Monday, November 29, 2010

شہیدوں کو سچا خراج عقیدتـسبھی مجرموں کو سزا

عزیز برنی

میں نے بات کل جہاں ختم کی تھی، آج پھر وہیں سے شروع کررہا ہوں۔ مالیگاؤں بم دھماکوں کی شہید ہیمنت کرکرے کے ذریعہ کی جانے والی تفتیش سے قبل جنہیں ملزم گردانا گیا اور جن کی گرفتاریاں عمل میں آئیں، ان کی تفصیل کچھ اس طرح تھی:
ابتدا میں مہاراشٹر پولیس نے بجرنگ دل، لشکرطیبہ اور جیش محمد پر الزام عائد کیا تھا، یہ صرف ابتدائی اندازے تھی۔ اس کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کئے جاسکے تھی، لیکن بعد میں 13اکتوبر006کوپولیس نے کہا کہ لشکرطیبہ اور اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا(سیمی) ان دھماکوں میں شامل ہوسکتی ہی۔ پولیس کو شک یہ بھی تھا کہ ان دھماکوں میں حرکت الجہاد اسلامی بھی ملوث ہوسکتی ہی، یعنی اب شک کے دائرے میں صرف مسلم ناموں والی دہشت گرد تنظیمیں تھیں۔
واضح ہو کہ 10ستمبر کو پولیس نے کہا تھا کہ 8دسمبر006کو جو دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا، اس کا طریقہ کار بالکل ایسا ہی تھا، جیساکہ مالیگاؤں کے دھماکے کا تھا۔ اس دھماکہ کے بعد پولیس نے بجرنگ دل کے 16کارکنان کو گرفتار کیا تھا۔ یہ گروپ بجرنگ دل کا Fringe Group(حاشیہ گروپ) تھا۔ اس گروپ کے خلاف کوئی چارج شیٹ داخل نہیں کی گئی تھی۔
30اکتوبر کو نورالہدیٰ جس کا تعلق سیمی سے تھا، گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے ساتھ شبیر بیٹری والا اور رئیس احمد کو بھی گرفتار کیا گیا۔ بعدازاں چار ہزار صفحات کی جو چارج شیٹ داخل کی گئی، اس میں آرمی افسر لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت اس دھماکے کی سازش کا کلیدی ملزم تھا۔ کرنل پروہت نے آتش گیر مادہ فراہم کرایا تھا اور سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے دھماکہ خیز مادہ پلانٹ کرانے میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔ پرگیہ ٹھاکر اندور کی رہنے والی تھی اور بعد میں سورت منتقل ہوگئی۔ دھماکہ میں استعمال ہونے والی ایل ایم ایل فریڈم موٹر سائیکل جس میں بم رکھا گیا تھا، وہ اس کی تھی۔ اس کو 24ستمبرکو گرفتار کیا گیا تھا۔
شیونارائن کلسانگرابھی اندور کا رہنے والا تھا اور پیشہ سے الیکٹریشن تھا، جسی4ستمبر008کو پکڑا گیا۔ شیام بھر والال ساہواندور کا رہنے والا تھا۔ اس کی موبائل کی دکان تھی۔ اس کو بھی مالیگاؤں سازش میں 24ستمبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔
سمیرکلکرنی جو پنے کا رہنے والا تھا اور اے بی وی پی کا سابق ممبر تھا، وہ اس دھماکہ کا ماسٹر مائنڈ تھا، اس کو 28اکتوبر کو پکڑا گیا۔
ریٹائرڈ میجر جنرل رمیش اپادھیائی، جوکہ پنے کا رہنے والا تھا، وہ کلکرنی اور کچھ فوجیوں کے درمیان رابطہ کا کام کررہا تھا اور آتش گیر مادّہ حاصل کرنے میں مدد کررہا تھا، اس کو بھی اکتوبر میں ہی پکڑا گیا۔ ان کے علاوہ سیلیش ایس رائیکر بھونسلہ ملیٹری اسکول ناسک کا ایڈمنسٹریٹر اور ریٹائرڈ کرنل تھا، اس کو پوچھ گچھ کے لئے یکم نومبر کو حراست میں لیا گیا۔ رمیش گندھانی ملیٹری انٹلی جینس کارکن تھا اور بھونسلہ ملیٹری اسکول میں ملازم تھا، اس کو یکم نومبر کو حراست میں لیا گیا۔ اشوک آہوجا ابھینوبھارت کا ممبر تھا اور 2نومبر کو جبل پور سے اے ٹی ایس کے ذریعہ حراست میں لیا گیا۔ آہوجا سمیر کلکرنی کا بہت قریبی تھا۔
ان سب کے علاوہ رام جی کلسانگرا جو اندور کار ہنے والا تھا اور اس کا بھائی شیونارائن، جوکہ 29ستمبر008کو مالیگاؤں میں موجود تھی، ان کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھیکو چوک میں بم رکھا تھا۔ ایک اور نام رام جیسوانی کا بھی ہی، جو جبل پور کا رہنے والا ہی۔
آپ نے دیکھا کہ ابتدائی شک کس طرح بعد کی جانچ میں بے بنیاد ثابت ہوا اور پھر جو نام اور چہرے سامنے آئی، ان سے ہندوستان میں دہشت گردانہ حملوں کے نئے نئے انکشافات ہوتے چلے گئی۔ اس طرح ہندوستان میں رونما ہونے والے بم دھماکوں کی تاریخ میں مالیگاؤں انکشافات سے شروع ہوئی یہ داستان جب اجمیر تک پہنچی تو صورتحال یکسر بدل چکی تھی۔ دو برس قبل تک جنہیں موردالزام ٹھہرایا جاتا رہا تھا، جنہیں قومی سطح پر بدنام کیا جاتا رہا تھا، وہ نام اب کہیں سامنے نہیں تھی، بلکہ ان نئے انکشافات سے ثابت ہورہا تھا کہ سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیمیں ان میں ملوث ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے مضمون کو عنوان دیا تھا ’’6/11کس کی سازشـکیا اٹھے گا پردہ؟‘‘، اس لئے کہ میں ملک کی فلاح و بہبود کے پیش نظر یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ 26/11/2008کو ممبئی پرہوئے دہشت گردانہ حملہ کا مکمل سچ منظرعام پر آنا چاہئی۔ میں اس بات کو مسترد نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی اس معاملہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ سازش پاکستان میں رچی گئی۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور دہشت گرد تنظیم لشکرطیبہ اس میں شامل تھی۔ مجھے اس پر بھی کچھ نہیں کہنا کہ 10دہشت گرد جنہیں پاکستان میں تربیت دی گئی تھی، انہوں نے اس دہشت گردانہ حملہ کو انجام دیا۔ یہ سچ ہی ہوگا، اگر ہماری خفیہ ایجنسیوں نے مکمل تصدیق اور شواہد کی بنا پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے تو۔ مگر ذہن میں بار بار یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کیا ان دس کے علاوہ کوئی گیارہواں مجرم نہیں تھا۔ کیوں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ یہ 10دہشت گرد تھی، جو پاکستان کے شہر کراچی سے سمندر کے راستے ممبئی پہنچی۔ اس دہشت گردانہ حملہ کے 2برس بعد بھی جموںوکشمیر کے گورنر رہے جگموہن جیسے شخص اگر اسی بات پر جمے ہیں اور اس سے الگ ہٹ کر کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتے تو یہ سوال ذہن میں اور مضبوط ہوجاتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ کم سے کم ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ تفتیش کو گیارہویں یا بارہویں یا اس کے بعد کسی شخص تک پہنچنے ہی نہیں دینا چاہتی؟ کیا وہ کچھ چھپانا چاہتے ہیں؟ کیا وہ جو کچھ چھپانا چاہتے ہیں، وہ بہت ہی دھماکہ خیز ہی؟ میرے مضمون کا سلسلہ ابھی جاری ہی۔ میں جگموہن کے مضمون سے وہ چند سطریں یہاں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے جارہا ہوں، جو دہلی سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’دینک جاگرن‘‘ کے ادارتی صفحہ پر 26نومبر010 کو شائع کیا گیا :
’’دس دہشت گرد پاکستان کے کراچی سے اسٹیمرپر سوار ہوکر نکلتے ہیں، بڑے آرام سے گیٹ آف انڈیا کے قریب ممبئی میں داخل ہوتے ہیں اور چار گروپوں میں بٹ کر پہلے سے طے شدہ مقامات کی جانب بڑھ جاتے ہیں۔ ایک گروپ تاج پر قبضہ کرلیتا ہی، دوسرا لی او پولڈ کیفے اور اوبرائے ہوٹل پر دھاوا بولتا ہی، تیسرا شبدہاؤس میں داخل ہوجاتا ہے اور چوتھا چھترپتی ریلوے اسٹیشن پر پہنچتا ہی۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں، خون کی ندیاں بہا دیتے ہیں۔ بڑی بے رحمی اور ظالمانہ طریقہ سے بے قصور لوگوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ تین دنوں تک شہر پر دہشت کا راج رہتا ہی۔ جب تک ان میں سے 9مارے جاتے ہیں اور ایک زندہ پکڑ لیا جاتا ہی، وہ 180لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے تھی۔ اس المیہ کی کہانی بیان کرنے کے لئے آنسو بھی کم پڑجاتے ہیں۔
اس موقع پر نااہلی کا جو مظاہرہ ہوا وہ بھی دہشت گردانہ واقعہ سے کم المناک نہیں ہی۔ دہشت گردانہ حملہ ہونے کے بعد جس مستعدی، درستگی اور رابطہ کی ضرورت تھی، وہ کہیں دکھائی نہیں دی۔ دہشت گردوں نے جس خطرناک رفتار اور منصوبہ سے حملہ کو انجام دیا، اس کے برعکس ریاستی و مرکزی حکومت کی حفاظتی مشینری بالکل ڈھیلی اور لاچار نظر آئی۔ اس نے خود کو سنبھالنے میں کافی وقت لیا۔ سماجی ڈھانچے کے دیگر گروپوں نے بھی خود کو کسی لائق ثابت نہیں کیا۔ مثال کے طور پر تاج ہوٹل پر دہشت گردوں کا مقابلہ کررہے نیشنل سیکورٹی گارڈس کو دکھانے کی چینلوں میں مقابلہ آرائی تھی۔ انہوں نے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ اس سے پاکستان میں بیٹھے دہشت گردوں کے آقا سلامتی دستوں کی پوری کارروائی دیکھتے ہوئے دہشت گردوں کو نئے احکام دے سکتے ہیں۔‘‘
دیکھا آپ نے پھر وہی بات، دس پاکستانی دہشت گرد۔ تین روز تک ہماری فوج اور پولیس دہشت گردوں سے لڑتی رہی، نہیں میں اپنی فوج یا پولیس فورس کو اتنا کمزور نہیں مانتا۔ ان دہشت گردانہ حملوں کے ابتدائی دور میں شہید ہونے والے تین پولیس افسران میں سے ہر ایک اتنا بہادر تھا کہ اکیلا ہی دس پاکستانی دہشت گردوں کے لئے کافی تھا، مگر ہماری فوج دس پاکستانی دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے 72گھنٹے تک جدوجہد کرتی رہی اور ہم دو برس بعد بھی اپنی فوج کو اس قدر کمزور ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ انہیں دس دہشت گردوں سے پار پانے میں7 جوانوں کا خون بہانا پڑا اور اس دوران ہمارے 166شہری جاں بحق ہوئے اور 308 زخمی، اس بات کا گلے سے اترنا ذرا مشکل نظر آتا ہی۔ کیا ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کا نام سامنے آنے کے بعد بھی ہم دس کی گنتی سے آگے نہیں بڑھیں گی؟ کیا تہورحسین رانا کی فرضی امیگریشن ایجنسی کے کارناموں کا انکشاف ہونے کے بعد بھی ہم دس کی گنتی سے آگے نہیں بڑھیں گی؟ آخر کسے بچانا چاہتے ہیں ہم؟ کیا چھپانا چاہتے ہیں ہم؟ کیا یہ ملک اور قوم کے حق میں ہی؟ مان لیا کہ وہ دس دہشت گرد اس حملہ میں شامل تھی، مگر ہم اس سے آگے بات کیوں نہیں کرنا چاہتی؟ ہم بات کو یہیں ختم کیوں کردینا چاہتے ہیں؟ ہماری خفیہ ایجنسی اے ٹی ایس کی جانچ ہمیں بتاتی ہے کہ مالیگاؤں بم دھماکہ جہاں 6 افراد مارے گئے اور زخمی۔ اجمیر درگاہ کا معمولی بم دھماکہ، جہاں صرف 3لوگ مارے گئی،ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کے مقابلہ میں بہت معمولی تھا، جہاں 166 لوگ مارے گئے 308 زخمی ہوئی، یعنی ممبئی بم دھماکوں کے مقابلہ میں ان چھوٹے چھوٹے بم دھماکوں کی سازش کرنے والوں کے نام اور چہرے سامنے آتے ہیں تو ان کی تعداد دس سے کہیں زیادہ سامنے آتی ہی۔ سازش کے تار بہت دور تک جاتے نظر آتے ہیں۔ پولیس کے ذریعہ پیش کی گئی پرانی تھیوری بیکار ثابت ہوجاتی ہی، مگر جب ہم 26/11کی بات کرتے ہیں تو 10دہشت گردوں کے ناموں کے بعد ہمارے ہونٹ سل جاتے ہیں۔ ہم اس سے آگے بات کرنا ہی نہیں چاہتے اور اگر کوئی بات کرنے کی کوشش کرے تو اس کی وطن سے محبت پر سوالیہ نشان؟ وہ ایسا کیوں کررہا ہی؟ یہ کیا مذاق ہی، ہندوستان کے ہر شہری کو ہر ایسے معاملہ کا آخری سچ جاننے کا حق ہی۔ ہم دس روپے کے ایک نوٹ کے ذریعہ آر ٹی آئی کے تحت ایسے تمام حقائق جاننے کا حق رکھتے ہیں، جن کا تعلق ہمارے معاشرہ سے ہی۔ پھر کیوں6/11پر بات کرنا جرم سمجھا جائی؟ کیوں یہ جاننے کا حق نہ ہو کہ نریمن ہاؤس کی کہانی کیا ہی؟ اپنی سگی اولاد کو چھوڑ کر ایک پرائے بچے کے لئے ہندوستانی خاتون کیوں اسرائیل جاکر بس گئی؟ کیوں نہیں دستیاب ہیں شہید ہیمنت کرکری، اشوک کامٹے اور وجے سالسکر کی ٹیلی فون کال ڈیٹیلس؟ آخری دن آخری گھنٹہ، آخری لمحہ کن کن لوگوں نے ان سے رابطہ قائم کیا یا انہوں نے کس کس سے رابطہ قائم کیا اور کون کون لوگ ٹھہرے تھے تاج اور اوبرائے میں، ان کی کال ڈیٹیلس کیا ہیں؟ سی سی ٹی وی فوٹیج کی ایک دو تصاویر ہی کیوں بار بار سامنے آتی ہیں۔ اس فوٹیج کی دیگر تصاویر کیوں نہیں ملتیں؟ کیوں ہماری جانچ کا دائرہ اس سے آگے نہیں بڑھتا؟ آج پھر ختم کرنا ہوگا اس مضمون کو اسی مقام پر، اس لئے کہ اس کاغذ پر اس سے آگے لکھنے کی گنجائش نہیں ہی، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سلسلہ کا یہ آخری مضمون ہی۔ میرے اس خصوصی مضمون کے تحت بھی اور اس موضوع پر لکھی جانے والی میری کتابوں کے ذریعہ بھی لکھنے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، جدوجہد یہی ہے کہ اس وقت تک خاموش نہیں ہونا چاہئی، جب تک کہ ہمارے ملک پر ہوئے اس سب سے بڑے دہشت گردانہ حملہ کا سارے کا سارا سچ سامنے نہ آجائی، اس لئے کہ یہ ہمارے ملک کے تحفظ اور اس کی فلاح و بہبودگی کے لئے بیحد ضروری ہی۔
(اگلا مضمون مبارک پور(اعظم گڑھ) سے واپسی کے بعد)

शहीदों को सच्ची श्रद्धांजली-सभी मुजरिमों को सज़ा
अज़ीज़ बर्नी

मैंने बात कल जहां समाप्त की थी आज फिर वहीं से आरंभ कर रहा हूं। मालेगांव बम धमाकों की शहीद हेमंत करकरे द्वारा की जाने वाली जांच से पूर्व जिन्हें अभियुक्त समझा गया और जिनकी गिरफ़्तारियां की गईं, उनका विवरण कुछ इस प्रकार था:
आरंभ में महाराष्ट्र पुलिस ने बजरंगदल, लश्कर-ए-तय्यबा और जेश-ए-मुहम्मद पर आरोप लगाया था, परंतु यह केवल आरंभिक अंदाज़े थे। इसके पक्ष में कोई सबूत प्रस्तुत नहीं किए जा सके थे, लेकिन बाद में 13 अक्तूबर 2006 को पुलिस ने कहा कि लश्कर-ए-तय्यबा और स्टुडेंट्स इस्लामिक मूवमेंट आॅफ़ इण्डिया (सीमी) इन धमाकों में शामिल हो सकती है। पुलिस को संदेह यह भी था कि इन धमाकों में हर्कतुल जिहाद-ए-इस्लामी भी लिप्त हो सकती है, अर्थात अब शक के दायरे में केवल मुस्लिम नामों वाले आतंकवादी संगठन ही थे।
स्पष्ट रहे कि 10 सितम्बर को पुलिस ने कहा था कि 8 दिसम्बर 2006 को जो आतंकवादी हमला हुआ था, उसकी कार्यशैली बिल्कुल ऐसी ही थी, जैसी कि मालेगांव के धमाके की थी। इस धमाके के बाद पुलिस ने बजरंग दल के 16 कार्यकर्ताओं को गिरफ़्तार किया था। यह ग्रुप बजरंगदल का थ्तपदहम ळतवनच (हाशिया ग्रुप) था। इस ग्रुप के ख़िलाफ कोई चार्जशीट दाख़िल नहीं की गई थी।
30 अक्तूबर को नूरुलहुदा, जिसका संबंध सीमी से था, गिरफ़्तार कर लिया गया। उसके साथ शब्बीर बैटरी वाला और रईस अहमद को भी गिरफ़्तार किया गया। उसके बाद 4 हज़ार पृष्ठों की जो चार्जशीट दाख़िल की गई, उसमें आर्मी अफ़सर लेफ़्टिनैंट कर्नल प्रसाद पुरोहित इस धमाके के षड़यंत्र का प्रमुख आरोपी था। कर्नल पुरोहित ने विस्फोटक पदार्थ उपलब्ध कराया था और साध्वी प्रज्ञा सिंह ठाकुर ने विस्फोटक पदार्थ प्लांट कराने में प्रमुख भूमिका निभाई थी। प्रज्ञा ठाकुर इंदौर की रहने वाली थी और बाद में सूरत हस्तांतरित हो गई। धमाके में प्रयोग होने वाली एलएमएल फ्ऱीडम मोटर साइकिल जिसमें बम रखा गया था, वह उसकी थी। उसको 24 सितम्बर को गिरफ़्तार किया गया था।
शिव नारायण कलसांगरा भी इंदौर का रहने वाला था और वह व्यवसाय से इलैक्ट्रिशियन था जो 24 सितम्बर 2008 को पकड़ा गया। श्याम भरवालाल साहू इंदौर का रहनेवाला था। उसकी मोबाइल की दुकान थी। उसको भी मालेगांव षड़यंत्र में 24 सितम्बर को गिरफ़्तार किया गया था।
समीर कुलकर्णी जो पुणे का रहने वाला था और एबीवीपी का पूर्व सदस्य था, वह इस धमाके का मास्टर माइंड था, उसको 28 अक्तूबर को पकड़ा गया।
रिटायर्ड मैजर जनरल उपाध्याय, जो कि पुणे का रहने वाला था, वह कुलकर्णी और कुछ फ़ौजियों के बीच सम्पर्क का काम करता था और विस्फोटक पदार्थ प्राप्त करने में सहायता कर रहा था उसको भी अक्तूबर में ही पकड़ा गया था। इनके अलावा सैलेश एसराइकर भौसला मिलिट्री स्कूल नासिक का एडमिनिस्ट्रेटर और रिटायर्ड कर्नल था, उसको पूछताछ के लिए 1 नवम्बर को हिरासत में लिया गया। रमेश गंधानी मिलिट्री इंटेलिजैंस का सदस्य था और भौसला मिलिट्री स्कूल में कर्मचारी था, उसको 1 नवम्बर को हिरासत में लिया गया। अशोक आहूजा अभिनव भारत का सदस्य था और 2 नवम्बर को जबलपुर से एटीएस द्वारा हिरासत में लिया गया। आहूजा समीर कुलकर्णी का बहुत क़रीबी था। इन सबके अलावा रामजी कलसांगरा जो इंदौर का रहने वाला था और उसका भाई शिव नारायण, जो कि 29 सितम्बर 2008 को मालेगांव में मौजूद थे, उनके बारे में पुलिस का कहना है कि उन्होंने भीकू चैक में बम रखा था। एक और नाम राम जयस्वानी का भी है जो जबलपुर का रहने वाला है।
आपने देखा कि आरंभिक संदेह किस तरह बाद की जांच में निराधार साबित हुआ और फिर जो नाम और चेहरे सामने आए, उनसे भारत में आतंकवादी हमलों के नए-नए रहस्योदघाटन होते चले गए। इस तरह भारत में रूनुमा होने वाले बम धमाकों के इतिहास में मालेगांव रहस्योदघाटनों से आरंभ हुई यह दास्तान जब अजमेर तक पहुंची तो परिस्थिति एकदम बदल चुकी थी। दो वर्ष पूर्व तक जिन्हें आरोपित ठहराया जाता रहा था, जिन्हें राष्ट्रीय स्तर पर बदनाम किया जाता रहा था, वह नाम अब कहीं सामने नहीं थे, बल्कि इन नए रहस्योदघाटनों से साबित हो रहा था कि संघ परिवार से जुड़े संगठन इनमें लिप्त हैं। यही कारण है कि मैंने अपने लेख को शीर्षक दिया था ‘‘26/11 किसका षड़यंत्र-क्या उठेगा परदा’’ इसलिए कि मैं देश की उन्नति तथा कल्याण के पेशेनज़र यह आवश्यक समझता हूं कि 26/11 2008 को मुम्बई पर हुए आतंकवादी हमले का पूर्ण सत्य सामने आना चाहिए। मैं इस बात को रद्द नहीं करना चाहता और न ही इस मामले में कुछ कहना चाहता हूं कि यह षड़यंत्र पाकिस्तान में रचा गया। पाकिस्तान की ख़ुफ़िया एजेंसी आइएसआई और आतंकवादी संगठन लश्कर-ए-तय्यबा इसमें शामिल थीं। मुझे इस पर भी कुछ नहीं कहना कि 10 आतंकवादी जिन्हें पाकिस्तान में प्रशिक्षण दिया गया था, उन्होंने इस आतंकवादी हमले को अंजाम दिया। यह सच ही होगा, अगर हमारी ख़ुफ़िया एजेंसियों ने पूर्ण जांच तथा प्रमाणों के आधार पर यह निष्कर्श निकाला है तो, परंतु मन में बार-बार यह प्रश्न अवश्य उठता है कि क्या इन 10 के अलावा कोई ग्यारहवां अपराधी नहीं था। क्यों इस बात पर बल दिया जाता है कि यह 10 आतंकवादी थे, जो पाकिस्तान के शहर कराची से समुद्र के रास्ते मुम्बई पहुंचे। इस आतंकवादी हमले के 2 वर्ष बाद भी जम्मू व कश्मीर के गवर्नर रहे जगमोहन जैसे व्यक्ति अगर इसी बात पर जमे हैं और इससे हट कर कुछ सोचना ही नहीं चाहते तो यह प्रश्न मन में और मज़बूत हो जाता है कि क्या कारण है कि कम से कम एक विशेष मानसिकता के लोग जांच को 11वें या 12वें या उसके बाद किसी व्यक्ति तक पहुंचने ही नहीं देना चाहते? क्या वह कुछ छुपाना चाहते हैं? क्या वह जो कुछ छुपाना चाहते हैं वह बहुत ही विस्फोटक है? मेरे लेख का सिलसिला अभी जारी है। मैं जगमोहन के लेख से वह कुछ पंक्तियां अपने पाठकों की सेवा में प्रस्तुत करने जा रहा हूं, जो दिल्ली से प्रकाशित होने वाले ‘‘दैनिक जागरण’’ के सम्पादकीय पृष्ठ पर 26 नवम्बर 2010 को प्रकाशित किया गया:
‘‘दस आतंकी पाकिस्तान के कराची से स्टीमर पर सवार होकर निकलते हैं, बड़े आराम से गेटवे आॅफ इंडिया के क़रीब मुंबई में दाख़िल होते हैं और चार गुटों में बंटकर पूर्व निर्धारित लक्ष्यों की तरफ बढ़ जाते हैं। एक गुट ताज पर क़ब्ज़ा कर लेता है, दूसरा लीओपोल्ड कैफे और ओबराय होटल पर धावा बोलता है, तीसरा छबद हाउस में घुस जाता है और चैथा छत्रपति रेलवे स्टेशन पर पहुंचता है। वे जहां भी जाते हैं, ख़ून की नदियां बहा देते हैं। बड़ी बर्बरता और क्रूरता से निर्दोष लोगों का क़त्लेआम करते हैं। तीन दिनों तक शहर पर आतंक का राज रहता है। जब तक उनमें से नौ मारे जाते हैं और एक ज़िंदा पकड़ लिया जाता है, वे 180 लोगों को मौत के घाट उतार चुके थे। इस त्रासदी की कहानी बयान करने के लिए आंसू भी कम पड़ जाते हैं।
इस अवसर पर अक्षमता का जो प्रदर्शन हुआ वह भी आतंकी घटना से कम त्रासद नहीं है। आतंकी हमला होने के बाद जिस तत्परता, स्टीकता और संबद्धता की आवश्यकता थी, वह कहीं दिखाई नहीं दी। आतंकियों ने जिस ख़तरनाक रफ्तार और योजना से हमले को अंजाम दिया, उसके विपरीत राज्य व केन्द्र सरकार का सुरक्षा तंत्र बिल्कुल लचर और लाचार नज़र आया। इसने ख़ुद को संभालने में काफ़ी वक़्त लिया। सामाजिक ढ़ांचे के अन्य घटकों ने भी ख़ुद को किसी लायक साबित नहीं किया। उदाहरण के लिए, ताज होटल पर आतंकियों का सामना कर रहे राष्ट्रीय सुरक्षा गार्डो को दिखाने की चैनलों में होड़ मची थी। उन्होंने इस बात की परवाह नहीं की कि इससे पाकिस्तान में बैठे आतंकियों के आक़ा सुरक्षा बलों की पूरी कार्यवाही देखते हुए आतंकियों को नए निर्देश दे सकते हैं।’’
देखा आपने फिर वही बात, 10 पाकिस्तानी आतंकवादी। 3 दिन तक हमारी सेना तथा पुलिस आतंकवादियों से लड़ती रही, नहीं मैं अपनी सेना अथवा पुलिस फोर्स को इतना कमज़ोर नहीं मानता। इन आतंकवादी हमलों के आरंभिक दौर में शहीद होने वाले तीन पुलिस अधिकारियों में से हर एक इतना बहादुर था कि अकेला ही 10 पाकिस्तानी आतंकवादियों के लिए काफी था, परंतु हमारी सेना 10 पाकिस्कातनी आतंकवादियों से निपटने के लिए 72 घंटे तक जूझती रही और हम दो वर्ष बाद भी अपनी सेना को इतना कमज़ोर साबित करने का प्रयास करें कि उन्हें 10 आतंकवादियों से पार पाने में 17 जवानों का ख़ून बहाना पड़ा और इस बीच हमारे 166 नागरिक अपनी जान से हाथ धो बैठे और 308 घायल, इस बात का गले से उतरना ज़रा कठिन नज़र आता है। क्या डेविड कोल्मैन हेडली का नाम सामने आने के बाद भी हम 10 की गिनती से आगे नहीं बढ़ेंगे? क्या तहव्वुर हुसैन राना की फ़र्ज़ी इमैगरेशन एजेंसी के कारनामों के ख़ुलासे के बाद भी हम 10 की गिनती से आगे नहीं बढ़ेंगे? आख़िर किसे बचाना चाहते हैं हम? क्या छुपाना चाहते हैं हम? क्या यह देश तथा समाज के हित में है? मान लिया कि वह 10 आतंवादी इस हमले में शामिल थे, परंतु हम इसके आगे बात क्यों नहीं करना चाहते? हम बात को यहीं समाप्त क्यों कर देना चाहते हैं? हमारी ख़ुफ़िया एजेंसी, एटीएस की जांच हमें बताती है कि मालेगांव बम धमाका जहां 6 व्यक्ति मारे गए और 6 घायल हुए, अजमेर दरगाह का मामूली बम धमाका, जहां केवल 3 लोग मारे गए मुम्बई पर हुए आतंकवादी हमले के मुक़ाबले में बहुत साधारण था, जहां 166 लोग मारे गए थे, 308 ज़ख़्मी हुए, अर्थात मुम्बई बम धमाकों के मुक़ाबले में इन छोटे-छोटे बम धमाकों का षड़यंत्र रचने वालों के नाम और चेहरे सामने आते हैं तो उनकी संख्या 10 से कहीं अधिक सामने आती है। षड़यंत्र के तार बहुत दूर तक जाते नज़र आते हैं। पुलिस द्वारा पेश की गई पुरानी थ्योरी बेकार साबित हो जाती है, परंतु जब हम 26/11 की बात करते हैं तो 10 आतंकवादियों के नामों के बाद हमारे हांेठ सिल जाते हैं। हम इससे आगे बात करना ही नहीं चाहते और अगर कोई बात करने का प्रयास करे तो उसके देश प्रेम पर प्रश्न चिन्ह? वह ऐसा क्यों कर रहा है? यह क्या मज़ाक़ है, भारत के हर नागरिक को हर ऐसे मामले का आख़िरी सच जानने का अधिकार है। हम 10 रुपए के एक नोट द्वारा आरटीआई के तहत ऐसे सभी तथ्य जानने का अधिकार रखते हैं, जिनका संबंध हमारे समाज से है। फिर क्यों 26/11 पर बात करना अपराध समझा जाए? क्यों यह जानने का अधिकार न हो कि नरीमन हाउस की कहानी क्या है? अपनी सगी औलाद को छोड़ कर एक पराए बच्चे के लिए भारतीय महिला क्यों इस्राईल जाकर बस गई? क्यों नहीं उपलब्ध हैं शहीद हेमंत करकरे, अशोक काम्टे और विजय साॅलेस्कर की टेलीफ़ोन काॅल डिटेल्स? आख़िरी दिन, आख़िरी घंटा, आख़िरी क्षण किन-किन लोगों ने उनसे सम्पर्क स्थापित किया अथवा उन्होंने किस-किस से सम्पर्क स्थापित किया और कौन कौन लोग ठहरे थे ताज तथा ओबेराय में, उनकी काॅल डिटेल्स क्या हैं? सीसीटीवी फुटेज के एक-दो फोटो ही क्यों बार-बार सामने आते हैं। इस फुटेज के अन्य फुटेज क्यों नहीं मिलते? क्यों हमारी जांच का दायरा इससे आगे नहीं बढ़ता? आज फिर ख़त्म करना होगा इस लेख को इसी मुक़ाम पर, इसलिए कि इस काग़ज़ पर इससे आगे लिखने की गुंजाइश नहीं है, परंतु इसका यह अर्थ नहीं कि इस सिलसिले का यह आख़िरी लेख है। मेरे इस विशेष लेख के तहत भी और इस विषय पर लिखी जाने वाली मेरी पुस्तकों के माध्यम से लिखने का यह सिलसिला जारी रहेगा, जद्दोजहद यही है कि उस समय तक ख़ामोश नहीं होना चाहिए जब तक कि हमारे देश पर हुए इस सबसे बड़े आतंकवादी हमले का सारे का सारा सच सामने न आ जाए, इसलिए कि यह हमारे देश की सुरक्षा और इसके विकास तथा उन्नति के लिए अत्यंत आवश्यक है।
(अगला लेख मुबारकपुर (आज़मगढ़) से वापसी के बाद)

Friday, November 26, 2010

26/11

بدلتے وقت اور حالات کے تناظرمیں

عزیز برنی


نومبر008کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ پر کل جب میں اپنا مضمون قلمبند کررہا تھا تو اختتام تک پہنچتے پہنچتے اتنی گنجائش ہی نہیں رہ گئی کہ میں جناب ایس ایم مشرف کی کتاب کے حوالے سے اور اجمیر بم دھماکوں کی نظیر پیش کرکے جو کہنا چاہتا تھا، اسے مکمل کرپاتا، لہٰذا آپ سے یہ درخواست کرنا ضروری لگا کہ کل کا مضمون ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
دراصل میں جس خاص بات پر توجہ مبذول کرانا چاہتا تھا، وہ یہ کہ ہر بم دھماکہ کے بعد سنگھ پریوار یا بھارتیہ جنتا پارٹی کا جتنا شدید ردعمل ہوتا تھا، آخر 26نومبر008کو ہوئے اتنے بڑے بم دھماکہ کے بعد اتنا شدید ردعمل کیوں نہیں ہوا؟ کیا ان کا یہ طرزعمل کچھ سوچنے پر مجبور نہیں کرتا؟ اجمیر بم دھماکوں کا حوالہ دینے سے بھی مقصد یہی تھا کہ پولیس کے ذریعہ جو کہانی پہلے پیش کی گئی، بہرحال وہ غلط ثابت ہوئی اور پہلے جن ملزموں کو پہلے اجمیر بم دھماکوں میں ملوث پایا گیا تھا، بعد میں ان کے علاوہ کچھ اور نام سامنے آئی۔ نئے سرے سے کی جانے والی تحقیقات نے جن ناموں کو سامنے رکھا، اس نے مکمل طور پر منظرنامہ کو ہی تبدیل کردیا۔ پہلے شک و شبہات جس سمت میں جارہے تھے اور بعد میں جو نتائج برآمد ہوئی، ان میں کس قدر تضاد تھا، یہ اب روزروشن کی طرح عیاں ہی۔ مالیگاؤں بم بلاسٹ کی تحقیقات کو سامنے رکھا جائے تو حادثہ کے فوراً بعد جن ملزمین کے ناموں کو سامنے رکھا گیا تھا، بعد کی تحقیقات نے جو حیرت انگیز انکشافات کئی، وہ ملک کی دہشت گردی کی تاریخ میں ایک نیاباب تھا اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مالیگاؤں بم دھماکوں کی تحقیقات سے شہید ہیمنت کرکرے نے دہشت گردی کا جو چہرہ سامنے رکھا، ان سے پہلے اس پر کسی کی توجہ ہی نہیں گئی تھی یا کوئی اس چہرے کو سامنے رکھنے کی ہمت نہیں جٹا سکا تھا اور یہ بھی ہوسکتا ہے تصویر کے اس رُخ کو دانستہ طور پر سامنے آنے ہی نہ دیا گیا ہو، جو بھی ہو ان ناموں کے سامنے آنے کے بعد سے ہی جو ہنگامہ آرائی شروع ہوئی، وہ نہ جانے کب تک چلتی، اگر اس درمیان 26نومبر008کو ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ نہ ہوا ہوتا۔ بہرحال اب اگلی چند سطریں لکھنے سے قبل میں اپنے قارئین اور حکومت ہند کی توجہ اکتوبرـنومبر:008کے حالات کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا۔ ان حالات کو سمجھنے کے لئے میں اس وقت کے منظرنامہ کی ایک جھلک پیش کررہا ہوں، تاریخ کے صفحات پر درج ان چند سطروں کے ذریعہ بآسانی سمجھا جاسکے گا کہ کن کن موضوعات پر اس وقت ملک گیر سطح پر بحث جاری تھی اور اگر یہ دہشت گردانہ حملہ نہ ہوا ہوتا تو یہ بحث کس انجام تک پہنچتی۔
31دن پہلی:ـ6اکتوبر کی خبر کے مطابق ATSکی ٹیم جانچ کے لئے بھوپال گئی اور 2 سابق آرمی آفیسر سے پوچھ گچھ کی گئی۔
اسی تاریخ کو بھارتیہ جن شکتی پارٹی کے صدر اومابھارتی نے کہا کہ پرگیہ کسی بھی پرتشدد واقعہ میں ملوث نہیں ہوسکتی، کیوں کہ وہ سادھوی ہے اور سادھوی صرف پوجا پاٹھ اور شانتی کی بات کرتی ہی۔
30دن پہلی:ـ7اکتوبر کو جبل پور میں سادھوی کے گھر کی تلاشی لی گئی اور ATSنے اہم ثبوت اکٹھا کیا۔
28دن پہلی:ـ9اکتوبر کو پرگیہ کے بھائی نے انسانی حقوق کمیشن اور ممبئی ہائی کورٹ میں ایک آزاد جانچ کمیشن کی مانگ کی اور اس کے ساتھ دوسری ہندو تنظیمیں بھی کھڑی نظر آئیں۔
27دن پہلی:ـ0اکتوبر: ادھر بی جے پی ہندو تنظیموں کے نام آنے پر بوکھلاہٹ میں آگئی اور کھلے عام ملزمین کے دفع میں کھڑی ہوگئی۔ بی جے پی کے چیف راج ناتھ سنگھ نے میڈیا پر نشانہ کستے ہوئے کہا کہ ’’میڈیا اس پورے معاملے کو آروشی مرڈر کیس کی طرح پیش کررہی ہی۔‘‘اور پرگیہ کی دفاع میں کہا کہ جو لوگ ثقافتی قومیت پر یقین رکھتے ہیں وہ دہشت گردی میں ملوث ہوہی نہیں سکتی۔ انہوں نے اے ٹی ایس کے نارکو ٹیسٹ پر سوالیہ نشان کھڑا کیا اور کہا کہ کسی خطرناک دہشت گرد کو بھی اس طرح ٹارچر نہیں کیا جاتا، لیکن اے ٹی ایس چیف ہیمنت کرکرے نے سارے ملزمین پر مکوکا لگادیا۔ اسی بیچ ہندو مہاسبھا نے کرنل پروہت اور دوسرے ملزمین کو قانونی مدد دینے کا اعلان کیا۔
25دن پہلی:ـیکم نومبرکو سادھوی کا برین میپنگ ٹیسٹ میں ATSسادھوی سے کچھ بھی اگلوانے میں ناکام رہی۔ یہ ٹیسٹ ناگپارہ پولیس اسپتال میں اسی ہفتہ کیا گیا اور پھر پولیس دوسرے فورنسک ٹیسٹ کی تیاری شروع کردی۔
اسی دن خبر آئی کہ سمیر کلکرنی کو ATSنے مالیگائوں دھماکے کے ملزمین کے طور پر پہلے ہی گرفتار کرلیاہی۔ سمیر کلکرنی بھوپال کے ایک پرنٹنگ پریس میں ملازمت کرتا تھا۔ پولیس کے مطابق 37سالہ کلکرنی Abhinow Bharatکاounding Member تھا۔
24دن پہلی:ـنومبر کے مطابق بھونسلہ ملٹری اسکول کے پرنسپل کو گرفتار کرکے اس سے پوچھ گچھ کی گئی۔ اسی تاریخ کو بال ٹھاکرے نے BJPکی اس بات پر مذمت کی کہ وہ سادھوی کا دفاع نہیں کررہی ہے اور اس سے ہندو سماج کی دل شکنی ہورہی ہی۔
بی جے پی اور شیوسینا نے مختلف جگہوں سے مقبول ترین وکیلوں کو اکٹھا کرکے ناسک کورٹ کے سامنے دھرنا دیا۔
22دن پہلی:ـنومبر اے ٹی ایس کے مطابق ملزم پرگیہ سنگھ نے قبول کیا کہ اسی نے اپنی موٹر سائیکل مشتبہ ملزم رام جی جس نے بم رکھا تھا، کو دی تھی، لیکن ساتھ ہی اسی نے یہ بھی بتایا کہ اسے اس کے استعمال کے بارے میں پتہ نہیں تھا کہ رام جی کا اس کی موٹر سائیکل کو لے کر کیا Intentionتھا، یہ LML (Freedom) ماڈل کی بائک تھی۔
اسی دن سادھوی کے بارے میں سخت موقف سے پلٹتے ہوئی، بی جے پی نے اسے قانونی مدد دینے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے بی جے پی نے سادھوی کے بارے میں سخت موقف اپنا رکھا تھا۔ اسی تاریخ کو جانچ ایجنسی ATSنے مالیگائوں دھماکہ کے 8ملزموں پر MCOCAلگانے کافیصلہ کیا۔
21دن پہلی:ـنومبر:ممبئی ATSکے ملزم لیفٹیننٹ پروہت کو گرفتار کرکے جانچ کرنے کی تیاری شروع کردی اور اسی تاریخ کو سادھوی پر بھی MCOCAلگانے کی تیاری شروع بھی کردی گئی۔
20دن پہلی:ـنومبر کو کرنل پروہت کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس کو اس کے موبائل سے دوسرے مشتبہ ملزموں کو کئے گئے کئی SMSملی، یہ SMSکوڈوروڈ میں کئے گئے تھی، جن میں Cat is out of the bascket۔ دوسرا Sing has sung، اس کے علاوہ We are on the rador of ATS, Change the Sim Cardیہ وہ SMSتھا جو کرنل پروہت کے موبائل سے ریٹائرڈ میجر رمیش اپادھیائے کو بھیجا گیا تھا۔ اس سے پہلے پولیس اپادھیائے کو اس معاملہ میں گرفتار کرچکی تھی اور اس کو 15نومبر تک پولیس ریمانڈ پر لے لیا گیاتھا۔
19دن پہلی:ـنومبر اے ٹی ایس کے مطابق کرنل پروہت نے قبول کیا کہ وہ مالیگائوں دھماکہ کا سرغنہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ انہوں نے دھماکہ کی سازش رچی تھی اور 29Sep.کے لئے دھماکہ خیز مادہ فوج سے مہیا کرایا تھا اور ہتھیار بھی مہیا کرائے تھے اوریہ ساری چیزیں Abhinov Bharatکے ممبران کے حوالے کی تھیں۔
اسی تاریخ کو Army dupty chief let. generalنے بیان دیا کہ کرنل پروہت کی گرفتاری سے Armyکی عزت وقار مجروح ہوا ہی۔ اسی تاریخ کو توگڑیا نے ابھینو بھارت کی مذمت بھی کی۔
18دن پہلی:ـنومبر: کرنل پروہت سے متعلق ممبئی ATSنے دو اور Army Officerسے پوچھ گچھ کی ساتھ ہی ATSنے یہ بھی بتایا کہ کرنل پروہت پر مکوکا لگایا جاسکتا ہے ۔ اسی تاریخ کو ثبوت کے سامنے آنے کے بعد سنگھ پریوار نے کرنل پروہت اور دوسرے گرفتار ملزموں سے کسی طرح کا رشتہ ہونے سے انکار کیا جبکہ اس سے پہلے وہ دھماکہ کرنے والے ملزمین کی کھل کر حمایت کرتی رہی تھی۔
اسی تاریخ کو کانگریس نے BJPپر الزام لگایا کہ BJPفوج کا بھگوا کرن کررہی ہی۔ یہ بیان Abhishek Manu Singhviنے دیا۔
17دن پہلی:ـنومبر کو ATSکا بیان آیا کہ ATSتین VHPلیڈر، جو گجرات سے تعلق رکھتے ہیں ان کے بارے میں جانچ کرنا چاہتی ہے کیونکہ ان تینوں کارشتہ سمیر کلکرنی سے ہے جو Abhinau Bharatکا بنیادی ممبر ہی۔
16دن پہلی:ـ0نومبر کو ATSنے ایک اور سنسنی خیز انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ کرنل پروہت کا ہاتھ پربھنی جالنا اور ناندیڑ دھماکہ میں ہی۔ ATSکے سامنے یہ بات کرنل پروہت کے Narco Testکے بعد دوران آئی۔
15دن پہلی:ـ1نومبر کو گورکھپور کے ایم پی یوگی آدتیہ ناتھ نے کانگریس پر الزام لگایا کہ وہ ہندو تنظیموں کے ممبروں کو جھوٹے مقدمے میں پھنسا رہی ہی۔
14دن پہلی:ـ2نومبر کو مرکز نے سبھی ریاستی حکومتوں سے بجرنگ دل کے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ طلب کی۔ مرکز کا ماننا تھا کہ بجرنگ دل کے کارکنان مختلف فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہوسکتے ہیں۔
13دن پہلی:ـ3نومبر: ہریانہ پولیس نے مالیگائوں کے تار سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکے سے جڑے ہونے کی بات کہی اور متعلقہ پولیس افسران کو پوچھ گچھ کے لئے ممبئی بھیجا۔
14نومبر:TSنے ناسک کورٹ میں انکشاف کیا کہ مہنت دیانند پانڈے نے پروہت کو RDXسپلائی کرنے کی ہدایت دی۔
12 دن پہلی:ـ دیانند پانڈے کانپور بلاسٹ میں بھی مشکوک۔TS
11پہلے دن:ـ5نومبر: راج ناتھ سنگھ نے اس پورے معاملے کو ’’ایک بڑی سازش قرار دیا‘‘ انہوں نے کہا ’’میں پوری طرح سے مطمئن ہوں کہ سادھوی وغیرہ اس سازش میں ملوث نہیں ہیں۔‘‘
پروہت نے سمجھوتہ دھماکے کے لئے RDXسپلائی کیا۔ ATS
ناسک کورٹ میں پروہت نے ATSکے ذریعہ کسی بھی طرح سے ٹارچر کئے جانے کے الزام کو مسترد کیا۔
لالو نے اڈوانی کو "Terror Mask"کہا۔
9دن پہلی:ـ7نومبر : مالیگائوں دھماکے کے تار اجمیر شریف اور مکہ مسجد بم دھماکے سے جڑے ہیں۔ ATS
8دن پہلی:ـ8نومبر : اڈوانی اور راج ناتھ سنگھ نے ATSپر الزام لگایا کہ ATSاور کانگریس میں سانٹھ گانٹھ ہے اور وہ "Unprofessional"طریقے سے جانچ کررہی ہی۔
6دن پہلی:ـ0نومبر : ATSنے مالیگائوں ملزمین پر مکوکا لگایا۔
سادھوی پرگیہ کی موٹر سائیکل خریدنے والا شخص 2007میں مارا گیا۔ ATS
5دن پہلی:ـ1نومبر: مودی نے کانگریس پر الزام لگایا کہ وہ Vote Bank Politicsکررہی ہی۔
’’پاکستان جو کام 20برسوں میں نہیں کرسکا وہ ہندوستانی حکومت (Congress)نے 20دن میں کردکھایا۔‘‘ مودی
2دن پہلی:ـ4نومبر : پروہت نے CBIکو بیان دیا: ’’HPلیڈر ابھینو بھارت کے قیام میں پیش پیش تھی۔ انہوں نے کہا کہ RSSلیڈر اندریش کمار نے پاکستان کی تنظیم ISIسے 3کروڑ روپے لئی۔ سادھوی پرگیہ ٹھاکر نے مالیگائوں دھماکے لئے پروہت کو اس کا Creditلینے سے انکار کیا اور کہا ’’ان کے لوگوں‘‘ نے یہ دھماکہ کیا ہے نہ کہ ابھینو بھارت نی۔‘‘
اس دن، یعنی دو دن پہلے ہی پولیس کنٹرول روم میں شام.20پر کرکرے کو قتل کرنے کا دھمکی آمیز فون آیا تھا، جس کا خلاصہ جوائنٹ کمشنر آف پولیس راجیندر سوناونے اپنے بیان میں کیا تھا۔ یہ فون کال سہکارنگر کے ایک پی سی او، جس کا نمبر4231375 سے آیا تھا۔
اسی دن دیانندپانڈے نے اعتراف کیا کہ اس نے آر ڈی ایکس 'فراہم کرایا تھا۔
اسی دن مکومکا عدالت نے سادھوی پرگیہ، کرنل پروہت اور دیانند پانڈے کا اے ٹی ایس کی طرف سے ریمانڈ کی مدت بڑھانے کا مطالبہ خارج کردیا تھاکیونکہ ان تینوں نے اے ٹی ایس پر ٹارچر کرنے کا الزام لگایا تھا۔
ایک دن پہلی:ـ5نومبر : مکوکا عدالت نے اے ٹی ایس کو ٹارچر کے الزامات پر جواب طلب کیا۔
مہاراشٹر کے اے ٹی ایس سے انسانی حقوق کے قومی کمیشن نے ٹارچر کے الزامات پر صفائی پیش کرنے کو کہا۔
کرنل پروہت نے اعتراف کیا کہ اس نے اس سال آر ایس ایس چیف سدرشن سے جبل پور میں ملاقات کی اور آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار کے رول کی شکایت کی۔
……………………………(جاری

26/11 बदलते समय और परिस्थित की पृष्ठभूमि में
अज़ीज़ बर्नी

26 नवम्बर 2008 को मुंबई पर होने वाले आतंकवादी हमले पर कल जब मैं अपना लेख लिख रहा था तो अंत तक पहुंचते-पहुंचते इतनी जगह नहीं रह गई कि मैं श्री एस एम मुशरिफ की किताब के हवाले से और अजमेर बम धमाकों की नज़ीर पेश करके जो कहना चाहता था, उसे पूरा कर पाता। लिहाज़ा आप से अपील करना ज़रूरी लगा कि कल का लेख ज़रूर पढ़ें।
असल में जिस खास बात पर मैं ध्यान आकर्षित कराना चाहता था वह यह कि हर बम धमाके के बाद संघ परिवार और भारतीय जनता पार्टी का जितनी तेज प्रतिक्रिया होती थी आखिर 26 नवम्बर 2008 को होने वाले इतने बड़े बम धमाका के बाद इतनी तीव्र प्रतिक्रिया क्यों नहीं हुइ? क्या उनका यह कार्यशैली कुछ सोचने पर मजबूर नहीं करती? अजमेर बम धमाकों का हवाला देने का भी उद्देश्य यही था कि पुलिस के द्वारा से पहले जो कहानी पहले पेश की गई, वह गलत साबित हुई और पहले जिन आरोपियों को पहले अजमेर बम धमाकों में संलिप्त पाया गया था बाद में इनके अलावा कुछ और नाम सामने आये नये सिरे से की जाने वाले जांच ने जिन नामों को सामने रखा उसने पूरे परिदृश्य को बदल दिया। पहले संदेह जिस ओर जा रहे थे और बाद में जो परिणाम सामने आये उनमें बड़ा बदलाव था, इसी तरह मालेगांव बम धमाके की जांच को सामने रखा जाये तो घटना के तुरंत बाद जिन आरोपियों के नामों को सामने रखा गया था बाद की जांच ने जो आश्चर्यजनक रहस्योद्घाटन किये वह देश के आतंकवाद के इतिहास में एक नया अध्याय था और यह कहना गलत नहीं होगा कि मालेगांव बम धमाकों की जांच से शहीद हेमन्त करकरे ने आतंकवाद का जो चेहरा सामने रखा उनसे पहले उस पर किसी का ध्यान नहीं गया था। या कोई उस चेहरे को सामने रखने की हिम्मत नहीं जुटा सका था और यह भी हो सकता है कि तस्वीर के इस रूख को जान बुझ कर सामने आने ही न दिया गया हो, जो भी हो उन नामों के सामने आने के बाद से ही देशव्यापी स्तर पर जो हंगामा शुरू हुआ वह न जाने कब तक जारी रहता अगर इस बीच 26 नवम्बर 2008 को मुंबई पर आतंकवादी हमला न हुआ होता। अतएव अगली कुछ पंक्तियाॅं लिखने से पहले मैं अपने पाठकों और भारतीय सरकार का ध्यान अक्तूबर-नवम्बर 2008 की परिस्थतियों की ओर आकर्षित कराना चाहूंगा। उन परिस्थितियों को समझने के लिए उस समय के परिदृश्य की एक झलक पेश कर रहा हूं, इतिहास के पन्नों पर दर्ज इन कुछ पंक्तियों के माध्यम से आसानी से समझा जा सकेगा कि किन किन विषयों पर उस समय देशव्यापी स्तर पर चर्चा हो रही थी और अगर यह आतंकवादी हमला न हुआ होता तो यह चर्चा किस अंजाम तक पहुंचती।
31 दिन पहलेः 26 अक्तूबर की खबर के अनुसार एटीएस की टीम जांच के लिए भोपाल गई और दो पूर्व सैन्य अधिकारियों से पूछताछ की गई।
इसी तारीख को भारतीय जन शक्ति पार्टी की अध्यक्ष उमा भारती ने कहा कि प्रज्ञा किसी भी हिंसात्मक घटना में संलिप्त नहीं हो सकती क्योंकि वह साध्वी है और साध्वी सिर्फ पूजा पाठ और शांति की बात करती है।
30 दिन पहलेः 27 अक्तूबर को जबलपुर में साध्वी के घर की तलाशी ली गई और एटीएस ने संवेदनशील सबूत जमा किये।
28 दिन पहलेः 29 अक्तूबर को प्रज्ञा के भाई ने मानवाधिकार आयोग और मुंबई हाईकोर्ट में एक स्वायत जांच आयोग की मांग की और उसके साथ दूसरे हिन्दू संगठनें भी खड़े नज़र आये।
27 दिन पहलेः 30 अक्तूबर भाजपा हिन्दू संगठनों के नाम आने पर बोखला गई और खुलेआम आरोपियों की रक्षा में खड़ी हो गई। भाजपा के अध्यक्ष राजनाथ सिंह ने मीडिया पर निशाना साधते हुए कहा कि ‘‘ मीडिया इस पूरे मामले को आरूषी हत्या केस की तरह पेश कर रही है’’ और प्रज्ञा के पक्ष में कहा कि जो लोग सांस्कृति राष्ट्रवाद पर विश्वास रखते हैं वह आतंकवाद में संलिप्त हो ही नहीं सकते। उन्होंने एटीएस के नारको टेस्ट पर प्रश्न चिन्ह लगा दिया और कहा कि किसी खतरनाक आतंकवादी को भी इस तरह टार्चर नहीं किया जाता लेकिन एटीएस के मुखिया हेमन्त करकरे ने सारे आरोपियों पर मकोका लगा दिया। इसी बीच हिन्दू महासभा ने कर्नल पुरोहित और दूसरे आरोपियों को कानूनी मदद देने की घोषणा की।
25 दिन पहलेः 1 नवम्बर को साध्वी के ब्रेन मेपिंग टेस्ट में एटीएस साध्वी से कुछ भी उगलवाने में असफल रही। यह टेस्ट नागपरा पुलिस अस्पताल में उसी सप्ताह किया गया और फिर पुलिस ने दूसरे फारेंसिक टेस्ट की तैयारी शुरू कर दी।
उसी दिन खबर आई कि समीर कुलकर्णी को एटीएस ने मालेगांव धमाके के आरोपी के तौर पर पहले ही गिरफ्तार कर लिया है। समीर कुलकर्णी भोपाल के एक प्रिंटिंग प्रेस में काम करता था। पुलिस के अनुसार 37 वर्षीय कुलकर्णी अभिनव भारत का संस्थापक सदस्य था।
24 दिन पहलेः 2 नवम्बर के अनुसार भोंसला मिलेट्री स्कूल के प्रधानाचार्य को गिरफ्तार करके उससे पूछताछ की गई उसी तारीख को बाल ठाकरे ने भाजपा की इस बात की भत्र्सना की कि वह साध्वी का रक्षा नहीं कर रही है और उससे हिन्दू समाज के हृदय को आघात पहुंच रहा है। भाजपा और शिवसेना ने विभिन्न स्थानों से बेहतरीन वकीलों को जमा करके नासिक कोर्ट के सामने धरना दिया।
22 दिन पहलेः 4 नवम्बर एटीएस के अनुसार आरोपी प्रज्ञा सिंह ने स्वीकार किया कि उसीे ने अपनी मोटर साईकिल संदिग्ध रामजी जिसने बम रखा था, को दी थी लेकिन साथ ही उसने यह भी बताया कि उसे इसके प्रयोग के बारे में पता नहीं था कि रामजी का उस मोटर साईकिल को लेकर क्या पदजमदजपवद था यह (थ्तममकवउ) डस्माॅडल की बाईक थी।
उसी दिन साध्वी के पक्ष में अपने बयान से पलटते हुए भाजपा ने उसे कानूनी सहायता देने का फैसला किया इससे पहले भाजपा ने साध्वी के बारे में कड़ा रूख अपनाये हुई थी। उसी तारीख को जांच एजेंसी एटीएस ने मालेगांव धमाका के 8 आरोपियों पर मकोका लगाने का फैसला किया।
21 दिन पहलेः 5 नवम्बर मुंबई एटीएस ने आरोपी लेफ्टिनेंट पुरोहित को गिरफ्तार करके जांच करने की तैयारी शुरू कर दी और उसी तारीख को साध्वी पर भी मकोका लगाने की तैयारी शुरू कर दी गई।
20 दिन पहलेः 6 नवम्बर को कर्नल पुरोहित को गिरफ्तार कर लिया गया है। पुलिस को उसके मोबाईल से दूसरे संदिग्ध आरोपियों को किये गये कई एसएमएस मिले यह एसएमएस कोडवर्ड में किये गये थे जिनमें ब्ंज पे वनज व िजीम इंेबामज दूसरा ैपदही ींे ेनदहीए इसके अलावा ूम ंतम वद जीम तमकंत व ि।ज्ैए बींदहम जीम ेपउ बंतकयह वह एसएमएस था जो कर्नल पुरोहित के मोबाईल से रिटायर्ड मेजर रमेश उपाध्याय को भेजा गया था। इससे पहले पुलिस उपाध्याय को इस मामले में गिरफ्तार कर चुकी थी और उसको 15 नवम्बर तक पुलिस रिमांड पर ले लिया गया था।
19 दिन पहलेः 7 नवम्बर, को एटीएस के अनुसार कर्नल पुरोहित ने स्वीकार किया कि वह मालेगांव धमाके का सरगना था। उसके साथ साथ उन्होंने यह भी कुबूल किया कि उन्होंने धमाके का षड्यंत्र तैयार किया था और 29 सितम्बर के लिए विस्फोटक सामग्री सेना से उपलब्ध कराया था और हथियार भी उपलब्ध कराये थे, यह सारी चीजें अभिनव भारत के सदस्यों के हवाले की थीं।
उसी तारीख को आर्मी डिप्टी चीफ लेफ्टिनेंट जनरल ने बयान दिया कि कर्नल पुरोहित की गिफ्तारी सेना का मोराल गिरा है। उसी तारीख को तोगड़िया ने अभिनव भारत की निन्दा की।
18 दिन पहलेः 8 नवम्बर कर्नल पुरोहित से संबंधित मुंबई एटीएस ने दो और सैन्य अधिकारियों से पूछताछ की साथ ही एटीएस ने यह भी बताया कि कर्नल पुरोहित पर मकोका लगया जा सकता है। उसी तारीख को सबूत के सामने आने के बाद संघ परिवार ने कर्नल पुरोहित और दूसरे गिरफ्तार आरोपियों से किसी तरह का संबंध होने से इनकार किया जबकि उससे पहले धमाका करने वाले आरोपियों का खुलकर समर्थन कर रहा था।
उसी तारीख को कांग्रेस ने भाजपा पर आरोप लगाया कि भाजपा सेना का भगवाकरण कर रही है। यह बयान अभिषेक मनु सिंघवी ने दिया।
17 दिन पहलेः 9 नवम्बर को एटीएस का बयान आया कि एटीएस तीन वीएचपी लीडर, जो गुजरात से संबंध रखते हैं उनके बारे में जांच करना चाहती है क्योंकि उन तीनों का संबंध समीर कुलकर्णी से है जो अभिनव भारत का संस्थापक सदस्य है।
16 दिन पहलेः 10 नवम्बर को एटीएस ने एक और सनसनीखेज पर्दाफाश करते हुए कहा कि कर्नल पुरोहित का हाथ परभनी, जालना और नांदेड़ धमाका में है। एटीएस के सामने यह बात कर्नल पुरोहित के नारको टेस्ट के दौरान आई।
15दिन पहलेः 11 नवम्बर को गोरखपुर के एमपी योगी आदित्यानाथ ने कांग्रेस पर आरोप लगाया कि वह हिन्दू संगठनों के सदस्यों को झूठे मुकदमे में फंसा रही है।
14 दिन पहलेः 12 नवम्बर को केंद्र ने सभी राज्य सरकरों से बजरंग दल से संबंधित एक विस्तृत रिपोर्ट मांगी। केंद्र का मानना था कि बजरंग दल के कार्यकर्ता विभिन्न साम्प्रदायिक दंगों मंें संलिप्त हो सकते हैं।
13 दिन पहलेः 13 नवम्बर हरियाणा पुलिस ने मालेगांव धमाके के तार समझौता एक्सप्रेस बम धमाके से जुड़े होने की बात कही और संबंधित पुलिस अधिकारियों को पुछताछ के लिए मुंबई भेजा।
14 नवम्बरः एटीएस ने नासिक कोर्ट मंे रहस्योद्घाटन किया कि महंत दयानन्द पांडे ने पुरोहित को आरडीएक्स सप्लाई करने का आदेश दिया था।
12 दिन पहलेः दयानंद पांडे कानापुर धमाके में भी संदिग्धः एटीएस
11 दिन पहलेः 15 नवम्बर राजनाथ सिंह ने इस पूरे मामले को ‘एक बड़ा षड्यंत्र बताया’, उन्होंने कहा ‘ मैं पूरी तरह से संतुष्ट हूं कि साध्वी आदि इस षड्यंत्र में संलिप्त नहीं हैं’
पुरोहित ने समझौता एक्सप्रेस धमाके के लिए आरडीएक्स सप्लाई कियाः एटीएस
नासिक कोर्ट में पुरोहित ने एटीएस के माध्यम से किसी भी तरह से प्रताड़ित किये जाने के आरोप को खारिज कर दिया।
लालू ने आडवाणी को ‘ज्मततवत डंेा’ कहा।
9 दिन पहलेः 17 नवम्बर मालेगांव धमाके के तार अजमेर शरीफ और मक्का मस्जिद बम धमाके से जुड़े हैंः एटीएस
8 दिन पहलेः 18 नवम्बर, आडवाणी और राजनाथ सिंह ने एटीएस पर आरोप लगाया कि एटीएस और कांग्रेस में सांठगांठ है और वह ‘न्दचतवमिेेपवदंस’जांच कर रही है।
6 दिन पहलेः 20 नवम्बर, एटीएस ने मालेगांव बम धमाके के आरोपियों पर मकोका लगया।
साध्वी प्रज्ञा की मोटर साईकिल खरीदने वाला व्यक्ति 2007 में मारा गयाः एटीएस
5 दिन पहलेः 21 नवम्बर, मोदी ने कांग्रेस पर आरोप लगया कि वह ‘टवजम ठंदा चवसजपबे’ कर रही है।
‘पाकिस्तान जो काम 20वर्षों में नहीं कर सका वह भारतीय सरकार (ब्वदहतमेे) ने 20 दिन में कर दिखाया’ःमोदी
2 दिन पहलेः 24नवम्बर, पुरोहित ने सीबीआई को बयान दिया ‘वीएचपी लीडर अभिनव भारत के स्थापना में सबसे आगे थे उन्होंने कहा कि आरएसएस लीडर इंद्रेश कुमार ने पाकिस्तान की आईएसआई से 3करोड़ रूपये लिये। साध्वी प्रज्ञा ठाकुर ने मालेगांव धमाका के लिए पुरोहित को उसका ब्तमकपज लेने से इनकार किया और कहा ‘उनके लोगों’ ने यह धमाका किया है न कि अभिनव भारत ने’।
उस दिन अर्थात दो दिन पहले ही पुलिस कंट्रोल रूम में शाम 5.20 पर करकरे को कत्ल करने का धमकी भरा फोन आया था जिसका खुलासा संयुक्त आयुक्त पुलिस राजेन्द्र सोना विनय अपने बयान में किया था। यह फोन काल सहकार नगर के एक पीसीओ, जिसका नम्बर 24231375 से आया था।
उसी दिन दयानन्द पांडे ने स्वीकार किया कि उसने आरडीएक्स उपलब्ध कराया था।
उसी दिन मकोका अदालत ने साध्वी प्रज्ञा सिंह, कर्नल पुरोहित और दयानन्द पांडे का एटीएस की ओर से रिमांड की मुद्दत बढ़ाने की मांग को खारिज कर दिया था क्योंकि उन तीनों ने एटीएस पर प्रताड़ित करने का अरोप लगाया था।
एक दिन पहलेः 25 नवम्बर, मकोका अदालत ने एटीएस को प्रताड़ित के आरोपों पर जवाब मांगा।
महाराष्ट्र के एटीएस से मानवाधिकार आयोग ने प्रताड़ित के आरोपों पर सफाई पेश करने को कहा।
कर्नल पुरोहित ने स्वीकार किया कि उसने इस साल आरएसएस प्रमुख सुदर्शन सेे जबलपुर में भंेट की और आरएसएस लीडर इंद्रेश कुमार के भूमिका की शिकायत की।
.............................................................(जारी)

26/11

کس کی سازش۔کیا اٹھے گا پردہ؟

عزیز برنی

ہندوستان پر ہوئے سب سے بڑے دہشت گردانہ حملہ کی دوسری برسی ہے آج۔ یقینا ہمارے قارئین ہی نہیں، بلکہ ہندوستان بھر کے عوام 26نومبر008کو ہمارے ملک کی اقتصادی راجدھانی ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کو بھولے نہیں ہوں گی۔ ہوسکتا ہے کہ آج جب آپ میرا یہ مضمون پڑھ رہے ہوں، دیگر اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی اس دہشت گردانہ حملہ کا ذکر ہو، لیکن گزشتہ دنوں جس طرح ہندوستان میں ہوئے دیگر بم دھماکوں کی تفتیش کی خبریں سرخیاں بنتی رہیں اور ان کے ردعمل میں سیاسی، غیرسیاسی تنظیمیں مظاہرے کرتی رہیں۔ 26نومبر کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کا تذکرہ اس انداز میں نہیں ہوا اور نہ ہی دیش بھکت کہی جانے والی تنظیموں کی طرف سے حقیقت کو منظرعام پر لانے کے لئے کوئی تحریک چلائی گئی! ویسے بھی اگر نومبر008 کے آخری ہفتہ اور دسمبر کی بات جانے دیں تو اس دہشت گردانہ حملہ پر تحقیقات کا سلسلہ اس طرح نہیں چلا، جس طرح کے چلنا چاہئے تھا اور نہ ہی میڈیا نے اس کی جانچ کے معاملہ کو اتنی اہمیت دی، جتنی کہ دی جانی چاہئے تھی۔ میں پھر واضح کردوں کہ اس دہشت گردانہ حملہ کے تعلق سے شائع کی جانے والی یا دکھائی جانے والی خبروں کا ذکر میں اس وقت نہیں کررہا ہوں۔ یہ حملہ کتنا شدید تھا، کتنے لوگ ہلاک ہوئی، کتنے زخمی، میں اس طرح کی خبروں کا بھی ذکر نہیں کررہا ہوں۔ شہید ہیمنت کرکری، اشوک کامٹے اور وجے سالسکر جیسے پولیس افسراس میں ہلاک ہوئی، میں ان خبروں کا بھی ذکر نہیں کررہا ہوں۔ آج میں ایسی تمام خبروں سے ہٹ کر بات کررہا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ دو سال گزر جانے کے بعد بھی ہندوستان کی زمین پر ہوئے اس سب سے بڑے دہشت گردانہ حملہ کی جانچ کے سلسلہ میں آج تک کیا ہوا؟ حملہ آور پاکستان سے آئے تھی، ان کی تعداد 10تھی، سازش پاکستان میں رچی گئی، سازش رچنے والا ذکی الرحمن لکھوی تھا، اجمل عامر قصاب وہ واحد دہشت گرد ہی، جو ان دہشت گردانہ حملوں کے بعد زندہ گرفت میں آیا۔ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی اور تہورحسین رانا کے نام بعد میں جڑی۔ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی پاکستان اور امریکہ دونوں کی شہریت رکھتا تھا۔ اس کا تعلق پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور امریکہ کی ایف بی آئی سے تھا۔ یہ سب اپنی جگہ، لیکن اس کے آگے کیا ہوا؟ ہماری ٹیم امریکہ گئی، کیا پتہ لگا کر آئی، نہیں معلوم۔ اس درمیان ہندوستان کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کا امریکہ دورہ بھی ہوا اور امریکہ کے صدر براک حسین اوباما بھی ہندوستان تشریف لائی۔ شرم الشیخEgypt)میں ہندوستانی وزیراعظم اور پاکستانی وزیراعظم کی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ اس دہشت گردانہ حملہ کا ذکر بھی ہوا۔ ذکی الرحمن لکھوی پر بھی بات ہوئی۔ یہ سب وہ باتیں ہیں، جس کی جانکاری آپ کو بھی ہی، مگر اب اس سے آگے میں جو لکھنے جارہا ہوں، وہ ذرا نئی بات ہے اور اس پر میں آپ کی خصوصی توجہ چاہتا ہوں۔
ممبئی میں ہوئے اس دہشت گردانہ حملہ کے بعد اس وقت مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ولاس راؤ دیش مکھ نے استعفیٰ دیا، آر آر پاٹل جو مہاراشٹر کے وزیرداخلہ تھی، ہٹائے گئی، آر آر پاٹل آج پھر مہاراشٹر کے وزیرداخلہ ہیں۔ ولاس راؤ دیش مکھ مرکزی حکومت میں کابینہ درجہ کے وزیر ہیں، جب ان کو ہٹایا گیا تھا، تب بھارتیہ جنتا پارٹی یا سنگھ پریوار نے ایسا کوئی زوردار مطالبہ نہیں کیا تھا کہ انہیں اپنے عہدوں سے ہٹایا جائی۔ ممبئی پر ہوا دہشت گردانہ حملہ ان کی غیرذمہ داری کا نتیجہ تھا، لہٰذا ان کو اپنے عہدوں پر برقرار رہنے کا حق نہیں ہی۔ یہ فیصلہ کانگریس پارٹی کا تھا اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہی، ولاس راؤ دیش مکھ جائے واردات کا معائنہ کرنے کے لئے جب گئے تو اپنے ساتھ اپنے بیٹے رتیش دیش مکھ، جو فلمی اداکار ہیں اور ایک فلم پروڈیوسر کو بھی لے گئی، زیادہ قابل اعتراض اسی بات کو مانا گیا، ان کی کوتاہی پر بحث چلی ہو، ان کا استعفیٰ بطور سزا لیا گیا ہو اور یہ مطالبہ بھارتیہ جنتا پارٹی، سنگھ پریوار یا شیوسینا کی طرف سے کیا گیا ہو، ایسا کچھ خاص نہیں تھا۔ بات اتنی پرانی نہیں ہے کہ تفصیلات دستیاب نہ ہوسکیں۔ اشوک چوان کے آدرش سوسائٹی میں 3فلیٹ ہونے کی بنیاد پر تسلیم کیا گیا کہ وہ بدعنوانی میں کہیں نہ کہیں ملوث ہیں، لہٰذا ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔ نتیجتاً انہیں اپنے عہدے سے ہٹنا پڑا۔ ٹیلی کام منسٹر اے راجا اسپیکٹرم گھوٹالے میں ملوث پائے گئی، انہیں اپنے عہدے سے ہٹنا پڑا۔ وزیراعظم کے دفتر کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے 17دن پارلیمنٹ نہیں چلنے دی۔بارہا یہ درخواست کی گئی کہ ازراہ کرم ایوان کی کارروائی جاری رہنے دیں، لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنان کا ہنگامہ کم نہیں ہوا، جبکہ کرناٹک کے وزیراعلیٰ یدیورپا بھی زمین گھوٹالے میں ملوث پائے گئی۔
اجمیر بم دھماکوں میں اندریش کا نام آنے پر سنگھ پریوار کی ہنگامہ آرائی اور کے ایس سدرشن کی بہتان تراشی کسی سے چھپی نہیں ہی، ہم یہ نہیں کہتے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے یا سنگھ پریوار نے بدعنوانی کے خلاف جس ردعمل کا مظاہرہ کیا، وہ غلط تھا، انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا، مگر اگلی بات جو ہم کہہ رہے ہیں،اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار کے عمل کا جائزہ لینا ہوگا۔ یہ بدعنوانی کے معاملات اس نوعیت کے تھے کہ انہیں خاموشی سے برداشت نہیں کیا جانا چاہئے تھا، لہٰذا جو کچھ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی نی، اسے وہ کرنا ہی چاہئے تھا، مگر اب غور اس امر پر بھی کرنا ہوگا کہ یہ بدعنوانی زیادہ بڑا معاملہ تھا یا 26نومبر008کو ممبئی پر ہوا دہشت گردانہ حملہ زیادہ بڑا معاملہ تھا۔ ہر بم دھماکہ کے بعد تشویش ظاہر کرنے اور تفتیش کے معاملے میں سرگرم ہونے والا سنگھ پریوار اتنے بڑے دہشت گردانہ حملہ کے بعد کتنا سرگرم ہوا۔ بی جے پی نے کتنی بار پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ کی اس مانگ کے ساتھ کہ 26/11کے تمام ملزمان کا پردہ فاش ہونا چاہئی۔ اس مکمل نیٹ ورک کو بے نقاب کیا جانا چاہئی۔ اس نے کیوں آواز نہیں اٹھائی کہ آخر انیتا اُدیا کو خفیہ طور پر امریکہ کیوں لے جایا گیا۔ امریکہ کو کیا حق تھا، اسے اس طرح لے جانے اور پوچھ گچھ کرنے کا۔ سفر ہندوستان کے دوران امریکی صدر براک حسین اوباما کی خصوصی میٹنگ سشما سوراج سے بھی ہوئی۔ کیا اس دیش بھکت پارٹی کے رہنمائوں نے ڈیوڈ کولمین ہیڈلی جو ہندوستان پر دہشت گردانہ حملہ کا ماسٹر مائنڈ تھا، اس کے بارے میں گفتگو کی۔ کیا وزیراعظم ڈاکٹرمنموہن سنگھ سے مطالبہ کیا کہ اس موضوع پر گفتگو ایجنڈے میں شامل کی جائی۔ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی نے اعتراض کیا کہ آر آر پاٹل کو دوبارہ وزیرداخلہ کیوں بنایا جارہا ہی۔ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ دس پاکستانی دہشت گردوں کے علاوہ اور کون کون اس میں شامل تھی۔ کم سے کم ہندوستان میں کون کون ایسا شخص تھا، جو ان دہشت گردانہ حملوں کی سازش رچنے یا انہیں عملی جامہ پہنانے میں شامل رہا ہو۔ اکشردھام پر حملہ ہوا، مکہ مسجد پر حملہ ہوا، ان حملوںکے فوراً بعد سے لگاتار بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار کا عمل کیا رہا اور ممبئی پر ہوئے اس دہشت گردانہ حملہ کے بعد اس کا عمل کیا رہا، آج اس کا موازنہ کرنا ہوگا۔ کیا اس نے اس دہشت گردانہ حملے اور اس کی سازش کا پتا لگائے جانے کی ویسی ہی جدوجہد کی، جیسی کہ دیگرواقعات کے بعد کرتی رہی ہی؟ اگر نہیں، تو اس کی وجہ کیا ہی؟
شہید ہیمنت کرکرے اور انسپکٹر موہن چند شرما دو چہرے ہمارے سامنے ہیں، دونوں کو ہی شہید کا درجہ حاصل ہی۔ انسپکٹر موہن چندشرما زیادہ بڑے حادثہ کا شکار ہوئے یا ہیمنت کرکری؟ انسپکٹر موہن چند شرما کا مقابلہ زیادہ سخت تھا یا ہیمنت کرکرے کا؟ ان دونوں کے معاملے میں سنگھ پریوار کا طرزعمل کیا رہا، یہ سب کے سامنے ہی۔ کیا اس کی کوئی وجہ سمجھ میں آتی ہی۔ بہرحال اب میں اپنے مضمون کو آگے بڑھانے سے قبل اپنے قارئین اور حکومت ہند کی توجہ مندرجہ ذیل خبر کی طرف دلانا چاہتاہوں، جس کا تعلق سابق انسپکٹر جنرل پولیس ایس ایم مشرف کے ذریعہ لکھی گئی کتاب "Who killd Karkare"(کرکرے کا قاتل کون) سے ہی۔ اس خبر کے بعد میرے مضمون کا تسلسل جاری رہے گا۔
مہاراشٹر کے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس ایم مشرف کو بمبئی ہائی کورٹ نے ان کی متنازع کتاب ’’کرکرے کو کس نے مارا‘‘ کے سیاق و سباق کے بارے میں وضاحت کرنے کے لئے طلب کیا ہی، جس میں الزام لگایا ہے کہ ہندوانتہاپسندوں اور ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں نے مل کر اے ٹی ایس کے چیف ہیمنت کرکرے کو مارنے کی سازش رچی تھی۔
جسٹس بی ایچ مارلاپلے اور جسٹس آروائی گانو نے مشرف کو ہدایت دی ہے کہ وہ پہلی دسمبر کو ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ کے سامنے ہوں۔ مارلاپلے نے کہا کہ اگر کوئی سرکاری افسر نہ صرف یہ کہ کھلے عام کوئی بیان دی، بلکہ اس کو چھاپ بھی دے تو اس کی تحقیقات ہونی چاہئی۔
عدالت نے کہا کہ اگر کتاب میں حکومت کو کچھ قابل اعتراض لگا تھا تو وہ اس پر پابندی لگاسکتی تھی،لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا، شاید آپ میں ہمت نہیں تھی۔ کیا آپ نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہی؟ مارلاپلے نے سرکاری وکیل سے پوچھا اور عدالت نے کہا کہ اگر کتاب میں قابل اعتراض مواد تھا تو انہیں مشرف کے خلاف کارروائی کرنا چاہئے تھی۔ بہرحال اگر اس میں کوئی معاملہ بنتا ہے تو اس کی تحقیقات کی جانی چاہئی۔
سرکاری وکیل پانڈورنگ پول نے کورٹ میں پولیس کمشنر سنجیودیال کی طرف سے ایک حلف نامہ دائر کیا، جس میں بالکل واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کرکرے کے قتل کے معاملے میں ابھینوبھارت سمیت کسی ہندوتنظیم کا ہاتھ نہیں ہی۔ حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ تفتیش کے دوران ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہی، جس میں اس معاملے کی چارج شیٹ میں نامزد کئے گئے دو ملزموں محمد اجمل عامر قصاب اور ابواسماعیل کے علاوہ کوئی اور بھی ملوث ہی۔ یہاں تک کہ جس کورٹ میں قصاب کے مقدمہ کی کارروائی چلی، اس میں بھی فردجرم عائد کرتے وقت کسی ہندوتنظیم کے اس معاملے میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ حلف نامہ کو پڑھنے کے بعد جسٹس مارلاپلے نے کہا کہ عدالت یہ نہیں کہہ رہی ہے کہ کرکرے کو کسی اور نے مارا تھا، بلکہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کہیں سرزمین ہند سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص اس میں ملوث تو نہیں تھا، کیونکہ مسٹر مشرف آپ ہی کی فورس کا ایک حصہ تھی۔
کرکرے کی موت کو ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کے آدمیوں اور ہندو انتہا پسند تنظیموں کے سرتھوپے جانے کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ میں دورٹ پٹیشن داخل کی گئی ہیں، جن میں سے ایک بہار کے ایم ایل اے رادھا کانت یادو اور دوسری کیوتی بیدیکر نے داخل کی ہی۔
مجھے ایس ایم مشرف اور ونیتاکامٹے کی کتابوں کے حوالے سے بہت کچھ کہنا ہی۔ اسی موضوع پر میرے پچھلے قسط وار مضمون ’’مسلمانانِ ہند…ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟‘‘ کی00ویں قسط ’’شہید وطن کرکرے کی شہادت کو سلام‘‘ اور میری کتاب ’’کیا آر ایس ایس کی سازشـ6/11‘‘ کے حوالے سے بھی اس سچائی کو سامنے رکھنے کی کوشش کرنی ہی، لیکن اس مختصر تحریر کو اجمیر بم دھماکوں کے حوالے کے ساتھ ختم کرنا چاہوں گا۔
لہٰذا اب ایک نظر اجمیر درگاہ بم دھماکہ اور اس کے بعد کے حالات پر:
11اکتوبر007کو اجمیر کی درگاہ میں دھماکے ہوئی۔
ان دھماکوں میں 3افراد ہلاک اور 20زخمی ہوئی۔
پولیس نے اولاً لشکرطیبہ کو موردِالزام ٹھہرایا۔
اس وقت مرکزی سرکار نے کہا تھا کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اس طرح کے دھماکوں کے ذریعہ ہندـپاک مذاکرات میں رکاوٹ ڈالنا چاہتی ہی۔
22اکتوبر007کو دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات میں Indo-pak anti terror mechanism پر غور کیا جانے والا تھا۔
اس کے بعد سی بی آئی تفتیش میں سامنے آیا کہ اجمیر درگاہ میں سنیل جوشی نے بم رکھے تھی، پھر اچانک خبر آئی کہ سنگھ پریوار کے اس رکن سنیل جوشی کو قتل کردیا گیا۔ مزید حیرانی کی بات یہ کہ مدھیہ پردیش میں جہاں قتل ہوا بی جے پی کی سرکار تھی، لیکن نہ تو قاتل کا کوئی سراغ ملا اور نہ کسی کی طرف سے کوئی مطالبہ کہ آخر پولیس اتنی سردمہری سے کیوں کام لے رہی ہی، پھر اجمیر دھماکوں کے لئے سوامی اسیمانند کو اتراکھنڈ کے ہری دوار سے گرفتار کیا گیا، جس کا تعلق وندے ماترم گروپ سے تھا۔ دیگر گرفتار کئے جانے والوں میں مکیش وسہانی کو گودھرا سے گرفتار کیا گیا، اس پر بھی درگاہ میں بم رکھنے کا الزام ہی۔دیویندرگپتا، لوکیش شرما، چندرشیکھر لیوے کو گرفتار کیا جاچکا ہی۔ ملزم سندیپ ڈانگی، رام جی کلسانگرے مفرور ہیں اور غالباً گجرات میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ 16مئی 2010کو اندور سے راجیش مشرا نامی ایک کاروباری کو گرفتار کیا گیا۔ اس طرح اس معاملہ میں اب تک 7ملزموں کی نشاندہی ہوئی ہی، جن میں سے 2فرار ہیں، جبکہ پہلے راجستھان پولیس نے اجمیر درگاہ بم دھماکوں میں ہوجی اور لشکرطیبہ کو موردالزام ٹھہرایا تھا اور عبدالحفیظ شمیم، خوشی الرحمن اور عمران علی کو گرفتار کیا تھا۔اس کے علاوہ اپنی ابتدائی مہم میں حیدرآباد، راجستھان پولیس نے کہا تھا کہ 25اگست کے بم دھماکوں سے جو سم کارڈ برآمد ہوئے تھی، وہ بابولال یادو نے حاصل کئے تھی۔ پولیس نے کہا تھاکہ یہ مجرموں کی چالاکی تھی۔ یہ سم کارڈ نقلی شناخت کو استعمال کرکے حاصل کئے گئے تھی۔ پولیس نے یہ بھی کہا تھا کہ شاہد بلال جو کہ ہوجی کا کمانڈر ہے اجمیر دھماکوں کے پیچھے بھی ہوسکتا ہی۔ اس طرح پولیس نے حیدرآباد اور اجمیر بم دھماکوں کے لئے شاہد بلال کا ہاتھ ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یادو کے نام سے لیا گیا سم کارڈ شاہد بلال اور دیگر مسلم دہشت گردوں نے 13اکتوبر007کو دھوکہ دینے کے لئے استعمال کیا تھا، لہٰذا پولیس شاہد بلال کو ہی اجمیر، مکہ مسجد اور 25اگست007کے دھماکوں کے لئے ذمہ دار قرار دیتی رہی ہی۔
جاری…کل ضرور ملاحظہ فرمائی

26/11 किसकी साज़िश-क्या उठेगा परदा?
अज़ीज़ बर्नी

भारत पर हुए सबसे बड़े आतंकवादी हमले की दूसरी बरसी है आज। निश्चितरूप से हमारे पाठक ही नहीं, बल्कि पूरे भारत की जनता 26 नवम्बर 2008 को हमारे देश की आर्थिक राजधानी के रूप में प्रसिद्ध मुम्बई पर हुए आतंकवादी हमले को भूले नहीं होंगे, हो सकता है आज जब आप मेरा यह लेख पढ़ रहे हों, अन्य समाचारपत्रों तथा इलैक्ट्राॅनिक मीडिया में भी इस आतंकवादी हमले की चर्चा हो, लेकिन पिछले दिनों जिस तरह भारत में हुए अन्य बम धमाकों की जांच के समाचार सुर्ख़ियां बनते रहे और उनकी प्रतिक्रिया में राजनीतिक व ग़ैर-राजनीतिक संगठन प्रदर्शन करते रहे, 26 नवम्बर को मुम्बई पर हुए आतंकवादी हमले की चर्चा इस अंदाज़ में नहीं हुई और न ख़ुद को देश भक्त कहने वाले संगठनों की ओर से भी वास्तविकता को सामने लाने के लिए कोई विशेष आंदोलन चलाया गया। वैसे भी अगर नवम्बर 2008 के अंतिम सप्ताह तथा दिसम्बर की बात जाने दें तो इस आतंकवादी हमले पर जांच का सिलसिला उस तरह नहीं चला जिस तरह चलना चाहिए था और न ही मीडिया ने इसकी जांच के मामले को इतना महत्व दिया जितना कि दिया जाना चाहिए था। मैं फिर स्पष्ट कर दूं कि इस आतंकवादी हमले से संबंधित प्रकाशित की जाने वाली या दिखाई जाने वाली ख़बरों की चर्चा मैं इस समय नहीं कर रहा हूं। यह हमला कितना बड़ा था, कितने लोग हताहत हुए, कितने घायल, मैं इस तरह के समाचारों की भी चर्चा नहीं कर रहा हूं। शहीद हेमंत करकरे, अशोक कामटे और विजय सालस्कर जैसे पुलिस अधिकारी इसमें मारे गए, मैं इन समाचारों की भी चर्चा नहीं कर रहा हूं। आज मैं ऐसे सभी समाचारों से हट कर बात कर रहा हूं। प्रश्न यह है कि दो वर्ष बीत जाने के बाद भी भारत की धरती पर हुए इस सबसे बड़े आतंकवादी हमले की जांच के संबंध में आज तक क्या हुआ? हमलावर पाकिस्तान से आए थे, उनकी संख्या 10 थी, षडयंत्र पाकिस्तान में रचा गया, षडयंत्र रचने वाला ज़्ाकीउर्रहमान लखवी था, अजमल आमिर क़साब वह एक मात्र आतंकवादी है, जो इन आतंकवादी हमलों के बाद जीवित पकड़ में आया। डेविड कोलमैन हेडली और तहव्वुर हुसैन राना के नाम बाद में जुड़े। डेविड कोलमैन हेडली पाकिस्तान और अमेरिका दोनों की नागरिकता रखता था। उसका संबंध पाकिस्तानी गुप्तचर एजेंसी आईएसआई और अमेरिका की एफबीआई से था। यह सब अपनी जगह लेकिन इसके आगे क्या हुआ। हमारी टीम अमेरिका गई, क्या पता लगा कर लाई, नहीं मालूम। इस बीच भारत के प्रधानमंत्री डा॰ मनमोहन सिंह की अमेरिकी यात्रा भी हुई और अमेरिकी राष्ट्रपति बराक हुसैन ओबामा भी भारत पधारे। शरम-अल-शैख़ ;म्हलचजद्ध में भारतीय प्रधानमंत्री और पाकिस्तानी प्रधानमंत्री की मुलाक़ातें भी हुईं। इस आतंकवादी हमले की चर्चा भी हुई। ज़्ाकीउर्रहमान लखवी पर बात भी हुई। यह सब वह बातें हैं, जिसकी जानकारी आपको भी है, परंतु अब इससे आगे जो मैं लिखने जा रहा हूं, वह ज़रा नई बात है और इस पर मैं आपका विशेष ध्यान चाहता हूं।
मुम्बई में हुए इस आतंकवादी हमले के बाद उस समय महाराष्ट्र के मुख्यमंत्री विलास राव देशमुख ने त्यागपत्र दिया, आर॰आर॰ पाटिल जो महाराष्ट्र के गृह मंत्री थे, हटाए गए, आर॰आर॰ पाटिल आज फिर महाराष्ट्र के गृह मंत्री हैं। विलासराव देशमुख केंद्र सरकार में कैबिनेट दरजे के मंत्री हैं, जब उनको हटाया गया था तब भारतीय जनता पार्टी या संघ परिवार ने ऐसी कोई ज़ोरदार मांग नहीं की थी कि उन्हें अपने पदों से हटाया जाए। मुम्बई पर हुआ आतंकवादी हमला उनकी ग़ैर ज़िम्मेदारी का परिणाम था, इसलिए उनको अपने पदों पर बने रहने का अधिकार नहीं है। यह फ़ैसला कांग्रेस पार्टी का था और जहां तक मुझे याद पड़ता है विलासराव देशमुख घटना स्थल का निरीक्षण करने के लिए जब गए तो अपने साथ अपने बेटे रितेश देशमुख जो फ़िल्म कलाकार हैं और एक फ़िल्म प्रोड्यूसर को भी ले गए, अधिक आपत्तिजनक इसी बात को माना गया, उनकी कोताही पर बहस चली हो, उनका त्यागपत्र सज़ा के रूप में लिया गया हो और यह मांग भारतीय जनता पार्टी, संघ परिवार या शिवसेना की ओर से की गई हो, ऐसा कुछ ख़ास नहीं था। बात इतनी पुरानी नहीं है कि विवरण उपलब्ध न हो सके। अशोक चव्हान के आदर्श सोसायटी में 3 फ़्लैट होने के आधार पर मान लिया गया कि वह भ्रष्टाचार में कहीं न कहीं लिप्त हैं, इसलिए उनसे त्यागपत्र की मांग की गई। परिणाम स्वरूप उन्हें अपने पद से हटना पड़ा। टेलीकाॅम मिनिस्टर ए.राजा स्पैक्ट्रम घोटाले में लिप्त पाए गए, उन्हें अपने पद से हटना पड़ा। प्रधानमंत्री के कार्यालय को भी आलोचना का निशाना बनाया गया। भारतीय जनता पार्टी ने 17 दिन तक संसद नहीं चलने दी। कई बार यह निवेदन किया गया कि कृप्या सदन की कार्रवाई जारी रहने दें, लकिन भारतीय जनता पार्टी के कार्यकर्ताओं का हंगामा कम नहीं हुआ, जब कि कर्नाटक के मुख्यमंत्री यदयुरप्पा भी भूमि घोटाले में लिप्त पाए गए।
अजमेर बम धमाकों में इंद्रेश का नाम आने पर संघ परिवार का हंगामा करना और के॰एस॰ सुदर्शन का आरोप मंढना किसी से छुपे नहीं हैं, हम यह नहीं कहते कि भारतीय जनता पार्टी ने या संघ परिवार ने भ्रष्टाचार के विरुद्ध जो प्रतिक्रिया व्यक्त की, वह ग़लत थी, उन्हें ऐसा नहीं करना चाहए था, परंतु अगली बात जो हम कह रहे हैं उसके महत्व को समझते हुए भारतीय जनता पार्टी और संघ परिवार के व्यवहार की समीक्षा करनी होगी। यह भ्रष्टाचार के मामले इस प्रकार के थे कि उन्हें ख़ामोशी से सहन नहीं किया जाना चाहिए था। इसलिए जो कुछ किया भारतीय जनता पार्टी ने उसे वह करना ही चाहिए था। परंतु अब विचार इस बात पर भी करना होगा कि यह भ्रष्टाचार अधिक बड़ा मामला था या 26 नवम्बर 2008 को मुम्बई पर हुआ आतंकवादी हमला बड़ा मामला था। हर बम धमाके के बाद चिंता व्यक्त करने और जांच के मामले में सक्रिय होने वाला संघ परिवार इतने बड़े आतंकवादी हमले के बाद कितना सक्रिय हुआ, बीजेपी ने कितनी बार संसद की कार्यवाही ठप की इस मांग के साथ कि 26/11 के सभी अभियुक्तों का पर्दाफ़ाश होना चाहिए। इस संपूर्ण नैटवर्क को बेनक़ाब किया जाना चाहिए। उसने क्यों आवाज़ नहीं उठाई कि आख़िर अनिता उदय्या को गुप्त रूप से अमेरिका क्यों ले जाया गया। अमेरिका को क्या अधिकार था उसे इस तरह ले जाने और पूछताछ करने का। भारतीय यात्रा के दौरान अमेरिकी राष्ट्रपति बराक हुसैन ओबामा की विशेष मीटिंग सुषमा स्वराज से भी हुईं। क्या इस देशभक्त पार्टी के नेताओं ने डेविड कोलमैन हेडली जो भारत पर आतंकवादी हमले का मास्टर माइंड था, उसके बारे में गुफ़्तगू की। क्या प्रधानमंत्री डा॰ मनमोहन सिंह से मांग की कि इस विषय पर गुफ़्तगू एजंेंडे में शामिल की जाए। क्या भारतीय जनता पार्टी ने आपत्ति जताई कि आर॰आर॰ पाटिल को दोबारा गृह मंत्री क्यों बनाया जा रहा है। क्या भारतीय जनता पार्टी और संध परिवार ने यह जानने का प्रयास किया कि 10 पाकिस्तानी आतंकवादियों के अलावा और कौन कौन इसमें शामिल था। कम से कम भारत में कौन कौन ऐसे व्यक्ति थे, जो इन आतंकवादी हमलों का षडयंत्र रचने या उन्हें अमली जामा पहनाने में शामिल रहे हांे। अक्षरधाम पर हमला हुआ, मक्का मस्जिद पर हमला हुआ, इन हमलों के तुरंत बाद से लगातार भारतीय जनता पार्टी और संघ परिवार का व्यवहार क्या रहा और मुम्बई पर हुए इस आतंकवादी हमले के बाद उसका व्यवहार क्या रहा। आज उसकी तुलना करनी होगी। क्या उसने इस आतंकवादी हमले और इसके षड़यंत्र का पता लगाए जाने की वैसी ही जद्दोजहद की, जैसी की अन्य घटनाओं के बाद करती रही है? अगर नहीं तो इसका कारण क्या है।
शहीद हेमंत करकरे और इंस्पैक्टर मोहनचंद शर्मा दो चेहरे हमारे सामने हैं, दोनों को ही शहीद का दर्जा प्राप्त है। इंस्पैक्टर मोहनचंद शर्मा अधिक बड़ी दुर्घटना का शिकार हुए या हेमंत करकरे? इंस्पैक्टर मोहनचंद शर्मा का मुक़ाबला अधिक सख़्त था या हेमंत करकरे का? इन दोनों के मामले में संघ परिवार का व्यवहार क्या रहा यह सबके सामने है। क्या उसका कोई कारण समझ में आता है। बहरहाल मैं अपने लेख को आगे बढ़ाने से पूर्व अपने पाठकों तथा भारत सरकार का ध्यान निम्नलिखित समाचार की ओर दिलाना चाहता हूं, जिसका संबंध पूर्व इंस्पैक्टर जनरल पुलिस एस॰एम॰ मुशरिफ़ द्वारा लिखी गई पुस्तक श्श्ॅीव ापससमक ज्ञंतांतमश्श् (करकरे का हत्यारा कौन) से है। इस समाचार के बाद मेरे लेख का सिलसिला जारी रहेगा।
महाराष्ट्र के पूर्व इंस्पैक्टर आॅफ़ पुलिस एसएम मुशरिफ़ को मुम्बई उच्च न्यायालय ने उनकी विवादित पुस्तक ‘‘करकरे को किसने मारा’’ के कंटैंट के बारे में स्पष्ट करने के लिए बुलाया है, जिसमें आरोप लगाया है कि हिंदू कट्टरपंथियों और भारतीय गुप्तचर एजेंसियों ने मिलकर एटीएस प्रमुख हेमंत करकरे को मारने का षड़यंत्र रचा था।
जस्टिस बीएच मारला पिल्लई और जस्टिस आरवाई गानू ने मुशरिफ़ को आदेश दिया है कि वह 1 दिसम्बर को हाईकोर्ट की डिवीज़न बंच के सामने हों। मारला पिल्लई ने कहा कि अगर कोई सरकारी अधिकारी न केवल यह कि खुले आम यह बयान दे, बल्कि उसको प्रकाशित भी कर दे तो उसकी जांच होनी चाहिए।
अदालत ने कहा कि अगर पुस्तक में सरकार को कुछ आपत्तिजनक लगा था तो वह उस पर प्रतिबंध लगा सकती थी। लेकिन आपने ऐसा नहीं किया। शायद आपमें साहस नहीं था। क्या आपने उनके विरुद्ध एफआईआर दर्ज की? मारला पिल्लई ने सरकारी वकील से पूछा और अदालत ने कहा कि अगर पुस्तक में आपत्तिजनक सामग्री थी तो उन्हें मुशरिफ़ के विरुद्ध कार्यवाही करनी चाहिए थी। बहरहाल अगर इसमें कोई मामला बनता है तो उसकी जांच की जानी चाहिए।
सरकारी वकील पांडवरंगपोल ने कोर्ट में पुलिस कमिश्नर संजीव दयाल की ओर से एक शपथपत्र दायर किया, जिसमें बिल्कुल स्पष्टरूप में कहा गया है कि करकरे की हत्या के मामले में अभिनव भारत समैत किसी हिंदू संगठन का हाथ नहीं है। शपथपत्र में कहा गया है कि जांच के दौरान ऐसा कोई प्रमाण नहीं मिला है जिसमें इस मामले की चार्जशीट में नामज़द किए गए दो अभियुक्तों मुहम्मद अजमल क़साब और अबू इस्माईल के अलावा कोई और भी लिप्त है। यहां तक कि जिस कोर्ट में क़साब के मुक़दमे की कार्यवाही चली, उसमें भी आरोपपत्र दाख़िल करते समय किसी हिंदू सगठन के इस मामले में लिप्त होने का कोई प्रमाण नहीं मिला। शपथपत्र को पढ़ने के बाद जस्टिस मारला पिल्लई ने कहा कि अदालत यह नहीं कह रही है कि करकरे को किसी और ने मारा था, बल्कि हम यह जानना चाहते हैं कि कहीं भारत की धरती से संबंध रखने वाला कोई व्यक्ति इसमें लिप्त तो नहीं था, क्योंकि मिस्टर मुशरिफ़ आप ही की फ़ोर्स का एक अंग थे।
करकरे की मौत को भारतीय गुप्तचर एजेंसियों के आदमियों तथा हिंदू कट्टरवादी संगठनों के सर थोपे जाने के विरुद्ध हाईकोर्ट में दो रिटपटीशन दाख़िल की गई हैं, जिनमें से एक बिहार के एमएलए राधाकांत यादव और दूसरी क्योतिबेदीकर ने दाख़िल की है।
मुझे एसएम मुशरिफ़ और विनीता काम्टे की पुस्तकों के संदर्भ में बहुत कुछ कहना है। इसी विषय पर मेरे पिछले क़िस्तवार लेख ‘‘मुसलमानाने हिंद ह्न माज़ी हाल और मुस्तक़बिल’’ की 100 वीं क़िस्त ‘‘शहीद-ए-वतन करकरे की शहादत को सलाम’’ और मेरी पुस्तक ‘‘क्या आर.आर.एस का षडयंत्र - 26/11’’ के संदर्भ में भी इस सच्चाई को सामने रखने का प्रयास करना है लेकिन इस संक्षिप्त लेख को अजमेर बम धमाकों के हवाले के साथ समाप्त करना चाहूंगा।
इसलिए अब एक नई नज़र अजमेर दरगाह बम धमाका और उसके बाद की परिस्थितियों पर:
11 अक्तूबर 2007 को अजमेर की दरगाह में धमाके हुए। इन धमाकों में 3 व्यक्ति हताहत तथा 20 घायल हुए।
पुलिस ने सबसे पहले लशकर-ए-तय्यबा को आरोपित ठहराया।
उस समय केंद्र सरकार ने कहा था कि पाकिस्तानी खुफिया एजेंसी आई॰एसर्॰आईं इस तरह के धमाकों के द्वारा भारत-पाक वार्ता में रुकावट डालना चाहते हैं।
22 अक्तूबर 2007 को दोनों देशों के बीच वार्ता होनी है जिनमें प्दकव.चंा ंदजप जमततवत उमबींदपेउ पर विचार किया जाने वाला था। उसके बाद सीबीआई जांच में सामने आया कि अजमेर दरगाह में सुनील जोशी ने बम रखे थे, फिर अचानक समाचार आया कि संघ परिवार के सदस्य सुनील जोशी की हत्या कर दी गई। अधिक आश्चर्य की बात यह कि मध्यप्रदेश में जहां हत्या हुई, भाजपा की सारकार थी, लेकिन न तो हत्यारे का कोई सुराग़ मिला और न किसी की ओर से कोई मांग कि आख़िर पुलिस इतनी उदासीनता से क्यों काम ले रही है, फिर अजमेर धमाकों के लिए स्वामी असीमानंद को उत्तराखंड के हरिद्वार से गिरफ़्तार किया गया, जिसका संबंध वंदेमातृम ग्रुप से था। अन्य गिरफ़्तार किए जाने वालों में मुकेश वसहानी को गोधरा से गिरफ़्तार किया गया, उस पर भी दरगाह में बम रखने का आरोप है। देवेंद्र गुप्ता, लोकेश शर्मा, चंद्रशेखर लेवे को गिरफ़्तार किया जा चुका है। संदीप डांगे, रामजी कलसांगरे फ़रार हैं और संभवतः गुजरात में शरण लिए हुए हैं। 16 मई 2010 को इंदौर से राजेश मिश्रा नामक एक व्यापारी को गिरफ़्तार किया गया। इस तरह इस मामले में अब तक 7 अभियुक्तों की निशानदेही हुई है, जिनमें से दो फ़रार हैं, जबकि पहले राजस्थान पुलिस ने अजमेर दरगाह बम धमाकों में हूजी और लश्कर-ए-तय्यबा को आरोपित ठहराया था और अब्दुल हफ़ीज़ शमीम, ख़शीयुर्रहमान और इमरान अली को गिरफ़्तार किया था। इसके अलावा अपनी आरंभिक मुहिम में हैदराबाद, राजस्थान पुलिस ने कहा था कि 25 अगस्त के बम धमाकों में जो सिम काॅर्ड बरामद हुए थे, वह बाबूलाल यादव ने प्राप्त किए थे। पुलिस ने कहा था कि यह अपराधियों की चालाकी थी। यह सिमकार्ड नक़ली पहचान प्रयोग करके प्राप्त किए गए थे। पुलिस ने यह भी कहा था कि शाहिद बिलाल जोकि हूजी का कमांडर है अजमेर धमाकों के पीछे भी हो सकता है। इस तरह पुलिस ने हैदराबाद और अजमेर धमाकों के लिए शाहिद बिलाल का हाथ होने की आशंका व्यक्त की थी।
पुलिस का कहना है कि यादव के नाम से लिया गया सिमकार्ड शाहिद बिलाल और अन्य मुस्लिम आतंकवादियों ने 13 अक्तूबर 2007 को धोखा देने के लिए प्रयोग किया था, इसलिए पुलिस शाहिद बिलाल को ही अजमेर, मक्का मस्जिद और 25 अगस्त 2007 के धमाकों के लिए ज़िम्मेदार ठहराती रही है।
जारी................................कृप्या कल अवश्य पढ़ें।

Thursday, November 25, 2010

نتائج بہارـہماری جیت، سنگھ پریوار کی ہار

عزیز برنی

میرا اندازِ فکر ذرا مختلف ہے اور کبھی کبھی میری باتیں بھی عجیب لگتی ہوں گی، جیسے میری آج کی یہ تحریر۔ کیوں میں نے اپنے مضمون کو عنوان دیا ’’نتائج بہارـہماری جیت، سنگھ پریوار کی ہار‘‘؟ سنگھ پریوار تو بہار کے ان ریاستی انتخابات میں کہیں تھا ہی نہیں اور سچ پوچھئے تو ہم بھی کہاں تھی۔ ویسے بھی اگر امیدواروں کی کامیابی کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو سنگھ پریوار کی سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی نے تو تاریخ ساز کامیابی حاصل کی ہی۔ اس سے پہلے بہار میں اسے اتنی سیٹیں کبھی نہیں ملیں اور اپنی طرف نظر ڈالیں توبراہِ راست ہمیں کسی طرح کی کہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ہم تو ہم سیکولر سمجھی جانے والی پارٹیاں تک اس الیکشن میں بے حیثیت نظر آئیں۔ پھر میں سیاستدانوں کی طرح اس ہار میں بھی جیت کا پہلو کیوں تلاش کررہا ہوں؟ کیوں اسے اپنی جیت سے تعبیر کررہا ہوں؟ کیوں تسلیم نہیں کرلیتا کہ بہار میں بھارتیہ جنتا پارٹی پہلے سے بھی زیادہ اور ایک بڑی طاقت کی شکل میں سامنے آئی ہی؟ جس طرح ترون وجے نے ٹیلی ویژن چینل پر کہا کہ مسلم اکثریت والی سیٹوں پر بھی انہیں ہی زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ہی، بھلے ہی یہ سب نتیش کمار کی وجہ سے ہوا ہو، لیکن اگر سچ ہے تو پھر یہ سیکولر پارٹیوں کی سب سے بڑی ہار ہی۔ ہاں، مگر ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ نتیش کمار کو ہم آج بھی سیکولر ہی مانتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ گزشتہ پانچ برس انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ مل کر سرکار چلائی اور اب پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ مل کر سرکار بنانے جارہے ہیں۔
بہرحال یہ تو وہ تصویر ہے جو ہمیں سیدھے سیدھے اور صاف صاف دکھائی دے رہی ہی۔ آئیے اب ذرا اس تصویر کے دوسرے رُخ پر بات کریں، جس کو ذہن میں رکھ کر میں نے آج کے مضمون کو مندرجہ بالا عنوان دیا اور اس موضوع سے ہٹ کر گفتگو شروع کی، جس پر میں آج کل لکھ رہا ہوں، یعنی دہشت گردانہ واقعات اور اس کے اسباب۔ میں نے بہار کے ان ریاستی انتخابات کے دوران اس الیکشن کی بات تو دور سیاست پر بھی ایک لفظ نہیں لکھااور نہ بولا۔ میں کسی طرح بھی اس الیکشن کو اپنی تحریر یا تقریر سے متاثر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں جس موضوع پر کام کررہا ہوں، وہ میرے قارئین ہی نہیں، میرے ملک اور ہندوستانی قوم کے سامنے ہی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میرا پہلا ہدف ہی۔ اس کے ساتھ ہی فرقہ پرستی کو ختم کرنا، سیکولرزم کو مضبوط بنانا، جمہوری نظام کو تقویت پہنچانا میں اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہوں، اس لئے کہ یہی ملک و قوم کے حق میں ہی۔ آپ نے دیکھابہار کا یہ الیکشن، ابتدا سے اختتام تک اور اب نتائج بھی سب کے سامنے ہیں۔ کیا سنی کہیں کوئی منڈل کمنڈل کی بات؟ اٹھا مندراور مسجد کا مدعیٰ؟ کہاں گئی فرقہ پرستی اور ذات پرستی؟ جس پارٹی کا وجود ہی فرقہ پرستی کی بنیاد پر ہوا، جس نے 1901میں ہندومہاسبھا اور 1925میں آر ایس ایس انہی مقاصد کے پیش نظر بنائی، جس کی سیاسی جماعت جن سنگھ اورپھر بھارتیہ جنتا پارٹی کا وجود انہی فرقہ پرستی کی بنیادوں پر عمل میں آیا۔ جس کا ایجنڈا مندرجہ ذیل چار نکات تک محدود رہا، (1) رام مندر کی تعمیر: روز اوّل سے ہی بی جے پی کا بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا عزم رہا ہی۔ اس ایشو کو بی جے پی نے اپنے لوک سبھا انتخابی منشور میں بھی ہمیشہ شامل کیا۔2)آرٹیکلـ70: ہندوستانی آئین ک آرٹیکلـ70کے تحت ریاست جموںوکشمیر کو خصوصی درجہ عطا کیا گیا ہی۔ اس آرٹیکل کے مطابق دفاع، خارجہ امور، فائنانس اور کمیونی کیشن کے معاملات کے علاوہ ہندوستانی پارلیمنٹ کے دیگر قوانین کو نافذکرنے کے لئے وہاں کی ریاستی سرکار کی رضامندی ضروری ہوتی ہی۔ بی جے پی ہمیشہ اس آرٹیکلـ70کو ختم کرنے کی بات کرتی رہی ہی۔ (3)یکساں سول کوڈ کا نفاذ: جس کا مقصد بنیادی طور پر مسلمانوں کو ہندوستانی آئین کے مطابق حاصل، شادی اور وراثت جیسے امور میں خصوصی اختیار ختم کردینا اور ہندوستان کے تمام شہریوں کو ایک ہی قانون سے ہانکنا ہی، جس کے لئے وہ ہمیشہ پارلیمنٹ و پارلیمنٹ کے باہر آواز اٹھاتی رہی ہی۔4)گائے کاذبیحہ: ووٹ حاصل کرنے کے لئے یہ ایشو بھی بی جے پی لیڈران کے لئے سرفہرست رہا ہی۔
اور اسی ایجنڈے کی بھٹی میں جلا تھا گجرات۔جسے اپنی سیاست میں کامیابی گجرات کی لیبارٹری ٹیسٹ میں دکھائی دیتی تھی، جو 1992میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے لگاتار 20برس تک رام مندر کے نام پر سیاست کرتی رہی، جس کی نظر میں نریندرمودی ’’ہندوہردے سمراٹ‘‘ رہا۔ اس نے دیکھا کہ بہار کے اس الیکشن نے کیا سبق دیا بہار کے عوام نے نامنظور کردیا ان تمام ایشوز کو۔ اس کی سمجھ میں اگر کوئی بات آئی تو صرف اپنی ریاست کی ترقی، بدعنوانی پر قابو، بے خوف ماحول اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ گزشتہ پانچ برس میں بہار ہر طرح کے فرقہ وارانہ تنازع سے پاک رہا؟ ریاست کے عوام کو بے خوف ماحول ملا؟ ترقی کے کام ہوئی؟ ذات اور مذہب کو نہ تو روزمرہ کی زندگی میں اہمیت دی گئی اور نہ ہی الیکشن میں۔ ووٹ ذات برادری کے نام پر اس طرح نہیں ڈالا گیا، جس طرح کہ اس سے پہلے ہوتا رہا تھا؟ یہ ملک کے لئے خوش آئند پیغام ہی۔ اگر ہم بہار کے اس الیکشن کو ہندوستان کی بدلتی ہوئی تصویر کی شکل میں دیکھیں، جس طرح دہلی میں شیلا دکشت کی واپسی، ان کے ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر ہوئی، جس طرح نتیش کمار ترقی کی بنیاد پر پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہو کر اپنی ریاست میں واپس آئے تو پھر یہ تمام سیاسی پارٹیوں کے لئے ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا انہیں اب بھی مذہب و ذات کی بنیاد پر اعدادوشمار اکٹھا کرنے کی ضرورت ہی؟ کیا انہیں جذبات کو مشتعل کردینے والے ایشوز درکار ہیں؟ کیا مذہبی منافرت کو سیاسی حصولیابی کے لئے استعمال کرنا کارگر ہوسکتا ہی؟ اور اگر دوراندیش نگاہوں سے دیکھیں تو بدعنوانی پر قابو پانے کا آسان طریقہ بھی یہی ہے کہ الیکشن صرف اور صرف ترقی کی بنیادوں پر لڑا جائی، پھر آپ کو ہزاروں کروڑ روپے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ سیاسی پارٹیاں الیکشن میں کامیابی کے لئے اور اقتدار میں آنے کے بعد اگلے الیکشن کی تیاریوں کے لئے جس رقم کو جمع کرنا ضروری سمجھتی ہیں، اگر وہی رقم ترقیاتی کاموں میں خرچ ہوجائے تو الیکشن کے وقت اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی، کامیابی خودبخود ان کے قدم چومے گی۔
ہم نے اسے سنگھ پریوار کی ہار اسی لئے قرار دیا کہ اس نے بہار کے اس الیکشن اور الیکشن کے نتائج سامنے آنے تک اپنا ہر ایشو کھودیا۔ یہاں تک کہ نتیش کمار نے ثابت کردیا کہ جس نریندر مودی پر اسے بڑا ناز ہی، ان کا نہ آنا بہار میں ان کی پارٹی کے لئے بھی زیادہ کارگر ثابت ہوا۔ یعنی اب بھارتیہ جنتا پارٹی کو سیاست میں زندہ رہنا ہے تو سنگھ پریوار کے بنیادی ایجنڈہ کو طلاق دینا ہوگا۔
jآئیے اب ایک اور پہلو پر گفتگو کرتے ہیں، جسے اس الیکشن اور اس کے نتائج کا سب سے منفی پہلو قرار دیا جاسکتا ہی۔ وشوناتھ پرتاپ سنگھ کے ذریعہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو گلے لگانے سے پہلے تک یہ پارٹی اقتدار سے دور تھی اور اسے کوئی خاص سیاسی حیثیت بھی حاصل نہیں تھی، لیکن ایک بار جب اسے بڑے پیمانہ پر اقتدار میں حصہ داری کا موقع ملا تو پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ ایک سیکولر سیاستداں ہونے کے باوجود کانگریس سے اپنی ناراضگی کے سبب اس سے بدلہ لینے اور اقتدار کی چاہ میں ایک ایسی غلطی کرگئی، جس کا خمیازہ ہندوستانی قوم بالخصوص مسلمان آج تک بھگت رہے ہیں۔ خدا نہ کرے آنے والے کل میں نتیش کمار کے ذریعہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو گلے لگانا، بہار میں اور زیادہ مضبوط بنانا اس کی اگلی کڑی ثابت ہو، اس لئے کہ اس پارٹی کے دو چہرے ہیں۔ ایک چہرہ وہ ہی، جو سب کو صاف صاف نظر آتا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ فکر رکھتے ہوئے بھی ایک سیاسی پارٹی ہی، مگر اس کا ایک دوسرا چہرہ بھی ہی، جس میں وہ سیاسی پارٹی کے چولہ میں ایک ایسی مسلم دشمن اور تخریبی ذہنیت رکھنے والی پارٹی ہی، جس کا وجود صرف اور صرف اسی مقصد کے پیش نظر ہی۔ میں نے جان بوجھ کر اسے ایک کٹرہندووادی ذہن کی پارٹی کہنے سے گریز کیا، اس لئے کہ میں مانتا ہوں کہ حقیقت یہ ہے ہی نہیں، یہ تو ہندوؤں کو متاثر کرنے کے لئے ایک حربہ بھر ہی۔ اب بہار میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکر آنے کی شکل میں، پھر حکومت میں حصہ داری پالینے کی شکل میں وہ اس کا استعمال کس طرح کرے گی، اس پر نظر رکھنا ہوگی۔ کس طرح فوج میں کرنل پروہت جیسے عناصر پیدا ہوئی، کس نے ان کی ذہن سازی کی، کس طرح وزارت داخلہ ایک مخصوص انداز میں کام کرتی رہی؟ فرقہ وارانہ فسادات کی بات ہو یا دہشت گردانہ حملوں کی، اس کا نظریہ ایک مخصوص فرقہ کی مخالفت میں ہی دکھائی دیتا رہا۔ فروغ انسانی وسائل محکمہ میں جڑیں جمانے کا موقع ملا تو نصاب میں تبدیلی اور تعلیم کو بھگوا رنگ دینے کی کوششیں کسی سے چھپی نہیں رہیں۔ کل ملا کر ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اس پارٹی کا ظاہری ایجنڈے کے ساتھ ساتھ ایک چھپا ایجنڈہ بھی ہوتا ہے اور وہ چھپا ایجنڈہ ایک لمبے ہدف کو ذہن میں رکھ کر عملی جامہ پہنایا جاتا رہتا ہی، یعنی وہ دیانندپانڈے کے لیپ ٹاپ سے نکلے مشنـ025 جیسا ہوتا ہی۔ جس طرح اقتدار حاصل کرنے کے بعد راجستھان، مدھیہ پردیش اور گجرات کو انہوں نے نہ صرف فرقہ واریت کے لئے استعمال کیا،بلکہ بم دھماکوں کی تفتیش کے بعد جو حقائق سامنے آرہے ہیں، اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ان ریاستوں میں دہشت گردی کو کس درجہ فروغ دیا گیا۔ ہمیں نتیش کمار کی کارکردگی پر بھروسہ ہی، انہوں نے جس طرح گزشتہ پانچ برس میں اس پارٹی کے ایجنڈے پر لگام رکھی، وہ آئندہ پانچ برس بھی رکھیں گی، مگر چھپے طور پر یہ لوگ کیا کرتے رہیں گی، کیا ہر بات پر نظر رکھنا آسان ہوگا؟ یہ الیکشن نتیش کمار کے چہرے کو سامنے رکھ کر ترقی کی بنیاد پر لڑا گیا۔ نتائج سامنے ہیں۔ نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یونائیٹڈ کو 116 سیٹیں حاصل ہوئیں اور ٹیلی ویژن چینلز پر تجزیہ نگاروں نے یہاں تک بھی کہنا شروع کردیا کہ نتیش اب بھارتیہ جنتا پارٹی کے محتاج نہیں ہیں۔ اگر آنے والے کل میں کسی بھی وجہ سے ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی سے نہیں نبھتی تو ان کے لئے مشکل نہیں ہوگا، کچھ دوسروں کی مدد حاصل کرکے اکیلے دم سرکار بنالینا۔ نتیش اس بات سے انکار کریں گی، وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں گی، مگر اس سیاست کا کوئی بھروسہ ہے کیا؟ کب کیا رنگ بدلے پہلے سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ ہم ایسا کیوں نہیں سوچتے کہ اگر تعداد میں اضافہ نتیش کمار کی پارٹی کو ہوا ہے تو یہ اضافہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ممبران کی تعداد میں بھی ہوا ہی۔ اگر نعم البدل کا موقع نتیش کمار کے پاس ہے تو یہ موقع بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس بھی ہی۔ بیشک اعدادوشمار کے معاملہ میں وہ بہار میں اپنی سرکار کسی بھی صورت میں بنانے کے بارے میں نہیں سوچ سکتی، مگر اپنی بڑھی ہوئی طاقت کو مزید بڑھانے اور کچھ نئے ساتھیوں کی تلاش میں لگ جانے کی کوششیں تو کرسکتی ہی۔ پانچ سال ایک طویل مدت ہی۔ نتیش کمار سرکار چلائیں گے اور ان کے ساتھی مودی کیا گل کھلائیں گی، اس کو سمجھنے اور اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہی۔ ہم نے ایک مرتبہ نتیش کمار کو یہ مشورہ دیا تھا، اس وقت جب ہم دونوں ایک بڑے اجلاس کو خطاب کررہے تھے کہ وہ تنہا میدان میں اتریں، کامیاب ہوں گے اور سرکار بنائیں گی۔ اگر انہیں ہماری بات یاد ہو تو آج کے نتائج یہ واضح کرتے ہیں کہ اگر نتیش کمار اکیلے اپنے دم پر الیکشن لڑے ہوتے تو بھی وہ واضح اکثریت کے ساتھ جیت کر آئے ہوتی، سرکار بنانے کے لئے کسی کی ضرورت نہیں پڑتی، اورنہ ساجھیداری کی سرکار چلانے کی مجبوری ہوتی، ساتھ ہی مرکز سے اور بہتر رشتے بنانے کا موقع ہوتا، شردیادو مرکزی وزیر ہوتی۔ نظریاتی اعتبار سے نتیش کمار سے ہم آہنگی نہ رکھنے والی پارٹی (بی جے پی) اتنی طاقتور نہ ہوتی۔ عین ممکن ہے کہ اس صورت میں بی جے پی کی سیٹیں آرجے ڈی سے کم ہوتیں، بھلے ہی لالو، پاسوان اور کانگریس کی سیٹوں میں کچھ اضافہ ہوجاتا۔
[اب آخری چند سطریں۔ آخر میں نے اس کو ہماری جیت کیوں قرار دیا؟ بیشک اس انتخابی میدان میں ہم کہیں بھی نہیں تھی، بھلے ہی کچھ پارٹیوں نے اپنا امیدوار بنایا ہو، کچھ جیت کر آگئے ہوں، لیکن ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہی۔ باوجود اس کے ہم نے اسے اپنی کامیابی اس لئے قرار دیا کہ ہم نے اس الیکشن میں سنگھ پریوار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے طے شدہ ایجنڈہ کو شکست دے دی ہی۔ انہیں یہ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کردیا کہ یہ ملک جسے جمہوری قدروں پر چلنا ہی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی میں یقین رکھتا ہی، ان کی مذہبی منافرت سے بھری سوچ پر نہیں۔ مسلم دشمنی پر نہیں۔

परिणाम बिहार-हमारी जीत, संघ परिवार की हार
अज़ीज़ बर्नी

मेरे सोचने का अंदाज़ ज़रा भिन्न है और कभी कभी मेरी बातें भी अजीब लगती होंगी, जैसे मेरा आज का यह लेख। क्यों मैंने अपने लेख को शीर्षक दिया ‘बिहार परिणाम-हमारी जीत, संघ परिवार की हार’? संघ परिवार तो बिहार के इन विधान सभा चुनावों में कहीं था ही नहीं और सच पूछिए तो हम भी कहां थे। वैसे भी अगर उम्मीदवारों की कामयाबी के दृष्टिकोण से देखा जाए तो संघ परिवार के राजनीतिक संगठन भारतीय जनता पार्टी ने तो ऐतिहासिक सफलता प्राप्त की है। इससे पहले बिहार में उसे इतनी सीटें कभी नहीं मिलीं और अपनी तरफ नज़र डालें तो सीधे तौर पर हमें किसी तरह की कोई सफलता प्राप्त नहीं हुई। हम तो हम धर्म निर्पेक्ष समझी जाने वाली पार्टियंा तक इस चुनाव में बेहैसियत नज़र आईं। फिर मैं राजनीतिज्ञों की तरह इस हार में भी जीत का पहलू क्यों तलाश कर रहा हूं? क्यों इसे अपनी जीत से संज्ञा दे रहा हूं? क्यों स्वीकार नहीं कर लेता कि बिहार में भारतीय जनता पार्टी पहले से भी अधिक और एक बड़ी शक्ति के रूप में सामने आई है? जिस तरह तरुण विजय ने टेलीवीज़न चैनल पर कहा कि मुस्लिम बहुल सीटों पर भी उन्हें ही अधिक सफलता प्राप्त हुई है, भले ही यह सब नितीश कुमार के कारण हुआ हो, परन्तु अगर सच है तो फिर यह धर्मनिर्पेक्ष पार्टियों की सबसे बड़ी हार है। हां, मगर हम यह ज़रूर कह सकते हैं कि नितीश कुमार को हम आज भी धर्मनिर्पेक्ष ही मानते हैं। बावजूद इसके कि पिछले 5 वर्ष उन्होंने भारतीय जनता पार्टी के साथ मिल कर सरकार चलाई और अब फिर भारतीय जनता पार्टी के साथ मिल कर सरकार बनाने जा रहे हैं।
बहरहाल यह तो वह तस्वीर है जो हमें सीधे-सीघे और साफ़-साफ़ दिखाई दे रही है। आइये अब ज़रा इस तस्वीर के दूसरे रुख़ पर बात करें जिसको ध्यान में रख कर मैंने आज के लेख को उपरोक्त शीर्षक दिया और उस विषय से हट कर गुफ़्तगू की जिस पर मैं आजकल लिख रहा हूं, अर्थात आतंकवादी घटनाऐं और उसके कारण। मैंने बिहार के इन चुनावों के दौरान इस इलेक्शन की बात तो दूर राजनीति पर भी एक शब्द नहीं लिखा और न बोला। मैं किसी तरह भी इस इलैक्शन को अपने लेख या भाषण से प्रभावित नहीं करना चाहता था। मैं जिस विषय पर काम कर रहा हूं वह मेरे पाठक ही नहीं, मेरे देश तथा भारतीय नागरिकों के सामने है। आतंकवाद के विरुद्ध जंग मेरा पहला लक्ष्य है। इसके साथ ही साम्प्रदायिकता को समाप्त करना, धर्मनिर्पेक्षता को मज़बूत बनाना, लोकतांत्रिक व्यवस्था को बल पहुचाना मैं अपनी ज़िम्मेदारी महसूस करता हूं, इसलिए कि यही समाज तथा राष्ट्र के हक़ में है। आपने देखा बिहार का यह चुनाव आरंभ से अंत तक और अब परिणाम भी सबके सामने है। क्या सुनी कहीं कोई मंडल कमंडल की बात? उठा मंदिर और मंस्जिद का मुद्दा? कहां गई साम्प्रदायिकता और जातिवाद? जिस पार्टी का अस्तित्व ही साम्प्रदायिकता के आधार पर हुआ, जिसने 1901 में हिंदू महासभा और 1925 में आर.एस.एस इन्हीं उद्देश्यों के पेशेनज़र बनाई, जिसका राजनीतिक संगठन जनसंघ और फिर भारतीय जनता पार्टी का अस्तित्व इन्हीं साम्प्रदायिकता के आधार पर अमल में आया था। जिसका एजेंडा निम्नलिखित चार बिंदुओं तक सीमित रहा, (1)राम मंदिर का निर्माणः पहले दिन से ही बी.जे.पी का बाबरी मस्जिद के स्थान पर राम मंदिर का संकल्प रहा। इस मुद्दे को बी.जे.पी ने अपने लोकसभा चुनाव घोषणा पत्र में भी हमेशा शामिल किया। (2)आर्टिकल-370ः भारतीय संविधान के आर्टिकल-370 के अन्तर्गत जम्मू-व-कश्मीर राज्य को विशेष दर्जा प्रदान किया गया है। इस आर्टिकल के अनुसार रक्षा, विदेशी मामलों, वित तथा कम्यूनीकेशन के मामलों के अलावा भारतीय संसद के अन्य क़ानून को लागू करने के लिए वहां की राज्य सरकार की स्वीकृति की आवश्यकता होती है। बी.जे.पी हमेशा इस आर्टिकल-370 को समाप्त करने की बात करती रही है। (3)काॅमन सिविल कोड लागू करनाः जिसका उद्देश्य बुनियादी तौर पर मुसलमानों को भारतीय संविधान के अनुसार प्राप्त विवाह तथा विरासत जैसे मामलों में विशेष अधिकार समाप्त कर देना और भारत के सभी नागरिकों को एक ही क़ानून से हांकना है, जिसके लिए वह हमेशा संसद तथा संसद के बाहर आवाज़ उठाती रही है। (4)गऊ हत्याः वोट प्राप्त करने के लिए यह मुद्दा भी बी.जे.पी नेताओं के लिए सर्वोपरि रहा है।
और इसी एजेंडे की भट्टी में जला था गुजरात। जिसे अपनी राजनीति में सफलता गुजरात की टैस्ट लेबाॅरेट्री में दिखाई देती थी, जो 1992 में बाबरी मस्जिद की शहादत के बाद से लगातार 20 वर्षों तक राम मंदिर के नाम पर राजनीति करती रही। जिसकी नज़र में नरेंद्र मोदी ‘‘हिन्दू हृदय सम्राट’’ रहा। उसने देखा कि बिहार के इस चुनाव ने क्या सबक़ दिया। बिहार की जनता ने रिजैक्ट कर दिया उन तमाम इशूज़ को। उसकी समझ में अगर कोई बात आई तो केवल अपने राज्य का विकास, भ्रष्टाचार पर नियंत्रण, निर्भय माहौल और साम्प्रदायिक सदभावना। क्या यह सच नहीं है कि पिछले पांच वर्षों में बिहार हर तरह के साम्प्रदायिक विवादों से पाक रहा? राज्य की जनता को बेख़ौफ़ माहोल मिला? विकास कार्य हुए? जाति तथा धर्म को न तो रोज़मर्रा के जीवन में महत्व दिया गया और न ही चुनाव में। वोट ज़ात-बिरादरी के नाम पर इस तरह नहीं डाला गया, जिस तरह कि इससे पहले होता रहा था। यह देश के लिए सुखद भविष्य का संदेश है। अगर हम बिहार के इस इलैक्शन को भारत की बदलती हुई तस्वीर के रूप में देखें, जिस तरह दिल्ली में शीला दीक्षित की वापसी, उनके विकास कार्यों के आधार पर हुई जिस प्रकार नितीश कुमार विकास के आधार पर पहले से भी अधिक शक्तिशाली होकर अपने राज्य में वापस आए तो फिर यह सभी राजनीतिक दलों के लिए एक चिंता की घड़ी है कि क्या उन्हें अब भी धर्म तथा जाति के आधार पर आंकड़े इकट्ठा करने की आवश्यकता है? क्या इन्हें भावनाओं को भड़काने वाले मुद्दे दरकार हैं? क्या धार्मिक उपलब्धियों के लिए प्रयोग करना कारगर हो सकता है? दूरगामि दृष्टि से देखें तो भ्रष्टाचार पर क़ाबू पाने का आसान तरीक़ा भी यही है कि चुनाव केवल और केवल विकास के आधार पर लड़ा जाए, फिर आपको हज़ारों करोड़ रुपए दरकार नहीं होंगे। राजनीतिक दल चुनाव में सफलता के लिए और सत्ता में आने के बाद अगले चुनाव की तैयारियों के लिए जिस रक़म को जमा करना ज़रूरी समझते हैं, अगर वही रक़म विकास कार्यांे में ख़र्च हो जाए तो चुनाव के समय उसकी आवश्यकता ही पेश नहीं आएगी, सफलता खुद बख़ुद उनके क़दम चूमेगी।
हमने इसे संघ परिवार ही हार इसीलिए ठहराया कि उसने बिहार के इस चुनाव में और चुनाव परिणाम के सामने आने तक अपना हर इशू खो दिया। यहां तक कि नितीश कुमार ने साबित कर दिया कि जिस नरेंद्र मोदी पर उसे बड़ा गौरव है, उनका न आना बिहार में उनकी पार्टी के लिए भी अधिक कारगर साबित हुआ। अर्थात अब भारतीय जनता पार्टी को राजनीति में जिंदा रहना है तो संघ परिवार के बुनियादी ऐजेंडे को तलाक़ देनी होगी।
आइये अब एक और पहलू पर गुफ़्तगू करते हैं जिसे इस चुनाव और इसके परिणामों का सबसे नकारात्मक पहलू ठहराया जा सकता है। विश्वनाथ प्रताप सिंह द्वारा भारतीय जनता पार्टी को गले लगाने से पूर्व तक यह पार्टी सत्ता से दूर थी और उसे कोई विशेष राजनीतिक हैसियत भी प्राप्त नहीं थी, लेकिन एक बार जब उसे बड़े पैमाने पर सत्ता में हिस्सेदारी का अवसर मिला तो फिर उसने पीछे मुड़ कर नहीं देखा। मैं समझता हूं कि विश्वनाथ प्रताप सिंह एक धर्मनिर्पेक्ष राजनीतिज्ञ होने के बावजूद कांग्रेस से अपनी नाराज़गी के चलते उससे बदला लेने और सत्ता की चाह में एक ऐसी ग़लती कर गए, जिसका ख़ामियाज़ा भारतीय जनता विशेषरूप से मुसलमान आज तक भुगत रहे हैं। ख़ुदा न करे आने वाले कल में नितीश कुमार के द्वारा भारतीय जनता पार्टी को गले लगाना, बिहार में और अधिक मज़बूत बनाना इसकी अगली कड़ी साबित हो, इसलिए कि इस पार्टी के दो चेहरे हैं। एक चेहरा वह है जो सबको साफ़-साफ़ नज़र आता है कि वह साम्प्रदायिक सोच रखते हुए भी एक राजनीतिक दल है, परंतु उसका एक दूसरा चेहरा भी है जिसमें वह राजनीतिक दल के चोले में एक ऐसी मुस्लिम विरोधी और विध्वंसक मानसिकता रखने वाला दल है, जिसका अस्तित्व केवल और केवल इसी उद्देश्य के पेशेनज़र है। मैंने जानबूझ कर इसे एक कट्टर हिंदूवादी सोच की पार्टी कहने से परहेज़ किया, इसलिए कि मैं मानता हूं कि हक़ीक़त यह है ही नहीं, यह तो हिंदुओं को प्रभावित करने के लिए एक ढ़िंडौरा भर है। अब बिहार में पहले से अधिक मज़बूत होकर आने की सूरत में, फिर सरकार में हिस्सेदारी पा लेने की सूरत में वह इसका प्रयोग किस तरह करेगी, इस पर नज़र रखनी होगी। किस तरह सेना मंे कर्नल पुरोहित जैसे तत्व पैदा हुए, किसने उनकी सोच बनाई, किस प्रकार गृहमंत्रालय एक विशेष अंदाज़ में काम करता रहा? साम्प्रदायिक दंगों की बात हो या आतंकवादी हमलों की उसका दृष्टिकोण एक विशेष समुदाय के विरोध में ही दिखाई देता रहा। मानव विकास तथा संसाधन विभाग में जड़ें जमाने का अवसर मिला तो पाठ्यक्रम में परिवर्तन और शिक्षा को भगवा रंग देने का प्रयास किसी से छुपा नहीं रहा। कुल मिला कर हमें यह समझना होगा कि इस पार्टी का ज़ाहिरी एजेंडे के साथ एक छुपा एजेंडा भी होता है और वह छुपा एजेंडा एक लम्बे लक्ष्य को ध्यान में रख कर अमलीजामा पहनाया जाता रहता है, अर्थात वह दयानंद पांडे के लैपटाॅप से निकले मिशन-2025 जैसा होता है। जिस प्रकार सत्ता प्राप्ति के बाद राजस्थान, मध्य प्रदेश तथा गुजरात को उन्होंने न केवल साम्प्रदायिकता के लिए इस्तेमाल किया, बल्कि बम धमाकों की जांच के बाद जो तथ्य सामने आ रहे हैं उससे स्पष्ट हो जाता है कि इन राज्यों में आतंकवाद को कितना बढ़ावा दिया गया। हमें नितीश कुमार की कारकर्दगी पर भरोसा है, उन्होंने जिस प्रकार पिछले पांच वर्षों में इस पार्टी के एजेंडे पर लगाम रखी, वह आगामी पांच वर्ष भी रखेंगे। परंतु गुप्तरूप से यह लोग क्या करते रहेंगे, क्या हर बात पर नज़र रखना आसान होगा? यह चुनाव नितीश कुमार के चेहरे को सामने रख कर विकास के आधार पर लड़ा गया। परिणाम सामने है। नितीश कुमार की पार्टी जनता दल यूनाइटेड को 115-116 सीटें प्राप्त हुईं और टेलीवीज़न चैनलों पर समीक्षकों ने यहां तक भी कहना शुरू कर दिया कि नितीश अब भाजपा के मुहताज नहीं हैं। अगर आने वाले कल में किसी भी वजह से उनकी भाजपा से नहीं निभती तो उनके लिए कठिन नहीं होगा, कुछ दूसरों की सहायता प्राप्त करके अकेले दम पर सरकार बना लेना। नितीश इस बात से इनकार करेंगे, वह सबको साथ लेकर चलने का प्रयास करेंगे, परंतु इस राजनीति का कोई भरोसा है क्या? कब क्या रंग बदले, पहले से कुछ भी नहीं जा सकता। हम ऐसा क्यों नहीं सोचते कि अगर संख्या में वृद्धि नितीश कुमार के दल की हुई है तो यह वृद्धि भारतीय जनता पार्टी के सदस्यों की संख्या में भी हुई है। अगर बदलने का अवसर नितीश कुमार के पास है तो यह अवसर भारतीय जनता पार्टी के पास भी है। निःसंदेह संख्या के मामले में वह बिहार में अपनी सरकार किसी भी सूरत में बनाने के बारे में नहीं सोच सकती, परंतु अपनी बढ़ी हुई ताक़त को और अधिक बढ़ाने और कुछ नए साथियों की तलाश में लग जाने के प्रयास तो कर सकती है। पांच वर्ष एक लम्बी अवधि है। नितीश कुमार सरकार चलाएंगे और उनके साथी मोदी क्या गुल खिलाएंगे इसको समझने और उस पर नज़र रखने की आवश्यकता है। हमने एक बार नितीश कुमार को यह सुझाव दिया था, उस समय जब हम दोनों एक बड़ी जनसभा को संबोधित कर रहे थे कि वह अकेले मैदान में उतरें, सफल हांेगे और सरकार बनाएंगे, अगर उन्हें हमारी बात याद हो तो आज के परिणाम यह स्पष्ट करते हैं कि अगर नितीश कुमार अकेले अपने दम पर चुनाव लड़े होते तो भी वह स्पष्ट बहुमत के साथ जीत कर आए होते, सरकार बनाने के लिए किसी की आवश्यकता नहीं पड़ती और न साझेदारी की सरकार चलाने की मजबूरी होती। साथ ही केंद्र से अधिक बेहतर संबंध बनाने का अवसर होता। शरद यादव केन्द्र में मंत्री होते। वैचारिक दृष्टि से नितीश कुमार से तालमेल न रखने वाली पार्टी (बी.जे.पी) इतनी शक्तिशाली न होती। अतिसंभव है कि इस स्थिति में भाजपा की सीटें आरजेडी से कम होतीं, भले ही लालू, पासवान और कांगे्रेस की सीटों में कुछ वृद्धि हो जाती।
अब अंतिम चंद पंक्तियां। आखिर मैंने इसको हमारी जीत क्यों ठहराया? निःसंदेह इस चुनावी मैदान में हम कहीं भी नहीं थे, भले ही कुछ पार्टियों ने अपना उम्मीदवार बनाया हो, कुछ जीत कर आ गए हों, परन्तु ऐसा कोई पहली बार नहीं हुआ। बावजूद इसके इसे हमने अपनी कामयाबी इसलिए ठहरया कि हमने इस चुनाव में संघ परिवार और भारतीय जनता पार्टी के निर्धारित ऐजेंडे को पराजित कर दिया है। उन्हें यह सोचने और समझने पर मजबूर कर दिया कि यह देश जिसे लोकतांत्रिक मूल्यों पर चलना है, साम्प्रदायिक सदभावना तथा राष्ट्रीय एकता में विश्वास रखता है, उनकी धार्मिक घृणा से भरी सोच पर नहीं। मुस्लिम दुश्मनी पर नहीं।

Wednesday, November 24, 2010

تاریخ لکھے گی ’داستان‘ تمہاری بھی، ہماری بھی!

عزیز برنی

میراسیل فون نمبر بیشمار لوگوں کے پاس ہی۔ میں اسے بدل بھی نہیں پاتا، اس لئے کہ متعدد مظلومین نے بھی اسی کے سہارے مجھ سے رابطہ قائم کیا۔ پھر جو بھی جدوجہد میرے ذریعہ کی گئی، اس کے مثبت نتائج برآمد ہوئی۔ کچھ نوجوان جیلوں سے رہا بھی ہوئی، کچھ پولیس کے شکنجہ سے آزاد ہوئے اور کچھ کو گرفتار کرنے کی کوششیں خبر کے ہم تک پہنچنے کی وجہ سے عمل میں نہ آسکیں۔ یہ ٹیلی فون کالز محبت کرنے والوں کی بھی ہوتی ہیں اور کبھی کبھی کچھ لوگ نفرت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ مجھ سے محبت کرنے والے کچھ قارئین کبھی کبھی کہتے ہیںکہ ’’وہ حیران ہیں کہ میں ابھی تک زندہ کیسے ہوں‘‘۔ میں کیا جواب دوںیہ تو اللہ کا کرم اور آپ تمام حضرات کی دعاؤں کا نتیجہ ہی، ورنہ حیران میں بھی کچھ کم نہیں ہوں۔ اکثر کچھ نوجوان لڑکے لڑکیاں جب کسی پروگرام میں شرکت کے بعد مجھ سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہماری ماں نماز کے بعد ہم سے پہلے آپ کے لئے دعائیں کرتی ہیں تو مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ میرے قلم کی تاثیر اور میری زندگی بس انہی دعائوں کا نتیجہ ہی۔ ابھی کچھ دیر قبل میرے اسی نمبر پر ایک ایس ایم ایس مجھے ملا، جو کچھ اس طرح تھا:
’’سانسوں کے سلسلہ کو نہ دو زندگی کا نام
جینے کے باوجود بھی کچھ لوگ مرگئی‘‘
جنہوں نے یہ میسج بھیجا، انہوں نے اپنا نام تو نہیں لکھا، مگر ان کا فون نمبر ضرور میرے سامنے ہے "09452292302"۔ کافی حوصلہ بخش ہیں یہ دو سطریں بھی کہ زندہ رہنے کی علامت صرف سانسوں کا چلنا ہی نہیں، بلکہ کم سے کم میرے جیسے شخص کے لئے قلم کا چلتے رہنا بھی ہی۔
مجھے احساس ہے شہید ہیمنت کرکرے کے اس دنیا سے چلے جانے کا۔ دہشت گردی کے خلاف وہ جو جنگ لڑرہے تھے اور جن چہروں کو بے نقاب کررہے تھی، وہ کوئی معمولی کام نہ تھا۔ انہیں اپنی موت سے چند گھنٹے قبل ہی جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ یہ سب کچھ آن ریکارڈ ہی۔ میں نے بھی اپنے پچھلے سلسلہ وار مضمون ’’مسلمانانِ ہند… ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟‘‘ کی 100ویں قسط ’’کرکرے کی شہادت کو سلام‘‘ میں تفصیل سے ایسے تمام واقعات کا ذکر کیا ہی۔ سنیل جوشی کی موت کے معنی بھی سمجھتا ہوں میں کہ اپنی ہی لگائی آگ کے اپنے دامن تک پہنچنے سے پہلے ہی انہیں اپنوں کی سانسوں کو روک لینے میں بھی کوئی جھجھک نہیں ہوتی۔ پھر بھی میں لکھ رہا ہوں، کبھی کسی کے حوالہ سے اور کبھی اندریش کے حوالہ سی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اندریش کا نام آنے پر سنگھ پریوار نے کس طرح کا ہنگامہ برپا کیا تھا اور مجھے یاد ہے سدرشن کا وہ جملہ بھی، جس کا اشارتاً ذکر میں نے اپنے کل کے مضمون میں بھی کیا تھا۔ وہ تمام الزامات جو آج بھی نیٹ پر بکھرے پڑے ہیں، ان سب کو بھی بھولا نہیں ہوں میں، پھر بھی یہ لکھنا ضروری ہے کہ اندریش 31اکتوبر005کو گجراتی سماج کے گیسٹ ہاؤس کے کمرہ نمبر6میں ہوئی اس خفیہ میٹنگ کو بکواس قرار دے سکتے ہیں، 800صفحات کی چارج شیٹ کے 22ویں صفحہ پر اپنے نام کو من گھڑت کہانی قرار دے سکتے ہیں، مگر اس خبر پر کیا کہیں گے جس کا انکشاف شہید ہیمنت کرکرے نے اپنی زندگی میں ہی کرنل پروہت کے گرفتار کئے جانے کے بعد اس کے حوالہ سے کیا تھا:
’’دیانند پانڈے نے اگست 2007 میں ٹیلی فون پر پروہت اور ڈاکٹر آر پی سنگھ کی بات چیت کرائی تھی۔ اس رپورٹ میں ڈاکٹر سنگھ کا یہ حوالہ موجود ہے جس میں اس نے پروہت سے کہا تھا کہ اندریش نے ’نیپال میں ہندوئوں کو بیچ دیا تھا‘، اس کے لیے آئی ایس آئی نے اندریش کو 3 کروڑ روپے دیے تھی۔ بعد میں پروہت نے یہ بات توگڑیا کو بتائی تھی جسے سننے کے بعد توگڑیا نے کہا کہ اسے اس کے بارے میں پہلے سے معلوم ہی۔‘‘indianexpress.com, 24 November 2008)
اگر یہ خبر غلط تھی تو کیا سنگھ پریوار کا ویسا ہی ردعمل اس وقت سامنے آیا، جیسا کہ اب اجمیر بم دھماکوں کے سلسلہ میں داخل کی گئی چارج شیٹ میں اندریش کا نام آنے کے بعد سامنے آیا ہی۔ اگر ہیمنت کرکرے زندہ رہتی؟ اگر 26نومبر008کو ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ نہ ہوا ہوتا تو اجمیر بم دھماکوں کے تعلق سے داخل کی گئی چارج شیٹ کے 22و یں صفحہ پر جو کچھ اس وقت درج کیا گیا ہی، ویسا بہت کچھ اسی وقت سامنے آگیا ہوتا۔ کتنے گہرے رشتے آئی ایس آئی کے ہیں کہ اس نے اندریش کو 3کروڑ روپے دئے تھی، کیا کام کرتی ہے آئی ایس آئی…، کس کام کے لئے پیسہ خرچ کرتی ہے آئی ایس آئی…، ہندوستان کے خلاف کیا سرگرمیاں ہیں آئی ایس آئی کی، کس سے چھپا ہی؟ بس یوں سمجھ لیں کہ اندریش کی جگہ اگر کسی مسلمان کا نام ہوتا تو قیامت برپا ہوگئی ہوتی، کتنے لوگوں کی گرفتاریاں عمل میں آئی ہوتیں، کس طرح ایک مخصوص طبقہ کا جینا محال ہوگیا ہوتا۔ ہم نہیں چاہتے کہ اندریش کا نام سامنے آنے پر ایسا ردعمل ہو، مگر ایسا بھی نہ ہو کہ ان کو بچانے کے لئے زمین و آسمان ایک کردئے جائیں۔ تفتیش کو متاثر کرنے کے لئے تمام ممکنہ حربے استعمال کئے جانے لگیں اور ہم خاموش رہیں۔ آخر ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ وطن سے محبت کے معنی کیا ہیں۔ اپنے ملک ہندوستان کی اہمیت ہم ہندوستانیوں کے لئے کیا ہی، ہندوستان کی سالمیت، اتحاد و اخوت ہماری مادروطن کے لئے کس حد تک ضروری ہی۔ کیا اسے کسی ایک نام کو بچانے پر قربان کیا جاسکتا ہی؟ کیا کسی ایک ایسی تنظیم کو بچانے کے لئے اس کے امن و چین کو داؤ پر لگایا جاسکتا ہی، ایک ایسی تنظیم جس نے حب الوطنی کے معنی خود اپنی ڈکشنری کے حساب سے ایجاد کرلئے ہیں؟ قبل اس کے کہ میں ان کی حب الوطنی پر چند جملے لکھوں، کل اپنے مضمون میں شائع کی گئی خبر کی چند سطریں بیشک جو میری نہیں ہیں، ایک بار پھر قارئین اور ہم وطن بھائیوں کی خدمت میں پیش کردینا چاہتا ہوں:
’’اندریش کمار نے کہا کہ سنگھ کسی بھی طرح کے سیاسی، سماجی تشدد(ہنسا) میں یقین نہیں رکھتا ہی۔ سنگھ کیا، کوئی بھی مذہبی ادارہ یہی کہے گا کہ وہ کسی بھی طرح کے تشدد(ہنسا) میں یقین نہیں رکھتا۔ تشدد(ہنسا) مہابھارت اور رامائن میں کہاں تھا۔ مذہب کے نام پر تشدد پھیلانے والے یہی کہیں گی، جو کچھ ہوتا ہے وہ مذہب کی حفاظت کے لئے ہوتا ہی، یعنی کسی بھی طرح کے تشدد(ہنسا) کو ’’دھرم یدھ‘‘ کے چولہ میں ڈھک کر بڑے آرام سے معاشرے میں تشدد(ہنسا) برپا کیا جاسکتا ہی۔‘‘
مندرجہ بالا سطریں ہم نے اپنے کل کے مضمون میں Bhasker.com سے لیں اور آج بھی یہ حوالہ اس لئے پیش کیا کہ ہماری تحریر کو مذہبی چشمہ سے نہ دیکھا جائی، آج جو ہم کہہ رہے ہیں، وہ صرف ہم ہی نہیں کہہ رہے ہیں، بلکہ وہ سب کہہ رہے ہیں، جن کے نزدیک مذہب کے نام پر منافرت پھیلانے والی، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا تنظیم سے ہو، غلط ہیں۔
اجمیر بم دھماکوں میں ملوث لوگوں کے ناموں کا تذکرہ ہم ان کے کارناموں کے ساتھ کریں گی، لیکن قبل اس کے میں ان دو باتوں پر خصوصی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ راجستھان کے شہر جے پور میں 31اکتوبر005کو جب یہ میٹنگ منعقد کی گئی تو وہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تھی۔ وسندھرا راجے سندھیا وزیراعلیٰ تھیں۔ اس میٹنگ میں شامل ہونے والوں میں سادھوی پرگیہ سنگھ کا نام بھی شامل تھا، جن کی تصویر مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کے ساتھ ہیمنت کرکرے کے ذریعہ ان کے کارناموں کا انکشاف ہونے پر بارہا دکھائی گئی۔ یہ گیسٹ ہاؤس گجراتی سماج کا گیسٹ ہاؤس تھا، جس ریاست کے وزیراعلیٰ نریندر مودی ہیں۔ سوچنا ہوگا آخر کیا کرتے ہیں یہ لوگ اقتدار میں آنے کے بعد۔
ابھی تک یعنی مالیگاؤں بم دھماکوں سے لے کر اجمیر بم دھماکوں تک جو نام سامنے آئے ہیں، ان میں زیادہ تر ملزمان کا تعلق سنگھ پریوار سے ہی۔ ان کی کارگزاریوں کا علاقہ گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر ہی۔ ہندوستان کے نقشہ پر نظر ڈالیں تو یہ چاروں ریاستیں ایک دوسرے سے جڑی ہیں۔ ان چاروں ریاستوں میں فرقہ پرست عناصر اور ان کی سرگرمیوں کی جو تاریخ ملتی ہی، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہی۔ گمشدہ آتش گیر مادّہ کے ٹرکوں کی تفصیل جو ہم نے اپنے پچھلے مضامین میں پیش کی تھی، ان کا تعلق بھی انہیں علاقوں سے ہی۔ اس کے علاوہ مہاراشٹر میں شیوسینا نے جو کچھ کیا، وہ سری کرشن کمیشن کی رپورٹ میں درج ہی۔ گجرات میں نریندر مودی کی قیادت والی سرکار کے دور میں ہوا، یہ ہندوستان کی تاریخ کا بدنما باب ہی۔ اگر اب میں یہ کہوں کہ جو کچھ گجرات میں یکمشت ہوا، اس کے بعد تقریباً وہی سب قسطوں میں 2002کے بعد سی008تک بم دھماکوں کی شکل میں ملک گیر سطح پر متواتر ہوتا رہا۔ واضح ہو کہ 27فروری 2002کو سابرمتی ایکسپریس سانحہ کے بعد 28فروری 2002کے بعد گجرات تین ہزار سے زائد ایک مخصوص فرقہ کے لوگوں کے قتل عام کاکواہ بنا اوراس کے بعد 26نومبر008تک ہوئے بم دھماکوں میں سیکڑوں بے گناہ انسانوں کا خون بہایا گیا۔چند واقعات:
11جولائی 2006: ممبئی کی ٹرینوں میں سلسلہ وار بم دھماکی،09ہلاک،00سے زائد زخمی۔
8ستمبر006: مالیگاؤں کی مسجد اور قبرستان میں بم دھماکہ، 37ہلاک، 125زخمی۔
18فروری 2007: سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ، 68ہلاک، 150زخمی۔
11اکتوبر007: اجمیر درگاہ میں بم دھماکہ، 2ہلاک، 17زخمی۔
14اکتوبر007: لدھیانہ کے سنیما ہال میں عیدالفطر کے دن دھماکہ، 6ہلاک، 20زخمی۔
24نومبر007: لکھنؤ، وارانسی، فیض آباد میں سلسلہ وار بم دھماکی، 15ہلاک، 80زخمی۔
13مئی 2008: جے پور میں 9سلسلہ وار بم دھماکی، 60ہلاک، 150زخمی۔
26جولائی008: احمدآباد میں سلسلہ وار بم دھماکی، 28ہلاک 100زخمی۔
13ستمبر008: دہلی میں پانچ بم دھماکی، 30ہلاک، 130سے زائد زخمی۔
27ستمبر008: مہرولی بم دھماکہ، 3ہلاک، 23زخمی۔
9ستمبر008: گجرات ومہاراشٹر کے مختلف علاقوں میں متعدد بم دھماکی، 8ہلاک، 80زخمی۔
یکم اکتوبر008: اگرتلہ میں پانچ بم دھماکی، 4ہلاک، 74زخمی۔
21اکتوبر008: امپھال بم دھماکی، 21ہلاک، 30زخمی۔
26نومبر008: ممبئی کے متعدد مقامات پر بم دھماکی، 173ہلاک، 108زخمی۔
اگر ان چند برسوں میں ہوئے بم دھماکوں پر نظر ڈالی جائے تو گجرات کی انسانی قتل گاہ جیسا ہی سلسلہ ملک بھر میں دیکھنے کو ملتا ہی۔ ابھی صرف مالیگاؤں اور اجمیر بم دھماکوں کی فائلیں ہی کھلی ہیں، سمجھوتہ ایکسپریس اور مکہ مسجد دھماکوں کا ضمناً ذکر آیا ہی۔ اگر اس بیچ ہوئے تمام بم دھماکوں کی فائلیں کھلیں، ازسرنو تفتیش ہو، دہشت برپا کرنے والوں کے چہروں اور ان کی تنظیموں کو سامنے رکھا جاسکے تو شاید یہ حقیقت منظرعام پر آجائے کہ ملک اس دوران کن حالات سے گزرتا رہا ہی؟ کس ذہنیت کے لوگوں کی وحشی سنک کا شکار ہوتا رہا ہی؟ اگر ہم ملک سے محبت کو مذہب سے اوپر اٹھ کر دیکھنے کی باتوں کو صرف لفظوں تک محدود نہ رکھیں، بلکہ ان میں حقیقت کا رنگ بھردینے کا عزم دل و دماغ میں رکھیں تو پھر جو دہشت گرد چہرے نظر آئیں گی، ہمیں وہ سب ملک دشمن، انسانیت دشمن نظر آئیں گی۔ ہم پھر نہ ان کے ناموں میں کوئی مذہب دیکھیں گے اور نہ کوئی تنظیم دیکھیں گی۔یہ کہنا بہت آسان ہوتا ہے کہ یہ مٹی ہماری ماں ہی۔ ہم ماتربھومی کے لئے قربان ہوجانے کا جذبہ رکھتے ہیں، مگر یہ کرکے دکھانا بہت مشکل ہی۔ آج پھر ہندوستان جس دور سے گزر رہا ہی، تاریخ اس کے ایک ایک دن اور ہر ایک لمحہ کی داستان قلمبند کرے گی۔ ان میں وہ نام اور چہرے بھی ہوں گی، جنہیں آنے والا کل ہندوستان کی تاریخ میں بدنما داغ کی شکل میں دیکھے گا اور اس میں وہ نام بھی شامل ہوں گی، جو ہندوستان کو سرخرو کرنے کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ہندوستان ایک عظیم ملک ہی، اسے کئی بار مخالف حالات سے دوچار ہونا پڑا ہی۔ ہم نے غلامی کے دور کی داستان بھی پڑھی ہی، ہمارے سامنے جدوجہد آزادی کی تاریخ بھی ہی۔ ہم ان اوراق پر لکھے ناموں کو بھی پڑھتے ہیں اور آج جو تاریخ لکھی جارہی ہی، اس کے اوراق پر لکھے ناموں کو بھی پڑھ رہے ہیں اور یہی سرمایہ آنے والی نسلوں کے نام کردینے کا ارادہ رکھتے ہیں، تاکہ کل جب وہ اپنے عظیم ملک کی داستان پڑھیں تو اس کا ہر دور ان کے دل و دماغ میں رہی۔ ہر وہ چہرہ ان کے سامنے رہی، جس نے وطن سے محبت کے لئے قربانیاں پیش کیں اور وہ نام اور چہرے بھی ان کے سامنے رہیں، جنہوں نے اپنی سنک کو پورا کرنے کے لئے ملک کی عظمت کو داغدارکیا۔
………………

इतिहास लिखेगा ‘दास्तान’ तुम्हारी भी, हमारी भी!
अज़ीज़ बर्नी

मेरा सेल फोन नम्बर अनगिनित लोगों के पास है। मैं इसे बदल भी नहीं पाता, इसलिए कि कई पीड़ितों ने भी इसी के सहारे मुझसे सम्पर्क किया। फिर जो भी जद्दोजेहद मेरे द्वारा की गई, उसके सकारात्मक परिणाम बरामद हुए। कुछ युवा जेलों से रिहा भी हुए, कुछ पलिस के शिकंजे से आज़ाद हुए और कुछ को गिरफ्तार करने की कोशिशें समाचार हम तक पहुंचने के कारण अमल में न आ सकीं। यह टेलीफोन काल्स मुहब्बत करने वालों की भी होती हैं और कभी-कभी कुछ लोग घृणा प्रकट भी करते हैं। मुझसे मुहब्बत करने वाले कुछ पाठक कभी-कभी कहते हैं कि ‘‘वह हैरान हैं कि मैं अभी तक जिंदा कैसे हूं’’। मैं क्या जवाब दूं यह तो अल्लाह का करम और आप सभी हज़रात की दुआओं का परिणाम है, वरना हैरान मैं भी कुछ कम नहीं हूं। अकसर कुछ युवक युवतियां जब किसी कार्यक्रम में भाग लेने के बाद मुझसे मिलते हैं तो कहते हैं कि हमारी माँ नमाज़ के बाद हमसे पहले आपके लिए दुआऐं करती हैं तो मुझे विश्वास हो जाता है कि मेरे क़लम का प्रभाव और मेरा जीवन बस इन्हीं दुआओं का परिणाम है। अभी कुछ देर पूर्व मेरे इसी नम्बर पर एक एस.एम.एस मुझे मिला, जो कुछ इस तरह थाः
‘‘सांसों के सिलसिले को न दो जिं़न्दगी का नाम
जीने के बावजूद भी कुछ मर गए’’
जिन्होंने यह मेसिज भेजा, उन्होंने अपना नाम तो नहीं लिखा परन्तु उनका फोन नम्बर मेरे सामने है ‘‘09452292302’’। काफी साहस भरी हैं यह दो पंक्तियां भी कि जीवित रहने का प्रतीक केवल सांसों का चलना ही नहीं, बल्कि कम से कम मेरे जैसे व्यक्ति के लिए क़लम का चलते रहना भी है।
मुझे एहसास है शहीद हेमंत करकरे के इस दुनिया से चले जाने का। आंतकवाद के विरूद्ध वह जो जंग लड़ रहे थे और जिन चहरों को बेनक़ाब कर रहे थे, वह कोई साधारण काम नहीं था। उन्हें अपनी मृत्यु से कुछ घंटे पूर्व ही जान से मारने की धमकियां मिल रही थीं। यह सब कुछ आॅन-रिकार्ड है। मैंने भी अपने पिछले सिलसिलेवार लेख ‘‘मुसलमानाने हिन्द.... माज़ी, हाल और मुस्तक़बिल???’’ की 100वीं क़िस्त ‘‘करकरे की शहादत को सलाम’’ में विस्तार से ऐसी सभी घटनाओं का उल्लेख किया है। सुनील जोशी की मृत्यु के मायने भी समझता हूं मैं कि अपनी ही लगाई आग के अपने दामन तक पहुचने से पहले ही उन्हें अपनों की सांसों को रोक लेने में कोई संकोच नहीं होता। फिर भी मैं लिख रहा हूं, कभी किसी के हवाले से और कभी इन्द्रेश के हवाले से, यह जानते हुए भी कि इन्द्रेश का नाम आने पर संघ परिवार ने किस प्रकार का हंगामा मचाया था और मुझे याद है सुदर्शन का वह वाक्य भी, जिसका सांकेतिक उल्लेख मैंने अपने कल के लेख में भी किया था। वह सभी आरोप जो आज भी नेट पर बिखरे पड़े हैं, उन सबको भूला नहीं हूं मैं, फिर भी यह लिखना आवश्यक है कि इन्द्रेश 31 अक्टूबर 2005 को गुजराती समाज के गेस्ट हाउस के कमरा नं. 26 में हुई उस गुप्त बैठक को बकवास क़रार दे सकते हैं, 800 पृष्ठों के आरोपपत्र के 22वें पृष्ठ पर अपने नाम को मनगढं़त ठहरा सकते हैं, परन्तु इस समाचार पर क्या कहेंगे, जिसका रहस्योद्घाटन शहीद हेमंत करकरे ने अपने जीवन में ही कर्नल पुरोहित के गिरफ्तार किए जाने के बाद उसके हवाले से किया थाः
‘‘दयानंद पाण्डे ने अगस्त 2007 में टेलीफोन पर पुरोहित और डाक्टर आर.पी.सिंह की बातचीत कराई थी। इस रिपोर्ट में डाक्टर सिंह का यह हवाला मौजूद है जिसमें उसने पुरोहित से कहा था कि इन्द्रेश ने ‘नेपाल में हिन्दुओं को बेच दिया था’, इसके लिए आई.एस.आई ने इन्द्रेश को तीन करोड़ रूपये दिए थे। बाद में पुरोहित ने यह बात तोगड़िया को बताई थी, जिसे सुनने के बाद तोगड़िया ने बताया कि उसे इसके बारे में पहले से मालूम है।’ ;प्दकपंदमगचतमेेण्बवउए 24 छवअमउइमत 2008द्ध
अगर यह समाचार ग़लत था तो क्या संघ परिवार की वैसी ही प्रतिक्रिया उस समय सामने आई, जेसी कि अब अजमेर धमाकों के संबंध में दाख़िल किए गए आरोपपत्र में इन्द्रेश का नाम आने के बाद सामने आई है। अगर हेमंत करकरे जीवित रहते? अगर 26 नवम्बर 2008 को मुम्बई पर आतंकवादी हमला न हुआ होता तो अजमेर बम धमाकों से संबंधित दाख़िल किए गए आरोपपत्र के 22वें पृष्ठ पर जो कुछ इस समय लिखा गया है, वैसा बहुत कुछ उसी समय सामने आ गया होता। कितने घनिष्ट संबंध आई.एस.आई के हैं कि उसने इन्द्रेश को 3 करोड़ रूपये दिए थे, क्या काम करती है आई.एस.आई....., किस काम के लिए पैसा ख़र्च करती है आई.एस.आई की....., भारत के विरूद्ध क्या गतिविधियां हैं आई.एस.आई, किससे छुपा है? बस यूं समझ लें कि इन्दे्रश की जगह अगर किसी मुसलमान का नाम होता तो क़यामत बरपा हो गई होती, कितने लोगों की गिरफ्तारियां हुई होतीं, किस तरह एक विशेष समुदाय का जीना मुश्किल हो गया होता। हम नहीं चाहते कि इन्दे्रश का नाम सामने आने पर ऐसी प्रतिक्रिया हो। परन्तु ऐसा भी न हो कि उनको बचाने के लिए ज़मीन-आसमान एक कर दिए जाऐं। जांच को प्रभावित करने के लिए सभी संभावित हथकण्डे प्रयोग किए जाने लगें और हम ख़ामोश रहें। आख़िर हमें यह समझना होगा कि देश प्रेम के मायने क्या हैं। अपने देश भारत का महत्व हम भारतियों के लिए क्या है, भारत की अखंण्डता, एकता तथा भाईचारा हमारी मातृभूमि के लिए कितना आवश्यक है। क्या इसे किसी एक नाम को बचाने पर क़ुरबान किया जा सकता है? क्या किसी एक संगठन को बचाने के लिए इसके अमन-चैन को दाव पर लगाया जा सकता है, एक संगठन जिसने देश प्रेम के मायने ख़ुद अपनी डिक्शनरी के हिसाब से ईजाद कर लिए हैं? पूर्व इसके कि मैं इनके देश प्रेम पर कुछ वाक्य लिखूं, कल अपने लेख में प्रकाशित किए गए समाचार की कुछ पंक्तियां निःसंदेह जो मेरी नहीं हैं, एक बार फिर पाठकों और देश बंदुओं की सेवा में प्रस्तुत कर देना चाहता हूंः
‘‘इंद्रेश कुमार ने कहा कि संघ किसी भी तरह की राजनैतिक व सामाजिक हिसंा में विश्वास नहीं करता है। संघ क्या कोई भी धार्मिक संगठन यही कहेगा कि वह किसी भी प्रकार की हिंसा नहीं करता। हिंसा महाभारत और रामायण में भी कहां हुई थी। धर्म के नाम पर हिंसा फैलाने वाले यही कहेंगे कि जो कुछ होता है वह धर्म की रक्षा के लिए होता है। यानी किसी भी तरह की हिंसा धर्मयुद्ध के आवरण में बड़े आराम से समाज में फैलायी जा सकती है।’’
उपरोक्त पंक्तियां हमने अपने कल के लेख में ठींेामतण्बवउ से लीं और आज भी यह हवाला इसलिए पेश किया कि हमारे लेख को धार्मिक चश्मे से न देखा जाए, आज जो हम कह रहे हैं, वह केवल हम ही नहीं कह रहे हैं बल्कि वे सब कह रहे हैं, जिनके नज़दीक धर्म के नाम पर घृणा फैलाने वाले, चाहे उनका संबंध किसी भी धर्म या संगठन से हो, ग़लत हैं।
अजमेर बम धमाकों में लिप्त लोगों के नामों की चर्चा हम उनके कारनामों के साथ करेंगे, लेकिन पूर्व इसके मैं इन दो बातों पर विशेष ध्यान दिलाना चाहता हूं। राजस्थान के नगर जयपुर में 31 अक्टूबर 2005 को जब यह बैठक आयोजित की गई तो वहां भारतीय जनता पार्टी की सरकार थी। वसुंधरा राजे सिंधिया मुख्यमंत्री थीं। इस बैठक में शामिल होने वालों में साध्वी प्रज्ञा सिंह का नाम भी शामिल था, जिनका चित्र मध्यप्रदेश के मुख्यमंत्री शिवराज सिंह चैहान के साथ हेमंत करकरे द्वारा उनके कारनामों का खुलासा होने पर बार-बार दिखाया गया। यह गेस्ट हाउस गुजराती समाज का गेस्ट हाउस था, जिस राज्य के मुख्यमंत्री नरेन्द्र मोदी हैं। सोचना होगा आख़िर क्या करते हैं यह लोग सत्ता में आने के बाद।
अभी तक मालेगांव बम धमाकों से लेकर अजमेर बम धमाकों तक जो नाम सामने आए हैं, उनमें अधिकतर आरोपियों का संबंध संघ परिवार से है। उनका कार्यक्षेत्र गुजरात, राजस्थान, मध्यप्रदेश तथा महाराष्ट्र है। भारत के नक़्शे पर नज़र डालें तो यह चारों राज्य एक दूसरे से जुड़े हैं, इन चारों राज्यों में साम्प्रदायिक तत्वों तथा उनकी गतिविधियों का जो इतिहास मिलता है, वह किसी से छुपा नहीं है। गुमशुदा विस्फोटक पदार्थ के ट्रकों का विवरण जो हमने अपने पिछले लेखों में पेश किया था, उनका संबंध भी इन्हीं क्षेत्रों से है। इसके अलावा महाराष्ट्र में शिवसेना ने जो कुछ किया, वह श्री कृष्ण कमीशन की रिपोर्ट में उल्लेखित है। गुजरात में नरेन्द्र मोदी के नेतृत्व वाली सरकार के चलते क्या हुआ, यह भारत के इतिहास का बदनुमा दाग़ है। अगर अब मैं यह कहूं कि जो कुछ गुजरात में यकमुश्त हुआ, उसके बाद लगभग वही सब क़िस्तों में 2002 के बाद से 2008 तक बम धमाकों के रूप में देश व्यापी स्तर पर लगातार होता रहा। स्पष्ट हो कि 27 फरवरी 2002 को साबरमती एक्सप्रेस दुघर्टना के बाद 28 फरवरी 2002 के बाद गुजरात तीन हज़ार से अधिक एक विशेष समुदाय के लोगों के नरसंहार का गवाह बना और उसके बाद 26 नवम्बर 2008 तक हुए बम धमाकों में सैंकड़ों बेगुनाह इन्सानों का खून बहाया गया। कुछ घटनाऐंः
11 जुलाई 2006ः मुम्बई की ट्रेनों में सिलसिलेवार बम धमाके, 209 हताहत, 700 से अधिक घायल।
8 सितम्बर 2006ः मालेगांव की मस्जिद तथा क़ब्रिस्तान में बम धमाका, 37 हताहत, 125 घायल।
18 फरवरी 2007ः समझौता एक्सप्रेस बम धमाका, 68 हताहत, 150 घायल।
11 अक्टूबर 2007ः अजमेर दरगाह में बम धमाका, 2 हताहत, 17 घायल।
14 अक्टूबर 2007ः लुधियाना के सिनेमा हाल में ईद-उल-फितर के दिन धमाका, 6 हताहत, 20 घायल।
24 नवम्बर 2007ः लखनऊ, वाराणसी, फैज़ाबाद में सिलसिलेवार बम धमाके, 15 हताहत, 80 घायल।
13 मई 2008ः जयपुर में 9 सिलसिलेवार बम धमाके, 60 हताहत, 150 घायल।
26 जुलाई 2008ः अहमदाबाद में सिलसिलेवार बम धमाके, 28 हताहत, 100 घायल।
13 सितम्बर 2008ः दिल्ली में पांच बम धमाके, 30 हताहत, 130 से अधिक घायल।
27 सितम्बर 2008ः मेहरौली बम धमाके, 3 हताहत, 23 घायल।
9 सितम्बर 2008ः गुजरात तथा महाराष्ट्र के विभिन्न क्षेत्रों में कई बम धमाके, 8 हताहत, 80 घायल।
1 अक्टूबर 2008ः अगरतला में पांच बम धमाके, 4 हताहत, 74 घायल।
21 अक्टूबर 2008ः इम्फाल बम धमाके, 21 हताहत, 30 घायल।
26 नवम्बर 2008ः मुम्बई के विभिन्न स्थानों पर बम धमाके, 173 हताहत, 108 घायल।
अगर इन कुछ वर्षों में हुए बम धमाकों पर नज़र डाली जाए तो गुजरात के नरसंहार जैसा ही सिलसिला देश भर में देखने को मिलता है। अभी केवल मालेगांव और अजमेर बम धमाकों की फाईलें ही खुली हैं। समझौता एक्सप्रेस और मक्का मस्जिद धमाकों का आंशिक उल्लेख आया है। अगर इस बीच हुए सभी बम धमाकों की फाईलें खुलें, नए सिरे से जांच हो, आतंक मचाने वालों के चहरों और उनके संगठनों को सामने रखा जा सके तो शायद यह हक़ीक़त सामने आ जाए कि देश इस बीच किन परिस्थितियों से गुज़रता रहा है? किस मानसिकता के लोगों की हिंसक सनक का शिकार होता रहा है? अगर देश से प्रेम को धर्म से ऊपर उठ कर देखने की बातों को केवल शब्दों तक सीमित न रखें बल्कि उनमें वास्तविकता का रंग भर देने का संकल्प दिल व दिमाग़ में रखें तो फिर जो आतंकवादी चहरे नज़र आऐंगे हमें वह सब देश विरोधी, मानवता विरोधी नज़र आऐंगे। हम फिर न उनके नामों में कोई धर्म देखेंगे और न कोई संगठन देखेंगे। यह कहना बहुत आसान होता है कि यह मिट्टी हमारी माँ है। हम मातृभूमि के लिए क़ुरबान होने की भावना रखते हैं परन्तु यह करके दिखाना बहुत कठिन है। आज फिर भारत जिस दौर से गुज़र रहा है, इतिहास उसके एक-एक दिन और प्रत्येक क्षण की दास्तान लिखेगा। इनमें वह नाम और चहरे भी होंगे जिन्हें आने वाला कल भारत के इतिहास में कलंक के रूप में देखेगा और उसमें वह नाम भी शामिल होंगे जो भारत का मान बढ़ाने के लिए अपनी जान की बाज़ी लगाने में पेश-पेश रहते हैं। भारत एक महान देश है, इसे कई बार विपरीत परिस्थितियों से झूझना पड़ा है। हमने ग़ुलामी के दौर की दास्तान भी पढ़ी है, हमारे सामने स्वतंत्रता के संघर्ष का इतिहास भी है। हम उन पन्नों पर लिखे नामों को भी पढ़ते हैं और आज जो इतिहास लिखा जा रहा है, उसके पन्नों पर लिखे नामों को भी पढ़ रहे हैं और यही पूंजी आने वाली पीढ़ियों के नाम कर देने का इरादा रखते है ताकि कल जब वह अपने महान देश की दास्तान पढ़ें तो इसका हर दौर उनके मन मस्तिष्क में रहे। हर वह चेहरा उनके सामने रहे, जिसने देश प्रेम के लिए क़ुरबानियां पेश कीं और वह नाम और चेहरे भी उनके सामने रहें, जिन्होंने अपनी सनक को पूरा करने के लिए देश के सम्मान को कलंकित किया।
.................................................