سرزمین ہند پر امام حرم کی آمد یقینا ایک مبارک قدم ہی۔ ان کے اس تین روزہ دورہ میں جو ہیجانی کیفیت اور جذبۂ ایمانی دیکھنے کو ملا، اس نے مکہ مدینہ کی یاد تازہ کردی۔ گوکہ وہ ہمارے درمیان سے واپس تشریف لے جاچکے ہیں، مگر آج بھی فضاؤں میں ان کی آمد کی خوشبو محسوس کی جاسکتی ہی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ رسول اکرم حضرت محمد مصطفی ؐ کی آمد نے سرزمین عرب پر جو رحمتوں کی بارش کی تھی، کیا ہندوستان میں اس مقدس سرزمین سے تشریف لانے والے امام حرم قبلہ محترم فضیلتہ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس کی آمد کوئی ایسا اثر چھوڑے گی، جو اس زمین پر رہنے والوں کی تقدیر بدل دی۔ اگر یہاں بالخصوص مسلمانوں کا تذکرہ کیا جائے تو بے محل نہیں ہوگا، اس لئے کہ ان کی جو عقیدت اس دوران دیکھنے کو ملی، وہ یقینا یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ امام حرم کے اس دورہ سے ضرور فیضیاب ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اگر یہ صفیں اتحاد کی شکل میں دیکھنے کو مل جائیں تو کیا کہنی، اس لئے کہ ہماری صفوں میں اتحاد کی کمی آج ہماری کامیابی کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی۔ اگر ان مبارک قدموں کی برکت ہمیں اتحاد کی راہ پر لے چلے تو بہت سے مسائل کا حل دیکھنے کو مل سکتا ہی۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس قیادت کی کمی ہی۔ مذہب کی بات ہو یا سیاست کی، ہمارے پاس قائدین کی کمی نہیں ہی، مگر ان میں سے کون قومی سطح پر ہم سب کی رہنمائی کرسکے یہ سوال آج بھی اپنی جگہ قائم ہی۔سیاسی قیادت کے بغیر بہت سے مسائل کا حل مشکل نظر آتا ہی۔ مذہبی بیداری کی ضرورت ہر قدم پر ہی، مگر قومی و بین الاقوامی سطح پر ہمیں جن مسائل کا سامنا ہی، اس کی راہ بھی نکالنا ہوگی۔ میں نے کل کے مضمون میں لیبیا کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے مسلم ممالک کو درپیش مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ کس طرح یکے بعد دیگرے یہ ملک صہیونی طاقتوں کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں، یہ جاننے کے لئے ہمیں اب تاریخ کے دامن میں جھانک کر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہی۔ اگر چند برسوں کے کربناک حالات پر بھی ہم نظر ڈالیں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کتنی تیزی سے اسلامی ممالک صلیبی طاقتوں کے سامنے سرنگوں ہونے کے لئے مجبور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ امام حرم نے ہندوستان آمد کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرزمین عرب کے بعد یہ پہلا موقع ہی، جب مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو خطاب کرنے کا موقع پارہا ہوں، لہٰذا ہمیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ بیشک ہندوستان اسلامی ملک نہ ہو، مگر ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی آواز آج پوری دنیا میں سنی جاتی ہے اور ان کی اجتماعی طاقت اگر کوئی فیصلہ لے لے تو یہ آواز تاریخ بدل سکتی ہی۔ آج لیبیا کو بچانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر صہیونی طاقتوں کے قدموں کو اسی وقت نہ روک دیا گیا تو جس تیزی سے یہ اسلامی ممالک اور مسلمانوں کو نشانہ بناتے چلے جارہے ہیں، شاید دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں بچے گا، جہاں مسلمانوں پر ان کا عتاب نازل نہ ہو۔ ہمیں کیوں یہ انتظار رہتا ہے کہ جب کوئی مخالف طاقت ہم پر حملہ آور ہوگی، ہمیں جنگ کا سامنا ہوگا، تبھی ہم بیدار ہوں گی، متحد ہوں گی۔ کیا آج بھی ہمیں یہ سمجھ لینے میں کوئی قباحت ہے کہ یہ اسلام دشمن طاقتیں ہر ملک کے مسلمانوں کی تباہی کے لئے ایک الگ حکمت عملی رکھتی ہیں۔ مسلم ممالک کے عوام کو کبھی تاناشاہی کا خوف دکھا کر اور کبھی دہشت گردی میں ملوث بتاکر ان پر براہِ راست حملہ کیا جاتا ہے تو ہندوستان اور پاکستان جیسے ملکوں کے لئے الگ حکمت عملی پائی جاتی ہی۔ ہندوستان میں دہشت گردی بہت جلد مذہبی رنگ لے لیتی ہی، لہٰذا ہمارے ملک میں جب جب دہشت گردانہ حملہ ہوتے ہیں، انہیں مذہبی چشمہ سے دیکھنے والوں کی بھی کمی نہیں ہوتی۔ ہم تمام دہشت گردوں میں کبھی سادھوی پرگیہ سنگھ تو دوسرے مفتی ابوالبشر کا چہرہ دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ ہم نے اس دہشت گردی کو ایک دوسرے کے خلاف سازش کے معاملوں میں دیکھنا شروع کردیا ہی۔ نتیجہ اصل مجرم ہماری گرفت میں آتے آتے رہ جاتے ہیں۔ کبھی وہ ہمیں فریب دے کر بھاگ جاتے ہیں اور کبھی ہمیں ان کے فریب کا اندازہ ان کے چلے جانے کے بہت بعد میں ہوتا ہی۔ امریکی شہری کین ہے ووڈ کی حرکتوں کا اندازہ ہمیں اسی وقت ہوگیا تھا، جب ہندوستان کے مختلف شہروں میں بم دھماکے ہورہے تھے اور وہ ہمارے ملک میں تھا، لیکن ہم اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے ذریعہ پھیلائی گئی تباہی کی داستان اس سے کہیں زیادہ طویل ہی۔ وہ امریکی پاسپورٹ پر ایک بدلے ہوئے نام اور شہریت کے ساتھ مسلسل ہندوستان اور پاکستان کا سفر کرتا رہا۔ تباہی کے جال بچھاتا رہا، ہم انجان رہے اور جب یہ راز سامنے آیا، تب ہم اس حد تک بے بس اور لاچار تھے کہ بار بار کی کوششوں کے باوجود بھی ہم اپنے مجرم کو اپنے ملک کی سرحدوں میں لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ ان دہشت گردانہ حملوں نے صرف ہمارے ملک میں پے درپے تباہی کا عالم ہی پیدا نہیں کیا، بلکہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان ایک بڑی خلیج بھی پیدا کی۔ بیشک مبارکباد کے مستحق ہیں ہندوستان کے ہندو اور مسلمان، جنہوں نے اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ بیشک ہم پوری طرح بم دھماکوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوئی، لیکن انہیں اس حد تک مذہبی رنگ بھی نہیں دیا جاسکا کہ ملک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہوتا۔ ادھر دو ڈھائی برس کے عرصہ میں ہمیں بہت حد تک اس دہشت گردی پر قابو پانے میں کامیابی ملی ہی، مگر ابھی بھی پوری طرح مطمئن نہیں ہوا جاسکتا۔ ہمیں تمام واقعات کی تہہ تک پہنچ کر ان اصل چہروں کو بے نقاب کرنا ہوگا، یہ دہشت گردی جن کے دماغوں کی اُپج ہی، ان کی ہندمخالف سرگرمیوں کی حکمت عملی کیا ہی۔ اس پر غور کرنا ہوگا،صرف ان ناموں اور چہروں کو دیکھنا ہی کافی نہیں ہوگا، جو ان میں ملوث ہیں یا ملوث نظر آتے ہیں۔ پس پردہ کیا ہے یہ جاننا بھی ضروری ہی۔
پاکستان میں دہشت گردی کو مذہبی رنگ نہیں دیا جاسکتا۔ باوجود اس کے کہ طالبان اور لشکرطیبہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں پاکستان کی تباہی کی ایک بڑی وجہ بن گئی ہیں۔ اس کے پیچھے کیا ’ریمنڈڈیوس‘ جیسے امریکی سفارتکاروں کا بھی کوئی رول ہے یا صرف یہ پاکستان کے پروردہ وہ دہشت گرد ہیں، جنہیں ماضی میں ہندوستان کے خلاف استعمال کرنے کی نیت سے پروان چڑھنے کا موقع فراہم کیا گیا اور اب وہ آستین کا سانپ بن بیٹھے ہیں۔
9میں نے آج کے مضمون کی شروعات کی تھی امام حرم کی ہندوستان تشریف آوری سے اور میں آج کے اپنے مضمون کا موضوع بس یہی رکھنا چاہتا ہوں۔ مذکورہ بالا سطروں میں دیگر ممالک کاتذکرہ اس لئے کیا کہ اگر ہم متحد ہوجائیں تو نہ صرف ہندوستان میں اپنے حالات کو بہتر بناسکتے ہیں، بلکہ عرب ممالک جو یکے بعد دیگرے صہیونی طاقتوں کی گرفت میں آتے چلے جارہے ہیں، اس سے بھی انہیں نجات دلا سکتے ہیں، اس لئے کہ گنتی کے اعتبار سے مسلم ممالک کی تعداد بہت زیادہ سہی، مگر مسلم آبادی کے اعتبار سے ہندوستان کا مسلمان درجنوں مسلم ممالک کی مجموعی آبادی سے کہیں زیادہ ہے اور اس کا جمہوری نظام اسے ان مسلم ممالک کے باشندوں سے کہیں زیادہ حقوق فراہم کرتا ہی۔ اسلام مخالف طاقتوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی اجازت دیتا ہی۔ مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ چاہ کر بھی عرب ممالک کے عوام مصر، لیبیا اور بحرین کے حق میں آواز بلند نہیں کرسکتی۔ انہیں اپنے ملک کے حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنے حکمراں کی منشا کے خلاف ایک قدم بھی آگے بڑھ سکیں اور ان کے حکمراں کس حد تک امریکی مفادات کا خیال رکھتے ہیں، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہی۔ ہوسکتا ہے ان کی اپنی یہ مجبوریاں بھی ہوں کہ وہ اپنی اور اپنے ملک کی عافیت اسی میں محسوس کرتے ہوں کہ انتہائی خاموشی کے ساتھ بڑی طاقتوں کی رضا میں اپنی رضا سمجھ لی جائی۔ اس لئے کہ کون دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے ساتھ ٹکرانے کی ہمت کری، وہ بھی تب جب کہ انہوں نے حال ہی میں صدام حسین اور حسنی مبارک کا حشر دیکھ لیا ہو اور لیبیا کے صدر کرنل قذافی کا حشر دیکھ رہے ہوں، لیکن ہم ہندوستان کے مسلمان ان معنوں میں ان سب سے زیادہ خوش نصیب ہیں اور ایک حد تک یہ بھی اطمینان کی بات کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے بعض حکمراں بھلے ہی امریکہ کے تئیں دل میں نرم گوشہ رکھتے ہوں، مگر وہ عرب ممالک کے حکمرانوں کی طرح ان کی مرضی کے غلام نہیں ہیں۔ اس درمیان مختلف سیاسی حلقوں سے لیبیا کی حمایت میں آوازوں کا اٹھنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ عرب ممالک میں امریکی مداخلت کو لے کر خوش نہیں ہیں اور اس بیجا مداخلت کو ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ایسے میں جب ہندوستان کا مسلمان تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کو محبوب ہے اور وہ اس کے جذبات کا خیال رکھنا چاہتے ہیں، میں داخلی مسائل کی بات نہیں کررہا ہوں، میں ان بین الاقوامی مسائل پر بات کررہا ہوں، جن کو سامنے رکھ کر یہ چند سطریں لکھی جارہی ہیں۔ ایسے میں اگر ہم متحد ہوکر لیبیا کے حق میں آواز بلند کریں تو ہمیں پوری امید ہے کہ تقریباً تمام سیکولر سیاسی جماعتوں کی ہمیں بھرپور حمایت حاصل ہوگی اور وہ جنہیں ہم سیکولر نہیں مانتی، لہٰذا اس زمرے میں انہیں شامل نہیں کیا گیا۔ کم از کم ان سے بھی یہ امید تو قطعاً نہیں ہے کہ وہ امریکہ کی حمایت میں آواز بلند کریں گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم میں سے وہ تمام مذہبی اور سماجی تنظیمیں جن کی زبان پر لبیک کہتے ہوئے لاکھوں مسلمان اکٹھا ہوجاتے ہیں، کیا ایسے مسائل میں بھی دلچسپی لیں گی، کوئی تحریک چلائیں گی۔ میں پھر یہ عرض کردینا چاہوں گا کہ آج اگر وہ لیبیا کے حق میں کوئی تحریک چلانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اسے صرف لیبیا کے حق میں نہ سمجھا جائی، بلکہ اسے اپنے حق میں بھی سمجھا جائی۔ اس لئے کہ اسلام مخالف طاقتوں کا نشانہ تمام عالم اسلام اور تمام مسلمان ہیں، جس میں آپ، ہم، سب شامل ہیں۔ بات صدام حسین کی ہو یا کرنل قذافی کی، امریکی میڈیا ایسے موقعوں پر ان کی بیشمار دولت اور ان کے ذریعہ کئے جانے والے مظالم کو بڑھا چڑھا کر بتانا اور دکھانا شروع کردیتا ہی، تاکہ ساری دنیا کی ذہن سازی کی جاسکے کہ جن ملکوں میں بھی ان کے سربراہان کے خلاف آواز بلند کی جارہی ہی، اس کی وجہ ان کی تاناشاہی اور بیشمار دولت کا جمع کرلینا ہی۔ میں یہاں کسی کا نام نہیں لکھنا چاہتا، اس لئے کہ بدعنوانیوں میں ملوث تمام افراد کی فہرست کو شامل کرنا اس وقت میرے لئے ممکن نہیں ہی، تاہم یہ اشارہ کیا کم ہے کہ کرنل قذافی جو1برس تک ایک ایسے ملک کا حکمراں رہا، جو پیٹرول کی دولت سے مالامال ہی۔ اس کے پاس اس طویل حکمرانی کی مدت میں جتنی دولت ملی، اتنی تو ہم تازہ تازہ کچھ گمنام سے چہروں کے منظرعام پر آنے کے بعد بھی دیکھتے ہیں۔ میں کسی کو الزام سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش نہیں کررہا ہوں، عرض صرف اتنا کردینا چاہتا ہوں کہ اگر کسی نے اپنے ملک کے عوام کے ساتھ انصاف نہیں کیا تو اسے اقتدار سے ہٹانے کا یا سزا دینے کا کام اس ملک کے عوام کا ہی۔ اگر کوئی حکمراں بدعنوانی میں ملوث ہے تو اس کو سزا دینے کی ذمہ داری اس ملک کی عدالت کی ہی۔ اگر ہم نے اپنے اوپر غیرملکی طاقتوں کو اس درجہ حاوی کرلیا کہ وہ جب چاہیں جس کے آنگن میں کود کر اس کی گردن پکڑنے کا حق حاصل کرلیں تو پھر ان کی گرفت سے کس کی گردن بچے گی؟ قبل اس کے کہ یہ آگ ہمارے دامن تک پہنچی، ہمیں دامن پھیلا کر اتحاد کی بھیک مانگنی ہوگی، تمام اختلافات کو بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہونا ہوگا، آج لیبیا کے حق میں اور کل اپنے مسائل کے حل کی جدوجہد میں، ورنہ آج لیبیا نہیں بچے گا اور کل ہم نہیں بچیں گے
No comments:
Post a Comment