Thursday, March 31, 2011

’میری آنکھوں میں تمہارے خواب ہیں‘

عزیز برنی

جب ہمارے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں اور لگتا ہے کہ اب زندگی کی شام ہونے لگی ہی… تو دل میں حسرتیں جنم لینے لگتی ہیں۔ کبھی ہم تصور میں تو کبھی خوابوں میںان حسرتوں کو حقیقت میں ڈھلتا ہوا دیکھنے لگتے ہیں۔ پھر اگر یہ خواب دیکھنے والا شخص اگر ادیب، شاعر یا افسانہ نگار بھی ہے تو اپنی تخلیق میں ان ادھوری خواہشات کو کچھ اس طرح پیش کرتا ہے کہ یہ اس کے اپنے دل کے لئے بھی تسکین کا باعث بن جاتی ہیں اور وہ اپنے اس فن کی معرفت آنے والی نسلوں کو کوئی پیغام بھی دے جاتا ہی۔ ایک صحافی اور مدیر کی حیثیت سے شناخت ہے میری، مگر نہ جانے کیوں مجھے یہ لگتا ہے کہ آنے والی نسلیں مجھے میرے افسانوں اور ناول نگاری کے لئے یاد رکھیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحافت کے اپنے دائرے ہیں۔ مدیر کی کچھ اپنی ذمہ داریاں ہیں۔ ایک مضمون نگار کو قلم اٹھانے سے قبل بہت سے نشیب و فراز کا خیال رکھنا ہوتاہی، لیکن ادب کا دائرہ بہت وسیع ہی۔ اس فن میں بڑی گنجائش ہی، آپ جو کہنا چاہتے ہیں، وہ بڑی خوبصورتی سے کہہ سکتے ہیں، اس لئے کہ آپ اپنی ادبی تخلیق کے ہر ہر لفظ پر سچ ہونے کا دعویٰ کبھی نہیں کرتی۔ یہ فیصلہ قارئین کی صوابدید پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اسے کس حد تک حقیقت پر مبنی مانیں اور کس حد تک ادیب یا شاعر کا تخیل۔ میں نے چند افسانے اور ناول لکھے ہیں۔ ان میں سے کچھ تخلیقات ایسی بھی ہیں، جن میں میرے ادھورے خوابوں کا اشارہ ہی۔ میری دبی چھپی حسرتوں کا اظہار ہی۔ ’’شاہکار‘‘ میرا ایک ایسا ہی افسانہ تھا۔ اب سے چند برس قبل جب میں نے یہ افسانہ لکھا تھا تو یہ سب کچھ محض ایک تصور تھا، جو بعد میں بہت حد تک حقیقت میں بدلتا نظر آیا۔ دل چاہتا ہے کہ میں اس افسانہ کے چند تراشے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرکے آج کا مضمون شروع کروں۔ پھر یہ وضاحت بھی کہ آخر اس وقت جب میں یہ افسانہ لکھ رہا تھا تو اس کی معرفت کیا کہنا چا ہتا تھا اور آج جب اسے اپنے مضمون کا ایک حصہ بنا رہا ہوں تو اس وقت کیا کہنا چاہتا ہوں، لہٰذا پہلے ملاحظہ فرمائیں یہ تراشے اور اس کے بعد آج کے مضمون کا تسلسل۔
’’آخر وہ پروجیکٹ کیا ہے جس پر میں کام کررہا تھا اور کیوں وہ پروجیکٹ تاریخ کا حصہ بننے والا تھا۔ تفصیل میں بعد میں بتائوں گا۔ اس وقت بس اتنا حوالہ دیتا چلوں کہ میری قوم کے لوگ بڑے قدآور ہوا کرتے تھی، اس ملک پر ہی نہیں آدھی سے زیادہ دنیا پر ان کی حکومت ہوا کرتی تھی، اس ملک کو سونے کی چڑیا اور انہیں مغل شہنشاہوں کے خطاب سے نوازا جاتا تھا پھر وقت نے کروٹ بدلی وہ فرنگیوں کے جال میں پھنس گئی۔ ہوا یہ کہ میرا ملک ان کی گرفت میں آتا گیا میری قوم تباہ ہوتی گئی پھر وہ حکمراں ہوگئی۔ بڑا شاطر دماغ تھا ان کا، وہ جانتے تھے وقت پھر کروٹ بدلے گا اور نئی نسل جب جوان ہوگی تو پھر ہم سے یہ تخت وتاج چھین لیا جائے گا لہٰذا انہوں نے سازش رچی۔ میری قوم کے خلاف اس زمین میں ایسے جراثیم پیوست کردیے کہ میری قوم کے لوگ بونے ہونے لگی، زبان کی تاثیر چلی گئی، لوگ گونگے ہوگئی۔ انہوں نے اپنے حق کی آواز بلند کرنا چھوڑدیا، ان کے حوصلے پست ہوتے چلے گئی، ہمتیں ٹوٹ گئیں، وہ خود کو حقیر اور مجرم گرداننے لگی۔ پھر سیکڑوں سال بعد فرنگی تو چلے گئے مگر ان کے جانشینوں میں بھی ان کی روحیں پیوست ہوگئیں۔ ہمارے تعلق سے ان کا نظریہ بھی ویسا ہی ہوگیا، ہمیں دبایا جاتا رہا، ہماری نسل کشی کی جاتی رہی اور حد تو تب ہوئی جب گجرات میں ہزاروں بے گناہوں کا قتل کردیا گیا، جلیاں والا باغ سے بھی زیادہ دل دہلانے والا منظر تھا جو میری نگاہوں کے سامنے سے گزرا جس کا میں ’’چشم دیدگواہ‘‘ تھا۔ میرے اندر ایک جنون پیدا ہوا، اپنی نسل کے تحفظ کا جنون آنے والی نسلوں کے مستقبل کو سنوارنے کا جنون، ان کے قد کو بلند کرنے کا جنون، ان میں پھر وہی حوصلہ بھر دینے کا جنون، ان کا گونگا پن دور کردینے کا جنون، انہیں ان کی زبان واپس دلانے کا جنون تاکہ وہ بآوازِ بلند کہہ سکیں کہ ہم کسی سے کم نہیں ہیں، یہ ملک ہمارا ہی، ہم مجاہد ہند ہیں، ہم مجرم نہیں ہیں لہٰذا میں جٹ گیا ایک ایسا کیمیا بنانے میں جس کے استعمال سے میری قوم کے لوگوں کا قد بڑھنے لگی، مجھے کامیابی ملی۔ سچ مچ ایسا ہونے لگا۔ ان کے منہ میں زبان آنے لگی، ان کے حو صلے بلند ہونے لگی، میں جس ریاست میں جاتا حالات بدل جاتی، یہ میرے کامیاب دور کی شروعات تھی۔ جس زمین پر قدم رکھ کر فرنگیوں نے اس ملک کو اپنا غلام بنایا تھا میں نے اسی زمین پر فرنگیوں کے ملک سے اپنی قوم کے ایک شخص کو بلا کر اپنی مہم آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ دراصل میں یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ بہت جلد اب میرے قدم ان کے ملک تک بھی پہنچنے والے ہیں، اگر میری قوم کا قد بلند ہونے کی یہ رفتار جاری رہی تو میں اور میری قوم بہت جلد پہلے سے بھی بڑے دائرے میں جاکر حکومت کرنے والے ہیں۔
پھر میں سنتا رہا، اپنی قوم کے دامن پر لگے داغوں کے ہٹنے کے بارے میں پڑھتا اخباروں میں، دیکھتا رہا ٹی وی پر۔ میری دنیا بھی بدل گئی تھی، میری قوم کی تصویر بھی بدل گئی تھی، اس کا قد بلند ہوگیا تھا، اس کے منہ میں زبان آگئی تھی، حکومتیں اس کی محتاج ہوگئی تھیں، میری قوم نے بہت سراہا تھا مجھی، چوراہوں پر میرے بت لگ گئے تھی، پھر آہستہ آہستہ میں ایک گزری ہوئی داستان بن گیا تھا۔ اب میں تاریخ کے اوراق میں تو زندہ تھا مگر جیتے جی مرگیا تھا، لوگ میرے بتوں کو تو پہچانتے تھے پر میرا چہرہ بھول گئے تھی۔
یہ چند سطریں مقصد تھیں، اس افسانہ کے لکھے جانے کی اور اس کے علاوہ جو کچھ تھا وہ قارئین کی دلچسپی پیدا کرنے کے لئی۔ میں نے جس ’کیمیا‘ کا ذکر کیا، دراصل وہ میرا اخبار تھا اور میں جہاں جاتا سے میری مراد یہ تھی کہ جس شہر سے بھی میرا اخبار نکالا جاتا، لوگوں کے منھ میں زبان آجاتی، ان کا قد بڑا ہونے لگتا۔ جس وقت میں نے یہ افسانہ لکھا تھا، اگر میں اسی وقت اپنے اس جذبہ کا اظہار کرتا تو یہ انتہائی مضحکہ خیز نظر آتا۔ مگر آج جب کہ روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو صحافت کی تاریخ میں اپنا ایک مقام حاصل کرچکا ہے اور جن بدلتے حالات کی طرف میں اشارہ کررہا ہوں وہ سب کے سامنے آچکے ہیں، یعنی ہم احساس کمتری کے دائرہ سے باہر نکلتے جارہے ہیں۔ اب ہم اپنے مسائل پر گفتگو کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتی۔ اب ہم سرجھکا کر ناکردہ گناہوں کی سزا پانے کے لئے مجبور نہیں ہیں۔ اب پہلے کی طرح ہمیں تقسیم وطن کا ذمہ دار، فرقہ پرست یا دہشت گرد قرار دے کر اپنے ہی ملک میں پرائے پن کے احساس نہیں دلایا جاتا، مگر یہ کام ابھی ادھورا ہی۔ اسے پورا کرنے کے لئے بہت منظم انداز میں آگے کا راستہ طے کرنا ہوگا۔ میں نے مضامین لکھتے لکھتے اپنے ایک افسانہ کا تذکرہ اس لئے کیا کہ ہمارے ادیب و شعراء اپنی تخلیقات کی معرفت معاشرے کو بیدار کرنے میں انتہائی اہم کردار نبھا سکتے ہیں۔ ہمارے مذہبی رہنماؤں کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے لاکھوں فرزندان توحید کبھی بھی کسی بھی مقام پر یکجا ہوجاتے ہیں۔ یہ ہم نے بارہا دیکھا ہی، لیکن ہمارے پاس ایک ایسے تھنک ٹینک (مفکروں کی جماعت)کی کمی ہی، جو آنے والے سو سال کا منصوبہ ذہن میں رکھتی ہو۔ کسی قوم کی حیثیت کو ختم کردینے یا اس کے باوقار مقام حاصل کرنے کے لئے سو برس بہت بڑی مدت نہیں ہوتی۔ 100برس کی غلامی کے بعد ہم نے 90برس تک یعنی 1857سے 1947تک انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی، تب جاکر ہمارا ملک آزاد ہوا اور انگریزوں نے بھی قدم رکھتے ہی اس ملک پر حکمرانی حاصل نہیں کرلی تھی۔ اسی طرح آج جو ہم بین الاقوامی صورتحال دیکھ رہے ہیں، خواہ عراق کا معاملہ ہو یا مصر اور لیبیا کا، ایسا نہیں ہے کہ اچانک کوئی آواز اٹھی اور اس نے طوفان کی شکل اختیار کرلی۔ دیکھنے سننے میں ضرور ایسا لگتا ہوگا، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہی۔ یہ سب کچھ منصوبہ بند ہی۔ یہ بھی منصوبہ بند تھا کہ اردو کو ہندوستان کی قومی زبان نہ بننے دیا جائی۔ یہ بھی منصوبہ بند تھا کہ ہندی ملک کی قومی زبان قرار دئے جانے کے باوجود بھی پورے ہندوستان کی زبان نہ بن سکی۔ یہ بھی منصوبہ بند تھا کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد بھی انگریزی زبان کی حکمرانی ہم پر قائم رہی۔ میں نے اپنے کل کے مضمون میں عرب ممالک کو تحفظ فراہم کرنے کی بات کہی تھی۔ عرب ممالک کے پاس پیٹرول کی دولت ہی۔ اس دولت کا بہت بڑا حصہ آج ان کے پاس پہنچ رہا ہی، جنہوں نے اپنی عیاری، مکاری اور طاقت کی بنا پر ان ممالک کے حکمرانوں کو اپنے شکنجے میں کس لیا ہے اور اپنے اشاروں پر چلنے کے لئے مجبور کردیا ہی۔ اس دولت کا کچھ حصہ ضرور ان حکمرانوں کے پاس رہتا ہی، لیکن انہیں ایسے راستہ پر چلانے کے لئے ان کی ذہن سازی کر دی جاتی ہے کہ آہستہ آہستہ وہ اپنے عوام سے دور ہوجائیں۔ اپنے محلوں میں اپنی جنت قائم کرلیں۔ اپنے عوام سے ان کا رابطہ ٹوٹ جائی، پھر وہ اپنے ہی لوگوں کی نفرتوں کا شکار بننے لگیں اور ان بدلتے حالات میں پل پل کی خبر ان سازش رچنے والوں کو ملتی رہی۔ وہ عوام کے درمیان ایسے لوگوں کی تلاش شروع کردیں، جنہیں بغاوت کے لئے اکسایاجاسکی۔ حکمرانوں کے نزدیک رہنے والے ایسے لوگوں کی تلاش شروع کردیں، جو بغاوت کا الم بلند کرکے باقی سب کو بغاوت پر آمادہ کرسکیں، نتیجہ ہمارے سامنے ہی۔
ان ممالک کی دولت کا بہت چھوٹا سا حصہ ہم تک بھی پہنچتا ہی۔ ہمارے ان بھائیوں کے ذریعہ جو اپنے اہل خانہ کی محبت میں اپنا گھربار اور ملک چھوڑ کر ذریعۂ معاش کی تلاش میں ان ملکوں تک پہنچتے ہیں۔ یہ بہت تھوڑی سی دولت جو ان کی محنت کی کمائی کی شکل میں ہمارے ملک تک پہنچی ہی، اس سے بھی لاکھوں خاندان فیضیاب ہوتے ہیں اور ان کا طرز زندگی بدلنے لگتا ہی۔ قیاس کریں کہ ان عرب ممالک کے حکمراں اپنے فریبی تحفظ کی جو قیمت ان ملکوں کو ادا کرتے ہیں، جو آہستہ آہستہ ان پر قبضہ کرنے کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، ان کی جگہ اگر ہندوستان لے لے اور اپنے ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے انہیں وہ تحفظ فراہم کردے تو جو دولت آج امریکہ کی معیشت کو مضبوط بنائے ہوئے ہے اور جس کی بنا پر یہ ملک دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہونے کا دم بھرتا ہی، یہ حیثیت ہندوستان کو حاصل ہوسکتی ہی۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین رشتہ بدل سکتے ہیں، عرب ممالک کی دولت اگر ہندوستان کی ترقی اور خوشحالی کے کام آنے لگی، ہم ان ملکوں سے کاروباری رشتہ قائم کرسکیں، انہیں امریکی تسلط سے نجات دلاسکیں، ایک دوست ملک کی طرح ان کی مدد کرسکیں تو یہ دونوں کے مفاد میں ہوگا۔
آج کے مضمون میں اب زیادہ لکھنے کی گنجائش نہیں بچی ہی، لہٰذا اختتام تک پہنچنے سے قبل اس موضوع پر واپس لوٹنا ضروری ہی، جس کے لئے اپنے ایک افسانہ کا حوالہ دیا تھا۔ دراصل میں روزنامہ راشٹریہ سہاراکے ان صفحات کو ایک ایسیکیمیا کی شکل میں ہندوستان کے گوشہ گوشہ تک پہنچا دینا چاہتا ہوں، اس لئے کہ سیکڑوں برسوں تک چلنے والی جس سازش نے ہم سے ہماری زبان چھین لی، ہمارے بلند قد کو پستہ قد میں بدل دیا، ہمارے حوصلوں کو توڑ دیا، ہمیں سر جھکا کر جینے کے لئے مجبور کردیا، ہم اس کیمیا کی معرفت پھر وہ مقام حاصل کرسکیں، جو کبھی ہمارا تھا اور جس کے کہ ہم مستحق ہیں۔ اس لئے کہ شہیدان وطن کی فہرست میں آج بھی وہ نام سنہری حرفوں میں درج ہیں، جو ہمیں یہ کہنے اور لکھنے کا حق فراہم کرتے ہیں۔ ایک آخری بات ’تھنک ٹینک‘ کے حوالہ سی۔ اس موضوع پر تفصیل سے لکھے جانے کی ضرورت ہے اور قوم کے ذریعہ غور کئے جانے کی بھی، اس لئے کہ اب وقت آگیا ہے کہ جب الگ الگ شعبوں سے تعلق رکھنے والے تمام باصلاحیت افراد کو یکجا کرکے ایک ایسی حکمت عملی بنائی جائی، جو جسٹس راجندر سچر کی رپورٹ کے مطابق آج ملک کی سب سے پسماندہ قوم کی تقدیر بدل سکی۔ کیا آپ ارادہ رکھتے ہیں اس تصور کو حقیقت میں بدلنے کا؟
………

No comments: