Wednesday, April 7, 2010

دہشت گردیـسماجی انصاف کے لےےـناممکن

عزیز برنی

بہت مشکل ہوتا ہے جذبات پر قابو رکھنا، اگر بات کوئی بہت غیرمعمولی ہو، پھر بھی اگر آپ اپنے احساسات کو مار کر خود پر قابو پالیں تو معمولات میں آئی تبدیلی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ کل حادثہ اتنا ہی بڑا تھا، جب ہمارے جوانوں پر نکسلوادیوں نے حملہ کیا اور اس حملہ کو جس طرح سے لیا گیا، وہ سب کچھ اتنا غیرمعمولی تھا کہ اگر آپ بہت حساس ہیں تو معمول کی زندگی جی ہی نہیں سکتے۔ کچھ وقت تو لگتا ہے آپ کو پھر معمول پر لوٹنے پر۔ وجوہات تو کچھ ذاتی بھی تھیں، مگر اس حادثہ کے بعد لکھنے اور سوچنے کا جنون اس درجہ دل و دماغ پر حاوی تھا کہ اس سے ہٹ کر کچھ بھی کرپانا ممکن ہوہی نہیں پارہا تھا۔ اس لےے چاہ کر بھی پھلکا ضلع، کٹیہار(بہار)کے انتہائی اہم پروگرام میں شرکت نہیں کرسکا۔ دہلی سے باگڈوگرا جیٹ ائیرویز کی فلائٹ 9W-2280سے جانے اوراپریل کو گوائیر کی فلائٹ8-607 سے واپسی طے تھی۔باگڈوگرا،کٹیہار سے بذریعہ کار جلسہ گاہ تک پہنچنا تھا، محترم اشتیاق صاحب حسب پروگرام ائیرپورٹ پر ریسیو کرنے کے لےے پہنچ بھی گئے تھے، یقینا انہیں بے پناہ مایوسی ہوئی ہوگی، میرے اس طے شدہ پروگرام کی تبدیلی سے۔ میں معذرت خواہ ہوں، اگر دیگر تمام باتوں کو درگزر کر پہنچ بھی جاتا تو بھی ذہنی کیفیت ایسی نہیں تھی کہ سامعین کی توقع پر پورا اترتے ہوئے موضوع کی مناسبت سے خطاب کرپاتا۔
بہرحال اب گفتگو آج کے موضوع پر۔ یہی کیا کم تھا کہ ہمارے فوجی جوانوں پر حملہ کرنے والے اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دینے والے نکسلوادیوں سے ہمدردی رکھنے والے اور برملا اپنی ہمدردیوں کا اظہار کرنے والے موجود ہیں کہ 26/11 یعنی ہندوستان پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کے حوالے سے امریکی سیکوریٹی محکمہ کے تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ کراچی میں واقع داؤد ابراہیم کی ڈی کمپنی لشکرطیبہ کو مدد دے رہی ہے، جو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہے اور ڈی کمپنی کی اس معاشی مدد سے ممبئی جیسے دہشت گردانہ حملوں کا منصوبہ بنانے میں مدد ملے گی۔ 26/11کے ساتھ داؤو ابراہیم کے نام کا امریکی تھنک ٹینک کے ذریعہ انکشاف کےے جانے پر آج نہیں مجھے کل لکھنا ہے۔ انتہائی پیچیدہ موضوع ہے یہ، اگر آپ امریکی تھنک ٹینک کی اس وضاحت پر مخالفت میں زبان کھولتے ہیں تو گویا آپ داؤدابراہیم کا بچاؤ کرتے ہیں اور داؤدابراہیم کے بچاؤ کرنے کا مطلب ہے ایک غداروطن ثابت کردےے گئے شخص کا بچاؤ کرنا اور ایسا کرکے آپ خود اپنے آپ پر وطن سے غداری کا داغ لگانے والوں کی زد میں آجاتے ہیں اور اگر آپ چپ رہیں تو امریکہ جس سمت میں اس دہشت گردانہ حملہ کو لے جانا چاہتا ہے، لے جانے دیں، وہ اپنے مقصد میں کامیاب اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں، پھر انجام چاہے جو ہو۔ ملک ان دہشت گردانہ حملوں کا شکار ہوتا رہے، کرے کوئی بھرے کوئی کی طرز پر اصل گنہگار بچتے رہیں اور جن کا یہ گناہ نہ ہو ان پر الزام دھرتے رہیں، بہرحال موضوع چاہے جتنا پیچیدہ ہو، لکھنا چاہے جتنا جوکھم بھرا اور مشکل ہو، دل و دماغ کی کیفیت چاہے کچھ بھی ہو، قلم اپنے فرض کے تقاضے کو نظرانداز نہیں کرسکتا، لہٰذا کل اس موضوع پر لکھا جائے گا اور ضرور لکھا جائے گا، ہاں مگر ایک بار پھر معذرت ان لاکھوں سامعین سے، یقینا لاکھوں جو مجھے سننے کے لےے دوردراز کے علاقوں سے کٹیہار کے اجلاس میں تشریف لائے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ میری ان مجبوریوں کا لحاظ رکھتے ہوئے کہ میں جس ذہنی فکر کے ساتھ اپنا کام عبادت کی طرح کررہا ہوں، مجھے معاف فرمائیںگے۔ شاید کہ1اپریل کو ارریہ(بہار) میں منعقد ہونے والے اجلاس میں شرکت کرکے اس کمی کو پورا کرسکوں اور یہ میرے لےے اس لےے بھی اہم ہے کہ وہ ہمارے سربراہ عالیجناب سہاراشری جی کی جائے پیدائش ہے۔
اوراب بات نکسلوادیوں پر، ان کی دہشت گردی پر۔ اردو صحافت تنگ نظر ہے، فرقہ پرست ہے، تنگ دائرے سے باہر نکل کر دیکھتی ہی نہیں، قرآن دہشت گردی کی تربیت دیتا ہے، جہاد کے تعلق سے متعدد قرآن کی آیات کو اس سلسلے میں کوٹ کیا جاتا رہا ہے، اسلام دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے، عالمی سطح پر یہ پروپیگنڈہ متواتر گزشتہ کئی برس سے کیا جاتا رہا ہے۔ اپنی اس مصروف زندگی کا بیشتر وقت صرف اور صرف لکھنے اور پڑھنے پر صرف ہوتا ہے، وہ بھی ایسے ہی موضوعات پر، جن پر اس وقت لکھ رہا ہوں میں۔ جی ہاں، ’’آزاد بھارت کے اتہاس‘‘ کے عنوان سے اس دور کی تاریخ لکھ رہاہوں۔ میں نے نہیں پڑھا کبھی کسی مضمون نگار کو القاعدہ، لشکرطیبہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کا بچاؤ کرتے ہوئے۔ بہت الزام لگے میری تحریروں پرکہ میں ایک مخصوص طبقہ کی ترجمانی کرتا ہوں، مگر کبھی نہیں لکھا میں نے کہ اگر کسی کو بیجا ستایا جائے، اس پر ظلم کیا جائے، اسے انصاف نہ دیا جائے تو وہ ہاتھ میں بندوق اٹھا لے، قتل و غارتگری پر آمادہ ہوجائے۔ نہ میں نے کبھی لکھا اور نہ کبھی پڑھا کہ دہشت گردی 6دسمبر992کو بابری مسجد کی شہادت کا بدلہ لینے کا بھی کوئی جواز ہوسکتا ہے۔ گجرات کے خونی فسادات کے متاثرین اپنے ہاتھ میں بندوق لے کر تشدد کا راستہ اپنا سکتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کشن گنج(بہار) میں منعقد ایک دہشت گردی مخالف اجلاس میں شرکت کرنے کے لےے پرائیویٹ جہاز سے ہم چند لوگ جارہے تھے، جن میں سوامی اگنی ویش، مہیش بھٹ، شہبازخان بھی شامل تھے۔ سوامی اگنی ویش جی نے گجرات فسادات میں مسلمانوں پر ہوئے ظلم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایسے میں مظالم کا شکار کچھ نوجوان انصاف نہ ملنے پر تشدد کا راستہ اپنا لیں تو… میں نے اسی وقت بیحدادب کے ساتھ ان کی بات کو روکتے ہوئے درخواست کی کہ خدارا کسی بھی شکل میں دہشت گردی یا تشدد کو حق بجانب نہ ٹھہرائےے، جو غلط ہے وہ ہر حالت میں غلط ہے۔ شریمتی مہاشویتادیوی ہندوستان کی وہ مایۂ ناز مصنفہ ہیں، جن کی ادبی حیثیت کو ہندوستان کی تاریخ فراموش نہیں کرسکتی۔ میں ان کی کسی بھی تحریر پر تنقید کروں، یہ میرے لےے مناسب نہیں ہے، مگر ہاں ان کی تحریر کے چند جملے مجھے سوچنے پر ضرور مجبور کرتے ہیں۔ جو کچھ لکھا انہوں نے نکسلوادی تحریک کے تعلق سے اس عبارت کے چند جملے میں پھر ایک بار نقل کرنے جارہا ہوں۔ مکمل مضمون کل ہی قارئین کے گوش گزار کیا جاچکا ہے، چونکہ مجھے آج اس ضمن میں کچھ کہنا ہے، اس کے لےے ان چند جملوں کو ایک بار پھر سے پوری توجہ کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔
’’نکسلزم کے جواز اور اس کے تئیں عوامی رجحانوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ لگتا ہے، 70 کی دہائی سے اس کی ضرورت آج ہے۔ گزشتہ 15-10 برسوں میں بھوکوں، غریبوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔سیاسی ، اقتصادی، مشینری پوری طرح امیروں کے حوالے ہے۔ یہ تحریک اور آگے بڑھے گی، کیونکہ موجودہ نظام میں کثیر تعداد میں لوگ حاشیے پر کھڑے ہیں اور ان کی عیادت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ حکومت بھی تسلیم کر رہی ہے کہ نکسلزم کا دائرہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور ابھی یہ ملک کے ایک تہائی سے زیادہ علاقوںمیں اپنی جڑیں جماچکا ہے، لیکن حکومت نکسلزم کو لے کر ہمیشہ اس پس و پیش میں رہی ہے کہ اسے نظم و نسق کا مسئلہ مانا جائے یا سماجی -اقتصادی مسئلہ۔پریشانی یہ ہے کہ حکومت نکسلیوں کو دبانے کی پالیسی پرچلتی رہی اور ان مسائل پر بالکل غور نہیں کیا، جن کے پس منظر میں نکسلزم کا ظہور ہوا تھا۔
نکسلزم لوگوں کے دلوں میںاس لئے جگہ بنائے ہوئے ہے، کیونکہ اس کے تحریک کاروں کا اپنا کوئی مفاد نہیں ہوتا۔ انھیں نہ تو اقتدار چاہئے اور نہ ووٹ۔ وہ نظریاتی لڑائی لڑنے والے بے لوث لوگ ہیں۔ ان میں غضب کا حوصلہ ہے۔ ان کی جاں نثار شخصیت میں مجھے اصول نظر آتا ہے۔ان کی تحریک، پرکشش اور نیک مقاصد کے لئے ہے۔ یہی سبب ہے کہ میری تحریر میں بھی یہ نمایاں طور پرموجود ہے۔ ‘‘
ہندوستان کا نظام ملک کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ہاتھ میں ہے۔ ظاہر ہے وہی عملی اعتبار سے آخری شخص ہیں، جنہیں اس ملک کے نظام کا ذمہ دار تصور کیا جاسکتا ہے۔ ان کا تعلق ایک غریب خاندان سے رہا ہے۔ شروع کے 12سال تک وہ جس گاؤں میں رہے، وہاں نہ تو بجلی تھی، نہ پانی اور نہ اسپتال تھا۔ اسکول جانے کے لےے انہیں میلوں پیدل چلنا پڑتا تھا۔ جب ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ ان کی آنکھیں کیوں کمزور ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ لالٹین کی کم روشنی میں گھنٹوں کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ابھی چند روز قبل تک ہندوستان کے صدرجمہوریہ رہے ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا تعلق ایک انتہائی غریب خاندان سے ہے۔ اس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی وزیراعلیٰ محترمہ مایاوتی ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئیں۔ سابق وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادو ایک غریب کسان خاندان سے تھے۔ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اور سابق وزیراعلیٰ لالوپرسادیادو، رابڑی دیوی، ان میں سے کوئی امیرخاندان کا نہیں ہے۔ پھر اگر ملک کی باگ ڈور کسی امیر خاندان کے فرد کے ہاتھوں میں ہو تو کیا سماجی نابرابری کا شکار لوگوں کو یہ حق حاصل ہونا چاہےے کہ بندوق ہاتھ میں اٹھالیں اور دہشت گردی کے راستے پر چل پڑے۔ کیا ہمیں دہشت گردی سے نپٹنے کے لےے دو الگ الگ پیمانے رکھنے چاہئیں؟ کیا ہمیں دہشت گردوں کو الگ الگ قسموں میں تقسیم کردینا چاہےے؟ کیا دہشت گردی کی کوئی قسم ایسی بھی ہوسکتی ہے، جسے عوامی ہمدردیاں حاصل ہوں؟ کیا ہم ہندوستان کے کسی بھی طبقے کی، جو دہشت گردی کا شکار ہیں، جنہیں کسی بھی وجہ سے انصاف نہیں ملا ہے، ان کے دہشت گرد ہونے کو حق بجانب ٹھہرا سکتے ہیں؟ ان سے ہمدردیاں رکھ سکتے ہیں؟ ابھی تک تو اپنی جان پر کھیل کر دوسروں کی جان لینے والوں کو ہم ظالم ہی مانتے رہے ہیں، انسانیت کا قاتل ہی مانتے رہے ہیں اور یہی صحیح لگتا بھی ہے، مگر کیا کوئی صورت ایسی بھی ہوسکتی ہے کہ ہم ان کی جاں بازی کی تعریف کریں۔ اگر ہم تمام دہشت گردوں کو الگ الگ خانے میں رکھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ کچھ کو قابل معافی تصور کرسکتے ہیں؟ ان کی تعریف کرسکتے ہیں کہ انہوں نے یہ قتل و غارتگری حصول اقتدار کے لےے برپا نہیں کی۔ کوئی بھی مثال دینا ذرا مشکل لگتا ہے، اس لےے کہ تنقید کرنے والوں کو یہ موقع مل جائے گا کہ فلاں دہشت گرد تنظیم یا دہشت گرد کا بچاؤ کررہے ہیں، مگر کیا نام لکھے بغیر بھی ایسے واقعات ہمارے ذہن میں نہیں ہیں، جہاں دہشت گردی کے پیچھے مقصد حصول اقتدار نہیں تھا؟ ذاتی مقاصد نہیں تھے؟، مگر کیا وہ دہشت گردی نہیں تھی، بھلے ہی وہ دہشت گرد بھی اپنے آپ کو کسی تحریک کا حصہ مانتے رہے ہوں؟ کیا ہم لمحہ بھر کے لےے بھی یہ سوچ سکتے ہیں کہ ان کی سوچ ٹھیک تھی؟ نہیں، قطعاً نہیں… وہ سب گمراہ تھے اور یہ تمام نکسلوادی بھی گمراہ ہیں۔ کس نے روکا ہے انہیں ہندوستان کی سیاست میں حصہ لینے سے؟ اپنی محنت اور قابلیت کے بل پر ہندوستان کے تمام شعبوں میں کامیابی حاصل کرکے نمایاں مقام پانے سے؟ سماجی برابری کا حق حاصل کرنے سے؟ کیا مایاوتی، ملائم سنگھ، نتیش کمار، اے پی جے عبدالکلام اور منموہن سنگھ جیسی شخصیتیں مثال نہیں ہیں کیا۔ یہ لوگ اپنے ملک اور قوم کے سر مور نہیں بنے کیا۔ انہوں نے تشدد کا راستہ اپنایا۔
یہ انتہائی شرم اور افسوس کا مقام ہے کہ سماجی و معاشی اعتبار سے دباکچلا اور پچھڑا ہونے کی بات کہہ کر اپنا حق حاصل کرنے کے نام پر تشدد برپا کیا جائے اور اسے صحیح ٹھہرانے کی کوشش بھی کی جائے۔کیا ایک بار خود سے پوچھیں گے یہ سماجی نابرابری کی جنگ کے ٹھیکیدار کہ کتنے امیروں اور سرمایہ داروں کے بچے فوج میں بھرتی ہوتے ہیں؟ یہ سی آر پی ایف کے جوان جو نکسلوادیوں کے حملے میں شہید ہوئے ان سب کے گھرخاندان کی تفصیل تو اس وقت نہیں ہے میرے پاس، مگر ذہنی شعور مجھے یہ بتاتا ہے کہ ان میں اکثریت ایسے ہی غریب خاندان کے چشم و چراغوں کی ہوگی، جو کم از کم معاشی اعتبار سے بہت خوشحال نہیں ہیں، لیکن انہوں نے معاشرے میں ایک بہتر مقام حاصل کرنے کے لےے اپنے ملک کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی۔ میں سلام کرتا ہوں، ان تمام جانبازشہیدوں کو اور مجھے نہیں لگتا کہ سماج میں ان کی برابری کرنے والے آسانی سے مل پائیں گے۔ ہم سے بہت بہتر بلکہ معاشرے کا سب سے بلند مرتبہ حاصل ہے انہیں اور ہمیشہ رہے گا۔کاش کہ یہ نکسلوادی سماجی برابری کا حق حاصل کرنے کے لےے، جن کی جان لی ہے، ان کے جیسا بننے کی کوشش کرکے ان کی راہ پر چلتے،شاید اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے۔
………………

No comments: