جانتا ہوں کہ آج کا مضمون لکھ کر میں پھر ایک بڑی مصیبت کو دعوت دے رہا ہوں، مگر کیا کروں جب ایک بہت بڑی مصیبت میں پوری قوم کو گرفتار ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں تو چپ کیسے رہوں۔ ’مصر‘ میرا ملک نہیں ہے، ’لیبیا‘ اور ’بحرین‘ کا شہری بھی نہیں ہوں میں، میرا ملک تو ہندوستان ہے اور میری پہلی فکر بھی ہندوستان ہی ہے، مگر ہم ہندوستانی کسی کو پریشانی میں دیکھتے ہیں تو اس سے نظریں نہیں پھیر لیتے، بلکہ اس کی ہرممکن مدد کرنا اپنا اوّلین فرض سمجھتے ہیں۔ بس سمجھ لیجئے کہ اس وقت ایک ایسے ہی فرض کی ادائیگی کررہا ہوں میں۔ اور ایک ڈر یہ بھی ہے کہ کل یہ آگ ہمارے دامن تک نہ پہنچ جائے۔
صدام حسین۔حسنی مبارک۔کرنل قذافی۔اپنے اپنے ملک کی شناخت سمجھے جاتے رہے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ سبھی بہت طاقتور حکمراں رہے ہیں۔ صدام حسین نے 24برس عراق پر حکومت کی، حسنی مبارک نے 30برس اور کرنل قذافی نے 41برس۔ صدام حسین کا قتل،حسنی مبارک کی اقتدار سے بے دخلی اور کرنل قذافی کے خلاف بغاوت۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز پر امریکی کنٹرول، کویت کی اقتصادیات پر امریکی قبضہ، عراق اور افغانستان میں امریکی کٹھ پتلی حکمراں، ایران میں محموداحمدی نژاد حکومت کو مسلسل دھمکیاں اور اردن جیسے ملک امریکی کالونی کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ بحرین کی حالت غیر اب کسی سے چھپی نہیں ہے۔ فلسطین کی تباہی ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔ خون آلودہ پاکستان اب اس درجہ لاچار اور بے بس ہوچکا ہے کہ اپنے شہریوں کے قاتل ریمنڈڈیوس کو کسی بھی طرح کی سزا دینا تو دور اس امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ایجنٹ کے خلاف زبان کھولنے کے جرم میں اپنے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو ان کے عہدہ سے ہٹانے کے لئے مجبور ہوچکا ہے۔ بنگلہ دیش جو کبھی پاکستان کا حصہ تھا، آج ایک بے حیثیت ملک بن کر رہ گیا ہے اور ان سب کے پیچھے ہے صرف اور صرف ایک طاقت امریکہ۔ ہم سب جانتے ہیں، مگر خاموش ہیں، لاچاروبے بس ہیں۔ اگر کسی کو اس جانب متوجہ کیا جائے تو ایک ہی جواب ملتا ہے، آخر ہم کرہی کیا سکتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔
وہی مایوسی بھرا انداز۔ ایک جولین اثانچے وکی لیکس کی معرفت پوری دنیا میں ہلچل پیدا کرسکتا ہے۔ ایک مارک زکیربرگ (Mark Zuckerberg)فیس بک کی ایجاد کر کمیونی کیشن کی دنیا میں ایک نیا انقلاب لاسکتا ہے، جس کا سہارا لے کر نوجوان لڑکی فیس بک کے ایک پیغام کے ذریعہ حسنی مبارک کی 31سالہ حکومت کا تختہ پلٹ سکتی ہے اور 150کروڑ کی آبادی والی اس قوم میں ایسا ایک بھی نہیں، جو ان کا جواب بن سکے۔
عرب ممالک کی سب سے بڑی طاقت ہے پیٹرول، جو پروردگارعالم کا ایک عطیہ ہے۔ بہت تیزی سے اب اس دولت پر امریکہ کا قبضہ ہوتا جارہا ہے، مگر سب چپ ہیں، کوئی امریکہ کے خلاف بولنے کی جرأت کرتا ہی نہیں۔ کویت کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ ہزاروں برس سے عراق کا ایک حصہ تھا۔ ساتویں صدی میں عراق کے ساتھ ساتھ کویت بھی مسلمانوں کی ملکیت میں شمار کیا گیا۔ بیسویں صدی تک ترکی کی خلافت عثمانیہ کا ایک حصہ رہا، لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد فرانس اور برطانیہ نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کردیا اور عرب ممالک میں اپنی کٹھ پتلی سرکاریں قائم کردیں۔ اس طرح یہ زمین ان کے قبضہ میں آنا شروع ہوگئی۔ عراق بھی برطانیہ کے اقتدار میں شامل ہوا، لیکن جلد ہی برطانیہ کو یہ احساس ہوگیا کہ ایک نہ ایک دن اس علاقہ کو خالی کرنا پڑسکتا ہے۔ لہٰذا پیش بندی کے طور پر برطانیہ نے 1921میں کویت کو آزاد مملکت کی حیثیت دی اور جب 1932میں برطانیہ نے عراق سے اپنی فوجیں ہٹائیں اور اپنی کٹھ پتلی سرکار قائم کی تو تیل کی سپلائی جاری رکھنے کی غرض سے کویت کو اپنی تحویل میں رکھا۔ 1945میں عراق کو تو برطانیہ کے تسلط سے آزادی حاصل ہوگئی، لیکن کویت بدستور ان کے کنٹرول میں رہا۔ 1958میں عراق کی شاہی حکومت کا تختہ پلٹ ہوا اور پھر تخت پر قبضہ کرنے والے فوجی جنرل عبدالکریم قاسم نے کویت کو بھی عراق کی ملکیت میں شامل کرنے کی کوشش کی، لیکن حکومت برطانیہ کے دفاع کے سبب یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ 1970میں صدام حسین نے بھی کویت کو حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ ممکن نہیں ہوسکا۔
اگر عراق کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس کی عظمت کا اعتراف ہر مسلمان کو ہوگا۔ عراق وہ ملک ہے، جسے سرزمین انبیا و اولیا بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہمارے آخری رسول حضرت محمد مصطفیﷺ کے علاوہ قرآن کریم میں جن انبیائے کرام کا تذکرہ ہے، ان میں سے بیشتر کا تعلق اس زمین سے رہا ہے۔ حضرت نوحؑ ، حضرت ادریسؑ ، حضرت ھودؑ ، حضرت صالحؑ ، حضرت ابراہیمؑ ، حضرت اسحاقؑ ، حضرت اسماعیلؑ ، حضرت شعیبؑ ، حضرت یعقوبؑ ، حضرت یوسفؑ ، حضرت موسیٰؑ ، حضرت ہارونؑ ، حضرت داؤدؑ ، حضرت سلیمانؑ ، حضرت زکریاؑ ، حضرت یحییٰؑ ، حضرت یونسؑ ، حضرت ایوبؑ ، حضرت الیاسؑ کا تعلق اسی سرزمین سے رہا ہے۔
خلافت کے ملوکیت میں تبدیل ہوجانے کے بعد اسلامی دنیا میں جب اموی حکومت کمزور ہوگئی تو اس وقت بنوعباس اٹھے اور ’’اندلس‘‘ کو چھوڑ کر پوری اسلامی ریاست پر قابض ہوگئے، تب اس دور کے دوسرے حکمراں ’’ابوجعفرمنصور‘‘ نے آٹھویں صدی عیسوی میں عراق کی سرزمین پر ایک بارونق شہر بغداد کے نام سے تعمیر کرایا اور اس کو عباسی حکومت کا دارالخلافہ بنایا۔
جب دولت عباسیہ کمزور ہوگئی اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھر گیا، اس وقت صحرائے گوبی(چین کے پاس کا بڑا ریگستانی علاقہ) سے تاتاری طوفان اٹھا اور بخارا، سمرقند، کا شغر کی اسلامی سطوت کو تباہ کرتا ہوا 1851 میں عراق کی جانب پھر گیا اور یہاں کے شہرستان علم و ثقافت کو نقصان پہنچایا۔ اس کے بعد اس خطہ پر عثمانی ترک قابض ہوگئے اور1918تک یہ خطہ ان کے زیراثر رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ پر1920میں عراق کو برطانیہ کی تولیت میں دے دیا گیا اور انگریزوں نے شاہ فیصل اوّل کو عراق کا بادشاہ بنادیا، لیکن 10برس بعد ہی 1930میں عراق برطانوی تسلط سے آزاد ہوگیا۔ 14؍جولائی 1968کو ایک بار پھر انقلاب آیا۔ بادشاہت ختم کردی گئی اور’’احمد حسن البکر‘‘ نئے صدر بنے۔ اس کے بعد 1979میں صدام حسین عراق کے صدر بنے اور2003تک صدام کی حکومت قائم رہی۔ 20؍مارچ2003کو امریکہ نے اپنی اتحادی فوجوں کے ساتھ عراق پر حملہ کیا۔ 11؍اپریل2003کو بغداد پر امریکی فوجوں کا قبضہ ہوگیا اور13؍دسمبر2003کو صدام حسین گرفتار کرلئے گئے اور30؍دسمبر2006 کو امریکہ کے سابق صدر جارج بش کی ایما کے مطابق پھانسی پر چڑھا دئے گئے۔
اسی طرح اگر قدیم ہندوستان کی تاریخ اور طول و عرض کا ذکر کریں تو پاکستان و بنگلہ دیش ہی نہیں، افغانستان بھی ہندوستان کے نقشہ میں شامل رہا ہے، جس طرح برطانیہ نے عراق پر تسلط ختم ہونے کے اندیشہ کو ذہن میں رکھ کر کویت پر اپنا کنٹرول جاری رکھا، اسی طرح جب برطانیہ نے اچھی طرح سمجھ لیا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد حالات کچھ اس طرح پیدا ہوگئے ہیں کہ اب مزید ہندوستان پرقبضہ برقرار رکھنا ممکن نہیں رہ پائے گا تو جاتے جاتے دو قومی نظریہ کا شگوفہ چھوڑ کر ہندوستان کے بٹوارے کو عملی جامہ پہنا دیا۔ پاکستان کے موجودہ حالات اس بات کے غماز ہیں کہ جس طرح پہلی جنگ عظیم کے بعد جب عراق سے قبضہ چھوڑنا پڑا تو کویت پر اپنا قبضہ بنائے رکھا اور اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد جب ہندوستان کو آزاد کرنا مجبوری بنی تو تقسیم کی شکل میں پاکستان ایک ایسے ملک کی شکل میں وجود میں آیا، جہاں آج امریکی کنٹرول ہے۔ یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ ذہنیت کے اعتبار سے برطانیہ اور امریکہ میں کوئی فرق نہیں ہے اور اپنے مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ دونوں آج بھی اس معنی میں ایک ہیں، لہٰذا بیتے ہوئے کل میں جہاں برطانیہ کا کنٹرول تھا اور آج امریکہ کا کنٹرول ہے تو اس سے ان ممالک کے حالات پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر اسرائیل کے قیام پر نظر ڈالیں تو 1947میں ہندوستان آزاد ہوا اور1948میں اسرائیل کا وجود سامنے آیا، یعنی یہ سب ایک حکمت عملی کا حصہ ہے، جو صاف نظر آتا ہے مگر پھر بھی ہم اس طرف اپنی توجہ مرکوز نہیں کرپارہے ہیں۔ ہم جسے جمہوریت کی طرف بڑھتے قدم جیسے لفظوں سے تعبیر کررہے ہیں، دراصل یہ امریکی حکمرانی کا بڑھتا ہوا دائرہ ہے۔ پہلے صدام حسین کو راستہ سے ہٹا کر اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کی، بن لادن کا بہانہ بنا کر افغانستان پر تسلط قائم کیا، حامد کرزئی اور نوری المالکی کی شکل میں دونوں ممالک میں اپنی کٹھ پتلی سرکاریں قائم کیں، اس کے بعد حسنی مبارک جنرل قذافی جیسے حکمرانوں کے تختہ پلٹ کی بساط بچھائی، وہاں بھی اب امریکہ کی کٹھ پتلی سرکاریں قائم ہونے میں کوئی دیر نہیں۔۔۔!
امریکہ اپنے سفاتکاروں کی آڑ میں سی آئی اے کا ایک مضبوط جال بچھا رہاہے۔ اس طرف اگر بروقت توجہ نہ دی گئی تو بہت جلد امریکی حکمرانی کا دائرہ اس قدر بڑھ جائے گا کہ جنہیں آج آپ مسلم ممالک کی شکل میں دیکھ رہے ہیں، وہ سب آنے والے کل میں امریکہ اور برطانیہ کی چھوٹی چھوٹی کالونیاں ہوں گی۔ کل عرب کے پیٹرول پر ان بڑی طاقتوں کا قبضہ ہوگا۔ پاکستان جیسے ملک اپنا وجود کھو دیں گے اور ہندوستان جسے دہشت گردی کے ذریعہ خانہ جنگی کا شکار بنایا جارہا ہے، کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جائے گا۔ اگر ہم ریمنڈ ڈیوس(پاکستان)، ڈیوڈ کولمین ہیڈلی(ہندوستان)، جیسے سی آئی اے/ایف بی آئی کے ایجنٹوں کو سرسری طور پر لینا بند کردیں، طالبان اور لشکرطیبہ سے ان کے رشتوں کی تہہ تک جانے کی کوشش کریں، سی آئی اے کا طالبان اور ایف بی آئی کا لشکرطیبہ سے کتنا گہرا رشتہ ہے، یہ کتنی الگ الگ تنظیمیں ہیں اور اندرونی طور پر ان میں کتنا گہرا رشتہ ہے۔ اگر اس سچ کو جان لیں تو شاید ہم عرب ممالک پر بڑھتے امریکی تسلط کو بھی روک سکیں گے، پاکستان کو مزید تباہی سے بچا سکیں گے اور ان سب کے بعد ہندوستان کو لاحق خطرہ سے بھی نجات پاسکیں گے۔ اس ضمن میں ابھی بہت کچھ لکھے جانے کی ضرورت ہے، لیکن آج کی تحریر ختم کرنے سے قبل میں چاہتا ہوں کہ لندن سے جاری اور مختلف اخبارات میں شائع ایک خبر اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کردوں، تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ مندرجہ بالا عبارت کس حد تک حقائق کی روشنی میں ہے یا پھر محض ایک قیاس آرائی۔
’’گیلانی حکومت گرانے کے مشن پر تھا پاکستانیوں کا’ قاتل‘ امریکی ڈیوس‘‘
برطانیہ کے ایک اخبار کے مطابق ریمنڈامریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا ایجنٹ ہے۔ ایران کے پریس ٹی وی کے مطابق وہ نہ صرف سی آئی اے کا ایجنٹ تھا، بلکہ طالبان کے ساتھ اس کے تعلقات ہیں اور وہ پاکستان میں سبوتاژمشن یعنی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے ارادے سے بھیجا گیا ہے۔
اس انکشاف کے بعد پاکستان او رامریکہ کے بگڑتے تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس نے 27جنوری کو لاہور میں 2افراد کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا، اس کے بعد سے وہ پولیس حراست میں ہے۔
گارجین کے مطابق ڈیوس واقعہ کے وقت بھی ایک مہم پر ہی نکلا تھا۔ اخبار نے پاکستان کے سینئر انٹلی جنس افسرکے حوالے سے کہا کہ ڈیوس سی آئی اے کا ایجنٹ ہے اور اس میں اسے قطعی شبہ نہیں ہے۔
خیال کیا جارہا ہے کہ امریکی میڈیا کو بھی اس بات کی اطلاع ہے، لیکن وہ اس لئے خاموش ہیں کہ اس انکشاف سے ڈیوس نئے بحران کا شکار ہوسکتا ہے ۔
امریکہ میں کولوریڈوکے ایک ٹی وی چینل 9نیوز نے بھی ڈیوس کی اہلیہ سے گفتگو کرکے دعویٰ کیا کہ ڈیوس سی آئی اے کا ایجنٹ ہے، لیکن بعد میںیہ اطلاع ویب سائٹ سے ہٹا لی گئی۔ ٹی و ی کے ایگزیکٹیو پروڈیوسر نکول ویپ کے مطابق ایسا ڈیوس کی سیکورٹی کے سبب کیا گیا ہے، لیکن اطلاع مکمل طور پر درست ہے۔ پاکستان کے ایک اخبار نے سینئر پولیس افسر کے حوالے سے کہا کہ ڈیوس نے پوچھ گچھ میں تسلیم کیا ہے کہ وہ سی آئی اے کا ایجنٹ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پنجاب اور دیگر صوبوں میں امریکی جاسوسوں کا گروہ سرگرم ہے۔
ایران کے پریس ٹی وی سے بات چیت میں پاکستان کے ایک سینئر سیکورٹی صلاح کار زید حامد نے دعویٰ کیا کہ ڈیوس کے پاس سے برآمد ہوئے دستاویز ، فوٹو اور دیگر ثبوتوں سے صاف ہے کہ اس کے طالبان کے ساتھ تعلقات ہیں ۔ حامد کے مطابق اب یہ لاہور کی سڑکوں پر 2نوجوانوں کو گولی مارنے کا معاملہ نہیں رہ گیاہے۔ یہ پاکستان میں سبو تاژ کرنے کا منصوبہ اور سی آئی اے کے ذریعہ پاکستان میں کرائی جا رہی جاسوسی کامعاملہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment