Thursday, February 25, 2010

دہشت گرد کی شناخت نام سے یا اس کے کام سے؟

ہم میں سے بہت لوگوں کو اس بات کا تجربہ ہے کہ جب بھی ہم ہوائی جہاز سے سفر کررہے ہوتے ہیں تو اکثروبیشتر پائلٹ کو اے ٹی سی سے جہاز کو رن وے پر اتارنے کی اجازت ملنے میں وقت لگتا ہے۔ بالخصوص دہلی ائیرپورٹ پر تو اب یہ معمول کی بات بن گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیر تک طیارے کو آسمان میں دہلی ائیرپورٹ کے اوپر چکر لگاتے رہنا پڑتا ہے۔ انتہائی حیرانی کی بات ہے کہ ایک غیرملکی جہاز جو بلجیم سے چل کر کراچی، تھائی لینڈ اور ڈھاکہ ہوتے ہوئے دہلی پہنچا، اس نے بغیر اے ٹی سی کی اجازت کے رن وے پر جہاز کو اتارا اور پارک کیا۔ اسے دہلی میں یا ہندوستان کے کسی بھی ائیرپورٹ پر اترنا ہی نہیں تھا۔ پائلٹ کے مطابق جہاز میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے وہ ائیرٹریفک کنٹرولر سے اجازت نہیں لے پایا۔ ہمارے متعلقہ افسران نے اس کی بات پر بھروسہ کیا اور 3روز بعد اسے اگلی پرواز کے لےے اجازت دے دی۔ پیش خدمت ہے اس واقعہ سے تعلق رکھنے والی مکمل خبر۔ میرا اندازہ ہے کہ اس خبر کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہوئے آپ حضرات نے نہ تو ہماری سرکار کو دیکھا ہوگااور نہ ہی ہمارے میڈیا کو۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ تو وہی بہتر جانتے ہوں گے، بہرحال پہلے آپ یہ خبر ملاحظہ فرمائیں، اس کے بعد گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا۔

چپکے سے لےنڈ کر گےا غےر ملکی طےارہا

نو پ کمار مشرا (دینک جاگرن)

نئی دہلی:کسی کو پتہ بھی نہےں چلا اور اےک غےر ملکی طےارہ نہ صرف اندرا گاندھی اےئر پورٹ پر اتر گےا بلکہ پارک وے مےں جا کر کھڑا بھی ہوگےا۔ طےارہ کا پتہ چلتے ہی افرا تفری مچ گئی۔ اس واقعہ کی اطلاع کے بعد حرکت مےں آئی سےکورٹی اےجنسےوں نے طےارہ کے پائلٹ اور معاون پائلٹ کو حراست مےں لے کر اپنے قبضے مےں لے لےا۔ دہشت گردانہ حملے کے خطرے کو دےکھتے ہوئے اسے سےکورٹی مےں سنگےن غلطی مانا جارہا ہے۔ اس طرح اے ٹی سی کی اجازت کے بغےر لےنڈنگ دوسرے طےاروں اور لوگوں کے لئے بھی بے حد خطرناک ہو سکتی تھی۔

کراچی کے راستے بلجےم سے چل کر دہلی پہنچا طےارہ بغےر اجازت کے اندرا گاندھی بےن الاقوامی اےئر پورٹ پر لےنڈ کرگےا۔ اےئر پورٹ پر طےاروں کی آمد ورفت پر نگاہ رکھنے والی اےجنسی اےئر ٹرےفک کنٹرولر کو اس واقعہ کے بارے مےں پتہ تب چلا جب طےارے کو مےن رنوے پر لےنڈ کرانے کے بعد پارکنگ وے مےں کھڑا کےا جاچکا تھا۔ےہ واقعہ گزشتہ دنوںکاہے ، اے ٹی سی مےں تعےنات افسروں کی نگاہ اےک اےسے طےارہ پر پڑی جو پارکنگ وے نمبر-81 مےں کھڑا تھا۔ اس نے لےنڈ کرنے کی اجازت کسی نے نہےں لی تھی۔ اے ٹی سی کے افسروں نے واقعہ کی اطلاع فوراً اےئر پورٹ پر تعےنات سی آئی اےس اےف کو دی۔ اطلاع ملتے ہی سی آئی اےس اےف کی کوئک ری اےکشن ٹےم (فوری حرکت میں آنے والی ٹیم)، خفےہ محکمہ کے افسران سمےت تمام اعلیٰ افسران پہنچ گئے۔ پارکنگ وے نمبر-81 پر کھڑے طےارے کو سی آئی اےس اےف کے کمانڈوز نے فوراً اپنے گھےر ے مےں لے کر اس کے اندر موجود پائلٹ ’پےنی نےکس‘ اور معاون پائلٹ ’سواٹن برائکس‘ کو حراست مےںلے لےا۔

تفتےش کے دوران دونوں نے بتاےاکہ انہو ں نے بلجےم سے پرواز کی تھی۔ تھائی لےنڈ، کراچی اور ڈھاکہ ہوتے ہوئے وہ دہلی پہنچے تھے۔ طےارہ مےں کمےونکےشن سسٹم مےں خرابی کے سبب وہ آئی جی آئی اےئر پورٹ کے اے ٹی سی سے رابطہ نہےں کرسکے اور انہےں ےہاں لےنڈ کرنا پڑا۔ طےارے کی جانچ اور پائلٹ و معاون پائلٹ کو لمبی تفتےش کے بعد سےکورٹی اےجنسےوں نے کلےن چٹ دے دی۔ ہفتہ کی شام کو ےہ طےارہ ڈھاکہ کے لئے روانہ ہوگےا۔ کےا ہوتا اگر طےارہ مےں دہشت گرد آئے ہوتے۔ دہشت گردانہ حملوں کے خطروں کو دےکھتے ہوئے وزارت داخلہ نے بھلے ہی ملک بھر کے تمام ہوائی اڈوں پر رےڈ الرٹ جاری کررکھا ہو، لےکن فضائی سےکورٹی کا عالم ےہ ہے کہ اےک غےر ملکی طےارہ تمام اےجنسےوں کی آنکھوں مےں دھول جھونکتا ہوا آئی جی آئی اےئر پورٹ کے مےن رنوے پر لےنڈ کرجاتا ہے ، بلکہ کسی روک ٹو ک کے بغےر پارکنگ وے مےں کھڑا ہو جاتا ہے ۔ وہ تو شکر ہے کہ طےارے کے پائلٹ کسی غلط منصوبے کے ارادے سے نہےں، بلکہ تکنےکی خرابی کے سبب اےئر پورٹ پر اترے تھے، اگر ان کی جگہ دہشت گرد آئے ہوتے تو تباہی کو شاےد کوئی بھی نہےں روک پاتا۔ حالانکہ پائلٹوں کے صحےح منصوبوں کے باوجود جس طرح لوگوں کی جان خطرے مےں پڑ گئی تھی، اس سے بھی انکار نہےں کےا جاسکتا ۔ اےک جانب جہاں فضائی سےکورٹی کو چاق و چوبند کرنے کے لئے کروڑ روپے کے آلات اور راڈار اےئر پورٹ پر لگانے کے تمام دعوے کئے جارہے ہےں ،وہےں بلجےم سے آئے طےارے کی آئی جی آئی اےئر پورٹ پر لےنڈنگ نے سےکورٹی کو لے کر کئی سوال کھڑے کردئے ہےں۔ سوال ےہ بھی کھڑا ہوتا ہے کہ بھلے ہی طےارے کا کمےو نکےشن سسٹم خراب تھا، اےئر پورٹ کا سسٹم تو کام کر رہا تھا۔ اگر اےسا تھا تو اے ٹی سی کو وقت پر طےارہ کا پتہ کےوں نہےں چلا؟ ےہ اے ٹی سی کی چوک تھی ےا پھر ہمارے پاس کوئی اےسا سسٹم اور آلات ہی نہےں ہےں جو فضائی حدود کے اندر گھسنے والے مشتبہ طےارے کا پتہ لگا سکےں۔ وجہ چاہے جو بھی ہو دونوں ہی طرح کے واقعات فضائی سےکورٹی کے لحاظ سے بے حد سنگےن ہےں۔ وہ بھی تب جب تمام دہشت گرد تنظےمو ںکے منصوبوں کو دےکھتے ہوئے خفےہ اےجنسےوں نے خطرے کی گھنٹی بجا رکھی ہے۔ فضائی سےکورٹی سے وابستہ ماہرےن کے مطابق ےہ واقعہ کسی بھی معنیٰ مےں ٹھےک نہےں ہے۔ ےہ معاملہ کسی دہشت گرد تنظےم کے ذرےعہ سامنے آتا تو تباہی کا اندازہ بہر حال لگاےا جاسکتا ہے۔ وہےں اگر صرف ہنگامی حالات مےں کی گئی لےنڈنگ ہے تو بھی سےکورٹی کے لحاظ سے ٹھےک نہےں ہے۔ فضائی سروس کے معاملوں کے ماہر کےپٹن وی کے دوکڑ کے مطابق آئی جی آئی اےئر پورٹ پر ےہ طےارہ جس وقت لینڈ ہوا،اس وقت بڑی تعداد مےں طےارے لےنڈ اور ٹےک آف کرتے ہےں، اےسے وقت بغےر بتائے اےک طےارے کی لےنڈنگ کرانا کسی بڑے حادثے کو دعوت دےنا بھی ہو سکتی تھی۔

ایسے واقعات اور بھی ہیں، جو ہمارے ملک کے تحفظ کے لحاظ سے بیحد خطرناک ہوسکتے تھے یا آنے والے کل میں ان کے خطرناک نتائج سامنے ہوسکتے ہیں، اس لےے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ آج ہمارے دشمن کس کس لحاظ سے ہمارے خلاف کن کن تیاریوں میں مصروف ہیں۔ جس طرح ہیڈلی کے گرفت میں آنے کے بعد ہی یہ معلوم ہوا کہ اس نے ہندوستان کے ایسے متعدد مقامات کی ریکی کی تھی، جہاں بم دھماکے ہوئے۔ خدانخواستہ اگر کل ہماری جانکاری میں یہ آئے کہ دہلی ائیرپورٹ کے نزدیک ہوٹل ’ریڈیسن‘ میں جو پرندوں کے عاشق ٹھہرے تھے، دراصل ان کی سرگرمیوں کی وجہ پرندوں سے محبت نہیں کچھ اور تھی، تب بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ اسی طرح ہندوستان کے خلاف خطرناک منصوبے رکھنے والے اگر اس بات کا یقین کرلیں گے کہ دہلی ہوائی اڈہ پر اے ٹی سی کی اجازت کے بغیر بھی لینڈنگ کی جاسکتی ہے تو پھر یاد کریں، محض ایک ہفتہ قبل امریکہ کے شہر ٹکساس میں ’جواسٹیک‘ کا خطرناک کارنامہ، جب اس نے ارادتاً ایک جہاز کو عمارت سے ٹکرا کر تباہ کردیاتھا۔ اگر ہندوستان کے خلاف کوئی دہشت گردانہ کارروائی کرنے کا ذہن رکھتا ہو تو بس ان تین خبروں کو ذہن میں رکھیں، جو میں نے اپنے اس قسط وار مضامین میں گزشتہ ایک ہفتہ کے درمیان آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں اور اب ایک چھوٹی سی مگر انتہائی اہم خبر آپ کی خدمت میں پیش کرکے آج کے اس مضمون کو مکمل کرنا چاہوں گا

اتراکھنڈ میں گرفتار اسرائیلی شہری ضمانت پر رہادہرہ

22-02-2010

فروری (پی ٹی آئی) اتراکھنڈ کے اترکاشی ضلع میں غیرقانونی طریقہ سے سیٹلائٹ فون رکھنے اور اس سے بات کرنے کے معاملہ میں ریاستی پولس کے ذریعہ گرفتار ایک اسرائیلی شہری کو آج مقامی عدالت نے ضمانت پر چھوڑنے کا حکم دیا۔ پولس نے اسے گزشتہ روز گرفتار کیا تھا اور آج اسے چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا تھا۔ گڑھوال ڈویژن کے پولس انسپکٹر جنرل ایم اے گنپتی نے آج بتایا کہ ایک اسرائیل شہری ڈوری اشتیاق کو جمعرات کو سیٹلائٹ فون کے ساتھ اترکاشی ضلع کے ڈوڈی تال علاقہ میں پولس نے اس وقت پکڑا تھا جب وہ کہیں بات کررہا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ملک میں سیٹلائٹ فون کا استعمال بغیر اجازت پوری طرح غیرقانونی ہے اور اسی الزام میں اشتیاق کو گرفتار کیا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ پہلے اس سے پوچھ گچھ کی گئی اور پھر اسے گرفتار کرلیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ آج اسے عدالت میں پیش کیا گیا جہاں چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ رما پانڈے نے اسے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ آئی جی نے بتایا کہ اشتیاق 13فروری کو اسرائیل سے سیاحتی ویزا پر اترکاشی آیا تھا۔

ہندوستان میں بغیر اجازت سیٹلائٹ فون کا استعمال جرم ہے، باوجوداس کے کہ ایک اسرائیلی شہری سیٹلائٹ فون کا استعمال کرتا ہے، گرفت میں آتا ہے، پھر معمولی سی قانونی کارروائی کے بعد اسے چھوڑ دیا جاتا ہے، جبکہ ہندوستان کے 9/11کہے جانے والے 26/11میں جو حادثہ عمل میں آیا، وہ اسرائیلی یہودیوں کی ممبئی میں رہائش گاہ کے بہت نزدیک تھا اور ابھی حال ہی میں یعنی13فروری کو پنے میں جو بم دھماکے ہوئے، وہ بھی یہودیوں کے مرکز ”شبدہاوس“ کے نزدیک تھے۔یہ خوفناک حادثہ اور یہ خبریں کیا ہمیں کچھ سوچنے پر مجبور نہیں کرتیں۔ کیا واقعی ہم اپنے ملک کے تحفظ کے لےے سنجیدہ ہیں؟ یا پھر ہر بم دھماکہ کے بعد ہماری دلچسپی کا موضوع بس ایک زاوےے تک ہی محدود رہتا ہے؟ ہمارے لئے تشویش کی ایک بات یہ بھی ہے کہ اس اسرائیلی یہودی کا نام اشتیاق تھا جو کہ مسلمانوں کا نام ہوتا ہے۔ اگر کوئی خطرناک واقعہ عمل میں آیا ہوتا تو کیا صرف یہ ایک نام ہی ایک مخصوص طبقے کے لئے پریشانی کا باعث نہیں بن جاتا۔

दहशतगर्द की शनाख्त नाम से या उसके काम से?

हम में से बहुत से लोगों को इस बात का अनुभव है कि जब भी हम हवाई जहाज़ से यात्रा कर रहे होते हैं तो बहुदा पायलट को एटीसी से जहाज़ को रनवे पर उतारने की अनुमति मिलने में समय लगता है। विशेष रूप से दिल्ली हवाई अड्डे पर तो अब यह साधारण बात हो गई है। यही कारण है कि देर तक हवाई जहाज़ को आसमान में दिल्ली हवाई अड्डे के ऊपर चक्कर लगाते रहना पड़ता है। बहुत ही आश्चर्य की बात है कि एक विदेशी जहाज़ जो बेल्जियम से चल कर कराची थाईलैंड और ढाका होते हुए दिल्ली पहुंचा उसने बिना एटीसी की अनुमति के रनवे पर जहाज़ को उतारा और पार्क किया, उसे दिल्ली में या भारत के किसी भी हवाई अड्डे पर उतरना ही नहीं था। पायलट के अनुसार जहाज़ में तकनीकी ख़राबी के कारण वह एयर ट्रेफ़िक कन्ट्रोलर से अनुमति नहीं ले पाया। हमारे संबंधित अधिकारियों ने उसकी बात पर भरोसा किया, और तीन दिन बाद उसे अगली उड़ान के लिए अनुमति दे दी। प्रस्तुत है इस घटना से संबध रखने वाली पूरी ख़बर- मेरा अंदाज़ा है कि इस ख़बर को बहुत गंभीरता से लेते हुए आप लोगों ने न तो हमारी सरकार को देखा होगा और न ही हमारे मीडिया को। इसका कारण क्या है? यह तो वही बेहतर जानते होंगे। बहरहाल पहले आप यह ख़बर देखें, इसके बाद लेख का सिलसिला जारी रहेगा।


चुपके से लैंड कर गया विदेशी विमान
अनुप कुमार मिश्रा, (दैनिक जागरण)
नई दिल्लीः किसी को पता नहीं चला और एक विदेशी विमान न सिर्फ इन्दिरा गांधी एयरपोर्ट पर उतर गया, बल्कि पार्किंग बे में जाकर खड़ा भी हो गया। विमान का पता चलते ही हड़कंप मच गया। घटना के खुलासों के बाद हरकत में आई सुरक्षा एजेंसियों ने विमान के पायलअ व को-पायलट को हिरासत में लेकर विमान को अपने कब्जे में ले लिया। आतंकवादी हमले के खतरे को देखते हुए इसे सुरक्षा में गंभीर चूक माना जा रहा है। इस तरह एटीसी की अनुमति के बिना लैंडिग दूसरे विमानों और लोगों के लिए भी बेहद खतरनाक हो सकती थी।

कराची के रास्ते बेल्जियम से चलकर दिल्ली पहुंचा विमान बिना अनुमति इंदिरा गांधी अन्तर्राष्ट्रीय एयरपोर्ट पर लैंड कर गया। एयरपोर्ट पर विमानों की आवाजाही पर निगाह रखने वाली एजेंसी एयर ट्रैफिक कंट्रोलर के इस घटना के बारे में पता तब चला जब विमान के मुख्य रन वे पर लैंड कराने के बाद पार्किंग बे में खड़ा किया जा चुका था।

यह घटना पिछले दिनों की है। एटीसी में तैनात अधिकारियों की निगाह एक ऐसे विमान पर पड़ी जो पार्किंग -बे संख्या 81 में खड़ा था। इसे लैंड करने की इजाजत किसी ने नहीं ली थी। एटीसी के अधिकारियों ने घटना की जानकारी तत्काल एयारपोर्ट पर तैनात सीआईएसएफ को दी। सूचना मिलते ही सीआईएसएफ की क्विक रिएक्शन टीम, खुफिया विभाग के अधिकारी राहित तमाम आला अधिकारी पहुंच गए। पार्किंग-बे 81 मे खड़ा विमान को सीआईएसएफ के कमांडो ने तत्काल अपने घेरे में लेकर अंदर मौजूद पायलट पेनिनेक्स एवं को-पायलट स्वार्टन ब्राएक्स को हिरासत में ले लिया।

पूछताछ के दौरान दोनों ने बताया कि उन्होंने बेल्जियम से उड़ान भरी थी। थाईलैंड, कराची , ढाका होते हुए वे दिल्ली पहुंचे थे। विमान के कम्यूनिकेशन सिस्टम मे खराबी के चलते वे आईजीआई एयरपोर्ट के एटीसी से संपर्क नहीं कर सके और उन्हें यहां लैंड करना पड़ा। विमान की जांच एवं पायलट व को-पायलट को लंबी छानबीन के बाद सुरक्षा एजेंसियों ने क्लीन चिट दे दी। शनिवार शाम यह विमान ढाका के लिए रवाना हो गया। क्या होता अगर विमान में आतंकवादी आए होते, आतंकवादी हमलों के खतरे को देखते हुए गृह मंत्रालय ने भले ही देश भर के सभी एयरपोर्ट पर रेड अलर्ट जारी कर रखा हो। लेकिन हवाई सुरक्षा का आलम यह है कि एक विदेशी विमान सभी एजेंसियों ककी आंखों में धूल झोंकता हुआ न केवल आईजीआई एयरपोर्ट के मुख्य रन-वे पर लैंड कर जाता है बल्कि बिना किसी रोक-टोक के पार्किंग-बे में जाकर खड़ा हो जाता है। वे तो शुक्र है कि विमान के पायलट किसी गलत मंसूबे की वजह से नहीं बल्कि तकनीकी खराबी के चलते एयरपोर्ट पर उतरे थे। अगर इनकी जगह आतंकवादी आए होते तो तबाही को शायद कोई भी नहीं रोक पाता। हालांकि पायलटों के अच्छे मंसूबों के बावजूद जिस तरह लोगों की जान खतरे में पड़ गई थी,उससे भी इनकार नहीं किया जा सकता। एक ओर जहां हवाई सुरक्षा को चाक चौबंद करने के लिए करोड़ों रूपये के उपकरण एंव रडार एयरपोर्ट पर लगाने के तमाम दावे किए जा रहे हैं।वहीं बेल्जियम से आए विमान की आईजीआई एयरपोर्ट पर लैंडिग ने सुरक्षा को लेकर कई सवाल खड़े कर दिए हैं। सवाल यह भी खड़ा होता है, भले ही विमान का कम्युनिकेशन सिस्टम खराब था, एयरपोर्ट का सिस्टम तो काम कर रहा था। अगर ऐसा था तो एटीसी को समय पर विमान का पता क्यों नहीं चला? यह एटीसी की चूक थी या फिर हमारे पास कोई ऐसी प्रणाली और उपकरण ही नहीं है। जो हवाई सीमा के अंदर घुसने वाले संदिग्ध विमान का पता लगा सकें। वजह जो भी हो दोनों ही सिथतियां हवाई सुरक्षा के लिहाज से बेहद गंभीर हैं। वो भी तब जब तमाम आतंकवादी संगठनों के मंसूबों को देखते हुए खुफिया एजेंसियों ने खतरे की घंटी बजा रखी हो। हवाई सुरक्षा से जुड़े विशेषज्ञ के मुताबिक यह घटना किसी भी मायने में ठीक नहीं थी।यदि घटना किसी आतंकी संगठन द्वारा की जाती तो विनाश का अंदाजा सहज लगाया जा सकता है। वहीं अगर यह सिर्फ आपात समय में की गई लैंडिंग है, तो भी सुरक्षा के लिहाज से ठीक नहीं है। विमान मामलों के विशेषज्ञ कैप्टन बीके दुक्कड़ के अनुसार आईजीआई एयरपोर्ट पर यह विमान जिस समय लैंड हुआ। उस समय भारी संख्या में विमान लैंड व टेकऑफ करते हैं। ऐसे समय बिना बताए एक विमान की लैंडिंग कराना किसी बड़े हादसे का आमंत्रण हो सकती थी।

ऐसी घटनाएं और भी हैं जो हमारे देश की सुरक्षा की दृष्टि से बहुत ख़तरनाक हो सकती थीं या आने वाले कल में उनके ख़तरनाक नतीजे सामने आ सकते हैं। इसलिए कि हमें नहीं मालूम कि आज हमारे दुश्मन किस-किस प्रकाऱ से हमारे विरुद्ध किन-किन तैयारियों में लगे हैं। जिस तरह ‘हेडली’ के गिरफ़्त में आने के बाद ही यह मालूम हुआ कि उसने भारत के ऐसे अनेक स्थानों की रैकी की थी, जहां बम धमाके हुए। ख़ुदा न करे अगर कल हमारी जानकारी में यह आए कि दिल्ली हवाई अड्डे कि निकट होटल रेडिसन में जो पक्षी प्रेमी ठहरे थे वास्तव में उनकी गतिविधियों का कारण परिंदों का प्रेम नहीं कुछ और था तब बहुत देर हो चुकी होगी। इसी तरह भारत के विरुद्ध ख़तरनाक मन्सूबे रखने वाले अगर इस बात का विशवास कर लेंगे कि दिल्ली हवाई अड्डे पर एटीसी की अनुमति के बिना भी लैंडिंग की जा सकती है तो फिर याद करें, लगभग एक सप्ताह पूर्व अमेरिका के शहर टेक्सास में ‘जो स्टेक का ख़तरनाक का कारनामा’ जब उसने इरादतन एक जहाज़ को इमारत से टकरा कर तबाह कर दिया था। अगर भारत के विरुद्ध कोई आतंकवादी कार्यवाही करने की योजना रखता हो तो बस इन तीन समाचारों को दिमाग़ में रखें जो मैंने अपने इस क़िस्तवार लेखों में पिछले एक सप्ताह के बीच आपकी सेवा में प्रस्तुत की हैं और अब एक छोटी सी मगर बेहद महत्वपूर्ण ख़बर आपकी ख़िदमत में पेश कर आज के इस लेख को समाप्त करना चाहूंगा।

22 फरवरी।
उत्तराखंड में गिरफ़्तार इस्राईली नागरिक ज़मानत पर रिहा
देहरादून, 22 फरवरी। (पीटीआई) उत्तरा खंड के उत्तरकाशी ज़िले में ग़ैर क़ानूनी तरीक़े से सेटेलाइट फोन रखने और उससे बात करने के मामले में राज्य पुलिस के द्वारा गिरफ़्तार एक इस्राईली नागरिक को आज स्थानीय अदालत ने ज़मानत पर छोड़ने का आदेश दिया। पुलिस ने उसे पिछले रोज़ गिरफ़्तार किया था, और आज उसे चीफ़ जुडिश्यिल मजिस्ट्रेट की अदालत में पेश किया था। गढ़वाल डिवीज़न के पुलिस इंस्पेक्टर जनरल एम॰ए॰ गणपति ने आज बताया कि एक इस्राईली नागरिक डोरी इश्तियाक़ को बृहस्पतिवार को सेटेलाइट फ़ोन के साथ उत्तरकाशी ज़िले के डोरीताल क्षेत्र में पुलिस ने उस समय पकड़ा था जब वह कहीं बात कर रहा था। उन्होंने बताया कि देश में सेटेलाइट फोन का प्रयोग अनुमति बिना पूरी तरह गैर कानूनी है और इसी आरोप में इश्तियाक़ को गिरफ़्तार किया गया था। उन्होंने बताया कि पहले उससे पूछगछ की गई, और फिर उसे गिरफ़्तार कर लिया गया। उन्होंने कहा कि आज उसे अदालत में पेश किया गया जहां चीफ़ जुडिशियल मजिस्ट्रेट रमा पांडे ने उसे ज़मानत पर रिहा करने का आदेश दिया। आई॰जी ने बताया कि इश्तियाक़ 13 फरवरी को इस्राईल से पर्यटक वीज़ा पर उत्तर काशी आया था।

भारत में बिना अनुमति सेटेलाइट फोन का प्रयोग अपराध है। इसके बावजूद एक इस्राईली नागरिक सेटेलाइट फोन का इस्तेमाल करता है, गिरफ़्त में आता है, फिर मामूली सी क़ानूनी कार्यवाही के बाद उसे छोड़ दिया जाता है, जबकि भारत के 9/11 कहे जाने वाले 26/11 में जो दुर्घटना हुई वह इस्राईली यहूदियों के मुम्बई में निवास स्थान के बहुत निकट थी, और अभी हाल ही में अर्थात 13 फरवरी को पुणे में जो बम धमाके हुए वह भी यहूदियों के केन्द्र ‘क्षबद हाऊस’ के निकट थे। यह ख़ौफ़नाक हादसा और यह ख़बरें क्या हमें कुछ सोचने पर विवश नहीं करतीं। क्या वास्तव में हम अपने देश की सुरक्षा के लिए गंभीर हैं? या फिर हर बम धमाके के बाद हमारी गंभीरता का विषय बस एक दृष्टिकोण तक ही सीमित रहता है? हमारे लिए चिंता की बात यह भी है कि उस इस्राईली यहूदी का नाम इश्तियाक़ था जो कि मुसलमानों का नाम होता है। अगर कोई ख़तरनाक घटना घटी होती तो क्या केवल यह एक नाम ही एक विशेष वर्ग के लिए परेशानी का कारण नहीं बन जाता।

ہمیں اپنے بچوں کو کرنل (پروہت )کے بجائے حولدار (عبدالحمید)بنانا زیادہ پسند ہے


Wednesday, February 24, 2010

پنے بم دھماکہ بھی کیا مالیگاوں....

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ چند روز سے میں نے اپنے لکھنے کے انداز میں کچھ تبدیلی کی ہے، پہلے ایک موضوع میرے سامنے ہوتا تھا اور اس موضوع کو سامنے رکھ کر مکمل مضمون قلمبند کرتا تھا۔ اکثروبیشتر انٹرنیٹ اور دیگر میڈیا کا مواد بھی میرے سامنے ہوتا تھا، تاکہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں اس کی بنیاد کیا ہے، ضرورت پڑنے پر یہ بھی سامنے رکھا جاسکے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوا کہ کسی اخبار کے مضمون نگار نے اسی موضوع پر ویسے ہی خیالات کا اظہار کیا تو میں نے اسے بھی شامل اشاعت کیا، لیکن ادھر چند روز سے تبدیلی یہ کی ہے کہ ذرائع ابلاغ پر موجود کوئی خبر میرے سامنے ہوتی ہے، پھر لفظ بہ لفظ اس خبرکو شائع کرنے کے بعد میں اپنی تحریر شروع کرتا ہوں۔ اس لحاظ سے آج کا دن کچھ خاص ہے۔ وہ اس لےے کہ آج نہ صرف خبر ذرائع ابلاغ سے ہے، بلکہ مضمون بھی ملک کے ایک مشہور انگریزی روزنامہ ”ہندو“ سے، وہ اس لےے کہ جو کچھ مجھے لکھنا تھا، کم و بیش وہی سب کچھ ”پروین سوامی“ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے۔ میں نے اس خبر اور مضمون کے حوالہ سے اپنے تاثرات کی شکل میں چند سطریں لکھنے کے لےے قلم اٹھایا ہی تھا کہ ’ارم ڈگری کالج‘ لکھنوکے اس استقبالیہ جلسہ میں نظامت کے فرائض انجام دے رہے مسعودحسن عثمانی صاحب کے جملے میرے کانوں میں گونجنے لگے۔ انہوں نے ابتدائی تقریر کے دوران کہا تھا کہ ”جانے وہ وقت کب آئے گا کہ ہر روز عزیز برنی کو ایک مکمل صفحہ کا مضمون لکھنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔“ یہ ان کی دعا تھی یا خواہش یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، مگر خوشی اس بات کی ہے کہ ان کی زبان سے نکلے یہ الفاظ بارگاہِ رب العزت میں اس قدر جلد قبول کرلےے گئے کہ دہلی واپسی کے بعد دو روز کے اندر ہی یہ کرشمہ ہوگیا کہ جو کچھ میں لکھنے کی کوشش کرتا رہا ہوں، وہ اب مجھ سے بھی بہترانداز میں میرے ہم وطن قلمکار لکھ رہے ہیں۔ مشہور صحافی کلدیب نیر نے مختلف اخبارات کے ادارتی صفحہ کے لےے آج جو مضمون لکھا ہے، وہ بیشک میرے دل کی آواز ہے۔ انشاءاللہ میں اپنی کل کی تحریر میں اس کا حوالہ پیش کروں گا اور آج بھی جب میں پونے بم دھماکوں کے تعلق سے منظرعام پر آئی تازہ خبر کو سامنے رکھ کر اپنے تاثرات بیان کررہا تھا تو یہ خبر کسی ایک اخبار میں نہیں، بلکہ 8اخبارات کی فہرست تو میرے سامنے ہے، جنہوں نے اس خبر کو شامل اشاعت کیا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ تمام اخبارات میری نظر سے گزرگئے ہوں، ظاہر ہے اور بھی متعدد اخبارات و الیکٹرانک میڈیا نے اس خبر کو شائع کیا ہوگا۔ یعنی اب ہم یہ امید کرسکتے ہیں کہ ’منظر بدل رہا ہے‘، مطلب یہ نہیں کہ دوسرے نام اور چہرے سامنے آرہے ہیں، بلکہ یہ کہ ایک حد تک غیرجانبدارانہ انداز میں خبریں سامنے آنے لگی ہیں، مضامین اور تجزےے پیش کےے جانے لگے ہیں،لہٰذا اب دہشت گرد، وہ چاہے جو بھی ہو یہ امید نہیں کرسکتا کہ وہ گرفت میں نہیں آئے گا۔ میڈیا کا دباوو غیرجانبدارانہ تفتیش حقائق کو منظرعام پر لائے گی تو یہ ہوگا ہی، اب یہ الگ بات ہے کہ کچھ وقت اور لگ جائے۔ بہرحال اتنا تو ہوا کہ امید جگی....۔
دھماکے میں ہندو تنظیموں پر شبہ
پنے جرمن بیکری دھماکے میں سرحد پار کی سازش کے ساتھ ہی ہندو وادی تنظیم ابھینو بھارت پر بھی نظر رکھی جارہی ہےhttp://epaper.hindustandainik.com
ممبئی(خصوصی نمائندہ):پنے کی جرمن بیکر ی میںدھماکے میں ہندو وادی تنظیموں کے رول پر بھی شک کی سوئی گھوم رہی ہے۔ مہاراشٹر حکومت کے ایک سینئر افسر نے کہا ہے کہ تفتیش کے دائرے میں ہندو تنظیم بھی ہے۔
ان کی مانیں تو اس دھماکے میں سرحد پار کی سازش کے ساتھ پنے کی ہندووادی تنظیموں کے کردار پر بھی نظر رکھی جارہی ہے۔ پنے کی جس ہندووادی تنظیم
کا ذکر کیا جارہا ہے، اس میں ابھینو بھارت کا نام سامنا آیا ہے۔ واضح رہے کہ 29ستمبر 2008کو مالیگاﺅں دھماکے سے ابھینو بھارت کا نام جڑا تھا۔ اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ کرنل شری کانت پروہت اور سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر سمیت کئی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ تھانے اور گوا کے بم دھماکوں میں سناتن پربھات نامی تنظیم کا نام سامنے آیا تھا۔ مانا جاتا ہے کہ ان تنظیموں کو ہندوتو واد کے نام پر ریاست میں علاقائی سیاست کرنے والی ایک سیاسی جماعت کا تعاون حاصل ہے، اس لئے اس پر بھی نظر رکھی جارہی ہے۔ ابھینو بھارت کی سربراہ ہمانی ساورکر ہیں جو مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کے بھائی گوپال گوڈسے کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پنے دھماکے میں حکومت اپنی ناکامی چھپانے کے لئے بغیر ثبوت کے ابھینو بھارت کا نام لے رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت میں بیٹھے ذمہ دار لوگ غیر ذمہ دارانہ بیان دے کر ابھینو بھارت کے خلاف لوگوں میں غلط فہمی پیدا کررہے ہیں۔ دوسری جانب عوامی بھارت نامی تنظیم کے فیروز میٹھی بور والا نے پنے دھماکے میں ابھینو بھارت کے کردار کی تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پنے جانچ ہندو دہشت گردی کی جانب
دی ہندو“ (19-02-10)-پروین سوامی
جانچ کرنے والے جہادی گروپ پر توجہ دے رہے ہیں، لیکن کچھ لوگوں کو خدشہ ہے جرمن بیکری دھماکے میں ہندوتو گروپ شامل ہوسکتا ہے۔
نومبر 2008میں جب لیفٹیننٹ کرنل پرساد شری کانت پروہت مالیگاﺅں مسجد بم دھماکے کے الزام میںناسک کورٹ میں آیا تھا تب ہندوتو سے جڑے کارکنوں نے اسی باغی فوجی افسر پر گلاب کے پھول برسائے تھے۔ پچھلے ہفتے پنے کی جرمن بیکری میں ہوئے بم دھماکے سے ابھی نوبھارت کی بدصورت کہانی سامنے آئی اور اسی تنظیم کو پایا گیا کہ پروہت نے مدد کی تھی۔ ناسک میں سنوائی شروع ہونے کے کچھ دنوں بعد ہی ممبئی میں قتل وغارت گری ہوئی اور اسی کے بعد گمنامی سے اس کی واپسی ہوئی۔
دائیں بازو سے نجی طور پر ہمدردی رکھنے والے ہندو کہہ رہے ہیں کہ بم دھماکے پروہت اور اس کے ہندو دہشت گردانہ پروجیکٹ اخلاقی طور پر درست ہےں۔ تاہم پولس نے دو درجن سے زائد مسلم نوجوانوں کو پوچھ گچھ کے لئے حراست میں لیا ہے، جبکہ کچھ لیڈرس یہ دلیل دے رہے ہیں کہ بیکری پر حملہ کسی ہندو نواز گروپ کے ذریعہ آسانی سے کیا گیا ہوہوسکتا ہے۔
تنازع کا حصہ اس لئے ہے کہ ابھینوبھارت کی دہشت گردانہ مہم میں مشتبہ طور پر ملوث افراد کبھی پکڑے نہیں گئے۔ جتن چٹرجی جو اپنے عرف سوامی اسیمانند سے مشہور ہیں، جو گجرات کے آدی واسی (قبائلی) علاقے میں چھپا ہوا مانا جاتا ہے، جہاں یہ تبدیلی مذہب کی ہندوتنظیم چلا رہا ہے۔ رام نرائن کالسانگرہ، جو ابھینوبھارت کا سب سے ماہر بم بنانے والا ہے، یہ بھی فرار ہے۔2006کی گرمیوں میں ابھینوبھارت کا قیام تعلیمی ٹرسٹ کے طورپر کیا گیا اور مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کے بھائی گوپال گوڈسے کی بیٹی ہمانی ساور کر اس کی صدر بنی، لیکن مہاراشٹر حکومت کے وکیلوں کی جانب سے داخل دستاویز بتاتے ہیں کہ جلد ہی گروپ کے اراکین ہتھیار بند کارروائی کی بحث میں ملوث ہوگئے۔ پروہت پر الزام ہے کہ جون 2007میں اس نے مشورہ دیا کہ وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گردانہ حملوں کے ذریعہ نشانہ بنایا جائے، جس سے ابھی نوبھارت کے دوسرے لوگوں نے انکار کردیا۔
لیکن پولس کے ذریعہ یکجا کئے گئے ثبوت ظاہر کرتے ہیں کہ گروپ کے اندر کئی اس مشورہ پر عمل کی راہ پر لگنے کا ارادہ کرچکے تھے۔ اپریل 2008میں ایک میٹنگ کے دوران مدھیہ پردیش کی ہندوتو کارکن پرگیہ سنگھ ٹھاکر، جموںکے مذہبی رہنما سدھاکر دویدی جو امرتانند دیو تیرتھ کے نام سے مشہور ہیں۔ پروہت سے ملے تاکہ مالیگاﺅں سازش کو انجام دیاجاسکے۔ اس کے لئے دھماکہ خیز اشیا پروہت نے حاصل کی اور اگست 2008میں کالسانگرہ کے سپرد کیں۔
ابھینوبھارت کا طویل مدتی مقصد، مسلمانوں کو نشانہ بنانے سے آگے تک گیا۔ اس کے اراکین ہندوستانی حکومت کو اکھاڑ پھینکنا چاہتے تھے تاکہ ٹوٹلی ٹیرین مذہبی حکومت کا قیام کیا جاسکے۔ ابھینوبھارت کے ذریعہ بنایا گیاآئین ایک پارٹی سسٹم کی وکالت کرتا ہے جس کی قیادت ایک لیڈر کرے گا اور سبھی بغیر اختیار کے اور سوال کئے بغیر اس کے تابع رہیں گے۔ یہ خاص ذہنیت کی تعلیم کی اکادمی بنانے کی بھی بات کرتا ہے۔ اختتامی رائے کافی سخت ہے ’جن افراد کی رائے ہندو راشٹر کو نقصان پہنچانے والی ہو ان کو قتل کردیا جائے۔“
ہندوتو کے نظریہ پر مبنی ملک کے قیام کا پروہت کا منصوبہ اکثر خیالی تھا۔وکلا کہتے ہیں کہ اس نے دعویٰ کیا کہ اس کی 2006اور 2007میں نیپال کے راجہ سے ملاقات طے ہوئی تھی تاکہ ہندوتو ریولوشن کے لئے حمایت حاصل کرسکے۔ اس نے آگے بتایا کہ وہ ابھی نوبھارت کے کیڈر کو تربیت دینے کے لئے تیار تھے اور اسالٹ رائفل مہیا کرانے کے لئے بھی۔ اس نے بتایا کہ اسرائیل کی حکومت اس کے ممبران کو فوجی مدد اور ضرورت پڑنے پر سیاسی پناہ دینے کو تیار تھی۔
کئی لوگوں کا یقین ہے کہ ابھی نوبھارت نے کئی دھماکے کئے ہیں، جس کا الزام جہادی گروپ پر آیا۔ ان میں مئی 2007میں حیدرآباد کی مکہ مسجد میں دھماکہ اور اس کے بعد اجمیر کی مشہور درگاہ پر ہوئے حملوں کو شامل کیاجاسکتا ہے۔ ابھینوبھارت کے کیڈر سے لگاتار پوچھ گچھ کے باوجود جانچ کرنے والے اس کو حملوں سے جوڑنہیں پائے ہیں۔
معاملہ اس حقیقت سے اور پیچیدہ ہوگیا کہ کئی کارروائیاں جن سے ابھینوبھارت کو جوڑا گیا، اس سے گروپ کا کچھ بھی لینا دینا نہیں تھا۔ تاہم اس کے کئی بڑے لیڈر حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ مثال کے لئے پروہت نے اپنے ساتھیوں سے دعویٰ کیا کہ حملہ دیواس کے ہندوتو وادی دہشت گرد سنیل جوشی نے کیا، جس کا قتل دسمبر 2007میں ہوگیا تھا، لیکن امریکہ کے ٹریزری ڈپارٹمنٹ نے بعد میں حملے کی مالی مدد کرنے کے الزام میں طالبان اور القاعدہ کے نزدیکی اور لشکر طیبہ کے کراچی کے جہادی عارف کا سمانی پر پابندیاں عائد کی تھی۔
اس سال جنوری میں پاکستان کے وزیر برائے داخلہ رحمن ملک نے اس سے بھی آگے جاتے ہوئے قبول کیا کہ ’سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کے لئے پاکستان کے کچھ جہادیوں کو بھاڑے پر لیا گیا تھا۔‘ہال ہی میں ہندو نواز دہشت گردانہ حملے کو دیکھتے ہوئے گزشتہ سال گوا میں ہوئے دھماکوں کی طرح یہ واضح نہیں ہے کہ کیا ان کے پاس جس طرح کا حملہ پنے میں ہوا، کو کرنے کی طاقت ہے۔ کچھ تفتیش کاروں کا یقین ہے کہ تنظیم نے یا دوسرے ہندوتو سیل نے کارروائی کو انجام دیا ہے۔ مہاراشٹر پولس کا ایک افسر جو ہندوتو اور جہادی حملوں کی جانچ میں شامل رہا ہے، کا کہنا ہے کہ ”پھر بھی، کوئی تعجب نہیں، اگر کوئی....“؟
اس بات کے اشارے ہیںکہ جرمن بیکری حملے کے معاملے کی جانچ میں وقت لگے گا۔ شک کی بنیاد پر جانچ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ کلوز ڈسرکٹ ٹی وی کیمرہ میں درج تین افراد نے دھماکے سے قبل ایک میٹنگ کی تھی، ویڈیو ٹیپ سے یہ واضح نہیں ہے کہ ان افراد کا دھماکوں سے کچھ تعلق ہے یا نہیں۔ جانچ میں جتنا وقت لگے گا سازش کی تھیوری اور اندازہ بھی اتنے ہی آئیں گے اور اس سے فرقہ وارانہ درار جو دھماکے بعد سے مزید کھل گئی اور بھی بڑھے گی۔

पुणे बम धमाका भी क्या मालेगांव......


जैसा कि आप जानते हैं कि पिछले कुछ दिनों से मैंने अपने लिखने के अंदाज़ में कुछ परिवर्तन किया है। पहले एक विषय मेरे सामने होता था और उस विषय को सामने रखकर लेख लिखता था। बहुधा इन्टरनेट और अन्य मीडिया की सामग्री भी मेरे सामने होती थी, ताकि जो कुछ मैं लिख रहा हूं उसका आधार क्या है, आवश्यकता पड़ने पर यह भी सामने रखा जा सके। कभी कभी यूं भी हुआ कि किसी समाचारपत्र ने उसी विषय पर वैसे ही विचार प्रकट किये तो उन्हें भी प्रकाशित किया, लेकिन इधर कुछ दिनों से परिवर्तन यह किया है कि मीडिया पर मौजूद कोई समाचार मेरे सामने होता है फिर शब्दशः उस समाचार को प्रस्तुत करने के बाद मैं अपना लेख शुरू करता हूं। इस लिहाज से आज का दिन कुछ विशेष है। वह इसलिए कि आज न केवल खबर मीडिया से है,बल्कि लेख भी देश के एक प्रसिद्ध अंग्रेजी दैनिक दि हिन्दु से है। वह इसलिए कि जो कुछ मुझे लिखना था लगभग वही सब कुछ ‘प्रवीण स्वामी’ ने अपने लेख में लिखा है। मैंने इस समाचार और लेख के हवाले से अपनी भावनाओं के रूप में कुछ पंक्तियां लिखने के लिए क़लम उठाया ही था कि इरम डिग्री कॉलेज लखनऊ के सम्मान समारोह में एनाउन्सर की भूमिका निभा रहे मसूद हसन उस्मानी साहब के वाक्य मेरे कान में गूंजने लगे। उन्होंने अपने प्रारंभिक भाषण के दौरान कहा था कि ‘जाने वह समय कब आयेगा कि हर रोज़ अज़ीज़ बर्नी को एक पूरे पृष्ठ का लेख लिखने की आवश्यकता ही पेश न आये।’ यह उनकी प्रार्थना थी या इच्छा, यह तो अल्लाह ही बेहतर जानता है, मगर खुशी इस बात की है कि उनकी जबान से निकले यह शब्द इतनी जल्द बारगाहे रब्बुल इज्जत में स्वीकार कर लिये गये कि दिल्ली वापसी के बाद दो दिन के अन्दर ही यह करिश्मा हो गया कि जो कुछ मैं लिखने का प्रयास करता रहा हूं वह अब मुझ से भी बेहतर अंदाज़ में मेरे हमवतन कलमकार लिख रहे हैं। प्रसिद्ध पत्रकार कुलदीप नैयर ने विभिन्न समाचारपत्रों के सम्पादकीय पृष्ठ के लिए आज जो लेख लिखा है वह भी निसंदेह मेरे दिल की आवाज़ है। इनशाअल्लाह मैं अपने कल के लेख में इसका हवाला पेश करूंगा और आज भी जब मैं इन बम धमाकों के सम्बन्ध में सामने आये ताजा समाचार को रखकर अपनी भावनांए व्यक्त कर रहा था तो यह खबर किसी एक अखबार में नहीं बल्कि 8 समाचारपत्रों की सूचि तो मेरे सामने है जिन्हों ने इस समाचार को प्रकाशित किया और यह भी आवश्यक नहीं है कि तमाम समाचार पत्र मेरी नज़र से गुजर गए हों। स्पष्ट है और भी अनेक समाचार पत्रों व इलेक्ट्रानिक मीडिया ने इस समाचार को प्रकाशित किया होगा, अर्थात अब हम यह उम्मीद कर सकते हैं कि ‘मंज़र बदल रहा है’, मतलब यह नहीं कि दूसरे नाम और चेहरे सामने आ रहे हैं, बल्कि यह कि एक हद तक पक्षपात रहित अंदाज़ में समाचार सामने आने लगे हैं, लेख और विशलेषण प्रस्तुत किए जाने लगे हैं, इसलिए अब आतंकवादी वह चाहे जो भी हो, यह उम्मीद नहीं कर सकता कि वह गिरफ्त में नहीं आएगा। मीडिया का दबाव व निष्पक्ष जांच वास्तविकता को सामने लाएगी तो यह होगा ही अब ये अलग बात है कि कुछ समय और लग जाए, बहरहाल इतना तो हुआ कि उम्मीद जगी...........।

धमाके में हिन्दू संगठनों पर शक

पुणे के जर्मन बेकरी धमाके में सरहद पार की साज़िश के साथ ही हिन्दूवादी संगठन अभिनव भारत पर भी नज़र रखी जा रही है http://epaper.hindustandainik.com

मुंबई -विशेष संवाददाताः पुणे जर्मन बेकरी में धमाके में हिन्दूवादी संगठनों की भूमिका पर भी शक की सूई घूम रही है। महाराष्ट्र सरकार के एक वरिष्ठ अधिकारी ने कहा कि जांच के दायरे में हिन्दू संगठन भी है ।

उनकी मानें तो इस धमाके में सरहद पार की साज़िश के साथ पुणे के हिन्दूवादी संगठनों की भूमिका पर भी नज़र रखी जा रही है। पुणे के जिस हिन्दूवादी संगठन का ज़िक्र किया जा रहा है, उसमें अभिनव भारत का नाम सामने आया है। ध्यान रहे कि 29 सितम्बर 2008 को मालेगांव धमाके से अभिनव भारत का नाम जुड़ा था। इस संगठन से नाता रखने वाले लेफ्टिनेंट कर्नल श्रीकांत पुरोहित और साध्वी प्रज्ञा सिंह ठाकुर सहित कई को गिरफ्तार किया गया था। इसके अलावा ठाणे और गोवा के बम धमाकों में सनातन प्रभात नामक संस्था का भी नाम उजागर हुआ था। माना जाता है कि इन संस्थाओं को हिन्दुत्ववाद के नाम पर राज्य में क्षेत्रीय राजनीति करने वाली एक राजनीतिक पार्टी का सहयोग प्राप्त है, इसलिए इस पर भी नज़र रखी जा रही है। अभिनव भारत की प्रमुख हिमानी सावरकर हैं जो महात्मा गांधी के हत्यारे नाथूराम गोडसे के भाई गोपाल गोडसे की बेटी हैं। उन्होंने बताया कि पुणे विस्फोट में सरकार अपनी नाकामी छिपाने के लिए बिना सबूत के अभिनव भारत का नाम ले रही है। उनका कहना है कि सरकार में बैठे ज़िम्मेदार लोग ग़ैर ज़िम्मेदाराना बयान देकर अभिनव भारत के खिलाफ लोगों में भ्रम पैदा कर रहे हैं। उधर, अवामी भारत नामक संस्था के फिरोज मिठीबोरवाला ने पुणे धमाके में अभिनव भारत की भूमिका की जांच करने की मांग की है।

पुणे जांच हिन्दू आतंकवाद की ओर

‘दि हिन्दु’ (19।2।10)-प्रवीण स्वामी

जांच करने वाले जिहादी ग्रुप पर ध्यान दे रहे हैं, लेकिन कुछ लोगों को संदेह है कि जर्मन बेकरी धमाके में हिन्दुत्व ग्रुप शामिल हो सकता है।नवम्बर 2008 में जब लेफ्टिनेंट कर्नल प्रसाद श्रीकांत पुरोहित मालेगांव मस्जिद बम धमाके के आरोप में नासिक कोर्ट में आया था तब हिन्दुत्व से जुड़े कार्यकर्ताओं ने इस बाग़ी सैनिक अधिकारी पर गुलाब के फूल बरसाये थे। पिछले सप्ताह पुणे की जर्मन बेकरी में हुए बम धमाके से अभिनवभारत की बदसूरत कहानी सामने आई और इस संगठन को पाया गया कि पुरोहित ने सहायता की थी। नासिक में सुनवाई शुरू होने के कुछ दिनों बाद ही मुम्बई मंे कत्ल व खून खराबे की घटनाएं हुई और इसी के बाद गुमनामी से इसकी वापसी हुई।

दक्षिणपंथ से व्यक्तिगत रूप से सहानुभूति रखने वाले हिन्दु कह रहे हैं कि बम धमाके पुरोहित और उसके हिन्दु आतंकवादी प्रोजेक्ट नैतिक रूप से ठीक हैं।लेकिन पुलिस ने दो दर्जन से अधिक मुस्लिम युवकों को हिरासत में लिया है। जबकि कुछ नेता यह तर्क दे रहे हैं कि बेकरी पर हमला किसी हिन्दुत्वादी ग्रुप के द्वारा आसानी से किया गया हो सकता है।विवाद का हिस्सा इसलिए है कि अभिनव भारत के आतंकवादी मुहिम में संदिग्ध रूप से संलिप्त व्यक्ति कभी पकड़े नहीं गये। जतिन चटर्जी जो अपने उर्फ नाम स्वामी असीमानन्द के नाम से प्रसिद्ध हैं, जो गुजरात के अदिवासी क्षेत्र में छुपा हुआ माना जाता है, जहां यह धर्म परिवर्तन के लिए हिन्दु संगठन चला रहा है। राम नारायण काल सांग्रा जो अभिनवभारत का सबसे माहिर बम बनाने वाला है। यह भी फरार है।2006 की गर्मियों में अभिनव भारत की स्थापना एजूकेशनल ट्रस्ट के रूप में की गई और महात्मा गांधी के कातिल नाथु राम गौडसे के भाई गोपाल गौडसे की बेटी हिमानी सावरकर इसकी अघ्यक्ष बनीं। लेकिन महाराष्ट्र सरकार के वकीलों की ओर से दाखिल दस्तावेज बताते हैं कि शीघ्र ही गु्रप के सदस्य हथियारबन्द कार्रवाई की बहस में संलिप्त हो गये। पुरोहित पर आरोप है कि जून 2007 में उसने मश्विरा दिया कि समय आ गया है कि मुसलमानों को आतंकवादी हमलों के द्वारा निशाना बनाया जाये जिससे अभिनव भारत के अन्य लोगों ने इनकार कर दिया।लेकिन पुलिस के द्वारा एकत्र किये गये सबूत जाहिर करते हैं कि ग्रुप के अन्दर कई लोग इस मश्विरे पर अमल की राह पर चलने का इरादा कर चुके थे। अप्रैल 2008 में एक मीटिंग के बीच मध्यप्रदेश की हिन्दुत्व कार्यकर्ता प्रज्ञा सिंह ठाकुर, जम्मु के धार्मिक नेता सुधाकर द्ववेदी जो अमृता नन्द देव तीर्थ के नाम से प्रसिद्ध हैं पुरोहित से मिले ताकि मालेगांव साजिश को अंजाम दिया जा सके। इसके लिए विस्फोटक सामग्री पुरोहित ने प्राप्त की और अगस्त 2008 में कालसांग्रा के सुपुर्द की।

अभिनव भारत का दीर्घकालीन उद्देश्य मुसलमानों को निशाना बनाने से आगे तक गया। उसके सदस्य भारत सरकार को उखाड़ फेंकना चाहते थे ताकि टोटली टेरियन धार्मिक सरकार की स्थापना की जा सके। अभिनव भारत के द्वारा बनाया गया संविधान एक पार्टी व्यवस्था की वकालत करता है जिसका नेतृत्व एक नेता करेगा और सभी बिना अधिकारों के कोई प्रश्न किये बिना उसके अधीन रहेंगे। यह विशेष मानसिकता की शिक्षा की अकादमी बनाने की भी बात करता है। अंतिम राय काफी सख्त है ‘जिन व्यक्तियों की राय हिन्दु राष्ट्र को हानि पहुंचाने वाली हो उनकी हत्या कर दी जाये’।

हिन्दुत्व के दृष्टिकोण पर आधारित देश की स्थापना का पुरोहित का मंसूबा ख्याली था। वकील कहते हैं कि उसने दावा किया कि उसकी 2006 और 2007 में नेपाल के राजा से भेंट तय हुई थी ताकि हिन्दुत्व क्रांति के लिए समर्थन प्राप्त कर सके। उसने आगे बताया कि वह अभिनव भारत के कैडर को ट्रेनिंग देने के लिए तैयार थे और असाल्ट राईफल उपलब्ध कराने के लिए भी। उसने बताया कि इस्राईल की सरकार उसके सदस्यों को फौजी सहायता देने और आवश्यकता पड़ने पर राजनीतिक शरण देने को तैयार थी।कई लोगों का विश्वास है कि अभिनव भारत ने कई धमाके किये हैं जिनका आरोप जेहादी ग्रुप पर आया। उनमें मई 2007 में हैदराबाद की मक्का मस्जिद में धमाका और उसके बाद अजमेर की मशहूर दरगाह पर हुए हमलों को शामिल किया जा सकता है। अभिनव भारत के कैडर से लगातार पूछ ताछ के बावजूद जांच करने वाले उसको हमलों से जोड़ नहीं पाये हैं।

मामला इस वास्तविकता से और पेचीदा हो गया कि कई कार्रवाईयां जिन से अभिनव भारत को जोड़ा गया उससे ग्रुप का कुछ भी लेना देना नहीं है। फिर भी उसके कई बड़े नेताओं ने हमलों की जिम्मेदारी स्वीकार की थी। उदाहरणतः पुरोहित ने अपने साथियों से दावा किया कि हमला देवास के हिन्दुत्ववादी आतंकवादी सुनील जोशी ने किया जिसकी हत्या दिसम्बर 2007 में हो गई थी, लेकिन अमेरिका के ट्रेजरी विभाग ने बाद में हमले की आर्थिक सहायता करने के आरोप में तालिबान और अलकायदा के नजदीकी और लश्कर-ए- तैयबा के कराची के जेहादी आरिफ कासमानी पर पाबंदियां लगाई थीं।इस वर्ष जनवरी में पाकिस्तान के गृहमंत्री रहमान मलिक ने इससे भी आगे जाते हुए स्वीकार किया कि ‘समझौता एक्सप्रेस पर हमले के लिए पाकिस्तान के कुछ जेहादियों को भाड़े पर लिया गया था।’हाल ही में हिन्दुत्वादी आतंकवादी हमलों को देखते हुए पिछले वर्ष गोवा मंे हुए धमाकों की तरह यह स्पष्ट नहीं है कि क्या उनके पास जिस तरह का हमला पुणे में हुआ वह करने की शक्ति है। कुछ जांचकर्ताओं का विश्वास है कि संगठन के दूसरे हिन्दुत्व सेल ने कार्रवाई को अंजाम दिया है। महाराष्ट्र पुलिस का अधिकारी जो हिन्दुत्व और जेहादी हमलों की जांच में शामिल रहा है का कहना है कि ‘फिर भी कोई आश्चर्य नहीं अगर कोई.........?’इस बात के संकेत हैं कि जर्मन बेकरी के हमले की जांच में समय लगेगा। संदेह के आधार पर जांच करने वालों का कहना है कि क्लोज़ सर्किट टीवी कैमरा में दर्ज तीन व्यक्तियों ने धमाके से पूर्व एक मीटिंग की थी, वीडियो टेप से यह स्पष्ट नहीं है कि इन व्यक्तियों का धमाकों से कुछ सम्बंध है या नहीं। जांच में जितना समय लगेगा साजिश की थ्योरी और अनुमान भी इतने ही आयेंगे और इससे सामप्रदायिक दरार जो धमाके के बाद से और खुल गई और भी बढ़ेगी।

Tuesday, February 23, 2010

تقسیم ملک کا الزام عائد کر کے مسلمانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کیا گیا : عزیز برنی


کمپیوٹر لائے ہو، دے جاو پہلے تمہاری ویب سائٹ پر اپنی پوزیشن دیکھ لےںپھر بات کریں گے!

مسلمان پھر مرکز نگاہ ہے۔ جی ہاں، عنقریب کوئی الیکشن نہیں، کم از کم اترپردیش میں تو نہیں، مگر مسلمانوں کے ووٹ کی خواہش مند پارٹیاں اور اشخاص نے مسلمانوں کو متوجہ کرنا شروع کردیا ہے۔ اچھا ہے، ووٹ بینک کے ناطے ہی سہی مسلمانوں کی اہمیت سیاستدانوں کی سمجھ میں آنے تو لگی۔ آج ووٹ کی اہمیت سمجھیں گے تو کل ان کے مسائل کی اہمیت سمجھنا ہی ہوگی۔ سیاستدانوں نے ایسا اشارہ بھی دینا شروع کردیا ہے کہ وہ ہمارے مسائل کو سمجھتے ہیں، ہمارے درد سے بے خبر بھی نہیں ہیں، شاید اسی لےے کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ، اعظم گڑھ اور سنجرپور کا دورہ کرتے ہیں تو ملائم سنگھ یادو ظاہری طور پر کچھ نہ سہی، مگر اندر ہی اندر مسلمانوں کے نزدیک جانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ امرسنگھ اپنی سیاسی حکمت عملی کے مرکز میں ٹھاکروں اور مسلمانوں کو ہی لے کر چل رہے ہیں۔ بی جے پی نے بھی اپنے موقف میں تبدیلی کا اظہار کیا ہے۔ کمیونسٹ پارٹیوں کی مغربی بنگال سرکار نے مرشدآباد اور کیرالہ سرکار نے بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا کیمپس قائم کرنے کے لےے کئی سو ایکڑ زمین دینے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی مسلم ریزرویشن کی مانگ کو تسلیم کرتے ہوئے عملی قدم اٹھایا ہے۔ نتیش کمار نے بھی کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا کیمپس قائم کرنے کے لےے زمین دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پی کے عبدالعزیز کے اعلان کے مطابق آسام سرکار نے بھی کیمپس کے لےے زمین دینے کی پیش کش کی ہے۔ سرسیداحمد کے ذریعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے، جب حکومتوں نے اس جانب توجہ دی ہے۔ ہم اس پیش رفت کو ایک خوش آئند پیغام تصور کرسکتے ہیں۔ ہاں، ابھی لفظ ’تسلیم کرسکتے ہیں‘ لکھنے میں ذرا جھجھک ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان ان سب میں سے کس کا انتخاب کرے، کس کی پیش رفت کو قبول کرے تو اس ضمن میں ابھی کچھ بھی لکھنا قبل ازوقت ہوگا اور صورتحال سے نظریں چرا لینا و خاموشی اختیار کرنا بھی مناسب نہیں ہوگا، لہٰذا جہاں تک میں سمجھتا ہوں، سرے سے نظرانداز تو کسی کو بھی نہیں کیا جائے۔ ہاں، مگر بھارتیہ جنتا پارٹی کے بیانات کو ان کے عمل کی کسوٹی پر پرکھنے میں ذرا وقت لگے گا۔ اب باقی بچی سیاسی جماعتوں میں کانگریس کا یہ دعویٰ ہوسکتا ہے کہ واحد ایک ایسی سیکولر پارٹی ہے ملک گیر پیمانہ پر، جو ہر جگہ مسلمانوں کو ساتھ لے کر چل سکتی ہے، وہ مسلمانوں کا درد بھی سمجھتی ہے اور وہ ان کے مسائل سے بے خبر بھی نہیں ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کا نفاذ اس کی اوّلیت میں شامل ہے۔ فروغ انسانی وسائل کے وزیر کپل سبل اپنے تعلیمی انقلاب میں اقلیتی طبقات کا خاص خیال رکھنے کا ذہن رکھتے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اقلیتی کردار تسلیم کرلیاجانا بھی زیرغور ہے، مگر یہ تمام باتیں ابھی وعدوں سے آگے کہاں بڑھی ہیں۔ پہلے یہ خوبصورت خواب حقیقت کا رنگ تو لے لیں،مگر ہاں اس سمت میں سوچنے کی گنجائش تو پیدا ہوئی ہے، اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اب رہا سوال ملائم سنگھ یادو کاتو کلیان سنگھ کے معاملہ میں انہیں اپنی غلطی کا شدید احساس ہوہی چکاہے اور اس بات کا یقین بھی کہ اگر مسلمان ان سے نظر پھیرلیتے ہیں تو پھر ان کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں کہ وہ اپنی سیاسی حیثیت کو برقرار رکھ سکیں۔ اگر وہ ایک بار پھر مسلمانوں کے نزدیک جانے کی کوشش کررہے ہیں تو خوش آمدید نہ کہیں، مگر ان کے نام پر دروازے بند کرلینے کا ماحول بھی اب نہیں ہے۔ ان کے وعدے قابل اعتبار ہیں یا نہیں، اس پر غور تو کیا جائے گا، مگر پہلے سن تو لیں کہ آخر اب وہ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ اگر ان کی وابستگی کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو وہ انہیں کس حد تک اہمیت اور ساجھیداری دینے کو تیار ہیں یہ سمجھنا ہوگا۔ جہاں تک امرسنگھ کا تعلق ہے، ابھی تک تو ان کی کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے، مگر وہ زمین تیار کرنے میں پوری سنجیدگی کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ ایک سیاسی پارٹی کھڑی کرنے کے لےے جتنے وسائل درکار ہوتے ہیں، وہ سب ان کے پاس ہیں۔ اسے کامیاب بنانے کے لےے جو ووٹ بینک درکار ہوتا ہے، اس سمت میں ان کی پیش رفت جاری ہے۔ سیاسی اعتبار سے امرسنگھ کے ماضی کو لے کر کوئی آخری رائے نہیں دی جاسکتی۔ اس لےے کہ جب تک وہ کانگریس کے ساتھ تھے، ان کا نظریہ کانگریسی تھا، جب تک وہ سماجوادی پارٹی کے ساتھ تھے، ان کا نظریہ سماجوادی تھا، لہٰذا کل ملاکر انہیں سیکولرزم کے زمرے میں تو رکھا ہی جاسکتا ہے، جب تک کہ فرقہ پرست طاقتوں کے ساتھ ان کی سیاسی وابستگی سامنے نہیں آتی۔ مسلمان ان کی ممکنہ سیاسی پارٹی کی مضبوط کڑی ثابت ہوسکتے ہیں، مگر کیا یہ ممکن ہے؟ کیا اس سمت میں غور کیا جاسکتا ہے؟ اس معاملہ میں بھی ’ہاں‘ یا ’نہ‘، یعنی فیصلہ کن نتیجے تک پہنچنے سے قبل ان کی پیش رفت کو سمجھنا ہوگا۔ انہیں کانگریس یا ملائم سنگھ کے زمرے میں ابھی نہیں رکھا جاسکتا، اس لےے کہ مسلمان اگر کانگریس کے ساتھ شامل ہوجاتا ہے تو اسے بہت فائدہ پہنچا سکتا ہے، اگر نہیں ہوتا ہے تو تھوڑا نقصان بھی پہنچا سکتا ہے، لیکن پارٹی کا وجود باقی رہتا ہے۔ اگر وہ ملائم سنگھ یادو کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو ملائم سنگھ یادو کی سیاسی حیثیت کو بہت وزن دار بنادیتا ہے۔ الگ ہوتا ہے تو بہت کمزور بنادیتا ہے اور اگر وہ امرسنگھ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہےں تو راتوں رات حالات بدل سکتے ہےں، لیکن امرسنگھ کا جس ووٹ بینک پر دعویٰ ہے وہ ٹھاکر برادری ہے، جو ہندوستان بھر میں تقریباً9فیصد ہے، یعنی 10کروڑ کے آس پاس، جبکہ مسلمان 18فیصد ہیں، یعنی 20کروڑ کے آس پاس، لہٰذا انہیں طے کرنا ہوگا کہ وہ مسلمانوں کو کیا حیثیت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جہاں تک ملائم سنگھ یادو کا تعلق تھا تو وہ مسلمانوں کو دوسرے نمبر پر رکھ سکتے تھے، اس لےے کہ پسماندہ طبقات کی آبادی ہندوستان میں تقریباً37فیصد ہے، یعنی مسلمانوں کی آبادی سے دوگنی۔ اب یہ الگ بات ہے کہ پسماندہ طبقات کی نمائندگی کرنے والے ملائم سنگھ یادو اکیلے کبھی نہیں رہے، ہاں مگر ایک لمبے عرصہ تک انہیں سیکولرزم کا علمبردار ضرور سمجھا جاتار ہا، جو مسلمانوں کو متوجہ کرنے کے لےے کافی تھا۔
مغربی بنگال اور کیرالہ میں کمیونسٹ پارٹیاں اگر برسراقتدار آتی رہی ہیں تو یہ مسلمانوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ مغربی بنگال کو بچانے کے لےے، نندی گرام کو بھلانے کے لےے، ممتابنرجی اور کانگریس کی مجموعی طاقت سے اپنی گدی بچانے کے لےے کمیونسٹ پارٹیوں کو اس سے بہت آگے جانا ہوگا، ورنہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لےے دیا گیا یہ زمین کا ٹکڑا تو ایک مثال کے اعتبار سے ’اونٹ کے منہ میں زیرے‘ سے بھی کم ہے۔نتیش کمار اپنے دوراقتدار کے آخری ایام میں ہیں۔ ایک طرف ان کے دامن پر بی جے پی سے الحاق کی بدنامی ہے (مسلمانوں کے نظریات کے مطابق) تو دوسری طرف بی جے پی کے ساتھ رہتے ہوئے بھی مسلمانوں کے ساتھ اچھے رشتے بنائے رکھنے کی نیک نامی بھی۔ کانگریس جس تیز طرف سے آگے بڑھ رہی ہے، اس سے نتیش کمار کا خوفزدہ ہونا یقینی ہے۔ اب لاکھ ٹکے کا سوال یہ بھی ہے کہ وہ آئندہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کے ساتھ جائیں گے یا پھر کوئی اور سیاسی حکمت عملی ان کے ذہن میں ہے۔
یقینا میرے قارئین اس وقت یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر میں سبھی کے مثبت پہلو سامنے رکھ رہا ہوں، کسی سے بھی نہ بے توجہی اختیار کرنے کی بات کررہا ہوں، نہ کسی کے بغل گیر ہوجانے کی صلاح دے رہا ہوں تو آخر میں سوچتا کیا ہوں اور پیغام کیا دینا چاہتا ہوں؟ تو عزیزانِ محترم! میرا حقیر سے مشورہ ہے کہ اب جذبات کی رو میں بہہ جانے سے کچھ نہیں ہوگا، وعدوں کے سبز باغ دکھائے جانے کا کوئی اثر نہیں ہوگا، خوبصورت خواب دیکھنے کا سلسلہ ہم نے چھوڑ دیا ہے۔
اب ہم حقیقت کی سنگلاخ زمین پر کھڑے ہیں، ہاں اگر سیاستداں چاہیں تو ہمیں اب بے مروت قرار دے سکتے ہیں۔ اب ہم سے محبت کی رو میں بہہ کر حمایت کی امید نہ رکھیں، اب تو پوری طرح مول تول کے ساتھ سیاسی حصہ داری کی بات کی جاسکتی ہے اور وہ بھی جس طرح سب کرتے ہیں، جو سیاسی بازار کا ایک تسلیم شدہ چلن بھی ہے، ’جس کی جتنی بھاگیداری اس کی اتنی حصہ داری‘۔پارلیمنٹ میں سرکار بنوانے میں شامل پارٹیوں کی وزارت میں دعویداری ان کے نمائندگان کے تناسب سے طے ہوتی ہے تو پھر پارلیمنٹ کے باہر اسی حکمت عملی پر غور کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ سب کے وعدے سنتے ہیں، سب کے ارادے دیکھتے ہیں، سب کی نیتوں کو پرکھتے ہیں، نہ کسی کا بائیکاٹ اور نہ کسی کا جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے کر چلنے کی ضرورت، ہم کسی کے لےے کسی سے دشمنی کیوں مول لیں؟ آپ آئے ہیں ہمارے دروازے پر اپنی بات کہنے کے لےے، چلئے سن لیتے ہیں، کیا کہنا چاہتے ہیں۔ فیصلہ اس وقت کریں گے، جب فیصلہ کی گھڑی آئے گی۔

कम्प्यूटर लाए हो, दे जाओ पहले तुम्हारी वेबसाइट पर अपनी पोज़ीशन देख लेंफिर बात करेंगे!

मुसलमान फिर निगाहों का मरकज़ हैं। जी हां, निकट भविष्य में कोई चुनाव नहीं, कम से कम उत्तर प्रदेश में तो नहीं, परंतु मुसलमानों के वोटों की इच्छुक पार्टियों और नेताओं ने मुसलमानों को आकर्षित करना शुरू कर दिया है। अच्छा है, वोट बैंक के नाते ही सही मुसलमानों का महत्व राजनीतिज्ञों की समझ में आने तो लगा। आज वोट का महत्व समझेंगे तो कल उनकी समस्याओं का महत्व समझना ही होगा। राजनितिज्ञों ने ऐसा इशारा भी देना शुरू कर दिया है कि वह हमारी समस्याओं को समझते हैं, हमारे दर्द से बेख़बर भी नहीं हैं, शायद इसीलिए कांग्रेस के वरिष्ठ नेता दिग्विजय सिंह आज़म गढ़ और संजरपुर का दौरा करते हैं तो मुलायम सिंह यादव ज़ाहिरी तौर पर कुछ न सही, परंतु अंदर ही अंदर मुसलामनों के निकट जाने की कोशिशों में लगे नज़र आते हैं। अमर सिंह अपनी राजनीतिक रणनीति के केन्द्र में ठाकुरों और मुसलमानों को ही लेकर चल रहे हैं। भाजपा ने भी अपने स्टैंड में परिवर्तन का इशारा किया है। कम्यूनिस्ट पार्टियों की पश्चिमी बंगाल सरकार ने मुर्शिदाबाद और केरला सरकार ने भी अलीगढ़ मुस्लिम यूनिवर्सिटी का कैम्पस स्थापित करने के लिए कई सौ एकड़ भूमि देने की घोषणा की है। साथ ही नितीश कुमार ने भी किशनगंज में अलीगढ़ मुस्लिम यूनिवर्सिटी का कैम्पस स्थापित करने के लिए ज़मीन देने का फैसला किया है। अलीगढ़ मुस्लिम यूनिवर्सिटी के वाइस चांसलर पीके अब्दुल अज़ीज़ के ऐलान के अनुसार असम सरकार ने भी कैम्पस के लिए ज़मीन देने की पेशकश की है। सर सय्यद द्वारा अलीगढ़ मुस्लिम यूनिवर्सिटी की स्थापना के बाद से यह पहला अवसर है जब सरकारों ने इस ओर ध्यान दिया है। हम इस क़दम को एक अच्छा संकेत समझते हैं। हां, अभी शब्द स्वीकार कर सकते हैं, लिखने में ज़रा संकोच है।

अब प्रश्न यह पैदा होता है कि मुसलमान इन सबमें से किसका चयन करे। किसकी ऑफर को स्वीकार करे, तो इस सिलसिले में अभी कुछ भी लिखना जल्दबाज़ी होगी और वस्तुस्थिति से नज़रें चुरा लेना व ख़ामोशी इख़्तियार करना भी उचित नहीं होगा, इसलिए जहां तक मैं समझता हूं, पूरी तरह अनदेखी तो किसी की भी नहीं की जाए। हां, मगर भारतीय जनता पार्टी के बयानों को उनकी करनी और कथनी की कसौटी पर परखने में ज़रा समय लगेगा। अब शेष बचे राजनीतिक दलों में कांग्रेेस का यह दावा हो सकता है कि वह एक मात्र ऐसी धर्मनिर्पेक्ष पार्टी है, जो राष्ट्रीय स्तर पर हर जगह मुसलमानों को साथ लेकर चल सकती है, वह मुसलमानों का दर्द भी समझती है और वह उनकी समस्याओं से बेख़बर भी नहीं है। सच्चर कमेटी की रिपोर्ट को लागू करना उसकी प्राथमिकता में शामिल है। मानव विकास संसाधन मंत्री कपिल सिब्बल ने अपने शैक्षणिक इन्क़लाब में अल्प संख्यक समुदायों का विशेष ख़याल रखने का इरादा रखते हैं। अलीगढ़ मुस्लिम यूनिवर्सिटी और जामिया मिल्लिया इस्लामिया का माएनॉरेटी स्टेटस स्वीकार कर लिया जाना भी विचाराधीन है। परंतु यह तमाम बातें अभी वादों से आगे कहां बढ़ी हैं। पहले यह ख़ूबसूरत ख़्वाब हक़ीक़त का रंग तो ले लें, मगर हां इस दिशा में सोचने की गंुजाइश तो पैदा हुई है इस बात से भी इनकार नहीं किया जा सकता।

अब रहा प्रश्न मुलायम सिंह यादव का तो कल्याण सिंह के मामले में उन्हें अपनी ग़लती का पूरा एहसास हो ही चुका है और इस बात का यक़ीन भी कि अगर मुसलमान उनसे नज़र फेर लेते हैं तो फिर उनके पास ऐसा कुछ भी नहीं कि वह अपनी राजनीतिक स्थिति को क़ायम रख सकें। अगर वह एक बार फिर मुसलमानों के निकट जाने की कोशिश कर रहे हैं तो स्वागत न सही परं उनके नाम पर दरवाज़ा बंद कर लेने का माहौल भी अब नहीं है। उनके वादे विश्वस्नीय हैं या नहीं, इस पर विचार तो किया जाएगा अतएव पहले सुन तो लें कि आख़िर अब वह कहना क्या चाहते हैं। मुसलमानों के अगर उनसे जुड़ने के हालात पैदा होते हैं तो वह उन्हें किस हद तक महत्व और साझेदारी देने को तैयार हैं यह समझना होगा। जहां तक अमर सिंह का संबंध है, अभी तक तो उनकी कोई राजनीतिक पार्टी है नहीं, परंतु वह भूमि तैयार करने में पूरी गंभीरता के साथ लगे हुए हैं। एक राजनीतिक पार्टी खड़ी करने के लिए जितने संसाधन दरकार होते हैं वह सब उनके पास हैं, उसे कामयाब बनाने के लिए जो वोट बैंग दरकार होता है उस दिशा में उनके प्रयास जारी है। राजनीतिक दृष्टि से अमर सिंह के अतीत को लेकर कोई अंतिम राय नहीं दी जा सकती। इसलिए कि जब तक वह कांग्रेस के साथ थे उनकी विचारधारा कांग्रेसी थी, जब तक वह समाजवादी पार्टी के साथ थे तो उनकी विचारधारा समाजवादी थी, इसलिए कुल मिलाकर उन्हें धर्मनिर्पेक्षता की श्रेणी में तो रखा ही जा सकता है, जब तक साम्प्रदायिक शक्तियों के साथ उनका सियासी लगाव सामने नहीं आता, मुसलामन उनकी सम्भावित पार्टी की मज़बूत कड़ी साबित हो सकते हैं, मगर क्या यह संभव है? क्या इस दिशा में विचार किया जा सकता है? इस मामले में भी ‘हां’ या ‘ना’ याने निर्णायक स्थिति तक पहुंचने से पूर्व उनकी पहल को समझना होगा। उन्हें कांग्रेस या मुलायम सिंह की श्रेणी में अभी नहीं रखा जा सकता, इसलिए कि मुसलमान अगर कांग्रेस के साथ जाता है तो उसे बहुत लाभ पहुंचा सकता है, अगर नहीं जाता है तो थोड़ा नुकसान भी पहुंचा सकता है, लेकिन पार्टी का अस्तित्व बाक़ी रहता है, अगर वह मुलायम सिंह यादव के साथ खड़ा होता है तो मुलायम सिंह यादव की राजनीतिक स्थिति को बहुत वज़नदार बना देता है, अलग होता है तो काफी कमज़ोर बना देता है और अगर वह अमर सिंह के साथ खड़ा होते हैं तो रातो रात बदल सकते हैं, लेकिन अमर सिंह का जिस वोट बैंग पर दावा है वह ठाकुर बिरादरी है, जो भारत भर में लगभग 9 प्रतिशत है, याने 10 करोड़ के आसपास। जबकि मुसलमान 18 प्रतिशत हैं अर्थात 20 करोड़ के आसपास, इसलिए उन्हें तय करना होगा कि वह मुसलमानों को क्या हैसियत देने का इरादा रखते हैं। जहां तक मुलायम सिंह यादव का संबंध था तो वह मुसलमानों को दूसरे नम्बर पर रख सकते थे इसलिए कि पिछड़े वर्गों की आबादी भारत में लगभग 37 प्रतिशत है, यानी मुसलमानों की आबादी से दुगना। अब यह अलग बात है कि पिछड़े वर्गों का प्रतिनिधित्व करने वाले मुलायम सिंह यादव अकेले कभी नहीं रहे, हां, मगर लम्बी अवधि तक उन्हें धर्मनिर्पेक्षता का अलम बरदार ज़रूर समझा जाता रहा, जो मुसलमानों को आकर्षित करने के लिए काफ़ी था।

पश्चिमी बंगाल और केरला में कम्युनिस्ट पार्टियां सत्ता में आती रही हैं तो यह मुसलमानों के समर्थन के बिना संभव नहीं था। पश्चिम बंगाल को बचाने के लिए, नंदी ग्राम को भुलाने के लिए, ममता बनर्जी और कांग्रेस की सामूहिक शक्ति से अपनी गद्दी बचाने के लिए कम्युनिस्ट पार्टियों को इससे बहुत आगे जाना होगा वरना अलीगढ़ मुस्लिम यूनिवर्सिटी को कैम्पस के लिए दिया गया यह ज़मीन का टुकड़ा तो एक उदाहरण के अनुसार ‘ऊंट के मुंह में ज़ीरा’ से भी कम है। नितीश कुमार अपने शासनाकाल के अंति चरण में हैं एक ओर उनके दामन पर भाजपा से गठजोड़ की बदनामी है (मुसलमानों के दृष्टिकोण से) तो दूसरी ओर भाजपा के साथ रहते हुए भी मुसलमानों के साथ अच्छे रिशते बनाए रखने की नेकनामी भी। कांग्रेस जिस तेज़ी से आगे बढ़ रही है, उससे नितीश कुमार का भयभीत होना स्वभाविक है। अब लाख टके का प्रश्न यह भी है कि वह आगामी विधनसभा चुनाव में भाजपा के साथ जाएंगे या फिर कोई और राजनीतिक रणनीति उनके मन में है।

यक़ीनन मेरे पाठक यह सोच रहे होंगे कि अगर मैं सभी का सकारात्मक पक्ष सामने रख रहा हूं, किसी से भी अनदेखी न करने की बात कर रहा हूं, न किसी से गले मिलने का सुझाव दे रहा हूं तो आख़िर मैं सोचता क्या हूँ, और संदेश क्या देना चाहता हूं? तो प्रिय दोस्तो! मेरा छोटा सा सुझाव है कि अब भावनाओं की धारा में बह जाने से कुछ नहीं होगा, वादों के सब्ज़ बाग़ दिखाए जाने का कोई असर नहीं होगा, ख़ूबसूरत ख़्वाब देखने का सिलसिला हमने छोड़ दिया है। अब हम हक़ीक़त की पथरीली धरती पर खड़े हैं, हां, अगर राजनीतिज्ञ चाहें तो हमें अब बेमुरव्वत कह सकते हैं। अब हम से प्रेम की धारा में बह कर समर्थन की उम्मीद न रखें, अब तो पूरी तरह मोलतोल के साथ राजनीतिक भागीदारी की बात की जा सकती है और वह भी जिस तरह सब करते हैं, जो राजनीतिक बाज़ार का एक माना हुआ चलन है, ‘जिसकी जितनी भागीदारी उसकी उतनी हिस्सेदारी’। संसद में सरकार बनवाने में शामिल पार्टियों की मंत्री मंडल में दावेदारी उनके प्रतिनिधियों के अनुपात से तय होती है तो फिर संसद के बाहर इसी रणनीति पर विचार क्यों नहीं किया जा सकता? सबके वादे सुनते हैं, सबके इरादे देखते हैं, सबकी नियतों को परखते हैं, न किसी का बाईकाट और न किसी का झंडा अपने हाथ में लेकर चलने की आवश्यकता, हम किसी के लिए किसी से दुशमनी क्यों मोल लें? आप आए हैं हमारे द्वार पर अपनी बात कहने के लिए, चलिए सुन लेते हैं, क्या कहना चाहते हैं, फैसला उस समय करेंगे, जब फैसले की घड़ी आएगी।

Monday, February 22, 2010

तारिख आसमान की बुलंदियों और समंदर की लहरों पर लिखी जाती है


پوری ایمانداری کے ساتھ دہشت گردی سے لڑنا ہے تو

9/11

کی طرز پر امریکہ میں ایک اور حادثہ، اتنا شدید تو نہیں، مگر انداز وہی۔ ایک طیارہ ٹیکساس میں ’آسٹن آفس‘ کی عمارت سے ٹکرایا، جو ایف بی آئی کے مقامی دفتر سے چند قدم کے فاصلے پرتھی۔ اس طیارے کو بم کی شکل میں تبدیل کردینے والا خودکش(نہیں میں اسے خودکش دہشت گرد نہیں لکھ سکتاکیوں کہ تمام ذرائع ابلاغ اور امریکی حکومت اس دوران یہی ثابت کرنے میں لگی ہے کہ وہ دہشت گرد نہیں تھا) ہواباز ’جواسٹیک‘ کوئی تربیت یافتہ پائلٹ نہیں، بلکہ ایک سوفٹ وئیر انجینئر تھا۔ اس نے یہ دہشت گردانہ رویہ کیوں اپنایا، اسے کس سے کیا شکایت تھی، اس کا خاندانی پس منظر کیا ہے؟ کیوں امریکی حکمراں اور ذرائع ابلاغ اسے دہشت گرد نہ ثابت کرنے پر آمادہ ہیں؟ کیوں اس کی تصویر کچھ اس طرح ساری دنیا کے سامنے پیش کی جارہی ہے کہ اس سے ہمدردی پیدا ہو؟ اسے معصوم سمجھا جائے؟ آج یہ میری ریسرچ کا موضوع ہے۔ بہت کچھ مواد ’جواسٹیک‘ کے حوالہ سے میرے مطالعہ میں ہے۔ کل شام لکھنوکے ”ارم ڈگری“ کالج کی ایک استقبالیہ تقریب میں اپنی تقریر کے دوران بھی میں نے اس واقعہ کا حوالہ دیا تھا۔ ارادہ تو یہی تھا کہ میں آج اسی موضوع پر لکھوں گا، مگر لکھنوسے دہلی پہنچتے پہنچتے آج کی ایک اور بڑی خبر میری نگاہوں کے سامنے تھی۔ ”پنجاب میں بڑے دہشت گردانہ حملہ کی سازش ناکام“ مبارکباد ہماری خفیہ ایجنسیوں اور مقامی انتظامیہ کو کہ بروقت کارروائی کرکے انہوں نے ملک کو ایک اور دہشت گردانہ حملہ سے بچالیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ خبر آپ کی نگاہوں سے گزری یا نہیں، یہ خیال بھی اس لےے پیدا ہوا کہ ایک ایڈیٹر اور صحافی ہونے کے ناطے درجن بھر سے زیادہ اخبار میرے مطالعہ میں رہتے ہیں۔ اردو،ہندی کے بھی اور انگریزی کے بھی۔ میں نے اس خبر کو زیادہ تر اخبارات میں نہیں پایا۔ خدا جانے انہوں نے اس خبر کو زیادہ اہمیت کے لائق نہیں سمجھا۔ شاید ہمارے پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا کو اس میں بڑی خبر کے لائق کچھ خاص نہیں ملا یا پھر وجہ یہ رہی کہ دہشت گرد ’کے ایل ایف، ببرخالصہ اور خالصتان زندہ آباد‘ وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ القاعدہ، لشکرطیبہ، انڈین مجاہدین جیسی کسی دہشت گرد تنظیم سے وابستہ نہیں تھے۔ قبل اس کے کہ میں اس خبر کے حوالہ سے اپنی بات شروع کروں، ضروری لگتا ہے کہ پہلے یہ خبر اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کردی جائے، جو دہلی سے شائع ہونے والے ایک ہندی روزنامہ نے صفحہ اوّل پر شائع کی ہے۔ پھر اس کے بعد میری گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا۔

پنجاب مےںبڑے دہشت گردانہ حملہ کی سازش ناکام”

نابھا،پی ٹی آئی: پنجاب مےں دہشت گردی کے پھر سراٹھانے کے اندےشوں کے مابےن پولس نے اتوار کوپٹےالہ کے قرےب نابھا سے دوخوںخوار دہشت گردوںکو پکڑلےا۔گرفت مےںآئے دہشت گرد رےاست میں کوئی بڑی واردات کرنے کے فراق مےںتھے۔پولس نے خالصتان لبرےشن فرنٹ (کے اےل اےف) کے دونوں دہشت گردوں کے قبضہ سے 8کلو دھماکہ خےز سمےت جلےٹن کی 40 چھڑےں، 2پستول اورکثےرمقدار مےںگولہ بارودبرآمد کےا ہے۔پولس انسپکٹر جنرل پی اےس گل نے دہشت گردوںکی گرفتاری کو بڑی کامےابی قراردےاہے۔ ان کاکہنا ہے کہ گرفتاری سے قبل دونوںدہشت گرد کسی بڑی واردات کوانجام دےنے کا منصوبہ بنارہے تھے، لےکن پولس نے انہےں عےن موقع پر گرفتارکرکے دہشت گردوں کے ناپاک منصوبوںپر پانی پھےردےا۔پولس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اےک بڑی دہشت گردانہ سازش کو ناکام کردےا۔ واضح رہے کہ کے اےل اےف نے 18فروری کو باقاعدہ بےان جاری کرکے نابھامےں انڈےن آئل کے باٹلنگ پلانٹ، چنڈی گڑھ کے نزدےک زےرک پور مےں اےئرفورس اسٹےشن اورلدھےانہ مےں ہلوارہ فوجی ہوائی اڈہ کے سامنے دھماکہ خےز اشےاءرکھنے کی ذمہ داری لی تھی۔کے اےل اےف نے ای- مےل سے جاری بےان مےں کہا تھا کہ تکنےکی خرابی کے سبب دھماکہ کرنے کا ان کا منصوبہ بھلے ہی ناکام ہوگےاہے لےکن اہم سرکاری مقامات پر حملہ کرنے کی کوشش جاری رہے گی۔ تفتےش کے دوران پولس کو کے اےل اےف کے ای-مےل کے بارے مےںبھی پتہ چلا،جس مےں نابھا سمےت دےگراہم مقامات پر دھماکہ کرنے کےلئے بگھےل سنگھ نام کے کسی شخص کو ذمہ داری سونپی گئی تھی۔اس ای-مےل کے انکشاف کے بعد حکام نے کہا تھا کہ رےاست مےںدہشت گرد تنظےموں کے نئے سرے سے سرگرم ہونے کے امکان سے ہم انکارنہےںکرتے ہےں۔دہشت گردی کے دور مےں 1982سے 1995 کے دوران کے اےل اےف پنجاب مےں کافی خوں خوارطرےقہ سے سرگرم تھا۔خفےہ ذرائع نے بھی آگاہ کےا ہے کہ ’کے اےل اےف‘ کے ساتھ ساتھ ببرخالصہ اورخالصتان زندہ آباد فورس بھی اپنے نےٹ ورک کی توسےع کرنے مےں لگے ہےں۔“

گزشتہ دنوں ایک خبر پڑھ کر مجھے بیحد مسرت ہوئی۔ یقینا آپ سب بھی بیحد خوش ہوئے ہوں گے یہ جان کر کہ امریکہ ہندوستان کی ترقی کی رفتار دیکھ کر حیران ہے۔ بیشک امریکہ ہی نہیں، تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک ہندوستان کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھ کر حیران ہوں گے اور ان کی یہ حیرانی اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی ہوگی، جب وہ یہ دیکھتے ہوں گے کہ ہندوستان دہشت گردانہ حملوں سے نبردآزما ہے۔ تازہ دہشت گردی کی وبا کے علاوہ نکسلائٹس،سی پی آئی ایم ایل، پیپلز وار گروپ، پیپلز لبریشن آرمی، الفا، رنویر سینا اور بورولینڈ کا مطالبہ کرنے والوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کو ذہن میں رکھےں تو ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ اگر ہندوستان تمام طرح کی دہشت گردی سے پاک رہتا تو آج اس نے ترقی کی کتنی منزلیں طے کرلی ہوتیں۔ وہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کس مقام پر کھڑا ہوتا۔ بیشک ہم سبھی اپنے ملک کو ایک ایسا ترقی یافتہ ملک دیکھنا چاہتے ہیں، جس کا کوئی ثانی نہ ہو اور اگر دہشت گردی پر قابو پالیا جائے تو یہ عین ممکن نظر آتا ہے۔ میرا یقین ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ آج صرف سرکار کی ہی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ ہندوستان کے ہر فرد کو اس دہشت گردی کو سرے سے ختم کرنے کے لےے عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا، تبھی ہمارا ملک ترقی کی منزلیں طے کرپانے میں کامیاب ہوگا اور پھر یہ کہنے کی ضرورت ہے ہی نہیں کہ اگر ملک ترقی کرے گا تو ملک کا ہرشہری بھی ترقی کرے گا۔

اب میں واپس آتا ہوں، اس خبر کی طرف جس کے حوالہ سے آج میں کچھ قلمبند کرنا چاہتاہوں۔ اس خبر کی اہمیت کم کیوں تھی، یہ تمام اخبارات کی سرخی کیوں نہیں تھی، اسی طرح کے واقعات جب الگ الگ موقعوں پر، الگ الگ شہروں میں، الگ الگ طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی شکل میں نظر آتے ہیں تو کیا ہمارا عمل ایسا ہی ہوتا ہے؟ یہاں میں ایک بار پھر یہ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک دہشت گرد ’دہشت گرد‘ ہوتا ہے، اس کا مذہب، اس کا دین و ایمان سب کچھ ’دہشت گردی‘ ہی ہوتا ہے۔ وہ صرف ملک دشمن ہی نہیں، انسانیت دشمن بھی ہوتا ہے، اس کا تعلق چاہے کسی بھی مذہب سے ہو، کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے ہو یا کسی بھی ملک سے۔اس بات کو بار بار کہنے کی ضرورت اس لےے ہے کہ جب تک یہ بات ہمارے ذہنوں میں مکمل طور پر پیوست نہیں ہوجاتی، ہم پوری ایمانداری کے ساتھ دہشت گردی سے نہیں لڑسکتے۔

بیشتر اخبارات، ٹی وی چینل اور انٹرنیٹ پر موجود نیوز سروس میرے مطالعہ میں رہتی ہیں۔ جیسا کہ میں نے آج کی دو خبروں کے حوالے سے کچھ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اگر دہشت گردانہ عمل کسی دیگر مکتبہ فکر کے دہشت گرد یا افراد سے تعلق رکھنے والا ہے تو پھر اسے نہ تو اس قدر سنجیدگی سے لیا جاتا ہے، نہ اس پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، جبکہ اگر ایسے ہی دہشت گردانہ عمل میں کوئی مسلم نام والا ملوث پایا جائے تو پھر ہمارا طرز عمل ایک دم مختلف ہوتا ہے۔ میں اس کے نقصانات پر توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ خدارا میری اس کوشش کو مذہب کے چشمہ سے نہ دیکھیں، کسی کا دفاع، کسی کابچاو ¿نہ سمجھےں، میرے ذہن میں صرف اتنا ہے کہ اگر ہندوستان میں دہشت گردانہ عمل جاری رکھنے والے ’ہیڈلی‘ کا نام رکھ کر ایک بدلی ہوئی ولدیت اور ہمارے دوست سمجھے جانے والے ممالک کا پاسپورٹ لے کر ہماری زمین پر قدم رکھیں گے تو بڑے سے بڑے دہشت گردانہ حملے کرتے رہیں گے اور ہماری توجہ اس جانب یا تو جائے گی نہیں یا پھر تب جائے گی، جب واردات ہوچکی ہوگی اور ایسے مجرم اگر بے نقاب ہو بھی گئے تو اس وقت ہوں گے، جب وہ ہماری گرفت سے باہر نکل چکے ہوں گے۔ ’انڈین مجاہدین‘ کے دہشت گردانہ عمل سے منسوب ہندوستان کے متعدد شہروں میں بم دھماکے ہوئے۔ ایک امریکی شہری ’کین ہے ووڈ‘ کا نام سامنے آیا، مگر وہ ہمارے ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا، کیوں کہ ایسے نام کے لوگوں کو ہمارے ملک میں دہشت گرد کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ اس لےے نہ تو سرحدپار کرتے وقت اور نہ ہی ہوائی جہاز میں بیٹھتے وقت انہیں مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسا ہی ’ہیڈلی‘ کے بارے میں ہوا۔ ہماری اس سوچ سے دہشت گرد تنظیمیں بخوبی واقف ہیں۔ اگر وہ اس کا فائدہ اٹھاکر بدلے ہوئے ناموں کے ساتھ ہمارے ملک میں دہشت برپا کرتے رہیں تو پھر ہم اس دہشت گردی سے کیسے نمٹےںگے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ دہلی ائیرپورٹ کے نزدیک واقع ہوٹل ’ریڈیسن‘ سے گرفت میں آئے دو برطانوی شہری کس نیت کے ساتھ ہمارے یہاں ٹریفک کنٹرولر اور پائلٹ کے درمیان ہورہی گفتگو سن رہے تھے، ریکارڈ کررہے تھے اور اپنے پاس موجود راڈار سے ہمارے آسمان پر اڑنے والے طیاروں پر نظر رکھ رہے تھے، مگر چونکہ ان کے نام ایسے نہیں تھے، جیسے ناموں پر ہمیں دہشت گرد ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ ان کا تعلق ایسے ملک سے نہیں تھا، جنہیں ہم اپنا دشمن ملک یا دہشت گردی کو فروغ دینے والا ملک تصور کرتے ہیں، لہٰذا ہمارا رویہ ان کے تئیں انتہائی نرم رہا۔ ہم نے شاید یہ بھی نہیں سوچا کہ القاعدہ اور لشکرطیبہ جو آج دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیمیں مانی جاتی ہیں اور جن کے نام ہمارے ملک میں ہونے والے متعدد بم دھماکوں میں بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ وہ اپنے کسی ناپاک منصوبے کے لےے کسی ایسے ملک کے شہری کا بھی استعمال کرسکتے ہیں، جس ملک کو ہم اپنا دوست مانتے ہوں۔ وہ ایسے مذہب کے لوگوں کا بھی استعمال کرسکتے ہیں، جس مذہب کے ماننے والوں پر ہم شک نہیں کرتے۔ القاعدہ میں لادن کی جگہ لینے کا دعویٰ کرنے والا ایک امریکی شہری تھا، جس کا نام تھا ’ایڈم یحییٰ‘۔ اب بھلے ہی یہ کہا جائے کہ اس نے اسلام قبول کرلیا تھا، وہ مسلمان ہوگیا تھا، مگر سچائی کو تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ دہشت گردی کے لےے کچھ ایسے لوگوں کا بھی استعمال ہوسکتا ہے، لہٰذا ہمیں ایسے لوگوں کو بھی سرسری طور پر نہیں لینا چاہےے، بلکہ اپنے ملک کے تحفظ کے پیش نظر ہر زاویہ سے ان کی مشکوک سرگرمیوں کو جاننا اور سمجھنا چاہےے، ورنہ ایک طے شدہ اندازِفکر ہمیں دہشت گردی کی اس خطرناک جنگ میں کامیاب نہیں ہونے دے گا۔

पूर्ण ईमानदारी के साथ आतंकवाद से लड़ना है तो.....

9/11 की भांति अमेरिका में एक और हादसा हुआ उतना गंभीर तो नहीं मगर अंदाज़ वही। एक विमान टेक्सास में ‘‘आस्टन ऑफिस’’ भवन से टकराया जो एसबीआई के स्थानीय कार्यालय से कुछ ही क़दम की दूरी पर था। इस विमान को बम की शक्ल में तब्दील कर देने वाला आत्मघाती (नहीं मैं उसे आत्मघाती आतंकवादी नहीं लिख सकता क्योंकि सभी समाचार माध्यमों और अमेरिकी सरकार इस बीच यही सिद्ध करने में लगी है कि वह आतंकवादी नहीं था) विमान चालक ‘जॉय स्टेक’ कोई प्रशिक्षित पायलेट नहीं बल्कि एक सॉफ़्टवेयर इंजीनियर था। उसने यह आतंकवादी रवैया क्यों अपनाया, उसे किससे क्या शिकायत थी, उसकी पारिवारिक पृष्ठभूमि क्या है, क्यों अमेरिकी सरकार और समाचार माध्यम उसे आतंकवादी न सिद्ध करने पर तुले हैं, क्यों उसका चित्र कुछ इस तरह सारी दुनिया के सामने प्रस्तुत किया जा रहा है कि उससे सहानुभूति पैदा हो, उसे मासूम समझा जाए? आज यह मेरे शोध का विषय है, बहुत कुछ सामग्री ‘‘जॉय स्टेक’’ के हवाले से मेरे अध्ययन में है, कल शाम लखनऊ के ‘‘इरम डिग्री’’ कॉलेज के स्वागत समारोह में अपने भाषण के दौरान मैंने इस घटना का भी हवाला दिया था। इरादा तो यही था कि मैं आज इसी विषय पर लिखूंगा परन्तु लखनऊ से दिल्ली पहुंचते-पहुंचते आज की एक और बड़ी ख़बर मेरे सामने थी। ‘‘पंजाब में बड़े आतंकवादी हमले की साज़िश विफल’’ मुबारकबाद हमारी गुप्तचर एजंसियों और स्थानीय प्रशासन को कि समय पर कार्यवाही करके उन्होंने देश को एक और आतंकवादी हमले से बचा लिया। मुझे नहीं मालूम कि यह समाचार आपकी निगाहों से गुज़रा या नहीं, यह ख़याल भी इसलिए पैदा हुआ कि एक एडिटर और पत्रकार होने के नाते दर्जन भर से अधिक अख़बार मेरे अध्ययन में रहते हैं, उर्दू, हिंदी के भी और अंग्रेज़ी के भी। मैंने इस ख़बर को अधिकांश अख़बारों में नहीं पाया। ख़ुदा जाने उन्होंने इस ख़बर को अधिक महत्व के योग्य नहीं समझा। शायद हमारे प्रिंट और इलेक्ट्रानिक मीडिया को इसमें बड़ी ख़बर के लायक़ कुछ ख़ास नहीं मिला या फिर कारण यह रहा कि ये आतंकवादी केएलएफ, बब्बर ख़ालसा और ख़ालिस्तान ज़िंदाबाद इत्यादि से संबंध रखते थे। अल-क़ायदा, लश्कर-ए-तय्यबा, इंडियन मुजाहिदीन जैसे कसी आतंकवादी संगठन से नहीं जुड़े थे। पूर्व इससे कि मैं इस ख़बर के हवाले से अपनी बात शुरू करूं, आवश्यक लगता है कि पहले यह ख़बर अपने पाठकों की सेवा में पेश कर दी जाए, जो दिल्ली से प्रकाशित होने वाले एक हिंदी दैनिक ने अपने प्रथम पृष्ठ पर प्रकाशित की है, फिर उसके बाद मेरी बातचीत का सिलसिला जारी रहेगा।

पंजाब में बड़े आतंकवादी हमले की साज़िश विफल‘‘
नाभा, पेट्रः पंजाब में आतंकवाद के फिर सिर उठाने की आशंकाओं के बीच पुलिस ने रविवार को पटियाला के निकट नाभा से दो खूंखार आतंकियों को धर दबोचा। गिरफ्त में आए आतंकवादी राज्य में किसी बड़ी वारदात करने की फिराक़ में थे। पुलिस ने खालिस्तान लिबरेशन फोर्स (के एल ऍफ़) के दोनों दहशतगर्दो के कब्ज़े से आठ किलो विस्फोटक सहित जिलेटिन की 40 छड़ें, दो पिस्टल और भारी मात्रा में गोला बारूद बरामद किया।

पुलिस0 महानिरीक्षक पी एस गिल ने आतंकवादियों की गिरफ्तारी को बड़ी सफलता क़रार दिया है। उनका कहना है कि गिरफ्तारी से पूर्व दोनों आतंकी किसी बड़ी वारदात को अंजाम देने की योजना बना रहे थे। लेकिन पुलिस ने ऐन मौक़े पर उन्हें गिरफ्तार कर आतंकवादियों के नापाक मंसूबों पर पानी फेर दिया। पुलिस ने समय पर कार्रवाई करते हुए एक बड़ी आतंकी साज़िश को विफल कर दिया। ध्यान रहे कि के।एल.एफ ने 18 फरवरी को बाक़ायदा बयान जारी कर नाभा में इंडियन आयल के बाटलिंग प्लांट, चंडीगढ़ के निकट जीरकपुर में एयर फोर्स स्टेशन और लुधियाना के हलवारा वायु सेना हवाई अड्डे के सामने विस्फोटक रखने की ज़िम्मेदारी ली थी। के.एल.एफ ने ई-मेल से जारी बयान में कहा था कि तकनीकी गड़बड़ी के कारण धमाका करने की उनकी योजना भले ही फेल हो गई है, लेकिन महत्वपूर्ण सरकारी ठिकानों पर हमला करने की कोशिश जारी रहेगी। जांच के दौरान पुलिस को के.एल.एफ के ईमेल के बारे में भी पता चला, जिसमें नाभा सहित अन्य महत्वपूर्ण ठिकानों पर धमाका करने के लिए बघेल सिंह नामक किसी शख़्स को ज़िम्मेदारी सौंपी गई थी। इस ईमेल के खुलासे के बाद अधिकारियों ने कहा था कि राज्य में आतंकी संगठनों की नए सिरे से सक्रियता की संभावना से हम इनकार नहीं करते हैं। आतंकवाद के दौर में 1982 से 1995 के बीच के.एल.एफ पंजाब में खूंखार तरीके से सक्रिय था। खुफिया सूत्रों ने भी आगाह किया है कि के.एल.एफ के साथ-साथ बब्बर खालसा और खालिस्तान जिंदाबाद फोर्स भी अपने नेटवर्क का विस्तार करने में जुटे हैं।’’

पिछले दिनों एक ख़बर पढ़ कर मुझे बेहद प्रसन्नता हुई। निश्चय ही आप सब भी काफी ख़ुश हुए होंगे। यह जानकर कि अमेरिका भारत को विकास की राह पर अग्रसर देख कर हैरान है। निःसंदेह अमेरिका ही नहीं, लगभग सभी विकसित देश भारत का विकास देख कर हैरान होंगे और उनकी यह हैरानी उस समय और अधिक बढ़ जाती होगी, जब वह यह देखते होंगे कि भारत आतंकवादी हमलों से जूझ रहा है। ताज़ा दहशतगर्दी की घटनाओं के अलावा नक्सलाइटस, सी.पी.आई.एम.एल, पीपुल्स वार ग्रुप, पीपुल्स लिब्रेशन आर्मी, उल्फा, रणवीर सेना और बोडोलेण्ड की मांग करने वालों की दहशतगर्दाना कार्यवाहियों को ध्यान में रखें तो हम अंदाज़ा कर सकते हैं कि यदि भारत सभी प्रकार की दहशतगर्दी से पाक रहता तो आज उसने विकास की कितनी मंज़िलें तय कर ली होतीं। वह विकसित देशों की सूचि में किस स्थान पर खड़ा होता। बेशक हम सभी अपने देश को एक ऐसा विकसित देश देखना चाहते हैं जिसकी कोई मिसाल न हो और अगर आतंकवाद पर क़ाबू पा लिया जाए तो यह अतिसंभव नज़र आता है। मेरा विश्वास है कि दहशतगर्दी का मुक़ाबला आज केवल सरकार की ही ज़िम्मेदारी नहीं है, बल्कि भारत के हर नागरिक को इस आतंकवाद को जड़ से समाप्त करने के लिए व्यवहारिक रूप से कुछ करना होगा, तभी हमारा देश तरक्की की मंज़िलें तय कर पाने में कामयाब होगा और फिर यह कहने की ज़रूरत है ही नहीं कि अगर देश तरक्की करेगा तो देश का हर नागरिक भी तरक्की करेगा।
अब मैं वापस आता हूं उस समाचार की ओर जिसके हवाले से मैं आज कुछ लिखना चाहता हूं। इस ख़बर का महत्व कम क्यों था, यह सभी अख़बारों की मुख्य खबर क्यों नहीं थी, इसी तरह की घटनाएं जब अलग-अलग अवसरों पर, अलग-अलग शहरों में, अलग-अलग वर्गों से संबंध रखने वालों की शक्ल में नज़र आती हैं तो क्या हमारा व्यवहार ऐसा ही होता है? यहां मैं एक बार फिर यह अर्ज़ कर देना आवश्यक समझता हूं कि एक आतंकवादी ‘आतंकवादी होता है’, उसका धर्म, उसका दीन-व-ईमान सब कुछ ‘आतंकवाद’ ही होता है। वह केवल देश का दुश्मन ही नहीं मानवता का भी दुश्मन होता है। उसका संबंध चाहे किसी भी धर्म से हो, किसी भी आतंकवादी संगठन से हो या किसी भी देश से, इस बात को बार-बार कहने की आवश्यकता इसलिए है कि जब तक यह बात हमारे मन मस्तिषक में पूर्ण रूप से समा नहीं जाती, हम पूरी ईमानदारी के साथ आतंकवाद से लड़ नहीं सकते।

अधिकांश समाचार पत्र, टीवी चैनल और इन्टरनेट पर मौजूद न्यूज़ सर्विस मेरे अध्ययन में रहती है, जैसा कि मैंने आजकी दो ख़बरों के हवाले से कुछ कहने की कोशिश की है अगर आतंकवाद की घटना किसी अन्य विचारधारा के आतंकवादी या व्यक्ति से संबंध रखने वाली है तो फिर उसे न तो उतनी गंभीरता से लिया जाता है न उस पर अधिक ध्यान दिया जाता है, जबकि यदि ऐसी ही आतंकवादी घटना में कोई मुस्लिम नाम वाला लिप्त पाया जाए तो फिर हमारा रवैया एक दम भिन्न होता है। मैं उसके नुक़सानों पर ध्यान दिलाना चाहता हूं। ख़ुदा के लिए मेरी इस कोशिश को धर्म के चश्मे से न देखें, किसी की प्रतिरक्षा, किसी का बचाव न समझें, मेरे मन में केवल इतना है कि अगर भारत में आतंकवाद की प्रक्रिया जारी रखने वाले हेडली का नाम रख कर एक बदले हुए बाप के नाम के साथ और हमारे दोस्त समझे जाने वाले देशों का पासपोर्ट लेकर हमारी धरती पर क़दम रखेंगें तो बड़े से बड़े आतंकवादी हमले करते रहेंगे और हमारा ध्यान उस ओर या तो जाएगा ही नहीं या फिर तब जाएगा जब घटना हो चुकी होगी और ऐसे अपराधी अगर बेनक़ाब हो भी गए तो उस समय होंगे जब वह हमारी पकड़ से बाहर निकल चुके होंगे। इंडियन मुजाहिदीन की आतंकवादी प्रक्रिया से जुड़े भारत के विभिन्न शहरों में बम धमाके हुए। एक अमेरिकी नागरिक ‘केन हे वुड’ का नाम सामने आया, किंतु वह हमारे देश से फ़रार होने में कामयाब हो गया क्योंकि ऐसे नाम के लोगों को हमारे देश में आतंकवादी की निगाह से नहीं देखा जाता इसलिए न तो सीमा पार करते समय और न ही विमान में बैठते समय उन्हें संदिग्ध निगाहों से देखा जाता है। ऐसा ही हेडली के संबंध में हुआ। हमारी इस सोच से आतंकवादी संगठन भलीभांति परिचित हैं। अगर वह इसका फ़ायदा उठाकर बदले हुए नामों से हमारे देश में आतंकवाद फैलाते रहे तो फिर हम उस आतंकवाद से कैसे निपटेंगे। हमें नहीं मालूम कि दिल्ली एयरपोर्ट के निकट स्थित होटल ‘रेडिसन’ से पकड़े गए दो ब्रिटिश नागरिक किस इरादे के साथ हमारे यहां ट्रेफ़िक कंट्रोलर और पायलट के बीच हो रही बातचीत सुन रहे थे, रिकॉर्ड कर रहे थे, और अपने पास मौजूद राडार से हमारे आसमान पर उड़ने वाले विमानों पर नज़र रख रहे थे। मगर चूंकि उनके नाम ऐसे नहीं थे, जैसे नामों पर हमें आतंकवादी होने की शंका होती है, उनका संबंध ऐसे देश से नहीं था, जिन्हें हम अपना दुश्मन देश या आतंकवाद को बढ़ावा देने वाला देश समझते हैं, इसलिए हमारा रवैया उनके प्रति अत्यंत नर्म रहा। हमने शायद यह भी नहीं सोचा कि अल-क़ायदा और लश्कर-ए-तय्यबा जो आज दुनिया के सबसे बड़े आतंकवादी संगठन माने जाते हैं और जिनके नाम हमारे देश में होने वाले विभिन्न बम धमाकों में भी सामने आते रहे हैं, वह अपने किसी नापाक मनसूबे के लिए किसी ऐसे देश के नागरिक का भी प्रयोग कर सकते हैं, जिस देश को हम अपना मित्र मानते हों। वह ऐसे धर्म के लोगों का भी प्रयोग कर सकते हैं, जिस धर्म के मानने वालों पर हम संदेह नहीं करते। अल-क़ायदा में लादेन की जगह लेने का दावा करने वाला एक अमेरिकी नागरिक जिसका नाम ‘एडम याहिया’ है। अब भले ही यह कहा जाए कि उसने इस्लाम गृहण कर लिया था, वह मुसलमान हो गया था, मगर इस सच्चाई को तो स्वीकार करना ही पड़ेगा कि आतंकवाद के लिए कुछ ऐसे लोगों का भी प्रयोग हो ही सकता है, इसलिए हमें ऐसे संदिग्ध लोगों को भी साधारण रूप में नहीं लेना चाहिए। बल्कि अपने देश की सुरक्षा के मद्दे नज़र हर दृष्टिकोण से उनकी संदिग्ध गतिविधियों को जानना व समझना चाहिए वरना एक स्थापित सोच हमें आतंकवाद के इस भयानक युद्ध में सफल नहीं होने देगी।

Sunday, February 21, 2010

An Event Pic


مسلم ریزرویشن کے سوال پر طوفان کیوں؟

گزشتہ چند روز سے عارضی طور پر میں نے اپنے لکھنے کے انداز میں کچھ تبدیلی کی ہے۔ اب میں شروعات اپنی بات سے نہیں کرتا، بلکہ میرے سامنے کوئی نہ کوئی خبر ہوتی ہے اور میں اسے لفظ بہ لفظ قارئین کے سامنے رکھ دیتا ہوں، پھر اس کے بعد میرا تبصرہ، تجزیہ، نظریہ یا مضمون، آپ جو بھی سمجھیں۔ دراصل یہ اس لےے کہ اکثر سیاستداں میڈیا پر بآسانی یہ الزام لگا دیتے ہیں کہ ان کے کہنے کا مقصد یہ نہیں تھا، ان کے الفاظ تبدیل کردئےے گئے ہیں۔ ان کی بات کو ٹھیک سے سمجھا نہیں گیا ہے۔ لہٰذا مجھے لگا کہ جب میں ایسے نازک مسئلوں پر گفتگو کررہا ہوں تو جس کے، جس جملہ پر بات کی جانی ہے، پہلے اسی کو پوری طرح سامنے رکھ دیا جائے، پھر آگے اپنی بات شروع کی جائے۔ ویسے تواس درمیان دو اور ایسے موضوع تھے، جن پر گفتگو کی جانی چاہےے تھی اور جن پر میں لکھ بھی رہا تھا، ایک تو پنے کا بم بلاسٹ اور دوسرا دہلی ائیرپورٹ کے نزدیک ہوٹل ’ریڈیسن‘ سے دو برطانوی شہریوں کا مشکوک سرگرمیوں میں ملوث پایا جانا۔ حالانکہ اب ایسا نظر آرہا ہے کہ یہ دونوں ہی برطانوی شہری بغیر کسی دقت کے چند روز میںہی اپنے ملک واپس چلے جائیں گے اور پھر اس معاملہ کو رفع دفع کردیا جائے گا۔ اس بات کا اندیشہ میں نے ”آل انڈیا تنظیم ائمہ مساجد“ کے ایک خصوصی اجلاس میں ہفتے کے روز اپنی تقریر کے دوران بھی ظاہر کیا تھا اور جس وقت میں ان دونوں برطانوی شہریوں کو لے کر اپنا خدشہ ظاہر کررہا تھا، ملک کی متعدد معزز شخصیتیں موجود تھیں اور بالخصوص ملک بھر سے آئے ہمارے ائمہ کرام۔ ظاہر ہے وہاں ہر فرد اپنے آپ میں ایک انجمن کی اہمیت رکھتا تھا۔ ”وہ برطانوی بآسانی واپس چلے جائیں گے“ اس وقت میں نے یہ جملہ اس لےے لکھا کہ نارتھ ایسٹ سومرسیٹ سے ہمارے ایک ممبرپارلیمنٹ ڈین نورس(Den Norris)نے ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی خاص بات نہیں ہے۔ واضح ہو کہ ڈین نورس رابطہ کار کی ذمہ داریاں بھی نبھا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے وکیل راجیواوستھی نے بھی نیوز لائن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے موکلوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگانے جیسا کچھ بھی نہیں ہے۔

جہاں تک میرا خیال ہے اگر یہ دونوں شہری مسلمان ہوتے اور کسی مسلم ملک افغانستان، پاکستان یا بنگلہ دیش سے ان کا تعلق ہوتا تو پھر اتنے صاف لفظوں میں ان کی حمایت کرنے والا کوئی نہ ہوتا۔ اگر ماضی پر نظر ڈالیں تو مسلمان ہونے پر ایسے لوگوں کے لےے وکالت کی ذمہ داری نبھانے والے کو بھی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ امام آرگنائزیشن کے اجلاس میں اپنے ان خیالات کا اظہار کرکے جب میں باہر آیاتو ’ٹائمس گروپ‘ کے جرنلسٹ مسٹر شکلا نے میرے خیال کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں اور یہ افسوسناک ہے۔ بہرحال میں پنے بم دھماکہ اور ان دو برطانوی شہریوں کا مشکوک سرگرمیوں میں ملوث پائے جانے کو دو بڑے معاملے مانتا ہوں اور اس پر تحقیق کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا، لیکن اس وقت بات اس موضوع پر جس کا اشارہ ابتدائی چند سطروں میں دیا گیا تھا۔ جی ہاں، مسلم ریزرویشن کے معاملہ پر بی جے پی کے نئے صدر و دیگر سینئر لیڈران کا بیان تو ملاحظہ فرمائیں کہ اپنی اندور کانفرنس میں مسلم ریزرویشن کے تعلق سے 19فروری کو انہوں نے کن نظریات کا اظہار کیا، اس کے بعد میری گفتگو۔

مسلمانوں کو ریزرویشن بڑی سازش: بی جے پیبی رمن

” اندور: مسلمانوں اور دلت عیسائیوں کو ریزرویشن دینے اور دیگر پسماندہ طبقات میں مسلمانوں کا حصہ بڑھا کر15 فیصد کرنے کی رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ کو بی جے پی نے جمعہ کو مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی بڑی سازش بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی ہر قیمت پر مخالفت کرے گی اور قربانی دینا ہوا تو اس کے لئے بھی تیار رہے گی۔

بی جے پی کے تین روزہ قومی اجلاس کے آخری روزجمعہ کو یہاں رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے پارٹی صدر نتن گڈکری نے کہا کہ اس رپورٹ سے درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے دل میں زبردست خوف ہے کہ اگر ےہ سفارش نافذ ہوگئی تو ان کا ریزرویشن کم ہوجائے گا۔ پارٹی کے ایک دیگر سینئر لیڈر گوپی ناتھ منڈے نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ دیگر پسماندہ طبقے میں مسلمانوں کا ریزرویشن بڑھا کر15 فیصد کرنا اور دلت مسلمانوں نیز عیسائیوں کو ریزر ویشن دینا ایک بڑی سوچی سمجھی سیاسی سازش ہے۔ ایسا کرکے مسلمانوں کو سیاست میں بھی ریزرویشن دینے کی سازش رچی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر دلت عیسائیوں اور مسلمانو ںکو ریزرویشن مل گیا اور دیگر پسماندہ طبقات کو ملے27 فیصد ریزرویشن میں مسلمانوں کا ریزرویشن15 فیصد کردیا گیا تو اس سے اسمبلیوں، پارلیمنٹ اور دیگر منتخب اداروں میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی اپنے آپ ہی بڑھ جائے گی۔ منڈے نے کہا کہ یہی نہیں اعلیٰ ایڈ منسٹریٹیو سروسز میں بھی اس بنیاد پر مسلمانوں کا دخل بڑھ جائے گا۔ اس موضوع پر گڈکری ، منڈے اور ایم ونکیا نائیڈو سمیت اپنی بات رکھنے والے پارٹی کے مختلف مقررین نے کہا کہ ہندو سماج کے ریزرویشن میں ایک فیصد کی کمی کو بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ پارٹی نے پورے ملک کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ کھیل کی مخالفت کرنے کے لئے سڑکوں پر اتریں اور اس کے لئے اگر قربانی دینے کی ضرورت پڑے تو وہ بھی دیں۔ نائیڈو نے کہا کہ آزادی سے قبل مذہب پر مبنی ریزرویشن کی تقسیم کی شکل میں ملک نے بہت بڑی قیمت پہلے ہی چکائی ہے اور اب مستقبل میں ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ کانگریس کی سازش کو ناکام کرنے کے لئے ہم ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔

قومی کونسل کی میٹنگ میں ایک قرار داد بھی منظور کی گئی، جس میں کہا گیا کہ دلت مسلمانوں کو ریزرویشن دینا اور دیگر پسماندہ طبقات کے ریزرویشن میں مسلمانوں کا فیصد بڑھانا نہ صرف مسلمانوں کو سیاست میں ریزرویشن دینے جیسی خطرناک سازش ہے، بلکہ اس سے تبدیلی مذہب کو بھی بڑے پیمانے پر شہ ملے گی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت کی سازش کی بی جے پی پارلیمنٹ میں زبردست مخالفت کرے گی اور اس کے خلاف رائے عامہ تیار کرنے کے لئے11 مارچ کو پارلیمنٹ کے باہر ایک مظاہرہ بھی کرے گی۔“

بی جے پی کے سابق صدر اور سینئر لیڈر وینکیانائیڈو نے مسلم ریزرویشن کے موضوع پر بولتے ہوئے کہا کہ ”مذہب کے نام پر تقسیم کی شکل میں یہ ملک بہت بڑی قیمت پہلے ہی ادا کرچکا ہے۔ اب مستقبل میں ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔“ یہاں میں واضح کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ تقسیم وطن کا مسلمانوں سے یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ ایک سیاسی سازش تھی، جس کا شکار ہمارا ملک ہوا، جس کے شکار مسلمان بھی ہوئے اور ہندو بھی۔ ہاں مسلمانوں کو اس کا زیادہ بڑا خمیازہ بھگتنا پڑا اور آج بھی بھگت رہے ہیں۔ میں یہ بات گزشتہ 25برسوں میں اپنے اخبارات میں بارہا لکھ چکا ہوں۔ سیکڑوں، ہزاروں اجلاس میں اس موضوع پر بول چکا ہوں اور اب تو ان کی اپنی پارٹی کے جسونت سنگھ بھی محمد علی جناح پر کتاب لکھ کر اس حقیقت کو تسلیم کرچکے ہیں۔ میں نے اس وقت اس موضوع پر قلم اٹھایا تو گفتگو بہت طویل ہوجائے گی، جبکہ میں آج بی جے پی کے مسلم ریزرویشن کے سوال پر ان کے نظریات کی روشنی تک ہی اپنی بات کو محدود رکھنا چاہتا ہوں۔ اس وقت میں لکھنو ¿ میں ہوں۔ آج صبح 11بجے لکھنو ¿ کی انٹیگرل یونیورسٹی میں مسلمانوں کے تعلق سے تعلیمی مسائل پر غور کرنے کے لےے کچھ منتخب حضرات کو مدعو کیا گیا تھا۔ میزبان وسیم اختر، وائس چانسلرانٹیگرل یونیورسٹی کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پی کے عبدالعزیز، اترپردیش اقلیتی کمیشن کے چیئرمین مسٹر کاظم، سینئر آئی اے ایس انیس انصاری و دیگر اہم شخصیات موجود تھیں۔ جناب انیس انصاری نے پسماندہ مسلمانوں کے ریزرویشن کے تعلق سے بڑی ریسرچ کی ہے۔ ان کا موقف بڑا واجب ہے کہ ایک نائی، دھوبی، کہار، ملاح وغیرہ وغیرہ چھوٹے موٹے کام کرنے والے چاہے وہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہوں یا اسلام مذہب سے، انہیں الگ الگ نظرےے سے کیوں دیکھا جائے۔ اگر کسی ریزرو سیٹ پر کسی ملاح کو الیکشن لڑنے کا حق حاصل ہے تو پھر وہ ہندو ہو یا مسلمان، اسے یہ موقع ملنا چاہےے۔ یہ چند سطریں تو بطور حوالہ ہیں، کیوں کہ ان کا تعلق بھی ریزرویشن سے تھا، اس لےے ضمناً ذکر میں شامل کرلیا، ورنہ ان کی کارکردگی کا احاطہ کرتے ہوئے الگ سے ایک مفصل مضمون کی ضرورت ہے۔ میں اس وقت گفتگو کررہا تھا، بی جے پی میں مسلمانوں کے ریزرویشن پر اٹھے طوفان پر۔ اسی اجلاس میں پارٹی کے ایک دوسرے سینئر لیڈر گوپی ناتھ منڈے نے کہا کہ’ ’پچھڑا ورگ‘ (پسماندہ طبقات) میں مسلمانوں کا ریزرویشن 15فیصد کرنا اور دلت مسلمانوں و عیسائیوں کو ریزرویشن دینا ایک سیاسی سازش ہے۔ ایسا کرکے مسلمانوں کو سیاست میں مواقع دینے کی سازش رچی جارہی ہے۔‘ منڈے صاحب میں آپ کے الفاظ آپ ہی کو لوٹانے جارہا ہوں۔ ٹھیک کہا آپ نے، اب آپ اندازہ کیجئے کہ اگر آپ کے نزدیک مسلمانوں کو سیاست میں حصہ داری ملنا ایک سیاسی سازش ہے تو انہیں حصہ داری سے محروم رکھنا کیا سیاسی سازش نہیں تھی؟ جو طبقہ 61برس سے اس سیاسی سازش کا شکار ہے، اسے اس کا حق ملے، آج اس موضوع پرغوروفکر کرنا بھی آپ کو گوارا نہیں ہے۔ یہی وہ ذہنیت ہے جس کو سامنے لانا اور سمجھنا بیحد ضروری ہے۔ ذرا منگوائےے ریزرو کونسٹیونسی کے اعدادوشمار، آپ پائیں گے کہ اکثریت ایسے حلقوں کی ہے، جہاں مسلمان بڑی تعداد میں ہیں۔ آپ نے مزید خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 27فیصد ریزرویشن میں مسلمانوں کو15فیصد ریزرویشن دے دیا گیا تو پارلیمنٹ اور اسمبلی کے لےے منتخب ہونے والے مسلم ممبران کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوجائے گا اور پھر اس طرح اعلیٰ ایڈمنسٹریٹوسروسز میں مسلمانوں کی حیثیت بڑھ جائے گی۔ یعنی آپ نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کو یہ مواقع ملیں۔ آپ کی پارٹی کی یہ سوچ تو پہلے ہی سے جگ ظاہر تھی، اب آپ کی زبان سے اس کا منظرعام پر آنا ثابت کرتا ہے کہ آپ کے جو چند جملے بدلاوکی فضا پیدا کرنے کی کوشش سمجھے جارہے تھے اور آپ جو نئی سوچ کے ساتھ ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان کا فاصلہ کم کرنے کی بات کررہے تھے، وہ محض آپ کے لفظوں کا فریب ہے، جس کے پیچھے آپ کا سیاسی ذہن کارفرما ہے۔ ذہنیت بدلی نہیں ہے۔ اب ایک آخری بات ’آپ جو مسلم ریزرویشن کی مخالفت میں سڑکوں پر اتر آنے کی بات کہہ رہے ہیں، بلیدان دینے کے تیار رہنے کی بات کررہے ہیں اور11مارچ کو پارلیمنٹ کے باہر ایک بڑا مظاہرہ کرنے کا اعلان کررہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ اس میں آپ اپنی پارٹی کا کچھ بھلا دیکھتے ہوں،جیسا کہ بابری مسجد کی شہادت اور کارسیوا کے نام پر ہندووں اور مسلمانوں کا خون بہا تھا، اس وقت اسے بھی بلیدان ہی کہا گیا تھا۔ اس بلیدان نے اگر کامیابی حاصل کرلی ہوتی تو کیا آج آپ یہ کہتے کہ مسلمان رام مندر بنانے میں مدد کریں اور ہم مسجد بنوائیں گے۔ چلئے حقیقت اب آپ بھی سمجھنے لگے ہیں، پھر بھی اس ذہنیت سے ہٹ نہیں پارہے ہیں۔ ہر بات کو سیاست سے جوڑ دینا، سڑکوں پر اتر آنا، بلیدان کے نام پر بے گناہوں کو خون بہانے کے لےے آمادہ کرنا، کیا ملک کی فلاح و بہبود کا باعث بن سکتا ہے۔ نہیں نہ، آپ کیوں نہیں سنجیدگی اور ایمانداری سے جسٹس راجندرسچر کی رپورٹ پر غور کرتے ہیں، جس میں انہوں نے آج کے مسلمانوں کو دلتوں سے بھی پچھڑا بتایا ہے اور یہ ان کی برسوں کی محنت و تحقیق کا نچوڑ ہے۔ جس طرح ملک کی ترقی کے لےے آزادی کے بعد دلتوں کو ریزرویشن دینا ضروری سمجھ گیا، تاکہ ایک دبے کچلے طبقہ کو اوپر اٹھنے کا موقع ملے تو پھر آج اس سے بدتر حالت میں مسلمانوں کے پہنچ جانے پر، ان کے ریزرویشن پر اس قدر طوفان کیوں؟

मुस्लिम आरक्षण के सवाल पर तूफ़ान क्यों?

पिछले कुछ दिनों से अस्थाई रूप से मैंने अपने लिखने के अंदाज़ में कुछ परिवर्तन किया है। अब मैं शुरुआत अपनी बात से नहीं करता। बल्कि मेरे सामने कोई न कोई ख़बर होती है और मैं इसे हू-बहू पाठकों के सामने रख देता हूं फिर इसके बाद मेरी टिप्पणी, समीक्षा, दृष्टिकोण या लेख, आप जो भी समझें। दरअसल यह इसलिए कि अक्सर राजनीतिज्ञ मीडिया पर आसानी के साथ यह आरोप लगा देते हैं कि उनके कहने का उद्देश्य यही नहीं था, उनके शब्द तब्दील कर दिए गए हैं। उनकी बात को ठीक से समझा नहीं गया है। इसलिए मुझे लगा कि जब मैं ऐसे नाज़ुक मसलों पर बातचीत कर रहा हूं तो, जिसके जिस वाक्य पर बात की जाती है पहले उसी को पूरी तरह सामने रख दिया जाए फिर आगे अपनी बात शुरू की जाए। वैसे तो इस बीच दो और ऐसे विषय थे जिन पर बातचीत की जानी चाहिए थी और जिन पर मैं लिख भी रहा था, एक तो पुणे का बम ब्लास्ट और दूसरा दिल्ली एयरपोर्ट के निकट होटल रेडीसन से दो ब्रिटिश नागरिकों का संदिग्ध गतिविधियों में लिप्त पाया जाना। हालांकि अब ऐसा नज़र आ रहा है कि यह दोनों ही ब्रिटिश नागरिक बिना किसी कठिनाई के कुछ दिनों में ही अपने देश वापस चले जाएंगे और फिर इस मामले को रफ़ा-दफ़ा कर दिया जाएगा। इस बात की आशंका मैंने ‘ऑल इंडिया तंजीमे अइम्मा-ए-मसाजिद’ के एक विशेष अधिवेशन में शनिवार के दिन अपने भाषण के दौरान व्यक्त भी की थी और जिस समय मैं इन दोनों ब्रिटिश नागरिकों को लेकर अपनी आशंका व्यक्त कर रहा था, देश के विभिन्न प्रतिष्ठित शख़्सियतें मौजूद थीं विशेष रूप से देश भर से आए हमारे मस्जिदों के इमामा ज़ाहिर है वहां हर व्यक्ति अपने आप में एक संस्था का महत्व रखता था। ‘‘वह ब्रिटिश आसानी के साथ वापस चले जाएंगे’’ इस समय मैंने यह वाक्य इसलिए लिखा कि नॉर्थ-ईस्ट सोमर सेट से हमारे एक सांसद डेन नोरिस ;क्मद छवततपेद्ध उनसे सहानुभूति प्रकट करते हुए कहा कि यह कोई ख़ास बात नहीं है। स्पष्ट रहे कि डेन नोरिस सम्पर्क अधिकारी की ज़िम्मेदारियां भी निभा रहे हैं साथ ही उनके वकील राजीव अवस्थी ने भी न्यूज़लाइन से बात करते हुए कहा कि मेरे मुअक्किलों के कार्यों पर प्रश्न चिन्ह लगाने जैसा कुछ भी नहीं है।

जहां तक मेरा विचार है अगर यह दोनों ब्रिटिश नागरिक मुसलमान होते और किसी मुस्लिम देश अफगानिस्तान, पाकिस्तान या बंग्लादेश से उनका संबंध होता तो फिर इतने स्पष्ट शब्दों में उनका समर्थन करने वाला कोई न होता। अगर अतीत पर नज़र डालें तो मुसलमान होने पर ऐसे लोगों के लिए वकालत की ज़िम्मेदारी निभाने वाले को भी मुसीबतों का सामना करना पड़ता। इमाम ऑर्गनाइज़ेशन के अधिवेशन में अपने यह विचार प्रकट करके जब मैं बाहर आया तो टाइम्स ग्रूप के जरनलिस्ट मिस्टर शुक्ला ने मेरे विचार का समर्थन करते हुए कहा कि आप ठीक कह रहे हैं और यह अफ़सोसनाक है। बहरहाल मैं पुणे बम धमाका और इन दो ब्रिटिश नागरिकों का संदिग्ध गतिविधियों में लिप्त पाया जाना, दो बड़े मामले मानता हूं और इस पर तहक़ीक़ के साथ बातचीत का सिलसिला जारी रहेगा। लेकिन इस समय बात उस विषय पर जिसका इशारा आरंभ की कुछ पंक्तियों में दिया गया था। जी हां, मुस्लिम आरक्षण के मामले पर भाजपा के नवनियुक्त अध्यक्ष तथा अन्य वरिष्ठ नेताओं का बयान तो मुलाहिज़ा फ़रमाएं कि अपनी दंदौर कान्फ्ऱेंस में मुस्लिम रिज़रवेशन के संबंध में 19 फ़रवरी को उन्होंने किन विचारधाराओं का इज़हार किया, उसके बाद मेरी बातचीत।

मुस्लिमों को आरक्षण, बड़ी साज़िश: बी जे पी
बी रमन
इंदौर- मुस्लिम और दलित ईसाइयों को आरक्षण देने और अन्य पिछड़ा वर्ग में मुसलमानों का हिस्सा बढ़ाकर 15 फ़ीसदी करने की रंगनाथ मिश्रा आयोग की रिपोर्ट को बीजेपी ने शुक्रवार को मुसलमानों को आरक्षण देने की बड़ी साज़िश बताते हुए कहा कि वह इसका हर कीमत पर विरोध करेगी और बलिदान देना हुआ तो इसके लिए तैयार रहेगी।

बीजेपी के तीन दिवसीय राष्ट्रीय अधिवेशन के अंतिम दिन शुक्रवार को यहां रंगनाथ मिश्रा आयोग रिपोर्ट पर चर्चा की शुरूआत करते हुए पार्टी अध्यक्ष नितिन गडकरी ने कहा कि इस रिपोर्ट से अनुसूचित जाति और जनजातियों के मन में बहुत ज़बरदस्त भय हे कि अगर यह सिफ़ारिश लागू हो गई तो उनका आरक्षण कम हो जाएगा।पार्टी के एक अन्य वरिष्ठ नेता गोपीनाथ मुंडे ने चर्चा को आगे बढ़ाते हुए कहा कि अन्य पिछड़ा वर्ग में मुसलमानों का आरक्षण बढ़ाकर 15 प्रतिशत करना और दलित मुसलमानों तथा ईसाइयों को आरक्षण देना एक बहुत बड़ी सोची समझी साज़िश है। ऐसा करके मुसलमानों को राजनीति में भी आरक्षण देने का षड़यंत्र रचा जा रहा है।उन्होंने कहा कि अगर दलित ईसाइयों और मुसलमानों को आरक्षण मिल गया और अन्य पिछड़े तबक़ों को मिले 27 प्रतिशत के आरक्षण में मुसलमानों का आरक्षण 15 प्रतिशत कर दिया गया तो इससे विधानसभाओं, संसद और अन्य निर्वाचित संस्थाओं में मुसलमानों का राजनीतिक प्रतिनिधित्व अपने आप बढ़ जाएगा। इस विषय पर गडकरी, मुंडे और एम॰वैंकया नायडू सहित अपनी बात रखने वाले पार्टी के विभिन्न वक्ताओं ने कहा कि हिंदू समाज के आरक्षण में एक प्रतिशत की कटौती को भी बर्दाश्त नहीं किया जाएगा। पार्टी ने पूरे देश के लोगों से अपील की कि वह खेल का विरोध करने के लिए सड़कों पर उतरें और इसके लिए अगर बलिदान देने की आवश्यकता पड़े तो वह भी दें।नायडू ने कहा कि आजादी से पहले धर्म आधारित आरक्षण की विभाजन के रूप में देश बहुत बड़ी कीमत पहले ही चुका चुका है और अब भविष्य में ऐसा नहीं होने दिया जाएगा। कांग्रेस की साज़िश को नाकाम करने के लिए हम हर-तरह का बलिदान और कुर्बानी देने को तैयार हैं।

राष्ट्रीय परिषद की बैठक में एक प्रस्ताव भी पारित किया गया जिसमें कहा गया कि दलित मुस्लिमों को आरक्षण देने और अन्य पिछड़ा वर्ग के आरक्षण में मुसलमानों का प्रतिशत बढ़ाना न सिर्फ मुसलमानों को राजनीति में आरक्षण देने जैसा ख़तरनाक षड़यंत्र है बल्कि इससे धर्मांतरण को भी बड़े पैमाने पर श्ह मिलेगी। अधिवेशन में फैसला किया गया कि सरकार के इस षड़यंत्र का बीजेपी संसद में जोरदार विरोध करेगी और इसके खिलाफ जनमानस तैयार करने के लिए 11 मार्च को संसद के बाहर एक बड़ा प्रदर्शन भी करेगी।’’

भाजपा के पूर्व अध्यक्ष तथा वरिष्ठ नेता वैंकैया नायडू ने मुस्लिम आरक्षण के विषय पर बोलते हुए कहा कि ‘‘धर्म के नाम पर विभाजन के रूप में यह देश बहुत बड़ी क़ीमत पहले ही अदा कर चुका है। अब भविष्य में ऐसा नहीं होने दिया जाएगा।’’ यहां मैं स्पष्ट कर देना आवश्यक समझता हूं कि देश के विभाजन का मुसलमानों से या धर्म से कोई संबंध नहीं था। यह एक राजनीतिक षड़यंत्र था, जिसका शिकार हमारा देश हुआ, जिसके शिकार मुसलमान भी हुए और हिंदू भी। हां मुसलमानों को इसका ज़्यादा बड़ा ख़मियाज़ा भुगतना पड़ा और आज भी भुगत रहे हैं। मैं यह बात पिछले 25 वर्षों से अपने अख़बारों में बार-बार लिख चुका हूं। सैकड़ों, हज़ारों जलसों में इस विषय पर बोल चुका हूं और अब तो उनकी अपनी पार्टी के जसवंत सिंह भी मोहम्मद अली जिनाह पर किताब लिख कर इस हक़ीक़त को स्वीकार कर चुके हैं। मैंने इस समय इस विषय पर क़लम उठाया तो बातचीत बहुत लम्बी हो जाएगी, जबकि मैं आज भाजपा के मुस्लिम आरक्षण के सवाल पर दैनके दृष्टिकोण की रौशनी तक गुफ़्तुगू ही अपनी बात को सीमित रखना चाहता हूं। इस समय मैं लखनऊ में हूं। आज सुबह 11 बजे लखनऊ की इन्टेगरल यूनिवर्सिटी में मुसलमानों से संबंधित शैक्षणिक समस्याओं पर विचार करने के लिए कुछ चुने हुए लोगों को आमंत्रित किया गया था। आयोजक वसीम अख़तर, वाइस चांसलर इन्टेगरल यूनिवर्सिटी के अलावा अलीगढ़ मुस्लिम यूनिवर्सिटी के वाइस चांसलर पीके अब्दुल अज़ीज़, उत्तर प्रदेश अल्पसंख्यक आयोग के चेयरमैन मिस्टर काज़िम, वरिष्ठ आईएएस अनीस अंसारी तथा अहम शख़्सियात मौजूद थीं। जनाब अनीस अंसारी ने पिछड़े मुसमलानों के आरक्षण से संबंधित बड़ी रिसर्च की है। उनका पक्ष बड़ा वाजिब है कि एक नाई, धोबी, कहार, मल्लाह इत्यादि-इत्यादि छोटे-मोटे काम करने वाले चाहे वह हिंदू धर्म से संबंध रखते हों या इस्लाम धर्म से, उन्हें अलग-अलग दृष्टिकोणों से क्यों देखा जाए। अगर किसी रिज़र्व सीट पर किसी मल्लाह को इलेक्शन लड़ने का अधिकार प्राप्त है तो फिर वह हिंदू हो या मुसलमान उसे यह अवसर मिलना चाहिए। यह कुछ पंक्तियां हवाले के रूप में हैं। क्यूंकि उनका संबंध भी आरक्षण से था इसलिए आंशिक रूप से लेख में शामिल कर लिया। वरना उनके कार्यों का अहाता करते हुए अलग से एक विस्तृत लेख की आवश्यकता है। मैं इस समय गुफ़्तगू कर रहा था कि भाजपा में मुसलमानों के आरक्षण पर उठे तूफ़ान पर इसी अधिवेशन में पार्टी के एक अन्य वरिष्ठ नेता गोपीनाथ मुंडे ने कहा कि ‘‘पिछड़े वर्ग’’ में मुसलमानों का आरक्षण 15 प्रतिशत करना तथा दलित मुसलमानों एवं ईसाइयों को आरक्षण देना एक राजनीतिक षड़यंत्र है। ऐसा करके मुसलमानों को राजनीति में अवसर देने का षड़यंत्र रचा जा रहा है। ‘मुंडे साहब मैं आपके शब्द आप ही को लौटाने जा रहा हूं। ठीक कहा आपने, अब आप अंदाज़ा कीजिए कि अरग आपके नज़दीक मुसलमानों को राजनीति में भागीदारी मिलना एक राजनीतिक षड़यंत्र है तो क्या उन्हें भागीदारी से वंचित रखना राजनीतिक षड़यंत्र नहीं था? जो वर्ग 61 वर्षों से इस राजनीतिक षड़यंत्र का शिकार है उसे उसका हक़ मिले, आज इस विषय पर विचार-विमर्श करना भी आपको गवारा नहीं है। यही वह मानसिकता है जिसको सामने लाना और समझना अत्यंत आवश्यक है। ज़रा मंगवाइये रिज़र्व क्षेत्रों के आंकड़े, आप पाएंगे कि अकसरियत ऐसे क्षेत्रों की है जहां मुसलमान बड़ी संख्या में हैं। आपने और अधिक आशंका व्यक्त करते हुए कहा कि 27 प्रतिशत आरक्षण में मुसलमानों को 15 प्रतिशत आरक्षण दे दिया गया तो संसद और विधानसभा के लिए चुने जाने वाले मुस्लिम सदस्यों की संख्या में भारी वद्धि हो जाएगी और फिर इस प्रकार उच्च प्रशासनिक सेवाओं में मुसलमानों की हैसियत बढ़ जाएगी। यानी आप नहीं चाहते कि मुसलमानों को यह अवसर मिले। आपकी पार्टी की यह सोच तो पहले से ही जग ज़ाहिर थी अब आपकी ज़बान से उसका सामने आना सिद्ध करता है कि आपके जो कुछ वाक्य जो बदलाव का वातावरण पैदा करने की कोशिश समझे जा रहे थे और आप जो नई सोच के साथ हिंदुओं और मुसलमानों के बीच की दूरी कम करने की बात कर रहे थे, वह केवल आपके शब्दों का धोखा है, जिसके पीछे आपकी राजनीतिक मानसिकता काम कर रही है। मानसिकता बदली नहीं है। अब एक आख़री बात आप जो मुस्लिम आरक्षण के विरोध में सड़को पर उतर आने की बात कह रहे हैं, बलिदान देने के लिए तैयार रहने की बात कर रहे हैं और 11 मार्च को संसद के बाहर एक बड़ा प्रदर्शन करने की घोषणा कर रहे हैं, हो सकता है कि उसमें आप अपनी पार्टी का कुछ हित देखते हों, जैसा की बाबरी मस्जिद की शहादत और कारसेवा के नाम पर हिंदुओं और मुसलमानों का रक्त बहा था, उस समय उसे भी बलिदान ही कहा गया था। इस बलिदान ने अगर सफलता प्राप्त कर ली होती तो क्या आप आज यह कहते कि मुसलमान राम मंदिर बनाने में मदद करें और हम मस्जिद बनवाएंगे। चलिए हक़ीक़त अब आप भी समझने लगे हैं, फिर भी इस मानसिकता से हट नहीं पा रहे हैं। हर बात को राजनीति से जाड़ देना, सड़कों पर उतर आना, बलिदान के नाम पर बेगुनाहों को ख़ून बहाने के लिए आमादा करना क्या देश के उत्थान और कल्याण का कारण बन सकता है। नहीं ना, आप क्यों नहीं गंभीरता और ईमानदारी से जस्टिस राजिंदर सच्चर की रिपोर्ट पर विचार करते हैं, जिसमें उन्होंने आज के मुसलमानों को दलितों से भी पिछड़ा बताया है और यह उनकी बरसों की मेहनत और शोध का निचोड़ है। जिस तरह देश के विकास के लिए आज़ादी के बाद दलितों को आरक्षण देना आवश्यक समझा गया ताकि एक दबे-कुचले वर्ग को ऊपर उठने का मौक़ा मिले तो फिर आज उससे बदतर हालत में मुसलमानों के पहुंच जाने पर उनके आरक्षण पर इतना तूफ़ान क्यों?

Friday, February 19, 2010

If they are planning 9/11 in India, then…..

If the terrorist attack on Mumbai on 26 November 2008 had fulfill their desire or if we consider over the more ruthless results of the attack then there could be a communal riot between Hindus and Muslims ,then…..
If there was a war between India and Pakistan, then…..
In every sentences after then I left the sentence, as my readers can easily anticipate ‘what would happen?’ During the investigations of Malegaon bomb blast martyr Hemant Karkare was coming out with new facts and the way he was receiving death threats and the way at the commencement of the terrorist attack he was killed, if we Indian had not acted in tolerant, and with communal harmony and peace loving way then there may be India would had faced a gloomy situation as it happened across the country after 6th December 1992 and 27th February 2002 incident of Sabarmati Express in Gujarat.
If the name of the Muslims involved in Mumbai terror attack were kept in front and were given a communal colour to it then one can imagine the situation country may face.
Truly my congratulations are to all the Hindus and Muslims, media organizations, government of India and opposition also. There were so many things came about after the terror attack but nothing in the name of communal hatred among Muslims and Hindus. It was a judicious step and I want to praise it many times but this is different thing what were the point put forward and what were left aside and how many secrets are going to come out? Who, others are involved in the attack, I will discuss it later and research work over this is on. I am sure about this that one day all the facts will come before us and few new faces has been come that are saved, sooner or later they will also come before us. The foremost and the first necessity was that how to keep intact our peace and harmony after this terror attack. Thanks to Allah, it is safe.
Second thing is that if war between India and Pakistan were break out after this terror attack then neither we would be able to know the name neither of Headley nor of Tahawwur Hussian Rana and FBI and all the facts may remain uncovered that are exposed now, revealing and many more to be unearth. For me this is a subject on that I have to work a lot, write a lot and InshaAllah I will, but this was also the necessity that there should not be hostilities between India and Pakistan as I have to save the innocent people from becoming the victims of the war. I have to save two neiboughring nations from becoming foe to each other and so it was necessary to guard the circumstances up to the limits so that there must not be hurdles in the way of identifying the reason and conspirators behind the terror attack, and it neither affects the investigations nor did it turn meaningless.
Who are those terrorists? What are the targets of those terrorist? Why they wish to make an environment of terror in India? These are such question until and unless that has to be answered, we can’t defeat terrorism.
If a small number of us, just few responsible ones are having mentality that if they are Muslims then they must be or could be a terrorist. If they have connections with Afghanistan, Pakistan or Bangladesh then he must be or could be an enemy of India. If he came from Israel, US and Britain then he must be or could be a friend of India. If he is a Christian or a Jew by faith then he is not a threat to us. We have to come out of this stereotyped thought as it is the matter of our national security; it’s not the issue of any individual’s ego or opinion. Our point of view could be different on any subject; we may not be pleased with each other, few of us may be having thoughts of hate and enmity with others, but how can we be the opponent of our country? We are living in a 100 story building and of that 20 floors belongs to a particular group and rest 80 floors belongs to others group. Who is the fool that thinks about destroying these 100 floors building? If this building destroyed then who’s flat will be safe? Neither of those who own a single story, nor of those who are having 20 floors, nor who are owner of more than 70 percent of building, so lets unite and save all these 100 story building and for this we have to sit together and think over it. Who are those, raising their evil eyes towards our nation, or may rise. We have to think on the occasions when few with particular mentality make a mountain out of a mole hill or vice versa. What could be motive behind this?
Now I want to discuss that subject which I wrote yesterday in my regular article and I work all above lines in context of that. Now we accepted the facts that two British detained at hold Radisson in suspicious activity are British citizen and bird watcher, they are doing research over them, if few steps ahead we could accept them as spy and for this motive they are in India and were sent by intelligence organization of any particular country.
But
If these suspected are not from Britain, they may be from Afghanistan, Pakistan or Bangladesh then they could be terrorist of Al Qaeda, Lashkar-e-Taiba, ISI or HUJI. If their name were Ramiullah, Karimullah instead of Steven and Stephan they could be mastermind of another 9/11 in India. Please mind the seriousness of my words, neither it is based on purely emotion and nor it is for protecting the people of a particular belief .I am writing this article only in the interest of my country and trying to grab the attention of citizen and government of India towards those that are evident.
It is rubbish….
They were interested to see the plans from close range that is why they chose to stay in hotel Radisson near Delhi airport, and from the windows of the hotel take of and landing of planes can bee seen and this hobby take them to the top floor of the hotel. These British citizen arrived Delhi from London Heathrow airport of Landon from where they take off for Delhi is one of the busiest airport of the world and here around 54 planes lands either take off or land per hour, it means they can notice a plane per minute that is either taking off or landing, they don’t have to take pain for this and came over to India, where per minute only 26 planes lands or take off, that is less than half.
Their second statement that they are doing research on birds and they did it earlier also. It is also rubbish…..It sky only in India? Are these birds can be seen only in India? Let’s accept this, than question arises why they were recording the conversation between ATC (Air Traffic Controller) and pilots of the planes. It ATS and pilots discuss during take off and landing about the birds, and listening all these are important for them. Along with this radar scanning equipment and high power binoculars are recovered from them. High power
Binoculars, camera and other equipment are helpful in obtaining details about air traffic and planes. Google map (Delhi airport) also recovered from their laptop. What is the relation of these equipment with research on birds , whereas police has recovered from them rater measuring the speed of the planes , and after all this we taking this matter so lightly , as nothing happened is this can be rule but that they are in India for a grave terror attack . London they arrived Delhi on 13 February 2010 from London and they have to return back to from here on 17 February 2010, this means that there stay in India was for 4 days, and in this period they remain (confined to) in their room and terrace of the hotel, and they always kept their attention on the windows and on terrace they kept watching only on the planes. Is this insisting as on to think seriously over it? If not at this stage, then please read the following lines and pay attention.
Our country witnessed a dangerous air accident on 12th November 1996 in Charkhi Dadri. To remind you this. I am giving you the detail of this incident in nutshell.


On 12th November 1996 midair collision between Kazakhstan’s Illynohim -76 and Saudi Airline’s Boeing 747 taken life of all 349 people boarding these two planes. This incident was witness over the sky of two villages Charkhi Dadri of Haryana. Investigation of this collision was done by Justice Lahoti. Lahoti Commission found that Kazakh airline employees were responsible for one of the worst accident of air history. Report of 200 pages was submitted to that time minister for will aviation. In this report it is mentioned that Kazakhstan’s pilot was coming down to his assign altitude of 15000 pt. and come on way to the Saudi Airlines. Saudi Airlines plane had take off form Delhi and moving towards Dhahran (Saudi Arabia).

Kazakhstan airlines counsel told the commission that plane stuck in to cumulus cloud and due to turbulence lower the altitude and ATC came to know around 16 minutes earlier about the possible collision between the planes but they (ATC informed the Kazakhstan pilot I us 48 seconds before the mishap. Saudi official told that the Kazakh Air Lines was not obeying the commands on ATC. Airports authority of India also put the responsibility of the collision on the Kazakhstan Air Lines. Saudi Airlines opined that this collision could be averted if the personnel at towers were appointed and equipment was mounted over in right way.

Airport Authority of India told that there was indiscipline inside the cockpit of the Kazakhstan Airlines plane and crew did not understand the communications in English and these were the reason why the plane was moving below the assigned altitude. They expressed story of weather turbulence is created, as there were no signed of bad weather either from metrology department or from the transmission signals.

Commission found that it was due to mistake of Kazakhstan’s airlines pilot as he was assign to be at the altitude of 15000 ft (4600m) but he was on 14500 ft (4400m) and later came to 14000 ft (4300m) and later on to lower altitude. Commission also came to know that due to lesser understanding of Kazakhstan Airlines Pilot about English, he disobeyed the commands given by ATC

And

Now I tell you about my doubt, which can be wrong, but if it comes true then imagine how dangerous it could be. If we accept it for few moment that they are two dreaded terrorist who were planning a disaster bigger than 9/11. Motive behind recording the conversation between ATC and pilots is that they succeeded in receiving the frequency at which they were communicating. In other words if the wish they could interrupt the workstation, can mis- communicate the conversation as it was happened in the case of Charkhi Dadri Accident. It may it was international or unintentional. They may give the wrong directions to the pilots in place of ATC, there could be a mid air collision, and they could decide the plane of any particular country, even they could decide with the help of Google map and equipments the place and altitude of the collision. By the way if their intentions were this much dangerous and disaster take place over the sky of Delhi then one can imagine it how dangerous it could be for our nation and if on later stage if was prove that this was similar attack on the line of 9/11 and a dreaded terror group like Al-Qaeda is behind this and motive as just enmity, then imagine what would happen? Please for give me for taking extra precautions, as we achieved our freedom after 190 years of slavery and paid bloods of our martyrs, we know it that’s why we can not give invitation for turning our self to slave again. We have to take note of every danger posed to our country and with all possible angles. We can not put our security in to perils just for relation with particular country.