Friday, November 26, 2010

26/11

کس کی سازش۔کیا اٹھے گا پردہ؟

عزیز برنی

ہندوستان پر ہوئے سب سے بڑے دہشت گردانہ حملہ کی دوسری برسی ہے آج۔ یقینا ہمارے قارئین ہی نہیں، بلکہ ہندوستان بھر کے عوام 26نومبر008کو ہمارے ملک کی اقتصادی راجدھانی ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کو بھولے نہیں ہوں گی۔ ہوسکتا ہے کہ آج جب آپ میرا یہ مضمون پڑھ رہے ہوں، دیگر اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی اس دہشت گردانہ حملہ کا ذکر ہو، لیکن گزشتہ دنوں جس طرح ہندوستان میں ہوئے دیگر بم دھماکوں کی تفتیش کی خبریں سرخیاں بنتی رہیں اور ان کے ردعمل میں سیاسی، غیرسیاسی تنظیمیں مظاہرے کرتی رہیں۔ 26نومبر کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کا تذکرہ اس انداز میں نہیں ہوا اور نہ ہی دیش بھکت کہی جانے والی تنظیموں کی طرف سے حقیقت کو منظرعام پر لانے کے لئے کوئی تحریک چلائی گئی! ویسے بھی اگر نومبر008 کے آخری ہفتہ اور دسمبر کی بات جانے دیں تو اس دہشت گردانہ حملہ پر تحقیقات کا سلسلہ اس طرح نہیں چلا، جس طرح کے چلنا چاہئے تھا اور نہ ہی میڈیا نے اس کی جانچ کے معاملہ کو اتنی اہمیت دی، جتنی کہ دی جانی چاہئے تھی۔ میں پھر واضح کردوں کہ اس دہشت گردانہ حملہ کے تعلق سے شائع کی جانے والی یا دکھائی جانے والی خبروں کا ذکر میں اس وقت نہیں کررہا ہوں۔ یہ حملہ کتنا شدید تھا، کتنے لوگ ہلاک ہوئی، کتنے زخمی، میں اس طرح کی خبروں کا بھی ذکر نہیں کررہا ہوں۔ شہید ہیمنت کرکری، اشوک کامٹے اور وجے سالسکر جیسے پولیس افسراس میں ہلاک ہوئی، میں ان خبروں کا بھی ذکر نہیں کررہا ہوں۔ آج میں ایسی تمام خبروں سے ہٹ کر بات کررہا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ دو سال گزر جانے کے بعد بھی ہندوستان کی زمین پر ہوئے اس سب سے بڑے دہشت گردانہ حملہ کی جانچ کے سلسلہ میں آج تک کیا ہوا؟ حملہ آور پاکستان سے آئے تھی، ان کی تعداد 10تھی، سازش پاکستان میں رچی گئی، سازش رچنے والا ذکی الرحمن لکھوی تھا، اجمل عامر قصاب وہ واحد دہشت گرد ہی، جو ان دہشت گردانہ حملوں کے بعد زندہ گرفت میں آیا۔ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی اور تہورحسین رانا کے نام بعد میں جڑی۔ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی پاکستان اور امریکہ دونوں کی شہریت رکھتا تھا۔ اس کا تعلق پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور امریکہ کی ایف بی آئی سے تھا۔ یہ سب اپنی جگہ، لیکن اس کے آگے کیا ہوا؟ ہماری ٹیم امریکہ گئی، کیا پتہ لگا کر آئی، نہیں معلوم۔ اس درمیان ہندوستان کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کا امریکہ دورہ بھی ہوا اور امریکہ کے صدر براک حسین اوباما بھی ہندوستان تشریف لائی۔ شرم الشیخEgypt)میں ہندوستانی وزیراعظم اور پاکستانی وزیراعظم کی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ اس دہشت گردانہ حملہ کا ذکر بھی ہوا۔ ذکی الرحمن لکھوی پر بھی بات ہوئی۔ یہ سب وہ باتیں ہیں، جس کی جانکاری آپ کو بھی ہی، مگر اب اس سے آگے میں جو لکھنے جارہا ہوں، وہ ذرا نئی بات ہے اور اس پر میں آپ کی خصوصی توجہ چاہتا ہوں۔
ممبئی میں ہوئے اس دہشت گردانہ حملہ کے بعد اس وقت مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ولاس راؤ دیش مکھ نے استعفیٰ دیا، آر آر پاٹل جو مہاراشٹر کے وزیرداخلہ تھی، ہٹائے گئی، آر آر پاٹل آج پھر مہاراشٹر کے وزیرداخلہ ہیں۔ ولاس راؤ دیش مکھ مرکزی حکومت میں کابینہ درجہ کے وزیر ہیں، جب ان کو ہٹایا گیا تھا، تب بھارتیہ جنتا پارٹی یا سنگھ پریوار نے ایسا کوئی زوردار مطالبہ نہیں کیا تھا کہ انہیں اپنے عہدوں سے ہٹایا جائی۔ ممبئی پر ہوا دہشت گردانہ حملہ ان کی غیرذمہ داری کا نتیجہ تھا، لہٰذا ان کو اپنے عہدوں پر برقرار رہنے کا حق نہیں ہی۔ یہ فیصلہ کانگریس پارٹی کا تھا اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہی، ولاس راؤ دیش مکھ جائے واردات کا معائنہ کرنے کے لئے جب گئے تو اپنے ساتھ اپنے بیٹے رتیش دیش مکھ، جو فلمی اداکار ہیں اور ایک فلم پروڈیوسر کو بھی لے گئی، زیادہ قابل اعتراض اسی بات کو مانا گیا، ان کی کوتاہی پر بحث چلی ہو، ان کا استعفیٰ بطور سزا لیا گیا ہو اور یہ مطالبہ بھارتیہ جنتا پارٹی، سنگھ پریوار یا شیوسینا کی طرف سے کیا گیا ہو، ایسا کچھ خاص نہیں تھا۔ بات اتنی پرانی نہیں ہے کہ تفصیلات دستیاب نہ ہوسکیں۔ اشوک چوان کے آدرش سوسائٹی میں 3فلیٹ ہونے کی بنیاد پر تسلیم کیا گیا کہ وہ بدعنوانی میں کہیں نہ کہیں ملوث ہیں، لہٰذا ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔ نتیجتاً انہیں اپنے عہدے سے ہٹنا پڑا۔ ٹیلی کام منسٹر اے راجا اسپیکٹرم گھوٹالے میں ملوث پائے گئی، انہیں اپنے عہدے سے ہٹنا پڑا۔ وزیراعظم کے دفتر کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے 17دن پارلیمنٹ نہیں چلنے دی۔بارہا یہ درخواست کی گئی کہ ازراہ کرم ایوان کی کارروائی جاری رہنے دیں، لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنان کا ہنگامہ کم نہیں ہوا، جبکہ کرناٹک کے وزیراعلیٰ یدیورپا بھی زمین گھوٹالے میں ملوث پائے گئی۔
اجمیر بم دھماکوں میں اندریش کا نام آنے پر سنگھ پریوار کی ہنگامہ آرائی اور کے ایس سدرشن کی بہتان تراشی کسی سے چھپی نہیں ہی، ہم یہ نہیں کہتے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے یا سنگھ پریوار نے بدعنوانی کے خلاف جس ردعمل کا مظاہرہ کیا، وہ غلط تھا، انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا، مگر اگلی بات جو ہم کہہ رہے ہیں،اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار کے عمل کا جائزہ لینا ہوگا۔ یہ بدعنوانی کے معاملات اس نوعیت کے تھے کہ انہیں خاموشی سے برداشت نہیں کیا جانا چاہئے تھا، لہٰذا جو کچھ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی نی، اسے وہ کرنا ہی چاہئے تھا، مگر اب غور اس امر پر بھی کرنا ہوگا کہ یہ بدعنوانی زیادہ بڑا معاملہ تھا یا 26نومبر008کو ممبئی پر ہوا دہشت گردانہ حملہ زیادہ بڑا معاملہ تھا۔ ہر بم دھماکہ کے بعد تشویش ظاہر کرنے اور تفتیش کے معاملے میں سرگرم ہونے والا سنگھ پریوار اتنے بڑے دہشت گردانہ حملہ کے بعد کتنا سرگرم ہوا۔ بی جے پی نے کتنی بار پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ کی اس مانگ کے ساتھ کہ 26/11کے تمام ملزمان کا پردہ فاش ہونا چاہئی۔ اس مکمل نیٹ ورک کو بے نقاب کیا جانا چاہئی۔ اس نے کیوں آواز نہیں اٹھائی کہ آخر انیتا اُدیا کو خفیہ طور پر امریکہ کیوں لے جایا گیا۔ امریکہ کو کیا حق تھا، اسے اس طرح لے جانے اور پوچھ گچھ کرنے کا۔ سفر ہندوستان کے دوران امریکی صدر براک حسین اوباما کی خصوصی میٹنگ سشما سوراج سے بھی ہوئی۔ کیا اس دیش بھکت پارٹی کے رہنمائوں نے ڈیوڈ کولمین ہیڈلی جو ہندوستان پر دہشت گردانہ حملہ کا ماسٹر مائنڈ تھا، اس کے بارے میں گفتگو کی۔ کیا وزیراعظم ڈاکٹرمنموہن سنگھ سے مطالبہ کیا کہ اس موضوع پر گفتگو ایجنڈے میں شامل کی جائی۔ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی نے اعتراض کیا کہ آر آر پاٹل کو دوبارہ وزیرداخلہ کیوں بنایا جارہا ہی۔ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ دس پاکستانی دہشت گردوں کے علاوہ اور کون کون اس میں شامل تھی۔ کم سے کم ہندوستان میں کون کون ایسا شخص تھا، جو ان دہشت گردانہ حملوں کی سازش رچنے یا انہیں عملی جامہ پہنانے میں شامل رہا ہو۔ اکشردھام پر حملہ ہوا، مکہ مسجد پر حملہ ہوا، ان حملوںکے فوراً بعد سے لگاتار بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار کا عمل کیا رہا اور ممبئی پر ہوئے اس دہشت گردانہ حملہ کے بعد اس کا عمل کیا رہا، آج اس کا موازنہ کرنا ہوگا۔ کیا اس نے اس دہشت گردانہ حملے اور اس کی سازش کا پتا لگائے جانے کی ویسی ہی جدوجہد کی، جیسی کہ دیگرواقعات کے بعد کرتی رہی ہی؟ اگر نہیں، تو اس کی وجہ کیا ہی؟
شہید ہیمنت کرکرے اور انسپکٹر موہن چند شرما دو چہرے ہمارے سامنے ہیں، دونوں کو ہی شہید کا درجہ حاصل ہی۔ انسپکٹر موہن چندشرما زیادہ بڑے حادثہ کا شکار ہوئے یا ہیمنت کرکری؟ انسپکٹر موہن چند شرما کا مقابلہ زیادہ سخت تھا یا ہیمنت کرکرے کا؟ ان دونوں کے معاملے میں سنگھ پریوار کا طرزعمل کیا رہا، یہ سب کے سامنے ہی۔ کیا اس کی کوئی وجہ سمجھ میں آتی ہی۔ بہرحال اب میں اپنے مضمون کو آگے بڑھانے سے قبل اپنے قارئین اور حکومت ہند کی توجہ مندرجہ ذیل خبر کی طرف دلانا چاہتاہوں، جس کا تعلق سابق انسپکٹر جنرل پولیس ایس ایم مشرف کے ذریعہ لکھی گئی کتاب "Who killd Karkare"(کرکرے کا قاتل کون) سے ہی۔ اس خبر کے بعد میرے مضمون کا تسلسل جاری رہے گا۔
مہاراشٹر کے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس ایم مشرف کو بمبئی ہائی کورٹ نے ان کی متنازع کتاب ’’کرکرے کو کس نے مارا‘‘ کے سیاق و سباق کے بارے میں وضاحت کرنے کے لئے طلب کیا ہی، جس میں الزام لگایا ہے کہ ہندوانتہاپسندوں اور ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں نے مل کر اے ٹی ایس کے چیف ہیمنت کرکرے کو مارنے کی سازش رچی تھی۔
جسٹس بی ایچ مارلاپلے اور جسٹس آروائی گانو نے مشرف کو ہدایت دی ہے کہ وہ پہلی دسمبر کو ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ کے سامنے ہوں۔ مارلاپلے نے کہا کہ اگر کوئی سرکاری افسر نہ صرف یہ کہ کھلے عام کوئی بیان دی، بلکہ اس کو چھاپ بھی دے تو اس کی تحقیقات ہونی چاہئی۔
عدالت نے کہا کہ اگر کتاب میں حکومت کو کچھ قابل اعتراض لگا تھا تو وہ اس پر پابندی لگاسکتی تھی،لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا، شاید آپ میں ہمت نہیں تھی۔ کیا آپ نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہی؟ مارلاپلے نے سرکاری وکیل سے پوچھا اور عدالت نے کہا کہ اگر کتاب میں قابل اعتراض مواد تھا تو انہیں مشرف کے خلاف کارروائی کرنا چاہئے تھی۔ بہرحال اگر اس میں کوئی معاملہ بنتا ہے تو اس کی تحقیقات کی جانی چاہئی۔
سرکاری وکیل پانڈورنگ پول نے کورٹ میں پولیس کمشنر سنجیودیال کی طرف سے ایک حلف نامہ دائر کیا، جس میں بالکل واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کرکرے کے قتل کے معاملے میں ابھینوبھارت سمیت کسی ہندوتنظیم کا ہاتھ نہیں ہی۔ حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ تفتیش کے دوران ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہی، جس میں اس معاملے کی چارج شیٹ میں نامزد کئے گئے دو ملزموں محمد اجمل عامر قصاب اور ابواسماعیل کے علاوہ کوئی اور بھی ملوث ہی۔ یہاں تک کہ جس کورٹ میں قصاب کے مقدمہ کی کارروائی چلی، اس میں بھی فردجرم عائد کرتے وقت کسی ہندوتنظیم کے اس معاملے میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ حلف نامہ کو پڑھنے کے بعد جسٹس مارلاپلے نے کہا کہ عدالت یہ نہیں کہہ رہی ہے کہ کرکرے کو کسی اور نے مارا تھا، بلکہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کہیں سرزمین ہند سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص اس میں ملوث تو نہیں تھا، کیونکہ مسٹر مشرف آپ ہی کی فورس کا ایک حصہ تھی۔
کرکرے کی موت کو ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کے آدمیوں اور ہندو انتہا پسند تنظیموں کے سرتھوپے جانے کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ میں دورٹ پٹیشن داخل کی گئی ہیں، جن میں سے ایک بہار کے ایم ایل اے رادھا کانت یادو اور دوسری کیوتی بیدیکر نے داخل کی ہی۔
مجھے ایس ایم مشرف اور ونیتاکامٹے کی کتابوں کے حوالے سے بہت کچھ کہنا ہی۔ اسی موضوع پر میرے پچھلے قسط وار مضمون ’’مسلمانانِ ہند…ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟‘‘ کی00ویں قسط ’’شہید وطن کرکرے کی شہادت کو سلام‘‘ اور میری کتاب ’’کیا آر ایس ایس کی سازشـ6/11‘‘ کے حوالے سے بھی اس سچائی کو سامنے رکھنے کی کوشش کرنی ہی، لیکن اس مختصر تحریر کو اجمیر بم دھماکوں کے حوالے کے ساتھ ختم کرنا چاہوں گا۔
لہٰذا اب ایک نظر اجمیر درگاہ بم دھماکہ اور اس کے بعد کے حالات پر:
11اکتوبر007کو اجمیر کی درگاہ میں دھماکے ہوئی۔
ان دھماکوں میں 3افراد ہلاک اور 20زخمی ہوئی۔
پولیس نے اولاً لشکرطیبہ کو موردِالزام ٹھہرایا۔
اس وقت مرکزی سرکار نے کہا تھا کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اس طرح کے دھماکوں کے ذریعہ ہندـپاک مذاکرات میں رکاوٹ ڈالنا چاہتی ہی۔
22اکتوبر007کو دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات میں Indo-pak anti terror mechanism پر غور کیا جانے والا تھا۔
اس کے بعد سی بی آئی تفتیش میں سامنے آیا کہ اجمیر درگاہ میں سنیل جوشی نے بم رکھے تھی، پھر اچانک خبر آئی کہ سنگھ پریوار کے اس رکن سنیل جوشی کو قتل کردیا گیا۔ مزید حیرانی کی بات یہ کہ مدھیہ پردیش میں جہاں قتل ہوا بی جے پی کی سرکار تھی، لیکن نہ تو قاتل کا کوئی سراغ ملا اور نہ کسی کی طرف سے کوئی مطالبہ کہ آخر پولیس اتنی سردمہری سے کیوں کام لے رہی ہی، پھر اجمیر دھماکوں کے لئے سوامی اسیمانند کو اتراکھنڈ کے ہری دوار سے گرفتار کیا گیا، جس کا تعلق وندے ماترم گروپ سے تھا۔ دیگر گرفتار کئے جانے والوں میں مکیش وسہانی کو گودھرا سے گرفتار کیا گیا، اس پر بھی درگاہ میں بم رکھنے کا الزام ہی۔دیویندرگپتا، لوکیش شرما، چندرشیکھر لیوے کو گرفتار کیا جاچکا ہی۔ ملزم سندیپ ڈانگی، رام جی کلسانگرے مفرور ہیں اور غالباً گجرات میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ 16مئی 2010کو اندور سے راجیش مشرا نامی ایک کاروباری کو گرفتار کیا گیا۔ اس طرح اس معاملہ میں اب تک 7ملزموں کی نشاندہی ہوئی ہی، جن میں سے 2فرار ہیں، جبکہ پہلے راجستھان پولیس نے اجمیر درگاہ بم دھماکوں میں ہوجی اور لشکرطیبہ کو موردالزام ٹھہرایا تھا اور عبدالحفیظ شمیم، خوشی الرحمن اور عمران علی کو گرفتار کیا تھا۔اس کے علاوہ اپنی ابتدائی مہم میں حیدرآباد، راجستھان پولیس نے کہا تھا کہ 25اگست کے بم دھماکوں سے جو سم کارڈ برآمد ہوئے تھی، وہ بابولال یادو نے حاصل کئے تھی۔ پولیس نے کہا تھاکہ یہ مجرموں کی چالاکی تھی۔ یہ سم کارڈ نقلی شناخت کو استعمال کرکے حاصل کئے گئے تھی۔ پولیس نے یہ بھی کہا تھا کہ شاہد بلال جو کہ ہوجی کا کمانڈر ہے اجمیر دھماکوں کے پیچھے بھی ہوسکتا ہی۔ اس طرح پولیس نے حیدرآباد اور اجمیر بم دھماکوں کے لئے شاہد بلال کا ہاتھ ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یادو کے نام سے لیا گیا سم کارڈ شاہد بلال اور دیگر مسلم دہشت گردوں نے 13اکتوبر007کو دھوکہ دینے کے لئے استعمال کیا تھا، لہٰذا پولیس شاہد بلال کو ہی اجمیر، مکہ مسجد اور 25اگست007کے دھماکوں کے لئے ذمہ دار قرار دیتی رہی ہی۔
جاری…کل ضرور ملاحظہ فرمائی

No comments: