Wednesday, February 24, 2010

پنے بم دھماکہ بھی کیا مالیگاوں....

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ چند روز سے میں نے اپنے لکھنے کے انداز میں کچھ تبدیلی کی ہے، پہلے ایک موضوع میرے سامنے ہوتا تھا اور اس موضوع کو سامنے رکھ کر مکمل مضمون قلمبند کرتا تھا۔ اکثروبیشتر انٹرنیٹ اور دیگر میڈیا کا مواد بھی میرے سامنے ہوتا تھا، تاکہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں اس کی بنیاد کیا ہے، ضرورت پڑنے پر یہ بھی سامنے رکھا جاسکے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوا کہ کسی اخبار کے مضمون نگار نے اسی موضوع پر ویسے ہی خیالات کا اظہار کیا تو میں نے اسے بھی شامل اشاعت کیا، لیکن ادھر چند روز سے تبدیلی یہ کی ہے کہ ذرائع ابلاغ پر موجود کوئی خبر میرے سامنے ہوتی ہے، پھر لفظ بہ لفظ اس خبرکو شائع کرنے کے بعد میں اپنی تحریر شروع کرتا ہوں۔ اس لحاظ سے آج کا دن کچھ خاص ہے۔ وہ اس لےے کہ آج نہ صرف خبر ذرائع ابلاغ سے ہے، بلکہ مضمون بھی ملک کے ایک مشہور انگریزی روزنامہ ”ہندو“ سے، وہ اس لےے کہ جو کچھ مجھے لکھنا تھا، کم و بیش وہی سب کچھ ”پروین سوامی“ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے۔ میں نے اس خبر اور مضمون کے حوالہ سے اپنے تاثرات کی شکل میں چند سطریں لکھنے کے لےے قلم اٹھایا ہی تھا کہ ’ارم ڈگری کالج‘ لکھنوکے اس استقبالیہ جلسہ میں نظامت کے فرائض انجام دے رہے مسعودحسن عثمانی صاحب کے جملے میرے کانوں میں گونجنے لگے۔ انہوں نے ابتدائی تقریر کے دوران کہا تھا کہ ”جانے وہ وقت کب آئے گا کہ ہر روز عزیز برنی کو ایک مکمل صفحہ کا مضمون لکھنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔“ یہ ان کی دعا تھی یا خواہش یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، مگر خوشی اس بات کی ہے کہ ان کی زبان سے نکلے یہ الفاظ بارگاہِ رب العزت میں اس قدر جلد قبول کرلےے گئے کہ دہلی واپسی کے بعد دو روز کے اندر ہی یہ کرشمہ ہوگیا کہ جو کچھ میں لکھنے کی کوشش کرتا رہا ہوں، وہ اب مجھ سے بھی بہترانداز میں میرے ہم وطن قلمکار لکھ رہے ہیں۔ مشہور صحافی کلدیب نیر نے مختلف اخبارات کے ادارتی صفحہ کے لےے آج جو مضمون لکھا ہے، وہ بیشک میرے دل کی آواز ہے۔ انشاءاللہ میں اپنی کل کی تحریر میں اس کا حوالہ پیش کروں گا اور آج بھی جب میں پونے بم دھماکوں کے تعلق سے منظرعام پر آئی تازہ خبر کو سامنے رکھ کر اپنے تاثرات بیان کررہا تھا تو یہ خبر کسی ایک اخبار میں نہیں، بلکہ 8اخبارات کی فہرست تو میرے سامنے ہے، جنہوں نے اس خبر کو شامل اشاعت کیا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ تمام اخبارات میری نظر سے گزرگئے ہوں، ظاہر ہے اور بھی متعدد اخبارات و الیکٹرانک میڈیا نے اس خبر کو شائع کیا ہوگا۔ یعنی اب ہم یہ امید کرسکتے ہیں کہ ’منظر بدل رہا ہے‘، مطلب یہ نہیں کہ دوسرے نام اور چہرے سامنے آرہے ہیں، بلکہ یہ کہ ایک حد تک غیرجانبدارانہ انداز میں خبریں سامنے آنے لگی ہیں، مضامین اور تجزےے پیش کےے جانے لگے ہیں،لہٰذا اب دہشت گرد، وہ چاہے جو بھی ہو یہ امید نہیں کرسکتا کہ وہ گرفت میں نہیں آئے گا۔ میڈیا کا دباوو غیرجانبدارانہ تفتیش حقائق کو منظرعام پر لائے گی تو یہ ہوگا ہی، اب یہ الگ بات ہے کہ کچھ وقت اور لگ جائے۔ بہرحال اتنا تو ہوا کہ امید جگی....۔
