Monday, August 11, 2008

) اگست کرانتی 9اگست 1942
سے یوم آزادی 2008ءتک )
کانگریس کے لوگوں میں تقسیم کے سب سے بڑے حامی سردار پٹیل تھے!

(مولانا ابوالکلام آزاد کے ذریعہ بیان کردہ تقسیم کا المیہ)

ہندوستان کی تقسیم

1۔ 14اگست کو لارڈ ماﺅنٹ بیٹن قیام پاکستان کا افتتاح کرنے کے لےے کراچی گئے اور دوسرے دن وہاں سے واپس آئے اور15اگست1947کو رات کے بارہ بجے ہندوستانی اقتداراعلیٰ کا جنم ہوا۔
انگریزوں کے خلاف جب آزادی کی جنگ شروع ہوئی تو ہندوستان اور پاکستان الگ الگ ملک نہیں تھےہندوستان نے انگریزوں کی غلامی سے جب نجات حاصل کی تب بھی ہندوستان اور پاکستان الگ الگ ملک نہیں تھے ،صرف ہندوستان تھا۔یعنی انگریزوں کے خلاف جنگ ہندوستان نے جیتی تھی۔غلامی سے نجات ہندوستان نے حاصل کی تھی۔مگر ؟

ہندوستان نے آزادی حاصل کر لی ۔انگریز ملک چھوڑ کر چلے گئے۔مگر ابھی ایک انگریز ہندوستان میں باقی تھا اور شائد وہ ایک انگریز بھی اس قدر طاقتور تھا یا ہماری کمزوری نے اسے اتنا طاقتور بنا دیا تھا کہ وہ ہماری کامیابی کو ناکامی میں بدل سکتا تھا۔آزادی مل جانے کے باوجود ہمیں خوشیوں سے محروم کر سکتا تھا۔ہمارے لبوں پر تبسم آنے سے پہلے ہماری آنکھوں سے آنسوﺅں کی شکل خون کے دریا بہا سکتا تھا۔وہ ہمارے جسم کے دو ٹکڑے کر سکتا تھا۔بھائیوں کو بھائیوں سے جدا کر سکتا تھا۔انہیں آپس میں ایک دوسرے کا خو ن کرنے پر آمادہ کر سکتا تھا اور وہ شخص تھا لارڈ ماﺅنٹ بیٹن۔

اوپر کی سطروں میں جہاں سے مضمون کی شروعات ہوئی ،مولانا آزاد نے اپنی کتاب ”انڈیا ونس فریڈم“میں تقسیم وطن کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ 14 اگست کو لارڈ ماﺅنٹ بیٹن قیام پاکستان کا افتتاح کرنے کے لئے کراچی گئے اور دوسرے دن وہاں سے واپس آئے اور 15اگست 1947ءکو رات کے بارہ بجے ہندوستانی اقتدار اعلیٰ کا جنم ہوا۔میرے ذہن میں بار بار یہ خیال آرہا ہے کہ وطن ہندوستان توانگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا تھا، اگر ملک کے دوٹکڑے کرنے کا فیصلہ بھی اس وقت کے بر سر اقتدار سیاستدانوں کی اکثریتی رائے سے ہو گیا تھا تو بھی جشن آزادی پہلے ہندوستان میں کیوں نہیں؟ہندوستان کی کوکھ سے جنمے پاکستان میں کیوں؟

کیا لارڈ ماﺅنٹ بیٹن ارادتاً مذہبی تعصب کو جنم دے کر اس قتل و غارت گری کی راہیں ہموار کر رہے تھے جن کا اندازہ انہیں ہندوستان پر 190برس تک اپنے تسلط کے دوران ہو گیا تھا اور اگر اس طرح دیکھا جائے تو لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی چال کامیاب ہوئی۔ہمیں نہ صرف یہ کہ 15اگست کی آدھی رات تک اپنی آزادی کے اعلان کا انتظار کرنا پڑا اور وہ بھی اس شکل میں کہ جب لارڈ ماﺅنٹ بیٹن پاکستان میں آزادی کا پرچم لہرا کر ہندوستان واپس لوٹیں گے اور ہماری پارلیمنٹ میں ہمارے اقتدار اعلیٰ سے خطاب فرمائیں گے۔اس کے بعد کہیں ہندوستان میں آزادی کے جشن کی باری آئیگی۔اس کے بعد مولانا آزاد لکھتے ہیں کہ

2۔ملک اب آزاد تھا لیکن اس سے قبل کہ یہاں کے لوگ اس آزادی اور کامیابی کا پوری طرح لطف لیتے، صبح آنکھ کھلتے ہی انہوں نے پایا کہ آزادی اپنے ساتھ ایک بڑی پریشانی لے کر آئی ہے۔ ہمیں یہ بھی علم ہوا کہ ہمیں آزادی کا لطف حاصل کرنے اور آرام سے پہلے ابھی ایک لمبا اور مشکل سفر طے کرنا ہے۔

یعنی اگلی صبح ہوا وہی جو لارڈ ماﺅنٹ بیٹن چاہتے تھے ۔یعنی ایک انگریز نے اپنی زہریلی آنکھوں سے جو نظارہ پہلے ہی دیکھ لیا تھا اب وہ ہمارے سامنے تھا۔طلوع آفتاب کے وقت سورج کی کرنیں جب ہندوستان کی زمین پر پڑیں تو وہاں کوئی خوشی کا نظارہ نہ تھا ۔بلکہ سڑکوں پر بہتا ہوا ہندوستانیوں کا خون تھا۔یعنی آزاد ملک نہیں ہوا تھا۔آزادی ملی تھی ان ہندوستانی سیاستدانوں کو جنھوں نے آدھی رات کے وقت ایک انگریز لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی افتتاحی تقریب کے بعد حکومت اپنے ہاتھوں میں آجانے کا جشن منایا تھا۔ لیکن ہندوستانیوں کے لئے یہ دن خوشی کا دن نہیں تھا اور اس حقیقی منظر نامے نے ہندوستانی حکمرانوں کو سمجھا دیا کہ آزادی کا لطف حاصل کرنے کےلئے ابھی انھیں لمبا اور خار دار سفر طے کرنا ہے۔وہ سب تو ہمیں منجھدار میں چھوڑ کر چلے گئے۔

ہم ہندوستانی آج بھی انہےں خار دار راہوں پر چلتے چلتے اپنا خون جگر بہانے کو مجبور ہیں۔میں پھر آتا ہوں مولانا آزاد کی کتاب کی جانب
3۔کانگریس اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نے بھی بٹوارے کو قبول کرلیاتھا کیوں کہ کانگریس پورے ملک کی قیادت کرتی تھی اور مسلم لیگ کو مسلمانوں کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل تھی۔ اس کا عام طور پر مطلب یہی تھا کہ پورے ملک نے بٹوارے کو قبول کرلیا تھا جب کہ حقیقی صورتحال اس سے قطعی مختلف تھی۔ جب ہم لوگ تقسیم سے ذرا قبل اور اس کے بعد ملک کی جانب دیکھتے ہیں تو ہم پاتے ہیں کہ اس بٹوارے کی قبولیت کانگریس کی ایگزیکٹیوکمیٹی کی تجویز اور مسلم لیگ کے رجسٹر تک ہی محدود تھی۔ ہندوستان کے لوگوں کو یہ بٹوارہ قبول نہیں تھا۔ درحقیقت ان کا دل اور ان کی روح اس تجویز کے خلاف تھی۔

اقتدار سے وابستہ لوگ سمجھتے تھے کہ کانگریس پورے ملک کی قیادت کرتی تھی اور مسلم لیگ مسلمانوں کی ۔اور اگر ان دونوں پارٹیوں نے بٹوارے کو تسلیم کر لیا تو پورے ملک کا عوام بھی اسے تسلیم کر لیگا۔لیکن حقیقت کیا تھی۔نا ہندوستان کے ہندو اور سکھوں کو یہ بٹوارہ منظور تھا اور نا مسلمانوں کو ۔ٹھیک ہی لکھا مولانا آزاد نے ’قبولیت کانگریس کی ایکزیکیٹیو کمیٹی کی تجویز اور مسلم لیگ کے رجسٹر تک ہی محدود تھی‘تقسیم وطن کا سچ یہی تھا ۔ساٹھ برس پہلے بھی اور آج بھی۔چلئے پھر چلتے ہیں مولانا آزاد کی طرف ۔اب وہ آپ سے مخاطب ہیں

4۔میں کہہ چکا ہوں کہ مسلم لیگ کو بہت سارے ہندوستانی مسلمانوں کی حمایت حاصل تھی مگر مسلم سماج میں بہت بڑا حصہ تھا جس نے ہمیشہ لیگ کی مخالفت کی تھی۔ ملک کی تقسیم کے فیصلے سے وہ لوگ اخلاقی طور پر الگ تھلگ پڑ گئے۔ ہندو اور سکھ ان لوگوں میں تھے جو بٹوارے کی مخالفت میں متحد تھے۔ کانگریس کے منصوبہ کو قبول کرنے کے باوجود ان کی مخالفت کو تھوڑا بھی کم نہیں کیا جاسکا اور پھر جب بٹوارہ ایک سچ بن گیا، تو وہ مسلمان بھی جو مسلم لیگ کے حق میں تھے، اس کے نتیجے سے خوفزدہ ہوگئے اور انہوں نے کھلے عام کہنا شروع کردیا کہ بٹوارے سے ان کا مقصد یہ نہیں تھا۔

یعنی مولانا آزاد نے اس دور کے سچ کو ایک تاریخی دستاویز کی شکل میں ہمارے سامنے رکھ دیا کہ وہ تقسیم وطن ایک فریب تھا ۔اس وقت کے سیاست دانوں کا اور اس میں شامل تھے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن بھی۔ بٹوارہ نہ ہندوستان کا ہندو چاہتا تھا، نہ مسلمان چاہتا تھا اور نہ سکھ چاہتا تھا۔رفتہ رفتہ دس برس گزر گئے۔مولانا آزاد سب کچھ اپنی نگاہوں سے دیکھتے رہے اور پھر لکھا

5۔دس سال بعد بھی حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس وقت جو میں نے کہا تھا اسے حالات نے صحیح ثابت کردیا۔ میرے سامنے اس وقت بھی صاف ظاہر تھا کہ کانگریس کے لیڈروں نے اس بٹوارے کو کھلے اور آزادذہن سے قبول نہیں کیا ہے۔ کچھ نے اس کو ناراضگی اور غم و غصہ میں قبول کیا اور کچھ لوگوں نے ناامید ہوکر۔ انسان جب بے عزتی اور خوف سے متاثر ہوتا ہے تو حقیقت میں صحیح اندازہ نہیں لگاپاتا۔ تقسیم کے حامی جو خواہش کے دباﺅ میں کام کررہے تھے،وہ اس حقیقت کو کیسے سمجھ سکتے تھے۔

مولانا آزاد کا تجزیہ کتنا درست تھا ،دس سال بعد یہ ان کی زندگی میں ہی واضح ہو گیا ۔مگر کہیں کہیں ان کا معصوم ذہن بھی برسراقتدار لوگوں کے ذہن کو پڑھنے میں فریب کھاتا نظر آتا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ کانگریس کے لیڈروں نے اس بٹوارے کو کھلے اور آزاد ذہن سے قبول نہیں کیا،کچھ نے اس کو ناراضگی اور غم و غصہ میں قبول کیا تو کچھ لوگوں نے نا امید ہو کر۔انسان جب بے عزتی اور خوف سے متاثر ہوتا ہے تو حقیقت میں صحےح اندازہ نہیں لگا پاتا ہے۔انگریزوں کی غلامی سے نجات پانے کے بعد کانگریس کے لیڈران کا ذہن آزاد کیوں نہیں تھا؟اب ان کو ناراضگی کس سے تھی؟ غم کس بات کا تھا؟ اور غصہ کس پر؟نا امیدی کی وجہ کیا تھی؟

اور وہ امید کیا تھی جو نا امیدی میں بدل گئی؟پھر ان کا یہ جملہ کس کے لئے تھا کہ انسان جب بے عزتی اور خوف سے متاثر ہوتا ہے تو حقیقت کا وہی اندازہ نہیں لگا پاتا۔انگریز تو ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔ان کی غلامی سے تو آزادی مل چکی تھی۔صرف بچے ایک لارڈ ماﺅنٹ بیٹن توان سے کوئی ناراض نہیں تھا۔سب انھیں اپنے مسےحا کی نظر سے دیکھتے تھے۔پھر یہ بے عزتی اور خوف کس کو کس سے تھا؟کیا پنڈت جواہر لا ل نہرو اور سردار پٹیل کو محمد علی جناح اور لیاقت علی خان سے یا اس کے الٹ محمد علی جناح اور لیاقت علی کو نہرو اور پٹیل سے ۔ہندوستانیوں کی امید تو آزادی کے ساتھ ہی پوری ہو گئی۔اب ان کی نا امیدی کا تو سوال ہی نہیں۔وہ ناراض تھے انگریزوں سے ۔ان کے غم و غصہ کی وجہ بھی فرنگیوں کا ظلم تھا۔یہ سب وجوہات جب ختم ہو گئیںتو عام ہندوستانیوں کی ناامیدی ،غم و غصہ سب کچھ ختم ہو گیا۔تو کیا مولانا آزاد کھل کر نہیں لکھ رہے؟

مگر ان کا اشارہ انہیں اقتدار کی چاہت رکھنے والوں کی جانب تھا اور حقیقت کاصحےح اندازہ نہ لگا سکنے والی بات انہیں دو لوگوں کے لئے لکھی گئی،جو بعد میں ہندوستان اور پاکستان کے حکمراں بنے۔بہر حال ابھی اور آگے چلتے ہیں،مولانا آزاد اب کس راز سے پردہ اٹھاتے ہیں

6۔کانگریس کے لوگوں میں تقسیم کے سب سے بڑے حامی سردار پٹیل تھے حالانکہ انہیں یقین نہیں تھا کہ بٹوارہ ہندوستان کی پریشانی کا سب سے عمدہ حل ہے۔ انہوں نے بٹوارے کے حق میں اپنا فیصلہ غصہ اور زخمی دل کے ساتھ دیا۔ انہوں نے اپنی ہر تجویز کو لیاقت علی خان کے فائنانس منسٹر کے طور پر ویٹو کےے جانے سے اپنے آپ کو دلبرداشتہ محسوس کیا۔ غم و غصہ کے ساتھ انہوں نے فیصلہ لیا کہ اگر کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے تو بٹوارہ ہی قبول کرلیا جائے۔ انہیں یہ بھی یقین تھا کہ پاکستان کی نئی ریاست اصولی نہیں ہے اور یہ زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتی۔

وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کو تسلیم کرنا مسلم لیگ کو ایک کڑوا سبق سکھا دے گا۔ پاکستان بہت کم وقت میں بکھر جائے گا اور وہ علاقے جو ہندوستان سے علیحدہ ہوئے ہیں انہیں متعدد ناقابل بیان دشواریوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سردار پٹیل کو یہ بھی امید تھی کہ وہ لوگ ہندوستان لوٹنے پر مجبور ہوں گے۔ میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ مسلم لیگ کے خلاف ان کی دلیل اتنی مضبوط تھی کہ انہیں اس کا افسوس نہیں تھا کہ وہ مسلمان جو لیگ کے حامی تھے ان کو مشکلات اٹھانی پڑیں گی۔ ملک کی تقسیم کے بارے میں لوگوں کے عمل کا صحیح علم 14اگست1947کو ہوا جب آزاد پاکستان کا جنم ہوا۔

لیجئے یہ کیا غضب کیا ۔ ساٹھ برس پہلے کا سچ پچاس برس پہلے مولانا آزاد نے لکھ دیا کہ کانگریس میں تقسیم کے سب سے بڑے حامی سردار پٹیل تھے۔تعجب ہے آج ان کی سوچ پر عمل پیرا ہی سب سے زیادہ پاکستان کے وجود سے نالاں ہیں۔کیا اس لئے کہ سردار پٹیل کے قیاس غلط ثابت ہوئے۔وہ سوچتے تھے کہ پاکستان اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا،وہ ٹوٹ کر بکھر جائے گااور یہ ٹوٹے بکھرے غمزدہ لوگ رحم کی بھیک مانگنے پھر ہندوستان چلے آئیں گے۔ایسا ہو جاتا تو شاےد ان کے نقش قدم پر چلنے والے خوش رہتے۔مگر افسوس کہ ایسا نہ ہواکاش ایسا ہو جاتا ۔پاکستان ہندوستان میں ضم ہو جاتا ۔بہر حال اس پر تبصرہ بعد میں ۔ابھی تو بات سردار پٹیل کی ہے۔انھوں نے یعنی سردار پٹیل نے اپنی ہر تجویز کو لیاقت علی خان کے فائنانس منسٹر کے طور پر ویٹو کئے جانے سے اپنے آپ کو دل برداشتہ محسوس کیا اور غم و غصہ کے ساتھ یہ فیصلہ لیا۔

عجیب بات ہے۔سردار پٹیل جن کے ساتھ ملک کی اکثریت تھی۔بحےثےت ہوم منسٹر ،پولس اور انتظامیہ ان کے اشاروں کا منتظر رہتا تھا اور وہ وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو ہی نہیں مہاتما گاندھی کو بھی نظر انداز کر دینے کا حوصلہ رکھتے تھے۔آخر وہ لیاقت علی خان کے فائنانس منسٹر ہو جانے پر اتنے بے بس کیوں تھے؟ آخر ان کے اس قدر غم و غصہ کی وجہ کیا تھی؟ یہ سوال انتہائی اہم اور قابل غور ہے ۔آپ کے لئے بھی اور سردار پٹیل کے چاہنے والوں کے لئے بھی ۔ سوچئے آپ سب بھی ۔ سلسلہ جاری رہیگا۔باقی کل اور اس وضاحت کے لئے بھی تھوڑا انتظار کہ سردار پٹیل نے کب کب اور کن مواقعوں پر وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور آزادی کے مسیحا مہاتما گاندھی کو نظر انداز کیا۔
جاری

No comments: