(اگست کرانتی 9اگست 1942
سے یوم آزادی 2008تک)
پنڈت نہرو اور سردار پٹیل کے نظریاتی اختلاف اب سامنے تھے
دبئی ،شارجہ، ابو ظہبی، اجمان،بحرین،قطر،عمان،سیریا،جارڈن جیسے ممالک کی کل آبادی اور رقبہ و ہندوستان کے چند شہروں کی آبادی اور رقبہ موازنے کے ساتھ جلد ہی قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے تاکہ وہ اندازہ کر سکیں کہ تقسیم وطن کے وقت مسلمانوں کے ذہن میں کیا رہا ہوگا اور ساتھ ہی ہندوستان کی کچھ ایسی ریاستوں کا ذکر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا ،جنھیں نوابوں اور جاگیرداروں نیز راجاﺅں کی ریاست تسلیم کیا جاتا تھا۔مگرپہلے ہم وہ سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں جس میں تقسیم وطن کے حالات کا ذکر مولانا آزاد نے کیا ہے اور جوکہ راقم الحروف کے تجزیے کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔لہٰذا آج کی قسط میں مولانا آزاد کی اس تاریخی تصنیف سے چند اور حقائق اور اس پر گفتگو کل۔
جناح کا آخری پیغام اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکے جیسا تھا۔ ان کے لےے اب یہ ایک دم صاف تھا کہ بٹوارے کا انجام صرف یہ ہے کہ اقلیت کی شکل میں ان کی حالت پہلے سے مزید کمزور ہوگئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں نے بے وقوفی کی حرکتوں سے ہندوﺅں کے دماغوں میں نفرت اور غصہ بھردیا۔
مسلم لیگ کے ممبران اب بار بار کہہ رہے تھے کہ وہ اب ہندوﺅں کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہ صاف تھا کہ ان حالات پر رنج و غم نے شاید ہی ان کے لےے رحم کا جذبہ پیدا کیا ہو۔ میں نے انہیں یاد دلایا کہ میں نے ان سے کیبنٹ مشن پلان کے دوران کیا کہا تھا۔ میں نے اپنے 15اپریل1946کے بیان میں ہندوستانی مسلمانوں کو صاف لفظوں میں ہوشیار کردیا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ اگر بٹوارہ ایک حقیقت بن گیا تب ایک دن انہیں پتہ چلے گا کہ اکثریتی مسلمانوں کے پاکستان جانے کے بعد وہ ہندوستان میں ایک چھوٹی اور کمزور اقلیت کی شکل میں رہ جائیں گے۔
15
اگست کو یوم آزادی کی تقریبات کے لےے ایک پروگرام منعقد کیاگیا۔ نصف شب کانسٹی چےوئنٹ اسمبلی کی میٹنگ ہوئی اور اس میں اعلان کیاگیا کہ ہندوستان آزاد اور خودمختار ملک ہے۔ دوسرے دن صبح 9بجے اسمبلی کی پھر میٹنگ ہوئی اور لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے افتتاحی تقریر کی۔ پورا شہر خوشی کے عالم میں تھا یہاں تک کہ تقسیم کے دکھ کو بھی لوگ بھول گئے تھے۔ شہر اور آس پاس کے لاکھوں لوگ آزادی کی خوشیاں منانے کے لےے نکل پڑے تھے۔ آزاد بھارت کا پرچم 4بجے لہرایا جانا تھا۔
اگست کی جلا دینے والی دوپہر کے باوجود لاکھوں لوگ گھنٹوں سورج کی تپش کو برداشت کررہے تھے۔ بھیڑ اتنی زیادہ تھی کہ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن اپنی کار سے باہر نہیں آسکے اور انہیں وہیں سے تقریر کرنی پڑی۔ یہ خوشی بہت ولولہ انگیز تھی لیکن یہ خوشی مشکل سے 48گھنٹے ہی رہ پائی۔ اگلے ہی دن فرقہ وارانہ فسادات کی خبروں نے شہر کو گہری اداسی میں غرق کردیا۔ قتل لوٹ اور تشدد کی خبریں تھیں۔ یہ بھی دیکھاگیا کہ مشرقی پنجاب میں ہندو اور سکھوں نے مسلمانوں کے گاﺅں پر حملے کےے۔ وہ لوگ گھروں کو جلا رہے تھے اور معصوم مردوں وعورتوں اور بچوں کو ماررہے تھے۔ ٹھیک یہی رپورٹ مغربی پنجاب سے بھی ملی۔ مسلمان، ہندو اور سکھ فرقہ کے مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کررہے تھے، پورا مشرقی اور مغربی پنجاب بربادی اور موت کا قبرستان بن گیا تھا۔ ایسے واقعات تیزی سے ہورہے تھے۔ ایک کے بعد ایک پنجاب کے وزیر دہلی بھاگ رہے تھے، ان کے ساتھ کانگریس کے وہ لیڈر تھے جو سرکار سے باہر تھے۔
یہ سبھی لوگ وہاں ہونے والے واقعات سے خوفزدہ تھے۔ وہ قتل و غارت گری کے پھیلاﺅ سے بھی حیران تھے، وہ مایوسی میں کہنے لگے کہ شاید اب کوئی بھی اسے روک نہ سکے۔ ہم لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے فوج کو کیوں نہیں بلایا؟ انہوں نے مایوسی سے کہا کہ پنجاب میں جو فوج اس وقت ہے، اس پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کیاجاسکتا اور ان سے کسی مدد کی امید نہیں ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پنجاب میں دہلی سے فوج بھیجی جانی چاہئے۔ ابتدا میں دہلی میں کوئی گڑبڑی نہیں تھی لیکن جب پورا ملک خونی آگ میں جل رہا تھا، دہلی میں موجود چھوٹی سی ریزروفوج کو بھیج دینا ممکن نہیں تھا۔
ہم لوگوں نے باہر سے فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ وہاں پہنچ پاتی فسادات کی آگ راجدھانی تک پہنچ گئی۔ جیسے ہی پنجاب سے قتل عام کی خبریں پناہ گزینوں کے ذریعہ یہاں پہنچیں جو کہ مغربی پنجاب سے آرہے تھے تو دہلی میں فساد پھوٹ پڑا۔ قتل و غارت گری نے شہر کو اپنے شکنجے میں کس لیا۔ فسادات سے صرف پناہ گزیں متاثر نہیں تھے بلکہ عام لوگ بھی اس کی زد میں آگئے۔ یہاں تک کہ وہ علاقے جہاں صرف سرکاری ملازمین تھے وہ بھی اسی سے متاثر تھے۔ جب مغربی پنجاب سے قتل عام کی خبریں دہلی پہنچیں ،بے لگام لوگوں کی بھیڑ نے شہر کے مسلمانوں پر حملے کردےے۔ دہلی میں ان خونی حملوں کو انجام دینے میں سکھ سب سے آگے تھے۔
میں پہلے ہی یہ کہہ چکا ہوں کہ میں بدلے اور یرغمال بنانے کے نظریہ کی غیر ذمہ دارانہ باتوں سے کتنا افسردہ تھا۔ دہلی میں ہم اس خطرناک انداز فکر کا بہت ہی خوفناک اثر دیکھ رہے تھے۔ اگر مغربی پنجاب کے مسلمان ہندوﺅں اور سکھوں کے قتل کے گناہگار تھے تو ان کا بدلہ دہلی کے معصوم لوگوں سے کیوں لیا جانا چاہئے؟ بدلے کے یہ اصول اتنے ہی ظالمانہ ہوتے ہیں کہ کوئی شریف اور سمجھ دار شخص اس کی حمایت میں ایک بھی لفظ نہیں کہہ سکتا۔
فوج کا یہ رویہ اب ایک مشکل مسئلہ بن چکا تھا۔ تقسیم سے پہلے فوج فرقہ پرستی کے زہر سے آزاد تھی۔ جب ملک کا بٹوارا فرقہ وارانہ بنیاد پر ہوا تو فرقہ پرستی کے جراثیم فوج میں بھی داخل ہوگئے۔ دہلی میں زیاد تر فوجی ہندو اور سکھ تھے، کچھ ہی دنوں میں یہ صاف ہوگیا کہ اگر شہر میں قانون وانتظام بحال کرنے کے لےے سخت قدم اٹھانے ہیں تو ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اس لےے ان لوگوں کو تیزی کے ساتھ جنوب سے فوج بلانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ وہ ملک کے بٹوارے سے متاثر نہیں تھے اور اپنے فوجی ضابطوں پر کاربند تھے۔ جنوب کے فوجیوں نے حالات پر قابو پانے اور شہر میں لا ءاینڈ آرڈر بحال کرنے میں اہم کردار نبھایا۔
خاص شہر کے علاوہ آس پاس کے علاقوں جیسے قرول باغ، لودھی کالونی، سبزی منڈی اور صدربازار میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد تھے۔ ان سبھی علاقوں میں جان و مال بہت زیادہ محفوظ نہیں تھا اور موجودہ حالت میں پوری طرح فوجی تحفظ بھی ممکن نہیں تھا۔ ایک وقت تو صورت حال اتنی خراب ہوگئی کہ کوئی بھی مسلمان اس یقین سے نہیں سوتا تھا کہ وہ کل صبح زندہ اٹھے گا۔آتش زنی، قتل اور فسادات کے ان دنوں میں، میں فوجی افسروں کے ساتھ دہلی کے مختلف علاقوں میں گیا۔ میں نے پایا کہ مسلمان پوری طرح ڈرے سہمے اور بے بس تھے۔ کئی نے میرے مکان میں پناہ لینے کی خواہش ظاہر کی۔ شہر کے جانے مانے خاندان میرے پاس پوری طرح لٹی پٹی حالت میں آئے، ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا تھا، سوائے ان کپڑوں کے جو کہ وہ پہنے ہوئے تھے۔ کچھ کی دن کے اجالے میں نکلنے کی ہمت نہیں تھی، وہ آدھی رات یا صبح سویرے فوج کی حفاظت میں لائے گئے۔
میرا گھر جلد ہی بھر گیا اور میں نے اپنے کمپاﺅنڈ میں شامیانے لگوادےے۔ ہر طرح کے لوگ عورتیں و مرد، امیروغریب، جوان وبوڑھے جان کے خوف سے سب ایک ساتھ رہ رہے تھے۔
یہ بہت جلد واضح ہوگیا کہ قانون و انتظام بحال ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ شہر کے مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے گھروں کو تحفظ فراہم کرنا ممکن نہیں تھا۔ اگر ہم ایک علاقہ میں حفاظتی دستوں کو تعینات کرتے تو دوسرے علاقہ میں حملے شروع ہوجاتے۔ تب ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے محفوظ کیمپوں میں رکھاجائے۔ اس طرح کا ایک کیمپ پرانا قلعہ میں بنایا گیا، اس میں کوئی عمارت نہیں بچی تھی، سوائے کھنڈروں کے۔ یہ کھنڈر بھی جلد ہی بھرگئے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد قلعہ میں لائی گئی اور کھنڈروں میں ان لوگوں نے پوری سردی گزاری۔
میں نے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی جس طرح ان کی بٹوارے میں مدد کے لےے نکتہ چینی کی ہے، میں اب ان کے اس طریقے کی بھی تعریف کرتا ہوں جس طرح انہوں نے ہم پر آنے والے خطرے کو نمٹایا۔ جس طاقت اور جوش سے انہوں نے ہندوستان کے بٹوارے کا مشکل کام پورا کیا، اسے میں پہلے ہی بتاچکا ہوں۔ اس سے بھی زیادہ طاقت اور جوش سے ملک میں قانون وانتظام بحال کرنے کا کام کیا۔ ان کی فوجی ٹریننگ ہمارے بہت کام آئی۔ ان کی اس فوجی صلاحیت کے تجربے اور رہنمائی کے بنا ہم ان مشکلات پر شاید ہی قابو پاسکتے۔انہوں نے کہا کہ جنگ جیسے حالات ہیں اور اس سے اسی طرح نمٹنا چاہئے، جنگ کے دوران جنگ کونسل جس طرح دن رات کام کرتی ہے۔
ہمیں بھی ایک ورکنگ کونسل بنانی چاہئے جو کہ موقع پر فیصلہ کرسکے اور یہ دیکھے کہ فیصلے پر عمل کیا گیا یا نہیں۔ یہ بورڈ روز صبح 9.30بجے گورنمنٹ ہاﺅس کے کیبنٹ روم میں ملتا تھا۔ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن اس کی صدارت کرتے۔ ہم لوگ گزشتہ24گھنٹے کے اندر دےے گئے احکامات اور پھر اس پر عمل کا جائزہ لیتے تھے۔ اس بورڈ نے بحالی امن تک بغیر رکے کام کیا۔ بورڈ کے سامنے روز صبح جو رپورٹ آتی وہ اس مشکل وقت میں ہمیں معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں مددکرتی۔
اس پورے وقت گاندھی جی زبردست تناﺅ میں رہے تھے۔ انہوں نے دونوں فرقہ کے درمیان اچھے جذبات بحال کرنے اور مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کے لےے ہر ممکن کوشش کی۔ انہیں اس سے بہت تکلیف اور دکھ پہنچا کہ ان کی کوششوں کو امید کے مطابق کامیابی نہیں ملی۔ اکثر وہ سردار پٹیل، جواہر لال نہرو اورمجھے بلاتے اور شہر کے حالات کے بارے میں بات کرتے۔ اس سے ان کا دکھ اور بھی بڑھ گیا جب انہوں نے دیکھا کہ ہمارے درمیان نظریاتی اختلافات تھے۔ جو کچھ ہورہا تھا، اس کے بارے میں بھی ہمارے اندر اختلافات دیکھ کر ان کا دکھ اور بھی زیادہ بڑھ گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ ایک جانب سردار پٹیل اور دوسری جانب میرے اور جواہر لال نہرو کے درمیان اختلاف تھا۔ اس کا اثر مقامی انتظامیہ پر بھی پڑرہا تھا اور حکام دوحصوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔
بڑی جماعت سردار پٹیل کی جانب دیکھ رہی تھی اور اس طرح کام کررہی تھی جو ان کے نظریہ کے مطابق ان کو خوش کرسکے۔ ایک چھوٹی سی جماعت میرے اور جواہر لال کے ساتھ تھی اور جواہر لال کے احکامات کو پورا کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ دہلی کے چیف کمشنر ایک مسلمان افسر خورشیداحمد تھے جو صاحبزادہ آفتاب احمد کے بیٹے تھے۔ وہ ایک مضبوط افسر نہیں تھے، اس کے ساتھ ساتھ وہ ڈرتے تھے کہ اگر انہوں نے سخت قدم اٹھائے تو ان پر مسلمانوں کے حامی ہونے کا الزام لگ جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ صرف نام کے لےے انتظامیہ کے سربراہ تھے اور سبھی قدم ڈپٹی کمشنر اپنی خواہش کے مطابق اٹھا رہے تھے۔
ڈپٹی کمشنر رندھاوانامی افسر تھے جو کہ سکھ تھے۔ لیکن سکھوں کی رسموں اور اصولوں کو نہیں مانتے تھے۔ انہوں نے اپنی داڑھی منڈوالی تھی اور بال کٹوا لےے تھے اور بہت سے سکھ انہیں ناستک کہتے تھے۔ وہ تقسیم سے قبل سے دہلی کے ڈپٹی کمشنر تھے اور15اگست سے پہلے یہ سفارش کی جارہی تھی کہ چونکہ انہوں نے اپنی مدت کار مکمل کرلی ہے،اس لےے انہیں پنجاب واپس جانا چاہئے۔ دہلی کے بہت سے مشہور شہری خاص طور سے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نے اس تجویز کی زوردار مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ رندھاوا ایک سیکولر ذہنیت کے سخت افسر ہیں اور ان مشکل حالات میں ان کا مناسب جانشین تلاش کرنا آسان نہیں۔
رندھاوا کو اسی طرح بحال رکھا گیا تھا۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی جس نے پورے پنجاب کو اپنے شکنجے میں کس رکھا تھا، اس نے انہیں بدل دیا۔ مجھے بہت سی رپورٹیں ملیں کہ وہ مجرموں کے خلاف سخت اور کارگر قدم نہیں اٹھا رہے تھے۔ بہت سے مسلمان جو کچھ پہلے ان کی تقرری کے لےے دلیلیں دے رہے تھے، اب میرے پاس آئے اور کہا کہ وہ دہلی کے مسلمانوں کو تحفظ نہیں فراہم کرارہے ہیں۔ اس کی شکایت سردار پٹیل سے کی گئی لیکن انہوں نے ان شکایتوں پر مشکل سے ہی کوئی دھیان دیا۔
سردار پٹیل وزیرداخلہ تھے اور اسی وجہ سے دہلی انتظامیہ براہ راست ان کے ماتحت تھا، جیسے جیسے قتل اور آتش زنی کی فہرست لمبی ہوتی گئی، گاندھی جی نے پٹیل کو بلا بھیجا اور ان سے پوچھا کہ وہ اس قتل عام کو روکنے کے لےے کیا کررہے ہیں؟ سردار پٹیل نے ان کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ وہ رپورٹ جو گاندھی جی کو ملی ہے وہ بڑھا چڑھا کر بتائی گئی ہے۔ حقیقت میں وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے ڈرنے یا شکایت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
مجھے خاص طور سے ایک موقع یاد ہے جب ہم تینوں گاندھی جی کے ساتھ بیٹھے تھے، جواہر لال نے گہرے دکھ کے ساتھ کہا تھا کہ وہ دہلی کی یہ حالت برداشت نہیں کرسکتے جہاں کے مسلمان کتے اور بلی کی طرح مارے جارہے ہیں، وہ اپنے کو شرمندہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ بے بس ہیں اور ان کی مدد نہیں کرسکتے ہیں، ان کی آتما انہیں کبھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتی، اس لےے کہ لوگ اگر ان سے ان خوفناک واقعات کے بارے میں پوچھیں گے تو وہ کیا جواب دیں گے؟جواہر لال نے کئی بار دوہرایا کہ وہ ان حالات میں خود کو بے بس پاتے ہیں، ان کا ضمیر انہیں شرمسار کرتا ہے۔لیکن سردار پٹیل کے ردعمل سے ہم پوری طرح حیرت زدہ رہ گئے تھے، ایسے وقت میں جب مسلمان دن کے اجالے میں مارے جارہے تھے انہوں نے گاندھی جی سے کہا کہ جواہر لال کی شکایتیں پوری طرح نہ سمجھ میں آنے والی ہیں۔ کچھ واقعات ہوسکتے ہیں لیکن سرکار مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کے لےے ہر ممکن کوشش کررہی ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت میں انہوں نے جواہر لال کے وزیراعظم کی شکل میں سرکار جوکچھ کررہی ہے، اسے قبول کرنے سے انکار کردیاتھا۔
جواہر لال نہرو کچھ لمحوں کے لےے سکتہ میں آگئے اور پھر مایوسی سے گاندھی جی کی جانب گھومے اور کہا کہ اگر سردار پٹیل کا یہ کہنا ہے تو انہیں کچھ نہیں کہنا
سے یوم آزادی 2008تک)
پنڈت نہرو اور سردار پٹیل کے نظریاتی اختلاف اب سامنے تھے
دبئی ،شارجہ، ابو ظہبی، اجمان،بحرین،قطر،عمان،سیریا،جارڈن جیسے ممالک کی کل آبادی اور رقبہ و ہندوستان کے چند شہروں کی آبادی اور رقبہ موازنے کے ساتھ جلد ہی قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے تاکہ وہ اندازہ کر سکیں کہ تقسیم وطن کے وقت مسلمانوں کے ذہن میں کیا رہا ہوگا اور ساتھ ہی ہندوستان کی کچھ ایسی ریاستوں کا ذکر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا ،جنھیں نوابوں اور جاگیرداروں نیز راجاﺅں کی ریاست تسلیم کیا جاتا تھا۔مگرپہلے ہم وہ سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں جس میں تقسیم وطن کے حالات کا ذکر مولانا آزاد نے کیا ہے اور جوکہ راقم الحروف کے تجزیے کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔لہٰذا آج کی قسط میں مولانا آزاد کی اس تاریخی تصنیف سے چند اور حقائق اور اس پر گفتگو کل۔
جناح کا آخری پیغام اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکے جیسا تھا۔ ان کے لےے اب یہ ایک دم صاف تھا کہ بٹوارے کا انجام صرف یہ ہے کہ اقلیت کی شکل میں ان کی حالت پہلے سے مزید کمزور ہوگئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں نے بے وقوفی کی حرکتوں سے ہندوﺅں کے دماغوں میں نفرت اور غصہ بھردیا۔
مسلم لیگ کے ممبران اب بار بار کہہ رہے تھے کہ وہ اب ہندوﺅں کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہ صاف تھا کہ ان حالات پر رنج و غم نے شاید ہی ان کے لےے رحم کا جذبہ پیدا کیا ہو۔ میں نے انہیں یاد دلایا کہ میں نے ان سے کیبنٹ مشن پلان کے دوران کیا کہا تھا۔ میں نے اپنے 15اپریل1946کے بیان میں ہندوستانی مسلمانوں کو صاف لفظوں میں ہوشیار کردیا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ اگر بٹوارہ ایک حقیقت بن گیا تب ایک دن انہیں پتہ چلے گا کہ اکثریتی مسلمانوں کے پاکستان جانے کے بعد وہ ہندوستان میں ایک چھوٹی اور کمزور اقلیت کی شکل میں رہ جائیں گے۔
15
اگست کو یوم آزادی کی تقریبات کے لےے ایک پروگرام منعقد کیاگیا۔ نصف شب کانسٹی چےوئنٹ اسمبلی کی میٹنگ ہوئی اور اس میں اعلان کیاگیا کہ ہندوستان آزاد اور خودمختار ملک ہے۔ دوسرے دن صبح 9بجے اسمبلی کی پھر میٹنگ ہوئی اور لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے افتتاحی تقریر کی۔ پورا شہر خوشی کے عالم میں تھا یہاں تک کہ تقسیم کے دکھ کو بھی لوگ بھول گئے تھے۔ شہر اور آس پاس کے لاکھوں لوگ آزادی کی خوشیاں منانے کے لےے نکل پڑے تھے۔ آزاد بھارت کا پرچم 4بجے لہرایا جانا تھا۔
اگست کی جلا دینے والی دوپہر کے باوجود لاکھوں لوگ گھنٹوں سورج کی تپش کو برداشت کررہے تھے۔ بھیڑ اتنی زیادہ تھی کہ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن اپنی کار سے باہر نہیں آسکے اور انہیں وہیں سے تقریر کرنی پڑی۔ یہ خوشی بہت ولولہ انگیز تھی لیکن یہ خوشی مشکل سے 48گھنٹے ہی رہ پائی۔ اگلے ہی دن فرقہ وارانہ فسادات کی خبروں نے شہر کو گہری اداسی میں غرق کردیا۔ قتل لوٹ اور تشدد کی خبریں تھیں۔ یہ بھی دیکھاگیا کہ مشرقی پنجاب میں ہندو اور سکھوں نے مسلمانوں کے گاﺅں پر حملے کےے۔ وہ لوگ گھروں کو جلا رہے تھے اور معصوم مردوں وعورتوں اور بچوں کو ماررہے تھے۔ ٹھیک یہی رپورٹ مغربی پنجاب سے بھی ملی۔ مسلمان، ہندو اور سکھ فرقہ کے مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کررہے تھے، پورا مشرقی اور مغربی پنجاب بربادی اور موت کا قبرستان بن گیا تھا۔ ایسے واقعات تیزی سے ہورہے تھے۔ ایک کے بعد ایک پنجاب کے وزیر دہلی بھاگ رہے تھے، ان کے ساتھ کانگریس کے وہ لیڈر تھے جو سرکار سے باہر تھے۔
یہ سبھی لوگ وہاں ہونے والے واقعات سے خوفزدہ تھے۔ وہ قتل و غارت گری کے پھیلاﺅ سے بھی حیران تھے، وہ مایوسی میں کہنے لگے کہ شاید اب کوئی بھی اسے روک نہ سکے۔ ہم لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے فوج کو کیوں نہیں بلایا؟ انہوں نے مایوسی سے کہا کہ پنجاب میں جو فوج اس وقت ہے، اس پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کیاجاسکتا اور ان سے کسی مدد کی امید نہیں ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پنجاب میں دہلی سے فوج بھیجی جانی چاہئے۔ ابتدا میں دہلی میں کوئی گڑبڑی نہیں تھی لیکن جب پورا ملک خونی آگ میں جل رہا تھا، دہلی میں موجود چھوٹی سی ریزروفوج کو بھیج دینا ممکن نہیں تھا۔
ہم لوگوں نے باہر سے فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ وہاں پہنچ پاتی فسادات کی آگ راجدھانی تک پہنچ گئی۔ جیسے ہی پنجاب سے قتل عام کی خبریں پناہ گزینوں کے ذریعہ یہاں پہنچیں جو کہ مغربی پنجاب سے آرہے تھے تو دہلی میں فساد پھوٹ پڑا۔ قتل و غارت گری نے شہر کو اپنے شکنجے میں کس لیا۔ فسادات سے صرف پناہ گزیں متاثر نہیں تھے بلکہ عام لوگ بھی اس کی زد میں آگئے۔ یہاں تک کہ وہ علاقے جہاں صرف سرکاری ملازمین تھے وہ بھی اسی سے متاثر تھے۔ جب مغربی پنجاب سے قتل عام کی خبریں دہلی پہنچیں ،بے لگام لوگوں کی بھیڑ نے شہر کے مسلمانوں پر حملے کردےے۔ دہلی میں ان خونی حملوں کو انجام دینے میں سکھ سب سے آگے تھے۔
میں پہلے ہی یہ کہہ چکا ہوں کہ میں بدلے اور یرغمال بنانے کے نظریہ کی غیر ذمہ دارانہ باتوں سے کتنا افسردہ تھا۔ دہلی میں ہم اس خطرناک انداز فکر کا بہت ہی خوفناک اثر دیکھ رہے تھے۔ اگر مغربی پنجاب کے مسلمان ہندوﺅں اور سکھوں کے قتل کے گناہگار تھے تو ان کا بدلہ دہلی کے معصوم لوگوں سے کیوں لیا جانا چاہئے؟ بدلے کے یہ اصول اتنے ہی ظالمانہ ہوتے ہیں کہ کوئی شریف اور سمجھ دار شخص اس کی حمایت میں ایک بھی لفظ نہیں کہہ سکتا۔
فوج کا یہ رویہ اب ایک مشکل مسئلہ بن چکا تھا۔ تقسیم سے پہلے فوج فرقہ پرستی کے زہر سے آزاد تھی۔ جب ملک کا بٹوارا فرقہ وارانہ بنیاد پر ہوا تو فرقہ پرستی کے جراثیم فوج میں بھی داخل ہوگئے۔ دہلی میں زیاد تر فوجی ہندو اور سکھ تھے، کچھ ہی دنوں میں یہ صاف ہوگیا کہ اگر شہر میں قانون وانتظام بحال کرنے کے لےے سخت قدم اٹھانے ہیں تو ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اس لےے ان لوگوں کو تیزی کے ساتھ جنوب سے فوج بلانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ وہ ملک کے بٹوارے سے متاثر نہیں تھے اور اپنے فوجی ضابطوں پر کاربند تھے۔ جنوب کے فوجیوں نے حالات پر قابو پانے اور شہر میں لا ءاینڈ آرڈر بحال کرنے میں اہم کردار نبھایا۔
خاص شہر کے علاوہ آس پاس کے علاقوں جیسے قرول باغ، لودھی کالونی، سبزی منڈی اور صدربازار میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد تھے۔ ان سبھی علاقوں میں جان و مال بہت زیادہ محفوظ نہیں تھا اور موجودہ حالت میں پوری طرح فوجی تحفظ بھی ممکن نہیں تھا۔ ایک وقت تو صورت حال اتنی خراب ہوگئی کہ کوئی بھی مسلمان اس یقین سے نہیں سوتا تھا کہ وہ کل صبح زندہ اٹھے گا۔آتش زنی، قتل اور فسادات کے ان دنوں میں، میں فوجی افسروں کے ساتھ دہلی کے مختلف علاقوں میں گیا۔ میں نے پایا کہ مسلمان پوری طرح ڈرے سہمے اور بے بس تھے۔ کئی نے میرے مکان میں پناہ لینے کی خواہش ظاہر کی۔ شہر کے جانے مانے خاندان میرے پاس پوری طرح لٹی پٹی حالت میں آئے، ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا تھا، سوائے ان کپڑوں کے جو کہ وہ پہنے ہوئے تھے۔ کچھ کی دن کے اجالے میں نکلنے کی ہمت نہیں تھی، وہ آدھی رات یا صبح سویرے فوج کی حفاظت میں لائے گئے۔
میرا گھر جلد ہی بھر گیا اور میں نے اپنے کمپاﺅنڈ میں شامیانے لگوادےے۔ ہر طرح کے لوگ عورتیں و مرد، امیروغریب، جوان وبوڑھے جان کے خوف سے سب ایک ساتھ رہ رہے تھے۔
یہ بہت جلد واضح ہوگیا کہ قانون و انتظام بحال ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ شہر کے مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے گھروں کو تحفظ فراہم کرنا ممکن نہیں تھا۔ اگر ہم ایک علاقہ میں حفاظتی دستوں کو تعینات کرتے تو دوسرے علاقہ میں حملے شروع ہوجاتے۔ تب ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے محفوظ کیمپوں میں رکھاجائے۔ اس طرح کا ایک کیمپ پرانا قلعہ میں بنایا گیا، اس میں کوئی عمارت نہیں بچی تھی، سوائے کھنڈروں کے۔ یہ کھنڈر بھی جلد ہی بھرگئے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد قلعہ میں لائی گئی اور کھنڈروں میں ان لوگوں نے پوری سردی گزاری۔
میں نے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی جس طرح ان کی بٹوارے میں مدد کے لےے نکتہ چینی کی ہے، میں اب ان کے اس طریقے کی بھی تعریف کرتا ہوں جس طرح انہوں نے ہم پر آنے والے خطرے کو نمٹایا۔ جس طاقت اور جوش سے انہوں نے ہندوستان کے بٹوارے کا مشکل کام پورا کیا، اسے میں پہلے ہی بتاچکا ہوں۔ اس سے بھی زیادہ طاقت اور جوش سے ملک میں قانون وانتظام بحال کرنے کا کام کیا۔ ان کی فوجی ٹریننگ ہمارے بہت کام آئی۔ ان کی اس فوجی صلاحیت کے تجربے اور رہنمائی کے بنا ہم ان مشکلات پر شاید ہی قابو پاسکتے۔انہوں نے کہا کہ جنگ جیسے حالات ہیں اور اس سے اسی طرح نمٹنا چاہئے، جنگ کے دوران جنگ کونسل جس طرح دن رات کام کرتی ہے۔
ہمیں بھی ایک ورکنگ کونسل بنانی چاہئے جو کہ موقع پر فیصلہ کرسکے اور یہ دیکھے کہ فیصلے پر عمل کیا گیا یا نہیں۔ یہ بورڈ روز صبح 9.30بجے گورنمنٹ ہاﺅس کے کیبنٹ روم میں ملتا تھا۔ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن اس کی صدارت کرتے۔ ہم لوگ گزشتہ24گھنٹے کے اندر دےے گئے احکامات اور پھر اس پر عمل کا جائزہ لیتے تھے۔ اس بورڈ نے بحالی امن تک بغیر رکے کام کیا۔ بورڈ کے سامنے روز صبح جو رپورٹ آتی وہ اس مشکل وقت میں ہمیں معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں مددکرتی۔
اس پورے وقت گاندھی جی زبردست تناﺅ میں رہے تھے۔ انہوں نے دونوں فرقہ کے درمیان اچھے جذبات بحال کرنے اور مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کے لےے ہر ممکن کوشش کی۔ انہیں اس سے بہت تکلیف اور دکھ پہنچا کہ ان کی کوششوں کو امید کے مطابق کامیابی نہیں ملی۔ اکثر وہ سردار پٹیل، جواہر لال نہرو اورمجھے بلاتے اور شہر کے حالات کے بارے میں بات کرتے۔ اس سے ان کا دکھ اور بھی بڑھ گیا جب انہوں نے دیکھا کہ ہمارے درمیان نظریاتی اختلافات تھے۔ جو کچھ ہورہا تھا، اس کے بارے میں بھی ہمارے اندر اختلافات دیکھ کر ان کا دکھ اور بھی زیادہ بڑھ گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ ایک جانب سردار پٹیل اور دوسری جانب میرے اور جواہر لال نہرو کے درمیان اختلاف تھا۔ اس کا اثر مقامی انتظامیہ پر بھی پڑرہا تھا اور حکام دوحصوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔
بڑی جماعت سردار پٹیل کی جانب دیکھ رہی تھی اور اس طرح کام کررہی تھی جو ان کے نظریہ کے مطابق ان کو خوش کرسکے۔ ایک چھوٹی سی جماعت میرے اور جواہر لال کے ساتھ تھی اور جواہر لال کے احکامات کو پورا کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ دہلی کے چیف کمشنر ایک مسلمان افسر خورشیداحمد تھے جو صاحبزادہ آفتاب احمد کے بیٹے تھے۔ وہ ایک مضبوط افسر نہیں تھے، اس کے ساتھ ساتھ وہ ڈرتے تھے کہ اگر انہوں نے سخت قدم اٹھائے تو ان پر مسلمانوں کے حامی ہونے کا الزام لگ جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ صرف نام کے لےے انتظامیہ کے سربراہ تھے اور سبھی قدم ڈپٹی کمشنر اپنی خواہش کے مطابق اٹھا رہے تھے۔
ڈپٹی کمشنر رندھاوانامی افسر تھے جو کہ سکھ تھے۔ لیکن سکھوں کی رسموں اور اصولوں کو نہیں مانتے تھے۔ انہوں نے اپنی داڑھی منڈوالی تھی اور بال کٹوا لےے تھے اور بہت سے سکھ انہیں ناستک کہتے تھے۔ وہ تقسیم سے قبل سے دہلی کے ڈپٹی کمشنر تھے اور15اگست سے پہلے یہ سفارش کی جارہی تھی کہ چونکہ انہوں نے اپنی مدت کار مکمل کرلی ہے،اس لےے انہیں پنجاب واپس جانا چاہئے۔ دہلی کے بہت سے مشہور شہری خاص طور سے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نے اس تجویز کی زوردار مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ رندھاوا ایک سیکولر ذہنیت کے سخت افسر ہیں اور ان مشکل حالات میں ان کا مناسب جانشین تلاش کرنا آسان نہیں۔
رندھاوا کو اسی طرح بحال رکھا گیا تھا۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی جس نے پورے پنجاب کو اپنے شکنجے میں کس رکھا تھا، اس نے انہیں بدل دیا۔ مجھے بہت سی رپورٹیں ملیں کہ وہ مجرموں کے خلاف سخت اور کارگر قدم نہیں اٹھا رہے تھے۔ بہت سے مسلمان جو کچھ پہلے ان کی تقرری کے لےے دلیلیں دے رہے تھے، اب میرے پاس آئے اور کہا کہ وہ دہلی کے مسلمانوں کو تحفظ نہیں فراہم کرارہے ہیں۔ اس کی شکایت سردار پٹیل سے کی گئی لیکن انہوں نے ان شکایتوں پر مشکل سے ہی کوئی دھیان دیا۔
سردار پٹیل وزیرداخلہ تھے اور اسی وجہ سے دہلی انتظامیہ براہ راست ان کے ماتحت تھا، جیسے جیسے قتل اور آتش زنی کی فہرست لمبی ہوتی گئی، گاندھی جی نے پٹیل کو بلا بھیجا اور ان سے پوچھا کہ وہ اس قتل عام کو روکنے کے لےے کیا کررہے ہیں؟ سردار پٹیل نے ان کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ وہ رپورٹ جو گاندھی جی کو ملی ہے وہ بڑھا چڑھا کر بتائی گئی ہے۔ حقیقت میں وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے ڈرنے یا شکایت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
مجھے خاص طور سے ایک موقع یاد ہے جب ہم تینوں گاندھی جی کے ساتھ بیٹھے تھے، جواہر لال نے گہرے دکھ کے ساتھ کہا تھا کہ وہ دہلی کی یہ حالت برداشت نہیں کرسکتے جہاں کے مسلمان کتے اور بلی کی طرح مارے جارہے ہیں، وہ اپنے کو شرمندہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ بے بس ہیں اور ان کی مدد نہیں کرسکتے ہیں، ان کی آتما انہیں کبھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتی، اس لےے کہ لوگ اگر ان سے ان خوفناک واقعات کے بارے میں پوچھیں گے تو وہ کیا جواب دیں گے؟جواہر لال نے کئی بار دوہرایا کہ وہ ان حالات میں خود کو بے بس پاتے ہیں، ان کا ضمیر انہیں شرمسار کرتا ہے۔لیکن سردار پٹیل کے ردعمل سے ہم پوری طرح حیرت زدہ رہ گئے تھے، ایسے وقت میں جب مسلمان دن کے اجالے میں مارے جارہے تھے انہوں نے گاندھی جی سے کہا کہ جواہر لال کی شکایتیں پوری طرح نہ سمجھ میں آنے والی ہیں۔ کچھ واقعات ہوسکتے ہیں لیکن سرکار مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کے لےے ہر ممکن کوشش کررہی ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت میں انہوں نے جواہر لال کے وزیراعظم کی شکل میں سرکار جوکچھ کررہی ہے، اسے قبول کرنے سے انکار کردیاتھا۔
جواہر لال نہرو کچھ لمحوں کے لےے سکتہ میں آگئے اور پھر مایوسی سے گاندھی جی کی جانب گھومے اور کہا کہ اگر سردار پٹیل کا یہ کہنا ہے تو انہیں کچھ نہیں کہنا
۔جاری
No comments:
Post a Comment