اللّٰہ کا بڑا شکر اور احسان ہے کہ مہتمم دارالعلوم دیوبند کے موضوع پر اٹھا تنازع بغیر کسی ٹکراؤ کے ٹل گیا، اس کے لئے بھرپور مبارکباد کے مستحق ہیں مجلس شوریٰ کے تمام ممبران اور دیگر متعلقین۔ حالانکہ یہ مسئلہ پوری طرح حل ہوگیا یہ کہنا شاید ابھی قبل ازوقت ہوگا، اس لئے کہ ایک مہینہ کے اندر آنے والی رپورٹ کے بعد آخری شکل کیا رہتی ہی، اس کا انتظار رہے گا۔ تاہم خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ 23فروری011 کو ہونے والی مجلس شوریٰ کی میٹنگ، جس پر سارے ہندوستان کی نظر تھی، بغیر کسی ناخوشگوار واقعہ کے اختتام پذیر ہوئی اور جو بھی فیصلہ آیا وہ اتفاق رائے سے تھا۔ یہ فیصلہ کتنا اطمینان بخش ہی، اس بحث میں جانے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ یہ بہرحال شوریٰ کا فیصلہ ہے اور ہم سب کے لئے اتنا ہی کافی ہونا چاہئے کہ جن خدشات کے بارے میں سوچا جارہا تھا، ویسا کچھ نہیں ہوا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ طلبا اب اپنی توجہ پوری طرح اپنی پڑھائی پر مرکوز کرسکیں گی۔ انہیں کسی طرح کے تنازع یا آپسی ٹکراؤ کا شکار نہیں ہونا پڑے گا۔
گودھرا سانحہ پر سابرمتی سینٹرل جیل کی اسپیشل کورٹ کا فیصلہ نہ کوئی جیتا، نہ کوئی ہارا کی طرز پر دونوں طبقوںکو اپنے اپنے لئے اطمینان بخش نظر آنے والا ہی۔ جہاں ایک طبقہ اس بات کو لے کر مطمئن ہوسکتا ہے کہ 63ملزمین کو رہائی کا موقع ملا، جو بے گناہ ہوتے ہوئے بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھی، وہیں دوسرا طبقہ اس بات پر مطمئن ہوسکتا ہے یوسی بنرجی کمیشن کی رپورٹ نے سابرمتی ایکسپریس سانحہ کو حادثہ قرار دے دیا تھا، جبکہ اس فیصلہ نے اسے سازش قرار دیا ہی۔ بہرحال یہ ایک ایسا موضوع ہی، جس پر تفصیل کے ساتھ لکھنے کی ضرورت ہی۔ 27فروری002 کو سابرمتی ایکسپریس سانحہ کے فوراً بعد راقم الحروف نے گجرات کا دورہ کیا تھا۔ سابرمتی ایکسپریس میں سفر کررہے متاثرین سے ملاقات کی، واقعات کی وجہ جانی، واپسی کے بعد روزنامہ راشٹریہ سہارا کے انہیں صفحات پر تفصیلی رپورٹ شائع کی اور گجرات سانحہ کو مختلف زاویوں سے دیکھ کر تین الگ الگ کتابیں لکھیں، جن میں ’’داستان ہند‘‘ پوری طرح گجرات کے ان فسادات پر مبنی ہی، سابرمتی ایکسپریس سانحہ سمیت تقریباً تمام واقعات کی تفصیل اس میں درج ہی۔ ’’چشم دیدگواہ‘‘ بیسٹ بیکری کیس کو سامنے رکھ کر لکھی گئی اور ’’ردعمل‘‘ عصمت دری کی شکار بلقیس بانو کی روداد کو ایک ناول کی شکل دے کر گجرات کے حالات کی منظرکشی کرنے کی ایک کوشش تھی۔ سابرمتی سانحہ اور اسپیشل کورٹ کے اس فیصلہ کو سامنے رکھ کر جلد ہی ایک مکمل مضمون قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔
o مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کے زوال پذیر ہونی، پھر اس کے بعد لیبیا کے تشویشناک حالات اور بحرین کے بدلتے منظرنامہ کو سامنے رکھ کر بھی بہت کچھ لکھے جانے کی ضرورت ہی۔ اگر ہم صرف یہ محسوس کررہے ہیں کہ ان ممالک کے عوام آزادی کے طلبگار ہیں اور حکمرانوں کے خلاف بلند کی گئی یہ آواز ان ممالک میں جمہوری نظام کی طرف پیش قدمی کا عمل ہے تو شاید یہ مکمل سچ نہیں ہوگا۔ ہمیں بہت گہرائی کے ساتھ ان بدلتے حالات پر غور کرنا ہوگا۔ ان کے دوررس نتائج کو سمجھنا ہوگا۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ ان حالات میں ہمارا عمل کیا ہو۔ انشاء اللہ میری کل کی تحریر اسی موضوع پر ہوگی اور میری اپنے قارئین سے یہ درخواست بھی ہوگی کہ وقت نکال کر اس تحریر کو ضرور پڑھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی زیرنظر تحریر کسی ایک موضوع پر مبنی نہیں ہی، بلکہ اس درمیان جتنے بھی ایسے موضوعات میرے سامنے آئی، جن پر قلم اٹھانا ضروری تھا مگر وقت کی تنگی کے باعث یہ ممکن نہیں ہوسکا، ان تمام موضوعات کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئی، لہٰذا آج ان کا ضمناً ذکر کررہا ہوں، عین ممکن ہے کہ لکھتے لکھتے اور بھی کوئی بڑا معاملہ سامنے آجائے اور اس پر بھی لکھنا ضروری ہو، لیکن جن موضوعات کی نشاندہی میں آج کی اس تحریر میں کررہا ہوں، انشاء اللہ ان سب پر سیرحاصل گفتگو ہوگی، اس لئے کہ ان میں سے کوئی بھی موضوع ایسا نہیں ہی، جس پر چند جملے لکھ کر بات کو ختم کردیا جائی۔
گزشتہ ہفتہ بدایوں اور بجنور میں امن کانفرنسیں منعقد کی گئیں۔ لاکھوں کی تعداد میں امن پسندوں نے اس میں شرکت کی۔ اسی درمیان مہتمم دارالعلوم دیوبند کے موضوع پر اٹھا تنازع تو اخبارات میں جگہ پاتا رہا، لیکن مسلم اداروں کے ذریعہ اسلامی بینر کے پرچم تلے اتنے بڑے پیمانہ پر منعقد کی جانے والی امن کانفرنسوں کو میڈیا میں اتنی جگہ نہیں ملی، جتنی کہ ملنی چاہئے تھی اور اگر میں اس وقت یہ لکھ دوں کہ ان بامقصد کانفرنسوں میں شرکت کرنے والوں کے علاوہ شاید ہندوستان کے عوام اس بارے میں کچھ خاص جان نہیں پائے کہ آخر وہاں گفتگو کیا ہوئی تھی، اس کا مقصد کیا تھا تو غلط نہیں ہوگا۔ میں اس موضوع پر بھی ایک مکمل مضمون لکھنا چاہتا ہوں، جو کہ جلد ہی انشاء اللہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔
آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے وزیراعظم ہند ڈاکٹر منموہن سنگھ کو خط لکھ کر بتایا کہ کرنل پروہت تو ان کی جان لینا چاہتا تھا۔ میں نے اس چارج شیٹ کی متعدد جانکاریوں کا بغور مطالعہ کیا ہی، جن میں یہ درج ہے کہ اندریش اور موہن بھاگوت کو مارنے کا ارادہ تھا اور اگر ہمارے قارئین کو یاد ہو تو میں نے اپنے اسی قسطوار کالم میں ایک مضمون لکھ کر یہ بھی واضح کیا تھا کہ بالفرض محال اگر ایسا ہوجاتا تو کیا ہوتا، ملک کو کن حالات سے گزرنا پڑتا، الزام کس پر آتا اور کون سب سے زیادہ دقتوں، پریشانیوں کا سامنا کرتا۔ کرنل پروہت کا نام تو شاید قاتل کی شکل میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ اس وقت میرے سامنے ہے وزیراعظم کو لکھے گئے موہن بھاگوت کے خط کا مواد اور جہاں یہ درج ہے کہ کرنل پروہت موہن بھاگوت اور اندریش کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، وہیں اور جو کچھ درج ہی، یقینا یہ خط پڑھنے سے قبل وہ سب بھی بھاگوت جی کی نظروں سے گزرا ہوگا۔ ضروری ہے کہ دیگر ضروری باتیں بھی وزیراعظم کے سامنے رکھی جائیں، تاکہ وہ جناب موہن بھاگوت اور اندریش جی کی حفاظت کا مکمل انتظام تو کریں ہی، ملک کی حفاظت کے لئے اور کیا کیا احتیاط درکار ہی، اس پر بھی غور کرلیں۔
22فروری یوم وفات ہے مولانا ابوالکلام آزاد کا۔ تقریباً پورے ہفتہ اس موضوع پر سیمینار، کانفرنسیں ملک بھر میں منعقد کی گئیں۔ ایسے تین پروگراموں میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ پہلا 18فروری 2011کومولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں ماس میڈیا اسٹوڈنٹس سے خطاب، اس کے اگلے روز پریادرشنی کالج، نام پلی حیدرآباد میں کل ہند اردو تعلیمی کمیٹی کے ذریعہ منعقد کی جانے والی کانفرنس ومشاعرہ اور کل 22فروری کو آندھربھون دہلی میں منعقد کئے گئے سیمینار میں شرکت۔ تمام شرکا کے اظہارخیال کو یہاں قلمبند کرنا ممکن نہیں ہی، رپورٹ کی شکل میں بہت کچھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاچکا ہی، لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جو خبروں کی شکل میں پیش نہیں کی جاسکی ہیںاور ان کا قارئین تک پہنچنا بیحد ضروری ہی۔ آندھرابھون دہلی میں تقریر کرتے ہوئے مولانا آزاد کی شخصیت پر میں نے جو چند جملے ادا کئی، میں انہیں ہندوستان بھر میں اپنے قارئین تک پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں۔ مقررین نے مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کو کسی محدود دائرہ میں قید نہ کئے جانے پر زور دیا، میں نے ان کی رائے سے اتفاق ظاہر کرنے کے باوجود اس میں کچھ اضافہ کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ ہندوستانی مسلمان آج اپنی شناخت کو لے کر بیحد پریشان اور فکرمند ہیں۔ جب جس کا جی چاہتا ہی، اس کی شناخت کسی سے بھی وابستہ کردیتا ہی۔ کبھی اس کی شناخت بن لادن سے جوڑ دی جاتی ہی، کبھی داؤد ابراہیم سے تو کبھی ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان کا ہمنوا قرار دے دیا جاتا ہی، جبکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ تقسیم وطن کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے اگر کوئی ایک ایسا چہرہ تھا، جسے وہ اپنا نمائندہ تسلیم کرتے تھے اور جس کی قیادت میں رہ جانے کو انہوں نے فوقیت دی محمد علی جناح پرتو وہ مولانا آزاد کا چہرہ تھا۔ جو آواز اس وقت کے ہندوستانی مسلمان کے ذہن میں گونجتی تھی، وہ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر کی گئی مولانا ابوالکلام آزاد کی وہ تقریر تھی، جس میں انہوں نے مذہب کے نام پر بنے پاکستان کے مقابلہ سیکولر ہندوستان کو مسلمانوں کے حق میں قرار دیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب بیشتر مسلمان پاکستان جانے کے لئے تیاریاں مکمل کرچکے تھی۔ گویا انہوں نے اپنے بستر باندھ لئے تھی، مگر مولانا آزاد کی اس تقریر کے بعد انہوں نے ہندوستان کو اپنا ملک تسلیم کیا اور ہندوستان کو چھوڑ کر نہ جانے کا فیصلہ کیا، یعنی اپنے بستر کھول لئی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نہیں چاہتے تھے کہ ملک کی تقسیم ہو، مولانا ابوالکلام آزاد فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے علمبردار تھی۔ وہ ہندوستان کے پہلے وزیرتعلیم ہی نہیں، ہندوستان کی اس سیاست اور صحافت کے لئے ایک مشعل راہ ہیں، لہٰذا ہندوستانی مسلمان کی شناخت اگر مولانا ابوالکلام آزاد کی شناخت سے ہم آہنگ کردی جائے تو پھر کوئی ان سے یہ سوال نہیں کرسکے گا کہ تمہیں تمہارا ملک پاکستان کی شکل میں مل چکا ہے یا تم پاکستان سے ہمدردی یا محبت رکھتے ہو، اس لئے کہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان نے تو947میں ہی یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ ان کا ملک ہندوستان ہے اور انہیں ہندوستان میں ہی رہنا ہی۔ اگر کوئی چہرہ ان کے سامنے تھا، جس سے وہ متاثر تھی، جسے اپنا قائد تسلیم کرتے تھی، جس کی رہنمائی میں انہیں اپنا مستقبل نظر آتا تھا تو وہ مولانا ابوالکلام آزاد ہی کا چہرہ تھا اور اسی چہرہ کو ان کی شناخت قرار دیا جاسکتا ہی، لہٰذا پھر کس طرح بن لادن یا داؤد ابراہیم کے چہروں میں ہندوستانی مسلمان کا چہرہ دیکھا جاسکتا ہی۔ تاریخ شاہد ہے کہ اگر ان کے چہرے کا کوئی آئینہ تھا یا ہے تو وہ مولانا ابوالکلام آزاد تھی۔
میں نے روزنامہ راشٹریہ سہارا کی صحافت کا ذکر کرتے ہوئے حوالہ پیش کیا ’’الہلال اور البلاغ‘‘ کی صحافت کا۔ میں نے عرض کیا کہ آج بھی جب میں لکھتا ہوں تو میرے اداریے اس مقصد سے متاثر ہوتے ہیں، جو مقصد مولانا ابوالکلام آزاد کا تھا۔ بیشک آج حالات ذرا بدل گئے ہیں، اس وقت جب مولانا ابوالکلام آزاد اپنے مضامین لکھنے کے لئے قلم اٹھاتے تھے تو انگریزوں کی غلامی سے نجات ان کے قلم کا مقصد ہوتا تھا اور آج جب میں قلم اٹھاتا ہوں تو حق اور انصاف کی حصولیابی میرے قلم کا مقصد ہوتی ہی۔ مجھے یہ انصاف ادھورا انصاف نظر آتا ہی، جہاں 9برس تک سزا کاٹنے کے بعد 63ملزمین کو یہ کہہ کر رہا کردیا جائے کہ جاؤ تمہاری کوئی خطا نہیں تھی۔ کیا ان کے خوبصورت 9برسوں کو ایک کربناک، شرمناک قید میں تبدیل کرنے والوں سے کوئی بازپرس نہیں کی جانی چاہئی؟ یہ محض ایک واقعہ ہی، جس کو بطور مثال میں یہاں پیش کررہا ہوں۔ یہ تنہا معاملہ نہیں ہی۔ بات کلیم حیدرآباد ی کی رہائی کی ہو یا مالیگاؤں بم دھماکہ کے ملزمین کی، جو رہائی کے منتظر ہیں، انہیں مکمل انصاف دلانا اگر اس قلم کی ذمہ داری ہی، جسے روشنی ملی مولانا ابوالکلام آزاد سے تو اس قوم کی بھی ذمہ داری ہے جس نے بیتے ہوئے کل میں مولانا ابوالکلام آزاد کی آواز میں آواز ملا کر ملک کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلائی، آج اسی قوم کو ملک کو دہشت گردی اور فرقہ وارانہ کشیدگی سے نجات دلانے کے لئے آگے آنا ہوگا۔ حق اور انصاف کی اس جنگ کو مذہب اور ذات سے اوپر اٹھ کر ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لئے لڑنا ہوگا اور ثابت کرنا ہوگا کہ ہمارے چہروں میں مولانا ابوالکلام آزاد کا چہرہ نظر آئی۔
No comments:
Post a Comment