Tuesday, April 6, 2010

یہ کوئی تحریک ہے یا صرف اور صرف دہشت گردی

عزیز برنی

نکسلوادیوں کو ہم دہشت گرد مانیں یا جہادی، آج یہ بھی طے کرنے کی ضرورت ہے، اس لےے کہ جتنا بڑا دہشت گردانہ حملہ نکسلوادیوں نے آج ہندوستان کی فوج پر کیا، اگر کسی دشمن ملک کے حملے میں بھی ہمارے اتنے فوجی جوان مارے گئے ہوتے تو ہم اس ملک کو تہس نہس کرنے یا کم از کم منھ توڑ جواب دینے کا تہیہ ضرور کرلیتے، لیکن یہ کوئی دشمن ملک نہیں، ہمارے اپنے ہی ملک کے ایک ایسی تنظیم کے کارکنان کا حملہ تھا، جن سے ہمدردیاں بھی ظاہر کی جاتی رہی ہیں اور اس ہمدردی کی بنیاد ہے کہ سماجی نابرابری کا شکار لوگ ماؤوادی بن گئے اور انہوں نے ان لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا، جنہیں وہ اس سماجی نابرابری کے لےے ذمہ دار مانتے ہیں۔ کیا یہی ایک طریقہ ہے؟ برابری کا درجہ حاصل کرنے کے لےے کیا ایسے لوگوں کو ہمدردیاں حاصل ہونی چاہئیں؟ کیا ایسے لوگوں کو کسی بھی بنیاد پر صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی جانی چاہےے؟ آج ہمیں اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
دلت ہندوستان کا وہ طبقہ تھا، جسے سب سے لمبے عرصے تک سماجی نابرابری کے بدترین دور سے گزرنا پڑا۔ کیا اس نے وہ طریقہ اپنایا، جو آج نکسلوادی اپنا رہے ہیں؟ کیا دلت آج برابری کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہیں؟ متعدد پسماندہ طبقات کو سماجی نابرابری کا شکار ہونا پڑا، کیا انہوں نے معاشرے میں اپنا حق حاصل کرنے کے لےے یہی راستہ اپنایا؟
میری عادت ہے کچھ بھی لکھنے سے قبل اس موضوع سے متعلق مواد کا بھرپور مطالعہ کرنا۔ یہی میں نے آج بھی کیا، وقت کم تھا اور حادثہ بہت بڑا تھا، لہٰذا دیر تک تو میری نظر اس افسوسناک سانحہ سے متعلق خبروں پر ہی رہی۔ پھر یہ جاننے اور سمجھنے کے لےے کہ آخر یہ نکسلواد کیا ہے؟ کب شروع ہوا، کیوں شروع ہوا اور دیگر زمیندار لوگوں کی اس پر رائے کیا ہے؟ پھر جب میں نے ان سب موضوعات پر پڑھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ نکسلواد کی شروعات 1967میں ہوئی تھی، جب مغربی بنگال کے نکسلماڑی گاؤں میں یہ تحریک مقامی زمینداروں کے خلاف مسلح کسانوں اور مزدوروں کا استحصال اور سماجی نابرابری کی مخالفت کی ایک تحریک کے نام پر شروع کی گئی۔چارومجمدار کی قیادت میں جاری ہوئی اس پہلی نکسلوادی تحریک کو دو مہینے کے اندر ہی ناکام بنادیا گیا اور ’نکسلواد‘ لفظ کا استعمال اس لےے ہوا کہ نکسلباڑی نام کے گاؤں سے اس کی شروعات ہوئی تھی۔ابتدا میں یہ تحریک تین مقاصد کو سامنے رکھ کر شروع کی گئی تھی۔ -1 کھیت جوتنے والے کسانوں کو کھیت کا مالکانہ حق حاصل ہو، -2غیرملکی سرماےے کی اجارہ داری اور طاقت کو ختم کیا جائے اور3 ذات پات اور طبقات کے نظام کے خلاف جدوجہد کی جائے۔ اس تحریک کی شروعات کے بعد ماؤوادی نظریات میں یقین رکھنے والے متعدد اداروں نے کئی ریاستوں میں اس کی داغ بیل ڈالی۔ آندھراپردیش میں کونڈاپلّی سیتار مئیا کی قیادت میں ’’پیپلزوار گروپ‘‘ قائم کیا گیا تو مغربی بنگال میں کنہائی چٹرجی نے ’’ماؤوادی کمیونسٹ سینٹر‘‘کی بنیاد رکھی۔ اس وقت یہ تحریک محض چار ریاستوں تک محدود تھی، مگر آج ملک کی 16ریاستوں کے95اضلاع اس سے متاثر ہیں۔ نکسلواد سے متاثر تمام اضلاع میں ان کی متوازی حکومت چلتی ہے۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں پانچ ہزار سے زائد لوگوں کی جانیں جاچکی ہیں۔ حالیہ واقعہ جس میں تازہ اطلاعات کے مطابق 83جوان شہید ہوچکے ہیں اور متعدد زخمی ہیں، اب تک کا سب سے بڑا نکسلی حملہ ہے۔ اس ضمن میں اور اس تحریک کے تعلق سے کہنے اور لکھنے کے لےے ابھی بہت کچھ باقی ہے، مگر اس وقت میرے سامنے دو سنجیدہ اور قابل ذکر قلمکاروں کے مضامین ہیں، جن میں ایک 7اگست008کو شائع شریمتی مہاشویتا دیوی کا مضمون ’’زندہ رہے گا نکسلواد‘‘ اور دوسری مدراراکھشس جی کی تحریر جس کا عنوان ہے ’’اسمے:نکسلواد میں ان کی کیا سزا!(بے وقت : نکسلزم میں ان کی کیا سزا)‘‘۔
میں چاہتا ہوں کہ یہ دونوں مضامین ہمارے قارئین کی نظروں سے گزریں، اس لےے کہ جب آج کے بعد میں اس موضوع پر لکھ رہا ہوں تو بہت کچھ وہ باتیں بھی میرے سامنے ہوں، جو اب تک اس تحریک کو لے کر کہی جاتی رہی ہیں، لکھی جاتی رہی ہیں، اس کے بعد بات ہوگی کہ اب اس پر قابو پانے کے لےے کیا طریقہ اپنا جائے اور جو بھی، جس کی بھی ہمدردیاں کسی نہ کسی شکل میں ان کو حاصل تھیں یا ہیں، کیارہنی چاہےے تھیں؟ کیا ان کے اس دہشت گردانہ عمل کو ’’جہاد‘‘ یا ’’تحریک‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔
زندہ رہے گا نکسلزم
نکسلزم کے جواز اور اس کے تئیں عوامی رجحانوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ لگتا ہے، 70 کی دہائی سے اس کی ضرورت آج ہے۔ گزشتہ 15-10 برسوں میں بھوکوں، غریبوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔سیاسی ، اقتصادی، مشینری پوری طرح امیروں کے حوالے ہے۔ یہ تحریک اور آگے بڑھے گی، کیونکہ موجودہ نظام میں کثیر تعداد میں لوگ حاشیے پر کھڑے ہیں اور ان کی عیادت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ حکومت بھی تسلیم کر رہی ہے کہ نکسلزم کا دائرہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور ابھی یہ ملک کے ایک تہائی سے زیادہ علاقوںمیں اپنی جڑیں جماچکا ہے، لیکن حکومت نکسلزم کو لے کر ہمیشہ اس پس و پیش میں رہی ہے کہ اسے نظم و نسق کا مسئلہ مانا جائے یا سماجی -اقتصادی مسئلہ۔پریشانی یہ ہے کہ حکومت نکسلیوں کو دبانے کی پالیسی پرچلتی رہی اور ان مسائل پر بالکل غور نہیں کیا، جن کے پس منظر میں نکسلزم کا ظہور ہوا تھا۔
نکسلزم لوگوں کے دلوں میںاس لئے جگہ بنائے ہوئے ہے، کیونکہ اس کے تحریک کاروں کا اپنا کوئی مفاد نہیں ہوتا۔ انھیں نہ تو اقتدار چاہئے اور نہ ووٹ۔ وہ نظریاتی لڑائی لڑنے والے بے لوث لوگ ہیں۔ ان میں غضب کا حوصلہ ہے۔ ان کی جاں نثار شخصیت میں مجھے اصول نظر آتا ہے۔ان کی تحریک ، پرکشش اور نیک مقاصد کے لئے ہے۔ یہی سبب ہے کہ میری تحریر میں بھی یہ نمایاں طور پرموجود ہے۔ اس کے علاوہ آپ کویہ سمجھنا ہوگا کہ اُلفا، بوڈو، این ایس سی این کی طرح یہ کوئی علیحدگی پسند تحریک نہیں ہے۔ پھر نکسلی تنظیموں کومقامی سطح پر حمایت بھی علیحدگی پسند تنظیموں سے کافی زیادہ حاصل ہے۔ نکسلزم کی جڑیں اس لئے بھی موجود ہیں کہ نکسلی تنظیموں نے بالکل نچلی سطح سے اپنی جڑیں جمانی شروع کیں۔ جیسے چھتیس گڑھ میں سب سے پہلے آیباسیوں کو بچولیوں اور تیندوپتا کے ٹھیکے داروں کے خلاف متحد کیاگیا۔ زمینی سطح پر یہ تحریک شروع ہوئی، اس لئے حکومت کے سامنے یہ آج بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ ریاستی انتظامیہ میں جرائم کی آمیزش اور اس کے مفلوج ہونے کا نتیجہ ہے کہ نکسلزم کا دائرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
kجن ایشوز پریہ تحریک شروع ہوئی تھی، وہ آج بھی موجود ہیں، اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ اس تحریک کی جڑیں کمزور ہوجائیں۔ آج ملک میں 56 نکسلی گروہ موجود ہیں اور ان کے زیرِ اثر ملک کی ایک تہائی سرزمین ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس کے دائرہ اختیار میں اور اضافہ ہوگا، کیونکہ سماج سے بے چینی اور بے اطمینانی کا خاتمہ نہیں ہوا ہے۔ لاکھوں لوگ بھوکے، متاثر، استحصال کا شکاراور اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں، ایسے میں نکسلزم کا خاتمہ کیسے ہوگا؟ اقتصادی نظام کا جب تک غیر متوازن فروغ ہوگا، دبے کچلے لوگ نظام کی مخالفت میں ہتھیار اٹھائیں گے ہی۔ یہ صورتحال ہمیشہ سے اور ہر ملک میں ہوگی۔
………………
بے وقت : نکسلزم میں ان کی کیا سزا
اخبار اور ٹی وی میڈیا نکسلی مہموں کی تنقید کرتے وقت اکثر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ نکسلی اپنے حلقۂ اثر میں غیر قانونی وصولی کرتے ہیں، ٹھیک مافیاکی طرز پر۔ عام طورپر کمیونسٹ پارٹی اپنے اراکین سے لیوی لیتی ہے اور اسی لیوی کی بنیاد پر پارٹی کا کام چلتا ہے۔ کل وقتی اراکین کو تنخواہ وغیرہ ملتی ہے۔ جب کبھی اخباری دنیامیں عام آدمی سے غیر قانونی وصولی کا ذکر ہوا، ہم نے یہی کہا کہ باضابطہ لیوی کو غلط سمجھا جارہا ہے۔ لیکن گزشتہ ہفتہ ایک ایسی تنظیم سے غیرقانونی وصولی کی خبر ملی، جس سے میرا قریبی تعلق رہا ہے۔ ان کے ذریعہ تشکیل کردہ دلت فریڈم نیٹ ورک نے بین الاقوامی سطح پردلتوں کے لئے آواز اٹھائی اور 2002 کے گجرات قتلِ عام جیسے فرقہ وارانہ واقعات پر عالمی رائے عامہ تیار کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس تنظیم سے وابستہ لیڈروں نے ہندوستان میںدلتوں اور آدیباسی بچوں کے لئے کافی محنت سے اسکول کھولے ہیں۔ ایسے کچھ اسکول جھارکھنڈ میں بھی ہیں۔ یہ سخت تکلیف کی بات تھی کہ جھارکھنڈ کے اسی علاقے کی ایک اسکول چلانے والی تنظیم کے لیڈر نے بتایا کہ ان کے اسکولوں سے نکسلی تنظیم بڑی رقم وصول کر رہی ہے اور رقم نہ ملنے پر اسکول جلا دینے کی دھمکی دی جارہی ہے۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں کبھی بھوجپور کو ویتنام بنانے کا عہدکرکے جگدیش مہتو، رامیشور اہیر جیسے لوگوں نے حالات بدلنے کے لئے کیا مانگا نہیں اپنی جانیں دی تھیں۔ گزشتہ صدی کے نصف اول میں تلنگانہ اور 60 کی دہائی میں نکسلزم میں جو عوامی جدوجہد شروع ہوئی اور جنھوں نے ملک کی نوجوان نسل پر گہرا اثر ڈالا تھا، وہ غیر قانونی وصولی کے سبب نہیں، بلکہ وہ اصول کے لیے اپنی جان کی قیمت پر کی گئی عوامی جدوجہد تھی۔ ڈی وی رائے سے لے کر چارومجمدار اور کانو سانیال تک اور پھر مائوئسٹ کمیونسٹ سینٹر یا پیپلز وار گروپ جیسی تنظیموں سے ہم جیسے لوگ چاہے جتنا نظریاتی اختلاف محسوس کریں، لیکن ان پر اوچھے غنڈوں والی غیرقانونی وصولی کے الزام کبھی نہیں لگے۔ گزشتہ سال جب نکسلزم پر پابندی کا فیصلہ لیا گیا تو اس قدم کی سخت مخالفت خود ہندوستان کی اس کمیونسٹ پارٹی نے کی،جس کا سب سے تلخ تجربہ کرنے کے لئے ہی نکسلباڑی تحریک تشکیل ہوئی تھی۔ ظاہر ہے کہ نکسلزم کے اوپر پابندی کی مخالفت کرنے والی ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی (مارکسوادی) بھی یہ تصور نہیں کرسکتی تھی کہ نکسلائٹ غیرقانونی وصولی کرنے والوں کی تنظیم ہے۔ مارکسوادی پارٹی نے بھی کبھی یہ الزام نہیں لگایا۔ کئی نکسلی تنظیموں کے درمیان اتحاد ہوا اور نئی نکسلی پارٹیاں وجود میں آئیں۔ ان کے نئے دستاویز بہت حد تک بھگت سنگھ کے نظریات کی یاد دلاتے ہیں، یعنی ان کا ترجیحی طریق کار بلیٹ سے شروع ہوکر بلیٹ پر ہی ختم ہونے کا نہیں ہے۔ ان کی سرگرمی میں تمام محروم سماج کے مابین عوامی بیداری کے بیج بونا ہے۔ حالانکہ مختلف گروپوں میں تقسیم اس تحریک کی اپنی ایک بڑی بیماری بھی ہے ایک ہی مقصد کے باوجود ایک دوسرے سے سخت نفرت۔ یہ گروہی نفرت ان کے دستاویزوں میں بہت کھل کر سامنے آئی ہے۔ اس آپسی منافرت کو دیکھ کر تھوڑی حیرانی ہوتی ہے۔ زیادہ نفرت کچھ اس لیے بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہر گروپ کا اصول اپنے کو دوسرے سے کہیں زیادہ دانشورانہ مانتا ہے اور دانشوری کی حد تو یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسرے ہم مسلک سے بحث کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ بحث کی کوئی گنجائش نہ چھوڑنے کا ہی ایک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ تحریک گروہ در گروہ تقسیم ہوتی اور بکھرتی جاتی ہے۔ ایک اور بڑی کمزوری ہے جوشاید ساری کمیونسٹ تحریک کے ساتھ لگی ہوئی دیکھی جاسکتی ہے ،خاص طور سے ہندوستان میں۔ اس کا یہ نظریہ صحیح ہے کہ عوامی جدوجہد کے ساتھ ہی عام آدمی کی بیداری کی کوشش ضروری ہے۔ لیکن یہ کام صرف اس طرح ممکن نہیں ہے کہ تحریک کی فکر ان کے درمیان پہنچائی جائے۔ ہندوستانی سماج میں نسلی اذیت اور خواتین کے ساتھ ثقافتی عدم مساوات کے علاوہ فرقہ وارانہ آگ لگانے والوں کے خلاف واضح مہم بھی ضروری ہے۔ چرچ جلائے جائیں، مسجدیں منہدم کی جائیں، گجرات کا قتلِ عام ہو یا اتر پردیش کو گجرات بنانے کی کوشش، نکسلزم اس کی سخت مخالف کرتا ہے، عوام کو یہ اعتماد بھی تو ہونا چاہئے اور اس سے آگے بڑھ کر عوام کو یہ پیغام بھی پہنچنا چاہئے کہ نکسلی آدیباسی اور دلت بچوں کے لئے طویل عرصہ سے کام کرنے والے مشنری اسکولوں سے غیر قانونی وصولی کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے قابلِ سزا جرم سمجھتے ہیں، ورنہ یہ داغ پورے نکسلزم کا کبھی نہ چھوٹنے والا داغ بن جائے گا۔

No comments: