Tuesday, August 19, 2008

مسلمانانِ ہند ماضی ،حال اور مستقبل ؟؟؟

بڑے سردار کے بعد ماسٹر مائنڈ کون ؟؟؟

چھوٹا سردار یا ابو البشر؟؟؟

ذکر ماضی کے درد کا کریں ،حال کے زخموں کا یا ان تباہ کاریوں کا جو مستقبل میں درپیش ہو سکتی ہیں۔کل جہاں مضمون کا سلسلہ ترک کیا تھا، اس کے بعد ارادہ تھا کہ آج قیادت کے فقدان اور ان قائدین کے عمل پر تذکرہ کریں گے ،جن پر مسلم قوم تکیہ کئے رہی۔مگر احمد آباد بم سانحہ کے تعلق سے جو گرفتاریاں عمل میں آئیں، انھیں نظر انداز کرنابھی مناسب نہیں لگا، کیونکہ جب ہم ماضی او رحال کی کڑیاں جوڑتے ہیں تو بم دھماکوں سے لے کر ان گرفتار یوں تک مستقبل کی تصویر ہماری نگاہوں کے سامنے گھوم جاتی ہے،لہٰذا آج کی تحریر انہی گرفتاریوں کی نذر، مگر ماضی کی تلخ یادوں کی روشنی میں۔

1۔27 جولائی کو احمد آباد میں یکے بعد دیگرے 17 بم بلاسٹ ۔مرنے والوں کی تعداد50 اور 100 زخمی ۔16 اگست 2008یعنی محض 20 دن کے اندر بڑودہ کی مستعد پولس نے ان بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ مفتی ابو البشر کو گرفتار کر لیا،جس کا تعلق سیمی سے ہے۔

15اور 16 مئی کی رات کے دوران نوئیڈا میں آروشی اور ہیم راج کا قتل ہوا۔92دن گزر جانے کے بعد بھی پولس ماسٹر مائنڈ کو گرفتار نہیں کر سکی۔دونوں واقعات میں سے پہلے کو اتر پردیش پولس اور سی بی آئی کی ناکامی قرار دیاجائے یا دوسرے کوبڑودہ اور گجرات پولس کی کامیابی،یا پھر یہ کہ یہی تو خوبی ہے ہماری پولس کی ،اگر وہ چاہے تو کسی معصوم کو بڑے سے بڑا مجرم ثابت کر دے ۔ایسے ثبوت مہیا کر دے کہ عدالت سے لے کر عوام تک اسے ہی مجرم تسلیم کر لیں اور اگر وہ چاہے تو تمام ثبوتوں کو اس طرح ملیا میٹ کر دے کہ مجرم سامنے کھڑا ہو مگر نہ عدالت کو اسے قصور وار کہنے کا حق حا صل ہو اور نہ ہی عوام کو۔

2۔ 27 فروری 2002سابر متی ایکسپریس میں آتش زنی ۔59لوگوں کی موت ،متعدد زخمی ۔نتیجہ تقریباً چھ ماہ تک مکمل گجرات فرقہ وارانہ فسادات یا بقول سیکولر لیڈران State Sponsered Terrorism کا شکار، دو ہزار سے زائد مسلمانوں کا قتل عام ،زنا بالجبر ،لوٹ پاٹ کے بے شمار واقعات ،جسٹس مہید ہ کی عدالت میں چلے مقدمے میں سبھی ملزم بے قصور ثابت ۔

سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں گجرات کے وزیر اعلیٰ کو ’نیرو‘ کہا مگر وہ آج بھی گجرات کے وزیر اعلیٰ ہیں۔

3۔دو سال قبل یعنی چودہ شعبان کو شب برا
¿ت کے روز حمیدیہ مسجد ،بڑا قبرستان اور اس کے عقبی حصہ میں واقع ٹیپو ٹاورمشاورت چوک مالیگاﺅں میں خونیں بم دھماکے ۔31 افراد کی موت،297 شدید زخمی،حقیقی مجرم آج تک گرفتار نہیں۔

4۔ 15اگست 2008میں ہائی کورٹ کے ذریعے سیمی سے پابندی ہٹائی گئی۔غیر مسلم فرقہ پرست تنظیمیں پابندی ہٹائے جانے پر چراغ پا،اگلے ہی روز یعنی 16اگست کو سپریم کورٹ کے ذریعے سیمی پر پھر پابندی عاےد۔
5۔ناندیڑ بم دھماکے:
جہاں شیو سینکوںنے داڑھی اور ٹوپی کا استعمال کر کے یعنی مسلمانوں کا بھیس بنا کر بم دھماکے کئے۔
6اپریل 2006 رات کے ڈیڑھ بجے ناندیڑ کے پاٹ بندھارے علاقہ میں آر ایس ایس کے کارکن اور محکمہ آب پاشی کے سابق ایگزیکیٹو انجینئر لکشمن راج کونڈوار کے مکان میں ہوئے بم دھماکے (پائپ بم) میں دو افراد ہلاک ہوئے اور تین شدید زخمی ہوئے۔ مقامی پولس کے مطابق اس دھماکے میں نریش راج کونڈوار (29) اور ہمانشو پانسے (31) ہلاک ہوئے اور یوگیش دیش پانڈے (31) ماروتی واگھ (22) اور گرو راج (25) شدید طور پر زخمی ہوئے پولس کے مطابق یہ پانچوں بم بنا رہے تھے ،جس کے دوران بم پھٹنے سے یہ حادثہ پیش آیا ۔تفتیشی کارروائی میں پولیس کو صوفہ کے نیچے سے پائپ بم اور بم بنانے کے کئی سامان بر آمد ہوئے ۔پولس کو بعد میں پتہ چلا کہ چھٹا جو بھاگنے میں کامیاب ہوا تھا، راہل پانڈے بھی اس میں شامل تھا۔جنھیں بعد میں پوسد سے گرفتار کیا گیا تھا۔

شری کانت مہاجن ،شرمیش بھور اور راجیندر مورے کی قیادت میں ایک تفتیشی ٹیم تیار کی گئی۔تفتیشی کارروائی کے متعلق بات کرتے ہوئے ناندیڑ کے آئی جی سوریہ پرتاپ گپتا نے بتایا تھا کہ بم دھماکے کے بعد تفتیشی کارروائی میں زندہ پائپ بم کے ساتھ ساتھ بم بنانے کے انسٹرومنٹ بر آمد ہوئے لیکن مقامی پولس اسٹیشن میں جو ایف آئی آر درج ہے، وہ قابل افسوس اور حیرت انگیز ہے۔

ایف آئی آر میں درج ہے کہ پٹاخے بنانے کے دوران اس میں آگ لگنے سے ہوئے دھماکے میں 2افراد کی موت ہوئی اور تین زخمی ہوئے۔

جبکہ پوسد سے چھٹے ملزم کو گرفتار کیا گیا اور جب اس سے پوچھگچھ کی تو اصلیت سامنے آئی ۔چھٹے ملزم راہل پانڈے کے مطابق لکشمن راج کونڈوار کے مکان میں وہ بم بناتے تھے اور بم بنانے کے دوران ٹائمنگ غلط ہونے سے یہ دھماکے ہوئے۔ان کے مطابق یہ پائپ بم دھماکے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کئے جاتے ہیں۔انھوں نے ہی بتایا کہ ہلاک ہونے والا نریش راج کونڈوار مکان مالک لکشمن کونڈوار کا لڑکا تھا اور بم بنانے میں وہ بھی شامل تھا۔

6۔حال ہی میں شیو سینکوںکے ذریعے ایک مراٹھی ناٹک ”امی پاچپوتے “کو روکنے کےلئے دو الگ الگ تھےئٹروں میں بم دھماکے کرنے کی ناکام کوشش ،جس سے افسردہ ہو کر شیو سینا کے چیف بال ٹھاکرے نے انھیں ہندوﺅں کے ذریعے پھسپھسے بم دھماکے قرار دئے اور کہا کہ ہندو نوجوانوں کو خود کش حملوں کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے اور یہ بھی کہ حملے طاقتور ہوں اور اس میں مسلمانوں کا بڑی تعداد میں جانی ومالی نقصان ہو تو انھیں خوشی ہوگی۔بتاریخ 19 جون صفحہ نمبر 4 سامنا میں بال ٹھاکرے کا اداریہ۔

7۔کیا آپ کو یہ حیران کن نہیں لگتا کہ گجرا ت ریاست اور اس کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی 2002 کے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد اس قدر مستعد ہو گئے تھے کہ ایسے کسی بھی ناخوش گوار واقعہ کے عمل میں آنے کے امکان تقریباً نا ممکن تھے؟آپ کو عشرت جہاںکا انکاﺅنٹر کا واقعہ تو یاد ہوگا، جہاں ریاست کی سرحد میں داخلے کے فوراً بعد ہی نہ صرف یہ کہ پولس اور انتظامیہ حرکت میں آگئی ،بلکہ اس کا انکاﺅنٹر بھی کر ڈالا ۔تعجب ہے اتنی مستعد چاک و چوبند پولس کے ہوتے ہوئے 26 جولائی سے قبل اتنے سارے دہشت گرد احمد آباد اور وزیر اعلیٰ کے حلقہ انتخاب میں داخل ہو جاتے ہیں کہ لگاتار بم دھماکے کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جن میں 50 افراد ہلاک اور بیشتر زخمی ہو جاتے ہیں اور کسی کو بھنک تک نہیں لگتی ۔پھر دفعتاً یہی پولس اور انتظامیہ اس قدر فعال ہو جاتا ہے کہ محض 20دن کے اندر ماسٹر مائنڈ سمیت دےگرملزموں کی گرفتاری بھی عمل میں آجاتی ہے۔

8
۔اگست 1947ءمولانا آزاد کی تحریر سے ماخوذ ۔

”ایک دوسرا واقعہ جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سردار پٹیل کا دماغ کس طرح کام کر رہا تھا۔سردار پٹیل جانتے تھے کہ ہر دن مسلمانوں پر جو حملے ہو رہے ہیں ،اس کے لئے کچھ صفائی دینا ضروری ہے۔اس لئے انہوں نے ایک اصول بنا رکھا تھا کہ شہر میں مسلمانوں کے گھروں سے خطرناک اسلحے برآمد کئے جا رہے ہیں۔دہلی کے مسلمانوں نے ہندوﺅں اور سکھوں پر حملے کے لئے اسلحہ جمع کر لیا ہے اور اگر ہندوﺅں اور سکھوں نے اپنے بچاﺅ کے لئے پہلے سے ہی قدم نہیں اٹھایا تو مسلمان انھیں تباہ کر دیں گے۔پولس نے قرول باغ اور سبزی منڈی سے کچھ اسلحے بر آمد کئے ۔سردار پٹیل کی ہدایت پر ان سب کو گورنمنٹ ہاﺅس لایا گیا اور ہم سب کے جائزے کے لئے کیبنٹ ہاﺅ س کے ایک کمرے میں رکھ دیا گیا۔جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ ایک ٹیبل پر رسوئی کی درجنوں چھری، جیب میں رکھنے والا چاقو ،قلمی چاقو ،کچھ دستے اور کچھ بنا دستے کے وہاں رکھے ہوئے تھے،جو کہ پرانے گھروں کے کباڑ خانے سے بر آمد ہوئے تھے ۔ان میںکچھ زنگ لگے لوہے کے پائپ بھی تھے۔سردار پٹیل کے مطابق یہ وہ ہتھیار تھے جو دہلی کے مسلمانوں نے ہندوﺅں اور سکھوں کو مکمل طور سے تباہ کرنے کے لئے جمع کئے تھے۔

مسلمانانِ ہند--ماضی، حال اور مستقبل:
یہی عنوان تھا جس کے تحت میں نے کل لکھنا شروع کیا تھا۔ اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جس صبح آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہوںگے اسی وقت آپ 26جولائی 2008کو احمد آباد میں ہوئے بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ سیمی کارکن مفتی ابوالبشر اور دیگر ملزموں کی گرفتاری کی خبر بھی پڑھ رہے ہونگے۔دراصل ماسٹر مائنڈ کون ہے اور کس ماسٹر مائنڈ کا مائنڈ کس کے خلاف کام کر رہا ہے۔یہی سب کچھ آپ کے اور برادرا ن وطن کے سامنے رکھنے کے لئے مجھے اوپر چند واقعات مختصراً بیان کرنا پڑے۔

ساٹھ برس پہلے کے ماسٹر مائنڈ سردار پٹیل کا دماغ کس طرح کام کر رہا تھا، اس کوبیان کیا ابھی میں نے اوپر کے پیراگراف میں لکھا اور اس وقت کے ماسٹر مائنڈ چھوٹے سردار کا دماغ کس طرح کام کر رہا ہوگا یہ سمجھنا آپ کے لئے بہت مشکل نہیں ہوگا۔بات اگر ابھی تک مکمل طور پر واضح نہیں ہوئی تو اگلی چند سطروںکے بعد انشاءاللہ آپ کا ذہن صاف ہو جائے گا اور آپ سمجھ لیںگے اور برادران وطن کو بھی سمجھا دےںگے کہ دراصل ماسٹر مائنڈ کون ہے اور اس کے مائنڈ میں کیا چل رہا ہے۔

27 فروری 2002ءکو سابر متی ایکسپریس سانحہ کے بعد گجرا ت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے ذریعے عمل کے رد عمل کے فلسفے پر عمل کیا جاتا ہے۔دو ہزار سے زیادہ مسلمانوں کا قتل ہوتا ہے۔معصوم بچے نذر آتش کر دئے جاتے ہیں۔عورتوں اور نابالغ بچیوں کی آبرو ریزی کی جاتی ہے۔پورا ملک شرمسار ہوتا ہے اور اس بار 26جولائی 2008 کو احمد آباد میںسلسلے وار بم دھماکے ہوتے ہیں۔تقریباً اتنے ہی لوگ مارے جاتے ہیں۔زخمیوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ۔صوبہ وہی گجرات۔

وزیر اعلیٰ وہی نریندر مودی۔مگر حالات بہت بدلے ہوئے۔اس بار عمل کا کوئی رد عمل نہیں۔کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں۔کوئی فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں۔کتنا بدل گئے نریندر مودی اور ان کا گجرات تقریباً ساڑھے چھ برسوں میں اور کتنی فعال ہو گئی ان کی پولس کہ ساڑھے چھ برس پرانے فسادات کے اصل مجرم تو آج تک ان کے ہاتھ نہیں لگے لیکن اس بار ان کی پولس نے یہ کارنامہ محض 20دن کے اندر ہی انجام دے دیا۔لگتا ہے بڑے سردار کی طرح چھوٹے سردا ربھی غضب کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔اگر اس وقت سردار پٹیل کا ذہن یہ کام کر رہا تھا کہ انھیں مسلمانوں کے قتل و غارت گری کے لئے کوئی جواز تو پیش کر نا ہی ہوگا اس لئے رسوئی میں کام آنے والی چاقو چھریوں کو خطرناک ہتھیار بتا کر پیش کیا گیا اور اس بار لگا چھوٹے سردار کو کہ سیمی کی بین کو برقرار رکھنے کے لئے کوئی نا کوئی معقول جواز تو ہونا ہی چاہئے۔تو اس بار رسوئی گھر کی چاقو چھریوں کی طرح سیمی کے ابو بشیر احمد آباد بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر پیش کر دئے جائیں۔

ہو سکتا ہے پولس صحےح ہو۔ہو سکتا ہے واقعی ابو بشیر ہی ماسٹر مائنڈ ہو۔اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اصل ماسٹر مائنڈ کو بچانے کے لئے سیمی کو پھنسانے کے لئے ابو بشیر محض ایک مہرہ ہو۔حقیقت جو بھی ہو ،ایک نہ ایک دن سامنے آ ہی جائے گی۔میں ایسا بھی نہیں کہہ سکتا اس لےے کہ اپنے ملک میں ساری حقیقت سامنے آ ہی جائے ایسا دعویٰ تو کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ابھی تو ساٹھ برس پرانی تقسیم وطن کی حقیقت کو سامنے رکھنے کی جدو جہد ہی جاری ہے۔تازہ واقعات کی حقیقت کو سامنے رکھنے میں اور کتنے برس لگیں گے، ابھی کہا نہیں جا سکتا ۔

اگر گجرات کے فرقہ وارانہ فسادات یا بالفاظ دیگر مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد کے چند بیانات آپ کے ذہن میں ہوں تو تازہ واقعات کی ایک نئی تصویر آپ کے ذہن میں ابھر سکتی ہے۔گجرات تو ایک جھانکی ہے سارا دیش باقی ہے۔
گجرات ہندوتوا کی ایک لیباریٹری ہے۔اگر ایسے جملوںکو یاد کریں ۔بال ٹھاکرے کے اداریے کو یاد کریں۔ہندو نوجوانوںکو زبردست بم دھماکوں کی ترغیب دینے والے بیانوں کو یاد کریں۔ناندیڑ بم دھماکوں میں شیو سینکوں کے ذریعے ڈاڑھی اورٹوپی کے استعمال یعنی مسلمانوں جیسا حلیہ بنا کر بم دھماکے کرنے کی بات یاد کریں ۔تو پھر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ احمد آباد میں 26 جولائی کو کس کے ذریعے کیا اور کس طرح کیا گیا ہوگا اور 16 اگست کی گرفتاریاں کیوں اور کس لئے عمل میں آئی ہوںگی؟

نا تو ساڑھے پانچ برس پہلے گجرات میں ہزاروں بے گناہوں کے قاتلوں کو پکڑا جا سکا ۔نا دو برس قبل مالیگاﺅں میں ہوئے بم دھماکوںمیں مارے جانے والوں کے اصل مجرم بے نقاب ہو سکے۔مگر احمد آباد بم دھماکوں کے صرف بیس دن بعد بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ اور دیگر ملزم گرفتار ہو گئے۔کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ تین گھنٹے میں مکمل ہوجانے والی ہم کوئی ایسی فلم دیکھ رہے ہیں،جس کے پہلے سین سے آخری سین تک کا اسکرپٹ تیار ہے۔سبھی اداکاروں کو معلوم ہے کہ ان کا کردار کیا ہے ۔انھیں کب کس سیٹ پر کیا بولنا ہے۔بس ڈائریکٹر کے ایکشن کہتے ہی شارٹ شروع اور پیک اپ کہتے ہی شوٹنگ بند۔کون ہے یہ ڈائریکٹر جو کبھی بیس ہی دن میں فلم مکمل کر دیتا ہے اور کبھی برسوں تک شوٹنگ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔پردہ سیمیں پر کچھ آتا ہی نہیں۔....
(جاری)

No comments: