(اگست کرانتی 9اگست 1942
سے یوم آزادی 2008تک)
مہاتما گاندھی سردار پٹیل کے رویہ سے خوش نہیں تھے
مولانا ابولکلام آزاد کی تاریخی تصنیف ”انڈیا ونس فریڈم“ میں درج جن تاریخی واقعات کا ذکر کل کی اس تحریر میں کیا گیا تھا اس سے واضح ہوتا ہے کہ سردار پٹیل کا دماغ اس وقت کس طرح کام کر رہا تھا۔ہمارے اس سلسلہ وار مضمو ن کی گذشتہ قسطوں میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ لیاقت علی کے فائنانس منسٹر بنائے جانے پر سردار پٹیل نے کس طرح اپنے آپ کو بے بس محسوس کیا اور انتہائی بے زاری کے عالم میں پاکستان کے قیام پر رضامندی کا اظہار کر دیا۔
یعنی وہ سردا رپٹیل جو ابھی کچھ وقت پہلے لیاقت علی خان کے فائنانس منسٹر بنائے جانے پر خود کو اس قدر بے بس محسوس کر رہے تھے کہ وہ اپنے موقف کا نا تو اظہار کر سکتے تھے اور نا ہی اوروں کو رضا مند کر سکتے تھے۔وہی سردار پٹیل تقسیم وطن کے اعلان کے بعد اس قدرطاقتور نظر آتے ہیں کہ ملک کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو آزادی کے مسیہا مہاتما گاندھی اور وزیر تعلیم مولانا ابولکلام آزاد سب ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔
حتیٰ کہ ملک کا انتظامیہ اور پولیس بھی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے مقابلے سردار پٹیل کے احکامات کو زیادہ توجہ دیتی ہیں۔صورت حال میں دفعتاً اس قدر تبدیلی کی وجہ سوائے اس کے اور کیا تھی کہ اب ملک تقسیم ہو چکا تھا۔ورنہ جو شخص ایک لیاقت علی کے فائنانس منسٹر بنائے جانے پر خود کو بے بس محسوس کر رہا ہو۔وہ اچانک اس قدر طاقتور کیسے ہو سکتا ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ جس طرح لیاقت علی کے سامنے سردار پٹیل اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہے ہوں۔اسی طرح پنڈت جواہر لا ل نہرو بھی محمد علی جناح کے سامنے خود کو بے بس محسوس کر رہے ہوں اور سردار پٹیل کی طرح تقسیم وطن انھیں بھی اپنے مسائل کا حل نظر آتی ہو۔اس لئے وہ بھی ملک کے بٹوارے کے لئے رضامند ہو گئے ہوں۔
اب جہاں تک سوال محمد علی جناح کا ہے تو اس وقت تک وہ یہ تو بخوبی سمجھ ہی گئے ہونگے کہ مکمل ہندوستان پر حکومت کرنے کا ان کا خواب پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل پورا نہیں ہونے دینگے ۔لہٰذا اپنے لئے انھیں بھی سب سے بہتر یہی نظر آیا ہو کہ مکمل ہندوستان نا سہی اگر ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہی پاکستان کی شکل میں حکومت کے لئے مل سکتا ہے تو اسی پر اکتفا کر لیا جائے۔
اور اس طرح ان سب کی مرضی سے ان سب کے مفادات کے تحت ملک تقسیم ہو گیا ہو اور اس کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی گئی ہو۔میں پھر یہ واضح کر دوں کہ جس طرح تاریخ کے اوراق میں محفوظ واقعات پر سب کو اپنی اپنی رائے زنی کا حق ہے اسی طرح مذکورہ بالا حالات کی روشنی میں ہمیں بھی ایک نئے زاوئیے سے ان کو سمجھنے کا حق ہے۔اس لئے کہ گذشتہ ساٹھ برس سے لگاتا ر یہی کہا جاتا رہا ہے کہ ملک کی تقسیم کے ذمہ دار مسلمان ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تقسیم وطن سے آج تک گذشتہ ساٹھ برسوں میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کا ماحول بنا۔لاکھوں کی تعداد میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔بے گناہ ہندو اور مسلمانوں کی بڑ ی تعداد میں جانیں گئیں۔ جبکہ ہمارا ماننا ہے کہ نا تو ہندو اور نا ہی مسلمان تقسیم کے لئے ذمہ دار تھے۔بلکہ ذمہ دار تھی اس وقت کی سیاست اور حکومت کی چاہ ۔
اگر مذہب ہی منافرت کی وجہ ہوتا تو ہم ایک مثال کے ذریعے یہ واضح کرنا چاہیں گے کہ کم از کم مذہب چاہے وہ ہندوﺅں کا ہو یا مسلمانوں کا ۔مذہبی منافرت و بے گناہ انسانوںکے قتل کی وجہ نہیں ہو سکتا ۔اگر ہم دیکھیں تو خواتین زیادہ مذہب پرست ہوتی ہیں۔روزہ نماز کی وہ زیادہ پابند ہوتی ہیں۔ہندوﺅں میں بھی خواتین ہی پوجا پاٹھ سے زیادہ جڑی ہوتی ہیں۔گذشتہ ساٹھ برسوں میں ہونے والے لاکھوں فرقہ وارانہ فسادات میں کتنے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جب ہندو عورتوں نے مسلمان عورتوں کو قتل کر دیا ہو یا پھر مسلمان عورتوں نے ہندو عورتوں پر حملہ کر دیا ہو۔اگر مذہب ہی جنون کی وجہ ہوتا تو یہ جنون ان پر بھی طاری ہو سکتا تھا ۔
اگر خواتین کی بات نہ بھی کریں اور مردوں میں بھی ہم ان لوگوں کا کردار اپنے ذہن میں رکھیں جنھیں بد کردار قرار دیا جاتا ہے۔جو قاتل ،چور، ڈکیت اور زانی ہوتے ہیں اور اپنے انہیں گناہوں کی وجہ سے جیلوں میں پڑے ہوتے ہیں۔وہ چاہے ہندو ہوں یا مسلمان ،کتنی بار آپ نے سنا کہ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران مذہب کے نام پر ان قیدیوں نے بھی ایک دوسرے پر حملہ کر دیا ہو۔اسی مذہبی منافرت کے دور میں کتنی بار آپ نے سنا کہ اپنی یا اپنے خاندان کے افراد کی بیماری کے علاج کے لئے لوگ قابل ڈاکٹر کے بجائے اپنے مذہب کے ڈاکٹر کی تلاش کرتے ہیں اور اگر بالکل نزدیک سے سچائی کا جائزہ لینا ہو تو کرفیو میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران کرفیو کے عالم میں جب کچھ گھنٹے کی ڈھیل دی جاتی ہے تو تمام افراد اپنی قریب ترین دوکانداروں سے ضرورت کی اشیاءخریدتے ہیں۔چاہے وہ اپنے مذہب کا ہو یا دوسرے۔نا دوکاندار کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ کسے سامان فروخت کیا جائے او ر کسے نہیں اور نا ہی خریدار کے ذہن میں۔
ہم گذشتہ ساٹھ برسوںسے جس نفرت کی آگ میں جل رہے ہیں۔بے گناہوں کا قتل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔دہشت گردی اور فرقہ پرستی کے ذریعے ملک کو تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ہمیں اس بار جشن آزادی میں شرکت کے وقت یہ عزم بھی کرنا چاہئے کہ ہم دلوں سے اس نفرت کو نکالیں گے۔تاریخ کے اوراق میں دبی سچائیوں کو اجاگر کریں گے۔تاکہ تمام ہندوستانی یہ سمجھ سکیں کہ مذہب نہیں سیاست ہی اس وقت بھی تقسیم وطن کے لئے ذمہ دار تھی اور آج بھی مذہب نہیں سیاست ہی ہندو اور مسلمان کے درمیان نفرت کی وجہ بن رہی ہے۔
یہ گفتگو اور طویل ہو سکتی تھی ۔ممکن ہے آئندہ کسی موقع پر مزید حقائق کے ساتھ پھر ایک بار قلم اٹھایا جائے ۔لیکن اس وقت اس تحریر کی بنیاد بنایا گیا تھا تقسیم وطن کے دوران قلم بند کی گئی مولانا آزاد کی کتاب ”انڈیا ونس فریڈم “ کے ان واقعات کو جو آزادی کی جدو جہد کے بعد کے حالات ،حصول آزادی ،تقسیم وطن اور اس کے بعد رونما ہونے والی درد ناک داستان کو لفظ بہ لفظ ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں۔لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ اس سلسلہ وار تحریر کی آئندہ قسطوں میں مولانا آزاد کی اس تاریخی تصنیف کے اس باب کو مکمل کر دیا جائے ۔جس میں انھوں نے تقسیم وطن کے حالات کا تذکرہ کیا ہے۔
لیکن قبل اس کے میں اس ایک جملے کی طرف پھر آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کا میں نے اپنی تحریر میں ذکر کیا تھا کہ بٹوارے اور آزادی کے بعد مسلمان مولانا آزاد سے ملنے کے لئے بڑی تعداد میں پہونچے اور ان سے کہا کہ تقسیم سے ہمارا یہ مطلب قطعاً نہیں تھا ۔ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ میں اس وقت اس دور کے مسلمانوں کے ذہن کی سہی عکاسی کر رہا ہوں یا نہیںپر میرا سوچنا ہے کہ ہندوستان جو آزادی سے قبل راجے رجواڑوں،نوابوں اور جاگیرداروں کا ملک سمجھا جاتا تھا۔جہاں چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوتی تھیں۔ممکن ہے اس دور کے مسلمانوں کے ذہن میں یہی رہا ہو کہ پورے ملک میں جو جہاں اکثریت میں ہے ۔وہاں کا اقتدار اس کے ہاتھوں میں ہوگا اور محمد علی جناح کے چار ریاستوں کے ساتھ ایک الگ ملک حاصل کر لینے پر وہ خود کو بے سہارا محسوس کر نے لگے ہوں۔
جانتا ہوں آج میری اس تحریر کو پڑھنے والے شائدبیتے ہوئے کل کے ہندوستان کی تصویر سے خود کو اتنا نا جوڑ سکیں۔مگر آج کی دنیا پر نظر ڈالیں تو بھی یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے سے رقبے اور چھوٹی چھوٹی سی آبادی والے مسلمانوں کے درجنوں ملک آج بھی دنیا کے نقشے پر دکھائی دیتے ہیں اور ہم سب ان کے وجود کو ایک الگ ملک کی شکل میں تسلیم بھی کرتے ہیں۔میں چند ایسے ممالک کا تذکرہ صرف اعداد و شمار کے لحاظ سے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔کہ در حقیقت یہ مسلمانوں کے 9 ملک ہیں جن کی مجموعی آبادی 1 کروڑ 42 لاکھ52 ہزار9 سو 96 ہے ۔جو کہ صرف دلی کی آبادی1 کروڑ 43 لاکھ سے بھی 47 ہزار 31 کم ہے ۔جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
1۔ابو ظہبی........5لاکھ 50 ہزار= 2۔ کویت........16 لاکھ = 3۔ دبئی........19 لاکھ= 4۔ برونئی........3لاکھ 81 ہزار 4 سو = 5۔ بحرین........7لاکھ 18 ہزار 3 سو= 6۔ قطر........9 لاکھ 28 ہزار 6 سو= 7 ۔ عمان........33 لاکھ 12 ہزار= 8۔ لبنان........39 لاکھ 72 ہزار = 9۔ شارجہ........8 لاکھ 90 ہزار 6 سو 69۔
اگر ہم مسلمانوں کے بڑے ممالک مثلاً سعودی عرب،ایران اور عراق کا ذکر کریں تو ان کی آبادی بھی دلی اور ممبئی کے مشترکہ آبادی سے کم ہی ہوگی۔ہاں انڈونیشیا کو ضرور اس فہرست سے الگ رکھا جا سکتا ہے۔
یہ ذکر ضمناً تھا ۔محض اس دور کے افسردہ مسلمانوں کی سوچ کو سامنے رکھنے کا ۔آئیے پھر لوٹتے ہیں مولانا آزاد کے ذریعے رقم کی گئی اس تاریخی داستا ن کی طرف اور اسی پر ختم کریں گے اس قسط وار مضمون یعنی اگست کرانی 9 اگست1942 سے یوم آزادی 2008تک کو ۔
ایک دوسرا واقعہ جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سردار پٹیل کا دماغ کس طرح کام کررہا تھا۔ سردار پٹیل جانتے تھے کہ ہر دن مسلمانوں پر جو حملے ہورہے ہیں اس کے لےے کچھ صفائی دینا ضروری ہے۔ اسی کے مطابق انہوں نے ایک اصول بنا رکھا تھا کہ شہر میں مسلمانوں کے گھروں سے خطرناک اسلحے برآمد کےے جارہے ہیں۔ دہلی کے مسلمانوں نے ہندوﺅں اور سکھوں پر حملے کے لےے اسلحے جمع کرلےے ہیں اور اگر ہندوﺅں اور سکھوں نے اپنے بچاﺅ کے لےے پہلے قدم نہیں اٹھایا تو مسلمان انہیں تباہ کردیں گے۔ پولس نے قرول باغ اور سبزی منڈی سے کچھ اسلحے برآمد کےے۔ سردار پٹیل کی ہدایت پر ان سب کو گورنمنٹ ہاﺅس لایا گیا اور ہم سب کے جائزے کے لےے کیبنٹ روم کے ایک کمرے میں رکھا گیا۔
جب ہم وہاں اپنی روزانہ کی میٹنگ کے لےے پہنچے تو سردار پٹیل نے کہا کہ ہم لوگوں کو پہلے اس کمرے میں جانا چاہئے اور ضبط اسلحوں کو دیکھنا چاہئے۔ جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ ایک ٹیبل پر رسوئی کی درجنوں چھری، جیبی چاقو اور قلمی چاقو رکھے ہیں، کچھ دستے اور کچھ بنادستے کے ہیں جو کہ پرانے گھروں کے کباڑخانے سے برآمد ہوئے ہیں، ان میں کچھ زنگ لگے لوہے کے پائپ بھی ہیں۔ سردار پٹیل کے مطابق یہ وہ ہتھیار تھے جو دہلی کے مسلمانوں نے ہندوﺅں اور سکھوں کومکمل طور سے تباہ کرنے کے لےے جمع کےے تھے۔ لارڈ ماﺅنٹ نے ان میں سے ایک یا دوچھریوں کو اٹھایا اور مسکرا کر کہا کہ وہ لوگ جنہوں نے ان چیزوں کو اکٹھا کیا ہے، ایسا لگتا ہے وہ فوجی کارروائیوں کے حیرت انگیز منصوبے رکھتے ہیں، اگر وہ سوچتے ہیں کہ دہلی شہر پر ان اسلحوں سے قبضہ کیا جاسکتا ہے۔
میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پرانا قلعہ میں اکٹھا ہوگئی تھی۔ سردی کی شروعات تھی، ہزاروں لوگ جو کھلے آسمان کے نیچے تھے اور سردی سے بری طرح متاثر تھے، ان کے لےے کھانے اور پینے کے لےے پانی کا مناسب انتظام نہیں تھا۔ سب سے برا یہ تھا کہ دیکھ بھال کا انتظام بالکل نہیں تھا یا مکمل طور سے ناکافی تھا۔ ایک صبح ڈاکٹر ذاکر حسین نے ایمرجنسی بورڈ کے سامنے کچھ شواہد پیش کےے اور پرانا قلعہ کی بری حالت کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان غریب عورتوں اور مردوں کو موت کے منہ سے بچا کر ایک زندہ قبر میں دفن کردیا گیا ہے۔ بورڈ نے وہاں انتظامات کا جائزہ لینے اور ضروری قدم اٹھانے کا مشورہ دینے کے لےے کہا اور اپنی دوسری میٹنگ میں بورڈ نے فوراً پینے کے پانی اور صفائی کا انتظام کرنے کا فیصلہ کیا۔ فوج سے جتنے شامیانے ممکن ہوسکتے تھے لگانے کے لےے کہاگیا تاکہ لوگ کم سے کم سائے میں تورہ سکیں۔
گاندھی جی کا دکھ روزبروز بڑھتا جارہا تھا۔ پہلے ان کی خواہش پر پورا ملک عمل کرتا تھا اب ایسا لگتا تھا ان کی زوردار اپیلوں کے سامنے لوگ بہرے ہوگئے ہیں۔ وہ اس حالت کو برداشت نہیں کرسکے اور مجھے یہ کہنے کے لےے بلا بھیجا کہ اب ان کے پاس کوئی دوسرا ہتھیار نہیں بچا ہے سوائے اس کے کہ وہ دہلی میں امن قائم ہونے تک برت رکھیں۔ جب لوگوں کو یہ پتہ چلا کہ گاندھی جی امن بحال ہونے تک برت رکھیں گے اور اس کی ہدایت دہلی میں دے دی گئی ہے تب بہت سے لوگ جو اب تک خاموش تماشائی تھے شرم سے آگے آئے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اس عمر میں ایسی صحت میں انہیں برت رکھنے سے روکنا چاہئے، اس لےے پہلے تو انہوں نے گاندھی جی سے اپیل کی کہ وہ اپنا یہ خیال ترک کردیں لیکن گاندھی جی اپنی بات پر سختی سے اڑے رہے۔
ایک چیز جس نے سب سے زیادہ گاندھی جی کے دماغ پر اثر ڈالا تھا وہ سردار پٹیل کا رویہ تھا۔ سردار پٹیل گاندھی جی کے قریبی لوگوں میں سے تھے اور انہیں بہت عزیز تھے۔ حقیقت میں سردار پٹیل کی پوری زندگی گاندھی جی کی مرہون منت تھی۔ کانگریس کے اہم لیڈروں میں کئی کی سیاسی زندگی گاندھی جی کے منظرعام پر آنے سے پہلے کی تھی جبکہ سردارپٹیل اور ڈاکٹر راجندرپرساد پوری طرح گاندھی جی کی پیداوار تھے۔
قتل ہوتے دیکھا ہے۔ یہ سب اس دوران ہورہا تھا جب ان کے اپنے بلبھ بھائی (سردار پٹیل) بھارت سرکار کے وزیرداخلہ تھے اور راجدھانی میں قانون وانتظام بحال رکھنے کے ذمہ دار تھے۔ پٹیل صرف مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ہی ناکام نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اس معاملہ میں شکایتوں کو بھی بے دلی سے درکنار کردیا۔ گاندھی جی نے کہا کہ اب ان کے سامنے کوئی راستہ نہیں بچا ہے سوائے ان کے آخری ہتھیار ”برت“ کے، وہ بھی اس وقت تک جب تک حالات بدل نہیں جاتے۔ پروگرام کے مطابق انہوں نے 12جنوری 1948کو اپنا برت شروع کیا۔ ایک طرح سے یہ برت سردارپٹیل کے رویہ کے خلاف تھا اور پٹیل بھی یہی محسوس کرتے تھے۔
ہم لوگوں نے گاندھی جی کو برت سے روکنے کی بہت کوشش کی۔ پہلے دن کے بر کی شام جواہر لال، سردار پٹیل اور میں گاندھی جی کے پاس بیٹھے تھے۔ سردار پٹیل اگلے دن بمبئی جارہے تھے۔ انہوں نے گاندھی جی سے رسمی طور پر شکایت کی کہ گاندھی جی کا برت بلاوجہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی شکایت کی کہ اس طرح کے برت کا یہ کوئی موقع نہیں ہے۔ حقیقت میں ان کے برت سے سردار پٹیل کے خلاف فرد جرم عائد کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ گاندھی جی اس طرح کا برتاﺅ کررہے ہیں جیسے سردار پٹیل مسلمانوں کے قتل کے لےے ذمہ دار ہیں۔
گاندھی جی نے اس طرح ٹھنڈے لہجے میں جواب دیا، میں اس وقت چین میں نہیں دہلی میں ہوں اور میں نے اپنی آنکھیں بھی ابھی نہیں کھوئی ہیں اور نہ کان۔ اگر تم مجھ سے کہتے ہو کہ میں اپنی آنکھوں اور کان کی گواہی پر یقین نہ کروں اور کہوں کہ مسلمانوں کی شکایت کی کوئی وجہ نہیں تو نہ ہی تم مجھے سمجھا سکتے ہو اور نہ میں تمہیں سمجھا سکتا ہوں۔ ہندو اور سکھ میرے بھائی ہیں، وہ میرے جسم کے حصے ہیں اور اب جب وہ غصے سے اندھے ہو رہے ہیں وت میں ان کو مجرم نہیں ٹھہراا۔ میں اس کا کفارہ خود ادا کروں گااور مجھے یقین ہے کہ میرا برت حقیقت کے تئیں ان کی آنکھیں کھول دے گا۔
....... (جاریَ)
Thursday, August 14, 2008
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment