Monday, March 28, 2011

لیبیاـ صلیبی جنگ کے نرغہ میں

عزیز برنی

یادگار لمحہ، امام حرم کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی سعادت، وقت عشاء، مقام 28، اکبر روڈ، رہائش جناب کے رحمن، ڈپٹی چیئرمین راجیہ سبھا، تاریخ 27مارچ011مطابق 22ربیع الثانی 1432۔ یہ ذکر اس لئے کہ یہ لمحہ تاریخی تھا،لہٰذا دل چاہتا ہے کہ اسے تاریخ کے اوراق میں درج کردیا جائے کہ گزشتہ تین روز میں متعدد مرتبہ فرزندان توحید کو سرزمین ہند پر امام حرم کی امامت میں نماز پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی اور ان میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ نماز سے فراغت حاصل کرنے کے بعد جب سامنا ہوا جسٹس فخرالدین احمد اور دہلی اسمبلی میں جامع مسجد علاقہ کی نمائندگی کرنے والے رکن اسمبلی حاجی محمد شعیب اقبال سے تو ذکر ہوا روزنامہ راشٹریہ سہارا میں شائع ہونے والے میرے مسلسل مضامین کا، دلوں پر اس کے اثر کا اور پھر شکوہ یہ بھی کہ آخر یہ سلسلہ رُک کیوں گیا ہی۔ جب ان کے اس سوال کو میں نے خود اپنے آپ سے کیا تو ضروری لگا کہ جو جواب مجھے میرے دل و دماغ نے دیا، وہ پوری ایمانداری کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ دوں۔ اس دوران میں خود اپنے لکھے کو پڑھتا رہا ہوں۔ بدلتے منظرنامہ پر ان تحریروں کا اثر دیکھتا رہا ہوں، بہت حوصلہ افزا ہی، مگر کہیں کچھ احساس تشنگی بھی ہی۔ کبھی کبھی تو کچھ ایسا لگتا ہی، جیسے اندھیری راتوں میں ایک پہریدار اپنے ایک ہاتھ میں مدھم سی روشنی کی لالٹین اور دوسرے ہاتھ میں ایک موٹا سا ڈنڈا لئے آواز لگاتا جاتا ہے ’’جاگتے رہو‘‘ اوربستی کے لوگ گہری نیند میں سوجاتے ہیں۔ اس کے قدموں کی آہٹ کانوں کو مانوس اس کے ڈنڈے کے زمین سے ٹکرانے کی آواز اور بس اس کے اپنے وجود کے دائرے میں سمٹ کر رہ جانے والی اس کی لالٹین کی روشنی نہ جانے کیوں خوفناک اندھیری راتوں میں بھی ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ اب کوئی خطرہ نہیں ہی۔ ہم گہری نیند میں سوسکتے ہیں، جبکہ وہ بیچارہ غریب تو ہر لمحہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہوتا ہے ’’جاگتے رہو‘‘۔ پھر ہم سو کیوں جاتے ہیں۔ کہیں میرا قلم اس ڈنڈے کی مانند کانوں کو مانوس ایک آواز بھر بن کر رہ گیا ہی، کہیں میرا پیغام اس مدھم سی روشنی والے لالٹین کی شکل تو نہیں اختیار کرگیا ہی، جس کی روشنی بس اس کے وجود تک سمٹ کر رہ گئی ہی، جس کے وہ ہاتھ میں ہی۔ اس کی آواز جگانے کی علامت کی بجائی، گہری نیند میں سو جانے کا پیغام تو نہیں بن گئی ہی۔ اگر ایسا ہے تو چند روز کے لئے اس پہریدار کے قدموں کی آہٹ روک دیتے ہیں۔ شاید اب بستی کے لوگ خود جاگنے کی ضرورت محسوس کرنے لگیں۔ اس بستی کے پہریدار کے قدموں کی آہٹ کیوں رک گئی،اس پر غور کرنے لگیں اور پھر یہ لمحہ انہیں سرجوڑ کر بیٹھنے کے لئے آمادہ کردی۔ جسٹس فخرالدین احمد اور حاجی محمد شعیب اقبال کی گفتگو مجھے سرجوڑ کر بیٹھنے کی ایک کوشش نظر آئی۔ شاید اب ہم اپنے اور آس پاس کے حالات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کرنے لگے ہیں۔ مانا کہ وہ بستی ذرا دور ہی، جو اس وقت خطرے میں ہی، مگر یہ خطرہ کل ہماری چوکھٹ تک نہیں پہنچے گا، اس کی کیا گارنٹی ہی۔ اگر ہم آج اس کی مدد کے لئے آگے نہیں آئیں گی، جسے ہماری مدد کی ضرورت ہے تو پھر کل ہماری مدد کے لئے کون آئے گا۔ عراق اور افغانستان کی تباہی نے ہمیں بیدار کیوں نہیں کیا، مصر، لیبیا اور بحرین کے حالات ہمیں سوچنے کے لئے مجبور کیوں نہیں کرتی۔ ایک ایک کر مسلم ملک تباہ ہوتے جائیں گے اورہم سب صرف تماشہ دیکھتے رہ جائیں گی، پھر یہ آگ ہمارے دامن تک پہنچے گی اور ہم اسے بجھا نہیں پائیں گی۔ اسلام پر کہیں تاناشاہی کے حوالہ سے حملی، کہیں دہشت گردی کے حوالہ سے تو کہیں قدامت پسندی کو بہانہ بناکر اور ہم… اور ہم بس اپنے حصار میں گم ہیں۔ پہریدار کا کام ہے وہ آواز لگائے جاگتے رہو اور ہمارا کام ہے ………
Cمیں نے ایک مرتبہ پھر ورق گردانی کی ان مضامین کی، جہاں سے یہ سلسلہ ترک ہوا تھا۔ اگر دیگر موضوعات پر لکھے گئے مضامین کا ذکر اس وقت نہ کروں تو لیبیا، مصر اور بحرین کے حالات پر لکھے گئے دو مضامین ’’مصر، لیبیا، بحرین، جمہوری عمل یا امریکی دخل‘‘ 25فروری 2011، قسط نمبرـ15، اور’’کیا کرنل قذافی کا انجام بھی صدام حسین کی طرح…‘‘ 26فروری 2011، قسط نمبرـ16کا حوالہ دینا ضروری لگتا ہی، کیونکہ یہ سوچنے پر مجبور کرتے تھی، ایک تحریک چلانے پر آمادہ کرتے تھی، مگر کیا ایسا ہوا…؟ لکھا اس کے بعد بھی، مگر وہ ایسے موضوع ہیں، جن پر ہم بعد میں غور کرسکتے ہیں لیکن لیبیا!
تقریباً ایک ماہ کا عرصہ گزر گیا لیبیا اور بحرین کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ مجھے ضروری لگتا ہے کہ اس ضمن میں لکھے اپنے دونوں مضامین کے تراشے ایک بار پھر قارئین کی خدمت میں پیش کروں اور ان سے یہ درخواست کروں کہ اس درمیان رونما ہونے والے حالات پر ایک نظر ڈالیں۔ کیا جن اندیشوں کا اظہار ہم نے اپنی تحریر میں کیا تھا، وہ درست ثابت نہیں ہوئی۔ پھر ایک سوال اپنے آپ سے کریں کہ اگر ہم نے وقت رہتے توجہ دی ہوتی، ان اندیشوں کو ذہن میں رکھ کر تحریک چلانے کا فیصلہ کرلیا ہوتا تو شاید ’لیبیا‘ آج ’عراق‘ جیسے حالات سے نہ گزر رہا ہوتا۔ یہی کہا تھا میں نے جناب محمد شعیب اقبال سے اور صرف ان سے ہی نہیں، بلکہ اپنے ان مضامین کی معرفت اپنے تمام قارئین سے بھی کہ کیا کافی ہے ایسے نازک حالات میں صرف ایک لکھ دینا اور آپ کا پڑھ لینا۔ کیا ضروری نہیں ہے کہ ہم ایک ایسی تحریک چلائیں، جس سے کہ اسلام مخالف طاقتیں اپنے ہر اس قدم کے بارے میں سوبار سوچنے پر مجبور ہوں،جو مسلم ممالک کی تباہی کی سمت میں اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہوں۔
یقینا یہ خوش آئند پیغام ہی۔ ہندوستان کی تاریخ گزشتہ تین روز کے واقعات کی گواہ رہے گی کہ ’’سرزمین ہند پر امام حرم کی آمد نے جو ہیجانی کیفیت پیدا کی، وہ گزشتہ سیکڑوں برسوں میں اس زمین پر قدم رکھنے والے کسی بھی سربراہان مملکت کی آمد پر نہیں ہوئی۔‘‘ یہ واضح اشارہ ہے ہمارے جذبۂ ایمانی کا۔ بس اسی حوالہ سے یہ چند سطریں لکھنے کی جسارت کررہا ہوں کہ ہم اپنے اس جذبہ کو قائم رکھیں، ایسے تمام موقع کے لئے بھی اور پوری دنیا میں کہیں بھی اگر انسانیت پر ظلم ہورہا ہو یا اسلام مخالف طاقتیں مسلم ممالک پر حملہ آور ہوں تو ہم اسی جوش و جذبہ کا مظاہرہ کریں۔ ابھی بھی وقت ہی، اگر ہم تحریر کو تحریر تک محدود نہ رہنے دیں، بلکہ اسے تحریک کی شکل دے دیں تو آج لیبیا و بحرین کو بچایا جاسکتا ہے اور آنے والے کل میں اس فہرست میں شامل ہوسکنے والے دیگر ممالک کو بھی بچایا جاسکتا ہی۔ دراصل افغانستان اور عراق کی تباہی کے بعد ہی ہمیں یہ سبق حاصل کر لینا چاہئے تھا اور جب مصر میں بغاوت کے حالات پیدا ہوئے تو سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اس بغاوت کی وجہ وہی ہے جو نظر آرہی ہے یا پس پردہ سازش کچھ اور بھی ہی۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ مسلم ممالک میں جمہوریت مضبوط نہ ہو، ضرور ہو، مگر یہ امریکی دخل کے بغیر ہو۔ ہم اس سمت میں گہرائی سے نہ سوچ کر ایک بہت بڑے خطرے کو دعوت دے رہے ہیں۔ میں مایوس تو نہیں ہوں، ہاں مگر یہ احساس ضرور ہے کہ باوجود قدم قدم پر پذیرائی کے ابھی بھی ان تحریروں میں وہ بات پیدا نہیں کرپایا ہوں کہ یہ تحریک کی شکل حاصل کرلیں۔ میرے سامنے ہیں گزشتہ ایک ماہ میں لیبیا کے حالات اور میرے وہ دو مضامین بھی، جن کا حوالہ میں نے اپنی اس تحریر کی ابتدا میں دیا تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے قارئین کے سامنے مختصراً آج کے حالات بھی رکھ دوں اور اس ضمن میں لکھے گئے اپنے مضامین کے چند تراشے بھی، تاکہ یہ باور کراسکوں کہ جو کچھ آج ہم دیکھ رہے ہیں، اس کا اندازہ بہت پہلے ہی کرلیا گیا تھا اور آپ کے سامنے رکھ بھی دیا گیا تھا۔ کاش اسی وقت ہم نے لیبیا کو امریکی شکنجہ سے بچانے کا فیصلہ کرلیا ہوتا۔
………
مصر، لیبیا، بحرین، جمہوری عمل یا امریکی دخل
25فروری 2011، قسط نمبرـ15
صدام حسینـحسنی مبارکـکرنل قذافیـاپنے اپنے ملک کی شناخت سمجھے جاتے رہے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ سبھی بہت طاقتور حکمراں رہے ہیں۔ صدام حسین نے 24برس عراق پر حکومت کی، حسنی مبارک نے 30برس اور کرنل قذافی نے 41برس۔ صدام حسین کا قتل،حسنی مبارک کی اقتدار سے بے دخلی اور کرنل قذافی کے خلاف بغاوت۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز پر امریکی کنٹرول، کویت کی اقتصادیات پر امریکی قبضہ، عراق اور افغانستان میںامریکی کٹھ پتلی حکمراں، ایران میں محموداحمدی نژاد حکومت کو مسلسل دھمکیاں اور اردن جیسے ملک امریکی کالونی کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ بحرین کی حالت غیر اب کسی سے چھپی نہیں ہی۔ فلسطین کی تباہی ہماری نگاہوں کے سامنے ہی۔ خون آلودہ پاکستان اب اس درجہ لاچار اور بے بس ہوچکا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے قاتل ریمنڈڈیوس کو کسی بھی طرح کی سزا دینا تو دور اس امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ایجنٹ کے خلاف زبان کھولنے کے جرم میں اپنے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو ان کے عہدہ سے ہٹانے کے لئے مجبور ہوچکا ہی۔ بنگلہ دیش جو کبھی پاکستان کا حصہ تھا، آج ایک بے حیثیت ملک بن کر رہ گیا ہے اور ان سب کے پیچھے ہے صرف اور صرف ایک طاقت امریکہ۔ ہم سب جانتے ہیں، مگر خاموش ہیں، لاچاروبے بس ہیں۔ اگر کسی کو اس جانب متوجہ کیا جائے تو ایک ہی جواب ملتا ہی، آخر ہم کرہی کیا سکتے ہیں؟……
…………
عرب ممالک کی سب سے بڑی طاقت ہے پیٹرول، جو پروردگارعالم کا ایک عطیہ ہی۔ بہت تیزی سے اب اس دولت پر امریکہ کا قبضہ ہوتا جارہا ہی، مگر سب چپ ہیں، کوئی امریکہ کے خلاف بولنے کی جرأت کرتا ہی نہیں۔
…………
امریکہ اپنے سفاتکاروں کی آڑ میں سی آئی اے کا ایک مضبوط جال بچھا رہاہی۔ اس طرف اگر بروقت توجہ نہ دی گئی تو بہت جلد امریکی حکمرانی کا دائرہ اس قدر بڑھ جائے گا کہ جنہیں آج آپ مسلم ممالک کی شکل میں دیکھ رہے ہیں، وہ سب آنے والے کل میں امریکہ اور برطانیہ کی چھوٹی چھوٹی کالونیاں ہوں گی۔ کل عرب کے پیٹرول پر ان بڑی طاقتوں کا قبضہ ہوگا۔ پاکستان جیسے ملک اپنا وجود کھو دیں گے اور ہندوستان جسے دہشت گردی کے ذریعہ خانہ جنگی کا شکار بنایا جارہا ہی، کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جائے گا۔ اگر ہم ریمنڈ ڈیوس(پاکستان میں)، ڈیوڈ کولمین ہیڈلی(ہندوستان میں)، جیسے سی آئی ای/ایف بی آئی کے ایجنٹوں کی کارکردگی کو سرسری طور پر لینا بند کردیں، طالبان اور لشکرطیبہ سے ان کے رشتوں کی تہہ تک جانے کی کوشش کریں، سی آئی اے کا طالبان اور ایف بی آئی کا لشکرطیبہ سے کتنا گہرا رشتہ ہی، یہ کتنی الگ الگ تنظیمیں ہیں اور اندرونی طور پر ان میں کتنا گہرا رشتہ ہی۔ اگر اس سچ کو جان لیں تو شاید ہم عرب ممالک پر بڑھتے امریکی تسلط کو بھی روک سکیں گی، پاکستان کو مزید تباہی سے بچا سکیں گے اور ان سب کے بعد ہندوستان کو لاحق خطرہ سے بھی نجات پاسکیں گی۔
…………
برطانیہ کے ایک اخبار کے مطابق ریمنڈڈیوس امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا ایجنٹ ہی۔ ایران کے پریس ٹی وی کے مطابق وہ نہ صرف سی آئی اے کا ایجنٹ تھا، بلکہ طالبان کے ساتھ اس کے تعلقات ہیں اور وہ پاکستان میں سبوتاژمشن یعنی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے ارادے سے بھیجا گیاتھا۔
……………
کیا کرنل قذافی کا انجام بھی صدام حسین کی طرح…
26فروری 2011، قسط نمبرـ16
امریکہ میں اب ایک نیا ڈرامہ شروع ہوچکا ہی، جیسا کہ عراق کے تعلق سے ہوا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا، پہلے عراق پر اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں، جس سے وہاں کے عوام کا جینا محال ہوگیا، پھر صدام حسین کو تاناشاہ ڈکلیئر کیا گیا، مہلک ہتھیاروں کے ذخیرہ کا الزام لگایا گیا، جس کے برآمد نہ ہونے پر بعد میں امریکہ کے سابق صدر جارج واکر بش کے ذریعہ معافی مانگ لی گئی، لیکن اس درمیان عراق کے ہزاروں بے گناہ قتل کئے جاچکے تھی، لاکھوں بے گھر ہوچکے تھے اور صدام حسین صدرعراق کو پھانسی دی جاچکی تھی۔ اس سب کے جواب میں سابق امریکی صدر جارج واکر بش کی معافی اور بس۔ اب پھر امریکہ میں یہ ماحول پیدا کیا جارہا ہی، گویا امریکی حکومت دباؤ میں ہی، اسے امریکی قدروں کا دھیان رکھنا ہی۔ اسے لیبیا میں عوام کے اوپر ہونے والی زیادتی کو نظرانداز نہیں کرنا ہی، لہٰذا لیبیا پر اقتصادی پابندی عائد کئے جانے کی ضرورت ہی۔ یعنی وہی جو عراق کے ساتھ ہوا تھا، اب لیبیا کے ساتھ کئے جانے کا ماحول تیار کیا جارہا ہی۔
……………
کس کو کس طرح کا رول پلے کرنا ہی، کسے ماحول سازی کرنی ہی، کسے دباؤ بنانا ہی، پھر کسے کارروائی کو انجام دینا ہی، تاکہ افغانستان اور عراق کی طرح کٹھ پتلی سرکاریں قائم کی جاسکیں اور یہ سب کچھ پہلے سے طے ہی۔ ہوسکتا ہے پھر کرنل قذافی پر بھی صدام حسین کی طرح امریکی ایما پر قائم کی گئی ایک عدالت میں مقدمہ چلے اور انہیں بھی پھانسی کی سزا سنا دی جائی۔ عالمی برادری کیا اسی طرح امریکہ کو کھلی چھوٹ دینے کی حامی ہے کہ اسے کسی بھی ملک میں اپنی مرضی سے اپنے انداز میں مداخلت کاحق حاصل ہی۔ کیا یہ حیران کن نہیں کہ ہزاروں بے گناہ عراقیوں اور افغانیوں کے قتل کے جرم میں جارج واکر بش پر مقدمہ چلائے جانے کی بات کسی نے نہیں کہی۔ کیا اپنی غلطی کو تسلیم کرلینا اور معافی مانگ لینا ہی کافی ہی۔
اس درمیان لیبیا پر اتحادی فوجوں کا حملہ ہوچکا ہی۔ بڑی تعداد میں لیبیا کے شہری ہلاک اور بے گھر ہوچکے ہیں۔ کرنل قذافی کے ایک بیٹے کی موت ہوچکی ہی۔ مختصراً ہم لیبیا میں عراق کی کہانی دہرائی جاتے دیکھ رہے ہیں اور چپ ہیں۔ آخر ہماری زبانوں پر یہ تالے کس نے لگادئے ہیں، کیا یہ سوال کریں گے ہم اپنے آپ سی۔
………

No comments: