مسلمانانِ ہند ماضی ،حال اور مستقبل ؟؟؟
پہلے تقسیم وطن کے ذمہ دار
پھر فرقہ پرست اب دہشت گرد، اس کے بعد ؟
تقسیم وطن کے پچیس برس بعد تک ہندوستانی مسلمان احساس جرم اور احساس کمتری کا شکار بنایا گیا ۔یہ سب کچھ سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت تھا ۔تقسیم وطن کے بہانے مسلمانوں کو ٹکڑوں میں بانٹنے والے اچھی طرح جانتے تھے کہ خاص طور سے مسلمانوں کے نام پر بنائے جانے والے پاکستان میں Creamy Layer یعنی اعلیٰ سطح کا مسلمان چلا جائے گا۔جو تعلیم یافتہ ہے۔سرمایہ دار ہے۔اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔یعنی جن میں حکمرانی کے عنصر زیادہ ہےں۔جو اقتدارکے خواہشمند یا دعویدار ہو سکتے ہیں۔باقی جو مسلمان بچیں گے ،ان کے دلوںمیں اپنوں سے بچھڑ جانے کا غم ہوگا۔دماغ میں عدم تحفظ کا خوف ہوگا اوراس کے بعد ان کا حوصلہ توڑنے کےلئے اکثریتی فرقے کا سلوک انھیں اس لائق نہیں چھوڑیگا کہ حکومت کی دعویداری یا حصہ داری تو دور وہ ان کے برابر کا شہری ہونے کے حقوق مانگنے کی ہمت کرسکیں۔
یہی ہوتا رہا تقریباً پچیس برس تک اور جب نئی نسل نے آزاد ہندوستان میں جنم لیا اور خود کو تقسیم وطن کے لئے غیر ذمہ دار قرار دیا اورکہا کہ ہماری پیدائش تو آزاد ہندوستان میں ہوئی ہے۔ماضی میں کس نے کیا کیا ۔اس کے لئے ہمیں مورد الزام کیوں ٹھہرایا جائے؟ ہم پر تقسیم وطن کا الزام کیوں؟ تب مسلمانوں کو اقتدار سے دور رکھنے والے حکمرانوں کو لگا کہ اب یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ہمنئی نسلوں کو بھی تقسیم وطن کا ذمہ دار ٹھہراتے رہیں۔اب انہیں دبائے جانے کے لئے یہ جواز کمزور پڑ جائیگا۔منصفانہ مزاج کے لوگ کہنے لگیں گے کہ جو آزاد ہندوستان میں جنمے ہیں ۔جن کی پیدائش تقسیم وطن کی چوتھائی صدی کے بعد ہوئی ہے۔وہ بھلا قیام پاکستان کے لئے کیوں کر ذمہ دار ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔لہٰذا چالاک سیاست دانوں نے مسلمانوں کو پھر سے کمزور کرنے کے لئے اور ان پر دباﺅ بنائے رکھنے کےلئے ایک نئی حکمت عملی اپنائی اور انھیں فرقہ پرست قرار دیدیا۔
یعنی مسلمان اگر سیاسی اعتبار سے اپنے آپ کو مضبوط بنانے کی کوشش کرے ۔اپنے ووٹ کا استعمال اس طرح کرے کہ اس کے نمائندے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں چن کر پہنچیں۔تو اس کے یہ ارادے کامیاب نہ ہو پائیں۔اسے فرقہ پرست قرار دیدیا جائے۔اگر مسلمان ،مسلمان کو ووٹ دے تو۔یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر فریدی مسلمانوں کو متحد کرنے اور انھیں ایک مضبوط ووٹ بنک میں تبدیل کرنے میں اُس طرح کامیاب نہیں ہو سکے ،جیسا کہ وہ چاہتے تھے۔
لیکن آہستہ آہستہ ملک کے حالات بدلنے لگے۔کانگریس تنہااقتدارکی دعویدار نہ رہ سکی۔اس کے مقابلے قومی سطح پر پہلے جن سنگھ پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے وجود میں آئی ایک فرقہ پرست پارٹی مضبوط ہونے لگی۔ریاستی سطح پر علاقائی پارٹیاں وجود میں آنے لگیں۔مذہب اور ذات کی بنیاد پر بھی سیاسی لیڈران ابھر کر سامنے آنے لگے۔جگ جیون رام دلتوں کے لیڈر تھے،مگر ہمیشہ کانگریس کے ساتھ رہے۔اس لئے ان کو ایک الگ ووٹ بنک کے لیڈر کے طور پر نہیں دیکھا گیا۔مگر چودھری چرن سنگھ جاٹوں کے لیڈر کے طور پر سامنے آئے ۔شرد یادو ،ملائم سنگھ یادو،لالو پرساد یادو ، یادوﺅں کے لیڈر کی شکل میں سامنے آئے۔تو دلتوں کے مسیحا بنے کاشی رام،مایاوتی اور رام ولاس پاسوان ۔اسی طرح گوجروں ،کرمیوں نے بھی اپنی اپنی ذاتوں کے لیڈر منتخب کئے۔
مسلمان تقریباً سبھی کی ضرورت رہا۔چودھری چرن سنگھ ،جاٹ جمع مسلمان کے فارمولے پر حکومت کرتے رہے۔راجہ وشو ناتھ پرتاپ سنگھ نے ٹھاکر پلس مسلمان کے فارمولے کو آزمایا۔تو ملائم اور لالو یادوجمع مسلمان کے فارمولے پر چل کر مضبوط لیڈروں کی شکل میں ابھرے۔مایاوتی اور پاسوان کو بھی مسلمان اپنے اقتدار کے لئے ضروری محسوس ہونے لگے۔
اسی درمیان آسام میں مولانا بدرالدین کی یو ڈی ایف نے ریاست میں اپنی زبردست موجودگی درج کراکر یہ احساس کرا دیا کہ مسلمان بھی اگر ریاستی سطح پر ایسے ہی کسی فارمولے کو اپنانے لگیں اور اب تک کسی نہ کسی کے ساتھ شامل ہو کر اسے مضبوط بنانے کے بجائے اب دوسرے ووٹ بنک کو اپنے ساتھ ملا کر خود مضبوط بننے کی کوشش کریں اور یہ عمل صرف ریاستی پیمانے تک ہی محدود نہ رہے بلکہ قومی سطح پر بھی کوئی مسلم لیڈر سامنے آئے ،کوئی ایسی پارٹی بھی وجود میں آئے جس میں دیگر ذاتوں ،مذاہب کے لوگ شامل تو ہوں،مگر قیادت کسی مسلمان کے پاس رہے۔اس انداز فکر نے اپنے حصول اقتدار کے لئے مسلمانوں کے ووٹوں کا بٹوارہ کرنے والوں کو ہلا کر رکھ دیا اور آپسی نفاق کے باوجود وہ اتفاق رائے سے اس معاملے میں متحد ہو گئے کہ اگر مسلمانوں نے خود اپنے بارے میں سوچنا شروع کردیا،خود اپنے سیاسی فیصلے لینے شروع کر دئے،اپنے ووٹ کا استعمال ایک ووٹ بنک کی شکل میں اپنے مقاصد کے پیش نظر اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے شروع کر دیا،تو دلتوں کی طرح یہ ان سے بھی بڑی طاقت بن سکتے ہیں۔
لہٰذا ایک کام تو یہ کیا جائے کہ انہیں متحد نہ ہونے دیا جائے اور دوسرا یہ کہ تقسیم وطن اور فرقہ پرستی کے الزام میں اب اتنا وزن نہیں رہ جائے گا کہ صرف اس بنیاد پرہی انہیں دبا کر رکھا جا سکے۔کیونکہ تقسیم وطن کو تو آدھی صدی سے زیادہ گزر گئی اور فرقہ پرستی کے عناصر تواب تقریباً ہر سیاسی پارٹی اور لیڈر میں نظر آنے لگے ۔تب مسلمانوں کو ہی آخر کب تک فرقہ پرست قرار دیا جا سکے گا۔لہٰذا اب انہیں پھر سے وطن دشمن Declare کرنے اور احساس کمتری کا شکار بنانے کے لئے کوئی نیا ہتھکنڈہ ہونا چاہئے ۔کوئی نیا الزام ہونا چاہئے۔
اور یہ نیا الزام ہے مسلمانوں پر ”دہشت گرد“ہونے کا الزام۔یعنی اگر آزادی کے فوراً بعد کا مسلمان تقسیم وطن کے داغ سے شرمسار رہا اور اس کے بعد کی نسل کو فرقہ پرست قرار دے کر ملک کی قیادت میں حصہ دار بننے سے محروم رکھا گیا تو اب اس پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اس کی نئی نسل سے آزادی کے ساتھ جینے کا حق چھین لیا جائے ۔اب وہ اپنے نوجوانوں کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھاتے پھریں۔ان کے بچاﺅ کے لئے ہماری چوکھٹ پر سلامی دینا ان کی مجبوری بن جائے۔
وہ ہم سے اقتدار میں حصہ داری کی بات کرنا تو دور اپنے بچوں کی بے گناہی ثابت کرنے میں ہماری مدد کو ہی اپنی ووٹ کی اصل قیمت مان لیں۔لہٰذا جگہ جگہ بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اب یہ بم مسجد میں پھٹے،مندر میں پھٹے ،سڑکوں پر یا ریل کے ڈبوں میں،ہر جگہ شک کی سوئی مسلمانوں پر ہی جانا غالباً ان کی حکمت عملی کا ایسا حصہ بن گیا جس سے نجات پانا انتہائی مشکل مرحلہ نظر آنے لگا ہے۔مسلم ناموں سے ایسی ایسی تنظیمیں وجود میں آنے لگیں ،جن کا کبھی نام بھی نہیں سنا تھا اور وہ اتنے بڑے بڑے کارنامے انجام دینے لگیں کہ عقل حیران ہے کہ ایک نامعلوم تنظیم جس کا کاغذی وجود پولس فائل کے باہر کہیں نظر نہیں آتا۔
آخر وہ بم بنانے کی ترغیب کس سے حاصل کرتے ہیں؟ ان کے ٹریننگ کیمپ کہاں چلتے ہیں؟ کسی بھی ایک بم حادثے کے بعد سب کچھ تقریباً ہر ٹی وی چینل پر
©صاف صاف نظر آنے لگتا ہے۔متعدد پولس افسران ان تنظیموں کا شجرہ بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔کوئی ان سے پوچھے کہ اگر آپ کو ان دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں اتنی تفصیلی معلومات تھی تو کیا آپ بم پھٹنے اور بے گناہوں کی اموات کے منتظر تھے کہ اس کے بعد ہی ان دہشت گرد تنظیموں کے چہرے سے نقاب ہٹائیں گے۔یہ زحمت آپ نے پہلے کیوں نہیں اٹھائی؟ بے گناہوں کی جان بچ جاتی اور آپ کی واہ واہی بھی ہوتی۔ہاں مگر سیاست دانوں کی سیاسی ضرورت شائد پوری نہیں ہوتی۔
ہم نے اپنے قسط وار مضمون میں تقسیم وطن کا ذکر کرتے ہوئے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے رول کا ذکر کیا تھا۔ہم ایک بار پھر تاریخ کے دامن میں جھانک کر دیکھتے ہیںاور آپ کے ذہن کو لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے دور سے بھی سو سال پہلے لے جاتے ہیں۔اس طرح 1947 میں لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کا عمل بھی آپ کے سامنے آجائے گا اور فرنگی ذہنیت کا بھی ۔دراصل 1857 کی جنگ آزادی میں مسلمان اتنی بڑی تعداد میں شامل تھے کہ صرف دلی میں ہی بغاوت کے ناکام ہونے کے بعد انگریزوں کے ذریعے 27ہزار مسلمانوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔سر الفریڈ لائل کے مطابق 1857 کی بغاوت کے بعد انگریز مسلمانوں پر اس طرح ٹوٹ پڑے جیسے وہی ان کے اصلی اور سب سے بڑے دشمن ہیں اور آنے والے کل میں انھیں سے خطرہ ہو سکتا ہے اور غالباً اسی وقت انھوں نے طے کر لیا تھا کہ اب پھوٹ ڈالو اور راج کرو کے فارمولے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
لہٰذا انہوں نے یکے بعد دیگرے کئی ایسی چالیں چلیں ،جس سے کہ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں۔اسی سوچ کے پیش نظر (تقسیم وطن کے بعد سے تو 1947 میں سامنے آئی ۔)انگریز اس کے پہلے 1905 میں ہی بنگال کی تقسیم کا اعلان کر چکے تھے،جس سے انگریزی حکومت کے خلاف نفرت اور غصے کی لہر پھیل گئی تھی۔ہندوستانی عوام نے اس کی زبردست مخالفت کی تھی۔دراصل انگریزوں کا اس بٹوارے کے پیچھے مقصد بھی مذہبی منافرت پھیلانا ہی تھا۔اس کا نتیجہ بھی ان کے سامنے آیا ،جو ہندو اور مسلمان 1857 کی جنگ آزادی میں شانہ بشانہ کھڑے تھے۔
اب ان کے درمیان کشیدگی کے حالات پیدا ہونے لگے اور 1905میں بنگال کی تقسیم کے اعلان کے محض دو سال بعد 4مارچ 1907 کو ”کومیلا“میں ہندو مسلم دنگے ہوئے اور اس وقت کا جو سب سے خطر ناک دنگا سامنے آیا ،وہ جمال پور ضلع میمن سنگھ، اب بنگلہ دیش تھا۔ آپ کی آسانی کے لئے متنازع مصنفہ تسلیمہ نسرین کا آبائی وطن ۔ اس کے بعد دنگوں کا یہ سلسلہ بنگال کے باہر بھی پھیل گیا۔ہندوستان کی دیگر ریاستیں بھی اس فرقہ وارانہ منافرت سے بچ نہ سکیں۔1857 کی جنگ آزادی کی تحریک کے بعد انگریزوں کی یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔
بنگال کی تقسیم کے اعلان سے مسلمانوں کا غصہ ابھی کم بھی نہیں ہوا تھا،1907کو ”کومیلا “ (بنگال) میں ہوئے ہندو مسلم دنگوں کو و ہ ابھی بھولے بھی نہیں تھے کہ جولائی 1913 میں کانپور میں میونسپل افسران نے پولس کی مدد سے مچھلی بازار کی مسجد کا ایک حصہ شہید کر دیا۔ظاہر ہے ان کے اس عمل سے مسلمانوںکے جذبات کو ٹھیس پہنچنی ہی تھی۔لہٰذا مسلمان مشتعل ہو گئے اور 3اگست 1913ءکو ٹوٹے ہوئے اس حصہ کی تعمیر کے لئے بڑی تعداد میں وہاں جمع ہو گئے،جس پر وہاں تعینات سکھ فوجیوں نے مجسٹریٹ کے حکم پر فائرنگ شروع کر دی ۔نتیجتاً بڑی تعداد میں مسلمان ہلاک اور زخمی ہوئے، کافی گرفتاریاں بھی ہوئیں ، مگر اس سے بھی کہیں زیادہ افسوس ناک بات یہ رہی کہ اس سانحہ کے پانچ دن بعد” جیمس مسٹن“ نے کانپور آکر اس قتل عام میں شامل فوجیوں کو انعامات سے نوازا،ان کی پذیرائی کی۔گورنر کی اس حرکت سے مسلمانوں میں شدید ناراضگی پیدا ہوئی۔مولانا آزاد کے الہلال (کولکاتا)،مسلم گزٹ (لکھنو
¿)،ہمدرد (دلی) اورزمیندار (لاہور) نے اس شرمناک واقعہ کے خلاف زور دار آوازاٹھائی ۔با لآخر مولانا محمد علی جوہر اور سر وزیر حسن کی کوششوں سے دوبارہ ٹوٹے ہوئے حصے کی تعمیر کی اجازت مل گئی۔
اس پورے واقعہ کا مقصد یہی تھا کہ کسی طرح مسلمانوں کو بے عزت کیا جائے،ان کے حوصلوںکو کمزور کیا جائے۔تاریخ کے اوراق میں دفن ان واقعات کے اس ذکر کا مقصد یہی ہے کہ آپ ایک نظر اس تاریخی سچائی پر ڈالیں ،پھر آج کے حالات پرغور کریں،کیا اب بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ان پولس افسران کو بڑے عہدوں سے نوازا جائے،ان کی پذیرائی کی جائے،جو فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر مسلمانوں کی نسل کشی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
کہاں جاتی ہیں ان فسادات کے بعد قائم کےے گئے کمیشنوں کی رپورٹیں؟
کیا سری کرشنا کمیشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میںیہ صاف صاف نہیں لکھا کہ ووٹر لسٹ کے ذریعے مسلمانوں کے گھروں کی نشان دہی کرکے شیو سینکوں نے ان کا قتل کیا ،ان کی املاک تباہ کیں،انھیں کاروباری نقصان پہنچایا،مگر کیا آج تک ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی کی جا سکی؟سرکاریں بدلتی رہیں مگر حالات نہیں بدلے۔ہندوستانی آئین کے مطابق مذہبی منافرت پھیلانا ایک جرم ہے،دہشت گردی کی ترغیب دینا ایک سنگین جرم کے دائرے میں آتا ہے،مگر شیو سینا کے چیف کے لئے شاےد ہندوستان کا قانون کوئی اہمیت نہیں رکھتا،جب دن کے اجالے میں چیخ چیخ کر فرقہ پرستی اور دہشت گردی کی تربیت دی جارہی ہو،تو ان خوفناک دھماکوں کے پیچھے کس کا دماغ ،کس کا ہاتھ اور کس کا عمل ہو سکتا ہے۔یہ بات تو کم عقل بھی سمجھ سکتے ہیں،مگر ہماری عقل مند پولس ،انتظامیہ اور سرکار سمجھے تو؟ ۔
اور اگر ان میں سے کوئی بھی نہ سمجھے تو خدارا اب آپ ہی سمجھ جائیے کہ ان سب کے پیچھے کیسی ذہنیت کار فرما ہے اور اس ذہنیت کا مقابلہ کرنے کے لئے آپ کی صفوں میں اتحاد اور ایک مخلص قائد کی رہنمائی کس قدر ضروری ہے ۔یاد کریں قرآنِ عظیم میں ارشاد خدا وندی سورہ
¿ آل عمران آیت 103 ”اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور ٹکڑوں میں نہ بٹو۔
“
پہلی ضرورت تو اتحاد ہے اوردوسری قیادت،اگر پہلی ضرورت پوری ہو گئی تو پھر دوسری ضرورت کا پورا ہونا کوئی مشکل نہیں ہے،ورنہ ہمارا مستقبل بھی وہی ہوگا جو ہمارا ماضی تھا۔یعنی خون بھی ہمارا ہی بہے گا اور مجرم بھی ہم ہی قرار دئے جائیں گے
Wednesday, August 20, 2008
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment