Monday, February 21, 2011

ذکر سیرتِ رسولـصلح حدیبیہ کی روشنی میں

عزیز برنی

گزشتہ شب جلسہ سیرت النبیؐ ہندوستان کے تاریخی شہر حیدرآباد کے مغل پورہ میدان میں، انعقاد مجلس بچاؤ تحریک کے فعال کارکنان کے ذریعہ۔ اسٹیج کا منظر گویا آپ ہندوستان کے کسی شہر میں نہیں،بلکہ مدینہ منورہ میں واقع مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھ کر جشن ولادت باسعادت رسول اکرم حضرت محمدؐ کی تقریب میں شرکت کرنے کا شرف حاصل کررہے ہیں۔ اس عظیم الشان محفل میں جہاں مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے جید علمائے دین تشریف فرما تھے اور اپنی بصیرت افروز تقاریر سے ایک جم غفیر کو فیضیاب کررہے تھی، وہاں ایک صحافی کی موجودگی اور اسے اظہارخیال کے لئے دعوت دینا خود اپنے آپ میں اردو صحافت کے لئے فخر کی بات ہی۔ مجھے نہیں معلوم کس حد تک میں نے اس موضوع سے انصاف کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا، لیکن اس جلسہ کا ایک قابل ذکر پہلو یہ بھی تھا کہ اس جلسہ کے بانی جناب امجداللہ کے ذریعہ خصوصی مدعوئین میں شہر حیدرآباد کے نوجوان عبدالکلیم بھی موجود تھی، جنہوں نے اپنے عمل سے اسیمانند کی ذہن سازی میں تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا۔ یہ لمحہ میرے لئے اس لحاظ سے ایک یادگار لمحہ تھا کہ مدعوئین نے عبدالکلیم کو اعزاز سے نوازے جانے کے لئے گل پوشی اور شال پوشی کے لئے میرا انتخاب کیا تھا۔ بس یہی میری تقریر کا موضوع تھا، اس لئے کہ میں سیرت رسولؐ کو اپنی زندگی کا آئینہ بناکر ایک تاریخ رقم کرنے والے شخص کو دیکھ رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا گزشتہ0-25برسوں میں ہزاروں بار لوگوں کے ذریعہ ہار پہنائے جانے پر مجھے اتنی خوشی کا احساس نہیں ہوا، جتنا کہ آج اس نوجوان کو ہار پہنانے پر خوشی کا احساس ہو رہا ہی۔ مجھے نہیں معلوم عبدالکلیم کا ماضی کیا ہی، مجھے نہیں معلوم عبدالکلیم کا مستقبل کیا ہوگا، میرے سامنے صلح حدیبیہ کا مفہوم ہی، عبدالکلیم کی شخصیت ہی، سوامی اسیمانند کا اعتراف ہی، اس کے بعد ہندوستانی معاشرہ کا بدلا ہوا منظرنامہ ہی۔ بس اسی کو مرکزی خیال بنایا میں نے اپنی تقریر کا اور جو چند جملے اس باوقار باسعادت محفل میں ادا کئی، ان میں سے چند اپنے قارئین کی نظر کرنے جارہا ہوں۔
سرزمین عرب کو یہ شرف حاصل ہے کہ جب دنیا جہالت کے دور سے گزررہی تھی تب پروردگار عالم نے اپنے آخری رسول حضرت محمد مصطفیؐ کی تشریف آوری کے لئے اس زمین کا انتخاب کیا اور آپؐ پر دنیائے فانی میں روزِآخر تک باقی رہنے والا معجزہ یعنی قرآن کریم نازل فرمایا اور آپؐ نے اپنی سیرت سے سرزمین عرب کو وہ اسلامی ماحول دیا، جس کا اس سے پہلے اس زمین پر تصور بھی محال تھا۔ آپؐ نے اسلام کی دعوت دینے سے قبل خود سچائی، شرافت اور ایمانداری کی نظیر پیش کی، جس نے عرب ذہن کو متاثر کیا اور دیکھتے دیکھتے ہی اسلام اس زمین پر رہنے والوں کا مذہب بن گیا ہی،وہ اتحاد واخوت اور انسانیت کا درس دیا، جس کی روشنی ساری دنیا تک پہنچی اور لوگ اس کی طرف راغب ہوتے چلے گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج محض 1400برسوں میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب اسلام ہی، جس کے ماننے والوں کی تعداد تقریباً50کروڑ ہی۔حضور اکرمؐ کی تشریف آوری سے قبل سارا عالم دورِجاہلیت سے گزررہا تھا اور اگر ہم دورِحاضر پر نظر ڈالیں تو سارا عالم دہشت گردی کی وبا سے گزر رہا ہی۔ دنیا کی بڑی طاقتیں دہشت گردی کو اسلام سے جوڑتی رہی ہیں۔ مسلمانوں کو مسلسل دہشت گرد قرار دیا جاتا رہا ہی۔ مذہب اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب (نعوذباللہ) ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہی۔ ایک عام مسلمان ہر جگہ ذلیل و خوار ہورہا ہی۔ بدقسمتی یہ کہ ہمارا ملک ہندوستان جو ساری دنیا کے سامنے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک نظیر ہی، جس کی تہذیب کو گنگاجمنی تہذیب کا نام دیا گیا، جہاں برسہائے برس سے ہندواور مسلمان ایک قوم کی طرح رہتے چلے آرہے ہیں، اس بدلتے ہوئے ماحول سے ہمارا پیارا ملک ہندوستان بھی بچ نہ سکا اور دہشت گردی کا شکار ہوگیا۔ یہ دہشت گرد کون ہیں، اس دہشت گردی کے لئے ذمہ دار کون ہیں، میں اس وقت نہ تحقیقی صحافت کا ذکر کررہا ہوں، نہ کسی کو موردالزام ٹھہرانے کی ضرورت محسوس کررہا ہوں، نہ کسی بھی مذہب کو دہشت گردی سے جوڑکر دیکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔ مجھے اس وقت گفتگو کرنی ہی، صرف اور صرف سیرت رسولؐ پر اور اس موقع کی مناسبت سی، لہٰذا میں سیرت رسولؐ کا وہ پہلو سامنے رکھنا چاہتا ہوں، جس نے متاثر کیا سوامی اسیمانند کو اور جس کے بعد بدل گیا منظرنامہ ہندوستان کا۔ میں سیرت رسولؐ کا وہ پہلو سامنے رکھنا چاہتا ہوں، جو تاریخ اسلام میں صلح حدیبیہ کی شکل میں ملتا ہی۔ میں سیرت رسولؐ کا صرف وہ پہلو سامنے رکھنا چاہتا ہوں، جس پر چل کر عبدالکلیم نے ایک مثال قائم کی۔ میں سرزمین حیدرآباد کو اس بات کے لئے مبارکباد کا مستحق قرار دینا چاہتا ہوں کہ پروردگارِعالم نے سیرت رسولؐ کے اس پہلو کو ساری دنیا کے سامنے رکھنے کے لئے حیدرآباد کی زمین کا انتخاب کیا۔ حیدرآباد کے ایک نوجوان کا انتخاب کیا۔ گزشتہ چند برسوں میں ساری دنیا کے مسلمانوں کی طرف سے یہ کوششیں کی جاتی رہیں کہ تعلیمات قرآنی کی سچائی سامنے رکھی جائی۔ اس حقیقت سے ساری دنیا کو روشناس کرایا جائے کہ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا درس دیتا ہی۔ کسی کے بھی مذہب کی برائی نہ کرنے کی تلقین کرتا ہی۔ اس ضمن میں قرآن کریم میں آیت ناز ہوئی ہی: ’’لَکُم دِینُکُم ولِییَ دِین‘‘ (سورہ الکافرون) ’’تمہارے لئے تمہارا دین اور ہمارے لئے ہمارا دین‘‘، لیکن ہم اس پیغام کو عام نہیں کرسکی۔ ہم نے بارہا کہا کہ قرآن عظیم سب سے اچھے رشتے قائم کرنے کا حکم دیتا ہی۔ کسی ایک بے گناہ کا قتل کردینا بھی گناہِ عظیم قرار دیتا ہی۔ ہزاروں جلسہ جلوس اور کانفرنسوں کے ذریعہ بھی ہم اس حقیقت کو ساری دنیا کے لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات پیوست کرنے میں ہمیں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔ کل اس میں کمی آئے گی یا نہیں یہ آنے والا کل بتائے گا، مگر آج حیدرآباد کے نوجوان عبدالکلیم کے عمل نی، سوامی اسیمانند کے اعتراف گناہ نے جس طرح منظرنامہ کو بدلا ہی، یہ اپنے آپ میں اس دور کی تاریخ ہی، ایک تاریخی لمحہ ہی۔
مبارکباد کا مستحق ہے جس طرح حیدرآباد کا نوجوان عبدالکلیم، اسی طرح مبارکباد کے مستحق سوامی اسیما نند بھی ہیں۔ اگرچہ یہ آسان کام نہیں تھا کہ خود بے گناہ ہوتے ہوئے بھی ناکردہ گناہوں کی سزا پانے والا نوجوان اس شخص کو سامنے دیکھ کر مشتعل نہ ہو، جو اس گناہ کے لئے ذمہ دار ہے تو قابل تعریف اس شخص کا عمل بھی ہی، جس نے برسہابرس کی نفرت کو ایک پل میں بھلا کررکھ دیا، جس نے تربیت پائی اور تربیت دی، متعصبانہ ذہن تعمیر کرنے کی، جس نے اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہوا تھا فرقہ وارانہ کشیدگی اور نفرت کو اور جو شخص اس مقصد کی حصولیابی کے لئے سیکڑوں بے گناہوں کی جان لینے سے بھی گریز نہ کرتا رہا تھا۔ اس نے یکسر بدل ڈالا اپنے مزاج کو، جو تعلیم و تربیت ملی اسے برسہابرس کی جدوجہد اور ذہن سازی کے بعد ملی، وہ پل بھر میں ختم ہوگئی ایک کم پڑھے لکھے باعمل مسلمان کے کردار سے اور ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ اگر ہم اپنے عمل کو سیرت رسولؐ کا آئینہ بنالیں، ہماری زندگی آپؐ کے بتائے راستہ کے مطابق چلی۔ ہم قرآن کریم کو، اس کے پیغام کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں تو جس طرح بیتے ہوئے کل میں دنیا کا سب سے طاقتور شخص کیسیس کلے کو اسلام کی جانب راغب ہونے پرمجبور ہوا، جس طرح مغربی تہذیب کے پروردہ رقص کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھنے والے مائیکل جیکسن نے اسلام کی عظمت کا اعتراف کیا اور جس طرح سیرت رسولؐ کی عملی شکل نے سوامی اسیمانندکو متاثر کیا، یہ تمام واقعات ہم سب کے لئے مشعل راہ ہیں، لہٰذاجلسۂ سیرت رسولؐ کے اس مبارک موقع پر ہم اس پیغام کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیں تو نہ صرف فرقہ وارانہ کشیدگی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں بدل جائے گی، بلکہ اتحادواخوت کا ایک ایسا ماحول پیدا ہوگا، جس کی کمی گزشتہ چند برسوں سے متواتردیکھنے کو مل رہی تھی۔
سیرت رسول کے موضوع پر بولتے ہوئے مجھے ضمناً دارالعلوم دیوبند کے موجودہ حالات کا ذکر کرنا بھی موقع کی مناسبت سے ضروری لگا، کیونکہ میں علمائے دین کی موجودگی میں بول رہا تھا۔ ایک مخصوص فکر کے لوگوں کی جانب سے دارالعلوم دیوبند کو جدید علوم سے جوڑنے کی ضرورت بار بار سامنے رکھی جارہی ہی، اس پر اظہارخیال کرتے ہوئے میں نے کہا کہ ہمارے نوجوانوں کے پاس جدید علم حاصل کرنے کے لئے ہندوستان میں اور ہندوستان کے باہر تعلیمی اداروں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن جو ہماری دینی درسگاہیں ہیں، ان کی افادیت یہ ہے کہ ہمیں اپنی مساجد اور مدارس کے لئے پیش امام اور مدرسین صرف ایسی ہی دینی درسگاہوں سے مل سکتے ہیں، لہٰذا پرزور طریقہ سے اس بات کو سامنے رکھا جائے کہ میڈیکل کالج میں اگر انجینئرنگ کی تعلیم کا دیا جانا ضروری نہیں ہی، وکالت پاس کرنے والوں کو ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے تو اسی طرح دینی مدارس کی یہ خصوصیت باقی رہی۔ ان درسگاہوں سے اسلام کا پیغام امن، اتحاد و اخوت کا پیغام ساری دنیا تک پہنچتا رہی، یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہی۔
اس عظیم الشان اور بامقصد سیرت کانفرنس میں اظہار خیال کے بعد جب میں واپس لوٹا تو رات کے تقریباً دو بج چکے تھی۔ اگلی صبح پھر اسی طرح کی مصروفیت میرے سامنے تھی، تاہم دارالعلوم دیوبند کے موضوع پر جاری میرے مضمون کے اختتامی مضمون کو آخری شکل دیا جانا بھی ضروری تھا، لہٰذا صبح پانچ بجے میں نے اس مضمون کی تصحیح کی، جو کل آپ کی نظروں سے گزرا، مگر افسوس باوجود تمام تر کوششوں کے وہ تصحیح شدہ آخری کاپی میرے دفتر تک نہیں پہنچ سکی اور وہی مضمون آپ کی نظروں کے سامنے رہا، جو اس سے پہلے لکھا گیا تھایعنی غیرتصحیح شدہ، یقینا اس میں املا اور زبان کی متعدد غلطیاں رہی ہوں گی، جن کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔ یوں بھی سفر کے ساتھ ہر روز لکھنے کے سلسلہ میں کچھ ایسے مراحل سے گزرنا ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ جو دل و دماغ کہتا ہے کاغذ پر اتارنا مشکل ہوجاتا ہی۔ ہاں، مگر ایک جملہ جو بیحد ضروری تھا اور جسے اسی شکل میں میرے قارئین تک پہنچنا چاہئے تھا، وہ یہ کہ
’’بہت مشکل ہے کسی شخصیت کی تعمیر کرنا اور بہت آسان ہے کسی کی شخصیت کو مجروح کردینا، لہٰذا میرے قلم کے ذریعہ کسی کی کردارکشی کا تو سوال ہی کیا، انگلیاں کانپ جاتی ہیں کسی عالم دین یا مذہب اسلام کے موضوع پر لکھتے ہوئی۔‘‘
اس میں عالم دین اور مذہب اسلام کی جگہ لفظ منفی موضوع لکھا گیا ہی، عبارت کے اعتبار سے وہ ٹھیک ہوسکتا ہی، مگر میرے مقصد کے اعتبار سے نہیں۔ اس لئے کہ منفی یا متنازع موضوعات پر لکھنے سے انگلیوں کے کانپنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس طرح کے بیشتر موضوعات پر پہلے بھی لکھا جاتا رہا ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔ تحریر منفی نہ ہو موضوع بھلے ہی منفی نظر آتا ہو، بہرحال کل کے مضمون میں اس کے علاوہ دیگر املا اور زبان کی غلطیاں ضرور گراں گزری ہوں گی، لہٰذا ایک بار پھر معذرت۔ امید ہے کہ کن حالات میں اور کس قدر مصروفیت کے دوران یہ مضمون قلمبند کیا گیا، اس مجبوری کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ ان غلطیوں کو نظرانداز کردیں گی۔ شکریہ
…………

No comments: