Sunday, March 6, 2011

’کانگریس‘تمل ناڈو ریاستی انتخابات کے تناظر میں…

عزیز برنی

8
مارچ یعنی ’یوم خواتین‘، لہٰذامیرا کل کا مضمون اسی موضوع پر ہوگا، چونکہ میں اس وقت اردو زبان کے حوالہ سے گفتگو کررہا ہوں اور ملک کے مختلف حصوں میں مردم شماری کا کام جاری ہی۔ ہم اپنی مادری زبان کے خانہ میں اردو درج کررہے ہیں، مگر اتنا ہی کافی نہیں ہی، اب اس خانہ پری سے آگے بڑھ کر کچھ سوچنا اور کرنا ہوگا اور یہ تاریخ ساز کارنامہ خواتین کے ذریعہ ہی ممکن ہی۔ ایسا نہیں ہے کہ مردوں کی خدمات کو کم کرکے دیکھا جارہا ہی، ہاں بس یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ماں کی آغوش میں ملنے والی زبان ہی بچہ کی پہلی زبان ہوتی ہی، اسی لئے ہم اسے مادری زبان کہتے ہیں۔ میں اپنے کل کے مضمون کے لئے خواتین کی خاص توجہ چاہتا ہوں، اس لئے کہ میں اس اردو تحریک کو کامیاب بنانے میں ان کا بے مثال کردار دیکھ رہا ہوں، لیکن میں ایک صحافی ہوں اور مجھے تازہ سیاسی صورتحال پر بھی نظر رکھنا ہی۔ تمل ناڈو کا ریاستی انتخاب، کانگریس اور ڈی ایم کے کے بدلتے رشتے اس وقت میرے سامنے ہیں، لہٰذا میرا آج کا مضمون اسی موضوع پر اور کل کی تحریر یوم خواتین کی نذر۔
کانگریس شاید ڈی ایم کے کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی، ورنہ جو صورتحال آج پیدا ہوئی ہی، یہ اسی وقت پیدا ہوسکتی تھی جب 2ـجی اسپیکٹرم معاملہ میں ڈی ایم کے کے اے راجا کو لے کر ہنگامہ شروع ہوا تھا۔ مسلسل پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ ہوتی چلی جارہی تھی۔ جے پی سی (جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی)قائم کرنے کا دباؤ بڑھتا چلا جارہا تھا، حتیٰ کہ وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کی شخصیت کو متاثر کرنے کی بھی مسلسل کوشش کی جارہی تھی، مگر کانگریس نے ایسا کوئی بھی تاثر دینے کی کوشش نہیں کی کہ وہ ڈی ایم کے کا دامن جھٹک دینا چاہتی ہی۔ حالانکہ انا ڈی ایم کی سربراہ جے للتا نے اسی وقت واضح طور پر یہ اشارہ دے دیا تھا کہ ڈی ایم کے سے الگ ہوجانے کی صورت میں سرکار کو کسی طرح کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ان کی پارٹی کی غیرمشروط حمایت یوپی اے سرکار کو حاصل ہوگی۔ تاہم کانگریس ڈی ایم کے کے ساتھ دوستی نبھاتی رہی، لیکن اب سیٹوں کے بٹوارے کے سوال پر یہ کشیدگی منظرعام پر آگئی۔ اگر اسی وقت کانگریس نے یہ فیصلہ کرلیا ہوتا کہ وہ ڈی ایم کے سے ذرا فاصلہ پر رہنا چاہتی ہی، اس لئے کہ ڈی ایم کے کی وجہ سے یوپی اے گورنمنٹ کو مسلسل بدعنوانی کے الزامات کو برداشت کرنا پڑرہا ہے اور صفائی دینا مشکل ہوتا چلا جارہا ہی، تب شاید کانگریس سیاسی اعتبار سے زیادہ بہتر پوزیشن میں ہوتی۔ یہ تو اس وقت بھی صاف دکھائی دے رہا تھا کہ تمل ناڈو میں جے للتا کا گراف بڑھ رہا ہے اور کروناندھی کا گھٹ رہا ہی۔ بیشک کانگریس اپنے دم پر ریاست میں کوئی بڑی پوزیشن حاصل کرنے کے امکان نہیں دیکھ رہی تھی، مگر اس کا دو طرفہ فائدہ اسے ضرور ہوتا۔ ایک تو جے للتا کے ساتھ رشتے آج سے زیادہ بہتر ہوتی، دوسرے ڈی ایم کے سے عوام کی ناراضگی کا حصہ دار کانگریس کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ سیاسی پیچیدگیاں کچھ ایسی ہیں کہ ریاستی انتخابات کے بعد کانگریس کے پاس یہ موقع تب بھی رہتا کہ جس کے ساتھ مل کر سرکار بنانے کا موقع ملی، حاصل کرلیا جائی۔ حالانکہ یہ موقع آج بھی اس کے پاس ہی۔ اگر اے آئی ڈی ایم کے کو واضح اکثریت نہیں ملتی ہے اور ڈی ایم کے کسی حالت میں بھی سرکار بنانے کی پوزیشن میں نہیں آتی ہے تو کانگریس ریاست میں جے للتا کو حمایت دینے کا فیصلہ کرسکتی ہے اور ڈی ایم کے سے علیحدگی کی صورت میں مرکزی حکومت کو جے للتا کی حمایت حاصل ہوسکتی ہی۔
جس طرح ملک کی مختلف ریاستوں میں علاقائی پارٹیاں مضبوط ہوتی جارہی ہیں اور کانگریس یا بھارتیہ جنتا پارٹی کا انحصار ان پر بڑھتا چلا جارہا ہی، اس کے دوررس نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی تو کانگریس کے مقابلہ بہت نئی پارٹی ہے اور اسے آگے بڑھنے کا موقع کانگریس کے بکھراؤ اور ریاستی پارٹیوں کے ذریعہ ہی ملا ہی، لیکن کانگریس کے بارے میں ایسا نہیں کہا جاسکتا۔ نہ جانے کیوں وہ الگ الگ ریاستوںمیں اپنی قدآور لیڈرشپ پیدا نہیں کرپارہی ہے یا اگر ہے تو اسے ان ریاستوں کے اعتبار سے بڑھاوا نہیں دے پارہی ہی۔ کانگریس کے پاس الگ الگ ریاستوں سے بڑے قد کے لیڈران کی کمی نہیں ہی، مگر وہ اپنی ریاست کی سیاست میں زیادہ دلچسپی لیتے نظر نہیں آتی، وہ مرکزی حکومت کا حصہ بنے رہنا چاہتے ہیں۔ ایسا کانگریس پارٹی کی ایما پر ہوتا ہے یا ان کی دلچسپی اپنی ریاست کے مقابلہ مرکز میں زیادہ ہوتی ہی، اب یہ تو زیادہ بہتر وہ خود یا ان کی پارٹی ہی جانتی ہوگی، لیکن آج کانگریس کو یہ سوچنے کی ضرورت ہونی چاہئے کہ جے للتا اور کروناندھی کے قد کا کوئی ریاستی لیڈر ان کے پاس کیوں نہیں ہی۔ صوبائی انتخابات کے لئے کس کا چہرہ دیکھ کر علاقائی عوام کانگریس کو ووٹ دینے کا فیصلہ کریں۔ جب اسے صاف نظر آرہا ہے کہ کانگریس کے پاس ایسا کوئی چہرہ ہی نہیں ہی، جو ریاست کا وزیراعلیٰ بن سکی۔ اگر اسے جے للتا اور کروناندھی کے درمیان ہی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ان میں سے کس کے ہاتھوں میں ریاست کی باگ ڈور دی جائے تو پھر کانگریس کی تو کسی نہ کسی کے پیچھے چلنا مجبوری ہی ہوگی، جبکہ عوام کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا ووٹ اقتدار حاصل کرنے والے کو ملی۔
کانگریس کے پاس مرکزی وزیرداخلہ پی چدمبرم، تمل ناڈو کے ایک قدآور لیڈر کی شکل میں کل بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ اگر 2006کے ریاستی انتخابات سے پہلے کانگریس نے پی چدمبرم کا چہرہ اور نام ریاستی انتخابات کے لئے استعمال کیا ہوتا تو عین ممکن ہے کہ اسے اس وقت ریاستی انتخابات میں اور بعد کے پارلیمانی انتخابات میں زیادہ کامیابی حاصل ہوتی۔ آج ڈی ایم کے سے ناراض اور تبدیلی کی چاہ رکھنے والا ووٹر جو جے للتا کی طرف جانے کا ارادہ رکھتا ہی، وہ کانگریس کی طرف بھی آسکتا تھا۔ قد کے اعتبار سے پی چدمبرم جے للتا اور کروناندھی کے مقابلہ کمزور نظر نہیں آتی۔ مسلسل مرکزی حکومت کا حصہ رہنے والے اس کانگریسی لیڈر کو اپنا وزیراعلیٰ دیکھنے میں ریاستی عوام زیادہ خوش اور مطمئن ہوسکتے تھی۔ اس صورت میں انہیں اپنی ریاست کی ترقی کے زیادہ امکانات نظر آتی۔ اس لئے کہ مرکزی وزیرخزانہ کے عہدہ پر کامیاب رہنے والا شخص اپنی ریاست کے لئے مرکز سے اچھا پیکیج لے سکتا ہی۔ اس وقت یہ امیدیں اور بڑھ جاتی ہیں، جب سرکار اسی پارٹی کی ہو۔ ایسا کانگریس نے نہیں چاہا یا چدمبرم اسے پسند نہیں کرتے تھی، یہ تو وہی بہتر جانتے ہوں گی، مگر کانگریس اپنے فیصلہ لینے میں اتنی کمزور نہیں ہوتی کہ اپنی پارٹی کے کسی بھی قدآورلیڈر کے ساتھ اسے سمجھوتہ کرنا پڑا۔ نرائن دت تیواری اترپردیش کے وزیراعلیٰ تھی، جب اتراکھنڈ بھی اترپردیش میں شامل تھا، مگر بعد میں وہ صرف اتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ بنی۔ ارجن سنگھ کی طرح ان کی خواہش بھی مرکز میں کسی بڑی ذمہ داری کے لئے ہوسکتی تھی، لیکن کانگریس نے وہی کیا جو پارٹی کے لحاظ سے ٹھیک لگا۔
E کیرالہ میں اے کے انٹونی بڑے قد کے لیڈر ہیں، مگر وہ مرکزی حکومت میں وزیردفاع ہیں، جبکہ ریاست میں کمیونسٹوں کا جادو ٹوٹ رہا ہی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی وہاں ہے نہیں، کانگریس امید کرے تو کس سی، کس کا چہرہ سامنے رکھ کر الیکشن لڑی۔ یہی بات مغربی بنگال میں ہی، یہاں4برسوں بعد کمیونسٹ اگر عوام کی تبدیلی کی چاہ کے سبب کمزور نظر آرہے ہیں تو ممتابنرجی کے علاوہ کوئی اور نعم البدل ان کے پاس ہے ہی نہیں، جبکہ یہ صاف نظر آرہا ہے کہ وہاں کمیونسٹوں کی لمبی حکومت میں بدلاؤ کی چاہت مغربی بنگال کے عوام کی پہلی خواہش ہی۔ پرنب مکھرجی جو مغربی بنگال میں سب سے مقبول اور اچھی امیج کے باصلاحیت لیڈر ہیں، اگر کانگریس نے انہیں سامنے رکھا ہوتا تو عین ممکن ہے کہ ممتابنرجی سے بھی کہیں زیادہ عوام ان کے پیچھے نظر آتی۔ بہرحال اب تو بہت دیر ہوچکی ہی۔ اترپردیش میں بھی کانگریس کے سامنے یہ سوال کھڑا ہوسکتا ہی۔ ملائم سنگھ یادو اور اب مایاوتی کے بڑے قد کے سامنے ریاست کا کوئی چہرہ ایسا تو ہو، جسے کانگریس سامنے رکھ کر نعم البدل کی بات مضبوطی سے کہہ سکی۔ جہاں تک ہماری نظر ہی، علاقائی سطح پر علاقائی لیڈران کا بڑھتا ہوا قد آنے والے کل میں ایسے نتائج دے سکتا ہی، جس پر آج ہی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہی۔ بیشک یہ تمام بڑے لیڈران جنہوں نے اپنی اپنی ریاستوں میں اپنی اپنی شناخت اپنے بل بوتے پر حاصل کی ہی، ان کی طاقت کو کم کرکے نہیں دیکھا جاسکتا، مگر انہیں ریاست کے ساتھ ساتھ اپنے مرکزی کردار کے بارے میں بھی سوچنا چاہئی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے کل میں مرکزی حکومت کے لئے قومی سطح کی پارٹیاں ہوں اور ریاستی حکومتیں علاقائی لیڈران کے پاس۔ ایسے میں اتحاد کے ساتھ چلنے والی مرکزی حکومت کتنی خودمختار ہوگی، سمجھا جاسکتا ہی۔ یہ ایک الگ موضوع ہی، جس پر بہت سنجیدگی سے غور کرنے اور لکھنے کی ضرورت ہی۔
بہرحال ہم اس وقت بات کررہے تھی، تمل ناڈو کے ریاستی انتخابات کی، کانگریس اور ڈی ایم کے کے درمیان پیدا ہوئے فاصلہ کی۔ تو کانگریس کے لئے جہاں یہ فکرمندی کی بات ہے کہ اس کا ایک ساتھی اس سے الگ ہوسکتا ہی، جس کا آنے والے کل میں مرکزی حکومت کی مضبوطی پر اثر پڑسکتا ہے تو اطمینان کی بات یہ بھی ہونی چاہئے کہ سماجوادی پارٹی اس متوقع خسارے کو پورا کرنے کے لئے آگے آسکتی ہی۔ ہاں، مگر ملائم سنگھ کا ساتھ حاصل کرنے کے لئے اسے ایک بار پھر اترپردیش کے اسمبلی انتخابات پر غور کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے کانگریس جہاں اپنے لئے ایک بار پھر زمین تلاش کرنے میں مصروف ہی، کیا کانگریس ملائم سنگھ سے ان کی شرطوں پر سمجھوتہ کرسکے گی؟ اور اگر سمجھوتہ کرنا اس کی مجبوری ہی ہے تو یہ سمجھوتہ تمل ناڈو میں کروناندھی کے ساتھ ہی کیوں نہیں؟ بہرحال یہ تمام پیچیدگیاں کانگریس کے ساتھ ہیں، تاہم اسے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اگر صرف خواہشوں اور ارادوں سے کام چل جاتا تو بہار کے ریاستی انتخابات میں اتنے خسارے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ کچھ زمینی حقیقت کو سمجھنا بھی ضروری ہی، جہاں زمین تلاش کی جاتی ہی، وہاں اس زمین پر رہنے والوں کے دلوں میں جھانک کر بھی دیکھنا ہوتا ہی۔ دہلی کی دوربین سے ہر ریاست کا گاؤں نظر نہیں آتا۔ نتیجہ اس گاؤںکے نزدیک رہنے والے کے حق میں چلا جاتا ہے اور کانگریس دیکھتی رہ جاتی ہی۔
آج کا مضمون چونکہ تمل ناڈو کی سیاسی صورتحال اور کانگریس و ڈی ایم کے کے بدلتے رشتوں پر ہی، اسی لئے ہم کسی دوسری ریاست کے حوالہ سے زیادہ گفتگو نہیں کرنا چاہتی۔ کانگریس نے اپنے سپہ سالاروں میں ذرا تبدیلی کی ہی۔ تمل ناڈو کی ذمہ داری غلام نبی آزاد کے سپرد کی گئی ہی۔ تمل ناڈو ایک ایسی ریاست ہی، جہاں مسلمانوں کی آبادی صرف 5.6 فیصد ہی، جبکہ اس کی بغل کی ریاست کیرالہ میں مسلمان تقریباً5فیصد ہیں۔ ظاہر ہے سیاسی نظر انہی کی گہری ہوسکتی ہی، جو سیاست میں ہیں، مگر سیاست سے ذرا دور رہنے والے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں مذہب اور ذات کا آج بھی بڑا دخل ہی۔ زبان کے اعتبار سے تو تمل ناڈو اور کیرالہ باہر والوں کے لئے ایک جیسا ہی ہی۔ مذہب عوام کو جوڑنے یا متاثر کرنے کی اگر کوئی وجہ بن سکتا تھا یا بن سکتا ہے تو غلام نبی آزاد کا اثر تمل ناڈو سے زیادہ کیرالہ میں ہونا چاہئی۔
تمل ناڈو کی کل 234 اسمبلی سیٹوں میں سے کانگریس نے پچھلی مرتبہ 34سیٹیں حاصل کیں، جبکہ صرف8سیٹوں پر انتخاب لڑا، اسی طرح 2001میں 14سیٹوں پر الیکشن لڑ کر 7سیٹیں حاصل کیں، یہ پہلے کی سیٹوں کے مقابلہ کافی بہتر پوزیشن تھی۔ اس بار اور بہتری کی امید کی جاسکتی ہی۔
{ان اعدادوشمار کی روشنی میں ہمیں لگتا ہے کہ کانگریس کو یہ مشکل فیصلہ کرہی لینا چاہئے کہ وہ تمل ناڈو اسمبلی الیکشن تنہا لڑے اور پوری طاقت کے ساتھ لڑی۔ کم سے کم عوام کے سامنے تین ایسی پارٹیاں تو ہوں، جہاں ان کے لئے ان میں سے کسی ایک کے انتخاب کا موقع ہو۔ ہوسکتا ہے کہ کانگریس میں یہ بحث چل پڑے کہ ایسی صورت میں زیادہ سیٹوں پر لڑا تو جاسکتا ہی، مگر منتخب ہونے والے ممبران کی تعداد کچھ کم ہوسکتی ہی۔ اگر یہ الیکشن وہ بغیر کسی سہارے کے لڑے تو، ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو، اگر ہو جائے تو بھی یہ کوئی نقصان کی بات نہیں ہی، اس لئے کہ کانگریس بیلنسنگ پاور ہوگی۔ اگر اقتدار کی دہلیز پر پہنچنے کے لئے دونوں میں سے کوئی بھی پارٹی کچھ قدم پیچھے رہ جاتی ہے تو منزل پر قدم رکھنے کے لئے کانگریس کی مدد درکار ہوگی۔ سیاست میں رشتوں کی کٹھاس یا مٹھاس دیرپا نہیں ہوتی۔ امید کم ہی، پھر بھی اگر ڈی ایم کی(کروناندھی) اقتدار سے کچھ دور رہ جاتی ہے تو کانگریس کا ساتھ پانے میں نہ اسے کوئی گریز ہوگا اور نہ ہی کانگریس کو اس میں کوئی پریشانی ہوگی۔ جے للتا کو ضرورت پڑی تو یہ رشتہ ان کے ساتھ قائم ہوسکتا ہی۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو بھی تمل ناڈو میں پارٹی کو کھڑی کرنے کا ایک موقع تو ملے گا، ورنہ34میں سے صرف 60-62سیٹوں پر تو امیدوار کھڑے کردئے جائیں گی۔ باقی سیٹوں پر جہاں کانگریس کے امیدوار نہیں ہوںگی، وہاں پارٹی کا وجود کیا رہ جائے گا۔ ظاہر ہے وہ ڈی ایم کے اور اے آئی ڈی ایم کے کے بیچ تقسیم ہوجائیں گی۔ کانگریس کو اب چاہئے کہ وہ ریاستوں میں اپنی طاقت میں اضافہ کری، پارٹی کو مضبوط کری، اپنا کیڈر کھڑا کری، یہ تبھی ممکن ہی، جب وہ پوری ہمت اور طاقت کے ساتھ تنہا الیکشن میں اترنے کا فیصلہ کری۔ یوں بھی تمل ناڈو کے ریاستی انتخابات کے نتیجہ کا مرکزی حکومت پر بہت زیادہ اثر نہیں پڑنے والا، بس رشتوں میں اعتدال قائم رکھنے کی ضرورت ہی۔
………

No comments: