Wednesday, November 24, 2010

تاریخ لکھے گی ’داستان‘ تمہاری بھی، ہماری بھی!

عزیز برنی

میراسیل فون نمبر بیشمار لوگوں کے پاس ہی۔ میں اسے بدل بھی نہیں پاتا، اس لئے کہ متعدد مظلومین نے بھی اسی کے سہارے مجھ سے رابطہ قائم کیا۔ پھر جو بھی جدوجہد میرے ذریعہ کی گئی، اس کے مثبت نتائج برآمد ہوئی۔ کچھ نوجوان جیلوں سے رہا بھی ہوئی، کچھ پولیس کے شکنجہ سے آزاد ہوئے اور کچھ کو گرفتار کرنے کی کوششیں خبر کے ہم تک پہنچنے کی وجہ سے عمل میں نہ آسکیں۔ یہ ٹیلی فون کالز محبت کرنے والوں کی بھی ہوتی ہیں اور کبھی کبھی کچھ لوگ نفرت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ مجھ سے محبت کرنے والے کچھ قارئین کبھی کبھی کہتے ہیںکہ ’’وہ حیران ہیں کہ میں ابھی تک زندہ کیسے ہوں‘‘۔ میں کیا جواب دوںیہ تو اللہ کا کرم اور آپ تمام حضرات کی دعاؤں کا نتیجہ ہی، ورنہ حیران میں بھی کچھ کم نہیں ہوں۔ اکثر کچھ نوجوان لڑکے لڑکیاں جب کسی پروگرام میں شرکت کے بعد مجھ سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہماری ماں نماز کے بعد ہم سے پہلے آپ کے لئے دعائیں کرتی ہیں تو مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ میرے قلم کی تاثیر اور میری زندگی بس انہی دعائوں کا نتیجہ ہی۔ ابھی کچھ دیر قبل میرے اسی نمبر پر ایک ایس ایم ایس مجھے ملا، جو کچھ اس طرح تھا:
’’سانسوں کے سلسلہ کو نہ دو زندگی کا نام
جینے کے باوجود بھی کچھ لوگ مرگئی‘‘
جنہوں نے یہ میسج بھیجا، انہوں نے اپنا نام تو نہیں لکھا، مگر ان کا فون نمبر ضرور میرے سامنے ہے "09452292302"۔ کافی حوصلہ بخش ہیں یہ دو سطریں بھی کہ زندہ رہنے کی علامت صرف سانسوں کا چلنا ہی نہیں، بلکہ کم سے کم میرے جیسے شخص کے لئے قلم کا چلتے رہنا بھی ہی۔
مجھے احساس ہے شہید ہیمنت کرکرے کے اس دنیا سے چلے جانے کا۔ دہشت گردی کے خلاف وہ جو جنگ لڑرہے تھے اور جن چہروں کو بے نقاب کررہے تھی، وہ کوئی معمولی کام نہ تھا۔ انہیں اپنی موت سے چند گھنٹے قبل ہی جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ یہ سب کچھ آن ریکارڈ ہی۔ میں نے بھی اپنے پچھلے سلسلہ وار مضمون ’’مسلمانانِ ہند… ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟‘‘ کی 100ویں قسط ’’کرکرے کی شہادت کو سلام‘‘ میں تفصیل سے ایسے تمام واقعات کا ذکر کیا ہی۔ سنیل جوشی کی موت کے معنی بھی سمجھتا ہوں میں کہ اپنی ہی لگائی آگ کے اپنے دامن تک پہنچنے سے پہلے ہی انہیں اپنوں کی سانسوں کو روک لینے میں بھی کوئی جھجھک نہیں ہوتی۔ پھر بھی میں لکھ رہا ہوں، کبھی کسی کے حوالہ سے اور کبھی اندریش کے حوالہ سی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اندریش کا نام آنے پر سنگھ پریوار نے کس طرح کا ہنگامہ برپا کیا تھا اور مجھے یاد ہے سدرشن کا وہ جملہ بھی، جس کا اشارتاً ذکر میں نے اپنے کل کے مضمون میں بھی کیا تھا۔ وہ تمام الزامات جو آج بھی نیٹ پر بکھرے پڑے ہیں، ان سب کو بھی بھولا نہیں ہوں میں، پھر بھی یہ لکھنا ضروری ہے کہ اندریش 31اکتوبر005کو گجراتی سماج کے گیسٹ ہاؤس کے کمرہ نمبر6میں ہوئی اس خفیہ میٹنگ کو بکواس قرار دے سکتے ہیں، 800صفحات کی چارج شیٹ کے 22ویں صفحہ پر اپنے نام کو من گھڑت کہانی قرار دے سکتے ہیں، مگر اس خبر پر کیا کہیں گے جس کا انکشاف شہید ہیمنت کرکرے نے اپنی زندگی میں ہی کرنل پروہت کے گرفتار کئے جانے کے بعد اس کے حوالہ سے کیا تھا:
’’دیانند پانڈے نے اگست 2007 میں ٹیلی فون پر پروہت اور ڈاکٹر آر پی سنگھ کی بات چیت کرائی تھی۔ اس رپورٹ میں ڈاکٹر سنگھ کا یہ حوالہ موجود ہے جس میں اس نے پروہت سے کہا تھا کہ اندریش نے ’نیپال میں ہندوئوں کو بیچ دیا تھا‘، اس کے لیے آئی ایس آئی نے اندریش کو 3 کروڑ روپے دیے تھی۔ بعد میں پروہت نے یہ بات توگڑیا کو بتائی تھی جسے سننے کے بعد توگڑیا نے کہا کہ اسے اس کے بارے میں پہلے سے معلوم ہی۔‘‘indianexpress.com, 24 November 2008)
اگر یہ خبر غلط تھی تو کیا سنگھ پریوار کا ویسا ہی ردعمل اس وقت سامنے آیا، جیسا کہ اب اجمیر بم دھماکوں کے سلسلہ میں داخل کی گئی چارج شیٹ میں اندریش کا نام آنے کے بعد سامنے آیا ہی۔ اگر ہیمنت کرکرے زندہ رہتی؟ اگر 26نومبر008کو ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ نہ ہوا ہوتا تو اجمیر بم دھماکوں کے تعلق سے داخل کی گئی چارج شیٹ کے 22و یں صفحہ پر جو کچھ اس وقت درج کیا گیا ہی، ویسا بہت کچھ اسی وقت سامنے آگیا ہوتا۔ کتنے گہرے رشتے آئی ایس آئی کے ہیں کہ اس نے اندریش کو 3کروڑ روپے دئے تھی، کیا کام کرتی ہے آئی ایس آئی…، کس کام کے لئے پیسہ خرچ کرتی ہے آئی ایس آئی…، ہندوستان کے خلاف کیا سرگرمیاں ہیں آئی ایس آئی کی، کس سے چھپا ہی؟ بس یوں سمجھ لیں کہ اندریش کی جگہ اگر کسی مسلمان کا نام ہوتا تو قیامت برپا ہوگئی ہوتی، کتنے لوگوں کی گرفتاریاں عمل میں آئی ہوتیں، کس طرح ایک مخصوص طبقہ کا جینا محال ہوگیا ہوتا۔ ہم نہیں چاہتے کہ اندریش کا نام سامنے آنے پر ایسا ردعمل ہو، مگر ایسا بھی نہ ہو کہ ان کو بچانے کے لئے زمین و آسمان ایک کردئے جائیں۔ تفتیش کو متاثر کرنے کے لئے تمام ممکنہ حربے استعمال کئے جانے لگیں اور ہم خاموش رہیں۔ آخر ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ وطن سے محبت کے معنی کیا ہیں۔ اپنے ملک ہندوستان کی اہمیت ہم ہندوستانیوں کے لئے کیا ہی، ہندوستان کی سالمیت، اتحاد و اخوت ہماری مادروطن کے لئے کس حد تک ضروری ہی۔ کیا اسے کسی ایک نام کو بچانے پر قربان کیا جاسکتا ہی؟ کیا کسی ایک ایسی تنظیم کو بچانے کے لئے اس کے امن و چین کو داؤ پر لگایا جاسکتا ہی، ایک ایسی تنظیم جس نے حب الوطنی کے معنی خود اپنی ڈکشنری کے حساب سے ایجاد کرلئے ہیں؟ قبل اس کے کہ میں ان کی حب الوطنی پر چند جملے لکھوں، کل اپنے مضمون میں شائع کی گئی خبر کی چند سطریں بیشک جو میری نہیں ہیں، ایک بار پھر قارئین اور ہم وطن بھائیوں کی خدمت میں پیش کردینا چاہتا ہوں:
’’اندریش کمار نے کہا کہ سنگھ کسی بھی طرح کے سیاسی، سماجی تشدد(ہنسا) میں یقین نہیں رکھتا ہی۔ سنگھ کیا، کوئی بھی مذہبی ادارہ یہی کہے گا کہ وہ کسی بھی طرح کے تشدد(ہنسا) میں یقین نہیں رکھتا۔ تشدد(ہنسا) مہابھارت اور رامائن میں کہاں تھا۔ مذہب کے نام پر تشدد پھیلانے والے یہی کہیں گی، جو کچھ ہوتا ہے وہ مذہب کی حفاظت کے لئے ہوتا ہی، یعنی کسی بھی طرح کے تشدد(ہنسا) کو ’’دھرم یدھ‘‘ کے چولہ میں ڈھک کر بڑے آرام سے معاشرے میں تشدد(ہنسا) برپا کیا جاسکتا ہی۔‘‘
مندرجہ بالا سطریں ہم نے اپنے کل کے مضمون میں Bhasker.com سے لیں اور آج بھی یہ حوالہ اس لئے پیش کیا کہ ہماری تحریر کو مذہبی چشمہ سے نہ دیکھا جائی، آج جو ہم کہہ رہے ہیں، وہ صرف ہم ہی نہیں کہہ رہے ہیں، بلکہ وہ سب کہہ رہے ہیں، جن کے نزدیک مذہب کے نام پر منافرت پھیلانے والی، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا تنظیم سے ہو، غلط ہیں۔
اجمیر بم دھماکوں میں ملوث لوگوں کے ناموں کا تذکرہ ہم ان کے کارناموں کے ساتھ کریں گی، لیکن قبل اس کے میں ان دو باتوں پر خصوصی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ راجستھان کے شہر جے پور میں 31اکتوبر005کو جب یہ میٹنگ منعقد کی گئی تو وہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تھی۔ وسندھرا راجے سندھیا وزیراعلیٰ تھیں۔ اس میٹنگ میں شامل ہونے والوں میں سادھوی پرگیہ سنگھ کا نام بھی شامل تھا، جن کی تصویر مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کے ساتھ ہیمنت کرکرے کے ذریعہ ان کے کارناموں کا انکشاف ہونے پر بارہا دکھائی گئی۔ یہ گیسٹ ہاؤس گجراتی سماج کا گیسٹ ہاؤس تھا، جس ریاست کے وزیراعلیٰ نریندر مودی ہیں۔ سوچنا ہوگا آخر کیا کرتے ہیں یہ لوگ اقتدار میں آنے کے بعد۔
ابھی تک یعنی مالیگاؤں بم دھماکوں سے لے کر اجمیر بم دھماکوں تک جو نام سامنے آئے ہیں، ان میں زیادہ تر ملزمان کا تعلق سنگھ پریوار سے ہی۔ ان کی کارگزاریوں کا علاقہ گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر ہی۔ ہندوستان کے نقشہ پر نظر ڈالیں تو یہ چاروں ریاستیں ایک دوسرے سے جڑی ہیں۔ ان چاروں ریاستوں میں فرقہ پرست عناصر اور ان کی سرگرمیوں کی جو تاریخ ملتی ہی، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہی۔ گمشدہ آتش گیر مادّہ کے ٹرکوں کی تفصیل جو ہم نے اپنے پچھلے مضامین میں پیش کی تھی، ان کا تعلق بھی انہیں علاقوں سے ہی۔ اس کے علاوہ مہاراشٹر میں شیوسینا نے جو کچھ کیا، وہ سری کرشن کمیشن کی رپورٹ میں درج ہی۔ گجرات میں نریندر مودی کی قیادت والی سرکار کے دور میں ہوا، یہ ہندوستان کی تاریخ کا بدنما باب ہی۔ اگر اب میں یہ کہوں کہ جو کچھ گجرات میں یکمشت ہوا، اس کے بعد تقریباً وہی سب قسطوں میں 2002کے بعد سی008تک بم دھماکوں کی شکل میں ملک گیر سطح پر متواتر ہوتا رہا۔ واضح ہو کہ 27فروری 2002کو سابرمتی ایکسپریس سانحہ کے بعد 28فروری 2002کے بعد گجرات تین ہزار سے زائد ایک مخصوص فرقہ کے لوگوں کے قتل عام کاکواہ بنا اوراس کے بعد 26نومبر008تک ہوئے بم دھماکوں میں سیکڑوں بے گناہ انسانوں کا خون بہایا گیا۔چند واقعات:
11جولائی 2006: ممبئی کی ٹرینوں میں سلسلہ وار بم دھماکی،09ہلاک،00سے زائد زخمی۔
8ستمبر006: مالیگاؤں کی مسجد اور قبرستان میں بم دھماکہ، 37ہلاک، 125زخمی۔
18فروری 2007: سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ، 68ہلاک، 150زخمی۔
11اکتوبر007: اجمیر درگاہ میں بم دھماکہ، 2ہلاک، 17زخمی۔
14اکتوبر007: لدھیانہ کے سنیما ہال میں عیدالفطر کے دن دھماکہ، 6ہلاک، 20زخمی۔
24نومبر007: لکھنؤ، وارانسی، فیض آباد میں سلسلہ وار بم دھماکی، 15ہلاک، 80زخمی۔
13مئی 2008: جے پور میں 9سلسلہ وار بم دھماکی، 60ہلاک، 150زخمی۔
26جولائی008: احمدآباد میں سلسلہ وار بم دھماکی، 28ہلاک 100زخمی۔
13ستمبر008: دہلی میں پانچ بم دھماکی، 30ہلاک، 130سے زائد زخمی۔
27ستمبر008: مہرولی بم دھماکہ، 3ہلاک، 23زخمی۔
9ستمبر008: گجرات ومہاراشٹر کے مختلف علاقوں میں متعدد بم دھماکی، 8ہلاک، 80زخمی۔
یکم اکتوبر008: اگرتلہ میں پانچ بم دھماکی، 4ہلاک، 74زخمی۔
21اکتوبر008: امپھال بم دھماکی، 21ہلاک، 30زخمی۔
26نومبر008: ممبئی کے متعدد مقامات پر بم دھماکی، 173ہلاک، 108زخمی۔
اگر ان چند برسوں میں ہوئے بم دھماکوں پر نظر ڈالی جائے تو گجرات کی انسانی قتل گاہ جیسا ہی سلسلہ ملک بھر میں دیکھنے کو ملتا ہی۔ ابھی صرف مالیگاؤں اور اجمیر بم دھماکوں کی فائلیں ہی کھلی ہیں، سمجھوتہ ایکسپریس اور مکہ مسجد دھماکوں کا ضمناً ذکر آیا ہی۔ اگر اس بیچ ہوئے تمام بم دھماکوں کی فائلیں کھلیں، ازسرنو تفتیش ہو، دہشت برپا کرنے والوں کے چہروں اور ان کی تنظیموں کو سامنے رکھا جاسکے تو شاید یہ حقیقت منظرعام پر آجائے کہ ملک اس دوران کن حالات سے گزرتا رہا ہی؟ کس ذہنیت کے لوگوں کی وحشی سنک کا شکار ہوتا رہا ہی؟ اگر ہم ملک سے محبت کو مذہب سے اوپر اٹھ کر دیکھنے کی باتوں کو صرف لفظوں تک محدود نہ رکھیں، بلکہ ان میں حقیقت کا رنگ بھردینے کا عزم دل و دماغ میں رکھیں تو پھر جو دہشت گرد چہرے نظر آئیں گی، ہمیں وہ سب ملک دشمن، انسانیت دشمن نظر آئیں گی۔ ہم پھر نہ ان کے ناموں میں کوئی مذہب دیکھیں گے اور نہ کوئی تنظیم دیکھیں گی۔یہ کہنا بہت آسان ہوتا ہے کہ یہ مٹی ہماری ماں ہی۔ ہم ماتربھومی کے لئے قربان ہوجانے کا جذبہ رکھتے ہیں، مگر یہ کرکے دکھانا بہت مشکل ہی۔ آج پھر ہندوستان جس دور سے گزر رہا ہی، تاریخ اس کے ایک ایک دن اور ہر ایک لمحہ کی داستان قلمبند کرے گی۔ ان میں وہ نام اور چہرے بھی ہوں گی، جنہیں آنے والا کل ہندوستان کی تاریخ میں بدنما داغ کی شکل میں دیکھے گا اور اس میں وہ نام بھی شامل ہوں گی، جو ہندوستان کو سرخرو کرنے کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ہندوستان ایک عظیم ملک ہی، اسے کئی بار مخالف حالات سے دوچار ہونا پڑا ہی۔ ہم نے غلامی کے دور کی داستان بھی پڑھی ہی، ہمارے سامنے جدوجہد آزادی کی تاریخ بھی ہی۔ ہم ان اوراق پر لکھے ناموں کو بھی پڑھتے ہیں اور آج جو تاریخ لکھی جارہی ہی، اس کے اوراق پر لکھے ناموں کو بھی پڑھ رہے ہیں اور یہی سرمایہ آنے والی نسلوں کے نام کردینے کا ارادہ رکھتے ہیں، تاکہ کل جب وہ اپنے عظیم ملک کی داستان پڑھیں تو اس کا ہر دور ان کے دل و دماغ میں رہی۔ ہر وہ چہرہ ان کے سامنے رہی، جس نے وطن سے محبت کے لئے قربانیاں پیش کیں اور وہ نام اور چہرے بھی ان کے سامنے رہیں، جنہوں نے اپنی سنک کو پورا کرنے کے لئے ملک کی عظمت کو داغدارکیا۔
………………

No comments: