فارقی نے کہا کہ رونا بہت ہو گیا ہمیں اپنی کمیوں کا احساس ہے۔ ہمیں اب شکایتی دور سے نکل کر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اسکیموں سے کس طرح فائدہ اٹھایا جائے اور اس راستہ میں آنے والی رکاوٹوں کو کس طرح دور کیا جائے اس پر غور کرنے کی ضررت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج پرائمری سطح پر صرف 48 فیصد بچے اسکول جا رہے ہیں جو ہمارے لئے سوچنے کا مقام ہے۔
اترپردیش اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ایس ایم اے کاظمی نے کہا کہ موجودہ حالات میں یہ کانفرنس انتہائی ضروری تھی۔ انہوں نے کہا کہ سرسید کا خواب کیا تھا ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے۔ گزشتہ چند برسوں میں سیکڑوں سیمنار ہو چکے ہیں لیکن یہ واحد سیمینار ہے جو اصل موضوع پر بحث کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری منصوبوں کا نفاذہی وہ پہلو ہے جس پر سبھی کو شکایت ہے۔ نفاذ صحیح سے ہوتا نہیں ہے اور رہی سہی کسر بیداری نہ ہونے کے سبب پوری ہو جاتی ہے۔
روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر عزیز برنی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب مسلمان تعلیمی طور پر پسماندہ تھے تو انہیں جاہل قرار دیا جاتا تھا لیکن جب تعلیم حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کے بچے اپنے گھروں سے باہر نکلے تو انہیں دہشت گرد قرار دے کر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ مسلم خواتین جب پردے میں رہتی تھیں تو ہم پر یہ الزام عائد کیا جاتا تھا کہ ہم نے انہیں قید کرکے رکھا ہے لیکن جب وہ اپنے گھروں سے نکلیں تو عشرت جہاں کی شکل میں انہیں فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کر دیا گیا۔ ہمارے بچے جب مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے تو دینی مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دیا جانے لگا۔ مفتی ابوالبشر جیسے شخص کو بم دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دے کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا لیکن ہیڈلی کو کوئی نہیں کہتا کہ دہشت گرد ایسے ہوتے ہیں۔ بٹلہ ہاؤس فرضی انکاؤنٹر میں عاطف و ساجد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا لیکن قومی حقوق انسانی کمیشن نے اس انکاؤنٹر کو فرضی تسلیم نہیں کیا جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات واضح ہو گئی کہ جس طرح عاطف اور ساجد کو گولیاں ماری گئیں، اس طرح انکاؤنٹر میں نہیں ماری جا سکتیں۔ انہوں نے کہا کہ اب حالات اس قسم کے ہو گئے ہیں کہ اگر مسلمانوں کے بچے تعلیم حاصل کریں تو بھی مصیبت میں اور نا خواندہ رہیں تو بھی مصیبت میں۔ یہ واقعات چند سہی مگر ایک قوم کی حوصلہ شکنی کے لئے کافی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے بے پناہ قربانیاں دے کر ملک کو آزادی اس لئے نہیں دلائی تھی کہ ہم سے فریاد کرنے کا حق بھی چھین لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی طاقت کو منتشر کرنے کے لئے ملک کو تقسیم کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ماؤنواز سلامتی دستوں پر حملہ کرکے سی آر پی ایف کے جوانوں کو شہید کرتے ہیں تب بھی انہیں دہشت قرار دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ کشمیریوں کو تو علاحدگی پسند کہنے میں ذرہ برابر ہچکچاہٹ نہیں ہوتی لیکن بال ٹھاکرے کو علاحدگی پسند کہنے میں زبان بند ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری قوم میں باصلاحیت لیڈروں کی کمی نہیں ہے لیکن اگر کمی ہے تو ایک چوکیدار ایک نگہبان کی اور میں نے اس خالی جگہ پر اپنا نام لکھ دیا ہے، اس لئے شب و روز اس فکر میں مبتلا رہتا ہوں کہ کوئی نظر بد مرے گھر کی جانب اٹھ تو نہیں رہی ہے۔ کہیں کسی بے گناہ کو گناہگار ثابت کرنے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بم دھماکوں کے بعد مسلمانوں کو فوراً دہشت گرد قرار نہیں دیا جاتا جبکہ ماضی میں جو بم دھماکے ہوئے ان کے فوراً بعد مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان اپنی طاقت کو پہچانیں اور اس کا احساس کرائیں۔
اردو عربی فارسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور سبکدوش آئی اے ایس افسر انیس انصاری نے کہا کہ مسلمان و دیگر پسماندہ طبقات کے بچوں کا پرائمری اسکولوں میں داخلہ بہت کم ہوتا ہے اور جن کا داخلہ ہوتا ہے وہ کچھ دنوں بعد نکل جاتے ہیں۔ اس لئے بچوں کے والدین کے ساتھ ہی رضاکار تنظیمیں بھی اس پر خصوصی توجہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں غریب والدین کو بیدار کرنا ہوگا کیونکہ غریب والدین اپنے بچوں کو کام پر لگا دیتے ہیں۔
Yدارالعلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم مولانا ڈاکٹر سعید الرحمان اعظمی نے کہا کہ قوم کو اقلیت اور اکثریت کے مصنوعی خانوں میں تقسیم کرکے سیاست کرنا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم دو چیزوں سے غافل ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہم نے شکریہ ادا کرنا چھوڑ دیا ہے صرف شکوہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’تعلیم کا حق قانون‘ بننے کے بعد ہمیں شکوہ نہیں کرنا چاہئے ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرے۔ مولانا نے کہا کہ ہم اپنی عزت و عظمت کو خود نہیں سمجھتے۔ دوسری بات یہ کہ ہم نے محنت کرنا چھوڑ دیا ہے۔ مانگنے کی عادت ہمیں چھوڑ دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم ریزرویشن کی بھیک مانگ رہے ہیں جو ہمارا انتہائی احمقانہ عمل ہے۔ مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ اسلام واحد مذہب ہے جس میں تعلیم کو ترجیح دی گئی ہے۔ علم حاصل کرنا ہر مسلمان عورت مرد کے لئے فرض ہے۔ آج ہم تعلیم کے میدان میں پسماندہ ہیں تو ہم کہیں نہ کہیں اپنے مذہب سے دور ہو رہے ہیں۔ حکومتوں نے کیا کیا اور ہم نے خود کیا کیا یہ ساری باتیں بحث کا موضوع ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومتوں نے کہیں نہ کہیں اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں تساہلی برتی۔ سنیچر کو یہ کانفرنس انٹیگرل یونیورسٹی میں صبح 10 بجے تلاوت قرآن پاک کے ساتھ شروع ہوئی۔ تلاوت حافظ محمد نسیم نے کی اور اس کا ترجمہ حافظ محمد عارف نے کیا۔ انٹیگرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر سید وسیم اختر نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ انہوں نے اقلیتوں کی موجودہ صورتحال کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس میں شریک افراد کا یہ فرض ہے کہ تعلیم کے معاملہ میں اقلیتوں کو بیدار کریں۔ انہوں نے انٹیگرل یونیورسٹی کا مختصر تعارف بھی پیش کیا۔
1 comment:
Thank your for sharing article under Muslim history great article keep the good work up
Post a Comment