مسلمان پھر مرکز نگاہ ہے۔ جی ہاں، عنقریب کوئی الیکشن نہیں، کم از کم اترپردیش میں تو نہیں، مگر مسلمانوں کے ووٹ کی خواہش مند پارٹیاں اور اشخاص نے مسلمانوں کو متوجہ کرنا شروع کردیا ہے۔ اچھا ہے، ووٹ بینک کے ناطے ہی سہی مسلمانوں کی اہمیت سیاستدانوں کی سمجھ میں آنے تو لگی۔ آج ووٹ کی اہمیت سمجھیں گے تو کل ان کے مسائل کی اہمیت سمجھنا ہی ہوگی۔ سیاستدانوں نے ایسا اشارہ بھی دینا شروع کردیا ہے کہ وہ ہمارے مسائل کو سمجھتے ہیں، ہمارے درد سے بے خبر بھی نہیں ہیں، شاید اسی لےے کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ، اعظم گڑھ اور سنجرپور کا دورہ کرتے ہیں تو ملائم سنگھ یادو ظاہری طور پر کچھ نہ سہی، مگر اندر ہی اندر مسلمانوں کے نزدیک جانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ امرسنگھ اپنی سیاسی حکمت عملی کے مرکز میں ٹھاکروں اور مسلمانوں کو ہی لے کر چل رہے ہیں۔ بی جے پی نے بھی اپنے موقف میں تبدیلی کا اظہار کیا ہے۔ کمیونسٹ پارٹیوں کی مغربی بنگال سرکار نے مرشدآباد اور کیرالہ سرکار نے بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا کیمپس قائم کرنے کے لےے کئی سو ایکڑ زمین دینے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی مسلم ریزرویشن کی مانگ کو تسلیم کرتے ہوئے عملی قدم اٹھایا ہے۔ نتیش کمار نے بھی کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا کیمپس قائم کرنے کے لےے زمین دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پی کے عبدالعزیز کے اعلان کے مطابق آسام سرکار نے بھی کیمپس کے لےے زمین دینے کی پیش کش کی ہے۔ سرسیداحمد کے ذریعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے، جب حکومتوں نے اس جانب توجہ دی ہے۔ ہم اس پیش رفت کو ایک خوش آئند پیغام تصور کرسکتے ہیں۔ ہاں، ابھی لفظ ’تسلیم کرسکتے ہیں‘ لکھنے میں ذرا جھجھک ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان ان سب میں سے کس کا انتخاب کرے، کس کی پیش رفت کو قبول کرے تو اس ضمن میں ابھی کچھ بھی لکھنا قبل ازوقت ہوگا اور صورتحال سے نظریں چرا لینا و خاموشی اختیار کرنا بھی مناسب نہیں ہوگا، لہٰذا جہاں تک میں سمجھتا ہوں، سرے سے نظرانداز تو کسی کو بھی نہیں کیا جائے۔ ہاں، مگر بھارتیہ جنتا پارٹی کے بیانات کو ان کے عمل کی کسوٹی پر پرکھنے میں ذرا وقت لگے گا۔ اب باقی بچی سیاسی جماعتوں میں کانگریس کا یہ دعویٰ ہوسکتا ہے کہ واحد ایک ایسی سیکولر پارٹی ہے ملک گیر پیمانہ پر، جو ہر جگہ مسلمانوں کو ساتھ لے کر چل سکتی ہے، وہ مسلمانوں کا درد بھی سمجھتی ہے اور وہ ان کے مسائل سے بے خبر بھی نہیں ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کا نفاذ اس کی اوّلیت میں شامل ہے۔ فروغ انسانی وسائل کے وزیر کپل سبل اپنے تعلیمی انقلاب میں اقلیتی طبقات کا خاص خیال رکھنے کا ذہن رکھتے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اقلیتی کردار تسلیم کرلیاجانا بھی زیرغور ہے، مگر یہ تمام باتیں ابھی وعدوں سے آگے کہاں بڑھی ہیں۔ پہلے یہ خوبصورت خواب حقیقت کا رنگ تو لے لیں،مگر ہاں اس سمت میں سوچنے کی گنجائش تو پیدا ہوئی ہے، اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اب رہا سوال ملائم سنگھ یادو کاتو کلیان سنگھ کے معاملہ میں انہیں اپنی غلطی کا شدید احساس ہوہی چکاہے اور اس بات کا یقین بھی کہ اگر مسلمان ان سے نظر پھیرلیتے ہیں تو پھر ان کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں کہ وہ اپنی سیاسی حیثیت کو برقرار رکھ سکیں۔ اگر وہ ایک بار پھر مسلمانوں کے نزدیک جانے کی کوشش کررہے ہیں تو خوش آمدید نہ کہیں، مگر ان کے نام پر دروازے بند کرلینے کا ماحول بھی اب نہیں ہے۔ ان کے وعدے قابل اعتبار ہیں یا نہیں، اس پر غور تو کیا جائے گا، مگر پہلے سن تو لیں کہ آخر اب وہ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ اگر ان کی وابستگی کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو وہ انہیں کس حد تک اہمیت اور ساجھیداری دینے کو تیار ہیں یہ سمجھنا ہوگا۔ جہاں تک امرسنگھ کا تعلق ہے، ابھی تک تو ان کی کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے، مگر وہ زمین تیار کرنے میں پوری سنجیدگی کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ ایک سیاسی پارٹی کھڑی کرنے کے لےے جتنے وسائل درکار ہوتے ہیں، وہ سب ان کے پاس ہیں۔ اسے کامیاب بنانے کے لےے جو ووٹ بینک درکار ہوتا ہے، اس سمت میں ان کی پیش رفت جاری ہے۔ سیاسی اعتبار سے امرسنگھ کے ماضی کو لے کر کوئی آخری رائے نہیں دی جاسکتی۔ اس لےے کہ جب تک وہ کانگریس کے ساتھ تھے، ان کا نظریہ کانگریسی تھا، جب تک وہ سماجوادی پارٹی کے ساتھ تھے، ان کا نظریہ سماجوادی تھا، لہٰذا کل ملاکر انہیں سیکولرزم کے زمرے میں تو رکھا ہی جاسکتا ہے، جب تک کہ فرقہ پرست طاقتوں کے ساتھ ان کی سیاسی وابستگی سامنے نہیں آتی۔ مسلمان ان کی ممکنہ سیاسی پارٹی کی مضبوط کڑی ثابت ہوسکتے ہیں، مگر کیا یہ ممکن ہے؟ کیا اس سمت میں غور کیا جاسکتا ہے؟ اس معاملہ میں بھی ’ہاں‘ یا ’نہ‘، یعنی فیصلہ کن نتیجے تک پہنچنے سے قبل ان کی پیش رفت کو سمجھنا ہوگا۔ انہیں کانگریس یا ملائم سنگھ کے زمرے میں ابھی نہیں رکھا جاسکتا، اس لےے کہ مسلمان اگر کانگریس کے ساتھ شامل ہوجاتا ہے تو اسے بہت فائدہ پہنچا سکتا ہے، اگر نہیں ہوتا ہے تو تھوڑا نقصان بھی پہنچا سکتا ہے، لیکن پارٹی کا وجود باقی رہتا ہے۔ اگر وہ ملائم سنگھ یادو کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو ملائم سنگھ یادو کی سیاسی حیثیت کو بہت وزن دار بنادیتا ہے۔ الگ ہوتا ہے تو بہت کمزور بنادیتا ہے اور اگر وہ امرسنگھ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہےں تو راتوں رات حالات بدل سکتے ہےں، لیکن امرسنگھ کا جس ووٹ بینک پر دعویٰ ہے وہ ٹھاکر برادری ہے، جو ہندوستان بھر میں تقریباً9فیصد ہے، یعنی 10کروڑ کے آس پاس، جبکہ مسلمان 18فیصد ہیں، یعنی 20کروڑ کے آس پاس، لہٰذا انہیں طے کرنا ہوگا کہ وہ مسلمانوں کو کیا حیثیت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جہاں تک ملائم سنگھ یادو کا تعلق تھا تو وہ مسلمانوں کو دوسرے نمبر پر رکھ سکتے تھے، اس لےے کہ پسماندہ طبقات کی آبادی ہندوستان میں تقریباً37فیصد ہے، یعنی مسلمانوں کی آبادی سے دوگنی۔ اب یہ الگ بات ہے کہ پسماندہ طبقات کی نمائندگی کرنے والے ملائم سنگھ یادو اکیلے کبھی نہیں رہے، ہاں مگر ایک لمبے عرصہ تک انہیں سیکولرزم کا علمبردار ضرور سمجھا جاتار ہا، جو مسلمانوں کو متوجہ کرنے کے لےے کافی تھا۔
مغربی بنگال اور کیرالہ میں کمیونسٹ پارٹیاں اگر برسراقتدار آتی رہی ہیں تو یہ مسلمانوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ مغربی بنگال کو بچانے کے لےے، نندی گرام کو بھلانے کے لےے، ممتابنرجی اور کانگریس کی مجموعی طاقت سے اپنی گدی بچانے کے لےے کمیونسٹ پارٹیوں کو اس سے بہت آگے جانا ہوگا، ورنہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لےے دیا گیا یہ زمین کا ٹکڑا تو ایک مثال کے اعتبار سے ’اونٹ کے منہ میں زیرے‘ سے بھی کم ہے۔نتیش کمار اپنے دوراقتدار کے آخری ایام میں ہیں۔ ایک طرف ان کے دامن پر بی جے پی سے الحاق کی بدنامی ہے (مسلمانوں کے نظریات کے مطابق) تو دوسری طرف بی جے پی کے ساتھ رہتے ہوئے بھی مسلمانوں کے ساتھ اچھے رشتے بنائے رکھنے کی نیک نامی بھی۔ کانگریس جس تیز طرف سے آگے بڑھ رہی ہے، اس سے نتیش کمار کا خوفزدہ ہونا یقینی ہے۔ اب لاکھ ٹکے کا سوال یہ بھی ہے کہ وہ آئندہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کے ساتھ جائیں گے یا پھر کوئی اور سیاسی حکمت عملی ان کے ذہن میں ہے۔
یقینا میرے قارئین اس وقت یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر میں سبھی کے مثبت پہلو سامنے رکھ رہا ہوں، کسی سے بھی نہ بے توجہی اختیار کرنے کی بات کررہا ہوں، نہ کسی کے بغل گیر ہوجانے کی صلاح دے رہا ہوں تو آخر میں سوچتا کیا ہوں اور پیغام کیا دینا چاہتا ہوں؟ تو عزیزانِ محترم! میرا حقیر سے مشورہ ہے کہ اب جذبات کی رو میں بہہ جانے سے کچھ نہیں ہوگا، وعدوں کے سبز باغ دکھائے جانے کا کوئی اثر نہیں ہوگا، خوبصورت خواب دیکھنے کا سلسلہ ہم نے چھوڑ دیا ہے۔
اب ہم حقیقت کی سنگلاخ زمین پر کھڑے ہیں، ہاں اگر سیاستداں چاہیں تو ہمیں اب بے مروت قرار دے سکتے ہیں۔ اب ہم سے محبت کی رو میں بہہ کر حمایت کی امید نہ رکھیں، اب تو پوری طرح مول تول کے ساتھ سیاسی حصہ داری کی بات کی جاسکتی ہے اور وہ بھی جس طرح سب کرتے ہیں، جو سیاسی بازار کا ایک تسلیم شدہ چلن بھی ہے، ’جس کی جتنی بھاگیداری اس کی اتنی حصہ داری‘۔پارلیمنٹ میں سرکار بنوانے میں شامل پارٹیوں کی وزارت میں دعویداری ان کے نمائندگان کے تناسب سے طے ہوتی ہے تو پھر پارلیمنٹ کے باہر اسی حکمت عملی پر غور کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ سب کے وعدے سنتے ہیں، سب کے ارادے دیکھتے ہیں، سب کی نیتوں کو پرکھتے ہیں، نہ کسی کا بائیکاٹ اور نہ کسی کا جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے کر چلنے کی ضرورت، ہم کسی کے لےے کسی سے دشمنی کیوں مول لیں؟ آپ آئے ہیں ہمارے دروازے پر اپنی بات کہنے کے لےے، چلئے سن لیتے ہیں، کیا کہنا چاہتے ہیں۔ فیصلہ اس وقت کریں گے، جب فیصلہ کی گھڑی آئے گی۔
No comments:
Post a Comment