Wednesday, November 24, 2010

دہشت گردی کے خلاف یہ فیصلہ کن جنگ ہی!

عزیز برنی

کل مجھے اسیمانند کی گرفتاری پر لکھنا تھا، کون ہے یہ اسیمانند، کس کس سے اس کا تعلق ہی، کیا کارنامے ہیں اس کی، کس سازش میں ملوث پایا گیا ہی، کن کن بم دھماکوں کا الزام ہے اور جے پور میں گجراتی سماج کے گیسٹ ہاؤس میں منعقد کی گئی جس خفیہ میٹنگ کا تذکرہ بار بار آیا ہی، اس میں شرکت کرنے والے کون کون تھی،کیوں سنگھ پریوار ان ناموں کے سامنے آنے پر انتہائی بدحواسی کے عالم میں گفتگو کرنے لگا۔
مگر میں رک گیا۔ دیر تک سوچتا رہا کہ جس انداز میں میں لکھ رہا ہوں اور انکشافات ہورہے ہیں، عوام کے درمیان ایک نیا تاثر جارہا ہی، سیاسی، سماجی منظرنامہ بدل رہا ہے اور دہشت گردی کے حوالہ سے کی جانے والی گفتگو میں خاطرخواہ تبدیلی آگئی ہی، بلکہ صاف لفظوں میں کہیں تو اب اس گفتگو میں زمین و آسمان کا فرق دکھائی دیتا ہی۔ اب تک جن پردہشت گردی کا الزام لگایا جاتا رہا، اب وہ سرخرو ہوتے نظر آرہے ہیں اور جو انتہائی حملہ آور انداز میں الزام تراشیاں کیا کرتے تھی، وہ اب دامن بچاتے گھوم رہے ہیں، کہیں کچھ بولتے ہیں تو اس طرح کہ انہیں خود پتا نہیں ہوتا کہ وہ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں، اس کا مطلب کیا ہی۔ ان کے اس طرزتکلم پر لوگوں کا تبصرہ کیا ہوگا۔ ان کی یہ الزام تراشیاں خود ان کے لئے کس درجہ شرمندگی کا باعث بنیں گی اور پھر جب وہ ہر جگہ تنقید کا نشانہ بننے لگتے ہیں تو معافی تلافی کا سلسلہ شروع ہوتا ہی۔ کہیں ان کے بیان کو ذاتی بیان کہہ کر متعلقہ تنظیم اپنا پلہ جھاڑ لینا چاہتی ہے تو کہیں صفائی دینے کی مہم شروع ہوجاتی ہی۔
بہرحال یہ ایک طویل کہانی ہے اور میرے مضامین کا سلسلہ بھی طویل ہی، جو انشاء اللہ جاری رہے گا، مگر مجھے اس لمحہ رک کر اپنے قارئین سے براہ راست گفتگو کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ کہیں اس تمام جدوجہد کا کوئی ایسا تاثر نہ چلا جائے کہ حالات پھر کروٹ بدلنے لگیں۔ میں بہت صاف لفظوں میں اپنے قارئین کی خدمت میں یہ عرض کردینا چاہتا ہوں کہ ہندودہشت گرد تنظیموں کی وابستگی سامنے آجانا، ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کا بم دھماکوں میں ملوث پایا جانا، کہیں ہندو مذہب یا ہندو بھائیوں کے لئے تنقید کی وجہ نہ بن جائی۔ عام ہندو، کٹر ہندو اور گمراہ ہندو میں فرق سمجھنا ہوگا۔ اسی طرح عام مسلمان، کٹر مسلمان اور گمراہ مسلمان میں فرقہ سمجھنا ہوگا۔ جیسے لشکرطیبہ، حرکت الجہاد جیسے نام رکھ لینے سے انہیں مذہب پر عمل پیرا کٹر مسلمان قرار نہیں دیا جاسکتا، اسی طرح وشو ہندوپریشد، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور شری رام سینا جیسے نام رکھ لینے سے یہ سمجھ لینا کہ وشو ہندو پریشد دنیا کے تمام ہندوؤں کی اعلیٰ کار تنظیم ہی، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ملک کی سلامتی اور فلاح وبہبود کے لئے کام کرنے والی کوئی رضاکار تنظیم ہے یا شری رام سینا شری رام کے کردار سے متاثر، ان کے پیغام کو آگے لے جانے والا کوئی ادارہ ہی، تو یہ غلط ہوگا۔
بیشک ایک لمبے عرصہ تک مسلمان موردالزام ٹھہرائے جاتے رہی، ان کو بدنام کیا جاتا رہا اور کم از کم ہندوستان میں مسلمانوں کے کردار کو مسخ کرنے کی اس درجہ کوشش کی گئی کہ وہ اپنی شناخت سے ڈرنے لگی۔ وطن سے ان کی محبت پر سوالیہ نشان لگائے گئے اور آج جب مسلمانوں پر بہتان تراشی کرنے والے تمام تر تحقیقات کے بعد خود اس میں ملوث نظر آتے ہیں تو عمل کے ردعمل کے فطری تقاضے کے تحت کچھ لوگ جوش وجذبات میں ایسی طعنہ زنی نہ کرنے لگیں۔ ان کے مجروح جذبات کو سمجھا جاسکتا ہی، لیکن وقت اور حالات کے تقاضے کو سمجھنا اس سے زیادہ ضروری ہی۔
بس اسی وجہ سے اس تسلسل کو ذرا دیر کے لئے روک کر آج آپ سے مخاطب ہونا پڑا۔ یہ عمل کے ردعمل کا نہ تو موقع ہی، نہ عمل کے ردعمل جیسی کوئی بات ہی۔ قانون کو اپنا کام کرنے دیجئی، چراغ پا ہونے والوں کو اپنے انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے دیجئی، ان کی کسی بھی بات سے مشتعل ہوکر ذرا سی لب کشائی بڑے خمیازے کی وجہ بن سکتی ہی۔ وہ مسلمان مسلمان نہیں ہوسکتا، جو اللہ کے بتائے ہوئے راستہ پر نہیں چل رہا ہی۔ قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق عمل پیرا نہیںہی۔ اسی طرح ہمارے خیال میں وہ ہندو صحیح معنی میں ہندو کیسے ہوسکتا ہی، جو شری رام کے آدرشوں پر نہ چلتا ہو۔ ہندو مذہب کے بتائے ہوئے راستہ پر عمل پیرا نہ ہو۔ خود کو ہندوؤں کا ٹھیکہ دار کہلوانے سے کوئی ہندوؤں کا ٹھیکہ دار نہیں ہوسکتا۔ خود کو مسلمانوں کا علمبردار کہنے بھر سے کوئی مسلمانوں کا ترجمان نہیں ہوسکتا۔ ہماری یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف ہے اور یہ جنگ اسی طرح لڑی جانی ہی، جس طرح انگریزوں کی غلامی کے خلاف جنگ لڑی گئی تھی۔ اگر پروردگار عالم نے یہ موقع اس وقت بھی آپ کو فراہم کیا کہ آپ انگریزوں کی غلامی کے خلاف جنگ میں سب سے آگے رہیں، اپنی جانوں کی قربانی پیش کریں، اپنے ملک کو غلامی کے شکنجہ سے نجات دلائیں اور آج بھی انتخاب آپ ہی کا ہوا کہ جب ملک دہشت گردی کی وبا کا اس درجہ شکار ہوا کہ امن پسند عوام کا جینا محال ہوگیا تھا تو پھر انتخاب آپ ہی کا ہوا۔آپ ہی نے قربانیاں پیش کیں۔ دہشت گردی کو نیست و نابود کرنے کے لئے آپ ہی سڑکوں پر اتری، تاکہ ملک گیر سطح پر بیداری مہم چلائی جاسکی۔ تاریخ شاہد ہے اس وقت بھی ہزاروں علمائے کرام پھانسی کے تختہ پر جھول گئے تھی۔ جب ملک کی آزادی کی جنگ لڑی جارہی تھی، اس وقت بھی جمعیۃ علماء ہند نے آزادی کی جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کیا تھااور اس بار بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ مساجد اور مدارس سے ہی لڑی گئی، باوجود اس کے کہ اسلامی درسگاہوں کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دیا گیا۔ لیکن اپنے فرض کو سمجھتے ہوئے ایسے کسی بھی الزام کی پروا نہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف بڑے پیمانے پر مہم بھی انہی درسگاہوں سے چلائی گئی۔ اردو صحافت نے تو جو کردار اس وقت نبھایا، وہی کردار آج ہم نے نبھانے کی کوشش کی۔ وہ جنگ بھی ہندو اور مسلمانوں نے شانہ بشانہ مل کر لڑی تھی اور دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں بھی ہندو اور مسلمان قدم بہ قدم ساتھ ساتھ ہیں۔ کچھ ہندو تو اس وقت بھی انگریزوں کی غلامی کے پروانے پر دستخط کررہے تھے اور آج بھی دہشت گردانہ عمل میں ملوث نظر آتے ہیں، مگر ہم انہیں ہندوؤں کا ترجمان کیوں سمجھیں؟ اس وقت اگر مہاتماگاندھی وطن کی آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھے تو آج شہید ہیمنت کرکرے نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کا راستہ دکھایا۔ یہ صحیح وقت ہے کہ جب ہم تمام برادران وطن سے انتہائی محبت و خلوص کے ساتھ پیش آکر یہ باور کریں کہ نہ تو گمراہ ہندو ؤں کے عمل سے ہندوؤں کی شناخت کی جاسکتی ہے اور نہ ہی گمراہ مسلمانوں سے مسلمانوں کی شناخت کی جانی چاہئی، بلکہ ہمیں اطمینان اس لئے ہونا چاہئے کہ گزشتہ دو برسوں میں ہم نے کم و بیش دہشت گردی پر قابو پالیاہی۔ ایسا کوئی دہشت گردانہ حملہ 26نومبر008کے بعد نہیں ہوا، جو ہمارے ملک اور قوم کو خوفزدہ کردیتا اور جس طرح ہم دہشت گردی کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، اس سے ملک میں امن و امان قائم رہنے کی امید کی جاسکتی ہی۔
یہ تھے وہ چند جملی، جو بلاتاخیر میں آپ کی خدمت میں عرض کردینا چاہتا تھا اور اب میں اپنے مضمون کے اس تسلسل کی طرف آتا ہوں، جس کا ذکر میں نے ابتدا میں ہی کیا تھا، یعنی میں کل اسیمانند کی گرفتاری پر لکھنا چاہتا تھا، رک کس لئے گیا، وہ بھی آپ کے سامنے رکھ دیا اور جو لکھنے جارہا تھا، اب وہ بھی آپ کے سامنے رکھ دینا چاہتا ہوں۔ اسیمانند کی گرفتاری کی خبر پہلے میں من و عن ایک میڈیا ایجنسی کے حوالہ سے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں، تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ اس خبر کو منظرعام پر رکھتے وقت نہ تو الفاظ میرے ہیں اور نہ ہی انداز میرا ہی، تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ میں نے خبر کو اس انداز میں پیش کیا کہ وہ حقیقت سے زیادہ میرے جذبات کی ترجمانی کرتی تھی۔ ہاں مگر کل اس خبر پر کیا جانے والا تبصرہ پوری طرح الفاظ میں بھی، انداز میں بھی میرے احساسات کی ترجمانی سمجھا جاسکتا ہی۔ لیکن آج ملاحظہ فرمائیںhasker.comکی اسیمانند کی گرفتاری پر یہ خبر، جسے
http://www.deshbandhu.co.in/newsdetails/716/6/0
پر کلک کرکے بھی پڑھا جاسکتا ہے
اجمیر درگاہ بم دھماکہ معاملہ میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سینئر کارکن اندریش کمار سمیت کچھ اور کارکنان کا رول ہونے کی بات سامنے آنے پر ملک کی سیاست میں ایک بار پھر ہلچل پیدا ہوگئی ہی۔
اے ٹی ایس نے جمعہ کے روز چارج شیٹ داخل کی، جس کے مطابق اجمیر درگاہ کو بم دھماکوں سے ہلانے کی سازش جے پور میں واقع گجراتی سماج کے گیسٹ ہاؤس میں رچی گئی تھی۔ ہندو مذہبی مقامات پر جوابی کارروائی کرنے کے مقصد سے ہندووادی تنظیموں کے اعلیٰ عہدیداروں نے 31اکتوبر005کو اس گیسٹ ہاؤس کے کمرہ نمبرـ6میں ایک خفیہ میٹنگ کی تھی۔ اس میں اندریش کمار کے علاوہ ابھینوبھارت تنظیم کے سربراہ سوامی اسیمانند، جے وندے ماترم نامی تنظیم کی سربراہ سادھوی پرگیہ سنگھ، سنیل جوشی، سندیپ ڈانگی، رام چندر کلسانگرا عرف رام جی، شیوم دھاکڑ، لوکیش شرما، سمندر اور دیویندر گپتا سمیت کئی لوگ شامل تھی۔ اس گیسٹ ہاؤس کی منیجر اروناٹھاکر نے اے ٹی ایس کے سامنے ان لوگوں کے ٹھہرنے کی تصدیق کی ہی۔ 800 صفحات کی چارج شیٹ میں صفحہ نمبر2پر اندریش کمار اور ساتھیوں کے نام آئے ہیں، لیکن اندریش کمار اس پوری چارج شیٹ کو ہی من گھڑت کہانی کا پلندہ بتا رہے ہیں۔
اپنے ایک سینئر اعلیٰ عہدیدار کا نام کسی دہشت گردانہ واقعہ میں آنے سے سنگھ میں کھلبلی مچنا فطری ہی۔ وہاں سے ردعمل اس کے مطابق ہی سامنے آرہے ہیں۔ اندریش کمار نے کہا کہ سنگھ کسی بھی طرح کی سیاست اور سماجی تشدد میں یقین نہیں کرتا ہی۔ سنگھ کیا کوئی بھی مذہبی تنظیم یہی کہے گی کہ وہ کسی بھی طرح کا تشدد نہیں کرتا۔ تشدد مہابھارت اور رامائن میں بھی کہاں ہوا تھا۔ مذہب کے نام پر تشدد پھیلانے والے یہی کہیں گے کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ مذہب کی حفاظت کے لئے ہوتا ہی، یعنی کسی بھی طرح کا تشدد دھرم یدھ(مذہبی لڑائی) کے پس منظر میں بڑے آرام سے سماج میں پھیلایا جاسکتا ہی۔ یہ غورطلب ہے کہ اے ٹی ایس نے ابھی صرف چارج شیٹ داخل کی ہی۔ عدالتی کارروائی اور قصور ثابت ہونے پر سزا طے کرنا، یہ لمبی کارروائی ابھی باقی ہی۔ لیکن سنگھ، وی ایچ پی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی بوکھلاہٹ دیکھتے بنتی ہی۔ حالانکہ سنگھ کے ترجمان رام مادھونے کہا کہ سنگھ کسی بھی طرح کی دہشت گردی کی مخالفت کرتا ہی۔ اس طرح کے معاملے میں اگر کسی شخص پر کوئی الزام ہو تو اس کی صحیح ڈھنگ سے جانچ ہو اور اگر وہ قصوروار پایا جاتا ہے تو اسے سزا بھی ملی، لیکن وی ایچ پی اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس چارج شیٹ سے اٹھے وبال کو اجودھیا فیصلہ اور بہار چناؤ تک پہنچا دیا ہی۔ مرکز و راجستھان دونوں ریاستوں میں کانگریس کی سرکار ہے تو اسے نشانہ بنانا فطری ہی، لیکن اجودھیا فیصلہ عدالت نے دیا ہی، اسے گندی سیاست کا ایشو بنانا ٹھیک نہیں ہی۔ اسی طرح بہار میں اسمبلی انتخابات کی کارروائی چل رہی ہی۔ نیپال میں نکسلیوں کا دبائو اور اندر نکسلیوں، دبنگوںاور ذات پات سے پیدا ہونے والی کشیدگی،ان سب کے درمیان انتخابات کرانا،یوں تو مشکل کام ہے ۔اس پر اس معاملے کو اقلیتوں کی منھ بھرائی سے جوڑنایا جذبات کو مشتعل کرنے والے بیان دینا کسی بھی طرح مناسب نہیں کہا جاسکتاہی۔وشو ہندو پریشد کے لیڈر پروین توگڑیا اسے سیدھے حب الوطنی سے جوڑرہے ہیں اور کشمیر میں جاری مذاکرہ کے عمل پر سوال اٹھاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جس تنظیم کا 80-90سال کی حب الوطنی کی تاریخ رہی ہی، اسے ایسی سرگرمیو ں کے ساتھ جوڑنا سب سے بڑی سازش ہی۔وہ اسے وزیر داخلہ پی چدمبرم کی بھگوا دہشت گردی کی بات کو صحیح ثابت کرنے کی کانگریس کی سیاسی سازش بتارہے ہیں۔ان کا بیان وشو ہندو پریشد کے ایجنڈے کے مطابق ہی، لیکن بے بنیاد لگتا ہی۔ اس الزام کو حب الوطنی جیسے عظیم جذبہ سے جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہئی۔ معاملہ عدالت میں ہے تو فیصلہ آنے تک انتظار کرنا چاہئی۔دہشت گردی کے کئی روپ اور رنگ ہندوستان میں سر اٹھارہے ہیں۔ دراصل یہ مذہب کے نام پر محدودہوتی ذہنیت کا نتیجہ ہی۔عمل اور رد عمل کے اصول کو بے ڈھنگے طور سے پیش کرنے والی،اس محدود ذہنیت کی وجہ سے ہی پنپ رہے ہیں۔
……………………

No comments: