ہاں، 30ستمبر010کو بابری مسجد ملکیت کے تعلق سے دیا گیا الٰہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ قانون کے مطابق لیا گیا فیصلہ نہیں ہے۔ ہاں، یہ عقیدے کی بنیاد پر لیا گیا فیصلہ ہے۔ ہاں، اس فیصلہ میں سیاست کی بو آتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ عدالت کے تمام فیصلے ثبوتوں اور شہادتوں کی بنیاد پر ہی ہونے چاہئےں، جو کہ اس فیصلہ میں نہیں ہوا۔ ہندوستانی عوام کی ایک بڑی تعداد، جس میں صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ سیکولر ہندوؤں کا بھی ماننا ہے کہ یہ انصاف پر مبنی نہیں ہے اور اب یہ امکان بھی قوی ہیں کہ سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دی جائے گی۔ کوئی ایک یا چند لوگ اگر اپنی اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ اسی فیصلہ کو تسلیم کرلینا چاہئے اور اب سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرنا چاہئے تو اس بات کو تمام ذمہ داران تسلیم کرلیں گے، اس غلط فہمی کا شکار کسی کو نہیں رہنا چاہئے۔ راقم الحروف کو بھی ایسی کوئی غلط فہمی نہیں ہے، تاہم اگر اس فیصلہ کی حمایت کی گئی اور اس پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اسے موجودہ حالات میں مناسب فیصلہ قرار دیا گیا تو کوئی وجہ تو ہوگی بیشک اسے رد کردیا جائے، مگر کیا تمام نشیب و فراز پر غور کیا جانا غلط ہوگا؟ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں کیا یہ پہلا فیصلہ ہے، جس سے ہم نے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے۔ اس سے قبل کئے گئے تمام فیصلوں نے کیا ہمیں انصاف دیاہے؟ بیشک وزیرداخلہ پی چدمبرم آج یہ کہہ رہے ہیں کہ بابری مسجد کی شہادت ایک الگ معاملہ ہے اور اس کے مجرموں کا جرم اس فیصلہ سے متاثر نہیں ہوگا، مگر سرکار اس سوال کا کیا جواب دے گی کہ آخر لبراہن کمیشن کی رپورٹ پیش کئے جانے کے باوجود آج تک بھی سرکار خاموش کیوں ہے؟ شری کرشن کمیشن کی رپورٹ کا کیا ہوا؟ آج تک انصاف کے نام پر ہمیں ناانصافی ہی تو ملی ہے، تاہم اگر آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے لئے ہم جیسے کچھ لوگ بھی تیار ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم گزشتہ0برس میں جن حالات سے گزرے ہیں، ہم نے اپنے جذباتی استحصال کے ساتھ ساتھ جس قدر اپنے نوجوانوں کو کھویا ہے، ہم نے جس قدر اپنی قوم کے مستقبل کو سیاست کی نذر ہوتے دیکھا ہے، اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم امید بھلے ہی کریں ، لیکن اس سے بہت بہتر فیصلہ کا بھروسہ نہیں ہوتا۔
q
ایسا نہیں ہے کہ ہم نہیں جانتے تھے یہ قانون کی روشنی میں دیا گیا فیصلہ نہیں ہے، مگر وہ فیصلے بھی تو ہمارے ذہن میں ہیں، جو قانون کی روشنی میں دئے گئے ہیں، ان سے بھی ہمیں کتنا انصاف ملا؟ ہوسکتا ہے کہ عقیدہ کی بنیاد پر دیا گیا یہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہو، اس لئے کہ تمام عدالتوں کے چھوٹے بڑے کل مقدمات کی جانکاری کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ کیا اس سے پہلے بھی کہیں کسی عدالت نے عوام کے جذبات، احساسات یا مذہبی عقائد کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ دیا، مگر وہ موضوع بحث نہ بننے کی وجہ سے سب کے سامنے نہیں آیا۔ بہرحال ہمیں اس فیصلہ پر اعتراض کرنے کا پورا پورا حق ہے اور جو اسے ناانصافی یا عدالتی نظام کی توہین سے تعبیر کرتے ہیں تو اس وقت مجھے ان کی رائے پر کچھ نہیں کہنا، لیکن ایک شعر ضرور میں اپنے تمام قارئین کی نذر کردینا چاہتا ہوں۔ یہ شعر 30ستمبر010 کو الٰہ آباد ہائی کورٹ میں بابری مسجد کی ملکیت کا فیصلہ آنے سے بہت پہلے لکھا گیاہے۔یہ شعر بارہا ہمارے سیاستدانوں اور سماجی کارکنان کے ذریعہ کبھی پارلیمنٹ کے اندر تو کبھی پارلیمنٹ کے باہر ایسے فیصلوں کو ذہن میں رکھ کر اپنے جذبات کی عکاسی کرنے کے لئے پڑھا گیا، جنہیں انصاف پر مبنی تسلیم نہیں کیا گیا تھا، مگر وہ فیصلے آستھا یا جذبات کی بنیاد پر نہیں تھے، قانون کی روشنی میں کئے گئے فیصلے تھے۔ میں نے خود بارہا اس شعر کو اپنی تقاریر اور اپنی تحریروں میں شامل کیا ہے۔ گجرات میں ظہیرہ شیخ کی آنکھوں کے سامنے اس کے خاندان کے 14 افراد کو زندہ جلادیا گیا۔ اس کی بیکری جسے ’بیسٹ بیکری‘ کے نام سے جانا گیانذرآتش کردی گئی۔ گجرات کی عدالت نے قانون کے مطابق گواہوں اور ثبوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، جو فیصلہ سنایا اس میںتمام ملزم جسٹس مہیدا کی عدالت سے بری کردئے گئے۔ ظہیرہ شیخ کو ایک جھوٹا گواہ تسلیم کرکے اس کی گواہی کو ناقابل قبول مان لیا گیا۔ قانون کی روشنی میں کیا گیا یہ فیصلہ کیا انصاف تھا؟ ایسے ہی فیصلوں کو سامنے رکھ کر شاید لکھا ہوگا پروفیسر ملک زادہ منظور احمد صاحب نے:
وہی قاتل، وہی منصف، عدالت اس کی وہی شاہد
بہت سے فیصلوں میں طرفداری بھی ہوتی ہے
'آج ہمارے سامنے ایک ایسا فیصلہ ہے، جو عدالت کے ذریعہ قانون کی روشنی میں نہیں، عقیدہ کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ ہم اسے رد کرسکتے ہیں۔ ہم اسے نامنظور کرسکتے ہیں۔ ہم سپریم کورٹ میں جانے کا حق رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ سے انصاف کی امید کرسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر ہوگا، ایسی امید کرسکتے ہیں۔ باوجود اس سب کے وہ فیصلہ ہمارے حق میں اس سے بہتر ہوگا، وہ قابل نفاذ ہوگا اور دوسرے طبقہ کو منظور بھی ہوگا، کیا اس کی امید ہے۔ حالانکہ وہ فیصلہ جو بھی ہو، اسے قانون کا درجہ حاصل ہوگا، تاہم اس کے بعد بھی گنجائش بچتی ہے، اس لئے کہ پارلیمنٹ میں قانون بناکر اس فیصلہ میں بھی تبدیلی کی امیدوں کو زندہ رکھا جاسکتا ہے۔ یہ کام دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی کرسکتا ہے۔ اس وقت پارلیمنٹ میں اکثریت کس ذہن کے لوگوں کی ہوگی آج کیسے کہا جاسکتا ہے، مگر قیاس تو کیا ہی جاسکتا ہے۔ ان بیانات کو تو یاد رکھا ہی جاسکتا ہے، جو اکثر کہتے رہے کہ پارلیمنٹ میں قانون بناکر رام مندر کی تعمیر کا راستہ بنایا جائے گا۔ آج ہم ان تمام خدشات کو نظرانداز کرسکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری حدود کیا ہیں۔ کیا ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ دوسروں کے ارادے کیا ہیں؟ کتنے لوگ ہیں پارلیمنٹ میں جو آپ کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے ہیں؟ اپنی سیاست کے لئے زبانی جمع خرچ الگ بات ہے، جذباتی بیان بازی کرکے قوم کے جذبات کو مشتعل کرنا الگ بات ہے، مگر ان کے لئے حق اور انصاف کی جنگ لڑنا الگ بات ہے۔ ہم جانتے ہیں یہ بات اور آگے بڑھے گی تو بہت دور تک جائے گی، ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہم وہ تمام لوگ جو آج اس بحث ومباحثہ میں شامل ہےں، زندہ رہیں نہ رہیں، مگر اس مقدمہ کو زندہ رکھا جاسکتا ہے، بیشک ہمیں اختیار ہے کہ ہم انصاف حاصل کرنے کی جدوجہد میں آخری حد تک جائیں اور اس خدشہ کو بھی نظرانداز کردیں کہ عدالت کے ذریعہ دیا گیا فیصلہ درست ہونے کی صورت میں بھی اس کا نفاذ مشکل ہوگا، بلکہ ناممکن ہوگا، مگر یہ حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ حکومتیں اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہوسکتی ہیں، ہم ان کے خلاف آواز بلند کرسکتے ہیں۔ ان سرکاروں کو گرایا جاسکتا ہے، ہٹایا جاسکتا ہے یا سرکار کا مکھیا خود استعفیٰ دے کر غیرذمہ داری تسلیم کرتے ہوئے اپنے عہدہ سے ہٹ سکتا ہے۔ یہ سب کچھ، سب کچھ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ مدت اتنی زیادہ بھی نہیں گزری ہے کہ ہماری یادداشت ساتھ نہ دے۔ 6دسمبر992کو بابری مسجد شہید ہوئی، جس کے ذمہ دار مرکزی حکومت کے مکھیا پی وی نرسمہاراؤ اور براہِ راست اترپردیش سرکار کے اس وقت کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ تھے۔اترپردیش سرکار برخاست کی گئی، کلیان سنگھ پر مقدمہ بھی چلا، ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر چلا، قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے چلا، سزا بھی دی گئی۔ کیا تھی وہ سزا؟ یاد ہے آپ کویا بھول گئے؟ایک دن کی سزا…! صبح سے شام تک عدالت میں کھڑے رہنے کی سزا… قانون کی روشنی میں عدالت کے ذریعہ دئے گئے اس انصاف پر کتنی آوازیں بلند کی گئیں، کیا یہ انصاف تھا؟ جرم تھا بابری مسجد کی شہادت اور سزا چند گھنٹے۔ گجرات میں نریندر مودی کے وزیراعلیٰ رہتے ہوئے دو ہزار سے زائد مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔ سپریم کورٹ نے نریندر مودی کو ’نیرو‘ تک کہا، پھر کیا ہوا؟ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ وہ آج بھی اسی ریاست کے وزیراعلیٰ ہیں۔ گجرات فسادات کے لئے ریاستی سرکار سے تعلق رکھنے والی مایاکوڈنانی فسادات میں ملوث قرار دی گئیں۔ کیا جرم کے مطابق سزا مل سکی؟ یہ تمام نظیریں پیش کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ عدالتوں سے اعتماد جاتا رہے، ان کے ذریعہ کئے گئے انصاف کو انصاف نہ مانا جائے۔ غلطی کی گنجائش حقائق اور شواہد کو سامنے رکھ کر کئے گئے فیصلہ میں بھی ممکن ہے۔ اور یہ فیصلہ جس میں قانون سے زیادہ عقیدہ کو اہمیت دی گئی ہے، جس میں ہماری جیت ہونی چاہئے تھی، مگر ہم ہار گئے، لیکن ایسی ہار جس میں جیت کے احساس کی گنجائش باقی ہے۔ مسجد کی ازسرنوتعمیر کی گنجائش باقی ہے، پھر بھی ہم اس فیصلہ پر برہم ہیں قبول نہیں کرنا چاہتے، جبکہ آگے کا مرحلہ ہمارے لئے بہت زیادہ پرامید نہیں ہے۔ ذرا سوچیں، کیا وہ لوگ ایسا کوئی بھی فیصلہ قبول کرپائیں گے، جس میں ان کی مکمل ہار ہو، جیت کا قطعاً احساس نہ ہو۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر… اس پر غور کرنا ہوگا۔ ہم کرسکتے ہیں نامنظور اس فیصلہ کو، اس لئے کہ اس فیصلہ نے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے جستجو کے راستے بند نہیں کئے ہیں، لیکن ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس فیصلہ نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے راستے کھول دئے ہیں۔ ایسے تمام خدشات کو درکنار کردیا، جن کو سوچ سوچ کر 30ستمبر سے پہلے ہندوستانی عوام کی ایک بڑی تعداد پریشان تھی۔ رد کر دیجئے اس فیصلہ کو، مگر اس لحاظ سے یہ فیصلہ قابل ستائش تو ہے کہ اس نے ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کا موقع فراہم کیا ہے اس فیصلہ کی روشنی میں۔ آپسی بات چیت سے مسئلہ کا حل نکالنے کا ایک راستہ بھی دیا ہے اور اگر اس سب کے باوجود ہم تمام خطرات، تمام خدشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے سپریم کورٹ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو وہ راستہ بھی کہاں بند ہے۔ ممکن ہے یہ فیصلہ خالص سیاسی فیصلہ ہو، اگر ایسا ہے تو بھی تنقید کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ کتنا مثبت سیاسی ذہن تھا، جس نے ملک کو 6دسمبر992جیسے حالات سے بچالیااور آگے جانے کا راستہ دکھایا۔ اگر یہ فیصلہ کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے، تب بھی کھلے ذہن سے یہ سوچنا ہوگا کہ کیا واقعی آج ہماری سیاست اتنی سنجیدہ ہوگئی ہے کہ دو الگ الگ، بلکہ جو مخالف نظریات کے تحت ووٹ حاصل کرکے اقتدار کا ارادہ رکھتے ہوں، وہ بھی اس نازک مسئلہ پر ایک رائے ہوسکتے ہیں؟ ہاں، ہم اس فیصلہ سے خسارے میں ہیں، مگر جو مسجد کھو چکے ہیں، اس کی جگہ مسجد حاصل کرنے کا موقع تو ہے، مسجد کو شہید کرنے والوں کو سزا دلوانے کا موقع تو ہے، باقی مساجد کے تحفظ کی بات کرنے کا موقع تو ہے۔ کیا ہمیں ان تمام موضوعات پر نہیں سوچنا چاہئے؟ کیا ہمیں قطعاً ملک و قوم کے تحفظ کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئے؟ اگر ایسے ذہن بھی ہمارے درمیان میں ہےں، جن کے نزدیک ملک و قوم کے مفاد سے کہیں زیادہ اصولوں اور قانون کی بنیاد پر حاصل کیا جانے والا فیصلہ ہے تو ازراہِ کرم کچھ وقت کے لئے خود اپنے آپ کو جج تسلیم کریں۔ وہ تمام ثبوت جنہیں سامنے رکھ کر آپ فیصلہ پانا چاہتے ہیں، ان کی روشنی میں اپنی پسند کا ایک فیصلہ کاغذ پر نوٹ فرمالیں اور ذہن میں رکھیں کہ اس فیصلہ کا نفاذ بھی ممکن ہو اور ملک کا امن و امان بھی قائم رہے۔ اگر ہم فیصلہ دیتے وقت خود کو اس ذمہ داری سے برطرف مانتے ہیں تو ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ہم کس حد تک ملک و قوم کے مفادات کو اپنے ذہن میں رکھتے ہیں۔ اس وقت کے صلح کے حالات کو کیا صلح حدیبیہ کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے؟ کیا ہمارے رسول اللہ حضرت محمد مصطفیؐ نے اپنی زندگی میں تنازعات کو ختم کرنے کے لئے نرمی کا رُخ اختیار نہیں کیا؟ کیا ہمیں اسلام کی تاریخ میں ایسی مثالیں نہیں ملتیں؟ اس معاملہ میں زیادہ بہتر روشنی تو ہمارے علمائے کرام ہی ڈال سکتے ہیں، مگر اتنا تو ہم جنہیں اسلام کی تھوڑی بھی جانکاری ہے، اچھی طرح جانتے ہیں کہ امن واتحاد کے پیش نظر لئے گئے ہر فیصلہ کا نتیجہ مثبت ہی سامنے آیا ہے۔
eہاں، مگر اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر ایک بار قانون کو درکنار کرکے عقائد کی بنیاد پر فیصلے دینے کا چلن شروع ہوگیا تو پھر متھرا اور کاشی کی مساجد کا کیا ہوگا؟ اور آثارقدیمہ کی نگرانی میں جو مساجد ہیں، کل وہ تنازع کا شکار بنتی ہیں تو آج کے اس فیصلہ کا کتنا اثر ان سب پر ہوگا۔ لہٰذا اس بات کی گارنٹی اس وقت ضرور لے لینی چاہئے کہ اگر ملک کے اندر امن و اتحاد کے پیش نظر تمام ثبوتوں اور حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے پر غور ہو تو یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور آخری فیصلہ ہو، اس کے بعد اس نوعیت کا کوئی اور فیصلہ قابل قبول نہیں ہوگا۔
q
ایسا نہیں ہے کہ ہم نہیں جانتے تھے یہ قانون کی روشنی میں دیا گیا فیصلہ نہیں ہے، مگر وہ فیصلے بھی تو ہمارے ذہن میں ہیں، جو قانون کی روشنی میں دئے گئے ہیں، ان سے بھی ہمیں کتنا انصاف ملا؟ ہوسکتا ہے کہ عقیدہ کی بنیاد پر دیا گیا یہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہو، اس لئے کہ تمام عدالتوں کے چھوٹے بڑے کل مقدمات کی جانکاری کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ کیا اس سے پہلے بھی کہیں کسی عدالت نے عوام کے جذبات، احساسات یا مذہبی عقائد کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ دیا، مگر وہ موضوع بحث نہ بننے کی وجہ سے سب کے سامنے نہیں آیا۔ بہرحال ہمیں اس فیصلہ پر اعتراض کرنے کا پورا پورا حق ہے اور جو اسے ناانصافی یا عدالتی نظام کی توہین سے تعبیر کرتے ہیں تو اس وقت مجھے ان کی رائے پر کچھ نہیں کہنا، لیکن ایک شعر ضرور میں اپنے تمام قارئین کی نذر کردینا چاہتا ہوں۔ یہ شعر 30ستمبر010 کو الٰہ آباد ہائی کورٹ میں بابری مسجد کی ملکیت کا فیصلہ آنے سے بہت پہلے لکھا گیاہے۔یہ شعر بارہا ہمارے سیاستدانوں اور سماجی کارکنان کے ذریعہ کبھی پارلیمنٹ کے اندر تو کبھی پارلیمنٹ کے باہر ایسے فیصلوں کو ذہن میں رکھ کر اپنے جذبات کی عکاسی کرنے کے لئے پڑھا گیا، جنہیں انصاف پر مبنی تسلیم نہیں کیا گیا تھا، مگر وہ فیصلے آستھا یا جذبات کی بنیاد پر نہیں تھے، قانون کی روشنی میں کئے گئے فیصلے تھے۔ میں نے خود بارہا اس شعر کو اپنی تقاریر اور اپنی تحریروں میں شامل کیا ہے۔ گجرات میں ظہیرہ شیخ کی آنکھوں کے سامنے اس کے خاندان کے 14 افراد کو زندہ جلادیا گیا۔ اس کی بیکری جسے ’بیسٹ بیکری‘ کے نام سے جانا گیانذرآتش کردی گئی۔ گجرات کی عدالت نے قانون کے مطابق گواہوں اور ثبوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، جو فیصلہ سنایا اس میںتمام ملزم جسٹس مہیدا کی عدالت سے بری کردئے گئے۔ ظہیرہ شیخ کو ایک جھوٹا گواہ تسلیم کرکے اس کی گواہی کو ناقابل قبول مان لیا گیا۔ قانون کی روشنی میں کیا گیا یہ فیصلہ کیا انصاف تھا؟ ایسے ہی فیصلوں کو سامنے رکھ کر شاید لکھا ہوگا پروفیسر ملک زادہ منظور احمد صاحب نے:
وہی قاتل، وہی منصف، عدالت اس کی وہی شاہد
بہت سے فیصلوں میں طرفداری بھی ہوتی ہے
'آج ہمارے سامنے ایک ایسا فیصلہ ہے، جو عدالت کے ذریعہ قانون کی روشنی میں نہیں، عقیدہ کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ ہم اسے رد کرسکتے ہیں۔ ہم اسے نامنظور کرسکتے ہیں۔ ہم سپریم کورٹ میں جانے کا حق رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ سے انصاف کی امید کرسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر ہوگا، ایسی امید کرسکتے ہیں۔ باوجود اس سب کے وہ فیصلہ ہمارے حق میں اس سے بہتر ہوگا، وہ قابل نفاذ ہوگا اور دوسرے طبقہ کو منظور بھی ہوگا، کیا اس کی امید ہے۔ حالانکہ وہ فیصلہ جو بھی ہو، اسے قانون کا درجہ حاصل ہوگا، تاہم اس کے بعد بھی گنجائش بچتی ہے، اس لئے کہ پارلیمنٹ میں قانون بناکر اس فیصلہ میں بھی تبدیلی کی امیدوں کو زندہ رکھا جاسکتا ہے۔ یہ کام دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی کرسکتا ہے۔ اس وقت پارلیمنٹ میں اکثریت کس ذہن کے لوگوں کی ہوگی آج کیسے کہا جاسکتا ہے، مگر قیاس تو کیا ہی جاسکتا ہے۔ ان بیانات کو تو یاد رکھا ہی جاسکتا ہے، جو اکثر کہتے رہے کہ پارلیمنٹ میں قانون بناکر رام مندر کی تعمیر کا راستہ بنایا جائے گا۔ آج ہم ان تمام خدشات کو نظرانداز کرسکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری حدود کیا ہیں۔ کیا ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ دوسروں کے ارادے کیا ہیں؟ کتنے لوگ ہیں پارلیمنٹ میں جو آپ کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے ہیں؟ اپنی سیاست کے لئے زبانی جمع خرچ الگ بات ہے، جذباتی بیان بازی کرکے قوم کے جذبات کو مشتعل کرنا الگ بات ہے، مگر ان کے لئے حق اور انصاف کی جنگ لڑنا الگ بات ہے۔ ہم جانتے ہیں یہ بات اور آگے بڑھے گی تو بہت دور تک جائے گی، ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہم وہ تمام لوگ جو آج اس بحث ومباحثہ میں شامل ہےں، زندہ رہیں نہ رہیں، مگر اس مقدمہ کو زندہ رکھا جاسکتا ہے، بیشک ہمیں اختیار ہے کہ ہم انصاف حاصل کرنے کی جدوجہد میں آخری حد تک جائیں اور اس خدشہ کو بھی نظرانداز کردیں کہ عدالت کے ذریعہ دیا گیا فیصلہ درست ہونے کی صورت میں بھی اس کا نفاذ مشکل ہوگا، بلکہ ناممکن ہوگا، مگر یہ حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ حکومتیں اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہوسکتی ہیں، ہم ان کے خلاف آواز بلند کرسکتے ہیں۔ ان سرکاروں کو گرایا جاسکتا ہے، ہٹایا جاسکتا ہے یا سرکار کا مکھیا خود استعفیٰ دے کر غیرذمہ داری تسلیم کرتے ہوئے اپنے عہدہ سے ہٹ سکتا ہے۔ یہ سب کچھ، سب کچھ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ مدت اتنی زیادہ بھی نہیں گزری ہے کہ ہماری یادداشت ساتھ نہ دے۔ 6دسمبر992کو بابری مسجد شہید ہوئی، جس کے ذمہ دار مرکزی حکومت کے مکھیا پی وی نرسمہاراؤ اور براہِ راست اترپردیش سرکار کے اس وقت کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ تھے۔اترپردیش سرکار برخاست کی گئی، کلیان سنگھ پر مقدمہ بھی چلا، ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر چلا، قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے چلا، سزا بھی دی گئی۔ کیا تھی وہ سزا؟ یاد ہے آپ کویا بھول گئے؟ایک دن کی سزا…! صبح سے شام تک عدالت میں کھڑے رہنے کی سزا… قانون کی روشنی میں عدالت کے ذریعہ دئے گئے اس انصاف پر کتنی آوازیں بلند کی گئیں، کیا یہ انصاف تھا؟ جرم تھا بابری مسجد کی شہادت اور سزا چند گھنٹے۔ گجرات میں نریندر مودی کے وزیراعلیٰ رہتے ہوئے دو ہزار سے زائد مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔ سپریم کورٹ نے نریندر مودی کو ’نیرو‘ تک کہا، پھر کیا ہوا؟ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ وہ آج بھی اسی ریاست کے وزیراعلیٰ ہیں۔ گجرات فسادات کے لئے ریاستی سرکار سے تعلق رکھنے والی مایاکوڈنانی فسادات میں ملوث قرار دی گئیں۔ کیا جرم کے مطابق سزا مل سکی؟ یہ تمام نظیریں پیش کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ عدالتوں سے اعتماد جاتا رہے، ان کے ذریعہ کئے گئے انصاف کو انصاف نہ مانا جائے۔ غلطی کی گنجائش حقائق اور شواہد کو سامنے رکھ کر کئے گئے فیصلہ میں بھی ممکن ہے۔ اور یہ فیصلہ جس میں قانون سے زیادہ عقیدہ کو اہمیت دی گئی ہے، جس میں ہماری جیت ہونی چاہئے تھی، مگر ہم ہار گئے، لیکن ایسی ہار جس میں جیت کے احساس کی گنجائش باقی ہے۔ مسجد کی ازسرنوتعمیر کی گنجائش باقی ہے، پھر بھی ہم اس فیصلہ پر برہم ہیں قبول نہیں کرنا چاہتے، جبکہ آگے کا مرحلہ ہمارے لئے بہت زیادہ پرامید نہیں ہے۔ ذرا سوچیں، کیا وہ لوگ ایسا کوئی بھی فیصلہ قبول کرپائیں گے، جس میں ان کی مکمل ہار ہو، جیت کا قطعاً احساس نہ ہو۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر… اس پر غور کرنا ہوگا۔ ہم کرسکتے ہیں نامنظور اس فیصلہ کو، اس لئے کہ اس فیصلہ نے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے جستجو کے راستے بند نہیں کئے ہیں، لیکن ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس فیصلہ نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے راستے کھول دئے ہیں۔ ایسے تمام خدشات کو درکنار کردیا، جن کو سوچ سوچ کر 30ستمبر سے پہلے ہندوستانی عوام کی ایک بڑی تعداد پریشان تھی۔ رد کر دیجئے اس فیصلہ کو، مگر اس لحاظ سے یہ فیصلہ قابل ستائش تو ہے کہ اس نے ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کا موقع فراہم کیا ہے اس فیصلہ کی روشنی میں۔ آپسی بات چیت سے مسئلہ کا حل نکالنے کا ایک راستہ بھی دیا ہے اور اگر اس سب کے باوجود ہم تمام خطرات، تمام خدشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے سپریم کورٹ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو وہ راستہ بھی کہاں بند ہے۔ ممکن ہے یہ فیصلہ خالص سیاسی فیصلہ ہو، اگر ایسا ہے تو بھی تنقید کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ کتنا مثبت سیاسی ذہن تھا، جس نے ملک کو 6دسمبر992جیسے حالات سے بچالیااور آگے جانے کا راستہ دکھایا۔ اگر یہ فیصلہ کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے، تب بھی کھلے ذہن سے یہ سوچنا ہوگا کہ کیا واقعی آج ہماری سیاست اتنی سنجیدہ ہوگئی ہے کہ دو الگ الگ، بلکہ جو مخالف نظریات کے تحت ووٹ حاصل کرکے اقتدار کا ارادہ رکھتے ہوں، وہ بھی اس نازک مسئلہ پر ایک رائے ہوسکتے ہیں؟ ہاں، ہم اس فیصلہ سے خسارے میں ہیں، مگر جو مسجد کھو چکے ہیں، اس کی جگہ مسجد حاصل کرنے کا موقع تو ہے، مسجد کو شہید کرنے والوں کو سزا دلوانے کا موقع تو ہے، باقی مساجد کے تحفظ کی بات کرنے کا موقع تو ہے۔ کیا ہمیں ان تمام موضوعات پر نہیں سوچنا چاہئے؟ کیا ہمیں قطعاً ملک و قوم کے تحفظ کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئے؟ اگر ایسے ذہن بھی ہمارے درمیان میں ہےں، جن کے نزدیک ملک و قوم کے مفاد سے کہیں زیادہ اصولوں اور قانون کی بنیاد پر حاصل کیا جانے والا فیصلہ ہے تو ازراہِ کرم کچھ وقت کے لئے خود اپنے آپ کو جج تسلیم کریں۔ وہ تمام ثبوت جنہیں سامنے رکھ کر آپ فیصلہ پانا چاہتے ہیں، ان کی روشنی میں اپنی پسند کا ایک فیصلہ کاغذ پر نوٹ فرمالیں اور ذہن میں رکھیں کہ اس فیصلہ کا نفاذ بھی ممکن ہو اور ملک کا امن و امان بھی قائم رہے۔ اگر ہم فیصلہ دیتے وقت خود کو اس ذمہ داری سے برطرف مانتے ہیں تو ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ہم کس حد تک ملک و قوم کے مفادات کو اپنے ذہن میں رکھتے ہیں۔ اس وقت کے صلح کے حالات کو کیا صلح حدیبیہ کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے؟ کیا ہمارے رسول اللہ حضرت محمد مصطفیؐ نے اپنی زندگی میں تنازعات کو ختم کرنے کے لئے نرمی کا رُخ اختیار نہیں کیا؟ کیا ہمیں اسلام کی تاریخ میں ایسی مثالیں نہیں ملتیں؟ اس معاملہ میں زیادہ بہتر روشنی تو ہمارے علمائے کرام ہی ڈال سکتے ہیں، مگر اتنا تو ہم جنہیں اسلام کی تھوڑی بھی جانکاری ہے، اچھی طرح جانتے ہیں کہ امن واتحاد کے پیش نظر لئے گئے ہر فیصلہ کا نتیجہ مثبت ہی سامنے آیا ہے۔
eہاں، مگر اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر ایک بار قانون کو درکنار کرکے عقائد کی بنیاد پر فیصلے دینے کا چلن شروع ہوگیا تو پھر متھرا اور کاشی کی مساجد کا کیا ہوگا؟ اور آثارقدیمہ کی نگرانی میں جو مساجد ہیں، کل وہ تنازع کا شکار بنتی ہیں تو آج کے اس فیصلہ کا کتنا اثر ان سب پر ہوگا۔ لہٰذا اس بات کی گارنٹی اس وقت ضرور لے لینی چاہئے کہ اگر ملک کے اندر امن و اتحاد کے پیش نظر تمام ثبوتوں اور حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے پر غور ہو تو یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور آخری فیصلہ ہو، اس کے بعد اس نوعیت کا کوئی اور فیصلہ قابل قبول نہیں ہوگا۔
No comments:
Post a Comment