میں نے بات کل جہاں ختم کی تھی، آج پھر وہیں سے شروع کررہا ہوں۔ مالیگاؤں بم دھماکوں کی شہید ہیمنت کرکرے کے ذریعہ کی جانے والی تفتیش سے قبل جنہیں ملزم گردانا گیا اور جن کی گرفتاریاں عمل میں آئیں، ان کی تفصیل کچھ اس طرح تھی:
ابتدا میں مہاراشٹر پولیس نے بجرنگ دل، لشکرطیبہ اور جیش محمد پر الزام عائد کیا تھا، یہ صرف ابتدائی اندازے تھی۔ اس کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کئے جاسکے تھی، لیکن بعد میں 13اکتوبر006کوپولیس نے کہا کہ لشکرطیبہ اور اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا(سیمی) ان دھماکوں میں شامل ہوسکتی ہی۔ پولیس کو شک یہ بھی تھا کہ ان دھماکوں میں حرکت الجہاد اسلامی بھی ملوث ہوسکتی ہی، یعنی اب شک کے دائرے میں صرف مسلم ناموں والی دہشت گرد تنظیمیں تھیں۔
واضح ہو کہ 10ستمبر کو پولیس نے کہا تھا کہ 8دسمبر006کو جو دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا، اس کا طریقہ کار بالکل ایسا ہی تھا، جیساکہ مالیگاؤں کے دھماکے کا تھا۔ اس دھماکہ کے بعد پولیس نے بجرنگ دل کے 16کارکنان کو گرفتار کیا تھا۔ یہ گروپ بجرنگ دل کا Fringe Group(حاشیہ گروپ) تھا۔ اس گروپ کے خلاف کوئی چارج شیٹ داخل نہیں کی گئی تھی۔
30اکتوبر کو نورالہدیٰ جس کا تعلق سیمی سے تھا، گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے ساتھ شبیر بیٹری والا اور رئیس احمد کو بھی گرفتار کیا گیا۔ بعدازاں چار ہزار صفحات کی جو چارج شیٹ داخل کی گئی، اس میں آرمی افسر لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت اس دھماکے کی سازش کا کلیدی ملزم تھا۔ کرنل پروہت نے آتش گیر مادہ فراہم کرایا تھا اور سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے دھماکہ خیز مادہ پلانٹ کرانے میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔ پرگیہ ٹھاکر اندور کی رہنے والی تھی اور بعد میں سورت منتقل ہوگئی۔ دھماکہ میں استعمال ہونے والی ایل ایم ایل فریڈم موٹر سائیکل جس میں بم رکھا گیا تھا، وہ اس کی تھی۔ اس کو 24ستمبرکو گرفتار کیا گیا تھا۔
شیونارائن کلسانگرابھی اندور کا رہنے والا تھا اور پیشہ سے الیکٹریشن تھا، جسی4ستمبر008کو پکڑا گیا۔ شیام بھر والال ساہواندور کا رہنے والا تھا۔ اس کی موبائل کی دکان تھی۔ اس کو بھی مالیگاؤں سازش میں 24ستمبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔
سمیرکلکرنی جو پنے کا رہنے والا تھا اور اے بی وی پی کا سابق ممبر تھا، وہ اس دھماکہ کا ماسٹر مائنڈ تھا، اس کو 28اکتوبر کو پکڑا گیا۔
ریٹائرڈ میجر جنرل رمیش اپادھیائی، جوکہ پنے کا رہنے والا تھا، وہ کلکرنی اور کچھ فوجیوں کے درمیان رابطہ کا کام کررہا تھا اور آتش گیر مادّہ حاصل کرنے میں مدد کررہا تھا، اس کو بھی اکتوبر میں ہی پکڑا گیا۔ ان کے علاوہ سیلیش ایس رائیکر بھونسلہ ملیٹری اسکول ناسک کا ایڈمنسٹریٹر اور ریٹائرڈ کرنل تھا، اس کو پوچھ گچھ کے لئے یکم نومبر کو حراست میں لیا گیا۔ رمیش گندھانی ملیٹری انٹلی جینس کارکن تھا اور بھونسلہ ملیٹری اسکول میں ملازم تھا، اس کو یکم نومبر کو حراست میں لیا گیا۔ اشوک آہوجا ابھینوبھارت کا ممبر تھا اور 2نومبر کو جبل پور سے اے ٹی ایس کے ذریعہ حراست میں لیا گیا۔ آہوجا سمیر کلکرنی کا بہت قریبی تھا۔
ان سب کے علاوہ رام جی کلسانگرا جو اندور کار ہنے والا تھا اور اس کا بھائی شیونارائن، جوکہ 29ستمبر008کو مالیگاؤں میں موجود تھی، ان کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھیکو چوک میں بم رکھا تھا۔ ایک اور نام رام جیسوانی کا بھی ہی، جو جبل پور کا رہنے والا ہی۔
آپ نے دیکھا کہ ابتدائی شک کس طرح بعد کی جانچ میں بے بنیاد ثابت ہوا اور پھر جو نام اور چہرے سامنے آئی، ان سے ہندوستان میں دہشت گردانہ حملوں کے نئے نئے انکشافات ہوتے چلے گئی۔ اس طرح ہندوستان میں رونما ہونے والے بم دھماکوں کی تاریخ میں مالیگاؤں انکشافات سے شروع ہوئی یہ داستان جب اجمیر تک پہنچی تو صورتحال یکسر بدل چکی تھی۔ دو برس قبل تک جنہیں موردالزام ٹھہرایا جاتا رہا تھا، جنہیں قومی سطح پر بدنام کیا جاتا رہا تھا، وہ نام اب کہیں سامنے نہیں تھی، بلکہ ان نئے انکشافات سے ثابت ہورہا تھا کہ سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیمیں ان میں ملوث ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے مضمون کو عنوان دیا تھا ’’6/11کس کی سازشـکیا اٹھے گا پردہ؟‘‘، اس لئے کہ میں ملک کی فلاح و بہبود کے پیش نظر یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ 26/11/2008کو ممبئی پرہوئے دہشت گردانہ حملہ کا مکمل سچ منظرعام پر آنا چاہئی۔ میں اس بات کو مسترد نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی اس معاملہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ سازش پاکستان میں رچی گئی۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور دہشت گرد تنظیم لشکرطیبہ اس میں شامل تھی۔ مجھے اس پر بھی کچھ نہیں کہنا کہ 10دہشت گرد جنہیں پاکستان میں تربیت دی گئی تھی، انہوں نے اس دہشت گردانہ حملہ کو انجام دیا۔ یہ سچ ہی ہوگا، اگر ہماری خفیہ ایجنسیوں نے مکمل تصدیق اور شواہد کی بنا پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے تو۔ مگر ذہن میں بار بار یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کیا ان دس کے علاوہ کوئی گیارہواں مجرم نہیں تھا۔ کیوں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ یہ 10دہشت گرد تھی، جو پاکستان کے شہر کراچی سے سمندر کے راستے ممبئی پہنچی۔ اس دہشت گردانہ حملہ کے 2برس بعد بھی جموںوکشمیر کے گورنر رہے جگموہن جیسے شخص اگر اسی بات پر جمے ہیں اور اس سے الگ ہٹ کر کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتے تو یہ سوال ذہن میں اور مضبوط ہوجاتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ کم سے کم ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ تفتیش کو گیارہویں یا بارہویں یا اس کے بعد کسی شخص تک پہنچنے ہی نہیں دینا چاہتی؟ کیا وہ کچھ چھپانا چاہتے ہیں؟ کیا وہ جو کچھ چھپانا چاہتے ہیں، وہ بہت ہی دھماکہ خیز ہی؟ میرے مضمون کا سلسلہ ابھی جاری ہی۔ میں جگموہن کے مضمون سے وہ چند سطریں یہاں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے جارہا ہوں، جو دہلی سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’دینک جاگرن‘‘ کے ادارتی صفحہ پر 26نومبر010 کو شائع کیا گیا :
’’دس دہشت گرد پاکستان کے کراچی سے اسٹیمرپر سوار ہوکر نکلتے ہیں، بڑے آرام سے گیٹ آف انڈیا کے قریب ممبئی میں داخل ہوتے ہیں اور چار گروپوں میں بٹ کر پہلے سے طے شدہ مقامات کی جانب بڑھ جاتے ہیں۔ ایک گروپ تاج پر قبضہ کرلیتا ہی، دوسرا لی او پولڈ کیفے اور اوبرائے ہوٹل پر دھاوا بولتا ہی، تیسرا شبدہاؤس میں داخل ہوجاتا ہے اور چوتھا چھترپتی ریلوے اسٹیشن پر پہنچتا ہی۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں، خون کی ندیاں بہا دیتے ہیں۔ بڑی بے رحمی اور ظالمانہ طریقہ سے بے قصور لوگوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ تین دنوں تک شہر پر دہشت کا راج رہتا ہی۔ جب تک ان میں سے 9مارے جاتے ہیں اور ایک زندہ پکڑ لیا جاتا ہی، وہ 180لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے تھی۔ اس المیہ کی کہانی بیان کرنے کے لئے آنسو بھی کم پڑجاتے ہیں۔
اس موقع پر نااہلی کا جو مظاہرہ ہوا وہ بھی دہشت گردانہ واقعہ سے کم المناک نہیں ہی۔ دہشت گردانہ حملہ ہونے کے بعد جس مستعدی، درستگی اور رابطہ کی ضرورت تھی، وہ کہیں دکھائی نہیں دی۔ دہشت گردوں نے جس خطرناک رفتار اور منصوبہ سے حملہ کو انجام دیا، اس کے برعکس ریاستی و مرکزی حکومت کی حفاظتی مشینری بالکل ڈھیلی اور لاچار نظر آئی۔ اس نے خود کو سنبھالنے میں کافی وقت لیا۔ سماجی ڈھانچے کے دیگر گروپوں نے بھی خود کو کسی لائق ثابت نہیں کیا۔ مثال کے طور پر تاج ہوٹل پر دہشت گردوں کا مقابلہ کررہے نیشنل سیکورٹی گارڈس کو دکھانے کی چینلوں میں مقابلہ آرائی تھی۔ انہوں نے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ اس سے پاکستان میں بیٹھے دہشت گردوں کے آقا سلامتی دستوں کی پوری کارروائی دیکھتے ہوئے دہشت گردوں کو نئے احکام دے سکتے ہیں۔‘‘
دیکھا آپ نے پھر وہی بات، دس پاکستانی دہشت گرد۔ تین روز تک ہماری فوج اور پولیس دہشت گردوں سے لڑتی رہی، نہیں میں اپنی فوج یا پولیس فورس کو اتنا کمزور نہیں مانتا۔ ان دہشت گردانہ حملوں کے ابتدائی دور میں شہید ہونے والے تین پولیس افسران میں سے ہر ایک اتنا بہادر تھا کہ اکیلا ہی دس پاکستانی دہشت گردوں کے لئے کافی تھا، مگر ہماری فوج دس پاکستانی دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے 72گھنٹے تک جدوجہد کرتی رہی اور ہم دو برس بعد بھی اپنی فوج کو اس قدر کمزور ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ انہیں دس دہشت گردوں سے پار پانے میں7 جوانوں کا خون بہانا پڑا اور اس دوران ہمارے 166شہری جاں بحق ہوئے اور 308 زخمی، اس بات کا گلے سے اترنا ذرا مشکل نظر آتا ہی۔ کیا ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کا نام سامنے آنے کے بعد بھی ہم دس کی گنتی سے آگے نہیں بڑھیں گی؟ کیا تہورحسین رانا کی فرضی امیگریشن ایجنسی کے کارناموں کا انکشاف ہونے کے بعد بھی ہم دس کی گنتی سے آگے نہیں بڑھیں گی؟ آخر کسے بچانا چاہتے ہیں ہم؟ کیا چھپانا چاہتے ہیں ہم؟ کیا یہ ملک اور قوم کے حق میں ہی؟ مان لیا کہ وہ دس دہشت گرد اس حملہ میں شامل تھی، مگر ہم اس سے آگے بات کیوں نہیں کرنا چاہتی؟ ہم بات کو یہیں ختم کیوں کردینا چاہتے ہیں؟ ہماری خفیہ ایجنسی اے ٹی ایس کی جانچ ہمیں بتاتی ہے کہ مالیگاؤں بم دھماکہ جہاں 6 افراد مارے گئے اور زخمی۔ اجمیر درگاہ کا معمولی بم دھماکہ، جہاں صرف 3لوگ مارے گئی،ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کے مقابلہ میں بہت معمولی تھا، جہاں 166 لوگ مارے گئے 308 زخمی ہوئی، یعنی ممبئی بم دھماکوں کے مقابلہ میں ان چھوٹے چھوٹے بم دھماکوں کی سازش کرنے والوں کے نام اور چہرے سامنے آتے ہیں تو ان کی تعداد دس سے کہیں زیادہ سامنے آتی ہی۔ سازش کے تار بہت دور تک جاتے نظر آتے ہیں۔ پولیس کے ذریعہ پیش کی گئی پرانی تھیوری بیکار ثابت ہوجاتی ہی، مگر جب ہم 26/11کی بات کرتے ہیں تو 10دہشت گردوں کے ناموں کے بعد ہمارے ہونٹ سل جاتے ہیں۔ ہم اس سے آگے بات کرنا ہی نہیں چاہتے اور اگر کوئی بات کرنے کی کوشش کرے تو اس کی وطن سے محبت پر سوالیہ نشان؟ وہ ایسا کیوں کررہا ہی؟ یہ کیا مذاق ہی، ہندوستان کے ہر شہری کو ہر ایسے معاملہ کا آخری سچ جاننے کا حق ہی۔ ہم دس روپے کے ایک نوٹ کے ذریعہ آر ٹی آئی کے تحت ایسے تمام حقائق جاننے کا حق رکھتے ہیں، جن کا تعلق ہمارے معاشرہ سے ہی۔ پھر کیوں6/11پر بات کرنا جرم سمجھا جائی؟ کیوں یہ جاننے کا حق نہ ہو کہ نریمن ہاؤس کی کہانی کیا ہی؟ اپنی سگی اولاد کو چھوڑ کر ایک پرائے بچے کے لئے ہندوستانی خاتون کیوں اسرائیل جاکر بس گئی؟ کیوں نہیں دستیاب ہیں شہید ہیمنت کرکری، اشوک کامٹے اور وجے سالسکر کی ٹیلی فون کال ڈیٹیلس؟ آخری دن آخری گھنٹہ، آخری لمحہ کن کن لوگوں نے ان سے رابطہ قائم کیا یا انہوں نے کس کس سے رابطہ قائم کیا اور کون کون لوگ ٹھہرے تھے تاج اور اوبرائے میں، ان کی کال ڈیٹیلس کیا ہیں؟ سی سی ٹی وی فوٹیج کی ایک دو تصاویر ہی کیوں بار بار سامنے آتی ہیں۔ اس فوٹیج کی دیگر تصاویر کیوں نہیں ملتیں؟ کیوں ہماری جانچ کا دائرہ اس سے آگے نہیں بڑھتا؟ آج پھر ختم کرنا ہوگا اس مضمون کو اسی مقام پر، اس لئے کہ اس کاغذ پر اس سے آگے لکھنے کی گنجائش نہیں ہی، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سلسلہ کا یہ آخری مضمون ہی۔ میرے اس خصوصی مضمون کے تحت بھی اور اس موضوع پر لکھی جانے والی میری کتابوں کے ذریعہ بھی لکھنے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، جدوجہد یہی ہے کہ اس وقت تک خاموش نہیں ہونا چاہئی، جب تک کہ ہمارے ملک پر ہوئے اس سب سے بڑے دہشت گردانہ حملہ کا سارے کا سارا سچ سامنے نہ آجائی، اس لئے کہ یہ ہمارے ملک کے تحفظ اور اس کی فلاح و بہبودگی کے لئے بیحد ضروری ہی۔
(اگلا مضمون مبارک پور(اعظم گڑھ) سے واپسی کے بعد)