Thursday, March 31, 2011

’میری آنکھوں میں تمہارے خواب ہیں‘

عزیز برنی

جب ہمارے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں اور لگتا ہے کہ اب زندگی کی شام ہونے لگی ہی… تو دل میں حسرتیں جنم لینے لگتی ہیں۔ کبھی ہم تصور میں تو کبھی خوابوں میںان حسرتوں کو حقیقت میں ڈھلتا ہوا دیکھنے لگتے ہیں۔ پھر اگر یہ خواب دیکھنے والا شخص اگر ادیب، شاعر یا افسانہ نگار بھی ہے تو اپنی تخلیق میں ان ادھوری خواہشات کو کچھ اس طرح پیش کرتا ہے کہ یہ اس کے اپنے دل کے لئے بھی تسکین کا باعث بن جاتی ہیں اور وہ اپنے اس فن کی معرفت آنے والی نسلوں کو کوئی پیغام بھی دے جاتا ہی۔ ایک صحافی اور مدیر کی حیثیت سے شناخت ہے میری، مگر نہ جانے کیوں مجھے یہ لگتا ہے کہ آنے والی نسلیں مجھے میرے افسانوں اور ناول نگاری کے لئے یاد رکھیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحافت کے اپنے دائرے ہیں۔ مدیر کی کچھ اپنی ذمہ داریاں ہیں۔ ایک مضمون نگار کو قلم اٹھانے سے قبل بہت سے نشیب و فراز کا خیال رکھنا ہوتاہی، لیکن ادب کا دائرہ بہت وسیع ہی۔ اس فن میں بڑی گنجائش ہی، آپ جو کہنا چاہتے ہیں، وہ بڑی خوبصورتی سے کہہ سکتے ہیں، اس لئے کہ آپ اپنی ادبی تخلیق کے ہر ہر لفظ پر سچ ہونے کا دعویٰ کبھی نہیں کرتی۔ یہ فیصلہ قارئین کی صوابدید پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اسے کس حد تک حقیقت پر مبنی مانیں اور کس حد تک ادیب یا شاعر کا تخیل۔ میں نے چند افسانے اور ناول لکھے ہیں۔ ان میں سے کچھ تخلیقات ایسی بھی ہیں، جن میں میرے ادھورے خوابوں کا اشارہ ہی۔ میری دبی چھپی حسرتوں کا اظہار ہی۔ ’’شاہکار‘‘ میرا ایک ایسا ہی افسانہ تھا۔ اب سے چند برس قبل جب میں نے یہ افسانہ لکھا تھا تو یہ سب کچھ محض ایک تصور تھا، جو بعد میں بہت حد تک حقیقت میں بدلتا نظر آیا۔ دل چاہتا ہے کہ میں اس افسانہ کے چند تراشے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرکے آج کا مضمون شروع کروں۔ پھر یہ وضاحت بھی کہ آخر اس وقت جب میں یہ افسانہ لکھ رہا تھا تو اس کی معرفت کیا کہنا چا ہتا تھا اور آج جب اسے اپنے مضمون کا ایک حصہ بنا رہا ہوں تو اس وقت کیا کہنا چاہتا ہوں، لہٰذا پہلے ملاحظہ فرمائیں یہ تراشے اور اس کے بعد آج کے مضمون کا تسلسل۔
’’آخر وہ پروجیکٹ کیا ہے جس پر میں کام کررہا تھا اور کیوں وہ پروجیکٹ تاریخ کا حصہ بننے والا تھا۔ تفصیل میں بعد میں بتائوں گا۔ اس وقت بس اتنا حوالہ دیتا چلوں کہ میری قوم کے لوگ بڑے قدآور ہوا کرتے تھی، اس ملک پر ہی نہیں آدھی سے زیادہ دنیا پر ان کی حکومت ہوا کرتی تھی، اس ملک کو سونے کی چڑیا اور انہیں مغل شہنشاہوں کے خطاب سے نوازا جاتا تھا پھر وقت نے کروٹ بدلی وہ فرنگیوں کے جال میں پھنس گئی۔ ہوا یہ کہ میرا ملک ان کی گرفت میں آتا گیا میری قوم تباہ ہوتی گئی پھر وہ حکمراں ہوگئی۔ بڑا شاطر دماغ تھا ان کا، وہ جانتے تھے وقت پھر کروٹ بدلے گا اور نئی نسل جب جوان ہوگی تو پھر ہم سے یہ تخت وتاج چھین لیا جائے گا لہٰذا انہوں نے سازش رچی۔ میری قوم کے خلاف اس زمین میں ایسے جراثیم پیوست کردیے کہ میری قوم کے لوگ بونے ہونے لگی، زبان کی تاثیر چلی گئی، لوگ گونگے ہوگئی۔ انہوں نے اپنے حق کی آواز بلند کرنا چھوڑدیا، ان کے حوصلے پست ہوتے چلے گئی، ہمتیں ٹوٹ گئیں، وہ خود کو حقیر اور مجرم گرداننے لگی۔ پھر سیکڑوں سال بعد فرنگی تو چلے گئے مگر ان کے جانشینوں میں بھی ان کی روحیں پیوست ہوگئیں۔ ہمارے تعلق سے ان کا نظریہ بھی ویسا ہی ہوگیا، ہمیں دبایا جاتا رہا، ہماری نسل کشی کی جاتی رہی اور حد تو تب ہوئی جب گجرات میں ہزاروں بے گناہوں کا قتل کردیا گیا، جلیاں والا باغ سے بھی زیادہ دل دہلانے والا منظر تھا جو میری نگاہوں کے سامنے سے گزرا جس کا میں ’’چشم دیدگواہ‘‘ تھا۔ میرے اندر ایک جنون پیدا ہوا، اپنی نسل کے تحفظ کا جنون آنے والی نسلوں کے مستقبل کو سنوارنے کا جنون، ان کے قد کو بلند کرنے کا جنون، ان میں پھر وہی حوصلہ بھر دینے کا جنون، ان کا گونگا پن دور کردینے کا جنون، انہیں ان کی زبان واپس دلانے کا جنون تاکہ وہ بآوازِ بلند کہہ سکیں کہ ہم کسی سے کم نہیں ہیں، یہ ملک ہمارا ہی، ہم مجاہد ہند ہیں، ہم مجرم نہیں ہیں لہٰذا میں جٹ گیا ایک ایسا کیمیا بنانے میں جس کے استعمال سے میری قوم کے لوگوں کا قد بڑھنے لگی، مجھے کامیابی ملی۔ سچ مچ ایسا ہونے لگا۔ ان کے منہ میں زبان آنے لگی، ان کے حو صلے بلند ہونے لگی، میں جس ریاست میں جاتا حالات بدل جاتی، یہ میرے کامیاب دور کی شروعات تھی۔ جس زمین پر قدم رکھ کر فرنگیوں نے اس ملک کو اپنا غلام بنایا تھا میں نے اسی زمین پر فرنگیوں کے ملک سے اپنی قوم کے ایک شخص کو بلا کر اپنی مہم آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ دراصل میں یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ بہت جلد اب میرے قدم ان کے ملک تک بھی پہنچنے والے ہیں، اگر میری قوم کا قد بلند ہونے کی یہ رفتار جاری رہی تو میں اور میری قوم بہت جلد پہلے سے بھی بڑے دائرے میں جاکر حکومت کرنے والے ہیں۔
پھر میں سنتا رہا، اپنی قوم کے دامن پر لگے داغوں کے ہٹنے کے بارے میں پڑھتا اخباروں میں، دیکھتا رہا ٹی وی پر۔ میری دنیا بھی بدل گئی تھی، میری قوم کی تصویر بھی بدل گئی تھی، اس کا قد بلند ہوگیا تھا، اس کے منہ میں زبان آگئی تھی، حکومتیں اس کی محتاج ہوگئی تھیں، میری قوم نے بہت سراہا تھا مجھی، چوراہوں پر میرے بت لگ گئے تھی، پھر آہستہ آہستہ میں ایک گزری ہوئی داستان بن گیا تھا۔ اب میں تاریخ کے اوراق میں تو زندہ تھا مگر جیتے جی مرگیا تھا، لوگ میرے بتوں کو تو پہچانتے تھے پر میرا چہرہ بھول گئے تھی۔
یہ چند سطریں مقصد تھیں، اس افسانہ کے لکھے جانے کی اور اس کے علاوہ جو کچھ تھا وہ قارئین کی دلچسپی پیدا کرنے کے لئی۔ میں نے جس ’کیمیا‘ کا ذکر کیا، دراصل وہ میرا اخبار تھا اور میں جہاں جاتا سے میری مراد یہ تھی کہ جس شہر سے بھی میرا اخبار نکالا جاتا، لوگوں کے منھ میں زبان آجاتی، ان کا قد بڑا ہونے لگتا۔ جس وقت میں نے یہ افسانہ لکھا تھا، اگر میں اسی وقت اپنے اس جذبہ کا اظہار کرتا تو یہ انتہائی مضحکہ خیز نظر آتا۔ مگر آج جب کہ روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو صحافت کی تاریخ میں اپنا ایک مقام حاصل کرچکا ہے اور جن بدلتے حالات کی طرف میں اشارہ کررہا ہوں وہ سب کے سامنے آچکے ہیں، یعنی ہم احساس کمتری کے دائرہ سے باہر نکلتے جارہے ہیں۔ اب ہم اپنے مسائل پر گفتگو کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتی۔ اب ہم سرجھکا کر ناکردہ گناہوں کی سزا پانے کے لئے مجبور نہیں ہیں۔ اب پہلے کی طرح ہمیں تقسیم وطن کا ذمہ دار، فرقہ پرست یا دہشت گرد قرار دے کر اپنے ہی ملک میں پرائے پن کے احساس نہیں دلایا جاتا، مگر یہ کام ابھی ادھورا ہی۔ اسے پورا کرنے کے لئے بہت منظم انداز میں آگے کا راستہ طے کرنا ہوگا۔ میں نے مضامین لکھتے لکھتے اپنے ایک افسانہ کا تذکرہ اس لئے کیا کہ ہمارے ادیب و شعراء اپنی تخلیقات کی معرفت معاشرے کو بیدار کرنے میں انتہائی اہم کردار نبھا سکتے ہیں۔ ہمارے مذہبی رہنماؤں کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے لاکھوں فرزندان توحید کبھی بھی کسی بھی مقام پر یکجا ہوجاتے ہیں۔ یہ ہم نے بارہا دیکھا ہی، لیکن ہمارے پاس ایک ایسے تھنک ٹینک (مفکروں کی جماعت)کی کمی ہی، جو آنے والے سو سال کا منصوبہ ذہن میں رکھتی ہو۔ کسی قوم کی حیثیت کو ختم کردینے یا اس کے باوقار مقام حاصل کرنے کے لئے سو برس بہت بڑی مدت نہیں ہوتی۔ 100برس کی غلامی کے بعد ہم نے 90برس تک یعنی 1857سے 1947تک انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی، تب جاکر ہمارا ملک آزاد ہوا اور انگریزوں نے بھی قدم رکھتے ہی اس ملک پر حکمرانی حاصل نہیں کرلی تھی۔ اسی طرح آج جو ہم بین الاقوامی صورتحال دیکھ رہے ہیں، خواہ عراق کا معاملہ ہو یا مصر اور لیبیا کا، ایسا نہیں ہے کہ اچانک کوئی آواز اٹھی اور اس نے طوفان کی شکل اختیار کرلی۔ دیکھنے سننے میں ضرور ایسا لگتا ہوگا، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہی۔ یہ سب کچھ منصوبہ بند ہی۔ یہ بھی منصوبہ بند تھا کہ اردو کو ہندوستان کی قومی زبان نہ بننے دیا جائی۔ یہ بھی منصوبہ بند تھا کہ ہندی ملک کی قومی زبان قرار دئے جانے کے باوجود بھی پورے ہندوستان کی زبان نہ بن سکی۔ یہ بھی منصوبہ بند تھا کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد بھی انگریزی زبان کی حکمرانی ہم پر قائم رہی۔ میں نے اپنے کل کے مضمون میں عرب ممالک کو تحفظ فراہم کرنے کی بات کہی تھی۔ عرب ممالک کے پاس پیٹرول کی دولت ہی۔ اس دولت کا بہت بڑا حصہ آج ان کے پاس پہنچ رہا ہی، جنہوں نے اپنی عیاری، مکاری اور طاقت کی بنا پر ان ممالک کے حکمرانوں کو اپنے شکنجے میں کس لیا ہے اور اپنے اشاروں پر چلنے کے لئے مجبور کردیا ہی۔ اس دولت کا کچھ حصہ ضرور ان حکمرانوں کے پاس رہتا ہی، لیکن انہیں ایسے راستہ پر چلانے کے لئے ان کی ذہن سازی کر دی جاتی ہے کہ آہستہ آہستہ وہ اپنے عوام سے دور ہوجائیں۔ اپنے محلوں میں اپنی جنت قائم کرلیں۔ اپنے عوام سے ان کا رابطہ ٹوٹ جائی، پھر وہ اپنے ہی لوگوں کی نفرتوں کا شکار بننے لگیں اور ان بدلتے حالات میں پل پل کی خبر ان سازش رچنے والوں کو ملتی رہی۔ وہ عوام کے درمیان ایسے لوگوں کی تلاش شروع کردیں، جنہیں بغاوت کے لئے اکسایاجاسکی۔ حکمرانوں کے نزدیک رہنے والے ایسے لوگوں کی تلاش شروع کردیں، جو بغاوت کا الم بلند کرکے باقی سب کو بغاوت پر آمادہ کرسکیں، نتیجہ ہمارے سامنے ہی۔
ان ممالک کی دولت کا بہت چھوٹا سا حصہ ہم تک بھی پہنچتا ہی۔ ہمارے ان بھائیوں کے ذریعہ جو اپنے اہل خانہ کی محبت میں اپنا گھربار اور ملک چھوڑ کر ذریعۂ معاش کی تلاش میں ان ملکوں تک پہنچتے ہیں۔ یہ بہت تھوڑی سی دولت جو ان کی محنت کی کمائی کی شکل میں ہمارے ملک تک پہنچی ہی، اس سے بھی لاکھوں خاندان فیضیاب ہوتے ہیں اور ان کا طرز زندگی بدلنے لگتا ہی۔ قیاس کریں کہ ان عرب ممالک کے حکمراں اپنے فریبی تحفظ کی جو قیمت ان ملکوں کو ادا کرتے ہیں، جو آہستہ آہستہ ان پر قبضہ کرنے کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، ان کی جگہ اگر ہندوستان لے لے اور اپنے ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے انہیں وہ تحفظ فراہم کردے تو جو دولت آج امریکہ کی معیشت کو مضبوط بنائے ہوئے ہے اور جس کی بنا پر یہ ملک دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہونے کا دم بھرتا ہی، یہ حیثیت ہندوستان کو حاصل ہوسکتی ہی۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین رشتہ بدل سکتے ہیں، عرب ممالک کی دولت اگر ہندوستان کی ترقی اور خوشحالی کے کام آنے لگی، ہم ان ملکوں سے کاروباری رشتہ قائم کرسکیں، انہیں امریکی تسلط سے نجات دلاسکیں، ایک دوست ملک کی طرح ان کی مدد کرسکیں تو یہ دونوں کے مفاد میں ہوگا۔
آج کے مضمون میں اب زیادہ لکھنے کی گنجائش نہیں بچی ہی، لہٰذا اختتام تک پہنچنے سے قبل اس موضوع پر واپس لوٹنا ضروری ہی، جس کے لئے اپنے ایک افسانہ کا حوالہ دیا تھا۔ دراصل میں روزنامہ راشٹریہ سہاراکے ان صفحات کو ایک ایسیکیمیا کی شکل میں ہندوستان کے گوشہ گوشہ تک پہنچا دینا چاہتا ہوں، اس لئے کہ سیکڑوں برسوں تک چلنے والی جس سازش نے ہم سے ہماری زبان چھین لی، ہمارے بلند قد کو پستہ قد میں بدل دیا، ہمارے حوصلوں کو توڑ دیا، ہمیں سر جھکا کر جینے کے لئے مجبور کردیا، ہم اس کیمیا کی معرفت پھر وہ مقام حاصل کرسکیں، جو کبھی ہمارا تھا اور جس کے کہ ہم مستحق ہیں۔ اس لئے کہ شہیدان وطن کی فہرست میں آج بھی وہ نام سنہری حرفوں میں درج ہیں، جو ہمیں یہ کہنے اور لکھنے کا حق فراہم کرتے ہیں۔ ایک آخری بات ’تھنک ٹینک‘ کے حوالہ سی۔ اس موضوع پر تفصیل سے لکھے جانے کی ضرورت ہے اور قوم کے ذریعہ غور کئے جانے کی بھی، اس لئے کہ اب وقت آگیا ہے کہ جب الگ الگ شعبوں سے تعلق رکھنے والے تمام باصلاحیت افراد کو یکجا کرکے ایک ایسی حکمت عملی بنائی جائی، جو جسٹس راجندر سچر کی رپورٹ کے مطابق آج ملک کی سب سے پسماندہ قوم کی تقدیر بدل سکی۔ کیا آپ ارادہ رکھتے ہیں اس تصور کو حقیقت میں بدلنے کا؟
………

‘मेरी आंखों में तुम्हारे ख़्वाब हैं’
अज़ीज़ बर्नी

जब हमारे ख़्वाब अधूरे रह जाते हैं और लगता है कि अब ज़िंदगी की शाम होने लगी है..... तो दिल में इच्छाएं जन्म लेने लगती हैं। कभी हम कल्पना में तो कभी सपनों में उन इच्छाओं को वास्तविकता में ढलता हुआ देखने लगते हैं। फिर अगर यह सपना देखने वाला व्यक्ति अगर साहित्यकार, शायर या अफ़सानानिगार भी है तो अपनी रचना में उन अधूरी इच्छाओं को इस तरह प्रस्तुत करता है कि यह उसके अपने दिल के लिए भी संतुष्टि का कारण बन जाती हैं और वह अपनी इस कला के माध्यम से आने वाली पीढ़ियों को कोई संदेश भी दे जाता है। एक पत्रकार तथा सम्पादक के रूप में पहचान है मेरी, परंतु न जाने क्यों मुझे लगता है कि आने वाली पीढ़ी मुझे मेरी कहानियों और उपन्यासों के लिए याद रखेगी। इसका कारण यह है कि पत्रकारिता के अपने दायरे हैं, सम्पादक की कुछ अपनी ज़िम्मेदारियां हैं। एक लेखक को क़लम उठाने से पूर्व बहुत सी पाबंदियों का ध्यान रखना होता है, लेकिन साहित्य का दायरा बहुत विस्तृत है इस कला में बड़ी सम्भावनाएं हैं आप जो कहना चाहते हैं, वह बड़ी सुंदरता से कह सकते हैं, इसलिए कि आप अपनी साहित्यक रचना के एक-एक शब्द पर सच होने का दावा कभी नहीं करते। यह निर्णय पाठकों के विवेक पर छोड़ देते हैं कि वह उसे किस हद तक हक़ीक़त पर आधारित मानंे और किस हद तक साहित्यकार अथवा शायर की कल्पना। मैंने कुछ अफ़साने और नाविल लिखे हैं। उनमें से कुछ रचनाएं ऐसी भी हैं, जिनमें मेरे अधूरे सपनों का संकेत है, मेरी दबी छुपी इच्छाओं का इज़हार है। ‘‘शाहकार’’ मेरा एक ऐसा ही अफ़साना था। अब से कुछ वर्ष पूर्व जब मैंने यह अफ़साना लिखा था तो यह सब कुछ मात्र एक कल्पना थी, जो बाद में बहुत हद तक हक़ीक़त में बदलती नज़र आई। दिल चाहता है कि मैं उस अफ़साने के कुछ अंश अपने पाठकों की सेवा में प्रस्तुत करके आज का लेख आरंभ करूं। फिर यह वज़ाहत भी कि आख़िर उस समय जब मैं यह अफ़साना लिख रहा था तो इस के माध्यम से क्या कहना चाहता था और आज जब इसे अपने लेख का हिस्सा बना रहा हूं तो इस समय क्या कहना चाहता हूं। लिहाज़ा पहले मुलाहिज़ा फरमाएं यह अंश और उसके बाद आज के लेख का तसलसुल।
‘‘आख़िर वह क्या प्रोजेक्ट था जिस पर मैं काम कर रहा था और क्यों वह प्रोजेक्ट इतिहास का अंश बनने वाला था। विवरण मैं बाद में बताऊंगा। इस समय बस इतना उल्लेख करता चलूं कि मेरी क़ौम के लोग बड़े क़द्दावर हुआ करते थे, इस देश पर ही नहीं आधी से अधिक दुनिया पर उनका शासन हुआ करता था, इस देश को सोने की चिड़िया और उन्हें मुग़ल शहनशाहों की उपाधि से नवाज़ा जाता था। फिर समय ने करवट बदली वह फ़िरंगियों के जाल में फंस गए। हुआ यह कि मेरा देश उनकी गिरफ़्त में आता गया मेरी क़ौम तबाह होती गई, फिर वह शासक हो गए। बड़ा शातिर दिमाग़ था उनका वह जानते थे समय फिर करवट बदलेगा और नई पीढ़ी जब जवान होगी तो फिर हम से यह तख़्त-व-ताज छीन लिया जाएगा। इसलिए उन्होंने साज़िश रची। मेरी क़ौम के विरुद्ध इस धरती में ऐसे कीटाणु शामिल कर दिए कि मेरी क़ौम के लोग बौने होने लगे, ज़ुबान की तासीर चली गई, लोग गूंगे हो गए। उन्होनंे अपने हक़ की आवाज़ बुलंद करना छोड़ दिया। उनके हौसले पस्त होते चले गए, हिम्मतें टूट गईं, वह स्वयं छोटा और अपराधी समझने लगे। फिर सैकड़ों वर्ष बाद फ़िरंगी तो चले गए परंतु उनके उत्तराधिकारियों में भी उनकी आत्माएं विलीन हो गईं। हमारे बारे में उनका दृष्टिकोण भी वैसा ही हो गया, हमें दबाया जाता रहा। हमारी नस्लकुशी की जाती रही और हद तो तब हुई जब गुजरात में हज़ारों बेगुनाहों की हत्या कर दी गई, जलयांवाला बाग़ से भी अधिक दिल दहला देने वाला दृश्य था जो मेरी निगाहों के सामने से गुज़रा जिसका मैं ‘‘चश्मदीद गवाह’’ था। मेरे अंदर एक जुनून पैदा हुआ अपनी क़ौम की सुरक्षा का जुनून, आने वाली नस्लों के भविष्य को संवारने का जुनून, उनके क़द को ऊंचा करने का जुनून, उनमें फिर वही उत्साह भर देने का जुनून, उनका गूंगापन दूर करने का जुनून, उन्हें उनकी ज़ुबान वापस दिलाने का जुनून ताकि वह ऊंची आवाज़ में कह सकें कि हम किसी से कम नहीं हैं, यह देश हमारा है, हम भारत के सेनानी हैं, हम अपराधी नहीं हैं। लिहाज़ा मैं जुट गया एक ऐसी कीमिया बनाने में जिसके प्रयोग से मेरी क़ौम के लोगों के क़द बढ़ने लगे, मुझे सफलता मिली। सचमुच ऐसा होने लगा उनके मुंह में ज़ुबान आने लगी, उनके हौसले बुलंद होने लगे, मैं जिस राज्य में जाता हालात बदल जाते, यह मेरे सफल दौर की शुरूआत थी। जिस धरती पर क़दम रख कर फ़िरंगियों ने इस देश को अपना ग़्ाुलाम बनाया था, मैंने इसी धरती पर फ़िरंगियों के देश से अपनी क़ौम के एक व्यक्ति को बुलाकर अपना अभियान आगे बढ़ाने का फ़ैसला किया। दरअसल मैं यह संदेश देना चाहता था कि अतिशीघ्र अब मेरे क़दम उनके देश तक भी पहुंचने वाले हैं, अगर मेरी क़ौम का क़द बुलंद होने की यह रफ़्तार जारी रही तो मैं और मेरी क़ौम बहुत जल्द पहले से भी बड़े दायरे में जाकर शासन करने वाली है।
फिर मैं सुनता रहा, अपनी क़ौम के दामन पर लगे दाग़ों के हटने के बारे में पढ़ता रहा, अख़्बारों में देखता रहा, टीवी पर। मेरी दुनिया भी बदल गई थी, मेरी क़ौम की तस्वीर भी बदल गई थी, उसका क़द बुलंद हो गया था, उसके मुंह में ज़्ाुबान आ गई थी, सरकारें उसकी मोहताज हो गई थीं, मेरी क़ौम ने बहुत सराहा था मुझे, चैराहों पर मेरे बुत लग गए थे, फिर धीरे-धीरे मैं एक बीती हुई दास्तान बन गया था अब मैं इतिहास के पन्नों में तो जीवित था परंतु जीते जी मर गया था, लोग मेरे बुतों को तो पहचानते थे पर मेरा चेहरा भूल गए थे।
यह कुछ पंक्तियां उद्देश्य थीं, इस अफ़साने के लिखे जाने का और उसके अलावा जो कुछ था वह पाठकों की रुचि पैदा करने के लिए। मैंने जिस कीमिया की चर्चा की, दरअसल वह मेरा अख़बार था और मैं जहां जाता से मेरा तातपर्य यह था कि जिस शहर से भी मेरा अख़्बार निकाला जाता, लोगों के मुंह में ज़्ाुबान आ जाती, उनका क़द बड़ा होने लगता। जिस समय मैंने यह अफ़साना लिखा था अगर मैं उसी समय अपनी इस भावना को व्यक्त करता तो यह अत्यंत हास्यहासपद नज़र आता। परंतु आज जबकि रोज़नामा राष्ट्रीय सहारा उर्दू पत्रकारिता के इतिहास में अपना एक स्थान प्राप्त कर चुका है और जिन बदलती परिस्थितियों की ओर मैं इशारा कर रहा हूं वह सबके सामने आ चुकी हैं अर्थात हम हीनभावना के दायरे से बाहर निकलते जा रहे हैं। अब हम अपनी समस्याओं पर गुफ़्तुगू करने में झिझक महसूस नहीं करते। अब हम सिर झुकाकर नाकरदा गुनाहों की सज़ा पाने के लिए मजबूर नहीं हैं। अब पहले की तरह हमें देश के विभाजन का ज़िम्मेदार, साम्प्रदायिक या आतंकवादी ठहराकर अपने ही देश में पराएपन का एहसास नहीं दिलाया जाता परंतु यह काम अभी अधूरा है। इसे पूरा करने के लिए बहुत ही संगठितरूप में आगे का रास्ता तय करना होगा। मैंने लेख लिखते-लिखते अपने एक अफ़साने की चर्चा इसलिए की कि हमारे साहित्यकार और शायर अपनी रचनाओं द्वारा समाज को जागरुक करने में अत्यंत महत्वपूर्ण भूमिका निभा सकते हैं। हमारे धार्मिक नेताओं की एक आवाज़ पर लब्बैक कहते हुए लाखों लोग कभी भी किसी भी स्थान पर एकत्र हो जाते हैं, यह हमने बार-बार देखा है। लेकिन हमारे पास एक ऐसे थिंक टैंक (चिंतकांे का समूह) की कमी है, जो आने वाले सौ वर्षों की योजना ज़हन में रखता हो, किसी क़ौम की हैसियत को समाप्त कर देने या उसके गौरवपूर्ण स्थान को प्राप्त करने के लिए सौ वर्ष बहुत बड़ी अवधि नहीं होती। सौ वर्ष की ग़्ाुलामी के बाद हमने 90 वर्ष तक अर्थात 1857 से 1947 तक अंग्रेज़ों के विरुद्ध जंग लड़ी, तब जाकर हमारा देश आज़ाद हुआ और अंग्रेज़ों ने भी पाँव रखते ही इस देश पर सत्ता प्राप्त नहीं कर ली थी इसी तरह आज जो हम अंतर्राष्ट्रीय परिस्थितियां पर देख रहे हैं, वह इराक़ का मामला हो या मिस्र और लीबिया का, ऐसा नहीं है कि अचानक कोई आवाज़ उठी और उसने तूफ़ान का रूप धारण कर लिया। देखने-सुनने में ज़रूर ऐसा लगता होगा परंतु वास्तव में ऐसा नहीं है। यह सब कुछ योजनाबद्ध है। यह भी योजनाबद्ध था कि उर्दू को भारत की राष्ट्रीय भाषा न बनने दिया जाए। यह भी योजनाबद्ध था कि हिंदी देश की राष्ट्र भाषा घोषित किए जाने के बावजूद भी पूरे भारत की भाषा न बन सके। यह भी योजनाबद्ध था कि अंग्रेज़ों के चले जाने के बाद भी अंग्रेज़ी भाषा का शासन हम पर क़ायम रहे। मैंने अपने कल के लेख मे अरब देशों को सुरक्षा उपलब्ध करान की बात कही थी। अरब देशों के पास पैट्रोल की दौलत है। इस दौलत का बहुत बड़ा हिस्सा उनके पास पहुंच रहा है, जिन्होंने अपने छल तथा मक्कारी और ताक़त के आधार पर उन देशों के शासकों को अपने शिकंजे में कस लिया है और अपने इशारों पर चलने के लिए मजबूर कर दिया है। इस दौलत का कुछ हिस्सा ज़रूर उन शासकों के पास रहता है लेकिन उन्हें ऐसे रास्ते पर चलाने के लिए उनका ज़हन तैयार कर दिया जाता है कि धीरे-धीरे वह अपनी जनता से दूर हो जाएं। अपने महलों में अपनी जन्नत क़ायम कर लें। अपनी जनता से उनका सम्पर्क टूट जाए, फिर वह अपने ही लोगों की घृणा का शिकार बनने लगें और इन बदलती परिस्थितियों में पल-पल की ख़बर उन षड़यंत्र रचने वालों को मिलती रहे। वह जनता के बीच ऐसे लोगों की तलाश शुरू कर दें, जिन्हें विद्रोह के लिए उकसाया जा सके। शासकों के नज़दीक रहने वाले ऐसे लोगों की तलाश शुरू कर दें जो विद्रोह का झंडा उठाकर बाक़ी सबको उकसा सकें। परिणाम हमारे सामने है।
उन देशों की दौलत का बहुत छोटा हिस्सा हम तक भी पहुंचता है। हमारे उन भाइयों द्वारा जो अपने परिवार की मुहब्बत में अपना घर बार और देश छोड़ कर रोटी-रोज़ी की तलाश में इन देशों तक पहुंचते हैं। यह बहुत थोड़ी सी दौलत जो उनकी मेहनत की कमाई के रूप में हमारे देश तक पहुंचती है, उससे भी लाखों परिवार लाभान्वित होते हैं और उनकी जीवनशैली बदलने लगती है। कल्पना करें कि उन अरब देशों के शासक अपनी दिखावे की सुरक्षा की जो क़ीमत उन देशों को अदा करते हैं, जो धीरे-धीरे उन पर क़ब्ज़ा करने की दिशा में आगे बढ़ रहे हैं, उनका स्थान अगर भारत ले ले और अपने देश की दूसरी सबसे बड़ी बहुसंख्यक आबादी की भावनाओं का ध्यान रखते हुए उन्हें सुरक्षा प्रदान कर दे तो जो दौलत आज अमेरिकी अर्थव्यवस्था को शक्तिशाली बनाए हुए है और जिसके आधार पर यह देश दुनिया की सबसे बड़ी शक्ति होने का दम भरता है, यह हैसियत भारत को प्राप्त हो सकती है। हिंदुओं और मुसलमानों के बीच रिश्ते बदल सकते हैं, अरब देशों की दौलत अगर भारत के विकास और उन्नति के काम आने लगे, हम उन देशों से व्यापारिक संबंध स्थापित कर सकें, उन्हें अमेरिकी क़ब्ज़े से छुटकारा दिला सकें, एक मित्र देश की तरह उनकी मदद कर सकें तो यह दोनों के हित में होगा।
आजके लेख में अब अधिक लिखने की गुंजाइश नहीं बची है, इसलिए समाप्ति तक पहुंचने से पूर्व उस विषय पर वापस लौटना ज़रूरी है, जिसके लिए अपने एक अफ़साने का हवाला दिया था। दरअसल मैं रोज़नामा राष्ट्रीय सहारा के इन पृष्ठों को एक ऐसी कीमिया के रूप में भारत के कोने-कोने तक पहुंचा देना चाहता हूं, इसलिए कि सैकड़ों वर्षों तक चलने वाले जिस षड़यंत्र ने हमसे हमारी ज़्ाुबान छीन ली, हमारे ऊंचे क़द को बौने क़द में बदल दिया, हमारे उत्साह को तोड़ दिया, हमें सिर झुकार जीने के लिए मजबूर कर दिया, हम इस कीमिया के माध्यम से फिर वह स्थान प्राप्त कर सकें, जो कभी हमारा था और जिसके हम हक़दार हैं। इसलिए कि वतन के शहीदों की सूचि में आज भी वह नाम सुनहरे अक्षरों में दर्ज हैं जो हमें यह कहने और लिखने का अधिकार उपलब्ध कराते हैं। एक आख़री बात ‘थिंक टैंक’ के हवाले से। इस विषय पर विस्तार से लिखे जाने की आवश्यकता है और क़ौम द्वारा विचार किए जाने के भी, इसलिए कि अब समय आ गया है कि जब अलग-अलग क्षेत्रों से संबंध रखने वाले सभी योग्य व्यक्तियों को एकत्रित करके एक ऐसी रणनीति बना ली जाए, जो जस्टिस राजेंद्र सच्चर की रिपोर्ट के अनुसार आज देश की सबसे पिछड़ी क़ौम की तक़दीर बदल सके, क्या आप इरादा रखते हैं इस कल्पना को वास्तविकता में बदलने का?
..................................

متحد ہوجاؤ!قبل اس کے کہ یہ آگ اپنے دامن تک پہنچی

عزیز برنی

سرزمین ہند پر امام حرم کی آمد یقینا ایک مبارک قدم ہی۔ ان کے اس تین روزہ دورہ میں جو ہیجانی کیفیت اور جذبۂ ایمانی دیکھنے کو ملا، اس نے مکہ مدینہ کی یاد تازہ کردی۔ گوکہ وہ ہمارے درمیان سے واپس تشریف لے جاچکے ہیں، مگر آج بھی فضاؤں میں ان کی آمد کی خوشبو محسوس کی جاسکتی ہی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ رسول اکرم حضرت محمد مصطفی ؐ کی آمد نے سرزمین عرب پر جو رحمتوں کی بارش کی تھی، کیا ہندوستان میں اس مقدس سرزمین سے تشریف لانے والے امام حرم قبلہ محترم فضیلتہ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس کی آمد کوئی ایسا اثر چھوڑے گی، جو اس زمین پر رہنے والوں کی تقدیر بدل دی۔ اگر یہاں بالخصوص مسلمانوں کا تذکرہ کیا جائے تو بے محل نہیں ہوگا، اس لئے کہ ان کی جو عقیدت اس دوران دیکھنے کو ملی، وہ یقینا یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ امام حرم کے اس دورہ سے ضرور فیضیاب ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اگر یہ صفیں اتحاد کی شکل میں دیکھنے کو مل جائیں تو کیا کہنی، اس لئے کہ ہماری صفوں میں اتحاد کی کمی آج ہماری کامیابی کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی۔ اگر ان مبارک قدموں کی برکت ہمیں اتحاد کی راہ پر لے چلے تو بہت سے مسائل کا حل دیکھنے کو مل سکتا ہی۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس قیادت کی کمی ہی۔ مذہب کی بات ہو یا سیاست کی، ہمارے پاس قائدین کی کمی نہیں ہی، مگر ان میں سے کون قومی سطح پر ہم سب کی رہنمائی کرسکے یہ سوال آج بھی اپنی جگہ قائم ہی۔سیاسی قیادت کے بغیر بہت سے مسائل کا حل مشکل نظر آتا ہی۔ مذہبی بیداری کی ضرورت ہر قدم پر ہی، مگر قومی و بین الاقوامی سطح پر ہمیں جن مسائل کا سامنا ہی، اس کی راہ بھی نکالنا ہوگی۔ میں نے کل کے مضمون میں لیبیا کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے مسلم ممالک کو درپیش مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ کس طرح یکے بعد دیگرے یہ ملک صہیونی طاقتوں کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں، یہ جاننے کے لئے ہمیں اب تاریخ کے دامن میں جھانک کر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہی۔ اگر چند برسوں کے کربناک حالات پر بھی ہم نظر ڈالیں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کتنی تیزی سے اسلامی ممالک صلیبی طاقتوں کے سامنے سرنگوں ہونے کے لئے مجبور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ امام حرم نے ہندوستان آمد کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرزمین عرب کے بعد یہ پہلا موقع ہی، جب مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو خطاب کرنے کا موقع پارہا ہوں، لہٰذا ہمیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ بیشک ہندوستان اسلامی ملک نہ ہو، مگر ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی آواز آج پوری دنیا میں سنی جاتی ہے اور ان کی اجتماعی طاقت اگر کوئی فیصلہ لے لے تو یہ آواز تاریخ بدل سکتی ہی۔ آج لیبیا کو بچانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر صہیونی طاقتوں کے قدموں کو اسی وقت نہ روک دیا گیا تو جس تیزی سے یہ اسلامی ممالک اور مسلمانوں کو نشانہ بناتے چلے جارہے ہیں، شاید دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں بچے گا، جہاں مسلمانوں پر ان کا عتاب نازل نہ ہو۔ ہمیں کیوں یہ انتظار رہتا ہے کہ جب کوئی مخالف طاقت ہم پر حملہ آور ہوگی، ہمیں جنگ کا سامنا ہوگا، تبھی ہم بیدار ہوں گی، متحد ہوں گی۔ کیا آج بھی ہمیں یہ سمجھ لینے میں کوئی قباحت ہے کہ یہ اسلام دشمن طاقتیں ہر ملک کے مسلمانوں کی تباہی کے لئے ایک الگ حکمت عملی رکھتی ہیں۔ مسلم ممالک کے عوام کو کبھی تاناشاہی کا خوف دکھا کر اور کبھی دہشت گردی میں ملوث بتاکر ان پر براہِ راست حملہ کیا جاتا ہے تو ہندوستان اور پاکستان جیسے ملکوں کے لئے الگ حکمت عملی پائی جاتی ہی۔ ہندوستان میں دہشت گردی بہت جلد مذہبی رنگ لے لیتی ہی، لہٰذا ہمارے ملک میں جب جب دہشت گردانہ حملہ ہوتے ہیں، انہیں مذہبی چشمہ سے دیکھنے والوں کی بھی کمی نہیں ہوتی۔ ہم تمام دہشت گردوں میں کبھی سادھوی پرگیہ سنگھ تو دوسرے مفتی ابوالبشر کا چہرہ دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ ہم نے اس دہشت گردی کو ایک دوسرے کے خلاف سازش کے معاملوں میں دیکھنا شروع کردیا ہی۔ نتیجہ اصل مجرم ہماری گرفت میں آتے آتے رہ جاتے ہیں۔ کبھی وہ ہمیں فریب دے کر بھاگ جاتے ہیں اور کبھی ہمیں ان کے فریب کا اندازہ ان کے چلے جانے کے بہت بعد میں ہوتا ہی۔ امریکی شہری کین ہے ووڈ کی حرکتوں کا اندازہ ہمیں اسی وقت ہوگیا تھا، جب ہندوستان کے مختلف شہروں میں بم دھماکے ہورہے تھے اور وہ ہمارے ملک میں تھا، لیکن ہم اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے ذریعہ پھیلائی گئی تباہی کی داستان اس سے کہیں زیادہ طویل ہی۔ وہ امریکی پاسپورٹ پر ایک بدلے ہوئے نام اور شہریت کے ساتھ مسلسل ہندوستان اور پاکستان کا سفر کرتا رہا۔ تباہی کے جال بچھاتا رہا، ہم انجان رہے اور جب یہ راز سامنے آیا، تب ہم اس حد تک بے بس اور لاچار تھے کہ بار بار کی کوششوں کے باوجود بھی ہم اپنے مجرم کو اپنے ملک کی سرحدوں میں لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ ان دہشت گردانہ حملوں نے صرف ہمارے ملک میں پے درپے تباہی کا عالم ہی پیدا نہیں کیا، بلکہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان ایک بڑی خلیج بھی پیدا کی۔ بیشک مبارکباد کے مستحق ہیں ہندوستان کے ہندو اور مسلمان، جنہوں نے اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ بیشک ہم پوری طرح بم دھماکوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوئی، لیکن انہیں اس حد تک مذہبی رنگ بھی نہیں دیا جاسکا کہ ملک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہوتا۔ ادھر دو ڈھائی برس کے عرصہ میں ہمیں بہت حد تک اس دہشت گردی پر قابو پانے میں کامیابی ملی ہی، مگر ابھی بھی پوری طرح مطمئن نہیں ہوا جاسکتا۔ ہمیں تمام واقعات کی تہہ تک پہنچ کر ان اصل چہروں کو بے نقاب کرنا ہوگا، یہ دہشت گردی جن کے دماغوں کی اُپج ہی، ان کی ہندمخالف سرگرمیوں کی حکمت عملی کیا ہی۔ اس پر غور کرنا ہوگا،صرف ان ناموں اور چہروں کو دیکھنا ہی کافی نہیں ہوگا، جو ان میں ملوث ہیں یا ملوث نظر آتے ہیں۔ پس پردہ کیا ہے یہ جاننا بھی ضروری ہی۔
پاکستان میں دہشت گردی کو مذہبی رنگ نہیں دیا جاسکتا۔ باوجود اس کے کہ طالبان اور لشکرطیبہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں پاکستان کی تباہی کی ایک بڑی وجہ بن گئی ہیں۔ اس کے پیچھے کیا ’ریمنڈڈیوس‘ جیسے امریکی سفارتکاروں کا بھی کوئی رول ہے یا صرف یہ پاکستان کے پروردہ وہ دہشت گرد ہیں، جنہیں ماضی میں ہندوستان کے خلاف استعمال کرنے کی نیت سے پروان چڑھنے کا موقع فراہم کیا گیا اور اب وہ آستین کا سانپ بن بیٹھے ہیں۔
9میں نے آج کے مضمون کی شروعات کی تھی امام حرم کی ہندوستان تشریف آوری سے اور میں آج کے اپنے مضمون کا موضوع بس یہی رکھنا چاہتا ہوں۔ مذکورہ بالا سطروں میں دیگر ممالک کاتذکرہ اس لئے کیا کہ اگر ہم متحد ہوجائیں تو نہ صرف ہندوستان میں اپنے حالات کو بہتر بناسکتے ہیں، بلکہ عرب ممالک جو یکے بعد دیگرے صہیونی طاقتوں کی گرفت میں آتے چلے جارہے ہیں، اس سے بھی انہیں نجات دلا سکتے ہیں، اس لئے کہ گنتی کے اعتبار سے مسلم ممالک کی تعداد بہت زیادہ سہی، مگر مسلم آبادی کے اعتبار سے ہندوستان کا مسلمان درجنوں مسلم ممالک کی مجموعی آبادی سے کہیں زیادہ ہے اور اس کا جمہوری نظام اسے ان مسلم ممالک کے باشندوں سے کہیں زیادہ حقوق فراہم کرتا ہی۔ اسلام مخالف طاقتوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی اجازت دیتا ہی۔ مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ چاہ کر بھی عرب ممالک کے عوام مصر، لیبیا اور بحرین کے حق میں آواز بلند نہیں کرسکتی۔ انہیں اپنے ملک کے حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنے حکمراں کی منشا کے خلاف ایک قدم بھی آگے بڑھ سکیں اور ان کے حکمراں کس حد تک امریکی مفادات کا خیال رکھتے ہیں، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہی۔ ہوسکتا ہے ان کی اپنی یہ مجبوریاں بھی ہوں کہ وہ اپنی اور اپنے ملک کی عافیت اسی میں محسوس کرتے ہوں کہ انتہائی خاموشی کے ساتھ بڑی طاقتوں کی رضا میں اپنی رضا سمجھ لی جائی۔ اس لئے کہ کون دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے ساتھ ٹکرانے کی ہمت کری، وہ بھی تب جب کہ انہوں نے حال ہی میں صدام حسین اور حسنی مبارک کا حشر دیکھ لیا ہو اور لیبیا کے صدر کرنل قذافی کا حشر دیکھ رہے ہوں، لیکن ہم ہندوستان کے مسلمان ان معنوں میں ان سب سے زیادہ خوش نصیب ہیں اور ایک حد تک یہ بھی اطمینان کی بات کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے بعض حکمراں بھلے ہی امریکہ کے تئیں دل میں نرم گوشہ رکھتے ہوں، مگر وہ عرب ممالک کے حکمرانوں کی طرح ان کی مرضی کے غلام نہیں ہیں۔ اس درمیان مختلف سیاسی حلقوں سے لیبیا کی حمایت میں آوازوں کا اٹھنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ عرب ممالک میں امریکی مداخلت کو لے کر خوش نہیں ہیں اور اس بیجا مداخلت کو ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ایسے میں جب ہندوستان کا مسلمان تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کو محبوب ہے اور وہ اس کے جذبات کا خیال رکھنا چاہتے ہیں، میں داخلی مسائل کی بات نہیں کررہا ہوں، میں ان بین الاقوامی مسائل پر بات کررہا ہوں، جن کو سامنے رکھ کر یہ چند سطریں لکھی جارہی ہیں۔ ایسے میں اگر ہم متحد ہوکر لیبیا کے حق میں آواز بلند کریں تو ہمیں پوری امید ہے کہ تقریباً تمام سیکولر سیاسی جماعتوں کی ہمیں بھرپور حمایت حاصل ہوگی اور وہ جنہیں ہم سیکولر نہیں مانتی، لہٰذا اس زمرے میں انہیں شامل نہیں کیا گیا۔ کم از کم ان سے بھی یہ امید تو قطعاً نہیں ہے کہ وہ امریکہ کی حمایت میں آواز بلند کریں گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم میں سے وہ تمام مذہبی اور سماجی تنظیمیں جن کی زبان پر لبیک کہتے ہوئے لاکھوں مسلمان اکٹھا ہوجاتے ہیں، کیا ایسے مسائل میں بھی دلچسپی لیں گی، کوئی تحریک چلائیں گی۔ میں پھر یہ عرض کردینا چاہوں گا کہ آج اگر وہ لیبیا کے حق میں کوئی تحریک چلانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اسے صرف لیبیا کے حق میں نہ سمجھا جائی، بلکہ اسے اپنے حق میں بھی سمجھا جائی۔ اس لئے کہ اسلام مخالف طاقتوں کا نشانہ تمام عالم اسلام اور تمام مسلمان ہیں، جس میں آپ، ہم، سب شامل ہیں۔ بات صدام حسین کی ہو یا کرنل قذافی کی، امریکی میڈیا ایسے موقعوں پر ان کی بیشمار دولت اور ان کے ذریعہ کئے جانے والے مظالم کو بڑھا چڑھا کر بتانا اور دکھانا شروع کردیتا ہی، تاکہ ساری دنیا کی ذہن سازی کی جاسکے کہ جن ملکوں میں بھی ان کے سربراہان کے خلاف آواز بلند کی جارہی ہی، اس کی وجہ ان کی تاناشاہی اور بیشمار دولت کا جمع کرلینا ہی۔ میں یہاں کسی کا نام نہیں لکھنا چاہتا، اس لئے کہ بدعنوانیوں میں ملوث تمام افراد کی فہرست کو شامل کرنا اس وقت میرے لئے ممکن نہیں ہی، تاہم یہ اشارہ کیا کم ہے کہ کرنل قذافی جو1برس تک ایک ایسے ملک کا حکمراں رہا، جو پیٹرول کی دولت سے مالامال ہی۔ اس کے پاس اس طویل حکمرانی کی مدت میں جتنی دولت ملی، اتنی تو ہم تازہ تازہ کچھ گمنام سے چہروں کے منظرعام پر آنے کے بعد بھی دیکھتے ہیں۔ میں کسی کو الزام سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش نہیں کررہا ہوں، عرض صرف اتنا کردینا چاہتا ہوں کہ اگر کسی نے اپنے ملک کے عوام کے ساتھ انصاف نہیں کیا تو اسے اقتدار سے ہٹانے کا یا سزا دینے کا کام اس ملک کے عوام کا ہی۔ اگر کوئی حکمراں بدعنوانی میں ملوث ہے تو اس کو سزا دینے کی ذمہ داری اس ملک کی عدالت کی ہی۔ اگر ہم نے اپنے اوپر غیرملکی طاقتوں کو اس درجہ حاوی کرلیا کہ وہ جب چاہیں جس کے آنگن میں کود کر اس کی گردن پکڑنے کا حق حاصل کرلیں تو پھر ان کی گرفت سے کس کی گردن بچے گی؟ قبل اس کے کہ یہ آگ ہمارے دامن تک پہنچی، ہمیں دامن پھیلا کر اتحاد کی بھیک مانگنی ہوگی، تمام اختلافات کو بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہونا ہوگا، آج لیبیا کے حق میں اور کل اپنے مسائل کے حل کی جدوجہد میں، ورنہ آج لیبیا نہیں بچے گا اور کل ہم نہیں بچیں گے

एकजुट हो जाओ! इससे पूर्व कि यह आग अपने दामन तक पहुंचे!
अज़ीज़ बर्नी

भारत की धरती पर इमाम-ए-हरम का आगमन निश्चितरूप से एक मुबारक क़दम है। उनकी तीन दिवसीय यात्रा में जो भावनात्मक व धार्मिक उत्साह देखने को मिला, उसने मक्का-मदीना की याद ताज़ा कर दी। गोकि वह हमारे बीच से वापस जा चुके हैं, परंतु आज भी वातावरण में उनके आगमन की ख़ुशबू महसूस की जा सकती है। अब देखना यह है कि रसूल-ए-अकरम हज़रत मुहम्मद मुस्तफ़ा सल्ल॰ अ॰व॰ के आगमन ने अरब की धरती पर जो रहमतों की बारिश की थी, क्या भारत में उस पवित्र धरती से आने वाले इमाम-ए-हरम क़िबला मोहतरम फ़ज़ीलतुश्शैख़ डा॰ अब्दुर्रहमान अस्सुदैस का आगमन कोई ऐसा प्रभाव छोड़ेगा, जो इस धरती पर रहने वालों की तक़दीर बदल दे। अगर यहां विशेषरूप से मुसलमानों की चर्चा की जाए तो अनुचित नहीं होगा, इसलिए कि उनकी जो आस्था इस बीच देखने को मिली, वह निश्चितरूप से यह एहसास दिलाती है कि वह इमाम-ए-हरम की इस यात्रा से अवश्य फ़ैज़याब होने का इरादा रखते हैं और अगर यह फ़ैज़ एकजुटता के रूप में देखने को मिल जाए तो क्या कहने इसलिए कि हमारी पंक्तियों में एकजुटता की कमी आज हमारी सफलता की राह में सबसे बड़ी रुकावट है। अगर इन मुबारक क़दमों की बरकत हमें एकजुटता की राह पर ले चले तो बहुत सी समस्याओं का हल देखने को मिल सकता है। ऐसा नहीं है कि हमारे पास नेतृत्व की कमी है। धर्म की बात हो या राजनीति की, हमारे पास नेताओं की कमी नहीं है, परंतु उनमें से कौन राष्ट्रीय स्तर पर हम सबका मार्गदर्शन कर सके, यह प्रश्न आज भी अपनी जगह बना हुआ है। राजनीतिक नेतृत्व के बिना बहुत सी समस्याओं का हल कठिन नज़र आता हैं। धार्मिक जागरुकता की आवश्यकता हर क़दम पर है, परंतु राष्ट्रीय तथा अन्तरराष्ट्रीय स्तर पर हमें जिन समस्याओं का सामना है उसका रास्ता भी हमें निकालना होगा। मैंने कल के लेख में लीबिया की परिस्थितियों का उल्लेख करते हुए मुस्लिम देशों को दरपेश समस्याओं की समीक्षा करने का प्रयास किया था कि किस प्रकार एक के बाद दूसरा देश सैहूनी ताक़तों का शिकार होता चला जा रहा है, यह जानने के लिए हमें अब इतिहास के दामन में झांक कर देखने की आवश्यकता नहीं है। अगर कुछ वर्षों के पीड़ादायक हालात पर भी हम नज़र डालें तो अंदाज़ा किया जा सकता है कि कितनी तेज़ी से इस्लामी देश सलीबी ताक़तों के सामने सर झुकाने के लिए मजबूर होते चले जा रहे हैं। इमाम-ए-हरम ने भारत आगमन के बाद अपने विचार व्यक्त करते हुए कहा कि अरब की धरती के बाद यह पहला अवसर है, जब मुसलमानों की इतनी बड़ी संख्या को सम्बोधित करने का अवसर पा रहा हूं। इसलिए हमें इस बात को अच्छी तरह समझ लेना चाहिए कि निःसंदेह भारत इस्लामी देश न हो, परंतु भारत में रहने वाले मुसलमानों की आवाज़ पूरी दुनिया में सुनी जाती है और उनकी सामूहिक शक्ति अगर कोई फ़ैसला ले ले तो यह आवाज़ इतिहास बदल सकती है। आज लीबिया को बचाना इसलिए भी आवश्यक है कि अगर सैहूनी ताक़तों के क़दमों को इसी वक़्त न रोक दिया गया तो जिस तेज़ी से यह इस्लामी देशों तथा मुसलमानों को निशाना बनाते चले जा रहे हैं, शायद दुनिया का कोई देश ऐसा नहीं बचेगा, जहां मुसलमानों पर उनका क़हर न टूटे। हमें क्यों यह प्रतीक्षा रहती है कि जब कोई विरोधी शक्ति हम पर आक्रमण करेगी, हमें युद्ध का सामना होगा, तभी हम जागरुक होंगे, एकजुट होंगे। क्या आज भी हमें यह समझ लेने में कोई संशय है कि यह इस्लाम विरोधी ताक़तें हर देश के मुसलमानों की तबाही के लिए एक अलग रणनीति रखती है। मुस्लिम देशों की जनता को कभी तानाशाही का भय दिखाकर और कभी आतंकवाद में लिप्त बताकर उन पर सीधा हमला किया जाता है तो भारत और पाकिस्तान जैसे देशों के लिए अलग रणनीति बनाई जाती है। भारत में आतंकवाद बहुत जल्द धार्मिक रंग ले लेता है, इसलिए हमारे देश में जब-जब आतंकवादी हमले होते हैं, उन्हें धार्मिक चश्मे से देखने वालों की भी कमी नहीं होती। हम सभी आतंकियों में कभी साध्वी प्रज्ञा सिंह तो कभी मुफ़्ती अबुल बशर का चेहरा देखने के आदी हो गए हैं। हमने इस आतंकवाद को एक-दूसरे के विरुद्ध षड़यंत्र के रूप में देखना शुरू कर दिया है। परिणामस्वरूप असल अपराधी हमारी पकड़ में आते-आते रह जाते हैं, कभी वह हमें धोखा देकर भाग जाते हैं और कभी उनके धोखे का अंदाज़ा उनके चले जाने के बहुत बाद में होता है। अमेरिकी नागरिक कैन हे वुड की गतिविधियों का अंदाज़ा हमें उसी समय हो गया था जब भारत के विभिन्न शहरों में बम धमाके हो रहे थे और वह हमारे देश में था, लेकिन हम उसे जेल की सलाख़ों के पीछे पहुंचाने में सफल नहीं हुए। डेविड कोलमैन हेडली द्वारा फैलाई गई तबाही की दास्तान इससे कहीं अधिक लम्बी है। वह अमेरिकी पासपोर्ट पर एक बदले हुए नाम तथा नागरिकता के साथ लगातार भारत और पाकिस्तान की यात्रा करता रहा, तबाही का जाल बिछाता रहा, हम अनजान रहे और जब यह रहस्य सामने आया तब हम इस हद तक बेबस और लाचार थे कि बार-बार के प्रयासों के बावजूद भी हम अपने अपराधी को अपने देश की सीमा के अंदर लाने में सफल नहीं हो सके। इन आतंकवादी हमलों ने केवल हमारे देश में निरंतर तबाही की अवस्था ही पैदा नहीं की, बल्कि हिंदू और मुसलमानों के बीच एक बड़ी खाई भी पैदा की। निःसंदेह बधाई के पात्र हैं भारत के हिंदू और मुसलमान, जिन्होंने इस षड़यंत्र को सफल नहीं होने दिया। निःसंदेह हम पूरी तरह बम धमाकों को रोकने में सफल नहीं हुए, लेकिन उन्हें इस हद तक धार्मिक रंग भी नहीं दिया जा सका कि देश में गृह युद्ध का वातावरण पैदा होता। इधर दो-ढाई वर्ष की अवधि में हमें बहुत हद तक इस आतंकवाद पर नियंत्रण पाने में सफलता मिली है, परंतु अभी भी पूरी तरह संतुष्ट नहीं हुआ जा सकता। हमें सभी घटनाओं की गहराई तक पहुंच कर उन असल चेहरों को बेनक़ाब करना होगा, यह आतंकवाद जिनके दिमाग़ों की उपज है, उनकी भारत विरोधी गतिविधियों की रणनीति क्या है। इस पर विचार करना होगा। केवल उन नामों और चेहरों को देखना ही काफ़ी नहीं होगा, जो उनमें लिप्त हैं या लिप्त दिखाई देते हैं, पर्दे के पीछे क्या है यह भी जानना आवश्यक है।
पाकिस्तान में आतंकवाद को धार्मिक रंग नहीं दिया जा सकता, बावजूद इसके कि तालिबान और लश्कर-ए-तय्यबा जैसे आतंकी संगठन पाकिस्तान की तबाही का एक बड़ा कारण बन गए हैं। इसके पीछे क्या ‘रेमंड डेविस’ जैसे अमेरिकी कूटनितिज्ञों की भी कोई भूमिका है या केवल यह पाकिस्तान के पोषित आतंकवादी हैं, जिन्हें अतीत में भारत के विरुद्ध प्रयोग करने के इरादे से फलने-फूलने का अवसर प्रदान किया गया और अब वह आस्तीन का सांप बन बैठे हैं।
मैंने आजके लेख की शुरुआत की थी इमाम-ए-हरम के भारत आगमन से और मैं आजके अपने लेख का विषय बस यही रखना चाहता हूं। उपरोक्त पंक्तियों में अन्य देशों की चर्चा इसलिए की कि हम एकजुट हो जाएं तो न केवल भारत में अपने हालात को बेहतर बना सकते हैं, बल्कि अरब देश जो एक के बाद दूसरे सैहूनी ताक़तों के शिकंजे में आते चले जा रहे हैं, उससे भी उन्हें छुटकारा दिला सकते हैं, इसलिए कि गिनती के हिसाब से मुस्लिम देशों की संख्या बहुत अधिक सही परंतु मुस्लिम आबादी के हिसाब से भारत का मुसलमान दरजनों मुस्लिम देशों की कुल आबादी से कहीं अधिक है और इसकी लोकतांत्रिक व्यवस्था उसे उन मुस्लिम देशों के नागरिकों से कहीं अधिक अधिकार प्रदान करती है, इस्लाम विरोधी शक्तियों के विरुद्ध आवाज़ बुलंद करने की छूट देती है। मुझे अच्छी तरह अंदाज़ा है कि चाहते हुए भी अरब देशों की जनता मिस्र, लीबिया और बहरीन के पक्ष में आवाज़ नहीं उठा सकती। उन्हें अपने देश की परिस्थितियां इस बात की अनुमति नहीं देतीं कि वह अपने बड़ी ताक़तों की इच्छा के विरुद्ध एक क़दम भी आगे बढ़ सकें और उनके शासक किस हद तक अमेरिकी हितों का ध्यान रखते हैं, यह किसी से छुपा हुआ नहीं है। हो सकता है कि उनकी अपनी यह मजबूरियां भी हों कि वह अपनी और अपने देश की भलाई इसी में महसूस करते हों कि अत्यंत ख़ामोशी के साथ शासकों की इच्छा को अपनी इच्छा समझ लिया जाए। इसलिए कि कौन दुनिया की सबसे बड़ी शक्ति के साथ टकराने का साहस करे, वह भी तब जब उन्होंने हाल ही में सद्दाम हुसैन और हुसनी मुबारक का हाल देख लिया हो और लीबिया के राष्ट्रपति कर्नल क़ज़्ज़्ाफ़ी का हाल देख रहे हो। लेकिन हम भारत के मुसलमान इन अर्थों में इन सबसे अधिक भाग्यशाली हैं और एक हद तक यह भी संतोष की बात कही जा सकती है कि हमारे कुछ शासक भले ही अमेरिका के प्रति दिल में सहानुभूति रखते हों, परंतु वह अरब देशों के शासकों की तरह उनकी इच्छा के ग़्ाुलाम नहीं हैं। इस बीच विभिन्न राजनीतिक क्षेत्रों से लीबिया के समर्थन में आवाज़ों का उठना इस बात का प्रतीक है कि वह अरब देशों में अमेरिकी हस्तक्षेप को लेकर ख़ुश नहीं हैं और इस हस्तक्षेप को नापसंदीदा निगाहों से देखते हैं। ऐसे मंें जब भारत के मुसलमान लगभग सभी राजनीतिक दलों को प्रिय हैं और वह उनकी भावनाओं का ध्यान रखना चाहते हैं, मैं आंतरिक समस्यओं की बात नहीं कर रहा हूं, मैं उन अन्तर्राष्ट्रीय समस्याओं पर बात कर रहा हूं जिनको सामने रख कर यह कुछ पंक्तियां लिखी जा रही हैं। ऐसे में अगर हम एकजुट होकर लीबिया के पक्ष में आवाज़ उठाएं तो हमें पूरी आशा है कि लगभग सभी धर्मनिरपेक्ष राजनीतिक दलों का हमें भरपूर समर्थन प्राप्त होगा और वह जिन्हें हम धर्मनिरपेक्ष नहीं मानते, इसलिए इस श्रेणी में उन्हें शामिल नहीं किया गया। कम से कम उनसे भी यह आशा तो बिल्कुल नहीं है कि वह अमेरिका के समर्थन में आवाज़ उठाएंगे। अब देखना यह है कि हम में से वह सभी धार्मिक और सामाजिक संगठन जिनकी ज़ुबान पर लब्बैक कहते हुए लाखों मुसलमान इकट्ठा हो जाते हैं, क्या ऐसी समस्याओं में भी रुचि लेंगे, कोई आंदोलन चलाएंगे। मैं फिर यह निवेदन कर देना चाहूंगा कि आज अगर वह लीबिया के पक्ष में कोई आन्दोलन चलाने का फैसला करते हैं तो उसे लीबिया के पक्ष में न समझा जाए बल्कि उसे अपने पक्ष में भी समझा जाए। इसलिए कि इस्लाम विरोधी ताक़तों का निशाना इस्लामी जगत और सारे मुसलमान हैं, जिसमें आप, हम सब शामिल हैं। बात सद्दाम हुसैन की हो या कर्नल क़ज़्ज़ाफ़ी की, अमेरिकी मीडिया ऐसे अवसरों पर उनके अपार धन और उनके द्वारा किए जाने वाले अत्याचार को बढ़ा चढ़ाकर बताना और दिखाना आरंभ कर देता है, ताकि सारी दुनिया का ज़हन बनाया जा सके कि जिन देशों में भी उनके शासनाध्यक्षों के विरुद्ध आवाज़ उठाई जा रही है, उसका कारण उनकी तानाशाही और अपार धन का जमा कर लेना है। मैं यहां किसी का नाम नहीं लिखना चाहता, इसलिए कि भ्रष्टाचार में लिप्त सभी लोगों की सूचि को शामिल करना इस समय मेरे लिए संभव नहीं है, फिर भी यह इशारा क्या कम है कि कर्नल क़ज़्ज़ाफ़ी जो 41 वर्ष तक एक ऐसे देश का शासक रहा, जो पैट्रोल की दौलत से मालामाल है, उसके पास इस लम्बी शासन अवधि में जितना धन मिला, उतना तो हम ताज़ा ताज़ा कुछ गुमनाम से चेहरों के सामने आने के बाद भी देखते हैं। मैं किसी को आरोपमुक्त ठहराने का प्रयास नहीं कर रहा हूं, निवेदन केवल इतना कर देना चाहता हूं कि अगर किसी ने अपने देश की जनता के साथ न्याय नहीं किया तो उसे सत्ता से हटाने का या सज़ा देने का काम उस देश की जनता का है। अगर कोई शासक भ्रष्टाचार में लिप्त है तो उसको सज़ा देने की ज़िम्मेदारी उस देश की अदालत की है। अगर हमने अपने ऊपर विदेशी ताक़तों को इतना हावी कर लिया कि वह जब चाहें जिसके आंगन में कूद कर उसकी गर्दन पकड़ने का अधिकार प्राप्त कर लें तो फिर उनकी पकड़ से किसकी गर्दन बचेगी? पूर्व इसके कि यह आग हमारे दामन तक पहुंचे, हमें दामन फैलाकर एकजुटता की भीख मांगनी होगी, सभी मतभेदों को भुलाकर एक प्लेटफ़ार्म पर खड़ा होना होगा, आज लीबिया के पक्ष में और कल अपनी समस्याओं के समाधान के संघर्ष में, वरना आज लीबिया नहीं बचेगा और कल हम नहीं बचेंगे।

Monday, March 28, 2011

لیبیاـ صلیبی جنگ کے نرغہ میں

عزیز برنی

یادگار لمحہ، امام حرم کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی سعادت، وقت عشاء، مقام 28، اکبر روڈ، رہائش جناب کے رحمن، ڈپٹی چیئرمین راجیہ سبھا، تاریخ 27مارچ011مطابق 22ربیع الثانی 1432۔ یہ ذکر اس لئے کہ یہ لمحہ تاریخی تھا،لہٰذا دل چاہتا ہے کہ اسے تاریخ کے اوراق میں درج کردیا جائے کہ گزشتہ تین روز میں متعدد مرتبہ فرزندان توحید کو سرزمین ہند پر امام حرم کی امامت میں نماز پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی اور ان میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ نماز سے فراغت حاصل کرنے کے بعد جب سامنا ہوا جسٹس فخرالدین احمد اور دہلی اسمبلی میں جامع مسجد علاقہ کی نمائندگی کرنے والے رکن اسمبلی حاجی محمد شعیب اقبال سے تو ذکر ہوا روزنامہ راشٹریہ سہارا میں شائع ہونے والے میرے مسلسل مضامین کا، دلوں پر اس کے اثر کا اور پھر شکوہ یہ بھی کہ آخر یہ سلسلہ رُک کیوں گیا ہی۔ جب ان کے اس سوال کو میں نے خود اپنے آپ سے کیا تو ضروری لگا کہ جو جواب مجھے میرے دل و دماغ نے دیا، وہ پوری ایمانداری کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ دوں۔ اس دوران میں خود اپنے لکھے کو پڑھتا رہا ہوں۔ بدلتے منظرنامہ پر ان تحریروں کا اثر دیکھتا رہا ہوں، بہت حوصلہ افزا ہی، مگر کہیں کچھ احساس تشنگی بھی ہی۔ کبھی کبھی تو کچھ ایسا لگتا ہی، جیسے اندھیری راتوں میں ایک پہریدار اپنے ایک ہاتھ میں مدھم سی روشنی کی لالٹین اور دوسرے ہاتھ میں ایک موٹا سا ڈنڈا لئے آواز لگاتا جاتا ہے ’’جاگتے رہو‘‘ اوربستی کے لوگ گہری نیند میں سوجاتے ہیں۔ اس کے قدموں کی آہٹ کانوں کو مانوس اس کے ڈنڈے کے زمین سے ٹکرانے کی آواز اور بس اس کے اپنے وجود کے دائرے میں سمٹ کر رہ جانے والی اس کی لالٹین کی روشنی نہ جانے کیوں خوفناک اندھیری راتوں میں بھی ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ اب کوئی خطرہ نہیں ہی۔ ہم گہری نیند میں سوسکتے ہیں، جبکہ وہ بیچارہ غریب تو ہر لمحہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہوتا ہے ’’جاگتے رہو‘‘۔ پھر ہم سو کیوں جاتے ہیں۔ کہیں میرا قلم اس ڈنڈے کی مانند کانوں کو مانوس ایک آواز بھر بن کر رہ گیا ہی، کہیں میرا پیغام اس مدھم سی روشنی والے لالٹین کی شکل تو نہیں اختیار کرگیا ہی، جس کی روشنی بس اس کے وجود تک سمٹ کر رہ گئی ہی، جس کے وہ ہاتھ میں ہی۔ اس کی آواز جگانے کی علامت کی بجائی، گہری نیند میں سو جانے کا پیغام تو نہیں بن گئی ہی۔ اگر ایسا ہے تو چند روز کے لئے اس پہریدار کے قدموں کی آہٹ روک دیتے ہیں۔ شاید اب بستی کے لوگ خود جاگنے کی ضرورت محسوس کرنے لگیں۔ اس بستی کے پہریدار کے قدموں کی آہٹ کیوں رک گئی،اس پر غور کرنے لگیں اور پھر یہ لمحہ انہیں سرجوڑ کر بیٹھنے کے لئے آمادہ کردی۔ جسٹس فخرالدین احمد اور حاجی محمد شعیب اقبال کی گفتگو مجھے سرجوڑ کر بیٹھنے کی ایک کوشش نظر آئی۔ شاید اب ہم اپنے اور آس پاس کے حالات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کرنے لگے ہیں۔ مانا کہ وہ بستی ذرا دور ہی، جو اس وقت خطرے میں ہی، مگر یہ خطرہ کل ہماری چوکھٹ تک نہیں پہنچے گا، اس کی کیا گارنٹی ہی۔ اگر ہم آج اس کی مدد کے لئے آگے نہیں آئیں گی، جسے ہماری مدد کی ضرورت ہے تو پھر کل ہماری مدد کے لئے کون آئے گا۔ عراق اور افغانستان کی تباہی نے ہمیں بیدار کیوں نہیں کیا، مصر، لیبیا اور بحرین کے حالات ہمیں سوچنے کے لئے مجبور کیوں نہیں کرتی۔ ایک ایک کر مسلم ملک تباہ ہوتے جائیں گے اورہم سب صرف تماشہ دیکھتے رہ جائیں گی، پھر یہ آگ ہمارے دامن تک پہنچے گی اور ہم اسے بجھا نہیں پائیں گی۔ اسلام پر کہیں تاناشاہی کے حوالہ سے حملی، کہیں دہشت گردی کے حوالہ سے تو کہیں قدامت پسندی کو بہانہ بناکر اور ہم… اور ہم بس اپنے حصار میں گم ہیں۔ پہریدار کا کام ہے وہ آواز لگائے جاگتے رہو اور ہمارا کام ہے ………
Cمیں نے ایک مرتبہ پھر ورق گردانی کی ان مضامین کی، جہاں سے یہ سلسلہ ترک ہوا تھا۔ اگر دیگر موضوعات پر لکھے گئے مضامین کا ذکر اس وقت نہ کروں تو لیبیا، مصر اور بحرین کے حالات پر لکھے گئے دو مضامین ’’مصر، لیبیا، بحرین، جمہوری عمل یا امریکی دخل‘‘ 25فروری 2011، قسط نمبرـ15، اور’’کیا کرنل قذافی کا انجام بھی صدام حسین کی طرح…‘‘ 26فروری 2011، قسط نمبرـ16کا حوالہ دینا ضروری لگتا ہی، کیونکہ یہ سوچنے پر مجبور کرتے تھی، ایک تحریک چلانے پر آمادہ کرتے تھی، مگر کیا ایسا ہوا…؟ لکھا اس کے بعد بھی، مگر وہ ایسے موضوع ہیں، جن پر ہم بعد میں غور کرسکتے ہیں لیکن لیبیا!
تقریباً ایک ماہ کا عرصہ گزر گیا لیبیا اور بحرین کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ مجھے ضروری لگتا ہے کہ اس ضمن میں لکھے اپنے دونوں مضامین کے تراشے ایک بار پھر قارئین کی خدمت میں پیش کروں اور ان سے یہ درخواست کروں کہ اس درمیان رونما ہونے والے حالات پر ایک نظر ڈالیں۔ کیا جن اندیشوں کا اظہار ہم نے اپنی تحریر میں کیا تھا، وہ درست ثابت نہیں ہوئی۔ پھر ایک سوال اپنے آپ سے کریں کہ اگر ہم نے وقت رہتے توجہ دی ہوتی، ان اندیشوں کو ذہن میں رکھ کر تحریک چلانے کا فیصلہ کرلیا ہوتا تو شاید ’لیبیا‘ آج ’عراق‘ جیسے حالات سے نہ گزر رہا ہوتا۔ یہی کہا تھا میں نے جناب محمد شعیب اقبال سے اور صرف ان سے ہی نہیں، بلکہ اپنے ان مضامین کی معرفت اپنے تمام قارئین سے بھی کہ کیا کافی ہے ایسے نازک حالات میں صرف ایک لکھ دینا اور آپ کا پڑھ لینا۔ کیا ضروری نہیں ہے کہ ہم ایک ایسی تحریک چلائیں، جس سے کہ اسلام مخالف طاقتیں اپنے ہر اس قدم کے بارے میں سوبار سوچنے پر مجبور ہوں،جو مسلم ممالک کی تباہی کی سمت میں اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہوں۔
یقینا یہ خوش آئند پیغام ہی۔ ہندوستان کی تاریخ گزشتہ تین روز کے واقعات کی گواہ رہے گی کہ ’’سرزمین ہند پر امام حرم کی آمد نے جو ہیجانی کیفیت پیدا کی، وہ گزشتہ سیکڑوں برسوں میں اس زمین پر قدم رکھنے والے کسی بھی سربراہان مملکت کی آمد پر نہیں ہوئی۔‘‘ یہ واضح اشارہ ہے ہمارے جذبۂ ایمانی کا۔ بس اسی حوالہ سے یہ چند سطریں لکھنے کی جسارت کررہا ہوں کہ ہم اپنے اس جذبہ کو قائم رکھیں، ایسے تمام موقع کے لئے بھی اور پوری دنیا میں کہیں بھی اگر انسانیت پر ظلم ہورہا ہو یا اسلام مخالف طاقتیں مسلم ممالک پر حملہ آور ہوں تو ہم اسی جوش و جذبہ کا مظاہرہ کریں۔ ابھی بھی وقت ہی، اگر ہم تحریر کو تحریر تک محدود نہ رہنے دیں، بلکہ اسے تحریک کی شکل دے دیں تو آج لیبیا و بحرین کو بچایا جاسکتا ہے اور آنے والے کل میں اس فہرست میں شامل ہوسکنے والے دیگر ممالک کو بھی بچایا جاسکتا ہی۔ دراصل افغانستان اور عراق کی تباہی کے بعد ہی ہمیں یہ سبق حاصل کر لینا چاہئے تھا اور جب مصر میں بغاوت کے حالات پیدا ہوئے تو سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اس بغاوت کی وجہ وہی ہے جو نظر آرہی ہے یا پس پردہ سازش کچھ اور بھی ہی۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ مسلم ممالک میں جمہوریت مضبوط نہ ہو، ضرور ہو، مگر یہ امریکی دخل کے بغیر ہو۔ ہم اس سمت میں گہرائی سے نہ سوچ کر ایک بہت بڑے خطرے کو دعوت دے رہے ہیں۔ میں مایوس تو نہیں ہوں، ہاں مگر یہ احساس ضرور ہے کہ باوجود قدم قدم پر پذیرائی کے ابھی بھی ان تحریروں میں وہ بات پیدا نہیں کرپایا ہوں کہ یہ تحریک کی شکل حاصل کرلیں۔ میرے سامنے ہیں گزشتہ ایک ماہ میں لیبیا کے حالات اور میرے وہ دو مضامین بھی، جن کا حوالہ میں نے اپنی اس تحریر کی ابتدا میں دیا تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے قارئین کے سامنے مختصراً آج کے حالات بھی رکھ دوں اور اس ضمن میں لکھے گئے اپنے مضامین کے چند تراشے بھی، تاکہ یہ باور کراسکوں کہ جو کچھ آج ہم دیکھ رہے ہیں، اس کا اندازہ بہت پہلے ہی کرلیا گیا تھا اور آپ کے سامنے رکھ بھی دیا گیا تھا۔ کاش اسی وقت ہم نے لیبیا کو امریکی شکنجہ سے بچانے کا فیصلہ کرلیا ہوتا۔
………
مصر، لیبیا، بحرین، جمہوری عمل یا امریکی دخل
25فروری 2011، قسط نمبرـ15
صدام حسینـحسنی مبارکـکرنل قذافیـاپنے اپنے ملک کی شناخت سمجھے جاتے رہے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ سبھی بہت طاقتور حکمراں رہے ہیں۔ صدام حسین نے 24برس عراق پر حکومت کی، حسنی مبارک نے 30برس اور کرنل قذافی نے 41برس۔ صدام حسین کا قتل،حسنی مبارک کی اقتدار سے بے دخلی اور کرنل قذافی کے خلاف بغاوت۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز پر امریکی کنٹرول، کویت کی اقتصادیات پر امریکی قبضہ، عراق اور افغانستان میںامریکی کٹھ پتلی حکمراں، ایران میں محموداحمدی نژاد حکومت کو مسلسل دھمکیاں اور اردن جیسے ملک امریکی کالونی کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ بحرین کی حالت غیر اب کسی سے چھپی نہیں ہی۔ فلسطین کی تباہی ہماری نگاہوں کے سامنے ہی۔ خون آلودہ پاکستان اب اس درجہ لاچار اور بے بس ہوچکا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے قاتل ریمنڈڈیوس کو کسی بھی طرح کی سزا دینا تو دور اس امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ایجنٹ کے خلاف زبان کھولنے کے جرم میں اپنے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو ان کے عہدہ سے ہٹانے کے لئے مجبور ہوچکا ہی۔ بنگلہ دیش جو کبھی پاکستان کا حصہ تھا، آج ایک بے حیثیت ملک بن کر رہ گیا ہے اور ان سب کے پیچھے ہے صرف اور صرف ایک طاقت امریکہ۔ ہم سب جانتے ہیں، مگر خاموش ہیں، لاچاروبے بس ہیں۔ اگر کسی کو اس جانب متوجہ کیا جائے تو ایک ہی جواب ملتا ہی، آخر ہم کرہی کیا سکتے ہیں؟……
…………
عرب ممالک کی سب سے بڑی طاقت ہے پیٹرول، جو پروردگارعالم کا ایک عطیہ ہی۔ بہت تیزی سے اب اس دولت پر امریکہ کا قبضہ ہوتا جارہا ہی، مگر سب چپ ہیں، کوئی امریکہ کے خلاف بولنے کی جرأت کرتا ہی نہیں۔
…………
امریکہ اپنے سفاتکاروں کی آڑ میں سی آئی اے کا ایک مضبوط جال بچھا رہاہی۔ اس طرف اگر بروقت توجہ نہ دی گئی تو بہت جلد امریکی حکمرانی کا دائرہ اس قدر بڑھ جائے گا کہ جنہیں آج آپ مسلم ممالک کی شکل میں دیکھ رہے ہیں، وہ سب آنے والے کل میں امریکہ اور برطانیہ کی چھوٹی چھوٹی کالونیاں ہوں گی۔ کل عرب کے پیٹرول پر ان بڑی طاقتوں کا قبضہ ہوگا۔ پاکستان جیسے ملک اپنا وجود کھو دیں گے اور ہندوستان جسے دہشت گردی کے ذریعہ خانہ جنگی کا شکار بنایا جارہا ہی، کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جائے گا۔ اگر ہم ریمنڈ ڈیوس(پاکستان میں)، ڈیوڈ کولمین ہیڈلی(ہندوستان میں)، جیسے سی آئی ای/ایف بی آئی کے ایجنٹوں کی کارکردگی کو سرسری طور پر لینا بند کردیں، طالبان اور لشکرطیبہ سے ان کے رشتوں کی تہہ تک جانے کی کوشش کریں، سی آئی اے کا طالبان اور ایف بی آئی کا لشکرطیبہ سے کتنا گہرا رشتہ ہی، یہ کتنی الگ الگ تنظیمیں ہیں اور اندرونی طور پر ان میں کتنا گہرا رشتہ ہی۔ اگر اس سچ کو جان لیں تو شاید ہم عرب ممالک پر بڑھتے امریکی تسلط کو بھی روک سکیں گی، پاکستان کو مزید تباہی سے بچا سکیں گے اور ان سب کے بعد ہندوستان کو لاحق خطرہ سے بھی نجات پاسکیں گی۔
…………
برطانیہ کے ایک اخبار کے مطابق ریمنڈڈیوس امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا ایجنٹ ہی۔ ایران کے پریس ٹی وی کے مطابق وہ نہ صرف سی آئی اے کا ایجنٹ تھا، بلکہ طالبان کے ساتھ اس کے تعلقات ہیں اور وہ پاکستان میں سبوتاژمشن یعنی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے ارادے سے بھیجا گیاتھا۔
……………
کیا کرنل قذافی کا انجام بھی صدام حسین کی طرح…
26فروری 2011، قسط نمبرـ16
امریکہ میں اب ایک نیا ڈرامہ شروع ہوچکا ہی، جیسا کہ عراق کے تعلق سے ہوا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا، پہلے عراق پر اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں، جس سے وہاں کے عوام کا جینا محال ہوگیا، پھر صدام حسین کو تاناشاہ ڈکلیئر کیا گیا، مہلک ہتھیاروں کے ذخیرہ کا الزام لگایا گیا، جس کے برآمد نہ ہونے پر بعد میں امریکہ کے سابق صدر جارج واکر بش کے ذریعہ معافی مانگ لی گئی، لیکن اس درمیان عراق کے ہزاروں بے گناہ قتل کئے جاچکے تھی، لاکھوں بے گھر ہوچکے تھے اور صدام حسین صدرعراق کو پھانسی دی جاچکی تھی۔ اس سب کے جواب میں سابق امریکی صدر جارج واکر بش کی معافی اور بس۔ اب پھر امریکہ میں یہ ماحول پیدا کیا جارہا ہی، گویا امریکی حکومت دباؤ میں ہی، اسے امریکی قدروں کا دھیان رکھنا ہی۔ اسے لیبیا میں عوام کے اوپر ہونے والی زیادتی کو نظرانداز نہیں کرنا ہی، لہٰذا لیبیا پر اقتصادی پابندی عائد کئے جانے کی ضرورت ہی۔ یعنی وہی جو عراق کے ساتھ ہوا تھا، اب لیبیا کے ساتھ کئے جانے کا ماحول تیار کیا جارہا ہی۔
……………
کس کو کس طرح کا رول پلے کرنا ہی، کسے ماحول سازی کرنی ہی، کسے دباؤ بنانا ہی، پھر کسے کارروائی کو انجام دینا ہی، تاکہ افغانستان اور عراق کی طرح کٹھ پتلی سرکاریں قائم کی جاسکیں اور یہ سب کچھ پہلے سے طے ہی۔ ہوسکتا ہے پھر کرنل قذافی پر بھی صدام حسین کی طرح امریکی ایما پر قائم کی گئی ایک عدالت میں مقدمہ چلے اور انہیں بھی پھانسی کی سزا سنا دی جائی۔ عالمی برادری کیا اسی طرح امریکہ کو کھلی چھوٹ دینے کی حامی ہے کہ اسے کسی بھی ملک میں اپنی مرضی سے اپنے انداز میں مداخلت کاحق حاصل ہی۔ کیا یہ حیران کن نہیں کہ ہزاروں بے گناہ عراقیوں اور افغانیوں کے قتل کے جرم میں جارج واکر بش پر مقدمہ چلائے جانے کی بات کسی نے نہیں کہی۔ کیا اپنی غلطی کو تسلیم کرلینا اور معافی مانگ لینا ہی کافی ہی۔
اس درمیان لیبیا پر اتحادی فوجوں کا حملہ ہوچکا ہی۔ بڑی تعداد میں لیبیا کے شہری ہلاک اور بے گھر ہوچکے ہیں۔ کرنل قذافی کے ایک بیٹے کی موت ہوچکی ہی۔ مختصراً ہم لیبیا میں عراق کی کہانی دہرائی جاتے دیکھ رہے ہیں اور چپ ہیں۔ آخر ہماری زبانوں پر یہ تالے کس نے لگادئے ہیں، کیا یہ سوال کریں گے ہم اپنے آپ سی۔
………

लीबिया-सलीबी जंग के नर्ग़े में
अज़ीज़ बर्नी

यादगार लम्हा, इमाम-ए-हरम की इक़्ितदा में नमाज़ पढ़ने का सौभाग्य, नमाज़े इशा, स्थान 28 अकबर रोड, मक़ाम रिहाइश जनाब के॰ रहमान, डिप्टी चेयरमैन राज्य सभा, तारीख़ 27 मार्च 2011 तदानुसार 22 रबीउस्सानी 1432 हिजरी। यह उल्लेख इसलिए कि यह ऐतिहासिक क्षण था, लिहाज़ा दिल चाहता है कि इसे इतिहास के पन्नों में दर्ज कर दिया जाए कि गत तीन दिनों में कई बार फ़रज़ंदान-ए-तौहीद को भारत की धरती पर इमाम-ए-हरम की इमामत में नमाज़ पढ़ने का सौभाग्य प्राप्त हुआ और उनमें लेखक भी शामिल था। नमाज़ से फ़ारिग़ होने के बाद जब सामना हुआ जस्टिस फ़ख़रुद्दीन अहमद और दिल्ली विधानसभा में जामा मस्जिद क्षेत्र का प्रतिनिधित्व करने वाले विधायक हाजी मुहम्मद शुऐब इक़बाल से तो चर्चा हुई रोज़नामा राष्ट्रीय सहारा में प्रकाशित होने वाले मेरे सिलसिलेवार लेखों की, दिलों पर इसके प्रभाव की और फिर शिकवा यह भी कि आख़िर यह सिलसिला रुक क्यों गया है। जब उनके इस प्रश्न को मैंने स्वयं अपने आप से किया तो आवश्यक लगा कि जो उत्तर मुझे मेरे दिल व दिमाग़ ने दिया, वह पूरी ईमानदारी के साथ आपके सामने रख दूं, इस बीच मैं स्वयं अपने लेख को पढ़ता रहा हूं। बदलते परिदृश्य पर उन लेखों का प्रभाव देखता रहा हूं। बहुत उत्साहवर्धक है परंतु कहीं कुछ प्यास का एहसास भी है। कभी-कभी तो कुछ ऐसा लगता है जैसे अंधेरी रातों में एक पहरेदार अपने एक हाथ में मद्धिम सी रोशनी की लालटेन और दूसरे हाथ में एक मोटा सा डंडा लिए आवाज़ लगाता जाता है ‘‘जागते रहो’’ और बस्ती के लोग गहरी नींद में सो जाते हैं। उसके क़दमों की आहट, कानों को जानी पहचानी उसके डंडे के ज़मीन के टकराने की आवाज़ और बस उसके अपने अस्तित्व के दायरे में सिमट कर रह जाने वाली उसकी लालटेन की रोशनी न जाने क्यों भयानक अंधेरी रातों में भी हमें यह एहसास दिलाती है कि अब कोई ख़तरा नहीं है, हम गहरी नींद में सो सकते हैं। जबकि वह बेचारा ग़रीब तो हर क्षण चीख़-चीख़ कर कह रहा होता है ‘‘जागते रहो’’। फिर हम सो क्यों जाते हैं। कहीं मेरा क़लम उस डंडे की भांति कानों को परिचित एक आवाज़ मात्र बन कर रह गया है, कहीं मेरा संदेश उस मद्धिम सी रोशनी वाली लालटेन का रूप तो धारण नहीं कर गया है। जिसकी रोशनी बस उसके अस्तित्व तक सिमट कर रह गई है जिसके वह हाथ में है उसकी आवाज़ जगाने के प्रतीक के बजाए गहरी नींद में सोे जाने का संदेश तो नहीं बन गई है। अगर ऐसा है तो कुछ दिन के लिए इस पहरेदार के क़दमों की आहट रोक देते हैं शायद अब बस्ती के लोग ख़ुद जागने की ज़रूरत महसूस करने लगें, उस बस्ती के पहरेदार के क़दमों की आहट क्यों रुक गई इस पर विचार करने लगें और यह क्षण उन्हें सर जोड़ कर बैठने के लिए आमादा कर दे। जस्टिस फ़ख़रुद्दीन अहमद और हाजी शुऐब इक़बाल की गुफ़्तुगू मुझे सिर जोड़ कर बैठने का एक प्रयास नज़र आया। शायद अब हम अपने और आसपास के हालात पर विचार करने की आवश्यकता महसूस करने लगे हैं। माना कि वह बस्ती ज़रा दूर है जो इस समय ख़तरे में है, परंतु यह ख़तरा कल हमारी चैखट तक नहीं पहुंचेगा इसकी क्या गारंटी है। अगर हम आज उसकी मदद के लिए आगे नहीं आएंगे जिसे हमारी मदद की आवश्यकता है तो फिर कल हमारी मदद के लिए कौन आयगा। इराक़ और अफ़ग़ानिस्तान की तबाही ने हमें जागरुक क्यों नहीं किया। मिस्र, लीबिया और बहरीन के हालात हमें सोचने के लिए मजबूर क्यों नहीं करते, एक-एक करके मुस्लिम देश तबाह होते जाएंगे और हम सब केवल तमाशा देखते रह जाएंगे, फिर यह आग हमारे दामन तक पहुंचेगी और हम उसे बुझा नहीं पाएंगे। इस्लाम पर कहीं तानाशाही के हवाले से हमलें, कहीं आतंकवाद के हवाले से है तो कहीं कट्टरपंथ को बहाना बनाकर है और हम ह्न और हम बस अपने दायरे में गुम हैं। पहरेदार का काम है वह आवाज़ लगाए ‘‘जागते रहो’’ और हमारा काम है
मैंने एक बार फिर पन्ने पलटे उन लेखों के, जहां से यह सिलसिला टूटा था। अगर अन्य विषयों पर लिखे गए लेखों की चर्चा इस समय न करूं तो लीबिया, मिस्र तथा बहरीन के हालात पर लिखे गए दो लेख ‘‘मिस्र, लीबिया, बहरीन, जमहूरी अमल या अमेरिकी दख़ल’’ (25 फ़रवरी 2011 क़िस्त न॰ 215) और ‘‘क्या कर्नल क़ज़्ज़ाफ़ी का अंजाम भी सद्दाम हुसैन की तरह ह्न’’ (26 फ़रवरी 2011, क़िस्त न॰216) का उल्लेख करना आवश्यक लगात है। क्योंकि यह कुछ सोचने पर मजबूर करते थे एक आन्दोलन चलाने पर आमादा करते थे परंतु क्या ऐसा हुआ ह्न? लिखा इसके बाद भी परंतु वह ऐसे विषय हैं जिन पर हम बाद में भी विचार कर सकते हैं लेकिन लीबिया!
लगभग एक महीने की अवधि बीत गई लीबिया तथा बहरीन के हालात हमाने सामने हैं। मुझे आवश्यक लगता है कि इस सिलसिले में लिखे अपने दोनों लेखों की कुछ पंक्तियां एक बार फिर पाठकों की सेवा में प्रस्तुत करूं और उनसे यह निवेदन करूं कि इस बीच प्रकट होने वाली परिस्थितियों पर एक नज़र डालें। क्या जो आशंकाएं हमने अपने लेख में व्यक्त की थीं, वह दुरुस्त साबित नहीं हुईं। फिर एक प्रश्न अपने आप से करें कि अगर हमने समय रहते ध्यान दिया होता, इन आशंकाओं को ध्यान में रख कर आंदोलन चलाने का फ़ैसला कर लिया होता तो शायद ‘लीबिया’ आज ‘इराक’़ जैसे हालात से न गुज़र रहा होता। यही कहा था मैंने जनाब मुहम्मद शुऐब इक़बाल से और केवल उनसे ही नहीं, बल्कि अपने लेखों द्वारा अपने सभी पाठकों से भी कि क्या पर्याप्त है ऐसे नाज़्ाुक हालात में केवल मेरा लिख देना और आपका पढ़ लेना। क्या ज़रूरी नहीं है कि हम एक ऐसा आन्दोलन चलाएं, जिससे कि इस्लाम विरोधी ताक़तें अपने हर उस क़दम के बारे में सौ बार सोचने पर मजबूर हों कि जो मुस्लिम देशों की तबाही की दिशा में उठाने का इरादा रखते हों।
निश्चय ही यह एक सुखद संदेश है। भारत के इतिहास में पिछले तीन दिनों की घटनाएं गवाह रहेंगी कि भारत की धरती पर इमाम-ए-हरम के आगमन ने जो भावनात्मक स्थिति पैदा की वह पिछले सैकड़ों बरसों में इस धरती पर क़दम रखने वाले किसी भी राष्ट्राध्यक्ष के आगमन पर नहीं हुई। यह स्पष्ट इशारा है हमारी धार्मिक भावनाओं का। बस इसी हवाले से यह कुछ पंक्तियां लिखने का साहस कर रहा हूं कि हम अपनी इस भावना को क़ायम रखें। ऐसे सभी अवसरों के लिए भी और पूरी दुनिया में कहीं भी अगर मानवता पर अत्याचार हो रहा हो या इस्लाम विरोधी ताक़तें मुस्लिम देशों पर आक्रमण कर रही हों तो हम इसी भावना और उत्साह का प्रदर्शन करें। अभी भी समय है, अगर हम लेख को लेख तक सीमित न रहने दें, बल्कि उसे आंदोलन का रूप दे दें तो आज लीबिया और बहरीन को बचाया जा सकता है और आने वाले कल में इस सूचि में शामिल हो सकने वाले अन्य देशों को भी बचाया जा सकता है। दरअसल अफ़ग़ानिस्तान और इराक़ की तबाही के बाद ही हमें यह सबक़ सीख लेना चाहिए था और जब मिस्र में बग़ावत के हालात पैदा हुए तो समझ लेना चाहिए था कि इस बग़ावत का कारण क्या वही है जो नज़र आ रहा है या परदे के पीछे षड़यंत्र कुछ और भी है। हम यह नहीं चाहते कि मुस्लिम देशों में लोकतंत्र मज़बूत न हो, अवश्य हो, परंतु यह अमेरिकी हस्तक्षेप के बिना हो। हम इस दिशा में गहराई से न सोच कर एक बहुत बड़े ख़तरे को दावत दे रहे हैं। मैं निराश तो नहीं हूं, हां परंतु यह एहसास अवश्य है कि बावजूद क़दम-क़दम पर सराहे जाने के अभी भी इन लेखों में वह बात पैदा नहीं कर पाया हूं कि यह आन्दोलन का रूप धारण कर सकें। मेरे सामने है पिछले एक माह में लीबिया के हालात और मेरे वह दो लेख भी, जिनका उल्लेख मैंने अपने इस लेख के आरंभ में किया था। मैं चाहता हूँ कि अपने पाठकों के सामने संक्षिप्तरूप से आज के हालात भी रख दूं और इस सिलसिले में लिखे गए अपने लेखों के कुछ अंश भी, ताकि यह यक़ीन दिला सकूं कि जो कुछ आज हम देख रहे हैं इसका अंदाज़ा बहुत पहले ही कर लिया गया था और आपके सामने रख भी दिया गया था। काश उसी समय हमने लीबिया को अमेरिकी शिकंजे से बचाने का फै़सला कर लिया होता।
मिस्र, लीबिया, बहरीन, जम्हूरी अमल या अमेरिकी दख़ल
25 फरवरी 2011, क़िस्त 215
सद्दाम हुसैन-हुसनी मुबारक - कर्नल क़ज़्ज़ाफ़ी अपने-अपने देश की पहचान माने जाते रहे हैं और इसमें भी कोई संदेह नहीं कि यह सभी अत्यंत शक्तिशाली शासक रहे हैं। सद्दाम हुसैन ने 24 वर्ष इराक़ पर शासन किया, हुसनी मुबारक ने 30 वर्ष और कर्नल क़ज़्ज़ाफ़ी ने 41 वर्ष। सद्दाम हुसैन की हत्या, हुसनी मुबारक की सत्ता से बेदख़ली और कर्नल क़ज़्ज़्ााफ़ी के विरूद्ध बग़ावत। शाह अब्दुल्ला बिन अब्दुल अज़ीज़ पर अमेरिकी नियंत्रण, कुवैत की अर्थ व्यवस्था पर अमेरिकी क़ब्ज़ा, इराक़ और अफ़ग़ानिस्तान में अमेरिकी कठपुतली शासक, ईरान में महमूद अहमदी नज़ाद सरकार को निरंतर धमकियां और जाॅर्डन जैसे देश अमेरिकी काॅलोनी का रूप धारण कर चुके हैं। बहरीन के हालात अब किसी से छुपे नहीं हैं। फ़लस्तीन की तबाही हमारी निगाहों के सामने है। रक्त रंजित पाकिस्तान अब इतना निर्बल तथा विवश हो चुका है कि अपने नागरिकों के हत्यारे रेमंड डेविस को किसी भी तरह की सज़ा देना तो दूर इस अमेरिकी ख़ुफ़िया एजेंसी सीआईए के एजेंट के विरुद्ध ज़ुबान खोलने के जुर्म में अपने विदेश मंत्री शाह मुहमूद क़ुरैशी को उनके पद से हटाने के लिए मजबूर हो चुका है। बंग्लादेश जो कभी भारत का हिस्सा था, आज एक बेहैसियत देश बन कर रह गया है और इन सबके पीछे है केवल और केवल एक ताक़त अमेरिका। हम सब जानते हैं, परंतु ख़ामोश हैं, लाचार तथा बेबस हैं। अगर किसी का ध्यान इस ओर आकर्षित किया जाए तो एक ही उत्तर मिलता है आख़िर हम कर ही क्या सकते हैं?

अरब देशों की सबसे बड़ी ताक़त है पैट्रोल जो परवरदिगारे आलम का एक वरदान है। बहुत तेज़ी से अब इस दौलत पर अमेरिका का क़ब्ज़ा होता जा रहा है परंतु सब चुप हैं कोई अमेरिका के विरुद्ध बोलने का साहस करता ही नहीं।

अमेरिका अपने राजनयिकों की आड़ में सीआईए का एक सशक्त जाल बिछा रहा है। इस ओर अगर समय रहते ध्यान न दिया गया तो अतिशीघ्र अमेरिकी शासन का दायरा इतना बढ़ जाएगा कि जिन्हें आज आप मुस्लिम देशों के रूप में देख रहे हैं, वह सब आने वाले कल में अमेरिका और ब्रिटेन की छोटी-छोटी कालोनियां होंगी। कल अरब के पैट्रोल पर इन बड़ी ताक़तों का क़ब्ज़ा होगा। पाकिस्तान जैसे देश अपना अस्तित्व खो देंगे और भारत जिसे आतंकवाद द्वारा गृहयुद्ध का शिकार बनाया जा रहा है, कमज़ोर से कमज़ोर होता चला जाएगा। अगर हम रेमंड डेविस (पाकिस्तान में), डेविड कोलमैन हैडली (हिन्दुस्तान में) जैसे सीआईए/एफ़बीआई के एजेंटों की गतिविधियों को सरसरीतौर पर लेना बंद कर दें, तालिबान और लशकर-ए-तैय्यबा से उनके संबंधों की तह तक जाने का प्रयास करें, सीआईए का तालिबान और एफ़बीआई का लशकर-ए-तैय्यबा से कितना घनिष्ट संबंध है, या कितने अलग-अलग संगठन हैं और आंतरिकरूप से इनमें कितना घन्ष्टि संबंध है, अगर इस सच को जान लें तो शायद हम अरब देशों पर बढ़ते अमेरिकी क़ब्ज़े को भी रोक सकेंगे पाकिस्तान को और अधिक तबाही से बचा सकेंगे और इस सबके बाद भारत को संभावित ख़तरे से भी छुटकारा पा सकेंगे।

ब्रिटेन के एक अख़बार के अनुसार डेविड रेमंड अमेरिकी ख़ुफ़िया एजेंसी सी.आई.ए का एजेंट है। ईरान के प्रेस टीवी के अनुसार वह न केवल सी.आई.ए का एजेंट था बल्कि उसके तालिबान से भी संबंध हैं और वह पाकिस्तान में तोड़-फोड़ मिशन याने सरकार को अस्थिर करने के इरादे से भेजा गया था।

क्या कर्नल क़ज़्ज़ाफ़ी का अंजाम भी सद्दाम हुसैन की तरह......
26 फरवरी 2011, 216
अमेरिका में अब एक नया ड्रामा शुरू हो चुका है जैसा कि इराक़ के संदर्भ में हुआ था। आपको याद होगा, पहले इराक़ पर आर्थिक प्रतिबंध लगाए गए जिससे वहां की जनता का जीना दूभर हो गया, फिर सद्दाम हुसैन को तानाशाह डिक्लेयर किया गया, विनाशकारी हथियारों के ज़ख़ीरे का आरोप लगाया गया, जो कि बरामद न होने पर बाद में अमेरिका के पूर्व राष्ट्रपति जाॅर्ज वाकर बुश के द्वारा माफ़ी मांगी गई, लेकिन इस बीच इराक़ के हज़ारों बेगुनाह क़त्ल किए जा चुके थे, लाखों बेघर हो चुके थे और इराक़ के राष्ट्रपति सद्दाम हुसैन को फांसी दी जा चुकी थी। इस सबके जवाब में अमेरिकी राष्ट्रपति जार्ज बुश की माफ़ी और बस। अब फिर अमेरिका में यह माहौल पैदा किया जा रहा है जैसे अमेरिकी सरकार दबाव में है, उसे अमेरिकी मूल्यों का ध्यान रखना है। उसे लीबिया में जनता के ऊपर होने वाली ज़्यादतियों को नज़रअंदाज़ नहीं करना है, अतः लीबिया पर आर्थिक प्रतिबंध लगाए जाने की ज़रूरत है। अर्थात वही जो इराक़ के साथ हुआ था अब लीबिया के साथ किए जाने का माहौल तैयार किया जा रहा है।

किसको किस तरह का रोल अदा करना है। किसे माहौल साज़ी करनी है, किसे दबाव बनाना है, फिर किसे कार्रवाई को अंजाम देना है ताकि अफ़ग़ानिस्तान और इराक़ की तरह कठपुतली सरकारें बिठाई जा सकें और यह सब कुछ पहले से तय है। हो सकता है फिर कर्नल क़ज़्ज़ाफ़ी पर भी सद्दाम हुसैन की तरह अमेरिकी इशारे पर क़ायम की गई एक अदालत में मुक़दमा चले और उन्हें भी फांसी की सज़ा सुना दी जाए। विश्व बिरादरी क्या इसी तरह अमेेरिका को खुली छूट देने की हामी है कि उसे किसी भी देश में अपनी मर्ज़ी से, अपने अंदाज़ में हस्तक्षेप का अधिकार है। क्या यह आश्चर्यजनक नहीं है कि हज़ारों बेगुनाह इराक़ियों और अफ़ग़ानियों के क़त्ल के जुर्म में जार्ज वाकर बुश पर मुक़दमा चलाए जाने की बात किसी ने नहीं की। क्या अपनी ग़लती को मान लेना और माफ़ी मांग लेना ही काफ़ी है।
इस बीच लीबिया पर गठबंधन सेनाओं का हमला हो चुका है। बड़ी संख्या में लीबियाई नागरिक हताहत और बेघर हो चुके हैं। कर्नल क़ज़्ज़ाफ़ी के एक बेटे की मृत्यु हो चुकी है। संक्षिप्त में हम लीबिया में इराक़ की कहानी दोहराई जाते देख रहे हैं और चुप हैं। आख़िर हमारी ज़्ाुबानों पर यह ताले किसने लगा दिए हैं। क्या यह प्रश्न करेंगे हम अपने आप से।

Monday, March 7, 2011

!یوم خواتین‘ جذبۂ عشق درکار ہے قوم کے لئے'

عزیز برنی

یوم خواتین کے موقع پر پرخلوص مبارکباد۔ بات اگر صرف روایتی انداز میں مبارکباد دینے کی ہوتی تو یہ ایک جملہ بھی کافی تھا، لیکن ایسا نہیں ہی۔ وقت اور حالات کا تقاضا کچھ اور ہی، جذباتی رشتوں کا تقاضا کچھ اور ہی، قوم و ملت کے تئیں فرائض کا تقاضا کچھ اور ہی، اس لئے بات ذرا تفصیل سے کرنی ہوگی اور مبارکباد بھی دل کی گہرائیوں سے دینی ہوگی۔ اسلام نے خواتین کو جو عزت بخشی ہی، جو مقام و مرتبہ دیا ہی، شاید وہ کسی اور مذہب میں نہیں ہی۔ کہا کیا جاتا ہے اور ہوتا کیا ہی، یہ میری رائے سے الگ بھی ہوسکتا ہی۔ اس وقت میں اس پر زیادہ بحث کرنے کی بجائے توجہ اس طرف دلانا چاہوں گا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق سیرت رسول ؐ کی روشنی میں اسلامی تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ہم خواتین کے کردار پر بات کریں تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جب جب اسلام کے فروغ یا تحفظ کے لئے خواتین کے تعاون کی ضرورت درکار ہوئی ہے تو قوم کو مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہی۔ اگر ہم اسلام کے ابتدائی دور کی بات کریں تو رسول اللہ حضرت محمد مصطفیؐ جب اپنے عمل سے اپنے اخلاق سی، اپنے کردار سے اسلام کی تبلیغ کررہے تھی، اس وقت ان کا پہلا انتخاب ایک خاتون کی شکل میں حضرت خدیجہ الکبریٰ تھیں۔ آپ اس وقت عرب کی ایک مشہور تاجر تھیں اور بیوہ تھیں، ازواج مطہراتمیں آپ کا درجہ سب سے بلند ہی، آپ حضرت محمد مصطفی ؐ کے نکاح میں آئیں اور آل رسول میں جن کا شمار ہوتا ہی، ان کا سلسلہ آپ کی کوکھ سے پیدا ہونے والی حضرت فاطمہ زہرا سے ہوا۔ کیونکہ سیرت رسول کے حوالہ سے خواتین کے مرتبہ کا ذکر کرنا ہی، اس لئے معاشرہ میں پھیلی برائیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک ایک بات کو وضاحت کے ساتھ کہنا ہوگا۔ آج بھی یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسلم خواتین کو معاشرہ میں برابر کا مقام حاصل نہیں ہی۔ انہیں گھر کی چہاردیواری میں قید رکھا جاتا ہی۔ ان کے پاس ترقی کے مواقع دیگر خواتین سے کم ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو حضرت خدیجہ الکبریٰ ایک خاتون ہوکر اپنے کاروبار کو کس طرح سنبھال رہی ہوتیں، یعنی اس وقت بھی اسلام میں خواتین کو یہ مقام و مرتبہ حاصل تھا کہ کاروبار کرسکیں، اس میں ترقی حاصل کرسکیں، اپنی شناخت قائم کرسکیں۔ دوسری بات جس پر توجہ دلانا ضروری لگتا ہی، وہ یہ کہ ایک بیوہ عورت کو معاشرہ میں وہ مقام حاصل نہیں ہوتا تھا اور کچھ حد تک یہ اثر آج بھی دیکھا جاتا ہے کہ اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے والی عورت کو جو مقام حاصل ہوتا ہی، وہ ایک بیوہ عورت کو نہیں ہوتا۔ اس کی دوسری شادی کو احترام کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ رسول اکرمؐ نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ایسا سوچنا غلط ہی۔ رسول اکرمؐ کا پہلا نکاح حضرت خدیجہ الکبریٰ کی شکل میںتھا، جو بیوہ تھیں، یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلام میں خواتین کو کیا مقام حاصل ہی۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ کی عمر رسول اللہ حضرت محمد مصطفی ؐ سے پندرہ برس زیادہ تھی، یعنی اللہ کے رسولؐ نے اپنے سے زیادہ عمر کی ایک بیوہ خاتون سے نکاح کرکے معاشرہ کو یہ پیغام دیا کہ صرف اس بنا پر کسی عورت کی اہمیت کم نہیں ہوجاتی کہ وہ بیوہ ہے یا اس کی عمر زیادہ ہی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی شکل میں ایک بار پھر حضور اکرم محمد مصطفیؐنے عمر کے فاصلہ کو بے معنی قرار دیا، یعنی ذہنی اعتبار سے اگر اتنی سمجھ ہے کہ وہ شریک زندگی بن سکے تو عمر کا یہ فاصلہ بہت زیادہ معنی نہیں رکھتا۔ میں سیرت رسولؐ کے اس پہلو پر مزید روشنی ڈالتا، مگر اس وقت بات جس پیرائے میں کرنی ہے اور میں اس وقت ہندوستانی خواتین بالخصوص مسلم خواتین کو جس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں، اس کے لئے کم لفظوں میں اس تمہید کو ختم کرکے اصل موضوع پر آنا ہوگا۔
میرے نزدیک اپنی بات کو شروع کرنے کے لئے اس وقت کربلا کی مثال ہی۔ کربلا کے میدان میںشہادتوں کے بعد، جو کردار نبھایا حضرت ثانی زہرانی، اسے دورحاضر کی خواتین کے لئے ایک مثالی کردار کی شکل میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ کربلا کی یہ جنگ حق و باطل کے درمیان تھی۔ اس جنگ کا نتیجہ سب کے سامنے تھا، مگر اہل ’شام‘ مکمل حقیقت سے واقف نہیں تھے کہ دراصل کربلا کے میدان میں کیا ہوااور کیوں ہوا۔ اس تذبذب کو دور کیاحضرت زینبؓ کی اس تاریخی اور معرکۃ الآرا تقریر نے جو یزید کے دربار میں کی گئی۔ اس تقریر سے آپ نے واضح کیا کہ نواسۂ رسول حضرت امامؓ نے اپنے اہل خانہ اور محبت کرنے والوں کی جانیں کیوں قربان کیں۔ یہ قربانی اللہ کے محبوب ترین دین ’اسلام‘ کے لئے پیش کی گئی۔ آپ کی تقریر نے حقائق کو کچھ اس طرح بیان کیا کہ یزید کو بھی اس بات کا احساس ہوا کہ آخر یہ کیا ہوگیا؟ اس واقعہ کو بس اتنا ہی بیان کرکے میں اس دور کی خواتین کو دعوت دینا چاہتا ہوں کہ پھر تحفظ اسلام کے لئے آپ کے ایسے ہی کردار کی ضرورت ہی۔ صرف ہندوستان ہی نہیں، بین الاقوامی سطح پر تعلیمات قرآن اور سیرت رسولؐ کا پیغام آج آپ کے ذریعہ بھی پہنچائے جانے کی اشد ضرورت ہی، اس لئے کہ ماں کی آغوش میں آنے کے بعد بچہ جو پہلی آواز سنتا ہی، وہ آپ کی آواز ہوتی ہی، جو پہلی تربیت اسے ملتی ہی، وہ آپ کی گود سے ملتی ہی، وہ جس زبان میں گفتگو کرتا ہی، وہ آپ کی زبان ہوتی ہی۔ اس کی تعلیم و تربیت کا آغاز آپ کے ذریعہ ہوتا ہی، پھر معاشرہ میں وہ جو بھی مقام حاصل کری، اس کی ابتدا تو آپ ہی کے ذریعہ ہوتی ہی۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کے درجات بہت بلند بتائے گئے ہیں۔ جنت کو اس کے قدموں تلے قرار دیا گیا ہی۔ آج پوری دنیا میں اسلام کے خلاف ماحول سازی کی جارہی ہی۔ اسے دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہی۔ اس کا معقول جواب اپنے عمل کی شکل میں دینے کی ضرورت ہی۔ ہم اپنی تقاریر کی معرفت، ہم اپنی تحریر کی معرفت جلسہ و جلوس اور اجتماع کی معرفت وہ بات نہیں کہہ سکتی، جو آپ کی سادگی کے ذریعہ کہی اور سمجھائی جاسکتی ہی۔ حیدرآباد کے نوجوان کلیم کی مثال ہمارے سامنے ہی۔ اس کی شناخت کسی عالم دین یا دانشور کی نہیں تھی۔ اس کے پاس دین اسلام کی تعلیمات جو بھی جتنی بھی تھیں، وہ اسے اس کی ماں کی آغوش اور اپنے خاندان کی تربیت سے ہی ملی تھیں۔ ہم آپ سے یہی توقع کرتے ہیں کہ آج معاشرے میں مخالف حالات کا سامنا کرنے کے لئے ایسی ہی تعلیم وتربیت دئے جانے کی ضرورت ہی۔
وقت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ بڑی تعداد میں سیاست میں دلچسپی لیں اور صحافت کو بھی اس حد تک ضرور سمجھیں کہ آپ کو اپنی بات کہنے کا سلیقہ آجائی۔ وہ اطلاعات جن کی آپ کو ضرورت ہی، وہ بروقت آپ کو موصول ہوتی رہیں اور انہیں آگے کس طرح پہنچایا جاسکتا ہی، یہ ہنر آپ سیکھ لیں۔ مجھے یاد ہے یوم خواتین کے موقع پر حیدرآباد کے ایک خصوصی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے میں نے جو چند باتیں کہیں تھیں، انہیں آج کی اس تحریر میں ضرور شامل کرلینا چاہتا ہوں۔ میں نے حضرت امام خمینی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب وہ رضا شاہ پہلوی کے دربار میں تقریر فرما رہے تھے اور ان سے رضا شاہ پہلوی نے کہا کہ ’خمینی میں اس ملک کا بادشاہ ہوں، یہاں میرا حکم چلتا ہی، تمہاری بات کون سنے گا، تمہاری بات پر کون عمل کرے گا‘ تو اس وقت امام خمینی نے ان خواتین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن کی گودوں میں معصوم بچے تھی، کہا کہ ’پہلوی، جب یہ نسل جوان ہوگی تو اس ملک پر تمہاری نہیں، اسلام کی حکومت ہوگی۔‘ تاریخ شاہد ہے اس کے بعد آئے انقلاب نے رضا شاہ پہلوی کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا اور تب سے آج تک ایران میں اسلامی حکومت قائم ہی۔ میں اپنی تحریر کی معرفت اس مثال کے ذریعہ یہی پیغام پہنچانا چاہتا ہوں کہ آپ کی آغوش میں پلنے والی ہماری نئی نسل ہمارے ملک کو اسی عظیم الشان دور میں واپس لے جاسکتی ہی، جب یہاں ہر طرف قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی تھی۔ اس ملک کی تہذیب کو گنگا جمنی تہذیب قرار دیا جاتا تھا، لیکن آج مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ کشیدگی نے ہمارے ملک کو بڑا نقصان پہنچایا ہے اور اسے آپ کے ذریعہ ہی روکا جاسکتا ہی، اس لئے کہ ہندوستان میں ہونے والے لاتعداد فرقہ وارانہ فسادات کا ریکارڈ میرے سامنے ہی، ان میں کہیں بھی یہ درج نہیں ہے کہ فساد ہندو اور مسلمان فرقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے درمیان ہوا۔ ہاں یہ بیچاری فسادات کا شکار ضرور بنتی ہیں، اس سے متاثر ضرور ہوتی ہیں، مگر فساد ان کے ذریعہ برپا کیا گیا ہو، شروعات ان کے ذریعہ کی گئی ہو، ایسا دیکھنے کو نہیں ملتا۔ جبکہ خواتین ہندو ہوں یا مسلمان، وہ اپنے اپنے مذہب پر عمل زیادہ کرتی ہیں، عبادت گزار وہ زیادہ ہوتی ہیں، مندروں میں وہ زیادہ جاتی ہیں، روزہ نماز کی وہ زیادہ پابند ہوتی ہیں، مگر مذہب کے نام پر پھیلائی جارہی نفرت ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔ اس موضوع پر متعدد مضامین لکھے جانے کی ضرورت ہی، لیکن میں صرف دو باتیں کہہ کر آج کی تحریر کو ختم کرنا چاہوں گا۔ میری آج کی تحریر ذرا بے ربط لگ سکتی ہی، اس میں تسلسل کی کمی ہی، میں لفظوں سے زیادہ مفہوم پر توجہ دلا رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں اس وقت کم سے کم لفظوں میں مجھے کیا کہنا ہی۔ پردہ پر اگر بات نہ کروں تو شاید معاشرے میں پھیلی غلط فہمی کو دور نہیں کرپاؤں گا، اس لئے چند جملے پردے کے حوالے سے بھی کہنا چاہوں گا کہ پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ کہیں بھی نہیں رہا ہی۔ میں نے اپنی بات کی شروعات حضرت خدیجہ الکبریؓ سے کی تھی۔ یہ تو اسلامی دور کی بات تھی، اگر ہندوستان کی آزادی کے بعد کے حالات پر نظر ڈالیں تو بھی ہندوستان میں مختلف علاقوں میں ترقی کرنے والی خواتین چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان ہندوستانی تہذیب و تمدن کی نمائندگی کرتی نظر آئی نہ کہ مغربی تہذیب کا لباس آپ کے سامنے ہی، بیشک انہیں پردہ میں نہیں کہا جاسکتا، مگر یہ اس درجہ بے پردہ بھی نہیں ہیں، جس کی وکالت آج کے ترقی پسند کرتے نظر آتے ہیں یا جو غلط فہمی ہماری نوجوان لڑکیوں کے دل و دماغ میں پیدا کی گئی ہی۔ پاکستان میں بے نظیر بھٹو، بنگلہ دیش میں بیگم خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ واجد اپنے اپنے ملک میں بلندترین مقامات تک پہنچیں۔ ان کا مسلمان ہونا، کہیں بھی ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنا۔ جہاں تک پردہ کا یا لباس کا تعلق ہے تو ہمیں دنیا کی ابتدا سے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے تک کے بدلتے منظرنامہ پر نظر ڈالنی ہوگی۔ جب مرد اور عورت کو اس بات کا احساس ہوا کہ تہذیب کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی شرمگاہوں کو، جسم کے نازک حصوں کو چھپا کر رکھیں تو پیڑوں کی چھال سے ان حصوں کو ڈھکنے کی شروعات ہوئی۔ اس کے بعد جیسے جیسے ترقی کا سفر آگے بڑھا، پیڑوں کی چھال کی جگہ جانوروں کی کھال استعمال کی جانے لگی۔ وقت بدلا، ہم کچھ اور آگے بڑھی، کپڑے کا استعمال شروع ہوا۔ پھر جسم کو کپڑے سے ڈھکا جانے لگا۔ آہستہ آہستہ معاشرہ اور مہذب ہوا، یہ کپڑا لباس کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔ اب جس کے جسم پر جتنا بہتر لباس تھا، اسے معاشرے میں اتنی ہی بہتر نگاہوں سے دیکھا جانے لگا۔ آج جو ترقی پسند ممالک ہیں، ان کی مہارانیوں کے لباس دیکھیں، ساری دنیا میں خود کو تہذیب کا علمبردار قرار دینے والا عیسائی مذہب اپنی ’ننس‘ کو جس لباس میں پیش کرتا ہی، وہ آپ کے نقاب کے بیحد نزدیک ہی۔ ہندو مذہب کی تبلیغ کرنے والی خواتین کا لباس بھی مکمل تن ڈھکنے والا ہی، لہٰذا مسلم خواتین کا لباس اگر پوری طرح جسم کے ڈھکے ہونے کی حمایت کرتا ہے تو یہ ان کے ترقی یافتہ ہونے کی دلیل ہی، ان کے پسماندہ ہونے کی نہیں۔ سیاست میں داخل ہونے والی خواتین، چاہے وہ ہندوستان میں رہی ہوں یا پاکستان میں، کسی نے بھی مغربی لباس کا سہارا نہیں لیا۔
ایک آخری بات، پروردگارِعالم نے خواتین میں وہ صفت بخشی ہے کہ اگر وہ کسی کو اپنی طرف راغب کرنا چاہیں تو ایسا کرسکتی ہیں۔ اب یہ عشق کسی ایک فرد سے بھی ہوسکتا ہی، خدا سے بھی ہوسکتا ہی، معاشرہ سے بھی ہوسکتا ہی، اپنی مادری زبان سے بھی ہوسکتا ہی، آج آپ کو دیکھنا یہ ہے کہ یہ جذبۂ عشق صرف اپنی ذات تک محدودرہی،صرف کوئی ایک شخص آپ کی محبت کا حقدار بنے یا مکمل معاشرہ، جو آج آپ کی اس توجہ کا طالب ہی۔ بیشک معاشرہ سے محبت آپ کو خدا سے محبت کی طرف لے جائے گی۔ ہاں، اس میں وہ شخص بھی شامل ہوسکتا ہی، جو آپ کا منظورنظر ہو اور وہ اس کام میں آپ کے ساتھ مل کر قوم کو اس مقام تک لے جاسکتا ہی، جس کی طرف میں اشارہ کررہا ہوں۔ اگر ایک بار ہماری خواتین نے یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ ملک و قوم کی تصویر بدلنے کا ارادہ رکھتی ہیں تو مجھے یقین کامل ہے کہ نہ صرف یہی حقیقت ہوگی، بلکہ بہت جلدہوگی۔
………

‘महिला दिवस’ जज़्बा-ए-इश्क़ दरकार है क़ौम के लिए!
अज़ीज़ बर्नी

महिला दिवस के अवसर पर हार्दिक शुभकामनाएं। बात अगर केवल रिवायती अंदाज़ में मुबारकबाद देने की होती तो यह एक वाक्य भी काफ़ी था, लेकिन ऐसा नहीं है। वक़्त और हालात का तक़ाज़ा कुछ और है, भावनात्मक रिश्तों का तक़ाज़ा कुछ और है। क़ौम व मिल्लत के लिए कर्तव्यों का तक़ाज़ा कुछ और है, इसलिए बात ज़रा विस्तार से करनी होगी और मुबारकबाद भी दिल की गहराईयों से देनी होगी। इस्लाम ने महिलाओं को जो सम्मान दिया है, जो स्थान और दर्जा दिया है शायद वह किसी और धर्म में नहीं है। कहा क्या जाता है और होता क्या है यह मेरी राय से अलग भी हो सकता है। इस वक़्त इस पर अधिक बहस करने के बजाए मैं इस तरफ़ ध्यान दिलाना चाहूंगा कि इस्लामी शिक्षाओं के अनुसार सीरत-ए-रसूल सल्ल॰ की रोशनी में इस्लामी इतिहास को ज़हन में रखते हुए अगर हम महिलाओं की भूमिका पर बात करें तो यह कहना ग़लत नहीं होगा कि जब-जब इस्लाम की प्रगति अथवा रक्षा के लिए महिलाओं की आवश्यकता हुई है, तो क़ौम को मायूसी का सामना नहीं करना पड़ा है। अगर हम इस्लाम के शुरुआती दौर की बात करें तो रसूलल्लाह हज़रत मुहम्मद मुस्तफ़ा सल्ल॰ जब अपने अमल से अपने अख़लाक़ से अपने किरदार से इस्लाम का महत्व समझा रहे थे उस समय उनका पहला चुनाव एक महिला के रूप में हज़रत ख़दीजतुल कुबरा थीं। आप उस समय अरब की एक मशहूर व्यापारी थीं और विधवा थीं, पवित्र पत्नियों में आपका दर्जा सबसे ऊपर है, आप हज़रत मुहम्मद मुस्तफ़ा सल्ल॰ के निकाह में आईं और आले रसूल सल्ल॰ में जिनका शुमार होता है उनका सिलसिला आपकी कोख से पैदा होने वाली हज़रते फ़ातिमा ज़हरा रज़ि॰ से हुआ। क्योंकि सीरत-ए-रसूल सल्ल॰ के हवाले से महिलाओं का उल्लेख करना है, इसलिए समाज में फैली हुई बुराइयों को ज़हन में रखते हुए एक-एक बात को स्पष्ट रूप से कहना होगा। आज भी यह समझा जाता है कि मुस्लिम महिलाओं को समाज में बराबर का दरजा प्राप्त नहीं है। उन्हें घर की चहार दीवारी में क़ैद रखा जाता है, उनके पास प्रगति के अवसर अन्य महिलाओं से कम हैं। अगर ऐसा होता तो हज़रत-ए-ख़दीजतुल कुबरा एक महिला होते हुए अपने कारोबार को किस तरह संभाल रही होतीं, अर्थात उस समय भी महिलाओं को यह स्थान और दरजा प्राप्त था कि कारोबार कर सकें, उसमें प्रगति कर सकें, अपनी पहचान बना सकें दूसरी बात जिस पर ध्यान दिलाना आवश्यक लगता है, वह यह कि एक विधवा औरत को समाज में वह स्थान प्राप्त नहीं होता था और कुछ हद तक यह असर आज भी देखा जाता है कि अपने पति के साथ जीवन बिताने वाली महिला को जो स्थान प्राप्त होता है वह एक विधवा महिला को नहीं होता। उसकी दूसरी शादी को सम्मान की निगाह से नहीं देखा जाता। रसूल-ए-अकरम सल्ल॰ ने अपने अमल से साबित किया कि ऐसा सोचना ग़लत है। रसूले अकरम सल्ल॰ का सबसे पहला निकाह हज़रत ख़दीजा रज़ि॰ से हुआ था, जो विधवा थीं, यह इस बात की ओर संकेत करता है कि इस्लाम में महिलाओं को क्या स्थान प्राप्त है। हज़रते ख़दीजतुल कुबरा रज़ि॰ की आयु हज़रत मुहम्मद मुस्तफ़ा सल्ल॰ से 15 वर्ष अधिक थी। अर्थात अल्लाह के रसूल सल्ल॰ ने अपने से अधिक आयु की एक विधवा से निकाह करके समाज को यह संदेश भी दिया कि केवल इस आधार पर किसी महिला का महत्व कम नहीं हो जाता कि वह बेवा है या उसकी आयु अधिक है। हज़रते आयशा सिद्दीक़ा रज़ि॰ की शक्ल में एक बार फिर हज़रत मुहम्मद मुस्तफ़ा सल्ल॰ ने आयु के अंतर को निरर्थक ठहराया। अर्थात मानसिक रूप से अगर इतनी समझ है कि वह जीवन साथी बन सके तो आयु का यह अंतर बहुत महत्व नहीं रखता। मैं सीरत-ए-रसूल सल्ल॰ के इस पहलू पर और रोशनी डालता मगर इस समय जिस संदर्भ में बात करनी है और मैं इस समय भारतीय महिलाओं विशेषकर मुस्लिम महिलाओं का जिस तरफ़ ध्यान आकर्षित करना चाहता हूं उसके लिए कम शब्दों में इस भूमिका को ख़त्म करके मूल विषय पर आना होगा।
मेरे नज़दीक अपनी बात को शुरू करने के लिए इस समय करबला की मिसाल है। करबला के मैदान पर शहादतों के बाद जो किरदार निभाया हज़रते सानि-ए-ज़हरा ने दौरे हाज़िर की महिलाओं के लिए उसे एक मिसाली किरदार के रूप में पेश करना चाहता हूं। करबला की यह जंग हक़ व बातिल के बीच थी इस जंग का नतीजा सबके सामने था लेकिन ‘शाम’ के रहने वाले पूरी सच्चाई नहीं जानते थे कि असल में करबला के मैदान पर क्या हुआ और क्यों हुआ। इस कशमकश को दूर किया हज़रत-ए-ज़्ौनब की उस ऐतिहासिक तक़रीर ने जो यज़ीद के दरबार में की गयी उस तक़रीर से आपने स्पष्ट किया कि नवास-ए-रसूल सल्ल॰ हज़रत इमाम हुसैन ने अपने परिवार वालों और मुहब्बत करने वालों की जानें क्यों नियौछावर कीं। यह कुरबानी अल्लाह के सबसे पसंदीदा दीन इस्लाम के लिए पेश की गईं। आपकी तक़रीर ने इन वास्तविकताओं को इस तरह बयान किया कि यज़ीद को भी इस बात का एहसास हुआ कि आख़िर यह क्या हो गया? इस घटना को बस इतना ही बयान करके मैं इस दौर की महिलाओं को दावत देना चाहता हूं कि फिर इस्लाम की रक्षा के लिए आपके ऐसे ही किरदार की आवश्यकता है। केवल भारत ही नहीं अन्र्तराष्ट्रीय स्तर पर क़ुरआन की शिक्षाओं और सीरत-ए-रसूल सल्ल॰ का संदेश भी आपके द्वारा भी पहुंचाए जाने की बहुत आवश्यकता है इसलिए कि मां की गोद में आने के बाद बच्चा जो पहली आवाज़ सुनता है वह आपकी होती है, जो पहली तरबियत उसे मिलती है वह आपकी गोद से मिलती है, वह जिस भाषा में बात करता वह आपकी भाषा होती है, उसकी शिक्षा व तरबियत की शुरूआत आपके द्वारा होती है, फिर समाज में वह जो भी स्थान प्राप्त करे उसका आरंभ तो आपके ही द्वारा होता है। यही कारण है कि मां के दर्जात बहुत बुलंद बताए गए हैं। स्वर्ग को उसके क़दमों के तले बताया गया है। आज पूरी दुनिया में इस्लाम के विरूद्ध माहौल तैयार किया जा रहा है। उसे आतंकवाद से जोड़ने का प्रयास किया जा रहा है। इसका उचित उत्तर अपने अमल के रूप में देने की आवश्यकता है। हम अपने भाषणों के माध्यम से, अपने लेखों के माध्यम से, जलसा व जुलूस और इजतिमा के माध्यम से वह बात नहीं कह सकते जो वह आपकी सादगी के द्वारा कही और समझाई जा सकती है, हैदराबाद के कलीम की मिसाल हमारे सामने है। उसकी पहचान किसी आलिम-ए-दीन या बुद्धिजीवी के रूप में नहीं थी। उसके पास इस्लाम धर्म की शिक्षाएं जो भी जितनी भी थीं वह उसे उसकी मां की आग़ोश और अपने ख़ानदान की तरबियत से ही मिला थीं। हम आपसे यही आशा करते हैं कि आज समाज में मुख़ालिफ़ हालात का सामना करने के लिए ऐसी ही तालीम व तर्बियत दिए जाने की आवश्यकता है।
समय का तक़ाज़ा यह भी है कि आप बड़ी संख्या में राजनीति में दिलचस्पी लें और पत्रकारिता को भी इस हद तक समझें कि आपको अपनी बात कहने का सलीक़ा आ जाए। वह सूचनाएं जिनकी आपको आवश्यकता है वह सही समय पर आपको मिलती रहें और उन्हें आगे किस तरह पहुंचाया जा सकता है यह हुनर आप सीख लें। मुझे याद है महिला दिवस के अवसर पर हैदराबाद के एक विशेष जलसे में मैंने तक़रीर करते हुए जो बातें कही थीं, उन्हें आज के इस लेख में अवश्य शामिल कर लेना चाहता हूं। मैंने हज़रत इमाम ख़ुमैनी का ज़िक्र करते हुए कहा था कि जब वह रज़ा शाह पहलवी के दरबार में तक़रीर कर रहे थे और रज़ा शाह पहलवी ने उनसे कहा था कि ‘ख़ुमैनी मैं इस देश का बादशाह हूं, यहां मेरा आदेश चलता है, तुम्हारी बात कौन सुनेगा, तुम्हारी बात पर कौन अमल करेगा’ तो उस समय इमाम ख़मैनी ने उन महिलाओं की तरफ़ इशारा करते हुए जिनकी गोद में मासूम बच्चे थे, कहा ‘पहलवी जब यह पीढ़ी जवान होगी तो इस देश पर तुम्हारी नहीं इस्लाम की हुकूमत होगी’। इतिहास गवाह है इसके बाद आए इन्क़लाब ने रज़ा शाह पहलवी की हुकूमत का तख़्ता पलट दिया और तब से आज तक ईरान में इस्लामी हुकूमत है। मैं अपने लेख के द्वारा और इस मिसाल के द्वारा यही संदेश पहुंचाना चाहता हूं कि आपकी गोद में पलने वाली हमारी नई पीढ़ी हमारे देश को उसी महान युग में वापस ले जा सकती है जब यहां हर तरफ़ राष्ट्रीय एकता और साम्प्रदायिक सौहार्द था। इस देश की इस संस्कृति को गंगा जमनी संस्कृति कहा जाता था लेकिन आज धार्मिक नफ़रत और साम्प्रदायिक तनाव ने हमारे देश को बहुत नुक़्सान पहुंचाया है और इसे आपके द्वारा ही रोका जा सकता है। इसलिए कि भारत में होने वाले असंख्य साम्प्रदायिक दंगों का रिकार्ड मेरे सामने है, उनमें कहीं भी यह दर्ज नहीं है कि फ़साद हिंदू और मुसलमान फ़िरक़ों से संबंध रखने वाली महिलाओं के बीच हुआ। हां यह बेचारी इन दंगों का शिकार ज़रूर बनती हैं, इससे प्रभावित अवश्य होती हैं, लेकिन दंगा इनके द्वारा किया गया हो, शुरूआत इनके द्वारा की गई हो ऐसा देखने को नहीं मिलता। जबकि महिलाएं हिंदू हों या मुसलमान वह अपने-अपने धर्मों पर अमल ज़्यादा करती हैं, इबादतगुज़ार वह ज़्यादा होती हैं, मंदिरों में वह अधिक जाती हैं, रोज़ा-नमाज़ की वह अधिक पाबंद होती हैं, मगर धर्म के नाम पर फैलाई जा रही नफ़रत उनके दिलों में नहीं होती। इस विषय पर कई लेख लिखे जाने की आवश्यकता है, लेकिन इस समय मैं केवल दो बातें कह कर आज के लेख को समाप्त करना चाहूंगा, मेरा आज का लेख बेरब्त लग सकता है इसमें तसुलसुल की कमी है मैं शब्दों से अधिक भावार्थ पर ध्यान दिला रहा हूं। मैं जानता हूं इस समय कम से कम शब्दों में मुझे क्या कहना है। परदे पर अगर बात न करूं तो शायद समाज में फैली ग़लतफ़हमी को दूर नहीं कर पाऊँगा, इसलिये कुछ वाक्य परदे के हवाले से भी कहना चाहूंगा कि परदा प्रगति की राह में रुकावट कहीं भी नहीं रहा है। मैंने अपनी बात की शुरूआत हज़रत ख़दीजतुल कुबरा रज़ि॰ से की थी। यह तो इस्लामी दौर की बात थी, अगर भारत की आज़ादी के बाद के हालात पर निगाह डालें तो भी भारत में विभिन्न क्षेत्रों में प्रगति करने वाली महिलाऐं चाहे वे हिन्दू हों या मुसलमान, भारतीय सभ्यता व संस्कृति का प्रतिनिधित्व करतीन नज़र आई न कि पश्चिम सभ्यता का उनका लिबास आपके सामने है। निःसंदेह उन्हें परदे में नहीं कहा जा सकता मगर यह इस हद तक बेपरदा भी नहीं हैं जिसकी वकालत आज के प्रगतिशील करते नज़र आते हैं या जो ग़लत फ़हमी हमारे नौजवान लड़कियों के दिलो दिमाग़ में पैदा की गई है। पाकिस्तान में बेनज़ीर भुट्टो, बंग्ला देश में बेगम ख़ालिदा ज़िया और शेख़ हसीना वाजिद अपने अपने देशों में ऊंचे मक़ाम तक पहुंची उनका मुसलमान होना उनकी राह में कहीं भी रुकावट नहीं बना। जहां तक परदे का संबंध है तो हमें दुनिया के आरंभ से प्रगति की राह पर चलने तक के बदलते हुए परिदृश्य पर निगाह डालनी होगी। जब मर्द और औरत को इस बात का एहसास हुआ कि सभ्यता का तक़ाज़ा यह है कि हम अपनी शर्मगाहों को, जिस्म के नाज़्ाुक हिस्सों को छुपा कर रखें तो पेड़ों की छाल से उन हिस्सों को ढकने की शुरूआत हुई। उसके बाद जैसे-जैसे विकास का सफ़र आगे बढ़ा, पेड़ों की छाल की जगह जानवरों की खाल इस्तेमाल की जाने लगी, समय बदला हम कुछ और आगे बढ़े, कपड़े का इस्तेमाल शुरू हुआ फिर शरीर को कपड़े से ढका जाने लगा। आहिस्ता आहिस्ता समाज और सभ्य हुआ, यह कपड़ा लिबास का रूप लेता गया। अब जिसके शरीर पर जितना अच्छा लिबास था उसे समाज में उतनी ही अच्छी निगाहों से देखा जाने लगा। आज जो प्रगतिशील देश हैं उनकी महारानियों के लिबास देखिए, सारी दुनिया में स्वयं को सभ्यता का अलम्बरदार कहने वाला ईसाई धर्म अपनी ‘नन्स’ को जिस लिबास में पेश करता है वह आपके नक़ाब के बहुत क़रीब है। हिंदू धर्म की तब्लीग़ करने वाली महिलाओं का लिबास भी पूरी तरह तन ढकने वाला है, अतः मुस्लिम महिलाओं का लिबास जिस्म के ढके हुए होने की हिमायत करता है तो यह उनके प्रगतिशील होने की दलील है उनके पिछड़े हुए होने की नहीं। राजनीति में आने वाली महिलाएं, चाहे वह भारत में रही हों या पाकिस्तान में किसी ने भी पश्चिमी पहनावे का सहारा नहीं लिया।
एक अंतिम बात, परवरदिगार-ए-आलम ने महिलाओं में वह गुण दिया है कि अगर वह किसी को अपनी तरफ़ आकर्षित करना चाहें तो कर सकती हैं। अब यह इश्क़ किसी एक व्यक्ति से भी हो सकता है, ख़ुदा से भी हो सकता है, समाज से भी हो सकता है, अपनी मातृ भाषा से भी हो सकता है। आज आपको देखना यह है कि इश्क़ की यह भावना अपने आप तक सीमित रहे। केवल कोई एक व्यक्ति आपके प्रेम का अधिकारी बने या पूरा समाज, जो आज आपकी इस तवज्जो का तालिब है। निःसंदेह समाज से मुहब्बत आपको ख़ुदा की तरफ़ ले जाएगी। हां इसमें वह व्यक्ति भी शामिल हो सकता है जो आपको पसंदीदा हो और वह इस काम में आपके साथ मिल कर राष्ट्र को उस स्थान की तरफ़ ले जा सकता है जिसकी तरफ़ मैं इशारा कर रहा हूं। अगर एक बार हमारी महिलाओं ने यह निर्णय ले लिया कि वह देश और समाज की तस्वीर बदलने का इरादा रखती हैं तो मुझे पूरा विश्वास है कि न केवल यही हक़ीक़त होगी बल्कि बहुत जल्द होगी।
..........................

Sunday, March 6, 2011

’کانگریس‘تمل ناڈو ریاستی انتخابات کے تناظر میں…

عزیز برنی

8
مارچ یعنی ’یوم خواتین‘، لہٰذامیرا کل کا مضمون اسی موضوع پر ہوگا، چونکہ میں اس وقت اردو زبان کے حوالہ سے گفتگو کررہا ہوں اور ملک کے مختلف حصوں میں مردم شماری کا کام جاری ہی۔ ہم اپنی مادری زبان کے خانہ میں اردو درج کررہے ہیں، مگر اتنا ہی کافی نہیں ہی، اب اس خانہ پری سے آگے بڑھ کر کچھ سوچنا اور کرنا ہوگا اور یہ تاریخ ساز کارنامہ خواتین کے ذریعہ ہی ممکن ہی۔ ایسا نہیں ہے کہ مردوں کی خدمات کو کم کرکے دیکھا جارہا ہی، ہاں بس یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ماں کی آغوش میں ملنے والی زبان ہی بچہ کی پہلی زبان ہوتی ہی، اسی لئے ہم اسے مادری زبان کہتے ہیں۔ میں اپنے کل کے مضمون کے لئے خواتین کی خاص توجہ چاہتا ہوں، اس لئے کہ میں اس اردو تحریک کو کامیاب بنانے میں ان کا بے مثال کردار دیکھ رہا ہوں، لیکن میں ایک صحافی ہوں اور مجھے تازہ سیاسی صورتحال پر بھی نظر رکھنا ہی۔ تمل ناڈو کا ریاستی انتخاب، کانگریس اور ڈی ایم کے کے بدلتے رشتے اس وقت میرے سامنے ہیں، لہٰذا میرا آج کا مضمون اسی موضوع پر اور کل کی تحریر یوم خواتین کی نذر۔
کانگریس شاید ڈی ایم کے کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی، ورنہ جو صورتحال آج پیدا ہوئی ہی، یہ اسی وقت پیدا ہوسکتی تھی جب 2ـجی اسپیکٹرم معاملہ میں ڈی ایم کے کے اے راجا کو لے کر ہنگامہ شروع ہوا تھا۔ مسلسل پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ ہوتی چلی جارہی تھی۔ جے پی سی (جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی)قائم کرنے کا دباؤ بڑھتا چلا جارہا تھا، حتیٰ کہ وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کی شخصیت کو متاثر کرنے کی بھی مسلسل کوشش کی جارہی تھی، مگر کانگریس نے ایسا کوئی بھی تاثر دینے کی کوشش نہیں کی کہ وہ ڈی ایم کے کا دامن جھٹک دینا چاہتی ہی۔ حالانکہ انا ڈی ایم کی سربراہ جے للتا نے اسی وقت واضح طور پر یہ اشارہ دے دیا تھا کہ ڈی ایم کے سے الگ ہوجانے کی صورت میں سرکار کو کسی طرح کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ان کی پارٹی کی غیرمشروط حمایت یوپی اے سرکار کو حاصل ہوگی۔ تاہم کانگریس ڈی ایم کے کے ساتھ دوستی نبھاتی رہی، لیکن اب سیٹوں کے بٹوارے کے سوال پر یہ کشیدگی منظرعام پر آگئی۔ اگر اسی وقت کانگریس نے یہ فیصلہ کرلیا ہوتا کہ وہ ڈی ایم کے سے ذرا فاصلہ پر رہنا چاہتی ہی، اس لئے کہ ڈی ایم کے کی وجہ سے یوپی اے گورنمنٹ کو مسلسل بدعنوانی کے الزامات کو برداشت کرنا پڑرہا ہے اور صفائی دینا مشکل ہوتا چلا جارہا ہی، تب شاید کانگریس سیاسی اعتبار سے زیادہ بہتر پوزیشن میں ہوتی۔ یہ تو اس وقت بھی صاف دکھائی دے رہا تھا کہ تمل ناڈو میں جے للتا کا گراف بڑھ رہا ہے اور کروناندھی کا گھٹ رہا ہی۔ بیشک کانگریس اپنے دم پر ریاست میں کوئی بڑی پوزیشن حاصل کرنے کے امکان نہیں دیکھ رہی تھی، مگر اس کا دو طرفہ فائدہ اسے ضرور ہوتا۔ ایک تو جے للتا کے ساتھ رشتے آج سے زیادہ بہتر ہوتی، دوسرے ڈی ایم کے سے عوام کی ناراضگی کا حصہ دار کانگریس کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ سیاسی پیچیدگیاں کچھ ایسی ہیں کہ ریاستی انتخابات کے بعد کانگریس کے پاس یہ موقع تب بھی رہتا کہ جس کے ساتھ مل کر سرکار بنانے کا موقع ملی، حاصل کرلیا جائی۔ حالانکہ یہ موقع آج بھی اس کے پاس ہی۔ اگر اے آئی ڈی ایم کے کو واضح اکثریت نہیں ملتی ہے اور ڈی ایم کے کسی حالت میں بھی سرکار بنانے کی پوزیشن میں نہیں آتی ہے تو کانگریس ریاست میں جے للتا کو حمایت دینے کا فیصلہ کرسکتی ہے اور ڈی ایم کے سے علیحدگی کی صورت میں مرکزی حکومت کو جے للتا کی حمایت حاصل ہوسکتی ہی۔
جس طرح ملک کی مختلف ریاستوں میں علاقائی پارٹیاں مضبوط ہوتی جارہی ہیں اور کانگریس یا بھارتیہ جنتا پارٹی کا انحصار ان پر بڑھتا چلا جارہا ہی، اس کے دوررس نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی تو کانگریس کے مقابلہ بہت نئی پارٹی ہے اور اسے آگے بڑھنے کا موقع کانگریس کے بکھراؤ اور ریاستی پارٹیوں کے ذریعہ ہی ملا ہی، لیکن کانگریس کے بارے میں ایسا نہیں کہا جاسکتا۔ نہ جانے کیوں وہ الگ الگ ریاستوںمیں اپنی قدآور لیڈرشپ پیدا نہیں کرپارہی ہے یا اگر ہے تو اسے ان ریاستوں کے اعتبار سے بڑھاوا نہیں دے پارہی ہی۔ کانگریس کے پاس الگ الگ ریاستوں سے بڑے قد کے لیڈران کی کمی نہیں ہی، مگر وہ اپنی ریاست کی سیاست میں زیادہ دلچسپی لیتے نظر نہیں آتی، وہ مرکزی حکومت کا حصہ بنے رہنا چاہتے ہیں۔ ایسا کانگریس پارٹی کی ایما پر ہوتا ہے یا ان کی دلچسپی اپنی ریاست کے مقابلہ مرکز میں زیادہ ہوتی ہی، اب یہ تو زیادہ بہتر وہ خود یا ان کی پارٹی ہی جانتی ہوگی، لیکن آج کانگریس کو یہ سوچنے کی ضرورت ہونی چاہئے کہ جے للتا اور کروناندھی کے قد کا کوئی ریاستی لیڈر ان کے پاس کیوں نہیں ہی۔ صوبائی انتخابات کے لئے کس کا چہرہ دیکھ کر علاقائی عوام کانگریس کو ووٹ دینے کا فیصلہ کریں۔ جب اسے صاف نظر آرہا ہے کہ کانگریس کے پاس ایسا کوئی چہرہ ہی نہیں ہی، جو ریاست کا وزیراعلیٰ بن سکی۔ اگر اسے جے للتا اور کروناندھی کے درمیان ہی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ان میں سے کس کے ہاتھوں میں ریاست کی باگ ڈور دی جائے تو پھر کانگریس کی تو کسی نہ کسی کے پیچھے چلنا مجبوری ہی ہوگی، جبکہ عوام کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا ووٹ اقتدار حاصل کرنے والے کو ملی۔
کانگریس کے پاس مرکزی وزیرداخلہ پی چدمبرم، تمل ناڈو کے ایک قدآور لیڈر کی شکل میں کل بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ اگر 2006کے ریاستی انتخابات سے پہلے کانگریس نے پی چدمبرم کا چہرہ اور نام ریاستی انتخابات کے لئے استعمال کیا ہوتا تو عین ممکن ہے کہ اسے اس وقت ریاستی انتخابات میں اور بعد کے پارلیمانی انتخابات میں زیادہ کامیابی حاصل ہوتی۔ آج ڈی ایم کے سے ناراض اور تبدیلی کی چاہ رکھنے والا ووٹر جو جے للتا کی طرف جانے کا ارادہ رکھتا ہی، وہ کانگریس کی طرف بھی آسکتا تھا۔ قد کے اعتبار سے پی چدمبرم جے للتا اور کروناندھی کے مقابلہ کمزور نظر نہیں آتی۔ مسلسل مرکزی حکومت کا حصہ رہنے والے اس کانگریسی لیڈر کو اپنا وزیراعلیٰ دیکھنے میں ریاستی عوام زیادہ خوش اور مطمئن ہوسکتے تھی۔ اس صورت میں انہیں اپنی ریاست کی ترقی کے زیادہ امکانات نظر آتی۔ اس لئے کہ مرکزی وزیرخزانہ کے عہدہ پر کامیاب رہنے والا شخص اپنی ریاست کے لئے مرکز سے اچھا پیکیج لے سکتا ہی۔ اس وقت یہ امیدیں اور بڑھ جاتی ہیں، جب سرکار اسی پارٹی کی ہو۔ ایسا کانگریس نے نہیں چاہا یا چدمبرم اسے پسند نہیں کرتے تھی، یہ تو وہی بہتر جانتے ہوں گی، مگر کانگریس اپنے فیصلہ لینے میں اتنی کمزور نہیں ہوتی کہ اپنی پارٹی کے کسی بھی قدآورلیڈر کے ساتھ اسے سمجھوتہ کرنا پڑا۔ نرائن دت تیواری اترپردیش کے وزیراعلیٰ تھی، جب اتراکھنڈ بھی اترپردیش میں شامل تھا، مگر بعد میں وہ صرف اتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ بنی۔ ارجن سنگھ کی طرح ان کی خواہش بھی مرکز میں کسی بڑی ذمہ داری کے لئے ہوسکتی تھی، لیکن کانگریس نے وہی کیا جو پارٹی کے لحاظ سے ٹھیک لگا۔
E کیرالہ میں اے کے انٹونی بڑے قد کے لیڈر ہیں، مگر وہ مرکزی حکومت میں وزیردفاع ہیں، جبکہ ریاست میں کمیونسٹوں کا جادو ٹوٹ رہا ہی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی وہاں ہے نہیں، کانگریس امید کرے تو کس سی، کس کا چہرہ سامنے رکھ کر الیکشن لڑی۔ یہی بات مغربی بنگال میں ہی، یہاں4برسوں بعد کمیونسٹ اگر عوام کی تبدیلی کی چاہ کے سبب کمزور نظر آرہے ہیں تو ممتابنرجی کے علاوہ کوئی اور نعم البدل ان کے پاس ہے ہی نہیں، جبکہ یہ صاف نظر آرہا ہے کہ وہاں کمیونسٹوں کی لمبی حکومت میں بدلاؤ کی چاہت مغربی بنگال کے عوام کی پہلی خواہش ہی۔ پرنب مکھرجی جو مغربی بنگال میں سب سے مقبول اور اچھی امیج کے باصلاحیت لیڈر ہیں، اگر کانگریس نے انہیں سامنے رکھا ہوتا تو عین ممکن ہے کہ ممتابنرجی سے بھی کہیں زیادہ عوام ان کے پیچھے نظر آتی۔ بہرحال اب تو بہت دیر ہوچکی ہی۔ اترپردیش میں بھی کانگریس کے سامنے یہ سوال کھڑا ہوسکتا ہی۔ ملائم سنگھ یادو اور اب مایاوتی کے بڑے قد کے سامنے ریاست کا کوئی چہرہ ایسا تو ہو، جسے کانگریس سامنے رکھ کر نعم البدل کی بات مضبوطی سے کہہ سکی۔ جہاں تک ہماری نظر ہی، علاقائی سطح پر علاقائی لیڈران کا بڑھتا ہوا قد آنے والے کل میں ایسے نتائج دے سکتا ہی، جس پر آج ہی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہی۔ بیشک یہ تمام بڑے لیڈران جنہوں نے اپنی اپنی ریاستوں میں اپنی اپنی شناخت اپنے بل بوتے پر حاصل کی ہی، ان کی طاقت کو کم کرکے نہیں دیکھا جاسکتا، مگر انہیں ریاست کے ساتھ ساتھ اپنے مرکزی کردار کے بارے میں بھی سوچنا چاہئی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے کل میں مرکزی حکومت کے لئے قومی سطح کی پارٹیاں ہوں اور ریاستی حکومتیں علاقائی لیڈران کے پاس۔ ایسے میں اتحاد کے ساتھ چلنے والی مرکزی حکومت کتنی خودمختار ہوگی، سمجھا جاسکتا ہی۔ یہ ایک الگ موضوع ہی، جس پر بہت سنجیدگی سے غور کرنے اور لکھنے کی ضرورت ہی۔
بہرحال ہم اس وقت بات کررہے تھی، تمل ناڈو کے ریاستی انتخابات کی، کانگریس اور ڈی ایم کے کے درمیان پیدا ہوئے فاصلہ کی۔ تو کانگریس کے لئے جہاں یہ فکرمندی کی بات ہے کہ اس کا ایک ساتھی اس سے الگ ہوسکتا ہی، جس کا آنے والے کل میں مرکزی حکومت کی مضبوطی پر اثر پڑسکتا ہے تو اطمینان کی بات یہ بھی ہونی چاہئے کہ سماجوادی پارٹی اس متوقع خسارے کو پورا کرنے کے لئے آگے آسکتی ہی۔ ہاں، مگر ملائم سنگھ کا ساتھ حاصل کرنے کے لئے اسے ایک بار پھر اترپردیش کے اسمبلی انتخابات پر غور کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے کانگریس جہاں اپنے لئے ایک بار پھر زمین تلاش کرنے میں مصروف ہی، کیا کانگریس ملائم سنگھ سے ان کی شرطوں پر سمجھوتہ کرسکے گی؟ اور اگر سمجھوتہ کرنا اس کی مجبوری ہی ہے تو یہ سمجھوتہ تمل ناڈو میں کروناندھی کے ساتھ ہی کیوں نہیں؟ بہرحال یہ تمام پیچیدگیاں کانگریس کے ساتھ ہیں، تاہم اسے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اگر صرف خواہشوں اور ارادوں سے کام چل جاتا تو بہار کے ریاستی انتخابات میں اتنے خسارے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ کچھ زمینی حقیقت کو سمجھنا بھی ضروری ہی، جہاں زمین تلاش کی جاتی ہی، وہاں اس زمین پر رہنے والوں کے دلوں میں جھانک کر بھی دیکھنا ہوتا ہی۔ دہلی کی دوربین سے ہر ریاست کا گاؤں نظر نہیں آتا۔ نتیجہ اس گاؤںکے نزدیک رہنے والے کے حق میں چلا جاتا ہے اور کانگریس دیکھتی رہ جاتی ہی۔
آج کا مضمون چونکہ تمل ناڈو کی سیاسی صورتحال اور کانگریس و ڈی ایم کے کے بدلتے رشتوں پر ہی، اسی لئے ہم کسی دوسری ریاست کے حوالہ سے زیادہ گفتگو نہیں کرنا چاہتی۔ کانگریس نے اپنے سپہ سالاروں میں ذرا تبدیلی کی ہی۔ تمل ناڈو کی ذمہ داری غلام نبی آزاد کے سپرد کی گئی ہی۔ تمل ناڈو ایک ایسی ریاست ہی، جہاں مسلمانوں کی آبادی صرف 5.6 فیصد ہی، جبکہ اس کی بغل کی ریاست کیرالہ میں مسلمان تقریباً5فیصد ہیں۔ ظاہر ہے سیاسی نظر انہی کی گہری ہوسکتی ہی، جو سیاست میں ہیں، مگر سیاست سے ذرا دور رہنے والے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں مذہب اور ذات کا آج بھی بڑا دخل ہی۔ زبان کے اعتبار سے تو تمل ناڈو اور کیرالہ باہر والوں کے لئے ایک جیسا ہی ہی۔ مذہب عوام کو جوڑنے یا متاثر کرنے کی اگر کوئی وجہ بن سکتا تھا یا بن سکتا ہے تو غلام نبی آزاد کا اثر تمل ناڈو سے زیادہ کیرالہ میں ہونا چاہئی۔
تمل ناڈو کی کل 234 اسمبلی سیٹوں میں سے کانگریس نے پچھلی مرتبہ 34سیٹیں حاصل کیں، جبکہ صرف8سیٹوں پر انتخاب لڑا، اسی طرح 2001میں 14سیٹوں پر الیکشن لڑ کر 7سیٹیں حاصل کیں، یہ پہلے کی سیٹوں کے مقابلہ کافی بہتر پوزیشن تھی۔ اس بار اور بہتری کی امید کی جاسکتی ہی۔
{ان اعدادوشمار کی روشنی میں ہمیں لگتا ہے کہ کانگریس کو یہ مشکل فیصلہ کرہی لینا چاہئے کہ وہ تمل ناڈو اسمبلی الیکشن تنہا لڑے اور پوری طاقت کے ساتھ لڑی۔ کم سے کم عوام کے سامنے تین ایسی پارٹیاں تو ہوں، جہاں ان کے لئے ان میں سے کسی ایک کے انتخاب کا موقع ہو۔ ہوسکتا ہے کہ کانگریس میں یہ بحث چل پڑے کہ ایسی صورت میں زیادہ سیٹوں پر لڑا تو جاسکتا ہی، مگر منتخب ہونے والے ممبران کی تعداد کچھ کم ہوسکتی ہی۔ اگر یہ الیکشن وہ بغیر کسی سہارے کے لڑے تو، ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو، اگر ہو جائے تو بھی یہ کوئی نقصان کی بات نہیں ہی، اس لئے کہ کانگریس بیلنسنگ پاور ہوگی۔ اگر اقتدار کی دہلیز پر پہنچنے کے لئے دونوں میں سے کوئی بھی پارٹی کچھ قدم پیچھے رہ جاتی ہے تو منزل پر قدم رکھنے کے لئے کانگریس کی مدد درکار ہوگی۔ سیاست میں رشتوں کی کٹھاس یا مٹھاس دیرپا نہیں ہوتی۔ امید کم ہی، پھر بھی اگر ڈی ایم کی(کروناندھی) اقتدار سے کچھ دور رہ جاتی ہے تو کانگریس کا ساتھ پانے میں نہ اسے کوئی گریز ہوگا اور نہ ہی کانگریس کو اس میں کوئی پریشانی ہوگی۔ جے للتا کو ضرورت پڑی تو یہ رشتہ ان کے ساتھ قائم ہوسکتا ہی۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو بھی تمل ناڈو میں پارٹی کو کھڑی کرنے کا ایک موقع تو ملے گا، ورنہ34میں سے صرف 60-62سیٹوں پر تو امیدوار کھڑے کردئے جائیں گی۔ باقی سیٹوں پر جہاں کانگریس کے امیدوار نہیں ہوںگی، وہاں پارٹی کا وجود کیا رہ جائے گا۔ ظاہر ہے وہ ڈی ایم کے اور اے آئی ڈی ایم کے کے بیچ تقسیم ہوجائیں گی۔ کانگریس کو اب چاہئے کہ وہ ریاستوں میں اپنی طاقت میں اضافہ کری، پارٹی کو مضبوط کری، اپنا کیڈر کھڑا کری، یہ تبھی ممکن ہی، جب وہ پوری ہمت اور طاقت کے ساتھ تنہا الیکشن میں اترنے کا فیصلہ کری۔ یوں بھی تمل ناڈو کے ریاستی انتخابات کے نتیجہ کا مرکزی حکومت پر بہت زیادہ اثر نہیں پڑنے والا، بس رشتوں میں اعتدال قائم رکھنے کی ضرورت ہی۔
………

‘कांग्रेस’ तमिलनाडु विधानसभा चुनावों के परिपेक्ष में.....
अज़ीज़ बर्नी

8 मार्च अर्थात महिला दिवस, इसलिए मेरा कल का लेख इसी विषय पर होगा। चूंकि मैं इस समय उर्दू ज़बान के संदर्भ में गुफ़्तगू कर रहा हूं और देश के विभिन्न भागों में जन-गणना का कार्य जारी है। हम अपनी मातृभाषा के ख़ाने में उर्दू दर्ज कर रहे हैं, परंतु इतना ही काफ़ी नहीं है अब इस ख़ानापुरी से आगे बढ़कर कुछ सोचना और करना होगा और यह ऐतिहासिक कारनामा अंजाम देना महिलाओं के द्वारा ही संभव है। ऐसा नहीं है कि पुरुषों की सेवाओं को कम करके देखा जा रहा है। हां, बस यह इस वास्तविकता की स्वीकारोक्ति है कि मां की गोद से मिलने वाली भाषा ही बच्चे की पहली भाषा होती है, इसीलिए हम उसे मातृभाषा कहते हैं। मैं अपने कल के लेख के लिए महिलाओं का विशेष ध्यान चाहता हूं, इसलिए कि मैं इस उर्दू तहरीक को सफल बनाने में उनकी अभूतपूर्व भूमिका देख रहा हूं, लेकिन मैं एक पत्रकार हूं और मुझे ताज़ा राजनीतिक स्थिति पर भी नज़र रखनी है। तमिलनाडु का प्रादेशिक चुनाव कांग्रेस तथा डीएमके के बदलते संबंध इस समय मेरे सामने हैं, इसलिए मेरा आजका लेख इसी विषय पर और कल का लेख महिला दिवस को समर्पित:
कांग्रेस शायद डीएमके को नाराज़ करना नहीं चाहती थी, वरना जो स्थिति आज उत्पन्न हुई है, यह उसी समय पैदा हो सकती थी जब 2-जी स्पेक्ट्रम मामले में डीएमके के ए-राजा को लेकर हंगामा आरंभ हुआ था। लगातार संसद की कार्यवाही ठप होती चली जा रही थी। जेपीसी (संयुक्त सस्दीय समिति) गठित करने का दबाव बढ़ता चला जा रहा था, यहां तक कि प्रधानमंत्री डा॰ मनमोहन सिंह जी के व्यक्तित्व को प्रभावित करने का भी निरंतर प्रयास किया जा रहा था, परंतु कांगेे्रस ने ऐसा कोई संकेत देने का प्रयास नहीं किया कि वह डीएमके का दामन झटक देना चाहती है। हालांकि अन्ना डीएमके प्रमुख जय ललिता ने उसी समय स्पष्ट रूप से यह संकेत दे दिया था कि डीएमके सेे अलग हो जाने की स्थिति में सरकार को किसी प्रकार की कठिनाई का सामना नहीं करना पड़ेगा। उनकी पार्टी का बिना शर्त समर्थन यूपीए सरकार को प्राप्त होगा। फिर भी कांगे्रस डीएमके के साथ दोस्ती निभाती रही, लेकिन सीटों के बटवारे के प्रश्न पर यह तनाव सामने आ गया। अगर उस समय कांग्रेस ने यह फ़ैसला कर लिया होता कि वह डीएमके से थोड़ी दूरी पर रहना चाहती है, इसलिए कि डीएमके के कारण यूपीए सरकार को लगातार भ्रष्टाचार के आरोपों को सहन करना पड़ रहा है और सफ़ाई देना कठिन होता चला जा रहा है, तब शायद कांगे्रस राजनीतिक दृष्टि से अधिक बेहतर स्थिति में होती। यह तो उस समय भी साफ़ दिखाई दे रहा था कि तमिलनाडु में जय ललिता का ग्राफ़ बढ़ रहा है और करुणानिधि का घट रहा है। बेशक कांगे्रस अपने दम पर राज्य में कोई बड़ी पोज़िशन प्राप्त करने की संभावना नहीं देख रही थी, परंतु इसका दोतरफ़ा लाभ उसे ज़रूर होता। एक तो जय ललिता के साथ संबंध आज से अधिक बेहतर होते दूसरे डीएमके से जनता की नाराज़गी का ज़िम्मेदार कांग्रेस को नहीं ठहराया जा सकता। राजनीतिक पेचीदगियां कुछ ऐसी हैं कि प्रादेशिक चुनावों के बाद कांग्रेस के पास यह अवसर तब भी रहता कि जिसके साथ मिलकर सरकार बनाने का अवसर मिले या प्राप्त कर लिया जाए, हालांकि यह अवसर आज भी उसके पास है अगर एआईडीएमके को स्पष्ट बहुमत नहीं मिलता है और डीएमके किसी हालत में भी सरकार बनाने की स्थिति में नहीं आती है तो कांग्रेस राज्य में जय ललिता को समर्थन देने का फ़ैसला कर सकती है और डीएमके से अलग होने की स्थिति में कंेद्रीय सरकार को जय ललिता का समर्थन प्राप्त हो सकता है।
जिस तरह देश के विभिन्न राज्यों में प्रादेेशिक पार्टियां मज़बूत होती जा रही हैं और कांग्रेस या भारतीय जनता पार्टी की निर्भरता उन पर बढ़ती चली जा रही है, उसके दूरगामी परिणाम सामने आ सकते हैं। भारतीय जनता पार्टी तो कांग्रेस के मुक़ाबले बहुत नई पार्टी है और उसे आगे बढ़ने का अवसर कांग्रेस के बिखराव तथा प्रादेशिक पार्टियों द्वारा ही मिला है, लेकिन कांग्रेस के बारे में ऐसा नहीं कहा जा सकता। न जाने क्यों वह अलग-अलग राज्यों में अपना मज़बूत नेतृत्व पैदा नहीं कर पा रही है या अगर है तो उसे उन राज्यों की दृष्टि से बढ़ावा नहीं दे पा रही है। कांगे्रस के पास अलग-अलग राज्यों से बड़े क़द के नेताओं की कमी नहीं है, परंतु वह अपने राज्य की राजनीति में अधिक रुचि लेते नज़र नहीं आते, वह केंद्रीय सरकार का हिस्सा बने रहना चाहते हैं। ऐसा कांग्रेस पार्टी के इशारे पर होता है या उनकी रुचि अपने राज्य की अपेक्षा केंद्र में अधिक होती है, अब यह तो अधिक बेहतर वह स्वयं या उनकी पार्टी ही जानती होगी। लेकिन आज कांग्रेस को यह सोचने की आवश्यकता होनी चाहिए कि जय ललिता और करुणानिधि के क़द का कोई प्रादेशिक नेता उनके पास क्यों नहीं है, प्रादेशिक चुनाव के लिए किसका चेहरा देख कर क्षेत्रीय जनता कांग्रेस को वोट देने का फ़ैसला करे। जब उसे साफ़ नज़र आ रहा है कि कांग्रेस के पास ऐसा कोई चेहरा ही नहीं है जो राज्य का मुख्यमंत्री बन सके अगर उसे जय ललिता और करुणानिधि के बीच ही यह फ़ैसला करना है कि उनमें से किसके हाथों में राज्य की लगाम दी जाए, तो फिर कांग्रेस की तो किसी न किसी के पीछे चलना मजबूरी ही होगी। जबकि जनता की इच्छा होती है कि उसका वोट सत्ता प्राप्त करने वाले को मिले।
कांग्रेस के पास केंद्रीय गृह मंत्री पी॰चिदम्बरम, तमिलनाडु के एक दिग्गज नेता के रूप में कल भी थे और आज भी हैं। अगर 2006 के राज्य चुनाव से पूर्व कांग्रेस ने पी॰चिदम्बरम का चेहरा और नाम प्रादेशिक चुनावों के लिए प्रयोग किया होता तो अतिसंभव है कि उसे उस समय प्रादेशिक चुनाव में और बाद के संसदीय चुनावों में अधिक सफलता प्राप्त होती। आज डीएमके से नाराज़ और परिवर्तन की इच्छा रखने वाला वोटर जो जय ललिता की ओर जाने का इरादा रखता है वह कांगे्रस की ओर भी आ सकता था। क़द की दृष्टि से पी॰चिदम्बरम, जय ललिता तथा करुणानिधि के मुक़ाबले कमज़ोर नज़र नहीं आते। निरंतर केंद्रीय सरकार का हिस्सा रहने वाले इस कांग्रेसी नेता को अपना मुख्यमंत्री देखने में प्रादेशिक जनता अधिक प्रसन्न तथा संतुष्ट हो सकती थी। इस स्थिति में उन्हें अपने राज्य के विकास की अधिक संभावनाएं नज़र आतीं। इसलिए कि केंद्रीय वित्त मंत्री के पद पर सफल रहने वाला व्यक्ति अपने राज्य के लिए केंद्र से अच्छा पैकेज ले सकता है। उस समय यह आशाएं और बढ़ जाती हैं, जब सरकार उसी पार्टी की हो। ऐसा कांग्रेस ने नहीं चाहा। चिदम्बरम उसे पसंद नहीं करते थे, यह तो वही बेहतर जानते होंगे, परंतु कांगे्रस अपने फ़ैसले लेने में इतनी कमज़ोर नहीं होती कि अपने दल के किसी भी दिग्गज नेता के साथ उसे समझौता करना पड़ता। नारायण दत्त तिवारी उत्तर प्रदेश के मुख्य मंत्री थे, जब उत्तराखन्ड भी उत्तर प्रदेश में शामिल था, परंतु बाद में वह केवल उत्तराखन्ड के मुख्यमंत्री बने। अर्जुन सिंह की तरह उनकी इच्छा भी केंद्र में किसी बड़ी ज़िम्मेदारी के लिए हो सकती थी। लेकिन कांग्रेस ने वही किया जो पार्टी के दृष्टि से ठीक लगा।
केरल में एके एन्टनी बड़े क़द के नेता हैं परंतु वह केंद्रीय सरकार में रक्षा मंत्री हैं जबकि राज्य में कम्युनिस्टों का जादू टूट रहा है। भारतीय जनता पार्टी वहां है नहीं, कांगे्रस उम्मीद करे तो किससे, किसका चेहरा सामने रख कर चुनाव लड़े। यही बात पश्चिम बंगाल में है, यहां 34 वर्षों बाद कम्युनिस्ट अगर जनता में परिवर्तन की चाह के चलते घाटे में नज़र आ रहे हैं तो ममता बैनर्जी के अलावा कोई और विकल्प उनके पास है ही नहीं। जबकि यह साफ़ नज़र आ रहा है कि वहां कम्युनिस्टों के लम्बे शासन में बदलाव की चाहत पश्चिम बंगाल की जनता की पहली इच्छा है। प्रणव मुखीर्जी जो पश्चिम बंगाल में सबसे लोकप्रिय और साफ़ छवि के योग्य नेता हैं, अगर कांगे्रस ने उन्हें सामने रखा होता तो अतिसंभव है कि ममता बैनर्जी से भी कहीं अधिक जनता उनके पीछे नज़र आती। बहरहाल अब तो बहुत देर हो चुकी है। उत्तर प्रदेश में भी कांगेे्रस के सामने यह प्रश्न खड़ा हो सकता है। मुलायम सिंह यादव और अब मायावती के बड़े क़द के सामने राज्य का कोई चेहरा ऐसा तो हो, जिसे कांगे्रस सामने रख कर विकल्प की बात मज़बूती से कह सके। जहां तक हमारी नज़र है, क्षेत्रीय स्तर पर, क्षेत्रीय नेताओं का बढ़ता हुआ क़द आने वाले समय में ऐसे परिणाम दे सकता है, जिस पर आज ही बहुत अधिक ध्यान देने की आवश्यकता है। निःसंदेह यह सभी बड़े नेतागण जिन्होंने अपने अपने राज्यों में अपनी-अपनी पहचान अपने बल-बूते पर प्राप्त की है, उनकी शक्ति को कम करके नहीं देखा जा सकता, परंतु उन्हें राज्य के साथ-साथ अपनी केंद्रीय भूमिका के बारे में भी सोचना चाहिए। कहीं ऐसा न हो कि आने वाले समय में केंद्रीय सरकार के लिए राष्ट्रीय स्तर की पार्टियां हों और प्रादेशिक सरकारें क्षेत्रीय नेताओं के पास। ऐसे में गठबंधन के साथ चलने वाली केंद्रीय सरकार कितनी आज़ाद होगी, समझा जा सकता है। यह एक अलग विषय है, जिस पर काफ़ी गंभीरता से विचार करने और लिखने की आवश्यकता है।
बहरहाल हम इस समय बात कर रहे थे तमिलनाडु के प्रादेशिक चुनावों की, कांगे्रस और डीएमके के बीच उत्पन्न हुई दूरी की, तो कांग्रेस के लिए जहां यह चिंता की बात है कि उसका एक साथी उससे अलग हो सकता है, जिसका आने वाले समय में केंद्रीय सरकार की मज़बूती पर प्रभाव पड़ सकता है तो संतोष की बात यह भी होनी चाहिए कि समाजवादी पार्टी इस संभावित घाटे को पूरा करने के लिए आगे आ सकती है। हां, परंतु मुलायम सिंह का साथ प्राप्त करने के लिए उसे एक बार फिर उत्तर-प्रदेश के विधानसभा चुनावों पर विचार करना होगा। ज़ाहिर है कि कांगे्रस जहां अपने लिए एक बार फिर ज़मीन तलाशने में लगी है, क्या कांग्रेस मुलायम सिंह से उनकी शर्तों पर समझौता कर सकेगी? और अगर समझौता करना उसकी मजबूरी ही है तो यह समझौता तमिलनाडु में करुणानिधि के साथ ही क्यों नहीं? बहरहाल यह तमाम उलझनें कांगे्रस के साथ हैं, फिर भी उसे यह भी देखना होगा कि अगर केवल इच्छाओं और इरादों से काम चल जाता तो बिहार के प्रादेशिक चुनाव में इतने घाटे का सामना नहीं करना पड़ता। कुछ ज़मीनी सच्चाई को समझना भी आवश्यक है। जहां ज़मीन तलाश की जाती है, वहां उस ज़मीन पर रहने वालों के दिलों में झांक कर भी देखना होता है। दिल्ली की दूरबीन से हर राज्य का गांव नज़र नहीं आता। परिणाम उस गांव के निकट रहने वाले के पक्ष में चला जाता है और कांगे्रस देखती रह जाती है।
आजका लेख चूंकि तमिलनाडु की राजनीतिक स्थिति तथा कांग्रेस एवं डीएमके के बदलते संबंधों पर है, इसीलिए हम किसी अन्य राज्य के संदर्भ में गुफ़्तगू नहीं करना चाहते। कांग्रेस ने अपने सिपह-सालारों में थोड़ा परिवर्तन किया है। तमिलनाडु की ज़िम्मेदारी ग़्ाुलाम नबी आज़ाद के सुपुर्द की गई है। तमिलनाडु एक ऐसा राज्य है जहां मुसलमानों की आबादी केवल 5.6 प्रतिशत है। जबकि उसके बग़ल के राज्य केरल में मुसलमान लगभग 25 प्रतिशत हैं। ज़ाहिर है राजनीतिक दृष्टि उन्हीं की गहरी हो सकती है, जो राजनीति में हैं, परंतु राजनीति से ज़रा दूर रहने वाले भी यह समझते हैं कि चुनाव में धर्म तथा जाति का आज भी बड़ा दख़ल है। भाषा की दृष्टि से तो तमिलनाडु और केरल बाहर वालों के लिए एक जैसा ही है। धर्म जनता को जोड़ने या प्रभावित करने का अगर कोई कारण बन सकता था या बन सकता है तो ग़्ाुलाम नबी आज़ाद का प्रभाव तमिलनाडु से अधिक केरल में होना चाहिए।
तमिलनाडु की कुल 234 विधानसभा सीटों में से कांग्रेस ने पिछली बार 34 सीटें प्राप्त कीं, जबकि केवल 48 सीटों पर चुनाव लड़ा, इसी प्रकार 2001 में 14 सीटों पर चुनाव लड़ कर 7 सीटें प्राप्त की, यह पहले की सीटों के मुक़ाबले काफ़ी अच्छी स्थिति थी इस बार और बेहतरी की उम्मीद की जा सकती है।
इन आंकड़ों की रौशनी में हमें लगता है कि कांग्रेस को यह कठिन फ़ैसला कर ही लेना चाहिए कि वह तमिलनाडु विधानसभा का इलैक्शन अकेले लड़े और पूरी ताक़त के साथ लड़े। कम से कम जनता के सामने तीन ऐसी पार्टियां तो हों, जहां उसके लिए उनमें से किसी एक के चुनाव का मौक़ा हो। हो सकता है कि कांगे्रस में यह बहस चल पड़े कि ऐसी स्थिति में अधिक सीटों पर लड़ा तो जा सकता है परंतु निर्वाचित होने वाले सदस्यों की संख्या कुछ कम हो सकती है, अगर यह चुनाव वह बिना किसी सहारे के लड़े तो, ज़रूरी नहीं कि एसा ही हो अगर हो जाय तो भी यह कोई नुक़्सान की बात नहीं है, इसलिए कि कांग्रेस बैलेंसिंग पावर होगी। अगर सत्ता की चैखट पर पहुंचने के लिए दोनों में से कोई भी पार्टी कुछ क़दम पीछे रह जाती है तो मंज़िल पर क़दम रखने के लिए कांग्रेस की सहायता दरकार होगी। राजनीति में संबंधों की खटास या मिठास स्थाई नहीं होती। उम्मीद कम है, फिर भी अगर डीएमके (करुणानिधि) सत्ता से कुछ दूर रह जाती है तो कांग्रेस का साथ पाने में न उसे कोई परहेज़ होगा और न कांग्र्रेस को इसमें कोई कठिनाई होगी। जय ललिता को अगर ज़रूरत पड़ी तो यह संबंध उनके साथ भी स्थापित हो सकता है। ऐसा कुछ भी नहीं हुआ तो भी तमिलनाडु में पार्टी को खड़ा करने का एक अवसर तो मिलेगा। वरना 234 में से केवल 60-62 सीटों पर तो उम्मीदवार खड़े कर दिए जाएंगे। शेष सीटों पर जहां कांग्र्रेस के उम्मीदवार नहीं होंगे वहां पार्टी का अस्तित्व क्या रह जाएगा। ज़ाहिर है कि वह डीएमके और एआईडीएमके के बीच विभाजित हो जाएंगे। कांग्र्रेस को चाहिए कि वह राज्यों में अपनी ताक़त में वृद्धि करे पार्टी को मज़बूत करे, अपना कैडर खड़ा करे, यह तभी संभव है, जब वह पूरे साहस और शक्ति के साथ अकेली इलैक्शन में उतरने का फ़ैसला करे। यूं भी तमिलनाडु के प्रादेशिक चुनावों के परिणाम का केंद्रीय सरकार पर बहुत अधिक प्रभाव नहीं पड़ने वाला, बस संबंधों में सामंजस्य रखने की आवश्यकता है।
...............................