دھماکے میں ہندو تنظیموں پر شبہ
پنے جرمن بیکری دھماکے میں سرحد پار کی سازش کے ساتھ ہی ہندو وادی تنظیم ابھینو بھارت پر بھی نظر رکھی جارہی ہےhttp://epaper.hindustandainik.com
ممبئی(خصوصی نمائندہ):پنے کی جرمن بیکر ی میںدھماکے میں ہندو وادی تنظیموں کے رول پر بھی شک کی سوئی گھوم رہی ہے۔ مہاراشٹر حکومت کے ایک سینئر افسر نے کہا ہے کہ تفتیش کے دائرے میں ہندو تنظیم بھی ہے۔
ان کی مانیں تو اس دھماکے میں سرحد پار کی سازش کے ساتھ پنے کی ہندووادی تنظیموں کے کردار پر بھی نظر رکھی جارہی ہے۔ پنے کی جس ہندووادی تنظیم
کا ذکر کیا جارہا ہے، اس میں ابھینو بھارت کا نام سامنا آیا ہے۔ واضح رہے کہ 29ستمبر 2008کو مالیگاﺅں دھماکے سے ابھینو بھارت کا نام جڑا تھا۔ اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ کرنل شری کانت پروہت اور سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر سمیت کئی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ تھانے اور گوا کے بم دھماکوں میں سناتن پربھات نامی تنظیم کا نام سامنے آیا تھا۔ مانا جاتا ہے کہ ان تنظیموں کو ہندوتو واد کے نام پر ریاست میں علاقائی سیاست کرنے والی ایک سیاسی جماعت کا تعاون حاصل ہے، اس لئے اس پر بھی نظر رکھی جارہی ہے۔ ابھینو بھارت کی سربراہ ہمانی ساورکر ہیں جو مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کے بھائی گوپال گوڈسے کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پنے دھماکے میں حکومت اپنی ناکامی چھپانے کے لئے بغیر ثبوت کے ابھینو بھارت کا نام لے رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت میں بیٹھے ذمہ دار لوگ غیر ذمہ دارانہ بیان دے کر ابھینو بھارت کے خلاف لوگوں میں غلط فہمی پیدا کررہے ہیں۔ دوسری جانب عوامی بھارت نامی تنظیم کے فیروز میٹھی بور والا نے پنے دھماکے میں ابھینو بھارت کے کردار کی تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پنے جانچ ہندو دہشت گردی کی جانب
دی ہندو“ (19-02-10)-پروین سوامی
جانچ کرنے والے جہادی گروپ پر توجہ دے رہے ہیں، لیکن کچھ لوگوں کو خدشہ ہے جرمن بیکری دھماکے میں ہندوتو گروپ شامل ہوسکتا ہے۔
نومبر 2008میں جب لیفٹیننٹ کرنل پرساد شری کانت پروہت مالیگاﺅں مسجد بم دھماکے کے الزام میںناسک کورٹ میں آیا تھا تب ہندوتو سے جڑے کارکنوں نے اسی باغی فوجی افسر پر گلاب کے پھول برسائے تھے۔ پچھلے ہفتے پنے کی جرمن بیکری میں ہوئے بم دھماکے سے ابھی نوبھارت کی بدصورت کہانی سامنے آئی اور اسی تنظیم کو پایا گیا کہ پروہت نے مدد کی تھی۔ ناسک میں سنوائی شروع ہونے کے کچھ دنوں بعد ہی ممبئی میں قتل وغارت گری ہوئی اور اسی کے بعد گمنامی سے اس کی واپسی ہوئی۔
دائیں بازو سے نجی طور پر ہمدردی رکھنے والے ہندو کہہ رہے ہیں کہ بم دھماکے پروہت اور اس کے ہندو دہشت گردانہ پروجیکٹ اخلاقی طور پر درست ہےں۔ تاہم پولس نے دو درجن سے زائد مسلم نوجوانوں کو پوچھ گچھ کے لئے حراست میں لیا ہے، جبکہ کچھ لیڈرس یہ دلیل دے رہے ہیں کہ بیکری پر حملہ کسی ہندو نواز گروپ کے ذریعہ آسانی سے کیا گیا ہوہوسکتا ہے۔
تنازع کا حصہ اس لئے ہے کہ ابھینوبھارت کی دہشت گردانہ مہم میں مشتبہ طور پر ملوث افراد کبھی پکڑے نہیں گئے۔ جتن چٹرجی جو اپنے عرف سوامی اسیمانند سے مشہور ہیں، جو گجرات کے آدی واسی (قبائلی) علاقے میں چھپا ہوا مانا جاتا ہے، جہاں یہ تبدیلی مذہب کی ہندوتنظیم چلا رہا ہے۔ رام نرائن کالسانگرہ، جو ابھینوبھارت کا سب سے ماہر بم بنانے والا ہے، یہ بھی فرار ہے۔2006کی گرمیوں میں ابھینوبھارت کا قیام تعلیمی ٹرسٹ کے طورپر کیا گیا اور مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کے بھائی گوپال گوڈسے کی بیٹی ہمانی ساور کر اس کی صدر بنی، لیکن مہاراشٹر حکومت کے وکیلوں کی جانب سے داخل دستاویز بتاتے ہیں کہ جلد ہی گروپ کے اراکین ہتھیار بند کارروائی کی بحث میں ملوث ہوگئے۔ پروہت پر الزام ہے کہ جون 2007میں اس نے مشورہ دیا کہ وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گردانہ حملوں کے ذریعہ نشانہ بنایا جائے، جس سے ابھی نوبھارت کے دوسرے لوگوں نے انکار کردیا۔
لیکن پولس کے ذریعہ یکجا کئے گئے ثبوت ظاہر کرتے ہیں کہ گروپ کے اندر کئی اس مشورہ پر عمل کی راہ پر لگنے کا ارادہ کرچکے تھے۔ اپریل 2008میں ایک میٹنگ کے دوران مدھیہ پردیش کی ہندوتو کارکن پرگیہ سنگھ ٹھاکر، جموںکے مذہبی رہنما سدھاکر دویدی جو امرتانند دیو تیرتھ کے نام سے مشہور ہیں۔ پروہت سے ملے تاکہ مالیگاﺅں سازش کو انجام دیاجاسکے۔ اس کے لئے دھماکہ خیز اشیا پروہت نے حاصل کی اور اگست 2008میں کالسانگرہ کے سپرد کیں۔
ابھینوبھارت کا طویل مدتی مقصد، مسلمانوں کو نشانہ بنانے سے آگے تک گیا۔ اس کے اراکین ہندوستانی حکومت کو اکھاڑ پھینکنا چاہتے تھے تاکہ ٹوٹلی ٹیرین مذہبی حکومت کا قیام کیا جاسکے۔ ابھینوبھارت کے ذریعہ بنایا گیاآئین ایک پارٹی سسٹم کی وکالت کرتا ہے جس کی قیادت ایک لیڈر کرے گا اور سبھی بغیر اختیار کے اور سوال کئے بغیر اس کے تابع رہیں گے۔ یہ خاص ذہنیت کی تعلیم کی اکادمی بنانے کی بھی بات کرتا ہے۔ اختتامی رائے کافی سخت ہے ’جن افراد کی رائے ہندو راشٹر کو نقصان پہنچانے والی ہو ان کو قتل کردیا جائے۔“
ہندوتو کے نظریہ پر مبنی ملک کے قیام کا پروہت کا منصوبہ اکثر خیالی تھا۔وکلا کہتے ہیں کہ اس نے دعویٰ کیا کہ اس کی 2006اور 2007میں نیپال کے راجہ سے ملاقات طے ہوئی تھی تاکہ ہندوتو ریولوشن کے لئے حمایت حاصل کرسکے۔ اس نے آگے بتایا کہ وہ ابھی نوبھارت کے کیڈر کو تربیت دینے کے لئے تیار تھے اور اسالٹ رائفل مہیا کرانے کے لئے بھی۔ اس نے بتایا کہ اسرائیل کی حکومت اس کے ممبران کو فوجی مدد اور ضرورت پڑنے پر سیاسی پناہ دینے کو تیار تھی۔
کئی لوگوں کا یقین ہے کہ ابھی نوبھارت نے کئی دھماکے کئے ہیں، جس کا الزام جہادی گروپ پر آیا۔ ان میں مئی 2007میں حیدرآباد کی مکہ مسجد میں دھماکہ اور اس کے بعد اجمیر کی مشہور درگاہ پر ہوئے حملوں کو شامل کیاجاسکتا ہے۔ ابھینوبھارت کے کیڈر سے لگاتار پوچھ گچھ کے باوجود جانچ کرنے والے اس کو حملوں سے جوڑنہیں پائے ہیں۔
معاملہ اس حقیقت سے اور پیچیدہ ہوگیا کہ کئی کارروائیاں جن سے ابھینوبھارت کو جوڑا گیا، اس سے گروپ کا کچھ بھی لینا دینا نہیں تھا۔ تاہم اس کے کئی بڑے لیڈر حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ مثال کے لئے پروہت نے اپنے ساتھیوں سے دعویٰ کیا کہ حملہ دیواس کے ہندوتو وادی دہشت گرد سنیل جوشی نے کیا، جس کا قتل دسمبر 2007میں ہوگیا تھا، لیکن امریکہ کے ٹریزری ڈپارٹمنٹ نے بعد میں حملے کی مالی مدد کرنے کے الزام میں طالبان اور القاعدہ کے نزدیکی اور لشکر طیبہ کے کراچی کے جہادی عارف کا سمانی پر پابندیاں عائد کی تھی۔
اس سال جنوری میں پاکستان کے وزیر برائے داخلہ رحمن ملک نے اس سے بھی آگے جاتے ہوئے قبول کیا کہ ’سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کے لئے پاکستان کے کچھ جہادیوں کو بھاڑے پر لیا گیا تھا۔‘ہال ہی میں ہندو نواز دہشت گردانہ حملے کو دیکھتے ہوئے گزشتہ سال گوا میں ہوئے دھماکوں کی طرح یہ واضح نہیں ہے کہ کیا ان کے پاس جس طرح کا حملہ پنے میں ہوا، کو کرنے کی طاقت ہے۔ کچھ تفتیش کاروں کا یقین ہے کہ تنظیم نے یا دوسرے ہندوتو سیل نے کارروائی کو انجام دیا ہے۔ مہاراشٹر پولس کا ایک افسر جو ہندوتو اور جہادی حملوں کی جانچ میں شامل رہا ہے، کا کہنا ہے کہ ”پھر بھی، کوئی تعجب نہیں، اگر کوئی....“؟
اس بات کے اشارے ہیںکہ جرمن بیکری حملے کے معاملے کی جانچ میں وقت لگے گا۔ شک کی بنیاد پر جانچ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ کلوز ڈسرکٹ ٹی وی کیمرہ میں درج تین افراد نے دھماکے سے قبل ایک میٹنگ کی تھی، ویڈیو ٹیپ سے یہ واضح نہیں ہے کہ ان افراد کا دھماکوں سے کچھ تعلق ہے یا نہیں۔ جانچ میں جتنا وقت لگے گا سازش کی تھیوری اور اندازہ بھی اتنے ہی آئیں گے اور اس سے فرقہ وارانہ درار جو دھماکے بعد سے مزید کھل گئی اور بھی بڑھے گی۔

1 comment:

hamza said...

?????????????????????
kya phir janch ko galat raste par bheja ja raha hai


पुणे की जर्मन बेकरी रेस्टोरेंट में 13 फरवरी को हुए बम विस्फोट की जिम्मेदारी प्रतिबंधित संगठन इस्लामिक मूवमेंट ऑफ इंडिया (सिमी) और इंडियन मुजाहिदीन ने ली है। यह जानकारी पुणे के पुलिस आयुक्त सत्यपाल सिंह ने बुधवार को दी। इस विस्फोट में 16 लोगों की मौत हो गई और 50 से ज्यादा घायल हुए थे। उन्होंने संवाददाताओं को बताया कि उन्हें इससे संबंधित दो पत्र प्राप्त हुए हैं। यह पत्र संभवत: इन्हीं दोनों संगठनों से आए हैं, हालांकि उन्होंने अपने नामों का जिक्र नहीं किया है। इस बीच एक घटनाक्रम में एक आतंक निरोधी अदालत ने विस्फोट स्थल के दृश्यों को प्रसारित करने के लिए इलेक्ट्रोनिक मीडिया पर रोक लगाने का एक आदेश पारित कर दिया। पुलिस के एक वकील ने अदालत से कोर्ट से आग्रह किया था कि घटनास्थल के फुटेज का प्रसारण जांच को प्रभावित कर रहा है।